نیچے اسلامی جامع ومدلل آسان اہم کتابوں کا مختصر تعارف اور پچھلے مشہور اور نیک ائمہ کرام کی اسلامی عربی کتابوں کے تراجم دیے جارہے ہیں، ایک بار ان کتابوں کی فہرست دیکھ کر ان کے دلچسپ مضامین سے ان کتابوں کی ضرورت، اہمیت اور قدر وقیمت کا اندازہ لگالیجیے گا۔
۔۔۔اور آپس میں ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس سے محبت بڑھے گی۔
[سنن الکبریٰ (امام) البيهقى: 6/169، حدیث#11946+119467]
الله پاک نے فرمایا:
ور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ وہ نیکی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔۔۔
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ نے ایک سائل کی درخواست پر عوام الناس کیلئے بقدر ضرورت علمِ دین سیکھنے کیلئے درج ذیل نصاب منتخب فرمایا، جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کتابوں کے مطالعے سے دین کی اتنی ضروری معلومات حاصل ہوجائیں گی کہ ان کے بعد اپنی زندگی بھی سنور جائے اور انسان کسی باطل نظریے سے گمراہ بھی نہ ہو۔ فتاوی عثمانی جلد 1 صفحہ 158
پہلا حصہ:
جو ابتدائی معلومات پر مشتمل ہے جن کے بغیر ایک سچے مسلمان کی طرح زندگی گذارنا ممکن نہیں۔
حیاۃ المسلمین - مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ -
حیاۃ المسلمین
فروغ الایمان - مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
آن لائن پڑھیے ڈاؤن لوڈ کیجئے
تعلیم الدین - مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
آن لائن پڑھیے ڈاؤن لوڈ کیجئے
بہشتی گوہر - مردوں کے لیے
آن لائن پڑھیے ڈاؤن لوڈ کیجئے
بہشتی زیور - عورتوں کے لیے
بہشتی زیور
جزاء الاعمال - مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
جزاء الاعمال
سیرتِ خاتم الانبیاء ﷺ - مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ
سیرت خاتم الانبیاء ﷺ
حکایات صحابہ - مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ (فضائلِ اعمال کا پہلا حصہ)۔
فضائل اعمال
تاریخ اسلام کامل - حضرت مولانا محمد میاں رحمۃ اللہ علیہ
تاریخ اسلام
اسوۂ رسول اکرم ﷺ - ڈاکٹر عبد الحی عارفی رحمہ اللہ
اسوہ رسول اکرم ﷺ
دوسرا حصہ:
پہلے حصے کی تکمیل کے بعد یہ حصہ ایسے مطالعے پر مشتمل ہے جس سے دینی معلومات میں اتنی وسعت اور استحکام حاصل ھوجائے گا کہ انسان گمراہ کرنے والوں سے گمراہ نہ ھوگا۔ مفتی تقی عثمانی
معارف القرآن - مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ ۔۔۔ یا ۔۔۔ تفسیرِعثمانی - مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ
تفسیر عثمانی معارف القرآن
معارف الحدیث - مکمل مولانا منظوراحمد نعمانی رحمہ اللہ
معارف الحدیث
علم الفقہ - مولانا عبد الشکور لکھنوی رحمہ اللہ
علم الفقہ
عقائد اسلام - مولانا ادریس کاندہلوی رحمہ اللہ
عقائد اسلام
شریعت و طریقت - مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
شریعت و طریقت
*************************
*************************
*************************
اسلام قبول کرنے والے نو مسلم بھائی بہنوں کی کہانی خود ان کی زبانی:حضرت مولانا کلیم احمد صدیقی دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام اور خاص طور پر ہندوستان کی ان عظیم شخصیات میں سے ہیں جن کے دل میں ہر لمحہ، ہر ساعت، امت کے ہر طبقے، ہرمذہب اور ہر مسلک چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، ہندو، یہودی یا عیسائی چاہے وہ جس مذہب سے ہی کیوں نہ ہو ان کا اپنا ہے، ان کا انسانی بھائی ہے، ان کا دل ہر امتی کیلئے دن رات تڑپتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں ہندوئوں میں کام کرنے کا عجیب سلیقہ اور ڈھنگ عطا فرمایا ہے، اب تک ان کے ہاتھوں بلا مبالغہ لاکھوں ہندو مشرف با اسلام ہوچکے ہیں اس میں جہاں ان کی انسانی خیر خواہی روز روشن کی طرح جھلکتی ہے وہاں ان کے اندر ہمدردی، درد اور کڑھن کا ایک گہرا زخم بھی عیاں ہوتا ہے جو کبھی مندمل ہونے کا نام نہیں لیتا، میں نے جب بھی ان سے ملاقات کی ہے ان کی ٹھنڈی سانسوں، متلاشی نگاہوں نے اور ارد گرد بیٹھے نو مسلموں نے یہی پیغام دیا ہے کہ ان کی دنیا ایک اچھوتی اور انوکھی دنیا ہے جو سانس لے تو انسانیت کا درد و سوز اجاگر ہوتا ہے اور زبان حال یہی صدا دیتی ہے کہ اے کاش کوئی غیر مسلم جہنم کی آگ میں جانے والا نہ بنے۔ غیر مسلموں سے نفرت انہیں گولی مارنے کا جذبہ، ان کے ا ندر کیسے ہوسکتا ہے؟ انہوں نے تو لاکھوں دلوں سے یہ جذبہ نکالا ہے۔
زیر نظر کتاب’’ نسیم ہدایت کے جھونکے ‘دراصل ان نو مسلم بھائیوں کے انٹرویوز کا مجموعہ ہے۔جو خداوندعالم کی توفیق وعنایت اور داعی اسلام اور ہدایت کے نور سے سرفراز ہوئے ان نو مسلم بھائیوں کے قبول اسلام کے تفصیلی حالات و واقعات اس کتاب میں پڑھیں ۔
مفت پڑھنے یا ڈاؤن لوڈ کرنے کیلئے:
https://besturdubooks.net/naseem-e-hidayat-kay-jhonkay/
https://islamicbookslibrary.wordpress.com/2013/05/04/naseem-e-hidayat-kay-jhonkay-by-shaykh-mufti-muhammad-roshan-qasmi/
یونیکوڈ میں
https://umarlibrary.org
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
یہ امام محمدؒ بن الحسن الشيباني(المتوفی١٧٩ع) کی فقہی موضوع و ترتیب پر مشتمل احادیثِ نبوی وآثارِ صحابہ کی وہی رواتیں ہیں جو موطا امام مالکؒ کے مجموعہ ونسخہ میں ہیں، البتہ موطا محمدؒ میں موطا مالکؒ سے مزید روایتیں بھی ہیں جنھیں امام محمدؒ نے اپنے دوسرے اساتذہ سے روایت کیا ہے، اور موطا مالکؒ میں امام مالکؒ نے تعاملِ مدینہ کو اختیار کیا ہے، جبکہ موطا محمدؒ میں امام محمدؒ نے تعاملِ کوفہ پر تائیدی مرویات نقل کرکے اپنے اختیار کردہ مسلکِ حنفی کو مدلل ثابت کرکے وجہ ترجیح کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لہٰذا تھوڑے سے امتیاز کے ساتھ جامع ومستند ہونے میں دونوں یکساں ہیں، موطا محمدؒ میں خصوصیت اور امتیاز زیادہ ہے۔
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
*************************
تعمیر انسانیت:
یہ کتاب ہر اس شخص کے پیشِ خدمت ہے، جس کا ایمان ہے کہ خدا کی نعمتوں میں سے (جو وہ اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے) ایک ہی مخصوص نعمت ہے، جو ایک برگزیدہ ہستی پر ختم ہوئی ہے، وہ "نبوت" کی نعمت ہے، جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر ختم ہوگئی. باقی دوسری تمام نعمتیں باقی اور جاری و ساری ہیں، جیسے علمی تبحر کی نعمت، ذہنِ سلیم اور فکرِ رسا کی نعمت، صحت و وسعتِ تحقیق کی نعمت، ان میں سے کسی پر کسی کی اجارہ داری نہیں، اور نہ وہ کسی انسان پر ختم ہوچکی ہے. وما كان عطاء ربك محظورا [اور تمہارے پروردگار کی بخشش (کسی سے) رکی ہوئی نہیں(١٧:٢٠)]
یہ کتاب ان لوگوں کی خدمت میں ہدیہ ہے جو"خوب سے خوبتر"، "زیبا سے زیباتر" کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان کو بہتر چیز کے حاصل کرنے اور ایضاحِ حق اور اتمامِ حجت کے بعد اس کو قبول کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللھ عنہ نے ایک فرمان میں ارشاد فرمایا کہ: "اصل حق ہے، کسی وقت بھی اس کی طرف رجوع کرلینا نہ شرم کی بات ہے نہ کوئی انوکھا اور نرالہ کام".
یہ کتاب ایسے لوگوں کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے، جو یہ سمجھتے ہیں کہ نقد و احتساب کا حق ایک مشترک حق ہے، جس سے ہر ایک کام لے سکتا ہے، اور اس سے کسی صاحبِ علم و نظر کو محروم نہیں کیا جاسکتا، صحتمند تنقید اور منصفانہ اظھارِ خیال پر بلدیہ کا بے لچک قانون (one way traffic) "سواریاں صرف جائیں اور آئیں نہیں" لاگو نہیں ہوسکتا.
یہ کتاب ایسے حضرات کی خدمت میں پیش ہے جو کسی کتاب کو اسے پوری طرح پڑھے اور سمجھے بغیر حکم نہیں لگاتے اور نہ منصف کی طرف سے حملہ اور اس کے مقصد کی طرف سے بدگمانی میں جلدبازی سے کام لیتے ہیں.
وصدق الله العظيم
فَبَشِّرۡ عِبَادِ الَّذِیۡنَ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقَوۡلَ فَیَتَّبِعُوۡنَ اَحۡسَنَہٗ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ ہَدٰىہُمُ اللّٰہُ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمۡ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ (الزمر:٣٩/١٨)
تو میرے بندوں کو بشارت (خوشخبري) سنا دو۔ جو بات کو غور سے سنتے ہیں پھر سب سے اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنکو اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقل والے ہیں۔
پیشِ نظر کتاب ایک علمی و اصولی تبصرہ و جائزہ ہے، وہ نہ مناظرانہ انداز میں لکھی گئی ہے، نہ فقہ و فتاویٰ کی زبان میں، وہ ایک اندیشہ کا اظھار ہے اور "الدین النصيحة" (دین تو خیرخواہی کا نام ہے) کے حکم پر عمل کرنے کی مخلصانہ کوشش، اس کی کوئی نہ سیاسی غرض ہے نہ جماعتی مقصد. اس ناخوشگوار کام کو محض عنداللہ مسؤلیت و شہادتِ حق کے خیال سے انجام دیا گیا ہے. جو لوگ دین کی سنجیدہ اور مخلصانہ خدمات کرنا چاہتے ہیں، ان میں طلبِ حق کی سچی جستجو اور اپنی دینی ترقی و تکمیل کا جذبہِ صادق پایا جاتا ہے، انہوں نے ہمیشہ صحتمند اور تعمیری تنقید اور مخلصانہ مشورہ کی قدر کی ہے اور فکر و سعیِ اسلامی کی طویل تاریخ میں دین کی صحیح فہم و تفہیم اور اسلام کی سیانت و حفاظت میں اس سے ہمیشہ مدد لی گئی ہے.
انسانیت کی مسیحائی
قوموں کی زندگی کے اتار چڑھاؤ اور دنیا کی تاریخ پر جن لوگوں کی نظر ہے وہ جانتے ہیں کہ قومی اور سیاسی زندگی میں سوسائٹی ریڑھ کی حیثیت رکھتی ہے، صحیح اخلاقی اور پختہ سیاسی سمجھ اور ایک اچھی سوسائٹی حکومت کو پیدا کرتی ہے،اس کی تنظیم کرتی ہے، اس کو ترقی دیتی ہے، نراج سے اس کی حفاظت کرتی ہے، جب اس کی رگیں خشک ہونے لگتی ہیں، اور اس میں بڑھاپے کی علامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں تو اس کی رگوں میں تازہ اور گرم خون پہنچاتی ہے، اس کو وقت پر ذمہ دار ، پر جوش اور کام کے آدمی دیتی ہے، حقیقت میں مہذب و منظم سوسائٹی جو یقین کی دولت، اصول و اخلاق کا سرمایہ،فرض کا احساس اور ایثار و قربانی کا جذبہ رکھتی ہے، وہ سرجیون ہے جس سے خوش حالی، آزادی اور ترقی کی نہریں نکلتی ہیں، اور پورے ملک کو ہرا بھرا رکھتی ہیں، اگر سوسائٹی میں اخلاق کی گراوٹ، بے اصولی اور خودغرضی، خوشامد، طاقت و دولت سے مرعوبیت، بزدلی اور ظلم کا چلن عام ہوجائے تو یوں سمجھئے کہ زندگی کا سوتا خشک ہوگیا، اور قومی زندگی کے درخت کو گھن لگ گیا، حکومتوں کا الٹ پھیر، طاقت کی بہتات، ملک کی پیداوار، تعلیم کی ترقی اور ظاہری دھوم دھام کوئی چیز اس قوم کو تباہی سے نہیں بچا سکتی، جب کسی درخت کی رگیں اور جڑیں سوکھ جائیں اور وہ اندر سے کھوکھلا ہوجائے تو اوپر سے پانی ڈالنے سے کام نہیں چلنا۔ملک کا سب سے بڑا مسئلہ جس پر عام سیاسی رہنماؤں اور ملک کے سچے خیر خواہوں کو پوری توجہ کرنا چاہیے، وہ ہے ملک کی اخلاقی اصلاح، سماجی سدھار اور ذمہ داری کا احساس، کیونکہ جب سوسائٹی اخلاقی طور پر دیوالیہ اور معنوی حیثیت سے کھوکھلی ہوجائے تو اس کو نہ حکومت بچا سکتی ہے نہ جمہوری نظام، نہ ایک زبان اور ایک کلچر۔
دسمبر ۱۹۷۴ء میں ــ’’تحریک پیام انسانیت‘‘ کے قیام کے بعد اس کے جلسوں میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی نے جو تقریریں کیں، یا اس سے متعلق اجلاسوں کے لیے جو پیغامات لکھے، انھیں اس مجموعہ میں جمع کیا گیا ہے۔
رمضان المبارک اور اس کے تقاضے:
دو متضاد تصویریں
مدارس اسلامیہ اہمیت و ضرورت اور مقاصد:
سیرت النبی ﷺ:
تحفۃ العروس (تخریج شدہ)
کسی بھی معاشرے کی تنظیم وتعمیر میں عائلی و ازدواجی زندگی ایک اکائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام نے عائلی زندگی کے بارے تفصیلی احکامات جاری کیے ہیں کیونکہ معاشرے کا استحکام خاندان کے استحکام پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر خاندان مستحکم ہو گا تو معاشرہ بھی مضبوط بنیادوں پر استوار ہو گا۔ ’تحفۃ العروس‘ کا موضوع بھی ازدواجی زندگی ہے۔ اس کتاب میں شوہروں کو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن معاشرت کے آداب سکھائے گئے ہیں۔ یہ کتاب مہذب انداز میں میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات پر کتاب وسنت اور ائمہ سلف کے اقوال کے ذریعے روشنی ڈالتی ہے۔ میاں بیوی کے ازدواجی تعلقات ایک نہایت ہی نازک موضوع ہے جس پر عموماً بازار میں سطحی اور فحش کتابیں دستیاب ہوتی ہیں جو تعلیم کم دیتی ہیں اور جنسی ہیجان انگیزی کا سبب زیادہ بنتی ہے۔ یہ کتاب اس قسم کے فحش مواد سے پاک ہے۔ البتہ اس کتاب میں کچھ ایسی باتیں بھی آ گئیں کہجن کا بیان ہمارے ہاں شرم وحیا کے معاشرے میں رائج تصورات کی روشنی میں کچھ نامناسب معلوم ہوتا ہے لیکن چونکہ ہمارے ہاں شادی حضرات کی تعلیم کے لیے کسی قسم کے شادی کورسز یا ازدواجی کورسز موجود نہیں ہیں لہٰذا ایسے میں اس قسم کا لٹریچر ایک ضرورت بن جاتی ہے جس میں ایک نئے شادی شدہ جوڑے کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بہت سے مسائل میں رہنمائی کی جائے۔ازدواجی مسائل کے حوالے سے اس کتاب میں عورتوں اور مردوں کی نفسیات اور ترجیحات پر بھی اچھی بحث موجود ہے کہ جس کا علم نہ ہونے کی وجہ سے اکثر وبیشتر نئے شادی شدہ جوڑے اختلافات وانتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔ نئے شادی شدہ حضرات کو اس کتاب کے مطالعہ کرنے کی تلقین کرنی چاہیے۔
زیر مطالعہ کتاب’دریائے کابل سے دریائے یرموک تک‘ خطہ ارضی پر واقع چھ ممالک افغانستان، ایران، لبنان، شام، عراق اور اردن کی تہذیب وثقافت اور حالات و کیفیات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ مکہ مکرمہ میں ’رابطہ عالم اسلامی‘ کے نام سے ایک ادارہ موجود ہے اس ادارے نے ایک وفد ان مذکورہ ممالک میں بھیجا۔ اس وفد کی قیادت محترم مصنف ابوالحسن ندوی نے کی۔ اس پروگرام کا مقصد مسلمانوں کے حالات و کیفیات، ان کے علمی و تہذیبی ادارے، اور ان کی ضرورتوں سے واقفیت حاصل کرنا اور وہاں کے باشندوں کو اس ادارے کے مقاصد سے آگاہ کرنا تھا۔ مولانا ابو الحسن ندوی نے اس دورے کی مکمل روداد سفر نامہ کے انداز میں قلمبند کر دی ہےجس سے ان ممالک کے حالات و حوادث کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ مصنف نے ان ممالک کی دینی، فکری، سیاسی واقتصادی صورتحال کی تصویر کشی کرتے ہوئے مکمل غیر جانبداری برتی ہے۔
اختلاف ائمہ اور حدیث نبوی:
مؤلف: شیخ محمد عوامہ
ترجمہ: مولانا علاء الدین جمال
صفحات:240 سائز:23x36=16
ناشر: زمزم پبلشرز، اردو بازار، کراچی
عالم عرب کی معروف علمی شخصیت شیخ محمد عوامہ نے ” أثر الحدیث الشریف في اختلاف الائمة الفقہاء رضی الله عنہم “ کے نام سے احادیث میں مسائل واحکام کے استنباط و استخراج کے سلسلے میں ائمہ فقہاء کے درمیان پائے جانے والے اختلاف پر خوب صورت ومرتب انداز واسلوب میں روشنی ڈالی ہے او رجو لوگ ائمہ فقہاء خصوصاً امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ کو اس سلسلے میں طعن وتشنیع کا نشانہ بنا کر فقہی مذاہب او رفقہاء کی اجتہادی وفقہی کاوشوں ، اصول ومسائل، دینی مفہومات اور دین کی تفہیم کے حوالے سے اہل اسلام میں مقبول ومتداول طرز واسلوب کو باطل قرار دینے او رمغرب کی جدت وآزادی سے مرعوب ہو کر دین اسلام کی نئی اور جدید تشکیل کے لیے کوشاں وسرگرداں ہیں ان کی دلائل کی روشنی میں معقول ومدلل انداز میں تردید کی ہے۔ اس میں احادیث سے استدلال کرنے میں فقہاء کے اختلاف کے چار اسباب بیان کیے گئے ہیں اور ان پر وارد ہونے والے اشکالات وشبہات کے مرتب ودلنشین انداز میں جوابات بھی دیے گئے ہیں۔ یہ کتاب درحقیقت ان دروس کا مجموعہ ہے جو شام کے شہر حلب کی یونیورسٹی ”جامعہ روضة الحلب“ میں دیے گئے تھے او ران میں نظر ثانی اور حذف واضافہ کرکے انہیں کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔
ہمارے پیش نظر اس وقت اس کا اردو ترجمہ ہے جو دارالعلوم زکریا، جنوبی افریقا کے استاد حدیث مولانا علاؤ الدین جمال نے کیا ہے او راس میں الفاظ کا خیال رکھتے ہوئے معنی ومفہوم کو سلیس ورواں اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش وسعی کی گئی ہے ۔ الله تعالیٰ مؤلف ومترجم کو اجر جزیل عطا فرمائے اور علما، طلبہ اور امت مسلمہ کے دیگر حلقوں کو اس سے کماحقہ مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے کہ جس مرض کی دوا کے لیے یہ کتاب تالیف کی گئی ہے وہ مغرب کے استعماری غلبے کے بعد کسی خطے تک محدود نہیں رہا بلکہ کم وبیش ہر خطے اور طبقے میں اسے عام کرنے کی بھرپور کوشش جاری ہے۔
کتاب کی طباعت واشاعت درمیانے درجے کی ہے۔
کتاب "فضائل اعمال" سب سے پہلے "تبلیغی نصاب" کے نام سے طبع ہوئی، یہ محمد زکریا کاندھلویؒ کی تالیف ہے، کتاب کو درجہ ذیل ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
حکایات صحابہ
فضائلِ نماز
فضائلِ قرآن
فضائلِ ذکر
فضائلِ رمضان
فضائلِ تبلیغ
فضائلِ درود
مسلمانوں کی موجودہ پستی کا واحد علاج
----------------------------
حضرت شیخ الحدیث صاحبؒ نے فضائل اعمال میں مختلف ابواب کے تحت عربی متن کے ساتھ جو احادیث ذکر کی ہیں جن کتابوں سے وہ احادیث ماخوذ ہیں، اس کتاب کی وضاحت کے ساتھ اس سے لی گئی احادیث کی تعداد یہاں بیان کی جاتی ہیں۔
۱۔ بخاری ومسلم دونوں کی بیک وقت ذکر کردہ ان احادیث کی تعداد جو فضائل اعمال میں ہے باون 52 ہے۔
۲۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صرف بخاری میں پائی جاتی ہیں ان کی تعداد تریسٹھ 63 ہے ۔
۳۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صرف مسلم میں ہیں ان کی تعداد بیانوے 92 ہے ۔
۴۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث صحیحہ جو صحیحین کےعلاوہ میں مذکور ہیں اور وہ حسن لذاتہ کے درجے کی ہیں ایک سو چو نتیس 134 ہیں ۔
۵۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو صحیح لغیرہ ہیں ایک سو انسٹھ 159 ہیں ۔
۶ ۔ فضائل اعمال کی وہ احا دیث جو حسن لذاتہ ہیں ان کی تعداد ایک سو انسٹھ 159 ہیں
۷۔ فضائل اعمال کی وہ احا دیث جو حسن لغیرہ ہیں ان کی تعداد دو سو بیالیس 242 ہے ۔
۸۔ فضائل اعمال کی وہ احادیث جو ضعیف ہیں تین سو ستھتر 377 ہیں ۔
https://archive.org/details/Fazaileamaltakhreej1
کتب فضائل حقائق ۔۔غلط فہمیاں ۔ مزید تفصیل دیکھیں
محدث نے الفاظِ حدیث کی خدمت کی تواس کا نام حافظِ حدیث ہوا اور مجتہد نے معانی حدیث کی خدمت کی تواس کا لقب عالمِ حدیث اور فقیہ ہوا، امام مالکؒ میں اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں خصوصیات ودیعت فرمائی تھیں کہ احادیث کا ذخیرہ بھی جمع کیا اور فقہ کے بھی امام ٹھہرے:
"اخرج إِبْنِ ابِیْ حَاتِم عَنْ طریق مَالِکْ بِنْ أَنَس عَنْ رَبِیْعَۃَ قَالَ ان اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالَیٰ أَنْزَلَ إِلَیْکم الْکِتَابَ مُفَصِّلاً وَتَرَکَ فِيهِ مَوْضِعًا لِلسُّنَّةِ، وَسَنَّ رَّسُولُ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرَكَ فِيهَا مَوْضِعًا لِلرَّأْيِ"۔
(الدرالمنثور فی التأویل بالماثور، جلال الدین السیوطی:۴/۱۲۰، شاملہ،موقع التفاسیر)
ترجمہ:امام مالکؒ امام ربیعہؒ سے نقل کرتے ہیں کہ ربیعہؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مفصل کتاب نازل فرمائی اور اس میں حدیث کے لیئے جگہ چھوڑی اور آنحضرتﷺ نے بہت سی باتیں حدیث میں بیان فرمائیں اور قیاس کے لیئے جگہ رکھی۔
الفاظ مقصود بالذات نہیں، مقصود اطاعت اور اتباع شریعت ہے اور یہ مقصد معانی کے سمجھنے سے ہی حاصل ہوسکتا ہے، مقصود بالذات معنی ہیں، الفاظ نہیں الفاظ مقصود بالعرض ہیں، امام مالکؒ تبع تابعینؒ کے طبقہ میں تھے، آپؒ کے شیوخ واساتذہ کی تعداد نوسو تھی، جن میں تین سو تابعینؒ اور چھ سو تبع تابعینؒ تھے (تہذیب الاسماء للنووی:) امام شافعیؒ کا فرمان ہے کہ آپؒ کو اگرحدیث کے ایک ٹکڑے پر بھی شک پڑجاتا تو پوری کی پوری ترک کردیتے تھے، محدثینؒ کے نزدیک اصح الاسانید میں بحث ہے، مشہور ہے کہ جس کے راوی مالکؒ نافعؒ سے اور نافعؒ ابن عمرؓ سے ہوں وہ اسناد سب سے صحیح ہے (ترجمان السنہ:۱/۲۴۲) لیثؒ، ابنِ مبارکؒ، امام شافعیؒ اور امام محمدؒ جیسے مشاہیر امت آپؒ کے تلامذہ میں سے ہیں اور ابنِ وہبؒ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ میں ایک منادی سے سنی کہ مدینہ میں ایک مالک بن انس اور ابن ابی ذئبؒ کے سوا کوئی فتوےٰ نہ دیا کرے (مشاہیرِامت:۲۹، از قاری محمدطیبؒ) امام احمدبن حنبلؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام اسحاق بن ابراہیمؒ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ اگر امام مالکؒ امام اوزاعیؒ اور امام ثوریؒ کسی مسئلہ پر متفق ہوجائیں تووہی مسئلہ حق اور سنت ہوگا؛ اگرچہ اس میں نص نہ موجود ہو (تذکرۃ الحفاظ:۱/۱۹۵) ابن سعدؒ فرماتے ہیں کہ امام مالکؒ ثقہ، مامون، ثبت، متورع، فقیہ، عالم اور حجت ہیں (تہذیب التہذیب:۱۰/۸) علامہ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ امام مالکؒ الامام الحافظ فقیہ الامت شیخ الاسلام اور امام دارالھجرت تھے (تذکرہ:۱/۱۹۳) آپؒ کا مسلک زیادہ تراُندلس ومغرب پہنچا (بستان المحدیثن:۲۶) افریقی ممالک خصوصاً مغربی افریقہ میں زیادہ تراُنہی کے مقلد ہیں، اس جلالت علم کے باوجود وہ امام ابوحنیفہؒ کے معتقد تھے "نظرمالک فی کتب ابی حنیفۃ وانتفعہ بھا کمارواہ الدراوردی وغیرہ" (الانتقاء:۱۴) سو یہ حقیقت ہے کہ امام مالکؒ کا امام ابوحنیفہؒ کی کتابوں کو دیکھنا اور ان سے نفع حاصل کرنا ثابت ہے۔
"مز جہ باقوال الصحابۃ وفتاویٰ التابعین ومن بعدھم"۔
(مقدمہ فتح الباری:۴)
ترجمہ: آپ نے صحابہ کے اقوال اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کے فتاوے اس میں شامل کیئے ہیں۔
"لیس فیہ مرسل ولامنقطع الاوقداتصل السند بہ من طرق اخریٰ"۔
(حجۃ اللہ البالغہ:۱/۱۳۳)
ترجمہ: اس میں کوئی مرسل اور منقطع روایت ایسی نہیں جودوسرے طرق سے متصل نہ ہوچکی ہو۔
"ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک"۔
(تزئین المالک:۷۳)
ترجمہ:تختۂ زمین پر کوئی کتاب قرآن کریم کے بعد مؤطا سے زیادہ صحیح نہیں۔
(بستان المحدثین اردو ترجمہ:۲۲، مطبع: کراچی)
گمراہ قسم كے لوگوں كى كتابوں كا مطالعہ جارى نہ ركھنے كى نصيحت:
مسلمان پر اپنے عقيدہ اور ايمان كى حفاظت كرنا، اور اپنى فطرت اور سوچ و فكر كى كو سلامت ركھنا، اور اپنے دين اور دل كو شبہات و فتنوں سے پاك كرنا واجب ہے، كيونكہ دل كمزور ہوتے ہيں اور شبہات اچكنے والى چيز كا درجہ ركھتے ہيں، وہ بدعتيوں اور گمراہ لوگوں كى مزين كردہ اشياء كو اچك ليتے ہيں ليكن حقيقت ميں يہ شبہ بہت كمزور اور واہى ہوتا ہے.
اور پھر بدعتيوں اور گمراہ قسم كے لوگوں يا پھر شرك و خرافات سے بھرى ہوئى يا دوسرے اديان باطلہ كى كتابوں كا مطالعہ كرنا جن ميں تحريف و تغير پيدا ہو چكا ہے، يا الحادى نظريہ اور نفاق پر مشتمل كتابوں كى ورق گردانى كرنا جائز نہيں.
ان كتب كا مطالعہ صرف وہى شخص كر سكتا ہے جو علمى طور پر اس كى اہليت ركھتا ہو، وہ ان كا مطالعہ كر كے ان كتب كا رد كرنا چاہتا ہو اور اس ميں بيان كردہ فساد كو واضح كرنا چاہے تو اس كا مطالعہ كر لے.
ليكن جس كے پاس شرعى علم نہيں تو وہ ان كتابوں كا مطالعہ كرے گا تو غالبا وہ اس مطالعہ سے حيرت و گمراہى ہى پائيگا، بہت سارے لوگ اس كا شكار بھى ہو چكے ہيں، حتى جو شرعى طالب علم بھى، بات يہيں ختم نہيں ہوتى بلكہ وہ كفر تك كا ارتكاب كر بيٹھے اللہ تعالى محفوظ ركھے.
ان كتابوں كا مطالعہ كرنے والا جس سے دھوكہ كھاتا ہے وہ يہ بات ہے كہ اس كى سوچ ہوتى ہے اس كا دل تو ان شبہات سے زيادى قوى ہے، ليكن زيادہ مطالعہ كرنے كى وجہ سے اچانك اسے محسوس ہوتا ہے كہ اس كے دل ميں تو وہ شبہات گھر كر چكے ہيں جن كا اسے خيال تك بھى نہ تھا.
اس ليے علماء كرام اور سلف صالحين نے اس طرح كى كتابوں كا مطالعہ كرنا حرام قرار ديا حتى كہ ابن قدامہ المقدسى رحمہ اللہ نے ايك رسالہ بھى تصنيف كيا جس كا عنوان " تحريم النظر فى كتب الكلام " ركھا.
ذيل ميں ہم چند ايك علماء كرام كى كلام نقل كرتے ہيں جس ميں غير عالم شخص كے ليے يہ كتابيں پڑھنا حرام بيان ہوا ہے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" حنابلہ كہتے ہيں: اہل بدعت كى كتابوں كا مطالعہ كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى ان كتابوں كا جو حق و باطل پر مشتمل ہوں، اور اس كى روايت كرنا بھى جائز نہيں، كيونكہ ايسا كرنے ميں عقائد كے ليے نقصان و ضرر ہے.
اور قيلوبى كا قول ہے: غزوات اور رقائق پر مشتمل جھوٹى كتابيں پڑھنا حرام ہيں " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 34 / 185 ).
شاطبى رحمہ اللہ نے يہى فتوى ديا ہے:
" عوام كے ليے ابو طالب مكى كى " قوت القلوب " نامى كتاب كا مطالعہ كرنا حلال نہيں، كيونكہ اس ميں صوفيوں كى خرافات پائى جاتى ہيں "
ديكھيں: الافادات و الاشادات ( 44 ).
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس مسئلہ ميں بہتر يہى ہے كہ فرق كيا جائے لہذا جو متمكن نہ ہو اور ايمان ميں رسوخ نہ ركھتا ہو تو اس كے ان كتابوں كا مطالعہ كرنا جائز نہيں، ليكن رسوخ ركھنے والے كے ليے جائز ہے اور خاص كر جب اسے مخالف كا رد كرنے كى ضرورت ہو " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 525 ).
اور محمد رشيد رضا كہتے ہيں:
" شاگردوں اور عوام كو اس طرح كى كتابيں پڑھنے سے روكنا چاہيے تا كہ وہ ان كے عقائد اور ان كے دينى احكام ميں ان پر كوئى مشكل پيدا نہ كريں تو وہ اس كوے كى طرح ہو جائيں جو مور كى چال چلنے كى كوشش ميں اپنى چال بھى بھول بيٹھا، اور نہ ہى سيكھ سكا " انتہى
ديكھيں: الفتاوى محمد رشيد رضا ( 1 / 137 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" صوفياء كى كتابيں ركھنا جائز نہيں، اور نہ ہى اس كا مطالعہ و مراجعہ كرنا جائز ہے، صرف وہى شخص اس كا مطالعہ كرے جو ان ميں موجود بدعات كا علم ركھتا ہو تا كہ وہ اس كا رد كر سكے تو اس صورت ميں اس كا مطالعہ كرنے كا عظيم فائدہ ہو گا وہ يہ كہ اس بدعت كا علاج اور رد كرنا تا كہ لوگ اس سے محفوظ رہ سكيں " انتہى
ديكھيں: فتاوى نور على الدرب التوحيد و العقيدۃ ( 267 ).
اور مستقل فتاوى كميٹى كا فتوى ہے:
" ہر مكلف مرد و عورت پر بدعتيوں اور گمراہ لوگوں كى كتابيں اور ميگزين اور رسالے پڑھنا حرام ہے جو خرافات نشر كرتے اور جھوٹى مشہورى پر مشتمل اور مكارم اخلاق سے دور كر كے اخلاق رذيلہ كى دعوت ديں.
ليكن اگر كوئى انہيں پڑھ كر اس ميں موجود الحاد و انحراف كا رد كرے اور اس پر چلنے والوں كو صراط مستقيم پر چلنے كى نصيحت كرے اور ان كے اس فعل كو برا ثابت كرے اور لوگوں كو اس راہ سے روكے اور اجتناب كرنے كا كہے تو اس كے جائز ہے " انتہى
ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 19 / 138 ).
اس ليے ـ ہمارے بھائى ـ آپ اپنے آپ كو شر و برائى اور شبہات ميں كيوں ڈالنے كى كوشش كر رہے ہيں، حالانكہ آپ كو اس كى كوئى ضرورت و حاجت نہيں اور آپ اس سے مستغنى ہيں آپ اس غلط عقيدہ اور انحراف سے سليم ہونے پر اللہ كا شكر ادا كريں اور ہدايت و ثابت قدمى كى اس عظيم نعمت پر اللہ كا شكر ادا كرتے ہوئے اس كى حفاظت كريں اور اسے ايسے خطرناك كام ميں پيش نہ كريں كہ يہ ختم ہو جائے.
پھر عمر تو بہت ہى قليل ہے كہ اسے باطل قسم كى كتابوں كے مطالعہ ضائع كيا جائے، بلكہ حق و نافع علم اورخير و بھلائى تو بہت ہے، اگر كوئى شخص اپنى عمر اور وقت كو كسى علمى كتاب اور نفع مند مثلا تفسير يا كتب حديث اور فقہ و رقائق و زہد اور ادب و فكر اور تربيت كى كتابوں كے مطالعہ ميں صرف كرے تو بھى اس كى حاجت پورى نہيں ہوتى !!
تو پھر وہ ان خرافات و گمراہى پر مشتمل كتابوں كے مطالعہ ميں كس طرح مشغول ہو سكتا ہے جسے رافضى شيعہ اور صوفيوں نے لكھا ہے ؟
عزيز بھائى آپ علامہ ابن جوزى رحمہ اللہ كى ايك قيمتى نصيحت سنيں جس ميں انہوں نے نافع علوم كا اہتمام كرنے كى ترغيب دلاتے ہوئے كہا ہے:
" رہا عالم تو ميں اسے يہ نہيں كہتا كہ: علم كو پورا حاصل كرو اور نہ يہ كہتا ہوں كہ: بعض پراقتصار كر لوں.
بلكہ ميں يہ كہتا ہوں: اہم اور ضرورى كو مقدم كرو، كيونكہ عقل و دانش ركھنے والا شخص وہى ہے جو اپنى عمر كى قدر كرے اور اس كے مقتضى ميں عمل كرے، اگرچہ عمر كى مقدار كے مطابق علم حاصل كرنے كى كوئى راہ نہيں، ليكن يہ ہے كہ وہ اغلب پر بنياد ركھے، لہذا اگر وہ وہاں پہنچ گيا تو اس نےہر مرحلہ كے ليے زاد راہ تيار كر ليا اور اگر اس تك پہنچنے سے قبل فوت ہو گيا تو اس كى نيت وہاں ضرور پہنچ جائيگى.
مقصد يہ كہ نفس كو جتنا ممكن ہو سكے علم و عمل كے كمال تك پہنچايا جائے " انتہى مختصرا
ديكھيں: صيد الخاطر ( 54 - 55 ).
No comments:
Post a Comment