نیاز اور صدقہ میں کیا فرق:
جو مال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کی راہ میں غرباء و مساکین کو دیا جاتا ہے یا خیر کے کسی کام میں خرچ کیا جاتا ہے، اسے “صدقہ” کہتے ہیں،
صدقہ کی تین قسمیں ہیں:
۱:فرض، جیسے زکات۔
۲:واجب، جیسے نذر، صدقہٴ فطر اور قربانی وغیرہ۔
۳:نفلی صدقات، جیسے عام خیرات۔
پہلی دو قسموں کے صدقات (زکات، صدقہ فطر وغیرہ) مستحق کو دینا ہی ضروری ہے، جب کہ نفلی صدقات غریب اور امیر دونوں کو دے سکتے ہیں۔
اور
کسی کام کے ہونے پر کچھ صدقہ کرنے کی یا کسی عبادت کے بجا لانے کی منت مانی جائے تو اس کو "نذر" کہتے ہیں۔ مصرف کے اعتبار سے "نذر" کا حکم زکات کا حکم ہے، اس کو صرف غرباء کھاسکتے ہیں، غنی نہیں کھاسکتے، "نیاز" کے معنی بھی نذر ہی کے ہیں۔
اور نیاز کا ایک معنیٰ عرف میں یہ بھی ہے کہ لوگ بزرگوں کے ایصال وثواب کے لیے یا اپنے فوت شدہ اقارب کے لیے کھانا وغیرہ بنواکراس پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر اسے تقسیم کرتے ہیں تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ نیاز انہی بزرگوں کے نام کی ہو، یعنی ان سے ان بزرگوں کا تقرب مقصود ہو تو یہ حرام ہے ، اس کا کھانا بھی حرام ہے؛ کیوں کہ یہ نذر لغیر اللہ ہے۔ اور اگر یہ نذر اللہ کی رضا کے لیے ہو، صرف اس کا ثواب بزرگوں یا فوت شدگان کو پہنچایا جائے تو اس کے جائز ہونے کے لیے چند شرائط ہیں:
1۔۔ اس کے لیے کوئی تاریخ ہمیشہ کے لیے مقرر نہ کی جائے، یعنی کسی دن کی تخصیص نہ کی جائے۔
2۔۔ نذر مانی گئی ہو تو جو کھانا کھلانا ہو وہ صرف فقراء کو کھلائے، مال داروں کو نہ کھلائے۔
3۔۔ اس کو لازم اور واجب نہ سمجھا جائے، اور نہ کرنے والوں پر لعن طعن نہ کی جائے۔
4۔۔ قرض لے کر اپنی وسعت سے زیادہ خرچ نہ کرے۔
5۔۔ اور بھی کوئی خلافِ شرع کام اس کے ساتھ نہ ملائے۔
6۔۔ جن دنوں میں اہلِ بدعت وغیرہ کا شعار ہو ان دنوں میں بھی نہ کیا جائے۔
مذکورہ شرائط کے ساتھ نذر ونیاز جائز ہے، لیکن موجودہ زمانہ میں اس کے جو طریقے رائج ہیں، ان میں مذکورہ شرائط کی رعایت نہیں کی جاتی، اور اس میں دیگر بھی کئی مفاسد شامل ہوگئے ہیں، لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
[مستفاد: آپ کے مسائل اور ان کا حل، امداد المفتیین]
[أخرجه أحمد:14984(3/310، رقم 14373) ، ومسلم (2/592، رقم 867) ، والنسائى (3/188، رقم 1578) ، وابن ماجه (1/17، رقم 45) . جامع الاحادیث:5254]
اصول :
|
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللہِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللہ غَفُورٌ رَحِيْمٌ(۱۷۳) | ||||
إِنَّمَا | حَرَّمَ | عَلَيْكُمُ | الْمَيْتَةَ | وَالدَّمَ |
درحقیقت | حرام کیا | تم پر | مردار | اورخون |
وَلَحْمَ | الْخِنْزِيرِ | وَمَا | أُهِلَّ | بِهِ |
اورگوشت | سور | اورجو | پکاراگیا | اس پر |
لِغَيْرِ اللہِ | فَمَنِ | اضْطُرَّ | غَيْرَ بَاغٍ | |
اللہ کے سوا | پس جو | لاچار ہوجائے | نہ سرکشی کرنے والا | |
وَلَا | عَادٍ | فَلَا | إِثْمَ | |
اورنہ | حد سے بڑھنے والا | تو نہیں | کوئی گناہ | |
عَلَيْهِ | إِنَّ | اللہ | غَفُورٌ | رَحِيمٌ |
اس پر | بیشک | اللہ | بخشنے والا | رحم کرنے والا |
در حقیقت (ہم نے) تم پر حرام کیا ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت، اور جس پر اللہ کے سوا ( کسی اور کا نام) پکارا گیا ،پس جو لاچار ہو جائے مگر نہ سر کشی کرنے والا ہو ، نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں بیشک اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے(۱۷۳) |
اس مقام کے متعلق چند مسائل فقیہ ہیں ۔۱۔ جس جانور کا ذبح کرنا شرعا ضروری ہو اور وہ بلاذبح ہلاک ہوجاوئے وہ حرام ہوتا ہے اور جس جانور کا ذبح کرنا ضروری نہیں وہ دو طرح کے ہیں ایک ٹڈی اور ایک مچھلی ۔ دوسرے وحشی جیسے ہرن وغیرہ۔ جب کہ اس کے ذبح پر قدرت نہ ہوئے تو اس کو دور ہی سے تیر یا اور کسی تیز ہتھیار سے اگر بسم اللہ کہہ کر زخمی کیا جائے تو حلال ہوجاتا ہے البتہ بندوق کا شکار بدون ذبح کیے ہوئے حلال نہیں کیونکہ گولی میں دھار نہیں ہوتی۔ ۲۔ خون جو بہتا نہ ہو اس سے دو چیزیں مراد ہیں جگر اور طحال۔ یہ حلال ہیں ۔ ۳۔ خنزیر کے سب اجزاء لحم و شحم و پوست و اعصاب سب حرام ہیں، اور نجس بھی ہیں۔
تفسیر معارف القرآن:- اِنَّمَا حَرَّمَ کلمہ انما حصر کے لئے آتا ہے اس لئے آیت کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف وہ چیزیں حرام کی ہیں جن کا آگے ذکر کیا جاتا ہے اس کے سوا کچھ حرام نہیں اس آیت میں تو لفظ انما سے اس کی طرف اشارہ ہوا اور دوسری آیت میں اس سے زیادہ صراحت کے ساتھ یہ بھی آیا ہے،قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلٰي طَاعِمٍ الآیۃ (۱٤۵:٦) اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے یہ حکم دیا گیا ہے کہ آپ اعلان کردیں کہ میری وحی میں بجز ان چند چیزوں کے جن کا ذکر آگے کیا گیا ہے اور کوئی چیز حرام نہیں ، مگر اس پر اشکال یہ ہے کہ دوسری آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے ان چند چیزوں کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزوں کی حرمت ثابت ہے تو یہ حصر اور حرمت ماسوٰی کی نفی کیسے درست ہوگی؟ جواب یہ ہے کہ یہاں مطلق حلال وحرام کا بیان نہیں بلکہ ان مخصوص جانوروں کی حلت و حرمت کا بیان ہے جن کے بارے میں مشرکین مکہ اپنے مشرکانہ عقائد کی غلطیاں کیا کرتے تھے پچھلی آیت میں اس کی وضاحت آچکی ہے کہ بہت سے حلال جانوروں کو مشرکین حرام سمجھ لیتےتھے یا اپنے اوپر حرام کرلیتے تھے اس کی مخالفت کی گئی تھی اس کے بالمقابل یہاں یہ بتلایا گیا کہ اللہ کے نزدیک فلاں فلاں جانور حرام ہیں جن سے تم اجتناب نہیں کرتے اور جو اللہ کے نزدیک حلال ہیں ان سے پرہیز کرتے ہو اس لئے اس جگہ حصر مطلق نہیں بلکہ اضافی ہے مشرکانہ عقائد کے بالمقابل ۔ آگے اس آیت میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے وہ چار چیزیں یہ ہیں ، (۱) میتہ (مردار) ،(۲) خون ۔ (۳) لحم خنزیر،(٤) وہ جانور جس پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو، پھر چاروں چیزوں کی مزید تشریحات خود قرآن کریم کی دوسری آیات اور احادیث صحیحہ میں آئی ہیں جن کو ملانے کے بعد ان چاروں چیزوں کے احکام حسب ذیل ہیں ان کو کسی قدر تفصیل سے لکھا جاتا ہے ، میتہ: جس کو اردو میں مردار کہتے ہیں اس سے مراد وہ جانور ہے جس کے حلال ہونے کے لئے ازروئے شرع ذبح کرنا ضروری ہے مگر وہ بغیر ذبح کے خود بخود مرجائے یا گلا گھونٹ کر یا کسی دوسری طرح چوٹ مار کر مار دیا جائے جو وہ مردار اور حرام ہے لیکن خود قرآن کریم کی دوسری آیت اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ (۹٦:۵) سے معلوم ہوا کہ دریائی جانور کے لئے ذبح کرنا شرط نہیں وہ بلا ذبح بھی جائز ہے اس بناء پر احادیث صحیحہ میں مچھلی اور ٹڈی کو میتہ سے مستثنیٰ قرار دے کر حلال کیا گیا ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے لئے دو مردار حلال کردئیے گئے ایک مچھلی دوسرے ٹڈی اور دو خون حلال کردئیے گئے جگر اور طحال (ابن کثیر از احمد، ابن ماجہ ، دارقطنی ) معلوم ہوا کہ جانوروں میں سے مچھلی اور ٹڈی بغیر ذبح کے حلال ہیں، خواہ وہ خود مرجائیں یا کسی کے مارنے سے مرجائیں البتہ جو مچھلی سڑ جانے کی وجہ سےخود پانی کے اوپر آجائے وہ حرام ہے (جصاص ) اسی طرح وہ شکاری جانور جو قابو میں نہیں کہ ذبح کرلیا جائے اور اس کو بھی بسم اللہ پڑھ کر تیر وغیرہ دھاردار چیز سے زخم لگا دیں تو بغیر ذبح کےحلال ہو جاتا ہے مطلقا زخمی ہوجانا کافی نہیں کسی آلہ جارحہ تیز دھار سے زخمی ہونا شرط ہے، بندوق کی گولی سے شکار: مسئلہ: بندوق کی گولی سے کوئی جانور زخمی ہوکر قبل ذبح مرجائے تو وہ ایسا ہے جیسے پتھر یا لاٹھی مارنے سے مرجائے جس کو قرآن کریم کی دوسری آیت میں موقوذۃ کہا گیا ہے اور حرام قرار دیا ہے ہاں مرنے سے پہلے اس کو ذبح کرلیا جائے تو حلال ہوجائے گا۔ مسئلہ: آج کل بندوق کی ایک گولی نوکدار بنائی گئی ہے اس کے متعلق بعض علماء کا خیال ہے کہ تیر کے حکم میں ہے مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ بھی تیر کی طرح آلہ جارحہ نہیں بلکہ خارقہ ہے جس سے بارود کی طاقت کے ذریعہ گوشت پھٹ جاتا ہے ورنہ خود اس میں کوئی دھار نہیں جس سے جانور زخمی ہوجائے اس لئے ایسی گولی کا شکار بھی بغیر ذبح کے جائز نہیں ۔ مسئلہ: آیت مذکورہ میں مطلقًا میتہ کو حرام قرار دیا ہے اس لئے جس طرح اس کا گوشت کھانا حرام ہے اس کی خرید وفروخت بھی حرام ہے یہی حکم تمام نجاسات کا ہے کہ جیسے ان کا استعمال حرام ہے ان کی خرید وفروخت اور ان سے نفع اٹھانا بھی حرام ہے یہاں تک کہ مردار جانور یا ناپاک کوئی چیز باختیار خود جانور کو کھلانا بھی جائز نہیں ہاں ایسی جگہ رکھ دے کہ جہاں سے کوئی کتا بلی خود کھالے یہ جائز ہے مگر خود اٹھا کر ان کو کھلانا جائز نہیں (جصاص ، قرطبی وغیرہ) مسئلہ: اس آیت میں میتہ کے حرام ہونے کا حکم عام معلوم ہوتا ہے جس میں میتہ کے تمام اجزاء شامل ہیں لیکن دوسری آیت میں اس کی تشریح طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ کے الفاظ سے کردی گئی ہے جس سے معلوم ہوا کہ مردار جانور کے وہ اجزاء حرام ہیں جو کھانے کے قابل ہیں ، اس لئے مردار جانور کی ہڈی ، بال جو کھانے کی چیز نہیں وہ پاک ہیں اور ان کا استعمال جائز ہے آیت قرآن کریم وَمِنْ اَصْوَافِهَا وَاَوْبَارِهَا وَاَشْعَارِهَآ اَثَاثًا وَّمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ (۸۰:۱٦) میں ان جانوروں کے بالوں کو مطلقاً جائز الانتفاع قرار دیا ہے ذبیحہ کی شرط نہیں (جصاص) کھال پر چونکہ خون وغیرہ کی نجاست لگی ہوتی ہے اس لئے وہ دباغت سے پہلے حرام ہے مگر دباغت دینے کے بعد حلال اور جائز ہے احادیث صحیحہ میں اس کی مزید تصریح موجود ہے (جصاص) مسئلہ: مردار جانور کی چربی اور اس سے بنائی ہوئی چیزیں بھی حرام ہیں ان کا استعمال کسی طرح سے جائز نہیں اور خرید وفروخت بھی حرام ہے، مسئلہ: یورپ وغیرہ سے آئی ہوئی چیزیں صابوُن وغیرہ جن میں چربی استعمال ہوتی ہے ان سے پرہیز کرنا احتیاط ہے مگر مردار کی چربی ہونے کا علم یقینی نہ ہونے کی وجہ سے گنجائش ہے نیز اس وجہ سے بھی کہ بعض صحابہ کرام ابن عمر ، ابوسعید خدری، ابو موسیٰ اشعری نے مردار کی چربی کا صرف کھانے میں استعمال حرام قرار دیا ہے خارجی استعمال کی اجازت دی ہے اس لئے اس کی خرید وفروخت کو بھی جائز رکھا ہے (جصاص) مسئلہ: دودھ کا پنیر بنانے میں ایک چیز استعمال کی جاتی ہے جس کو عربی زبان میں اِنفَحہ کہا جاتا ہے یہ جانور کے پیٹ سے نکالی جاتی ہے اس کو دودھ میں شامل کرنے سے دودھ جم جاتا ہے اب اگر یہ جانور اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا ہو تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں مذبوح جانور کا گوشت چربی وغیرہ سب حلال ہیں لیکن غیر مذبوح جانور کے پیٹ سے لیا جائے تو اس میں فقہا کا اختلاف ہے امام اعظم ابوحنفیہ اور امام مالک اس کو پاک قرار دیتے ہیں لیکن صاحبین امام ابو یوسف ومحمد اور ثوری وغیرہ اس کو ناپاک کہتے ہیں (جصاص ، قرطبی) یورپ اور دوسرے غیر اسلامی ملکوں سے جو پنیر بنا ہوا آتا ہے اس میں غیر مذبوح جانوروں کا انفحہ استعمال ہونے کا احتمال غالب ہے اس لئے جمہور فقہاء کے قول پر اس سے پرہیز کرنا چاہئے امام اعظم ابوحنیفہ اور امام مالک کے قول پر گنجائش ہے ہاں یورپ سے آئے ہوئے بعض پنیر ایسے بھی جن میں خنزیر کی چربی استعمال ہوتی ہے اور ڈبہ پر لکھا ہوا ہوتا ہے وہ قطعا حرام اور نجس ہیں ، خون کے مسائل : دوسری چیز جو آیت مذکورہ میں حرام قرار دی گئی ہے وہ خون ہے لفظ دم بمعنی خون اس آیت میں اگرچہ مطلق ہے مگر سورہ انعام کی آیت میں اس کے ساتھ مسفوح یعنی بہنے والا ہونے کی شرط ہے، (آیت) او دما مسفوحا (۱٤۵:٦) اس لئے باتفاق فقہاء خون منجمد جیسے گردہ تلی وغیرہ وہ حلال اور پاک ہیں ، مسئلہ: جب کہ حرام صرف بہنے والا خون ہے تو جو خون ذبح کے بعد گوشت میں لگا رہ جاتا ہے وہ پاک ہے فقہاء وصحابہ وتابعین اور امت کا اس پر اتفاق ہے اسی طرح مچھر، مکھی ، کھٹمل وغیرہ کا خون بھی ناپاک نہیں لیکن زیادہ ہوجائے تو اس کو بھی دھونا چاہیں (جصاص) مسئلہ: جس طرح خون کا کھانا پینا حرام ہے اسی طرح اس کا خارجی استعمال بھی حرام ہے اور جس طرح تمام نجاسات کی خرید وفروخت بھی اور اس سے نفع اٹھانا حرام ہے اسی طرح خون کی خرید وفروخت بھی حرام ہے اس سے حاصل کی ہوئی آمدنی بھی حرام ہے کیونکہ الفاظ قرآنی میں مطلقا دم کو حرام فرمایا ہے جس میں اس کے استعمال کی تمام صورتیں شامل ہیں ، مریض کو دوسرے کا خون دینے کا مسئلہ: تحقیق اس مسئلہ کی یہ ہے کہ انسانی خون انسان کا جزء ہے اور جب بدن سے نکال لیا جائے تو وہ نجس بھی ہے اس کا اصل تقاضا تو یہ ہے کہ ایک انسان کا خون دوسرے کے بدن میں داخل کرنا دو وجہ سے حرام ہو، اول اس لئے کہ اعضاء انسانی کا احترام واجب ہے اور یہ اس احترام کے منافی ہے دوسرے اس لئے کہ خون نجاست غلیظہ ہے اور نجس چیزوں کا استعمال ناجائز ہے، لیکن اضطراری حالات اور عام معالجات میں شریعتِ اسلام کی دی ہوئی سہولتوں میں غور کرنے سے امور ذیل ثابت ہوئے، اول یہ کہ خون اگرچہ جزء انسانی ہے مگر اس کو کسی دوسرے انسان کے بدن میں منتقل کرنے کے لئے اعضاء انسانی میں کانٹ چھانٹ اور آپریشن کی ضرورت پیش نہیں آتی، انجکشن کے ذریعہ خون نکالا اور دوسرے کے بدن میں ڈالا جاتا ہے اس لئے اس کی مثال دودھ کی سی ہوگئی جو بدنِ انسانی سے بغیر کسی کاٹ چھانٹ کے نکلتا اور دوسرے انسان کا جزء بنتا ہے اور شریعتِ اسلام نے بچہ کی ضرورت کے پیش نظر انسانی دودھ ہی کو اس کی غذا قرار دیا ہے اور ماں پر اپنے بچوں کو دودھ پلانا واجب کیا، جب تک وہ بچوں کے باپ کے نکاح میں رہے طلاق کے بعد ماں کو دودھ پلانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا بچوں کا رزق مہیا کرنا باپ کی ذمہ داری ہے وہ کسی دوسری عورت سے دودھ پلوائے یا ان کی ماں ہی کو معاوضہ دے کر اس سے دودھ پلوائے قرآن کریم میں اس کی واضح تصریح موجود ہے، (آیت) فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ (٦:٦۵) اگر تمہاری مطلقہ بیوی تمہارے بچوں کو دودھ پلائے تو اس کو اجرت ومعاوضہ دیدو، خلاصہ یہ ہے کہ دودھ جزء انسانی ہونے کے باوجود بوجہ ضرورت اس کے استعمال کی اجازت بچوں کے لئے دی گئی ہے اور علاج کے طور پر بڑوں کے لئے بھی جیسا کہ عالمگیری میں ہے، ولابأ سَ بان یسعط الرجل بلبن المرأۃ ویشربہ للدواء (عالمگیری ص٤) اس میں مضائقہ نہیں کہ دوا کے لئے کسی شخص کی ناک میں عورت کا دودھ ڈالا جائے یا پینے میں استعمال کیا جائے، اور مغنی ابن قدامہ میں اس مسئلہ کی مزید تفصیل مذکور ہے (مغنی کتاب الصید ص ٦۰۲ج۸) اگر خون کو دودھ پر قیاس کیا جائے تو کچھ بعید از قیاس نہیں کیونکہ دودھ بھی خون کی بدلی ہوئی صورت ہے اور جزء انسان ہونے میں مشترک ہے فرق صرف یہ ہے کہ دودھ پاک ہے اور خون ناپاک، تو حرمت کی پہلی وجہ یعنی جزء انسانی ہونا تو یہاں وجہ ممانعت نہ رہی صرف نجاست کا معاملہ رہ گیا علاج ودواء کے معاملہ میں بعض فقہاء نے خون کے استعمال کی بھی اجازت دی ہے، اس لئے انسان کا خون دوسرے کے بدن میں منتقل کرنے کا شرعی حکم یہ معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں تو جائز نہیں مگر علاج ودواء کے طور پر اس کا استعمال اضطراری حالت میں بلاشبہ جائز ہے اضطراری حالت سے مراد یہ ہے کہ مریض کی جان کا خطرہ ہو اور کوئی دوسری دوا اس کی جان بچانے کے لئے مؤ ثر یا موجود نہ ہو اور خون دینے سے اس کی جان بچنے کا ظن غالب ہو، ان شرطوں کے ساتھ خون دینا تو اس نص قرآنی کی رو سے جائز ہے جس میں مضطر کے لئے مردار جانور کھا کر جان بچانے کی اجازت صراحۃ مذکور ہے اور اگر اضطراری حالت نہ ہو یا دوسری دوائیں بھی کام کرسکتی ہوں تو ایسی حالت میں مسئلہ مختلف فیہا ہے بعض فقہا کے نزدیک جائز ہے بعض ناجائز کہتے ہیں جس کی تفصیل کتب فقہ بحث تداوی بالمحرم میں مذکور ہے واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم احقر کا ایک مستقل رسالہ بھی اس موضوع پر شائع ہوگیا ہے جس کا نام ہے اعضائے انسانی کی پیوند کاری اس کو ملاحظہ فرمایا جائے۔ تحریم خنزیر: تیسری چیز جو اس آیت میں حرام کی گئی ہے وہ لحم خنزیر ہے آیت میں حرمتِ خنزیر کے ساتھ لحم کی قید مذکور ہے، امام قرطبی نے فرمایا کہ اس سے مقصود لحم یعنی گوشت کی تخصیص نہیں بلکہ اس کے تمام اجزاء ہڈی ، کھال ، بال ، پٹھے سب ہی باجماع امت حرام ہیں لیکن لفظ لحم بڑھا کر اشارہ اس طرف ہے کہ خنزیر دوسرےحرام جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ وہ ذبح کرنے سے پاک ہوسکتے ہیں اگرچہ کھانا حرام ہی رہے کیونکہ خنزیر کا گوشت ذبح کرنے سے بھی پاک نہیں ہوتا کہ وہ نجس العین بھی ہے حرام بھی صرف چمڑا سینے کے لئے اس کے بال کا استعمال حدیث میں جائز قرار دیا ہے (جصاص قرطبی ) مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کی تین صورتیں : چوتھی چیز جس کو آیت میں حرام قرار دیا گیا ہے وہ جانور ہے جو غیر اللہ کے لئے نامزد کردیا گیا ہو جس کی تین صورتیں متعارف ہیں اول یہ کہ کسی جانور کو غیر اللہ کے تقرب کے لئے ذبح کیا جائے اور بوقت ذبح اسی غیر اللہ کا نام لیا جائے یہ صورت باتفاق و بااجماعِ امت حرام ہے اور یہ جانور میتہ ہے اس کے کسی جُزء سے انتفاع جائز نہیں کیونکہ یہ صورت آیت مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کا مدلول صریح ہے جس میں کسی کا اختلاف نہیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کسی جانور کو تقرب الی غیر اللہ کے لئے ذبح کیا جائے یعنی اس کا خون بہانے سے تقرب الیٰ غیر اللہ مقصود ہو لیکن بوقت ذبح اس پر نام اللہ ہی کا لیا جائے جیسے بہت سے ناواقف مسلمان بزرگوں پیروں کے نام پر ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے بکرے ، مرغے وغیرہ ذبح کرتے ہیں لیکن ذبح کے وقت اس پر نام اللہ ہی کا پکارتے ہیں یہ صورت بھی باتفاق فقہا حرام اور مذبوحہ مردار ہے، مگر تخریج دلیل میں کچھ اختلاف ہے بعض حضرات مفسرین وفقہاء نے اس کو بھی مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کا مدلول صریح قرار دیا ہے جیسا کہ حواشی بیضاوی میں ہے ۔ فکل ما نودی علیہ بغیر اسم اللہ فھو حرام وان ذبح باسم اللہ تعالیٰ حیث اجمع العلماء لو ان مسلماً ذبح ذبیحۃ وقصد بذبحہ التقرب الیٰ غیر اللہ صار مرتدا وذبیحتہ ذبیحۃ مرتد ۔ "ہر وہ جانور جس کو غیر اللہ کے نام کردیا گیا وہ حرام ہے اگرچہ بوقت ذبح اللہ ہی کا نام لیا ہو اس لئے کہ علماء فقہاء کا اتفاق ہے کہ کسی جانور کو غیر اللہ کے تقرب کے لئے اگر کوئی مسلمان ذبح کرے تو وہ مرتد ہوجاوے گا اور اس کا ذبیحہ مرتد کا ذبیحہ کہلائے گا"۔ نیز درمختار کتاب الذبائح میں ہے: ذبح لقدوم الامیر ونحوہ کو احد من العظماء یحرم لانہ اھل بہ لغیر اللہ ولو ذکر اسم اللہ واقرہ الشامی (ص ۲۱٤ ج۵) " کسی امیر یا بڑے کے آنے پر جانور ذبح کیا تو وہ حرام ہوگا کیونکہ وہ ما اہل بہ ل غیر اللہ میں داخل ہے اگرچہ بوقت ذبح اللہ ہی کا نام لیا ہو اور شامی نے اس کی تائید کی "۔ اور بعض حضرات نے اس صورت کو مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کا مدلول صریح تو نہیں بنایا کیونکہ وہ بحیثیت عربیت تکلف سے خالی نہیں مگر بوجہ اشتراک علت یعنی تقرب الیٰ غیر اللہ کی نیت کے اس کو بھی مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کے ساتھ ملحق کرکےحرام قرار دیا ہے احقر کے نزدیک یہی وجہ احوط اور اسلم ہے۔ نیز اس صورت کی حرمت کے لئے ایک مستقل آیت بھی دلیل ہے یعنی وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ نصب ان تمام چیزوں کو کہا جاتا ہے جن کی باطل طور پر پرستش کی جاتی ہے معنی یہ ہیں کہ وہ جانور جس کو معبودات باطلہ کے لئے ذبح کیا گیا ہے اس سے پہلے وَمَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مَآ اُهِلَّ کا مدلول صریح تو وہی جانور ہے جس پر بوقت ذبح غیر اللہ کا نام لیا گیا اور ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ (۳:۵) اس کے بالمقابل آیا ہے جس میں غیر اللہ کے نام لینے کا ذکر نہیں صرف بتوں و غیر اللہ کی خوشنودی کی نیت سے ذبح کرنا مراد ہے اس میں وہ جانور بھی داخل ہیں جن کو ذبح تو کیا گیا ہے غیر اللہ کے تقرب کے لئے مگر بوقت ذبح اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے (افادہ شیخ حکیم الامت) امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اسی کو اختیار کیا ہے ان کی عبارت یہ ہے، وجرت عادۃ العرب بالصیاح باسم المقصود بالذبیحۃ وغلب ذلک فی استعمالھم حتی عبر بہ عن النیۃ اللتی ھی علۃ التحریم (تفسیر قرطبی ص ۲۰۷ج۲) " عرب کی عادت تھی کہ جس کے لئے ذبح کرنا مقصود ہوتا ذبح کرنے کے وقت اس کا نام بلند آواز سے پکارتے اور یہ رواج ان میں عام تھا یہاں تک کہ اس آیت میں تقرب الیٰ غیر اللہ کو جو کہ اصل علت تحریم ہی اہلال کے لفظ سے تعبیر کردیا، امام قرطبی نے اپنی اس تحقیق کی بنیاد صحابہ کرام میں سے دو حضرات حضرت علی مرتضیٰ اور حضرت صدیقہ عائشہ عنہا کے فتاویٰ پر رکھی ہے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں فرزدق شاعر کے باپ غالب نے ایک اونٹ ذبح کیا تھا جس پر کسی غیر اللہ کا نام لینے کا کوئی ذکر نہیں مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس کو بھی مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ میں داخل قرار دے کر حرام فرمایا اور سب صحابہ کرام نے اس کو قبول کیا اسی طرح امام مسلم کے شیخ یحیٰ بن یحییٰ کی سند سے حضرت صدیقہ عائشہ کی ایک طویل حدیث نقل کہ جس کے آخر میں ہے کہ ایک عورت نے حضرت صدیقہ سے سوال کیا کہ ام المؤ منین ہمارے کچھ رضاعی رشتہ دار عجمی لوگوں میں سے ہیں اور ان کے یہاں تو روز روز کوئی نہ کوئی تہوار ہوتا رہتا ہے یہ اپنے تہواروں کے دن کچھ ہدیہ تحفہ ہمارے پاس بھی بھیج دیتے ہیں ہم اس کو کھائیں یا نہیں؟ اس پر صدیقہ عائشہ نے فرمایا: اما ما ذبح لذلک الیوم فلا تاکلوا ولکن کلوا من اشجارہم (تفسیر قرطبی ص۲۰۷ج۲) "جو جانور اس عید کے دن کے لئے ذبح کیا گیا ہو وہ نہ کھاؤ لیکن ان کے درختوں کے پھل وغیرہ کھا سکتے ہو"۔ الغرض یہ صورت ثانیہ جس میں نیت تو تقرب الیٰ غیر اللہ کی ہو مگر ذبح کے وقت اللہ کا نام لیا جائے اول تو اشتراک علت یعنی نیت تقرب الی غیر اللہ کی وجہ سے مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کے حکم میں ہے دوسرے آیت وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ کا بھی مدلول ہے اس لئے یہ بھی حرام ہے، تیسری صورت یہ ہے کہ کسی جانور کو کان کاٹ کر یا کوئی دوسری علامت لگا کر تقرب الی غیر اللہ اور تعظیم غیر اللہ کے لئے چھوڑ دیا جائے نہ اس سے کام لیں اور نہ اس کے ذبح کرنے کا قصد ہو بلکہ اس کے ذبح کرنے کو حرام جانیں یہ جانور مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ اور وَمَا ذُبِحَ عَلَي النُّصُبِ دونوں میں داخل نہیں بلکہ اس قسم کے جانور کو بحیرہ یا سائبہ وغیرہ کہا جاتا ہے اور حکم ان کا یہ ہے کہ یہ فعل تو بنصِ قرآن حرام ہے جیسا کہ آیت مَا جَعَلَ اللّٰهُ مِنْۢ بَحِيْرَةٍ وَّلَا سَاۗىِٕبَةٍ (۱۰۳:۵) میں انشاء اللہ تعالیٰ آئےگا، مگر ان کے اس حرام عمل سے اور اس جانور کو حرام سمجھنے کے عقیدہ سے یہ جانور حرام نہیں ہوجاتے بلکہ اس کو حرام سمجھنے میں تو ان کے عقیدہ باطلہ کی تائید وتقویت ہوتی ہے اس لئے یہ جانور عام جانوروں کی طرح حلال ہے، مگر شرعی اصول کے مطابق یہ جانور اپنے مالک کی ملک سے خارج نہیں ہوا اسی کا مملوک ہے اگرچہ وہ اپنے غلط عقیدہ سے یہ سمجھتا ہے کہ میری ملک سے نکل کر غیر اللہ کے لئے وقف ہوگیا مگر شرعاً اس کا یہ عقیدہ باطل ہے وہ جانور بدستور اس کی ملک میں ہے، اب اگر وہ شخص خود اس جانور کو کسی کے ہاتھ فروخت کردے یا ہبہ کردے تو اس کے لئے یہ جانور حلال ہے جیسا بکثرت ہندو اپنے دیوتاؤں کے نام بکری یا گائے وغیرہ کو اپنے نزدیک وقف کرکے چھوڑ دیتے ہیں اور مندروں کے پجارویوں جوگیوں کو اختیار دیتے ہیں وہ جو چاہیں کریں یہ مندروں کے پجاری ان کو مسلمانوں کے ہاتھ بھی فروخت کردیتے ہیں ، یا اسی طرح بعض جاہل مسلمان بھی بعض مزارات پر ایسا ہی عمل کرتے ہیں کہ بکرا یا مرغا چھوڑ دیتے ہیں اور مزارات کے مجاورین کو اختیار دیتے ہیں وہ ان کو فروخت کردیتے ہیں تو جو لوگ ان جانوروں کو ان لوگوں سے خرید لیں جن کو اصل مالک نے اختیار دیا ہے ان کے لئے خریدنا اور ذبح کرکے کھانا اور فروخت کرنا سب حلال ہے، نذر غیر اللہ کا مسئلہ: یہاں ایک چوتھی صورت اور ہے جس کا تعلق حیوانات کے علاوہ دوسری چیزوں سے ہے مثلاً مٹھائی کھانا وغیرہ جن کو غیر اللہ کے نام پر نذر (منت ) کے طور سے ہندو لوگ بتوں پر اور جاہل مسلمان بزرگوں کے مزارات پر چڑھاتے ہیں حضرات فقہاء نے اس کو بھی اشتراک علت یعنی تقرب الیٰ غیر اللہ کی وجہ سے مَآ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ کے حکم میں قرار دے کر حرام کہا ہے اور اس کے کھانے پینے دوسروں کو کھلانے اور بیچنےخریدنے سب کو حرام کہا ہے کتب فقہ بحر الرائق وغیرہ میں اس کی تفصیلات مذکور ہیں یہ مسئلہ قیاسی ہے جس کو نص قرآنی متعلقہ حیوانات پر قیاس کیا گیا ہے واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم، اضطرار ومجبوری کے احکام: آیت مذکورہ میں چار چیزیں حرام قرار دینے کے بعد ایک حکم استثنائی مذکور ہے فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ اس حکم میں اتنی آسانی کردی گئی ہے کہ جو شخص بھوک سے بہت ہی بیتاب ہوجائے بشرطیکہ نہ تو کھانے میں طالب لذت ہو اور نہ قدر ضرورت سے تجاوز کرنے والا ہو تو اس حالت میں ان حرام چیزوں کو کھا لینے سے بھی اس شخص کو کوئی گناہ نہیں ہوتا بےشک اللہ تعالیٰ ہیں بڑے غفور ورحیم ۔ اس میں مضطر کے لئے جان بچانے کے واسطے دو شرطوں کے ساتھ ان حرام چیزوں کے کھا لینے سے بھی گناہ اٹھا دیا گیا ہے، مضطر: شرعی اصطلاح میں اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کی جان خطرہ میں ہو معمولی تکلیف یا ضرورت سے مضطر نہیں کہا جاسکتا تو جو شخص بھوک سے ایسی حالت پر پہنچ گیا کہ اگر کچھ نہ کھائے تو جان جاتی رہے گی اس کے لئے دو شرطوں کے ساتھ یہ حرام چیزیں کھا لینے کی گنجائش دی گئ ہے ایک شرط یہ ہے کہ مقصود جان بچانا ہو کھانے کی لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو دوسری شرط یہ ہے کہ صرف اتنی مقدار کھائے جو جان بچانے کے لئے کافی ہو پیٹ بھر کر کھانا یا قدر ضرورت سے زائد کھانا اس وقت بھی حرام ہے، اہم فائدہ : یہاں قرآن عزیز نے اضطرار کی حالت میں بھی حرام چیزوں کے کھانے کو حلال نہیں فرمایا بلکہ لآ اِثْمَ عَلَيْهِ فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ چیزیں تو اب بھی اپنی جگہ حرام ہی ہیں مگر اس کھانے والے سے بوجہ اضطرار کے استعمال حرام کا گناہ معاف کردیا گیا حلال ہوجانے اور گناہ معاف کردینے میں بڑا فرق ہے اگر اضطراری حالت میں ان چیزوں کو حلال کردینا مقصود ہوتا تو حرمت سے صرف استثناء کردینا کافی ہوتا مگر یہاں صرف استثناء پر اکتفاء کردینے کے بجائے لآ اِثْمَ عَلَيْهِ کا اضافہ فرما کر اس نکتہ کی طرف اشارہ کردیا کہ حرام تو اپنی جگہ حرام ہی ہے اور اس کا استعمال گناہ ہی ہے مگر مضطر سے یہ گناہ معاف کردیا گیا، حالت اضطرار میں دواء کے طور پر حرام چیزوں کا استعمال: آیت مذکورہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ جس شخص کی جان خطرہ میں ہو وہ جان بچانے کے لئے بطور دواء کے حرام چیز کو استعمال کرسکتا ہے مگر آیت مذکورہ ہی کے اشارہ سے اس میں چند شرطیں معلوم ہوتی ہیں ، اول یہ کہ حالت اضطرار کی ہو خطرہ جان جانے کا ہو، معمولی تکلیف وبیماری کا یہ حکم نہیں ہے دوسرے یہ کہ بجز حرام چیز کے اور کوئی چیز علاج ودواء کے لئے مؤ ثر نہ ہو یا موجود نہ ہو جیسے شدید بھوک کی حالت میں استثناء اسی وقت ہے جب کہ کوئی دوسری حلال غذا موجود ومقدور نہ ہو تیسرے یہ کہ اس حرام کے استعمال کرنے سے جان بچ جانا یقینی ہو جیسے بھوک سے مضطر کے لئے ایک دو لقمہ حرام گوشت کا کھا لینا عادۃ اس کی جان بچانے کا یقینی سامان ہے اگر کوئی دواء ایسی ہے کہ اس کا استعمال مفید تو معلوم ہوتا ہے مگر اس سے شفاء یقینی نہیں تو اس دواء کا استعمال آیت مذکورہ کے استثنائی حکم میں داخل ہوکر جائز نہیں ہوگا اس کے ساتھ مزید دو شرطیں آیت قرآنی میں منصوص ہیں کہ اس کے استعمال سے لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو اور قدرِ ضرورت سے زائد استعمال نہ کرے، آیت مذکورہ کی تصریح اور اشارات سے جو قیود وشرائط حاصل ہوئے ان شرائط کے ساتھ ہر حرام وناپاک دواء کا استعمال خواہ کھانے پینے میں ہو یا خارجی استعمال میں باتفاق فقہاء امت جائز ہے ان شرائط کا خلاصہ پانچ چیزیں ہیں ، (ا) حالت اضطرار کی ہو یعنی جان کا خطرہ ہو (۲) دوسری کوئی حلال دواء کارگر نہ ہو یا موجود نہ ہو (۳) اس دواء سے مرض کا ازالہ عادۃ یقینی ہو (٤) اس کے استعمال سے لذت حاصل کرنا مقصود نہ ہو (۵) قدر ضرورت سے زائد اس کو استعمال نہ کیا جائے، غیر اضطراری حالت میں عام علاج ودواء کے لئے حرام چیز کا استعمال : اضطراری حالت کا مسئلہ تو شرائط مذکورہ کے ساتھ نصِ قرآن سے ثابت اور اجماعی حکم ہے لیکن عام بیماریوں میں بھی کسی ناپاک یا حرام دواء کا استعمال جائز ہے یا نہیں اس مسئلہ میں فقہاء کا اختلاف ہے اکثر فقہاء نے فرمایا کہ بغیر اضطرار اور ان تمام شرائط کے جو اوپر مذکور ہوئیں حرام دواء کا استعمال جائز نہیں کیونکہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے حرام میں شفاء نہیں رکھی (بخاری شریف) بعض دوسرے فقہاء نے ایک خاص واقعہ حدیث سے استدلال کرکےجائز قرار دیاوہ واقعہ عُرنیین کا ہے جو تمام کتب حدیث میں مذکور ہے کہ کچھ گاؤں والے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے وہ مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اونٹ کا دودھ اور پیشاب استعمال کرنے کی اجازت دی جس سے ان کو شفاء ہوگئی، مگر اس واقعہ میں متعدد احتمالات ہیں جن سے حرام چیز کا استعمال مشکوک ہو جاتا ہے اس لئے اصل حکم تو یہی ہے کہ عام بیماریوں میں جب تک شرائط اضطرار مذکورہ موجود نہ ہوں حرام دواء کا استعمال جائز نہیں ۔ لیکن فقہاء متاخرین نے موجودہ زمانے میں حرام وناپاک دواؤں کی کثرت اور ابتلاء عام اور عوام کے ضعف پر نظر کرکے اس شرط کے ساتھ اجازت دی ہے کہ کوئی دوسری حلال اور پاک دواء اس مرض کے لئے کارگر نہ ہو یا موجود نہ ہو، کما فی الدر المختار قبیل فصل البیر اختلف فی التداوی بالمحرم وظاہر المذہب المنع کما فی رضاع البحر ولکن نقل المصنف ثم وھھنا عن الحاوی قیل یرخص اذا علم فیہ الشفاء ولم یعلم دواء اخر کما رخص فی الخمر للعطشان وعلیہ الفتوٰی ومثلہ فی العالمگیریۃ (ص۳۵۵ج۵) درمختار میں فصل بیر سے پہلے مذکور ہےحرام چیزوں کو بطور دواء استعمال کرنے میں اختلاف ہے اور ظاہر مذہب میں اس کی ممانعت آئی ہے جیسا کہ بحر الرائق کتاب الرضاع میں مذکور ہے لیکن مصنف تنویر نے اس جگہ رضاع میں بھی اور یہاں بھی حاوی قدسی سے نقل کیا ہے کہ بعض علماء نے فرمایا دواء وعلاج کے لئے حرام چیزوں کا استعمال اس شرط سے جائز ہے کہ اس دواء کے استعمال سے شفاء ہوجانا عادۃ یقینی ہو اور کوئی حلال دواء اس کا بدل نہ ہوسکے جیسا کہ پیاسے کے لئے شراب کا گھونٹ پینے کی اجازت دی گئی ہے، مسئلہ: تفصیل مذکور سے ان تمام انگریزی دواؤں کا حکم معلوم ہوگیا جو یورپ وغیرہ سے آتی ہیں جن میں شراب وغیرہ نجس اشیاء کا ہونا معلوم ویقینی ہو اور جن دواؤں میں حرام ونجس اجزاء کا وجود مشکوک ہے ان کے استعمال میں اور زیادہ گنجائش ہے اور احتیاط بہرحال احتیاط ہے خصوصاً جبکہ کوئی شدید ضرورت بھی نہ ہو، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
تفسیر مدنی کبیر:- 462 حصر سے یہاں پر مراد حصر حقیقی نہیں اضافی ہے : یعنی " اِنَّما " کے کلمہء حصر سے جو حصر یہاں مستفاد ہو رہا ہے، اس سے مراد حصر حقیقی نہیں، اضافی ہے۔ یعنی یہ حصران محرمات کے اعتبار سے ہے جن کو مشرکین نے از خود تراش رکھا تھا، جیسے " بحیرہ " ، " سائبہ " ، اور " وصیلہ " وغیرہ۔ سو اس حصر کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ پاک نے ان چیزوں کو حرام نہیں فرمایا جن کو تم لوگوں نے ازخود حرام قرار دے رکھا ہے ۔ بلکہ اس نے تو محض ان اور ان چیزوں کو حرام فرمایا ہے ، جو کہ خود تمہارے لئے ضرر و نقصان کا باعث تھیں، اور ہیں ۔ دنیا و آخرت دونوں میں ۔ پس تم ہمیشہ انہی سے احتراز کرو ۔ سو دارین کی سلامتی اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی و اِتباع میں ہے۔ اور اس سے انحراف و روگردانی میں محرومی و ہلاکت - والعیاذ باللہ - 463 لحم خنزیر کی حرمت کا ذکر وبیان : کہ خنزیر نجس العین ہے اور اس کے " لحم " یعنی گوشت کی تخصیص یہاں پر اس لئے فرمائی گئی کہ بڑا اور اصل مقصد جانور کے منافع میں سے یہی ہوتا ہے۔ باقی سب فوائد و منافع اس کے تابع ہوتے ہیں ۔ ورنہ خنزیر کی کسی بھی چیز سے انتفاع جائز نہیں، کہ وہ سراسر ناپاک اور نجس العین ہے۔ اور دین حق اسلام اپنے پیروکاروں کیلئے انہی چیزوں کو حلال قرار دیتا ہے جو کہ پاکیزہ ہوتی ہیں اور خبیث اور گندی چیزوں کو وہ حرام اور ممنوع قرار دیتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اسلام کی ان خصال و صفات کے بیان کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا گیا جو کہ انکے بارے میں تورات اور انجیل میں بیان فرمائی گئی ہیں - { وَیَحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَات وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْخَبَائِثَ } - (الاعراف: 157) یعنی " وہ پیغمبر آخر الزماں لوگوں کیلئے پاکیزہ چیزوں کو حلال قرار دے گا اور گندی و ناپاک چیزوں کو حرام " ۔ تاکہ ایسے لوگ پاکیزہ خصال لوگ بن سکیں - فالحمد للہ جل وعلا - 464 " مَا اُھِلَّ " میں کلمۂ " ما " کا عموم وشمول : یعنی کلمہ " ما " کا عموم ایسی ہر چیز کو شامل ہے جس پر اللہ تعالی کے سوا اور کسی کا نام لیا گیا ہو ۔ خواہ وہ کوئی جانور ہو، یا غلہ، یا کھانا، یا مٹھائی وغیرہ۔ ان میں سے جس چیز کو بھی غیر اللہ کے تقرب اور خوشنودی کیلئے نذر و نیاز کے طور پر پیش کیا گیا ہو ، وہ حرام ہے۔ اور اس کا کھانا ، کھلانا ، دینا، وغیرہ سب حرام ہے ۔ جیسا کہ " البَحْرُ الرّائق " وغیرہ کتب فقہ میں اس کی تفصیلات مذکور و مندرج ہیں ۔ (معارف القرآن وغیرہ) - والعیاذ باللہ العظیم - اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ اور نذر و نیاز کی حرمت کی وجہ اس کی باطنی گندگی ہے، جو اس کے اندر غیر اللہ کے نام پر نامزد کردینے سے پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ دین حق اسلام کے اندر یہ حقیقت اپنی جگہ ایک مسلم اور واضح حقیقت ہے کہ شرک سب سے بڑی عقلی اور باطنی نجاست ہے۔ اس لیے اس کی چھوت کسی بھی پہلو سے جس کسی پاک چیز کو لگ جاتی ہے، وہ بھی اس کی بناء پر نجس اور ناپاک ہوکر رہ جاتی ہے - وََالْعِیَاذُ بِاللّٰہ العلی العظیم۔ اللہ ہر ناپاک ونجس چیز سے ہمیشہ محفوظ رکھے - آمین۔ 465 " اُھِلََّّ لِغَیْر اللّٰہ " کا معنی و مطلب ؟ : " اُھِلَّ " ماخوذ ہے " اِھلال " سے جس کے معنی رفع صوت کے آتے ہیں ۔ جو دراصل ماخوذ ہے " ھلال " سے جو کہ ابتدائی دنوں کے چاند کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔ کیونکہ عربوں میں زمانہء قدیم ہی سے یہ رواج چلا آتا تھا کہ وہ نئے چاند کے دیکھنے پر " الہلال الھلال واللہ " جیسی آوازیں اٹھایا کرتے تھے۔ پھر یہ لفظ مطلق رفع صوت یعنی آواز اٹھانے کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔ اسی لئے جب بچہ پیدا ہونے پر روتا، اور آواز لگاتا ہے ، تو اس پر کہتے ہیں " اَہَلَّ وَاسْتَہَلَّ " یعنی " بچہ رویا " ، یا " اس نے رونے کے آواز لگائی " ۔ سو اسی سے " مَا اُہِلَّ بِہٖ " کے یہ الفاظ ماخوذ ہیں ۔ یعنی جس چیز کو غیر اللہ کیلئے نامزد کر دیا جائے، جیسے مشرکین مکہ وغیرہ " لات " اور " عزی " وغیرہ بتوں کے ناموں سے نامزد کیا کرتے تھے۔ پس ایسی ہر شئی حرام ہے۔ کیونکہ ہر شئی کا خالق و مالک جب اللہ وحدہ لا شریک ہے، تو اس پر نام بھی صرف اسی کا لیا جانا چاہیئے اور خوشنودی بھی اسی وحدہ لاشریک کی مقصود ہونی چاہیئے۔ اس کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنا اور کسی چیز کو اس کے لئے نامزد کرنا شرک اور کھلا ظلم ہو گا - وََالْعِیَاذُ بِاللّٰہ العلی العظیم۔ اسی لئے صحیح احادیث میں غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کو لعنت کا موجب قرار دیا گیا۔ مثلاً صحیح مسلم کی ایک حدیث میں جو کہ حضرت علی - رضی اللہ عنہ - سے مروی ہے اور جس میں کئی چیزوں پر لعنت فرمائی گئی ہے، ان میں سے ایک ہے " وَلَعَنَََ اللّٰہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْر اللّٰہ " " اور خدا کی لعنت ہے اس پر جو غیر اللہ کیلئے ذبح کرے " (صحیح مسلم کتاب الاضاحی) ۔ امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اگر ذابح نے اس چیز کو غیر اللہ کی تعظیم کیلئے ذبح کیا تو یہ کفر ہوگا۔ اور ذابح اگر مسلمان تھا تو وہ کافر اور مرتد ہوجائیگا - وََالْعِیَاذُ بِاللّٰہ العلی العظیم۔ (بحوالہ کبیر ، محاسن التاویل) ۔ اور یہی بات دوسرے بہت سے ثقہ اہل علم نے تحریر فرمائی ہے، مثلاً( تفسیر کبیر ، جامع البیان ، نیسابوری ، تفسیر عزیزی، اور فتاوی عزیز یہ ج 1۔ ص 56) وغیرہ وغیرہ۔ پس اہل بدعت کا غیر اللہ کیلئے نامزد کی جانے والی چیز کو " عبداللہ کی گائے " ، " عقیقہ کا بکرا " اور " ولیمہ کا دنبہ " جیسی ، نسبتوں پر قیاس کر کے دھوکہ دینا سراسر باطل و مردود ہے ، کیونکہ ان میں سے کسی بھی چیز میں غیر اللہ کیلئے بطور تقرب و تعظیم نامزد کرنا، اور ذبح کرنا مقصود نہیں ۔ بلکہ یہ تو محض ملکیت کی نسبت ہوتی ہے ۔ جیسا کہ " عبداللہ کی گائے " میں ہے۔ یا دین کے ایک ثابت شدہ حکم و ارشاد کی تعمیل و تکمیل کے اعتبار سے ہوتا ہے ۔ جیسے " عقیقہ کا بکرا " اور " ولیمہ کا دنبہ " میں ہے۔ جیسا کہ ظاہر اور واضح ہے۔ سو ان نسبتوں کو غیر اللہ کے نام پر نذر کی جانے والی اشیاء سے ملانا محض خلط مبحث اور مغالطہ آمیزی ہے - وََالْعِیَاذُ بِاللّٰہ العلی العظیم۔ اللہ تعالی ہر طرح کی مغالطہ آمیزی اور اس کے اثرات سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور حق کو سمجھنے اور اپنانے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین۔ 466 " مضطر " کیلئے اکل حرام کی اجازت دو شرطوں کے ساتھ : سو " مضطر " کیلئے اکل حرام کی اس اِباحت و اجازت کی دو شرطیں ہو گئیں ۔ ایک یہ کہ اس میں بغاوت و سرکشی کا کوئی داعیہ اور شائبہ موجود نہ ہو ۔ اور وہ شوق و لذت کے طور پر کھانے والا نہ ہو ۔ اور دوسرے یہ کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز نہ کرے۔ بلکہ اسی قدر کھائے جس سے اس کی جان بچ سکے اور بس۔ کیونکہ ضرورت کو ضرورت کی حد تک ہی رکھنا ضروری ہوتا ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے " اَلضَّرُوْرَۃُ تُقَدَّرُ بِقَدْرِہَا " - یعنی " ضرورت کی چیز کو اسی قدر اپنایا اور اختیار کیا جائے گا جتنا کہ اس کی ضرورت ہو اور بس " اس سے زیادہ اس کو اپنانا جائز نہیں ۔ کہ ایسا کرنا حد سے تجاوز کرنا ہو گا جو کہ ممنوع و محرم ہے - والعیاذ باللہ العظیم -
No comments:
Post a Comment