Sunday 10 April 2016

بغیر شدید مجبوری قرض لینے کی خرابیاں اور نقصانات

بغیر شدید مجبوری قرض لینے کی خرابیاں اور نقصانات:

مقروض(1)جھوٹ بولنے(2)اور وعدہ خلافی کرنے جیسی منافقانہ عادتوں میں خود کو ڈال دیتا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نماز میں دعا کرتے تو یہ بھی کہتے: اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ قرض سے اتنی پناہ مانگتے ہیں؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
[صحيح البخاري:2397]

(3)اگر قرض کی ادائیگی نہ کرنے کی بدنیتی ہوگی تو الله پاک اس کا مال ضایع کردیتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا۔
[صحيح البخاري:2387]


(4)اور قیامت کے دن الله کے پاس وہ چور کی حیثیت سے حاضر کیا جائے گا۔
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا۔
[سنن ابن ماجه:2040]

(5)فکر وغم میں مبتلا ہوگا،
(6)بےبس اور کمزور ہوجائے گا۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ ایک مکاتب غلام (یعنی جس نے غلامی سے آزادی کے لیے اپنے مالک سے کسی متعین رقم کی ادائیگی کا معاہدہ کیا ہو۔) نے ان کے پاس آ کر کہا کہ میں اپنی مکاتبت کی رقم ادا نہیں کر پا رہا ہوں، آپ ہماری کچھ مدد فرما دیجئیے تو انہوں نے کہا: کیا میں تم کو کچھ ایسے کلمے نہ سکھا دوں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سکھائے تھے؟ اگر تیرے پاس «صیر» پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو تو تیری جانب سے اللہ اسے ادا فرما دے گا، انہوں نے کہا: کہو:
«اللهم اکفني بحلالک عن حرامک وأغنني بفضلک عمن سواک»
اے اللہ! تو ہمیں حلال دے کر حرام سے کفایت کر دے، اور اپنے فضل (رزق، مال و دولت) سے نواز کر اپنے سوا کسی اور سے مانگنے سے بےنیاز کر دے۔
[سنن الترمذي:3563]

(7)بزدل اور کنجوس ہوجائے گا،
(8)قرضہ اور لوگوں کا قہر بڑھتا جائے گا۔ (یعنی تعلقات بگڑتے ہیں)۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن مسجد میں داخل ہوئے تو اچانک آپ کی نظر ایک انصاری پر پڑی جنہیں ابوامامہ ؓ کہا جاتا تھا، آپ ﷺ نے ان سے کہا: ابوامامہ! کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں نماز کے وقت کے علاوہ بھی مسجد میں بیٹھا دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! غموں اور قرضوں نے مجھے گھیر لیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھاؤں کہ جب تم انہیں کہو تو اللہ تم سے تمہارے غم غلط اور قرض ادا کر دے ، میں نے کہا: ضرور، اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: صبح و شام یہ کہا کرو:
اللهم إني أعوذ بک من الهم والحزن، وأعوذ بک من العجز والکسل، وأعوذ بک من الجبن والبخل، وأعوذ بک من غلبة الدين وقهر الرجال۔
اے اللہ! میں غم اور حزن سے تیری پناہ مانگتا ہوں، عاجزی و سستی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بزدلی اور کنجوسی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور قرض کے غلبہ اور لوگوں کے تسلط سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ابوامامہ ؓ کہتے ہیں: میں نے یہ پڑھنا شروع کیا تو اللہ نے میرا غم دور کردیا اور میرا قرض ادا کروا دیا۔
[سنن أبي داود:1555]

(9)بغیر مکمل قرض کی ادائیگی کے مرنے والے کا جنازہ پرہیزگار-نیکوکاروں کو پڑھانا شرعاً منع ہوجاتا ہے۔
حضرت سلمہ بن اکوع ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کے یہاں نماز پڑھنے کے لیے کسی کا جنازہ آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا۔ کیا اس میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں۔ آپ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھا دی۔ پھر ایک اور جنازہ آیا۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا، میت پر کسی کا قرض تھا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تھا۔ یہ سن کر آپ ﷺ نے فرمایا، کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی نماز پڑھ لو۔ ابوقتادہ ؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ان کا قرض میں ادا کر دوں گا۔ تب آپ ﷺ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
[صحيح البخاري:2295]
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مومن کی جان اس کے قرض کی وجہ سے اٹکی رہتی ہے جب تک کہ اس کی ادائیگی نہ ہوجائے۔
[سنن الترمذي:1078]

(10)بغیر مکمل قرض کی ادائیگی کے مرنے والا۔۔۔اگر شہید بھی ہو تو بھی وہ جنت میں داخل ہونے سے روک دیا جاتا ہے۔
محمد بن جحش ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، پھر ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھا، پھر فرمایا: سبحان اللہ! کتنی سختی نازل ہوئی ہے؟ ہم لوگ خاموش رہے اور ڈر گئے، جب دوسرا دن ہوا تو میں نے آپ سے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کیا سختی ہے جو نازل ہوئی؟ آپ نے فرمایا: قسم اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر ایک شخص اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے پھر زندہ کیا جائے، پھر قتل کیا جائے پھر زندہ کیا جائے، پھر قتل کیا جائے اور اس پر قرض ہو تو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا جب تک اس کا قرض ادا نہ ہوجائے۔
[سنن النسائي:4684(4688) المعجم الكبير للطبراني:556+559، صحيح الجامع الصغير:3600]

جب تک کہ مقروض کی نیکیوں سے بدلہ دیا جائے یا اسکے وارث۔عزیز۔قریب ادا کردیں۔
[تفسیر»سورۃ البقرۃ:283]



قرض کے چند ضروری احکام
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اور ہمارا معاشرہ جس نہج پہ چل رہا ہے کہ اسلامی اقدار کی وقعت دلوں سے رفتہ رفتہ کم ہو تی جارہی ہے اور آج ہمارے دلوں سے محاسبے کا خوف معدوم ہوتا جارہا ہے،آج اگر کسی کو اپنے آپ کودین دار بنانے کی فکر لاحق ہو تی ہے،تو وہ صرف نماز،روزہ وغیرہ عبادات کو ادا کر نے کی کوشش شروع کرتا ہے،اس سے کسی کومغالطہ نہ ہوکہ نماز،روزہ ہی صرف عبادات ہیں،بلکہ مطلب یہ ہے،کہ دین میں جس طرح یہ عبادات اہم ہیں،اسی طرح دِین صرف ان عبادات ہی کا نام نہیں،بلکہ شریعت مطہرہ میں اور بھی احکام ہیں، جن کی طرف یا تو ہماری نظر اورفکر جاتی ہی نہیں،یا اگر ہمیں ان چیزوں کا شعور ہو بھی جاتا ہے کہ یہ بھی دین کا حصہ ہیں، تب بھی ان کی بجا آوری میں پس وپیش سے کام لیتے ہیں،حالاں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا قرآن مجید میں مسلمانوں سے خطاب ہے:
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّة﴾․(سورة البقرة:208)

ترجمعہ:اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ ۔


اور معاملات کی درستگی کی اہمیت کا احساس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد سے بخوبی ہو جاتا ہے،چناں چہ صاحب ہدایہ رحمہ اللہ نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کے ایک معاملے کا ذکر فرمایا ہے،جو درست نہیں تھا،حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس معاملے کا علم ہواتو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
أبْلغِی زیْد ابْنَ أرقم اِنَّ اللہ أبْطَل حجَّہ وجِھَادَہ مَعَ رَسُولِ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وسلم اِنْ لَمْ یَتُبْ․
(الھدایہ ،کتاب البیوع،3/59)

یعنی حضرت زید بن ارقم کو اطلاع پہنچادو کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے حج اور جہاد ،جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں کیے ہیں، باطل کردے گا ،اگر انہوں نے (اس معاملہ سے )توبہ نہیں کی ۔

اتنے جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالٰی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے سترہ غزوات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی ۔
(الاِصابہ فی تمییز الصحابہ،1/560 )
ان کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد!!!تو ہم نے کبھی اس طرف توجہ کی،ہم تو ویسے بھی خالی ہاتھ ہیں،اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں پورے دین کو اپنانے کی توفیق عطافرمائے ۔
(آمین)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانی معاشرے میں کسی کو مال دار بنایا تو کسی کو غریب ،تا کہ یہ نظام کائنات چلتا رہے،چناں چہ اللہ تبارک وتعالٰی کا فرمان ہے ۔

﴿َنَحْنُ قَسَمْنَا بَیْْنَہُم مَّعِیْشَتَہُمْ فِیْ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُم بَعْضاً سُخْرِیّاً﴾․(سورة الزخرف:32)
ہم نے ان کے درمیان والی زندگی میں ان کی معیشت تقسیم کر رکھی ہے اور ہم نے بعض کو بعض پر درجات کے اعتبار سے فوقیت دی ہے،تا کہ ان میں سے ایک دوسرے سے کام لیتا رہے۔

چناں چہ دنیا میں رہتے ہوئے انسان کو ایسی ضرورت پیش آسکتی ہے ، جس کے اسباب انسان کے پاس اس وقت موجود نہ ہوں تو انسان اس وقتی ضرورت کو فی الفور پورا کرنے کے لیے دوسرے انسان کے تعاون کا محتاج ہوتا ہے، تا کہ وہ وقتی ضرورت کو پورا کرے اور بعد میں جب اللہ تعالٰی وسعت دے دے تو تعاون کرنے والے نے جتنا تعاون کیا ہے،اس کو واپس کردے۔اس کو قرض کہتے ہیں۔

ضرورت کے وقت قرض لینے میں حرج نہیں
اگر انسان کو واقعتا ضرورت ہے ،تو انسان قرض لے سکتا ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی قرض لیتے تھے،چناں چہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت ہے:أنَّ النَّبِیَّ صلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ اشْتَرَی طَعَاماًمِنَ یَّھُوْدِیٍّ اِلٰی أَجَلٍ وَرَھَنَہ دِرْعاً مِنْ حَدِیْدٍ۔(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاستقراض، باب من اشتری بالدین ولیس عندہ ثمنہ،رقم الحدیث:2386)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مدت تک کے لیے غلہ خریدا اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس رہن رکھ دی۔

بلا ضرورت قرض نہ لینے کی ترغیب
انسان کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ اس کو دوسرے سے قرض لینے کی نوبت نہ آئے ،اس لیے کہ قرض لینا شریعت میں کوئی مستحن کام نہیں، بلکہ انتہائی مجبوری کی حالت میں انسان قرض لے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرض سے پناہ مانگتے تھے۔

أنَّ رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ کَانَ یَدْعُوْ فِی الصَّلاَةِ، وَیَقُوْلُ:اللہُمَّ اِنِّی أعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأثَم وَالْمَغْرَم،فَقَال قَائِلٌ:ما أکثر مَا تَسْتَعِیْذُ یَا رَسُوْلَ اللہ مِنَ الْمَغْرَم؟ قال:اِنَّ الرَّجُل اِذَا غَرِمَ حَدَّثَ فَکَذَبَ، وَوَعَدَ فَأَخْلَفَ۔
(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاستقراض، باب من استعاذ من الدَین،رقم الحدیث:2397)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا مانگتے تو فرماتے :اے اللہ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔کسی نے عرض کیا، یا رسول اللہ!کیا بات ہے کہ آپ قرض سے اکثر پناہ مانگتے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آدمی جب قرض دار ہوتا ہے تو بات کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے ،وعدہ کرتا ہے اور اس کے خلاف کرتا ہے۔

اور سنن النسائی کی روایت ہے:
عن النَّبِیِّ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ قَالَ: أَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الْکُفْرِ وَالَدَّیْن․ فَقَالَ رَجُلٌ:تَعْدِلُ الدَّیْنَ بالکفُرْ؟فَقَالَ:نَعَم․
(سنن النسائی، کتاب الاستعاذہ،2/315،قدیمی)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں،کفر سے اور قرض سے ۔تو ایک آدمی نے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول ،آپ قرض کو کفر کے برابر فرمارہے ہیں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہاں ۔

اس حدیث کے حاشیے میں علامہ سندھی فرماتے ہیں کہ قرض کو کفر کے برابر کہنے کی وجہ یہ ہے،کہ مدیون(قرض لینے والا)وہ جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ خلافی کرتا ہے،جو منافق کی صفات ہیں اور انسان کا فقر قریب ہے کہ اس کو کفر تک پہنچا دے۔
(حاشیة السندی علی حواشی سنن النسائی ،کتاب الاستعاذہ،2/315،قدیمی)

چناں چہ ہر انسان کو کسی نہ کسی درجے میں اس بات کا تجربہ ہے کہ جب کوئی قرض لیتا ہے اور اس کی ادائیگی کا وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔اور مزید مہلت حاصل کرنے کے لیے قسما قسم جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔

قرض تعلقات کے لیے زہر قاتل:
قرض ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں اگر شرعی اصول کی پاس داری نہ ہو،تو یہ تعلقات کی خرابی کا سبب ہے۔

چناں چہ شیخ سعدی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک بزرگ کا واقعہ نقل فرمایا ہے کہ ایک مرید نے اپنے شیخ سے اس بات کی شکایت کی کہ اس کے پاس لوگ بکثرت آتے رہتے ہیں،جس کی وجہ سے ان کے اوقات میں بہت خلل پڑتا ہے۔تو اس بزرگ نے اس مرید کو نصیحت کی کہ جو لوگ تمہارے پاس آتے ہیں،ان میں جو غریب ہیں،ان کو قرض دواور جو مال دار آتے ہیں ان سے قرض مانگو ،ان شاء اللہ دوبارہ نہیں آئیں گے۔
(گلستان،ص:97)

آنکھوں دیکھا واقعہ:
ایک نہیں ،کئی واقعات ایسے دیکھے ہیں کہ آپس میں بہت بہترین تعلقات ہوتے ہیں،لیکن آپس میں قرض کا معاملہ کیا،تو صرف یہ نہیں کہ وہ تعلقات خراب ہوگئے،بلکہ بات دشمنی تک پہنچ گئی، اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ سے قرض سے پناہ مانگنی چاہیے اور اپنے حوائج کی تکمیل کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں درخواست کرنی چاہیے ۔تاہم انسان کو کبھی قرض لینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور اس میں اگر شرعی حدود کی پاس داری کی جائے ،تو اللہ تبارک وتعالیٰ معاملہ آسان فرماتے ہیں۔

قرض لیتے وقت ادا کرنے کی نیت ہو:
انسان جب قرض لے تو اس کو وقت پر ادا کرنے کی نیت ہو، دوسرے کا مال ہڑپ کرنے کی نیت نہ ہو،جب انسان کا ارادہ ہوکہ ان شاء اللہ وقت پر ادا کروں گا،تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے قرض کی ادائیگی میں مدد شامل حال ہوتی ہے، چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:
”عن أبِیْ ھُرَیْرَة رَضِی اللہ تعالیٰ عَنْہ عَنِ النَّبِیّ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیْدُ أَداَءَ ھَا أَدَّی اللہ عَنْہ، وَمَنْ أَخَذَ یُرِیْدُ اِتْلافَھَا أَتْلَفَہ اللّٰہ“․
(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاستقراض، باب من اخذ اموال الناس یرید اداء ھا أو اتلافھا، رقم الحدیث:2387)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے لوگوں کا مال اس کے ادا کرنے کی نیت سے لیاتو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی طرف سے ادا کردیتا ہے اور جو شخص اس کو ضائع کرنے کی نیت سے لے تو اللہ اس کو تباہ کردیتا ہے۔

قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے بچنا چاہیے
جب انسان کسی سے قرض لے اور دوسرے نے قرض دے دیاتو اس کو احسان سمجھنا چاہیے کہ اس نے میری ضرورت پوری کی اور وقت پر قرض کی ادائیگی کی کوشش ہواوراس کے طلب کرنے سے پہلے خود ہی اس کے پاس جا کر ادا کردے،نہ یہ کہ اس کو آج کل پر ٹالتا رہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ظلم فرمایا ہے،چناں چہ ارشاد ہے۔

مَطْلُ الغَنِیّ ظُلْم۔
(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب الاستقراض، باب مطل الغنی ظلم، رقم الحدیث:2400)

مظلوم کی بد دعا سے بچنا چاہیے
ہم معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ ایک آدمی نے قرض لیااور قرض لینے کے بعد ادائیگی پر قدرت کے باوجود قرض ادا نہیں کرتااور بار بار چکر لگواتا رہتا ہے،اس بیچارے نے احسان کیا،لیکن اسے احسان کا بدلہ یہ ملاکہ وہ اپنی چیز کو حاصل کرنے میں سر گرداں ہے،اس طرز عمل سے بچنا چاہیے، اس لیے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اس پریشانی میں بد دعا دے دے ،جس کی قبولیت میں شک نہیں۔

چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّھَا لَیْسَ بَیْنَھَا و بَیْنَ اللہ حِجَاب․
(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب المظالم، باب الاتقاء والحذر من دعوة المظلوم، رقم الحدیث:2448)
مظلوم کی بد دعا سے ڈرو،اس لیے کہ اس کی بد دعا اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔



دنیا کے حق کے بدلے آخرت میں نیکیاں لی جائیں گی
اگر کوئی قرض لے کر ہڑپ کرجاتا ہے اور قرض دینے والا اس سے قرض کی وصول یابی کی قدرت نہیں رکھتاتو آخرت میں نیکیوں کی صورت میں اس سے وصول کرے گا،چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

مَنْ کَانَتْ لَہ مَظْلِمَة لِأَخِیْہِ مِنْ عِرْضِہِ أَوْ شَیٴ فَلْیَتَحلَّلْہ مَنْہ الْیَوْم قَبْلَ أنْ لَا یَکُوْن دِیْنَارٌ وَلَا دِرْھَمٌ، اِنْ کَانَ لَہ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْہ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِہ، وَاِنْ لَمْ یَکُنْ لَّہ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَیِّاٰتِ صَاحِبِہ، فَحُمِلَ عَلَیْہ․

(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب المظالم،باب من کانت لہ مظلمة عند الرجل فحللھا لہ، رقم الحدیث:2449)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس شخص نے کسی کی عزت یا کسی اور چیز پر ظلم کیا ہو تو اسے آج ہی معاف کرالے،اس سے پہلے کہ وہ دن آئے، جب کہ نہ دینار ہوں گے اور نہ درہم،اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوں گی تو مظلوم کی برائیاں لے کر اس پر ڈالی جائیں گی۔

مقروض شہید بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا جب تک قرض ادا نہ ہو
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمدکی جان ہے ۔اگر ایک آدمی اللہ کے راستے میں شہید ہو،پھر زندہ ہو،پھر شہید ہو،پھر زندہ ہواور اس پر قرض ہو ،تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ اس کا قرض ادا کر لیا جائے۔
(الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل،کتاب القرض، باب التشدید علی المدین، رقم:297،15/90)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقروض کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار
جب کوئی میت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جنازہ کے لیے لائی جاتی اور اس پر قرض ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے ؟کہ اس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ مال وغیرہ چھوڑا ہے؟تو اگر عرض کیا جاتا کہ جی ہاں!مال چھوڑاہے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھادیتے،وگرنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرماتے:تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھو۔
(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب النفقات، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم :من ترک کلاًّ أوضَیَاعاً فَاِلَیَّ، رقم الحدیث:5371)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مدیون (جس پر قرض ہو)کی نماز جنازہ پڑھنے سے رک جانا،اس کی محدثین حضرات نے چند وجوہات بیان فرمائی ہیں:
1... ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدیون پر نماز جنازہ اس وجہ سے نہیں پڑھتے تھے، تاکہ لوگ بلاوجہ قرض نہ لیں۔
2... ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ ٹال مٹول پر تنبیہ کرتے ہوئے،یعنی تاکہ کوئی شخص قرض ادا کرنے پر قدرت کے باوجود ٹال مٹول نہ کرے۔
3... ایک وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وجہ سے نماز جنازہ پڑھنے سے رک جاتے ،تاکہ میت کے ذمے جو مظلوم کا حق ہے،اس کی وجہ سے دعاموقوف نہ کردی جائے۔
(عمدةالقاری،کتاب النفقات،21/38،دارالکتب)

لیکن جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فتوحات کے دروازے کھول دیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں مسلمانوں سے خود ان کی جان سے بھی قریب ہوں،اب اگر کوئی مومن مرجائے اور قرضہ چھوڑجائے،تو اس کا قرض میرے ذمہ ہے۔
(الجامع الصحیح للبخاری ،کتاب النفقات ،رقم الحدیث:5317)

میت کے ترکہ میں سب سے پہلے قرض ادا کیا جائے
اگر کوئی فوت ہوگیااور اس کے ذمہ لوگوں کے قرض ہیں تو اس میت نے جو مال چھوڑا ہے ،اس میں سے اس کے کفن دفن کے انتظام کے بعد سب سے پہلے لوگوں کے قرض ادا کیے جائیں گے۔
(الدر مع الرد،کتاب الفرائض،5/536، رشیدیہ)

تم میں بہتر وہ ہے،جو اچھی طرح قرض ادا کرے
جب انسان قرض لے تو اس کو اچھی طرح سے ادا کرے ،یہ نہیں کہ اس کو خوب تنگ کرکے قرض ادا کرے ،بلکہ بہتر یہ ہے کہ وقت پر خود جا کر قرض ادا کرے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے طریقے سے قرض ادا کرنے والوں کی تعریف فرمائی ، چناں چہ ارشاد ہے:اِنَّ خِیَارَکُمْ أَحْسَنُکُمْ قَضَاءً․
(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الاستقراض، باب حسن القضاء، رقم الحدیث:2393)
تم میں بہتر وہ شخص ہے،جو قرض اچھی طرح ادا کرے۔

قرض ادا کرتے وقت تھوڑا زیادہ دے دے
جب انسان قرض لے تو اس وقت تو زیادتی کی شرط صحیح نہیں اور یہ سود ہے،مثلاً قرض دینے والا دیتے وقت یہ شرط لگائے کہ واپسی اس سے زیادہ دوگے،تو یہ جائز نہیں،لیکن اگر یہ شرط نہیں تھی اور مدیون قرض واپس کرتے وقت اپنی طرف سے کچھ زیادہ دے دے،تو یہ جائز ہے۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔

عَنْ جَابِرٍرَضَی اللہ عَنْہ،کَانَ لِیْ عَلَی النَّبِیّ صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ دَیْنٌ، فَقَضَالِیْ وَزَادَنِیْ․
(الجامع الصحیح للبخاری، باب الافلاس والانظار، الفصل الثالث،ص:253،قدیمی)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ قرض تھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا قرض ادا کیااور زیادہ دیا۔بلکہ زیادہ دینا مستحن ہے۔
(مرقاةالمفاتیح،باب الافلاس والانظار،6/117،رشیدیہ)

قرض ادا کرتے وقت شکریہ بھی ادا کرنا چاہیے
جب آدمی قرض ادا کرے توساتھ ساتھ شکریہ بھی ادا کرے،ایک غزوہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی سے قرض لیااور واپسی پر اس کو ادا کر لیااوراس سے فرمایا:”بَارَکَ اللہ فَیْ أَھْلِکَ وَمَالِکَ“․آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قرض کا بدلہ پورا ادا کرنااور تعریف شکریہ ہے۔(سنن ابن ماجہ،کتاب الصدقات ،باب حسن القضاء،رقم الحدیث:2424)

قرض اور غم دورکرنے کی دعا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو نماز کے وقت کے علاوہ میں مسجد میں بیٹھے ہوئے دیکھا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھاتو حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیاکہ غموں اور قرضے سے پریشان ہوکر بیٹھاہوں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تجھے ایسی دعا نہ سکھلاوٴں ،جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے غم دور کردے اور قرضہ ادا کردے؟حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا،کیوں نہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دعا پڑھو۔
أللّٰھُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالْحُزْن، وَأَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعجْزِ وِالْکسْل، وَأَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْن وَالْبُخْل، وَأَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّیْنِ وَقَھْرِ الرِّجَال“․

ایسی دعا جس کی برکت سے پہاڑ کے بقدر قرض بھی اتر جائے
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیااور اپنی پریشانی کا ذکر کر کے تعاون کی درخواست کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایاکہ کیا میں آپ کو ایسے کلمات نہ سکھاوٴں ،جومجھے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلائے ہیں،اگر تمہارے ذمے ایک بڑے پہاڑ کے بقدر بھی قرض ہو،تواللہ تعالیٰ ادافرمائیں گے۔تو کہہ:”أللّٰھُمَّ أَکفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکْ، وَأَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاک“․
(مشکوٰةالمصابیح،ص:215،قدیمی)

اگر ضرورت مند قرض طلب کرے تو دے دینا چاہیے
دوسری جانب اگر کوئی ضرورت مند ہے اور وہ قرض طلب کر رہا ہے تو شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ اس کی ضرورت پوری کردی جائے۔اس لیے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک مسلمان اگر کمزور ہوتو دوسرا مسلمان اس کو قوت پہنچاتا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”الْمُوٴْ مِن لِلْمُوٴْمَنْ کَالْبُنْیانِ، یَشُدُّ بَعْضُہ بَعْضاً، وَشَبَّکَ بَیْن أَصَابِعِہ“․
(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب المظالم، باب نصر المظلوم، رقم الحدیث:2446)

ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ ایک دوسرے کو تقویت دیتا ہے اور اپنی انگلیوں کا ملا کربتایا۔

جو مسلمان کی حاجت روائی کرتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت پوری کرتاہے
أَنِّ رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہ وَسَلَّمَ قَالَ: الْمُسْلِمُ أَخُوْ الْمُسْلِمْ، لَا یَظْلِمُہ وَلَا یُسْلِمُہ، وَمَنْ کَانَ فِیْ حَاجَةِ أَخِیْہِ کَانَ اللّٰہُ فِیْ حَاجَتِہ،وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلَمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللّٰہُ عَنْہ کُرْبَةً مِنْ کُرُبَاتِ یَوْمِ الْقِیٰمَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَہ اللّٰہ یَوْمَ الْقِیٰمَة۔
(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب المظالم، باب لا یظلم المسلم المسلم، ولا یُسلمہ،رقم الحدیث:2442)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،نہ تو اس پر ظلم کرے اور نہ اس کو ظالم کے حوالے کرے اورجو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی کی فکر میں ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی کرتا ہے اور جوشخص مسلمان سے کسی مصیبت کودور کرے،اللہ تعالیٰ قیامت کی مصیبتیں اس سے دور کرے گااور جس نے کسی مسلمان کی عیب پوشی کی تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی عیب پوشی کرے گا۔

قرض دے کر مہلت دینے سے ہر دن صدقہ کا ثواب ملتا ہے
قرض دینا بھی ایک طرح کا صدقہ ہے،اگر چہ بعد میں وصول ہوجائے اور مہلت بھی صدقہ کرنے میں شامل ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جس نے کسی تنگ دست کو مہلت دے دی تو اس کو روزانہ اس قدر صدقہ دینے کا ثواب ہوگا، جتناقرض اس نے کسی کو دیا ہے، یہ ثواب ادائیگی دین کا مقررہ وقت آنے سے پہلے ملتا ہے،پھر مقررہ وقت آنے کے بعد مہلت دے،تو روزانہ اتنے مال کا دوگنا صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے جتنا اس نے قرض دیا ہے۔
(الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد، کتاب القرض، باب فضل من انظر معسرا،15/97)

قرض دے کر معاف کرنے ،یا مہلت دینے والا عرش کے سایہ میں
قَالَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہ وَسَلَّمَ: مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِراً أَوْ وَضَعَ لَہ، أَظَلَّہ اللہ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِہ یَوْمَ لَا ظِلَّ اِلَّا ظِلَُہ۔
(الجامع الصحیح للبخاری،کتاب البیوع، باب ماجاء فی اِنظار المعسر والرفق بہ، رقم الحدیث:1306)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس نے تنگ دست کو مہلت دی،یا معاف کردیا،تواللہ تبارک وتعالیٰ اس کو قیامت کے دن اپنے عرش کے سایہ میں رکھیں گے،جس دن اس کے سائے کے علاوہ اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔

بنی اسرائیل کے ایک گناہ گار کی مغفرت کا واقعہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے ایک گناہ گار کا واقعہ بیان فرمایا کہ جس کے پاس نیکیاں نہیں تھی، جب وہ فوت ہو گیا تو اس سے پوچھا گیا کہ تیرے پاس کوئی نیکی ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں لوگوں سے خریدوفروخت کا معاملہ کرتا تھا، تو مال داروں کو مہلت دیتا تھا اور تنگ دستوں کو معاف کر دیتا تھا، چناں چہ ( اس عمل کی وجہ سے) وہ بخش دیا گیا۔

قرض دینے کا ثواب صدقہ سے زیادہ
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا ، صدقہ کا ثواب دس گنا اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا۔ تو میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ اے جبرئیل !کیا وجہ ہے کہ قرض کا ثواب صدقہ سے زیادہ ہے ؟ تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا اس لیے کہ مانگنے والا سوال کرتا ہے حالاں کہ اس کے پاس کچھ ہوتا ہے اور قرض مانگنے والا ضرورت کی وجہ سے ہی قرض مانگتا ہے۔
( سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب القرض، رقم الحدیث:2431)

تین آدمیوں کا قرض الله تعالیٰ ادا فرمائیں گے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے تین آدمیوں کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے قرض لیا اور ادا نہیں کر سکے موت سے پہلے، تو قیامت کے دن الله تعالیٰ ان کی طرف سے قرض ادا فرمائیں گے۔
ایک وہ آدمی جو جہاد میں جانے کے لیے اپنے پاس کچھ نہیں پاتا اور وہ قرض لے کر الله کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا ہے۔
وہ آدمی جس کے پاس ایک مسلمان فوت ہو گیا او راس کے پاس مال نہیں کہ اس کا کفن دفن کردے اور وہ قرض لے کر اس کا کفن دفن کر تا ہے۔
تیسرا وہ آدمی جس کو شادی کی شدید خواہش ہو اور وہ قرض لے کر نکاح کر لیتا ہے، اس سے نکاح کے لیے جو ضروری اخراجات مہر وغیرہ ہوتے ہیں ان کے لیے قرض لینا مراد ہے، آج کل جو شادی میں فضول خرچیوں کے لیے قرض لیے جاتے ہیں، وہ مراد نہیں۔
( سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب ثلاث من ادّان فیھن قضی الله عنہ، رقم الحدیث:2435)

ٹال مٹول کرنے والے کو جیل میں ڈال سکتے ہیں
اگر کوئی شخص بلاوجہ ٹال مٹول کرے، تو شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اس کو جیل میں ڈال دیا جائے۔
( سنن ابن ماجہ، ابواب الصدقات، باب الحبس فی الدین، رقم الحدیث:2427)

قرض دیتے وقت کے احکام
جب آپ نے کسی کو قرض دیا ہے تو قرض دینے کے وقت کسی کو اس پر گواہ بنانا چاہیے او راگر کسی کو گواہ نہیں بنایا اور بعد میں وہ انکاری ہو گیا تو عندالله تو وہ ماخوذ ہو گا، لیکن دنیا میں اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو سکتی۔

اس لیے الله تبارک وتعالیٰ نے اس کے احکام صاف بیان فرما دیے، چناں چہ ارشاد ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا تَدَایَنتُم بِدَیْْنٍ إِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوہُ﴾․ (سورہ البقرہ:282)
ترجمہ:اسے ایمان والو! جب تم آپس میں معاملہ کرو ادھار کا کسی وقت مقررہ تک ، تو اس کو لکھ لیا کرو۔

﴿وَاسْتَشْہِدُواْ شَہِیْدَیْْنِ من رِّجَالِکُم﴾․(سورة البقرہ:282)
ترجمہ:اور گواہ کرو دو گواہ اپنے مردوں میں سے۔

اس آیت میں ایک اصول تو یہ بتلا دیا کہ ادھار کے معاملات کی دستاویز لکھنی چاہیے، تاکہ بھول چوک، یا انکار کے وقت کام آئے۔
دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ اس تحریری معاملے پر گواہ بھی بنا لیے جائیں، تاکہ اگر کسی وقت باہمی نزاع پیش آجائے تو عدالت میں ان گواہوں کی گواہی سے فیصلہ ہو سکے، اس لیے کہ صرف تحریر حجت شرعی نہیں ہے۔

کن چیزوں کو بطور قرض لے سکتے ہیں؟
کسی نے کوئی بھی چیز ادھار خریدی تو اب اس کے ذمہ جو قرض ہے ، فقہاء کی اصطلاح میں اس کو دین کہا جاتا ہے، البتہ قرض کہتے ہیں کہ کوئی ایسی چیز کسی سے قرض لینا، جس چیز کی مثل بازار میں ملتی ہو اور آپس میں قیمت میں بہت زیادہ فرق نہ ہو مثلاً100 روپے قرض لینا یا ایک کلو چینی قرض لینا تو اس جیسی چینی بازار میں موجود ہے، اس کو واپس کر سکتا ہے ،یا مثلاً دکان دار کے پاس فی الحال کوئی چیز نہیں ہوتی اور وہ دوسرے دکان دار سے وہ چیز قرض لے کر گاہک کو دے دیتا ہے تو اگر وہ چیز ایسی ہے کہ اس کی مثل ملتی ہے تو اس طرح کا قرض صحیح ہے، اگر ایسا نہیں ، مثلاً بکری مرغی قرض لینا، یہ صحیح نہیں، اس لیے کہ ہر بکری اور مرغی قیمت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں۔
(الدر مع الرد، کتاب البیوع، فصل فی القرض،191/4، رشیدیہ)

بینک سے سودی قرض لینے کا حکم
جس طرح سود لینا حرام ہے ، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے۔ حضرت جابر رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کے معاملے کو لکھنے والے او راس معاملے کے دو گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا یہ سب (گناہ میں) برابر کے شریک ہیں۔
(مشکوٰة المصابیح، باب الربوٰا الفصل الأول، ص243، قدیمی)
بنا برین کسی بھی بینک سے سودی قرضہ لیناناجائز وحرام ہے۔

ادھار کے خرید وفروخت میں مدت کی تعیین
اگر کوئی چیز ادھار خرید رہا ہے یا بیچ رہا ہے تو ایسی صورت میں مدت متعین کرنا ضروری ہے ، مثلاً یہ چیز میں ادھار خرید رہا ہوں اور پیسے ایک مہینہ بعد فلاں تاریخ کو دوں گا۔
( شرح المجلہ، سلیم رستم باز، رقم المادہ،245، ص:124، حنفیہ کوئٹہ)

البتہ اگر کسی سے پیسے وغیرہ قرض لے رہا ہے تو اس میں مدت متعین کرنا ضروری نہیں، بلکہ قرض دینے والا جب چاہے مطالبہ کر سکتا ہے۔
(الدرمع الرد،190/4)

ادھار میں چیز کی قیمت زیادہ لگانا
اگر کوئی ایک چیز کو نقد مثلاً100 روپے میں بیچتا ہے اور اگر کوئی ادھار لے تو 110 روپے میں بیچتا ہے اس طرح بیچنا صحیح ہے۔ بشرطیکہ ادائیگی کے مقررہ وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس پر جرمانہ نہ لگایا جائے۔
(المبسوط للسرخی، باب البیوع الفاسدہ،9/13 غفاریہ کوئٹہ)

لیکن ادھار کی وجہ سے زیادہ قیمت بڑھانا بے مروتی ہے، خاص کر جب خریدار حاجت مند ہو مجبوراً ادھار لیتا ہو تو وہ مستحق رحم وشفقت ہے، اس کو مجبور اور بے بس پاتے ہوئے ، زیادہ قیمت لینا خلاف مروت ہے ۔
( فتاوی محمودیہ ، کتاب البیوع152/16)

کسی انسان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا مناسب نہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”لایرحم الله من لا یرحم الناس“․
(مشکوٰة المصابیح، کتاب الأدب، باب الشفقة والرحمة علی الخلق، الفصل الأول، ص:421 قدیمی)
ترجمہ:الله تعالیٰ اس پر رحم نہیں فرماتے، جو لوگوں پر رحم نہ کرے۔

گھریلو اشیا قرض لینا
عام طور پر گھروں میں روٹی بطور قرض لیتے ہیں تو امام محمد رحمہ الله تعالیٰ کے نزدیک وزن اور عدد دونوں اعتبار سے درست اور اسی پر فتوی ہے۔
( الدرمع الرد،کتاب البیوع، فصل فی القرض،192/4 رشیدیہ)

آٹا بھی قرض لینا جائز ہے، لیکن وزن کرکے، اندازے سے جائز نہیں۔
( الدر مع الرد،195/4)

اگر کوئی چیز قرض لی ، مثلاً گندم وغیرہ اور اس وقت گندم سستی تھی ،بعد میں مہنگی ہو گئی تو قیمت کا اعتبار نہ ہو گا، بلکہ اس نے جتنی گندم قرض لی ہے اتنی واپس کرے ۔
( الدر مع الرد ،192/4)

اکثرکاشت کے وقت بیج ادھار دیتے ہیں اور کھیت کاٹنے کے بعد جتنا دیا تھا اس سے زیادہ لیتے ہیں ، یہ سود ہے۔
( فتاوی محمودیہ، کتاب البیوع،345/16)

قرض کی ادائیگی کا ایمان افروز واقعہ
امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالیٰ نے اپنی مسند میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا بیان کردہ ایک واقعہ نقل فرمایا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک آدمی نے دوسرے سے ایک ہزار دینار قرض طلب کیا تو دوسرے آدمی نے اس سے کہا کہ کوئی گواہ لاؤ، تاکہ اس پر گواہ بناؤں۔ تو اس آدمی نے کہا کہ الله تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے۔ تو دوسرے نے کہا کہ چلو کفیل لاؤ۔ تو اس نے کہا کہ الله تعالیٰ کافی ہے بطور کفیل تو اس دوسرے آدمی نے کہا کہ تونے سچ کہا اور ایک ہزار دینار اس کو دے دیے ، چناں چہ وہ قرض لے کر سمندری سفر پر چلا گیا اور اس نے اپنی ضرورت پوری کی پھر واپسی کے لیے کشتی کو تلاش کرنا شروع کیا، تاکہ واپس آکر قرض اتار دے، اس لیے کہ جس دن قرض واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا ، وہ آگیا تھا، قرض دینے والے کے پاس جانے کے لیے اس نے کشتی تلاش کی، لیکن اس کو کشتی نہیں ملی، لہٰذا اس نے ایک موٹی لکڑی لی اور اس کو اندر سے کھوکھلا کرکے اس میں ایک ہزار دینار رکھ کر اس کو بند کر دیا اور ایک خط بھی لکھ کر اس میں رکھ دیا، جو دائن ( قرض دینے والے کے نام لکھا تھا ) اور اس لکڑی کو لے کر سمندر کے پاس آیا ، پھر کہا کہ اے الله آپ جانتے ہیں کہ میں نے فلاں سے ایک ہزار دینار قرض طلب کیا تھا تو اس نے مجھ سے کفیل مانگا تھا اور میں نے کہا تھا کہ الله بطورکفیل کافی ہے تو وہ اس پر راضی ہو گیا، پھرمجھ سے گواہ مانگا تو میں نے کہاتھا کہ الله تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے۔ تو وہ اس پر بھی راضی ہو گیا اور اب میں نے بہت کوشش کی کشتی ڈھونڈنے کی، تاکہ میں اس کا قرض ادا کردوں، لیکن میں نے کشتی نہیں پائی ، لہٰذا میں آپ کے سپرد کرتا ہوں اور اس کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ لکڑی سمندر میں چلی گئی، پھر وہ وہاں سے لوٹا اور کشتی کی تلاش میں رہا جو اس شہر کی طرف جائے۔ دوسری جانب وہ قرض دینے والا سمندر کی طرف نکلا، یہ دیکھنے کے لیے کہ شاید آج اس کا مقروض قرض لے کر آجائے ( اس نے مقروض کو نہیں پایا)، لیکن ایک لکڑی دیکھی تو سوچاکہ چلو جلانے کے کام آجائے گی، جب اس لکڑی کو توڑا تو اس میں سے ایک ہزار دینار اور خط نکلا ،پھر وہ آدمی جس نے اس سے قرض لیا تھا، وہ قرض لے کر آگیا اور معذرت کرنے لگا کہ اس دن میں نے بہت کشتی تلاش کی، لیکن مجھے کشتی نہیں ملی تو اس دوسرے آدمی نے پوچھا کہ کیا تونے میری طرف کوئی چیز بھیجی ہے؟ تو اس آدمی نے کہا کہ میں آپ کو بتا نہیں رہا کہ میں نے کشتی نہیں پائی کہ میں آپ تک قرض پہنچا دیتا تو دوسرے آدمی نے کہا کہ الله تبارک وتعالیٰ نے تیری طرف سے ادا کر دیا جو تونے لکڑی میں بھیجا تھا لہٰذا مجھے اپنا قرض مل گیا اور یہ ہزار دینار تو واپس لے جا۔
( فتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد ، کتاب القرض، باب ماجاء فی حسن القضاء، رقم الحدیث، 84/15,280، دارالحدیث)

امیری اور فقیری کے اسباب
غریبی آتی ہے سات چیزوں کے کرنے سے:
1.. جلدی جلدی نماز پڑھنے سے۔ 2.. کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے۔ 3..  پیشاب کرنے کی جگہ وضو کرنے سے۔ 4..  کھڑے ہو کر پانی پینے سے۔ 5..  منھ سے چراغ بجھانے سے۔ 6..  دانت سے ناخن کاٹنے سے۔ 7..  دامن یا آستین سے منھ صاف کرنے سے ۔

خوش حالی آتی ہے سات چیزوں کے کرنے سے
1.. قرآن پاک کی تلاوت کرنے سے۔ 2..  پانچوں وقت کی نماز پڑھنے سے  ۔ 3.. خدا کا شکر ادا کرنے سے۔ 4..  غریبوں اور مجبوروں کی مدد کرنے سے. 5..  گناہوں سے معافی مانگنے سے۔ 6..  ماں باپ اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے۔ 7..  صبح کے وقت سورہ یسٰین اور شام کے وقت سورہ واقعہ پڑھنے سے۔
( بکھرے موتی:114,113/1)

قرض کے اعتبار سے انسانوں کی چار قسمیں
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کچھ لوگ قرض ادا کرنے میں اچھے ہوتے ہیں ، لیکن قرض وصول کرنے میں سختی کرتے ہیں ، یہ لوگ نہ قابل تعریف ہیں، نہ قابل مذمت۔ کچھ لوگ قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول کرتے ہیں ، لیکن قرض وصول کرنے میں نرمی برتتے ہیں، یہ بھی نہ قابل تعریف ہیں، نہ قابل مذمت۔ تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جو قرض ادا کرنے میں بھی اچھے ہیں اور قرض وصول کرنے میں بھی اچھے ہیں۔ اور تم میں بدترین وہ لوگ ہیں ، جو نہ قرض ادا کرنے میں اچھے ہیں، نہ وصول کرنے میں اچھے ہیں۔
( مشکوٰة المصابیح، ص:438)

قرض وصول کرنے کی تدبیر
اگر کسی کو قرض دیا اور وہ واپس نہیں کر رہا ہے تو شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جس کو قرض دیا ہے اس کی کوئی بھی چیز قرض کی مالیت کے بقدر اس کی اجازت کے بغیر اس سے لے سکتا ہے ۔
(الدر مع الرد ، کتاب الحجر،105/5 رشیدیہ)

ادا نہ کرنے کی نیت سے قرض لے کر کھانا حرام ہے 
اگر کوئی اس نیت سے قرض لیتا ہے کہ ادا نہیں کروں گا تو وہ ایسا ہے جیسے حرام کھارہا ہو۔
(الفتاوی العالم گیریہ، کتاب الکراہیة، الباب السابع والعشرون،366/5، رشیدیہ)

اگر قرض واپس کرنے کی کوئی صورت نہ ہو 
اگر کسی نے کئی لوگوں سے قرض لیا یا کئی لوگوں کا حق کھایا، جن کو اب جانتا نہیں تو جس طرح ممکن ہو ان لوگوں کو تلاش کرے اور ان کو ان کا حق واپس کرے ، وہ نہ ہوں تو ان کے والدین یا اولاد کو دے دے، اگر ان کو تلاش کرنا ممکن نہ ہو توایسی صورت میں جتنی مقدار میں قرض لیا ہے یا حقوق کھائے ہیں اتنی مقدار صدقہ کرے۔ اور یہ نیت کرے کہ اس کا ثواب اصل مالک کو پہنچ جائے۔
( الفتاوی العالم گیریہ، کتاب الکراہیة، الباب السابع والعشرون 367/5، رشیدیہ)

قرض سے متعلق زکوٰة کے چند ضروری احکام
مقروض کے ذمے زکوٰة کا حکم:
اگر کسی شخص کے ذمے اتنا قرض ہے کہ اس قرض کے ادا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب کے بقدر ( ساڑھے سات تولے سونا، یا ساڑھے باون تولے چاندی، یا اتنی مالیت کی رقم ، سامان تجات وغیرہ، یا اگر کچھ رقم اور سونا ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی بنتی ہو ) اگر اتنی مقدار میں مال نہیں بچتا ہے تو ایسے شخص کے ذمے زکوٰة واجب نہیں۔
( فتح القدیر، کتاب الزکوٰة160/2، مصطفی البابی)

مقروض کو زکوٰة دینا
اگر کوئی آدمی اتنا مقروض ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب کے بقدر نہیں بچتا ہے تو ایسے شخص کو زکوٰة دینا جائز ہے ۔
(الدر مع الرد ، باب المصرف343/2 سعید)

قرض دی ہوئی رقم پر زکوٰة کا حکم
اگر کسی کو قرض دیا یا کوئی چیز ادھار بیچی تو قرض دینے والے شخص پر اس رقم کی زکوٰة واجب ہو گی، اگر وہ صاحب نصاب ہے ،لیکن زکوٰة کی ادائیگی میں اسے اختیار ہے کہ قرض کی وصولی سے پہلے زکوٰة ادا کرے یا بعد میں ، بعد میں ادا کرنے کی صورت میں جتنے سال میں وصول ہو، ہر سال کی زکوٰة دے گا ۔
( الدر مع الرد، باب زکوٰة المال305/2 سعید)

عورت کے مہر میں زکوٰة کا حکم
اگر خاوند کے ذمے مہر کا دین ( قرض) واجب ہے، اگر وہ معجل ہے یعنی جس وقت بھی زوجہ طلب کرے اس کا ادا کرنا ضروری ہے یا مؤجل ہے، لیکن خاوند خود ہی اس کو ادا کرنے کی فکر او رکوشش میں لگا ہوا ہے او رجمع کر رہا ہے، تاکہ ادا کرے تو ایسا دین ( قرض) مانع عن وجوب زکوٰة ہے، ( یعنی اس مال پر زکوٰة واجب نہ ہو گی ) اس مقدار دَین ( قرض) کے علاوہ اس کے پاس بقدر نصاب مال ہو گا تو اس پر زکوٰة واجب ہو گی، ورنہ نہیں ۔

اگر خاوند ادا کرنے کی فکر او رکوشش میں لگا ہوا نہیں ہے، بلکہ اس کو اطمینان ہے کہ ، ادا نہیں کرنا ہے ، تو ایسا دین ( قرض) مانع عن وجوب زکوٰة نہیں ( یعنی اس مال پر زکوٰة واجب ہو گا) ۔
( فتاوی محمودیہ ، کتاب الزکوٰة ، باب وجوب زکوٰة 319/9)

شوہر کے ذمے یہ دَین ( قرض) مانع ہو یا نہ ہو، بہرصورت زوجہ پر اس کی زکوٰة لازم نہیں۔ ( یعنی عورت پر زکوٰة اس وقت واجب ہو گی ، جب وہ مہر پر قبضہ کرے اس سے پہلے اس پر زکوٰة لازم نہیں۔)
( فتاوی محمودیہ، کتاب الزکوٰة، باب وجوب زکوٰة320/9)

No comments:

Post a Comment