قرآن کریم اللہ تعالی کی جانب سے نازل کردہ ہدایت نامہ ہے،جس میں ساری انسانیت کے لیے رہنمائی ہے،جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
(الحجر:۹)
حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر(یعنی قرآن)ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ
(بنی اسرائیل:۹)
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دِکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔
فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَایَضِلُّ وَلَا یَشْقَیo وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی"۔
(طٰہٰ:۱۲۴،۱۲۳)
جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ مشکل میں گرفتار ہوگااور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔
"وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ "۔
(سورۃ القمر:۱۷)
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے ، اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔
" اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗoفَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗoثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ"۔
(القیامۃ:۱۷۔۱۹)
یقین رکھو کہ اس کو یاد کروانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے، پھر جب ہم اسے(جبرئیل کے واسطے سے) گویا اس کو پڑھ رہے ہوں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔ پھر اس کی وضاحت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
"وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ"۔
(سورۃ النحل:۴۴)
اور (اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کردو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔
پبغمبر کا کام (1)تلاوت، (2)تزکیہ اور (3)تعلیم بھی ہے۔
اللہ پاک نے فرمایا:
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
[سورۃ آل عمران:164]
قرآن کی شرعی حیثیت
"فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ"۔
(النساء:۵۹)
ترجمہ:پس اگر کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو تو اس امر کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالہ کردیا کرو؛ اگرتم اللہ پر یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو۔
(فوائد عثمانی برترجمہ شیخ الہندؒ، النساء:۵۹)
(الملل والنحل:۱/۱۳۶)
(حیات امام ابن القیم:۲۵۸)
(اسلامی انسائیکلوپیڈیا:۱۲۳۹)
(الفوزالکبیر:۲)
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا"۔
(آل عمران:۱۰۳)
ترجمہ:اورمضبوط پکڑےرہو اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو اس طور پر کہ (تم سب) باہم متفق بھی رہو۔
"تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُوْلِہِ"۔
(مشکوٰۃ:۳۱)
ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑ رہا ہوں، جب تک تم اس کو تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہو گے:ایک کتاب اللہ دوسری سنتِ رسول۔
(ابوداؤد:۲/۵۰۵)
"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ لِمَا يَرْضٰی رَسُولؑ اللَّهِ"۔
(ابوداؤد، باب اجتہاد الرأی فی القضاء، حدیث نمبر:۳۱۱۹)
ترجمہ:تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق دی کہ اس سے اس کا رسول راضی ہے۔
(تاریخ التشریع الاسلامی:۱۹)
(اسلام اور مستشرقین:۲/۱۴)
"وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ"۔
(البقرۃ:۴۳)
ترجمہ:اور قائم کرو نماز کو (یعنی مسلمان ہوکر) اور دوزکوٰۃ کو۔
"كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ"۔
(البقرۃ:۱۷۸)
تم پر (قانون) قصاص فرض کیا جاتا ہے۔
"كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ"۔
(البقرۃ:۱۸۳)
تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے۔
"وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ"۔
(البقرۃ:۲۲۸)
ترجمہ:اور طلاق دی ہوئی عورتیں اپنے آپ کو (نکاح سے) روکے رکھیں۔
"وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ"۔
(النساء:۹۳)
ترجمہ:اور جومرد چوری کرے اور جوعورت چوری کرے سوان دونوں کے (داہنے) ہاتھ (گٹے) پر سے کاٹ ڈالو۔
"وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ"۔
(الانعام:۱۵۱)
ترجمہ:اورجس شخص کے قتل کرنے کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے اس کو قتل نہیں کرتے، ہاں! مگرحق پر ہو۔
(سہ ماہی مجلّہ، الصفا، سبیل السلام حیدرآباد)
"فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَفْعِهِمَا"۔
(البقرۃ:۲۱۹)
ترجمہ: ان دونوں (خمرومیسر) کے استعمال میں گناہ کی بڑی بڑی باتیں بھی ہیں اور لوگوں کے بعض فائدے بھی ہیں اور وہ گناہ کی باتیں ان کے فائدوں سے زیادہ بڑھی ہوئی ہیں۔
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنْتُمْ سُكَارَى"۔
(النساء:۴۳)
ترجمہ:اے ایمان والو! تم نماز کے پاس بھی ایسی حالت میں مت جاؤ کہ تم نشہ میں ہو۔
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"۔
(المائدۃ:۹۰)
ترجمہ:اے ایمان والو (بات یہی ہے کہ) شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر (یہ سب) گندے شیطانی کام ہیں سوان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔
(تاریخ التشریع الاسلامی:۱۸،۱۹)
"وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى"۔
(الانعام:۱۶۴)
ترجمہ:کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔
"وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى"۔
(النجم:۳۹)
ترجمہ:انسان کے لیے صرف وہ ہے جس کی اس نے کوشش کی۔
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ"۔
(المائدۃ:۱)
ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے وعدوں کو پورا کرو۔
"وَلَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوا بِهَا إِلَى الْحُكَّامِ لِتَأْكُلُوا فَرِيقًا مِنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ"۔
(البقرۃ:۱۸۸)
ترجمہ:اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ پہنچاؤ ان کو حاکموں تک کہ کھاجاؤ لوگوں کے مال میں سے کوئی حصہ ناحق درآنحالیکہ تم جانتے ہو۔
"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَاتَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّاأَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ"۔
(النساء:۲۹)
ترجمہ:اے ایمان والو! نہ کھاؤ مال ایک دوسرے کا ناحق مگر یہ کہ آپس کی مرضی سے تجارت کرو۔
"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ"۔
(النساء:۵۸)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔
"وَلَا تَقْرَبُوا مَالَ الْيَتِيمِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ حَتَّى يَبْلُغَ أَشُدَّهُ وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا"۔
(الاسراء:۳۴)
ترجمہ:اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤ مگربہتر طور پر جب تک کہ وہ جوانی کو پہنچے اور عہدکوپورا کرو، بیشک عہد کے متعلق بازپرس ہوگی۔
"الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ"۔
(البقرۃ:۲۲۹)
ترجمہ:طلاق رجعی ہے دوبار تک اس کے بعد دستور کے موافق رکھ لینا یابھلی طرح سے چھوڑ دینا۔
"وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ..... لَاتُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَامَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ"۔
(البقرۃ:۲۳۳)
ترجمہ:اور باپ کے ذمہ ان عورتوں کا حسب دستور کھانا کپڑا ہے، نقصان نہ دیا جائے ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے اور نہ باپ کو اس کے بچہ کی وجہ سے۔
"وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا"۔
(الشوریٰ:۴۰)
ترجمہ:برائی کا بدلہ برائی ہے برابر برابر۔
"وَأَشْهِدُوا ذَوَيْ عَدْلٍ مِنْكُمْ"۔
(الطلاق:۲)
ترجمہ:تم اپنے میں سےمعتبر لوگوں کو شاہد بناؤ۔
"وَلَاتَكْتُمُوا الشَّهَادَةَ وَمَنْ يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُ آثِمٌ قَلْبُهُ"۔
(البقرۃ:۲۸۳)
ترجمہ:شہادت کو مت چھپاؤ، جو شخص اس کو چھپاتا ہے اس کا دل گنہگار ہے۔
"وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ"۔
(البقرۃ:۲۸۰)
ترجمہ:اگرمقروض تنگ دست ہے تو اس کو آسانی حاصل ہونے تک مہلت دو۔
"يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ"۔
(البقرۃ:۱۸۵)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے، مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا۔
"وَمَاجَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ"۔
(الحج:۷۸)
ترجمہ:اللہ تعالیٰ دین کے بارے میں تم پر تنگی نہیں کی ہے۔
"فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ"۔
(البقرۃ:۱۷۳)
ترجمہ:پھرجو کوئی بھوک سے بے اختیار ہوجائے نہ فرمانی کرے، نہ زیادتی تواس پر کوئی گناہ نہیں۔
"وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلْمُسْلِمِينَ"۔
(النحل:۸۹)
ترجمہ:اور مسلمانوں کے واسطے بڑی ہدایت اور بڑی رحمت اور خوشخبری سنانے والا ہے۔
"إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ"۔
(آل عمران:۱۹)
ترجمہ:بلاشبہ دین حق اور مقبول اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
(الحجر:۹)
حقیقت یہ ہے کہ یہ ذکر(یعنی قرآن)ہم نے ہی اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ
(بنی اسرائیل:۹)
حقیقت یہ ہے کہ یہ قرآن وہ راستہ دِکھاتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھا ہے۔
فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَایَضِلُّ وَلَا یَشْقَیo وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہُ مَعِیْشَۃً ضَنکاً وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْمَی"۔
(طٰہٰ:۱۲۴،۱۲۳)
جو کوئی میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ مشکل میں گرفتار ہوگا اور جو میری نصیحت سے منہ موڑے گا تو اس کو بڑی تنگ زندگی ملے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔
"وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ "۔
(القمر:۱۷)
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کونصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے ،اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے۔
" اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗoفَاِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗoثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہ"۔
(القیامۃ:۱۷۔۱۹)
یقین رکھو کہ اس کو یاد کروانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے،پھر جب ہم اسے(جبرئیل کے واسطے سے) گویا اس کوپڑھ رہے ہوں تو تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔
"وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ"۔
(النحل:۴۴)
اور (اے پیغمبر!)ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کردو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔
"ھُوَعِلْمٌ یُعْرَفُ بِہٖ فَھْمُ کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ عَلیٰ نَبِیِّہَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَیَانُ مَعَانِیْہِ وَاسْتَخْرَاج أَحْکَامِہٖ وَحِکَمِہٖ"۔
(البرھان فی علوم القرآن:۱۳۱)
"ھُوَعِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ كَيْفِيَّةِ النُّطْقِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ، وَمَدْلُوْلَاتِهَا، وَأَحْكَامِهَا الْإِفْرَادِيَّةِ وَالتَّرْكِيْبِيَّةِ، وَمَعَانِيْهَا الَّتِيْ تُحْمَلُ عَلَيْهَا حَالَۃِ التَّرْكِيْبِ، وَتَتِمَّاتُ لِذَلِك"۔
(روح المعانی:۴/۱)
وہ علم ہے کہ جس میں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور اُن معانی سے بحث کی جاتی ہو جو کہ ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ ومنسوخ اور شان نزول اور غیرواضح مضمون کی وضاحت میں بیان کیا جائے۔
وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ
(الذاریات:۲۱)
اور تم اپنی جانوں میں غور کرو کیا تم نہیں دیکھتے۔
(علوم القرآن:۳۲۳۔۳۲۵)
"ھُوَعِلْمٌ یُعْرَفُ بِہٖ فَھْمُ کِتَابِ اللہِ الْمُنَزَّلِ عَلیٰ نَبِیِّہَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَیَانُ مَعَانِیْہِ وَاسْتَخْرَاج أَحْکَامِہٖ وَحِکَمِہٖ"۔
(البرھان فی علوم القرآن:۱۳۱)
"ھُوَعِلْمٌ يُبْحَثُ فِيْهِ عَنْ كَيْفِيَّةِ النُّطْقِ بِأَلْفَاظِ الْقُرْآنِ، وَمَدْلُوْلَاتِهَا، وَأَحْكَامِهَا الْإِفْرَادِيَّةِ وَالتَّرْكِيْبِيَّةِ، وَمَعَانِيْهَا الَّتِيْ تُحْمَلُ عَلَيْهَا حَالَۃِ التَّرْكِيْبِ، وَتَتِمَّاتُ لِذَلِك"۔
(روح المعانی:۴/۱)
وہ علم ہے کہ جس میں قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی کے طریقے اور ان کے مفہوم اور ان کے افرادی اور ترکیبی احکام اور اُن معانی سے بحث کی جاتی ہو جو کہ ان الفاظ سے جوڑنے کی حالت میں مراد لیے جاتے ہیں اور ان معانی کا تکملہ جو ناسخ ومنسوخ اور شان نزول اور غیرواضح مضمون کی وضاحت میں بیان کیا جائے۔
وَفِیْ اَنْفُسِکُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ
(الذاریات:۲۱)
اور تم اپنی جانوں میں غور کرو کیا تم نہیں دیکھتے۔
(علوم القرآن:۳۲۳۔۳۲۵)
تفسیر کے اصول
"ھُوَالَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ"۔
(آل عمران:۷)
اے رسول !وہی اللہ ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی ہےجس کی کچھ آیتیں تو محکم ہیں جن پر کتاب کی اصل بنیاد ہےاورکچھ دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔
"اهْدِنَاالصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِالْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَاالضَّالِّينَ"۔
(الفاتحۃ:۶،۷)
ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما،ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا ہے۔
"وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا"۔
(النساء:۹۶)
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں گےتو وہ ان کے ساتھ ہوں گےجن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے،یعنی انبیاء،صدیقین،شہداءاور صالحین اور وہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔
"فَتَلَـقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِoاِنَّہٗ ھُوَالتَّوَّابُ الرَّحِیْمُ"۔
(البقرۃ:۳۷)
پھر آدمؑ نے اپنے پروردگار سے(توبہ کے)کچھ الفاظ سیکھ لیے(جن کے ذریعہ انہوں نے توبہ مانگی)چنانچہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کرلی،بے شک وہ بہت معاف کرنے والا،بڑا مہربان ہے۔
"قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا،وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ"۔
(الاعراف:۲۳)
دونوں بول اٹھے کہ:اے ہمارے پروردگار!ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گزرے ہیں اور اگرآپ نے ہمیں معاف نہ فرمایااور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم نامراد لوگوں میں شامل ہوجائیں گے۔
"الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولِٰئکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ"۔
(الانعام:۸۲)
جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہ دیا،امن وچین تو بس ان ہی کا حق ہےاور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔
" إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ"۔
(لقمان:۱۳)
کہ شرک ظلم عظیم ہے۔
(بخاری،باب ظلم دون ظلم،حدیث نمبر:۳۱)
(النحل:۴۴)
"وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ"۔
(البقرۃ:۱۸۷)
اور اس وقت تک کھاؤ پیو جب تک صبح کی سفید دھاری سیاہ دھاری سے ممتاز ہوکرتم پر واضح (نہ) ہوجائے۔
" إِنَّمَا ذَلِكَ سَوَادُ اللَّيْلِ وَبَيَاضُ النَّهَار"۔
(بخاری، بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا،حدیث نمبر:۱۷۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)
کہ خیط ابیض سے مراد صبح صادق اور خیط اسود سے مراد صبح کاذب ہے۔
"اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ، وَّلَا تَاْخُذْکُمْ بِہِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ،وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ"۔
(النور:۲)
زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرددونوں کو سوسو کوڑے لگاؤاور اگر تم اللہ اوراس کے رسول پر ایمان رکھتے ہو تو اللہ کے دین کے معاملہ میں ان پر ترس کھانے کا کوئی جذبہ تم پرغالب نہ آئےاور یہ بھی چاہیے کہ مؤمنوں کا ایک مجمع ان کی سزا کو کھلی آنکھوں دیکھے۔
"عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ أَمَرَ فِيمَنْ زَنَى وَلَمْ يُحْصَنْ بِجَلْدِ مِائَةٍ وَتَغْرِيبِ عَامٍ"۔
(بخاری،بَاب شَهَادَةِ الْقَاذِفِ وَالسَّارِقِ وَالزَّانِي،حدیث نمبر:۲۴۵۵، شاملہ، موقع الإسلام)
زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے غیر شادی شدہ زنا کرنے والوں کو سو کوڑے مارنے کا اور ایک سال کے لیے وطن سے نکالنے کاحکم دیا۔
"الشَّيْخُ وَالشَّيْخَةُ إِذَازَنَيَا فَارُجُمُوهُمَا أَلْبَتَّةَ، رَجَمَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهٗ"۔
(ابن ماجہ، باب الجرم، حدیث نمبر:۲۵۴۳، شاملہ، موقع الإسلام)
شادی شدہ مرد وعورت جب زنا کے مرتکب ہوں تو ان کو رجم کرو، یعنی سنگسار کردو ،راوی کہتے ہیں کہ خود حضور ﷺ نے اپنی زندگی میں ایسی سزادی ہے اور بعد میں ہم نے بھی ایسی سزا دی ہے۔
"غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ"۔
(الفاتحۃ:۷)
نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جن پر غضب نازل ہوا ہےاور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔
"إِنَّ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ أَلْيَهُوْدُ وَإِنَّ الضَّالِّيْنَ النَّصَارَىٰ"۔
(مسند احمد بن حنبل،بقیۃ حدیث بن حاتم،حدیث نمبر:۹۴۰۰، شاملہ، موقع الإسلام)
جن پر غضب نازل ہوا اس سے مراد یہود ہیں اور جو راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اس سے مراد نصاری ہیں۔
"حَدَّثَنَا الَّذِيْنَ كَانُوْا يَقْرَؤَوْنَ الْقُرَآنَ كَعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَعَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُوْدٍ وَغَيْرِهِمَا أَنَّهُمْ كَانُوْا إِذَا تَعَلَّمُوْا مِنَ النَّبِيِّﷺ عَشَرَ آيَاتِ لَمْ يَتَجَاوَزُوْهَا حَتَّى يَعْلَمُوْا مَافِيْهَا مِنَ الْعِلْمِ وَالْعَمَلِ"۔
(الاتقان فی علوم لقرآن،الفصل فی شرف التفاسیر، النوع الثامن والسبعون:۲/۴۶۸، شاملہ،المؤلف:عبد الرحمن بن الكمال جلال الدين السيوطي)
صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے جو قرآن کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا کرتے تھے،مثلاً حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ انہوں نے ہمیں یہ بتایا کہ وہ لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دس آیتیں سیکھتے تو ان آیتوں سے آگے نہ بڑھتے جب تک ان آیتوں کی تمام علمی وعملی باتوں کو نہ جان لیتے۔
"كَانَ الرَّجُلُ إِذَاقَرَأ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ جَدَّ فِيْنَا"۔
(مسند احمد،مسند انس بن مالک،حدیث نمبر:۱۱۷۶۹)
"أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ مَكَثَ عَلَى سُورَةِ الْبَقَرَةِ ثَمَانِيَ سِنِينَ يَتَعَلَّمُهَا"۔
(مؤطا مالک، کِتَابُالنِّداءِ لِلصّلاةِ،بَاب مَاجَاءَ فِي الْقُرْآنِ ،حدیث نمبر:۴۲۸، شاملہ، موقع الإسلام)
حضرت عبداللہ ابنِ عمررضی اللہ عنہ کو سورۂ بقرہ یاد کرنے میں آٹھ سال لگے۔
"والذي لا إله غيره، ما نزلت آية من ، كتاب الله إلا وأنا أعلم فيمن نزلت؟ وأين نزلت؟ ولو أعلم أحد اأعلم بکتاب اللہ منی تنالہ المطایا لاتیتہ"۔
(ابن کثیر:۱/۳)
قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں کہ قرآن کریم کی کوئی آیت ایسی نازل نہیں ہوئی جسکے بارے میں مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ کس بارے میں اور کہاں نازل ہوئی اور اگر مجھے معلوم ہوتا کہ کوئی شخص ایسی معلومات مجھ سے زیادہ رکھتا ہے اور سواریاں اس شخص تک پہونچاسکتی ہیں تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا۔
"أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا"۔
(الانبیاء:۳۰)
کیا کفار نے دیکھا نہیں کہ آسمان وزمین بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔
آسمان خشک تھے ان سے بارش نہیں ہوتی تھی اور زمین بانجھ تھی اس سے کچھ اُگتا نہیں تھا،بارش کے طفیل یہ پودے اگانے لگی؛گویا آسمان کا فتق(پھٹنا)بارش کے ساتھ ہے اور زمین کا پھل پودے اگانے سے ۔
(روح المعانی،۱۲/۳۶۹ش،املہ)
" وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ،وَاَحْسِنُوْا،اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُحْسِـنِیْنَ"۔
(البقرۃ:۱۹۵)
اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو اپنی جان کو ہلاکت میں اور نیکی کرو،بیشک اللہ تعالی دوست رکھتا ہے نیکی کرنے والوں کو۔
"التھلکۃ الاقامۃ فی الاھل والمال وترک الجھاد"۔
(تفسیر بن کثیر،تحت قولہ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَى التَّہْلُکَۃِ)
"أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ مِنْ نَخِيلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ لَهُ فِيهَا مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَهُ الْكِبَرُ وَلَهُ ذُرِّيَّةٌ ضُعَفَاءُ فَأَصَابَهَا إِعْصَارٌ فِيهِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ"۔
(البقرۃ:۲۶۶)
کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرے گا کہ اس کا کھجوروں اور انگوروں کا ایک باغ ہو جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں (اور)اس کو اس باغ میں اور بھی ہر طرح کے پھل حاصل ہوں اور بڑھاپے نے اسے آپکڑا ہواور اس کے بچے ابھی کمزور ہوں، اتنے میں ایک آگ سے بھرا بگولا آکر اس کو اپنی زد میں لے لے اور پورا باغ جل کر رہ جائے۔
"اللہ تعالی نے اس آیت میں ایک مثال بیان کی ہے فرمایا :کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ عمر بھر نیکی کا کام کرتا رہےاور جب اس کا آخری وقت آئےجب کے نیکیوں کی اسے زیادہ ضرورت ہوتو بُرا کام کرکے سب نیکیوں کو برباد کردے"۔
(تفسیر طبری،۵/۵۴۵،شاملہ)
(تفصیل کے لیے دیکھیے مقدمہ تفسیر ابن کثیر۱/۳)۔ (واللہ تعالی اعلم)
(بحوالہ تفسیر ابن کثیر،ا-۵،مطبوعہ المکتبہ التجاریۃ الکبری)
"وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِـاِحْسَانٍ، رَّضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا، ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ"۔
(التوبہ:۱۰۰)
اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ اللہ تعالی راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور اللہ نے تیار کر رکھا ہے ان کے واسطے ایسے باغات کہ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں رہا کریں ان میں وہ ہمیشہ یہی ہے بڑی کامیابی۔
(تفسیرروح المعانی، تفسیر سورۂ توبہ،آیت نمبر۱۰۰)
" اَلتَّائِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّائِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاہُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللہِ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنََ"۔
(التوبہ:۱۱۲)
توبہ کرنے والے، اللہ کی بندگی کرنے والے،اس کی حمد کرنے والے ،روزے رکھنے والے،رکوع میں جھکنے والے،سجدہ گزارنے والے،نیکی کی تلقین کرنے والے، برائی سے روکنے والے اوراللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے(اے پیغمبر )ایسے مؤمنوں کو خوشخبری دےدو۔
(تفسیر روح المعانی،تفسیر سورۂ توبہ،آیت نمبر:۱۱۲)
(التوبہ:۶۰)
صدقات تو صرف غریبوں کے لیے ہیں..الخ۔
(تفسیر روح المعانی،سورۂ توبہ:آیت نمبر:۶۰)
"أَوْ يَأْخُذَهُمْ عَلَى تَخَوُّفٍ"۔
(النحل:۴۷)
یا انہیں اس طرح گرفت میں لے کہ وہ دھیرے دھیرے گھٹتے چلے جائیں۔
*تَخَوَّفَ الرَّحُلُ منها تامِكاً قَرِداً * كما تَخَوَّفَ عُودَ النبعةِ السَّفِنُ*
(روح المعانی۱۰/۱۷۹، شاملہ )
"عَنِ الْيَمِينِ وَعَنِ الشِّمَالِ عِزِينَ"۔
(المعارج:۳۷)
دائیں بائیں حلقے باندھے ہوں گے۔
فَجَاؤُا يُهْرَعُوْنَ إِلَيْهِ حَتً
يَكُوْنُوْا حَوْلَ مِنْبَرِهِ عِزِيْنًاوہ لوگ اس کی طرف بھاگتے ہوئے آتے ہیں
اس کے منبر کے گرد حلقہ باندھ لیتے ہیں
(الاتقان،۲/۶۸،شاملہ)
"وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ"۔
(المائدۃ:۳۵)
اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو۔
إنَّ الرِّجَالَ لَهُمْ إِلَيْكِ وَسِيلَةٌ إِنْ يَأْخُذُوكِ، تكَحَّلِي وتَخَضَّبي
(الاتقان:۲/۶۹)
"قُلْ لَّوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ،الخ"۔
(الکہف:۱۰۹)
کہہ دو کہ اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیےسمندر روشنائی بن جائے،تو میرے رب کی باتیں ختم نہیں ہوں گی کہ اس سے پہلے سمندر ختم ہوچکا ہوگا،چاہے اس سمندر کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم ویسا ہی ایک سمندر کیوں نہ لے آئیں۔
"اَللّٰھُمَّ عِلْمُہٗ الْکِتَابَ وَفقہُ فِی الدِّیْنِ"۔
(کنزالعمال فی سنن الأقول والأفعال:۱۳/۴۵۸، شاملہ،المؤلف:علي بن حسام الدين المتقي الهندي۔ بخاری، كِتَاب الْوُضُوءِ،بَاب وَضْعِ الْمَاءِ عِنْدَ الْخَلَاءِ،حدیث نمبر:۱۴۰، شاملہ، موقع الإسلام)
ترجمہ: اے اللہ ان کو تاویل یعنی تفسیر قرآن اور دین کی سمجھ عطا فرما۔
"لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَايَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثاً وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَo أَوْيُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَاناً وَإِنَاثاً وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيماً إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌo"۔
(الشوری:۴۹،۵۰)
سارے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اللہ ہی کی ہے،وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے،وہ جس کوچاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے لڑکے دیتا ہےیا پھر ان کو ملاکر لڑکے بھی دیتا ہے اورلڑکیاں بھی اور جس کو چاہتا ہے بانجھ بنادیتا ہے،یقیناً وہ علم کا بھی مالک ہے قدرت کا بھی مالک۔
(الجامع لاحکام القرآن:۱۶/۵۲، شاملہ)
"وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَى مِنْ بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا"۔
(الاعراف:۱۴۸)
موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے ان کے بعد زیورات سے ایک بچھڑا بنالیا۔
(التفسیر التستری:۱/۱۶۹،شاملہ)
"وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ "۔
(الصافات:۱۰۷)
اور اس کے عوض ہم نے ایک بڑا جانور دے دیا۔
(التفسیر التستری:۱/۴۳۹، شاملہ)
"وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِر"۔ٍ
(القمر:۱۷)
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنادیا ہے؛ اب کیا کوئی ہے جو نصیحت حاصل کرے؟۔
"وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ"۔
(البقرۃ:۱۸۷)
اورکھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ سفید اور سیاہ دھاگے میں تمہیں فرق معلوم ہونے لگے۔
(بخاری،بَاب قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى، وَكُلُوا وَاشْرَبُوا،حدیث نمبر:۱۷۸۳، شاملہ، موقع الإسلام)
تفسیر بالرائے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
"مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنْ النَّارِ"۔
جو شخص قرآن میں بغیر علم کے گفتگو کرے وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
حضرت جندب سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«مَنْ قَالَ فِي كِتَابِ اللهِ بِرَأْيِهِ فَأَصَابَ فَقَدْ أَخْطَأَ.»
جو شخص قرآن کے معاملے میں (محض) اپنی رائے سے گفتگو کرے اور اس میں کوئی صحیح بات بھی کہہ دے تب بھی اس نے خطا (یعنی قصور، گٌناہ، جرم، غلطی) کی۔
(الاتقان :۲/۱۸)
من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من النار۔
جو شخص قرآن کریم کے معاملے میں علم کے بغیر کوئی بات کہے تو اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔
(دیکھئے الاتقان:۱۸۸/۲)
( الاتقان:۱۸۷/۲)
(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۳۸/۲)
"عَامَّۃُ عِلْمِ ابنِ عَبَّاسٍ مِنْ ثَلٰثَہٍ،عُمَر وَعَلِی وَاُبَیْ بنُ کَعبٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمْ"۔
(تذکرۃ الحفاظ للذھبی:۳۸/۲)
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے بیشتر علوم تین حضرات سے ماخوذ ہیں،حضرت عمر وعلی وابی بن کعب رضی اللہ عنہم۔ٍ
(منقول از علوم القرآن:۴۶۱)
"الاسرائیلیات: الاخبار المنقولۃ عن بنی اسرائیل من الیھود وھو الاکثر اومن النصاری"۔
(قسم التفسیر واصولہ:۱/۴۷)
اسرائیلیات وہ باتیں جو بنی اسرائیل یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یا نصاریٰ سے۔
(علوم القرآن:۳۴۵)
اسرائیلیات کی ابتداء:
"كَانَ أَهْلُ الْكِتَابِ يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ بِالْعِبْرَانِيَّةِ وَيُفَسِّرُونَهَا بِالْعَرَبِيَّةِ لِأَهْلِ الْإِسْلَامِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ لَا تُصَدِّقُوا أَهْلَ الْكِتَابِ وَلَا تُكَذِّبُوهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا"۔
(بخاری، بَاب:قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا،حدیث نمبر:۴۱۲۵)
(فتح الباری،حدیث نمبر:۴۱۲۵،شاملہ)
دومتعارض حدیثوں کا جواب:
"حَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ"۔
(ابو داؤد،بَاب الْحَدِيثِ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ،حدیث نمبر:۳۱۷۷)
اسرائیلیات کا حکم:
"لا تصدقوھا ولاتکذبوھا"۔
(علوم القرآن:۳۶۴)
(التفسیروالمفسرون للذھبی،باب ثانیا:الااسرائیلیات:۴/۱۴)
(الفوزالکبیر مع شرح الخیر الکثیر:۴۵۳)
اسرائیلی روایات کی مثالیں:
"وَجَاءُوْ عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ"۔
(یوسف:۱۸)
اوریوسف کی قمیص پر جھوٹ موٹ کا خون لگاکر لے آئے۔
(تفسیر ثعلبی:۴/۲۱)
"فَاَلْقٰہَا فَاِذَا ہِىَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی"۔
(طٰہٰ:۲۰)
انہوں نے اسے پھینک دیا،وہ اچانک ایک دوڑتا ہوا سانپ بن گئی۔
(تفسیر ابن کثیر:۵/۲۷۹)
"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْك"۔
(البقرۃ:۲۵۸)
کیا تم نے اس شخص (کے حال) پر غور کیا جس کو اللہ نے سلطنت کیا دے دی تھی کہ وہ اپنے پروردگار( کے وجود ہی) کے بارے میں ابراہیمؑ سے بحث کرنے لگا؟۔
(تفسیر ابن کثیر:۱/۳۱۳)
(تفسیروں میں اسرائیلی روایات:۴۴۴)
(فتح الباری ،۱۵۸/۱ حدیث نمبر:۹۵)
شمار
|
اسمائے مفسرین
|
اسمائے کتب تفسیر
|
سنِ وفات
|
۱
|
(منسوب) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ
|
تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس
|
۶۸ھ
|
۲
|
امام فخر الدین الرازی رحمۃ اللہ علیہ
|
مفاتیح الغیب (المعروف) تفسیر کبیر
|
۶۰۲ھ
|
۳
|
ابوعبداللہ محمد بن احمد بن ابوبکر بن فرح القرطبیؒ
|
الجامع الاحکام القرآن(المعروف) تفسیر قرطبی
|
۶۷۱ھ
|
۴
|
حافظ عماد الدین ابوالفدا اسماعیل بن خطیب ابوحفص عمر بن کثیر الشافعی رحمۃ اللہ علیہ
|
تفسیر ابن کثیر
|
۷۷۴ھ
|
۵
|
قاضی ابوالسعود محمد بن محمد العمادی الحنفیؒ
|
ارشاد العقل السلیم الی مزایا القرآن الکریم
(معروف) تفسیر ابی السعود
|
۹۸۲ھ
|
۶
|
علامہ محمودآلوسی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ
|
روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی
|
۱۲۷۰ھ
|
۷
|
ابومحمد حسین بن مسعود الفراء البغوی رحمۃ اللہ علیہ
|
معالم التنزیل
|
۵۱۶ھ
|
۸
|
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ
|
الدارالمنثورفی التفسیربالماثور
|
۹۱۱ ھ
|
۹
|
محمدبن جریر الطبری رحمۃ اللہ علیہ
|
جامع البیان فی تفسیر القرآن
|
۳۱۰ھ
|
۱۰
|
ابوعبداللہ بن احمد النسفی رحمۃ اللہ علیہ
|
۷۱۰ھ
| |
۱۱
|
ابوحیان اندلسی رحمۃ اللہ علیہ
|
البحر المحیط
|
۷۴۰ھ
|
۱۲
|
قاضی ناصر الدین بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ
|
تفسیر بیضاوی
|
۶۹۱ھ
|
۱۳
|
ابوالحسن علی بن محمد رحمۃ اللہ علیہ
|
لباب التاویل فی معانی التنزیل (تفسیر خازن)
|
۷۴۱ھ
|
۱۴
|
ابوالقاسم محمود بن عمروبن احمد الزمخشریؒ
|
الکشاف
|
۵۳۸ھ
|
۱۵
|
ابو الفزج ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ
|
زاد المسیر
|
۵۹۷ھ
|
۱۶
|
ابوالفیض فیضی رحمۃ اللہ علیہ
|
سواطع الالہام
|
۱۰۰۴ھ
|
۱۷
|
قاضی محمد بن علی بن محمد بن عبداللہ الشوکانیؒ
|
فتح القدیر
|
۱۲۵۰ھ
|
۱۸
|
ملاجیون رحمۃ اللہ علیہ
|
تفسیرات احمدی
|
۱۱۳۰ھ
|
۱۹
|
قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ
|
۱۲۴۰ھ
| |
۲۰
۲۱
|
علامہ جلال الدین محلی رحمۃ اللہ علیہ
علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ
|
۸۹۱ھ
۹۱۱ھ
| |
۲۲
|
شیخ طنطاوی بن جوہری رحمۃ اللہ علیہ
|
تفسیر الجواھر
|
۱۳۵۸ھ
|
۲۳
|
سید قطب شہید رحمۃ اللہ علیہ
|
فی ظلال القرآن
|
۱۳۸۵ھ
|
۲۴
|
الدکتوروھبۃ الزحیلی مدظلہٗ
|
التفسیر المنیر
|
باحیات
|
اردو کتب تفسیر مع اسمائے مفسرین
شمار
|
اسمائے مفسرین
|
اسمائے کتب تفسیر
|
سن وفات
|
۱
۲
۳
۴
۵
۶
۷
۸
۹
۱۰
۱۱
۱۲
۱۳
۱۴
۱۵
۱۶
|
حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا عبدالحق حقانی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ
مولانا عاشق الہی بلندشہری رحمۃ اللہ علیہ
مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ
مولانا عبدالقدیر حسرت صدیقی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا محمد نعیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ
مولانا احمد عثمان کاشف الہاشمی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالنپوری مدظلہٗ
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہٗ
مولانا عبدالکریم پاریکھ رحمۃ اللہ علیہ
|
تفسیر عزیزی
ترجمہ شیخ الہند
انوار البیان فی کشف اسرار القرآن
ترجمان القرآن
تفسیر صدیقی
انوارالقرآن
ہدایت القرآن
تکمیل ہدایت القرآن(جاری)
توضیح القرآن
تشریح القرآن۔
|
۱۲۳۹ھ
۱۳۶۳ھ
۱۳۶۹ھ
۱۳۹۶ھ
۱۳۹۸ھ
۱۳۳۹ھ
۱۲۴۷ھ
۱۳۷۷ھ
۱۳۸۲ھ
۱۴۲۹ھ
باحیات
باحیات
|
علم تفسیر:
ناسخ اور منسوخ
منسوخ آیات قرآنی:
(الاتقان ،علامہ سیوطی:۲،۲۲)
(۱)کُتِبَ عَلَیْْکُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَکَ خَیْْراً الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْْنِ وَالأقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوفِ حَقّاً عَلَی الْمُتَّقِیْن۔
(البقرۃ: ۱۸۰)
جب تم میں سے کسی کے سامنے موت حاضر ہوجائے اگر وہ مال چھوڑ رہا ہو تو اس پر والدین اور اقرباء کے لیے وصیت بالمعروف کرنا فرض قرار دیدیا گیا ہے ،یہ حکم متقیوں پر لازم ہے ۔
إِنْ یَکُن مِّنکُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ یَغْلِبُواْ أَلْفاً مِّنَ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَفْقَہُونَ۔
(الأنفال:۶۵)
اگر تم میں سے بیس آدمی استقامت رکھنے والے ہونگے تو وہ دوسو پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے سو آدمی ہوں گےتو ایک ہزار کافروں پر غالب آجائیں گے کیونکہ یہ کافر ایسے لوگ ہیں جو صحیح سمجھ نہیں رکھتے۔
اَلآنَ خَفَّفَ اللّہُ عَنکُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفاً فَإِن یَکُن مِّنکُم مِّئَۃٌ صَابِرَۃٌ یَغْلِبُواْ مِئَتَیْْنِ وَإِن یَکُن مِّنکُمْ أَلْفٌ یَغْلِبُواْ أَلْفَیْْنِ بِإِذْنِ اللّہِ وَاللّہُ مَعَ الصَّابِرِیْنَ۔
(الأنفال:۶۶)
اب اللہ نے تمہارے لیے آسانی پیدا کردی ہے اور اللہ کو علمٹ ہے کہ (اب)تم میں کچھ کمزوری ہے پس اب اگر تم میں سے ایک ہزار افراد استقامت رکھنے والے ہوں گے تو وہ دو سو پر غالب رہیں گے اور اگر تم میں سے ایک ہزار ہوں گے تو دو ہزار پر اللہ کے حکم سے غالب ہوں گے اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَکَ حُسْنُہُن۔
(الاحزاب:۵۲)
(اے نبی )آپ کے لیے اس کے بعد عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہ حلال ہے کہ ان(موجودہ ازواج) کو بدل کر دوسری عورتوں سے نکاح کریں خواہ ان کا آپ کا حسن پسند آئے۔
"یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ اللَّاتِیْ آتَیْتَ أُجُورَہُنَّ"۔
(الاحزاب:۵۰)
(اے نبی) ہم نے آپ کے لیے آپ کی وہ ازواج حلال کردی ہیں جنھیں آپ نے ان کا مہر دے دیا ہو۔
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَکَ أَزْوَاجَکَ۔
(الاحزاب:۵۰)
والی آیت میں اللہ تعالی نے کچھ مخصوص عورتوں کا ذکر فرمایا ہے کہ ان کے ساتھ نکاح آپ کے لیے حلال ہے پھر اگلی آیت لَا یَحِلُّ لَکَ النِّسَاء مِن بَعْد(احزاب:) میں ارشاد فرمایا ہے کہ ان کے علاوہ دوسری عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں۔
(تفسیر ابن جریر)
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا نَاجَیْْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَیْْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً ذَلِکَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَأَطْہَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَّحِیْمٌ۔
(المجادلہ: ۱۲)
اے ایمان والو جب تم کو رسول سے سرگوشی کرنی ہو تو سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ کردیا کرو یہ تمہارے لیے باعث خیر وہ طہارت ہے پھر اگر تمہارے پاس (صدقہ کرنے کے لیے) کچھ نہ ہوتو اللہ تعالی بخشنے والا اور مہربان ہے، یہ آیت اگلی آیت سے منسوخ ہوگئی۔
أَأَشْفَقْتُمْ أَن تُقَدِّمُوا بَیْنَ یَدَیْْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَاتٍ فَإِذْ لَمْ تَفْعَلُوا وَتَابَ اللہُ عَلَیْْکُمْ فَأَقِیْمُوا الصَّلَاۃَ وَآتُوا الزَّکَاۃَ وَأَطِیْعُوا اللہ وَرَسُولَہُ۔
(المجادلہ:۱۳)
کیا تم اس بات سے ڈر گئے کہ تم اپنی سرگوشی سے پہلے صدقات پیش کرو پس جب تم نے ایسا نہیں کیا اور اللہ نے تمہاری توبہ قبول کرلی (اب)نماز قائم رکھو اور زکوۃ ادا کرتے رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو"اس طرح سرگوشی سے پہلے صدقہ کرنے کا حکم منسوخ قرار دیا گیا ۔
اے مزمل(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں)رات کو (تہجد میں) کھڑے رہیے مگر تھوڑا سا حصہ آدھی رات یا اس میں سے بھی کچھ کم کردیجیے"اس آیت میں رات کے کم از کم آدھے حصہ میں تہجد کی نماز کا حکم دیا گیا تھا ،بعد میں اگلی آیتوں نے اس میں آسانی پیدا کرکے سابقہ حکم منسوخ کردیا وہ آیتیں یہ ہیں:
عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوہُ فَتَابَ عَلَیْْکُمْ فَاقْرَؤُوا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ :الخ
(المزمل: ۲۰)"
اللہ کو معلوم ہے کہ تم (آئند)ہے اس حکم کی پابندی نہیں کرسکوگے اس لیے اللہ نے تمہیں معاف کردیا پس تم( اب) قرآن کا اتنا حصہ پڑھ لیا کرو جو تمہارے لیے آسا ن ہو۔
(علوم القرآن:۱۷۲)
مخالفت سلف سے اجتناب تفسیر قرآن کا ایک بنیادی اصول
خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز کا یہ زریں قول کتنا وزنی ہے؟ وہ فرماتے تھے (خطاب اہل علم سے تھا)
بلاشبہ اپنے سے پہلے لوگوں کے متعلق ”ہم اخیر واعلم“ کا نظریہ جب تک قائم رہے گا‘ امت میں خیر باقی رہے گی‘ کیوں نہ ہو‘ جن کے سامنے وحی نازل ہوتی رہی‘ جن کو اول وحی کی کیفیات واحوال کے مشاہدہ کے مواقع نصیب ہوئے‘ قرآن کی کونسی آیت: کس وقت‘ کس جگہ نازل ہوئی اور کب نازل ہوئی‘ کس کے حق میں نازل ہوئی‘ سفر میں نازل ہوئی یا حضر میں‘ حجرہٴ عائشہ میں نازل ہوئی یا تبوک سے واپسی پر۔ الغرض اسی قسم کے جزئیاتی امور ایک ایک کر کے جن کے حافظہ میں نقش تھے‘ قرآن کے ایک ایک حرف پر جن کو صاحبِ قرآن ا کی نگرانی میں عملی مشق کی سعادت میسر آئی‘پھر جن کے علم وتقویٰ‘ فضل وکمال‘ زہد وورع اور فہم وذکاء کی قرآن ہی نے شہادت دی‘جن کی جان بازی اور سرفروشی‘ ایثار اور قربانی کی نظیر پیش کرنے سے اولین وآخرین عاجز رہے‘ جن کی عفت وپارسائی‘ توکل اور قناعت جبرئیل ومیکائیل کے لئے باعثِ رشک بنی رہی‘ اگر ان کی اور ان کے تربیت یافتہ شاگردوں کی تفسیر پر اعتماد نہ ہوگا تو ان کے بعد اللہ کی کتاب کو سمجھنے اور سمجھانے کا سلیقہ کس کو نصیب ہوسکتاہے؟
فقیہ الامت حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
اسی قسم کا مضمون حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی منقول ہے:الغرض تفسیرِ قرآن کے سلسلہ میں ان ہی دو قاعدوں کو جو حضرت ابوبکر صدیق کے ”طرز عمل“ سے میں نقل کرچکا ہوں‘ اگر سامنے رکھا جائے تو کجراہی کا راستہ بڑی حد تک بند ہوسکتا ہے۔
الغرض جس طرح قرآن کے الفاظ ان حضرات نے امت کو بلا کم وکاست پہنچا دیئے ہیں‘ ان میں نہ ان حضرات نے بخل سے کام لیا‘ نہ ہوا وہوس کی آمیزش ہونے دی‘ نہ اوہام وظنون کی تاریکی میں ان کو گم کیا‘ بلاشبہ اسی طرح قرآن کے مفاہیم اور معانی کی امانت بھی انہوں نے کامل طور پر امت کے سپرد کردی ۔ اس ”جنون“ کی کوئی گنجائش نہیں کہ الفاظِ قرآن میں ان کو قابل اعتماد قرار دیا جائے‘ مگر الفاظ کی شرح وتفسیر میں ان کی امانت کو مشتبہ بنا ڈالنے پر مغربی فوج (مستشرقین) کا تمام اسلحہ استعمال کیا جائے۔
۲-” الذین اٰمنوا ولم یلبسوا ایمانہم بظلم“ ۔
حقیقت تاویل وتفسیر باطل
ہدایت، اللہ کے قبضہٴ قدرت میں ہے، قرآن کریم کا ہرہرحرف منزل من اللہ ہے اس میں کسی آیت و لفظ میں کسی قسم کے شبہ کی گنجائش ہے: قال تعالیٰ: "ذٰلِکَ الکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ" اور یہ قرآن کریم اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہدایت ہے۔ قال تعالیٰ: "ھُدًی لّلْمُتَّقِیْنَ" (الآیة) ورنہ بہت سے فاسق لوگ اس کی وجہ سے گمراہی میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں۔ قال تعالیٰ: اس (قرآنی مثال) سے (خدا) بہتوں کو گمراہ کرتا ہے اور بہتوں کو ہدایت بخشتا ہے اور گمراہ بھی کرتا ہے تو نافرمانوں ہی کو [البقرہ:٢٦]
ظاہری اسباب کے تحت کسی سے مدد مانگنا شرک نہیں، شرک تو کسی کو غائبانہ (دوری سے) عادتاً مافوق الاسباب (ظاہری اسباب سے بالا) مدد کے لئے پکارنا ہے.
:١) الله کے سوا کسی*غیر-الله*سے مدد لینا
اے ایمان والو! *صبر* اور *نماز*(کے وسیلے)*سے*(الله کی) مدد لیا کرو بےشک الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے. [البقرہ:١٥٣]
سوال = تو کیا اس آیت کو اس طرح کسی نے مان-کر *نماز* اور *صبر* کو مدد کے لئے پکارا؟ ہرگز نہیں، بلکہ ان نیک اعمال کو الله کی مدد کا وسیلہ/زریعہ بنایا.
==============================
٢)اولیاء کو مدد کے لئے پکارنے کا وسیلہ بنانا:
اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب حاصل کرنے (کے لئے تقویٰ-نیک اعمال) کا*وسیلہ* تلاش کرتے رہو اور اس کے رستے میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو.[المائدہ:٣٥]
یہاں وسیلہ کی تفسیر*تقویٰ اور نیکی* ہے، اور مدد کے لئے نیک-بندوں/اولیاء کو پکارنے کو*وسیلہ* مشرکین_مکّہ بناتے تھے.(اسرا / بنی اسرائیل:٥٧
=====================================
?٣) الله کی عطا سے نبی علیہ السلام بھی *مشکل-کشا* ہیں
...اور میں(حضرت عيسى علیہ السلام) اچھا کرتا ہوں مادر زاد اندھے کو اور کوڑھی کو اور جلاتا ہوں مردے اللہ کے حکم سے...[آل-عمران:٤٩
الله نے قرآن میں تو یہ بھی فرمایا ہے:
اور جب کہے گا اللہ اے عیسٰی مریم کے بیٹے! کیا تو نے کہا لوگوں کو کہ ٹھہرا لو مجھ کو اور میری ماں کو دو معبود سوا اللہ کے, کہا تو پاک ہے مجھ کو لائق نہیں کہ کہوں ایسی بات جس کا مجھ کو حق نہیں اگر میں نے یہ کہا ہوگا تو تجھ کو ضرور معلوم ہو گا تو جانتا ہے جو میرے جی میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے جی میں ہے بیشک تو ہی ہے جاننے والا چھپی باتوں کامیں نے کچھ نہیں کہا انکو مگر جو تو نے حکم کیا کہ بندگی کرو اللہ کی جو رب ہے میرا اور تمہارا اور میں ان سے خبردار تھا جب تک ان میں رہا پھر جب تو نے مجھ کو اٹھا لیا تو تو ہی تھا خبر رکھنے والا ان کی اور تو ہر چیز سے خبردار ہے [المائدہ:١١٦-١١٧]
غائبانہ-دوری سے مدد کے لئے کسی کو پکارنا عبادت ہے:
اور کہتا ہے تمہارا رب مجھ کو پکارو کہ پہنچوں تمہاری پکار کو بیشک جو لوگ تکبر کرتے ہیں میری*عبادت*سے اب داخل ہوں گے دوزخ میں ذلیل ہو کر. [الغافر:٦٠]
=====================================
٤) الله کے نبی (حضرت سلیمان)علیہ السلام بھی*گنج بخش*ہیں
پھر ہم نے ہوا کو ان کے زیر_فرمان کردیا کہ جہاں وہ پہنچنا چاہتے ان کے حکم سے نرم نرم چلنے لگتی. اَور دیووں کو بھی (ان کے زیرفرمان کیا) وہ سب عمارتیں بنانے والے اور غوطہ مارنے والے تھے. اور اَوروں کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے. (ہم نے کہا) یہ ہماری بخشش ہے (چاہو) تو احسان کرو یا (چاہو تو) رکھ چھوڑو (تم سے) کچھ حساب نہیں ہے.[ص: ٣٦-٣٩
تو ہمارے نبی صلے الله علیہ وسلم اور صحابہ رضی الله عنہ نے الله کے سوا/ساتھ ,ان نبیوں/ولیوں سے (عیسایوں اور مشرکوں کی طرح) ان کے جانے کے بعد کبھی غائبانہ-دوری سے مدد کیوں نا مانگی؟ اور کیا ان سے زیادہ قرآن کی سمجھ آپ کو ہے؟
=================================
امت_مصطفیٰ صلے الله علیہ وسلم شرک نہیں کر سکتی؟
الحديث رقم 39 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : علامات النَّبُوَّةِ فِي الإِسلام، 3 / 1317، الرقم : 3401، وفي کتاب : الرقاق، باب : مَا يُحْذَرُ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا وَالتَّنَافُسِ فِيها، 5 / 2361، الرقم : 6061، ومسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : إثبات حوض نبينا صلي الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 / 1795، الرقم : 2296 وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 153.]
’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔ بیشک خدا کی قسم! میں اپنے حوض (کوثر) کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں (یا فرمایا : زمین کی کنجیاں) عطا کر دی گئی ہیں اور خدا کی قسم! مجھے یہ ڈر نہیں کہ میرے بعد"تم"(صحابہ رضی الله عنہ کی جماعت)شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ تم دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ ‘‘(الله تعالیٰ نے اس سے بھی ان کو محفوظ رکھا اور ان کی اتباع پر اپنی رضا اور جنّت جیسی عظیم کامیابی کا فرمان جاری فرمایا=القرآن؛التوبہ:١٠٠)]
اس مذکورہ بالا حدیث میں صحابہ رضی الله عنھم کو خطاب ہے جن سے الله نے ان کی حفاظت فرمائی، اور مندرجہ ذیل احادیث سے امت_مصطفیٰ صلے الله علیہ وسلم میں شرک پر عمل-پیرا ہونے کا ثبوت ملتا ہے:
جامع ترمذی:جلد دوم:حدیث نمبر 101 ,فتنوں کا بیان : جب تک کذاب نہ نکلیں قیامت قائم نہیں ہو گی, حدیث مرفوع مکررات14
قتیبہ، حماد بن زید، ایوب، ابوقلابة، ابواسماء، حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے کئی قبائل مشرکین کے ساتھ الحاق نہیں کریں گے اور بتوں کی پوجا نہیں کریں گے پھر فرمایا میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے ہر ایک کا یہی دعوی ہوگا کہ وہ نبی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا یہ حدیث صحیح ہے]
سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ,859 فتنوں کا بیان : حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 14
سلیمان بن حرب، محمد بن عیسی، حماد بن زید، ایوب، ابوقلابہ، ابواسماء، حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو آزاد کردہ غلام ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ نے زمین کو میرے لیے سمیٹ دیا یا یوں فرمایا کہ میرے پرودگار نے میرے لیے زمین کو سکیڑ دیا پس مجھے زمین کے مشارق ومغا رب دکھائے گئے اور بیشک میری امت کی سلطنت عنقریب وہاں تک پہنچی گی جہاں تک میرے لیے زمین کو سمیٹا گیا اور مجھے دو خزانے سرخ وسفید دیے گئے اور بیشک میں نے اپنی پروردگار سے اپنی امت کے لیے یہ سوال کیا کہ انہیں کسی عام قحط سے ہلاک نہ کیجیے اور نہ ان کے اوپر ان کے علاوہ کوئی غیر دشمن مسلط کردے کہ وہ ان کو جڑ سے ختم کردے۔ اور بیشک میرے پروردگار نے مجھ سے فرمایا کہ اے محمد۔ بیشک میں جب فیصلہ کرتا ہوں تو پھر وہ رد نہیں ہوتا اور میں انہیں کسی عام قحط سے ہلاک نہیں کروں اور نہ ہی ان پر کوئی غیر دشمن مسلط کروں اگرچہ سارا کرہ ارض سے ان پر دشمن جمع ہو کر حملہ آور ہوجائیں یہاں تک کہ مسلمانوں میں سے آپس میں ہی بعض بعض کو ہلاک کردیں گے اور بعض بعض کو قید کردیں گے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بیشک مجھے اپنی امت پر گمراہ کرنے والے اماموں (مذہبی رہنماؤں) کا ڈر ہے اور جب میری امت میں تلوار رکھ دی جائے گی تو قیامت تک نہیں اٹھائی جائے گی اور قیامت اس دن تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ میری امت کے بعض قبائل مشرکین سے جا ملیں گے اور یہاں تک کہ میری امت کے بعض قبائل بتوں کی عبادت کریں اور بیشک میری امت میں تیس کذاب ہوں گے جن میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میں خاتم النبین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں اور میری امت میں سے ایک طائفہ ہمیشہ حق پر رہے گی ابن عیسیٰ کہتے ہیں کہ حق پر غالب رہے گی اور ان کے مخالفین انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا امر آجائے۔][سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 832 حدیث مرفوع مکررات 14 ہشام بن عمار، محمد بن شعیب بن شابور، سعید بن بشیر، قتادہ، ابوقلابہ، عبداللہ بن زید، ابواسماء، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا زمین میرے لئے سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے زمین کے مشرق و مغرب کو دیکھ لیا اور مجھے دونوں خزانے (یا سرخ) اور سفید یعنی سونا اور چاندی دیئے گئے (روم کا سکہ سونے کا اور ایران کا چاندی کا ہوتا تھا) اور مجھے کہا گیا کہ تمہاری (امت کی) سلطنت وہی تک ہوگی جہاں تک تمہارے لئے زمین سمیٹی گئی اور میں نے اللہ سے تین دعائیں مانگیں اول یہ کہ میری امت پر قحط نہ آئے کہ جس سے اکثر امت ہلاک ہو جائے دوم یہ کہ میری امت فرقوں اور گروہوں میں نہ بٹے اور (سوم یہ کہ) ان کی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہو (یعنی باہم کشت و قتال نہ کریں) مجھے ارشاد ہوا کہ جب میں (اللہ تعالی) کوئی فیصلہ کرلیتا ہوں تو کوئی اسے رد نہیں کر سکتا میں تمہاری امت پر ایسا قحط ہرگز مسلط نہ کروں گا جس میں سب یا (اکثر) ہلاکت کا شکار ہو جائیں اور میں تمہاری امت پر اطراف و اکناف ارض سے تمام دشمن اکٹھے نہ ہونے دوں گا یہاں تک کہ یہ آپس میں نہ لڑیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں اور جب میری امت میں تلوار چلے گی تو قیامت تک رکے گی نہیں اور مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خوف گمراہ کرنے والے حکمرانوں سے ہے اور عنقریب میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے لگیں گے اور (بت پرستی میں) مشرکوں سے جا ملیں گے اور قیامت کے قریب تقریبا جھوٹے اور دجال ہوں گے ان میں سے ہر ایک دعوی کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میری امت میں ایک طبقہ مسلسل حق پر قائم رہے گا ان کی مدد ہوتی رہے گی (منجانب اللہ) کہ ان کے مخالف ان کا نقصان نہ کر سکیں گے (کہ بالکل ہی ختم کر دیں عارضی شکست اس کے منافی نہیں) یہاں تک کہ قیامت آجائے امام ابوالحسن (تلمیذ ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ جب امام ابن ماجہ اس حدیث کو بیان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا یہ حدیث کتنی ہولناک ہے][مجھ کو اپنی امت پر جس کا ڈر ہے وہ شرک کا ہے:-سنن ابن ماجہ:جلد سوم:حدیث نمبر 1085 حدیث مرفوع مکررات 2 38 - زہد کا بیان : (243)ریا اور شہرت کا بیان ۔محمد بن خلف عسقلانی، رواد بن جراح، عامر بن عبداللہ ، حسن بن ذکوان، عبادہ بن نسی، حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے زیادہ مجھ کو اپنی امت پر جس کا ڈر ہے وہ شرک کا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج یا چاند یا بت کو پوجیں گے لیکن عمل کریں گے غیر کے لئے اور دوسری چیز کا ڈر ہے وہ شہوت خفیہ ہے۔]
نبی کریم صلے الله علیہ وسلم پر بھی عیسایوں کی طرح غلو (حد سے گذرنا:
يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ...اے اہل کتاب اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ...[القرآن=النساء:١٧١]اس کی تفسیر_ابن_کثیر میں حدیث_بخاری = حمیدی سفیان زہری عبیداللہ بن عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ "مجھے اتنا نہ بڑھاؤ جیسے نصاریٰ (عیسایوں) "نے "عیسیٰ بن مریم" کو بڑھایا ہے میں تو محض اللہ کا بندہ ہوں تو تم بھی یہی کہو کہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول۔
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 676 (3445) حدیث مرفوع مکررات 13 متفق علیہ 9 43 - انبیاء علیہم السلام کا بیان : (585)
عربی تفسیروں کے اردو ترجمے — تعارف وتجزیہ
تفسیر اور اصولِ تفسیر کی تدریس
جائز و ناجائز تاویل وتفسیر:
تاویل غیر مکفرہ کے لئے قواعد و ضوابط، اور اس بارے میں کچھ فوائد
اور جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کرے وہ کافر ہے
پس یہ لوگ مشرک ہیں لہٰذا وہ خروج کرتے ہیں اور قتل و غارت کرتے ہیں۔کیونکہ انہوں نے آیت کی تفسیر ہی ایسے لی تھی
(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ) (المائدة: 44)‘‘
(وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ [المائدة: 44]
Assalam o Alaikum wa Rahmatullah wa Barakatoho
ReplyDeleteMashaAllah bahut Umda kawish hay Allah Kareem Aap ko aor aap ki team ko jzaay Khair atta fermaay bahut sa elmi mwad aik jaggah akatha ferma dia mazeed kaam jari rkhaen Allah kareem aap k elm o ammal maen barkatt atta fermay JzakAllah khaira dua go
Rafiuddin Research scholar University of Sargodha
03336750546
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
Deleteالحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات۔
آمین
Can i get the pdf of above article at iram.farha71@gmail.com
ReplyDelete
ReplyDeleteمتحدہ ہندوستان ایک ایسی سرزمین تھی جہاں متعدد فتنے پیدا ہوئے، اکبر کا دین الٰہی، امروہہ، لکھنؤ اور رام پور کا شیعہ مذہب، بریلویہ، دیوبندیہ، سلفیہ، قادیانیہ وغیرہ جیسے منکر القرآن فرقے متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ لاکھوں صوفی، عقل سے دور درجنوں مجدد، مہدی قسم کے لوگ مشہور ہوئے اور سادہ لوح لوگوں نے ان کی پیروی کی۔
یو پی کا بریلوی مذھب، یو پی اور دہلی کا دیوبندی مذھب، پنجاب اور دھلی کا اہل حدیث مذھب، گورداسپور اور لدھیانہ کا قادیانی مذھب، تفصیلی بحث کے بغیر ہندوستان کی تاریخ ادھوری رہے گی۔
اعلیٰ حضرت و قدس سرہٗ اور شیخ الحدیث و فضیلۃ الشیخ اور مفتی اعظم قسم کی سینکڑوں مضحکہ خیز مخلوق اس خطہ میں پائی جاتی ہے۔
مرزا غلام احمد قادیانی شاہ ولی اللہ کے نظریہ الہام سے متاثر تھا اس لیے اس نے خود کو مجدد، مہدی اور مسیحا ہونے کا اعلان کیا۔
تفاسیر کا جہنم.....
ReplyDeleteتنویر المقباس ( المعروف بہ فیروز آبادی) ، طبری ، مفاتیح الغیب ، جلالین ، ابن کثیر ،
قرطبی، شاطبی، بغوی، زمخشیری ، سعدی وغیرہ وغیرہ کی تفاسیر یہودیوں کی کہانیوں اور القرآن کریم اور رسول کریم کے خلاف گھناؤنے پروپیگنڈا اور جرائم سے بھری پڑی ہیں۔
تمام مفسرین جیسے سید مودودی، ڈاکٹر اسرار احمد ، احمد رضا خان بریلوی وغیرہ نے اپنی تفسیر میں اس قسم کے ہزاروں افسانے لیے ہیں۔
دیوبندی اور سلفیوں کی تفسیر جہالت سے بڑھ کر تھی۔
متحدہ ہندوستان ایک ایسی سرزمین تھی جہاں متعدد فتنے پیدا ہوئے، اکبر کا دین الٰہی، امروہہ، لکھنؤ اور رام پور کا شیعہ مذہب، بریلویہ، دیوبندیہ، سلفیہ، قادیانیہ وغیرہ جیسے منکر القرآن فرقے متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ لاکھوں صوفی، عقل سے دور درجنوں مجدد، مہدی قسم کے لوگ مشہور ہوئے اور سادہ لوح لوگوں نے ان کی پیروی کی۔
ReplyDeleteیو پی کا بریلوی مذھب، یو پی اور دہلی کا دیوبندی مذھب، پنجاب اور دھلی کا اہل حدیث مذھب، گورداسپور اور لدھیانہ کا قادیانی مذھب، تفصیلی بحث کے بغیر ہندوستان کی تاریخ ادھوری رہے گی۔
اعلیٰ حضرت و قدس سرہٗ اور شیخ الحدیث و فضیلۃ الشیخ اور مفتی اعظم قسم کی سینکڑوں مضحکہ خیز مخلوق اس خطہ میں پائی جاتی ہے۔متحدہ ہندوستان فرقہ پرستوں کا گھر تھا، جہاں ایک سے بڑھ کر ایک فسادی تھا۔ اور ان کے چیف گرو گھنٹال شاہ ولی اللہ تھے، انہوں نے "الہام" کا فتنہ ایجاد کیا جس کی پیروی مرزا غلام احمد قادیانی نے کی اور سینکڑوں الہامات کا اعلان کیا۔
شاہ ولی اللہ دہلوی کی الہامات کی کہانیوں سے ہزاروں صوفیاء اور اہل تصوف متاثر ہوئے۔ یہ تمام الہامات قرآن کریم کے خلاف ہیں۔
تمام دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث سلفی شاہ ولی اللہ دہلوی کی غیر اسلامی الہامیت کے پیروکار ہیں اسی طرح مرزا قادیانی بھی شاہ ولی اللہ کے نظریہ الٰہام کے پیروکار تھے۔
مرزا غلام احمد قادیانی شاہ ولی اللہ کے نظریہ الہام سے متاثر تھا اس لیے اس نے خود کو مجدد، مہدی اور مسیحا ہونے کا اعلان کیا۔