قنوت کا معنیٰ :
”قنوت“ کے کئی معانی آتے ہیں ، علّامہ ابن العربیؒ نے اس کے دس معانی ذکر کیے ہیں ۔
[مرعاۃ شرح مشکاۃ:4/299]
چند مشہور معانی یہ ہیں :
طاعت : ﴿كُلٌّ لَهُ قَانِتُونَ﴾
[سورۃ البقرۃ:116]
صلوۃ : ﴿يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ﴾۔
[سورۃ آلِ عمران:43]
طولِ قیام: أَفْضَلُ الصَّلَاةِ طُولُ الْقُنُوتِ۔
[صحیح مسلم:756]
سکوت: ﴿قُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ﴾۔
(البقرۃ:238) أی:سَاكِتِينَ۔
[تفسیر جلالین]
دعاء: جیسے : قنوت الوتر یعنی وتر کی دعاء۔ یہاں اِس باب میں ”قنوت“ کا یہی آخری معنی یعنی دعاء مراد ہے۔
[مرقاۃ شرح مشکاۃ:3/958]
[الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ : 34/56]
(1)قنوت الوتر ۔(2)قنوت الفجر۔(3)قنوت ِ نازلہ۔
قنوت الوتر سے مراد وتر میں پڑھی جانے والی دعاء ہے، جو وتر کی تیسری رکعت میں رکوع میں جانے سے پہلے رفعِ یدین مع الاعتماد یعنی ہاتھوں کو کانوں تک اُٹھاکر باندھ لینے کے بعدپڑھی جاتی ہے۔
(شامیہ : 2/6)
قنوتِ وتر سے متعلّق چند مباحث درج ذیل ہیں :
قنوتِ وتر کا حکم :
قنوتِ وتر کے حکم یعنی واجب ، مسنون اور مستحب ہونے میں اختلاف ہے:
٭— احناف:واجب ہے ۔٭— مالکیہ :مستحب ہے ۔
٭— حنابلہ و شوافع :سنّت ہے۔
(شامیہ : 2/6)(المجموع شرح المہذب:4/15)
فائدہ :حضرات صاحبین کا ایک قول سنّت ہونے کا ہے ، لیکن راجح یہ ہے کہ اُن کے نزدیک بھی قنوتِ وتر واجب ہی ہے ، چنانچہ علّامہ شامی نے احناف کا قول وجوب ہی ذکر کیا ہے۔(شامیہ : 2/6)
قنوتِ وتر سال بھر ہے یا صرف رمضان میں :
وتر میں دعائے قنوت سال بھر پڑھا جائے گا یا نہیں ،اِس میں اختلاف ہے :
امام ابوحنیفہ واحمد:سال بھر قنوت پڑھا جائے گا ۔
امام مالک :صرف رمضان المبارک کے پورے مہینے پڑھا جائے گا ۔
امام شافعی:صرف رمضان المبارک کے نصفِ آخریعنی آخری آدھے رمضان میں پڑھا جائے گا ۔
(معارف السنن :4/241)
(نفحات التنقیح:2/650)
فائدہ:
مذکورہ بالا مسالک روایاتِ مشہورہ کے مطابق ذکر کیے گئے ہیں ، ورنہ اِمام شافعی کا ایک قول احناف کے مطابق جمیعِ سنۃ کا، اِمام احمد بن حنبل کا ایک قول شوافع کےمطابق رمضان کے نصفِ آخرکا، اور اِمام مالکسے ایک قول بالکل نہ پڑھنے کا بھی منقول ہے،بلکہ بعض نے اِمام مالککا مشہور قول قنوتِ وتر بالکل نہ پڑھنا ذکر کیا ہے۔
(مرعاۃ المفاتیح:4/283)
(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ :34/64)
قنوتِ وتر قبل الرکوع ہے یا بعد الرکوع ؟
امام ابو حنیفہ و مالک :قنوت قبل الرکوع پڑھا جائے گا ۔
امام شافعی واحمد:بعد الرکوع پڑھا جائے گا ۔
(معارف السنن:4/242 ، 243)
(2) قُنوت الفجر:
مصائب کے موقع پر فجر میں قنوت پڑھنے کے سب ہی قائل ہیں، اُس کو قنوتِ نازلہ کہا جاتا ہے ، لیکن اِس میں اختلاف ہے کہ دائماً سال بھر فجر کی نماز میں قنوت پڑھا جائےگا یا نہیں :
اِما م مالک:فجر کی نماز میں سال بھر قنوت پڑھنا مستحب ہے۔
امِام شافعی:فجر کی نماز میں سال بھر قنوت پڑھنا سنّت ہے۔
احناف و حنابلہ :فجر کی نماز میں سال بھر قنوت پڑھنا مشروع نہیں،نہ مسنون ہے اور نہ مستحب ۔
(معارف السّنن:4/17)
(الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ:34/58)
(نفحات:2/651)
پھر شوافع و مالکیہ میں اختلاف ہے کہ فجر کی نماز میں پڑھا جانے والا قنوت جو دائماً سال بھر پڑھا جاتا ہے ، وہ رکوع سے پہلے پڑھا جائے گا یا بعد میں :
اِمام شافعی:رکوع کے بعد پڑھا جائے گا ۔
اِمام مالک:رکوع سے پہلے پڑھا جائے گا۔
(شرح التّلقین:1/558 ، 559)
(3) قُنوتِ نازلہ :
مسلمانوں کے اجتماعی طور پر کسی مصیبت و تکلیف کے شکار ہوجانے کے موقع پر ،مثلاً: طاعون کی وباء پھیل جائے ، یا کفار حملہ کر دیں، یا خود مسلمانوں میں ہی قتل و غارت عام ہو جائے،یا کفار مسلمانوں پر کسی جگہ بہت زیادہ ظلم ڈھانے لگیں تو اُس وقت فجر کی نماز میں رکوع کے بعد کچھ ماثور دعائیں کی جاتی ہیں ، جن میں مسلمانوں کی فتح و نصرت ، کامیابی و کامرانی ، اُن کے مابین اتحاد و اتفاق اور اُلفت ِ باہمی کیلئے دعاء بھی ہوتی ہے اور کفار و مشرکین کی تباہی و بربادی کیلئے بد دعاء اور اُن پر لعنت کی جاتی ہے۔اور یہ عمل خودآپﷺسے ثابت ہے ۔اِس کو ”قنوتِ نازلہ“کہا جاتا ہے۔
لیکن واضح رہے کہ یہ ”قنوتِ نازلہ“ بغیر کسی سبب کےسال بھر فجر کی نماز میں نہیں پڑھا جاتا بلکہ کسی وجہ اور سبب کے تحت پڑھا جاتا ہے ، جیساکہ نبی کریم ﷺ سے بھی مخصوص وجہ اور سبب کے تحت پڑھنا وارد ہوا ہے۔
کیا قنوت ِ نازلہ بغیر کسی سبب کے پڑھا جائے گا ؟
امام مالک وشافعی:
بغیر سبب کے بھی فجر کی نماز میں سال بھر پڑھا جائے گا ۔
امام ابو حنیفہ واحمد:
بغیر سبب کے قنوتِ نازلہ کسی بھی نماز میں نہیں پڑھا جائےگا۔اور جن روایات میں آپﷺسے فجر کی نماز میں قنوت پڑھنا وارد ہو ا ہے وہ تمام روایات قنوتِ نازلہ پر محمول ہیں ۔
(مرعاۃ المفاتیح: 4/300)
(المغنی لابن قدامۃ:2/114)
قنوتِ نازلہ کن نمازوں میں پڑھی جائے گی:
قنوتِ نازلہ پانچوں نماز وں میں سے کس نماز میں پڑھی جائے گی ، اِس میں اختلاف ہے:
مالکیہ وحنابلہ:
فجر کے علاوہ کسی نماز میں قنوتِ نازلہ نہیں پڑھا جائے گا۔
شوافع :پانچوں نمازوں میں پڑھاجائے گا۔
(المجموع شرح المہذب:3/493)
احناف :دو قول ہیں :
(1)فجر کی نماز میں ۔(2)جہری نمازوں یعنی مغرب،عشاء اور فجر میں سے کسی بھی نماز میں پڑھاجاسکتا ہے۔
(شامیہ:2/11)
(مرعاۃ :4/301)
(المغنی لابن قدامۃ :2/115)
(الشرح الکبیر للدردیر:1/248)
قنوتِ نازلہ میں ہاتھ کیسے رکھے جائیں :
قنوتِ نازلہ کے دوران دعا میں ہاتھوں کو کیسے رکھا جائے ، اِس کی تین صورتیں ہیں:
اعتماد الیدین:ہاتھوں کو باندھنا ۔جائز ہے۔
اِرسال الیدین:ہاتھوں کو لٹکاکر رکھنا ۔بہتر ہے۔
رفع الیدین:دعاء کی طرح ہاتھوں کو اُٹھانا ۔مناسب نہیں ۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب نے اپنی کتاب ”بوادر النوادر“ میں لکھا ہے:
”مسئلہ مجتہد فیہ ہے، دلائل سے دونوں طرف (یعنی: پہلی دونوں صورتوں کی)گنجائش ہے اور ممکن ہے کہ ترجیح قواعد سے وضع(ہاتھ باندھنے) کو ہو۔کما ھو مقتضیٰ مذہب الشیخین، لیکن عارضِ التباس و تشویشِ عوام کی وجہ سے اِرسال کو ترجیح دی جاسکتی ہے،کماھومذھب محمد“۔
(بوادر النوادر:6/122،123)
قنوتِ نازلہ کی دعاء کتنے دن تک پڑھی جائے :
قنوت ِنازلہ کتنے دنوں تک جاری رکھنا چاہیئے، اس بارے میں ایسی کوئی مقدار متعین نہیں ہے کہ اتنے دن تک پڑھنا چاہیئے اور اس کے بعد پڑھنا جائز نہیں۔بلکہ ضرورت کے موافق اس دعا کو جاری رکھا جائے، تاہم اتباع ِسنت کی غرض سے ایک مہینہ تک اس کو جاری رکھنا زیادہ بہتر ہے، جیسا کہ روایات میں آپﷺکے عمل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔
(إعلاء السنن:6/118)
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ :
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد ”سَمِعَ اللّٰہ ُ لِمَنْ حَمِدَہ“ کہہ کر امام کھڑا ہو جائے ،اور قیام کی حالت میں قنوتِ نازلہ کی دعائیں پڑھے اور مقتدی اس کی دعا پرآہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں،پھر دعا سے فارغ ہو کر ”اللہ اکبر“کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں اور بقیہ نماز امام کی اقتداء میں اپنے معمول کے مطابق ادا کریں۔
(شامیہ:2/11)
قنوتِ نازلہ کے چند مسائل:
قنوتِ نازلہ کا تعلّق جماعت سے ہے ، منفرد قنوتِ نازلہ نہیں پڑھے گا ۔
(شامیہ:2/11)
قنوت ِ نازلہ مفتیٰ بہٖ قول کے مطابق صرف فجر کی نماز میں پڑھی جا سکتی ہے،اگرچہ احناف کا ایک قول جہری نمازوں میں بھی پڑھنے کا ہے۔
(شامیہ:2/11)
قولِ راجح کے مطابق قنوتِ نازلہ آخری رکعت میں رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد سجدہ میں جانے سے پہلے پڑھنا چاہیئے، اگرچہ رکوع سے پہلے بھی جائز ہے جیساکہ علّامہ نیموینے اس کو بھی روایات کی روشنی میں جائز قرار دیا ہے ، لیکن بہر حال افضل یہی ہے کہ رکوع کے بعد پڑھاجائے ۔ہاں !دعائے قنوت وتر میں رکوع سے پہلے پڑھنے کا حکم ہے ۔
(شامیہ:2/11)
(مرعاۃ المفاتیح :4/302)
اگر دعائے قنوت مقتدیوں کو یاد ہو تو اُنہیں بھی اِمام کے ساتھ پڑھنا چاہیئے ، ایسی صورت میں امام بھی آہستہ پڑھے اور مقتدی بھی آہستہ آواز میں پڑھیں اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو جیسا کہ عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے، تو امام کو چاہیئے کہ بلند آواز سے دعا کے کلمات کہے اور سب مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں۔(شامیہ:2/11)
قنوتِ نازلہ کی دعا ءپڑھنے کی حالت میں جو مسبوقین امام کے ساتھ نماز میں شریک ہوں ، وہ تکبیر ِ تحریمہ کہنے کے بعد قیام کی حالت میں امام کی دعا پر آہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں، ان کی یہ رکعت شمار نہیں ہو گی ، (کیوں کہ ان کی شرکت امام کے رکوع سے اُٹھ جانے کے بعد ہوئی ہے)بلکہ وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی دونوں رکعتوں کو حسبِ قاعدہ پورا کریں گے۔
خلاصہ:
سخت مصیبت کے وقت میں امام کا صرف فجر کی دوسری رکعت کے رکوع سے فارغ ہو کر قومہ کی حالت میں جہراً بلند آواز سے قُنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون ہے اور مقتدیوں کا آمین کہنا جائز ہے؛ البتہ مقتدیوں کے لئے آہستہ اور سراً آمین کہنا بہتر ہے۔
بخاری ومسلم کی جن روایات میں عشاء، مغرب، ظہر میں قنوت نازلہ پڑھنا ثابت ہے، وہ سب منسوخ ہیں؛ اس لئے حضرات حنفیہ کے یہاں دیگر نمازوں میں قنوت نازلہ پڑھنا مشروع نہیں ہے۔
أَنَّ قُنُوتَ النَّازِلَةِ عِنْدَنَا مُخْتَصٌّ بِصَلَاةِ الْفَجْرِ دُونَ غَيْرِهَا مِنْ الصَّلَوَاتِ الْجَهْرِيَّةِ أَوْ السَّرِيَّةِ۔
ترجمہ:
ہمارے لیے قنوتِ آفت فجر کی نماز کے لیے مخصوص ہے نہ کہ دوسری نمازوں، خواہ ظاہری ہو یا خفیہ۔
[حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي: 2/ 11]
(شامي، کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل، زکریا ۲/ ۴۴۹، کراچی ۲/ ۱۱، مصري ۱/ ۶۲۸)
ولا شك ان القراءة او التامين في الوتر لا يكون الا سرا، فكذا في القنوت للنازلة في الفجر.
ترجمہ:
بلاشبہ وتر میں تلاوت کرنا یا آمین کہنا نہیں ہے سوائے پوشیدہ، اسی طرح کا معاملہ ہے (مصیبتیں نازل ہونے) والی قنوت کا فجر میں۔
(إعلاء السنن، کتاب الصلاۃ، تتمۃ بقیہ أحکام قنوت النازلۃ، دارالکتب العلمیۃ، بیروت ۶/ ۱۲۲، کراچی ۶/ ۱۰۱)
وَأَمَّا الْقُنُوتُ فِي الصَّلَوَاتِ كُلِّهَا لِلنَّوَازِلِ فَلَمْ يَقُلْ بِهِ إلَّا الشَّافِعِيُّ، وَكَأَنَّهُمْ حَمَلُوا مَا رُوِيَ عَنْهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «أَنَّهُ قَنَتَ فِي الظُّهْرِ وَالْعِشَاءِ» كَمَا فِي مُسْلِمٍ، وَأَنَّهُ «قَنَتَ فِي الْمَغْرِبِ» أَيْضًا كَمَا فِي الْبُخَارِيِّ عَلَى النُّسَخِ
ترجمہ:
جہاں تک آفات کی وجہ سے تمام نمازوں میں قنوت کا تعلق ہے، تو اسے صرف امام شافعیؒ نے کہا[الأم للشافعي:1/ 245]، گویا انہوں نے جو کچھ آپ ﷺ سے روایت کیا ہے، اس پر محمول کرتے ہیں - کہ "آپ ﷺ نے ظہر اور عشاء کی نمازوں میں قنوت پڑھی" جیسا کہ مسلم[296 - (675)] میں ہے، اور یہ بھی کہ "مغرب میں قنوت پڑھتے" جیسا کہ بخاری کے ایک نسخہ میں ہے۔[صحيح ابن خزيمة:616]
[البحر الرائق شرح كنز الدقائق: 2 / 47]
[حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي: 2 /11]
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا حُيَيٌّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ بَدْرٍ فِي ثَلَاثِ مِائَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ حُفَاةٌ فَاحْمِلْهُمْ، اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ عُرَاةٌ فَاكْسُهُمْ، اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ جِيَاعٌ فَأَشْبِعْهُمْ، فَفَتَحَ اللَّهُ لَهُ يَوْمَ بَدْرٍ فَانْقَلَبُوا حِينَ انْقَلَبُوا، وَمَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَقَدْ رَجَعَ بِجَمَلٍ أَوْ جَمَلَيْنِ وَاكْتَسَوْا وَشَبِعُوا.
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ بدر کے دن تین سو پندرہ افراد کے ہم راہ نکلے تو آپ نے یہ دعا فرمائی:
اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ حُفَاةٌ فَاحْمِلْهُمْ، اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ عُرَاةٌ فَاكْسُهُمْ، اللَّهُمَّ إِنَّهُمْ جِيَاعٌ فَأَشْبِعْهُمْ ۔
اے اللہ! یہ لوگ پیدل ہیں تو ان کو سوار کر دے، اے اللہ! یہ لوگ ننگے ہیں ان کو کپڑا دیدے، اے اللہ! یہ لوگ بھوکے ہیں ان کو آسودہ کر دے۔
پھر اللہ نے بدر کے دن انہیں فتح دی، جب وہ لوٹے تو کوئی بھی آدمی ان میں سے ایسا نہ تھا جو ایک یا دو اونٹ لے کر نہ آیا ہو، اور ان کے پاس کپڑے بھی ہوگئے اور وہ آسودہ بھی ہوگئے۔
[ابوداؤد:2747، حاکم:2596، طبرانی:95(14679)، بیھقی:12758، الصحیحۃ:1003]
تفسیر الثعالبی»سورۃ آل عمران:123-125
[سنن ابوداؤد» کتاب: جہاد کا بیان» باب: لشکر کے ایک حصہ کو انعام کے طور پر کچھ زیادہ دینا۔ حدیث نمبر: 2747]
قنوت کا لفظ بے حد جامع ہے۔ خاموشی، بندگی، دیر تک قیام، عبادت، عاجزی، ادب ونیاز، دعا مانگنا تمام معانی میں اس کا استعمال ہوتا ہے، اور نماز ان تمام معانی کو محیط ہے۔ نماز میں ذکر وقراء ت، تسبیح واستغفار، سلام وتشہد کے سوا تمام انسانی ضرورتوں اور باتوں سے خاموشی ہوتی ہے، صحابہ کے بیان کے مطابق پہلے نماز میں گفتگو جائز تھی، اس آیت کے بعد گفتگو سے منع کردیا گیا، تو نماز میں خاموشی بھی ہے اور ادب ونیاز بھی، بندگی، دعا، عبادت، دیر تک قیام اور اظہار عاجزی بھی ہے۔
عاجزی اور ادب و نیاز نماز کی اصل روح ہے، نماز کے وقت آدمی کے اوپر وہ کیفیت طاری ہونی چاہئے جو سب سے بڑے کے سامنے کھڑے ہوکر سب سے چھوٹے پر طاری رہتی ہے۔
قُنوتِ نازلہ کیا ہے؟
قنوت کے معنیٰ یہاں دعا کے ہیں اور نازلہ سخت مصیبت کو کہتے ہیں ، متعدد صحیح احادیث میں ایسے ہی حالات میں قنوتِ نازلہ پڑھنا منقول ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات کے لحاظ سے الگ الگ دعائیں بطور قنوت نازلہ پڑھی ہیں اور خود یہ دعا بھی مختلف الفاظ میں منقول ہے، البتہ صرف وہی قنوتِ نازلہ پڑھی جائے جو حدیث کی معتمد کتابوں میں منقول ہیں ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ جب آپ ﷺ کسی پر بددعا (قنوت نازلہ) پڑھتے تو رکوع کے بعد پڑھتے۔
حضرت انس ؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ایک ماہ تک رعل ذکوان پر بدعا کی(یعنی قنوت نازلہ پڑھی)
[صحیح بخاری:1003]
حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ ایک ماہ تک عصیہ اور ذکوان پر بددعا فرماتے رہے (یعنی قنوت نازلہ پڑھتے رہے) پھر جب ان پر غالب آگئے تو قنوت پڑھنا چھوڑدیا۔
[صحيح مسلم:675+ 2515، صحيح ابن خزيمة:615]
یعنی
مسلمانوں پر کفار کی طرف سے مظالم کے زمانہ میں قنوت نازلہ کا پڑھنا نبی کریم ﷺ ، دور نبوت اور دور صحابہ سے صحیح اور معتبر روایات کے ذریعہ سے ثابت ہے، جب ہجرت کا سلسلہ جاری ہوا اور کمزور مسلمان مکہ میں رہ گئے اور ان پر طرح طرح کی ایذائیں پہنچائی جانے لگیں، تو حضور ﷺ نے قنوت نازلہ میں ظالموں کے نام لے لے کر کے بد دعا فرمائی اور مظلوموں کے نام لے لے کر کے دعا فرمائی، پھر بیر معونہ کے موقع پر جب ستر صحابہ کو دھوکہ دے کر شہید کر دیا گیا، تو اس وقت ایک مہینہ تک مسلسل حضور ﷺ نے قنوت نازلہ پڑھی۔
حَدَّثَنِي سَالِمٌ، عَنْ أَبِيهِ «أَنَّهُ: سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ مِنَ الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِنَ الْفَجْرِ يَقُولُ: اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا وَفُلَانًا. بَعْدَمَا يَقُولُ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ. فَأَنْزَلَ اللهُ: {لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ} إِلَى قَوْلِهِ: {فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ}.»
ترجمہ:
مجھے سالم نے اپنے والد کی سند سے بیان کیا: انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، جب آپ نے فجر کی آخری رکعت میں رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے فرمایا: (اے اللہ! لعنت فرما فلاں اور فلاں اور فلاں پر) اس کے کہنے کے بعد کہ: (اللہ ان کی سنتا ہے جو اس کی تعریف کرتے ہیں، اے ہمارے رب! تیرے ہی لئے تعریف ہے) پھر اللہ نے نازل کیا: {(اے پیغمبر!) آپ کو اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا ان کو عذاب دے کیونکہ یہ ظالم لوگ ہیں}۔
[صحيح البخاري:4069، كتاب المغازي، باب: {لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ}]
وَعَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو عَلَى: صَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، وَسُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو، وَالْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ فَنَزَلَتْ: {لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ} إِلَى قَوْلِهِ: {فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ}»
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ صفوان بن امیہ، سہیل بن عمرو اور حارث بن ہشام کے لیے بددعا کرتے تھے اس پر یہ آیت «(اے پیغمبر!) آپ کو اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں» سے «کیونکہ یہ ظالم لوگ ہیں» تک نازل ہوئی۔
[صحيح البخاري:4070، كتاب المغازي، باب: {لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ}]
قَالَ: فَتِيبَ عَلَيْهِمْ كُلِّهِمْ۔
چناچہ ان سب پر اللہ کی توجہ مبذول ہوئی۔۔
[مسند أحمد:5674(5416)]
وَهَدَاهُمُ اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ
اور اللہ نے انہیں اسلام قبول کرنے کی ہدایت دی۔
[تفسير الطبري:7818، تفسير ابن كثير:2 /115، فتح الباري لابن حجر:8 /226، الروايات التفسيرية في فتح الباري:422 (1/ 308)]
یعنی مخصوص قوم وقبیلوں کا نام لے کر بدعا نہ کریں کہ جو اللہ کے علم ازلی میں مسلمان ہونے اور ہدایت قبول کرنے والے ہیں، بلکہ عمومی انداز سے دعا کریں۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ حَدَّثَهُ: أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَنَتَ شَهْرًا فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ يَدْعُو عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَعُصَيَّةَ وَبَنِي لِحْيَانَ زَادَ خَلِيفَةُ: حَدَّثَنَا ابْنُ زُرَيْعٍ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ: حَدَّثَنَا أَنَسٌ: أَنَّ أُولَئِكَ السَّبْعِينَ مِنَ الْأَنْصَارِ قُتِلُوا بِبِئْرِ مَعُونَةَ قُرْآنًا: كِتَابًا نَحْوَهُ.
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مہینے تک صبح کی نماز میں، عرب کے چند قبائل:- رعل، ذکوان، عصیہ اور بنو لحیان کے لیے بددعا کی تھی۔ خلیفہ بن خیاط (امام بخاریؒ کے شیخ) نے یہ اضافہ کیا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہ ہم سے انس ؓ نے بیان کیا کہ یہ ستر صحابہ قبیلہ انصار سے تھے اور انہیں بئرمعونہ کے پاس شہید کردیا گیا تھا۔
[صحيح البخاري - ت البغا:3863 كتاب المغازي، باب: غزوة الرجيع، ورعل، وذكوان]
[صحيح البخاري - ط السلطانية:4090]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْعُوَ عَلَى أَحَدٍ، أَوْ يَدْعُوَ لِأَحَدٍ، قَنَتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ، فَرُبَّمَا قَالَ، إِذَا قَالَ: سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، وَسَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، وَاجْعَلْهَا سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ، يَجْهَرُ بِذَلِكَ، وَكَانَ يَقُولُ فِي بَعْضِ صَلَاتِهِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ: اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا، لِأَحْيَاءٍ مِنَ الْعَرَبِ، حَتَّى أَنْزَلَ اللهُ: {لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ} الْآيَةَ»
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی پر بددعا کرنا چاہتے یا کسی کے لیے دعا کرنا چاہتے تو رکوع کے بعد کرتے سمع الله لمن حمده، اللهم ربنا لک الحمد کے بعد۔ بعض اوقات آپ ﷺ نے یہ دعا بھی کی اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! مضر والوں کو سختی کے ساتھ پکڑ لے اور ان میں ایسی قحط سالی لا، جیسی یوسف (علیہ السلام) کے زمانے میں ہوئی تھی۔ آپ ﷺ بلند آواز سے یہ دعا کرتے اور آپ نماز فجر کی بعض رکعت میں یہ دعا کرتے۔ اے اللہ، فلاں اور فلاں کو اپنی رحمت سے دور کر دے۔ عرب کے چند خاص قبائل کے حق میں آپ (یہ بددعا کرتے تھے) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی {آپ کو اس بات میں کوئی اختيار نہیں}۔
[صحيح البخاري - ط السلطانية:4560]
حدثنا وكيع قال: حدثنا ابن أبي ذئب عن شيخ لم يسمه أن أبا بكر قنت في الفجر۔
ترجمہ:
ہم سے وکیع نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے ابن ابی ذئب نے ایک شیخ سے روایت کیا جس کا انہوں نے نام نہیں لیا کہ حضرت ابوبکرؓ نے فجر کے وقت قنوت پڑھی۔
[المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري:7183، الصلاۃ، من کان یقنت فی الفجر ویراہ، مؤسسۃ علوم القرآن جدید ۵/ ۳۰، رقم: ۷۰۷۴، قدیم: ۲/ ۳۱۱]
حدثنا وكيع قال: حدثنا مسعر عن عبد الملك بن ميسرة (الزراد) عن زيد بن وهب قال: ربما قنت عمر في صلاة الفجر۔
ترجمہ:
ہم سے وکیع نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے مسعر نے عبد الملک بن میسرہ (الزراد) نے زید بن وہب کی سند سے بیان کیا، انہوں نے کہا: حضرت عمرؓ نے فجر کی نماز میں قنوت پڑھی۔
[المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري:7188]
[المصنف لابن أبي شیبۃ، الصلاۃ، من کان یقنت فی الفجر ویراہ، قدیم: ۲/ ۳۱۱، موسسۃ علوم القرآن جدید ۵/ ۳۱، رقم: ۷۰۷۹]
قَالَ وَكِيعٌ عَنْ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ عَنْ الْحَسَنِ قَالَ أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ وَأَبُو رَافِعٍ أَنَّهُمَا صَلَّيَا خَلْفَ عُمَرَ الْفَجْرَ فَقَنَتَ بَعْدَ الرُّكُوعِ
ترجمہ:
وکیع نے مبارک بن فضالہ سے حضرت حسن کی سند سے کہا کہ مجھ سے حضرت انس بن مالکؓ اور حضرت ابو رافعؓ نے بیان کیا کہ انہوں نے فجر کے وقت حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی تو آپ نے رکوع کے بعد قنوت پڑھی۔
[المدونة-مالك بن أنس(م179ھ) : 1/ 192]
فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
دعائے قُنوت:
قَالَ ابْنُ وَهْبٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ الْقَاهِرِ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ قَالَ: «بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَدْعُو عَلَى مُضَرَ إذْ جَاءَهُ جِبْرِيلُ فَأَوْمَأَ إلَيْهِ أَنْ اُسْكُتْ فَسَكَتَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْكَ سَبَّابًا وَلَا لَعَّانًا وَإِنَّمَا بَعَثَكَ رَحْمَةً وَلَمْ يَبْعَثْكَ عَذَابًا {لَيْسَ لَكَ مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ} [آل عمران: 128] قَالَ: ثُمَّ عَلَّمَهُ هَذَا الْقُنُوتَ: اللَّهُمَّ إنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنَخْنَعُ لَكَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَكْفُرُكَ، اللَّهُمَّ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ نَرْجُو رَحْمَتَكَ وَنَخَافُ عَذَابَكَ الْجِدَّ إنَّ عَذَابَكَ الْجِدَّ بِالْكَافِرِينَ مُلْحِقٌ.»
ترجمہ:
حضرت خالد بن ابی عمرانؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ مضر کے خلاف دعا کر رہے تھے تو جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے تو انہوں نے آپ ﷺ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ پھر فرمایا: اے محمد! اللہ نے آپ کو برابھلا کہنے، لعنت کرنے کیلئے نہیں بھیجا، آپ تو بس بھیجا گیا ہے رحمت کیلئے نہ کہ عذاب کیلئے۔ {(اے پیغمبر!) آپ کو اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا ان کو عذاب دے کیونکہ یہ ظالم لوگ ہیں۔} (سورۃ آل عمران: 128) پھر یہ (دعائے) قنوت انہیں سکھائی:
اے ﷲ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں، اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، ہم تیری اچھی تعریف کرتے ہیں، تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے، اور جو تیری نافرمانی کرے اُس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں۔ اے ﷲ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تیرے لیے ہی نماز پڑھتے، تجھے ہی سجدہ کرتے ہیں۔ تیری ہی طرف دوڑتے اور حاضری دیتے ہیں، ہم تیری رحمت کے امید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تیرا عذاب کافروں کو ہی پہنچنے والا ہے۔
[المدونة-امام مالك بن أنس(م172ھ) : جلد1 /صفحہ 192]
[السنن الكبرى - البيهقي:3142، الدعوات الكبير:433، الخلافيات - البيهقي - ت النحال:2565]
[الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار-الحازمي: صفحہ89]
[المهذب في اختصار السنن الكبير-الذهبي:2793]
[روضة المحدثين:5293]
دیگر دعائے قُنوت:
امام محمدم بن نصر المروزیؒ(م294ھ) نے اپنی کتاب
[مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر: صفحہ 321]
میں متعدد روایات اور مختلف الفاظ وترتیب سے دعائیں نقل فرمائی ہیں۔
(1)حضرت حسین بن علی ؓ سے مروی ہے کہ مجھے رسول پاک ﷺ نے یہ کلمات سکھائے کہ میں ان کو وتر میں پڑھا کروں:
«اللَّهُمَّ اهْدِنِي فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنِي فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنِي فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لِي فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنِي شَرَّ مَا قَضَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، وَإِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ»
ترجمہ:
اے اللہ! مجھے ہدایت دے، ان لوگوں میں شامل کر کے جنہیں تو نے ہدایت دی ہے، عافیت دے ان لوگوں میں شامل کر کے جنہیں تو نے عافیت دی ہے، میری نگہبانی فرمان لوگوں میں شامل کر کے جن کی تو نے نگہبانی فرمائی، اور جو تو نے دیا ہے اس میں میرے لیے برکت عطا فرما، اور جس کا تو نے فیصلہ فرما دیا ہے اس کی برائی سے مجھے بچا، اس لیے کہ تو ہی فیصلہ کرتا ہے، اور تیرے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، اور تو جس سے دوستی کرے وہ ذلیل نہیں ہوسکتا، اے ہمارے رب! تو برکت والا اور بلند و بالا ہے۔
[سنن ابي داؤد:1425، سنن النسائي:1745]
عَنْ شَيْخٍ يُكَنَّى أَبَا مُحَمَّدٍ: أَنَّ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ كَانَ يَقُولُ فِي قُنُوتِ الْوِتْرِ: «اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَرَى وَلَا تُرَى، وَأَنْتَ بِالْمَنْظَرِ الْأَعْلَى، وَإِنَّ إِلَيْكَ الرُّجْعَى، وَإِنَّ لَكَ الْآخِرَةَ وَالْأُولَى، اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نَذِلَّ وَنَخْزَى»
ترجمہ:
ایک شیخ جن کی کنیت ابو محمد ہے فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن علیؓ قنوت وتر میں یوں دعا کرتے تھے : اے اللہ ! یقیناً تو دیکھتا ہے اور خود دکھائی نہیں دیتا اور تو بلند رتبہ اور منظر والا ہے۔ اور یقیناً تیری طرف ہی لوٹنا ہے۔ اور تیرے لیے ہی آخرت اور پہلے کی زندگی ہے۔ اے اللہ ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں ذلیل اور رسوا ہونے سے ۔
[المصنف - ابن أبي شيبة - 7070(6891)]
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سکھاتے تھے ہمیں دعا جسے ہم مانگیں صبح کی نماز کے قنوت میں:
اللهُمَّ اهْدِنَا فِيمَنْ هَدَيْتَ، وَعَافِنَا فِيمَنْ عَافَيْتَ، وَتَوَلَّنَا فِيمَنْ تَوَلَّيْتَ، وَبَارِكْ لَنَا فِيمَا أَعْطَيْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَيْتَ، إِنَّكَ تَقْضِي وَلَا يُقْضَى عَلَيْكَ، إِنَّهُ لَا يَذِلُّ مَنْ وَالَيْتَ، تَبَارَكْتَ رَبَّنَا وَتَعَالَيْتَ.
ترجمہ:
اے اللہ ! ہمیں ہدایت دے ان لوگوں میں شامل فرما کر جن کو تو نے ہدایت دی ۔ اور ہمیں عافیت(صحت وسلامتی) دے ان لوگوں میں شامل فرما کر جن کو تو نے عافیت دی ہے ۔ ہمارا ولی(دوست) بن جا ان لوگوں میں شامل فرما کر جن کا تو ولی بنا ۔ اور ہمارے لیے ان چیزوں میں برکت فرما جو تو نے عطا فرمائیں ۔ اور ہمیں اس فیصلے کے شر سے بچا جو تو نے فرما رکھا ہے ۔ یقیناً تو فیصلے کرتا ہے اور تیرے خلاف فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ۔ اور یقیناً وہ شخص ذلیل نہیں ہو سکتا جس کا تو ولی ہو ۔ اے ہمارے رب ! تو بڑا بابرکت اور بلند و بالا ہے۔
[السنن الكبرى للبيهقي:3141 بَابُ دُعَاءِ الْقُنُوتِ، المهذب في اختصار السنن الكبير للذهبي:2792]
(2) حضرت عمر بن الخطابؓ ؓ سے منقول ہے کہ رکوع کے بعد یہ دعاء قنوت (نازلہ) پڑھا کرتے تھے۔
اللَّهُمَّ اغفِرْ لَنا ولِلمُؤمِنينَ والمُؤمِناتِ، والمُسلِمينَ والمُسلِماتِ، وأَلِّفْ بَينَ قُلوبِهِم، وأَصلِحْ ذاتَ بَينِهِم، وانصُرْهُم على عَدوِّكَ وعَدوِّهِم، اللَّهُمَّ العَنْ كَفَرَةَ أهلِ الكِتابِ الَّذينَ يَصُدّونَ عن سَبيلِكَ، ويُكَذِّبونَ رُسُلَكَ، ويُقاتِلونَ أولياءَكَ، اللَّهُمَّ خالِفْ بَينَ كَلِمَتِهِمَ، وزَلزِلْ أقدامَهُم، وأَنزِلْ بهِم بأسَكَ الذى لا تَرُدُّه عن القَومِ المُجرِمينَ، بسمِ اللَّهِ الرحمنِ الرحيمِ اللَّهُمَّ إنّا نَستَعينُكَ ونَستَغفِرُكَ، ونُثنِى عَلَيكَ ولا نكفُرُكَ، ونَخلَعُ ونَترُكُ مَن يَفجُرُكَ، بسمِ اللَّهِ الرحمنِ الرحيمِ اللَّهُمَّ إيّاكَ نَعبُدُ، ولَكَ نُصَلِّى ونَسجُدُ، ولَكَ نَسعَى ونَحفِدُ، نَخشَى عَذابَكَ الجِدَّ، ونَرجو رَحمَتَكَ، إنَّ عَذابَكَ بالكافِرينَ مُلحِقٌ۔
ترجمہ:
اے اللہ ہماری اور تمام مومن مرد وعورت،مسلمان مرد وعورت کی مغفرت فرما،ان کے دلوں کے درمیان الفت پیدا فرما،ان کے درمیان صلاح فرما،اپنے اوران کے دشمنوں پر ان کو غالب فرما اوران کافروں پر لعنت فرما، جو تیرے راستہ میں روک بنتے ہیں، رسولوں کو جھٹلاتے ہیں،تیرے اولیاء کو قتل کرتے ہیں، اے اللہ ان کے درمیان اختلاف فرمادے ان کے قدم ڈگمگا دے اوران پر پکڑ نازل فرما جس سے یہ مجرم قوم بچ نہ سکے۔
اے ﷲ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں، اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، ہم تیری اچھی تعریف کرتے ہیں، تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے، اور جو تیری نافرمانی کرے اُس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں۔ اے ﷲ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تیرے لیے ہی نماز پڑھتے، تجھے ہی سجدہ کرتے ہیں۔ تیری ہی طرف دوڑتے اور حاضری دیتے ہیں، ہم تیری رحمت کے امید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تیرا عذاب کافروں کو ہی پہنچنے والا ہے۔
[سنن الكبري للبيهقي:3143، شرح السنة للبغوي:3 /131، مسند الفاروق لابن كثير ت إمام:1 /224]
[صحيح ابن خزيمة»1100]
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے الارواء الغليل ( 2 / 170 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
حضرت عمر بن خطاب سے
عن عَطاءٍ، عن عُبَيدِ بنِ عُمَيرٍ، أنَّ عمرَ -رضي اللَّه عنه- قَنَتَ بَعدَ الرُّكوعِ فقالَ:
اللَّهُمَّ اغفِرْ لَنا ولِلمُؤمِنينَ والمُؤمِناتِ، والمُسلِمينَ والمُسلِماتِ، وأَلِّفْ بَينَ قُلوبِهِم، وأَصلِحْ ذاتَ بَينِهِم، وانصُرْهُم على عَدوِّكَ وعَدوِّهِم، اللَّهُمَّ العَنْ كَفَرَةَ أهلِ الكِتابِ الَّذينَ يَصُدّونَ عن سَبيلِكَ، ويُكَذِّبونَ رُسُلَكَ، ويُقاتِلونَ أولياءَكَ، اللَّهُمَّ خالِفْ بَينَ كَلِمَتِهِمَ، وزَلزِلْ أقدامَهُم، وأَنزِلْ بهِم بأسَكَ الذى لا تَرُدُّه عن القَومِ المُجرِمينَ، بسمِ اللَّهِ الرحمنِ الرحيمِ اللَّهُمَّ إنّا نَستَعينُكَ ونَستَغفِرُكَ، ونُثنِى عَلَيكَ ولا نكفُرُكَ، ونَخلَعُ ونَترُكُ مَن يَفجُرُكَ، بسمِ اللَّهِ الرحمنِ الرحيمِ اللَّهُمَّ إيّاكَ نَعبُدُ، ولَكَ نُصَلِّى ونَسجُدُ، ولَكَ نَسعَى ونَحفِدُ، نَخشَى عَذابَكَ الجِدَّ، ونَرجو رَحمَتَكَ، إنَّ عَذابَكَ بالكافِرينَ مُلحِقٌ۔
ترجمہ:
حضرت عطاء، عبید بن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ، حضرت عمر نے رکوع کے بعد قنوت پڑھی(کہ):
اے اللہ! ہم سب مومن و مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔ ان کے دلوں میں الفت ڈال دے اور ان کی اصلاح کر دے اور ان کی دشمنوں کے خلاف مدد فرما۔
اے اللہ! اہل کتاب کے ان کافروں پر لعنت کر جو تیرے راستے سے روکتے ہیں اور جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے دوستوں سے لڑائی کرتے ہیں۔ اے اللہ! ان میں آپس میں اختلاف ڈال دے اور ان کے قدم ڈگمگا دے اور ان پر ایسا عذاب نازل فرما جو تو مجرم قوم سے نہیں پھیرتا۔
اللہ کے نام کے ساتھ جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اے اللہ! ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ ہی سے بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی ثنا کرتے ہیں اور تیرے ساتھ کفر نہیں کرتے اور جو تیری نافرمانی کرتا ہے اس سے علیحدہ ہوتے ہیں اور اسے چھوڑتے ہیں۔
اللہ کے نام کے ساتھ جو بےحد مہربان، نہایت رحم والا ہے۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے لیے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف ہی دوڑتے اور کوشش کرتے ہیں اور تیرے سخت عذاب سے ڈرتے ہیں اور تیری رحمت کے امیدوار ہیں۔ بیشک تیرا عذاب کافروں کو ملنے والا ہے۔
[السنن الكبرى للبيهقي:3143]
[مصنف عبد الرزاق الصنعاني:4969]
[مصنف ابن أبي شيبة:7031]
[شرح معاني الآثار-الطحاوي:1438]
[مسند الفاروق ت إمام ابن كثير:103]
[جامع الأحاديث-السيوطي:29043]
[كنز العمال:21957]
[صحيح ابن خزيمة:1100]
[الدعاء للطبراني:750]
حكم الحديث:
صحيح
[الإرواءالعليل-لالباني:428]
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد: ج28/ ص228]
وَعَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى قَالَ: صَلَّيْتُ خَلْفَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رضي الله عنه - صَلَاةَ الصُّبْحِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ بَعْدَ الْقِرَاءَةِ قَبْلَ الرُّكُوعِ: اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ , وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ وَنَخْشَى عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكَافِرِينَ مُلْحِقٌ، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنَخْضَعُ لَكَ، وَنَخْلَعَ مَنْ يَكْفُرُكَ.
حكم الحديث:
صحيح
[الإرواءالعليل-لالباني:428]
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد: ج28/ ص229]
(3)سیدنا رفاعہ زرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب احد کی لڑائی کا دن تھا اور مشرکین منتشر ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”برابر ہو جاؤ تاکہ میں اپنے رب کی ثنا بیان کروں۔“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ ﷺ کے پیچھے صفیں بنا لیں تو آپ ﷺ نے یوں دعا کرنی شروع کی:
«اللهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ كُلُّهُ، لَا قَابِضَ لِمَا بَسَطْتَ، وَلَا بَاسِطَ لِمَا قَبَضْتَ، وَلَا هَادِيَ لِمَنْ أَضْلَلْتَ، وَلَا مُضِلَّ لِمَنْ هَدَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُقَرِّبَ لِمَا بَاعَدْتَ، وَلَا مُبَاعِدَ لِمَا قَرَّبْتَ، اللهُمَّ ابْسُطْ عَلَيْنَا مِنْ بَرَكَاتِكَ وَرَحْمَتِكَ وَفَضْلِكَ وَرِزْقِكَ، اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ الْمُقِيمَ الَّذِي لَا يَحُولُ وَلَا يَزُولُ، اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ النَّعِيمَ يَوْمَ الْعَيْلَةِ، وَالْأَمْنَ يَوْمَ الْخَوْفِ، اللهُمَّ عَائِذٌ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا أَعْطَيْتَنَا، وَشَرِّ مَا مَنَعْتَنَا، اللهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْإِيمَانَ، وَزَيِّنْهُ فِي قُلُوبِنَا، وَكَرِّهْ إِلَيْنَا الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ، وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِينَ، اللهُمَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ، وَأَحْيِنَا مُسْلِمِينَ، وَأَلْحِقْنَا بِالصَّالِحِينَ، غَيْرَ خَزَايَا وَلَا مَفْتُونِينَ، اللهُمَّ قَاتِلِ الْكَفَرَةَ الَّذِينَ يُكِذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ، وَاجْعَلْ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، إِلَهَ الْحَقِّ آمِينَ»
ترجمہ:
”اے اللہ! تمام تعریف تیری ہی ہے۔ اے اللہ! جس کو تو وسعت دے اس پر کوئی تنگی کرنے والا نہیں، اور جسے تو دور کر دے اسے کوئی قریب کرنے والا نہیں، اور جسے تو قریب کرے اسے کوئی دور کرنے والا نہیں۔ اس کو کوئی دینے والا نہیں جس کو تو نہ دے، اور جس کو تو دے اس کو کوئی روکنے والا نہیں۔ اے اللہ! ہم پر اپنی برکتوں، رحمت، فضل اور رزق کے دروازے کھول دے۔ اے اللہ! میں تجھ سے قائم رہنے والی ایسی نعمتوں کا سوال کرتا ہوں جو نہ منتقل ہوں، اور نہ ختم ہوں۔ اے اللہ! میں تجھ سے فقر و محتاجی کے دن نعمتوں کا سوال کرتا ہوں، اور خوف کے روز امن کا۔ اے اللہ! جو کچھ تو نے ہمیں دیا ہے میں اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور جو تو نے ہم سے روک لیا ہے اس کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ اے اللہ! ایمان کو ہمارے لیے محبوب بنا دے، اور اسے ہمارے دلوں میں مزین کر دے۔ کفر، فسق اور نافرمانی کو ہمارے لیے ناپسندیدہ بنا دے، اور ہمیں ہدایت والوں میں سے بنا دے۔ اے اللہ! ہم کو مسلمان ہونے کی حالت میں فوت کرنا، اور مسلمان ہی زندہ رکھنا، اور ہمیں نیکوں کے ساتھ ملا دے۔ نہ ہم رسوا ہوں اور نہ فتنے میں ڈالے گئے ہوں۔
اے اللہ! کافروں پر لعنت فرما، وہ جو تیرے راستے سے روکتے ہیں، اور تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں۔ ان پر سخت مصیبت اور عذاب نازل فرما۔ اے اللہ! ان کافروں پر لعنت کر جنہیں کتاب دی گئی (اور انہوں نے اسے جھٹلایا)، اے معبود برحق۔“
[الأدب المفرد-البخاري:699، صحيح الأدب المفرد:541، المعجم الكبير للطبراني:4549، الدعاء للطبراني:1075]
[مسند أحمد: 15492، السنن الكبرىٰ للنسائي: 10370، عمل اليوم والليلة للنسائي:609، السنة لابن أبى عاصم:381، الدعاء للطبراني:1075، المستدرك على الصحيحين للحاكم:1868-4308، مسند البزار:3724، كشف الأستار عن زوائد البزار:1800، مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر، ٣٢١/١، القضاء والقدر للبيهقي:370، الدعوات الكبير للبيهقي:193]
عبدالرحمن بن ابزی نے اپنے والد أبزی سے اس کو بیان کیا ہے۔
[الاتقان:۱/۲۲۶]
[السنن الكبرى للبيهقي:3144]
(4) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زُرَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى حُبِّ أَبِي تُرَابٍ إِلَّا أَنَّكَ أَعْرَابِيُّ جَافٍ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ قَبْلَ أَنْ يَجْتَمِعَ أَبَوَيْكَ، لَقَدْ عَلَّمَنِي سُورَتَيْنِ عَلَّمَهُمَا إِيَّاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا عَلِمْتَهُمَا أَنْتَ وَلَا أَبُوكَ: " اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ وَلَا نَكْفَرُكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرَكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ وَنَخْشِي عَذَابَكَ الْجِدَّ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحَقٌ، اللَّهُمَّ عَذِّبْ كَفَرَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكِ وَيَجْحَدُونَ آيَاتِكَ، وَيُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَيَتَعَدَّوْنَ حُدُودَكَ، وَيَدْعُونَ مَعَكَ إِلَهًا آخَرَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ عَمَّا يَقُولُ الظَّالِمُونَ عُلُوًّا كَبِيرًا۔
ترجمہ:
عبداللہ بن زریر سے روایت ہے کہ، انہوں نے کہا: عبدالملک بن مروان نے مجھ سے کہا: آپ کو ابو تراب (حضرت علیؓ) سے محبت کس چیز نے کی، سوائے اس کے کہ آپ خشک اعرابی ہیں؟ تو میں نے کہا: اللہ کی قسم میں نے آپ کے والدین کی ملاقات سے پہلے قرآن پڑھا، اس نے مجھے دو سورتیں سکھائیں کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سکھائیں جو نہ تو نے اور نہ ہی تیرے والد نے انہیں سکھایا:
اے اللہ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، تیری خیر کی تعریف کرتے ہں م، تیری ناشکری نہیں کرتے، جو تیری نافرمانی کرے اسے چھوڑتے ہیں اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لیے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔
اے اللہ! کافروں کو اہل کتاب ہوں یا مشرکین ، ان پر عذاب نازل کیجئے جنہوں نے آپ کے راستہ سے روکا ، آپ کی آیتوں کا انکار کیا، رسولوں کو جھٹلایا، تیرے حدود کو پامال کیا، تیرے ساتھ دوسرے معبود کی عبادت کی، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، بابرکت بلند بالا ہیں، ان چیزوں سے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔
[الدعاء - الطبراني: 750][الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية:2/ 302، روضة المحدثين:5292]
عبد الرزاق، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، *، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يَقْنُتُ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ فِي الْفَجْرِ غَيْرَ أَنَّهُ يُقَدِّمُ الْآخِرَةَ، وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وإلَيْكَ نَسْعَى وَنحْفِد، نرْجُو رَحْمَتك، وَنخشى عَذَابَك، إِن عَذابَكَ بِالكَافِرِينَ مُلحِقٌ، اللهُمَّ إِنّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَهْدِيكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ كُلَّهُ، وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنُؤْمِنُ بِكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ۔
ترجمہ:
حضرت عبد الملک بن سوید کاہلی کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے ہوئے یہ دو اجزاء کہے (ترجمہ) اے اللہ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، تیری خیر کی تعریف کرتے ہں م، تیری ناشکری نہیں کرتے، جو تیری نافرمانی کرے اسے چھوڑتے ہیں اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لیے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ» کتاب: جمعہ کا بیان » باب: دعائے قنوت کے کلمات » حدیث نمبر: 7102]
[المصنف - عبد الرزاق - ط التأصيل الثانية : حدیث نمبر 5118]
[الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2736]
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ قنوت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کے زمانہ میں پڑھی تھی۔
عبد الرزاق، عن جعفر، عن عطاء بن السائب، عن عبد الله بن حبيب، أن عليا كان يقنت في صلاة الغداة قبل الركوع، وفي الوتر قبل الركوع۔
ترجمہ:
امام عبد الرزاق، جعفر کی سند سے، وہ عطاء بن السائب کی روایت سے، وہ عبداللہ بن حبیب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صبح کی نماز میں رکوع سے پہلے اور وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھا کرتے تھے۔
[المصنف - عبد الرزاق - ط التأصيل الثانية: حدیث نمبر 5114]
عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ أَنَّ عَلِيًّا كَبَّرَ حِينَ قَنَتَ فِي الْفَجْرِ وَكَبَّرَ حِينَ رَكَعَ۔
ترجمہ:
ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی اور پھر صبح کی نماز میں قنوت پڑھی، پھر تکبیر کہی اوررکوع کیا۔
[المدونة-مالك بن أنس(م179ھ) : 1 / 192]
[مصنف عبدالرزاق:5100(4960)]
[المصنف - ابن أبي شيبة:7216(7034)]
[الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2728]
لہٰذا
قنوت سے قبل تکبیر کہی جائے گی اور پھر قنوت پڑھا جائے گا۔
حضرت عیسیٰ کا دجال کے خلاف قنوتِ نازلہ :
(4) حضرت عیسیٰؑ آسمان سے نازل ہوں گے (پس سب سے پہلی نمازِ فجر کے علاوہ باقی نمازوں میں) مسلمانوں کی امامت فرمائیں گے، اور (نماز پڑھاتے ہوئے) رکوع سے سر اُٹھاکر ”سمع اللہ لمن حمدہ“ کے بعد (بطورِ دعاء) فرمائیں گے:
قَتَلَ اللَّهُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ وَظَهَرَ الْمُسْلِمُونَ۔
اللہ تعالیٰ دجال کو قتل کرے اور مومنین کو غالب کرے۔
[كشف الأستار عن زوائد البزار:3396،مجمع الزوائد:12543،مسند البزار:9642]
یہ حدیث حسن ہے۔
[الصحيح المسند مما ليس في الصحيحين:1383،الجامع الصحيح مما ليس في الصحيحين:534+3821+4289]
قنوتِ نازلہ
اجتماعی مصیبت کے وقت کی نبوی دعا
مسلمان اس وقت جن حالات سے دو چار ہیں، حلب و شام میں خصوصاً اور پورے عالم میں عموماً، ضروری معلوم ہوا کہ ایسے وقت میں نبوی علاج کی رہنمائی کی جائے، جس میں اصل تو گناہوں سے توبہ و تعلق مع اللہ ہے،اور من جملہ ان کے قنوتِ نازلہ کا اہمتام بھی ہے، جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تعلیم دی ہے ۔ آقاے دو جہاں، رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اسوہٴ حسنہ یہ ہے کہ جب مسلمانوں پر کوئی عام اور عالم گیر مصیبت نازل ہو، مثلاً غیر مسلم حکومتوں کی طرف سے حملہ اور تشدد ہونے لگے اور دنیا کے سر پر خوف ناک جنگ چھا جائے یا دیگر بلاوٴں اور بربادیوں اور ہلاکت خیزیوں میں مبتلا ہو جائے، تو ایسی مصیبت کے دفعیے کے لیے فرض نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھتے تھے، اور جب تک وہ مصیبت دفع نہ ہو جائے، یہ عمل برابر جاری رہتا تھا اور اس کا جواز عموماً جمہور ائمہ اور خصوصاً حنفیہ کے نزدیک باقی ہے اور منسوخ نہیں ہے؛ بلکہ جب کوئی عام مصیبت پیش آئے تومصیبت کے زمانے تک قنوتِ نازلہ پڑھنا جائز ہے، لہٰذا مسلمانوں کو ضرورت کے وقت اس سنت پر عمل کرناچاہیے اور قنوتِ نازلہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ توبہ و استغفار کی کثرت، ظلم و زیادتی اور فسق و فجور اور ہر قسم کے گناہوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مسلمان حقوق العباد کی ادایگی کا پورا پورا لحاظ رکھیں، آپس میں محبت و ہم دردی اور اتفاق پیدا کریں، لہو و لعب سے پرہیز کریں اور اپنے خالق بزرگ و برتر کی بارگاہ میں گریہ و زاری کے ساتھ مناجات و دعا کریں؛ غرض یہ کہ ہر قسم کے اوامر و اخلاقِ حسنہ پر عمل کی کوشش کریں اور ہر قسم کی منکرات و برائی سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتِ کاملہ سے امید ہے کہ وہ اپنے بندوں کی دعائیں قبول اور ان کو اس گردابِ بلاسے نجات و خلاصی عطا فرمائے گا۔(عمدة الفقہ:۲/۲۹۵بترمیم)
چند احادیث
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک نمازِ فجر میں قنوت پڑھی، جس میں آپ نے عرب کے بعض قبیلوں؛ رِعْل، ذکوان، عُصَیَّہ اور بنی لِحیان کے خلاف بددعا فرمائی۔(بخاری:۱۵۷۹)حضرت انس بن مالککی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ماہ تک قنوتِ نازلہ پڑھی اور اس کے بعد چھوڑ دی۔(ابوداود:۱۴۴۵) حضرت انس بن مالکسے دریافت کیا گیاکہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبح کی نماز میں قنوتِ نازلہ پڑھی ہے ؟ انھوں نے فرمایا: ہاں۔ پھر پوچھا گیا کہ رکوع سے پہلے پڑھی ہے یا رکوع کے بعد ؟ فرمایا: رکوع کے بعد۔ (ابوداوٴد:۱۴۴۴)
تین قنوت
لفظ قنوت کے معنی ہیں دعا، اور قنوت تین ہیں؛(۱)ایک وہ جو وتر میں پڑھی جاتی ہے (۲)دوسری قنوتِ نازلہ ہے، یعنی وہ قنوت جو دشمن کی طرف سے آنے والی اُفتاد کے وقت میں پڑھی جاتی ہے، یہ قنوت اجتماعی ہے جب مسلمانوں کو دشمن کی طرف سے کسی آفت کا سامنا ہو تو انھیں قنوتِ نازلہ پڑھنی چاہیے ۔ پھر امامِ اعظم رحمہ اللہ کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ قنوت صرف نمازِ فجر کی دوسری رکعت کے قومے میں پڑھی جائے اور دوسرا قول یہ ہے کہ تمام جہری نمازوں میں پڑھ سکتے ہیں، اور امام شافعی کے نزدیک پانچوں نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھ سکتے ہیں(۳) تیسری قنوت قنوتِ راتبہ یعنی ہمیشہ پڑھا جانے والی قنوت اس کے صرف امام مالک اور امام شافعی قائل ہیں۔ پھر امام مالک رحمہ اللہ اس کو مستحب گر دانتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ سنت، باقی دو امام اس قنوت کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ قنوت صرف فجر کی نماز میں دوسری رکعت کے قومے میں پڑھتے ہیں۔(تحفة الالمعی:۲/۲۳۶)
نیز درست یہ ہے کہ قنوتِ نازلہ جنگ کے ساتھ مخصوص نہیں؛ بلکہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آجائے یا فتنے میں مبتلا ہوں تو اسے پڑھا جائے۔(خیر الفتاویٰ:۲/۲۸۸)جب طاعون یا ہیضے وغیرہ کی وبا پھیل جائے جس سے لوگ مضطرب اور پریشان ہوں، تو قنوتِ نازلہ پڑھی جا سکتی ہے؛ تاآں کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو دور کر دے ۔(فتاویٰ رحیمیہ:۶/۲۱ صالح)
قنوتِ نازلہ سب کے لیے
قنوتِ نازلہ کا حکم عام ہے، مرد، عورت، امام، منفرد ہر ایک کو شامل ہے ۔ جماعت کی قید اور مَردوں کی تخصیص اور منفرد یا عورتوں کے لیے ممانعت کی صریح اور صحیح دلیل منقول نہیں ہے ۔ ”قَنَتَ الامامُ“ اس کے لیے کامل دلیل نہیں ہے ۔(حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحبکابھی یہی نظریہ ہے) لہٰذا منفرد اور عورتیں اپنی نماز میں دعاے قنوت پڑھ سکتی ہیں؛ مگر عورتیں زور سے نہ پڑھیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۶/۲۳)
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ
اس لیے عام مصیبت کے وقت بالاتفاق نماز ِ فجرکی جماعت میں قنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون و مستحب ہے، جس میں نہ قنوتِ وتر کی طرح ہاتھ اٹھائیں نہ تکبیر کہیں۔(جواہر الفقہ:۶/۱۲۶) یعنی قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد سَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر امام قومہ کرے،اور اسی حالت میں دعاے قنوت پڑھے اور جہاں جہاں وہ ٹھہرے، وہاں سارے مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں،پھر دعا سے فارغ ہو کر اللّٰہ اکبرکہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں اور بقیہ نماز امام کی اقتدا میں معمول کے مطابق ادا کریں۔’عمدة الفقہ‘ میں ہے کہ بہ اعتبارِ دلیل کے قوی یہ ہے کہ(قنوتِ نازلہ)رکوع کے بعد پڑھی جائے، یہی اولیٰ اور مختار ہے۔ دعا سے فارغ ہو کر اللّٰہ اکبر کہہ کر سجدے میں جائیں۔ اگر یہ دعامقتدیوں کو یاد ہو، تو بہتر ہے کہ امام بھی آہستہ پڑھے اور سب مقتدی بھی آہستہ پڑھیں اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو، جیسا کہ اکثر تجربہ اس کا شاہد ہے تو بہتر یہ ہے کہ امام زور سے پڑھے اور سب مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں۔(عمدة الفقہ:۲/۲۹۶بترمیم)
قنوتِ نازلہ
قنوتِ نازلہ مختلف روایات میں قدرے مختلف الفاظ کے ساتھ وارد ہوئی ہے، ایک جامع دعا یہ ہے:
اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِیْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِیْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِیْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِیْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، فَاِنَّکَ تَقْضِیْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، اِنَّہ لَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، وَ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ۔ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ وَلِلْمُوٴمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَ أَصْلِحْھُمْوَ أَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَ أَلِّفْ بَیْنَ قُلُوبِھِمْ وَاجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْاِیْمَانَ وَالْحِکْمَةََ، وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِیْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ، وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِیْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ، لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔ اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَةَ وَالْمُشْرِکِیْنَ، الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَائَکَ۔ اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِیْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذیْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ۔
ترجمہ:
یا اللہ ! ہمیں راہ دکھلا اُن لوگوں میں جن کو آپ نے راہ دکھلائی، اور عافیت دے اُن لوگوں میں جن کو آپ نے عافیت عطا فرمائی، اور کارسازی فرمائیے ہماری ان لوگوں میں جن کے آپ کارسازہیں، اور برکت دے اُس چیز میں جو آپ نے ہم کو عطا فرمائی اور بچا ہم کو اُس چیز کے شر سے جس کو آپ نے مقدر فرمایا؛ کیوں کہ فیصلہ کرنے والے آپ ہی ہیں، آپ کے خلاف فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، بے شک آپ کا دشمن عزت نہیں پاسکتا اور آپ کا دوست ذلیل نہیں ہوسکتا، برکت والے ہیں آپ اے ہمارے پروردگار!اور بلند و بالا ہیں۔ یا اللہ ! مغفرت فرما مومن مردوں اور عورتوں کی اور مسلمان مَرد اور مسلمان عورتوں کے گناہ معاف فرما اور اُن کے حالات کی اصلاح فرمااور ان کے باہمی تعلقات کو درست فرمادے اور اُن کے دلوں میں الفت باہمی اور محبت پیدا کردے اور ان کے دلوں میں ایمان و حکمت کو قائم فرما دے اور ان کو اپنے رسول کے دین پر ثابت قدم فرما، اور توفیق دے انہیں کہ شکر کریں تیری اُس نعمت کا جو تو نے انھیں دی ہے اور یہ کہ وہ پورا کریں تیرا وہ عہدجو تو نے ان سے لیا ہے ، اور غلبہ عطا کر اُن کو اپنے دشمن پر اور اُن کے دشمن پر اے معبود برحق! تیری ذات پاک ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ یا اللہ! مسلم افواج کی مدد فرماا اور کفار و مشرکین پر اپنی لعنت فرما جو ٓپ کے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور آپ کے دوستوں سے مقاتلہ کرتے ہیں، یا اللہ !اُن کے آپس میں اختلاف ڈال دے اور اُن کی جماعت کو متفرق کردے اور اُن کی طاقت کو پارہ پارہ کردے اور اُن کے قدم اکھاڑ دے اور اُن کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دے اور اُن کو ایسے عذاب میں پکڑ لے جس میں قوت و قدرت والا پکڑتا ہے اور اُن پر وہ عذاب نازل فرما جس کو آپ مجرم قوموں سے اٹھایا نہیں کرتے ۔
(جواہر الفقہ : ۴۴۵/۲، ۴۴۶، ۴۴۷، ط: زکریا ، جدید)
۲۔ اَللّھُمَّ اِنّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ. (رواہ احمد وابوداؤد)
No comments:
Post a Comment