Monday 26 August 2013

فقہ حنفی پر اعتراضات : پانچواں اعتراض اور اس کا جواب

اعتراض : فتاویٰ قاضی خان میں ہے : وإن اولج بهيمة أو ميتة ولم ينزل لا يفسد صومه ولا يلزم الغسل. ترجمہ : "اگر کسی نے روزہ کی حالت میں کسی جانور سے یا مردہ (عورت یا مرد) سے صحبت داری کرلی اور انزال نہیں ہوا تو وہ روزہ بھی نہیں گیا اور غسل بھی واجب نہیں" اور ہدایہ میں ہے کہ "کفارہ نہیں آتا خواہ انزال ہو یا نہ ہو".


جواب : فقہ قانونِ اسلام ہے ، قرآن مجید کی پوری تفسیر اور حدیثِ رسول الله صلی الله علیہ و آلہ وسلم کی پوری شرح ہے ، اس میں تمام مسائل جزئیہ مشرح و مبسوط ہیں ، ان کے احکامات کے لئے جداگانہ ابواب ہیں ، ہر باب میں اسی باب کے متعلق مسائل مذکور ہیں اور جو جو حکم ان مسائل کے اور باب سے متعلق ہیں وہ اس دوسرے باب میں مذکور ہیں . جب یہ بات ذهن نشین ہو چکی تو ہم کہتے ہیں کہ کسی نے اپنے خبثِ نفس کی وجہ سے کسی جانور یا مردہ عورت سے یہ حرکت کی ہو تو لامحالہ شریعت میں اس کا کوئی حکم مذکور ہونا چاہئے، یعنی اولاً : یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آیا یہ فعل اس کا جائز ہے یا ناجائز ؟ ثانیاً : اس میں غسل جنابت واجب ہوتا ہے یا نہیں ؟ ثالثاً : اگر بحالت روزہ یہ حرکت وقوع میں آۓ تو روزہ کا کیا حکم ہے ؟ رابعاً : اس فعلِ زبوں کی سزا میں اس شخص کا کیا حکم ہے اور اس جانور کا کیا حکم ؟ سو قربان جائیے فقہاء کے کہ انہوں نے یہ چاروں حکم قرآن و حدیث سے چن چن کر اپنے اپنے باب میں ذکر کیے یعنی غسل کا واجب ہونا نہ ہونا باب الغسل میں ذکر کیا ، روزہ کا فاسد ہونا نہ ہونا مفسدات صوم میں ذکر کیا ، اور اس بدکار کی سزا اور جانور کا حکم باب الحدود میں ذکر کیا . تفصیل اس کی یوں ہے کہ "در المختار" میں حدِ زنا کے باب میں مذکور ہے کہ :
ولا يحد بوطي بهيمة بل يعتزو تذبح ثم تحرق ويكره الانتفاع بها حية و مية ....
يعني جانور سے صحبت کرنے میں کوئی حد شریعت میں مقرر نہیں ہوئی ہے لیکن ہاں اس شخص بدکار کو سخت تعزیر دی جاوے اور اس جانور کو ذبح کرکے جلایا جاۓ اور اس جانور سے ہر طرح کا نفع اٹھانا ذبح سے پہلے اور بعد بھی (گوشت کھانا) مکروہ ہے ...
تو دیکھئے اس عبارت میں کیسی شد و مد کے ساتھ اس شخص کا مستحق سزا ہونا اور اس جانور کا جلایا جانا مذکور ہے. رہی یہ بات کہ کون سی سزا اس شخص کو دی جاۓ ؟ سو اس کی نسبت "در المختار" میں یہ عبارت ہے کہ :
والتعزير ليس فيه تقدير بل هو مفوض إلى رأى القاضى ويكون بالقتل ... 
یعنی سزا کا گو اندازہ مقرر نہیں ہے بلکہ حسبِ متقاضاۓ وقت حاکم کو اختیار ہے کہ اگر مصلحت وقت ہو تو اس کو (تعزیراً) قتل کردینا بھی جائز ہے. 
اور "رد المختار" میں ہے : 
الجماع في غير القبل إذا تكرر ، فللامام أن يقتل فاعله  ... 
یعنی اگر کوئی (اپنی منکوحہ کی فرج کے) علاوہ کسی اور (محل ناجائز) میں بدفعلی کرنے لگے، تو امام کو اس کا مار ڈالنا بھی جائز ہے.

سو دیکھئے کہ ان تینوں عبارتوں کی اول عبارت سے اس فعلِ شنیع کے مرتکب کا مستحق سزا ہونا معلوم ہوا ، اور دوسری عبارت سے دوبارہ تعین سزا حاکم اسلام کا اختیار معلوم ہوا ، اور تیسری عبارت سے قتل کردینا تک بھی تعزیراً جائز معلوم ہوا.

سو اب مجتہدانِ غیرمقلدین (بر صغیر کے نام نہاد اہل حدیث) کی خدمت میں التماس ہے کہ آپ کا مقصود اس مسئلہ کے نقل کرنے سے یہ ہے کہ یہ فعلِ شنیع علماء حنفیہ کے نزدیک درست ہے ، چناچہ آپ کی جماعت کے ہر کہ دمہ سے یہی سنا جاتا ہے ، تو آپ نے بہت بڑا بہتان اس جم غفیر کے ذمہ لگایا ہے اور اس کے صلہ میں آپ کے تمام ہم مشرب مصداق آیت کریمہ : لا تَفتَروا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا فَيُسحِتَكُم بِعَذابٍ ... ہوگئے ہیں. لہذا ضروری ہے کہ آپ اس بہتان بندی سے تائب ہوجائیں اور اپنے سخن کا پاس نہ کریں اور آئندہ جو کچھ شبہات مسائل حنفیہ کی نسبت آپ کو پیش آیا کریں تو کسی مجھ جیسے طالب علم سے اول استفسار کرلیا کیجئے پھر کہیں اوروں سے ذکر کیا کیجئے. شاید آپ کو وجہ اتہام یہ پیش آئی کہ اس مسئلہ میں غسل وغیرہ کا آنا تو مذکور ہوا پر اد اس کی اس مسئلہ کے ساتھ مذکور نہیں ہوئی اور جب کوئی سزا اس مسئلہ کے ساتھ ذکر نہیں کی گئی تو ،علوم ہوگیا کہ یہ فعل حنفیہ کے نزدیک جائز ہے سو قربان جائیے آپ کے فہم عالی کے اگر یہ قاعدہ مسلم ہے کہ جس فعال کی سزا اس کے ساتھ ہی مذکور نہ ہو تو تو اس فعال کا جواز مفہوم ہوگا تو لیجئے ہم حدیثِ رسولؐ پیش کرتے ہیں، اس پر بھی اس قاعدہ کو جاری کیجئے اور یہی اعتراض اس حدیث پر بھی جڑ دیجئے؟
حضرت رافع بن خدیجؓ اور (سنن ابن ماجه » كِتَاب الْحُدُودِ » بَاب لَا يُقْطَعُ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ، رقم الحديث: 2586) میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول الله  صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :
 "لَاقَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَاكَثَرٍ"۔ 
[ترمذی: كِتَاب الْحُدُودِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَاب مَاجَاءَ لَاقَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَاكَثَرٍ،حدیث نمبر:۱۳۶۹، موقع الإسلام]
ترجمہ: یعنی پھل اور خوشہ (درخت کے گوبہ) کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديججامع الترمذي13651449محمد بن عيسى الترمذي256
2لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن أبي داود38174388أبو داود السجستاني275
3لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن النسائى الصغرى49004960النسائي303
4لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن النسائى الصغرى49014961النسائي303
5لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن النسائى الصغرى49024962النسائي303
6لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن النسائى الصغرى49034963النسائي303
7لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن النسائى الصغرى49044964النسائي303
8لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن النسائى الصغرى49054965النسائي303
9لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن النسائى الصغرى49064966النسائي303
10لا قطع في ثمر ولا كثر والكثر الجماررافع بن خديجسنن النسائى الصغرى49074967النسائي303
11لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن النسائى الصغرى49084968النسائي303
12لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن النسائى الصغرى49094969النسائي303
13لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن النسائى الصغرى49104970النسائي303
14لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن ابن ماجه25852593ابن ماجة القزويني275
15لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن الدارمي22312304عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي255
16لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن الدارمي22322305عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي255
17لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن الدارمي22332306عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي255
18لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجسنن الدارمي22342308عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي255
19لا قطع في كثررافع بن خديجسنن الدارمي22352309عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي255
20لا قطع في ثمر ولا كثر والكثر الجماررافع بن خديجموطأ مالك رواية يحيى الليثي15091583مالك بن أنس179
21لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمسند أحمد بن حنبل1548815377أحمد بن حنبل241
22لا يقطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمسند أحمد بن حنبل1550115387أحمد بن حنبل241
23لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمسند أحمد بن حنبل1692116809أحمد بن حنبل241
24لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمسند أحمد بن حنبل1694416830أحمد بن حنبل241
25لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجصحيح ابن حبان45584466أبو حاتم بن حبان354
26لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71537403النسائي303
27لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71547404النسائي303
28لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71557 : 34النسائي303
29لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71567409النسائي303
30لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71577410النسائي303
31لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71587411النسائي303
32لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71597412النسائي303
33لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71607413النسائي303
34لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71617414النسائي303
35لا قطع في ثمر ولا كثر والكثر الجماررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71627415النسائي303
36لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71637416النسائي303
37لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71647417النسائي303
38لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للنسائي71657418النسائي303
39لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمنتقى من السنن المسندة813803ابن الجارود النيسابوري307
40لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الصغير للبيهقي15053545البيهقي458
41لا يقطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للبيهقي158188 : 261البيهقي458
42لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للبيهقي158198 : 261البيهقي458
43لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن الكبرى للبيهقي158378 : 265البيهقي458
44لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمعرفة السنن والآثار للبيهقي45395154البيهقي458
45لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمعرفة السنن والآثار للبيهقي45405155البيهقي458
46لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمعرفة السنن والآثار للبيهقي45445160البيهقي458
47لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمعرفة السنن والآثار للبيهقي45455163البيهقي458
48لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمعرفة السنن والآثار للبيهقي45465164البيهقي458
49لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجموطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني615683مالك بن أنس179
50لا قطع في ثمر ولا كثر والكثر الجماررافع بن خديجموطأ مالك برواية أبي مصعب الزهري9521794مالك بن أنس179
51لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن المأثورة رواية المزني514550الشافعي204
52لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالسنن المأثورة رواية المزني515551الشافعي204
53لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمسند أبي داود الطيالسي9911000أبو داود الطياليسي204
54لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمسند الحميدي400411عبد الله بن الزبير الحميدي219
55لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمسند الشافعي14321530الشافعي204
56لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمسند ابن أبي شيبة7171ابن ابي شيبة235
57لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمسند الموطأ للجوهري666820الحسن بن علي الجوهري381
58لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمسند الإمام الشافعي ( ترتيب سنجر)967---الأمير سنجر745
59لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجإتحاف المهرة4387---ابن حجر العسقلاني852
60لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمصنف عبد الرزاق1830218916عبد الرزاق الصنعاني211
61لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمصنف عبد الرزاق1830318917عبد الرزاق الصنعاني211
62لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجمصنف ابن أبي شيبة2801729054ابن ابي شيبة235
63لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني41534277سليمان بن أحمد الطبراني360
64لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42134339سليمان بن أحمد الطبراني360
65لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42144340سليمان بن أحمد الطبراني360
66لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42154341سليمان بن أحمد الطبراني360
67لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42164342سليمان بن أحمد الطبراني360
68لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42174343سليمان بن أحمد الطبراني360
69لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42184344سليمان بن أحمد الطبراني360
70لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42194345سليمان بن أحمد الطبراني360
71لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42204346سليمان بن أحمد الطبراني360
72لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42214347سليمان بن أحمد الطبراني360
73لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42224348سليمان بن أحمد الطبراني360
74لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42234349سليمان بن أحمد الطبراني360
75لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42244350سليمان بن أحمد الطبراني360
76لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42254351سليمان بن أحمد الطبراني360
77لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمعجم الكبير للطبراني42264352سليمان بن أحمد الطبراني360
78لا قطع في ثمر ولا كثر والكثر الجماررافع بن خديجعوالي مالك بن أنس رواية الشحامي1616زاهر بن طاهر الشحامي533
79لا أقطع في تمر كثررافع بن خديجحديث أبي الحسين بن المظفر60---محمد بن المظفر410
80لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجتأويل مختلف الحديث لابن قتيبة41 : 52عبد الله بن مسلم276
81لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالخراج لأبي يوسف1981 : 173يعقوب بن إبراهيم182
82لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالأم للشافعي14626 : 147الشافعي204
83لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالأم للشافعي14636 : 147الشافعي204
84لا تقطع اليد في ثمر ولا كثررافع بن خديجالأم للشافعي14896 : 163الشافعي204
85لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجشرح السنة26052600الحسين بن مسعود البغوي516
86لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجشرح معاني الآثار للطحاوي32003212الطحاوي321
87لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجبيان خطأ من أخطأ على الشافعي9494البيهقي458
88لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجبيان خطأ من أخطأ على الشافعي9595البيهقي458
89لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالتمهيد لابن عبد البر428623 : 304ابن عبد البر القرطبي463
90لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالتمهيد لابن عبد البر428723 : 305ابن عبد البر القرطبي463
91لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالتمهيد لابن عبد البر428823 : 306ابن عبد البر القرطبي463
92لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالتمهيد لابن عبد البر428923 : 306ابن عبد البر القرطبي463
93لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالتمهيد لابن عبد البر429023 : 306ابن عبد البر القرطبي463
94لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالتمهيد لابن عبد البر429123 : 307ابن عبد البر القرطبي463
95لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالتمهيد لابن عبد البر429223 : 307ابن عبد البر القرطبي463
96لا قطع في ثمر ولا كثر قال والكثر الجمار وهو شحم النخلرافع بن خديجطبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها797800أبو الشيخ الأصبهاني369
97لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجتاريخ بغداد للخطيب البغدادي454815 : 459الخطيب البغدادي463
98لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجتاريخ بغداد للخطيب البغدادي454915 : 499الخطيب البغدادي463
99لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجتاريخ دمشق لابن عساكر60359---ابن عساكر الدمشقي571
100لا قطع في ثمر ولا كثررافع بن خديجالمنتظم في تاريخ الأمم لابن الجوزي947---أبو الفرج ابن الجوزي597

ایسے ہی اور لیجئے ، دوسری حدیث میں حضرت جابرؓ بن عبد الله سے رسول اللهؐ کا فرمان آیا ہے : 
لَيْسَ عَلَى خَائِنٍ , وَلَا مُنْتَهِبٍ , وَلَا مُخْتَلِسٍ , قَطْعٌ۔
ترجمہ : نہ امانت میں خیانت کرنے والے کا ، اور نہ مال لوٹنے والے کا ، اور نہ ہی گرہ کٹ کا ، (ہاتھ) کاٹا جاۓ گا۔
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1ليس على خائن منتهب مختلس قطعجابر بن عبد اللهجامع الترمذي13641448محمد بن عيسى الترمذي256
2ليس على خائن منتهب مختلس قطعجابر بن عبد اللهسنن النسائى الصغرى49114971النسائي303
3ليس على خائن منتهب مختلس قطعجابر بن عبد اللهسنن النسائى الصغرى49124972النسائي303
4ليس على خائن مختلس قطعجابر بن عبد اللهالسنن الكبرى للنسائي71667419النسائي303
5ليس على خائن منتهب مختلس قطعجابر بن عبد اللهالسنن الكبرى للنسائي71677420النسائي303
6ليس على خائن مختلس قطعجابر بن عبد اللهالمحلى بالآثار لابن حزم162412 : 305ابن حزم الظاهري456
7ليس على خائن ولا منتهب ولا مختلس قطعجابر بن عبد اللهطرح التثريب للعراقي13206 : 2013أبو زرعة العراقي806
8ليس على خائن قطععبد الله بن عباستاريخ بغداد للخطيب البغدادي14715 : 402الخطيب البغدادي463

اسی پر تیسری حدیثِ رسولؐ حضرت ابنِ عباسؓ کو قیاس فرمائیے : 
مَنْ أَتَى بَهِيمَةً فَلَا حَدَّ عَلَيْهِ . 
یعنی جو آدمی کسی جانور سے بدفعلی کرے تو اس پر زنا کی حد جاری نہ کی جاۓ.
تخريج الحديث
م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1اقتلوا الفاعل والمفعول به يعني الذي يعمل بعمل قوم لوط من أتى بهيمة فاقتلوه اقتلوا البهيمةعبد الله بن عباسمصنف عبد الرزاق1311513492عبد الرزاق الصنعاني211
2من وجدتموه يعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول به من أتى بهيمة فاقتلوه واقتلوها معهعبد الله بن عباسالمحلى بالآثار لابن حزم168912 : 399ابن حزم الظاهري456
3من أتى بهيمة فلا حد عليهعبد الله بن عباسجامع الترمذي13711455محمد بن عيسى الترمذي256
4من أتى بهيمة فاقتلوه واقتلوها معهعبد الله بن عباسسنن أبي داود38734464أبو داود السجستاني275
5من أتى بهيمة فاقتلوه واقتلوها معهعبد الله بن عباسمعرفة السنن والآثار للبيهقي44795087البيهقي458
6ملعون من آذى المسلمين في طريقهم ملعون من أتى بهيمةموضع إرسالمسند الربيع بن حبيب866981الربيع بن حبيب103
7من أتى بهيمة فاقتلوه واقتلوها معهعبد الله بن عباسشرح السنة25982593الحسين بن مسعود البغوي516


امام ترمذیؒ نے اس (حدیث) کو بیان کرکے فرمایا : 
وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.


یعنی کہ یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے (جس کا مضمون یہ تھا کہ جو آدمی کسی جانور سے بدفعلی کرے تو اس کو مار ڈالو) اور اہل علم کا عمل بھی اسی پر ہے (کہ اس پر حد نہ جاری کی جاۓ گی)۔

سو اب غیر مقلدین کی خدمت میں گزارش ہے کہ اپنے قاعدہ کے موافق پھل وغیرہ جائز فرماتے ، اور خیانت کو بھی جائز بتلاتے ، اور لوٹ مار اور لوگوں کی جیبیں کترنے کو بھی مبہ فرماتے ، اور جانور سے بدفعلی کو بھی جائز بتلاتے کیونکہ اس میں حد زنا نہ آنے کو تو امام ترمذیؒ نے بھی ، جو محدثین کے امام ہیں ، خوب شد و مد سے بیان کرچکے ہیں.   ؛


سو اب ناظرین ملاحظہ فرمائیں کہ ہماری طرز کے موافق تو نہ ان احادیث پر کچھ اعتراض ہے اور نہ کتب فقہ پر کیونکہ کسی موقع پر رسول کریم علیہ الصلواة والتسليم کو حد کا عدم الوجوب (واجب نہ ہونا) ذکر کرنا مدنظر تھا اس موقع میں تو یہ فرمادیا کہ فلاں فلاں پر حد نہیں ہے اور کہیں اس فعال کا حرام و گناہ ہونا ذکر کے قابل تھا وہاں اس کو ذکر فرمایا چنانچہ ماہرینِ حدیث پر پوشیدہ نہیں ہے. عٰلى هٰذا فقہ میں بھی یہی قصہ ہے یعنی جہاں غسل کے واجب ہونے نہ ہونے کا موقع تھا وہاں اس کو ذکر کیا اور جہاں اس کی حرمت اور سزا بیان کرنا مدنظر تھی ، وہاں اس کو ذکر کیا . اور کیوں نہ ہو عقلِ سلیم بھی اسی طرز کو پسند کرتی ہے.    ؛


بالجملہ جب اس حرکتِ شنیع کی حرمت اور اس میں تعزیر کا واجب ہونا ہم کتبِ فقہ سے مدلل بیان کرچکے تو مجتہدانِ غیر  مقلدین سے التماس ہے کہ اگر آپ کے نزدیک اس صورتِ خاص میں بلا انزل بھی غسل واجب ہوتا ہے تو آپ کو قرآن و حدیث سے اپنے دعوے کی دلیل لکھنی چاہئے تھی ، اگر آپ دلیل لکھتے  تو ہم کو بھی اس کی تسلیم سے کیا انکار تھا. خیر جب نہیں لکھ سکے تو اب زیبِ قلم فرمائیے مگر اس قدر خیال رہے کہ چونکہ آپ کے نزدیک اجماع و قیاس تو کوئی دلیلِ شرعی نہیں اس لئے (اپنے کسی قیاسی تشریحی الفاظ کی ملاوٹ کے بجاۓ صرف) کسی آیت سے صراحتاً یا کسی حدیث سے وضاحتاً ارقام فرمائیے کہ صورت مرقومہ بالا میں بلا انزل بھی غسل واجب ہوتا ہے ؟ اور روزہ کی حالت میں کفارہ واجب ہوتا ہے ؟ اگرچہ مناسب وقت تو یہی تھا کہ تاوقتیکہ آپ وجوبِ غسل اور وجوبِ کفارہ کی دلیل بیان نہ کریں ہم اپنے مدعا کی دلیل بیان نہ کرتے مگر چونکہ بعض بعض کو ہماری دلیل سننے کا حد سے زیادہ اشتیاق ہے اس لئے ابھی لکھ دیتے ہیں؛

سو سنیے! تتبعِ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں موجبِ غسل (غسل کو واجب کرنے والی بات) خروجِ منی (منی کا نکلنا) ہے مگر شارعؑ نے بعض مواقع میں اس کے اسباب و دواعی کو اس کے قائم مقام کردیا ہے، جیسے اصل میں ناقصِ وضو (وضو توڑنے والی چیز) خروجِ ریح (ہوا کا خرج ہونا) وغیرہ ہے لیکن بعض موقع میں نیند کو جو باعثِ استرخاءِ اعضاء (یعنی اعضاء کے ڈھیلے / فراخ ہوجانے کے باعث نیند) سببِ خروجِ ریح (ہوا خارج ہوجانے کا سبب) ہے، یہی وجہ ہے کہ جس نیند میں احتمالِ خروجِ ریح نہ ہو اس سے وضو نہیں جاتا. چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ صحابہ انتظارِ عشاء میں بیٹھے بیٹھے سوجایا کرتے تھے ، اور پھر اسی وضو سے نماز پڑھا کرتے تھے. عٰلى هٰذا موجبِ غسل درحقیقت انزالِ منی ہے ، چناچہ ابتداۓ اسلام میں صحبت بلا انزال سے غسل واجب نہیں ہوتا تھا اور نیز اسی وجہ سے احتلام فی المنام (نیند میں احتلام ہوجانے) میں وجوب غسل کے لئے انزال شرط ہے ، لیکن شارح نے وطی و مجامتِ ہم جنس (اپنی جنس والے سے یعنی جیسے مرد کا مرد سے یا عورت کا عورت سے مجامعت) کو منجملہ دواعیِ انزال (یعنی انزال کو دعوت دینے) اعلیٰ درجہ کا سبب ہے ، قائم مقامِ انزال کیا ہے . اور بوجہِ چند اس کو بھی موجبِ غسل قرار دیا ہے؛
١) اول یہ کہ یگانگتِ جنسی باعثِ غلبۂ شہوت ہے؛
٢)  دوم یہ کہ محلِ شہوت کا منکشف ہونا اور زیادہ تر باعثِ ہیجانِ شہوت ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ان مواضع کا ڈھکنا بہ نسبت ران وغیرہ کے سخت درجہ کا موکد ہے؛
٣) سوم یہ کہ پھر ایسے غلبۂ شہوت کے وقت حرکاتِ جماعی کا وقوع میں کرنا انزالِ منی کو قریبُ الوُقوع کردیتا ہے؛
٤) چہارم یہ کہ ایسے وقت میں اکثر خروجِ مذی ہوا کرتا ہے اور اس سے منیِ رقیق کے اختلاط کا احتمال ہوا کرتا ہے؛
٥) پنجم یہ کہ اگر مذی نکلتی بھی ہے تو نظر سے غائب ہوتی ہے، اگر پیشِ نظر ہوتی تو مذی و منی میں فرق چاندن دشوار نہ ہوتا. نظر برین شارعؑ نے صحبتِ ہم جنس کو قائم مقامِ انزال کرکے موجبِ غسل قرار دیا ہے، مگر صحبتِ جانور میں اول تو یگانگتِ جنسی مفقود ہے بلکہ بوجہِ اختلافِ جنسی رہی سہی شہوت بھی کم ہوجاتی ہے، دوم یہ کہ فرجِ جانور محلِ شہوت نہیں یہی وجہ ہے کہ شارعؑ نے اس کی ستر پوشی کی لوگوں کو تکلیف نہیں دی. اگر (یہ) محلِ شہوت ہوتا تو ضرور ان کو ڈھانکنے کی تکلیف دی جاتی اور نیز اسی وجہ سے طبائعِ سلیمہ اس سے متنفر ہوتے ہیں اور اس کے ذکر سے بھی مثل ذکر قے (الٹی) یا پاخانہ کے مکدر ہوتی ہیں پھر اس حالت میں بھی کوئی اس سے خراب ہوتا ہے تو محض اپنی سفاہت و دناءَت سے خراب ہوتا ہے.
نظر برین فرجِ جانور میں عضوِ خاص داخل کرنا ایسا ہے کہ گوبر و پاخانہ کے تودہ میں گھسادینا اور در و دیوار کے روزن میں چھپادینا یا ہٹی میں دبادینا ہے، سو وہ جیسے ہاتھ سے دبالینے میں یا ہاتھ سے سیلادینے میں تاوقتیکہ انزال نہ ہو غسل واجب نہیں ہوتا ہے ایسے ہی صحبتِ جانور میں بلا انزال غسل واجب نہیں ہوگا ، اگرچہ سخت درجہ کی معصیت اور سخت درجہ کی سزا کا مستوجب ہے.

جب ایسے مسئلہ سے فارغ ہوۓ تو دوسرے مسئلہ کا حال بھی خیال فرمائیے ؛ اگرچہ روزہ رمضان میں کسی نے بوجہ اپنی خباثتِ نفس کے کسی جانور سے بدفعلی کی تو مرتکبِ حرام بیشک ہوا اور مستوجبِ تعزیر لاریب بن گیا پر کفارہِ افطار اس کے ذمہ واجب نہیں ہے. وجہ اس کی یہ ہے کہ جملہ کفارات سزاہاۓ شرعیہ اور حدودِ دینیہ ہیں اور حدود میں شارعؑ  کو یہ امر ملحوظ ہے کہ فعل میں جو جو سزا مقرر ہوئی تو اس سزا کو سی فعل پر مقصود رکھنی چاہئے ، اس فعال کی مناسبت میں اپنے قیاس سے اس حد کو جاری نہیں کرنا چاہئے ، یہی وجہ ہے کہ نبی کریمؐ نے بمقتضاۓ آیت قرآنی : وَالسّارِقُ وَالسّارِقَةُ فَاقطَعوا أَيدِيَهُما جَزاءً بِما كَسَبا نَكٰلًا مِنَ اللَّهِ [المائدہ : ٣٨] چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم تو فرمایا ، پر خائن اور اچکا اور لٹیرے کا ہاتھ کاٹنے کا حکم نہ دیا بلکہ صاف طور پر فرمادیا کہ لَيْسَ عَلَى خَائِنٍ , وَلَا مُنْتَهِبٍ , وَلَا مُخْتَلِسٍ , قَطْعٌ
ترجمہ : نہ امانت میں خیانت کرنے والے کا ، اور نہ مال لوٹنے والے کا ، اور نہ ہی گرہ کٹ کا ، (ہاتھ) کاٹا جاۓ گا ؛

اگرچہ متقاضاۓ قیاس یہ تھا کہ ان تینوں پر بدرجہِ اولیٰ قطعِ ید (ہاتھ کاٹنا) واجب ہوتا پر کیا کیجئے کہ حدود میں شارعؑ کو قیاس و اجتہاد پسند نہیں ہے بلکہ حدود کے اصلی جرموں میں بھی یوں حکم (بروایتِ حضرت ابو ہریرہؓ آیا) ہے کہ : 
ادْرَءُوا الْحُدُودَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ... یعنی بچاؤ حدود (کی سزاؤں سے) جہاں تک ہو سکے.
اور 
بروایتِ حضرت ابن عباسؓ "شبہات" میں حدود سے بچانے کا بھی ذکر ملتا ہے :
ادْرَءُوا الْحُدُودَ بِالشُّبُهَاتِ ... یعنی بچاؤ حدود (کی سزاؤں سے) شبھات کے ذریعہ سے بھی.
تخريج الحديث
 م طرف الحديثالصحابياسم الكتابأفقالعزوالمصنفسنة الوفاة
1ادرءوا الحدود عن المسلمين ما استطعتم فإن كان له مخرج فخلوا سبيله فإن الإمام أن يخطئ في العفو خير من أن يخطئ في العقوبةعائشة بنت عبد اللهجامع الترمذي13401424محمد بن عيسى الترمذي256
2ادرءوا الحدود عن المسلمين ما استطعتم فإن وجدتم لمسلم مخرجا فخلوا سبيله فإن الإمام أن يخطئ في العفو خير من أن يخطئ بالعقوبةعائشة بنت عبد اللهالمستدرك على الصحيحين82324 : 379الحاكم النيسابوري405
3ادرءوا الحدود ما استطعتم عن المسلمين فإن وجدتم للمسلم مخرجا فخلوا سبيله فإن الإمام لأن يخطئ في العفو خير له من أن يخطئ في العقوبةعائشة بنت عبد اللهسنن الدارقطني27263075الدارقطني385
4ادرءوا الحدودعلي بن أبي طالبسنن الدارقطني27273076الدارقطني385
5ادرءوا الحدود عن المسلمين ما استطعتم فإن وجدتم للمسلم مخرجا فخلوا سبيله فإن الإمام أن يخطئ في العفو خير له من أن يخطئ في العقوبةعائشة بنت عبد اللهالسنن الصغير للبيهقي14893500البيهقي458
6ادرءوا الحدود عن المسلمين ما استطعتم فإن وجدتم للمسلم مخرجا فخلوا سبيله فإن الإمام أن يخطئ في العفو خير له من أن يخطيء في العقوبةعائشة بنت عبد اللهالسنن الكبرى للبيهقي156808 : 236البيهقي458
7ادرءوا الحدودعلي بن أبي طالبالسنن الكبرى للبيهقي156818 : 236البيهقي458
8ادرءوا الحدود ولا ينبغي للإمام أن يعطل الحدودعلي بن أبي طالبالسنن الكبرى للبيهقي156828 : 236البيهقي458
9ادرءوا الحدود ما استطعتم فإن وجدتم للمسلمين مخرجا فخلوا سبيله فإن الإمام أن يخطئ في العفو خير من أن يخطئ في العقوبةعائشة بنت عبد اللهالسنن الكبرى للبيهقي168269 : 122البيهقي458
10ادرءوا الحدود ما استطعتمعبد الرحمن بن صخرمسند أبي يعلى الموصلي65836618أبو يعلى الموصلي307
11ادرءوا الحدود بالشبهاتعبد الله بن عباسمسند أبي حنيفة رواية الحصكفي3124أبو حنيفة150
12ادرءوا الحدودعلي بن أبي طالبإتحاف المهرة14137---ابن حجر العسقلاني852
13ادرءوا الحدود بالشبهاتعبد الله بن عباسمسند أبي حنيفة لابن يعقوب68---عبد الله بن محمد بن يعقوب بن البخاري340
14ادرءوا الحدود عن المسلمين ما استطعتم فإن وجدتم للمسلمين مخرجا فخلوا سبيلهم فإن الإمام إن يخطئ في العفو خير من أن يخطئ في العقوبةعائشة بنت عبد اللهتاريخ بغداد للخطيب البغدادي6193 : 282الخطيب البغدادي463
15ادرءوا الحدود عن المسلمين ما استطعتم فإن وجدتم لمسلم مخرجا فخلوا سبيله فإن الإمام إن يخطئ في العفو خير من أن يخطئ في العقوبةعائشة بنت عبد اللهتاريخ دمشق لابن عساكر7102665 : 194ابن عساكر الدمشقي571
16ادرءوا الحدود بالشبهاتموضع إرسالالمنتظم في تاريخ الأمم لابن الجوزي970---أبو الفرج ابن الجوزي597
17ادرءوا الحدود عن المسلمين ما استطعتم فإن وجدتم للمسلمين مخرجا فخلوا سبيلهم فإن الإمام أن يخطئ في العفو خير من أن يخطئ في العقوبةعائشة بنت عبد اللهطبقات الحنابلة1442 : 139أبي يعلى الحنبلي526
18ادرءوا الحدود بالشبهات ما استطعتمعلي بن أبي طالبالجليس الصالح الكافي والأنيس الناصح الشافي المعافى بن زكريا7844 : 170المعافى بن زكريا390
19ادرءوا الحدود بالشبهات ما استطعتمعلي بن أبي طالبالجليس الصالح الكافي والأنيس الناصح الشافي المعافى بن زكريا927784المعافى بن زكريا390


یعنی جہاں تک ہوسکے حد کو ذرا سے بہانے (شبہ) سے دفع کردیا کرو ، سو اس حدیث کے موافق فقہ کا تو قاعدہ مقرر ہوگیا ہے کہ ((الحدود تندرء بالشبهات)) حد ذرا سے شبہ سے ساقط ہوجاتی ہے. بالجملہ بوجوہاتِ مذکورہ بالا صحبتِ جانور بہت سے امور میں صحبتِ ہم جنس سے علیحدہ ہے تو جیسے رسول اللهؐ نے خائن و اچکا وغیرہ پر چوری کی حد جاری نہیں فرمائی ہے ایسے  سزاۓ کفارہ جوعورت سے صحبت کرنے میں واجب ہوتی ہے ، صحبتِ جانور میں واجب نہ کریں گے بلکہ اس پر سزاۓ تعزیر جاری کرکے ہدایتِ توبہ تلقین کریں گے. والله أعلم وعلمه أحكم. فقط
[ماخوذ : تعارف فقہفقہ حنفی پر اعتراضات کے جوابات : ص # ٦٢ ، از مولانا سید مشتاق علی شاہ] تخریج و تسہیل و تزئین: عزیر میمن


زیر نظر رسالہ فقہ حنفی کی حقیقت اور اس کے اقرب الی النصوص ہونے کی لطیف بحث پر مبنی ہے۔ اس میں مختصرطور پر قیاس و اجتہاد اور تقلید شخصی کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی گءی ہے۔