Sunday 6 March 2022

کائنات کو پیدا کرنے کی حکمت اور کیفیت

کائِنات کیا ہے؟

کائِنات یعنی ہونے والا، موجودات، مخلوقات، جہان۔

القرآن:

اور وہی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے، اور جس دن وہ (روز قیامت سے) کہے گا کہ : تو ہوجا تو وہ ہوجائے گا۔ اس کا قول برحق ہے۔ اور جس دن صورت پھونکا جائے گا، اس دن بادشاہی اسی کی ہوگی (27) وہ غائب و حاضر ہر چیز کو جاننے والا ہے، اور وہی بڑی حکمت والا، پوری طرح باخبر ہے۔

[سورۃ 6 الانعام: آیت نمبر 73]

تفسیر:

26: یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو ایک برحق مقصد سے پیدا کیا ہے اور وہ مقصد یہ ہے کہ جو لوگ یہاں اچھے کام کریں انہیں انعام سے نوازا جائے اور جو لوگ بدکار اور ظالم ہوں انہیں سزا دی جائے یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب دنیوی زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہو جس میں جزاء اور سزا کا یہ مقصد پورا ہو اور آگے یہ بیان فرمایا ہے کہ اس مقصد کے لئے قیامت میں لوگوں کو دوبارہ زندگی دینا اللہ تعالیٰ کے لئے کچھ مشکل نہیں ہے، جب وہ چاہے گا تو قیامت کو وجود میں آنے کا حکم دے گا اور وہ وجود میں آجائے گی اور چونکہ وہ غائب و حاضر ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے اس لئے لوگوں کو مرنے کے بعد اکھٹا کرنا بھی اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے البتہ چونکہ وہ حکمت والا ہے اس لئے وہ اسی وقت قیامت قائم فرمائے گا جب اس کی حکمت کا تقاضا ہوگا۔

 27: اگرچہ دنیا میں حقیقی بادشاہی اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ لیکن یہاں ظاہری طور پر بہت سے حکمران مختلف ملکوں پر حکومت کرتے ہیں، لیکن صورت پھونکے جانے کے بعد یہ ظاہری حکومتیں بھی ختم ہوجائیں گی، اور ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہوگی۔

 





تخلیقِ کائنات کا مقصد: حق وعدل ہے باطل وکھیل نہیں۔

القرآن:

ان کو ہم نے حق (یعنی حکمت اور تدبیر) سے پیدا کیا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

[سورۃ الدخان: آیت 39]

اور ہم نے آسمان اور زمین کو جو اور (مخلوقات) ان دونوں کے درمیان ہے اس کو بےفائدہ اور کھیل-کود کے لئے پیدا نہیں کیا۔

[سورۃ الانبیاء، آیت 16]


تشریح:

تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ مخلوق کے وجود سے خالق کی ذات(وجود) اور صفات(خوبیوں اور قدرتوں) میں اکیلا ہونا یعنی توحید پر اِسْتِدْلال Inference کیا جائے۔

اور

لوگوں کے اعمال کی جانچ کی جائے تاکہ مستحقِ ثواب یا عذاب کو اس کا حق دیا جائے۔


یہ سب حق کے اظہار یعنی توحید کے ثبوت اور عدل کے قیام کیلئے ہے۔


لیکن اکثر لوگ چونکہ دنیا کی رونق میں غرق ہیں اور غور نہیں کرتے‘ اسلئے ان کو معلوم نہیں کہ اس آسمان و زمین اور درمیانی کائنات کی تخلیق اللہ کی ہستی اور توحید کو ثابت کرنے اور انسان کی جانچ کرنے کیلئے کی گئی ہے۔


اس آیت میں رد آگیا ان ساری بےعلم قوموں کا، جو یہ سمجھتی ہیں کہ یہ ساری کائنات محض ایک تماشہ(تفریح-دکھلاوے) کی جگہ ہے۔ اور خالق کائنات کو محض ایک میلہ رچانا (تماشہ کرنا) مقصود تھا۔

﴿ہم اللہ کی پناہ چاہتے ہیں﴾۔


قرآن مجید اس کی بار بار تردید کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس کارخانہ آفرینش سے بڑے بڑے اہم مقصود ہیں.....ان کی آفرینش میں بڑی بڑی غایتیں اور مصلحتیں پنہاں ہیں۔ اور ان میں سے ایک بڑی حکمت قانونِ مجازات اور مُکافات کا اجراء ونفاذ ہے۔ یعنی ثواب وعذاب کے مستحق کو آزمانا اور عدل کرنا ہے۔

لہٰذا کثرت سے لوگ عقیدہ آخرت ہی کے منکر ہیں اور جو مانتے ہیں ان میں بھی بہت سے عملاً اس کو اہمیت کو بھلائے ہوئے ہیں۔






الله کا ادب» ضروری علم:

القرآن:

اگر ہم ارادہ کرتے کہ کھیل (کی چیزیں یعنی زن وفرزند) بنائیں تو اگر ہمیں ایسا کرنا(مناسب)ہوتا تو ہم(خود) اپنے پاس سے (یعنی فرشتوں کو بیٹا اور حور کو بیوی) بنالیتے۔

[سورۃ الأنبياء، آیت نمبر 17]


لفظ "اگر" یعنی بالفرض suppose ۔۔۔۔ یہ لفظ ان چیزوں کے لئے بولا جاتا ہے جس کا کوئی وجود نہ ہو۔ یعنی کھیلنا حقیقت نہیں۔


لفظ "ارادہ" کے معنیٰ کسی چیز کی طلب میں کوشش کرنے کے ہیں اور ارادہ اصل میں اس قوت کا نام ہے جس میں خواہش ضرورت اور آرزو کے جذبات ملے جلے ہوں۔ اس سے ثابت ہوا کہ ایسا کرنا اللہ کی قدرت میں تو ہے لیکن اللہ اس احتیاط وضرورت کے عیب سے پاک ہے کہ ایسی نامناسب بات چاہے۔


لفظ "کھیل" کے اصلی اور معروف معنیٰ بیکاری کے مشغلہ کے ہیں جو کسی کو اہم کاموں سے ہٹائے اور باز رکھے۔ اسی کے مطابق مذکورہ تفسیر کی گئی ہے۔

بعض مفسرین نے فرمایا کہ لفظ کھیل کبھی بیوی کے لئے اور اولاد کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور یہاں یہ مراد لی جائے تو مطلب آیت کا بت پرست اور یہود و نصارٰی (عیسائیوں) پر رد کرنا ہوگا جو بتوں کو اللہ کی بیٹیاں(اولاد) اور پیغمبر عیسیٰ اور عزیر علیہما السلام کو اللہ کا بیٹا کہتے ہیں کہ اگر ہمیں کھیلنا یعنی بیوی اور اولاد ہی بنانا ہوتی تو مٹی کے مخلوق انسان کو کیوں بناتے؟ اپنے پاس کی مخلوق میں سے یعنی فرشتوں کو اولاد اور حور کو بیوی بنا لیتے۔ جبکہ ایسا بھی کچھ نہیں کیا۔

لہٰذا مشرکینِ مکہ کے عقیدے، فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، کا بھی رد ہوا کہ یہ بھی منگھڑت نظریہ اور بےدلیل جھوٹ ہے۔ اور انہیں یہ جواب بھی دیا گیا کہ اپنے لئے بیٹیوں کے بجائے بیٹے پسند کرتے ہو اور اللہ کیلئے اولاد بھی خود گھڑی کی تو بیٹیاں کیوں؟ 


لفظ "ہمارے پاس" سے عالمِ غیب کی چیزیں فرشتے اور بہشت کی مخلوق اور روحانیات کی چیزیں  جو پہلے ہی ہمارے پاس موجود، قریب، بےانتہاء، اعلی اور پائیدار ہیں۔ تو کیوں ہمیں کھیلنے کیلئے زمین و آسمان وغیرہ پیدا کرنے کی کیا ضرورت یے؟ کیا اتنی بھی عقل نہیں؟ بلکہ یہ تو بس منگھڑت اٹکلیں بنائے الٹے چلے جارہے ہیں۔


لہٰذا جو احمق ان تمام علویات(آسمانی مخلوقات) اور سفلیات(زمینی مخلوقات) اور مصنوعاتِ عجیبہ کو کھیل اور تماشہ سمجھتے ہیں کیا وہ اتنی بھی عقل نہیں رکھتے کہ اتنے بڑے بڑے کام کھیل اور تماشہ کے لئے نہیں ہوا کرتے یہ کام جس کو کرنا ہو وہ یوں نہیں کیا کرتا، اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ کھیل اور تماشہ کا کوئی کام بھی حق تعالیٰ کی عظمت شان تو بہت بلند و بالا ہے کسی اچھے معقول آدمی سے بھی متصور نہیں۔


لہٰذا ہم ایسا کرنے والے نہیں کیونکہ ہمارے لیے اولاد ہونا محال ہے اور اگر کھیلنا مقصد ہوتا تو ہم موت، دوبارہ اٹھنا، قیامت میں اعمال کا حساب، جنت کی جزا، جہنم کی سزا وغیرہ پیدا ہی نہ کرتے۔ بس کھیلتے ہی رہتے۔


آیت سے معلوم ہوا کہ تخلیقِ کائنات خود مخلوق ہی کے نفع ومصلحت کے لئے ہے۔





تخلیق اور آزمائش کا مقصد:

القرآن:

اور وہی ہے جس نے تمام آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا۔ جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔ (5) تاکہ تمہیں آزمائے کہ عمل کے اعتبار سے تم میں کون زیادہ اچھا ہے۔ (6) اور اگر تم (لوگوں سے) یہ کہو کہ تمہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا تو جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، وہ یہ کہیں گے کہ یہ کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں ہے۔

[سورۃ 11 ھود: آیت نمبر 7]




کائنات پیدا کرنے کی کیفیت:

اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللہ تعالیٰ ازل سے موجود تھا اور اس کے سوا کوئی چیز موجود نہ تھی اور اس کا عرش پانی پر(ہوا کی پشت) تھا۔ لوح محفوظ میں اس نے ہر چیز کو لکھ لیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا۔

[صحيح البخاري:3191 (المصنف - عبد الرزاق - ت الأعظمي:9089، تفسير عبد الرزاق:1185، السنة لابن أبي عاصم:584، المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية:3293+3306)]



زمانہ اور دنوں کی حدود:

حضرتِ ابو ھریرہؓ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ہفتے کے دن مٹی کو، اتوار کے دن اس مٹی میں پہاڑوں کو ، پیر کے دن درختوں کو، منگل کے دن ناپسندیدہ چیزوں کو ، بدھ کے دن نور کو اور جمعرات کے دن تمام چوپایوں کو پیدا فرمایا۔ اور سب سے آخر میں جمعہ کے دن کی آخری گھڑیوں میں عصرکے بعد رات سے پہلے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔

[مسند أحمد:8341 (مسند أبي يعلى:6132، مسند البزار:8228)]

نکات:

(1)دنیا کی تخلیق کی کیفیت اور ابتداء

[صحيح مسلم:2789]


(2)اس گھڑی کا تذکرہ جس میں اللہ تعالیٰ نے جمعہ کے دن آدم کو پیدا کیا۔

[صحيح ابن خزيمة:1731، صحيح ابن حبان:6161]


(3)‌‌‌‌تخلیق اور ایجاد کے اثبات پر عمل کرنے والے (اللہ کے صفاتی)  ناموں کا ذکر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اللہ ہر چیز کا "خالق" ہے}[سورۃ الرعد:16]

[الأسماء والصفات-البيهقي:36]


القرآن:

بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے بارے بارے آنے جانے میں ان عقل والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔

[سورۃ آل عمران:190]

بیشک آسمان اور زمین کی تخلیق میں رات دن کے لگاتار آنے جانے میں اور ان کشتیوں میں جو لوگوں کے فائدے کا سامان لیکر سمندر میں تیرتی ہیں اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا اور اس کے ذریعے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد زندگی بخشی اور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے، اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع دار بن کر کام میں لگے ہوئے ہیں، ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہی نشانیاں ہیں جو اپنی عقل سے کام لیتے ہیں۔

[سورۃ البقرۃ:164]




لک





ہر چیز پانی سے پیدا ہوئی۔

[مسند أحمد:7932+10399، المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية:7278]

یعنی اصل مادہٴ خلقت پانی کو بتایا گیا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے پانی(H2O) کو پیدا کیا، پھر اسی پانی سے آگ بھی بنائی، نور بھی بنایا، ہوا بھی بنائی، اور مٹی بھی بنائی، یعنی اسی سے جنات وشیاطین کو پیدا کیا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

.....اور پانی سے ہر جاندار چیز پیدا کی ہے ؟

[سورۃ الانبیاء:30]

یعنی ہر چیز کو پانی سے بنایا پھر اس پانی کو مختلف اجناس یعنی مٹی، آگ، نور، ہوا کو بنایا۔ اور پھر ان مادوں سے تمام جانداروں کو پیدا کیا۔ ملاحظہ ہو۔

[تفسیر کبیر: جز۲۴، ص:۱۶]

اس آیت نے واضح کردیا ہے کہ ہر جان دار چیز کی تخلیق میں پانی کا کوئی نہ کوئی دخل ضرور ہے۔



حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”فرشتوں کو نور(روشنی) سے پیدا کیا گیا، جنات کو آگ کے دہکتے شعلے سے پیدا کیا گیا اور آدم کو اس شے سے پیدا کیا گیا ہے، جس کی صفت (اللہ تعالیٰ نے) تمھیں بیان فرمائی ہے (یعنی خاک سے)“۔

[صحيح مسلم:2996، تفسير عبد الرزاق:1678 سورۃ الرحمن:15]


عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنْ ثَلَاثِ خِصَالٍ: عَنِ الشَّمْسِ، وَالْقَمَرِ، وَالنُّجُومِ، مِنْ أَيِّ شَيْءٍ خُلِقْنَ؟ فَقَالَ: حَدَّثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُنَّ ‌خُلِقْنَ ‌مِنْ ‌نُورِ الْعَرْشِ»

ترجمہ:

عبید اللہ بن ابی بکر بن انس سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالکؓ سے تین خصلتوں کے بارے میں پوچھا: سورج، چاند اور ستاروں کے بارے میں؟ انہوں نے کہا: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ عرش کے نور سے پیدا کیے گئے ہیں۔"

[المعجم الأوسط للطبراني:6062، العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني:4/ 1139، صفات رب العالمين - ابن المحب الصامت - ناقص:323 ]









انسان مختلف رنگوں کے کیوں؟

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کے ہر حصے سے ایک مٹھی مٹی لے کر اس سے آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا، چناچہ ان کی اولاد میں مٹی کی مناسبت سے کوئی لال، کوئی سفید، کالا اور ان کے درمیان مختلف رنگوں کے، اور نرم مزاج اور گرم مزاج، خبیث اور پاک باز لوگ پیدا ہوئے۔

[سنن ابو داؤد:4693، سنن الترمذی:2955]



حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی صورت بنائی تو انہیں چھوڑ دیا۔ ابلیس آکر اسے دیکھنے لگا۔ جب اس نے آدم کو اندر سے خالی دیکھا تو کہنے لگا: یہ ایسی مخلوق ہے جو اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکے گی۔

[مسند أبي داود الطيالسي:2136، مسند أحمد:13391، صحيح مسلم:2611]

اللہ پاک نے فرمایا:

اور پیدا کیا گیا ہے انسان کمزور۔

[سورۃ النساء:۲۸]



حضرت ابوہریرہؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا، ان کی لمبائی ساٹھ ہاتھ تھی۔ جب انہیں پیدا کر چکا تو فرمایا کہ جاؤ اور ان فرشتوں کو جو بیٹھے ہوئے ہیں، سلام کرو اور سنو کہ تمہارے سلام کا کیا جواب دیتے ہیں، کیونکہ یہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہو گا۔ آدم علیہ السلام نے کہا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ(سلامتی ہو آپ سب پر)! فرشتوں نے جواب دیا: السَّلَامُ عَلَيْكَ وَرَحْمَةُ اللَّهِ (اور سلامتی ہو آپ پر بھی اور اللہ کی رحمت بھی)، انہوں نے آدم کے سلام پر ”وَرَحْمَةُ اللَّهِ“ بڑھا دیا۔ پس جو شخص بھی جنت میں جائے گا آدم علیہ السلام کی صورت کے مطابق ہو کر جائے گاز۔“ اس کے بعد سے پھر خلقت کا قد و قامت کم ہوتا گیا، اب تک ایسا ہی ہوتا رہا۔

[صحيح البخاري:6227+3326، صحيح مسلم:2841، صحيح ابن حبان:6162]

جب اللہ نے آدمؑ کو پیدا کیا اور ان میں روح پھونک دی، تو ان کو چھینک آئی، انہوں نے «الحمد لله» (تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں) کہنا چاہا چنانچہ اللہ کی اجازت سے «الحمد لله» کہا، پھر ان سے ان کے رب نے کہا: «يَرْحَمُكَ اللَّهُ» (اللہ تم پر رحم فرمائے)، اے آدم! ان فرشتوں کی بیٹھی ہوئی جماعت کے پاس جاؤ اور ان سے السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہو، انہوں نے جا کر السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کیا، فرشتوں نے جواب دیا: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، پھر وہ اپنے رب کے پاس لوٹ آئے۔ اللہ نے فرمایا: یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا آپس میں طریقہ سلام و دعا ہے۔

پھر اللہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بند کر کے آدم سے کہا: ان میں سے جسے چاہو پسند کرلو، وہ کہتے ہیں: میں نے اللہ کے دایاں ہاتھ کو پسند کیا، اور حقیقت یہ ہے کہ میرے رب کے دونوں ہی ہاتھ داہنے ہاتھ ہیں اور برکت والے ہیں، پھر اس نے مٹھی کھولی تو اس میں آدم اور آدم کی ذریت تھی، آدمؑ نے پوچھا: اے میرے رب یہ کون لوگ ہیں؟ کہا یہ سب تیری اولاد ہیں اور ہر ایک کی عمر اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں لکھی ہوئی ہے، ان میں ایک سب سے زیادہ روشن چہرہ والا تھا، آدمؑ نے پوچھا: اے میرے رب یہ کون ہے؟ کہا یہ تمہارا بیٹا داود ہے، میں نے اس کی عمر چالیس سال لکھ دی ہے، آدمؑ نے کہا: اے میرے رب! اس کی عمر بڑھا دیجئیے، اللہ نے کہا: یہ عمر تو اس کی لکھی جا چکی ہے، آدمؑ نے کہا: اے میرے رب! میں اپنی عمر میں سے ساٹھ سال اسے دیئے دیتا ہوں، اللہ نے کہا: تم اور وہ جانو؟ چلو خیر، پھر آدمؑ جنت میں رہے جب تک کہ اللہ کو منظور ہوا، پھر آدمؑ جنت سے نکال باہر کردیئے گئے، آدمؑ اپنی زندگی کے دن گنا کرتے تھے، ملک الموت ان کے پاس آئے تو آدمؑ نے ان سے کہا: آپ تو جلدی آ گئے میری عمر تو ہزار برس لکھی گئی ہے، ملک الموت نے کہا: ہاں (بات تو صحیح ہے) لیکن آپ نے تو اپنی زندگی کے ساٹھ سال اپنے بیٹے داود کو دے دیے تھے، تو انہوں نے انکار کردیا آدمؑ کے اسی انکار کا نتیجہ اور اثر ہے کہ ان کی اولاد بھی انکار کرنے لگ گئی، آدمؑ بھول گئے، ان کی اولاد بھی بھولنے لگ گئی، اسی دن سے حکم دے دیا گیا ساری باتیں لکھ لی جایا کریں اور گواہ بنا لیے جایا کریں۔

[جامع الترمذي:3368، صحيح ابن حبان:6167]

جب اللہ نے آدم کو پیدا کیا اور ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ان کی اولاد کی وہ ساری روحیں باہر آ گئیں جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔۔۔۔۔

[جامع الترمذي:3076]





عورتوں کے بارے میں (بھلائی کی) میری وصیت کا ہمیشہ خیال رکھنا، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔ {وه کبھی تجھ سے سیدھی چال نہ چلے گی تو اس سے کام لے تو لیے جا اور وہ ٹیڑھی کی ٹیرھی رہے گی}، پسلی میں بھی سب سے زیادہ ٹیڑھا اوپر کا حصہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اسے بالکل سیدھی کرنے کی کوشش کرے تو انجام کار توڑ کے رہے گا {اور اس کا توڑنا طلاق ہے۔} اور اگر اسے وہ یونہی چھوڑ دے گا تو پھر ہمیشہ ٹیڑھی ہی رہ جائے گی۔ پس عورتوں کے بارے میں میری نصیحت مانو، عورتوں سے اچھا سلوک کرو۔

[صحيح البخاري:3331، صحيح مسلم:1468(3643+3644+3650)، {صحيح ابن حبان:4179]






مزید تفصیل کیلئے کتاب "کائنات کیسے وجود میں آئی" ملاحظہ فرمائیں، جسے یہاں سے مفت ڈاون لوڈ کریں:

https://besturdubooks.net/kainat-kaisay-wajood-mein-aai/








Friday 4 March 2022

کس کیلئے دنیا آخرت کی کھیتی ہے؟


دنیا نام ہے ادنیٰ چیز کا۔

دنیا کے لغوی معنیٰ ادنیٰ اور قریبی(جلدی والی) چیز کے ہے۔

[مفردات القرآن:صفحہ318»سورۃ البقرۃ:63، الاسراء:18]



دنیا کی حقیقت:

حضرت علی ؓ نے فرمایا:

«حَلَالُهَا حِسَابٌ، وَحَرَامُهَا عَذَابٌ»

ترجمہ:

جس کے حلال میں حساب، اور جس کے حرام میں عذاب ہے۔

[الزهد لأبي داود:109، الزهد لابن أبي الدنيا:18]

القرآن:

اور تم کو جو نعمت بھی حاصل ہوتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی سے فریادیں کرتے ہو۔ اس کے بعد جب وہ تم سے تکلیف دور کردیتا ہے تو تم میں سے ایک گروہ اچانک اپنے پروردگار کے ساتھ شرک شروع کردیتا ہے۔ تاکہ ہم نے اسے جو نعمت دی تھی اس کی ناشکری کرے۔ اچھا ! کچھ عیش کرلو، پھر عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا۔

[سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 53-55 (تفسير التستري)]






دنیا نام مٹنے والی چیزوں کا۔

حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا دُوَيْدٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زُرْعَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدُّنْيَا دَارُ مَنْ لَا دَارَ لَهُ، وَمَالُ مَنْ لَا مَالَ لَهُ، وَلَهَا يَجْمَعُ مَنْ لَا عَقْلَ لَهُ.

ترجمہ:

حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: دنیا گھر ہے اس شخص کا جس کا کوئی گھر نہ ہو، اور مال ہے اس شخص کا جس کا کوئی مال نہ ہو، اور دنیا کے لئے وہی جمع کرتا ہے جس کے پاس عقل نہ ہو۔

[مسند احمد:24419]

وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ دُوَيْدٍ، وَهُوَ ثِقَةٌ.

[مجمع الزوائد للهيثمي:18078]

[ذم الدنيا، لابن ابي الدنيا:182]


القرآن:

اس زمین میں جو کوئی ہے، فنا ہونے والا ہے۔

[سورۃ الرحمٰن:26]

جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ سب ختم ہوجائے گا ، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے ۔ اور جن لوگوں نے صبر سے کام لیا ہوگا، ہم انہیں ان کے بہترین کاموں کے مطابق ان کا اجر ضرور عطا کریں گے۔ 

[سورۃ النحل:96]




حديث عائشة: أخرجه أحمد (6/71، رقم 24464) ، قال الهيثمى (10/288) : رجاله رجال الصحيح غير دويد، وهو ثقة. والبيهقى فى شعب الإيمان (7/375، رقم 10638) . وأخرجه أيضًا: الديلمى (2/230، رقم 3109) .

حديث ابن مسعود الموقوف: أخرجه البيهقى فى شعب الإيمان (7/375، رقم 10637) ، وأخرجه أيضًا: أحمد فى الزهد (1/161) . قال المناوى (3/546) : قال المنذرى والحافظ العراق

ى: إسناده جيد

القرآن:
























(1)

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ خَوْلَةَ بِنْتَ قَيْسٍ،‏‏‏‏ وَكَانَتْ تَحْتَ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‏‏‏‏‏‏تَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏  إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ مَنْ أَصَابَهُ بِحَقِّهِ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِيمَا شَاءَتْ بِهِ نَفْسُهُ مِنْ مَالِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ لَيْسَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا النَّارُ ،‏‏‏‏ قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو الْوَلِيدِ اسْمُهُ:‏‏‏‏ عُبَيْدُ سَنُوطَا.

ترجمہ:

حمزہ بن عبدالمطلب کی بیوی خولہ بنت قیس ؓ کہتی ہیں کہ  میں نے رسول اللہ  ﷺ  کو یہ فرماتے ہوئے سنا:  یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے  جس نے اسے حلال طریقے سے حاصل کیا اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور کتنے ایسے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مال کو حرام وناجائز طریقہ سے حاصل کرنے والے ہیں ان کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ تیار ہے ۔   

 امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

[جامع ترمذی» کتاب:-گواہیوں کا بیان»ب اب:-حق کے ساتھ مال لینے کے متعلق»ح دیث نمبر: 2374]


اصول:

قرآن وسنت میں جہاں بھی دنیا کی مذمت کی گئی ہے، وہاں احکام الہی سے غافل کرنے والی اور آخرت کو نقصان پہنچانے والی چیزیں/باتیں مراد ہیں۔




حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ سَنُوطَا يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ خَوْلَةَ بِنْتَ قَيْسٍ وَقَدْ قَالَ خَوْلَةُ الْأَنْصَارِيَّةُ الَّتِي كَانَتْ عِنْدَ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى حَمْزَةَ بَيْتَهُ فَتَذَاكَرُوا الدُّنْيَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الدُّنْيَا خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا بُورِكَ لَهُ فِيهَا وَرُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِي مَالِ اللَّهِ وَمَالِ رَسُولِهِ لَهُ النَّارُ يَوْمَ يَلْقَى اللَّهَ

ترجمہ:

حضرت خولہ بنت قیس جو حضرت حمزہ کی اہلیہ تھیں، سے مروی ہے کہ ایک دن نبی حضرت حمزہ کے پاس تشریف لائے اور دنیا کا تذکرہ ہونے لگا، نبی نے فرمایا: دنیا سرسبز و شیریں ہے، جو شخص اسے اس کے حق کے ساتھ حاصل کرے گا اس کے لئے اس میں برکت ڈال دی جائے گی اور اللہ اور اس کے رسول کے مال میں بہت سے (ناحق)گھسنے والے ایسے ہیں جنہیں اللہ سے ملنے کے دن جہنم میں داخل کیا جائے گا۔

[مسند احمد» حضرت خولہ بنت حکیم کی حدیثیں» حدیث نمبر: 26098]










حَدَّثَنَا أَسْوَدُ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الدُّنْيَا خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ آتَيْنَاهُ مِنْهَا شَيْئًا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنَّا وَطِيبِ طُعْمَةٍ وَلَا إِشْرَاهٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ آتَيْنَاهُ مِنْهَا شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ مِنَّا وَغَيْرِ طِيبِ طُعْمَةٍ وَإِشْرَاهٍ مِنْهُ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ

ترجمہ:

حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ دنیا سرسبز اور شیریں ہے، سو جسے ہم کوئی چیز اپنی خوشی سے اور اچھے کھانے کی دے دیں جس میں اس کی بے صبری شامل نہ ہو تو اس کے لئے اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور جس شخص کو ہم اس میں سے کوئی چیز اپنی خوشی کے بغیر اور اچھے کھانے کے علاوہ دیدیں جس میں اس کی بےصبری بھی شامل ہو تو اس کے لئے اس میں برکت نہیں ڈالی جاتی۔

[مسند احمد» ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی مرویات» حدیث نمبر: 23302]









(2)حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دنیا متاع یعنی سامان ہے اور دنیا کا بہترین مال ومتاع نیک بیوی ہے۔

[صحيح مسلم:1467، صحيح ابن حبان:4031]


وضاحت:

کیونکہ نیک بیوی دین اور آخرت کی باتوں میں معاون ومددگار ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اللہ سے غافل کرنے اور آخرت کی بربادی کا سبب بننے والی نہیں ہوتی۔

القرآن:

اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ (1)وہ نیکی کی تلقین کرتے ہیں اور (2)برائی سے روکتے ہیں، اور (3)نماز قائم کرتے ہیں اور (4)زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور (5)اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا۔ یقینا اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔

[سورۃ التوبۃ:71]





القرآن:

جو لوگ (صرف) دنیوی زندگی اور اس کی زینت(سج دھج) چاہتے ہیں، ہم ان کے اعمال کا پورا پورا صلہ اسی دنیا میں بھگتا دیں گے، اور یہاں ان کے حق میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

[سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 15]

القرآن:

اور تم کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ دنیوی زندگی کی پونجی اور اس کی سجاوٹ ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔ کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے؟

[سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 60]


تفسیر:

کافر لوگ جو آخرت پر تو ایمان نہیں رکھتے، اور جو کچھ کرتے ہیں، دنیا ہی کی خاطر کرتے ہیں، ان کی نیکیوں، مثلا صدقہ خیرات وغیرہ کا صلہ دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے، آخرت میں ان کا کوئی ثواب نہیں ملتا، کیونکہ ایمان کے بغیر آخرت میں کوئی نیکی معتبر نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان کوئی نیک کام صرف دنیوی شہرت یا دولت وغیرہ حاصل کرنے کے لیے کرے تو اسے دنیا میں تو وہ شہرت یا دولت مل سکتی ہے۔ لیکن اس نیکی کا ثواب آخرت میں نہیں ملتا۔ بلکہ واجب عبادتوں میں اخلاص کے فقدان کی وجہ سے الٹا گناہ ہوتا ہے۔ آخرت میں وہی نیکی معتبر ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کی گئی ہو۔


القرآن:

اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہو کہ : اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ تحفے دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں۔

[سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 28]


دنیا وہ ہے جو اللہ کے ذکر (یاد ونصیحت) سے غافل کرے اور نماز کو ضایع کرے۔

القرآن :

فلاح اس نے پائی ہے جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ اور اپنے پروردگار کا نام لیا، اور نماز پڑھی۔ لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔

[سورۃ نمبر 87 الأعلى، آیت نمبر 14-16]

 (1)حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:

بےشک (رب کے احکام سے غافل کرنے والی) دنیا ملعون (یعنی رحمتِ الٰہی سے محروم) ہے، اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ سب بھی ملعون ہے، سوائے (1) اللہ کی یاد اور (2)اس چیز کے جو اس کے قریب کرے(یعنی مساجد مدارس)، اور (3)عالم اور (4)متعلم (علم سیکھنے والے) کے۔

[ترمذی:2322، ابن ماجہ:4112]

۔۔۔سوائے اس کے جو ہو اس میں الله عزوجل کیلئے۔
[الزھد-احمد:154]

۔۔۔سوائے الله کی رضا کی تلاش کے۔
[الزھد ابن ابی عاصم:127]

۔۔۔سوائے نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کے۔۔۔
[مسند البزار:1736]

اور(باقی)سب لوگ وحشی(جانور)ہیں ان میں کوئی خیر نہیں۔
[الزھد-ابن المبارک:543]

تفسیر القرطبي»سورة الأنعام:32

ک