Thursday 25 July 2024

...تم ہی سربلند رہو گے اگر تم ہو(سچے) مومن۔[سورۃ آل عمران:139]

مسلمانوں کی سربلندی کا سبب»ایمان رکھنا۔

القرآن:

(مسلمانو) تم نہ تو کمزور پڑو، اور نہ غمگین رہو، اگر تم واقعی مومن رہو تو تم ہی سربلند ہوگے۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران،آیت نمبر 139]

تفسیر:

جنگ احد کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ شروع میں مسلمان کافر حملہ آوروں پر غالب آگئے اور کفار کا لشکر پسپا ہونے پر مجبور ہوگیا، آنحضرت ﷺ نے جنگ شروع ہونے سے پہلے پچاس تیر انداز صحابہ کا ایک دستہ میدان جنگ کے ایک عقبی ٹیلے پر متعین فرمایا تھا، تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ نہ کرسکے، جب دشمن پسپا ہوا اور میدان جنگ خالی ہوگیا تو صحابہ نے اس کا چھوڑا ہوا ساز و سامان مال غنیمت کے طور پر اکھٹا کرنا شروع کردیا، تیر اندازوں کے اس دستے نے جب یہ دیکھا کہ دشمن بھاگ چکا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ اب ہماری ذمہ داری پوری ہوچکی ہے اور ہمیں مال غنیمت جمع کرنے میں حصہ لینا چاہیے، ان کے امیر حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے ٹیلہ چھوڑنے کی مخالفت کی، مگر ان میں سے اکثر نے وہاں ٹھہرنے کو بےمقصد سمجھ کر ٹیلہ چھوڑدیا، دشمن نے جب دور سے دیکھا کہ ٹیلہ خالی ہوگیا ہے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں مشغول ہوگئے ہیں تو انہوں نے موقع پاکر ٹیلے پر حملہ کردیا، حضرت عبداللہ بن جبیر ؓ اور ان کے چند ساتھیوں نے اپنی بساط کے مطابق ڈٹ کر مقابلہ کیا، مگر سب شہید ہوگئے اور دشمن اس ٹیلے سے اتر کر ان بیخبر مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا جو مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف تھے، یہ حملہ اس قدر غیر متوقع اور ناگہانی تھا کہ مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے، اسی دوران کسی نے یہ افواہ اڑادی کہ آنحضرت ﷺ شہید ہوگئے ہیں، اس افواہ سے بہت سے مسلمانوں کے حوصلے جواب دے گئے، ان میں سے بعض میدان چھوڑ گئے، بعض جنگ سے کنارہ کش ہو کر ایک طرف کھڑے رہ گئے، البتہ آنحضرت ﷺ کے جاں نثار صحابہ کی ایک جماعت آپ کے ارد گرد مقابلہ کرتی رہی، کفار کا نرغہ اتنا سخت تھا کہ اس کشمکش میں آنحضرت ﷺ کا مبارک دانت شہید ہوگیا اور چہرہ مبارک لہو لہان ہوگیا، بعد میں جب صحابہ کو پتہ چلا کہ آپ کی شہادت کی خبر غلط تھی اور ان کے حواس بجا ہوئے تو ان میں سے بیشتر میدان میں لوٹ آئے، اور پھر کفار کو بھاگنا پڑا ؛ لیکن اس درمیانی عرصے میں ستر صحابہ کرام ؓ شہید ہوچکے تھے، ظاہر ہے کہ اس واقعے سے تمام مسلمانوں کو شدید صدمہ ہوا، قرآن کریم ان آیتوں میں انہیں تسلی بھی دے رہا ہے کہ یہ زمانے کے نشیب و فراز ہیں جن سے مایوں اور دل شکستہ نہ ہونا چاہیے، اور اس طرف بھی متوجہ کررہا ہے کہ یہ شکست کچھ غلطیوں کا نتیجہ تھی جس سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔


Wednesday 24 July 2024

بائیکاٹ-قطع تعلق کے معنیٰ، مقاصد، اقسام اور دلائل

 بائیکاٹ(boycott) کے معنیٰ:

مقاطعہ کرنا۔ مواصلات ترک کرنا ۔ تَعلُقات توڑ دینا ۔ ملنا جلنا ترک کرنا۔

بائیکاٹ(boycott) کے مقاصد:
(1)ظالم کی قوت توڑنا۔ (2)برائی سے باز رہنے کیلئے پریشر ڈالنا۔

بائیکاٹ(boycott) کے اقسام:
(1)معاشی (2)معاشرتی۔

یہ بات واضح  رہے کہ موجودہ زمانے میں کسی بھی قوم و ملت کی سیاسی اور عسکری برتری  کی بنیاد معاشی ترقی اور معاشی برتری پر ہے، جب تک معاشی طور پر کوئی قوم مضبوط اور مختار نہ ہو اس وقت تک  وہ سیاسی اور عسکری طور پر کمزور ہوتی ہے، یہ بات ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ موجودہ زمانے میں اگر کسی قوم کو کمزور کرنا ہو تو سب سے پہلے ان کی معیشت کو کمزور کیا جائے اور موجودہ زمانے میں اس کا مؤثر طریقہ کار ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہے جس سے (1)ان کی معیشت پر خاطر خواہ اثر پڑتا ہے (2)اور مظلوم کے ساتھ یک جہتی اور ہمدردی کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ مسلمانوں نے اس طریقہ کار  کو  ماضی قریب میں بھی اپنایا جب انگریزوں نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے لیے ان کے خلاف جنگ کا آغاز کیا تو غیر منقسم ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف تحریکِ خلافت اور ترکِ موالات کی تحریک  چلائی، اسی طرح خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کفارِ قریش کے زور کو توڑنے کےلیے ان کے تجارتی قافلوں کے راستے جس پر شام سے مکہ اور مکہ سے شام تجارتی قافلوں کی آمد و رفت ہوتی تھی کو غیر محفوظ بنایا جس کے نتیجے میں غزوہ بدر  پیش آیا۔
[حوالہ»سورۃ الانفال:7، صحیح بخاری:3950+3951، صحیح مسلم:4915، سنن ابوداؤد:2618]
[صحیح مسلم:1935(4999)، سنن ابوداؤد:3840]
اسی طرح جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بنونضیر کا محاصرہ کیا اور ان کے قلعے فتح نہیں ہورہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے درختوں کے جلانے حکم دیا۔ اسی طرح جب حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ، جو نجد کے سردار تھے اور کفار قریش کو گندم فروخت کیا کرتے تھے، نے اسلام قبول کیا تو انہوں نے کفارِ قریش پر گندم فروخت کرنا بند کردیا تھا۔
[حوالہ»سورۃ الحشر:5، صحیح بخاری:4372+4589، صحیح مسلم:1764(4589)، السنن الکبریٰ للبیھقی:12835+18030]

اسی طرح جب صلحِ حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم  نے حضرت ابوجندل رضی اللہ عنہ کو اور  صلحِ حدیبیہ کے بعد حضرت ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو واپس کیا جو کفارِ مکہ کی قید سے بھاگ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس پہنچے تھے تو انہوں نے مکہ سے شام جانے والے ایک راستے پر اقامت اختیار کی اور اس راستے سے کفار مکہ کا جو بھی تجارتی قافلہ گزرتا اس پر حملہ کردیتے جس سے کفار کی  قافلوں کی آمد و رفت بند ہوگئی۔
[حوالہ»صحیح بخاری:2731-2733+4182، سنن ابوداؤد:2765، السنن الکبریٰ للبیھقی:18833، المعجم الاوسط للطبرانی:15]
مذکورہ واقعات  اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ کفار کی ان تجارتی اداروں اور مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا جو مسلمانوں کے خلاف  جنگ میں اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہیں  کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے سے یہ طریقہ چلا آرہا ہے اور ایمانی حمیت بھی اسی کا متقاضی ہے۔

تفصیلی حوالا جات:

بخاری شریف میں ہے:

"أنه لما كاتب رسول الله صلى الله عليه وسلم سهيل بن عمرو يوم الحديبية على قضية المدة، وكان فيما اشترط سهيل بن عمرو أنه قال: لا يأتيك منا أحد وإن كان على دينك إلا رددته إلينا، وخليت بيننا وبينه. وأبى سهيل أن يقاضي رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا على ذلك، فكره المؤمنون ذلك وامعضوا، فتكلموا فيه، فلما أبى سهيل أن يقاضي رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا على ذلك، كاتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرد رسول صلى الله عليه وسلم أبا جندل بن سهيل يومئذ إلى أبيه سهيل ابن عمرو، ولم يأت رسول الله صلى الله عليه وسلم أحد من الرجال إلا رده في تلك المدة، وإن كان مسلما."

(کتاب المغازي، باب:غزوۃ الحدیبیة، ج:4، ص:1532، ط:دار ابن کثیر دمشق)

وفیه أیضا:

"بعث النبي صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد، فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال، فربطوه بسارية من سواري المسجد، فخرج إليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال: (ما عندك يا ثمامة). فقال: عندي خير يا محمد، إن تقتلني تقتل ذا دم، وإن تنعم تنعم على شاكر، وإن كنت تريد المال، فسل منه ما شئت. فترك حتى كان الغد، فقال: (ما عندك يا ثمامة). فقال: ما قلت لك، إن تنعم تنعم على شاكر فتركه حتى كان بعد الغد  فقال: ما عندك يا ثمامة فقال: عندي ما قلت لك فقال: (أطلقوا ثمامة). فانطلق إلى نخل قريب من المسجد، فاغتسل ثم دخل المسجد، فقال: أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا رسول الله، يا محمد، والله ما كان على الأرض وجه أبغض إلي من وجهك، فقد أصبح وجهك أحب الوجوه إلي، والله ما كان من دين أبغض إلي من دينك، فأصبح دينك أحب دين إلي، والله ما كان من بلد أبغض إلي من بلدك، فأصبح بلدك أحب البلاد إلي، وإن خيلك أخذتني، وأنا أريد العمرة، فماذا ترى؟ فبشره رسول الله صلى الله عليه وسلم وإمرة أن يعتمر، فلما قدم مكة قال له قائل: صبوت، قال: لا، ولكن أسلمت مع محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا والله، لا يأتيكم من اليمامة حبة حنطة حتى يأذن فيها النبي صلى الله عليه وسلم."

(کتاب المغازي، باب:وفد بني حنیفة و حدیث ثمامة  ابن أثال، ج:4،ص:1589، ط:دار ابن کثیر دمشق)

السیرۃ الحلبیہ میں ہے:

"يريد عيرا لقريش متوجهة للشام. يقال إن قريشا جمعت جميع أموالها في تلك العير لم يبق بمكة لا قرشي ولا قرشية له مثقال فصاعدا إلا بعث به في تلك العير إلا حويطب بن عبد العزى، يقال إن في تلك العير خمسين ألف دينار أي وألف بعير. وكان فيها أبو سفيان، أي قائدها. وكان معه سبعة وعشرون وقيل تسعة وثلاثون رجلا منهم مخرمة بن نوفل، وعمرو بن العاص، وهي العير التي خرج إليها حين رجعت من الشام. وكان سببا لوقعة بدر الكبرى كما سيأتي."

(باب ذكر مغازيه صلی اللہ علیه و سلم، غزوۃ العشیرۃ، ج:2، ص:175، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)

وفیه أیضا:

"ثم إن العير التي خرج صلى الله عليه وسلم في طلبها حتى بلغ العشيرة ووجدها سبقته بأيام لم يزل مترقبا قفولها: أي رجوعها من الشأم، فلما سمع بقفولها من الشام ندب المسلمين» أي دعاهم وقال: «هذه عير قريش فيها أموالهم فاخرجوا إليها لعل الله أن ينفلكموها، فانتدب ناس» ، أي أجابوا «وثقل آخرون أي لم يجيبوا لظنهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يلق حربا، ولم يحتفل لها رسول الله صلى الله عليه وسلم أي لم يهتم بها، بل قال «من كان ظهره» : أي ما يركبه «حاضرا فليركب معنا» ولم ينتظر من كان ظهره غائبا عنه."

(باب ذكر مغازیه صلی اللہ علیه و سلم، باب غزوۃ بدر الکبری، ج:2، ص:197، ط: دارالکتب العلمیۃ بیروت)

وفیه أیضا:

"وأمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقطع النخل، أي وبحرقها بعد أن حاصرهم ست ليال وقيل خمسة عشر يوما: أي وقيل عشرين ليلة، وقيل ثلاثا وعشرين ليلة، وقيل خمسا وعشرين ليلة. وكان سعد بن عبادة رضي الله تعالى عنه في تلك المدة يحمل التمر للمسلمين: أي يجاء به من عنده. قال: واستعمل رسول الله صلى الله عليه وسلم على قطع النخل أبا ليلى المازني وعبد الله بن سلام. وكان أبو ليلى يقطع العجوة وعبد الله يقطع اللين."

(باب مغازیه صلی اللہ علیه و سلم، غزوۃ بني النضیر، ج:2، ص:359، ط:دارالکتب العلمیة بیروت)

نورالیقین فی سیرۃ سید المرسلین میں ہے:

"وقد تمكن أبو بصير عتبة بن أسيد الثقفي رضي الله عنه من الفرار إلى رسول الله، فأرسلت  قريش في أثره رجلين يطلبان تسليمه، فأمره عليه الصلاة والسلام بالرجوع معهما، فقال يا رسول الله: أتردّني إلى الكفّار يفتنونني في ديني بعد أن خلصني الله منهم؟! فقال: إن الله جاعل لك ولإخوانك فرجا، فلم يجد بدّا من اتّباعه، فرجع مع صاحبيه، ولمّا قارب ذا الحليفة عدا على أحدهما فقتله، وهرب منه الاخر، فرجع إلى المدينة وقال: يا رسول الله وفت ذمتك أما أنا فنجوت، فقال له اذهب حيث شئت ولا تقم بالمدينة، فذهب إلى محل بطريق الشام تمرّ به تجارة قريش، فأقام به، واجتمع معه جمع ممن كانوا مسلمين بمكّة ونجوا، وسار إليه أبو جندل بن سهيل، واجتمع إليه جمع من الأعراب، وقطعوا الطريق على تجارة قريش حتى قطعوا عنهم الأمداد."

(السنة السادسة، صلح الحدیبیة، ص:172، ط:دارالفیحاء دمشق)

فقط واللہ اعلم

Saturday 20 July 2024

عطیہ، ھدیہ، ھِبہ، تحفہ لینے دینے کے آداب

 

ھدیہ دینے والے کے آداب»

(1)اخلاص سے ہدیہ دینا۔

محبت بڑھانے کا نسخہ

حضرت ابوھریرہ ؓ ﴿عائشہ ؓ﴾ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

تهادوا تحابوا ﴿وتذهب الشحناء﴾ إن الهدية تذهب وحر الصدر

ترجمہ:

آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس سے آپس میں محبت ﴿زیادہ﴾ ہوگی۔ ﴿اور عداوت ختم ہوگی﴾۔ کیونکہ ہدیہ دل کا کینہ و عداوت ختم کرتا ہے۔
[الصحيحة:2306،  الإرواء الغليل:1601]

[مسند احمد:9239، الادب المفرد-للبخاري:594، سنن الترمذي:2130، مسند الطيالسى:2333، مسند ابويعلي:6148، شعب الإيمان-للبیھقي:8976، السنن الکبریٰ للبیھقی:11946+11947]

﴿موطا مالک:694، مشكاة المصابيح:4693﴾

﴿جامع الاحاديث-للسيوطي:11015+11016﴾


Friday 12 July 2024

دین کیا ہے؟ اور دیندار کون؟


دین کے معانی

دین کے مختلف معانی ہیں:

(1) طاعت یعنی اپنے اختیار سے فرمانبرادی ہے، قرآن میں ہے :۔ 

إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ
بےشک دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔
[سورۃ آل عمران:19]

(2) جزا یعنی بدلہ، ایک جگہ قرآن مجید میں ہے:
مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ
بدلہ والے دن کا مالک ہے۔
[سورۃ الفاتحہ:4]

(3) شریعت یا طریقت یعنی زندگی گذارنے کا اصول و ضابطہ، قرآن میں ہے:-
شَرَعَ لَكُمْ مِنَ الدِّينِ۔۔۔
اس(اللہ)نے تمہارے لیے دین کا رستہ مقرر کیا۔
[سورۃ الشوریٰ:13]

لفظ شریعت کا مادہ ش۔ر۔ع ہے اور اس کا لغوی معنی ہے وہ سیدھا راستہ جو واضح ہو۔

[امام راغب اصفهانی، مفردات القرآن : 259]



گگگگگگ

Wednesday 10 July 2024

بھوک (الجوع) کے فضائل


بھوک کی آزمائش کس کیلئے اور کیوں؟

القرآن:

اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155]




مومن کی خوبی» ایک آنت میں کھانا۔

حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ﴿حضرت ابوھریرہ ؓ﴾سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

الْمُؤْمِنُ﴿الْمُسْلِمُ﴾ يَأْكُلُ﴿يَشْرَبُ﴾ فِي مِعًى وَاحِدٍ وَالْكَافِرُ﴿وَالْمُنَافِقُ﴾ يَأْكُلُ ﴿يَشْرَبُ﴾ فِي سَبْعَةِ أَمْعَاءٍ

ترجمہ:

 مومن﴿مسلمان﴾ ایک آنت میں کھاتا ﴿پیتا﴾ ہے اور کافر﴿اور منافق﴾ سات آنت میں کھاتا ﴿پیتا﴾ ہے۔

[صحیح مسلم:5379(2060)، سنن الترمذي:1819، موطا مالک:1648، مسند احمد:8866+18982، صحیح ابن حبان:162، مسند ابویعلیٰ:1574]

﴿صحیح ابن حبان:161+5238، مسند احمد:7497+9874﴾

﴿المعجم الكبير-الطبراني:6959، صحیح البخاري:5394﴾


القرآن:

۔۔اور جنہوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ (یہاں تو) مزے اڑا رہے ہیں، اور اسی طرح کھا رہے ہیں جیسے چوپائے کھاتے ہیں ۔۔۔

[تفسیر ابن کثیر»سورۃ محمد:12]


وضاحت:

علماء نے اس کی مختلف توجیہیں کی ہیں: (1) مومن اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرتا ہے، اسی لیے کھانے کی مقدار اگر کم ہے تب بھی اسے آسودگی ہوجاتی ہے، اور کافر چونکہ اللہ کا نام لیے بغیر کھاتا ہے اس لیے اسے آسودگی نہیں ہوتی، خواہ کھانے کی مقدار زیادہ ہو یا کم۔

(2) مومن دنیاوی حرص طمع سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے، اسی لیے کم کھاتا ہے، جب کہ کافر حصولِ دنیا کا حریص ہوتا ہے اسی لیے زیادہ کھاتا ہے۔

(3)مومن آخرت کے خوف سے سرشار رہتا ہے اسی لیے وہ کم کھا کر بھی آسودہ ہوجاتا ہے، جب کہ کافر آخرت سے بےنیاز ہو کر زندگی گزارتا ہے، اسی لیے وہ بےنیاز ہو کر کھاتا ہے، پھر بھی آسودہ نہیں ہوتا۔

Tuesday 9 July 2024

پل صراط کا بیان

القرآن:

اور تم میں سے کوئی نہیں ہے جس کا اس پر گزر نہ ہو۔ اس بات کا تمہارے پروردگار نے حتمی طور پر ذمہ لے رکھا ہے۔

[سورۃ نمبر 19 مريم، آیت نمبر 71]


«يَرِدُ النَّاسُ النَّارَ ثمَّ يصدون مِنْهَا بِأَعْمَالِهِمْ فَأَوَّلُهُمْ كَلَمْحِ الْبَرْقِ ثُمَّ كَالرِّيحِ ثُمَّ كَحُضْرِ الْفَرَسِ ثُمَّ كَالرَّاكِبِ فِي رَحْلِهِ ثُمَّ كَشَدِّ الرَّجُلِ ثُمَّ كَمَشْيِهِ»

تمام لوگ آگ (پل صراط) پر وارد ہوں گے، پھر وہ اپنے اعمال کے مطابق وہاں سے پار ہوں گے، ان میں سے سب سے پہلے بجلی چمکنے کی مانند گزر جائیں گے، پھر ہوا کی مانند، پھر تیز رفتار گھوڑے کی مانند، پھر سواری پر سوار کی مانند، پھر دوڑنے والے آدمی کی مانند اور پھر پیدل چلنے والے کی مانند (اس پل سے گزریں گے جو کہ جہنم پر نصب ہو گا)۔

[سنن الترمذي:3159، احمد:4141، الحاكم:8741، الدارمي:2810، الصحیحہ:311]

موسوعة التفسير المأثور:47014،سورۃ مریم:71




عَنِ النَضر بنِ أَنَسِ بنِ مَالك عَنْ أبِيه قَالَ: سَأَلْتُ النَبِيَّ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌أَنْ يَشْفَعَ فِيَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقَالَ: أَنَا فَاعِلٌ قَالَ: قُلتُ: يَا رَسُول اللهِ! فَأَيْنَ أَطْلُبُكَ؟ قَالَ: اطْلُبْنِي أَوَّلَ مَا تَطْلُبُنِي عَلَى الصِّرَاطِ قَالَ: فَإِن لَمْ أَلْقَكَ عَلَى الصِّرَاطِ؟ قَالَ: اطْلُبْنِي عِنْدَ الْمِيزَانِ قَالَ: فَإِنْ لَمْ أَلْقَكَ عِنْدَ الْمِيزَانِ؟ قَالَ فَاطْلُبْنِي عِنْدَ الْحَوْضِ فَإِنِي لَا أُخْطِئُ هَذِهِ الثَّلَاثَ المَوَاطِنَ

ترجمہ:

حضرت نضر بن انس بن مالک اپنے والد ؓ  سے بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے سوال کیا: کہ آپ قیامت کے دن میری سفارش کریں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:ضرور کروں گا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ‌ﷺ ‌قیامت کے دن میں آپ کو کہاں تلاش  کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلے تم  مجھے پل صراط پر تلاش کرنا، میں نے کہا:  اگر میں آپ سے پل صراط پر نہ مل سکوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تب میزان کے پاس مجھ سے ملنا، میں نے کہا: اگر میں آپ کو میزان کے پاس نہ پاؤں تو؟ آپ  ‌ﷺ ‌نے فرمایا:تو حوض پر پاؤ گے، ان تین مقامات میں سے کہیں نہ کہیں ضرور پاؤ گے۔

[الصحيحة:956(2524)، صحيح البخاري كِتَاب اللِّبَاسِ بَاب الْجَعْدِ رقم (5451)]






عَنْ سَلمَان عَنِ النبِي ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ: «يُوضَع الْمِيزَان يَوْمَ الْقِيَامَة فَلَو وُزِنَ فِيه السَّمَاوَات وَالْأَرْض لوسعتْ، فَتَقُول الملائكة: يَا رَبّ! لِمَن يَّزِن هذا؟ فَيَقُول الله تعالى: لِمَن شِئْتُ من خَلْقي، فَتَقُولُ الملائكة: سُبْحَانَك مَا عَبدَنَاك حَقّ عِبَادَتِكَ، وَيُوضَعُ الصِّرَاط مِثْلَ حَدّ الْمُوسَى فَتَقُول الملائِكَةُ: من تُجِيزُ عَلَى هذا؟ فيقول: من شِئْتُ مِنْ خلْقِي، فَيَقُولُون: سُبْحَانَك ما عَبَدْنَاكَ حَقَّ عِبَادَتِك ».

ترجمہ:

حضرت سلمان‌ؓ سے مروی ہے کہ نبی ‌ﷺ ‌نے فرمایا: قیامت کے دن ترازو رکھا جائے گا، اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو تولا جائے تب بھی اس میں گنجائش باقی رہے گی۔ فرشتے کہیں گے: اے ہمارے رب! یہ کس کا وزن کرے گا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں سے جس کا چاہوں گا۔ فرشتے کہیں گے:تو پاک ہے، ہم نے تیری عبادت کے حق کے بقدر عبادت نہیں کی۔ اور استرے کی دھار کے مثل پل صراط رکھا جائے گا۔ فرشتے کہیں گے: اس پر سے کسے گزارے گا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اپنی مخلوق میں سے جسے چاہوں گا۔ فرشتے کہیں گے:تو پاک ہے ہم نے تیری عبادت کے حق کے بقدر عبادت نہیں کی۔

[الصحيحة:941(2669)، مستدرك الحاكم: (8891)]





يُؤْتَ بِالْمَوْتِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَبْشًا أَمْلَحَ فَيُقَالُ يَا أَهْلَ الْجَنَّةِ تَعْرِفُونَ هَذَا فَيَطَّلِعُونَ خَائِفِينَ مُشْفِقِينَ قَالَ يَقُولُونَ نَعَمْ قَالَ ثُمَّ يُنَادَى أَهْلُ النَّارِ تَعْرِفُونَ هَذَا فَيَقُولُونَ نَعَمْ قَالَ فَيُذْبَحُ ثُمَّ يُقَالُ خُلُودٌ فِي الْجَنَّةِ وَخُلُودٌ فِي النَّارِ حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِثْلَهُ إِلَّا أَنَّهُ زَادَ فِيهِ يُؤْتَى بِهِ عَلَى الصِّرَاطِ فَيُذْبَحُ

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قیامت کے دن موت کو ایک مینڈھے کی شکل میں لا کر پل صراط پر کھڑا کردیا جائے گا اور اہل جنت کو پکار کر بلایا جائے گا وہ خوفزدہ ہو کر جھانکیں گے کہیں انہیں جنت سے نکال تو نہیں دیا جائے گا پھر ان سے پوچھا جائے گا کہ کیا تم اسے پہنچانتے ہو؟ وہ کہیں گے کہ جی (پروردگار) یہ موت ہے) پھر اہل جہنم کو پکار کر آوازدی جائے گی کہ کیا تم اسے پہنچانتے ہو؟ وہ کہیں گے جی ہاں (یہ موت ہے) چناچہ اللہ کے حکم پر اسے پل صراط پر ذبح کردیا جائے اور دونوں گروہوں سے کہا جائے گا کہ تم جن حالات میں رہ رہے ہو۔ اس میں تم ہمیشہ ہمیش رہوگے؟

[مسند احمد:8552]







پل صراط پر روکے جانے والے:
حضرت معاذ بن انس جہنی ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
جو شخص کسی مومن کی عزت و آبرو کی کسی منافق سے حفاظت کرے گا تو اللہ ایک فرشتہ بھیجے گا جو قیامت کے دن اس کے گوشت کو جہنم کی آگ سے بچائے گا۔  اور جو شخص کسی مسلمان پر تہمت لگائے گا، اس سے اس کا مقصد اسے مطعون کرنا ہو تو اللہ اسے جہنم کے پل پر روکے رکھے گا یہاں تک کہ جو اس نے جو کچھ کہا ہے اس سے نکل جائے۔ 
[سنن ابوداؤد:4883]
القرآن:
اور جس بات کا تمہیں یقین نہ ہو، (اسے سچ سمجھ کر) اس کے پیچھے مت پڑو۔ یقین رکھو کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں (تم سے) سوال ہوگا۔
[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃ الاسراء،آیت37]

مقسم نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ:
جہنم کے پل پر سات رکاوٹیں ہیں۔ ان میں سے پہلی کے پاس بندہ ہے لا الہ الا اللہ کی شہادت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس اگر اس کو مکمل لایا تو دوسری تک پہنچ جائے گا۔ پھر اس سے نماز کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس اگر اس کو مکمل لایا تو تیسری تک پہنچ جائے گا پھر زکوٰۃ کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ پس اگر اس کو مکمل لایا تو چوتھی تک پہنچ جائے گا پھر روزے کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس اگر اس کو مکمل لایا تو پانچویں تک پہنچ جائے گا۔ پھر حج کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس اگر اس کو پورا لایا تو چھٹی تک پہنچ جائے گا۔ پھر عمرہ کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس اگر اس کو مکمل لایا تو ساتویں تک تجاوز کرجائے گا۔ پھر مظالم کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ پس اگر ان سے نکل گیا ورنہ کہا جائے گا تم دیکھو پس اگر اس کے کوئی نقل ہو تو ان کے ذریعے اس کے اعمال کو مکمل کرو، پھر جب فارغ ہوجائے گا تو جنت کی طرف چلے گا۔
[تفسیر امام البغوی»سورۃ النبا، آیت 22]
[تفسیر الثعلبی»سورۃ النبا، آیت 22]





Thursday 4 July 2024

خودکشی کرنے والے"مسلمان"کیلئے دعائے بخشش کرنے، کافر نہ ہونے اور نماز جنازہ پڑھنے کا امکان

 امام احمد کہتے ہیں کہ:

*خودکشی کرنے والے کی نمازِ جنازہ امام(راہنما-حاکم) نہ پڑھائے، لیکن غیر امام(عوام) پڑھیں گے۔*

[سنن الترمذی:1068]

حوالہ

آپ ﷺ نے فرمایا:

۔۔۔رہا میں تو میں اس کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھوں گا۔*

[سنن النسائی:1966، سنن ابوداؤد: 3185]


تاکہ اس سے دوسروں کو نصیحت ہو۔

[سنن ابن ماجہ:1526]


۔۔۔اور اہلِ توحید(مسلمان) میں سے ہر مرحوم کی نمازِ جنازہ ادا کرنا، اگرچہ اس نے خودکشی کی ہو۔

[سنن دارقطنی: حدیث#1745]


القرآن:

بیشک اللہ اس بات کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، اور اس سے کمتر ہر بات کو جس کے لیے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے۔۔۔

[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 48]

تفسیر:

یعنی شرک سے کم کسی گناہ کو اللہ تعالیٰ جب چاہے توبہ کے بغیر بھی محض اپنے فضل سے معاف کرسکتا ہے ؛ لیکن شرک کی معافی اس کے بغیر ممکن نہیں کہ مشرک اپنے شرک سے سچی توبہ کرکے موت سے پہلے پہلے اسلام قبول کرکے توحید پر ایمان لے آئے۔

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

*خودکشی کرنے والے کی بخشش:*

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ طفیل بن عمرو دوسی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! کیا آپ کو کسی مضبوط قلعے اور پناہ کی ضرورت ہے زمانہ جاہلیت میں قبیلہ دوس کا ایک قلعہ تھا لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا کہ یہ فضیلت اللہ نے انصار کے لئے چھوڑ رکھی ہے چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو طفیل بن عمرو بھی ہجرت کر کے آ گئے ان کے ساتھ ان کا ایک اور آدمی بھی ہجرت کر کے آگیا وہاں ان کو مدینہ کی آب وہوا موافق نہ آئی اور وہ شخص بیمار ہو گیا اور گھبراہٹ کے عالم میں قینچی پکڑ کر اپنی انگلیاں کاٹ لیں جس اسے اس کے ہاتھ خون سے بھر گئے اور اتناخون بہا کہ وہ مرگیا۔ خواب میں اسے عمرو بن طفیل نے دیکھا وہ بڑی اچھی حالت میں دکھائی دیا البتہ اس کے ہاتھ ڈھکے ہوئے تھے طفیل نے اس سے پوچھا کہ تمہارے رب نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ اس نے جواب دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہجرت کی برکت سے اللہ نے مجھے معاف کر دیا انہوں نے پوچھا کہ کیا بات ہے تمہارے ہاتھ ڈھکے ہوئے نظر آرہے ہیں اس نے جواب دیا کہ مجھ سے کہا گیا ہے کہ تم نے جس چیز کو خود خراب کیا ہے ہم اسے صحیح نہیں کر سکتے اگلے دن طفیل نے یہ خواب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دعاء فرمائی کہ اے اللہ اس کے ہاتھوں کا گناہ معاف فرمادے۔

[مسند احمد» حدیث: 14982، الادب المفرد-للبخاري:614]

صحیح مسلم:311(116)، صحیح ابن حبان:3017،  سنن الکبریٰ-للبيهقي:15835،  المعجم الاوسط-للطبراني:2406، مسند ابویعلیٰ:2175،  الایمان لابن مندۃ:652،۔شرح مشکل الآثار-للطحاوي:198


کتاب: ایمان کا بیان«باب: اس بات کی دلیل کے بیان میں کہ خود کشی کرنے والا کافر نہیں ہوگا

[صحیح مسلم:311(116)]



🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

*اگر موت کی تمنا ہی ضروری ہو تو یہ دعا کرے۔*

حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  تم میں سے کوئی کسی پریشانی سے دوچار ہوجانے کی وجہ سے  (گھبرا کر)  موت کی دعا ہرگز نہ کرے لیکن اگر کہے تو یہ کہے:

اللهم أحيني ما کانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا کانت الوفاة خيرا لي.

ترجمہ:

*اے اللہ! تو مجھ کو زندہ رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دیدے جب مرجانا ہی میرے حق میں بہتر ہو۔*

[صحیح البخاری:5672+6351، صحیح مسلم:2680، ابوداؤد:3108، ترمذی:971، نسائی:1822، ابن ماجہ:4265]



Saturday 15 June 2024

اللہ کی رحمت کی وسعت

 

الرحمۃ وہ رقتِ قلب(یعنی دل کی نرمی ہے) جو مرحوم (یعنی جس پر رحم کیا جائے) پر "احسان" کی مقتضی(یعنی ضرورت محسوس کرتی) ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقتِ قلب کے معنیٰ میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنیٰ میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو۔ اسی معنیٰ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے:

لما خلق الله الرحم، قال: أنا الخ قوگببب ےرحمن، وأنت الرحم، شقتت لك اسماً من اسمي، فو عزتي وجلالي لأصلن من وصلك، ولأقطعن من قطعك.

ترجمہ:

جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا: میں رحمان ہوں اور تو رحم ہے۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ (یعنی صلہ رحمی کرے گا) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلے گا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا۔

[جامع الأحادیث:14996، تفسير الراغب.الاصفهاني:1/51]

اس حدیث میں بھی معنیٰ سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنیٰ پائے جاتے ہیں۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے، احسان کو اپنے لیے خاص کرلیا ہے۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اس کا وہ معنیٰ جو لوگوں میں پایا جاتا ہے، وہ بھی اس معنیٰ سے ماخوذ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنیٰ میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے:

یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنیٰ بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے:

إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

[سورۃ البقرة: 182]

بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اور آنحضرت کے متعلق فرمایا:

لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ

[سورۃ التوبة:128]

لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے (اور) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق (اور) مہربان ہیں۔

بعض نے رحمٰن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمٰن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے، جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے۔ اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی۔ جیسا کہ آیت:- 

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ

[سورۃ الأعراف:156]

ہماری جو رحمت ہے وہ (اہل و نااہل) سب چیزوں کو شامل ہے۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے۔

میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمتِ الٰہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے، لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے۔





اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

 مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ لَا يَرْحَمْهُ اللَّهُ

ترجمہ:

*جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔*

[سنن ترمذی:2381]

*(لہٰذا) تم اہلِ زمین پر رحم کرو آسمان والا (اللہ) تم پر رحم کرے گا۔*

[سنن الترمذي: 1924، سنن أبي داود: 4941]


فقہ الحدیث:

(1)بچے کے ساتھ مہربانی اور اسے بوسہ دینا، اور اگلے لگانا(چاہئے).

[صحیح بخاری:5997(بیھقی:13582)]

(2)آدمی اور جانوروں کے ساتھ مہربانی کرنا۔

[صحیح بخاری:6013]

(3)اللہ کا فرمان کہ اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے: اللہ کے نام سے پکارو یا رحمان کے نام سے، جس نام سے بھی پکارو اچھے اچھے نام اسی کے ہیں۔(سورۃ الاسراء:)

[صحیح بخاری:7376]

(4)نبی کی بچوں اور اہل وعیال سے شفقت اور آپ کی تواضع

[صحیح مسلم:6028+6030]

(5)باپ کا اولاد کو(محبت میں)چومنا۔

[سنن ابوداؤد:5218]

(6)میت پر رونا(آنسو نکلنا گناہ نہیں).

[سنن طحاوی:6836]

(7)بغیر آواز نکالے اور بغیر بین کئے (میت پر) رونے کی اجازت کا بیان۔

[بیھقی:7152]

(8)امیر کا انصاف کرنا، اور رعایا کی خیرخواہی۔رحمت۔شفقت۔درگذر کرنا جب تک حد(شرعی سزا) کو نہ پہنچے۔

[بیھقی:16648]

(9)لشکر کے معاملات میں حکمران کی ذمہ داری

[بیھقی:17909-17910]

(10)رحم کا ثواب ونتیجہ

[مصنف ابن ابی شیبہ:25864-25865-25867- 25871-25875]

(11)مصافحہ و معانقہ(ہاتھ اور گلے ملنا)

[مشکوٰۃ المصابیح:4678]

(12)مخلوق پر شفقت ورحمت

[مشکوٰۃ المصابیح:4947+4970]


(13)کمزوروں، بچوں، بوڑھوں، بیواؤں اور مسکینوں پر رحم کرنا۔

[کنز العمال:5965-5966-5971-5972 -5986-5987-5990]

(14)توبہ کی شرائط

[کنز العمال:10284]

(15)میت پر غمگین ہونا رحمت ہے۔

[کنز العمال:42505]

(16)بےرحم پر رحم نہیں کیا جاتا۔

[کنز العمال:44199]

(17)اولاد پر رشفقت ومہربانی۔

[کنز العمال:45961]





اللہ نے فرمایا:

۔۔۔(کوئی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکے گا، کوئی مدد بھی نہیں کر سکے گا)سوائے اس کے جس پر وہ رحم فرمادے۔۔۔

[سورۃ ھود:43-119، الدخان:42]


۔۔۔اور اللہ "خاص" کرلیتا ہے اپنی رحمت سے جسے چاہتا ہے۔۔۔

[سورۃ البقرۃ:105، آل عمران:74]


یہی لوگ ہیں کہ جن پر(خصوصی)عنایتیں اور رحمت ہے ان کے رب سے۔۔۔۔

[سورۃ البقرۃ:157]


تفسیر القرآن(امام)ابن کثیر:

۔۔۔اور باہم نصیحت کی رحم کرنے کی۔

[سورۃ البلد:17]

















Monday 10 June 2024

اللہ کیلئے "تواضع" کی حقیقت وفضیلت

تواضع یہ نہیں کہ۔۔۔

(1)باطل-ناحق-حرام (شرط/صلح) کو تسلیم کیا جائے۔

[حوالہ»سورۃ الکافرون]

(2)کسی گناہ پر کبھی غصہ نہ کیا جائے۔

[حوالہ»بخاری:704،ترمذی:1973+2133]

(3)یا کسی ایسی مصیبت میں خود پڑا جائے کہ جسے جھیلنے کی طاقت نہ ہو۔

[حوالہ»ترمذی:2254، ابن ماجہ:4016]

(4)یا لوگوں کے آگے سر جھکائے بیٹھنے کا دکھلاوا کیا جائے۔

بلکہ

تواضع تو یہ ہے کہ۔۔۔

(1)اللہ کے حکم اور حکمت کے آگے سر تسلیم خم کیا جائے۔

[طبرانی:12939،الصحیحہ:538]

(2)دبائے جانے والے، کمزور، جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا، آزمائش والے، فضیلت والے مومن،عالم،حافظ کو خود سے افضل سمجھ کر اللہ کیلئے ان کا ساتھ دیا جائے، دعائیں لی جائیں۔

[طحاوی:7075، الصحیحہ:2877]

(3)اور اپنے کسی کمال وخوبی کے سبب کسی پر فخر نہ کرے، غرور وگھمنڈ نہ کرے، نہ اترائے، نہ شیخی بگھاڑے، محض رب کا انعام واحسان سمجھ کر اللہ کا شکر کیا جائے۔

[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃ النحل:23]




پیغمبرانہ تواضع

القرآن:

اور میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میرا نفس بالکل پاک صاف ہے، واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے، ہاں میرا رب رحم فرمادے تو بات اور ہے (کہ اس صورت میں نفس کا کوئی داؤ نہیں چلتا) بیشک میرا رب بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 53]

تفسیر:

حضرت یوسف ؑ کی تواضع اور عبدیت کا کمال دیکھئے کہ اس موقع پر جب ان کی بےگناہی خود ان عورتوں کے اعتراف سے ثابت ہوگئی، تب بھی اس پر اپنی بڑائی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے یہ فرما رہے ہیں کہ میں اس انتہائی خطرناک جال سے جو بچا ہوں اس میں میرا کوئی کمال نہیں نفس تو میرے پاس بھی ہے جو انسان کو برائی کی تلقین کرتا رہتا ہے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے اس کے فریب سے بچا لیتا ہے، البتہ دوسرے دلائل سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ رحم و کرم اسی پر ہوتا ہے جو گناہ سے بچنے کے لئے اپنی سی کوشش کر گزرے، جیسے حضرت یوسف ؑ نے دروازے تک بھاگ کر کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اس سے پناہ مانگے۔







القرآن:

(اے پیغمبر) درگزر کا رویہ اپناؤ، اور (لوگوں کو) نیکی کا حکم دو ، اور جاہلوں کی طرف دھیان نہ دو۔

[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 199]





Wednesday 15 May 2024

مصیبت: سزا یا آزمائش


مصیبت کیا ہے؟

مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے، اس کے بعد عرف میں ہر (اچانک پہنچنے والے) حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے۔

چنانچہ قرآن پاک میں ہے:

أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها

[سورۃ آل عمران:165]

(بھلا یہ) کیا بات ہے کہ (جب) احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انھیں پہنچ چکی تھی۔


فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ

[سورۃ النساء:62]

تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے۔


وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ

[سورۃ آل عمران:166]

اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی۔


وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ

[سورۃ الشوری:30]

اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے۔


اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیر و شر دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

چنانچہ قرآن میں ہے:

إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ

[سورۃ التوبة:50]

اے پیغمبر! اگر تم کو آسائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مصیبت پہنچتی ہے۔۔۔


وَلَئِنْ أَصابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ

[سورۃ النساء:73]

اور اگر تمہیں پہنچے کوئی فضل اللہ سے۔۔۔


فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ

[سورۃ النور:43]

تو جس پر چاہتا ہے اس(بارش) کو پہنچا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔


فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ

[سورۃ الروم:48]

پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اس(بارش کو)پہنچا دیتا ہے۔


بعض نے کہا ہے کہ جب اصاب کا لفظ خیر کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے، اور جب برے معنیٰ میں آتا ہے تو یہ معنیٰ (اصاب السمھم) کے محاورہ سے ماخوذ ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے۔

[مفردات القرآن-امام راغب الاصفھانی:]


مصیبت ۔۔۔ پہنچنے والی»

القرآن:

تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، تو وہ تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے، اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں لوگوں کے پاس رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ (اس بات کی) گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔

[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 79]

تشریح:

یہ آیت توحید (اللہ کے خدائی میں ایک-تنہا ہونے) کے تصور اور اس خیال کو اجاگر کر رہی ہے کہ اللہ ہی تمام خیر و برکت کا سرچشمہ ہے۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمارے راستے میں آنے والی کوئی بھی خیر یا برکت اللہ کی رحمت اور فضل کا نتیجہ ہیں، جب کہ کوئی برائی یا مشکلات ہمارے اپنے اعمال اور انتخاب کا نتیجہ ہیں۔

خلاصہ یہ کہ یہ آیت ہمیں سکھا رہی ہے:

- ہم اللہ کی نعمتوں اور فضل کو پہچانیں اور اس کا اعتراف کریں۔

- ہم اپنے اعمال اور فیصلوں کی ذمہ داری لیں۔

- اپنی زندگی کی ہر بھلائی کے لئے ہم عاجز اور شکر گزار بنیں۔

- اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور ان کی معافی مانگیں۔

یہ آیت اللہ کے ساتھ ہمارے تعلق کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے اور ہمیں شکر گزاری، عاجزی اور جوابدہی کی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے۔

تفسیر:

ان آیتوں میں دو حقیقتیں بیان فرمائی گئی ہیں، ایک یہ کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے، کسی کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ بھی اللہ کے حکم سے پہنچتا ہے، اور نقصان پہنچے تو وہ بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے، دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کا حکم اللہ تعالیٰ کب اور کس بناء پر دیتے ہیں، اس کے بارے میں (آیت : 79) نے یہ بتایا ہے کہ جہاں تک کسی کو فائدہ پہنچنے کا تعلق ہے اس کا حقیقی سبب صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے، کیونکہ کسی بھی مخلوق کا اللہ تعالیٰ پر کوئی اجارہ نہیں آتا کہ وہ اسے ضرور فائدہ پہنچائے، اور اگر اس فائدہ کا کوئی ظاہری سبب اس شخص کا کوئی عمل نظر آتا بھی ہو تو اس عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی فضل ہے، اور اس شخص کا کوئی ذاتی استحقاق نہیں ہے، دوسری طرف اگر انسان کو کوئی نقصان پہنچے تو اگرچہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ یہ حکم اسی وقت فرماتے ہیں جب اس شخص نے اپنے اختیاری عمل سے کوئی غلطی کی ہو، اب منافقین کا معاملہ یہ تھا کہ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ؛ لیکن کوئی نقصان ہوجاتا تو اسے آنحضرت ﷺ کے ذمے لگا دیتے تھے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جو نقصان کی ذمہ داری آنحضرت ﷺ پر عائد کررہے ہیں اگر اس سے مراد یہ ہے کہ یہ نقصان آنحضرت کے حکم سے ہوا ہے، تو یہ بات بالکل غلط ہے ؛ کیونکہ اس کائنات میں تمام کام اللہ ہی کے حکم سے ہوتے ہیں کسی اور حکم سے نہیں اور اگر ان کا مطلب یہ ہے کہ (معاذاللہ) آنحضرت ﷺ کی کوئی غلطی اس کا سبب بنی ہے تو یہ بات بھی غلط ہے، ہر انسان کو خود اس کے اپنے کسی عمل کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے، آنحضرت ﷺ کو تو رسول بناکر بھیجا گیا ہے لہذا نہ تو کائنات میں واقع ہونے والے کسی تکوینی واقعے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے اور نہ آپ فرائض رسالت میں کسی کوتاہی کے مرتکب ہوسکتے ہیں، جس کا خمیازہ آپ کی امت کو بھگتنا پڑے۔