Saturday 10 October 2020

چند مفید مفت اردو اسلامی کتابیں

 

یہ اسلامی جامع ومدلل آسان اردو کتابیں ہیں، ایک بار ان کی فہرست دیکھ کر ان کے دلچسپ مضامین سے ان کتابوں کی ضرورت، اہمیت اور قدر وقیمت کا اندازہ لگالیجیے گا۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
۔۔۔اور آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس سے محبت بڑھے گی.
[سنن الکبریٰ (امام) البيهقى: 6/169، حدیث#11946+119467]

ایک مسلمان کے لئے بہترین تحفہ "دین کا شوق، عمل کا جذبہ اور اخلاق کی درستگی" ہے.
الله پاک نے فرمایا:
ور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ وہ نیکی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔۔۔
[سورۃ التوبۃ:71]

*************************

دلائل النبوۃ (اردوترجمہ) امام البيهقي(م458ھ):
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ کی ذات گرامی کو بہترین نمونہ قرار دے کر اہل اسلام کو آپ کے اسوہ حسنہ(خوبصورت نمونے) پر عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ جس کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ کے ایک ایک گوشے کو محفوظ کیا جائے۔ اور امت مسلمہ نے اس عظیم الشان تقاضے  کو بحسن وخوبی سر انجام دیا ہے۔ سیرت نبوی پر ہر زمانے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں اور اہلِ علم نے اپنے  لئے سعادت سمجھ کر یہ کام کیا ہے۔
زیر تبصرہ کتاب " دلائل النبوۃ " بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جو امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقیؒ کی تصنیف ہے۔ اس کا اردو ترجمہ مولانا محمد اسماعیل الجارودی ﷾نے کیا ہے۔ مولف نے اس عظیم الشان تصنیف میں سیرت نبوی کے ساتھ ساتھ آپ کی نبوت کے دلائل بھی بڑے احسن اور منفرد انداز میں جمع فرما دیئے ہیں۔ اصل کتاب عربی میں ہونے کے سبب اردو خواں طبقہ کے لئے اس سے استفادہ کرنا ایک مشکل کام تھا ۔ مولانا محمد اسماعیل الجارودی﷾ نے اردو ترجمہ کر کے اردو خواں طبقہ کی اس مشکل کو حل کر دیا ہے۔ اللہ تعالی ان کی ان خدمت کو قبول فرمائے۔آمین۔

مفت ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے اس لنک سے ویب سائیٹ پر جائیں:


نبوی سچائی کے دلائل-غیب کی خبریں اور پیشن گوئیاں:
قبل از وقت کسی واقعے کی اطلاع دینے کو” پیشن گوئی “کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام بالخصوص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بذریعہ وحی آئندہ رونما ہونے والے بعض حالات سے مطلع فرما دیتے تھے جس کی بنیاد پر نبی کریم ﷺ کسی واقعے کی اطلاع قبل از وقت ارشاد فرما دیتے۔ چونکہ آپ ﷺ اللہ کے سچے اور آخری نبی ہیں اس لیے آپ نے جن جن باتوں کی پیشن گوئی فرمائی وہ ساری باتیں سچ ثابت ہوئیں۔ آئیےاللہ کے نبی ﷺ کی چند پیشن گوئیاں پڑھتے ہیں۔

آقا نامدار ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب کی یہ کیفیت تھی کہ تمام اہل عرب کاہنوں ، نجومیوں کے جال میں گرفتار تھے۔ مشہور کاہنوں کے پاس لوگ دور دراز سے سفر کر کے آتے تھے اور ان سے مستقبل اور غیب کی باتیں دریافت کرتے تھے۔کاہن جھوٹ موٹ کی باتیں سنا کر پورے معاشرے کو بے وقوف بنا رہے تھے۔ حضور اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جب پیغمبر بنا کر مبعوث فرمایا تو ان کے لیے ثبوت نبوت کی سب سے بڑی دلیل غیب کی خبریں اور پیشن گوئیاں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مستقبل کے واقعات اور باتوں کواس طرح پیش فرماتے کہ گویا کھلی آنکھوں سے دیکھ کر بتا رہے ہوں۔

جن جن باتوں کی اللہ کے سچے نبی ﷺ نے خبر دی وہ سب کی سب پوری ہوئیں۔ یہ پیشن گوئیاں مختلف اوقات میں آپ ﷺ سے مختلف حالتوں میں صادر ہوئیں اور ان کی اطلاع مختلف صورتوں میں دی گئی۔ مثلاً کبھی نزول وحی کی صورت میں، کبھی عالم خواب میں اور کبھی قلب مبارک پر القاء کر کے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے :
﴿تِلْكَ ‌مِنْ ‌أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَذَا﴾ ۔
ترجمہ:
یہ غیب کی باتوں میں سے ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں اس سے پہلے آپ اور آپ کی قوم ان کو نہیں جانتی تھی۔
[سورۃ ھود:49](آل عمران:44، ھود:100+120، یوسف:102، طٰہٰ:99)

یعنی غیب کی ساری خبریں اللہ نے ظاہر نہیں کیں، اور پہلے کوئی ظاہر کردہ باتیں بھی نہ جانتا تھا۔

محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئیوں کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ واضح اور ظاہر ہیں اور شک اور تاویل سے بہت دور ہیں۔ مثلاً غلبہ روم، خلافت راشدہ، فتح یمن، فتح شام، فتح عراق اور قیصر وکسریٰ کی سلطنتوں پر فتح و نصرت کی تمام پیشن گوئیاں صریح اور واضح ہیں۔ علاوہ ازیں وہ ایسی عظیم الشان ہیں جن کو دیکھ کر اور سن کر تمام عالم حیران ہیں۔

اس موضوع پر کتابیں:
أحاديث منتخبة من كتاب أمارات النبوة-الجوزجاني (م259ھ)
دلائل النبوة-للفريابي(م301ھ)
تثبيت دلائل النبوة-القاضى عبد الجبار (م415ھ)
دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني(م430ھ)
أعلام النبوة للماوردي(م450ھ)
دلائل النبوة للبيهقي(م458ھ)
دلائل النبوة لإسماعيل لأصبهاني(م535ھ)

*************************

اسلام یہ ہے.
یہ کتاب امام غزالی (مھ) کی کتاب [هذا ديننا] يعني [یہ ہے ہمارا دین] کا اردو ترجمہ بنام [اسلام یہ ہے] ، مولانا ابو مسعود اظہر ندوی کا ہے.

الله کے آخری پیغمبر محمد ﷺ نے فرمایا:
یاد رکھو! نہ تو میں دین یہودیت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں اور نہ دین عیسائیت دے کر کہ میں تم لوگوں کو رہبانیت کی تعلیم دوں ، بیجا مشقت وتکلیف میں مبتلا کروں اور لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور لذات دنیا سے مطلقًا کنارہ کشی کی اجازت دوں بلکہ میں تو دین حنیفہ دے کر بھیجا گیا ہوں جو ایک آسان دین ہے جس میں نہ تو انسانیت عامہ کے لئے بیجا تکلیف وحرج ہے اور نہ زائد از ضرورت مشقت ومحنت ہے۔
[احمد:22291]

دین اسلام میں آسانی ضرور ہے، مگر من مانی نہیں ہے

*************************

اسلام قبول کرنے والے نو مسلم بھائی بہنوں کی کہانی خود ان کی زبانی:
حضرت مولانا کلیم احمد صدیقی دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام اور خاص طور پر ہندوستان کی ان عظیم شخصیات میں سے ہیں جن کے دل میں ہر لمحہ، ہر ساعت، امت کے ہر طبقے، ہرمذہب اور ہر مسلک چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، ہندو، یہودی یا عیسائی چاہے وہ جس مذہب سے ہی کیوں نہ ہو ان کا اپنا ہے، ان کا انسانی بھائی ہے، ان کا دل ہر امتی کیلئے دن رات تڑپتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں ہندوئوں میں کام کرنے کا عجیب سلیقہ اور ڈھنگ عطا فرمایا ہے، اب تک ان کے ہاتھوں بلا مبالغہ لاکھوں ہندو مشرف با اسلام ہوچکے ہیں اس میں جہاں ان کی انسانی خیر خواہی روز روشن کی طرح جھلکتی ہے وہاں ان کے اندر ہمدردی، درد اور کڑھن کا ایک گہرا زخم بھی عیاں ہوتا ہے جو کبھی مندمل ہونے کا نام نہیں لیتا، میں نے جب بھی ان سے ملاقات کی ہے ان کی ٹھنڈی سانسوں، متلاشی نگاہوں نے اور ارد گرد بیٹھے نو مسلموں نے یہی پیغام دیا ہے کہ ان کی دنیا ایک اچھوتی اور انوکھی دنیا ہے جو سانس لے تو انسانیت کا درد و سوز اجاگر ہوتا ہے اور زبان حال یہی صدا دیتی ہے کہ اے کاش کوئی غیر مسلم جہنم کی آگ میں جانے والا نہ بنے۔ غیر مسلموں سے نفرت انہیں گولی مارنے کا جذبہ، ان کے ا ندر کیسے ہوسکتا ہے؟ انہوں نے تو لاکھوں دلوں سے یہ جذبہ نکالا ہے۔
زیر نظر کتاب’’ نسیم ہدایت کے جھونکے ‘دراصل ان نو مسلم بھائیوں کے انٹرویوز کا مجموعہ ہے۔جو خداوندعالم کی توفیق وعنایت اور داعی اسلام اور ہدایت کے نور سے سرفراز ہوئے ان نو مسلم بھائیوں کے قبول اسلام کے تفصیلی حالات و واقعات اس کتاب میں پڑھیں ۔


مفت پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے:
https://besturdubooks.net/naseem-e-hidayat-kay-jhonkay/


https://islamicbookslibrary.wordpress.com/2013/05/04/naseem-e-hidayat-kay-jhonkay-by-shaykh-mufti-muhammad-roshan-qasmi/
یونیکوڈ میں
https://umarlibrary.org
*************************

سنن و آداب:
(شیخ ابوبکر بن مصطفیٰ پٹنی)
آداب ادب کی جمع ہے۔ مہذب اور باوقار زندگی  گزارنےکے عمدہ  اصولوں  کو آداب کہتے  ہیں۔رہنے سہنے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، بولنے چالنے، کھانے پینے، سونے جاگنے، نہانے دھونے، مہمانی ومیزبانی، تجارت وملازمت   کے بہتر طریقوں اور تمام اخلاق اور پاکیزہ صفات کوآپ آداب سے تعبیر کرسکتے ہیں۔
اسلام مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا پسند کیا ہوا دین ہے۔ اسلام کے اخلاق وآداب کو اپنا کر مسلمان خالق اور مخلوق کا محبوب بننے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی حاصل کر سکتا ہے، ان آداب میں سے بعض آداب ایسے ہیں جن میں سے عموماً عوام و خواص سب ہی کوتاہی کے مرتکب ہو تے ہیں، دیگر علوم کی با نسبت حقوق و آداب کے علم کی اہمیت و ضرورت بہت زیادہ ہے، کیونکہ اسی سےمعلوم ہوتا ہے کہ بندہ اپنے رب کے ساتھ کیسا معاملہ کرے اور اپنے والدین کے ساتھ  نیز دیگر صغیر و کبیر کے ساتھ کیا رویہ اپنائےگا؟ تمام آداب سب کے حقوق جان کر ہی ادا کیے جا سکتے ہیں۔ اسلام کی شمولیت اس بات کی متقاضی ہے کہ ایسا اہم علمی باب بیان سے تشنہ نہ رہے۔
زیرِ نظر کتاب میں زندگی سے لے کر موت تک کےسنن و آداب کوکتاب وسنت کی روشنی میں آسان اور سلیس انداز میں با حوالہ جمع کیا گیا ہے، جس سے ہر پڑھنے والا فائدہ اٹھانے والا بن کر معاشرے کو جنت کا نمونہ بنا سکتا ہے۔
ہر انسان فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں ۔ اگر بچے کی شروع سے اچھی تربیت کی جائے اس میں حق ، نیکی اور خیر کو ترجیح دینے کا جذبہ پیدا کیا جائے تو یہ کام اس کی عادت میں شامل ہو جاتے ہیں ۔ پھر اس میں حلم ، حوصلہ ، صبر ، تحمل ، بردبار ، کرم شجاعت اور عدل و احسان جیسے اخلاق حسنہ پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر بچے کی تربیت مناسب انداز سے نہ کی جائے تو وہ بری عادت کا شکار ہو جاتا ہے ۔ وہ خیانت ، جھوٹ ، بےصبری ، لالچ ، زیادتی اور سختی جیسے اخلاق سیئہ کا شکار ہو جاتا ہے ۔ چناچہ اسلامی طرز زندگی گزارنے کے لیے اور اپنی زندگی میں اسلام پر عمل کرنے کے لیے ہمیں ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ ﷺ کی زندگی پر عمل پیرا ہونا ہو گا ۔ اپنے بچوں کے اور اپنے سامنے حضور کی حیات مبارکہ کو ماڈل بنانا ہو گا ۔ آپ ﷺ نے ہمارے لئے زندگی کے ہر شعبہ میں اعلی اور مثالی نمونے چھوڑے ہیں ۔ اور اس کے علاوہ آپ ﷺ کے بہترین فرمودات بھی موجود ہیں ۔ جن پر عمل کر کے ہم اپنی زندگیوں کو ایک جنت کا نمونہ بنا سکتے ہیں ۔ زیر نظر کتاب بچوں اور بڑوں کی اسلامی تربیت کے حوالے سے لکھی گئی ہے ۔ جس میں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں اسلامی اصولوں کی وضاحت بطریق احسن کر دی گئی ہے ۔ اللہ ہمیں صحیح معنوں میں مسلمان بنائے ۔آمین



آداب واخلاق کےاسلامی اصول:
1۔ مسلمان بہترین امت ہیں اس لیے انہیں  جانوروں  اور دنیا کی کافر قوموں سے ممتاز نظرآنا چاہیے!
بال  اور ناخن نہیں بڑھانے چاہییں
برہنگی تو جانوروں کی صفت ہے اس لیےلباس پہننا چاہیے
 صفائی کے تقاضوں پر عمل کرنا چاہیے
گندا رہنا چاہیے نہ گندگی پھیلانی چاہیے!
کھانے پینے اور بات چیت میں تہذیب واخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے
جانوروں کی طرح جھپٹ کر اور لڑبھڑ کر کھانا چاہیے نہ  لڑتے ہوئے بے تہذیبی سے گفتگو کرنی چاہیے!
ڈسپلن اور قواعد کی پابند قوم بن کر رہنا چاہیے!
2۔ نہ اپنی جان کو تکلیف میں مبتلا کرنا چاہیے نہ کسی  اورکو کسی  طرح کی  ایذا وتکلیف پہنچانی چاہیے! 
دھوکہ کھانا چاہیے، نہ دھوکہ دینا چاہیے!
انسان نہ خود پر ظلم کرے نہ کسی اور پر!
ماتم اسی لیے منع ہے۔حسد، تکبر اور ظلم وغصب سے بچنا چاہیے کہ یہ چیزیں ایذارسانی کی بنیادی جڑ ہیں۔گالی گلوچ کرنا، گندگی پھیلانا ، چراغ جلاکر سونا، بغیر آڑ والی چھت پر سونا،غرض ہر طرح  کی ایذا رسانی والی چیزوں سے انسان کو بچنا چاہیے!
3۔  ہر ایسی چیز سے بچنا چاہیےجوطبی لحاظ سے مضر ہو!
4۔ بعض چیزیں شیطانوں کے مزاج سے مناسبت رکھتی ہیں، جیسے: ایک جوتی پہن کر چلنا، الٹے ہاتھ سے کھانا کھانا،  جنس مخالف کی نقالی کرنا،اس لیے شریعت نے اس سے منع کردیا ہے۔
5۔ بعض چیزیں فرشتوں کے مزاج سے مناسبت رکھتی ہیں، جیسے: دعا ، ذکرواذکار اور نوافل کا اہتمام کرنا، اس لیے شریعت نے ان کی ترغیب دی ہے۔
6۔  بعض چیزیں  عیاشی اور عیش ومستی کے نشان ہیں، جیسے: ریشم پہننا، سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا، شراب نوشی، اس لیے شریعت نے ان سے دور رہنے کی تلقین کی۔


























********************************************
الاحکام السلطانیہ
امام ابو الحسن علی بن محمد بن حبیب البصری (متوفی450ھ)
دنیا کے وجود میں آنے کے بعد اس دنیا میں رہنے والے انسانوں نے کئی حکومتی اور سیاسی نظام تخلیق کئے اور اختیار کیے، لیکن ہر نظام ایک مدت کے بعد اپنی موت آپ ہی مر گیا۔ ان سیاسی نظاموں کے تخلیق کرنے کی وجہ یہ تھی کہ انسان نے حاکمیت اپنے سر لے لی اور یہ مائنڈ سیٹ بنا لیا کہ افراد کی طاقت سے بالا اور زبردست ہوتی ہے، اور ان تمام سیاسی نظاموں کے برباد ہونے کی سب سے بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ انسان کے بنائے ہوئے نظام تھے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے،اسلام نے مسلمانوں کو جہاں عبادات کے طریقے بتلائے ہیں وہاں ایک نظام حکومت بھی عطا فرمایا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب" الاحکام السلطانیہ "پانچویں صدی کے معروف شافعی فقیہ، ماہر اصول فقہ اور دولت عباسیہ کے قاضی أبو الحسن علي بن محمد بن حبيب البصری البغدادی الماوردی کی تصنیف عربی تصنیف ہے ،جس کا اردو ترجمہ مولوی سید محمد ابراہیم صاحب نے کیا ہے۔ مولف موصوف نے اس کتاب میں اسلامی حکومت کے خدو خال اور طریقہ کار کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور کتاب کو بیس ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ جن میں سے امام کا تقرر، وزراء کا تقرر، فوجی سپہ سالاروں کا تقرر، کوتوالی کا تقرر، عدالت ، اشراف کی دیکھ بھال، امامت نماز ، امارت حج، صدقات، جزیہ وخراج کے عائد کرنے کے ضوابط اور دفاتر کا قیام اور ان کے احکام وغیرہ جیسے ابواب قابل ذکر ہیں۔ بارگاہ الہی میں دعا ہے کہ مولف کی اس کوشش کو قبول فرمائے اور ہمیں اسلامی نظام حکومت جیسی نعمت سے سرفراز فرمائے۔آمین




مفردات القرآن (جدید ایڈیشن) (امام راغب اصفہانی متوفی 502ھ)
غریب القرآن پر اب تک بہت سی کتب لکھی جا چکی ہیں۔ اس موضوع پر سب سے پہلے جس شخصیت نے توجہ دی وہ ابن عباس﷜  ہیں۔ وہ غریب القرآن کی تشریح کے سلسلہ میں شعر اورکلام عرب سے استشہاد میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ امام راغب اصفہانی﷫ نے اس موضوع پر ’المفردات فی غریب القرآن‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ جس کی افادیت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ متعدد مفسرین کے علاوہ حافظ ابن حجر﷫ اور علامہ عینی﷫ جیسے شارحین حدیث اس سے استفادہ کرتے رہے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ’مفردات القرآن‘ کے نام سے ہدیہ ناظرین ہے۔
کتاب میں مؤلف نے پندرہ سو نواسی مواد سے بحث کی ہے۔ قرآن کے بعض مواد متروک بھی ہیں لیکن وہ غیر اہم ہیں۔ انھوں نے اپنی کتاب کو حروف تہجی پر ترتیب دیا ہے۔ اور ہر کلمہ کے حروف اصلیہ میں سے اول حرف کی رعایت کی ہے۔ پہلے ہر مادہ کے جوہری مادہ متعین کرتےہیں پھر قرآن میں مختلف آیات پر اس معنی کو منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مؤلف الفاظ کی تشریح کے سلسلہ میں اشعار و محاورات اور احادیث کو بھی بطور شواہد پیش کرتے ہیں اور بعض علمائے تفسیر و لغت کے اقوال بھی بطور تائید پیش کرتے رہتے ہیں اور بعض مقامات پر وضاحت کے لیے اختلاف قراءت کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ کتاب کا اردو ترجمہ نہایت شاندار ہے۔







تفسیر ابن عباس
اصحاب رسول رضوان اللہ علیہم، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض تربیت، قرآن مجید کی زبان اور زمانۂ نزول کے حالات سے واقفیت کی بنا پر، قرآن مجید کی تشریح، انتہائی فطری اصولوں پر کرتے تھے۔زیر تبصرہ کتاب"تفسیر ابن عباس "صحابی رسول ترجمان القرآن سیدنا عبد اللہ بن عباس  کی طرف منسوب ہے، جسے ابو طاہر محمد بن یعقوب  فیروز آبادی �نے مرتب کیا ہے۔اس تفسیر کی نسبت کے حوالے سے اسلاف کی مختلف آراء موجود ہیں۔اس کی اسناد کے متعلق بھی گفتگو کی خاصی گنجائش موجود ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی متعدد روایات صحاح ستہ ودیگر کتب حدیث میں موجود ہیں۔اس لئے اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔یہ کتاب اردو میں تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن وحدیث کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین



تفسیر مدارک
                ’’مدارک التنزیل‘‘ علامہ ابوالبرکات عبداللہ بن احمد نسفی کی تفسیر ہے، یہ تفسیر نہایت عمدہ ہے، جامعیت اور پیرایۂ بیان کی دلکشی میں منفرد ہے، اس میںگمراہ فرقوں کے عقائد باطلہ کی بھی بھرپور تردید کی گئی ہے، حافظ ابن کثیرؒ کی تفسیر کی طرح اسرائیلیات سے بالکل پاک ہے، اہلِ علم نے ہمیشہ اسے پذیرائی بخشی ہے، پہلے ہندوپاک کے مدارس میں داخلِ نصاب تھی،اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس میں فقہی مسائل ودلائل حنفی نقطئہ نظر سے بیان ہوئے ہیں، تفسیر اور علمِ تفسیر سے بے اعتنائی کے دور میں جس طرح دوسری تفسیریں بے توجہی کا شکار ہوئی ہیں، اسی طرح یہ تفسیر بھی ہوئی، فإلی اللہ المشتکٰی!
                مذکورہ بالا خصوصیات کی وجہ سے حضرت مولانا انظرشاہ کشمیریؒ نے اس کا ترجمہ شروع فرمایا اور بڑے ہی آب وتاب سے دیوبند کے ’’ادارہ فکرِ اسلامی‘‘ کے ذریعہ اس کی اشاعت عمل میں آئی، ترجمہ کا اسلوب نہایت عمدہ اور زبان شیریں ہے، قاری کو ترجمہ پن کا بالکل احساس نہیںہوتا، ’’فُٹ نوٹ‘‘ میں بڑی مفید باتیں بیان کی گئی ہیں، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میںامام جصاص اور ابن العربی رحمہما اللہ کی ’’احکام القرآن‘‘ سے مترجم نے جزوی احکام ومسائل بیان فرمائے ہیں، اس طرح ہر رکوع کے بعد ’’قرآن کا پیغام‘‘ کے عنوان کے تحت تفسیر کا خلاصہ تحریر فرمایا ہے، آیات اور ترجمہ میں خط کھینچ کر فصل پیدا کردیاگیا ہے، اہلِ علم کے نزدیک کتابتِ ترجمہ کا یہ طرز بہترہے، ترجمہ میں حضرت تھانویؒ کے ترجمہ کو منتخب فرمایا ہے۔
                مترجم مرحوم (۱۳۴۷ھ تا ۱۴۲۹ھ) برصغیر کے عظیم ترین باپ کے عظیم سپوت تھے، عربی زبان وادب پر صدرجمہوریہ ایوارڈ یافتہ تھے، مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن تاسیسی تھے، دو درجن علمی، ادبی اور مذہبی کتابیں تصنیف فرمائیں، مرحوم کو عربی تفاسیر کے اردو ترجمہ کی طباعت واشاعت کے ساتھ ترجمہ نگاری سے بڑی دلچسپی تھی، اس کو عمدہ سے عمدہ بنانے کی ہر ممکن کوشش فرماتے تھے، ابن کثیر، مدارک، جلالین اور مظہری کے ترجمے کیے؛ لیکن اتفاق سے اوّل الذکر کے علاوہ کوئی ترجمہ مکمل نہ ہوسکا، جلالین کا ترجمہ مکمل ہوا؛ مگر اس کے صرف تین پاروں کا ترجمہ اور اس کی شرح مرحوم ومغفور نے فرمائی تھی (یعنی سولہ، سترہ، اٹھارہ) بقیہ کی توفیق حضرت مولانا محمد نعیم صاحبؒ استاذِ تفسیر دارالعلوم دیوبند کے نصیبے میںآئی۔ مرحوم عصری دانش گاہوں کے فیض یافتہ بھی تھے، زبان وقلم دونوں کے بے نظیر شہسوار تھے، انھوں نے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے، اللہ تعالیٰ ان سب کو قبول فرماکر مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں!
                جب تفسیر مدارک کا ترجمہ چھپا تو مہبطِ وحی مکہ مکرمہ سے نکلنے والے اخبار ’’رابطۃ العالم الاسلامی‘‘ میں اس کی خوش خبری شائع ہوئی، یہ جمادی الثانیہ ۱۳۸۰ھ کی بات ہے (ترجمہ مدارک ص۹۶) ہندوستان میں بھی متعدد رسالوں نے اس پر تبصرے لکھے اور مترجم وناشر کو دادِتحسین سے نوازا، مثلاً: حضرت مولانا محمد میاں صاحبؒ نے ’’الجمعیۃ‘‘ دہلی میں ۸؍ستمبر ۱۹۶۳ء کو عمدہ تبصرہ لکھا اور مولانا سید محمد ازہرشاہ قیصرؔ نے رسالہ دارالعلوم دیوبند کے نومبر ۱۹۶۳ء کے شمارے میں اس اقدام کو نہایت بہتر بتایا۔
                میں نے اس کے دو حصے دارالعلوم دیوبند کے کتب خانے میں دیکھے، دونوں حصے چھیانوے، چھیانوے صفحات کے ہیں، جب تک یہ تفسیر نصاب میں شامل تھی، اس کے ترجمے بھی مارکیٹ میںملتے تھے، اب دیوبند کے تجارتی کتب خانوں میں یہ ترجمہ بھی نایاب ہے۔


تفسیر جلالین
                پانچ صدی سے یہ تفسیر امت میں متداول ومقبول ہے، یہ تفسیر نہیں؛ بلکہ قرآن پاک کا ’’عربی ترجمہ‘‘ ہے،اس میں تفسیری کلمات قرآنِ پاک کے الفاظ کے برابر ہیں، کہیں کہیں چند الفاظ یا جملے زائد ہیں، اس تفسیر کو پڑھنے پڑھانے اور استفادہ کرنے والے جانتے ہیں کہ شروع سے ’’سورئہ مدثر‘‘ تک ایسا ہی ہے، اس کے بعد تفسیر کے الفاظ آیات سے کچھ زائد ہیں۔
                علامہ سیوطیؒ (۸۴۹ھ تا ۹۱۱ھ) اور علامہ محلی (۷۹۱ھ تا ۸۶۴ھ) دونوں کا لقب؛ چوںکہ جلال الدین ہے؛ اس لیے ان کی تفسیر، ’’تفسیر الجلالین‘‘ سے موسوم ہوئی، علامہ سیوطیؒ کا نام عبدالرحمان ہے، ان کو دولاکھ احادیث یاد تھیں، متعدد فنون پر دست رس حاصل تھی،  ’’الاتقان في علوم القرآن، لباب النقول في أسباب النزول‘‘ وغیرہ ان کی مشہور تصانیف ہیں، یہ علامہ محلیؒ کے شاگرد ہیں، جن کا نام محمد بن احمد بن محمد ہے، ان کی مشہور تصانیف میں سرفہرست ’’جمع الجوامع‘‘ ہے، علامہ محلیؒ نے ’’سورئہ کہف‘‘ سے اخیر قرآن تک کی تفسیر لکھی اور شروع سے ’’سورئہ فاتحہ‘‘ کی تفسیر لکھی تھی کہ فرشتۂ اجل آدھمکا، بالآخر علامہ سیوطیؒ نے اپنے استاذِ محترم کے نہج کو باقی رکھتے ہوئے ہی، تفسیر پوری کی، کوئی عالم محض مطالعہ کی بنیاد پر دونوں کے درمیان خطِ امتیاز نہیں کھینچ سکتا، دونوں شخصیتوں کے سامنے خصوصیت کے ساتھ شیخ موفق الدینؒ کی دو تفسیریں رہی ہیں، ایک کا نام ’’تفسیر کبیر‘‘ ہے، جسے اہلِ علم ’’تبصرہ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں اور دوسرے کا نام ’’تفسیر صغیر‘‘ ہے، جسے ’’تلخیص‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، ان کے علاوہ تفسیر وجیز، بیضاوی اور ابن کثیر سے بھی استفادہ کیاگیاہے۔
جلالین کی اردو شروحات
                راقم الحروف کے علم واطلاع میں اردو زبان میں اس کے تین ترجمے اور شرحیں ہیں:
                (الف) کمالین (ب) فیض الامامین (ج) جمالین۔
کمالین شرح اردو جلالین
                ’’کمالین‘‘ نام کی جلالین کی ایک شرح عربی زبان میں بھی ہے،اس کی زیارت حیدرآباد کے ’’سالارجنگ میوزیم‘‘ میں ہوئی، شیشے کے اوپر سے ہی کھلے ہوئے ورق کو دیکھ سکا،یہ شرح اردو زبان میںہے، اس کے ’’تیس اجزائ‘‘ ہیں، ہر پارے کوالگ جزء میں لکھا گیا ہے، سولہ، سترہ اور اٹھارہ ویں پارے کاترجمہ اور اس کی تشریح حضرت مولانا انظرشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے، بقیہ سارے اجزاء حضرت مولانا محمد نعیم صاحبؒ استاذ تفسیر دارالعلوم دیوبند نے لکھے ہیں، یہ شرح مدارس کے طلبہ کے درمیان متعارف ہے،اس کی اشاعت ’’مکتبہ تھانوی دیوبند‘‘ کے توسط سے عمل میں آئی ہے، حضرت مولانا محمد نعیم صاحب دارالعلوم کے قدیم اساتذہ میں سے تھے، ان کی بھی متعدد علمی تصانیف ہیں، جو اہلِ علم سے دادِ تحسین حاصل کرچکی ہیں۔
                زبان و بیان کے لحاظ سے کسی طرح کی کمی نہیں ہے، جلالین کے حل کرنے اور اردو سے سمجھنے والے علماء وطلبہ کے لیے معاون ہے، طباعت بہت عمدہ نہیں ہے، اب تک قدیم پلیٹوں پر ہی چھاپی جارہی ہے۔
                راقم الحروف کو دارالعلوم حیدرآباد میں چھ سال مسلسل جلالین شریف پڑھانے کا موقع نصیب ہوا اور الحمدللہ یکے بعد دیگرے دونوں حصوں کے پڑھانے کی توفیق ملی، اس دوران تین مشکل مقامات پر ’’کمالین‘‘ کو دیکھنے کی نوبت آئی، ان میں سے دو مقام پر عبارت کا ترجمہ بھی نظر نہیں آیا اور ایک مقام پر ترجمہ تو تھا؛ مگر قاری کی مشکل حل ہوتی ہوئی نظر نہ آئی، اس کے بعد اور اس سے پہلے اس کو دیکھنے کا موقع میسر نہ آیا، بعض ایسی شروحات جو محض تجارتی نقطئہ نظر سے بعض تجار لکھواتے ہیں، ان میں لکھنے والوں کو بعض جگہوں پر جلدی کی وجہ سے تحقیق کا موقع نہیں ملتا اور ویسے ہی مسودہ کاتب کے پاس چلاجاتا ہے، اللہ تعالیٰ ان سب کو معاف فرمائیں! غرض یہ کہ ’’کمالین شرح جلالین‘‘ بھی ان شرحوں میں سے ہے، جن کو کسی بالغ نظر عالم کی تحقیق کے بعد ہی اعتبار حاصل ہوسکتا ہے۔



تفسیر_کمالیں اردو تفسیر جلالین:
قرآنِ کریم واحد آسمانی کتاب ہے جو ہر قسم کی تحریف و تغییر سے محفوظ اور رہتی دنیا کے لئے مشعلِ راہ و ہدایت ہے اس کی مستحکم وہمہ گیر تعلیمات و احکام کی حقانیت صدیاں گزرنے کے باوجود مسلّم ہے ۔ ہر شعبۂ زندگی کے لئے واضح ہدایات، انباء الغیب کی منہ بولتی صداقت، ترغیب و ترہیب کی دلوں پر غیر معمولی تاثیر، آفاقی رہنما اصول، ان کی صداقت، الفاظ و معانی کے اعجاز سے قرآن کا معجزہ ہونا کھلی آنکھوں نظر آتا ہے ۔ حضور ﷺ  کی ذاتِ گرامی قرآن کا عملی نمونہ تھی، آپ کی احادیث قرآن کی مکمل تفسیر ہیں اور یہ نمونہ صحابہؓ و تابعین کی عملی زندگی اور اقوال کی صورت میں منتقل ہوا۔ مختلف ادوار میں مختلف مفسرین نے اپنے ذوقِ علمی کے پیشِ نظر معانی و مفاہیمِ قرآن کو اجاگر کرنے کے لئے مختصر و طویل تفاسیر لکھی ہیں۔ 
تفسیر جلالین انہی معتبر تفاسیر میں سے مختصر اور بہت جامع تفسیر ہے جو عہدِ تصنیف سے آج تک داخلِ نصاب ہے جس سے اس کی اہمیت و قبولِ عام ہونا عیاں ہے ۔ زیر نظر کتاب ’’تفسیر کمالین‘‘ اردو زبان میں تفسیرِ جلالین کی شرح ہے جس میں علامہ جلال الدین "سیوطی" شافعی (٨٤٦-٩١١ ہجری) و علامہ جلال الدین محلی شافعی (٧٩١-٨٦٤ ہجری) کے بیان کردہ تفسیری کلمات کے فوائد و اغراض اختلاف قرائٰ ت کا بیان، ترکیبِ نحوی کا حل، لغوی معنی کی وضاحت، تعیینِ معنی، شُبہ کا ازالہ، اعتراض کا دفعیہ، ابہام کی وضاحت، اجمال کی تفصیل، بیانِ مذاہب یا کسی واقعہ و شانِ نزول کی طرف اشارہ و غیرہ کی طرف بطریق احسن وضاحت کی گئی ہے ۔ ترجمہ، ربط، شانِ نزول اور مفصّل تشریح احتیاط کی چھلنی میں چھان کر پیشِ خدمت ہے ۔ نیز حوالوں کے انبار سے قارئین کو مرعوب وزیرِ بار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔










احکام القرآن (امام جصاصؒ)
قرآن مجید بےشمار علوم وفنون کا خزینہ ہے۔ اس کے متعدد مضامین میں سے ایک اہم ترین مضمون اس کے احکام ہیں۔جو پورے قرآن مجید میں جابجا موجود ہیں ۔احکام القرآن پر مبنی آیات کی تعداد پانچ سو یا اس کے لگ بھگ ہے۔لیکن مفسرین کرام نے جہاں پورے قرآن کی تفاسیر لکھی ہیں ،وہیں احکام پر مبنی آیات کو جمع  کر کے الگ سے احکام القرآن  پر مشتمل تفسیری مجموعے بھی  مرتب کئے ہیں۔احکام القرآن پر مشتمل کتب میں قرآن مجید کی صرف انہی آیات کی تفسیر کی جاتی ہے جو اپنے اندر کوئی شرعی حکم لئے ہوئے ہیں۔ان کے علاوہ  قصص ،اخبار وغیرہ پر مبنی آیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب " احکام القرآن "بھی اسی طرز بھی لکھی گئی ایک منفرد کتاب ہے، جو چوتھی صدی ہجری کے معروف حنفی عالم علامہ ابو بکر احمد بن علی الرازی الجصاص الحنفی � کی تصنیف ہے۔جس میں انہوں نے  پورے قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے احکام پر مبنی آیات کی خصوصی تفسیر قلم بند کی ہے۔اصل کتاب عربی میں ہے۔ اردو ترجمہ کرنے کی سعادت محترم مولانا عبد القیوم صاحب نے حاصل کی ہے۔اردو ترجمے پر مبنی کتاب کی چھ ضخیم جلدیں ہیں، جو اس وقت آپ کے سامنے موجود ہیں۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف اور مترجم کی کی اس خدمت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے درجات حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین
https://archive.org/details/AhkamUlQuran_Jasaas








الموافقات فی اصول الشریعہ (امام شاطبیؒ م790ھ)
انسانی زندگی ہمیشہ تغیر پذیر رہتی ہے۔ احوال و ظروف بدلتے رہتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری تھا کہ انسانی زندگی کے لیے ناگزیر حقیقتوں کو معیار ٹھہرا کر کچھ ایسے قواعد وضع کر دئیے جائیں جو پیش آمدہ معاملات میں حکم کی تلاش میں ممد و معاون ہوں اور یہ قواعد شارع حقیقی کی رضا سے متصادم نہ ہوں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے علمائے اسلام نے بڑی تگ و دو کی اور اصول قانون یا اصول فقہ پر ایک ایسا ذخیرہ تیار کیا جس کی مثال دنیا کی قانونی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ہر دور کے علما نے اس ذخیرہ میں اضافہ کیا۔ علامہ شاطبی کی زیر نظر کتاب اسلامی اصول قانون کی ایک معتبر کتاب ہے جس میں علامہ نے اس فن کا کما حقہ احاطہ کیا ہے۔ اس کتاب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ مذاہب اربعہ کے اصولیین کی آرا پر ایک مکمل تبصرہ ہے اور آئندہ کے لیے فن اصول کے طلبا کے لیے ایک نمونہ کما ل ہے۔ مفتی، مجتہد، قاضی اور ولی الامر کے لیے اس کا مطالعہ ایسے گوشے کھولتا ہے کہ وہ تلاش حکم میں منشائے شارع حقیقی کو پا لیتا ہے اور کسی دشواری سے دوچار نہیں ہوتا اس لیے اس کتاب میں علامہ نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ قرآن و سنت سے مستنبط ہے۔ مولانا عبدالرحمٰن کیلانی نے اس کتاب کو اردو قالب میں منتقل کیا ہے۔






اسلام میں عدل کے ضابطے
امام شمس الدین محمد بن ابی بکر بن القیم الجوزیہ(م751هـ)
کسی بھی قوم کی نشوونما اور تعمیر وترقی کےلیے عدل وانصاف ایک بنیادی ضرورت ہے ۔جس سے مظلوم کی نصرت ،ظالم کا قلع قمع اور جھگڑوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے اورحقوق کو ان کےمستحقین تک پہنچایا جاتاہے اور دنگا فساد کرنے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں ۔تاکہ معاشرے کے ہرفرد کی جان ومال ،عزت وحرمت اور مال واولاد کی حفاظت کی جا سکے ۔ یہی وجہ ہے اسلام نے ’’قضا‘‘یعنی قیام عدل کاانتہا درجہ اہتمام کیا ہے۔اوراسے انبیاء ﷩ کی سنت بتایا ہے۔اور نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے لوگوں میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتےہوئے فرمایا:’’اے نبی کریم ! آپ لوگوں کےدرمیان اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ کریں۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ اسلام میں عدل کے ضابطے‘‘ امام ابن قیم ﷫ کی معروف کتاب ’’الطرق الحکمیۃ فی السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ کااردوترجمہ ہے۔ اس کتا ب میں امام صاحب نےشرعی سیاست ،اسلامی نظام حکومت اور نظام حکومت اور نظام عدل ، اسلام کا عدالتی طریقہ کار ، اسلامی ضابطہ ہائے عدل وانصاف ، شرعی مناہج قضا جیسی مباحث کو بہترین اندازمیں بیان کیاہے ۔ یہ کتاب اسلامی شریعت کے نفا ذ کے لیے جدوجہد کرنے والوں خصوصاً علماء اور قانون دان حضرات کے لیے بہت فائدہ مند ہے ۔پاکستا ن کے وکلاء اور جج صاحبان کے لیے اس کا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔فقہ اسلامی کےاردو ذخیرہ میں یہ کتاب ایک گرانقدر اضافہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ مصنف ، مترجم وناشرین کی اس کاوش کوقبول فرمائےاوراسے عوام الناس کےلیے باعث نفع بنائے ۔ (آمین)

تاریخ جنات و شیاطین:
امام جلال الدین السیوطیؒ (م٩١١ھ) تصنیفی دنیا کے بادشاہ گزرے ہیں، تقریباً سات سو (٧٠٠) کتب کی تصنیف کی ہے، جو ان کے وسیع مطالعہ کی شہادت ہے، اہل_علم جانتے ہیں کہ انہوں نے اپنی کتب میں احادیث و اقوال کی تخریجات میں کتنا نمایاں مقام حاصل کیا ہے اور بعض موضوعات میں تو تمام مصنفین سے سبقت لے گۓ.
یہ کتاب"لقط المرجان" جس کا یہ اردو ترجمہ و تشریح وتخریج_احادیث مولانا امداد الله انور غفرلہ صاحب نے کیا ہے، جو جنّات و شیاطین کے احوال و تواریخ پر اس سے زیادہ عام فہم اور جامع کتاب شاید آج تک نہیں لکھی گئی.
علامہ سیوطی رح نے اس کتاب کو اصل میں علامہ شبلی رح کی مشہور زمانہ کتاب"آکام المرجان" سے لیا ہے، جس میں انہوں نے حسب_منشاء ترمیم و تبدیلی کی ہے، اور مضامین کو مقدم و موخر کیا ہے. علامہ شبلی رح نے اپنی کتاب میں جن روایات کو چند ایک حوالوں سے مدلل کیا تھا، علامہ سیوطی رح نے کئی جگہ اس سے زائد حوالہ جات بھی پیش کیے ہیں اور خود اپنے ذاتی مطالعہ سے بھی بہت سارے مضامین کا اضافہ بھی کیا ہے، مزید اس کتاب میں ان کی ذاتی خصوصیت آپ اس کتاب کے آخری صفحات میں ماخذ کی فہرست سے اندازہ لگا سکتے ہیں، جن میں وہ حوالہ جات بھی درج ہیں جو مترجم نے تخرج_روایات و احادیث کی حواشی میں درج کیے ہیں.
مضامین کے حساب سے یہ کتاب "آکام المرجان" سے زیادہ مفید ہے، کیونکہ اس کے مضامین میں تنوع پایا جاتا ہے.
الله تعالیٰ ہمیں جنّات و شیاطین کے مکر و فریب کو سمجھنے کے بعد بچنے کی بھی توفیق عطا فرماۓ.آمین
اس کتاب کو آن لائن پڑھنے یا مفت ڈاؤن لوڈ کیلئے:



حیات الحیوان:
’’حیات الحیوان‘‘ علامہ کمال الدین الدمیریؒ(م808ھ) کی شہرۂ آفاق تصنیف ہے جس میں بترتیبِ حروف تہجی حسبِ معلومات ۰۶۵ عنوانات سے جانوروں کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے ۔ جانور کا نام، لغوی حل، کنیت، خصوصیات و عادات، احادیث میں ان کا ذکر، شرعی حلت و حرمت، ضرب الامثال، طبی فوائد، اس کے ذیل میں تاریخی واقعات، ۹۹۱ شعراء عرب کے دیوانوں سے اشعار و ابیات، منظوم کلام، اوراد و وظائف، تعویز و عملیات اور دیگر بے شمار فوائد ذکر کئے گئے ہیں ۔ اس عظیم علمی شاہکار سے مکمل استفادہ کے لئے عربی زبان سے دیگر زبانوں میں منتقل کرنے کی اب تک کافی کوششیں ہوئی ہیں اردو زبان میں بھی مختلف تراجم شائع ہوئے لیکن بعض مروج تراجم میں کافی کمی تھی دورانِ ترجمہ بعض اہم نکات کو حذف کر دیا گیا جو عربی کتاب کے لئے باعثِ نقص تھے ۔ مروجہ تراجم کے نقائص کا سدباب کرنے کے لئے مولانا محمد اصغر مغل فاضل دارالعلوم کراچی کی زیرِ نگرانی مولانا محمد یوسف تنولی فاضل و متخصص دارالعلوم نے پہلی مرتبہ کتاب ہذا کا مکمل بامحاورہ دلنشیں اور سلیس ترجمہ کیا، مباحث علمِ کلام، اشعار و عملیات اس ترجمہ میں شامل رکھا گیا ہے ، اشعار کے ترجمہ میں صحیح مفہوم واضح کرنے کے لئے تحقیق کی گئی، مفید حواشی لکھے گئے ، صرفی، نحوی و دیگر علمی مباحث کی شستہ و دلنشیں وضاحت کی گئی۔ کتاب حیوانات کا انسائیکلوپیڈیا ہونے کے ساتھ مرقع علوم ہے جو علم تفسیر، حدیث، فقہ، ادب، لغت، قصص، تعبیر، تاریخ، طب، کلام، تصوف، عجائب و غرائب اور خواص اشیاء پر مشتمل بیش بہا علوم کا خزانہ ہے ۔ دارالاشاعت کراچی سے بہترین کمپیوٹر کتابت، عمدہ طباعت کے ساتھ شائع کی جا رہی ہے اللہ تعالیٰ اسے زیادہ سے زیادہ نافع بنائے ۔ آمین



طب نبویﷺ:
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں جہاں روحانی اور باطنی بیماریوں کے حل تجویز فرمائے وہیں جسمانی اور ظاہری امراض کے لیے بھی اس قدر آسان اور نفع بخش ہدایات دیں کہ دنیا چاہے جتنی بھی ترقی کر لے لیکن ان سے سرمو انحراف نہیں کر سکتی۔ زیر نظر کتاب حافظ ابن قیمؒ(م751ھ) کی شہرہ آفاق تصنیف ’زاد المعاد فی ہدی خیر العباد‘ کے ایک باب ’الطب النبوی‘ کا علیحدہ حصہ ہے جسے ایک کتاب کی شکل میں الگ سے طبع کیا گیا ہے۔ شیخ صاحب نے حکیمانہ انداز میں علاج کے احکامات، پرہیز اور مفرد دواؤں کے ذریعے علاج کی فضیلت بیان کرتے ہوئے متعدی اور موذی امراض سے بچاؤ کی نہایت آسان تدابیر پیش کی ہیں۔ کتاب میں ایسے مفید مشورے اور نصیحتیں بھی درج ہیں جن پر عمل کرکے ایک مریض کو نہایت سستا اور مستقل علاج میسر آسکتا ہے۔ بہت سے لوگ دعا اور دوا کے سلسلے میں افراط کا شکار ہیں لیکن یہ دونوں نقطہ ہائے نظر تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے میل نہیں کھاتے بیماری کے علاج کے لیے دعا اور دوا دونوں از بس ضروی ہیں۔



تلبیس ابلیس (شیطانی دھوکے):

امام عبدالرحمن الجوزیؒ (م597ھ) کی کتاب تلبیسِ ابلیس اپنے موضوع کے اعتبار سے بلند پایہ تصانیف میں سے ایک ہے- مصنف نے اپنے کتاب کو مختلف ابواب میں تقسیم کرتے ہوئے تیرہ ابواب میں مختلف قسم کے بڑے اہم موضوعات کا احاطہ کیا ہے- پہلے باب میں کتاب و سنت کو اختیار کرنے کی اہمیت وافادیت پر روشنی ڈالی ہے اور دوسرے باب میں بدعت اور بدعتیوں کے مختلف گروہوں کی مکمل تفصیل جیسے معتزلہ،خوارج،مرجئہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ خلافتِ راشدہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی طرح شیطان انسان کو کس طریقے سے گمراہ کرتا ہے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے شیطان کے مختلف حیلوں کو مختلف ابواب میں مختلف لوگوں کے اعتبار سے تقسیم کیا ہے۔ مثلاََ: مختلف ادیان کے اعتبار سے شیطان کیسے تلبیس یا اختلاط پیدا کرتا ہے، غلط عقائد کی ترویج کے لیے لوگوں کے ذہنوں میں شیطان کیسے وسوسے پیدا کرتا ہے، علماء کو گمراہ کرنے کے لیے کیسے حربے استعمال کرتا ہے اور عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لیے کیسے حربے استعمال کرتا ہے۔ غرضیکہ مصنف نے جمیع موضوعات اور معامالات کو زیرِ بحث لا کر یہ سمجھایا ہے کہ شیطان تمام معاملات میں دخل اندازی کس طریقے سے دیتا ہے اور لوگوں کو راہِ ہدایت سے کیسے بھٹکاتا ہے۔ راہِ ہدایت کے متلاشی کے لیے اس کتاب کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے۔





تاریخ ابن کثیرؒ(م751ھ):
یہ تاریخ کائنات ارضی وسماوی کی تخلیق سے شروع ہوتی ہے اور قیامت کے بعد تک کے مفصل احوال پر کلام کرتی ہے ۔ اسکے ساتھ ہی تخلیق کائنات، اور ملائکہ و ابلیس و شیاطین اور حضرت آدم و حوا کی تخلیق پر سیر حاصل بحث ہے ۔ اسکے بعد مختلف اقوام میں مبعوث ہونے والے انبیاء کرام علیہم السلام اور انکی قوموں کے تفصیلی حالات قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کئے گئے ہیں ۔ دیگر مستند تاریخی حوالوں سے انبیاء کرام علیہم السلام کے زمانے اور نام و نسب متعین کئے گئے ہیں ۔ حضور e کی سیرت سے قبل عرب جاہلیت کے تاریک دور کو روشن کیا ہے ۔ پھر حضور e کی مکمل سیرت و سوانح بیان کی گئی ہے جو کئی حصص پر منتہی ہوتی ہے ۔ پھر خلفاء راشدین مہدیین کے خیرالقرون کی تاریخ ہے ۔ اسکے بعد مصنف نے تمام اسلامی سلطنتوں کی مفصل تاریخ اور انکے تناظر میں دنیائے کفر کے عالمی حالات قلمبند فرمائے ہیں ۔ مصنف کی یہ کوشش کامیاب رہی ہے کہ کوئی اہم واقعہ یا کسی اہم شخصیت پر پردہ نہ پڑا رہ جائے ۔ فللّٰہ الحمد مصنف نے قارئین کو تاریخ ذہن نشین کرانے کے لئے ہر سن کے آخر میں تمام اہم واقعات کو چند سطروں میں دوبارہ بیان فرما دیا ہے ۔ جس سے قارئین کے لئے تاریخ یاد رکھنا از حد سہل ہو جاتا ہے ۔ مصنف نے ہر سن کے آخر میں تمام اہم متوفییات، انکی پیدائش و وفات اور انکی سوانح کو بھی بیان فرما دیا ہے ۔ لیکن تاریخ ابن کثیر کو دیگر تاریخی کتب پر جو امتیاز و فوقیت حاصل ہے اسکی بڑ ی وجہ مصنف کا ممکنہ حد تک قرآن و حدیث اور مستند اقوال و دلائل کو مآخذ بنانا ہے ۔ جس کی وجہ سے اس تاریخ کی اسنادی حیثیت مشرق و مغرب تمام دیار میں مسلّم ہے ۔ مصنف کا نام تفسیر کی طرح تاریخ میں بھی ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ان تمام خصوصیات کو مد نظر رکھتے ہوئے دارالاشاعت کراچی نے بفضلہ تعالیٰ اسکی اشاعت کا بخوبی اہتمام کیا۔ اب تک البدایۃ والنہایۃ اردو میں مکمل طبع نہیں ہو سکی تھی اور آخری ۲ حصص بالکل دستیاب نہ تھے جس میں اصل عربی النہایۃ اللبدایۃ کو شامل کر کے مکمل کیا گیا اب اس ایڈیشن کی خصوصیت یہ ہے کہ اسکا مکمل اردو ترجمہ اور دیگر تاریخی کتب کے حوالہ جات کے اضافہ نے اس کو مدلّل و مکمل کر دیا۔ دیگر تاریخی کتب کے حوالہ اس اشاعت کی خصوصیت ہیں ۔ ادارہ نے باذوق قارئین کی تسکین نظر کے لئے اس اہم تاریخ کو کمپیوٹر کتابت و طباعت کے ساتھ آراستہ کرتے ہوئے طبع کروایا ہے ۔ خداوند قدوس سے دعا ہے کہ اسکو ہمارے لئے دنیا و آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بنائے ۔ آمین یا الہ العالمین

تاریخ طبریؒ(م310ھ):
زیر نظر کتاب تاریخ اسلامی کا بہت وسیع ذخیرہ اور تاریخی اعتبار سے ایک شاندار تالیف ہے جس میں مصنف نے بہت عرق ریزی سے کام لیا ہے۔واقعات کو بالاسناد ذکر کیا ہے جس سے محققین کے لیے واقعات کی جانچ پڑتال اور تحقیق سہل ہو گئی ہے۔یہ کتاب سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیر صحابہ وتابعین پر یہ تالیف سند کی حیثیت رکھتی ہے اور سیرت نگاری پر لکھی جانے والی کتب کا یہ اہم ماخذ ہے المختصر سیرت نبوی اور سیرت صحابہ وتابعین پر یہ ایک عمدہ کتا ب ہے ۔جس کا مطالعہ قارئین کو ازمنہ ماضیہ کی یاد دلاتا ہےاور ان عبقری شخصیات کے کارہائے نمایاں قارئین میں دینی ذوق ،اسلامی محبت اور ماضی کی انقلابی شخصیات کے کردار سے الفت و یگانگت پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔لہذا فحش لٹریچر ،گندے میگزین اور ایمان کش جنسی ڈائجسٹ کی بجائے ایسی تاریخی کتب کا مطالعہ کرنا چاہیے جو شخصیات میں نکھار ،ذوق میں اعتدال ،روحانیت میں استحکام اور دین سے قلبی لگاؤ کا باعث بنیں ۔

تاریخ ابن خلدونؒ(م808ھ):
’تاریخ ابن خلدون‘کا زیر نظر حصہ سلجوقی اور خوارزم شاہی خانوادوں اور فتنہ تاتار پر مشتمل خون سے رنگی ہوئی وہ  داستان جس میں ہر طرف کٹے پھٹے انسانی لاشے اور کھوپڑیوں کے مینار نظر آتے ہیں۔ سلاطین سلجوقیہ میں الپ ارسلان بانی دولت سلجوقیہ، قزل ارسلان، ملک شاہ سلجوقی، سلطان سنجر، قطلمش والی قونیہ و بلاد روم، توران شاہ تاج دار فارس بڑے بڑے اولوالعزم حکمران گزرے ہیں۔ ملوک خوارزم کی سلطنت انہی سلجوقیوں کی سلطنت کی ایک شاخ ہے۔ انہی کے زمانہ میں چنگیز خان تاتاریوں کو لےکر نکلااور اسلامی حکومت کا شیرازہ بکھیرکر خوشحال شہروں کو آہوں اور سسکیوں میں بدلتا بلا روک ٹوک آگے بڑھتا چلا گیا۔ علامہ ابن خلدون نے ان کے حالات و انساب، خانہ جنگیاں، تاتاریوں اور سلجوقیوں کی لڑائیوں کو کمال تحقیق اور تدبر سے نقل کیا ہے۔ تاریخ ابن خلدون کے ساتویں حصے کے متعلق چوہدری محمد اقبال سلیم گاہندری کہتے ہیں کہ سچ پوچھئے تو یہ علامہ عبدالرحمن ابن خلدون جیسے صاحب نظر، محقق مؤرخ کے درد مند دل کی گہرائیوں سے نکلا اور خون جگر میں ڈوبا ہوا مرثیہ ہے انہوں نے یہ طویل، عبرتناک مرثیہ، عربوں کی عین عنفوان شباب ہی میں واقع ہونے والی موت پر کیا تھا۔



موطا امام محمدؒ:
یہ امام محمدؒ بن الحسن الشيباني(المتوفی١٧٩ع) کی فقہی موضوع و ترتیب پر مشتمل احادیثِ نبوی وآثارِ صحابہ کی وہی رواتیں ہیں جو موطا امام مالکؒ کے مجموعہ ونسخہ میں ہیں، البتہ موطا محمدؒ میں موطا مالکؒ سے مزید روایتیں بھی ہیں جنھیں امام محمدؒ نے اپنے دوسرے اساتذہ سے روایت کیا ہے, موطا مالکؒ میں امام مالکؒ نے تعاملِ مدینہ کو اختیار کیا ہے جبکہ موطا محمدؒ میں امام محمدؒ نے تعاملِ کوفہ پر تائیدی مرویات نقل کرکے اپنے اختیار کردہ مسلکِ حنفی کو مدلل ثابت کرکے وجہ ترجیح کی طرف اشارہ کیا ہے۔

مسلک حنفی کے دلائل پر مبنی یہ حدیث کی کتاب امام محمدؒ بن الحسن الشيباني (المتوفی ١٧٩ع) کی مرویات پر مشتمل ہے. موطا امام محمدؒ دراصل موطا امام مالکؒ کی طرح فقہی موضوع و ترتیب پر مشتمل احادیثِ نبوی و آثارِ صحابہ کا مجموعہ و نسخہ ہے، فرق یہ ہے کہ موطا امام مالکؒ میں امام مالکؒ نے تعاملِ مدینہ (اہلِ مدینہ کا طریقہِ عمل) کو اختیار کرنا واضح کیا ہے، جبکہ موطا امام محمدؒ میں امام محمدؒ نے تعاملِ کوفہ (عراق) پر تائیدی مرویات نقل کرکے اپنے اختیار کردہ مسلکِ حنفی کو مدلل ثابت کیا ہے.

یہ امام محمدؒ بن الحسن الشيباني(المتوفی١٧٩ع) کی فقہی موضوع و ترتیب پر مشتمل احادیثِ نبوی وآثارِ صحابہ کی وہی رواتیں ہیں جو موطا امام مالکؒ کے مجموعہ ونسخہ میں ہیں، البتہ موطا محمدؒ میں موطا مالکؒ سے مزید روایتیں بھی ہیں جنھیں امام محمدؒ نے اپنے دوسرے اساتذہ سے روایت کیا ہے، اور موطا مالکؒ میں امام مالکؒ نے تعاملِ مدینہ کو اختیار کیا ہے، جبکہ موطا محمدؒ میں امام محمدؒ نے تعاملِ کوفہ پر تائیدی مرویات نقل کرکے اپنے اختیار کردہ مسلکِ حنفی کو مدلل ثابت کرکے وجہ ترجیح کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لہٰذا تھوڑے سے امتیاز کے ساتھ جامع ومستند ہونے میں دونوں یکساں ہیں، موطا محمدؒ میں خصوصیت اور امتیاز زیادہ ہے۔









درس وتدریس کے آداب:
(الامام بدر الدین ابراہیم بن سعد اللہ بن جماعۃ الکنانی 639-733هـ)
امام  ابن جماعہ الکنانی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ کتاب جمع  و ترتیب ، اختصار ، باب بندی  اور حسنِ تقسیم  کے اعتبار سے  بےمثال  ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے  اس  کتاب  میں   شاگرد کا  اپنے  استاذ اور کتاب سے تعلق  اور  ہر ایک  کی ذمہ داریوں پر سیر حاصل بحث  کی  ہے ۔ اس  میں  علم وادب  ، حسنِ خلق  اور  علمِ تصوف و سلوک   کا   جامع  تذکرہ  ہے ۔ یہ  کتاب  ہر  زمانہ  کے  طالبوں  علموں  کے لئے  اہم  ترین  کتاب  ہے ۔ یہ  کتاب  اصل میں  ان   تجربات  کا نچوڑ ہے ۔ جو مؤلف  کتاب کو  زمانہء طالب علمی اور  زمانہء تدریس  میں  حاصل ہوئے ۔ مؤلف  مرحوم  نے  مدرسہ الکاملیۃ  میں  تعلیم حاصل  کی ۔ اور  تدریسی  مشاغل  مدرسہ  الکاملیۃ ، الناصریہ، الصالحہ اور ابن  طولان  میں  تدریسی فرائض سرانجام دیے ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ بڑی  ذکاوت وذہانت  کے مالک  تھے ۔ چناچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے اصول وضوابط  وضع  کیے کہ ان  کا ذکر  اور ان کی وضاحت مثال سابق میں نہیں ملتی ۔  اگرچہ اس سے  سے پہلے امام خطیب کی کتاب  [الجامع فی اداب الراوی والسامع] اور ان جیسی دیگر کتابیں موجود  تھیں مگر دونوں کی  خصوصیات  اور خوبیاں الگ الگ ہیں ۔ اگرچہ ان میں قدر یگانگت موجود ہے ۔




موت کے وقت (امام ابن جوزی بغدادیؒ)
زندگی ایک سفر ہے اور انسان عالم بقا کی طرف رواں دواں ہے ۔ ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب تر کر رہا ہے۔ عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف واپسی کی فکر کرتے ہیں ، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہماری اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ داری سونپ کر ایک محدود وقت کیلئے اس سفر پر روانہ کیا ہے ۔ عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ ہم اپنے ہی گھر واپس جائیں کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جانے والوں کو کوئی بھی دانا نہیں کہتا۔انسان کوسونپی گئی ذمہ داری اورانسانی زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے۔موت کے وقت ایمان پر ثابت قدمی   ہی ایک مومن بندے کی کامیابی ہے۔ لیکن اس وقت موحد ومومن بندہ کے خلاف انسان کا ازلی دشمن شیطان اسے راہ راست سے ہٹانے اسلام سے برگشتہ اور عقیدہ توحید سے اس کے دامن کوخالی کرنے کےلیے حملہ آور ہوتاہے اور مختلف فریبانہ انداز میں دھوکے دیتاہے۔ ایسےموقع پر صرف وہ انسان اسکے وار سےبچتے ہیں جن پر اللہ کریم کے خاص رحمت ہو۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ موت کے وقت ‘‘ امام ابن جوزی﷫ کی تصنیف ہے جوکہ جان نکلتے وقت شیطان لعین کے حملے سے بچ کر ثابت قدم رہتے ہوئے ایمان بچانے والے خوش قسمت انسانوں کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔ ا س کتاب میں ان احوال کوذکر کرنے اور ایسے مومن افراد کےواقعات کوجمع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس سے آگاہی حاصل کر کے اپنی موت کے لمحات کوکامیاب وکامران بنائیں۔ کیونکہ یہ لمحات دوسری زندگی میں داخلہ کے لیے سنگ میل اور پہلی سیڑھی کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اس میں انہوں نے مرتے وقت شیطان کے حملے سےبچ کر ثابت قدم رہنے کے لیے قرآن وحدیث کی روشنی میں راہنمائی فراہم کی ہے اور واضح کیا ہے کہ مومن نے موت کے وقت شیطان کے حملے سے اپنے آپ کوکیسے بچانا ہےاور تکلیف کے باوجود عقیدہ توحید اوردین اسلام پر ثابت قدم وکاربند کیسے رہنا ہے۔اس کتاب کا رواں، عام فہم اور دلچسپ ترجمہ پروفیسر سعید مجتبیٰ سعیدی﷾ (فاضل مدینہ یونیورسٹی،سابق استاد حدیث وفقہ جامعہ لاہور الاسلامیہ ،لاہور ) نے نہایت کاوش سے کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مسلمانوں کے لیے شیطان کے حملوں اور شرور سے بچنے کا باعث ورہنما بنائے۔ آمین
http://download2051.mediafire.com/2vrtzkkdgdpg/1md250rs86kdmxr/Maut-Key-Waqt-%28Ibn-e-Jozi%29.pdf




لطائف علمیہ (امام ابن جوزیؒ بغدادی)
خوشی طبعی اور مزاح، زندگی اور زندہ دلی کی علامت ہے بشرطیکہ فحش ،عریانی اور عبث گوئی سے  پاک ہو۔ واقعات ِمزاح نفسِ انسانی کے لیے باعث نشاط اور موجب ِحیات نو اور تازگی کا سبب بنتے ہے مزاح اس خوش طبعی کو کہتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ کی جاتی ہے اور اس میں تنقیص یا تحقیر کا پہلو نہیں ہوتا۔ اور اس طرح کا مزاح یعنی خوش طبعی کرنا جائز ہے اور  نبیﷺ نے  بھی  ایسے مزاح اور خوش طبعی کو اختیار کیا جس کی مثالیں اور واقعات  کتب  ِاحادیث میں  موجود ہیں اور جس مزاح سے منع کیا گیا ہے وہ اس نوعیت  کی خوش طبعی اور مذاق ہوتا ہے جس میں  جھوٹ اور زیادتی کا عنصر پایا جاتا ہے اس نوعیت  کا مذاق زیادہ ہنسی اور دل کی سختی  کا باعث بنتا ہے اس سے بغض پیدا ہوتا ہے اور انسان کا رعب ودبدبہ اور وقار  ختم  ہوجاتا ہے ۔ زیر نظر کتاب  ’’ لطائف علمیہ ‘‘ امام ابن  الجوزیؒ کی  عربی کتاب ’’کتاب الاذکیاء‘‘ کا  سلیس ترجمہ ہے۔ اس کتاب کا اکثر حصہ تاریخی واقعات اور احادیث سے ماخوذ ہے۔ اس میں امام  ابن جوزی  نے انبیاء﷩، نبی کریمﷺ ، خلفاء الراشدینؓ   وسلاطین اور اکابر سلفؒ کی  مجالس کے  مزاح وخو ش طبعی کے واقعات، سوالات اور برجستہ جوابات کو  دلنشیں انداز میں بیان کیا ہے ۔





گناہوں کی نشانیاں اور ان کے نقصانات (امام ابن القیم جوزیؒ)
حضرت جبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ جب قبرص فتح ہوا، اور وہاں کے باشندوں میں افراتفری اور کہرام مچ گیا تو وہ ایک دوسرے کے آگے رونے دھونے اور واویلا کرنے لگے، اس اثنا میں، میں نے دیکھا کہ حضرت ابودرداءؓ اکیلے بیٹھے رو رہے ہیں، میں نے عرض کیا حضرت ابودرداءؓ! کیا آج رونے کا دن ہے؟ جبکہ اللہ نے اسلام اور مسلمانوں کو جہاد کے ذریعےعزت اور اکرام سے نوازا اور ان پر اپنا فضل وکرم کیا ہے۔ حضرت ابودرداءؓ نے جواب دیا جبیر! تمہارا برا ہو، تم نے نہیں دیکھا کہ کوئی مخلوق جب احکامِ الہی توڑ دیتی ہے، تو اللہ تعالی کے سامنے اس کی کیا عزت رہ جاتی ہے، بھلا سوچو کہ کیا ان لوگوں کو شان وشوکت حاصل نہیں تھی؟ کیا ان کا اپنا کوئی بادشاہ نہیں تھا؟ لیکن جب انہوں نےاحکامِ الہی کی نافرمانی کی اور انہیں ٹھکرادیا، تو ان کی کیا درگت بنی، تم یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہےہو۔)
حقیقت بھی یہی ہے کہ جب کوئی قوم احکامِ الہی کو پسِ پشت ڈال دیتی ہے تو اس وقت اس کا عرج زوال میں بدل جاتاہے۔ یہ کتابچہ اسی پہلو کی طرف ہماری توجہ مبذول کرواتا ہے کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر لوگ فرموداتِ ربانی کو ترک کردیتے ہیں تاکہ ان اسباب و وجوہات کا تدارک کیا جاسکے۔



یہود ونصاریٰ تاریخ کے آئینہ میں (امام ابن القیم جوزیؒ)
دنیا میں پائے جانے والے دو مذاہب یہود اور نصاریٰ نے متعدد اسباب کی بنا پر اسلام کے خلاف نفرت انگیز مہم کا آغاز کیا اس کے لیے جہاں انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اتباع و تابعین پر رقیق الزامات لگائے بلکہ انھوں نے اسلام کے خلاف جنگوں کا آغاز کر دیا۔ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ اپنے دور کے مجدد اور اپنے استاد امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے حقیقی ترجمان مانے جاتے ہیں۔ زیر نظر کتاب میں انھوں نے یہود و نصاریٰ کے تمام اعتراضات کے مسکت جوابات دئیے ہیں۔ انھوں نے شریعت اسلامیہ کے ان بنیادی مسائل پر تحقیقی انداز میں روشنی ڈالی ہے جن کو ہمارے دینی حلقے فراموش کر چکے ہیں۔ امام صاحب نے عیسائیوں اور یہودیوں کی کتب سماویہ میں باطل تحریفات کا پردہ ایسے دلنشیں انداز میں فاش کیا ہے کہ کتاب پڑھ کر جہاں اسلام کی حقانیت کا نقش دل پر جم جاتا ہے وہیں انھوں یہود و نصاری کی اسلام دشمنی اور دین یہود کی ضلالت پر مہر ثبت کر دی ہے۔




قطرات العطر
اصولِ حدیث پر حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ کی سب سے پہلی اور اہم تصنیف نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر ہے جو علمی حلقوں میں مختصر نام نخبة الفکر سے جانی جاتی ہےاور اپنی افادیت کے پیش نظر اکثر مدارس دینیہ میں شاملِ نصاب ہے۔ اس مختصر رسالہ میں ابن حجر نے علومِ حدیث کے تمام اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے ۔حدیث اوراصو ل میں نخبۃ الفکر کو وہی مقام حاصل ہے جو علمِ لغت میں خلیل بن احمد کی کتاب العین کو ۔مختصر ہونے کے باوجود یہ اصول حدیث میں اہم ترین مصدر ہے کیونکہ بعد میں لکھی جانے والی کتب اس سے بے نیاز نہیں ۔حافظ ابن حجر  نے ہی اس کتاب کی شرح نزهة النظر فی توضیح نخبة الفکر فی مصطلح أهل الأثر کے نام سے لکھی جسے متن کی طر ح قبول عام حاصل ہوا۔ اور پھر ان کے بعد کئی اہل علم نے عربی اردو زبان میں نخبۃ الفکر کی شروح لکھی ۔ زیر نظر کتاب ’’ قطرات العطر شرح اردو نخبۃ الفکر‘‘ مولانا محمد محمود عالم صفدر اوکاڑی کی کاوش ہے ۔شارح نے اس میں حل کتاب کےعلاوہ شوافع کےاصولِ حدیث کے ساتھ ساتھ حنفیہ کے اصول حدیث کو بیان کیا ہے ۔ مصنف اگرچہ بریلوی حنفی ہیں ۔ 
https://besturdubooks.net/qatarat-ul-etar/


سلعۃ القربہ
اصولِ حدیث پر حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ کی سب سے پہلی اور اہم تصنیف ’’نخبۃ الفکر فی مصطلح اھل الاثر‘‘ ہے جو علمی حلقوں میں مختصر نام ’’نخبۃ الفکر‘‘ سے جانی جاتی ہےاور اپنی افادیت کے پیش نظر اکثر مدارس دینیہ میں شامل نصاب ہے۔ اس مختصر رسالہ میں ابن حجر نے علومِ حدیث کے تمام اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے ۔حدیث اوراصو ل میں نخبۃ الفکر کو وہی مقام حاصل ہے جو علم لغت میں خلیل بن احمد کی کتاب العین کو ۔مختصر ہونے کے باوجود یہ اصول حدیث میں اہم ترین مصدر ہے کیونکہ بعد میں لکھی جانے والی کتب اس سے بے نیاز نہیں ۔حافظ ابن حجر  نے ہی اس کتاب کی شرح ’’نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر فی مصطلح اھل الاثر‘‘ کے نام سے لکھی جسے متن کی طر ح قبول عام حاصل ہوا۔ اور پھر ان کے بعد کئی اہل علم نے نخبۃ الفکر کی شروح لکھی ۔ زیر نظر کتاب’’ سلعۃ القربہ اردو شرح نخبۃ الفکر ‘‘ شارح صحیح بخاری امام ابن حجر عسقلانی ﷫ کی اصول حدیث پر مشہور درسیی کتاب نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر کا اردو ترجمہ ہے ۔نخبۃ الفکر کا یہ ترجمہ محمد عبد الحی کلفلیتوی نے کیا ہے ۔کتاب ہذا کے ساتھ مولانا خیر محمد کا اصول حدیث کے متعلق رسالہ’’ خیر الاصول فی حدیث الرسول ‘‘ بھی شامل اشاعت ہے ۔





تحفۃ الدرر 
اصولِ حدیث پر حافظ ابن حجر عسقلانی﷫ کی سب سے پہلی اور اہم تصنیف ’’نخبۃ الفکر فی مصطلح اھل الاثر‘‘ ہے جو علمی حلقوں میں مختصر نام ’’نخبۃ الفکر‘‘ سے جانی جاتی ہےاور اپنی افادیت کے پیش نظر اکثر مدارس دینیہ میں شامل نصاب ہے۔ اس مختصر رسالہ میں ابن حجر نے علومِ حدیث کے تمام اہم مباحث کا احاطہ کیا ہے۔ حدیث اور اصول میں نخبۃ الفکر کو وہی مقام حاصل ہے جو علم لغت میں خلیل بن احمد کی کتاب العین کو ۔مختصر ہونے کے باوجود یہ اصول حدیث میں اہم ترین مصدر ہے کیونکہ بعد میں لکھی جانے والی کتب اس سے بے نیاز نہیں ۔حافظ ابن حجر  نے ہی اس کتاب کی شرح ’’نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر فی مصطلح اھل الاثر‘‘ کے نام سے لکھی جسے متن کی طر ح قبول عام حاصل ہوا۔ اور پھر ان کے بعد کئی اہل علم نے نخبۃ الفکر کی شروح لکھی ۔ زیر نظر کتاب ’’تحفۃ الدرر ‘‘ بھی اردو زبان میں نخبۃ الفکر کی اہم شرح ہے۔جس سے طلباء و اساتذہ کے لیے نخبۃ الفکر سے استفاد ہ اور اس میں موجود اصطلاحات حدیث کو سمجھنا آسا ن ہوگیا ہے ۔یہ شرح مولانا سعید احمد پالن پوری کی کاوش ہے ۔ اللہ تعالی ٰ مصنف وشارح کی علمی کاوش کو قبول فرمائے اور اسے طلباء کے لیے مفیدبنائے (آمین)




تعلیم الاسلام (مولانا ندیم احمد انصاری)
حضرت عمر بن الخطابؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن (ہم صحابہ) رسول اللہ ﷺ کی مجلس مبارک میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک آدمی ہمارے درمیان آیا جس کا لباس نہایت صاف ستھرے اور سفید کپڑوں پر مشتمل تھا اور جس کے بال نہایت سیاہ (چمکدار) تھے، اس آدمی پر نہ تو سفر کی کوئی علامت تھی (کہ اس کو کہیں سے سفر کر کے آیا ہوا کوئی اجنبی آدمی سمجھا جاتا) اور نہ ہم میں سے کوئی اس کو پہچانتا تھا (جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ کوئی مقامی آدمی ہو یا کسی کا مہمان بھی نہیں تھا) بہر حال وہ آدمی رسول اللہ ﷺ کے اتنے قریب آکر بیٹھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھٹنوں سے اپنے گھٹنے ملا لئے اور پھر اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنی دونوں رانوں پر رکھ لئے (جیسے ایک سعادت مند شاگرد اپنے جلیل القدر استاد کے سامنے باادب بیٹھتا ہے اور استاد کی باتیں سننے کے لئے ہمہ تن متوجہ ہوجاتا ہے) اس کے بعد اس نے عرض کیا اے محمد ﷺ ! مجھ کو اسلام کی حققیت سے آگاہ فرمائیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تم اس حقیقت کا اعتراف کرو اور گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور پھر تم پابندی سے نماز پڑھو (اگر صاحب نصاب ہو تو) زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور زاد راہ میسر ہو تو بیت اللہ کا حج کرو۔ اس آدمی نے یہ سن کر کہا آپ ﷺ نے سچ فرمایا۔ حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ اس (تضاد) پر ہمیں تعجب ہوا کہ یہ آدمی (ایک لاعلم آدمی کی طرح پہلے تو) آپ ﷺ سے دریافت کرتا ہے اور پھر آپ ﷺ کے جواب کی تصدیق بھی کرتا ہے (جیسے اس کو ان باتوں کا پہلے سے علم ہو) پھر وہ آدمی بولا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! اب ایمان کی حقیقت بیان فرمائیے، آپ ﷺ نے فرمایا (ایمان یہ ہے کہ) تم اللہ کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو، اس کے رسولوں کو اور قیامت کے دن کو دل سے مانو اور اس بات پر یقین رکھو کہ برا بھلا جو کچھ پیش آتا ہے وہ نوشتہ تقدیر کے مطابق ہے۔ اس آدمی نے (یہ سن کر) کہا آپ ﷺ نے سچ فرمایا۔ پھر بولا اچھا اب مجھے یہ بتائیے کہ احسان کیا ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو اور اگر ایسا ممکن نہ ہو (یعنی اتنا حضور قلب میسر نہ ہو سکے) تو پھر (یہ دھیان میں رکھو کہ) وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ پھر اس آدمی نے عرض کیا قیامت کے بارے میں مجھے بتائیے (کہ کب آئے گی) آپ ﷺ نے فرمایا اس بارے میں جواب دینے والا، سوال کرنے والے سے زیادہ نہیں جانتا (یعنی قیامت کے متعلق کہ کب آئے گی، میرا علم تم سے زیادہ نہیں جتنا تم جانتے ہو اتنا ہی مجھ کو معلوم ہے) اس کے بعد اس آدمی نے کہا اچھا اس (قیامت) کی کچھ نشانیاں ہی مجھے بتادیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا لونڈی اپنے آقا کو مالک کو جنے گی اور برہنہ پا، برہنہ جسم مفلس و فقیر اور بکریاں چرانے والوں کو تم عالی شان مکانات و عمارت میں فخر و غرور کی زندگی بسر کرتے دیکھو گے۔ حضرت عمر فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ آدمی چلا گیا اور میں نے (اس کے بارے میں آپ سے فورًا دریافت نہیں کیا بلکہ) کچھ دیر توقف کیا، پھر آپ ﷺ نے خود ہی مجھ سے پوچھا عمر ! جانتے ہو سوالات کرنے والا آدمی کون تھا؟ میں نے عرض کیا اللہ اور رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا یہ جبرائیل تھے جو (اس طریقہ سے) تم لوگوں کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ (صحیح مسلم) اس روایت کو حضرت ابوہریرہ (رض) نے چند الفاظ کے اختلاف و فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کی روایت کے آخری الفاظ یوں ہیں۔ (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیامت کی نشانیوں کے بارے میں جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ) جب تم برہنہ پابرہنہ جسم اور بہرے گونگے لوگوں کو زمین پر حکمرانی کرتے دیکھو (تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے) اور قیامت تو ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں رکھتا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ (اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَه عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ) 31۔ لقمان : 34) آخر تک پڑھی (جس کا ترجمہ یہ ہے : اللہ ہی کو قیامت کا علم ہے اور بارش کا کہ کب برسائے گا اور وہی (حاملہ) کے پیٹ کی چیزوں کو جانتا ہے ( کہ لڑکا ہے یا لڑکی) اور کوئی آدمی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کام کرے گا اور کسی آدمی کو نہیں معلوم کہ کس زمین پر اسے موت آئے گی۔ بیشک اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے)۔
[مسلم:8،ابوداوؐد:4695،نسائی:502،ترمذی:2610]













اسلام اور علم
علم کی اہمیت و ضرورت کے موضوع پر مولانا کے مختلف مضامین و تقاریر کا منتخب مجموعہ، ان مضامین میں علم کی اہمیت و ضرورت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ بتایا گیا ہے کہ علم اللہ کا بہت بڑا انعام اور احسان ہے، علم کے تخریب کا ذریعہ بن جانے کے اسباب کو بھی بتایا گیا ہے کہ علم اور اسم الہی میں باہمی ربط ہونا ضروری ہے، علم جب جب رب کے نام سے جدا ہوا وہ تباہی اور تخریب کا ذریعہ بنا۔اسی کے ساتھ انسانی علوم کے میدان میں اسلام کےانقلابی و تعمیری کردار کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ کتاب کےمرتب عبد الہادی اعظمی ندوی ہیں۔

نبی کریم ﷺ کے ابد ی احسانات اور آپ کی بعثت ودعوت کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ نے دین وعلم کےدرمیان ایک مقدس دائمی رشتہ ورابطہ پیدا کردیا اور ایک دوسرے کے مستقبل اور انجام کو ایک دوسرے سے وابستہ کرکے علم کی ایسی عزت افرزائی فرمائی اور اس کے حصول کا ایسا شوق دلایا کہ جس پر کوئی اضافہ نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کو نازل کرکے علم کو ایسا عزت وقار بخشا اور اہل علم اور علماء کوایسی قدر ومنرلت سے نوازا کہ جس کی سابقہ صحیفوں اور قدیم مذہبوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی زبان مبارکہ سے فرمایا کہ’’عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ انسان پر’’ـ اور آپ نے فرمایا کہ ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں‘‘۔

زیر نظر کتاب علم اور فضیلت علم کے موضوع پر سید ابو الحسن ندوی کی اہم تصنیف ہے کہ جس میں انہوں نے بتایا کہ علم کا اسلام سے کیسا بنیادی اور گہرا رشتہ ہے اور اسلام نے کس طرح علم کی سرپرستی کی ہے اور اس کے لیے کیسے کیسے راستے ہموار کیے ہیں اور پورپ نے انسانی دنیا کو کیا نقصان پہنچایا ہے اس کے اسباب کیا ہیں اور پھر اس کا حل کیا ہے۔ اللہ پاک اس کتاب کو مفید بنائے اور مولانا کے درجات بلند فرمائے (آمین)

یہ کتاب مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے علم کے موضوع سے مناسبت رکھنے والے مضامین اور تقریروں کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں تین مضمون، ایک مکتوب اور آٹھ تقریریں ہیں، ان میں حضرت مولانا نے بتایا ہے کہ علم کا اسلام سے کیسا بنیادی اور گہرا رشتہ ہے، اسلام نے کس طرح علم کی سرپرستی کی ہے اور اس کے لیے کیسے کیسے راستے ہموار کیے ہیں، امت مسلمہ کی قسمت علم کے ساتھ وابستہ ہے، بغیر علم کے مسلمان مسلمان نہیں رہ سکتا، اور علم کا رشتہ خدا کے  نام کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے، اور جو علم بھی خدا کے نام کے بغیر ہوگا وہ انسانیت کی تباہی کا سبب بنے گا، اور جب جب بھی علم تعمیر کے بجائے تخریب کا ذریعہ بنا اس کا بنیادی سبب یہی تھا کہ علم کا رشتہ اللہ کے نام کے ساتھ ختم ہوگیا تھا۔
اسی طرح اس کتاب میں حضرت مولانا کا ایک بہت ہی اہم اور پر مغز مضمون ”انسانی علوم کے میدان میں اسلام کا انقلابی وتعمیری کردار” کے عنوان سے ہے، جس میں مولانا نے یونانی ایرانی اور ہندوستانی فلسفہ و تمدن کے کردار کا تنقیدی مطالعہ کیاہے، اور اس میدان میں اسلام کے تعمیری و انقلابی کردارکا تفصیلی جائزہ پیش فرمایا ہے، اور اس کے اخیر میں اسلام کی عالمگیر علمی تحریک کی خصوصیات (عالمیت و انسانیت، عوامیت و عمومیت، حرکیت، عزیمت وجواں مردی، علم نافع پر توجہ اور زور) تفصیل سے بیان فرمائی ہیں۔





انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر:
زیر مطالعہ کتاب ابوالحسن علی ندوی کی وہ شاہکار تصنیف ہے جس میں انھوں نے انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کی خونچکاں داستان رقم کی ہے۔ مصنف نے ان نقصانات کی نشاندہی کی ہے جو مسلمانوں کے تنزل و زوال اور دنیا کی قیادت و رہنمائی سے کنارہ کش ہو جانے سے انسانیت کو پہنچے۔ اس کے لیے انھوں نے عام انسانی تاریخ، نیز اسلامی تاریخ کا جائزہ لیا اور دکھایا کہ محمد ﷺ کی بعثت کس جاہلی ماحول میں ہوئی پھر آپ کی دعوت و تربیت کے باوصف کس طرح ایک امت تیار ہوئی جس نے دنیا کی زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لی اور اس کے اقتدار و امامت کا دنیا کی تہذیب اور لوگوں کے رجحانات و کردار پر کیا اثر پڑا۔ کس طرح دنیا کا رخ ہمہ گیر خدافراموشی سے ہمہ گیر خدا پرستی کی طرف تبدیل ہوا۔ پھر کس طرح اس امت میں زوال و انحطاط کا آغاز ہوا اور اس کو دنیا کی قیادت و امامت سے ہاتھ دھونا پڑےاور کس طرح یہ قیادت مادہ پرست یورپ کی طرف منتقل ہوئی۔ اس وقت مسلمانوں کی کیا ذمہ داری ہے اور وہ اس سے کس طرح عہدہ برآ ہو سکتےہیں۔ ان تمام سوالات کے تشفی بخش جوابات اس کتاب کا موضوع ہیں۔ کتاب کی افادیت کا اس سے اندازہ کیجئے کہ اس کے عربی، اردو، انگریزی، ترکی، فارسی اور فرنچ زبان میں تراجم ہوئے اور متعدد ایڈیشن نکلے۔ اردو میں اس کتاب کا یہ گیارہواں ایڈیشن ہے۔
جب نبی مکرمﷺ کا دنیا میں بعثت ہوئی اس وقت انسانیت پستی کی آخری حدوں سے بھی آخرتک پہنچ چکی تھی۔ شرک و بدعات، مظالم و عدم مساوات ان کی زندگی کا جزو لاینفک بن چکا تھا۔ لیکن رسول اللہﷺ نے ان کے عقائد و اخلاق اس طور سے سنوارے کہ کل کے راہزن آج کے راہبر بن چکےتھے۔ نبی کریمﷺ کی تشکیل کردہ اسلامی تہذیب نے دنیا کے تمام معاشروں پر نہایت گہرے اثرات ثبت کئے۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا گیا اور جہاد، تقویٰ و للہیت ایک اجنبی تصور بن گئے تو امت کا انحطاط وزوال شروع ہوا۔ زیر نظر کتاب میں ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ نے امت کے اسی عروج و زوال کو حکیمانہ اسلوب میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے اسلام سے پہلے کی معاشرت کا تفصیلی تعارف کرواتے ہوئے اس کا  محمدی معاشرے سے تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ علاوہ بریں اس عروج کی خوش کن داستان کے بعد دنیا کی امامت و قیادت مسلمانوں کے ہاتھ سے کیسے جاتی رہی، زمام اقتدار کس طرح مادہ پرست یورپ کے ہاتھ میں آئی۔ اور ایسے میں مسلمانوں کا کیا ذمہ داریاں ہیں۔ ان تمام خیالات کو مولانا احسن انداز میں الفاظ کا زیور پہنایا ہے۔




نظام تعلیم مغربی رجحانات اور اس میں تبدیلی کی ضرورت
تعلیم کا مسئلہ  ہر ملک کےلیے  ایک بنیادی حیثیت رکھتاہے ۔کسی بھی  ملک یا قوم کی ترقی کے لیے  یہ ایسی شاہ کلید ہے  ،جس  سے سارے  دروازے  کھلتے  چلے جاتے  ہیں ۔مسلمانوں نے  جب تک اس حقیقت  کو فراموش نہیں کیا وہ دنیا کے منظرنامہ پر چھائے رہے  اور انہوں نے دنیا کو علم کی روشنی سے بھر دیا ، لیکن جب  مسلمانوں کی  غفلت کے نتیجے  میں  پوری دنیا اخلاقی بحران کاشکار ہوگئ تو عالم اسلام خاص طور پر اس سے متاثر ہوا۔اس کی سب سےبڑی وجہ یہ ہے کہ  اس نے  اپنی بنیاد ہی فراموش کردی اور یورپ کے نظام تعلیم کو اختیار کرلیاجس نے  پورے عالم اسلام کو متاثر کیا۔  خود اسلامی ملکوں میں پڑھنے والوں کا حال یہ ہے وہ  جب اپنی اپنی یونیورسٹیوں سے پڑھ کرنکلتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے  وہ یورپ کے پروردہ ہیں  جس کے نتیجہ میں اسلامی ملکوں میں ایک کشمکش کی فضا پید ا ہوگئی ہے۔مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ﷫  نے  اپنی تقریروں او رتحریر وں  میں اسلامی ملکوں میں ذہنی کشمکش کا بنیادی سبب  مسلمانوں میں  رائج یورپی نظام تعلیم کو قرار دیا  اوراز سرنو پورا نظام تعلیم وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے  اس کوعالم اسلام کا سب سے  بڑا چیلنچ قرار دیا۔ زیر نظر کتاب بھی  مولانااابو الحسن  علی ندوی  کی اس موضوع پر اہم تقاریر ومضامین کا مجموعہ ہے  جس میں  مولانانے  اسلامی ملکوں میں نظام تعلیم کی اہمیت اور وہاں کی قیادت، نظام تعلیم وتربیت کا معاشرہ اور  اس کے رجحانات ،نظام تعلیم وتربیت کی بنیادیں،نصاب تعلیم  ۔جیسے اہم موضوعات  پر تفصیلی بحث کی ہےاللہ تعالی مولانا کے درجات بلند  فرمائے۔(آمین)
یہ کتاب مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے نظام تعلیم و تربیت کے موضوع سے مناسبت رکھنے والی 7 تقریروں کا مجموعہ ہے، جن میں حضرت مولانا نے نظام تعلیم کی اہمیت، اسلامی ممالک میں ذہنی کشمکش اور اس کے اسباب، مغربی نظام تعلیم کی خطرناکی، اور اس کے اثرات بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پوری دنیا کا نظام تعلیم اپنی افادیت بڑی حد تک کھو چکا ہے، اور اب نئے سرے سے نظام تعلیم وضع کرنے کی ضرورت ہے، اور اس کے لیے قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے اور قوموں اور تاریخ انسانی کے وسیع تجربات سے رہنمائی حاصل کرنے پر زور دیا ہے، اسی کے ساتھ اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ نظام و نصاب تعلیم کو ملت کے اساسی مقاصد کا تابع اور خادم ہونا چاہیے، اسی طرح ہندوستان کے قدیم نظام تعلیم کی تاریخ بیان کرتے ہوئے اس پر ایرانی اثرات کا ذکرکرتے ہوئے اس کی خصوصیات بھی ذکر کی ہیں۔






پیام اقبال بنام نوجوانان ملت
علامہ محمد اقبالؒ ہماری قوم کے رہبر و رہنما تھے،آپ کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مشرق کے جذبات و احساسات کی جس طرح ترجمانی کا حق اقبال مرحوم نے ادا کیا ہے اس طرح کسی دوسرے نے نہیں کیا ہے ۔شاعری کسی فکرونظریہ کودوسروں تک پہنچانے کاموثرترین طریقہ ہے ۔شعرونظم سے عموماً عقل کی نسبت جذبات زیادہ متاثرہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وحی الہیٰ کے لیے شعرکواختیارنہیں کیاگیا۔تاہم اگرجذبات کی پرواز درست سمت میں ہوتوانہیں ابھارنا بجائے خودمقصودہے ۔۔ ان کی شاعری عروج رفتہ کی صدا ہے ۔ ان کے افکار و نظریات عظمت مسلم کے لئے ایک بہترین توجیہ اور جواز فراہم کرتے ہیں،اوراسلام کی انقلابی ،روحانی اوراخلاقی قدروں کاپراثرپیغام ہے ۔ان کی شاعری میں نری جذباتیت نہیں بلکہ وہ حرکت وعمل کاایک مثبت درس ہے ۔اس سے  انسان میں خودی کے جذبے پروان چڑھتے ہیں اورملت کاتصورنکھرتاہے ۔بنابریں یہ کہاجاسکتاہے کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کونظم میں بیان کیاہے۔تاہم یہ بات بھی ملحوظ خاطررکھناضروری ہے کہ علامہ عالم دین نہ تھے ہمارے ملی شاعرتھے اوربس ۔فلہذاتعبیردین میں ان کوسندخیال کرناقطعاً غلط ہے ۔زیر تبصرہ کتاب" پیام اقبال بنام نوجوانان ملت"بھی آپ کے نوجوانوں کے نام منسوب اشعار کا مجموعہ ہے،جسے سید قاسم محمود نے مرتب کیا ہے،اور ساتھ ہی ساتھ ان کا معنی ومفہوم بھی واضح کر دیا ہے، تاکہ امت کا نوجوان اپنی جوانی کو اللہ کی رضا اور اسلام کی سر بلندی میں کھپا کر دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں سرخرو ہو جائے۔اللہ تعالی ان کی اس مھنت کو قبول فر ما کت نوجوانان امت کا قبلہ درست فرمائے۔آمین

علامہ اقبال اور فتنۂ قادیانیت
اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے۔آپ خاتم النبیین اور سلسلہ نبوت کی بلند مقام عمارت کی سب سے آخری اینٹ ہیں ،جن کی آمد سے سلسلہ نبوی کی عمارت مکمل ہو گئی ہے۔آپ کے بعد کوئی برحق نبی اور رسول نہیں آسکتا ہے ۔لیکن آپ نے فرمایا کہ میرے بعد متعدد جھوٹے اور کذاب آئیں گے جو اپنے آپ کو نبی کہلوائیں گے۔آپ کے بعد آنے والے متعدد کذابوں میں سے ایک جھوٹا اور کذاب مرزا غلام احمد قادیانی ہے ،جس نے نبوت کا دعوی کیا اور شریعت کی روشنی میں کذاب اور مردود ٹھہرا۔لیکن اللہ رب العزت نے اس کےجھوٹ وفریب کوبے نقاب کرد یا اور وہ دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں ذلیل وخوار ہو کر رہ گیا۔علامہ اقبال بیسویں صدی کے شہرہ آفاق دانشور ،عظیم روحانی شاعر ،اعلی درجے کے مفکر اور بلند پایہ فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عہد ساز انسان بھی تھے۔انہوں نے جب دیکھا کہ مرزائی خود تو کافر اور مرتد ہیں ہی ،دیگر مسلمانوں کو بھی مرتد بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر انہیں گمراہ کر رہے ہیں۔تو وہ اس دجل اور فریب کو برداشت نہ کر سکے۔چنانچہ انہوں نے اس مسئلے کا گہرائی سے جائزہ لیا اور اپنے تاثرات امت مسلمہ کے سامنے واضح انداز میں پیش کئے۔ زیر تبصرہ کتاب " علامہ اقبال اور فتنہ قادیانیت " قادیانی فتنے کے خلاف لکھنے والے معروف قلمکار محمد متین خالد کی کاوش ہے،جس میں انہوں نے علامہ اقبال کے اسلامی غیرت وحمیت پر مبنی ان تاثرات کو انہی کی زبان میں جمع کر دیا ہے۔ اللہ تعالی ان کی اس محنت کو قبول ومنظور فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اس فتنے سے محفوظ فرمائے۔آمین



کلیات اقبال ۔اردو
شاعری کسی فکرونظریہ کودوسروں تک پہنچانے کاموثرترین طریقہ ہے ۔شعرونظم سے عموماً عقل کی نسبت جذبات زیادہ متاثرہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وحی الہیٰ کے لیے شعرکواختیارنہیں کیاگیا۔تاہم اگرجذبات کی پروازدرست سمت میں ہوتوانہیں ابھارنا بجائے خودمقصودہے ۔ہمارے عظیم قومی شاعرعلامہ محمداقبال نے یہی کارنامہ سرانجام دیاہے ۔اقبال کی شاعری اسلام کی انقلابی ،روحانی اوراخلاقی قدروں کاپراثرپیغام ہے ۔اس کی شاعری میں نری جذباتیت نہیں بلکہ وہ حرکت وعمل کاایک مثبت درس ہے ۔اس سے  انسان میں خودی کے جذبے پروان چڑھتے ہیں اورملت کاتصورنکھرتاہے ۔بنابریں یہ کہاجاسکتاہے کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کونظم میں بیان کیاہے۔تاہم یہ بات بھی ملحوظ خاطررکھناضروری ہے کہ علامہ عالم دین نہ تھے ہمارے ملی شاعرتھے اوربس ۔فلہذاتعبیردین میں ان کوسندخیال کرناقطعاً غلط ہے ۔ہم قارئین کے لیے ’کلیات اقبال ‘پیش کررہے ہیں ،اس امیدکے ساتھ کہ اس سے احیائے ملت کاجذبہ بیدارہوگا۔ان شاء اللہ






نقوش اقبال :
یہ کتاب عظیم مفکر اسلام مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ کی تصنیف ’روائع اقبال‘کا اردو قالب ہے ۔اس میں مولانا موصوف نے علامہ اقبال کی اہم نظمون اور متفرق اشعار سے اسلام کی بنیادی تعلیمات ،ان کی روح اور ملت اسلامیہ کی تجدید واصلاح،مغربی تہذیب اور اس کے علوم وغیرہ کے متعلق اقبال کے افکار وخیالات کا خلاصہ اور لب لباب پیش کر دیا ہے۔جس سے اس کے اہم رخ سامنے آجاتے ہیں ۔کتاب کے بعض مندرجات سے اختلاف ممکن ہے لیکن بحثیت مجموعی یہ انتہائی مفید کتاب ہے ۔مختصر ہونے کے باوصف یہ کتاب اقبال کے مقصد،پیام اور افکار وتصورات کو سمجھنے کے لیے بالکل کافی ہے ۔اقبال کو خاص طور پر ان کے دینی رجحان اور دعوتی میلان کی روشنی میں دیکھنے کو کوشش اب تک بہت کم ہوئی ہے ۔زیر نظر کتاب میں اقبال کے قلب وروح تک پہنچنے اور اس کی چند جھلکیاں دکھانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔




علامہ اقبال اور تقلید و اجتھاد:
یہ کتاب سلامک فقہ اکیڈمی کے مسابقتی پروگرام میں لکھی گئی ھے اور پہلے نمبر سے کامیاب ھوئی ھے۔
علامہ اقبال کا نظریہ تقلید و اجتہاد پر لکھی گئی اب تک کی کتابوں میں سب سے معتدل، افراط تفریط سے پاک، معتبر کتب
اور معتبر علماء  کے اقوال کی روشنی میں لکھی گئی کتاب ھے۔ 
اکیڈمی کی جانب سے کتاب کو “تقلید و اجتہاد علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں” نام دیا گیا تھا ابھی اس کا نام رکھا گیا ھے “علامہ اقبال اور تقلید و اجتہاد”
مؤلف:  مفتی محمد طاہر شاھی قاسمی




پاجا سراغ زندگی:
کسی بھی چیزکی فضیلت وشرافت کبھی اس کی عام نفع رسانی کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے اور کبھی ا سکی شدید ضرورت کی وجہ سے سامنے آتی ہے۔ انسان کی  پیدائش کے فورا بعد اس کے لئے  سب سے پہلے علم کی ہی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔اور علم ہی کے بارے میں اللہ فرماتا ہے:"تم میں سے جو لو گ ایمان لائے اور جنہیں علم عطاکیا گیا اللہ ان کے درجات کوبلند کر ے گا"۔پھر اللہ کے نزدیک علم ہی تقویٰ کامعیار بھی ہے ۔نبی کریم نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔قرآن وحدیث میں جس علم کی فضیلت واہمیت بیان کی گئی ہے وہ دینی علم یا دین کا معاون علم ہے۔
زیر تبصرہ کتاب"پاجا سراغ زندگی"مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی﷫ کے ان خطبات پر مشتمل ہے جو انہوں نے دار العلوم  ندوۃ العلماء کے طلباء کے سامنے  مختلف مواقع اور اکثر تعلیمی سال کے آغاز پر پیش کئے۔ان خطبات کا مرکزی خیال ایک ہی تھا کہ ایک طالب علم کی نگاہ کن بلند مقاصد پر رہنی چاہئے اور اپنے محدود ومخصوص ماحول میں رہ کر بھی وہ کیا کچھ بن سکتا ہے اور کیا کچھ کر سکتا ہے۔ان خطبات میں انہوں نے خاص طور پر طلبائے علوم نبوت کے مقام ومنصب، امت کی ان سے توقعات، اور عصر حاضر میں ان کی ذمہ داریوں کو بیان کیا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ مولف موصوف کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائےاور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے۔آمین

اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغِ زندگی،
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن. (اقبال)





تعمیر انسانیت:

قوموں کی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور دنیا کی تاریخ پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ قومی اور سیاسی زندگی میں سوسائٹی ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے، صحیح اخلاقی اور پختہ سیاسی سمجھ اور ایک اچھی سوسائٹی حکومت کو پیدا کرتی ہے،اس کی تنظیم کرتی ہے، اس کو ترقی دیتی ہے، نراج سے اس کی حفاظت کرتی ہے، جب اس کی رگیں خشک ہونے لگتی ہیں، اور اس میں بڑھاپے کی علامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں تو اس کی رگوں میں تازہ اور گرم خون پہنچاتی ہے، اس کو وقت پر ذمہ دار ، پر جوش اور کام کے آدمی دیتی ہے، حقیقت میں مہذب و منظم سوسائٹی جو یقین کی دولت، اصول و اخلاق کا سرمایہ،فرض کا احساس اور ایثار و قربانی کا جذبہ رکھتی ہے، وہ سرجیون ہے جس سے خوش حالی، آزادی اور ترقی کی نہریں نکلتی ہیں، اور پورے ملک کو ہرا بھرا رکھتی ہیں، اگر سوسائٹی میں اخلاق کی گراوٹ، بے اصولی اور خودغرضی، خوشامد، طاقت و دولت سے مرعوبیت، بزدلی اور ظلم کا چلن عام ہوجائے تو یوں سمجھئے کہ زندگی کا سوتا خشک ہوگیا، اور قومی زندگی کے درخت کو گھن لگ گیا، حکومتوں کا الٹ پھیر، طاقت کی بہتات، ملک کی پیداوار، تعلیم کی ترقی اور ظاہری دھوم دھام کوئی چیز اس قوم کو تباہی سے نہیں بچا سکتی، جب کسی درخت کی رگیں اور جڑیں سوکھ جائیں اور وہ اندر سے کھوکھلا ہوجائے تو اوپر سے پانی ڈالنے سے کام نہیں چلنا۔


ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جس پر عام سیاسی رہنماؤں اور ملک کے سچے خیر خواہوں کو پوری توجہ کرنا چاہیے، وہ ہے ملک کی اخلاقی اصلاح، سماجی سدھار اور ذمہ داری کا احساس، کیونکہ جب سوسائٹی اخلاقی طور پر دیوالیہ اور معنوی حیثیت سے کھوکھلی ہوجائے تو اس کو نہ حکومت بچا سکتی ہے نہ جمہوری نظام، نہ ایک زبان اور ایک کلچر۔

پیش نظر کتاب ’’تعمیر انسانیت‘‘ میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی وہ تقریریں جمع کی گئی ہیں جو انہوں نے تحریک پیام انسانیت کے قیام سے قبل مخلوط اجتماعات میں کیں۔ تحریک پیام انسانیت کے قیام کے بعد اس کے جلسوں میں کی گئی تقریریں علاحدہ ’’انسانیت کی مسیحائی‘‘ کے عنوان سے شائع ہو رہی ہیں۔







دین حق اور علمائے ربانی شرک و بدعت کے خلاف کیوں؟

ہر زمانہ میں اس کی ضرورت رہی ہے کہ عقیدۂ توحید کو سب سے زیادہ وضاحت اورطاقت و عمومیت کے ساتھ پیش کیا جائے، علمائے ربانی اور اعیان حقانی نے ہر زمانہ میں تحریراََ و تقریراََ، دعوۃََ و خطابۃََ اس فرض کو انجام دیا، بر صغیر ہند میں جہاں شرک و وثنیت اور اپنے جامع مفہوم میں جاہلیت ہزاروں برس سے چلی آرہی ہے ، اس کی اور ممالک کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی ضرورت تھی، یہاں علمائے ربانیین نے اپنے اپنے وقت اور اپنے اپنے مقام پر یہ فرض طاقت اور خوبی کے ساتھ انجام دیا، ضرورت تھی کہ ہر وقت اس کا جائزہ لیا جاتا رہے اور یہ فرض انجام دیا جاتا ہے، اس رسالہ میں اسی کی کوشش کی گئی ہے اور دعوت توحید کو واضح کیا گیا ہے۔





عصرِ حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح:

یہ کتاب ہر اس عزیز دوست کی خدمت میں تحفہ اور نذر ہے، جس کا عقیدہ ہے کہ ہر حال میں رضاۓ الہی کا حصول، زندگی میں کتاب و سنّت پر عمل اور آخرت میں جنّت کی یافت اور جہنّم سے نجات ہی مقصودِ اصلی ہے، اس کے سوا ہر طرح کی دینی جدوجہد، (مسلم) جماعتوں اور قیادتوں کی تشکیل، نظامِ معاشرت اور حکومتوں کی اصلاح کی کوشش محض ذرائع و وسائل ہیں، جو اس مقصد کے حصول اور اسلامی ترقی و سربلندی کے لئے اختیار کے جاتے ہیں، اس لئے شخصیتوں سے اس کی محبت و وابستگی محض الله کے لئے ہوتی ہے اور تحریکوں اور تنظیموں کے کام میں اس کی دلچسپی و سرگرمی محض دینی حمیت و حمایت (نہ کہ جاہلی و گروہی عصبیت) پر مبنی ہوتی ہے.
یہ کتاب ہر اس شخص کے پیشِ خدمت ہے، جس کا ایمان ہے کہ خدا کی نعمتوں میں سے (جو وہ اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے) ایک ہی مخصوص نعمت ہے، جو ایک برگزیدہ ہستی پر ختم ہوئی ہے، وہ "نبوت" کی نعمت ہے، جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ختم ہوگئی. باقی دوسری تمام نعمتیں باقی اور جاری و ساری ہیں، جیسے علمی تبحر کی نعمت، ذہنِ سلیم اور فکرِ رسا کی نعمت، صحت و وسعتِ تحقیق کی نعمت، ان میں سے کسی پر کسی کی اجارہ داری نہیں، اور نہ وہ کسی انسان پر ختم ہوچکی ہے. وما كان عطاء ربك محظورا [اور تمہارے پروردگار کی بخشش (کسی سے) رکی ہوئی نہیں(١٧:٢٠)]
یہ کتاب ان لوگوں کی خدمت میں ہدیہ ہے جو"خوب سے خوبتر"، "زیبا سے زیباتر" کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان کو بہتر چیز کے حاصل کرنے اور ایضاحِ حق اور اتمامِ حجت کے بعد اس کو قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللھ عنہ نے ایک فرمان میں ارشاد فرمایا کہ: "اصل حق ہے، کسی وقت بھی اس کی طرف رجوع کرلینا نہ شرم کی بات ہے نہ کوئی انوکھا اور نرالہ کام".
یہ کتاب ایسے لوگوں کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ نقد و احتساب کا حق ایک مشترک حق ہے، جس سے ہر ایک کام لے سکتا ہے، اور اس سے کسی صاحبِ علم و نظر کو محروم نہیں کیا جاسکتا، صحتمند تنقید اور منصفانہ اظھارِ خیال پر بلدیہ کا بے لچک قانون (one way traffic) "سواریاں صرف جائیں اور آئیں نہیں" لاگو نہیں ہوسکتا.
یہ کتاب ایسے حضرات کی خدمت میں پیش ہے جو کسی کتاب کو اسے پوری طرح پڑھے اور سمجھے بغیر حکم نہیں لگاتے اور نہ منصف کی طرف سے حملہ اور اس کے مقصد کی طرف سے بدگمانی میں جلدبازی سے کام لیتے ہیں.
وصدق الله العظيم
فَبَشِّرۡ عِبَادِ الَّذِیۡنَ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقَوۡلَ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحۡسَنَہٗ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدٰىہُمُ اللّٰہُ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ (الزمر:٣٩/١٨)
تو میرے بندوں کو بشارت (خوشخبري) سنا دو۔ جو بات کو غور سے سنتے ہیں پھر سب سے اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنکو اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقل والے ہیں۔
پیشِ نظر کتاب ایک علمی و اصولی تبصرہ و جائزہ ہے، وہ نہ مناظرانہ انداز میں لکھی گئی ہے، نہ فقہ و فتاویٰ کی زبان میں، وہ ایک اندیشہ کا اظھار ہے اور "الدین النصيحة" (دین تو خیرخواہی کا نام ہے) کے حکم پر عمل کرنے کی مخلصانہ کوشش، اس کی کوئی نہ سیاسی غرض ہے نہ جماعتی مقصد. اس ناخوشگوار کام کو محض عنداللہ مسؤلیت و شہادتِ حق کے خیال سے انجام دیا گیا ہے. جو لوگ دین کی سنجیدہ اور مخلصانہ خدمات کرنا چاہتے ہیں، ان میں طلبِ حق کی سچی جستجو اور اپنی دینی ترقی و تکمیل کا جذبہِ صادق پایا جاتا ہے، انہوں نے ہمیشہ صحتمند اور تعمیری تنقید اور مخلصانہ مشورہ کی قدر کی ہے اور فکر و سعیِ اسلامی کی طویل تاریخ میں دین کی صحیح فہم و تفہیم اور اسلام کی سیانت و حفاظت میں اس سے ہمیشہ مدد لی گئی ہے.





طالبان علوم نبوت کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں
تعلیم وتربیت کاجو کام مدارسِ اسلامیہ  نے سر انجام دیا  ہے اس سے تاریخ  پر نگاہ رکھنے والا ہرانسان واقف ہے  ۔ان  ہی مدارس نے امت کو وہ افراد فراہم کیے ہیں  جنہوں نےمشکل سے مشکل ترین زمانہ میں بھی  امت کی رہنمائی کا کام کیا ہے ۔ان ہی  مدارس نے امت کومجددین ومصلحین بھی  فراہم کیے اور علمائے کبار بھی  بلکہ ان ہی مدارس سے بڑے بڑے  مسلمان فلسفی، سائنس دان  اور اطباء  پیدا  ہوئے ۔فکر اسلامی  کے ماہرین اورمعتدل  مزاج اور فکر رکھنے  والے  علماء بھی  ان ہی  مدارس  کے فیض یافتہ نظر آتے ہیں۔اس سلسلہ کی بنیاد زمانۂ نبوت میں پڑی تھی  اور دور نبوت سے ملے  ہوئے  اصولوں کی روشنی  میں علم کا  یہ سفر شروع ہوا اور نبی کریم ﷺ نے  زبانِ نبو ت  سے حاملین علم   کے فضائل و مناقب  اور  ان کی ذمہ داریوں کو  بیان فرمایا ۔زیر کتاب’’طالبانِ نبو ت کا مقام  اور ان  کی ذمہ داریاں ‘‘ مولانا  سیدابوالحسن  علی ندوی  کے  اس موضوع پر خطبات و تقاریر کا مجموعہ  ہے  جس میں  انہوں  نے  علماء  وطالبانِ علوم نبوت کے مقام ومرتبہ کو بیان کیاہے  اور انہیں معاشرے  میں  ان  کےکرنےکے  کا م اور ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے ۔ اللہ تعالیٰ  مولانا  ندوی کی اشاعت  دین  حنیف کے سلسلے  میں تمام مساعی کو قبول  فرمائے  او ر اس کتاب کے نفع کو عام فرمائے ۔(آمین)
مدارس اسلامیہ خاص طور پر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ کے طائر فکر کا نشیمن رہے ہیں، مولانا نے اپنی زندگی کے ہر دور میں ان کو ایک نیا خون دینے کی کوشش کی ہے، وہاں کے اساتذہ اور ذمہ داروں کو ان کے مقاصد کی طرف متوجہ کیا ہے، اور خود علماء کو ان کا مقام یاد دلایا ہے۔ اساتذہ، علماء، مدارس نیز علم اور نظام تعلیم سے متعلق حضرت مولانا کی جو تقریریں یا مضامین تھے، وہ علاحدہ علاحدہ حصوں میں شائع ہوچکی ہیں، جن کی تفصیل اس بلاگ پر موجود ہے، اب آپ کی خدمت میں ایک نئی اور تازہ کتاب پیش خدمت ہے، جو دو حصوں میں ہے، پہلے حصے میں حضرت کی وہ تقریریں یا پیغام ہیں جو آپ نے دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں اساتذہ وطلبہ کے سامنے فرمائیں، جبکہ دوسرے حصہ  میں وہ تقریریں ہیں جو حضرت علیہ الرحمہ نے ہند وبیرون ہند مختلف اسلامی ودینی مدارس میں فرمائیں۔
یہ دونوں کتابیں خاص طور پر طلبۂ مدارس اسلامیہ اور علماء کے لیے مفید ہیں، امید ہے وہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں گے۔





انسانیت کی مسیحائی

قوموں کی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور دنیا کی تاریخ پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ قومی اور سیاسی زندگی میں سوسائٹی ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے، صحیح اخلاقی اور پختہ سیاسی سمجھ اور ایک اچھی سوسائٹی حکومت کو پیدا کرتی ہے،اس کی تنظیم کرتی ہے، اس کو ترقی دیتی ہے، نراج سے اس کی حفاظت کرتی ہے، جب اس کی رگیں خشک ہونے لگتی ہیں، اور اس میں بڑھاپے کی علامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں تو اس کی رگوں میں تازہ اور گرم خون پہنچاتی ہے، اس کو وقت پر ذمہ دار ، پر جوش اور کام کے آدمی دیتی ہے، حقیقت میں مہذب و منظم سوسائٹی جو یقین کی دولت، اصول و اخلاق کا سرمایہ،فرض کا احساس اور ایثار و قربانی کا جذبہ رکھتی ہے، وہ سرجیون ہے جس سے خوش حالی، آزادی اور ترقی کی نہریں نکلتی ہیں، اور پورے ملک کو ہرا بھرا رکھتی ہیں، اگر سوسائٹی میں اخلاق کی گراوٹ، بے اصولی اور خودغرضی، خوشامد، طاقت و دولت سے مرعوبیت، بزدلی اور ظلم کا چلن عام ہوجائے تو یوں سمجھئے کہ زندگی کا سوتا خشک ہوگیا، اور قومی زندگی کے درخت کو گھن لگ گیا، حکومتوں کا الٹ پھیر، طاقت کی بہتات، ملک کی پیداوار، تعلیم کی ترقی اور ظاہری دھوم دھام کوئی چیز اس قوم کو تباہی سے نہیں بچا سکتی، جب کسی درخت کی رگیں اور جڑیں سوکھ جائیں اور وہ اندر سے کھوکھلا ہوجائے تو اوپر سے پانی ڈالنے سے کام نہیں چلنا۔

ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جس پر عام سیاسی رہنماؤں اور ملک کے سچے خیر خواہوں کو پوری توجہ کرنا چاہیے، وہ ہے ملک کی اخلاقی اصلاح، سماجی سدھار اور ذمہ داری کا احساس، کیونکہ جب سوسائٹی اخلاقی طور پر دیوالیہ اور معنوی حیثیت سے کھوکھلی ہوجائے تو اس کو نہ حکومت بچا سکتی ہے نہ جمہوری نظام، نہ ایک زبان اور ایک کلچر۔


دسمبر ۱۹۷۴ء میں ــ’’تحریک پیام انسانیت‘‘ کے قیام کے بعد اس کے جلسوں میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے جو تقریریں کیں، یا اس سے متعلق اجلاسوں کے لیے جو پیغامات لکھے، انھیں اس مجموعہ میں جمع کیا گیا ہے۔






دستورِ حیات (از مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ)

زندگی کا مکمل دستور العمل، ہدایت نامہ اور نظام زندگی، عقائد، عبادات و اخلاق اور عادات و شمائل کے بارے میں تعلیمات اور اسوہ نبوی کی ہدایت اور اصلاح و تربیت نفس کے لئے قرانی و نبوی ہدایات و تعلیمات کتاب الله اور سنّت و سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں


دستور حیات:
’دستور حیات‘ مولانا ابو الحسن علی ندوی کی وہ تصنیف ہے جس میں انھوں نے نفع عام کے لیے ضروری دینی تعلیمات، روزہ مرہ کے فرائض و اعمال، اسلامی اخلاق اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی ہدایات کو رقم کیا ہے تاکہ ایک اوسط درجے کا مسلمان اس کو زندگی کا دستور العمل بنا سکے۔ اس سے قبل اس موضوع پر امام غزالی کی شہرہ آفاق کتاب ’احیاء العلوم‘ منظر عام پر آ چکی ہے۔ سیدنا عبدالقادر جیلانی نے بھی ’غنیۃ الطالبین‘ لکھ کر اس موضوع کو بہت سہل انداز میں بیان کیا۔ اسی طرح حافظ ابن قیم نے ’زاد المعاد‘ لکھ کر عوام کی اصلاح و تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی نے بھی اپنے دور کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس موضوع کو آگے بڑھایا اور اس کا مکمل حق ادا کر دیا۔ انھوں نے سب سے پہلے عقیدے کے مسائل کو جگہ دی ہے اور دقیق بحثوں سے صرف نظر کرتے ہوئے آسان انداز میں عقیدے کے بعض اساسی مسائل کو قلمبند کیا ہےجنھیں معمولی سمجھ بوجھ والا انسان بھی آسانی کےساتھ سمجھ سکتا ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے اذکار مسنونہ اور جہاد کے موضوع پر مستقل ابواب قائم کیے ہیں۔ تہذیب اخلاق اور نفس ربانی کی تربیت کے عناوین سے ایسی گزارشات کی ہیں کہ جن کی روشنی میں ایک مسلمان اپنے نظام زندگی کو شرعی تقاضوں کے مطابق آسانی سے ڈھال سکتا ہے۔ مولانا نے شرعی احکام و مسائل کو رقم کرتے ہوئے غیر جانبداری دکھانے کی پوری کوشش کی ہے لیکن بعض جگہوں پر ان کے منہج سے اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔ لاریب یہ کتاب تاثیر و افادیت کے اعتبار سے انتہائی مفید ہے۔

https://besturdubooks.wordpress.com/2014/06/03/dastoor-e-hayat/
https://islamicbookslibrary.wordpress.com/2011/12/10/dastoor-e-hayat-by-shaykh-syed-abul-hasan-ali-nadvi-r-a/
http://abulhasanalinadwi.org/urdu04.html





رمضان المبارک اور اس کے تقاضے:

چند اہم عناوین: فریضئہ رمضان کی حکمتیں ، رمضان کا استقبال قرن اول میں ، عارفین کے یہاں رمضان کا استقبال و اہتمام ، ہلال رمضان کا پیغام ، رمضان مومن صادق کے لیے حیات نو ، رمضان المبارک کا مبارک تحفہ ، رمضان اور اس کے تقاضے ، رمضان المبارک کا پیغام ، دو روزے ، رمضان کیسے گزاریں?، جمعۃ الوداع کا پیغام، رمضان کے بعد کیا کریں? ، عید الفطر رمضان کا انعام اور ثمرہ، عید الفطر کا پیغام۔




کاروان ایمان و عزیمت:
مولانا سید ابو الحسن ندوی  کی  شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں  آپ  نے  مختلف موضوعات پر بیسیوں کتب  تصنیف  کی ہیں  سیدین شہیدین کی تحریک جماعت  مجاہدین پر  آپ نے  بہت کچھ  لکھا ہے  زیر نظر کتاب   ’’کاروانِ ایمان وعزیمت‘‘ میں  آپ نے  حضرت سید احمد شہید کے مشہور خلفاء اور اکابرین جماعت کا تذکرہ  الف  بائی ترتیب  سے پیش کرتے  ہوئے  سید صاحب کے بعد کی کوششوں اور سلسلہ تنظیم وجہاد کی روداد کو بھی  پیش کیا  ہے  ۔ اللہ  مولانا کی  خدمات کو قبول فرمائے  اور ان کے درجات بلند فرمائے (آمین)




سیرت سید احمد شہید:
اس وقت برصغیر پاک و ہند میں جس قدر بھی جہاد ہو رہا ہے اس کے بارے میں اگر یہ رائے رکھی جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اس کی اساس سید احمد شہید رحمہ اللہ نے رکھی تھی ۔ آپ رحمہ اللہ نے اس وقت علم جہاد بلند کیا جب برصغیر میں کیا بلکہ پورے عالم اسلام میں زوال کے آثار نمایاں تھے ۔ امت کا انتشار و افتراق اور دین سے جہالت بہت بڑھ چکی تھی ۔ انگریز اور سکھ اپنے خونی پنجے گاڑھ چکے تھے ۔ حالات میں مایوسی اپنی انتہاؤں کو پہنچ چکی تھی ۔ اس صورت حال میں سید صاحب نے مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دلائی ۔ اور ایک جماعت کی اساس رکھی ۔ آپ نے خیبر پختونخوا میں ایک ریاست اسلامیہ کی تاسیس بھی رکھی ۔ حتی کہ خطبوں میں بھی آپ کا نام لیا جانے لگا ۔ تاہم اپنے کی غداری کا شکار ہوئے ۔ آپ کے بعد بھی جماعت مجاہدین نے اپنی جدوجہد جاری رکھی ۔ مسلمانان برصغیر میں جذبہء جہادی و آزادی کی روح آپ کی ہی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے لوگوں کے شرکیہ عقائد اور بدعی اعمال کی اصلاح کا بھی بیڑا اٹھایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میدان میں آپ کو کامیابیوں سے نوازا ۔ زیرنظرکتاب مولانا ابوالحسن ندوی رحمہ اللہ کی تصنیف سید احمد شہید رحمہ اللہ کی خدمات و حیات کے کئی ایک پہلؤوں پر توجہ دلاتی ہے ۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک محولہ اور جامع کتاب ہے ۔ اللہ مصنف محترم کو اجر سے نوازے۔



علماء کا مقام اور ان کی ذمہ داریاں:
امت مسلمہ کی قیادت کا فریضہ ہمیشہ علماء کرام نے انجام دیا ہے او رہر دور میں  اللہ تعالی نے ایسے  علماء پیدافرمائے ہیں جنہوں نے  امت کو خطرات سےنکالا ہے اوراس کی  ڈوبتی  ہوئی  کشتی  کو پار لگانے کی کوشش کی ہے ۔ اسلامی تاریخ ایسے افراد سے روشن ہے  جنہوں نے  حالات کو سمجھا  اور اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے  لیے  اور ان کو صحیح رخ  پر لانے  کے لیے  ہر طرح کی قربانیاں دیں  جو اسلامی تاریخ کا  ایک سنہرا باب ہے ۔مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی شخصیت بھی ان ہی  علمائے  ربانیین او ر مجددین ومصلحین  کے طلائی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس نے  پورے  عالم اسلام میں  مسلمانوں کے ہر طبقہ کو راہنما خطوط دیئے ہیں  اورپیش آنے والے  خطرات سے آگاہ کیا ہے۔  مولانا  ابو  الحسن ندوی  نے  حالات کی روشنی  میں علماء کےلیے  ان کے کام کی نوعیت واضح فرمائی اور ان کی زندگی کا مقصد او ران کا مرکز عمل بتایا ہے  او ردعوت الی اللہ اور اشاعت  ِعلمِ دین  کی طرف ان کو خاص طور پر متوجہ کیا ہے ۔ زیر نظر کتاب  اسی موضوع پر مولاناکے مختلف مضامین اورتقریروں کا چوتھا  مجموعہ ہے  جوعلماء کے مقام اور ان کی ذمہ داریوں کے متعلق ہے جس میں  مولانا نے  درج ذیل  اہم موضوعات پر مفصل  گفتگو کی  ہے ۔ اللہ تعالیٰ  مولانا  ندوی کی اشاعت  دین  حنیف کے سلسلے  میں تمام مساعی کو قبول  فرمائے  او ر اس کتاب کے نفع کو عام فرمائے ۔(آمین)
اس کتاب میں ایک مضمون اور 14 تقریریں ہیں، جن میں حضرت مولانا نے علماء کے لیے ان کے منصب اور کام کی نوعیت واضح فرمائی ہے، ان کی زندگی کا مقصد اور ان کا مرکزعمل بتایا ہے، ان کو ان کی ذمہ داریاں یاددلائی ہیں، دعوت الی اللہ اور اشاعت علم دین کی طرف ان کو خاص طور پر متوجہ کیا ہے، اور اس کے لیے علمائے حق کے صبر واستقامت اور ثبات و استقامت کی مثالیں پیش کی ہیں، اورعمل کے اعتبار سے بھی ان کو اعلی معیار پر رہنے کی تلقین کی ہے، اور امت کے لیے ان کو قطب نما قرار دیا ہے، اور ان کی اپنے اندر غیرت صدیقی پیداکرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔



جب ایمان کی باد بہار چلی:
اس کتاب میں تیرہویں صدی ہجری کے مجدد و مصلح سید احمد شہید ؒ اور ان کی جماعت مجاہدین کی زندگی کے سبق آموز اور مؤثر حالات اور ایمان افروز واقعات کے نمونے دیے گئے ہیں، جن کی کوششوں سے ہندوستان میں ایمان کی بہار آئی اور اسلام کی ابتدائی صدیوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ اسے مولانا نے اولاً عربی میں "إذا هبت ريح الإيمان" کے نام سے تحریر کیا،  اردو ترجمہ مولانا سید محمد الحسنی کے قلم سے ہے۔
تاریخِ اسلام میں  جب بھی ایمان کی ہوائیں چلیں تو عقائد ،اعمال، اور اخلاق تینوں شعبوں میں  حیرت انگیز واقعات کا ظہور ہوا ایمان کے یہ دلنواز جھونکے  تاریخ کے مختلف وفقوں میں چلے کبھی کم مدت کے لیے کبھی زیادہ عرصہ کےلیے تاہم کوئی دور  خزاں ان سے خالی نہ رہا تاریخ اسلام میں   ان سب کاریکارڈ اچھی طرح محفوظ ہے ۔ہندوستان میں ایمان کی  یہ باد بہار تیرہویں صدی ہجری کے آغاز میں اس وقت چلی جب  سید احمد  شہید اوران کےعالی ہمت رفقاء نے  ہندوستان میں توحید  او رجہاد فی سبیل اللہ کا علم  بلندکر کے اسلام کی ابتدائی صدیوں کی یاد تازہ کردی سید احمد شہید اور ان کے رفقاء  نے  دینِ خالص  کی دعوت   اپنی بنیاد رکھی  اور  مسلمانوں میں جہاد فی سبیل اللہ کی روح پھونکی  او ر ہندوستا ن کی شمال مغربی سرحد کو اپنی دعوت وجہاد کا مرکز بنایا ان مجاہدین نےسکھوں کوکئی معرکوں میں شکست فاش دے کر پشاور کے اطراف میں اسلامی حکومت قائم کرکے  حدود شرعیہ کااجراء کیا لیکن وہاں کے قبائل نے  اپنی ذاتی اغراض اور قبائلی عادات وروایات کی خاطر اس نظام کابالآخر  خاتمہ کردیا بالاکوٹ کےمیدان میں ان سربکف مجاہدین کی سکھوں سےآخری جنگ ہوئی اوراس معرکہ میں سید احمد شہید اور  اسماعیل شہید کے بہت سے جلیل القدر  رفقاء اور مجاہدین نےجام شہادت نوش  کیا۔زیر نظرکتاب  میں  سید ابو الحسن ندوی نے  مجاہد کبیر سید احمد شہید اور ان کےعالی ہمت رفقا کے  ایمان افروز واقعات کو بڑے احسن انداز میں بیان کیاہے کہ جن کو پڑھ کر اسلام کی ابتدائی صدیوں کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔





معرکہ ایمان ومادیت:
زیر مطالعہ کتاب ’معرکہ ایمان و مادیت‘ میں سورۃ کہف کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ اس سورۃ کا اکثر حصہ قص پر مشتمل ہے۔ جس میں 1۔ اصحاب کہف کا قصہ 2۔ دو باغ والوں کا قصہ 3۔ حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کا قصہ اور 4۔ ذو القرنین کا قصہ شامل ہے۔ یہ قصے جو اپنے اسلوب بیان اور سیاق و سباق کے لحاظ سے جدا ہیں، مقصد اور روح کے لحاظ سےایک ہیں اور اس روح نے ان کو معنوی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کر دیا ہے اور ایک لڑی میں منسلک کر دیا ہے۔ کہ ان میں ایمان و مادیت کے مابین کشمکش نظر آتی ہے۔ مولانا ابوالحسن ندوی جو ایک صاحب طرز قلم کار اور متعدد خوبیوں کے حامل شخص ہیں، انہوں نے سورہ کہف کا تفصیلی تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے تفسیر قرآن، حدیث، قدیم تاریخ اور حالات حاضرہ کی روشنی میں عبر و نصائح کو اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا ہے۔





قادیانیت مطالعہ و جائزہ:
اسلامی تعلیم کے مطابق نبوت ورسالت کا سلسلہ حضرت آدم ﷤ سے شروع ہوا اور سید الانبیاء خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ پر ختم ہوا۔ اس کے بعد جوبھی نبوت کادعویٰ کرے گا وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے ۔ نبوت کسبی نہیں وہبی ہے یعنی اللہ تعالی نے جس کو چاہا نبوت ورسالت سے نوازاکوئی شخص چاہے وہ کتنا ہی عبادت گزارمتقی اور پرہیزگار کیوں نہ وہ نبی نہیں بن سکتا ۔قایادنی اور لاہوری مرزائیوں کو اسی لئے غیرمسلم قرار دیا گیا ہے کہ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نبی تھے ان کو اللہ سےہمکلام ہونے اور الہامات پانے کاشرف حاصل تھا۔اسلامی تعلیمات کی رو سے سلسلہ نبوت او روحی ختم ہوچکاہے جوکوئی دعویٰ کرے گا کہ اس پر وحی کانزول ہوتاہے وہ دجال ،کذاب ،مفتری ہوگا۔ امت محمدیہ اسےہر گز مسلمان نہیں سمجھے گی یہ امت محمدیہ کا اپنا خود ساختہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ نبی کریم ﷺ کی زبان صادقہ کا فیصلہ ہے ۔ قادیانیت کے رد میں اہل اسلام کے تقریبا ہر مکتب فکر علماء نے مختلف انداز میں خدمات سرانجام دی ہیں ۔زیرتبصرہ کتاب''مطالعہ قادیانیت مطالعہ وجائزہ '' مفکر ِاسلام مصنف کتب کثیرہ سید ابو الحسن علی ندوی﷫ کی رد قایانیت کے موضوع پر عربی تصنیف کا ترجمہ ہے ترجمہ بھی سید صاحب نے خود ہی کیا۔ جس میں انہوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کے عقیدہ او ردعوت کا تدریجی ارتقا،مرزا صاحب کی سیرت اور تحریک قادیانیت کاتنقیدی جائزہ جیسے عناوین کے تحت دلائل کے ساتھ قادیانیت کا رد کیا ہے اللہ تعالیٰ سید ابو الحسن ندوی  کی دینِ اسلام کی ترویج واشاعت کے سلسلے میں تمام جہودکو قبول فرمائے (آمین)









حضرت مولانا محمد الیاس یر ان کی دینی دعوت:

یہ کتاب حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی ہے، جس میں آپ نے حضرت مولانا محمد الیاس کے حالات زندگی ، علم و تقویٰ، فکر امت میں ان کی اصلاح میں سرگرداں رہنے، فریضہ دینی دعوت، تبلیغی اصول و ترتیب کو اجاگر کرکے تبلیغی سرگرمیوں کو امت میں دوبارہ زندہ کرتے مقصد زندگی کی طرف توجہ، اسلام کی بنیادی تعلیم سے واقفیت اور ایمانی و اخلاقی بگاڑ کی اصلاح میں مقبولیت کو بیان کیا ہے.










تحقیق وانصاف کی عدالت میں ایک مظلوم مصلح کا مقدمہ
(سید ابو الحسن علی ندوی)
تاریخ گزرے ہوئے زمانے کو اور افراد کوزندہ رکھتی ہے اور مستقبل اس گزری ہوئی تاریخ کی روشنی میں استوار کیا جاتا ہے اس لیے عام طور پر تاریخ کو بڑی احتیاط سے محفوظ کیا جاتا ہے تاکہ بعد والے زمانےمیں گزرے ہوئے دور کی غلط تشہیر نہ ہو جائے-اسی چیز کی ایک مثال سید احمد شہید رحمہ اللہ تعالی ہے کہ ہندوستان میں ان کے ساتھیوں اورحالات کی موجودگی کے باوجود ان کی تاریخی حیثیت کو یوں بیان کیا گیا کہ جیسے بہت پرانے ادوار کوکھنگالنے کی کوشش کی گئی ہو-برطانوی مؤرخین نے جس چشم پوشی کا اظہار کیا سو کیا کئی عرب مؤ رخین نے بھی تحقیق کیے بغیر ان واقعات کی روشنی میں سید احمد شہید کی تاریخ کو رقم کر دیا-جب یہ صورت حال ابو الحسن علی ندوی نے دیکھی تو انہوں نے اصل حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی اور تاریخ کے اس پہلو کو سچائی کے ذریعے بیضائی بخشی-انہوں نے عربی میں ایک رسالہ لکھا جس کا نام  الأمام الذی لم یوف حقہ من الإنصاف والاعتراف رکھا اور اس کی افادیت کے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ  سيد محمدالحسنی سے خود کروایا اور اس کا  نام'تحقیق وانصاف کی عدالت میں ایک مظلوم مصلح کا مقدمہ'خود ہی تجویزفرمایا-



دو متضاد تصویریں

عقائد اہل سنت اور عقائد فرقہ اثنا عشریہ کا تقابلی مطالعہ
زیر مطالعہ کتاب میں مولانا سید ابوالحسن ندوی نے اپنے مخصوص انداز میں شیعہ کے فرقہ اثنا عشریہ اور اہل سنت کے عقائد کا جائزہ پیش کیا ہے اور ان میں سے صحیح اور غلط کا فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے کتاب میں اولین مسلمانوں اور تاریخ اسلام کے مثالی عہد میں اسلامی تعلیمات کے اثرات اور رسول اللہﷺ کی دعوتی مساعی کے نتائج کا نقشہ پیش کیا ہے۔ مصنف نے ظہور اسلام سے قیام قیامت تک نبی کی وحدت اور اس کے تنہا شارع ہونے کے بار ے میں امت کے عقیدہ پر روشنی ڈالی ہے۔ پھر اس سلسلہ میں فرقہ اثنا عشریہ جو نقطہ نظر رکھتا ہے اس کو بالتفصیل بیان کیا  ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں انہی کے نمائندوں، پیشواؤں اور تصنیفات کے حوالہ جات پیش کیے ہیں۔





مدارس اسلامیہ اہمیت و ضرورت اور مقاصد:

اس کتاب میں بارہ تقریریں اور چار مضامین ہیں، جن میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے مدارس اسلامیہ کا مقام و مرتبہ، معاشرہ میں ان کی اہمیت و افادیت، ان کے داخلی و خارجی فرائض بیان کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مقاصد کا تعین کیا ہے، طلبہ کے اندر افسردگی و بے کیفی کے اسباب بھی بیان کیے ہیں، اور اس کا علاج بھی تجویز کیا ہے، ایک مثالی درسگاہ کو کن صفات سے آراستہ ہونا چاہیے اور ان مدارس کی کیاخصوصیات ہیں، اورہندوستان کی تاریخ و ثقافت میں ان کا کیا حصہ ہے، یہ سب وہ موضوعات ہیں جن پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔





اسلامی شریعت علم و عقل کی میزان میں:

فلسفہ شریعت پر اپنی نوعیت کی اولین تحقیقی کتاب جسمیں اسلامی شریعت کی برتری اور معقولیت کے ساءنسی دلاءل؛ حقیقت و ماہیت پر نیا طرز فکر؛ شریعت کی ابدیت و عالمگیریت اور بعض شبہات و اعتراضات کے مسکت تحقیقی جوابات کو موضوع بحث بناکر مولف نے خوب وضاحت کی ہے۔

The subject matter of the Book is the Philosophy of Islamic Sharia in the eyes of Knowledge and wisdom. It deals with the Nature of Sharia, its Foreverness and Universalit, which was proved By Scientific and Logical evidences.








فن اسماء الرجال:



حکمت الہی کی یہ ایک عجیب کار فرمائی ہے کہ ایک نبی امی کو ایک ایسی امت عطا ہوئی جس نے علم کی خدمت و اشاعت ہی نہیں اور علوم کی تکمیل و توسیع ہی نہیں بلکہ جدید علوم کی وضع و تدوین کا ایسا کارنامہ انجام دیا جس کی مثال گزشتہ تاریخ اور سابقہ امتوں میں نہیں مل سکتی۔ان علوم اسلامیہ کی فہرست بہت طویل ہے جن کی وضع و تدوین کا سہرا اس امت کے سر ہے اور جن کے ظہور میں آنے کا سبب و محرک قرآن مجید کا فہم اور تعلیمات نبوی کی حفاظت تھا،انہی علوم میں ایک فن اسماءالرجال بھی ہے جسکا امت مسلمہ کی خصوصیت ہونے کا اعتراف مستشرقین کو بھی ہے۔ زیر نظر کتاب فن اسماءالرجال ، جرح تعدیل اور اس کے متعلقات کے تعارف اور اصول و ضابطے کے بیان پر مشتمل ہے۔ نیز آخری باب میں اس فن کی اہم و مشہور کتابوں کا اجمالی تعارف بھی ہے اور ان کے مطبوع و مخطو ط ہونے کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس کتاب کو شرف قبولیت و دوام عطا فرمائے اور اس ناچیز کی لغزشوں و سیئات سے درگزر فرما کر علوم اسلام کی مزید خدمت کا موقع عطافرمائے۔آمین






سیرت النبی ﷺ:

اردو زبان میں سیرت پر لکھی جانے والی کتب میں اس کتاب کو تمام علمی حلقوں میں جو قبول عام حاصل ہوا وہ محتاج بیان نہیں ۔ مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے دوران تصنیف جو اصول اختیار کئے اس نے اسکی سند میں حددرجہ اضافہ کیا یعنی سب سے پہلے واقعات سیرت کے متعلق قرآن کریم کے ارشادات کو سب سے مقدم رکھا اور ان پر مفصل بحث کی۔ پھر احادیث صحیحہ سے تفصیلی واقعات ڈھونڈ کر شامل کئے ۔ عام واقعات میں ابن سعد، ابن ہشام اور طبری کے تمام روات کے سینکڑ وں سے زائد نام الگ کئے اور اسماء الرجال کی کتب سے جرح و تعدیل کا نقشہ تیار کیا تا کہ جس سلسلۂ روایت کی تحقیق کرنی ہو بہ آسانی ہو جائے ۔ اس کتاب کو پانچ حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ پہلے حصّہ میں عرب کے مختصر حالات، تاریخ کعبہ اور آنحضرت e کی ولادت سے وفات تک مع غزوات حالات آگئے دوسرے باب میں آپ ؐ کے ذاتی اخلاق و عادات کی تفصیل اور اولاد و ازواج مطہراتؓ کے حالات شامل ہیں ۔ دوسرے حصّے میں منصب نبوّت، نبوّت کا فرض، تعلیم اعتقاد اور امرونواہی، اصلاح اعمال اور اخلاق شامل ہے ۔ اسی میں نہایت تفصیل سے عرب کے عقائد، اخلاق و عادات پہلے کیا تھیں اور کیا کیا اصلاحات عمل میں آئیں اور عالم کی اصلاح کے لئے اسلام نے کیا قانون مرتب کیا۔ تیسرے حصّہ میں قرآن کریم کی تاریخ، وجوہ اعجاز اور حقائق و اسرار پر بحث شامل ہے ۔ چوتھے حصّہ میں معجزات کی تفصیل قدیم کتب میں معجزات کا الگ باب باندھا جاتا تھا لیکن یہاں اسے مستقل حیثیت سے لکھا گیا۔ پانچویں حصّے میں یورپی مصنفین نے آنحضرت e اور اسلام کے بارے میں کیا لکھا ہے ؟ انکی معلومات کے ذرائع کیا ہیں ؟ تاریخی واقعات میں وہ کیوں غلطیاں کرتے ہیں ؟ اسلام کے مسائل سمجھنے میں انہوں نے کیا غلطیاں کیں ؟ اور جو اعتراضات کئے انکے مفصّل جوابات شامل ہیں ۔ اس جدید ایڈیشن کی چند خصوصیات بحمداللہ دارالاشاعت کراچی کے مطبوعہ اس جدید ایڈیشن میں کوشش کی گئی ہے کہ کتاب کو اس کے شایان شان ظاہری حسن سے بھی آراستہ کیا جائے اس مقصد کے لئے (۱) اسکی مکمل جدید کمپوزنگ کرائی گئی۔ (۲) پوری کتاب کو پہلی مرتبہ دو کلر میں شائع کیا گیا۔ (۳) اعلیٰ امپورٹڈ کاغذ اور عمدہ طباعت کا اہتمام کیا گیا۔ (۴) مقامات مقدّسہ کی رنگین تصاویر کا اضافہ کیا گیا۔ الحمدللہ دارالاشاعت کراچی سے اس کتاب کا مکمل انگریزی ترجمہ بھی ۷ علیحدہ حصّوں میں شائع ہو کر دستیاب ہے ۔







 سیر الصحابہ:
انبیاء کرام کے بعد دنیا کے مقدس ترین انسانوں کی سرگزشت حیات، تاریخ اسلام، اسماء الرجال، اور ذخیرہ احادیث کی گراں قدر کتابوں سے ماخوذ مستند حوالہ جات پر مبنی صحابہ کرام رضی الله عنھم (جو دراصل تعلیم محمدی کے فیضِ تربیت کے اصلی نمونہ اور عملی مثال) نیز مشہور تابعین و تبع تابعین اور ائمہ کے مفصل حالات زندگی پر سب سے جامع کتاب





سیر الصحابیات مع اسوه صحابیات ﴿مجلد﴾

عہد نبویؐ و عہد صحابہؓ کا معاشرہ اسلامی تعلیمات کا حامل ایک آئیڈیل معاشرہ ہے ۔ صحابۂ کرامؓ، ازواج مطہراتؓ اور صحابیات نے اشاعت اسلام کے لئے ہر میدان میں گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں ۔ ازواج مطہرات و صحابیات کی میدان کارزار، اسلام کی نشروشاعت، علمی، عملی، سیاسی، اخلاقی، معاشی ومعاشرتی زندگی کا کردار تاریخ اسلام میں مسلم خواتین کے درخشاں باب کا ایک تابناک حصہ ہے ۔ صحابیات کے اسماء، مناقب اور مختلف کارناموں کا ذکر متقدمین نے اپنی کُتب میں کیا ہے لیکن موجودہ زمانہ میں فن سیرت نگاری نے جو ترقی کی ہے اس لحاظ سے یہ کُتب ناکافی تھیں نیز مسلمانوں کا موجودہ تنزّل ان کتابوں کا نئے آب و رنگ میں پیش کرنے کا داعی تھا جسے مسلم خواتین اپنی زندگی کا نمونہ بنائیں اور انہیں معلوم ہو کہ دینداری، خداترسی، پاکیزگی، عفت و اصلاح و تقوٰی کے ساتھ وہ دنیا کو کیونکر نباہ سکتی ہیں اور دنیا و آخرت کی نیکیوں کو اپنے آنچل میں کیسے سمیٹ سکتی ہیں ۔ مصنفین نے اسی ضرورت کے پیشِ نظر صحاح ستہ، مسند احمد وغیرہ سے ۴۵ صحابیات کے حالات و واقعات کو روایت و درایت کی کسوٹی پر جانچ کر اس کتاب کو وجود دیا۔ دوسرے ایڈیشن پر مولانا محمد اویس صاحب نگرامی ندوی نے نظرثانی کی حوالوں کی تصحیح، بعض اغلاط کی اصلاح اور بعض مطالب میں مناسب ترمیم بھی کی اس طرح یہ کتاب ’’دارالاشاعت کراچی‘‘ سے کمپیوٹر کتابت کے ساتھ اعلیٰ معیار پر آپ کے سامنے ہے ۔ ضرورت ہے کہ ہرمسلمان خاتون اس کا مطالعہ اصلاح کی نیت سے کرے ۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں خصوصاً مسلم خواتین کو اس زیغ وضلال کے دور میں صحابیات و ازواج مطہرات کے نقش قدم پر چلنے کا ذریعہ بنائے ۔ آمین




خلفاء راشدین:
امّتِ محمدیہ علی صاحبہا الصلٰوۃ والسلام میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ ا کی صحبت سے جو مرتبہ و مقام حاصل ہے بعد میں آنے والا کوئی شخص اس کے برابر نہیں ہو سکتا۔ صحابۂ کرام خصوصًا خلفائے ۔راشدین ث کا تذکرہ ان کے اوصاف و کمالات کا بیان درحقیقت آنحضرت کے ذکرِ مبارک کا تتمہ و تکملہ ہے ۔ ان حضرات کے کمالات کے مطالعہ سے جو عظمت ورفعت و محبت رسول اللہ ا کی دل میں پیدا ہوتی ہے وہ ہرگز کسی دوسرے طریقہ سے نہیں ہو سکتی۔ ’’خلفائے راشدین ‘‘ میں چاروں خلفاء حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہعنہم کے حالات قبل از اسلام و بعدازاسلام، فضائل و مناقب، ہجرت، غزوات میں شرکت، متفرق واقعات، کارنامے ، فتوحات، اخلاق، مکاشفات و اقوال کا مختصر تذکرہ ہے ۔ نیز صحابۂ کرام سے متعلق ضروری عقائد کا ذکر ہے ۔ دلوں میں ایمانی قوت و تازگی پیدا کرنے کے لیے نسخۂ کیمیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان حضرات سے محبت اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین


المرتضیٰ :

زیر تبصرہ کتاب چوتھے خلیفۃ الاسلام حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی سیرت پر لکھی گئی ہے۔ جس کے متعلق مصنف کا کہنا ہے کہ ان شخصیات میں جن کے حقوق نہ صرف یہ کہ ادا نہیں ہوئے بلکہ ان کے حق میں شدید بے انصافی روا رکھی گئی، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی بلند و محبوب شخصیت بھی ہے، مخصوص حالات، خاص قسم کے عقائد اور چند نفسیاتی اسباب کی بنا پر ان کی سیرت پر بہت گہرے اور دبیز پردے پڑ گئے ہیں، ارباب بحث و تحقیق تو الگ رہے، خود وہ لوگ جو ان کی عظمت کے گن گاتے ہیں، اور ان کے نام پر اپنے عقائد کی عمارت تعمیر کیے ہوئے ہیں، انھوں نے بھی اکثر اوقات ان کی سیرت کا مطالعہ معروضی و تحقیقی انداز میں نہیں کیا اور پورے ماحول اور ان کے عہد کے تقاضوں اور دشواریوں کو سامنے رکھ کر امانت و غیر جانبداری کے ساتھ پیش نہیں کیا۔ کتاب کے مصنف مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے کتاب مرتب کرتے ہوئے مکمل غیر جانبداری کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے لے کر وفات تک کے تمام تر حالات و واقعات اور مختلف ادوار میں ان کا کردار کسی لگی لپٹی کے بغیر بیان کر دیا ہے۔ اپنے موضوع پر یہ کتاب نہایت مفید اور لائق مطالعہ ہے۔ جس کے عربی، اردو اور انگریزی زبان میں متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالب کرم الله وجھہ کی مفصل سوانح حیات، خاندانی خصوصیات، وہبی کمالات، خلفاء کی ترتیب زمانی میں حکمتِ الہی و مصلحتِ اسلامی  اسلام کے مفاد میں خلفاءِ ثلاثہ کے ساتھ حضرت علی رضی الله عنہ کا بینظیر اخلاص و تعاون، خلافتِ مرتضوی کا عھد اور اس کی عظیم مشکلات، بینظیر زاہدانہ سیرت و مصلحانہ و مربیانہ کردار، فرزندانِ والا مرتبت (حضرت حسن و  حضرت حسین رضی الله عنھما) کی عطربیز سیرت و اخلاق اور ان کے اپنے اپنے وقت میں صحیح فیصلے اور اقدامات، آلِ رسول (ساداتِ کرام) کے اعلیٰ اخلاق و شمائل، امت کی اصلاح و تربیت کی دائمی فکر، اسلام کی تبلیغ و اشاعت، جہد فی سبیل الله اور ممالکِ اسلامیہ کی حفاظت و دفاع میں ہر عھد میں ان کا قائدانہ و اولو العزمانہ کردار، مستند کتب تاریخ، ناقابل انکار واقعات و حقائق اور تجزیاتی و تقابلی مطالعہ کی روشنی میں مفکر اسلام مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رح کی یہ کتاب "المرتضیٰ" پیشِ خدمت ہے.
آن لیں پڑھنے یا ڈاونلوڈ کرنے کے لئے:




سیرت عائشہ رضی اللہ عنہا (سید سلیمان ندوی):
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ابوبکر صدیق � کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کا نام زینب تھا۔ ان کا نام عائشہ لقب صدیقہ اور کنیت ام عبد اللہ تھی۔ حضور ﷺ نے سن 11 نبوی میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور 1 ہجری میں ان کی رخصتی ہوئی۔ آپ حضور ﷺ کی سب سے کم عمر زوجہ مطہرہ تھیں۔ انہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ نو برس گذارے۔ ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاوہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضور کی زوجہ محترمہ اور ”ام الموٴمنین“ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں۔ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے شادی سے قبل حضور نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہے… پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی بیوی ہے، آپ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت عائشہ ہیں۔صحیح بخاری میں حضرت ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا " مردوں میں سے تو بہت تکمیل کے درجے کو پہنچے مگر عورتوں میں صرف مریم دختر عمران، آسیہ زوجہ فرعون ہی تکمیل پر پہنچی اور عائشہ کو تمام عورتوں پر ایسی فضیلت ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر ۔آپ ﷺکو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بہت محبت تھی، ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن عاص � نے حضور سے دریافت کیا کہ… آپ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو، عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! مردوں کی نسبت سوال ہے! فرمایا کہ عائشہ کے والد ابوبکر صدیق � کو۔ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک واسطہ سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا۔حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام �کو کبھی ایسی مشکل پیش نہ آئی جس کے بارے میں ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا اور ان سے اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔ حضور ﷺ وصال کے 48 سال بعد 66 برس کی عمر میں 17 رمضان المبارک 58 ہجری میں وصال فرمایا۔سید عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی زندگی خواتین اسلام کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ زیر تبصرہ ’’سیرت عائشہ‘‘برصغیر پاک وہند کے نامو ر مؤرخ اور سیرت نگار   علامہ سید سلیمان ندوی � کی ابتدائی تصنیف ہے۔ 1920ء میں یہ کتاب پہلی بارشائع ہوئی۔ اس کے بعد اس کتاب کی جامعیت اور مقبولیت کی وجہ سے اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے ہیں۔





تاريخ دعوت وعزیمت:
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اس امت میں ایک ایسا گروہ ہمیشہ موجود  رہتا ہے جو حق کی صحیح ترجمانی کرتا ہے اور دین کی اصل شکل کو برقرار رکھتا ہے ۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اہل حق بالکلیہ ضم ہو جائیں اور بدعت وضلالت کی حکمرانی قائم ہو جائے۔زیر نظر کتاب میں عالم اسلام کے عظیم مفکر مولانا ابو الحسن ندوی نے تاریخ کے صفحات سے دعوت وعزیمت کے تسلسل کو اجاگر کیا ہے اور اسلام کی تیرہ سو برس کی تاریخ میں اصلاح وانقلاب حال کی کوششوں کو بیان کیا ہے ۔انہوں نے ان ممتاز شخصیتوں اور تحریکوں کی نشاندہی کی ہے جنہوں نے اپنے اپنے وقت میں اپنی اپنی صلاحیتوں کے مطابق دین کے احیاء اور تجدید اور اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے کام میں حصہ لیا اور جن کی مجموعی کوششوں سے اسلام زندہ اور محفوظ شکل میں اس وقت موجود ہے اوراس وقت ایک ممتاز امت کی حیثیت سے نظر آتے ہیں ۔اس کتاب کا مطالعہ ہر مسلمان کو لازماً کرنا چاہیے تاکہ مصلحین امت کے اصلاحی ودعوتی اور مجاہدانہ کارناموں سے واقفیت حاصل ہو سکے۔








سیرت عمر بن عبدالعزیزؒ:
خلیفہِ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رح کی مفصل سوانح زندگی اور ان کے عھدِ حکومت کے مجددانہ کارناموں پر یہ مستند کتاب مولانا عبدالسلام ندوی کی پیشِ خدمت ہے.





اسلامی قانون معاشرت:
جس میں قرآن و سنّت اور اجتہاداتِ فقہاء کی روشنی میں انسانی زندگی کے اہم ترین مسائل نکاح و طلاق وغیرہ کو علمی و عقلی انداز میں بیان کیا گیا ہے.
انسانی زندگی عقائد، عبادات، اخلاق، معاشرت اور سیاست سے عبارت ہے. عقائد کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی سے ہے، سیاست چند افراد سے مطلق ہے، اگر وہ اس کو صحیح اصولوں کے مطابق برتیں تو سب کی زندگی پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، لیکن معاشرت کا تعلق براہ راست سماج سے ہے، اس کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی سے بھی ہے اور اجتمائی زندگی سے بھی، اگر اس نظام میں بگاڑ پیدا ہوجاۓ تو اس زندگی سے چن و سکوں ختم ہوجاتا ہے. عداوت جنم لیتی ہے، انتشار برپا ہوجاتا ہے، اور بلآخر زندگی جہنم کا نمونہ بن جاتی ہے، اس لئے اسلام نے معاشرتی زندگی کے ہر ہر مسئلے پر روشنی ڈالی ہے، اس نے شادی بیاہ کی ضرورت پر زور دیا ہے، نکاح، طلاق اور خلع کے احکام بتاۓ، نان نفقہ کے ہر پہلو کو بیان کیا، اسی طرح معاشرتی زندگی کے ہر مسئلے کی تفصیل سے وضاہت کی، دنیا نے بہت سے نظامہاۓ زندگی کا تجربہ کیا ہے، بہت سے قوانین و دستوروں کو آزمایا ہے، مگر سلامتی کا راستہ اس کو اسلام کے نظامِ زندگی ہی میں نظر آیا ہے، اس لئے اسلام لا نظام ایک جامع اورفطرت انسانی کے عین مطابق ہے.
معاشرتی مسائل پر مختلف حیثیتوں سے لوگوں نے لکھا ہے، مولوی خواجہ معین الدین ندوی بھٹکلی کی زیرِ نظر کتاب اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے.





تحفة العروس عصر حاضر کی مشہور و معروف کتاب ہے، جس میں ازدواجی زندگی جیسے اہم اور نازک مسئلے کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ صاحب کتاب نے کمال مہارت کا ثبوت دیتے ہوۓ آیات، احادیث، آثار، تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے ازدواجی زندگی کے ان تمام پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے، جنہیں عموما نظرانداز کر دیا جا تا ہے۔

تحفۃ العروس (تخریج شدہ)
کسی بھی معاشرے کی تنظیم وتعمیر میں عائلی و ازدواجی زندگی ایک اکائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام نے عائلی زندگی کے بارے تفصیلی احکامات جاری کیے ہیں کیونکہ معاشرے کا استحکام خاندان کے استحکام پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر خاندان مستحکم ہو گا تو معاشرہ بھی مضبوط بنیادوں پر استوار ہو گا۔ ’تحفۃ العروس‘ کا موضوع بھی ازدواجی زندگی ہے۔ اس کتاب میں شوہروں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ یہ کتاب مہذب انداز میں میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات پر کتاب وسنت اور ائمہ سلف کے اقوال کے ذریعے روشنی ڈالتی ہے۔ میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات ایک نہایت ہی نازک موضوع ہے جس پر عموماً بازار میں سطحی اور فحش کتابیں دستیاب ہوتی ہیں جو تعلیم کم دیتی ہیں اور جنسی ہیجان انگیزی کا سبب زیادہ بنتی ہے۔ یہ کتاب اس قسم کے فحش مواد سے پاک ہے۔ البتہ اس کتاب میں کچھ ایسی باتیں بھی آ گئیں کہجن کا بیان ہمارے ہاں شرم وحیا کے معاشرے میں رائج تصورات کی روشنی میں کچھ نامناسب معلوم ہوتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں شادی حضرات کی تعلیم کے لیے کسی قسم کے شادی کورسز یا ازدواجی کورسز موجود نہیں ہیں لہٰذا ایسے میں اس قسم کا لٹریچر ایک ضرورت بن جاتی ہے جس میں ایک نئے شادی شدہ جوڑے کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بہت سے مسائل میں رہنمائی کی جائے۔ازدواجی مسائل کے حوالے سے اس کتاب میں عورتوں اور مردوں کی نفسیات اور ترجیحات پر بھی اچھی بحث موجود ہے کہ جس کا علم نہ ہونے کی وجہ سے اکثر وبیشتر نئے شادی شدہ جوڑے اختلافات وانتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نئے شادی شدہ حضرات کو اس کتاب کے مطالعہ کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔




اہل السنّت والجماعت:



اہل السنّت والجماعت کی اصطلاحی کی لغوی و معنوی تشریح، اس کا تاریخی تعین، مذھب کے اصولِ اولین کی تحقیق اور معقول و منقول کی اصول تطبیق پر توضیح، آخر میں اہلِ سنت کے صحیح عقائد سے واقفیت کے لئے عقائد کی افادیت و تفصیل پر مشتمل مولانا علامہ سید سلیمان ندوی رح کی کتاب ہے.

فری ڈاؤن لوڈ کریں:






منصبِ نبوت اور اس کے عالی مقام حاملین:

اس کائنات میں خدا کے بھیجے ہوئے انبیاء انسانیت کے کامل نمونوں کی صورت میں موجود رہے ہیں۔جن کی زندگیاں محبت الہٰی میں گندھی ہوئی تھیں۔ دنیاوی جاہ و حشمت ان کے سامنے پرکاہ سے بڑھ کر نہیں تھی۔ اپنے رب کے حکم کی تعمیل ان کا مقصد زندگی تھا۔ پیش نظر کتاب میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی  نےانہیں عالی مقام کے حاملین کو موضوع بحث بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ انبیاء ہی کا کارنامہ ہے کہ معاشرہ میں خیر کی محبت اور شر سے نفرت کا جذبہ پیدا کر کے انہوں نے احسانات عظیم کیے۔ مصنف نے متعدد عناوین کے تحت انبیاء کی امتیازی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے نبوت کے زیر اثر پروان چڑھنے والے مزاج اور طریقہ فکر کو قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے۔تاکہ علمائے کرام، جو وارثین انبیاء کی صورت میں اصلاح معاشرہ کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں وہ اس سلسلہ میں نبوی طریقہ کار سے حظ اٹھائیں۔ مولانا نے اخیر میں ختم نبوت کی ضرورت و اہمیت کو موضوع سخن بناتے ہوئے موجودہ معاشرے پر اس کے اثرات سے متعلق بھی نہایت قیمتی آراء کا اظہار کیا گیا ہے۔




دریائے کابل سے دریائے یرموک تک"
مغربی ایشیا کے چھ مسلم اور عرب ممالک افغانستان، ایران، لبنان، شام، عراق، اور شرق اردن کے ایک معلوماتی دورہ کی مفصل روداد و ڈائری، جس میں ان ممالک کی دینی، فکری ، سیاسی اوراقتصادی صورت حال کی سچی تصویر اور وہاں کی دینی و اصلاحی تحریکات، متضاد عوامل و اثرات اور ذہنی و روحانی کشمکش کا دیانت دارانہ جائزہ آگیا ہے۔

زیر مطالعہ کتاب’دریائے کابل سے دریائے یرموک تک‘ خطہ ارضی پر واقع چھ ممالک افغانستان، ایران، لبنان، شام، عراق اور اردن کی تہذیب وثقافت اور حالات و کیفیات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مکہ مکرمہ میں ’رابطہ عالم اسلامی‘ کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے اس ادارے نے ایک وفد ان مذکورہ ممالک میں بھیجا۔ اس وفد کی قیادت محترم مصنف ابوالحسن ندوی نے کی۔ اس پروگرام کا مقصد مسلمانوں کے حالات و کیفیات، ان کے علمی و تہذیبی ادارے، اور ان کی ضرورتوں سے واقفیت حاصل کرنا اور وہاں کے باشندوں کو اس ادارے کے مقاصد سے آگاہ کرنا تھا۔ مولانا ابو الحسن ندوی نے اس دورے کی مکمل روداد سفر نامہ کے انداز میں قلمبند کر دی ہےجس سے ان ممالک کے حالات و حوادث کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ مصنف نے ان ممالک کی دینی، فکری، سیاسی واقتصادی صورتحال کی تصویر کشی کرتے ہوئے مکمل غیر جانبداری برتی ہے۔




تحقیق وانصاف کی عدالت میں ایک مظلوم مصلح کا مقدمہ"
تاریخ گزرے ہوئے زمانے کو اور افراد کوزندہ رکھتی ہے اور مستقبل اس گزری ہوئی تاریخ کی روشنی میں استوار کیا جاتا ہے اس لیے عام طور پر تاریخ کو بڑی احتیاط سے محفوظ کیا جاتا ہے تاکہ بعد والے زمانےمیں گزرے ہوئے دور کی غلط تشہیر نہ ہو جائے-اسی چیز کی ایک مثال سید احمد شہید رحمہ اللہ تعالی ہے کہ ہندوستان میں ان کے ساتھیوں اورحالات کی موجودگی کے باوجود ان کی تاریخی حیثیت کو یوں بیان کیا گیا کہ جیسے بہت پرانے ادوار کوکھنگالنے کی کوشش کی گئی ہو-برطانوی مؤرخین نے جس چشم پوشی کا اظہار کیا سو کیا کئی عرب مؤ رخین نے بھی تحقیق کیے بغیر ان واقعات کی روشنی میں سید احمد شہید کی تاریخ کو رقم کر دیا-جب یہ صورت حال ابو الحسن علی ندوی نے دیکھی تو انہوں نے اصل حقائق سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی اور تاریخ کے اس پہلو کو سچائی کے ذریعے بیضائی بخشی-انہوں نے عربی میں ایک رسالہ لکھا جس کا نام  الأمام الذی لم یوف حقہ من الإنصاف والاعتراف رکھا اور اس کی افادیت کے پیش نظر اس کا اردو ترجمہ  سيد محمدالحسنی سے خود کروایا اور اس کا  نام'تحقیق وانصاف کی عدالت میں ایک مظلوم مصلح کا مقدمہ'خود ہی تجویزفرمایا-





ارکان اربعہ کتاب وسنت کی روشنی میں"
عبادات سے متعلق بیسیوں نہیں سیکڑوں کتب طباعت کے مراحل طے کر چکی ہیں جو افادہ عوام کا کام بہت کامیابی سے کر رہی ہیں۔ لیکن مولانا ابوالحسن ندوی نے زیر نظر کتاب ’ارکان اربعہ‘ میں جس ادبی پیرائے اور عصری اسلوب میں ارکان اسلام میں سے چار ارکان نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کی وضاحت کی ہے اور جس طرح ان کے مقاصد و اسرار کی جھلک دکھائی ہے  یہ صرف انہی کا خاصہ ہے۔ محترم مصنف نے سب سے پہلے قرآن و حدیث کو سامنے رکھا، ان اراکین اربعہ کی حقیقت اور مقاصد و طریقہ کار کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کا مطالعہ کیا پھر اس سلسلہ میں اَئمہ کرام کی کی گئی تشریحات کو سامنے رکھا پھر خدا تعالیٰ نے آپ پر ان ارکان کی حقیقتوں اور حکمتوں کے جو پہلو آشکار کئے ان کو قرطاس پر منتقل کرتے چلے گئے۔ اس کتاب میں وہ لوگ بھی کشش محسوس کریں گے جو متقدمین کے اسلوب کو قدیم خیال کرتے ہوئے ان کی فیوض و برکات سے محروم چلے آرہے ہیں۔ کتاب کی تیار ی میں شاہ ولی اللہ کی مشہور زمانہ کتاب ’حجۃ اللہ البالغہ‘ سے بھی کافی حد تک مدد لی گئی ہے۔ مصنف نے کتاب میں کسی جانبداری کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ کسی لگی لپٹی کے بغیر اپنے خیالات کو الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔





تاریخِ ارض القرآن: (از مولانا سید سلیمان ندویؒ):


قرآن مجید میں عرب کے بیسیوں قوموں، شہروں اور مقامات کے نام ہیں، جن کی ہر قسم کی صحیح تاریخ سے نہ صرف عوام بلکہ علماء تک ناواقف ہیں اور نہایت عجیب بات ہے کہ تیرہ سو برس میں ایک کتاب بھی مخصوس اس فن پر نہیں لکھی گئی. اس یہ ہوا کہ ایک طرف تو خود مسلمانوں کو ان حالات سے ناواقفیت رہی اور دوسری طرف غیروں کو انھیں فسانہ (legend) کہنے کی جرات ہوئی.

اس کتاب کا پہلا حصّہ میں ارضِ قرآن کا جغرافیہ اور اقوامِ عرب  کی سیاسی، تاریخی، نسبی اور قومی حالات سے بتطبیقِ قرآن بحث  ہے، جس سے ظاہر ہوگا کہ عرب  کی قوم میں اسلام سے پہلے بھی دنیا میں کیا کیا کارنمایاں انجام دیے ہیں، اور ان کی تمدن نے یمن، شام و عراق  میں کس حد تک وسعت حاصل کی تھی.
کتاب ڈاؤن لوڈ  کرنے یا آن  لائن پڑھیے:




خطباتِ علی میاںؒ:


عالمِ اسلام کے عظیم داعی، مفکرِ اسلام، علامة الهند، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی (نورالله مرقدہ) کے فکر انگیز خطبات کا مجموعہ، جن کی تحریروں میں علم و فکر کی فراوانی کے ساتھ بلا کا سوز و گداز ہے جو انسان کو متاثر کے بغیر نہیں رہتا، خاص طور پر مغربی افکار کی یورش نے ہمارے دور میں جو فکری گمراہیاں پیدا کیں ہیں اور عالمِ اسلام کے مختلف حصوں میں جو فتنے جگاۓ ہیں ان پر حضرت مولانا کی بڑی وسیع و عمیق نظر تھی، اور انہوں نے اپنی تقریر و تحریر کے ذریعہ ان فتنوں کی تشخیص اور ان کی علاج کی نشان دہی اتنی سلدت فکر کے ساتھ اتنے دلنشیں انداز میں فرمائی ہے کہ عصرِ حاضر کے مولفین میں شاید ہی کوئی دوسرا ان کا ہمسری کرسکے.







اختلاف ائمہ اور حدیث نبوی:
مؤلف: شیخ محمد عوامہ
ترجمہ: مولانا علاء الدین جمال 
صفحات:240 سائز:23x36=16
ناشر: زمزم پبلشرز، اردو بازار، کراچی

عالم عرب کی معروف علمی شخصیت شیخ محمد عوامہ نے ” أثر الحدیث الشریف في اختلاف الائمة الفقہاء رضی الله عنہم “ کے نام سے احادیث میں مسائل واحکام کے استنباط و استخراج کے سلسلے میں ائمہ فقہاء کے درمیان پائے جانے والے اختلاف پر خوب صورت ومرتب انداز واسلوب میں روشنی ڈالی ہے او رجو لوگ ائمہ فقہاء خصوصاً امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ کو اس سلسلے میں طعن وتشنیع کا نشانہ بنا کر فقہی مذاہب او رفقہاء کی اجتہادی وفقہی کاوشوں ، اصول ومسائل، دینی مفہومات اور دین کی تفہیم کے حوالے سے اہل اسلام میں مقبول ومتداول طرز واسلوب کو باطل قرار دینے او رمغرب کی جدت وآزادی سے مرعوب ہو کر دین اسلام کی نئی اور جدید تشکیل کے لیے کوشاں وسرگرداں ہیں ان کی دلائل کی روشنی میں معقول ومدلل انداز میں تردید کی ہے۔ اس میں احادیث سے استدلال کرنے میں فقہاء کے اختلاف کے چار اسباب بیان کیے گئے ہیں اور ان پر وارد ہونے والے اشکالات وشبہات کے مرتب ودلنشین انداز میں جوابات بھی دیے گئے ہیں۔ یہ کتاب درحقیقت ان دروس کا مجموعہ ہے جو شام کے شہر حلب کی یونیورسٹی ”جامعہ روضة الحلب“ میں دیے گئے تھے او ران میں نظر ثانی اور حذف واضافہ کرکے انہیں کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

ہمارے پیش نظر اس وقت اس کا اردو ترجمہ ہے جو دارالعلوم زکریا، جنوبی افریقا کے استاد حدیث مولانا علاؤ الدین جمال نے کیا ہے او راس میں الفاظ کا خیال رکھتے ہوئے معنی ومفہوم کو سلیس ورواں اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش وسعی کی گئی ہے ۔ الله تعالیٰ مؤلف ومترجم کو اجر جزیل عطا فرمائے اور علما، طلبہ اور امت مسلمہ کے دیگر حلقوں کو اس سے کماحقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے کہ جس مرض کی دوا کے لیے یہ کتاب تالیف کی گئی ہے وہ مغرب کے استعماری غلبے کے بعد کسی خطے تک محدود نہیں رہا بلکہ کم وبیش ہر خطے اور طبقے میں اسے عام کرنے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔

کتاب کی طباعت واشاعت درمیانے درجے کی ہے۔
عربی اور اردو میں مفت ڈاون-لوڈ کرنے یا آن-لائن مطالعہ کے لئے:



فضائل اعمال:
اللہ نے جن وانس کو اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے[القرآن،الذاریات:56] اور اس کی عظمت، اہمیت جاننے اور شوق کیلئے قرآنِ مجید واحادیثِ  مبارکہ میں جو فضائل وارد ہوئے ہیں انہیں جاننا بلکہ یاد رکھنے کیلئے پڑھتے بتاتے رہنا ایک بہترین نسخہ ہے۔
کتاب "فضائل  اعمال"  سب سے پہلے "تبلیغی نصاب" کے نام سے طبع ہوئی، یہ  محمد زکریا کاندھلویؒ کی تالیف ہے، کتاب کو درجہ ذیل ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
حکایات صحابہ
فضائلِ نماز
فضائلِ قرآن
فضائلِ ذکر
فضائلِ رمضان
فضائلِ تبلیغ
فضائلِ درود
مسلمانوں کی موجودہ پستی کا واحد علاج

----------------------------
حضرت شیخ الحدیث صاحبؒ نے فضائل اعمال میں مختلف ابواب کے تحت عربی متن کے ساتھ جو احادیث ذکر کی ہیں جن کتابوں سے وہ احادیث ماخوذ ہیں، اس کتاب کی وضاحت کے ساتھ اس سے لی گئی احادیث کی تعداد یہاں بیان کی جاتی ہیں۔

۱۔ بخاری ومسلم دونوں کی بیک وقت ذکر کردہ ان احادیث کی تعداد جو فضائل اعمال میں ہے باون 52 ہے۔

۲۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صرف بخاری میں پائی جاتی ہیں ان کی تعداد تریسٹھ 63 ہے ۔

۳۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صرف مسلم میں ہیں ان کی تعداد بیانوے 92 ہے ۔

۴۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث صحیحہ جو صحیحین کےعلاوہ میں مذکور ہیں اور وہ حسن لذاتہ کے درجے کی ہیں ایک سو چو نتیس 134 ہیں ۔

۵۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صحیح لغیرہ ہیں ایک سو انسٹھ 159  ہیں ۔

۶ ۔ فضائل اعمال کی وہ احا دیث جو حسن لذاتہ ہیں ان کی تعداد ایک سو انسٹھ 159 ہیں 

۷۔ فضائل اعمال کی وہ احا دیث جو حسن لغیرہ ہیں ان کی تعداد دو سو بیالیس 242  ہے ۔

۸۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو ضعیف ہیں تین سو ستھتر 377 ہیں ۔

https://archive.org/details/Fazaileamaltakhreej1


کتب فضائل حقائق ۔۔غلط فہمیاں ۔ مزید تفصیل دیکھیں




تصویر القرآن:
قرآن کریم کی تفہیم اور اس کے اردو ترجمہ سے واقفیت کے سلسلہ میں بہت سارے لوگ اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ پروفیسر عبدالرحمٰن طاہر صاحب نے اس سلسلہ میں ایک نئے اور آسان اسلوب کو متعارف کرایا ۔ زیر نظر کتاب ’تصویر القرآن‘ میں بھی مولانا ابو القاسم شمس الزماں نے بھی اردو دان طبقہ کے لیے قرآن فہمی کا ایک الگ اسلوب متعارف کرایا ہے۔ مصنف کے خیال میں اگر قرآن کے الفاظ کو درج ذیل تین حصوں میں تقسیم کر لیا جائے تو ترجمہ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے: 1۔ کثیر الاستعمال الفاظ۔ 2۔ اسماء۔ 3۔ افعال۔
درج بالا تینوں حصوں کا مطالعہ، پہچان اور ان کو یاد کرنے میں آسانی کے لیے کثیر الاستعمال الفاظ، اسما کی تعمیر سلامتیون سے اور افعال کی تعمیر سلامتیون سے ۔ اس کتاب میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کتاب میں جتنے بھی ابواب بنائے گئے ہیں ان میں مختلف انداز میں بار بار یہی بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح عربی زبان میں تین حرفی لفظ سے اسما اور افعال بنتے ہیں۔ ’سلامتیون‘ یعنی ’س ل ا م ت ی و ن‘ اس کتاب کا بنیادی محور ہیں۔ کتاب کے شروع میں کتاب کا مکمل تعارف کرایا گیا ہے کتاب کو پڑھنے سے پہلے اس کا مطالعہ بہت ضروری ہے ورنہ کتاب خاطر خواہ فائدہ مند نہیں ہوگی۔


موسوعہ فقہیہ (کویتیہ):
عصر حاضر علمی انقلاب کا دور کہلاتا ہے جس میں علوم و فنون کی ترقی کے ساتھ ساتھ علمی استفادہ کو آسان سے آسان تر بنانے کی کوششیں جاری ہیں اور اس سلسلہ میں مختلف اسلوب اختیارکیے جا رہے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ’موسوعۃ فقہیہ‘ میں موسوعاتی یا انسائیکلوپیڈیائی اسلوب اختیار کیا گیا ہے جس میں حروف تہجی کی ترتیب کے ساتھ آسان زبان و اسلوب میں مسائل و معلومات یکجا کر دی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے عام اہل علم کے لیے بھی مطلوبہ معلومات تک رسائی اور استفادہ آسان ہو جاتا ہے۔ اس موسوعہ میں تیرہویں صدی ہجری تک کے فقہ اسلامی کے ذخیرہ کو جدید اسلوب میں پیش کیا گیا ہے اور چاروں مشہور فقہی مسالک کے مسائل و دلائل کو جمع کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔ ہر مسلک کے دلائل موسوعہ میں شامل کیے گئے ہیں، موازنہ اور ترجیح کی کوشش نہیں کی گئی ہے، دلائل کے حوالہ جات ہر صفحہ پر درج کیے گئے ہیں اور احادیث کی تخریج کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ موسوعہ کی ہر جلد کے آخر میں سوانحی ضمیمہ شامل کیا گیا ہے جس میں اس جلد میں مذکور فقہا کے مختصر سوانحی خاکے مع حوالہ جات درج کیے گئے ہیں۔ اسی مہتم بالشان موسوعہ کا اردو ترجمہ وزارت اوقاف و اسلامی امور کویت اور اسلامی فقہ اکیڈمی (انڈیا)کے تعاون سے اس وقت آپ کے سامنے ہے۔ ترجمہ نہایت اعلیٰ معیار کا ہے، ترجمہ کے لیے ہندوستان بھر کے ممتاز علماء کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ ترجمہ ہونے کے بعد اس سلسلہ میں ممتاز ماہرین سے نظر ثانی کرائی گئی ہے۔ پھر یہیں پر بس نہیں کویت کی وزارت اوقاف و اسلامی امور نے ترجمہ کے بارے میں مزید اطمینان حاصل کرنے کے لیے مستقل ایک نظر ثانی کمیٹی کویت میں تشکیل دی۔ موسوعہ فقہیہ کے اردو ترجمہ کے اس منصوبہ سے جہاں ایک طرف جدید اور سہل اسلوب میں اسلامی فقہ و قانون کے مکمل سرمایہ سے اردو خواں طبقہ کےلیے استفادہ ممکن ہو سکے گا اور ماہرین قانون کے لیے یہ موسوعہ ایک قیمتی تحفہ ثابت ہوگا وہیں دوسری طرف اس کے ذریعہ باصلاحیت علما اور نئی نسل کی ابھرتی ہوئی خفیہ صلاحیتوں سے روشناس و مستفید ہونے کا موقع بھی ملے گا۔




اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ پاک طینت ہستیاں ہیں جنہوں نے دین اسلام کی نشر و اشاعت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا اور دین اسلام کی شمع تاقیامت  روشن رکھنے کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہ کیا۔ زیر نظر کتاب ’اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ‘ میں انہیں بزرگ ہستیوں کی زندگی کے لمحات کو الفاظ جامہ پہنایا گیا ہےتاکہ اہل اسلام ان کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے لیے راہ عمل متعین کریں۔ اس کتاب میں ایسے ہزاروں صحابہ کرام کے حالات و واقعات بھی سامنے آگئے ہیں جن کے نام تک سے عموماً  لوگ ناواقف ہیں۔ ان کے تقوی و للہیت، صبرو استقامت، انکسار و تواضع اور جانبازی و خوش اخلاقی دیکھ کر اندازہ ہے کہ واقعتاً یہ لوگ اس قابل تھے کہ خدا تعالیٰ ان کو بیشتر دفعہ ’رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ‘ کا سرٹیفیکیٹ دیتا۔ ان کی انہی خوبیوں کی وجہ سے آج تک فوز و سعادت کے چراغ روشن ہیں۔ اس کتاب کے مصنف علامہ ابن اثیرعلی نب محمد الجزری ہیں جو ثقاہت و عدالت سے متصف اور حفظ و ضبط کے خصائص سے بہرہ مند ہیں۔ انہوں نے اس کتاب میں صحابہ کرام کے تذکرے حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کیے ہیں۔ مولانا کی تالیف کردہ عربی کتاب آٹھ حصوں پر مشتمل تھی جس کے پہلے سات حصوں کا اردو ترجمہ انڈیا کے عالم دین مولانا عبدالشکور فاروقی نے کیا ہے جبکہ آٹھویں اور آخری حصے کا ترجمہ مختلف علما نے مل کر کیا ہے۔ یہ کتاب اصحاب رسولﷺ کے حالات و واقعات پر ایک اساسی تالیف ہے اور گویا ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے۔









حیات امام مالک:
حضرت امام مالکؒ (۱۷۹ھ) امام دارالھجرۃ کے نام سے معروف ہیں، حدیث کی خدمت میں آپؒ نے حدیث کی مشہور کتاب مؤطا تالیف کی، اس کتاب کومرتب کرنے کے بعد سترعلماء کے سامنے پیش کیا گیا توسب نے مؤاطات (موافقت) ظاہر کی؛ اِسی لیے اس کا نام مؤطا رکھا گیا، حضرت شاہ ولی اللہؒ کے قول کے مطابق مؤطا میں سترہ سو کے قریب روایات ہیں، جن میں سے ۶۰۰/ مسند اور ۳۰۰/مرسل ہیں، بقایا فتاویٰ صحابہؓ اور اقوالِ تابعین ہیں، حضرت امام مالکؒ سے مؤطا پڑھنے والے حضرات میں امام شافعیؒ، یحییٰ اندلسیؒ اور امام محمدؒ کے اسماء سرفہرست ہیں، امام شافعیؒ فرماتے ہیں کہ "اصح الکتب بعد کتاب اللہ المؤطا" (موطا مالک، روایت محمدبن الحسن:۱/۳۰، شاملہ،ناشر:دارالقلم، دمشق) مگر یہ بات اس وقت کی ہے جب صحیح بخاری اور صحیح مسلم تالیف نہ ہوئی تھیں۔
محدث نے الفاظِ حدیث کی خدمت کی تواس کا نام حافظِ حدیث ہوا اور مجتہد نے معانی حدیث کی خدمت کی تواس کا لقب عالمِ حدیث اور فقیہ ہوا، امام مالکؒ میں اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں خصوصیات ودیعت فرمائی تھیں کہ احادیث کا ذخیرہ بھی جمع کیا اور فقہ کے بھی امام ٹھہرے:
"اخرج إِبْنِ ابِیْ حَاتِم عَنْ طریق مَالِکْ بِنْ أَنَس عَنْ رَبِیْعَۃَ قَالَ ان اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالَیٰ أَنْزَلَ إِلَیْکم الْکِتَابَ مُفَصِّلاً وَتَرَکَ فِيهِ مَوْضِعًا لِلسُّنَّةِ، وَسَنَّ رَّسُولُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرَكَ فِيهَا مَوْضِعًا لِلرَّأْيِ"۔
(الدرالمنثور فی التأویل بالماثور، جلال الدین السیوطی:۴/۱۲۰، شاملہ،موقع التفاسیر)
ترجمہ:امام مالکؒ امام ربیعہؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ربیعہؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مفصل کتاب نازل فرمائی اور اس میں حدیث کے لیئے جگہ چھوڑی اور آنحضرتﷺ   نے بہت سی باتیں حدیث میں بیان فرمائیں اور قیاس کے لیئے جگہ رکھی۔
الفاظ مقصود بالذات نہیں، مقصود اطاعت اور اتباع شریعت ہے اور یہ مقصد معانی کے سمجھنے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے، مقصود بالذات معنی ہیں، الفاظ نہیں الفاظ مقصود بالعرض ہیں، امام مالکؒ تبع تابعینؒ کے طبقہ میں تھے، آپؒ کے شیوخ واساتذہ کی تعداد نوسو تھی، جن میں تین سو تابعینؒ اور چھ سو تبع تابعینؒ تھے (تہذیب الاسماء للنووی:) امام شافعیؒ کا فرمان ہے کہ آپؒ کو اگرحدیث کے ایک ٹکڑے پر بھی شک پڑجاتا تو پوری کی پوری ترک کردیتے تھے، محدثینؒ کے نزدیک اصح الاسانید میں بحث ہے، مشہور ہے کہ جس کے راوی مالکؒ نافعؒ سے اور نافعؒ ابن عمرؓ سے ہوں وہ اسناد سب سے صحیح ہے (ترجمان السنہ:۱/۲۴۲) لیثؒ، ابنِ مبارکؒ، امام شافعیؒ اور امام محمدؒ جیسے مشاہیر امت آپؒ کے تلامذہ میں سے ہیں اور ابنِ وہبؒ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں ایک منادی سے سنی کہ مدینہ میں ایک مالک بن انس اور ابن ابی ذئبؒ کے سوا کوئی فتوےٰ نہ دیا کرے (مشاہیرِامت:۲۹، از قاری محمدطیبؒ) امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام اسحاق بن ابراہیمؒ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ اگر امام مالکؒ امام اوزاعیؒ اور امام ثوریؒ کسی مسئلہ پر متفق ہوجائیں تووہی مسئلہ حق اور سنت ہوگا؛ اگرچہ اس میں نص نہ موجود ہو (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۵) ابن سعدؒ فرماتے ہیں کہ امام مالکؒ ثقہ، مامون، ثبت، متورع، فقیہ، عالم اور حجت ہیں (تہذیب التہذیب:۱۰/۸) علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ امام مالکؒ الامام الحافظ فقیہ الامت شیخ الاسلام اور امام دارالھجرت تھے (تذکرہ:۱/۱۹۳) آپؒ کا مسلک زیادہ تراُندلس ومغرب پہنچا (بستان المحدیثن:۲۶) افریقی ممالک خصوصاً مغربی افریقہ میں زیادہ تراُنہی کے مقلد ہیں، اس جلالت علم کے باوجود وہ امام ابوحنیفہؒ کے معتقد تھے "نظرمالک فی کتب ابی حنیفۃ وانتفعہ بھا کمارواہ الدراوردی وغیرہ" (الانتقاء:۱۴) سو یہ حقیقت ہے کہ امام مالکؒ کا امام ابوحنیفہؒ کی کتابوں کو دیکھنا اور ان سے نفع حاصل کرنا ثابت ہے۔




مؤطا امام مالک حدیث کی ایک ابتدائی کتاب ہے ۔ جسے امام  مالک بن انسؒ (197ھ) نے تصنیف کیا۔ انہی کی وجہ سے مسلمانوں کا ایک  طبقہ فقہ مالکی کہلاتا ہے جو اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروکار آج بھی بڑی تعداد میں موجود  ہیں۔ امام مالکؒ فقہ اور حدیث میں اہل حجاز بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے امام ہیں۔ آپ کی کتاب "الموطا" حدیث کے متداول اور معروف مجموعوں میں سب سے قدیم ترین مجموعہ ہے۔ مؤطا سے پہلے بھی احادیث کے کئی مجموعے تیار ہوئے اور ان میں سے کئی ایک آج موجود بھی ہیں لیکن وہ مقبول اور متداول نہیں ہیں۔ مؤطا کے لفظی معنی ہے، وہ راستہ جس کو لوگوں نے پےدرپے چل کر اتنا ہموارکردیا ہو کہ بعد میں آنے والوں کے لیے اس پرچلنا آسان ہوگیا ہو۔ جمہور علماء نے موطا کو طبقات کتب حدیث میں طبقہ اولیٰ میں شمار کیا ہے۔ امام شافعیؒ فرماتے ہیں’’ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک‘‘کہ میں نے روئے زمین پر موطا امام مالکؒ سے زیادہ کوئی صحیح کتاب (کتاب اللہ کے بعد) نہیں دیکھی۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ موطا کے بارے میں لکھتے ہیں’’ فقہ میں موطا امام مالک سے زیادہ کوئی مضبوط کتاب موجود نہیں ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر  کئی اہل علم نے اس کی شروح لکھیں۔ امام ابن عبد البرؒ کی ’’الاستذکار‘‘ مؤطا امام مالک کی ضخیم شرح ہے۔ اور اسی طرح اردو زبان میں علامہ وحید الزمان ﷫ نے صحاح ستہ کی طرح اس کا بھی ترجمہ کیا طویل عرصہ سے یہی ترجمہ متداول ہے.
مؤطا لفظ توطیہ سے ہے، توطیہ کے معنی روندنے، تیار کرنے اور آسان کرنے کے ہیں، امام مالکؒ نے اسے مرتب کرکے ستر فقہاء کے سامنے پیش کیا، سب نے اس سے اتفاق کیا، اسی وجہ سے اس اتفاق شدہ مجموعہ کو مؤطا کہا گیا، امام مالکؒ نے اسے فقہاء کے سامنے کیوں پیش کیا؟ محدثین کے سامنے کیوں نہیں؟ ملحوظ رہے کہ ان دنوں فقہاء ہی حدیث کے اصل امین سمجھے جاتے تھے اور یہی لوگ مراداتِ حدیث کوزیادہ جاننے والے مانے جاتے تھے۔
امام مالکؒ کا موضوع چونکہ زیادہ ترفقہ تھا، اس لیئے آپ نے اس میں سند کے اتصال کی بجائے تعامل امت کوزیادہ اہمیت دی ہے، آپ اس میں اقوالِ صحابہؓ اور تابعینؒ بھی لے آئے ہیں، آپ کے ہاں سنت وہی ہے جس پر اُمت میں تسلسل سے عمل ہوتا آیا ہو، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

"مز جہ باقوال الصحابۃ وفتاویٰ التابعین ومن بعدھم"۔ 

(مقدمہ فتح الباری:۴)

ترجمہ: آپ نے صحابہ کے اقوال اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کے فتاوے اس میں شامل کیئے ہیں۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اسے فقہ کی کتاب شمار کرتے ہیں (مسوی عربی شرح موطا:۴) جہاں تک اس کی اسانید کا تعلق ہے اس کے بارے میں لکھتے ہیں:

"لیس فیہ مرسل ولامنقطع الاوقداتصل السند بہ من طرق اخریٰ"۔

(حجۃ اللہ البالغہ:۱/۱۳۳)

ترجمہ: اس میں کوئی مرسل اور منقطع روایت ایسی نہیں جودوسرے طرق سے متصل نہ ہوچکی ہو۔

مؤطاامام مالک میں ۸۲۲/روایات مرفوع ہیں، جوحضور   تک پہنچتی ہیں ان میں سے بھی ۲۴۴/مرسل ہیں، جوتابعینؒ کی روایت سے حضور   تک پہنچی ہیں، انہیں محدثین کی اصطلاح میں مرسل کہتے ہیں، اس دور میں مرسل احادیث لائقِ قبول سمجھی جاتی تھیں، جب تک جھوٹ اور فتنوں کا دور شروع نہیں ہوا، امام ابوحنیفہؒ اور امام مالکؒ جیسے اکابر مرسل روایات کوبلاتردد قبول کرتے رہے، امام مالکؒ سے مؤطا کے سولہ نسخے آگے چلے، جن میں صحیح ترین نسخہ امام یحییٰ بن یحییٰ مصمودی اندلسی کا ہے، مؤطا مالک ان دنوں اسے ہی کہتے ہیں، بڑے بڑے متبحر علماء نے اس کی شروح اور حواشی لکھے ہیں، حضرت امام شافعیؒ نے لکھا ہے:

"ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک"۔

(تزئین المالک:۷۳)

ترجمہ:تختۂ زمین پر کوئی کتاب قرآن کریم کے بعد مؤطا سے زیادہ صحیح نہیں۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب صحیح بخاری اور صحیح مسلم وجود میں نہ آئی تھیں اور صحتِ سند کے لحاظ سے مؤطا مالک اپنی مثال آپ تھی، اس کی کوئی روایت جرح راوی کی وجہ سے ضعیف نہیں، امام مالکؒ سے ایک ہزار کے قریب علماء نے مؤطا لکھی۔

(بستان المحدثین اردو ترجمہ:۲۲، مطبع: کراچی)






منسوخ اور تحریف وملاوٹ شدہ کتاب کا مطالعہ نہ کرنا چاہیے:


أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ مُجَالِدٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُسْخَةٍ مِنْ التَّوْرَاةِ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذِهِ نُسْخَةٌ مِنْ التَّوْرَاةِ ، فَسَكَتَ ، فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَوَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ يَتَغَيَّرُ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيهِ : ثَكِلَتْكَ الثَّوَاكِلُ ، مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَنَظَرَ عُمَرُ إِلَى وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ ، وَمِنْ غَضَبِ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، لَوْ بَدَا لَكُمْ مُوسَى فَاتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي ، لَضَلَلْتُمْ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ ، وَلَوْ كَانَ حَيًّا وَأَدْرَكَ نُبُوَّتِي لَاتَّبَعَنِي " .
حضرت جابر بیان کرتے ہیں ایک مرتبہ حضرت عمر بن خطاب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تورات کا ایک نسخہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول یہ تورات کا ایک نسخہ ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے حضرت عمر نے اسے پڑھنا شروع کردیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ تبدیل ہونے لگا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہیں عورتیں روئیں کیا تم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھ نہیں رہے؟ حضرت عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف دیکھا تو عرض کی میں اللہ اور اس کے رسول کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ہم اللہ کے پروردگار ہونے اسلام کے دین حق ہونے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اب اگر موسی تمہارے سامنے آجائیں اور تم ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم سیدھے راستے سے بھٹک جاؤ گے اور اگر آج موسی زندہ ہوتےاور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو وہ بھی میری پیروی کرتے۔




حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ : أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَابِتٍ ، قَالَ : جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنِّي مَرَرْتُ بِأَخٍ لِي مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ ، فَكَتَبَ لِي جَوَامِعَ مِنَ التَّوْرَاةِ ، أَلَا أَعْرِضُهَا عَلَيْكَ ؟ قَالَ : فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : فَقُلْتُ لَهُ : أَلَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ عُمَرُ : رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا ، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا ، وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا ، قَالَ : فَسُرِّيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، ثُمَّ قَالَ : " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَصْبَحَ فِيكُمْ مُوسَى ، ثُمَّ اتَّبَعْتُمُوهُ وَتَرَكْتُمُونِي لَضَلَلْتُمْ ، إِنَّكُمْ حَظِّي مِنَ الْأُمَمِ ، وَأَنَا حَظُّكُمْ مِنَ النَّبِيِّينَ " .[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » مُسْنَدُ الْمَكِّيِّينَ » حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ ... رقم الحديث: 15550(15437)+17962(17871)]
حضرت عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک کتاب لے کر آئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بنوقریظہ میں میرا اپنے ایک بھائی پر گذر ہوا اس نے تورات کی جامع باتیں لکھ کر مجھے دی ہیں کیا وہ میں آپ کے سامنے پیش کروں ؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ بدل گیا میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر عرض کیا ہم اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول مان کر راضی ہیں تو نبی کریم کی وہ کیفیت ختم ہوگئی پھر فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے- اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگتے تو تم گمراہ ہوجاتے امتوں سے تم میرا حصہ ہو انبیاء میں سے میں تمہارا حصہ ہوں ۔




الراوي : أبو الدرداء | المحدث : الألباني | المصدر : السلسلة الصحيحة:7/628(3207)
الراوي : عبدالله بن الحارث | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح الجامع: 5308


گمراہ قسم كے لوگوں كى كتابوں كا مطالعہ جارى نہ ركھنے كى نصيحت:


آپ غور کریں اور اندازہ کریں کہ ایک اتنا بڑا عالم (عمر رضی اللہ عنہ) کہ جن کا مقام یہ ہے کہ ”لو کان بعدی نبیا لکان عمر“ کہ میرے بعد اگر نبوت کا دروازہ کھلا ہوتا تو عمر نبوت کی استعداد رکھتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ اللہ کی کتاب کو سمجھنے والے تھے۔ اس درجے کا صحابی سب کچھ سیکھنے کے بعد توریت پڑھ رہا ہے۔ توریت بھی وہ پڑھی، جو غیر تحریف شدہ، پہلے نبی کا علم شریعت تھا، اللہ کی طرف سے ایک نبی پر نازل ہوا تھا۔ اُس پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا غصہ آیا کہ آنکھیں سرخ ہوگئیں۔ آپ اندازہ کریں کہ جو علم علم تھا، لیکن اب منسوخ ہوگیا، اس کی تحصیل کی خواہش پر حضرت عمر پر آپ کو اتنا غصہ آیا تو جو علم سرے سے علم ہی نہیں، دنیوی فن ہے، اگر مسلمان اس زمانے میں علم الٰہی سے جاہل ہوکر اسے حاصل کر کے اپنے آپ کو عالم سمجھیں اور علم کی حدیثیں اس پر فٹ کریں تو ایسے لوگوں پر قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس قدر غصہ آئے گا؟ اندازہ کرلیا جاوے۔

جس طرح یہود و نصاریٰ حیران ہیں کہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو اور اپنے پیغمبر کی حقیقی تعلیم کو چھوڑ دیا ہے اور اپنے خود غرض و لالچی علماء کی خواہشات کے مطیع ہوگئے ہیں، کیا اسی طرح تم بھی متحیر ہو کہ اپنے دین کو ناقص و نامکمل سمجھ کر دوسروں کے دین و شریعت کے محتاج ہو رہے ہو، حالانکہ میری لائی ہوئی شریعت اتنی مکمل اور واضح ہے کہ اگر آج موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو وہ بھی میری شریعت کے پابند اور میرے احکام کے مطیع ہوتے۔


اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کتاب و سنت کو چھوڑ کر یہود و نصاری اور حکماء اور فلاسفہ کی کتابوں کی طرف بے ضرورت رجوع کرنا اور ان کی طرف التفات کرنا مناسب نہیں بلکہ یہ گمراہی کی بات ہے۔

مسلمان پر اپنے عقيدہ اور ايمان كى حفاظت كرنا، اور اپنى فطرت اور سوچ و فكر كى كو سلامت ركھنا، اور اپنے دين اور دل كو شبہات و فتنوں سے پاك كرنا واجب ہے، كيونكہ دل كمزور ہوتے ہيں اور شبہات اچكنے والى چيز كا درجہ ركھتے ہيں، وہ بدعتيوں اور گمراہ لوگوں كى مزين كردہ اشياء كو اچك ليتے ہيں ليكن حقيقت ميں يہ شبہ بہت كمزور اور واہى ہوتا ہے.

اور پھر بدعتيوں اور گمراہ قسم كے لوگوں يا پھر شرك و خرافات سے بھرى ہوئى يا دوسرے اديان باطلہ كى كتابوں كا مطالعہ كرنا جن ميں تحريف و تغير پيدا ہو چكا ہے، يا الحادى نظريہ اور نفاق پر مشتمل كتابوں كى ورق گردانى كرنا جائز نہيں.

ان كتب كا مطالعہ صرف وہى شخص كر سكتا ہے جو علمى طور پر اس كى اہليت ركھتا ہو، وہ ان كا مطالعہ كر كے ان كتب كا رد كرنا چاہتا ہو اور اس ميں بيان كردہ فساد كو واضح كرنا چاہے تو اس كا مطالعہ كر لے.

ليكن جس كے پاس شرعى علم نہيں تو وہ ان كتابوں كا مطالعہ كرے گا تو غالبا وہ اس مطالعہ سے حيرت و گمراہى ہى پائيگا، بہت سارے لوگ اس كا شكار بھى ہو چكے ہيں، حتى جو شرعى طالب علم بھى، بات يہيں ختم نہيں ہوتى بلكہ وہ كفر تك كا ارتكاب كر بيٹھے اللہ تعالى محفوظ ركھے.

ان كتابوں كا مطالعہ كرنے والا جس سے دھوكہ كھاتا ہے وہ يہ بات ہے كہ اس كى سوچ ہوتى ہے اس كا دل تو ان شبہات سے زيادى قوى ہے، ليكن زيادہ مطالعہ كرنے كى وجہ سے اچانك اسے محسوس ہوتا ہے كہ اس كے دل ميں تو وہ شبہات گھر كر چكے ہيں جن كا اسے خيال تك بھى نہ تھا.

اس ليے علماء كرام اور سلف صالحين نے اس طرح كى كتابوں كا مطالعہ كرنا حرام قرار ديا حتى كہ ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ نے ايك رسالہ بھى تصنيف كيا جس كا عنوان " تحريم النظر فى كتب الكلام " ركھا.



ذيل ميں ہم چند ايك علماء كرام كى كلام نقل كرتے ہيں جس ميں غير عالم شخص كے ليے يہ كتابيں پڑھنا حرام بيان ہوا ہے.


الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:


" حنابلہ كہتے ہيں: اہل بدعت كى كتابوں كا مطالعہ كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى ان كتابوں كا جو حق و باطل پر مشتمل ہوں، اور اس كى روايت كرنا بھى جائز نہيں، كيونكہ ايسا كرنے ميں عقائد كے ليے نقصان و ضرر ہے.


اور قيلوبى كا قول ہے: غزوات اور رقائق پر مشتمل جھوٹى كتابيں پڑھنا حرام ہيں " انتہى


ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 34 / 185 ).


شاطبى رحمہ اللہ نے يہى فتوى ديا ہے:


" عوام كے ليے ابو طالب مكى كى " قوت القلوب " نامى كتاب كا مطالعہ كرنا حلال نہيں، كيونكہ اس ميں صوفيوں كى خرافات پائى جاتى ہيں "


ديكھيں: الافادات و الاشادات ( 44 ).


اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:


" اس مسئلہ ميں بہتر يہى ہے كہ فرق كيا جائے لہذا جو متمكن نہ ہو اور ايمان ميں رسوخ نہ ركھتا ہو تو اس كے ان كتابوں كا مطالعہ كرنا جائز نہيں،  ليكن رسوخ ركھنے والے كے ليے جائز ہے اور خاص كر جب اسے مخالف كا رد كرنے كى ضرورت ہو " انتہى


ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 525 ).


اور محمد رشيد رضا كہتے ہيں:


" شاگردوں اور عوام كو اس طرح كى كتابيں پڑھنے سے روكنا چاہيے تا كہ وہ ان كے عقائد اور ان كے دينى احكام ميں ان پر كوئى مشكل پيدا نہ كريں تو وہ اس كوے كى طرح ہو جائيں جو مور كى چال چلنے كى كوشش ميں اپنى چال بھى بھول بيٹھا، اور نہ ہى سيكھ سكا " انتہى


ديكھيں: الفتاوى محمد رشيد رضا ( 1 / 137 ).


شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:


" صوفياء كى كتابيں ركھنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كا مطالعہ و مراجعہ كرنا جائز ہے، صرف وہى شخص اس كا مطالعہ كرے جو ان ميں موجود بدعات كا علم ركھتا ہو تا كہ وہ اس كا رد كر سكے تو اس صورت ميں اس كا مطالعہ كرنے كا عظيم فائدہ ہو گا وہ يہ كہ اس بدعت كا علاج اور رد كرنا تا كہ لوگ اس سے محفوظ رہ سكيں " انتہى


ديكھيں: فتاوى نور على الدرب التوحيد و العقيدۃ ( 267 ).


اور مستقل فتاوى كميٹى كا فتوى ہے:


" ہر مكلف مرد و عورت پر بدعتيوں اور گمراہ لوگوں كى كتابيں اور ميگزين اور رسالے پڑھنا حرام ہے جو خرافات نشر كرتے اور جھوٹى مشہورى پر مشتمل اور مكارم اخلاق سے دور كر كے اخلاق رذيلہ كى دعوت ديں.


ليكن اگر كوئى انہيں پڑھ كر اس ميں موجود الحاد و انحراف كا رد كرے اور اس پر چلنے والوں كو صراط مستقيم پر چلنے كى نصيحت كرے اور ان كے اس فعل كو برا ثابت كرے اور لوگوں كو اس راہ سے روكے اور اجتناب كرنے كا كہے تو اس كے جائز ہے " انتہى


ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 19 / 138 ).


اس ليے ـ ہمارے بھائى ـ آپ اپنے آپ كو شر و برائى اور شبہات ميں كيوں ڈالنے كى كوشش كر رہے ہيں، حالانكہ آپ كو اس كى كوئى ضرورت و حاجت نہيں اور آپ اس سے مستغنى ہيں آپ اس غلط عقيدہ اور انحراف سے سليم ہونے پر اللہ كا شكر ادا كريں اور ہدايت و ثابت قدمى كى اس عظيم نعمت پر اللہ كا شكر ادا كرتے ہوئے اس كى حفاظت كريں اور اسے ايسے خطرناك كام ميں پيش نہ كريں كہ يہ ختم ہو جائے.


پھر عمر تو بہت ہى قليل ہے كہ اسے باطل قسم كى كتابوں كے مطالعہ ضائع كيا جائے، بلكہ حق و نافع علم اورخير و بھلائى تو بہت ہے، اگر كوئى شخص اپنى عمر اور وقت كو كسى علمى كتاب اور نفع مند مثلا تفسير يا كتب حديث اور فقہ و رقائق و زہد اور ادب و فكر اور تربيت كى كتابوں كے مطالعہ ميں صرف كرے تو بھى اس كى حاجت پورى نہيں ہوتى !!


تو پھر وہ ان خرافات و گمراہى پر مشتمل كتابوں كے مطالعہ ميں كس طرح مشغول ہو سكتا ہے جسے رافضى شيعہ اور صوفيوں نے لكھا ہے ؟


عزيز بھائى آپ علامہ ابن جوزى رحمہ اللہ كى ايك قيمتى نصيحت سنيں جس ميں انہوں نے نافع علوم كا اہتمام كرنے كى ترغيب دلاتے ہوئے كہا ہے:


" رہا عالم تو ميں اسے يہ نہيں كہتا كہ: علم كو پورا حاصل كرو اور نہ يہ كہتا ہوں كہ: بعض پراقتصار كر لوں.


بلكہ ميں يہ كہتا ہوں: اہم اور ضرورى كو مقدم كرو، كيونكہ عقل و دانش ركھنے والا شخص وہى ہے جو اپنى عمر كى قدر كرے اور اس كے مقتضى ميں عمل كرے، اگرچہ عمر كى مقدار كے مطابق علم حاصل كرنے كى كوئى راہ نہيں، ليكن يہ ہے كہ وہ اغلب پر بنياد ركھے، لہذا اگر وہ وہاں پہنچ گيا تو اس نےہر مرحلہ كے ليے زاد راہ تيار كر ليا اور اگر اس تك پہنچنے سے قبل فوت ہو گيا تو اس كى نيت وہاں ضرور پہنچ جائيگى.


مقصد يہ كہ نفس كو جتنا ممكن ہو سكے علم و عمل كے كمال تك پہنچايا جائے " انتہى مختصرا


ديكھيں: صيد الخاطر ( 54 - 55 ).








* دین و عقائد کے بارے میں ندوة العلماء کے مسلک کی بنیاد دین خالص پر ہے جو ہر قسم کی آمیزش و آلائش سے پاک ہے، تاویل و تحریف سے بلند، ملاوٹ و فریب کی دسترس سے دور اور ہر اعتبار سے مکمل و محفوظ ہے.

* دین کے فہم اور اس کی تشریح و تعبیر میں اس کی بنیاد اسلام کی اولین اور صاف و شفاف سرچشموں سے استفادہ اور اس کی اصل کی طرف رجوع پر ہے.

* اعمال و اخلاق کے شعبہ میں دین کے جوہر و مغز کو اختیار کرنے، اس پر مضبوطی سے قائم رہنے احکام_شرعیہ پر عمل، حقیقت_دین اور روح_دین سے زیادہ قرب، تقویٰ اور صلاح_باتیں پر ہے.* تصور_تاریخ میں اس کی بنیاد اس پر ہے کہ اسلام کے ظہور و عروج کا دوراول سب سے بہتر اور قابل_احترام دور، اور وہ (صحابہ_کرام رضی الله تعالیٰ علیھم اجمعین) نسل جس نے آغوش_نبوت اور درگاہ_رسالت میں تربیت پائی اور قرآن و ایمان کے مدرسہ سے تیار ہوکر نکلی، سب سے زیادہ مثالی اور قابل_تقلید نسل ہے اور ہماری سعادت و نجات اور فلاح و کامرانی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اس سے استفادہ کریں اور اس کے نقش_قدم پر چلنے کی کوشش کریں.

* نظریہ_علم اور فلسفہ_تعلیم میں اس کی اساس اس پر ہے کہ علم بذات خد ایک اکائی ہے جو قدیم و جدید اور مشرق و مغرب کے خانوں میں تقسیم نہیں کی جاسکتی، اگر اس کی کوئی تقسیم ممکن ہے تو وہ تقسیم صحیح و غلط، مفید و مضر اور ذرائع و مقصد کے اعتبار سے ہوگی.

* استفادہ اور افادہ اور ترک و قبول کے شعبہ میں اس کا عمل اس حکیمانہ تعلیم_نبوی پر ہے "الْحِكْمَةُ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ ، حَيْثُمَا وَجَدَهَا فَهُوَ أَحَقُّ بِهَا .[جامع الترمذي:٢٦٣١(٢٦٨٧)] یعنی "حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے، جہاں بھی وہ اس کو پاۓ، وہ اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے".



نیز قدیم حکیمانہ اسلوب "خذ ما صفا و دع ما كدر" يعنىجو صاف و نظیف ہو اسے لے لو، جو آلودہ و کثیف ہو اسے چھوڑدو"* اسلام کے دفاع اور عصر_حاضر کی لادینی قوتوں کے مقابلہ میں اس کی اساس اس ارشاد_ربانی پر ہے "وَاَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ" (الانفال:٨/٦٠) یعنی ان کے مقابلہ کے لئے جتنی قوت تم سے ممکن ہوسکے تیار کرو.

* دعوت إلى الله، اسلام کے محسن و فضائل کی تشریح اور ذہن و عقل پر اس کی حقانیت و صداقت پر مطمئن کرنے میں اس کا عمل اس حکیمانہ وصیت پر ہے کہ "حَدِّثُوا النَّاسَ بِمَا يَعْرِفُونَ، أَتُحِبُّونَ أَنْ يُكَذَّبَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ" يعنى "لوگوں سے وہی حدیث (بات) بیان کرو جس کو وہ سمجھ سکیں کیا تم اس بات کو اچھا سمجھتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی (جھٹلایا) جائے؟ [صحيح البخاري » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب مَنْ خَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمًا دُونَ قَوْمٍ كَرَاهِيَةَ ...رقم الحديث: ١٢٥]

* عقائد و اصول میں وہ جمہور اہل_سنّت کے مسلک کی پابندی اور سلف کی آراء و تحقیقات کے دائرہ میں محدود رہنا ضروری سمجھتا ہے، فروی و فقہی مسائل کے بارے میں اس کا مسلک و اصول یہ ہے کہ حتیٰ الامکان اختلافی مسائل کو چھیڑنےاور ہر ایسے طرز_عمل سے احتراز کیا جاۓ جس سے باہمی منافرت بڑھے اور امت کا شیرازہ منتشر ہو، سلف_صالحین سے حسن_ظن رکھا جاۓ اور ان کے لئے عذر تلاش کیا جاۓ، اسلام کے مصلحت اجتمائی کو ہر مصلحت پر ترجیح دی جاۓ.


مختصرا یہ کہ حکیم السلام حضرت شاہ ولی الله دہلوی رح (١١٧٦ھ) کے علمی و فکری اور کلامی و فقہی مدرسہ_فکر سے زیادہ قریب اور ہم آہنگ ہے، اس لہذ سے ندوہ العلماء ایک محدود تعلیمی مرکز سے زیادہ ایک جامع اور کثیرالمقاصد دبستان_فکر اور مکتب_فکر ہے.

No comments:

Post a Comment