Sunday 9 December 2012

تعارف سیرت النبی ﷺ


سیرت کی لغوی تعریف
سیرت عربی ڈکشنری میں عادت، خصلت، طریقہ اور طرزِ زندگی کے کیفیات وسلوک کوکہتے ہیں اور "سِیْرَۃُ الرَّجُلْ" سوانح عمری کو کہتے ہیں۔


سیرت اسلام کی اصطلاح میں
محمد  کی پیدائشِ مبارکہ سے لیکر وفات تک کے تمام گوشوں اور آپ  کی ذاتِ مقدس وصفاتِ عالیہ، عبادات ومعاملات، فضائل ومعجزات، احوال وارشادات وغیرہ کے جامع بیان کو سیرت کہتے ہیں۔






انسانی دنیا کے نامور تاریخ ساز شخصیات کا ایک طائرانہ جائزہ:
آنحضرتکی سیرت کی اہمیت کو جاننے سے پہلے مختصر سا اگر ہم انسانی دنیا کی تاریخ کا جائزہ لے لیں تو آنحضرت   کی سیرتِ پاک کی اہمیت اور اچھی طرح واضح ہوسکتی ہے۔
انسانی دنیا میں ویسے تو لاکھوں کروڑوں اربوں کھربوں انسان پیدا ہوئے اور گذرگئے؛ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی گذرے ہیں جو اپنے علم وفن میں نمایا کارنامے انجام دئے اور تاریخ انہی لوگوں سے بنتی ہیں اور صدیوں تک اُن کے نام وکارنامے یاد کیئے جاتے رہتے ہیں تو اِس طرح وہ حضرات لوگوں کے دلوں میں زندہ وباقی رہتے ہیں اور لوگ انہی کارآمد شخصیات کے نام وکارناموں کو اپنے سینوں میں بھی محفوظ رکھتے ہیں اور اپنی زندگی کے لیے ایک نمونہ وآئیڈیل بناکر اُن کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں؛ ایسی ہزاروں لاکھوں شخصیات دنیائے انسانیت کی تاریخ میں گذری ہیں کہ جن کی زندگی کے آئینہ میں بعد کے لوگ اپنے آپ کو سنوارنے وبنانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اُس علم وفن میں اپنے لیے ایک آئیڈیل ونمونہ تسلیم کرتے ہیں کہ جن میں شاہانِ عالم، فاتحینِ عالم، سپہ سالاران، حکماء، اطباء، فلاسفر، شعراء، امراء، قانون ساز، سائنٹس وانجینئرس وغیرہ ہیں؛ لیکن ان میں سے کسی کی عملی زندگی ان کے متعلقہ علم وفن کے علاوہ دنیا کی پیدائش کا مقصد، انسانی فلاح وبہبود کس میں ہے، حسنِ معاشرت وحسنِ اخلاق مرنے کے بعد کیا ہوگا وغیرہ میں سے کسی کا درس، ان کی زندگیوں میں سے کسی کی حیات میں نہیں ملتا کہ جن کو لائقِ تقلید ونمونہ بنائیں ہاں! شاہانِ عالم وفاتحینِ ممالک اپنی بادشاہت وکامیابی کے خوب جلوے دکھائے، پرشکوہ محلات ودربار سجائے اور اپنی بادشاہت ووجاہت کے دنیا پر خوب رعب ودبدبے جمائے؛ لیکن انسانوں کو اوہام پرستی وخیالاتِ فاسدہ کی قید وبند سے نہ چھڑا سکے اور نہ ان کو روحانی بیماری وناامیدی کے دلدل سے نکال کر روحانی صحت وامید کی صاف ستھری زمین پر لاکھڑا کرسکے؛ اسی طرح فوج کے سپہ سالاران، ملکوں وخزانوں اور انسانی جسموں کو توفتح کرنے کے خوب کارنامے انجام دیئے اور رہتی دنیا تک تاریخِ انسانی میں اپنا نام سنہری حرفوں سے لکھوالیے؛ لیکن روح کے سکون واخلاقی اقدار کو فتح کرنے کے کارنامے انجام نہ دے سکے؛ اسی طرح اطباء، حکماء وفلاسفر بھی اِس دنیا میں گذرے ہیں جو اپنے فن وفلسفہ اخلاق سے تومرتے ہوئے کوبچالیے اور اپنی کمالِ عقلی سے نظامِ عالم کے نقشے کوبدل دیئے اور عجائباتِ عالم کے حیرت انگیز کارنامے، نظیریں وپیشین گوئیاں دنیا کے سامنے پیش کئے اور علمِ اخلاق کے وہ فلسفیانہ اسرار ورموز دنیائے انسانیت کے سامنے رکھ دیئے کہ دنیا اُن کوسن کر حیران وششدر رہ گئی؛ لیکن وہ اپنے علمِ طب وفلسفہ سے روحانی بیماریوں کی دواؤں کے نسخے ترتیب نہ دے سکے اور نہ عملی مثال ونمونہ پیش کرسکے، جس کی وجہ سے فلاسفہ کے وہ اخلاقی نظریات اور ان کے اسرار ورموز، نظریات وگفت وشنید ہی کی حد تک رہ گئے، اُس سے آگے بڑھ نہ سکے اس لیے کہ اُن میں سے کسی نے اُن نظریات کی ترجمانی کرنے والی کوئی عملی شخصیت بطورِ نمونہ عام انسانوں کے سامنے پیش نہیں کی کہ جس کو دیکھ کر لوگ فلسفیانہ اخلاقی اقدار اپنا سکیں؛ اس لیے کہ انسانی زندگی میں اخلاقی اقدار صرف کانوں سے سن سن کرمنتقل نہیں ہوتے؛ بلکہ کانوں سے سننے کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے کسی کواُ س پر عمل کرتا دیکھ دیکھ کر منتقل ہوتے ہیں ؛ جس طرح اِن اطباء، حکماء اور فلاسفر کی زندگیاں انسانی فلاح وبہبود کا کوئی عملی نمونہ پیش نہ کرسکیں اس طرح شعرا، امراء، وقانون ساز کی زندگیاں بھی فلاحِ دارین کا کوئی نمونہ پیش نہ کرسکیں؛ جہاں تک شعراء کا تعلق ہے گووہ خیالی دنیا کے شہنشاہ ضرور ہیں جو زمین وآسمانوں کے خلائوں کوملانے پر قدرت رکھتے ہیں؛ بلکہ خیالی دنیا میں توناممکن کوبھی ممکن بنادیتے ہیں؛ لیکن عملی زندگی میں پوری انسانیت کوسامنے رکھ کر کوئی کامیاب وکامران زندگی پیش نہ کرسکے کہ جس پر چل کر ایک عام آدمی دارین کی کامیاب زندگی کو پالے۔
اِسی طرح ایک طرف امراء اور دولتمندوں کی داستانیں ہیں جوہم کومال ودولت کمانے کے راز ہائے سربستہ توبتاتی ہیں لیکن اُس صحیح زندگی کے گر کا پتہ نہیں بتاسکتیں جودارین کی کامیاب زندگی کی ضامن ہو اور دوسری طرف قانون سازوں کے قانون اور اُن کی عملی زندگیاں ہیں یہ بھی انسانی فلاح وکامیابی کی ضمانت نہیں دیتیں اس لیے کہ جوقانون وضع کیئے گئے ہیں وہ صرف اِس دنیا کی حیات ہی کی حد تک محدود ہیں وہ بھی ناقص جوآئے دن بدلتے رہتے ہیں؛ بلکہ وہ قوانین توحکمران کی خوشنودی حاصل کرنے اور حکومت کی بقاواستحکام کے لیے وضع کیے جاتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ ہرحکمران اپنے دورِ حکومت میں اپنی مرضی وپسند کے قوانین وضع کرواتا ہے اور سابقہ حکمرانوں کے قوانین کوحرفِ غلط کی طرح کاٹ دیتا ہے آج بھی اِس مہذب دور میں بھی یہی صورتِ حال قائم ہے کہ آئے دن آئین ساز کمیٹی قوانین بناتی ہیں جواپنے ہراجلاس میں آج جوبناتی ہیں کل اس کو ختم کردیتی ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ حاکم کےحکومت کے دن کسی طرح بڑھائے جائیں اور اس کومستحکم کیا جائے اور اس طرح اپنی روزی روٹی پکی ہوتی رہے۔
اسی طرح سائنسدان وانجینئرس اپنی تاریخی زندگی سے توستاروں وسیاروں سے لیےکرذرات تک کی تحقیقات انسانیت کے سامنے رکھدئے اور اس کائنات کے پوشیدہ خزانوں کوکھول دکھاتے رہے اور انجینئرس اپنے فن کا جادو جگائے اور ایسی عالی شان فلک بوس عمارتیں اور محلات تعمیر کیئے اور ان میں وہ کُنْ فَیَکُوْنِیْ شان والے آلات استعمال کیئے کہ جن کواستعمال کرنے والے شخص میں بھی خدائی کے جلوہ کا احساس ہو؛ لیکن ان کے یہ کارنامے حقیقی خداوجنت کی خدائی کا احساس نہ دلاسکے۔
اِن میں سے ہرایک کی عملی زندگی اُن کے اپنے علم وفن کی حد تک تولائقِ تقلید ہوسکتی ہے؛ لیکن اِن میں سے کسی کی عملی زندگی نہ اچھائیوں کے اقدار بتاسکی اور نہ برائیوں کے حدود وسرحدیں قائم کرسکی، نہ انسانیت کواوہام پرستی وخیالاتِ فاسدہ کے دلدل سے نکال سکی اور نہ برادرانہ باہمی تعلقات کی گھتی سلجھاسکی کہ جس سے انسان کی معاشرت درست ہو اور وہ روحانی مایوسیوں وناامیدیوں کا علاج کرسکےاور دلوں کی ناپاکی وزنگ کو دور کرسکے اور نہ اچھے اخلاق واعمال کی کوئی عملی تصویر پیش کرسکے کہ جس سے نسلِ انسانی سے روحانی واُخروی مشکلات دُورہوں اور دلوں کی بستی میں امن وامان قائم ہو، بادشاہوں نے توظاھری ملک کے نظم ونسق کوتودرست کرلیا؛ لیکن روحوں کی مملکت اور دلوں کی دنیا کا نظم ونسق درست نہ کرسکے یہ کام اِن حضرات سے اس لیے بھی نہ ہوسکا کہ یہ اِن کا موضوع نہ تھا اور نہ وہ لوگ یہ کام کرسکتے تھے، اس لیے کہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے جماعتِ انبیاء علیہم السلام کا انتخاب فرمالیا تھا۔
الغرض دنیائے انسانیت کی تاریخ میں کتنی ہی نامور شخصیات ایسی گذری ہیں جواپنے علم وعقل کے زور سے اپنے اپنے زمانہ میں علم وفن کے امام وشہنشاہ کہلائے اُن تمام کی قدرِ مشترک کوششوں وکاوشوں ہی سے انسان بتدریج اِس مادی دنیا کے خواص جان کردیگرمخلوقات کے بالمقابل عمدہ معاشرت، صحیح تمدن، اعلیٰ مقاصد کی تکمیل اور ساری مخلوقات پر اپنے وجود کوبرتر وبالاثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا؛ اِس لیے ہم اُن تمام اہلِ علم وفن کے ممنون ومشکور ہیں کہ جنھوں نے اپنی انتھک کوششوں وجدوجہد سے انسان کی اِس دنیاوی زندگی کی کٹھن، دشوار گذار، پرپیج وسنگ ریز راہ کو انتہائی سہل وآرام دہ بنادیا جس کے نتیجہ میں آج ایک عام آدمی قابلِ فخر زندگی گذار رہا ہے۔







(۱)انبیائے کرام اور اُن کے فرائض
ہم سب سے زیادہ اُن چنندہ وبرگزیدہ، پاک ومقدس ہستیوں کے شکرگذار ہیں کہ جن کوہم انبیاء علیہم السلام کہتے ہیں، جن کی اس دنیا میں آمد کی برکت سے دنیا میں جہاں کہیں بھی ایک اللہ کی پرستش، عبادت کی مختلف شکلیں، نیکی کی روشنی، اچھائی کا نور، اخلاص وللّٰہیت کی عملی شکل وصورت، دل کی صفائی کا اجالا، رحم وکرم، عدل وانصاف، غریبوں کی مدد، یتیموں کی پرورش، بے واؤں کا سہارا، بیماروں کی تیمارداری، محتاجوں وضرورتمندوں کی مدد ونصرت، اخلاق کی بہتری، مختلف حالتوں میں انسانی قویٰ میں اعتدال ومیانہ روی پیدا کرنے کی کامیاب کوششیں ملتی ہیں؛ خواہ وہ پہاڑوں کے غاروں، جنگلات کے جھنڈوں، ریگستانوں کے کھلے میدانوں، دریاؤں وسمندروں کے کناروں پر ہوں یاشہروں وبستیوں کی آبادیوں میں وہ سب کی سب اِنہی انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نہ کسی فرد سے منسلک ہوں گی؛ اورانہی کی ہدایات وتعلیمات ہی کا نتیجہ ہوگا کہ جن کے ذریعہ ہماری اندرونی حرص وھویٰ کی چالیں درست ہوئیں اور انہوں نے ہی ہمارے روحانی بیماریوں کے علاج کے نسخے ترتیب دئے اور ہمارے جذبات، احساسات اور ارادوں کے نقشوں کودرست کیا اور ہمارے نفوس وقلوب کے عروج ونزول کی کیفیات کوحداعتدال میں رکھنےکے فن ترتیب دئے جن سے مادی وروحانی زندگی کے صحیح تمدن وحسنِ معاشرت کی تکمیل ہوئی، اچھی سیرت وحسنِ اخلاق، انسانیت کا جوہر قرار پایا؛ نیکی وبھلائی، ایوانِ عمل کے نقش ونگار ٹھہرے، اللہ وبندہ کے درمیان باہم روابط مضبوط ہوئے؛ الغرض ہرزمانہ میں لوگ انبیاء علیہم السلام ہی کی عملی زندگی کودیکھ دیکھ کراپنی دنیوی زندگی کے تمدن، حسنِ معاشرت وحسنِ معاملگی کوسیکھ کراس پر عمل کرتے رہے اور منشائے خداوندی کے مطابق اپنی زندگی کے شب وروز گذارتے رہے تاکہ اخروی دائمی زندگی کے چین وسکون کورضائے الہٰی وجنت کی شکل وصورت میں پاسکیں۔





خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے اسوۂ حسنہ میں قیامت تک آنے والی انسانیت کی نجات ہے
یہ دنیا امتحان گاہ ہے ایک دن اِس کو ختم ہونا ہے توجس طرح ایک دن یہ ختم ہوگی اُسی طرح اُس میں پیدا ہونے والی انسانیت کوبھی ختم ہونا ہے اور انبیا علیہ السلام کی آمد کا سلسلہ انسانوں میں ہی ہوا کرتا تھا؛ لہٰذا اِس آمدِ انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کوبھی ختم ہونا تھا تویہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے لیکر محمد   تک چلتا رہا؛ چونکہ اللہ تعالیٰ نے محمد   ہی کو وجہِ کائنات، سرورِ دوعالم، اشرف الانبیاء اورخاتم الانبیاء بنایا ہے اس لیے اس کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ آپ   کی تشریف آوری سب سے اخیر میں ہو؛ تاکہ لوگوں پر بھی ظاہرہوجائے کہ آپ   کس طرح اشرف الانبیاء، افضل الانبیاء اور خاتم الانبیاء ہیں، یہ ہم اپنے مذہبی عقیدہ کی بنیاد پرمحض کوئی دعویٰ نہیں کررہے ہیں؛ بلکہ یہ ایک واقعی حقیقت ہے جس کی بنیاد دلائل وشواہد پر قائم ہے۔
آپ   کی بعثت کے بعد سے قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے اگرکوئی کامل ومکمل لائقِ عمل وقابل تقلید زندگی ہے تووہ صرف اور صرف محمد   کی حیاتِ مبارکہ ہے آپ   کے علاوہ کسی نبی ورسول کی زندگی اس طرح مضبوط طریقہ پر محفوظ نہیں ہے جس طرح آنحضرت  کی سیرت محفوظ ہے، دیگرانبیاءعلیہم السلام کی مکمل سیرت محفوظ رکھنے کی اب چنداں ضرورت بھی نہیں ہے؛ اس لیے کہ ہر نبی ورسول کا وقت، علاقہ، قوم وبستی متعین ومحدود تھی؛ اس لیے اللہ تعالیٰ اس وقت تک، اس قوم کی حد تک، اُن کی زندگیوں کومحفوظ رکھا تھا؛ اب چونکہ اُن کی نبوت ورسالت کا دور ختم ہوچکا ہے؛ اس لیے اُن کی تاریخی زندگیاں بھی تکوینی طور پرمحفوظ نہیں رکھا گیا ؛ اب چونکہ محمد کی نبوت ورسالت کا دور ہے جو کہ آپ  سارے عالَموں کے، رہتی دنیا تک کے، جن وانس کے نبی ورسول ہیں؛ اِس لیے آپ  کی پوری عملی زندگی مختلف انداز وطریقوں سے محفوظ کی گئی؛ تاکہ جن وانس کے مختلف احوال ومصروفیات کے اعتبار سے ایک کامل ومکمل، بہترین نمونۂ حیات ثابت ہو، آپ   کی سیرتِ پاک میں ہر آدمی کواس کے اپنے احوال ونسبتوں کے اعتبار سے ایک بہترین زندگی گذارنے کا طریقہ میسر آئے۔




محمد  کے سیرت کی اہمیت اسلام کی نظر میں
اسلام میں سیرتُ النبی  کی اہمیت اور مقام ومرتبہ اُتناہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ کتاب اللہ کا یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہبری ورہنمائی اور زندگی گذارنے کے دستور کوکتاب یعنی قرآن مجید کی شکل میں نازل فرمایا اُسی طرح اُس پر عمل آوری کی بہترین شکل وصورت اور انسانوں کے لیے سب سے عمدہ اُسوہ ونمونہ صاحبِ کتاب یعنی حضرت محمد کی شکل وصورت میں مبعوث فرمایا، جس طرح پورا قرآن کریم انسانی زندگی کے لیے کتابی دستور کی حیثیت رکھتا ہے اُسی طرح آنحضرت  کی پوری عملی زندگی عملی دستور وقانونِ الہٰی کی حیثیت رکھتی ہے؛ اسی کوبتلانے اورسمجھانے کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
"وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىo إِنْ هُوَإِلَّاوَحْيٌ يُوحَىo"۔          
(النجم:۴،۳)
یعنی آپ  قرآنِ مجید کے علاوہ جوبات بھی ارشاد فرماتے ہیں وہ وحی الہٰی ہی ہوتی ہے، یعنی آپاپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے جوکچھ بھی ارشاد فرماتے ہیں وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، بس!فرق صرف اتنا ہے کہ وہ وحی غیرمتلو یعنی حدیث ہوتی ہے جس کونماز میں قرآنِ شریف کے طور پر نہیں پڑھ سکتے، باقی حکم وعمل کے اعتبار سے دونوں برابر درجہ کے ہیں، وحی غیرمتلو میں حکم وعمل کے اعتبار سے جوتخفیف ہوئی ہے وہ قوتِ دلیل میں کمی کی وجہ سے ہے؛ ورنہ توقرآن اور آپ  کی عملی زندگی اعتقاد، حکم اورعمل کے اعتبار سے دونوں برابردرجہ کے ہیں؛ اس کو سمجھنے کے لیے دل میں عشقِ نبی وحب حبیب اللہ کی چنگاری کی ضرورت ہے، جب وہ چنگاری سُلگ کربڑھتے بڑھتے ایک شعلہ جوّالہ بن جاتی ہے تواس وقت جب ایک سچے امتی کو صحیح طریقہ پر معلوم ہوجاتا ہے یہ آنحضرت  کا قول وفعل ہے توآنحضرت کی ہراداء کی نقل اتارنے کوباعثِ فخر وسعادت اورقرب خداوندی میں رفعِ درجات کا سبب سمجھتا ہے توپھر وہ حضراتِ صحابہؓ ہی کی طرح عشقِ نبی وحب نبی  میں ڈوب کرسرکارِ دوعالم  کی ایک ایک اداء کی نقل اُتارنے کوفرضِ لازمی کےدرجہ میں لیکر پوری کیفیات واحساسات کے ساتھ ادائیگی پرمرمٹنے کوہروقت وہمہ تن تیار ہوجاتا اور وہ اپنی زندگی کے اُن احوال اور اُن اعمال پر فخر کرتا ہے جن میں عشقِ مصطفی  میں غرق ہوکر آنحضرت  کے اداء کی نقل اتاری ہو۔




سیرتِ مبارکہ ﷺ پڑھنے اور سننے کے فوائد
سرورِ کونین، آقائے نامدار، تاجدارِمدینہ حضرت محمدرسول اللہ کی حیاتِ مبارکہ کا بار بار مطالعہ کرنے اور آپ  کی سیرت سے متعلق بارہا بیانات سنتے رہنے کے بے شمار فوائد ہیں جن میں سے چند یہاں ذکر کیے جارہے ہیں:
(۱)وہ اپنے آپ کوآنحضرت  کی مجلس میں بارہا پاتے رہتا ہے اور اپنی عملی زندگی میں ویسا ہی کچھ کرتے رہنےکی کوشش کرتا ہے جو آنحضرت  کو کرتے یا کہتے رہنے کا مطالعہ کرتا یا سنتا ہے۔
(۲)سیرت النبیکے مطالعہ سے مسلمان کے حوصلے وعزائم برھتے ہیں جن کی مدد سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے پر وہ آسانی سے قادر ہوجاتا ہے۔
(۳)سیرت کی برکت سے مسلمان کے اندر حکمت ودانائی، بصیرت وفراست میں ترقی ہوتی ہے اور دوراندیشی پیدا ہوتی ہے، جس سے آدمی خطرات ونقصانات سے بچتے رہتا ہے اور ایک محتاط زندگی گذارنے کا عادی ہوتا ہے۔
(۴)آپ  اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہنچانے کی خاطر جوجومصیبتیں وتکلیفیں برداشت کیئے اُن کا مطالعہ کرنے سے ہمارے اندر بھی آپ  سے عشق ومحبت اور اسلامی فداکاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اپنے اندر نیکیوں پر عمل کرنے میں جودشواری اور برائیوں سے بچنے میں جوتکلیف محسوس ہوتی ہے اس پر صبرکرنے اور اس کو برداشت کرلینے کی صفت پیدا ہوتی ہے اور اسلام کی خاطر ان کوبرداشت کرلینے پر جوبشارتیں اور خوشخبریاں ہیں اس کو پڑھنے سے رنج وغم دور ہوکر ایک خوشی ومسرت پیدا ہوتی ہے اور ہروقت دل ودماغ میں تازگی وفرحت، سرور وانبساط کی کیفیت رہتی ہے۔
(۵)سیرت النبی  کا مطالعہ ہزاروں لچھے دار تقاریر کے بالمقابل، پندونصائح اور عبرت آموزی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
(۶)آنحضرت  کی سیرت کے مطالعہ سے انصاف پسند طبائع یہ اندازہ قائم کرسکتی ہیں کہ اللہ کے پیغمبر محمد  اپنی ذات، اپنے اخلاقِ حسنہ واوصافِ حمیدہ سے اور اپنے علمی وعملی کمالات سے دنیا میں کس طرح امن وامان قائم کیا تھا؟ اور بھٹکتی دنیا کوایک معبودِ حقیقی پرکس طرح لاکھڑا کیا تھا؟ اور دنیا سے ظلم وزیادتی اور حق تلفی کومٹاکر امن وامان قائم کیسے کیا تھا؟ اور پوری انسانیت کے لیے رہتی دنیا تک کیا اُسوہ ونمونہ چھوڑا؟۔
(۷)ہرمسلمان کا دینی واخلاقی فریضہ ہے کہ آپ  کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کریں؛ کیونکہ آپسے محبت ہمارا ایمان ہے اور آپکا ذکر ہماری جان ہے اور آپ  کی سیرت کی اتباع ہمارے لیے فلاحِ دارین ونجاتِ ابدی کی پہچان ہے اور آپ  کی حیاتِ طیبہ ہماری علمی وعملی زندگی کی دلیلِ راہ ہے؛ لہٰذا ہرمسلمان کا دینی واخلاقی اور آپ  سے محبت کے تقاضہ کا بھی یہی فریضہ ہے کہ آنحضرت  کی سیرت کا مطالعہ اس کثرت سے کرے کہ آپ  کی اتباع کے بغیر اپنی زندگی کا کوئی قول وفعل ادا ہی نہ ہو اور آپ  کے قول وفعل کے خلاف عمل کرنے کی ہمت وجسارت ہی نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم کو کمالِ اتباع کی توفیق نصیب فرمائے اور خلافِ سنت کا حوصلہ ہی نہ پائے، آمین۔





 کسی کو آئیڈیل اور نمونہ بنانے کے چاراہم اصول
کسی بھی شخصیت کونمونۂ عمل ولائقِ تقلید بنانے کے لیے اس میں چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے، جن میں سےکوئی ایک چیز بھی نہ ہوتو وہ شخصیت دوسروں کے لیے نمونہ عمل نہیں بن سکتی اور وہ چاروں چیزیں آنحضرت کی حیاتِ طیبہ میں سوفیصد بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں؛ اگراِن چاروں چیزوں کومعیار وسانچہ بناکر کسی بھی نبی ورسول کی عملی زندگی کی معلومات کواُن پرپرکھیں اورڈھالیں توکسی بھی نبی ورسول کی عملی زندگی سے متعلق وہ معلومات فراہم نہیں ہیں کہ جن کومعیار بناکر ہرآدمی اپنی اپنی مختلف مصروفیات، مختلف احوال اورمختلف کیفیات میں ایک نمونہ عمل پاکر اُسی کے مطابق عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت کی سرخروئی حاصل کرسکے؛ سوائے حضرت محمد مصطفےٰ کی عملی زندگی کے، آپ  کی حیاتِ طیبہ ہی کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ  کی چھوٹی سی چھوٹی ادا اور نقل وحرکت کوبڑی عقیدت ومحبت اور بڑے فخرواعزاز کے ساتھ اور پوے اہتمام وانصرام کے ساتھ انتہائی مضبوط طریقوں سے محفوظ کیا گیا کہ جن کی تاریخ میں مثال ونظیر ملنی ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔


 وہ چار باتیں یہ ہیں:
(۱)تاریخیت:یعنی مستندطریقہ سےواقعات ثابت ہوں،افسانوں اور کہانیوں کی طرح من گھڑت نہ ہوں (۲)کاملیت:جس کواپنے لیے جس شعبۂ حیات میں نمونہ ٔعمل بنانا چاہتا ہے اس میں مکمل طریقہ موجود ہو(۳)جامعیت:ہر انسانی جماعت کے لیے اس میں نمونہ موجود ہو،زندگی کے کسی شعبہ میں تشنگی باقی نہ رہے(۴)عملیت:انسانیت کے لیے جو ہدایات دی جارہی ہیں  ان ہدایات پر اس آئیڈیل کاعمل موجود ہو، اب ہرایک کی کچھ تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
(۱) محمد رسول اللہ  کی سیرت کی پہلی خصوصیت(تاریخیت)
ہم تمام ابنیاء کرام علیہم السلام کا ادب اور احترام کرتے ہیں اور ان کے سچے پیغمبر ہونے پر یقین رکھتے ہیں، ان میں  سےہر ایک نے اپنے اپنے وقت میں اوراپنی اپنی قوموں کے سامنے اُس زمانے کے مناسب حال، اخلاقِ عالیہ اور صفاتِ کاملہ کا ایک نہ ایک بلند ترین معجزانہ نمونہ پیش فرمایا؛ لیکن دوام وبقاء خاتمِ نبوت اور آخر ی کامل انسانی سیرت ہونے کی حیثیت سے محمد رسول اللہؐ کو جو خاص شرف عطا ہوا ہےوہ دیگر انبیاء کو اس لیے مرحمت نہیں ہوا کہ ان کو دائمی، آخری اور خاتمِ نبوت نہیں بنایا گیا تھا،ان کی سیرت کا مقصد ایک خاص قوم کو ایک خاص  زمانہ  تک نمونہ دینا تھا، وہ قوم گذرگئی اور وہ زمانہ ختم ہوگیا اس لیے آج اُن کی سیرتیں محفوظ وموجود بھی نہیں رہیں۔
آج کسی شخصیت کی زندگی تاریخی اعتبار سے سب سے زیادہ مستند اور محفوظ ہمارے سامنے ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہ  کی زندگی ہے، اس باب میں تمام دنیا متفق ہے کہ تاریخی حیثیت سے اسلام نے اپنے پیغمبر کی، نہ صرف پیغمبر کی بلکہ جن لوگوں کےذریعہ محمد رسول اللہ  کی سیرت ہم تک پہونچی اُن کے بھی نام ونشان،زندگی کے احوال وکیفیات،اخلاق وعادات  کاایک ایسا ریکارڈ اور سرمایہ اِس امت  کے پاس موجودو محفوظ ہے کہ جس کی مثال کوئی قوم ہرگزپیش نہیں کرسکتی۔



(۲)محمد رسول اللہ   کی سیرت کی دوسری خصوصیت(کاملیت)
کسی انسانی سیرت کے دائمی نمونہ عمل بننے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی زندگی کے تمام حصے ہمارے سامنے ہوں، کوئی واقعہ پردہ راز میں اورناواقفیت کے اندھیر ے میں گم نہ ہوں، اس کی زندگی کے حالات روزِروشن کی طرح دنیا کے سامنے عیاںہوں ؛تاکہ معلوم ہو کہ اس کی سیرت کہا ں تک انسانی سوسائٹی کیلئے ایک آئیڈیل زندگی کی صلاحیت رکھتی ہے، پیغمبرِ اسلام کی زندگی کا ہر لمحہ پیدائش سے لیکر وفات تک آپ  کے زمانہ کے لوگوں کے سامنے اور آپ  کے وصال کے بعد اقوامِ عالم کے سامنے موجود ہے، حضوراکرماپنے اہلِ وطن کی آنکھوں سے کبھی اوجھل نہ رہے، پیدائش،شیر خواری، بچپن،جوانی، تجارت، شادی،احباب، قبل نبوت امین بننا اورخانہ کعبہ میں پتھر نصب کرنا، غارحراء کی گوشہ نشینی، وحی، دعوت وتبلیغ، مخالفت، سفرِ طائف، معراج،ہجرت، غزوات،حدیبیہ کی صلح، دعوت اسلام کے خطوط وپیغام، حجۃ الوداع،وفات ؛ان میں سے کون سا زمانہ ہے جو دنیا کی نگاہوں کے سامنے نہیں اورآپ  کی کون سی حالت ہے جس سے اہلِ تاریخ ناواقف ہیں؟ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، شادی بیاہ، بیوی بچے،دوست احباب، عبادت وبندگی،صلح وجنگ آمدورفت، سفر وحضر،نہانا دھونا، کھانا پینا،ہنسنا رونا، پہننا اوڑھنا،چلنا پھرنا، ملنا جلنا، خلوت وجلوت،طور طریق، رنگ و بو،خد و خال، قدوقامت یہاں تک کہ میاں بیوی کے خانگی تعلقات کے واقعات ہر چیز پوری روشنی میں مذکور اورمحفوظ ہے،آنحضرت  خلوت میں ہوں یا جلوت میں مسجد میں ہوں یا میدانِ جہاد میں، نماز میں مصروف ہوں یا فوجیوں کی درستی میں،منبر پر ہوں یا گوشہ تنہائی میں ہروقت اور ہر شخص کو حکم تھا کہ جو کچھ میری حالت اورکیفیت کودیکھے وہ سب منظر عام پر لایا؛ اِس اخلاقی وثوق اور اعتماد کی مثال کہیں نہیں مل سکتی،آپ  کی زندگی کا کوئی پہلو زیر پردہ نہیں، ایک اور حیثیت سےغور فرمائیے،آنحضرتؐ ہمیشہ صرف اپنے معتقدوں ہی کے حلقہ میں نہیں رہے؛ بلکہ مکہ میں قریش کے مجمعوں میں رہے، نبوت سے پہلے چالیس برس اُن ہی کے ساتھ گذرے،وہ بھی گوشہ نشینی میں نہیں بلکہ تاجرانہ لین دین اورکاروبار کی زندگی گذاری جس میں صادق وامین کے لقب سے مشہور ہوئے، نبوت کے بعد بھی لوگوں کو آپ  پر یہ اعتماد تھا کہ اپنی امانتیں آپ  ہی کے پاس رکھواتے، دعوائے نبوت پر قریش نے مخالفت اوردشمنی کی تمام حدیں پارکرلیں؛ لیکن آپ کے اعمال واخلاق کے خلاف ایک حرف بھی زبان سے نہ نکال سکے،سیرت محمدیؐ دنیائے اسلام کا عالم گیر آئینہ ہے اور جوکوئی اِس آئینہ میں اپنی زندگی سنواریگا وہ دنیا میں بھی کامیاب زندگی گذارے گا اور مرنے کے بعد بھی اُس کوہمیشہ ہمیش کی کامیابی وکامرانی نصیب ہوگی؛ اس لیے تمام انسانیت کے لیے یہی ایک کامل نمونۂ حیات ہے ۔





(۳)محمد رسول اللہ   کی سیرت کی تیسری خصوصیت(جامعیت)
دنیا کے ادیان ومذاہب نے خدا کی محبت کا اہل بننے اور ایک اچھی پاکیزہ اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ایک ہی تدبیر بتائی ہے کہ اُس مذہب کے شارع نے جو عمدہ نصیحتیں کی ہیں ان پر عمل کیا جائے؛ لیکن اسلام نے اس سے بہتر تدبیر یہ بتائی کہ اُس نے اپنے پیغمبرکا عملی نمونہ انسانیت کے سامنے رکھ دیااور اسے تمام انسانوں کے لیے اسوہ اور آئیڈیل قرار دیا۔
دنیا میں لوگ جس مذہب کے بھی ماننے والے ہوں یہ ناممکن ہے کہ سب ایک ہی صف انسانی سے تعلق رکھتے ہوں؛ بلکہ دنیا کا یہ نظام مختلف پیشوں اور مختلف کاموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور ان کے باہمی تعاون سے چل رہا ہے اور یہ مختلف پیشوں میں بٹ جانا اور ہرایک کا الگ الگ کام کاج میں لگ جانا بہت ضروری تھا؛ تاکہ دنیا کا یہ نظام چل سکے اور سب کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں؛ چنانچہ دنیا میں بادشاہ اور حکام بھی ہیں اور مطیع وفرماں برداررعایا بھی،قاضی اور جج بھی ہیں مجرم وسزاوار بھی فوجوں کے سپہ سالار بھی ہیں اور ان کے ماتحت عام فوجی بھی غریب بھی ہیں اور دولت مند بھی،رات کے عابد، زاہد بھی ہیں اوردن کے سپاہی ومجاہد بھی،اہل وعیال بھی ہیں اور دوست واحباب بھی،تاجر اور سودا گر بھی ہیں اور امام وپیشوا بھی تو اِن تمام مختلف قسم کی مصروفیات رکھنے والے لوگوں کواپنی اپنی زندگی کے لیے عملی مجسمہ اور نمونہ کی ضرورت تھی،تواِس اعتبار سے اور دوسرے انسانی زندگی مختلف اوقات میں مختلف کیفیات سے دوچار ہوتی ہے؛کبھی راضی ہیں توکبھی ناراض، کبھی خوش ہیں توکبھی غم زدہ، کبھی مصائب سے دوچار ہیں کبھی نعمتوں سے مالا مال،کبھی ناکام ہوتے ہیں کبھی کامیاب توان سب حالتوں میں بھی ہم کوعملی سیرت کی ضرورت تھی؛مگر وہ کہاں مل سکتی ہے؟ وہ صرف اور صرف محمد رسول اللہؐ کی عملی زندگی میں مل سکتی ہے۔
ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر انسانی جماعت کے لیے کافی ہو اور انسان کے مختلف احوال وکیفیات کے اعتبارسے ہر قسم کے صحیح جذبات اورکامل اخلاق کا نمونہ ومجموعہ ہوتو وہ صرف محمد رسول اللہ   کی حیاتِ طیبہ ہی میں نظر آئیگا؛ اگر تم دولت مند ہو تو مکہ کے تاجرکی تقلید کرو؛ اگر غریب ہو توشعب ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو؛اگر بادشاہ ہو تو سلطان عرب کا حال پڑھو؛اگر رعایا ہوتو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو؛ اگر فاتح ہوتو بدر وحنین کے سپہ سالار پر نگاہ دوڑاؤ؛اگر تم نے شکست کھائی ہے تومعرکۂ احد سے عبرت حاصل کرو؛ اگر استاد ومعلم ہوتو صفہ کی درسگاہ کے معلم اور ناصح کو دیکھو؛ اگر شاگرد ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماؤ؛اگر واعظ اور ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو؛ اگر تنہائی وبےکسی کے عالم میں حق کے منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یار ومددگار نبی علیہ السلام کا اسوہ حسنہ تمہارے سامنے ہو؛ اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں کو زیر اورمخالفوں کوکمزوربناچکے ہوتوفاتح مکہ کا نظارہ کرو؛اگر اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم ونسق درست کرنا چاہتے ہو تو بنی نضیر،خیبر وفدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم ونسق کو دیکھو؛ اگر یتیم ہو تو عبداللہ وآمنہ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو؛ اگر بچہ ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے بچے کو دیکھو؛ اگر تم جوان ہو تو مکہ کےایک چرواہے کی سیرت پڑھو؛ اگر سفری کاروبار میں ہو تو بصرٰی کے کاروان ِسالار کی مثالیں ڈھونڈو؛ اگر عدالت کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نور آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو جو حجر اسود کو کعبہ کے ایک گوشے میں کھڑا کررہا ہے اور مدینہ کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو جس کی نظر انصاف میں شاہ وگدا اور امیر وغریب برابر تھے؛ اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہؓ اور عائشہؓ کے مقدس شوہر کی حیات پاک کا مطالعہ کرو؛ اگر اولاد والے ہو تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے باپ اور حسنؓ وحسینؓ کے نانا کا حال پوچھو؛ غرض تمہاری جو بھی حیثیت ہو اور کسی حال میں بھی ہو تمہاری زندگی کے لیے نمونہ اور تمہاری سیرت کی درستی واصلاح کے لیے سامان،تمہارے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ وراہنمائی کا نور محمد رسول اللہ    کی جامعیت کبرٰی کے خزانے میں ہر وقت وہرلحظہ مل سکتا ہے۔
بادشاہ ایسےکہ ایک پورا ملک اُن کی مٹھی میں ہو اور بے بس ایسے کے خود اپنی ذات کو بھی اپنے قبضہ میں نہ جانتےہوں؛ دولت مند ایسے کہ خزانے کے خزانے اونٹوں پر لدے ہوئے ان کی حکومت میں آرہے ہیں اور محتاج ایسے کہ مہینوں ان کے گھر چولہا نہ جلتا ہو اور کئی کئی وقت ان پر فاقے  گزر جاتے ہوں، سپہ سالار ایسے کہ مٹھی بھر نہتے آدمیوں کو لے کر ہزاروں اٰلاتِ حرب سے لیس فوجوں سے کامیاب لڑائی لڑے ہوں اور صلح پسند ایسے کہ ہزاروں پر جوش جاں نثاروں کی ہمرکابی کے باوجود صلح کے کاغذ پر بے چون وچرا دستخط کردیتے ہوں،شجاع اور بہادر ایسے کہ ہزاروں کے مقابلہ میں تن تنہا کھڑے ہوں اور نرم دل ایسے کہ کبھی آپ   نے انسانی خون کا ایک قطرہ بھی اپنے ہاتھ سے نہ بہایا ہو،باتعلق ایسے کہ عرب کے ذرہ ذرہ کی ان کو فکر،بیوی بچوں کی ان کو فکر،غریب ومفلس مسلمانوں کی ان کو فکر،خدا کی بھولی ہوئی دنیا کے سدھارکی ان کو فکر،غرض سارے جہاں کی آپ   کو فکر اور بے تعلق ایسے کہ اپنے خدا کے سوا کسی اور کی یاد ان کو نہ ہو،آپ   نے کبھی اپنی ذات کے لیے اپنے کوبُرا کہنے والوں سے بدلہ نہیں لیا اور اپنے ذاتی دشمنوں کے حق میں دعائے خیر کی اور ان کا بھلا چاہا؛ لیکن خدا تعالی کے دشمنوں کو کبھی معاف نہیں کیا اور حق کا راستہ روکنے والوں کو ہمیشہ جہنم کی دھمکی دیتے اور عذاب الہی سے ڈراتےرہے۔
دنیا کے عام بادشاہوں کی طرح آپ ﷺ کی زندگی عیش وآرام طلبی کی نہ تھی  ؛بلکہ جب آدھا عرب آپ  کے زیرِحکومت تھا،حضرت عمرؓ حاضر دربار ہوتے ہیں اِدھر اُدھر نظر اٹھاکر آپ ﷺ کے حجرۂ مبارکہ کے سامان کا جائزہ لیتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ آپ   ایک کھڑی چار پائی پر آرام فرمارہے ہیں، جسمِ مبارک پر چار پائی کی رسی کے نشان پڑگئے ہیں، ایک طرف مٹھی بھر جورکھے ہیں ایک کھونٹی پر خشک مشکیزہ لٹک رہا ہے،سرورِ کائنات   کے گھر کی یہ کل کائنات دیکھ کر حضرت عمرؓ رو پڑتے ہیں،سبب دریافت ہوتا ہے، توعرض کرتے ہیں یا رسول اللہ   اس سے بڑھ کر رونے کا اور کیا موقع ہوگا ؟قیصر وکسری باغ وبہار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور آپ پیغمبر ہو کر اس حالت میں ہیں، ارشاد ہوتا ہے عمرؓ کیا تم اِس پر راضی نہیں کہ قیصر وکسریٰ دنیا کے مزے لوٹیں اور ہم آخرت کی سعادت۔
فتح مکہ سے پہلے آنحضرت  کے سب سے بڑے دشمن سردارِ مکہ ابوسفیان تھے، فتحِ مکہ کے موقع پر جب وہ حضرت عباسؓ کے ساتھ کھڑے ہوکر اسلامی لشکر کا جائزہ لے رہے تھے توکیا دیکھتے ہیں کہ رنگ رنگ کی جھنڈیوں کے سایہ میں اسلام کا دربار امنڈتا آرہا ہے، قبائل عرب کی موجیں جوش مارتی ہوئی بڑھتی چلی آرہی ہیں، ابو سفیان کی آنکھیں اب بھی دھوکہ کھاتی ہیں،  وہ حضرت عباسؓ سے کہتے ہیں عباس تمہارا بھتیجا تو بہت بڑا بادشاہ بن گیا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی آنکھیں کچھ اور ہی دیکھ رہی تھیں، فرمایا: ابوسفیان یہ بادشاہت نہیں، نبوت ہے۔
یہ نبوت بھی ایسی کہ جوسارے انبیاء علیہم السلام کی نبوت وکارہائے نبوت کواپنے اندر بڑے خوش اسلوبی کے ساتھ سمیٹی ہوئی ہے؛ اگرہم مشہور وجلیل القدر انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں کا انفرادی طور پر طائرانہ جائزہ لیں تواندازہ ہوگا کہ اُن کی کارِ نبوت کاپورا زور کدھر تھا اورہمارے آقا   کا کدھر کدھر، مثلاً حضرت نوحؑ کی زندگی کفر کے خلاف غیظ وغضب کا ولولہ پیش کرتی ہے، حضرت ابراہیمؑ کی حیات بت شکنیوں کا منظر دکھاتی ہے، حضرت موسیؑ کی زندگی کفار سے جنگ وجہاد کی مثال پیش کرتی ہے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی خاکساری،تواضع،عفو ودرگزر اور قناعت کی تعلیم دیتی ہے،حضرت سلیمانؑ کی زندگی شاہانہ الوالعزمی کی جلوہ گاہ ہے، حضرت ایوب علیہ السلام کی حیات صبر وشکر کا نمونہ ہے،حضرت یونسؑ کی سیرت ندامت اور انابت اور اعتراف کی مثال ہے، حضرت یوسف ؑ کی زندگی قید وبند میں بھی دعوت حق اور جوش تبلیغ کا درس دیتی ہے، حضرت داؤدعلیہ السلام کی سیرت گریہ وبکا حمد وستائش اور دعا وزاری کا نمونہ پیش کرتی ہے،  حضرت یعقوبؑ کی زندگی  امید،خدا پر توکل اور اعتماد کی مثال ہے؛ لیکن محمد رسول اللہ    کی سیرت مقدسہ میں نوحؑ، ابراھیمؑ، موسیؑ، عیسیؑ، سلیمانؑ، داؤدؑ، ایوبؑ، یونسؑ، یوسفؑ اور یعقوبؑ (علیہم السلام) سب کی زندگیاں اور سیرتیں سمٹ کر سما گئی ہیں؛اس لیے اعلان عام ہے:
"قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي"۔       
(ال عمران:۳۴)
اگر تم کو اللہ کی محبت کا دعوی ہے، تو آؤ میری پیروی کرو۔
اگر تم بادشاہ ہو تو میری پیروی کرو؛اگر تم رعایا ہو تو میری پیروی کرو؛ اگر تم سپہ سالار ہو یا سپاہی ہو تو میری پیروی کرو؛ اگرتم استاذ ومعلم ہو تو میری پیروی کرو؛اگر دولت مند ہو تو میری پیروی کرو،اگر غریب ہوتو میری پیروی کرو؛اگر بے کس ومظلوم ہوتو میری پیروی کرو؛اگر تم خدا تعالی کے عابد ہو تومیری پیروی کرو؛غرض جس نیک راہ پر بھی تم ہو اور اُس کے لیے بلند سے بلند اور عمدہ سے عمدہ نمونہ چاہتے ہوتو میری پیروی کرو۔


(۴)محمد رسول اللہ  کی سیرت کی چوتھی خصوصیت(عملیت)
اسلام کے احکام اور آنحضرت  کے زبانِ مبارک سے جو تعلیمات انسانوں کو پہنچائی گئی ہیں، قرآن پاک اُن کا مجموعہ ہے اوربحیثیت ایک عملی پیغمبر کے آنحضرت  کی سیرتِ مبارک در حقیقت قرآن پاک کی عملی تفسیر ہے،جو حکم آپ  پر اتارا گیا آپ  نے خود اُسے کردکھایا؛ خواہ وہ ایمان، توحید،نماز،روزہ، حج، زکوۃ، صدقہ، خیرات، جہاد، ایثار، قربانی، عزم واستقلال، صبروشکر، سے تعلق رکھتا ہو یا اِن کے علاوہ حسنِ عمل وحسنِ خُلق سے غرض جس قدر بھی آپپراحکامات اتارے گئے سب سے پہلے آپ  نے ہی اس پر عمل کرکے امت کے لیے ایک عملی مثال ونمونہ پیش فرمایا،جو کچھ قرآن میں تھا وہ سب مجسم ہوکر آپ  کی زندگی میں نظر آتا؛اِسی کوحضرت عائشہ صدیقہؓ نے کسی صحابیؓ کے پوچھنے پر کہ آپ  کی زندگی کیسی تھی تواِس پرآپ صدیقہؓ نے یہی جواب دیا تھا کہ جوکچھ قرآن میں ہے وہی عملی تصویر بنکر آنحضرت  کی زندگی میں نظرآتا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات قرآن مجید کی شکل میں اتارا ہے اُسی طرح اُس پر عمل آوری کے لیے سب سے پہلی وعمدہ مثال آنحضرت  کی ذاتِ اقدس کی شکل میں مبعوث فرمایا؛ تاکہ لوگوں کوایک عملی نمونہ وآئیڈیل مل جائے؛ چنانچہ آنحضرت  نے بھی اپنے عملِ معجز سے ایک ایساعملی نمونہ امت کے سامنے پیش فرمایا جو تمام انسانی زندگیوں پرایسے ہی اعجاز وفوقیت رکھتا ہے جس طرح کلام اللہ تمام انسانی کلاموں پر، جس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:

محمد رسول اللہ   کا نماز میں اُسوۂ حسنہ
پنج وقتہ نماز کی فرضیت کے بعدتہجد کی نمازعام مسلمانوں سے معاف ہوگئی تھی،مگر آنحضرت اس کوبھی تمام عمر ہر شب ادا فرماتے رہےاور پھر کیسی نماز کہ رات رات بھر کھڑے کے کھڑے رہ جاتے، کھڑے کھڑے پائے مبارک پر ورم آجاتا (اور پائے مبارک سوجھ جاتے) یہ دیکھ کرحضرت عائشہ صدیقہؓ عرض کرتیں: جب اللہ تعالی نے آپ کومعصوم وبخشے بخشایا بنایا تو پھر آپ اِس قدر کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں، فرماتے: اے عائشہ! کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
نماز کا سب سے سخت موقع میدانِ جنگ میں دشمن کے مقابل کے وقت ہوتا ہے اس وقت بھی آپ کا اُسوہ بدر کے موقع پر جیسے ہی نماز کا وقت ہوا فوراً اللہ کے آگے سجدہ ریز ہوگئے۔
مرض الموت میں شدت کا بخار تھا بہت تکلیف تھی،مگر نماز حتی کہ جماعت بھی ترک نہ فرمائی،قوت جواب دے چکی تھی خود چلکر نہ آسکتے تھے؛ مگرشوقِ نماز وشرکتِ جماعت اِتنی کہ دوصحابہؓ کے کندھوں پر سہارا لے کر مسجد تشریف لے آئے۔

محمد رسول اللہ  کا روزہ میں اُسوۂ حسنہ
عام مسلمانوں پر سال بھر میں صرف ایک مہینہ رمضان المبارک کے روزے فرض ہیں،مگرآپ  کا کوئی ہفتہ اور کوئی مہینہ روزوں سے خالی نہیں جاتا تھا، رمضان کا پورا مہینہ اور شعبان کے اکثر دن روزوں میں گزرتے تھے، ہر مہینے کے ایامِ بیض یعنی اسلامی مہینوں کی تیرہ، چودہ، پندرہ تاریخ کواور ہرہفتہ میں جمعرات وپیر کواکثر روزہ رکھتے تھے،محرم کے دس دن اورشوال کے چھ دن روزوں میں گزرتے تھے، اس کے علاوہ عام حالات میں بھی اگرگھر میں کچھ کھانے کونہیں ہے تب بھی روزہ رکھتے تھے۔

محمد  رسول اللہ  کا مال ومتاع میں اسوۂ حسنہ
امت کواپنے پاس مال وجائیداد رکھنے سے منع نہیں فرمایا؛ بلکہ حدودِ شرع میں رہتے ہوئے ان کوحاصل کرنے کا حکم فرمایااور اُس میں چند شرائط کے ساتھ زکوٰۃ کے طور پر ڈھائی فیصد غریبوں ومحتاجوں کو دینے کا حکم فرمایا؛ لیکن اپنی ذات سے یہ عمل کرردکھایا کہ آپ  کے نام پرکوئی زمین وجائیداد نہ تھی اور نہ آپکوعمربھر میں کبھی زکوٰۃ نکالنے کی نوبت آئی، اس لیے کہ آپ  اپنے پاس کچھ رکھتے ہی نہ تھے، جو کچھ کہیں سے غلہ آپ  کے حصہ میں آتا آپ سال میں ایک مرتبہ پورے سال کا غلہ ازواجِ مطہرات کے یہاں بقدرِ ضرورت بھجوادیتے، بقیہ تمام کا تمام مدینہ کے محتاجوں وضرورتمندوں میں تقسیم فرمادیتے؛ اگرآپ  کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہوتا توکسی سے قرض لیکر دیتے تھے؛ لیکن پوری زندگی میں آپ  نے کسی کے سوال کے جواب میں "نہیں" کا لفظ نہیں فرمایا؛ بلکہ مسلمانوں میں عام حکم تھا کہ جوکوئی مسلمان قرض چھوڑ کرمرجائے تواس کی اطلاع مجھکو دو میں اس کا ذمہ دار ہوں، میں اس کا قرض ادا کرونگا۔

محمدرسول اللہ  کا زہد وقناعت میں اُسوۂ حسنہ
اُمت کوزہدوقناعت کی صرف تعلیم ہی نہ دی؛ بلکہ عمل کرکے بھی دکھلادیا، عرب کے گوشے گوشے سےجزیہ،خراج،عشر اور زکوۃ وصدقات کے خزانے لدے چلے آتے تھے؛مگر امیر عرب کے گھر میں وہی فقر تھا اور وہی فاقہ تھا،آنحضرت  کی وفات کے بعد حضرت عائشہؓ کہا کرتی تھیں کہ حضور  اس دنیا سے تشریف لے گئے  مگر دووقت بھی سیر ہوکر آپ  نے نہیں کھایا؛وہی بیان کرتی ہیں کہ جب آپ  نے وفات پائی تو گھر میں اس دن کے کھانے کے لیے تھوڑے سے جو کے سوا کچھ موجود نہ تھا اور چند سیر جو کے بدلے میں آپؐ کی زرہ ایک یہودی کے یہاں رہن تھی۔
آپ  فرمایا کرتے تھے کہ آدم علیہ السلام کی اولاد کو،اِن چند چیزوں کے سوا اور کسی چیز کا حق نہیں، رہنےکوایک جھونپڑی، تن ڈھانکنے کوایک کپڑا، پیٹ بھرنے کوروکھی سوکھی روٹی اور پانی، یہ محض آپ کے خوشنما الفاظ کی بندش نہ تھی؛ بلکہ یہی آپ  کا طرزِ عمل اور زندگی کا عملی نمونہ تھا، آپ  کے رہنے کا مکان ایک حجرہ (چھوٹا ساکمرہ) تھا اتنا چھوٹا کہ ایک شخص لیٹے اوردوسرا شخص نماز پڑھے تولیٹنے والے کوپیر قریب کرلینا پڑے وہ بھی حجرہ ایساکہ جس کی کچی دیواریں اور کھجور کے پتوں اور اونٹ کے بالوں کی چھت تھی، حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپ   کا کپڑا کبھی تہہ کرکے نہیں رکھا جاتا تھا، یعنی جوبدنِ مبارک پر کپڑا ہوتا تھا اس کے سوا کوئی اور کپڑا ہوتا ہی نہ تھا کہ جس کو تہہ کرکے رکھا جائے، ایک مرتبہ ایک سائل خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں بہت بھوکا ہوں آپ  نے ازواجِ مطہراتؓ کے پاس کہلا بھیجا کہ کچھ کھانے کوہوتوبھیج دیں، ہرجگہ سے یہی جواب آیا کہ گھر میں پانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ایک مرتبہ صحابہؓ نے آپ  کی خدمت میں فاقہ کشی کی شکایت کی اور پیٹ کھول کر دکھائے کہ اُن پرایک پتھر بندھا ہے، آپ  نے اپنے شکمِ مبارک پر سے کپڑا ہٹایا توایک کے بجائے دوپتھر بندھے ہوئے تھے (یعنی آپ  ان سے سخت بھوکے تھے) اکثربھوک کی وجہ سے آواز میں کمزوری ونقاہت آجاتی تھی، سنہ۹ھ میں جب اسلامی حکومت یمن سے شام تک پھیلی ہوئی تھی اُس وقت بھی آپؐ کے گھرکی مالیت جسم مبارک پر ایک تہبند، ایک کھڑی چار پائی، سرہانے ایک تکیہ جس میں کھجور کے درخت کی چھال بھری تھی، ایک طرف تھوڑے سے جو، ایک کونے میں ایک جانور کی کھال، کھونٹی پر پانی کا مشکیزہ اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔



محمد رسول اللہ  کے ایثار (اپنی ذات پردوسروں کو ترجیح دینے) میں اسوۂ حسنہ
اپنی چھیتی ولاڈلی بیٹی حضرت فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا دربارِ رسالت میں اپنی عسرت وتنگدستی کی وجہ سے چکی پیستے پیستے ہتھیلیاں گھس گئی تھیں اور مشک میں پانی بھربھر کرلانے سے سینہ پر نیل کے داغ پڑھ گئے تھے، جس کی وجہ سے دربارِ رسالت میں ایک خادمہ کی درخواست پیش فرماتی ہیں، اس پر آپ  کا جواب ملتا ہے کہ ابھی صفہ کے غریبوں کا انتظام نہیں ہواہے بدر کے یتیم تم سے پہلے درخواست پیش کرچکے ہیں، اُن سے پہلے تمہاری درخواست کیسے قبول کی جائے۔
ایک مرتبہ آپ   کے پاس چادر نہ تھی، ایک صحابیہؓ نے لاکر پیش فرمائی اسی وقت ایک صاحب نے کہا کہ کیسی اچھی چادر ہے! آپ نے فوراً اتار کر ان کی نذر کردی۔
ایک صحابی کے گھر کوئی تقریب تھی؛ مگرکوئی کھانے کا انتظام نہ تھا اُن سے کہا کہ عائشہؓ کے پاس جاکر آٹے کی ٹوکری مانگ لاؤ وہ گئے اور جاکر لے آئے؛ حالانکہ آپ  کے گھر میں آٹے کے سوا رات کے کھانے کوکچھ اور نہ تھا، ایک دن صفہ کے غریبوں کولیکر حضرت عائشہؓ کے گھر تشریف لائے اور فرمایا جوکچھ کھانے کوہو لاؤ، دال کا پکا ہوا کھانا حاضر کیا گیا وہ کافی نہ ہوا، کوئی اور چیز طلب کی توسوکھے کھجور کا حریرہ پیش ہوا؛ پھرآخر میں دودھ آیا؛ یہی مہمان نوازی کی گھر میں آخری قسط تھی جوحاضرِ خدمت کردی گئی۔




محمد  کا اللہ پر اعتماد اور توکل میں اسوۂ حسنہ
آپ   ایک ایسی جاہل واَن پڑھ قوم میں پیدا ہوئے تھے جو اپنے اعتقادات کے خلاف ایک لفظ بھی سننا گوارا نہیں کرتی تھی اور اس کی خاطر مرمٹنے کے لیےتیار ہوجاتی تھی؛ مگرآپ  نے اِس کی کبھی پرواہ نہ کی، عین حرم میں جاکر توحید کی آواز بلند کرتے تھے اور وہاں سب کے سامنے نماز ادا کرتے تھے، حرمِ محترم کا صحن قریش کے رئیسوں کی نشست گاہ تھا؛ لیکن آپ  اُن کی موجودگی میں کھڑے ہوکر رکوع، سجدہ کے ساتھ ایک اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے، جب آیت:
"فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ"۔               
  (الحجر:۹۴)
"ترجمہ:اے محمد! جوتم کو حکم دیا جاتا ہے اس کو علی الاعلان سنادو"۔
نازل ہوئی توآپ  صفا پہاڑ پر چڑھ کر تمام اہلِ مکہ کوپکارا اور توحید کی ان کودعوت دی۔
قریش نے آپ کے ساتھ کیا کیا نہ کیا؟ کس کس طرح اذیتیں نہیں پہنچائیں، جسم مبارک پر صحفِ حرم کے اندر نجاست ڈالی، گلے میں چادر ڈال کرپھانسی دینے کی کوشش کی گئی، راستہ میں کانٹے بچھائے گے؛ مگرآپ  کے قدم کوراہِ حق سے لغزش نہ ہونی تھی اور نہ ہوئی، ابوطالب نے جب حمایت سے ہاتھ اٹھالینے کا اشارہ کیا توآپ  نے بڑے جوش اور ولولہ سے فرمایا کہ چچاجان! اگرقریش میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پرچاند بھی رکھ دیں تب بھی میں اِس فرض سے باز نہ آؤنگا، بلآخر آپ  کو اوربنی ہاشم کودوپہاڑوں کے درمیانی جگہ میں تین سال تک گویا قید رکھا گیا، آپ  کا اور آپ  کے افرادِخاندان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا، وہاں کھانے پینے کی اشیاء لیجانے سے روکدیا گیا، بچے بھوک سے بلبلاتے تھے، جوان درخت کے پتے کھاکھاکرزندگی بسر کرتے تھے، آخر آپکے قتل کی سازش ہوئی، یہ سب کچھ ہوا مگر صبرواستقلال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا، ہجرت کے وقت غارِ ثور میں پناہ لیتے ہیں، کفار آپ  کا پیچھا کرتے ہوئے غار کے منہ تک پہنچ جاتے ہیں بے یارومددگار محمد  اور مسلح قریش کے درمیان چندگزکا فاصلہ رہ جاتا ہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ گھبراجاتے ہیں اور کہتے ہیں یارسول اللہہم توپکڑے گئے، ہم دوہی ہیں اب کیا ہوگا؛ لیکن ایک اطمینان وتسکین سے بھری آواز آتی ہے، ابوبکرؓ ہم دونہیں تین ہیں "لاَتَحْزَنْ إِنَّ الله مَعَنَا"(التوبہ:۴۰) گھبراؤ نہیں، ہمارا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

محمد  کی شجاعت وبہادری میں اسوۂ حسنہ
میدانِ جنگ میں ایسے بھی موقع آئے کہ عام مسلمانوں کے قدم اُکھڑگئے اور وہ پیچھے ہٹ گئے؛ مگراللہ کے رسول محمد  اللہ تعالیٰ کی ذات اور اُس کی مدد ونصرت پرپورا اعتماد وبھروسہ کرنے والے پہاڑ کی طرح اپنی جگہ پرقائم رہے، جیسا کہ میدانِ اُحد میں اکثرمسلمانوں نے قدم پیچھے ہٹالیے مگرمحمداللہ کے رسول   اپنی جگہ پر مضبوطی کے ساتھ ڈٹے رہے، پتھر وں، تیروں، تلواروں اور نیزوں سے حملے ہورہے تھے، خود کی کڑیاں سرِمبارک میں دھنس گئی تھیں، دندانِ مبارک شہید ہوچکے تھے، چہرۂ انور زخمی ہورہا تھا؛ مگر اُس وقت بھی اپنا ہاتھ لوہے کی تلوار پر نہیں رکھا؛ بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کی مدد ونصرت پر پورا اعتماد وبھروسہ تھا؛ کیونکہ آپکی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے لے رکھی تھی، اس لیے اپنی جانب سے کسی پر حملہ نہ کیا۔
حنین کے میدان میں ایک مرتبہ جب تیروں کی بارش برسی توتھوڑی دیر کے لیے مسلمان پیچھے ہٹ گئے؛ مگرذاتِ اقدس  اپنی جگہ پرثابت قدم مضبوطی کے ساتھ قائم تھی، سامنے سے تیروں کی بارش ہورہی ہے اوراِدھر سے آپ"أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَاابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ"(میں پیغمبر ہوں جھوٹا نہیں ہوں میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں) کا نعرہ بلند فرماتے ہوئے آگے بڑھتے جاتے تھے، کیا کوئی ایسا بہادر سپہ سالار محمد  کے علاوہ آپ کے علم میں ہے؟ کہ جس کی بہادری اور استقلال کا یہ عالم ہوکہ فوج کتنی ہی کم ہو کتنی ہی غیرمسلح ہو وہ اس کوچھوڑ کر پیچھے ہی کیوں نہ ہٹ گئی ہو؛ مگروہ، نہ تواپنی جان کے بچانے کے لیے بھاگا ہو اور نہ اپنی حفاظت کے لیے تلوار اٹھایا ہو؛ بلکہ ہرحال میں زمینی طاقتوں سے غیرمسلح ہوکر آسمانی طاقتوں سے مسلح ہونے کی درخواست کرتا ہو اور غیبی طاقتوں سے لڑتا ہو۔


محمد  کا دشمنوں سے برتاؤ میں اسوۂ حسنہ
آپ نے دشمنوں سے بھی پیار ومحبت کرنے اور اُن کے ساتھ اخلاق سے پیش آنے کا درس سنا ہوگا اور اپنے بزرگوں کوبھی نصیحت کرتے دیکھا ہوگا؛ لیکن اس کی عملی مثال آپ نے نہیں دیکھی ہوگی؟ آؤ ہم سرکارِ دوعالم  کی سیرت میں دکھاتے ہیں "سراقہ بن جعشم" ہجرتِ مدینہ کے موقع پرانعام کے لالچ میں مسلح ہوکر آپ  کوقتل کرنے نکلا تھا، آپ  کے قریب بھی پہنچ چکا تھااور بہت کچھ کوششیں بھی کیا؛ لیکن قدرت نے اس کا ساتھ نہ دیا بالآخر ہارکر اپنے ہتھیار ڈالدئیے خط امان کی درخواست کی، اس کی درخواست دربارِ رسالت ماٰب میں قبول کرلی گئی۔
اسی طرح ابوسفیان جواسلام اور آپ  کی دشمنی میں کئی جنگیں لڑی اور کتنے ہی مسلمان اُن کے سبب سے شہید ہوئے، جس نے کتنی ہی مرتبہ آپ  کے قتل کا اقدام کیا؛ لیکن اس میں ہمیشہ ناکام ہی رہا، جب وہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت عباسؓ کی امان میں دربارِ رسالت میں اطاعت وفرمابرداری کے ساتھ داخل ہوئے، توآپنے، اُن کے تمام جرائم کو، جوگوہر حرم اِس کا متقاضی تھا کہ اُس کے بدلہ میں قتل کردئے جائیں؛ لیکن آنحضرت  کے عفوِ عام نے یہ کہا کہ ڈرکاموقع نہیں ہے محمدرسول اللہ  انتقام کے جذبہ سے بالاتر ہے، جاؤ تم کومعاف کیا جاتا ہے؛ (اور اُن کے سردارِ مکہ ہونے کی حیثیت سے یہ بھی فرمایا کہ) ہراس شخص کوبھی معاف کیا جاتا ہے جوابوسفیان کے گھر میں چلاجائے اور ابوسفیان کی بیوی "ھندہ" جو اسلام دشمنی میں عورتوں کی سردار تھی احد کے موقع پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ گاگاکر قریش کے سپاہیوں کا دل بڑھاتی تھی اور اُسی موقع پرآپ  کے پیارے چچا حضرت حمزہؓ کے ساتھ کیسی بے ادبی کا معاملہ کیا، آپؓ کوقتل کروایا آپؓ کی لاش کے ناک کان کاٹ کر گلے کا ہار بنائی اور آپؓ کا سینہ چیرکرکلیجہ نکال کرکچا چبایا، لڑائی کے بعد جب آپ  نے اپنے پیارے چچا کا یہ حال دیکھا توبڑے بیتاب ہوگئے؛ لیکن جب وہی ھندہ فتح مکہ کے موقع پر دربارِ رسالت میں نقاب پوش ہوکر آتی ہے اور اِس موقع پر بھی آپ سے کچھ گستاخی کرتی ہے تب بھی آپ  اس سے کوئی تعارض نہیں فرماتے؛ حتی کہ یہ بھی نہیں پوچھتے کہ تم نے میرے چچا کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ جب وہ اِس معجزانہ شانِ اخلاق کودیکھتی ہے تووہ بے اختیار پکاراٹھتی ہے، اے محمد  ! آج سے پہلے تمہارے خیمہ سے زیادہ کسی خیمہ سے مجھے نفرت نہ تھی؛ لیکن آج کے بعد سے تمہارے خیمہ سے زیادہ کسی کا خیمہ مجھے محبوب نہیں ہے۔
وحشی جوحضرت حمزہؓ کے قاتل ہیں، فتحِ طائف کے بعد بھاگ کر کہیں چلے جاتے ہیں اور جب وہ مقام بھی فتح ہوجاتا ہے توکوئی دوسری جائے پناہ کی جگہ نہیں ملتی؛ لوگ کہتے ہیں وحشی تم نے ابھی محمد  کونہیں پہچانا، تمہارے لیے خود محمد  کے آستانہ سے بڑھ کردوسری کوئی امن کی جگہ نہیں، وحشی حاضرِ خدمت ہوتے ہیں حضور  وحشی کودیکھتے ہیں آنکھیں نیچی کرلیتے ہیں پیارے چچا کی شہادت کا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے، دل غمگین اور آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، قاتل سامنے موجود ہوتا ہے؛ پورے اختیارات کے باوجود زبانِ مبارک سے صرف یہ نکلتا ہے کہ جاؤ تم کومعاف کیا جاتا ہے، تم میری مجلس میں آئنہد سے سامنے کے بجائے پیچھے بیٹھا کرو اس لیے کہ تم کودیکھنے سے میرے پیارے چچا کی مظلومیت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
عکرمہ جو اسلام، مسلمانوں اور خود محمدرسول اللہ  کے سب سے بڑے دشمن یعنی ابوجہل کے بیٹے تھے جس نے آپ  کوسب سے زیادہ تکلیفیں پہنچائیں یہ خود بھی اسلام کے خلاف لڑائیاں لڑچکے تھے، مکہ جب فتح ہوا تواُن کواپنے اور اپنے خاندان کے تمام جرم یاد تھے وہ بھاگ کریمن چلے گئے، اُن کی بیوی مسلمان ہوچکی تھیں اور محمدرسول اللہ  کوپہچان چکی تھیں وہ خود یمن گئیں، عکرمہ کومحمد  کی طرف سے اطمنان دلاکر مدینہ منورہ لائیں، جب آنحضرت  کواُن کی آمد کی اطلاع ہوتی ہے تواُن کے استقبال کے لیے آپ  اِس تیزی سے اُٹھتے ہیں کہ جسمِ مبارک پرچادر تک نہیں رہتی؛ پھرجوشِ مسرت سے فرماتے ہیں:
"مَرْحَباً بِالرَّاکِبِ الْمُھَاجِرِ"۔                 ترجمہ:اے مہاجر سوار تمہارا آنا مبارک ہو۔
ذراغور فرمائیے یہ مبارکبادی کس کودی جارہی ہے؟ یہ خوشی ومسرت کا اظہار کس کے آنے پر ہورہا ہے؟یہ معافی نامہ کس کوعطاء ہورہا ہے؟ اُس کوکہ جس کے باپ نے آپ  کومکی زندگی میں سب سے زیادہ تکلیفیں پہنچائیں، جس نے آپ  کے جسمِ مبارک پر نجاست ڈلوائی، جس نے آپ  پرحالتِ نماز میں حملہ کرنا چاہا، جس نے آپ  کے گلے میں چادر ڈال کرآپ  کوپھانسی دینی چاہی، جس نے دارالندوہ میں آپ  کے قتل کا مشورہ دیا، جس نے بدر کی لڑائی برپا کی اور صلح کی کسی بھی قسم کی تدبیر کوطئے ہونے نہیں دیا آج اسی کی جسمانی یادگار بیٹے کی آمد پر یہ مسرت وشادمانی ہے۔
اس طرح کے بے شمار واقعات سیرت کی بڑی بڑی کتابوں میں آپ کوملیں گے کہ آپ  نے اپنے دشمنوں کوعداوت کاجواب کس خوش اخلاقی، رحم دلی، عفوودرگذر اور اُس کے مقام ومرتبہ کی رعایت اور دعائے خیر کے ساتھ دیا جس کا نتیجہ یہ تھا کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی آپ  کے سامنے اپنی ماضی کی زندگی پرشرمندگی وپشیمانی سے پانی پانی ہوجایا کرتا تھا؛ پھرآپ  پرایسا فداوجانثار ہوجاتا تھا کہ جس کی مثال تاریخِ انسانی میں ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔
اِسی طرح آپ  نے اپنی کی زندگی کے تمام شعبوں میں خواہ وہ اعتقادات، عبادات ومعاملات کی رو سے ہوں یاحسنِ معاشرت واخلاقیات کی رو سے، کمالِ عبدیت وانسانیت کا اعلیٰ سے اعلیٰ اسوہ ونمونہ پیش فرمایا جس سے سیرت کی کتابیں بھری ہوئی ہیں اورآپ  کی حیاتِ مبارکہ کا کوئی گوشہ چھپا ہوا نہیں ہے؛ بلکہ چھوٹے سے چھوٹا قول وفعل بھی محفوظ وموجود ہے، جومسلمانوں کے عمل اور دنیا کی مختلف زبانوں میں مستقل مضامین وکتابوں کی شکل وصورت میں موجود ومحفوظ ہیں، جس کے لکھنے اور واعتراف کرنے والے صرف مسلمان ہی نہیں؛ بلکہ دیگر مذہبوں کے ماننے والے مؤرخین ومضامین نگار بھی ہیں، یہ باتیں توآپ  کی شخصی ذات سے متعلق تھیں؛ اِسی طرح آپ  کی پوری تعلیمات بھی اپنی ساری امت کواِسی کا درس دیتی ہیں۔




محمد رسول اللہ  کی تعلیمات کا خلاصہ
(۱)آپ   کی تشریف آوری سے پہلے انسان اپنے آپ کو اکثر مخلوقاتِ الہٰی سے اپنے آپ کو کم درجہ  کا سمجھتا تھاوہ سخت پتھر،دہکتی آگ،زہریلے سانپ،دودھ دیتی گائے،چمکتے سورج،درخشاں تاروں،کالی راتوں، بھیانک صورتوں؛ غرض دنیا کی ہر اُس چیز کو جس سے وہ ڈرتا تھا یا جس کے نفع کا خواہشمند تھا اُس کو پوجتا تھا اور اُس کے آگے اپنا سر جھکاتا تھا، محمدرسول اللہ  نے آکر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اے لوگو !یہ تمام چیزیں تمہارے آقا نہیں ہیں؛ بلکہ تم اُن کے آقا ہو، وہ تمہارے لیے پیدا کی گئی ہیں تم اُن کے لیے پیدا نہیں کیے گئے ہو،وہ تمہارے آگے جھکتی ہیں تم کیوں اُن کے آگے جھکتے ہو، اے انسانو! تم اِس ساری کائنات میں خدا کے نائب وخلیفہ ہو۔
الغرض ! انسانیت کا یہ درجہ پیغامِ محمدی کے ذریعہ اتنا بلند کیا گیاکہ اب اُس کی پیشانی سوائے ایک اللہ کے کسی کے سامنے نہیں جھک سکتی اور اُس کے ہاتھ  اُس ایک کے سواکسی اور کے آگے نہیں پھیل سکتے،جس سے وہ لینا چاہے اس کو کوئی دے نہیں سکتا اور جس کو وہ دینا چاہے اُس سے کوئی لے نہیں سکتا۔

(۲)بعضوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کا دوبارہ پیدا ہونا ہی اُس کے گناہ گاری کی دلیل ہے، عیسائی مذہب کا یہ عقیدہ ہے کہ ہر انسان اپنے باپ آدم کی گناہگاری کے سبب سے موروثی طور پر گنہگار ہے خواہ اس نے ذاتی طور پر کوئی گناہ نہ کیا ہو اس لیے انسانوں کو بخشش کے لیے ایک غیر انسان کی ضرورت ہے جو موروثی گناہ گار نہ ہو تاکہ وہ اپنی جان دے کر بنی نوع انسانی کے لیے کفارہ ہوجائے۔
محمد رسول اللہ   کے ذریعہ نوعِ انسانی کو یہ خوشخبری اور بشارت دی گئی کہ انسان اپنی اصل پیدائش میں پاک صاف اور بے گناہ ہے وہ خود انسان ہی ہے جو اپنے اچھے یا برے عمل سے فرشتہ یا شیطان یعنی بے گناہ یا گناہ گار بن جاتا ہے(تفصیل کے لیے دیکھیے،سورۂ تین پارہ:۳۰) بخاری شریف میں یہ حدیث منقول ہے :
"مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ 
(بخاری،باب اذا اسلم الصبی،حدیث نمبر:۱۲۷۰)
کوئی بچہ ایسا نہیں جو فطرت پر پیدا نہیں ہوتا؛ لیکن ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔

(۳)ظہور محمدی سے پہلے لوگ مختلف گھرانوں میں بٹے ہوئے تھے،ہر ایک نے اپنا اپنا الگ الگ خدا تصور کرلیا تھا،پیغمبروں کو ماننے والے بھی، ایک نبی کو مانتے تھے تو دوسرے نبی کا انکار کردیتے تھے،یہودی اپنی قوم وبنی اسرائیل سے باہر کسی نبی ورسول کی بعثت وظہور کوتسلیم نہیں کرتے تھے۔
لیکن محمد رسول اللہؐ کی تعلیم اس باب میں یہ ہے کہ ساری دنیا ایک اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ تعالی کی نعمتوں کو حاصل کرنے اور اس کواستعمال کرنے میں ساری قومیں اور نسلیں برابر کی شریک ہیں،کسی کو کسی پر فوقیت وبرتری حاصل نہیں، جہاں جہاں بھی انسانوں کی آبادی تھی تو اللہ نے وہاں وہاں اپنے قاصدوں ورہنماؤں کو انبیاء ورسل کی شکل وصورت میں مبعوث فرمایا، آپ   کی اسی تعلیم کا نتیجہ ہے  کہ کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں کہلاتا جب تک وہ دنیا کے تمام پیغمبروں پر اور پچھلی آسمانی کتابوں پر یقین نہ رکھے، اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
"كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ"۔       
(البقرۃ:۲۸۵)
سب ایمان لائے اللہ پر اور اُس کے فرشتوں پر اور اُس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اورہم اس کے رسولوں میں باہم فرق نہیں کرتے۔

(۴)تمام مذہبوں نے اللہ اور بندے کے درمیان واسطے قائم کررکھے تھے، قدیم بت خانوں میں کاہن وپجاری تھے، عیسائیوں میں بعض پوپوں کو گناہ معاف کرنے کا اختیار دیا گیا، آپ   نے یہ تعلیم دی کہ ہر انسان بغیر کسی واسطے کے اللہ کو پکار سکتا ہے اور اُس سے اپنے گناہ معاف کر اسکتا ہے اور اپنی تمام ضروریات بغیر کسی واسطے کے سیدھے اللہ سے مانگ سکتا ہے۔
قرآنی حوالاجات:
[سورۃ القصص:64، غافر:60، الجن:20، سبا:22، الانعام:56، یونس:66، فاطر:40، الاحقاف:4]

(۵)انسانوں کی تعلیم وہدایت کے لیے جو مقدس ہستیاں اس دنیا میں آئیں، ان کے متعلق قوموں میں افراط وتفریط تھا، افراط یہ تھا کہ نادانوں نے اُن کو خود اللہ یا اللہ کا مِثل یا اللہ کا روپ یا اللہ کا بیٹا ٹھہرایا، تفریط یہ تھا کہ ہر وہ شخص جو پیشن گوئی کرتا تھا اس کو نبی یا پیغمبر مانتے تھے؛ لیکن جب محمدؐ کونبی ورسول بناکر مبعوث فرمایا گیا تو آپؐ نے اسلام کا تعارف کرواتے ہوئے اُن مقدس وعظیم المرتبت ہستیوں کا صحیح حیثیت سے تعارف کرواتے ہوئے یہ فرمایا کہ: انبیاء نہ اللہ ہیں، نہ اللہ کے مثل ہیں، نہ اللہ کے بیٹے ہیں اور نہ اُس کے رشتہ دار ہیں؛ بلکہ انبیاء علیہم السلام انسان ہیں ؛ لیکن اپنے کمالات کی حیثیت سے تمام انسانوں سے بڑکر ہیں، اُن پر اللہ کی وحی نازل ہوتی ہے، وہ بے گناہ اور معصوم ہوتے ہیں، اُن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنے حکم سے اپنی قدرت کے عجائبات دکھاتا ہے، وہ لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، اُن کی عزت وتعظیم تمام انسانیت پر فرض ہے، وہ اللہ تعالی کے خاص، سچے اور مطیع وفرمابردار بندے ہوتے ہیں۔
محمد  کی یہ تعلیمات افراط وتفریط سے پاک ہیں اِس کے علاوہ دیگر تعلیمات بھی افراط وتفریط سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی جامع ومانع بھی ہیں؛ چونکہ آپ   آخری نبی ورسول ہیں، آپ   کے بعد نہ کوئی نبی آئیگا اور نہ رسول جو کوئی نبوت ورسالت کا دعویٰ کریگا، وہ جھوٹا ہوگا؛ خلاصہ یہ کہ آپ   کی پیاری عملی زندگی اور آپ  کے ارشادات وتعلیمات رہتی دنیا تک کی انسانیت کے لیے دنیوی واُخروی کامیابی کی ضامن ہے توجس طرح یہ دینِ اسلام تمام سابقہ شریعتوں کا جامع گلدستہ ہے اُسی طرح آپ   کی حیاتِ مبارکہ بھی تمام سابقہ انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں کا ایک جامع حسین گلدستہ ہے، جو کوئی اِس حسین گلدستہ کے ایک ایک پھول کو اپنی عملی زندگی کے گلدان میں لگائیگا تواُس کی زندگی بھی گل وگلزار ہوجائیگی اور وہ حضورِ پاک   کی زندگی کا حسین گلدستہ، جو خالقِ کائنات ومالکِ دوجہاں کے منشے کے عین مطابق ہے اس لیے جو کوئی اپنی زندگی کے گلدان کوحضورِ اکرم  کے حسین گلدستہ کے مطابق بنائیگا تواللہ تبارک وتعالیٰ اُس کی زندگی کے گلدستہ کو گلستان (جنت) میں ڈال دیں گے آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کے گلدان میں حضورِ پاک  کی زندگی کے حسین گل کھلادے اور حضور  کی زندگی کے عمل کے ایک ایک پھول کوچُن چُن کر اپنی زندگی کے گلدان میں لگانے کی توفیق وجستجو عطا فرمائے، آمین۔
سیرت کے ماخذ اور حوالہ جات
(۱)قرآن مجید
سیرت نبوی  کا سب سے اہم، سب سے مستند اورسب سے زیادہ صحیح حصہ وہ ہے جس کا ماخذ قرآن مجید ہے اور قرآن مجید کہ جس کی صحت کے بارے میں کوئی شک نہیں کیا جاسکتا وہ حضور اکرم  کی زندگی کے ضروری اجزاکو چیدہ چیدہ اِس طرح بیان کرتا ہے، مثلاً:نبوت سے پہلے مکی زندگی،یتیمی،حق کی تلاش اور پھر نبوت سے سرفرازی،وحی،تبلیغ،معراج،مخالفین کی دشمنی،ہجرت اور آپ  کے اخلاق حسنہ۔
(۲)حدیث
سیرت محمدی کا دوسرا ماخذ حدیثوں کا وہ سرمایہ ہے جس کا ایک ایک حصہ بہت ہی ناپ تول اور پرکھا ہوا ہے؛ اس میں آپ کے حالات بھی ہیں اور تعلیمات بھی(حدیث کی تمام مستند کتابیں)۔
(۳)مغازی
تیسرا ماخذ وہ قدیم کتابیں جن میں آپ  کے غزوات،جنگوں کے حالات اور اس ضمن میں دوسرے واقعات موجود ہیں،مغازی کی چند کتابیں درج ذیل ہیں:
مغازی،عروہ بن زبیر                                (متوفی۹۴ھ)
مغازی،زہری                                        (متوفی۱۲۴ھ)
مغازی،موسی بن عقبہ                               (متوفی۱۴۱ ھ)
مغازی،ابن اسحٰق                                     (متوفی۱۵۰ ھ)
مغازی، زیاد بکائی                                     (متوفی۱۸۲ ھ)
مغازی،واقدی                                        (متوفی۲۰۷ ھ)
(۴)کتب تاریخ
تاریخ کی وہ عام کتابیں ہیں،جن کا پہلا حصہ آپ  کی سوانح حیات پر مشتمل ہے،مثلاً:
تاریخ الرسل والملوک،امام ابو جعفر طبری               (متوفی۳۱۰ھ)
تاریخ صغیر وکبیر،امام بخاری                            (متوفی۲۵۶ھ)
تاریخ ابن حبان                                       (متوفی۳۵۴ھ)
تاریخ ابن ابی خثیمہ بغدادی                            (متوفی۹۹ھ)
(۵)کتب دلائل
جو آنحضرت  کے معجزات پر ہیں:
دلائل النبوۃ،ابن قتیبہ                               (متوفی۲۷۶ھ)
دلائل النبوۃ،ابو اسٰق حربی                           (متوفی۲۵۵ھ)
دلائل النبوۃ،ابو نعیم اصفہانی                           (متوفی۴۳۰ھ)
دلائل النبوۃ،مستغفری                                 (متوفی۴۳۲ھ) 
دلائل النبوۃ،ابوالقاسم اسمٰعیل اصفہانی                   (متوفی۵۳۵ھ)
خصائص کبریٰ،امام سیوطی                              (متوفی۹۱۱ھ)
(۶)شمائل
وہ کتابیں جو آنحضرت کے اخلاق وعادات اور معمولات پر لکھی گئی ہیں:
الشفا فی حقوق المصطفی،قاضی عیاض                        (متوفی۵۴۴ھ)
نسیم الریاض،شہاب خفا جی
شمائل النبی،ابوالعباس مستغفری                             (متوفی۴۳۲ھ)
شمائل النور الساطع،ابن المقری غرناطی                     (متوفی۲۵۳ھ)
سفرالسعادۃ،مجدالدین فیروزآبادی                          (متوفی۸۱۷ھ)
اردو میں سیرت کے موضوع پر چند مستند کتابیں یہ ہیں
رسول اکر  کی سیاسی زندگی (ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ)
محمد رسول اللہ             (ڈاکٹر محمد حمیداللہؒ)
اصح السیر  (عبدالروف قادری دانا پوریؒ)








اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو ۔۔۔
کون ہمیں خالق کی پہچان، حقوق اور عبادت کے آداب واخلاق سکھاتا؟

صلی اللہ علیہ وسلم(رحمتیں ہوں اللہ کی ان پر اور سلامتیاں)

اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو ۔۔۔
کون مخلوق کے حقوق، آداب واخلاق سکھلاتا؟

صلی اللہ علیہ وسلم(رحمتیں ہوں اللہ کی ان پر اور سلامتیاں)

اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو ۔۔۔
کون ہمیں کامل پاک ہونا سکھاتا؟

صلی اللہ علیہ وسلم(رحمتیں ہوں اللہ کی ان پر اور سلامتیاں)

اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو ۔۔۔
کون ہمیں حقیقی نیکی اور برائی کا فرق سمجھاتا؟

صلی اللہ علیہ وسلم(رحمتیں ہوں اللہ کی ان پر اور سلامتیاں)

اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو ۔۔۔
کون ہمیں "خیرخواہی" کی حوصلہ افزائی کرتے جنت کی خوبیاں بتاتا اور "بدخواہی" کی حوصلہ شکنی کرتے جہنم کی سزائیں سمجھاتا؟

صلی اللہ علیہ وسلم(رحمتیں ہوں اللہ کی ان پر اور سلامتیاں)

اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو ۔۔۔
کون اصلاح کے طریقے سکھاتا اور فساد سے خوفزدہ کرتا؟

صلی اللہ علیہ وسلم(رحمتیں ہوں اللہ کی ان پر اور سلامتیاں)

اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو ۔۔۔
کون سچائی پہنچاتا اور برائی کو مٹاتا؟

صلی اللہ علیہ وسلم(رحمتیں ہوں اللہ کی ان پر اور سلامتیاں)

اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو ۔۔۔
کون بےحساب بدلہ وانعام کی خوشخبری سے عدل بلکہ رحم کا شوق دلاتا اور دردناک، ذلیل کرنے والے، سب سے بڑے عذاب کے ذریعے ظلم کی ہر قسم سکھا کر اس سے روکنے کیلئے زبردست انداز سے ڈراتا؟

صلی اللہ علیہ وسلم(رحمتیں ہوں اللہ کی ان پر اور سلامتیاں)

اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو ۔۔۔
کون مستحق محتاجوں پر خیرات وصدقات کرنے اور شوق دلانے کا شوق دلاتا اور خیرات وصدقات نہ کرنے یا روکنے سے روکتا۔

صلی اللہ علیہ وسلم(رحمتیں ہوں اللہ کی ان پر اور سلامتیاں)

اگر محمد ﷺ نہ ہوتے تو ۔۔۔
کون صبر کے بجائے نوحہ وماتم اور شکر کے بجائے فخر وغرور سے روکتا؟

صلی اللہ علیہ وسلم(رحمتیں ہوں اللہ کی ان پر اور سلامتیاں)

(جاری)








محسنِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور اصلاحِ امت

 


 

محسنِ انسانیت، سرکارِدوعالم جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سرزمین عرب میں ایسے جاہلی ماحول میں ہوئی کہ انسانیت پستی کی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور یہ حالت صرف عرب ہی کی نہیں تھی؛ بلکہ اکثر ممالک کی زبوں حالی قابلِ رحم تھی، ہر طرف سماجی ومعاشرتی بدنظمی اور معاشی واقتصادی بے چینی تھی، اخلاقی گراوٹ روز افزوں تھی، مزید برآں بت پرستی عروج پر تھی، قبائلی وخاندانی عصبیت بڑی سخت تھی اور شدید ترین نفرتوں، انتقامی جذبات، انتہا پسندانہ خیالات، لاقانونیت، سودخوری، شراب نوشی، خدافراموشی، عیش پرستی وعیاشی، مال وزر کی ہوس، سنگ دلی اور سفاکی وبے رحمی سے پورا عالم متاثر تھا؛ الغرض چہار سُو تاریکی ہی تاریکی تھی، مفکرِ اسلام مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی (۱۹۱۴-۱۹۹۹/) نے بڑا جامع نقشہ کھینچا ہے:

”خلاصہ یہ کہ اس ساتویں صدی مسیحی میں روئے زمین پر کوئی قوم ایسی نظر نہیں آتی تھی، جو مزاج کے اعتبار سے صالح کہی جاسکے اور نہ ایسی کوئی سوسائٹی تھی جو شرافت اور اخلاق کی اعلیٰ قدروں کی حامل ہو، نہ ایسی کوئی حکومت تھی جس کی بنیاد عدل وانصاف اور رحم پر ہو اورنہ ایسی قیادت تھی جو علم وحکمت اپنے ساتھ رکھتی ہو اور نہ کوئی ایسا صحیح دین تھا جو انبیاء کرام کی طرف صحیح نسبت رکھتا ہو اور ان کی تعلیمات وخصوصیات کا حامل ہو، اس گھٹاٹوپ اندھیرے میں کہیں کہیں عبادت گاہوں اور خانقاہوں میں اگر کبھی کبھی کچھ روشنی نظر آجاتی تھی تو اس کی حیثیت ایسی ہی تھی، جیسے برسات کی اندھیری رات میں جگنو چمکتا ہے․․․․ اس عالم گیر تاریکی اور فساد کا نقشہ قرآن مجید نے جس طرح کھینچا ہے، اس سے زیادہ ممکن نہیں۔“

          ظَھَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ أَیْدِي النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ (الروم:۴۱)

ترجمہ: خرابی پھیل گئی ہے خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے نتیجے میں؛ تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھادے اور وہ باز آجائیں۔

          (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج وزوال کا اثر،ص:۸۳)

سرزمین عرب کا انتخاب:

          مذکورہ بالا دور کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے، اگر تمام عالم کی رہبری کے واسطے ایک واحد مرکز قائم کرنے کے لیے، ہم کسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیں تو عرب ہی اس کے لیے موزوں ترین معلوم ہوگا؛ کیوں کہ اگر ہم عرب کو کرئہ ارض کے نقشہ پر دیکھیں تو اس کے محل وقوع سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے اسے ایشیا، یورپ اور افریقہ کے براعظموں کے وسط میں جگہ دی ہے؛ اس لیے ایسے ملک میں دنیا کے جملہ مذاہب کا پہنچ جانا اور سبھی کا بگڑجانا بخوبی سمجھا جاسکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عرب کی آواز ان براعظموں میں بہت جلد پہنچ جانے کے اسباب وذرائع بخوبی موجود تھے؛ چناں چہ خالقِ کائنات نے غالباً اسی لیے حضور پُرنور علیہ السلام کو عرب میں پیدا فرمایا، اور ان کو بتدریج قوم اور ملک اور عالم کی رہبری کا کام سپرد فرمایا۔ سیرتِ رسول اور تاریخِ اسلام کا مطالعہ کرنے والا یہ نتیجہ بہ آسانی اخذ کرسکتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کام کس قدر مشکل تھا اور انھوں نے اس فرض کو کیسی خوش اسلوبی، صبر وثبات اور استقامت وتحمل سے ادا کیا، اور کس طرح پُرامن تہذیب وتمدن اور علم واخلاق کی روشنی چہارسُو پھیلائی اور مختلف رنگوں، امتیازوں اور تفاوتوں سے قطعِ نظر کرکے، کس طرح سب کو دینِ واحد کے رشتے سے متحد اور ہم خیال بنایا اور کس طرح قومیت کا تفرقہ، عرب وعجم کا فاصلہ اور اسود وابیض کا فرق مٹایا۔

اصلاحی مِشن کا بتدریج آغاز:

          چوں کہ بنوہاشم اور قریش، عرب بالخصوص مکہ کے بڑے اور بااثر لوگوں میں سے تھے اور حضور علیہ السلام بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے؛ اس لیے آپ نے اپنے اصلاحی مِشن کا آغاز سب سے پہلے اپنے خاندان والوں سے کیا؛ تاکہ دوسروں پر اس کا مثبت اثر پڑے، یہ الگ بات ہے کہ قریش اس صدائے حق سے حیران ہوگئے اورجاہلی عادات وخیالات کے خلاف، آواز سُن کر برافروختہ ہوگئے؛ لیکن آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہیں آئی، مخالفت کے طوفان اٹھے، فتنہ کی آندھیاں آئیں اور چلی گئیں اور آپ اپنی جگہ پہاڑ کی طرح جمے رہے، کچھ دنوں کے بعد خاندان کے دائرے سے آگے بڑھ کر مکہ اور اس کے گرد وپیش کے قبائل کو بھی پیغامِ حق سنانے لگے؛ تاکہ وہ اپنی تشنہ روحوں کو آبِ حیات سے سیراب کرسکیں؛ چناں چہ آپ نے اپنی صدائے حق طائف، حنین اور یثرب تک پہنچایا اور پھر وہ وقت آیا کہ آپ کی بعثت کو عام قرار دیاگیا اور آپ نے اپنے پیغامِ امن کو پوری انسانیت کے لیے عام کردیا، عرب وعجم اور اسود واحمر سب کے سامنے ایسا ضابطہٴ اخلاق، مکمل دستور العمل اور شاندار نظامِ حیات رکھا، جو تنگ ذہنی اور تنگ نظری سے نہ صرف یہ کہ پاک تھا؛ بلکہ دیگر اقوام کے لیے آئیڈیل اور قابلِ تقلید تھا اورجس میں ہر فرد کا خیال رکھا گیا اور جس میں دوست ہی نہیں دشمن کے لیے بھی وہ خلوص تھا جو پورے عالمِ انسانیت کو یکجہتی کے رشتے کی لڑی میں پروتا ہے اور محکوموں، مجبوروں، بے سہاروں اور بے کسوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کی گارنٹی دیتا ہے اور نوعِ انسانی کے سارے افراد کو ایک خاندان میں تبدیل کرتا ہے اور سب سے اہم اور بڑی بات؛ بلکہ بہت بڑی بات یہ ہوئی کہ پیغمبرِ اسلام نے کائنات کی، صرف صحیح راستے کی جانب رہ نمائی نہیں کی؛ بلکہ اس پر چل کر دکھایا اور خود کو ان تعلیمات کا عملی نمونہ بناکر ایک ایسا عظیم انسانی انقلاب برپا کیا؛ جس کا تصور اس قلیل عرصہ میں ناممکن ہی نہیں؛ محال معلوم ہوتا ہے۔

          آپ کی بعثت کا مقصد تلاوتِ کتاب، تزکیہٴ نفوس، تعلیم حکمت اورتعلیم کتاب تھا: یعنی شرک وبدعت کے دلدل سے نکال کر، توحیدِ خالص کی دعوت، جنت کی بشارت اور عذابِ آخرت کی وعید کو پہنچانا تھا، آپ کا کام نیکی کی ترغیب اور بدی سے منع کرنا تھا، پاک وصاف اشیاء کو حلال اور گندی وناپاک چیزوں کو حرام قرار دینا تھا، الفت واخوت اور مواسات ومساوات کا درس دینا آپ کا نصب العین تھا، بکھری ہوئی جاں بہ لب انسانیت کو ایک لڑی میں پرونا آپ کا خاص مِشن تھا؛ چناں چہ اس محسنِ انسانیت نے عظمتِ کردار، بلندیِ اخلاق اور پاکیزگیِ عمل کا جو نمونہ پیش کیا، اس نے اہل عرب ہی نہیں؛ بلکہ تمام عالم انسانیت کے قلوب واذہان کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور روحوں کو تڑپادیا؛ بلکہ گرمادیا؛ یہ ناقابالِ انکار حقیقت ہے کہ تاریخ عالم میں، دوسرا ایسا کوئی مصلح کامل نہیں ملتا جس نے اپنے کردار وعمل سے خود کو ”رحمةٌ لِّلْعالمین“ ثابت کیا ہو، اور یہی سبب ہے کہ آپ کی عظمت اور آپ کے تقدس کا اعتراف مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک ہر مذہب ومسلک اور مکتبِ فکر کے دانشوروں اور مورخوں نے کیا ہے۔

دعوت کا اثر:

          سابقہ تحریر سے معلوم ہوچکا ہے کہ حضور علیہ السلام عرب میں مبعوث ہوئے؛ اس لیے فطری طریقِ کار کے پیشِ نظر اول قوم عرب ہی آپ کی مخاطب قرار پائی اور آپ کی دعوت کا اثر سب سے پہلے انھیں پر ظاہر ہوا، اور آہستہ آہستہ ان کی زندگی میں انقلاب آنا شروع ہوا اور وہ آپ کے سایہٴ رحمت میں بتدریج آنے لگے، اور کچھ دنوں کے مخلصانہ ومشفقانہ اور دردمندانہ محنت کے بعد ”خیرِامت“ ہونے کی راہ ہموار ہونے لگی اور پھر جاں نثارانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی جماعت تیار ہوئی کہ جن سے بہتر یا افضل کوئی جماعت اس روئے زمین پر دیکھنے میں نہیں آئی؛ جس نے اپنے رہبر کامل کی حیات کے ایک ایک لمحہ کو حرزِجاں بنایا اور اس پر مَرمٹنے کو قابلِ فخر اور سعادتِ دارین سمجھا اور وہ قابل قدر سرمایہ آج اس امت کے پاس متصل اور مسلسل سند کے ساتھ موجود ہے اور یہ خصوصیت صرف اسی مصلح امت کے حصے میں آئی، جسے محسنِ انسانیت، سرورِکونین، فخرِدوجہاں، ہادیِ عالم، رحمةٌ للعالمین، فقیروں کا ملجا، ضعیفوں کا ماویٰ، یتیموں کا والی اور غلاموں کا مولیٰ بنایاگیا تھا، اور سرکش طبیعتوں کا یہ زبردست انقلاب؛ بلکہ تاریخ کا عظیم ترین انقلاب اسی رسولِ برحق اور عظیم داعی کے دست مبارک پر انجام پایا، جو تاریخ انسانی کا ایک مُحَیِّرُالعقول واقعہ ہے:

دُرفشانی نے تیری، قطروں کو دریا کردیا

دل کو روشن کردیا، آنکھوں کو بینا کردیا

خود نہ تھے خود راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے

کیا نظر تھی، جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا

کسی اِک ادا کی تو بات کیا؟

          انسانی زندگی کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جسے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اور اپنی مثبت فکر سے متاثر نہ کیا ہو، آپ نے اوس وخزرج کے درمیان برسہا برس سے جاری جنگ کو ختم کراکر قتل کے ایک زبردست سلسلہ کو روک دیا، آپ نے جنگ کے جس ضابطہٴ اخلاق کی وضع کی اور اس پر عمل کیا، دنیا اس کی نظیر پیش نہ کرسکی اور نہ کرسکتی ہے؛ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا کہ دورانِ جنگ بوڑھوں، عورتوں اور بچوں پرنہ صرف یہ کہ وار نہ کیا جائے؛ بلکہ ان کا مکمل تحفظ کیا جائے، دشمن کی صفوں میں موجود ہنرمند اور تعلیم یافتہ افراد کو قتل نہ کرنے کا حکم دے کر آپ نے دنیا پر علم وہنر کی عظمت واہمیت کو اجاگر کیا، دشمن کے کھیتوں اور درختوں کو نہ جلانے اور تالاب وکنوؤں میں زہر نہ ملانے کا حکم اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آپ کسی بھی بے قصور شخص کی ہلاکت کے خلاف تھے، آج کی نام نہاد مہذب اقوام کے لیے آپ کا مذکورہ حکم ایک آئینہ ہے جس میں وہ اپنا چہرہ دیکھ سکتی ہیں؛ کہ جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر، نہتوں اور بے قصو روں پر میزائل اور بم برسانے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتیں، آپ علیہ السلام نے برائی کی مدافعت، بھلائی سے کرنے کی جو تعلیم دی اس سے اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ آپ واقعی محسنِ انسانیت تھے، آپ ایک بہترین نظامِ حکومت کے بانی ہیں، عمدہ ترین تہذیب وثقافت کے مُوٴسس ہیں، عدل وانصاف کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی نظامِ معیشت کے قائم کرنے والے ہیں، آپ نے سیاسی، اقتصادی، معاشی، اخلاقی اور معاشرتی مسائل کا ایک متوازن اور معتدل حل پیش کیا، آپ نے حسن تدبُّر و تدبیر، اور حسنِ انتظام و انصرام کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ بڑے سے بڑے مدبر ومنتظم حیران وششدر ہوئے بنا نہ رہ سکے، آپ نے انفرادی زندگی کے بجائے، اجتماعی زندگی پر زور دیا، انتشار وخلفشار کے بدلے، اتحاد واتفاق کو اسلام کا نصب العین بنایا، امامت وقیادت کی بنیاد تقویٰ وقابلیت پر رکھی، آپ نے سماجی بھلائی اور رفاہِ عامہ کے کاموں میں نہ صرف بڑھ چڑھ کر حصہ لیا؛ بلکہ بسا اوقات اس کی قیادت بھی کی، حجراسود کی تنصیب، حلف الفُضول اور مُواخات کا عمل اس کی واضح مثال ہیں، آپ نے زید بن حارثہ جو غلام تھے، کی اپنے بیٹے کی طرح پرورش کی، غلام ویتیم کے ساتھ ایسے برتاؤ کی مثال دنیا نے کیوں کر دیکھا ہوگا؟ آپ نے عورتوں کو ان کے تمام حقوق کے ساتھ، عظمت واحترام کے اوجِ ثریا پر پہنچایا، بڑوں چھوٹوں کے فرقِ مراتب کی حد بندی کی الغرض کسی بھی شعبہ ہائے حیات کو تشنہ نہیں چھوڑا:

کسی اک ادا کی تو بات کیا                   *       حَسُنَتْ جَمِیْعُ خِصَالِہ

وہ خدا کا جس نے پتہ دیا                   *            صَلُّوْا عَلَیْہِ وَاٰلِہ

گفتار وکردار میں یکسانیت کا فلسفہ:

          آپ نے اپنی زندگی کے قلیل عرصہ میں، جس طرح مردہ قلوب میں روح ڈال دی، نفرت وعداوت کی جگہ،الفت ومحبت کو قائم کیا، ظلمت وجہالت کے فاسد مادے کو نکال باہر کیا، عرب کے بدووں کے قلوب واذہان میں نورِ صداقت اور ضیائے علم کو سمودیا اور جس طرح ان کی کایا پلٹ دی یہ آپ کا عظیم الشان معجزہ ہے؛ جس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں، بہ قول سید سلیمان ندوی: ”آدم سے عیسیٰ تک اور شام سے ہندوستان تک انسان کی مصلحانہ زندگی پر ایک نظر ڈالو، کیا عملی ہدایتوں اور کامل مثالوں کا کوئی نمونہ کہیں نظر آتا ہے؟“ حضور علیہ السلام کی تبدیلیِ قلوب کی تحریک اس لیے کارگر اور زود اثر ثابت ہوئی کہ آپ نے جو کہا، اُسے پہلے خود کیا اور یہی اسلام کی شوکتِ روزافزوں کا بڑا سبب بنا، آج اقوام متحدہ سمیت حقوقِ انسانی کے تحفظ کی پاس داری کے لیے بے شمار تنظیمیں اور کمیشن قائم ہیں؛ لیکن نتیجہ اور کارکردگی دنیا کے سامنے ہے، کسی بھی تحریک اور مشن کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب بانیِ تحریک کے اقوال وافعال میں تضاد نہ ہو، اس کے کردار وگفتار میں یکسانیت ہو، تاریخ پڑھیں معلوم ہوگا کہ جملہ اخلاقِ حمیدہ، ہمدردانہ جذبات، قانعانہ قابلیت اور زاہدانہ سیرت کی جھلک بدرجہٴ اتم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں موجود تھیں، اور یہی وہ پوائنٹ ہے جو اصلاحی تحریکوں کی کامیابی کا ضامن ہے، اور حضور علیہ السلام کی حیاتِ مقدسہ کے حوالے سے یہی وہ مرکزی نقطہ ہے جو آج تک سبھی اقوام کے لیے حیرت وحیرانی کا موجب بنی ہوئی ہے، اس مرکزی نقطہ کو مدِّنظر رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو یہ بات خوب سمجھ میں آتی ہے کہ بسااوقات اصلاحی جلسے جلوس، اصلاحی تحریکیں، اصلاحی اکیڈمیاں اوراصلاحی انجمنیں، کیوں ناکام اور غیرموثر ہوجاتی ہیں؛ کہ ان تحریکوں کے سربراہان حضرات کی زندگی عمل کے سانچے میں ڈھلی ہوئی نہیں ہوتی، ان کے ظاہر وباطن میں تباین ہوتا ہے، اقوال وافعال میں تضاد ہوتا ہے اور ان کے کردار وگفتار میں اختلاف ہوتا ہے، اصلاحی کاموں کی نتیجہ خیزی اور کامیابی کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کردار وگفتار میں یکسانیت کے فلسفے کو پیشِ نظر رکھنا ناگزیر ہے اور یہی اصل پوائنٹ ہے۔

          ربیع الاوّل کا مہینہ ہر سال آتا ہے، اور اس مہینے کے ساتھ قدرتی طور سے کچھ ایسی اسلامی یادیں وابستہ ہیں جو ہمارے ایمان کا حصہ ہیں، اسی ماہ میں عالم گیر انقلاب کے بانی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور اسی ماہ میں وفات پائی، آپ کی ولادت ووفات کو یاد کرنا اور یاد رکھنا یقینا ہمارے ایمان ویقین کا جز ہے؛ لیکن نبیِ اکرم اور رحمة للعالمین کی روشن تعلیمات کو فراموش کرکے، مسلمان ہونے کا دعویٰ کرنا اسلام کے ساتھ بددیانتی ہے؛ ضروری ہے کہ پہلے ہم اپنی زندگی میں اسوئہ حسنہ کی جھلکیاں پیدا کریں؛ ورنہ کوئی فائدہ نہیں۔

***

------------------------------------------






معراجِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم غم کا مداویٰ و مرتبے کی بلندی


 

دلائل نبوت

رسالت محمدی برحق ہے، اس پر ایمان لانا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے، جس کو باری تعالیٰ نے بہت ہی عظیم الشان طریقے پر ذکر فرمایا ہے، وَمَا یَنطق عن الہویٰ انْ ہُوَ الاَّ وحی یوحیٰ اور دوسری جگہ ارشاد ہے ما آتاکم الرّسولُ فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا واتقو اللّٰہ ، چنانچہ سیرت کے بہت سے واقعات سید المرسلین محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی دلیلیں بھی ہیں، اور آپ کے معجزات میں سے بھی ہیں، جیسے معجزہ شق القمر، کنکریوں کا کلمہ پڑھنا وغیرہ۔ اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی معراج یعنی رات کے چند لمحات کے اندر ساتوں آسمان کا سفر کرکے سدرة المنتہیٰ کے پاس تشریف لیجانا، باری تعالیٰ سے ہم کلام ہونا، بار بار کی تخفیف کے بعد امت کیلئے پانچ وقت کی نماز کا تحفہ لے کر چند لمحات میں بیت ام ہانی کے اندر واپس تشریف لانا، ارشاد باری ہے، سُبْحٰنَ الذیْ أَسْریٰ بعَبْدہ لَیْلاً مّنَ المسْجد الحرام الی المسجد الأقصیٰ o الذی بارکنا حولہ لِنریہ من آیاتنا انّہ ہُو السمیع البصیر (سورہ بنی اسرائیل، آیت:۱-۲) ترجمہ : پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندہ یعنی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے ایک قلیل حصہ میں مسجدحرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا، (جس سے اصل مقصود یہ تھا کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کی سیر کرائیں اور وہاں کی) خاص خاص نشانیاں آپ کو دکھلائیں (جن کاکچھ ذکر سورة النجم میں فرمایا ہے کہ آپ سدرة المنتہیٰ تک تشریف لے گئے اور وہاں جنت و جہنم اور دیگر عجائباتِ قدرت کا مشاہدہ فرمایا) تحقیق کہ اصل سننے والا اور اصل دیکھنے والا حق تعالیٰ ہے۔ (وہی جس کو چاہتا ہے اپنی قدرت کے نشانات دکھلاتا ہے اور پھر وہ بندہ اللہ کی تبصیر سے دیکھتا ہے اور اللہ کے اسماع سے سنتا ہے۔

تبلیغ و دعوت اور رنج و غم کے لمحات

نبوت ملنے کے بعد حکم ہوا ”یا أیہا الرسول بلغ ما أنزل الیکَ من ربکَ وان لم تفْعَل فما بلغت رسالتہ“ (المائدہ)

ترجمہ: اے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم آپ وہ (پیغام لوگوں تک) پہنچادیجئے جو آپ کے پاس آپ کے رب کی طرف سے نازل کیاگیا، اور اگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا تو (گویا کہ) آپ نے اپنے رب کا پیغام لوگوں تک نہیں پہنچایا۔

چنانچہ بعثت کے بعد تین سال تک آپ  صلی اللہ علیہ وسلم خفیہ طریقہ پر دین اسلام کی تبلیغ کرتے رہے، اور لوگ آہستہ آہستہ اسلام میں داخل ہوتے رہے، تین سال کے بعد یہ حکم نازل ہوا فَاصْدَعْ بمَا تُوٴمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشرکین (سورہ الحجر)

ترجمہ: جس بات کا آپ کو حکم دیاگیا ہے، اس کا صاف صاف اعلان کردیجئے، اور مشرکین کی پروانہ کیجئے۔

 چنانچہ کوہ صفا پر چڑھ کر آپ نے احکام الٰہی کو لوگوں تک پہنچایا، اور اعلانیہ دعوت کا کام شروع کردیا، اِدھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت کا کام شروع کیا، اور اُدھر مکہ کے قریش و مشرکین کی ریشہ دوانیوں، منصوبہ بندیوں اور ایذاء رسانیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم تنہا مسجد حرام اور خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کے لئے جاتے تو طرح طرح کی کلفتوں اور مشقتوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کبھی کوئی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پر پتھر پھینکتا، کبھی آوازیں کستا، اور تمسخر و مذاق اڑاتا، اسی طرح راستے میں کبھی آپ کے سرپر اوپر سے کوڑا کرکٹ ڈال دیا جاتا، کبھی اوجھڑی پھینک دی جاتی، اور آپ کیلئے تبلیغ کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جاتیں۔ یہ سارے حالات ذہنی کلفت و اذیت کا سبب بھی تھے، اور جسمانی مشقت و پریشانی کا باعث بھی۔ وہ بھی کس مپرسی افلاس اور کم مائیگی کے عالم میں، لیکن پھر بھی آپ کی تسلی اور دل کی مضبوطی و اطمینان کیلئے دوسہارے موجود تھے، اول یہ کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی آٹھ سال کی عمر کے وقت آپ کے دادا عبدالمطلب کا انتقال ہوا، آخری وقت میں انھوں نے آپ کے چچا ابوطالب کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت اور پرورش کیلئے وصیت کی، پھر باپ سے بڑھ کر انھوں نے شفقت و ہمدردی اور تربیت کاحق ادا کیا اور اسی طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پہلی بیوی حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا جو غار حرا سے واپسی اور نبوت ملنے کے بعد سب سے پہلے آپ پر ایمان لائیں، اور زندگی بھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے سہارا اور قلبی راحت و سکون کا سبب بنی رہیں کہ ساری اذیتوں اور پرخاش ماحول کے بعد جب گھر تشریف لاتے تو آپ کے دل کو قرار اور چین و سکون نصیب ہوجاتا۔

لیکن مرتبے کی بلندی مصائب و ابتلاء سے گھری ہوئی رہتی ہے، چنانچہ ۱۰/ نبوی عام الحزن والملال کے نام مشہور ہوا، کہ چند دن کے اندر دو دو سہارے آپ کی زندگی سے ختم ہوگئے۔ شعب ابی طالب سے نکلنے کے چند ہی روز بعد ماہ رمضان یا شوال ۱۰ نبوی میں ابوطالب کا انتقال ہوا، پھر تین یا پانچ دن بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا بھی انتقال ہوگیا۔

سفر طائف سلسلہٴ مشقت کی ایک کڑی

ابوطالب کے بعد آپ کا کوئی حامی و مددگار نہ رہا اور حضرت خدیجہ کے رخصت ہوجانے سے کوئی تسلی دینے والا غمگسار نہ رہا، اس لئے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ کی چیرہ دستیوں سے مجبور ہوکر اخیر شوال ۱۰ نبوی میں دعوت کے لئے طائف کا قصد فرمایا کہ شاید یہ لوگ اللہ کی ہدایت کو قبول کریں، اور اس کے دین کے حامی و مددگار ہوں، زید بن حارثہ کو ہمراہ لے کر طائف تشریف لے گئے۔ (سیرت مصطفی، جلد:۱، ص: ۲۷۴)

پھر طائف میں کیا کچھ ہوا اور وہاں کے شریر بچوں نے آپ کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور کس طرح زدوکوب کے ساتھ آپ کو خون میں لت پت کیا اس کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کافی ہے۔

”حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک بار عرض کیا یا رسول اللہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پر اُحد سے بھی زیادہ سخت دن گذرا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیری قوم سے جو تکلیفیں پہنچیں سو پہنچیں، لیکن سب سے زیادہ سخت دن وہ گذرا کہ جس دن میں نے اپنے آپ کو عبدیالیل کے بیٹے پر پیش کیا، اس نے میری بات کو قبول نہیں کیا، میں وہاں سے غمگین ورنجیدہ واپس ہوا۔“ (ملخص از ترجمہ فتح الباری، ج:۶، ص: ۲۲۵)

کفار مکہ کی ستم ظریفی

اور یہ تو سفر کی مختصر سی مدت تھی اگرچہ کلفت و مشقت اور رنج و غم کے اعتبار سے پوری زندگی کے اوقات میں سب سے دشوار معلوم ہوئی، اس کے علاوہ مکہ معظمہ کے قیام میں بھی کیا کم مصائب اور اذیتوں سے دوچار ہونا پڑا، دونوں میں فرق کیلئے بس اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایک مرحلہ سانپ کے کاٹنے کی طرح ہے کہ جس سے اچانک انسان جاں بحق ہوجاتا ہے، اور دوسرابچھو کے ڈنک مارنے کی طرح ہے جس کا زہر لہریں مارتا رہتا ہے ۔ چنانچہ ابن ہشام اپنے ماخذ سیرت میں رقمطراز ہیں:

قال ابن اسحاق : ومرّ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ۔ فیما بلغنی ۔ بالولید بن المغیرة وأمیة بن خلف، وبأبی جہل ابن ہشام فہمزوہ واستہزووا بہ فغاظہ ذلک فأنزل اللّٰہ تعالیٰ علیہ فی ذلک من أمرہم ”ولقد اسْتہزیَ برسل من قبلکَ فحاق بالذین سخروا منہم ما کانوا بہ یستہزوٴن“ (سیرة ابن ہشام، ج:۱، ص: ۳۹۵)

ابن اسحاق نے فرمایا : جہاں تک مجھے خبر ملی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ولید بن المغیرہ، امیہ بن خلف اور ابوجہل ابن ہشام پر ہوا، تو ان لوگوں نے آپ پر طعن و تشنیع کیا، اور آپ کا مذاق اڑایا، تو اس کی وجہ سے آپ غصہ ہوئے، جس کی بناء پر قرآن پاک کی یہ آیت نازل ہوئی۔ ”ولقد استہزی الخ“ تحقیق کہ آپ سے پہلے رسولوں کا مذاق اڑایاگیا سو جن لوگوں نے استہزا کیا تھا ان پر وہ عذاب نازل ہوگیا جس کا وہ استہزاء کیا کرتے تھے۔

قال ابن اسحق فأقام رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی أمر اللّٰہ صابرًا محتسبًا موٴدیاً الی قومہ النصیحة علی ما یلقی عنہم من التکذیب والأذیٰ (والاستہزاء) (سیرة ابن ہشام، ج:۱، ص: ۴۰۸)

ابن اسحاق نے فرمایا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے حکم پر قائم رہے، صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید کرتے ہوئے اور اپنی قوم تک نصیحت کی باتیں پہنچاتے ہوئے باوجودیکہ ان کی جانب سے آپ کی شانِ اقدس میں تکذیب و مذاق بازی اور ایذاء رسانی کا سلسلہ جاری تھا۔

اور اسی پر بس نہیں بلکہ فَترتِ وحی کے موقع پر بھی طرح طرح سے کفار مکہ نے آپ کو تمسخر و استہزا کا نشانہ بنایا۔

زخم خوردہ نبی کی تسلی

اسی طرح جب مسلسل مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے گئے، مشقت و کلفت کی انتہا ہوگئی، تو ارحم الراحمین نے طرح طرح سے مختلف آیتوں کے نزول اور واقعات کے ذریعہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے صبر و تسلی کا سامان مہیا فرمایا، اور قوت و پختگی اور عزم و حوصلہ کے ذریعہ آپ کی مدد فرمائی حتی کہ دوسورتوں یعنی ”والضحیٰ اور ألم نشرح“ کا نزول ہوا، جس میں باری تعالیٰ نے آپ کے رخِ انور کی قسم کھاکر ارشاد فرمایا: ”مَا وَدّعک ربک و ما قلیٰ“ یعنی آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا نہیں اور نہ ہی آپ سے ناراض ہوا، ارشاد ہوا:

ألم نشرح لک صدرک ووضعنا عنک وزرک الذی أنقض ظہرک ورفعنا لک ذکرک (سورة الانشراح)

کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ (علم وحلم) سے کشادہ نہیں کردیا اور ہم نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پر سے آپ کا وہ بوجھ اتاردیا جس نے آپ کی کمر توڑ رکھی تھی اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا۔ (یعنی اکثر جگہ شریعت میں اللہ کے نام کے ساتھ آپ کا نام مبارک مقرون کیاگیا) کذا فی الدر المنثور، معارف القرآن، ج:۸

اسلامی فلاسفر اور ادیب مفسر قرآن مولانا عبدالماجد دریابادی لکھتے ہیں: ”ہندوستان کے چھوٹے چھوٹے قریوں اور موضعوں، عرب کے ریگستان اور چٹیل میدان اور افریقہ کے صحرا و بیابان سے لے کر لندن اور پیرس اور برلن کے تمدن زاروں تک، ہر روز اور ہر روز میں بھی پانچ پانچ بار کس کے نام کی پکار اللہ کے نام کے ساتھ ساتھ بلند رہتی ہے؟ اپنی ذاتی عقیدت مندی کو الگ رکھئے محض واقعات پر نظر رکھ کر فرمائیے کہ یہ مرتبہ یہ اکرام دنیا کی تاریخِ معلوم سے لیکر آج تک کسی ہادی کسی رہبر کسی مخلوق کو حاصل ہوا ہے؟ جس بے کس اور بے بس سے عین اس وقت جبکہ اسے زور اور قوت والے سردارانِ قریش اپنے خیال میں کچل کر رکھ چکے تھے، اور اس کا نام و نشان تک مٹاچکے تھے، یہ وعدہ ہوا تھا، ”ورفعنا لک ذکرک“ ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کررکھا ہے، اگر آوازہ اس کا بلند نہ ہوگا تو اور کس کا ہوگا؟ (ذکر رسول، ص: ۶۳)

خورشید مبین کی تابانی (معراج رسول)

ابتلا و آزمائش بہت زبردست تھی، صبر آزما مراحل اورمصائب کے پہاڑ تھے، جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر کی تلقین کی گئی۔

فاصْبِر کَمَا صَبَر أُوْلُوا العزمِ منَ الرسُلِ وَلاَ تَسْتَعْجِلْ لَّہُمْ (سورہ الاحقاف، آیت:۳۵)

تو آپ صبر کیجئے جیسا اور ہمت والے پیغمبروں نے صبر کیاتھا اور ان لوگوں کیلئے (انتقام الٰہی کی) جلدی نہ کیجئے۔

باری تعالیٰ نے آپ کی صبر و تسلی کے لئے فرمایا: ”ووضعنا عنکَ وزرک الذی أنقض ظہرک ورفعنا لک ذکرک“ ترجمہ: ہم نے آپ پر سے آپ کا وہ بوجھ اتار دیا جس نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر توڑ رکھی تھی، اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا آوازہ بلند کیا۔ (سورہ الانشراح، آیت:۴)

حزن و ملال کا ہجوم، مصائب و آلام کی یلغار ہی کیا کم تھی کہ مزید برآں اعزاء و اقرباء اور اہل خاندان کی مخالفت کفار و مشرکین اہل مکہ کا دعوت کی راہ میں حائل ہونا وغیرہ جو حوصلہ شکنی کے لئے کافی تھے۔ حتی کہ آپ کی پریشان حالی پر باری تعالیٰ نے آپ کو مخاطب فرمایا: فلعلک باخعٌ نفسک علی آثارہم ان لم یوٴمنوا بہذا الحدیث أسفًا (سورہ الکہف، آیت:۶) ترجمہ: شاید آپ ان کے پیچھے اگر یہ لوگ اس مضمون پر ایمان نہ لائے تو غم سے اپنی جان دے دیں گے۔

ظاہر ہے جو حبیب و محبوب ہو، آخری رسول ہو، ع ”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ کا مصداق ہو، تاریکیوں میں چراغ روشن کرنے کا عزم رکھتا ہو، دشوار گذار مراحل، اور خاردار وادیوں کو پار کرتا ہو، حوصلہ شکن حالات کا پامردی سے مقابلہ کرتا ہو، تو اس کو تمغہ بھی اتنا ہی بڑا ملنا چاہئے، اور اس کے بلندیٴ مرتبہ پر دلیل بھی اتنی بڑی قائم ہونی چاہئے کہ جس کے اوپر اور دلیل نہ ہو، اور جس سے زیادہ عظیم الشان کوئی واقعہ اس کرئہ ارض پر نہ پیش آیا ہو اور نہ آسکتا ہو، اور وہ اسراء و معراج کا عظیم الشان واقعہ ،۔ اسراء اور معراج کے بارے میں بہت سے موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔

(۱)   اختلاف اقوال کی روشنی میں اس واقعہ کی تاریخ کا تعین

(۲)  یہ واقعہ روحانی ہے یا جسمانی، (یا منامی)

(۳)  مکہ معظمہ سے بیت المقدس کا سفر اور امامت انبیاء

(۴)  ثمّ دنی فتدلّٰی کی واقعاتی توضیح

(۵)  مولیٰ سے ہمکلامی، اور حاصل ہونے والے تحفہ کی تفصیل

(۶)  جنت اور جہنم کی سیر اور چند مشاہدات

لیکن یہ سب کچھ اس عظیم الشان واقعاتی تجزئیے سے تعلق رکھنے و الے موضوعات ہیں، لہٰذا، اس کو دوسرے موقع کیلئے محفوظ رکھتے ہوئے، اس سے ماخوذ چند عجائب سفر اور لطائف و معارف کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے، تاہم قرآن پاک کے اجمال اور احادیث رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی تفصیل سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے، کہ جبرئیل امین علیہ السلام براق کے ساتھ تشریف لائے، اور سرورکائنات جناب محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو ام المومنین حضرت ام ہانی کے مکان سے مسجد حرام، پھر وہاں سے مسجد اقصیٰ، اور انبیاء کی امامت کرنے کے بعد آسمان کی سیر کراتے ہوئے اور انبیاء سابقین سے ملاقات کراتے ہوئے ساتوں آسمان کے اوپر لے گئے، پھر وہ مقام آیا کہ جس کے آگے بڑھنے سے جبرئیل امین کے قدم عاجز و قاصر رہے، جیساکہ شیخ سعدی کے اس شعر سے ظاہر ہے۔

اگر یک سرِ موئے برتر برم                        فروغِ تجلی بسوزد پرم

باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ثم دنی فتدلّی فکان قاب قوسین أو أدنی o فأوحیٰ الی عبدہ ما أوحیٰ ما کذب الفوٴادُ ما رأی، أفتمارونہ علی ما یریٰ، ولقد رأٰہ نزلةً أخریٰ عند سدرة المنتہیٰ عندہا جنة الماویٰ اذ یغشی السدرة ما یغشیٰ، مازاغ البصر ومَا طغیٰ، لقد رأیٰ من آیات ربہ الکبریٰ (سورة النجم)

ترجمہ: پھر وہ فرشتہ (آپ کے) نزدیک آیا، (سو قرب کی وجہ سے) دونوں کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا، بلکہ اور بھی کم پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندہ (محمد  صلی اللہ علیہ وسلم) پر وحی نازل فرمائی، جو کچھ نازل فرمانا تھی۔ (جس کی تعیین بالتخصیص معلوم نہیں) قلب نے دیکھی دیکھی ہوئی چیز میں غلطی نہیں کی، تو کیا ان سے دیکھی ہوئی چیز میں نزاع کرتے ہو، انھوں نے (پیغمبر نے) اس فرشتہ کو اور دفعہ بھی (صورت اصلیہ میں) دیکھا ہے، سدرة المنتہیٰ کے پاس جنت الماویٰ ہے، جب اس سے سدرة المنتہیٰ کو لپٹ رہی تھی جو چیزیں لپٹ رہی تھیں، نگاہ تو نہ ہٹی (بلکہ ان چیزوں کو خوب دیکھا) اور نہ (ان کی طرف دیکھنے کو) بڑھی (یعنی قبل اِذن نہیں دیکھا) پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کے بڑے عجائبات دیکھے۔ (معارف القرآن، ج:۸، ص: ۱۹۲)

پھر آپ کو رب ذوالجلال سے ہمکلامی کا شرف حاصل ہوا، پچاس نمازوں کی فرضیت کا تحفہ عطا کیاگیا، جو تخفیف کے بعد پانچ وقت کی صورت میں باقی رہا، اجر و ثواب میں پچاس وقت کی کیفیت کے ساتھ۔

اسی طرح آپ نے اقلام تقدیر کے چلنے کی آوازوں کو سنا، بعد ازاں جنت و جہنم کا مشاہدہ فرمایا، پھر جبرئیل امین علیہ السلام کی معیت میں مسجد اقصیٰ میں نزول فرمایا، اور وہاں سے مسجد حرام واپس ہوکر بیت ام ہانی میں تشریف لائے۔

یہ تھی ایک طائرانہ نظر معراج رسول کے مبارک سفر پر جس میں آپ کے رنج و غم کا مداویٰ بھی تھا اور ذکر کی بلندی بھی، شخصیت کی جلوئہ آفرینی بھی، اور ختم نبوت کی دلیل بھی، سارے جہانوں کی سرداری بھی، آپ کی امت اور آپ کے پیغام کے خلود وبقاء کی علامت بھی، نیز ساتھ ہی بے مثال واقعات کے معجزہ نمائی بھی جو سارے فلسفہ و علوم اور اسباب و علل کی دسترس سے باہر ہو سچ ہے:

لا یمکن الثناء کما کان حقہ

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اب ان خصائص و امتیازات، اور فوائد و ثمرات کو شعور و وجدان کی کیفیت کے ساتھ اخذ کرنے اور گہرائی و گیرائی سے آشنا ہونے کیلئے، ان اسرار و حکم حقائق و معارف اور دروس و عبر کا قلب و ذہن میں پیوست ہونا اور نظر میں آنا ضروری ہے، جو اس بلندی و رفعت کے دلچسپ سفر میں مضمر ہے۔

سفر معراج کے اسرار و حکم

واقعہٴ معراج محض ایک مشاہداتی سفر اور قطع مسافت کی پرکیف و عجیب داستان نہیں ہے، سورئہ اسراء اور سورہ نجم اوراس سلسلے میں مروی صحیح ومشہور احادیث سے بہت سے اسرار و حکم اور لطائف و معارف سامنے آتے ہیں۔

(۱)   خاتم النّبیین  صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ دونوں قبلوں کے نبی اور مشرق و مغرب دونوں سمتوں کے امام ہیں۔

(۲)  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیش رو تمام انبیاء کرام کے وارث اور بعد میں آنے والی پوری نسل انسانی کے رہبر و رہنما ہیں۔

(۳)  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام، دعوت کی عمومیت و آفاقیت آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت کی ابدیت اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی ہمہ گیری و صلاحیت کی دلیل و علامت ہے۔

(۴)  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کا صحیح تعارف اور صحیح نشاندہی ہے۔

(۵)  آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اصل مقام و حیثیتِ عرفی کا تعین ہے۔

(۶)  آپ کی نبوت کی محدود، مقامی اور عارضی نوعیت اور ابدی و عالمگیری حیثیت کے درمیان خطّ فاصل ہے۔

(۷) آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و سیادت کا قومی اور سیاسی قیادت پر غلبہ و تفوق اور بالاتری کا ثبوت اور امتیازی حیثیت ہے۔

(۸)  ایسا معجزہ اور کرامت ہے جو آپ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوا۔

(۹)  عبادت اور تقرب و بندگی کے ذریعہ کو بطور تحفہ آسمان کے اوپر مہمان بناکر عطا کرنا جو رفعِ ذکر کی وقوعی اور خارجی تفسیر ہے۔

(۱۰) نبی آخر الزماں  صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء پر جو فضیلت ہے، ان میں دو باتیں خاص طور پر فضیلت کا باعث ہیں: دنیا میں معراج اور آخرت میں شفاعت۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دونوں دولتیں تواضع کی بدولت حاصل ہوئیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حق تعالیٰ کے ساتھ تواضع کی، تو دولت معراج کی پائی، اور مخلوق کے ساتھ تواضع کی تو دولت شفاعت کی پائی، حق تعالیٰ کے سوال پر شب معراج میں آپ نے فرمایا کہ تمام القاب میں سب سے زیادہ پسندیدہ لقب میرے لئے عبد کا ہے، تیرا بندہ ہونا، یعنی عبدیت کی اساسی صفت جو باری تعالیٰ کو انسانیت کی جانب سے سب سے زیادہ مطلوب اور محبوب ہے۔

(۱۱) رات کی خلوت و تنہائی میں بلانا، مزید تقرب اور اختصاصِ خاص کی دلیل ہے۔

(۱۲) مسجد اقصیٰ کے معاملات کا سارے عالم اسلام سے گہرے ربط و تعلق کا ثبوت، نیز یہ کہ فلسطین، کا دفاع اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت ساری دنیا کے مسلمانوں پر حسب استطاعت واجب ہے، اوراس سے غفلت ایسی کوتاہی ہے جس پر موٴاخذہ بھی ہوسکتا ہے۔

(۱۳) امت مسلمہ کے مرتبے کی بلندی اور عظمت شان اور دنیا کی خواہشات و رغبات سے اس امت کے مستوی اور معیار کی رفعت ہے۔

(۱۴) اس میں اشارہ ہے کہ فضاء کا خلائی سفر اور کرئہ ارضی کے مقناطیسی دائرے سے نکل کر اوپر دوسرے دائرے میں داخل ہونا ممکن ہے، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کی تاریخ میں سب سے پہلے خلا باز مسافر ہیں، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر معراج سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آسمان سے کرئہ ارضی کی طرف صحیح سالم لوٹ کر آنا ممکن ہے۔

(۱۵) معراج میں نماز کی فرضیت سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ روزانہ پانچ مرتبہ اللہ کے حضور سارے مومنین کی روحوں اور دلوں کو پہنچنا چاہئے، تاکہ خواہشات کی سطح سے بلندی نصیب ہو۔

سفر معراج دعوت و تبلیغ کی ایک کڑی

یہ تھے سفر معراج کے اندر پوشیدہ بلند و بالا مقاصد اور لطائف ومعارف، دروس و عبر، جو آپ کے اوپر پے بہ پے نازل ہونے والے رنج و غم کا مداویٰ ثابت ہوئے، جس کے ذریعہ آپ کے اوپر سے حزن و ملال کے بادل چھٹ گئے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے لمحات میں ولسَوف یعطیک ربُّک فترضیٰ کا منظر دیکھا، اور خوشی و مسرت کا سانس لیا، اور فرحت و انبساط کے حالات کی طرف عود کر آئے، اور نہ صرف غم و اندوہ کافور ہوئے بلکہ دعوت و تبلیغ کی راہیں ہموار ہوتی گئیں، بلکہ رغبت و لگن اور مولیٰ کی رضا جوئی کے ساتھ قدم بڑھتے رہے، آپ کے عزم و حوصلہ اور پختگی و ثبات قدمی کو مہمیز کرنے والی قوت ملی، کیونکہ اس سفر مبارک میں آپ کے مرتبے کی بلندی بھی تھی۔

سچ ہے جب کفار و مشرکین نے آپ کے نرینہ اولاد کے زندہ نہ رہنے کی وجہ سے آپ کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا، اور آپ کو منقطع النسل اور قلیل الخیر ہونے کا طعنہ دیا، تو آپ کے قلب اطہر پر سورة الکوثر نازل کرکے ان دشمنان رسول کا دندان شکن جواب دیاگیا، اور ان کے باطل نظریات پر کاری ضرب لگائی گئی: انا أعطینٰک الکوثر، فصَلّ لربک وانحر، انَّ شَانئک ہُوالأبتر․ اس میں مفسرین کے اقوال کے مطابق کوثر، حوض کوثر کے ساتھ خیر کثیر کے معنی کو بھی شامل ہے، اور آپ کے دشمنوں کے منقطع النسل ہونے کا اعلان ہے، جیسا کہ ”ہو الابتر“ سے ظاہر ہے، اور کسی بھی تحریک اور مشن کو لے کر چلنے والے کے لئے راستہ سے موانع و عوائق کا دور ہوجانا اس کے قلب و ذہن کا غم و اندوہ اور افکار پریشاں سے خالی ہوجانا اور مرتبے کی بلندی کے ذریعے عزم کا پختہ ہونا، حوصلے کا بلند ہونا، فلاح و کامیابی کا پیش خیمہ اور حیرت انگیز پیش قدمی کا ضامن ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی عظمت و رفعت کا کرشمہ تھا کہ ایسے ماحول میں جبکہ اہل مکہ بلکہ تمام اہل عرب نہ صرف یہ کہ ضلالت و شقاوت میں ڈوبے ہوئے تھے، بلکہ اسی کے دلدادہ تھے، اور وہی ان کی طبیعت بن گئی تھی، اور جہالت و بہیمیت کی حدود کو پار کرنے میں ایک فرد دوسرے سے پیچھے رہنا گوارہ نہیں کرتا تھا، اور اس کیلئے دنیا کا سارا خسارہ اور آخرت کی محرومی قبول کرلینا سستا سودا سمجھتا تھا۔

آپ نے تنہا دعوتِ عظمیٰ اور رسالت خداوندی کی تمام تر ذمہ داری تیئس (۲۳) سال کی قلیل مدت میں ایسے حیرت انگیز طریقہ پر پوری کی کہ شہنشاہ عالم بونا بارٹ اس کے اعتراف پر مجبور ہوگیا، کہ صدیوں میں پایہٴ تکمیل کو نہ پہنچنے والا پیغام محمد  صلی اللہ علیہ وسلم نے تیئس (۲۳) سال کی قلیل مدت میں اس طرح مکمل کردکھایا کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے۔

یتیمے کہ ناکردہ قرآں درست

کتب خانہٴ چند ملت بشست

$ $ $

______________________________





عصرِ حاضر میں سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی


 

آج کا دَور ترقی یافتہ کہلاتاہے، ہر گوشہٴ زندگی میں نت نئی ایجادات ہورہی ہیں، جدید اِکتشافات کے سامنے عقل و خرد محو حیرت ہے، آج دُنیا کی دُوری ختم ہوچکی ہے، ذرائع ابلاغ اور وسائل نقل و حمل نے ترقی کرکے سالوں اور مہینوں کے کام دِنوں گھنٹوں اور منٹوں میں ممکن کردئیے ہیں، پہلے کے بالمقابل آج مال و دولت کی بھی کمی نہیں رہی، حقیقت میں آج زمین سونا اُگل رہی ہے، سمندروں نے اپنی تہوں سے ہیرے، موتی اور جواہر پارے ”سواحلِ انسانی“ پر لاکر رکھ دئیے ہیں۔ سارے اسباب ووسائل کے باوجود آج لوگوں کو سکون وطمانینت حاصل نہیں، ایک دائمی بے اطمینانی ہے، جو سب پر مسلط ہے، ہر طرف ظلم و ستم کی گرم بازاری ہے،آئے دن فسادات اور قتل و غارت گری ہورہی ہے، نت نئے فتنے جنم لے رہے ہیں، فتنوں کا نہ تھمنے والا سیلاب امڈتا چلا آرہا ہے، جس طرف دیکھئے اختلاف ہی اختلاف ہے، بین الاقوامی اختلاف، فرقہ واری اختلاف، سیاسی پارٹیوں کا اختلاف، خاندان کااختلاف، گھر اور افراد کا اختلاف اور نہ جانے کون کون سے اختلافات ہر سو رونما ہورہے ہیں۔ ہر آدمی ایک دوسرے سے مختلف و منحرف نظر آرہا ہے۔ خود غرضی عام ہورہی ہے،اخلاق و پاک دامنی کا فقدان ہے، شرافت و امانت ناپید ہورہی ہے، امن وآشتی اور سکون و عافیت مفقود ہوتی چلی جارہی ہے۔ کون سی ایسی برائی ہے جس کا تصور کیا جائے اور وہ معاشرے میں موجود نہیں، زِنا اور شراب نوشی عام ہے۔ سود اور سودی کاروبار ہر گھر میں پہنچ چکا ہے، جوا اور سٹہ بازی کی نئی نئی شکلیں اختیار کی جارہی ہیں، دخترکشی بلکہ نسل کشی ایک فیشن بن گئی ہے۔ آج کے اِس دَور کو کون سا دَور کہیں گے؟ فتنوں کادَور! گناہوں کا دَور! بے حیائی اور بے لگامی کا دَور! خودسری اور خودغرضی کا دَور! شیطانی دَور! یاجوجی یا ماجوجی دَور! سمجھ میں نہیں آتا کہ عصرِ حاضر کو کیا نام دیا جائے؟ دَورِ حاضر دَورِ جاہلیت کی طرف تیزی سے رَواں دَواں ہے؛ بلکہ بعض لحاظ سے اِس سے بھی آگے جاچکا ہے۔ اِن جملہ خرابیوں کو دُور کرنے اور اِن پر قابو یافتہ ہونے کی سارے عالم میں کوششیں کی جارہی ہیں؛ لیکن کوئی کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آتی۔ نئی نئی تجاویز روبہ عمل آکر فیل ہورہی ہیں؛ تعمیر کے بجائے تخریب کا باعث بن رہی ہیں، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ، ہونا بھی یہی چاہئے؛ اِس لیے کہ اِن جملہ خرافات، بے اطمینانی اور بے چینی پر قابو پانے کے لیے محض انسانی تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں۔ اور انسانی تدبیریں پورے طور پر کامیاب ہی کب ہوتی ہیں؟

آج ضرورت ہے اُن تدبیروں کی اورنسخہٴ کیمیا کی جو نبیٴ اُمی  صلی اللہ علیہ وسلم نے بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہ خالقِ کائنات کا عطا کردہ نسخہ تھا، جس نے گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں پھنسی ہوئی انسانیت کو روشن شاہ راہ پر لاکھڑا کردیا۔ جس نے بدترین خلائق کو بہترین خلائق بنادیا اورجس نے مردوں کو مسیحا کردیا۔

عصر حاضر کے مذہبی اختلاف میں سیرتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی

عالمی پیمانے پر اتحاد واتفاق قائم کرنے کی ضرورت آج سب سے زیادہ محسوس کی جارہی ہے۔ آج کوئی ایسا اقتدار نہیں جس کو سب لوگ تسلیم کریں، جس کی سب اطاعت کریں، کسی متفقہ اقتدار کا نہ ہونا،آج کی سب سے بڑی کمی ہے، ایک قوم دوسری قوم کو دیکھنا نہیں چاہتی،مختلف قسم کے معاہدے ہوتے ہیں اور ٹوٹ جاتے ہیں، اِن کے حل کے لیے اگریہ سوچا جائے کہ کسی ایک انسان کی حاکمیت پر سارے لوگ متفق ہوجائیں، ہر ایک اِس کی اتباع کریں، تو ایسا فطری طور پر ناممکن ہے؛ اس لیے کہ آج ہر قوم دوسری قوم کی مخالف ہے، توجس انسان کا بھی انتخاب ہوگا وہ کسی ایک قوم کافرد ہوگا،اس ایک پر اگراتفاق سے اپنی قوم متفق ہوگئی تو دوسری اقوام کو متفق کرنا آسان نہیں ، پھریہ کہ انسان نفسانی اغراض اور ذاتی خواہشات سے پاک نہیں ہوتا اگر کسی پر اتفاق کرلینے کی پوری دُنیا کوشش بھی کرے تو وہ آدمی وقت کا ”فرعون“ اور دَورِ حاضر کا ”بُش“ ثابت ہوگا، وہ سارے فوائد اپنے لیے، اپنے خاندان، اپنے فرقے اور اپنی قوم کے لیے سمیٹ لے گا، دوسرے لوگ محروم اور منہ تکتے رہ جائیں گے۔ اِس طرح انصاف کی جگہ ظلم اور مساوات کی جگہ بے اعتدالیوں کی حکومت ہوگی۔ کسی آدمی کا علم اتنا وسیع نہیں ہوسکتا کہ ہر انسان کی ضروریات معلوم کرسکے۔ اصلاح و فلاح کی صورتوں سے واقف ہو، ہر ایک کی فطرت کو جانتا ہو؛ اِس لیے وسیع ترین علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ جگہ جگہ ٹھوکریں کھائے گا،اور پوری انسانی آبادی کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردے گا؛ اس لیے کسی انسان پر پوری نوعِ انسانیت کا متفق ہونا ناممکن اور لاحاصل ہے۔

اِس اختلاف کے ختم کرنے کی ایک دوسری شکل بھی ممکن نہیں کہ ساری انسانیت مل کر کسی ایک اِدارہ کی حاکمیت کو تسلیم کرلے، اُس کے ہر حکم کو من و عن مان لے، کوئی اِدارہ سارے انسانوں کو اپنی اطاعت پر مجبور نہیں کرسکتا،اور نہ ہی ایسا متفقہ قانون بناسکتا ہے، جس میں ہر ایک کی فطری ضرورتوں کا پورا لحاظ اور قانون ایسا عزیز بلکہ ہر دِل عزیز ہو کہ سارے لوگ اس کو جان و دل سے ماننے لگیں۔ بالآخر یہ اختلاف و انتشار ختم نہیں ہوگا؛ بلکہ لازمی طور پر اس اِدارے میں جس قوم کی نمائندگی زیادہ ہوگی، اِدارہ اس کے لیے بازیچہٴ اطفال بن کر رہ جائے گا۔ وہ اُس کی آڑ میں اپنے اُلّو سیدھا کرنے میں مشغول و مصروف رہیں گے۔ دُنیامیں جتنے اِدارے عالمی پیمانے پر قائم ہوئے اُن سب کا حال یہی ہوا، آج اِس کی واضح مثال عالمی تنظیم ”اقوامِ متحدہ“ ہے۔

لہٰذا آج اختلاف حل کرنے کے لیے وہی کرنا ناگزیز ہے جو اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، آپ نے اختلاف وانتشار سے تباہ دُنیا کو متحد کرکے عملی مثال پیش کردی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دُنیا کو بتادیا کہ اے انسانو! کسی انسان یا کسی اِدارے کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے بجائے ایک ایسی ذات کی حاکمیت کو تسلیم کرلو جس نے سارے انسانوں اور اِداروں کو جنم دیا ہے۔ جو خالقِ ارض و سماوات اور ”خالق الحب والنوی“ ہے۔ اُسی نے سارے انسانوں کو پیدا کیا وہی اُن کاپالنہار ہے، وہی سب کی زندگی اور موت کا مالک ہے۔ وہ ہر ایک کی فطری ضرورتوں سے واقف ہے، ہر ایک کو رزق وہی پہنچاتا ہے، اُسی کی دُنیا اُسی کا عقبیٰ ہے، وہی نظامِ عالم کا نگراں اور مدبّر و منتظم ہے۔ ”الا لہ الخلق والامر تبارک اللّٰہ رب العالمین“ (الاعراف:۵۴) وہی کائنات کا حقیقی فرماں روا ہے، اُسی کی حاکمیت کو تسلیم کرنے میں بھلائی ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ”دعوتِ توحید“ کو جوق در جوق افرادِ انسانی نے قبول کیا، مذہبی اختلافات کے ختم کرنے کا یہ سب سے بڑا مشترکہ پلیٹ فارم ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت کے موجودہ اہلِ کتاب، یہود و نصاریٰ کو توحید پر متحد ہوجانے کی دعوت دی اور بحکم خدا ارشاد فرمایا:

”یٰٓأَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآءٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ أَنْ لاَ نَعْبُدُ اِلاّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہ شَیْئًا وَلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ“ (آل عمران:۶۴)

ترجمہ: ”یعنی اے اہلِ کتاب! ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان (مسلم اور) برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں،اور ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کو رب قرار نہ دے۔“

اس طرح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کے درمیان مذہبی اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش فرمائی، آج سیرتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم سے انسانیت کو یہ رہنمائی مل رہی ہے کہ اے بنی آدم! دہریت اور خدا کے انکار کو چھوڑ کر وحدہ لاشریک لہ پرایمان لے آؤ، سارے انسان مل کر بس اُسی کی رسّی کو تھام لو، اُسی میں امن وسکون اور طمانیتِ قلبی ہے، اِس کے علاوہ کسی غیر کو تسلیم کرکے قلوب کو راحت نصیب نہیں ہوسکتی۔

”وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لاَ تَفَرَّقُوْا“ (آل عمران:۱۰۳)

ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو باہم متفق ہوکر پکڑے رہو اورآپس میں اختلاف نہ کرو“

توحید کی رسّی ہی ایک ایسی رسّی ہے جس نے عرب کی آپس کی دُشمنی اور رسّہ کشی کو ختم کرکے سب کے دِلوں کو جوڑ دیا، اور سارے لوگ بھائی بھائی ہوگئے، ورنہ سب کے سب جہنم رسید ہونے والے تھے،اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

”وَاذْکُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْکُنْتُمْ أَعَدَاءً فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہ اِخْوَانًا، وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَکُمْ مِنْہَا“ (آل عمران: ۱۰۳)

ترجمہ: ”اور تم پر جو اللہ کا انعام ہے اُس کو یاد کرو جب کہ تم لوگ آپس میں ایک دُوسرے کے دُشمن تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے دِلوں میں الفت پیدا کردی؛ چنانچہ تم لوگ اللہ کی نعمت سے بھائی بھائی ہوگئے، حالانکہ تم لوگ جہنم کے گڑھے کے کنارے پر تھے کہ اللہ نے تمہاری جان بچالی“۔

”رحمة للعالمین“ نے بتایا کہ اُس اللہ نے ایک قانونی کتاب نازل فرمائی ہے، جس قانون میں ہر ایک کی مصلحت کی رعایت ہے، اُس کتاب پر عمل کرنے میں مرنے سے پہلے اور مرنے کے بعد دونوں زندگیوں میں سکون و راحت ہے؛ چنانچہ اطرافِ عالم سے جوق در جوق انسانوں کی بھیڑ نے اُس قانون کو تسلیم کیا، جب وہ قانون روبہ عمل لایاگیا تو دُنیا کو اضطراب سے راحت ملی، بے کل مریضوں کو جس نسخہ سے صدفی صد فائدہ ہوسکتا تھا وہ نسخہ مل گیا، اُس قانون میں گذشتہ نازل کردہ قوانین کی رعایت رکھی گئی تھی، جس طرح ڈاکٹر کے بنائے ہوئے بعد کے نسخے میں گذشتہ نسخوں کی دواؤں کا لحاظ رکھا جاتاہے۔ بعد کے نسخوں سے گذشتہ نسخہ منسوخ ہوجاتا ہے، اِسی طرح یہ آخری نسخہ قانون ہے اورجس طرح ہر کتاب کے ساتھ ایک سمجھانے اور تشریح کرنے والا بھیجا جاتا رہا ہے، میں بھی اِس آخری کتاب کی تشریح کے لیے بھیجا گیا ہوں، اِس کتاب اور میری تفسیر میں دُنیا کے لیے راحت ہے، اِسی کے ذریعہ دُنیا میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے؛ چنانچہ لوگوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کی، جس سے دُنیا نے سکون کا سانس لیا۔ مذہبی اختلافات بڑی حدتک ختم ہوئے، دُنیا نے اُس قانون کو نافذ کرکے آزمایا، آج بھی اُسی دعوت کو عام کرنے کی ضرورت ہے، آج کی دُنیا پیاسی ہے، دعوتِ توحید کی، دعوتِ رسالت اور دعوتِ ایمان کی! کیاہے کوئی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ دعوت کو اپنانے والا؟ تاکہ بھٹکی ہوئی انسانیت راہِ راست پر آجائے اور پھر سے انسانوں میں ایک باپ کے بیٹے اور ایک خدا کے پجاری ہونے کی سمجھ پیدا ہو؟

قومی و نسلی اختلافات میں سیرتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی

پہلے کی طرح آج بھی لوگ قومی تفاخر اور نسلی اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں۔کالے گوروں کا اختلاف، علاقے، علاقے کااختلاف، ملکی اور غیرملکی امتیاز، اِن تمام اختلافات و امتیازات کی وجہ سے جو پریشانی پہلے تھی اِس سے کہیں زیادہ آج ہے، پہلے تو دُنیا کی قومیں الگ تھیں، لیکن آج دُوری نزدیکی میں بدل گئی، پوری دُنیا ایک خاندان اور گھر کی طرح ہوگئی ہے؛ اِس لیے آج بھی اُن امتیازات کو ہٹاکر ہی سکون کا سانس لیاجاسکتا ہے۔ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم اِس طرح تفاخر و امتیاز سے پیدا ہونے والے نقصانات سے خوب واقف تھے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو جڑ سے ختم کرنے کا اعلان فرمادیا اور انسانوں کو سبق دیا کہ دیکھو تم سب ایک خالق کی مخلوق ہو، ایک اللہ کے پجاری ہو؛ اِس لیے اختلافات و امتیازات کو ختم کرو اور یاد کرو کہ تم سب ایک ہی باپ کی اولادہو اور تمہارے باپ مٹی سے پیدا کیے گئے، مٹی میں تواضع، انکساری اور فروتنی ہوتی ہے تم سب بھائی بھائی بن کر رہو، کالے گوروں میں سے کسی کو کسی پر فضیلت نہیں، عربی اور غیرعربی ہونا ہی کوئی امتیاز و تفوق کی بات نہیں، ہاں تفوق اور برتری تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہوسکتی ہے۔ (حجة الوداع کا خطبہ) تم میں سب سے زیادہ اللہ کو محبوب وہ شخص ہے جو سب سے بڑا پرہیزگار، متقی اور محتاط ہے۔ (سورئہ حجرات:۱۳)

غور کیجئے کہ جس ماحول میں اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تعلیم دی وہ چھوٹی سی تعداد میں ہونے کے باوجود درجنوں قبیلوں میں منقسم تھا، پھر ہر قبیلے کے مختلف ٹکڑے تھے اور ہر ایک کے مختلف خاندان اور کنبے تھے۔ ہر ایک اپنا ایک امتیاز رکھتا تھا، سب آپس میں دست و گریباں تھے اُن کے اندر سے امتیاز و تفاخر اور تفوق برتنے کے سارے جرائم کو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کردیا، وہ سب کے سب بھائی بھائی ہوگئے، جہاں گئے وہاں اُسی تعلیم نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کیا، اِس طرح ایک عالم گیر برادری اور ہمہ گیر اخوت وجود میں آگئی، ہر فرد ایک دوسرے سے اِس طرح جڑا محسوس کرتاتھا، جس طرح جسم کے اعضاء ایک دوسرے سے ملے ہوتے ہیں، آج بھی اُسی تعلیم کو عام کرنے سے یہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، انسانیت کا اختلاف اور تصادم یقینی طور پر ختم ہوسکتا ہے۔

رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی اور مدنی زندگی سے عصر حاضر میں رہنمائی

رحمت عالم  صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت عالم گیر ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پوری دُنیا کے لیے چراغِ راہ بن کر تشریف لائے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سیرت و سنت کو سامنے رکھ کر دُنیا راہ یاب ہوسکتی ہے، ہر طرح کے مسائل کا حل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی اتباع میں مضمر ہے، جملہ خرافات و مصائب سے نجات کا ”نسخہٴ کیمیاء“ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی مل سکتا ہے، اگر کوئی شخص غیرمسلم اکثریت والے ملک میں رہ رہا ہے تو اُس کو دعوت و تبلیغ کے لیے کیا طریقہ اپنانا چاہیے؟ عائلی قوانین اور پرسنل لاء پر وہ کس طرح عمل کرے؟ اپنے نزاعی معاملے کس طرح حل کرے؟ غیرمسلموں کے ساتھ کیسا سلوک کرے؟ وغیرہ، اِن سارے سوالوں کاجواب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں ملے گا، اِسی میں یہ درس بھی موجود ہے کہ اگر آج کوئی شخص ایسی جگہ رہ رہا ہے جہاں سارے جتن کے بعد بھی اِسلام کے احکام پر عمل نہیں کرسکتا تو وہ وطن کے مقابلے میں دین کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے وطن اور گھر بار سب کو خیرباد کہہ دے اور اپنی سکت اور کوشش کے مطابق دُنیا کی ایسی جگہ کو وطن بنائے جہاں اِسلام پر عمل کرنے کی پوری اجازت ہو، احکامِ اِسلام کے نفاذ میں کوئی شئے مانع نہ ہو، آج ہجرت پر عمل کرنا پیچیدہ ضرور ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو جب کفار نے صرف ایمان باللہ اورایمان بالرسول کی وجہ سے اپنے محبوب وطن مکہ مکرمہ میں ستانا شروع کیا اور ناقابلِ برداشت اذیتیں پہنچائیں، جان کے درپے ہوگئے؛ تو ایسی صورت میں دین کی حفاظت کے لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دی، اِس کے بعد مدینہ کی؛ اخیر میں اپنے رفیقِ غار صدیق و غمگسار کے ساتھ بہ نفس نفیس ہجرت کی، دین اور ایمان کی حفاظت کے لیے مال و دولت، عزیز واقارب اور گھر بار ہر ایک کو قربان کردیا، آج بھی دُنیا کے کسی کونے میں مسلمانوں کی یہ حالت ہوجائے تواُس کیلیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ عمل کے لیے موجود ہے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ جانے کے بعد وہاں بسنے والے قبائل اَوس اور خزرج اور یہود و نصاریٰ سے معاہدات کیے، آپسی تعاون وتناصر اور رواداری کے دستاویزات مرتب کیے، پھر اپنی تحریک دعوت و تبلیغ کو تیز تر کیا، آہستہ آہستہ لوگ اِسلام میں داخل ہوتے گئے، پھر کیاتھا کہ چند برسوں میں سارا عرب کلمہ ”لآ الٰہ الی اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ“ کاقائل ہوگیا۔ ہر جگہ امن و امان پھیل گیا، وہ جنگجو قومیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری تھا، جنگ سے کبھی تنگ نہ آئی تھیں، آپسی چپقلش کا نہ ٹوٹنے والا سلسلہ رکھتی تھیں، سب شیروشکر کی طرح مل گئیں، سب ایک دوسرے کے دوست ہوگئے۔ع

جو نہ تھے خود راہ پر اَوروں کے ہادی بن گئے

رسولِ مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے آج بھی یہ سبق ملتا ہے غیرمسلموں سے معاہدات کرنا درست اورجائز ہے، دعوت و تبلیغ کے لیے سب سے پہلے ماحول سازگار کرنا ضروری ہے۔ اِسی کے ساتھ احکامِ الٰہی کے نفاذ کی کوشش میں لگے رہنا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اِسی طرح مخالف ماحول موافق ہوسکتا ہے، آج کا دَور اشاعتِ اسلام کے لیے نہایت موزوں دَور ہے، عام لوگوں میں معقولیت پسندی پہلے کی بہ نسبت زیادہ ہے، اگر آج اِسلام کا صحیح تعارف کرایا جائے، اِس کے لیے سارے جائز وسائل استعمال کیے جائیں تو پھر ۔ع

یہ چمن معمور ہوگا نغمہٴ توحید سے

آج دُنیا بے راہ روی، ظلم و ستم، بے کیفی اور بے اطمینانی سے عاجز آچکی ہے۔ اِس کو تلاش ہے کسی صحیح منزل کی، امن وآشتی کی، اطمینان اور سکون کی، اِسلام میں یہ سب کچھ موجود ہے۔ صرف ضرورت ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مشن کے اپنانے کی۔ رسولِ مکی و مدنی  صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی اتباع کی۔

مکمل احکامِ اسلام کا نفاذ عہدِ حاضر کی ناگزیر ضرورت

روز بروز فسادات ہورہے ہیں، قتل ایک آسان کام، غارت گری اور لوٹ گھسوٹ دولت کمانے کا ذریعہ ہوگیا ہے، زنا اور شراب نوشی عام ہے، ایک دُوسرے پر تہمت لگانا کوئی اہم بات نہیں، رشوت اور سودخوری دُنیا کی ضرورت میں داخل ہوگئی ہے، آئے دن اغوا کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ اِس طرح کے اور بھی سرکشیاں پھیلی ہوئی ہیں؛ ان سب کا علاج اسلامی احکام کا نفاذ ہے۔ ضرورت ہے کہ آج قتل کرنے والے پر قصاص اور دیت کے احکام جاری ہوں تب ہی قتل کے اَن گنت واردات پر قابو یافتہ ہوا جاسکتا ہے، حدزنا کے نفاذ سے ہی زنا جیسی گندی اور فحش کرتوت کا خاتمہ ہوسکتا ہے، حد سرقہ کے نفاذ سے ہی چوری کے واقعات پر قابو یافتہ ہوا جاسکتا ہے۔ آج اگر حدقذف نافذ ہوتب ہی تہمت لگانے والوں کی زبان پر تالا لگ سکتا ہے، غرض یہ کہ دُنیا میں امن وامان اور سکون و اطمینان کا ماحول پیدا کرنے کے لیے روئے زمین پر حدود و قصاص اور تعذیراتِ اسلامی کا نافذ ہونا ضروری ہے، آج عملاً دُنیا اسی کا انتظار کررہی ہے، اگر قاتل کو یہ معلوم ہوکہ ہمیں قتل کرنے کے جرم میں قتل کردیا جائے گا تویقینا قتل سے پہلے وہ سوچنے پر مجبور ہوگا، ہاتھ کانپنے لگیں گے، دِل لرزنے لگے گا اور قاتل اپنی جان بچانے کے لیے ایسے قتل کی ہمت نہیں کرے گا، اِس طرح اُس آدمی کی بھی زندگی بچ جائے گی جس کے قتل کا ارادہ قاتل نے کیا تھا اور روئے زمین پر انسان اور انسانیت کی قدر بڑھ جائے گی، زندگی کی قیمت میں اضافہ ہوگا،اِسی لیے قرآن نے کہا ہے:

”وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیَاةٌ یٰآ أوْلِی الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون“ (سورہ بقرہ: ۱۷۹)

ترجمہ: کہ اے اہل خرد! قصاص (کے احکام کے نفاذ) میں تمہارے لئے زندگی ہے؛ تاکہ تم لوگ اختیار اورپرہیز کرنے لگو۔

اگرچور کو معلوم ہو کہ چوری پر ہاتھ کاٹ دیا جائے گا توچوری کرتے وقت اُس کے ہاتھ کانپ جائیں گے اور وہ چوری سے باز آجائے گا، اِس طرح چوری سے روئے زمین پاک ہوگی، لوگوں کوجان کے ساتھ اُن کے مال کی حفاظت کا ایک ماحول بن جائے گا۔ زانی کو اگر یہ معلوم ہوجائے کہ زنا کی سزا میں سوکوڑے لگائے جائیں گے۔ (سورئہ نور:۲) یا پتھروں سے چور چور کر ہلاک کردیا جائیگا۔ (بخاری:۱/۲۷۶) تو ہرگز زنا کا ارتکاب نہیں کرے گا، اس طرح روئے زمین پر عفت و پاک دامنی کا دَور دَورہ ہوگا، غرض یہ کہ آج کی دُنیا کو سکون اُنھیں قوانین کے نفاذ کے بعد مل سکتا ہے؛ جن قوانین کو نافذ کرکے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے روئے زمین پر امن وامان پھیلایا تھا اور پریشان ماحول کو سکون فراہم کیاتھا، دوسرے قوانین میں وہ جامعیت اور گرفت نہیں ہوسکتی جو اللہ کے قوانین میں ہے، قوانین تیار کرنے کے لیے عقولِ انسانی کافی نہیں ہیں۔ وہ آج کوئی قانون بناتے ہیں کل ہوکر اُس کی غلطی واضح ہوجاتی ہے، ردوبدل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور چلتا رہے گا، تبھی تو اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پرامن و امان اور سکون و عافیت پھیلانے والے قوانین خود وضع کیے، کسی انسان حتیٰ کہ کسی نبی کے بھی سپرد نہیں کیا۔

حقوق کے معاملہ میں عام طور سے بے اعتدالی ہوسکتی تھی؛ بلکہ ہوئی ہے؛ اس لیے اللہ تعالیٰ نے والدین کے حقوق، میراث میں ورثا کے حقوق، میاں بیوی کے حقوق وغیرہ کو خود سے بیان فرمادیا؛ تاکہ بالاتفاق نوع انسانی اُن قوانین کو تسلیم کرلے اور روئے زمین پر حق تلفیوں کا سلسلہ ختم ہوجائے، اللہ کے اِن قوانین کو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نافذ فرمایااور دنیا نے صدیوں تجربہ کیا اور آج بھی کررہی ہے کہ حقیقت میں نظامِ عالم پر کنٹرول اللہ کے قوانین کے نفاذ سے ہی ممکن ہے، اُن کے بغیر یہ دُنیا راحت و سکون کا مسکن نہیں بن سکتی، امن و آشتی کا ضامن صرف اور صرف اسلام ہے، حقیقت میں آج پوری انسانیت اپنی زبانِ حال سے اُسی دَور کو پکار رہی ہے جس دَور میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے سارے قوانین کو روبہ عمل لاکر ایک معطر و معنبر ماحول تیار کیاتھا اور انسانیت کو اُس کی صحیح منزل پر پہنچایا تھا۔

عصر حاضر میں اخلاقِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم عام کرنے کی ضرورت

موجودہ دَور کاسب سے بڑا المیہ اخلاقیات کا فقدان ہے، جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ، فخر، غرور، ریا، غداری، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی، حرص، حسد، چغلی غرض یہ کہ ساری اخلاقی برائیاں، عام انسانوں اور مسلمانوں میں ہی نہیں؛ بلکہ خواص میں بھی اخلاقیات کاانحطاط آگیا ہے۔ اِس انحطاط و تنزل کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے کہ ہر بری خصلت کی برائی معقول انداز میں بیان کی جائے۔

اِس سلسلے میں قرآن وحدیث کے نصوص واضح کیے جائیں؛ تاکہ معقولیت پسند طبقہ شریعت سے قریب ہو، اُس کے ساتھ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ فاضلہ کو بھی بیان کیاجائے اور اُن کے اختیار کرنے کی تلقین کی جائے، ایک دین دار مسلمان کو اپنے اخلاق و کردار میں کیساہونا چاہیے؟ درس گاہِ نبوت کے تربیت یافتہ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کیسے تھے؟ اُن کے اندر اخلاص و تقویٰ، شرم و حیاء، صبر وشکر کی صفات تھیں، وہ دیانت دار، امانت دار اور سخاوت و شرافت کے خوگر تھے۔ اُن کے اندر ایثار و قربانی، عفت و پاک دامنی اور تواضع و انکساری کی اعلیٰ صفات پائی جاتی تھیں۔ وہ خوش کلام، خوش الحان، خوش دِل اور رحم و کرم کے پیکر تھے، وہ ہمیشہ موت کو یاد رکھتے تھے، اُن کے معاملات کی صفائی سے لوگ متاثر تھے، یہ ساری چیزیں آیات واحادیث کی روشنی میں بیان کی جائیں تو بڑا موثر رہے گا، اپنوں کی اصلاح تو ہوگی ہی، غیر بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے، سچ ہے کہ رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات کو اگر عام کیا جائے تو ضرور بالضرور ایک ایسا صالح معاشرہ وجود میں آئے گا جو صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اور خیرالقرون کے معاشرہ کے مماثل ہوگا، جن میں ساری خوبیاں موجود تھیں، یہ خوبیاں آج تاریخ کے صفحات کی زینت بنی ہوئی ہیں، جو کبھی زندگی میں موجود تھیں، پہلے مسلمانوں کو دیکھ کر اُن کے بلند و بالا اخلاق سے متاثر ہوکر لوگ اِسلام قبول کرتے تھے، آج اسلام اوراِسلام کی اخلاقی تعلیمات کو سمجھنے کے لیے کتب خانوں کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ کاش ! رسولِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات زندگیوں میں رچ بس جائیں تو بات ہی دُوسری ہوجائے۔

عصر حاضر کی جملہ خرابیوں کو دُور کرنے میں سیرتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی

یہ دور ”پی ایچ، ڈی“ اور تخصصات کا دور کہلاتا ہے اگر کسی تحقیق کے طالب علم کوآج کے دور کی ظاہراور باطنی خرابیوں کے شمار کرنے کا موضوع دے دیا جائے؛ بلکہ ایک نہیں متعدد طالب علموں کو اِس موضوع پر لگایا جائے تب بھی ساری خرابیاں بیان نہیں ہوسکیں گی، اِن ساری خرابیوں کی وجہ اِسلام اور تعلیم اسلام کا عام نہ ہونا ہے۔ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل بعثت کا مقصد دُنیا کو اعتدال پرلانا تھا،اِس کے لیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے (۱) پوری زندگی دعوتِ اصلاح و تبلیغ میں صرف کرڈالی۔ (۲) تربیت کے ذریعہ ایسے افراد پیدا کیے، جن میں ایمان کامل تھا، آخرت کا استحضار تھا، وہ ذکر الٰہی کا اہتمام کرتے، راتوں میں تہجد گذار اور دِنوں میں مجاہد برسرپیکار ہوتے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اُنھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنالیا تھا۔ (۳) غیروں کی اصلاح سے پہلے اپنی ذات کی اصلاح کی طرف آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلائی۔ (۴) اللہ رب العزت کے سارے احکام سے لوگوں کو واقف کرایا۔ (۵) اللہ کے سارے احکام کو زمین پر نافذ کرنے کی کوششیں اور تدبیریں کیں۔ (۶) ہر ایک کے حقوق کو واضح فرمایا، خصوصاً کمزور طبقات مثلاً عورتوں، بچوں، غلاموں، خادموں اور جانوروں کے حقوق کو متعین فرماکر اُن کی ادائیگی کی تلقین فرمائی۔ (۷) معاشرہ میں پیدا ہونے والی خرابیوں پر گرفت کرنے اور ایک دُوسرے کواحکامِ الٰہی کی تعمیل کی تلقین کامزاج بنایا۔ (۸) آیات واحادیث کی تعلیم کے ساتھ اُن پر عمل کرنے اور خود احتسابی کی تعلیم دی۔ (۹) آیات کی تفسیر اور احادیث کے یاد کرنے اور اُن کے مذاکرے کا ماحول بنایا۔ (۱۰) اخلاقِ رذیلہ کی خرابیوں کو بیان کرکے اُن سے بچنے اور اخلاقِ فاضلہ کو اختیار کرنے کی تلقین فرمائی۔ (۱۱) ایسا ماحول بنایا کہ ہر آدمی دعوت اصلاح و تبلیغ کو اپنی ذمہ داری سمجھنے لگا تھا۔ اگر آج بھی مذکورہ بالا نبوی طریقہٴ کار پر عمل ہو تو معاشرہ کی ساری خرابیاں دُور ہوسکتی ہیں۔ آج ضرورت ہے کہ قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پڑھا جائے اوراُس کی تفسیر کو عام کیا جائے، ساتھ ہی احادیث کی تعلیم کا بھی اہتمام ہو، غیروں کے بجائے اپنی خرابیوں پر غور کیاجائے اوراصلاح کی کوشش کی جائے؛ نیز تذکیر و موعظت اور تبلیغ و دعوت کا اہتمام کیا جائے تو ضرور معاشرہ درست ہوگا۔ سیرتِ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمیں سب سے بڑی رہنمائی یہی مل رہی ہے کہ جس عرق ریزی سے خیرالقرون کا صالح معاشرہ بنا آج بھی وہی ماحول پیدا ہو اور ہمارا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی اورآخرت کی کامیابی ہو اور بس!

$ $ $

______________________________







سیرت نبوی کا تجارتی پہلو

 


 

جزیرہٴ عرب ایک بالکل بے آب وگیاہ علاقہ ہے جہاں کھیتی باڑی کرنے یا مویشی پالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور چونکہ اس دور میں اہلِ عرب علم و ہنر اور فنون سے بھی نا آشنا تھے؛ اس لیے ان کے لیے معاش کے طور پر ایک پیشہ تجارت ہی بہترین قرار پاسکتا تھا ویسے بھی جزیرہٴ نما عرب دنیا کے عین وسط میں ہونے کی بنا پر مختلف ملکوں کے درمیان ایک بہترین مقام اتصال تھا؛ اس لیے یہاں کے باشندوں کا عام پیشہ تجارت تھا اور وہ تجارت کے سلسلے میں دور دراز کے ممالک کی طرف سیاحی کرتے رہتے تھے۔ ان کے تجارتی قافلے ایک جانب تو بحر ہند سے لے کر بحیرہٴ روم تک اور دوسری جانب جنوبِ عرب میں عمان و یمن سے لے کر شمال میں فلسطین و شام تک چلتے رہتے تھے۔ اس طرح یہ بڑی بڑی تجارتی شاہراہیں انھیں کے قبضے میں تھیں اور ان کے بڑے بڑے تجارتی کارواں مال و اسباب سے لدے ہوئے آتے جاتے رہتے تھے۔ موسم گرما میں ان کے سفر شمال میں شام کی طرف ہوتے اور موسم سرما میں جنوب میں عمان و یمن کی طرف۔ آبادی کا بیشتر حصہ اسی تجارت پر گذر بسر کرتا اپنا بیشتر سرمایہ تجارتی کاموں میں لگائے رکھتا قا فلوں کی واپسی پر منافع آپس میں تقسیم ہوتے۔

    یہ تاجر پیشہ لوگ دوسرے باشندوں کی بہ نسبت آسودہ تھے، ان میں سے قبیلہٴ قریش کا تجارتی مقام تو بہت بلند تھا؛ بل کہ وہ عرب کی پوری تجارت پر حاوی تھے جس کی شہادت خود اللہ جل شانہ نے اپنے کلام مقدس میں دی ہے: لإیلافِ قریشٍ إیْلَافِہِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاءِ وَالصَّیْفِ (القریش آیت: ۱،۲)

    ماضی قریب کے مشہور محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہ اپنی تصنیف ”رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی“ میں لکھتے ہیں ”چین و عرب کی تجارت عرب سے ہوکر یورپ جاتی تھی قریش کا عرب کی تجارت پر حاوی رہنا ،مصر و شام، عراق و ایران، یمن و عمان، حبش و سندھ وغیرہ سے انھوں جو تجارتی معاہدے کر رکھے تھے اور رحلةَ الشتاء والصیف کے باعث شمال و جنوب کے جس طرح قلابے ملاتے رہتے تھے وہ سب جانتے ہیں“ (ص: ۳۷)

    حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خانوادہٴ قریش میں ہی آنکھیں کھولیں اور اسی تجارتی ماحول میں نشوو نما پائی لہٰذا آپ تجارت جیسے مقدس پیشے سے الگ کیسے رہ سکتے تھے آپ کے چچا ابو طالب بھی تاجر تھے اور تجارت کے لیے دور دراز کے سفر اختیار کیا کرتے تھے دادا کی وفات کے بعد انھوں نے آپ کی پرورش کا ذمہ اپنے کندھوں پر اٹھایا اور آپ کو اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب رکھا اسی محبت کی بنا پر آپ کو اپنے ساتھ سفر پر بھی لے جانے لگے ۔

آپ کا پہلا تجارتی سفر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک ۱۲سال دو ماہ ہوچکی تھی کہ آپ کے چچا ابو طالب نے قریش کے قافلہٴ تجارت کے ساتھ شام کا ارادہ کیا مصائبِ سفر کے خیال سے ابو طالب کا ارادہ آپ کو ہمراہ لے جانے کا نہ تھا، عین روانگی کے وقت آپ کے چہرے پر حزن وملال کے آثار دیکھے؛ اس لیے آپ کو اپنے ہمراہ لے لیا اور روانہ ہوئے جب شہر بُصریٰ کے قریب پہونچے تو وہاں ایک نصرانی (بقول بعض یہودی) راہب تھا جس کا نام جرجیس تھا اور بحیرا راہب کے نام سے مشہور تھا۔ بحیرا کی آپ سے ملاقات ہوئی، اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پر نور و چہرے پر علاماتِ نبوت دیکھیں اور آپ کو آنے والے نبی کی پیشین گوئی کا مصداق پایا تو حضرت ابو طالب کو تاکید کی کہ یہ لڑکا بڑا ہوکر عظیم الشان بنے گا، لہٰذا اسے شام کے یہودی دشمنوں سے بچایا جائے؛ چنانچہ حضرت ابو طالب نے فی الفور آپ کو مکہ واپس بھیج دیا ۔

کاروباری مشاغل

    جیسا کہ اوپر گذرا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا اصلی خاندانی پیشہ تجارت تھا اور آپ بچپن ہی میں ابوطالب کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرماچکے تھے، جس سے آپ کو تجارتی لین دین کا کافی تجربہ بھی حاصل ہوچکا تھا؛ اس لیے آپ کو تجارت سے بڑی دلچسپی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے چچا ابوطالب کے کندھوں کو جو پہلے سے ہی کثیر العیال تھے مزید گراں بار کرنا نہیں چاہتے تھے؛ اس لیے آپ نے تجارت کو جاری رکھتے ہوئے ذریعہٴ معاش کے لیے اسی پیشہ کو اختیار فرمایا اور تجارت کی غرض سے شام و بصری اور یمن کا سفر فرمایا اور ایسی راست بازی اور امانت و دیانت کے ساتھ آپ نے تجارت کا کاروبار کیا کہ آپ کے شرکا اور تمام اہل بازار آپ کو امین کے لقب سے پکارنے لگے۔ ایک کامیاب تاجر کے لیے امانت، سچائی ، وعدے کی پابندی اور خوش اخلاقی تجارت کی جان ہیں، ان خصوصیات میں مکہ کے تاجر امین نے جو تاریخی شاہکار پیش کیا ہے، اس کی مثال تاریخِ عالم میں نادرِ روزگار ہے۔ آپ جلد ہی اپنے ان اوصاف کی وجہ سے مکہ کے کامیاب ترین تاجر ثابت ہوگئے اور پوری قوم میں آپ کا نام صادق اور امین مشہور ہوگیا، آپ کی راست بازی اور حسنِ کردار کا سکہ ہر فردِ بشر کے دل پر بیٹھ گیا اور مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور مال دار یہ خواہش کرنے لگے کہ آپ ان کے سرمایہ اپنے ہاتھ میں لے کر ان کے کاروبار چمکائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں تک سائب بن قیس مخزومی کے سرمایہ سے تجارت کرتے رہے؛ بل کہ انھوں نے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تاجرِ امین کے لقب سے نوازا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاروبار کا طریقہٴ کار

آپ  صلی اللہ علیہ وسلم ہر معاملہ سچائی اور امانت داری سے کرتے اور ہر معاملے میں سچا وعدہ کرتے اور جو وعدہ کرتے اس کو پورا ہی کرتے۔ آپ کے تجارتی ساتھی عبد اللہ بن ابی الحمساء بیان کرتے ہیں کہ میں نے بعثت سے پہلے ایک بار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک معاملہ کیا میرے ذمے کچھ دینا باقی تھا میں نے عرض کیا کہ میں ابھی لے کر آتا ہوں اتفاق سے گھر جانے کے بعد اپنا وعدہ بھول گیا، تین روز بعد یاد آیا کہ میں آپ سے واپسی کا وعدہ کرکے آیا تھا، یاد آتے ہی فورا آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے مکان پر پہونچا معلوم ہوا کہ دو روز گذرگئے، آج تیسرا دن ہے وہ مکان پر نہیں آئے، گھر والے خود پریشان ہیں، میں یہاں سے روانہ ہوا اور جہاں جہاں خیال تھا، سب جگہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کیا کہیں نہیں ملے تو احتیاطا وعدہ گاہ پر پہونچا میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ آپ اسی مقام پر موجود ہیں اور میرا انتظار کررہے ہیں اور زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مسلسل تین دن انتظار کی زحمت اٹھانے کے بعد بھی جب میں نے معذرت کی تو آپ نہ ناراض ہوئے، نہ لڑائی جھگڑا کیا او رنہ ڈانٹ ڈپٹ کی صرف اتنا کہہ کر خاموش ہوگئے اور وہ بھی دھیمی آواز میں ”یَا فَتٰی! لَقَدْ شَقَقْتَ عَلَيَّ أَنَا ھٰھُنَا مُنْذُ ثَلَاثٍ أَنْتَظِرُکَ“(سنن أبي داود رقم الحدیث: ۴۹۹۶)کہ ارے بھائی! تونے مجھے زحمت دی میں تین دن سے اسی جگہ تمہارا انتظار کررہاہوں۔(ماخوذ از سیرة المصطفیٰ ۱/۹۶، سیرة النبی ۱/۱۲۹)

تجارت کے کاروبار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا معاملہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے۔ عبد اللہ بن سائب فرماتے ہیں کہ میں زمانہٴ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شریکِ تجارت تھا، جب مدینہ منورہ حاضرہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ کو پہچانتے بھی ہو؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں! کُنْتُ شَرِیْکِيْ فَنِعْمَ الشَّرِیْکُ لاَتُدَارِيْ وَلاَ تُمَارِيْآپ تو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات پر جھگڑتے تھے۔ (سیرة المصطفیٰ ۱/۹۶)

قیس بن سائب مخزومی فرماتے ہیں کہ زمانہٴ جاہلیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے شریک تجارت تھے ”وَکَانَ خَیْرَ شَرِیْکٍ لَایُمَارِيْ وَلَایُشَارِيْ“ آپ بہترین شریکِ تجارت تھے، نہ جھگڑتے تھے اور نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے۔ (حوالہ بالا)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کاروبار کے ایک ساتھی کا نام ابو بکر  بھی تھا، وہ بھی مکہ ہی میں قریش کے ایک سوداگر تھے، وہ کبھی کبھی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے۔(سیرة النبی ۱/۱۲۶)

عرب میں ہر سال جو مشہور تجارتی میلے منعقد ہوتے تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنا سامانِ تجارت ان میلوں میں لے جایا کرتے، آپ کی دیانت داری کی بنا پر آپ کا سامان میلے میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ۔ ایک دفعہ ایک میلے میں آپ بیس اونٹ لائے؛ مگر اسی وقت کسی کام سے باہر جانا پڑ گیا تو اپنے غلام کو تاکید کرگئے کہ ان اونٹوں میں سے ایک لنگڑا ہے، اس کی نصف قیمت وصول کی جائے ۔ فارغ ہوکر آپ واپس تشریف لائے تو اونٹ فروخت ہوچکے تھے ۔ غلام سے دریافت کیا تو اس نے معذرت کی کہ مجھے خریداروں کو لنگڑے اونٹ کی بابت بتانا یاد نہ رہا اور میں نے اس کی بھی پوری قیمت وصول کرلی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریداروں کاپَتا دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ یمن کی طرف سے آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے پر بڑا ملال تھا، فوراً غلام کو ساتھ لیا اور گھوڑے پر سوار ہوکر ان کی تلاش میں چل دیے ایک دن اور ایک رات کی مسافت طے کرنے کے بعد ان کو پالیا اور ان سے پوچھا کہ تم نے یہ اونٹ کہاں سے خریدے ہیں، وہ بولے کہ ہمارے مالک نے ہمیں یمن سے میلے میں محمد بن عبد اللہ کے تمام اونٹ خریدنے کے لیے بھیجا تھا اور تاکید کی تھی کہ اس کے سوا کسی اور سے کچھ سامان نہ خریدنا، ہم وہاں تین دن تک محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مال کو تلاش کرتے رہے، آخر تین دن کے بعد ان کا مال منڈی میں آیا تو ہم نے اطلاع پاتے ہی خرید لیا، آپ نے فرمایا بھائیو ! ان اونٹوں میں سے ایک اونٹ لنگڑا ہے، سوادا کرتے ہوئے میرا ملازم بتانا بھول گیا، اب وہ اونٹ مجھے دے دو اور اس کی قیمت واپس لے لو، یا پھر اس کی آدھی قیمت مجھ سے وصول کر لو۔ اتفاق سے ابھی تک انھیں اونٹ کے لنگڑے پن کا علم نہ ہوا تھا؛ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ دیکھتے ہی فورا پہچان لیا او روہ اونٹ ان سے لے کر اس کی قیمت واپس کردی۔ بعد میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت فرمایا تو انھوں نے کہا ہم تو پہلے ہی سوچتے تھے کہ ایسا شخص کوئی معمولی آدمی نہیں ہوسکتا، فوراً خدمتِ اقدس میں پہنچے اور شرفِ اسلام سے بہرہ مند ہوگئے۔ (محدث میگزین رسول مقبول نمبرص: ۱۸۸)

ان واقعات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آپ نے بیرون تجارت میں بھی حصہ لیا اور آپ مکہ میں گھوم پھرکر بھی کاروبار کیا کرتے تھے۔

الغرض ابو طالب کے ساتھ آپ بچپن ہی میں بعض تجارتی سفر کرچکے تھے۔ ہر قسم کا تجربہ حاصل ہوچکا تھا اور آپ کے حسنِ معاملہ کی شہرت ہر طرف پھیل چکی تھی۔ نوخیز و نوجوان محمد صلی اللہ علیہ وسلم گلہ بانی سے آگے بڑھ کر میدانِ تجارت میں آئے تو آپ کے تعلقات وسیع ہوئے۔ لوگوں کو آپ کو آزمانے اور پرکھنے کا موقع ملا؛ مگر یہ حقیقت ہے کہ جن لوگوں نے آپ کو زیادہ قریب سے دیکھا وہی آپ کے سب سے زیادہ گرویدہ ہوئے اور ایک عجیب بات یہ ہے کہ صرف دس بارہ سال کے عرصے میں آپ کی غیر معمولی امانت داری، راست بازی اور سچائی نے سب ہی مکہ والوں کو یہاں تک موہ لیا کہ وہ آپ کا نام لینا بے ادبی سمجھنے لگے، یہی مکہ کے بڑے بڑے تاجر اور سیٹھ جن کو اپنی دولت پرناز تھا، جن کو اپنے بین الاقوامی تعلقات پر فخر تھا کہ ان کے تجارتی قافلے شام، یمن اور فارس وغیرہ جاتے ہیں افریقہ کے بازاروں میں ان کا لین دین ہوتا ہے، ان ملکوں کے امیروں اور بادشاہوں سے ان کی راہ و رسم ہے، ان سے اپنی بات منواسکتے ہیں، یہی روٴسائے قریش جو اپنے سوا کسی کو نظر میں نہیں لاتے تھے، جو دوسروں کی گردنیں اپنے سامنے جھکوانا چاہتے تھے، جن کے مشاعروں کی جان ان کے وہ فخریہ قصیدے ہوا کرتے تھے، جن میں وہ اپنی عظمت اور بڑائی کے ترانے گاتے اور کوئی ان کا توڑ کرتا تو لڑ پڑتے تھے، یہاں تک کہ خوں ریز جنگ کی نوبت آجاتی تھی۔ دنیا جانتی ہے، تاریخ شاہد ہے کہ یتیمِ عبد اللہ کی غیر معمولی سچائی اور امانت داری نے ان سیٹھوں اور رئیسوں کو اس حد تک متاثر اور گرویدہ بنادیا تھا کہ وہ آپ کو ”الصادق یا الامین“ ہی کہتے تھے، نام لینا بے ادبی سمجھتے تھے، یہ دو لفظ یہاں تک زبانوں پر چڑھ گئے کہ انھوں نے قومی لقب کی حیثیت اختیار کرلی۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شام کا دوسرا سفر؛ نیز حضرت خدیجہ سے نکاح

ان دنوں مکہ میں سب سے زیادہ مال دار ایک معزز خاتون سیدہ خدیجہ بنت خویلد تھیں، جو دو بار بیوہ ہوچکی تھیں، انھوں نے باپ سے کثیر جائداد پائی تھی اور اب تمام تر توجہ تجارت کی طرف مبذول کر رکھی تھی او راپنی تجارت کو باقی رکھنے کے لیے انھیں کسی ایسے امانت دار شخص کی ضرورت تھی جو کاروباری سلیقہ اور تجارتی تجربہ بھی رکھتا ہو۔ آں حضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر اگرچہ تقریبا ۲۳سال تھی؛ مگر آپ کے اوصافِ حمیدہ کے چرچے شروع ہوگئے تھے، کاروباری سلیقے کی بھی شہرت ہو چکی تھی اور تجارتی قافلے کے ساتھ شام جاکر بیرونی تجارت کا بھی آپ کو تجربہ ہوچکاتھا تو انھوں نے خواہش ظاہر کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کا سامانِ تجارت سرزمینِ شام کی طرف لے جائیں او رمعاملہ یہ طے ہوا کہ وہ آپ کو دوسرے لوگوں کی بہ نسبت دو گنا منافع دیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب سے مشورہ کرنے کے بعد یہ پیش کش قبول فرمالی او ر۲۳ یا ۲۴ برس کی عمر میں دوسری بار شام کی طرف روانہ ہوئے، واپسی پر آپ نے ایسا مال تلاش کیا جس کا مکہ میں فوراً نکاس ہوجائے، آپ نے شام سے یہ مال لاکر مکہ معظمہ میں فروخت کیا تو کافی نفع ہوا۔ حضرت خدیجہ نے شام جاتے وقت جب مال سپرد کیا تو اپنے بھروسے مند غلام میسرہ کو بھی ساتھ کردیا۔ بہانہ یہ تھا کہ وہ خدمت کرتے رہیں گے اور مقصد یہ تھا کہ مال کی نگرانی بھی رکھیں او رحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عادات واخلاق کا بھی گہرائی سے مطالعہ کرتے رہیں۔ سفر شام سے واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کا نفع حضرت خدیجہ کے سپرد کیا اور میسرہ نے نہ صرف امانت داری؛ بل کہ آپ کے عام اخلاق کی بھی ایسی تعریف کی کہ خدیجہ جو اپنی زندگی کا یہ آخری دور کسی راست باز کے حوالے کرنا چاہتی تھیں دامانِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کو گوہرِ مراد نظر آنے لگا؛ چنانچہ سفرِ شام سے واپسی کے دو ماہ پچیس روز بعد حضرت خدیجہ نے آپ کو نکاح کا پیام دیا، آپ نے اپنے چچا کے مشورے سے اس کو قبول فرمایا اورپچیس برس کی عمر میں اپنے سے پندرہ برس بڑی اور دو بار بیوہ ہوچکی خاتون کے ساتھ نکاح کیا۔

نکاح کے بعد حضرت خدیجہ نے اپنا مال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر نچھاور کردیا؛ مگر آپ نے ان کا سارا مال غریبوں، بیواوٴں اور یتیموں کی امداد پر صرف کردیا او راپنی معاش تجارت کو باقی رکھا اسی سے اپنے کنبے کی گزر بسر کرتے۔

تجارت کی خاطر آپ نے بصری اور مدینہ کی جانب کئی تجارتی سفر کیے او رانھیں سفروں کے درمیان آپ نے قریش کی تجارتی شاہراہوں کے ہر پیچ و خم سے آگاہ ہوگئے، خصوصا مدینہ کی سیاسی او رجغرافیائی حیثیت اچھی طرح سمجھ لی۔

 چند ارشادات نبوی او رنقل کردینا مناسب سمجھتا ہوں جن سے تجارت او رتجارت پیشہ لوگوں کی عظمت واضح ہو ؛ نیز تجارت میں امت کے لیے آپ کا مقرر کردہ اصول بھی سامنے آسکے:

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک بار سوال کیا گیا کہ کون سی کمائی پاکیزہ ترین ہے؟ فرمایا: اپنے ہاتھوں سے کام کرنا او رہر حلال وجائز خرید وفروخت۔(السنن الکبری للبیہقی ۵/۲۶۳)

تجارت میں حسنِ معاملہ، صداقت ودیانت او رراست بازی کی ہردم تاکید ی نصیحت فرماتے رہے، فرمایا: قیامت کے روز تاجر فجار کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے بجز اس تاجر کے جو اپنے معاملات میں خداترس رہا ہو، لوگوں سے حسنِ سلوک کیا ہو اور ہرمعاملے میں سچائی کا دامت تھامے رکھاہو۔ (ترمذی شریف حدیث: ۱۲۱۰)

اسی طرح فرمایا: امانت دار اور راست باز تاجر قیامت کے دن صدیقوں او رشہیدوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ (ترمذی شریف حدیث: ۱۲۰۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے منع فرمایا : بیع میں زیادہ قسمیں کھانے سے احتیاط برتو؛ کیونکہ اس طرح مال تو بک جاتا ہے؛ مگر برکت جاتی رہتی ہے۔ (مسلم شریف حدیث: ۴۱۲۳)

آخری بات یہ ہے کہ بیع کرنے والوں کا سب سے پہلے آپ نے ”تاجر“ نام رکھا پہلے انھیں ”سماسِر“ کہا جاتا تھا اور اس نئے نام کو تمام لوگوں نے بہت پسند کیا۔

$ $ $

 

-------------------------------------------







نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت تاجر

 

 


 

کائنات میں بسنے والے ہر ہر فرد کی کامل رہبری کے لیے اللہ رب العزت کی طرف سے رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا گیا، سب سے آخر میں بھیج کر، قیامت تک کے لیے آنجناب کے سر پر تمام جہانوں کی سرداری ونبوت کا تاج رکھ کر اعلان کر دیا گیاکہ اے دنیا بھر میں بسنے والے انسانو! اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر اور پُرسکون بنانا چاہتے ہو تو تمہارے لیے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ہستی میں بہترین نمونہ موجود ہے(الاحزاب:۲۱) ان سے رہنمائی حاصل کرو اور دنیا وآخرت کی ابدی خوشیوں اور نعمتوں کو اپنا مقدر بناوٴ، گویا کہ اس اعلان میں دنیا میں بسنے والے ہر ہر انسان کو دعوت ِعام دی گئی ہے کہ جہاں ہو، جس شعبے میں ہو، جس قسم کی رہنمائی چاہتے ہو، جس وقت چاہتے ہو، تمہیں مایوسی نہ ہو گی، تمہیں تمہاری مطلوبہ چیز سے متعلق مکمل رہنمائی ملے گی، شرط یہ ہے کہ تم میں طلبِ صادق ہو، چنانچہ! تاجر ہو یا کاشتکار،شریک ہو یا مضارب، مزدور ہو یا کوئی بھی محنت کَش، ماں ہو یا باپ، بیٹا ہو یا بیٹی، میاں ہو یا بیوی، مسافر ہو یا مقیم، صحت مند ہو یا مریض، شہری ہو یا دیہاتی، پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ؛ اگر وہ چاہے کہ میرے لیے میرے شعبے میں رہنمائی ملے، تو اس کے لیے جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ہستی میں نمونہ موجود ہے، مذکورہ آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کے سامنے جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کھڑا کیا ہے کہ میرے اس محبوب کو دیکھو، تمہیں ہر چیز ملے گی، اپنے سے متعلق روشنی حاصل کرو اور اس پر عمل پیرا ہو کر اللہ کے محبوب بن جاوٴ، تفسیر ابن کثیر میں اس آیت کی تشریح میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”ھٰذہ الآیة الکریمة أصلٌ کبیرٌ في التأسّي برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم في أقوالہ، وأفعالہ، وأحوالہ“ (تفسیر ابن کثیر، سورة الأحزاب:۳۱، ۶/۳۹۱)

کہ یہ آیت کریمہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کی اتباع کرنے میں بہت بڑی بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔

    یہی وجہ ہے کہ علماء امت نے امتِ محمدیہ کی آسانی اور سہولت کی خاطر جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے ہر ہر پہلو کو پوری طرح واضح کرنے کے لیے خوب سے خوب محنت کی، بے شمار کتب تصنیف کیں؛ تا کہ کوئی بھی شخص اپنے شعبے سے متعلق جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کو دیکھنا چاہے تو اسے بغیر دقّت کے آپ علیہ الصلاة والسلام کی تعلیمات معلوم ہو سکیں، جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرنا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم پر حق بھی ہے، اور محبت کا تقاضا بھی، اور یہ بات بھی پوری طرح واضح رہنی چاہیے کہ یہ حق اور تقاضا صرف ماہِ ربیع الاول کے پہلے بارہ دن یاپورے مہینے کے لیے ہی نہیں؛ بلکہ پوری زندگی اور زندگی کے ہر ہر لمحے کے لیے ہے۔

    ان سطور سے مقصود نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری حیاتِ طیبہ کو سمیٹنا نہیں ہے؛ بلکہ صرف آپ علیہ الصلاة والسلام کی سیرتِ طیبہ سے تجارت کے پہلو کو واضح کرنا مقصود ہے،آپ علیہ الصلاة والسلام نے تجارت کا پیشہ اپنایا اور رزقِ حلال سے اپنی زندگی کا رشتہ اُستوار رکھا، نبوت کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ کے دو حصے ہیں، ایک: نبوت ملنے سے قبل کا اوردوسرا: نبوت ملنے کے بعد کا، اول الذکر کا دورانیہ چالیس سال ہے اور ثانی الذکر کادورانیہ تیئس سال، اس دوسرے حصے کے پھر دو حصے ہیں، ایک: مکی دور اور دوسرا: مدنی دور۔

نبوت سے قبل کی معاشی کیفیت

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا نبوت سے پہلے والا دور مالی اور معاشی اعتبار سے کوئی خوش الحال دور نہیں تھا؛ لیکن اس کے برعکس یہ کہنا بھی درست نہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی زیادہ مفلوک الحال زندگی بسرکر رہے تھے؛ البتہ یہ ضرور تھا کہ آنجناب بچپن سے ہی محنت ومشقت کر کے اپنی مدد آپ ضروریاتِ زندگی پورا کرنے کا ذہن رکھتے تھے۔

والد کی طرف سے ملنے والی میراث

 جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہوئی تو آپ کے سرسے والد کا سایہ اٹھ چکا تھا، ان کی طرف سے بطورِ میراث بھی کوئی جائیداد آپ کی طرف منتقل نہیں ہوئی تھی، جیسا کہ کتب ِ سیرت میں اس کی تفصیل میں صرف یہ منقول ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو میراث میں صرف پانچ اونٹ، چند بکریاں اور ایک باندی ملی، جس کا نام ”ام ایمن“ تھا، (اس باندی کو بھی جنابِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے وقت یعنی: پچیس سال کی عمر میں آزاد کر دیا تھا) اس کے علاوہ مزید کوئی چیز میراث میں نہ ملی تھی، ملاحظہ ہو:

”ترک عبدُ اللہ بنُ عبدِ المطلب أمَ أیمنَ وخمسةَ أحمالِ أوارکَ، یعني: تأکل الأراک، وقطعة غنم، فورث ذٰلک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “ (الطبقات الکبریٰ لابن سعد، ذکر وفات عبد اللہ بن عبد المطلب: ۱/۸۰)

    میراث میں ملنے والی اشیاء اس قابل نہ تھیں کہ آپ کی کفالت کے لیے کافی ہو جاتی، یہی وجہ تھی کہ دیہاتی علاقوں سے آکر جو عورتیں بچوں کو پرورش اور تربیت کے لیے لے جایا کرتی تھیں، آپ علیہ الصلاة والسلام کی طرف ان میں سے کسی کا بھی رجحان آپ کی طرف نہیں ہوا کہ یہ تو یتیم اور غریب بچہ ہے،اس کی پرورش کرنے پر ہمیں اس کی والدہ کی طرف سے کچھ خاص معاوضہ نہ مل سکے گا، اور حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے جو آپ علیہ الصلاة والسلام کا انتخاب کیا تھا، وہ بھی ابتداء نہیں کیا تھا؛ بلکہ جب ان کے لیے کوئی اور بچہ نہ بچا ، تو پھر ان کو خیال آیا چلو خالی ہاتھ واپس جانے کے بجائے اس یتیم بچے کو ہی لے جانا چاہیے۔

دادا اور چچا کی کفالت میں

    ان ابتدائی دو سالوں میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت آپ کے دادا عبد المطلب کرتے رہے، دو سال کے بعد آپ کے دادا بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے، دادا کے انتقال کے بعد آپ کے چچا ابو طالب نے آپ کی کفالت اپنے ذمہ لے لی، ابو طالب آپ کے حقیقی چچا تھے، جو بہت ہی ذوق وشوق اور محبت سے آپ کی پرورش کرتے رہے اور آپ کی ضروریات پوری کرنے کی اپنی مقدور بھر سعی کرتے رہے؛ چنانچہ ! آپ کے چچا جب تجارت کی غرض سے دوسرے شہروں میں جاتے تو اپنے بھتیجے کو بھی ہمراہ لے جاتے۔

بکریاں چرانا

مکہ مکرمہ میں حصولِ معاش کے لیے عام طور پر گلہ بانی اور تجارت عام تھی؛ چنانچہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ مبارکہ کی ابتداء میں ہی اپنے معاش کے بارے میں از خود فکر کی، ابتداء ً اہلِ مکہ کی بکریاں اجرت پر چراتے تھے، بعد میں تجارت کا پیشہ بھی اختیار کیا، اور یہ کوئی عیب کی بات نہیں تھی؛ بلکہ یہ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور تواضع کی کھلی دلیل ہے؛ اس لیے کہ بکریاں چرانے والے شخص میں جفاکشی، تحمل وبردباری اور نرم دلی پیدا ہو جاتی ہے؛ اس لیے کہ بکریاں چرانا معمولی کام نہیں ہے؛ بلکہ بہت ہی زیادہ ہوشیاری اور بیدار مغزی والا کام ہے؛ اس لیے کہ بکریاں بہت کمزور مخلوق ہوتی ہیں، تیز اور پھرتیلی ہوتی ہیں، انھیں قابو میں رکھنے کے لیے بھی خوب پھرتی کی ضرورت ہوتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ اس جانور کے قابو سے باہر ہونے کی صورت میں ان پر غصہ اتارنا بھی ممکن نہیں، یعنی: غصہ کی وجہ سے مار بھی نہیں سکتے؛ کیونکہ وہ کمزور ہوتی ہیں، اس بنا پر بکریاں چرانے والوں میں کافی تحمل پیدا ہو جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام نے بکریاں چرائی ہیں، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

”ما بعث اللہ نبیاً إلّا رعیٰ الغنمَ، فقال أصحابُہ: وأنتَ؟ فقال: نعم! کنتُ أرعاھا علیٰ قَراریط لأھلِ مکةَ (صحیح البخاري، کتاب الإجارات، باب رعی الغنم علی قراریط، رقم الحدیث: ۲۲۶۲)

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ نے جو بھی نبی بھیجا، اس نے بکریاں ضرور چرائیں، صحابہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا آپ نے بھی ؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ہاں! میں بھی مکہ والوں کی بکریاں قراریط پر چراتا تھا۔

”قراریط“ سے کیا مراد ہے؟ اس میں اختلاف ہے ، بعض کا قول یہ ہے کہ یہ درہم یا دینار کے ایک ٹکڑے کا نام ہے، اس صورت میں مطلب یہ بنے گا کہ کچھ قراریط کے عوض بکریاں چرائیں، اور بعض کا قول ہے کہ یہ مکہ مکرمہ کے ایک محلہ ”جیاد“کا نام ہے، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ مقام قراریط میں بکریاں چرائیں، علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ نے اسی قول کو ترجیح دی ہے کہ یہ ایک جگہ کا نام ہے۔(التوضیح لشرح الجامع الصحیح ، کتاب الإجارات، باب رعی الغنم، رقم الحدیث: ۲۲۶۲، ۱۵/ ۳۵، ۳۶)

اسی طرح ایک بار نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ جنگل تشریف لے گئے، صحابہ بیریاں توڑ توڑ کر کھانے لگے، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو خوب سیاہ ہوں وہ کھاوٴ، وہ زیادہ مزے کی ہوتی ہیں، یہ میرا اس زمانے کاتجربہ ہے، جب میں بچپن میں یہاں بکریاں چرایا کرتا تھا۔ (صحیح ابن حبان، کتاب الإجارة، ذکر العلة التي من أجلھا قال صلی اللہ علیہ وسلم للکباث الأسود: إنہ أطیب من غیرہ، رقم الحدیث: ۵۱۴۴، ۱۱/۵۴۴)

ملک ِ شام کی طرف پہلا سفر 

    نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے شام کی طرف دو سفر کیے، پہلا: اپنے چچا کے ہمراہ؛ لیکن اس سفر میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم بطورِ تاجر شریک نہ تھے؛بلکہ محض تجارتی تجربات حاصل کرنے کے لیے آپ کے چچا نے آپ کو ساتھ لیا تھا، اسی سفر میں بحیرا راہب والا مشہور قصہ پیش آیا، جس کے کہنے پر آپ کے چچا نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو حفاظت کی خاطر مکہ واپس بھیج دیا۔ (الطبقات الکبریٰ، ذکر أبي طالب وضمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلیہ، وخروجہ معہ إلی الشام في المرة الأولی۱/۹۹)

ملکِ شام کی طرف دوسرا سفر

اور دوسرا سفر: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تاجر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا سامان لے کر اجرت پر کیا۔قصہ کچھ اس طرح پیش آیا کہ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پچیس برس کے ہوگئے تو آپ کے چچا ابو طالب نے کہا کہ اے بھتیجے! میں ایسا شخص ہوں کہ میرے پاس مال نہیں ہے، زمانہ کی سختیاں ہم پر بڑھتی جا رہی ہیں، تمہاری قوم کا شام کی طرف سفر کرنے کا وقت قریب ہے، خدیجہ بنت خویلد اپنا تجارتی سامان دوسروں کو دے کر بھیجا کرتی ہے، تم بھی اجرت پر اس کا سامان لے جاوٴ، اس سے تمہیں معقول معاوضہ مل جائے گا، یہ گفتگو حضرت خدیجہ کو معلوم ہوئی تو اس نے خود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھیج کر بلوایا کہ جتنا معاوضہ اوروں کو دیتی ہوں، آپ کو اس سے دوگنا دوں گی، اس پر ابو طالب نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ یہ وہ رزق ہے جو اللہ نے تمہاری جانب کھینچ کر بھیجا ہے، اس کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے، آپ کے ہمراہ حضرت خدیجہ کا غلام ”میسرہ “بھی تھا، جب قافلہ شام کے شہر بصریٰ میں پہنچا تو وہاں نسطورا راہب نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم میں نبوت کی علامات پہچان کر آپ کے نبی آخر الزمان ہونے کی پیشین گوئی کی۔

دوسرا اہم واقعہ یہ پیش آیا کہ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارتی سامان فروخت کر لیا تو ایک شخص سے کچھ بات چیت بڑھ گئی، اس نے کہا کہ لات وعزیٰ کی قسم اٹھاوٴ، تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مَا حَلَفْتُ بِھِمَا قَطُّ، وَإنّي لَأَمُرُّ فَأَعْرِضُ عَنْھُمَا“میں نے کبھی ان دونوں کی قسم نہیں کھائی، میں تو ان کے پاس سے گذرتے ہوئے ان سے منہ موڑلیتا ہوں۔اس شخص نے یہ بات سن کر کہا، حق بات تو وہی ہے، جو تم نے کہی، پھر اس شخص نے میسرہ سے مخاطب ہو کر کہا: ”ھٰذا وَاللہِ نَبِيٌ، تَجِدُہ أَحْبَارُنَا مَنْعُوْتاً فِيْ کُتُبِھِمْ“۔خدا کی قسم یہ تو وہی نبی ہے، جس کی صفات ہمارے علماء کتابوں میں لکھی ہوئی پاتے ہیں۔

تیسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ میسرہ نے دیکھا کہ جب تیز گرمی ہوتی تودو فرشتے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کر رہے ہوتے تھے، یہ سب کچھ دیکھ کر میسرہ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ہی زیادہ متاثر تھا، واپسی میں ظہر کے وقت جب واپس پہنچے تو حضرت خدیجہ نے اپنے بالاخانے میں بیٹھے بیٹھے دیکھا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر بیٹھے اس طرح تشریف لا رہے تھے کہ دو فرشتوں نے آپ پر سایہ کیا ہوا تھا، حضرت خدیجہ اور ان کے ساتھ بیٹھی ہوئی عورتوں نے یہ منظر دیکھ کر بہت تعجب کیا، اور پھر جب میسرہ کی زبانی سفر کے عجائب، نفعِ کثیر اور نسطورا راہب اور اس جھگڑا کرنے والے شخص کی باتیں سنیں تو بہت زیادہ متاثر ہوئیں، حضرت خدیجہ بہت زیادہ دور اندیش، مستقل مزاج، شریف، با عزت اور بہت مال دار عورت تھیں، انھوں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کو نکاح کا پیغام بھیج کر نکاح کر لیا، اس وقت نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔ (ملخّص من الطبقات الکبریٰ، ذکر خروج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی الشام في المرة الثانیة، ذکر تزویج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجة بنت خویلد۱/۱۰۷-۱۰۹)

یمن کی طرف دو سفر

جو تجارتی اسفار نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی وجہ سے کیے، ان میں دو سفر یمن کی طرف بھی تھے، امام حاکم رحمہ اللہ نے المستدرک میں نقل کیا ہے:

”استأجرتْ خدیجةُ رضوانُ اللہ علیھا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفرتین إلیٰ جُرَشَ، کل سفرةٍ بقَلوصٍ“ (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفة الصحابة، ومنھم خدیجة بنت خویلد، رقم الحدیث۴۸۳۴، ۳/۲۰۰)

کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کو جرش (یمن کے ایک مقام)کی طرف دو بار تجارت کے لیے اونٹنیوں کے عوض بھیجا۔

بحرین کی طرف سفر

نبوت سے قبل آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بحرین کی طرف سفر کرنے کا بھی اشارہ ملتا ہے، وہ اس طرح کہ جس طرح آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرب کے تمام دور دراز مقامات سے وفود حاضر خدمت ہوتے رہے، انھیں وفود میں بحرین سے وفدِ عبد القیس بھی آیا، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ وفد سے بحرین کے ایک ایک مقام کا نام لے کر وہاں کے احوال دریافت فرمائے، تو لوگوں نے تعجب سے پوچھا، کہ اے اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم! آپ تو ہمارے ملک کے احوال ہم سے بھی زیادہ جانتے ہیں، تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: کہ ہاں میں تمہارے ملک میں خوب گھوما ہوں۔(ملاحظہ فرمائیں: مسند أحمد بن حنبل، بقیة حدیث وفد عبد القیس، رقم الحدیث: ۱۵۵۵۹، ۲۴/۳۲۷)

تجارتی اسفار میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائلِ حمیدہ

نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عمر مبارک کے پچیسویں سال تک تجارتی اسفار میں اپنے اخلاقِ کریمانہ، حسنِ معاملہ، راست بازی، صدق ودیانت کی وجہ سے اتنے زیادہ مشہور ہو چکے تھے کہ خلقِ خدا میں آپ ”صادق وامین “کے لقب سے مشہور ہو گئے تھے، لوگ کُھلے اعتماد کے ساتھ آپ کے پاس بے دھڑک اپنی امانتیں رکھواتے تھے، انھیں خصائل کی بنا پر حضرت خدیجہ بن خویلد رضی اللہ عنہا کی رغبت نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہوئی تھی اور پیغام ِ نکاح بھیج دیا تھا۔

لڑائی جھگڑے سے پرہیز کرنا

تجارتی معاملات کی کامیابی کے لیے معاملات کی صفائی اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز اہم ترین کردار ادا کرتا ہے اور یہ صفات نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم میں بدرجہٴ اتم موجود تھیں؛ چنانچہ حضرت قیس فرماتے ہیں کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم زمانہٴ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم شرکاء میں سے بہترین شریک تھے، نہ لڑائی کرتے تھے اور نہ ہی جھگڑا کرتے تھے۔ (الإصابة في تمییز الصحابة، القاف بعدھا الیاء، ۵/۴۷۱)

بحث وتکرار سے اجتناب

مسلمان تاجر کی صفات میں سے ایک صفت معاملات کے وقت شور شرابا اور آپس کی بے جا بحث وتکرار سے بچنا بھی ہے، اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وصف عظیم کی گواہی زمانہٴ نبوت سے پہلے بھی دی جاتی تھی؛ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن سائب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا تو آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میری تعریف اور میرا تذکرہ کرنے لگے، تو آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں تمہاری نسبت ان سے زائد واقف ہوں، میں نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ سچ فرماتے ہیں، آپ زمانہٴ جاہلیت میں میرے شریک ہوتے تھے، اور آپ کتنے بہترین شریک ہوتے تھے کہ نہ شور شرابا (بحث وتکرار) کرتے تھے اور نہ جھگڑا کرتے تھے۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الأدب، باب في کراھیة المراء، رقم الحدیث: ۴۸۳۸)

ایفائے وعدہ

وعدوں کی پاسداری تجّار کی بہت بڑی خوبی شمار ہوتی ہے، آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر یہ وصف کیسا تھا؟ اس بارے میں ”حضرت عبد اللہ بن ابی حمسآء رجی اللہ عنہ “ سے روایت ہے کہ میں نے نبوت ملنے سے قبل آپ سے خرید وفروخت کا ایک معاملہ کیا، خریدی گئی شئے کی قیمت میں سے کچھ رقم میرے ذمہ باقی رہ گئی، تو میں نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا کہ میں کل اسی جگہ آ کر آپ کو بقیہ رقم ادا کر دوں گا، پھر میں بھول گیا، اور مجھے تین روز بعد یاد آیا، میں اس جگہ گیا، تو دیکھا کہ جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم اسی جگہ تشریف فرما ہیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے نوجوان! تم نے مجھے اذیت پہنچائی، میں تین دن سے اسی جگہ پر تمہارا منتظر ہوں۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الأدب، باب في العدة، رقم الحدیث: ۴۹۹۸)

نبوت کے بعد معاشی صورتِ حال

جناب ِ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت مل جانے کے بعد حصول معاش کے لیے کچھ کیا یا نہیں؟ اس بارے میں بالاتفاق قولِ فیصل یہ ہے کہ بعثت کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی محنت اور توجہ صرف اور صرف احیائے دینِ متین کی طرف مبذول کر دی تھی، بعثت کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بھی قسم کی معاشی مشغولیت کا ثبوت نہیں ملتاہے؛ البتہ ! دین کے دیگر شعبوں کی طرف راہنمائی کی طرح اس شعبے کی بھی بہت واضح اور تفصیلی انداز میں راہنمائی کی، اس میدان سے کامیابی کے ساتھ گذرجانے والوں کو جہاں بہت بڑی بڑی بشارتیں سنائیں تو وہاں اس میدان کے چور، ڈاکووٴں اور خائنوں کو وعیدیں سنا سنا کر انھیں لوٹ آنے کی طرف بھی متوجہ کیا، نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کا جائزہ لیا جائے تو عبادت کے احکام اور معاملات کے احکام میں ایک اور تین کی نسبت نظر آئے گی، یعنی : عبادات سے متعلق احکام ایک ربع اور معاملات سے متعلق احکام تین ربع ملیں گے؛ چنانچہ کتبِ فقہ میں اہم ترین کتاب” ہدایہ “کو دیکھ لیا جائے کہ اس کی چار ضخیم جلدوں میں سے صرف ایک جلد عبادات کے بارے میں ہے اور تین جلدیں معاملات کے بارے میں ہیں، اسی سے شعبہٴ معاملات کی اہمیت کا اندازہ کر لیا جائے۔

ایک غلط ذہن کی اصلاح

موجودہ دور میں ایک طبقہ کم عقلی اور کم علمی کی وجہ سے یہ ذہن رکھتاہے کہ محنت کرنے اور کمانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ تو رزق دینے میں ہماری محنت کے محتاج نہیں ہیں، وہ ایسے بھی دینے پر قادر ہیں، لہٰذا ہمیں کچھ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، ہم تو اعمال کے ذریعے اللہ سے لیں گے، اسباب کے ذریعے نہیں۔

تو اس بارے میں اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ ایک ہے اسباب کا اختیار کرنا اور انھیں استعمال کرنا، اور ایک ہے ان اسباب کو دل میں اتارنا، اور ان پر یقین رکھنا؛ پہلی چیز کو اپنانا محمود اور مطلوب ہے اور دوسری چیز کو اپنانا مذموم ہے، ہماری محنت کا رُخ یہ ہونا چاہیے کہ ہم ان اسباب کی محبت اور یقین دل سے نکالیں اور اس کے برعکس یقین اللہ تعالیٰ پر رکھیں کہ ہماری ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے والی ذات؛ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، وہ چاہے تو اسباب کے ذریعے ہماری حاجات وضروریات پوری کر دے اور چاہے تو ان اسباب کے بغیر محض اپنی قدرت سے ہماری ضروریات وحاجات پوری کر دے، وہ اس پر پوری طرح قادر اور خود مختار ہے؛ البتہ ہم دنیا میں اسباب اختیار کرنے کے پابند ہیں؛ تاکہ بوقتِ حاجت وضرورت ہماری نگاہ وتوجہ غیر اللہ کی طرف نہ اٹھ جائے۔

اس بات میں تو کوئی شک وشبہ ہے ہی نہیں کہ اللہ رب العزت ہماری محنتوں کے محتاج نہیں ہیں؛ لیکن کیا شریعت کا مزاج اور منشا بھی یہی ہے کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہیں، بالخصوص جب اس ترکِ اسباب کا نتیجہ یہ نکلتا ہو کہ بیوی، بچوں اور والدین کے حقوق تلف ہوتے ہیں اور یہ غیروں کے اموال کی طرف حرص وہوس کے ساتھ دیکھتا رہتا ہے، تو یاد رکھیں کہ اس طرح کے لوگوں کو شریعت اس طرزِ عمل کی تعلیم نہیں دیتی؛ بلکہ سیرتِ نبوی اور سیرتِ صحابہ تو حلال طریقے سے کسب ِ معاش کی تعلیم دیتی ہے، ایسے بے شمار واقعات ہیں جن سے یہ سبق ملتا ہے کہ کماکر کھاوٴ، دوسرے کے سامنے ہاتھ نہ پھیلاوٴ، یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ تونگری کی وجہ سے آج کے دور میں ہمارا دین وایمان محفوظ رہے گا، ورنہ اندیشہ ہے کہ اختیاری فقر وفاقہ کہیں کفر وشرک کے قریب ہی نہ لے جائے۔ہاں! اولیاء اللہ اور یقین و توکل کے اعلیٰ درجہ پر فائض لوگوں کا معاملہ اور ہے۔

حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ذریں نصائح

حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ گذشتہ زمانہ میں مال کو بُراسمجھا جاتا تھا؛ لیکن جہاں تک آج کے زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال ودولت مسلمانوں کی ڈھال ہے، حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ نے یہ بھی فرمایاکہ اگر یہ درہم ودینار اور روپیہ پیسہ نہ ہوتا تو یہ سلاطین وامراء ہمیں رومال بناکر ذلیل وپامال کر ڈالتے، نیز! انہوں نے فرمایا: کسی شخص کے پاس اگر تھوڑا بہت بھی مال ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کی اصلاح کرے؛ کیوں کہ ہمارا یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی محتاج ومفلس ہو گا تو اپنے دین کو اپنے ہاتھ سے گنوانے والا سب سے پہلا شخص وہی ہو گا۔ (حلیة الأولیاء طبقات الأصفیاء، سفیان الثوري، ۶/ ۳۸۱)

توضیحات شرح مشکاة میں لکھا ہے: پچھلے زمانہ میں مال ودولت کو ناپسند کیا جاتا تھا، موٴمن اورمتقی حضرات مال کو مکروہ سمجھتے تھے؛ کیوں کہ عام ماحول زہد وتقویٰ کا تھا، لوگ غریب و فقیر کو ذلیل وفقیر نہیں سمجھتے تھے، مالی کمزوری کی وجہ سے اس کے ایمان کو تباہ نہیں کرتے تھے، نیز بادشاہ اور حکمران بھی اچھے ہوتے تھے، جو غریب کو سنبھالا دیتے تھے؛ اس لیے لوگ مال ودولت اکٹھا نہیں کرتے تھے اور اکٹھا کرنے کو معیوب سمجھتے تھے؛ مگر اب معاملہ اس کے برعکس ہے کہ غریب وفقیر آدمی کو معاشرہ میں ذلیل وحقیر سمجھتے ہیں، اور پیسے کی بنیاد پر اس کے ایمان کو خریدا جاتا ہے، نیز حکمران بھی خیر خواہ نہیں رہے، تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ غریب آدمی مالداروں اور حکمرانوں کا دستِ نگر اور دست وپاہ بن جائے گا، اور ان کے ہاتھ صاف کرنے اور میل کچیل صاف کرنے کے لیے تولیہ اور رومال بن جائے گا۔

پھر مزید لکھا ہے: جس شخص کے پاس اس مال میں سے کچھ بھی ہو وہ اس کی اصلاح کرے، مطلب یہ کہ تھوڑا پیسہ بھی ہو تو اس کو کسی کاروبار میں لگا دے، یہ اس کی ترقی وبڑھوتری ہے، یا پھر اصلاح کا مطلب یہ ہے کہ اس کو قناعت کے ساتھ خرچ کرے ، اسراف نہ کرے۔ (۷/۳۷۵، مکتبہ عصریہ، کراچی)

کمائی کے ذرائع

کسبِ معاش کے بہت سے ذرائع ہیں، ان میں سے کون سا افضل ہے ؟! اس کی تعیین میں سلفِ صالحین کا اختلاف ہے، اس بارے میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندہلوی رحمہ اللہ کی ایک بہترین کتاب ”فضائل ِ تجارت“ سے خلاصةً کچھ بحث ذیل میں نقل کی جاتی ہے۔

حضرت شیخ الحدیث صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”میرے نزدیک کمائی کے ذرائع تین ہیں: تجارت، زراعت اور اجارہ۔ اورہر ایک کے فضائل میں بہت کثرت سے احادیث ہیں، بعض حضرات نے صنعت و حرفت کو بھی اس میں شامل کیا ہے، جیسا کہ اوپر گذرا۔ میرے نزدیک وہ ذرائع آمدنی میں نہیں، اسبابِ آمدنی میں ہے اور آمدنی کے اسباب بہت سے ہیں: ہبہ ہے، میراث ہے، صدقہ ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جنہوں نے اس کو کمائی کے اسباب میں شمار کیا ، میرے نزدیک صحیح نہیں؛ اس لیے کہ نرا صنعت وحرفت کمائی نہیں ہے؛ کیوں کہ اگر ایک شخص کو جوتے بنانے آتے ہیں یا جوتے بنانے کا پیشہ کرتا ہے، وہ جوتے بنا بنا کر کوٹھی بھر لے ، اس سے کیا آمدنی ہو گی؟ یا تو اس کو بیچے گا یا (پھر یہ جوتے) کسی کا نوکر ہو کر اس کا (مال)بنائے۔یہ دونوں طریقے تجارت یا اجارہ میں آ گئے، اور اس سے بھی زیادہ قبیح ”جہاد“ کو کمائی کے اسباب میں شمار کرنا ہے؛ اس لیے کہ جہاد میں اگر کمائی کی نیت ہو گئی تو جہاد ہی باطل ہے․․․․․․․․․ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ میرے نزدیک تجارت افضل ہے، وہ بحیثیت پیشہ کے ہے؛ اس لیے کہ تجارت میں آدمی اپنے اوقات کا مالک ہوتا ہے، تعلیم وتعلم، تبلیغ، افتاء وغیرہ کی خدمت بھی کر سکتا ہے، لہٰذا اگر اجارہ دینی کاموں کے لیے ہوتو وہ تجارت سے بھی افضل ہے؛ اس لیے کہ وہ واقعی دین کا کام ہے؛ مگر شرط یہ ہے کہ وہی دین کا کام مقصود ہو اور تنخواہ بدرجہٴ مجبوری ہے۔ میرے اکابرِ دیوبند کا زیادہ معاملہ اسی کا رہا، اور اس کا مدار اِس پر ہے کہ کام کو اصل سمجھے اور تنخواہ کو اللہ کا عطیّہ؛اس لیے اگر کسی جگہ پر کوئی دینی کام کر رہا ہو، تدریس، افتاء وغیرہ اور اس سے زیادہ کسی دوسرے مدرسہ میں تنخواہ ملے، تو پہلی جگہ کو محض کثرتِ تنخواہ کی وجہ سے نہ چھوڑے۔میں نے جملہ اکابر کا یہ معمول بہت اہتمام سے ہمیشہ دیکھا، جس کو آپ بیتی نمبر۶، صفحہ ۱۵۵ میں لکھوا چکا ہوں کہ انہوں نے اپنی تنخواہوں کو ہمیشہ اپنی حیثیت سے زیادہ سمجھا ․․․․․․․․․․․․․․ درحقیقت میرے اکابر کے بہت سے واقعات اس کی تائید میں ہیں کہ تنخواہ اصل یا معتد بہ چیز نہیں سمجھتے تھے۔ جیسا میں نے اوپر لکھا اور تنخواہ محض عطیہٴ الٰہی سمجھتے تھے، جو ہم لوگوں میں بالکل مفقود ہے، یہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر میں اجارہٴ تعلیم کو سب انواع سے افضل لکھا ہے۔ ․․․․․․․․․․․․․․․اس ملازمت کے بعد تجارت افضل ہے؛ اس لیے کہ تاجر اپنے اوقات کا حاکم ہوتا ہے، وہ تجارت کے ساتھ دوسرے دینی کام تعلیم، تدریس، تبلیغ وغیرہ بھی کر سکتا ہے، اس کے علاوہ تجارت کی فضیلت میں مختلف آیات واحادیث ہیں؛ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

﴿إن اللہ اشتریٰ من الموٴمنین أنفسھم وأموالھم بأن لھم الجنة﴾(التوبة: ۱۱۱)

خدا نے موٴمنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں، (اور اس کے)عوض میں اُن کے لیے بہشت (تیار) کی ہے۔

اور بھی بہت سی آیات تجارت کی فضیلت میں ہیں، ان کے علاوہ احادیث میں ہے:

”التاجرُ الصدوقُ الأمینُ مع النبیینَ والصدیقینَ والشھدآء“(سنن الترمذي، کتاب البیوع، التجار وتسمیة النبي صلی اللہ علیہ وسلم إیاھم، رقم الحدیث:۱۲۰۹)

سچا، امانت دار تاجر(قیامت میں) انبیاء، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہو گا۔

”إنّ أَطْیَبَ الْکَسْبِ کَسْبُ التُّجَّارِ الَّذِیْنَ إذَا حَدّثُوْا لَمْ یَکْذِبوا، وَإذَا ائْتُمِنُوْا لَمْ یَخُوْنُوْا، وإذَا وَعَدُوا لَمْ یُخْلِفوا، وإذَا اشْتَرَوْا لَمْ یَذُمُّوْا، وَإذَا بَاعُوا لَمْ یَمْدَحُوْا، وَإذَا کَانَ عَلَیْھِمْ لَمْ یَمْطُلُوا، وَإذَا کَانَ لَھُمْ لَمْ یُعَسِروا“(شعب الإیمان للبیھقي، الرابع والثلاثون من شعب الإیمان وھو باب في حفظ اللسان، رقم الحدیث: ۴۸۵۴)

بہترین کمائی اُن تاجروں کی ہے، جو جھوٹ نہیں بولتے، امانت میں خیانت نہیں کرتے، وعدہ خلافی نہیں کرتے اور خریدتے وقت چیز کی مذمت نہیں کرتے (تا کہ بیچنے والا قیمت کم کر کے دے دے) اور جب (خود) بیچتے ہیں، تو (بہت زیادہ) تعریف نہیں کرتے (تا کہ زیادہ ملے) اور اگر ان کے ذمہ کسی کا کچھ نکلتا ہو تو ٹال مٹول نہیں کرتے اور اگر خود ان کا کسی کے ذمہ نکلتا ہوتو وصول کرنے میں تنگ نہیں کرتے۔

عن أنس رضي اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”التاجِرُ الصَّدُوْقُ تَحْتَ ظِلِّ الْعَرْشِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ“(اتحاف الخیرة المھرة بزوائد المسانید العشرة، کتاب الفتن، باب في التلاعن وتحریم دم المسلم، رقم الحدیث:۷۷۵۲)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچ بولنے والا تاجر قیامت میں عرش کے سایہ میں ہو گا۔

عن أبي أمامة رضي اللہ عنہ أنَّ رسولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”إن التاجِرَ إذَا کَانَ فیہ أربعُ خِصَالٍ طَابَ کَسْبُہ، إذا اشْتَریٰ لَمْ یذُمَّ، وَإذَا بَاعَ لَمْ یَمْدَحْ، وَلَمْ یَدْلُسْ فِي الْبَیْعِ، وَلَمْ یَحلِفْ فِیْمَا بَیْنَ ذٰلک“(الترغیب والترھیب، کتاب البیوع، باب فضل التاجر الأمین والترغیب في الصدق في المعاملة، رقم الحدیث: ۷۹۷)

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تاجر میں چار باتیں آ جائیں تو اس کی کمائی پاک ہو جاتی ہے، جب خریدے تو اس چیز کی مذمت نہ کرے اور بیچے تو (اپنی چیز کی بہت زیادہ) تعریف نہ کرے۔ اور بیچنے میں گڑ بڑ نہ کرے اور خرید و فروخت میں قسم نہ کھائے۔

وعن حکیم بن حزامٍ رضي اللہ عنہ أن رسولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم قال: ”اَلْبَیِّعَانِ بِالْخِیَارِ مَا لَمْ یَتَفَرَّقَا، فإنْ صَدَقَا وَبَیَّنا بُورِکَ لَھُمَا فِيْ بَیْعِھِمَا، وإنْ کَتَمَا وَکذَبا، فعسیٰ أن یربَحا رِبحاً، ویَمْحَقَا برَکةَ بَیْعِھِمَا“ (صحیح البخاري، کتاب البیوع، باب کان البائع بالخیار ھل یجوز البیع، رقم الحدیث: ۲۱۱۴)

حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ خرید وفروخت کرنے والے کو (بیع توڑنے کا) حق ہے، جب تک وہ اپنی جگہ سے نہ ہٹیں۔ اگر بائع ومشتری سچ بولیں اور مال اور قیمت کے عیب اور کھرے کھوٹے ہونے کوبیان کر دیں تو ان کی بیع میں برکت ہوتی ہے اور اگر عیب کو چھپا لیں اور جھوٹے اوصاف بتائیں تو شاید کچھ نفع تو کما لیں (لیکن) بیع کی برکت ختم کر دہتے ہیں۔

قال المناوي: رجالہ ثقات، ”تِسْعَةُ أَعْشَارِ الرِّزْقِ في التِّجَارَةِ، وَالْعُشْرُ في المَوَاشِيْ، یعنی: النَّتَاج“ (نظام الحکومة النبویة المسمیٰ التراتیب الإداریة، المقدمة الخامسة: باب ما ذکر في الأسواق، ۲/۱۲)

مناوی فرماتے ہیں: رزق کے نو حصے تجارت میں ہیں اور ایک حصہ جانوروں کی پرورش میں ہے۔

أخرج الدیلمي عن ابن عباس رضي اللہ عنھما: ”أَوْصِیْکُمْ بِالتُّجَارِ خَیْرًا، فإنَّھُمْ بُردُ الآفاق وأُمَنَاءُ اللہِ في الأرض“(نظام الحکومة النبویة المسمیٰ التراتیب الإداریة، المقدمة الخامسة: باب ما ذکر في الأسواق، ۲/۱۲)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں تمہیں تاجروں کے ساتھ خیر کے برتاوٴ کی وصیت کرتا ہوں؛ کیوں کہ یہ لوگ ڈاکیے اور زمین میں اللہ کے امین ہیں۔

تجارت کے بعد میرے نزدیک زراعت افضل ہے، زراعت کے متعلق حدیث میں آیا ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کیا کہ : ”کوئی مسلمان جو درخت لگائے یا زراعت کرے، پھر اس میں سے کوئی انسان یا پرندہ یا کوئی جانور کھا لے تو یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔اور مسلم کی روایت میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اس میں سے کچھ چوری ہو جائے تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ شمار ہوتا ہے۔

اور ضرورت کے اعتبار سے بھی زراعت اہم ہے؛ کیوں کہ اگر زراعت نہ کی جائے تو کھائیں گے کہاں سے؟ !․․․․․․․․․ باقی اپنی زمین دوسرے کو دینا، مزارعت کہلاتا ہے، زراعت اور چیز ہے اور مزارعت اور چیز ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قواعدِ شرعیہ کی رعایت ہر چیز میں ضروری ہے، جیسا کہ اس بارے میں أوجز المسالک:۵/ ۲۲۰، باب کراء الأرض میں بہت لمبی بحث کی گئی ہے۔ اور شرعی حدود کی رعایت ان ہی تینوں میں نہیں؛ بلکہ دین کے ہر معاملہ میں ضروری ہے۔․․․․․․․․․․ ان سب کے بعد نہایت ضروری اور اہم امر یہ ہے کہ کسب کے؛ بلکہ ہر عمل میں شریعتِ مطہرہ کی رعایت ضروری ہے، جس کو احیاء العلوم: ۲/۶۴ میں مستقل باب کے تحت بیان کیا ہے؛ چنانچہ امام غزالی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:

”بیع اور شراء کے ذریعہ مال حاصل کرنے کے مسائل سیکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے، جو اس مشغلہ میں لگا ہوا ہو؛ کیوں کہ طلبِ علم کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس سے ان تمام مشاغل کا علم طلب کرنا مراد ہو گا، مشغلہ رکھنے والوں کو جن مسائل کی حاجت ہو۔ اور کسب کرنے والاکسب کے مسائل جاننے کا محتاج ہے اور جب اس سلسلہ کے احکام جان لے تو معاملات کو فاسد کرنے والی چیزوں سے واقف ہو جائے گا، لہٰذا ان سے بچے گا، اور ایسے شاذ ونادر مسائل جو باعث اشکال ہوں،ان کے ہوتے ہوئے معاملہ کرنے میں سوال کر کے علم حاصل کرنے تک توقف کرے گا؛ کیوں کہ جب کوئی شخص معاملات کو فاسد کرنے والے امور کو اجمالی طور پر نہ جانے تو اسے یہ معلوم نہیں ہو سکتاکہ میں کس کے بارے میں توقف کروں اور سوال کر کے اس کو جانوں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں پیشگی علم حاصل نہیں کرتا، اس وقت تک کام کرتا رہوں گا؛ جب تک کوئی واقعہ پیش نہ آجائے، جب کوئی واقعہ پیش آئے گا تو معلوم کر لوں گا، تو اس شخص کو جواب دیا جائے گا کہ جب تک تو اِجمالی طور پر معاملات کو فاسد کرنے والی چیزوں کو نہ جانے گا تجھے کیسے پتہ چلے گاکہ مجھے فلاں موقع پر معلوم کرنا چاہیے۔ جسے اجمالی علم بھی نہ ہو وہ برابر تصرفات کرتارہے گا اور ان کو صحیح سمجھتا رہے گا۔ لہٰذا علم تجارت سے اوّلا اس قدر جاننا ضروری ہے کہ جس سے جائز وناجائز میں تمیز ہو اور یہ پتہ چل سکے کہ کون سا معاملہ وضاحت کے ساتھ جائز ہے اور صحیح ہے، اور کس میں اشکال ہے۔“(ملخص من فضائل تجارت، ص: ۴۸-۷۲، مکتبة البشریٰ)

اِن تفصیلات کے بعد ہم سب کے لیے از حد ضروری ہے کہ ہم حدودِ شرعیہ کے اندر رہتے ہوئے کسبِ معاش کریں، اور حصول معاش سے قبل اس کا علم شرعی ضرور بالضرور حاصل کر لیں، مبادا یہ کہ یہ کمائی کل بروزِ قیامت ہمارے لیے وبال بن جائے اور ہماری آخرت برباد ہو جائے۔

یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے بازار میں وہی شخص خرید وفروخت کیا کرے، جس نے اپنے اس کاروبار سے متعلق علم حاصل کر لیا ہو۔

”لَا یَبِیْعُ فِيْ سُوْقِنَا إلّا مَنْ قَدْ تَفَقَّہَ فِي الدِّیْنِ“ (سنن الترمذي، کتاب الصلاة، أبواب الوتر، فضل الصلاة علی النبي، رقم الحدیث: ۴۸۷)

اللہ رب العزت زندگی کے ہر ہر شعبے میں احکامات معلوم کر کے ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے،آمین

”اللھم انفَعْنا بما علّمْتَنا وعلِّمْنا ما یَنفَعُنا وارزُقْنا علماً تنفَعُنا بہ“

 

$ $ $

 

---------------------------------------




نبی کریم ﷺ کی زندگی، ہر طبقے کے لیے


نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ مسلمان ہی نہیں، ساری انسانیت کے ہر طبقہ کے لیے بہترین نمونہ ہے، اسی لیے قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ار شاد فرمایا:﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَة﴾․( اے لوگو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے)۔

”لکم“ اور ”اسوة“ دونوں میں عموم ہے، یعنی تم سب کے لیے، چاہیے تمہارا تعلق انسانیت کے کسی بھی طبقہ سے کیوں نہ ہو،چاہے امیر ہو یا غریب، معلم ہو یا متعلم، نوجوان ہو یا بوڑھا، بچہ ہو یا ادھیڑ عمر،شوہر ہو یا باپ، فاتح ہو یا مفتوح، غالب ہو یا مغلوب، بادشاہ ہو یا رعایا،امام ہو یا مقتدی، واعظ ہو یایتیم۔ بہرحال حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہرایک کے لیے ایسا نمونہ ہے کہ جس پر چل کر اللہ کی خوش نودی حاصل ہو سکتی اور انسان دارین کی کامیابیوں سے ہم کنار ہو سکتا ہے۔

جب تک امت نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کواپنا آئیڈیل بنائے رکھا، امت کامیابی وکامرانی کی عزت ووجاہت کی منزل کو طے کرتی گئی اور جہاں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اعراض کیا پستی اور تنزلی کی طرف آنے لگی۔ اگر کوئی کہے کہ مسلما ن تعلیم اور ٹیکنا لوجی نہ حاصل کرنے کی وجہ سے یا مال ودولت کی کمی کی وجہ سے قیادت وسیادت سے ہاتھ کھو بیٹھا ہے تو یہ اس کی حماقت اور بے وقوفی ہے، اس لیے کہ جن مسلم ممالک نے تعلیم وٹیکنالوجی حاصل کی وہ بھی آج تک ترقی کو نہیں پہنچ سکے، کیا آپ نے تر کی اور ایران، ملیشیا، ترکستان، پاکستان، لیبیا،شام کونہیں دیکھا، کیا انہوں نے ٹیکنالوجی حاصل کرکے دنیا میں اپنا مقام بنایا؟ کیا روشن خیالی اورمغربیت کے نعرے نے ترکی کو کسی بھی میدان میں عزت سے ہم کنار کیا؟اللہ تعالیٰ، امت کی کمال اتاترک جیسے لوگوں سے حفاظت فرمائے اور کسی بھی اسلامی ملک کوگمراہ رہبروں سے دوچار نہ کر ے، جو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کھلے عام بغاوت کا اعلان کرے، امام مالک بن انس رحمة الله علیہ نے صاف ارشاد فرمادیا:”لایصلح آخر ہذہ الامة الا بما صلح بہ اولہ“ یعنی اس امت کے آخری دور کے افراد کی فلاح وصلاح اسی چیز سے ہو سکتی ہے، جس سے پہلے لوگو ں کی ہوئی اور آپ جانتے ہیں کہ صحابہ اور ہمارے اسلاف کو کامیابی سنت نبوی پرچل کر ہی ملی کیا ان صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاس کوئی ٹیکنالوجی تھی؟ نہیں نہیں! و ہ بیچارے اس زمانے کے صحیح ہتھیاروں سے بھی عاری تھے، مگر سنت پر چل کر ا ن کی دو سو کی جماعت بھی ہزار کو، دس ہزارکی جماعت اس زمانہ کی سُپر پاور قیصر وکسریٰ کی مسلح فوجوں کو شکست وہزیمت سے دوچار کر دیتی تھی۔

ذرا ہمارے صحابہ اور اسلاف کی تاریخ کی ورق گردانی کرکے دیکھ لو معلوم ہوجائے گا کہ ان کی کامیابی کاراز سنت نبوی کے علاوہ اوراسوہٴ نبوی علی صاحبہا الف الف تحیة وسلام کے علاوہ کوئی چیز نہیں؟ لہٰذا ہم یہاں پر صرف ہر طبقہ کے افراد کے لیے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مراحل کی نشاندہی کرنا چاہیں گے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کون سا حصہ کس طبقہ انسانی کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

تو آیئے! میرے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو مرحلہ وار معلوم کرکے آج ہی اس پر عمل پیراں ہونے کا پختہ عظم کریں۔ اللہ رب العزت ہم مسلمانوں کو تمام گمراہ لوگوں کی پیروی سے نکال کر نبی آخرالزماں علیہ الف الف تحیة وسلام کی اتباع کرنے کی حتی الامکان توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین․

میرے نبی کی زندگی کا نقشہ

اے مسلمان! تو اگر صاحب ثروت اور مالدار ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کر، جس میں آپ نے بعثت سے پہلے حجاز اور شام کے درمیان تجارت کی اور اسی طرح ان ایام کا بھی مطالعہ کر، جس میں آپ بحرین کے خزانہ کے مالک بن گئے ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت میں نہ کسی کودھوکہ دیا، نہ کسی سے جھوٹ بولا اور حرام کمائی کے قریب بھی گئے اور نہ کبھی وعدہ شکنی کی اور نہ کبھی شریک کے ساتھ خیانت کی، گویا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر مسلمان تاجر اور مالدار کے لیے قابلِ تقلید ہے۔

اور اگر اے مسلمان! تو تہی دست و تہی دامن ہے تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان ایام کا مطالعہ کر،جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعب ابی طالب میں محصور کردیے گیے تھے اور ان ایام کا بھی مطالعہ کر۔ جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ آکر گذارا۔ ایسے سخت حالات آئے کہ کبھی فاقہ کی نوبت تک آجاتی، مگر پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے سامنے ہاتھ دراز نہ فر ماتے تھے، بل کہ صبر و تحمل سے کا م لیتے تھے، لہٰذا غریبو ں کے لیے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قابل تقلید ہے ۔

او راگر اے مسلما ن! تو بادشاہ ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان ایام کا مطالعہ کر، جن میں آپ پورے جزیر ة العرب پر قابض ہوگئے، مگر آپ نے کبھی بھی کسی پر ظلم نہیں کیا، نہ کسی سے مال ظلماًلیا اورنہ کسی کو ظلماً قتل کیا، بل کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بے شما ر اپنے جانی دشمنوں کو معاف کردیا، صرف معاف ہی نہیں کیا، ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ بھی کیا ۔

اور اے مسلما ن! اگر تو کسی ملک میں رعایا کی حیثیت سے آبا د ہے تو مطالعہ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے اُن ایام کا جن کو آپ نے مکہ میں گذارا، نہ کبھی چوری ڈکیتی کی، نہ کسی کو ستایا، بل کہ ظالموں کے ظلم پر صبر کرتے رہے اوریتیمو ں ،مسکینو ں اور ضعیفوں کی نصرت کر تے رہے۔ اسی لیے تو حضر ت خدیجة الکبر ی ٰرضی اللہ تعالی عنہا نے کہا تھا: وَ اللّٰہ لایُخْذِیْکَ اللّٰہ اَبَدًا… اللہ آ پ کو کبھی بھی رسوا نہ کرے گا۔ کیو ں کہ آپ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں، یتیموں و غریبو ں کی مدد کرتے ہیں۔ بل کہ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کوبعثت سے پہلے بھی لوگ الصادق الامین کہتے تھے، معلوم ہوا رعایا کے لیے بھی حضورصلی اللہ علیہ وسلم قابل تقلید ہیں ۔

اے مسلمان اگر تو فاتح ہے تو مطالعہ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان ایام کا جب آپ نے مکہ کوفتح کیا اور جانی دشمنوں کے بارے میں بھی اعلان کردیا: لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ اے اہل مکہ! آج تم پہ کوئی زیادتی نہ ہوگی۔ معلوم ہوا فاتح کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نمونہ ہیں، نہ کہ امر یکہ اور روس، نہ برطانیہ۔

اور اے مسلمان! اگر تو شکست خوردہ ہے (اللہ تیرے لیے کبھی بھی شکست مقد ر نہ کرے)، تب بھی مطالعہ کرنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ان ایام کا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُحد میں ابتداء ً شکست سے دوچار ہوئے، مگر کوئی آہ واویلا نہ کیا ۔

اے مسلمان! اگر تومعلم اور استاد ہے تب بھی حضور کی زندگی کے ان ایام کا مطالعہ کر، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بیت ارقم ابن ارقم میں اور مدینہ آنے کے بعد مسجد نبوی اور صفہ میں صحابہ کو دین سکھا تے تھے، کتنا عمدہ اُسلوب تھا نبی کی تعلیم دینے کا کہ ایک بات کو تین مرتبہ دہرا تے تھے، تاکہ ہر ایک کی سمجھ میں آجائے، سوال کرنے والے کے سوال کامقتضی حال کے مطابق جواب دیتے تھے۔نہ خفا ہوتے تھے اور نہ ناراض ہوتے تھے ۔

اور اے مسلمان! اگر تو طالب علم ہے تو مطالعہ کر ان ایام کا جب کے وحی لے کر جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آتے تو آپ پوری توجہ اور رغبت کے ساتھ ان کی طرف متوجہ ہو تے، نہ کبھی ان کی گستاخی کرتے اور نہ ان کے سامنے بے ادبی سے کام لیتے، بل کہ تواضع اور انکساری کے ساتھ کام لیتے تھے ۔

اوراے مسلمان! اگر تو واعظ ہے تو مطالعہ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ان ایام کا جب مدینہ میں صحابہ کو کبھی درخت کے پاس کھڑے ہو کر، کبھی مسجد کے منبر پر بیٹھ کر فصیح وبلیغ الفاظ میں وعظ دیتے، نہ بہت طویل وعظ دیتے اور نہ بہت قصیر، بل کہ میانہ روی اختیار کرتے اور احوال کو دیکھ کر وعظ دیتے، یہاں تک کہ مجلس ایسی متأثر ہوتی کہ رونے لگتی۔

اور اگر اے مسلمان! تو یتیم ہے تو مطالعہ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن کا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین بچپن میں رحلت فرماچکے تھے ۔پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ سلم نے کتنا عمدہ بچپن بسر کیا۔

 اور اگر تو صغیر السن ہے، تو مطالعہ کر ان ایام زندگی کا جن کو آپ نے حلیمہ سعدیہ کے گھر پر گزارا کہ اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ چراگا ہ جاتے تھے اور کبھی آوارہ اور اوباش لڑکوں کے ساتھ وقت نہیں گزار تے تھے ۔

( اگر تو نوجوان ہے، تو مطالعہ کر آپ کے ان ایام شباب کا جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کی بکریاں چراکر گذارا، نہ کبھی کسی گانے کی محفل میں گئے اور نہ کبھی کسی بری حرکت کا ارتکاب کیا، بل کہ شریف اور صادق وامین کے لقب سے مشہور ہوئے، مسلمان نوجوان ان فلم اسٹاروں اور کھلاڑیوں کے نقش قدم پر آخر کیوں چلتا ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑ ھ کر بھی کوئی قابل تقلید آئیڈیل ہو سکتا ہے ؟

اور اگر تو جج یا حاکم ہے تو مطالعہ کر حضور کی زندگی کے واقعہٴ حجر اسود اور واقعہٴ مفتاح کعبةاللہ وغیرہ کا ۔

اور اگر تو شوہر ہے، تو مطالعہ کر خدیجہ اور عائشہ اور دیگر اُمہات المومنین کے ساتھ گزرے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات کا اور لمحات کا ۔

اور اگر تو دادا۔ یا۔ نانا ہے، تو حسن و حسین کے نانا کے ان لمحات کا مطالعہ کر، جو حسن وحسین کے ساتھ گزارے ۔

خلاصہٴ کلام یہ کہ تو جس کسی بھی حالت میں یا درجہ پر ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تجھے اس حالت اور مرتبہ کو گزارنے کا صحیح سلیقہ اور منہا ج بتلائے گی، ر بیع الاول کی مہینے کی مناسبت سے آپ ضرور یہ عہد کریں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کو ضرور ایک بار پڑ ھیں گے اور پھر اس کے مطابق زندگی بسر کریں گے، ان شاء اللہ ۔دنیا اور آخرت کی کامیابی وکامرانی آپ کے قدم چومے گی اور اطمینان و سکون جیسی عظیم نعمت آپ کو ان خطوط پر چل کر آسانی کے ساتھ مل جائے گی، جس کے لیے آج دنیا کو شاں ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین





نبی آخرالزماں ﷺ کا حلیہ مبارک
حافظ محمد زاہد



نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی فراخ د ہنی
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فراخ دہن تھے اور اہل ِعرب مرد کے لیے فراخ دہنی کو بہت پسندیدہ سمجھتے تھے۔حدیث کے الفاظ ہیں:ضَلِیْعَ الْفَمِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم)فراخ دہن تھے۔“

مولانا عبد القیوم حقانی اس بارے میں رقم طراز ہیں:
”یہ وسعت ِفم رجا ل میں محمود ہے اور خواتین میں مذموم ہے۔دہن مبارک کشادہ تھا،نہ چھوٹا اور تنگ تھا کہ منہ سے نکلی ہوئی بات میں فصاحت نہ رہتی اور نہ اعتدال و موزونیت سے بڑا تھا کہ بھدّا نظر آتا۔موزوں ‘معتدل اور مناسب کشادہ دہن سے موصوف تھے، جو ایک عمدہ اور اچھی صفت ہے۔“ (شرح شمائل ترمذی‘ج1،ص104)

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے دندانِ مبارک
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے دانت مبارک باریک اور چمک دار تھے اور سامنے والے دانتوں میں ذرا فصل تھا ۔ جب بات کرتے تھے تو اس میں سے نور نکلتا ہوامحسوس ہوتا تھا۔حضرت ابن عباس نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے دانتوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم اَفْلَجَ الثَّنِیَّتَیْنِ اِذَا تَکَلَّمَ رُاِٴیَ کَالنُّوْرِ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ ثَنَایَاہُ“․ (رواہ الدارمی والترمذی فی الشمائل، ح14)
”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے اگلے دانت مبارک کچھ کشادہ تھے۔جب آپصلی الله علیہ وسلم بات کرتے تو ایک نور سا ظاہر ہوتا، جو دانتوں کے درمیان سے نکلتا تھا۔“

علمائے کرام کے نزدیک مشہور یہی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا کلام‘ جو دانتوں کے درمیان سے نکلتا تھا‘ کونور سے تشبیہ دی گئی ہے، لیکن علامہ مناوی کی رائے یہ ہے کہ یہ کلام سے تشبیہ نہیں ہے، بلکہ یہ نور حسی تھا، جو بطور معجزہ نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کے دانتوں سے نکلتا تھا۔

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ناک مبارک
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ناک مبارک باریک‘بلندی کی طرف مائل اور نور سے منور تھی۔حضرت ہند بن ابی ہالہ فرماتے ہیں:
”اَقْنَی الْعِرْنَیْنِ لَہُ نُوْرٌ یَّعْلُوْہُ، یَحْسِبُہ مَنْ لَمْ یَتَاَمَّلْہُ اَشَمَّ“ (شمائل ترمذی‘ ح7)
”آپ صلی الله علیہ وسلم کی ناک مبارک بلندی مائل تھی اور اس پر ایک نور تھا۔پہلی دفعہ دیکھنے والا آپ صلی الله علیہ وسلم کو بہت بلندناک والاسمجھتا، حالاں کہ ناک مبارک بہت بلند نہیں تھی(بلکہ حسن و چمک کی وجہ سے بلند معلوم ہوتی تھی)۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے رخسار مبارک
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے رخسار مبارک نہ بہت زیادہ اُبھرے ہوئے تھے اور نہ بہت زیادہ دھنسے ہوئے تھے، بلکہ اعتدال اور توازن کا دل کش نمونہ تھے ۔ان میں ایسی سرخی مائل سفیدی تھی کہ گلاب کو پسینہ آجائے‘ایسی چمک تھی کہ چاند بھی شرما جائے‘ایسی گدازی تھی کہ شبنم بھی پانی بھرتی دکھائی دے اور ایسی نرماہٹ تھی کہ کلیوں کو بھی حجاب آئے۔حدیث کے الفاظ ہیں:”سَھْلَ الْخَدَّیْنِ“ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم)نرم گداز رخسار والے تھے۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی گردن مبارک
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی گردن مبارک اعتدال کے ساتھ لمبی اور بہت خوبصورت تھی۔حضرت ہند بن ابی ہالہ نے آپ صلی الله علیہ وسلمکی گردن مبارک کو حسین و جمیل مورتی کی گردن سے تشبیہ دی ہے۔ یہ تشبیہہ بھی صرف فرضی ہے، ورنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اعضا کو کسی بھی چیز کے ساتھ تشبیہ دینا آپ صلی الله علیہ وسلمپر عیب لگانے کے مترادف ہے ۔حدیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
”کَاَنَّ عُنُقَہ جِیْدُ دُمْیَةٍ فِیْ صَفَاءِ الْفِضَّةِ“․ (شمائل ترمذی‘ ح8)
”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی گردن ایسی خوب صورت اور باریک تھی)جیسا کہ مورتی کی گردن صاف تراشی ہوئی ہوتی ہے (اور رنگت میں) چاندی کی طرح پرنور تھی۔“

امام بیہقی نے نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی گردن مبارک کی بہت پیارے الفاظ میں تشریح کی ہے‘وہ لکھتے ہیں:
”آپ صلی الله علیہ وسلم کی گردن مبارک تمام مخلوقاتِ خدا میں سب سے زیادہ خوب صورت تھی۔ نہ بہت زیادہ لمبی تھی اور نہ بہت زیادہ چھوٹی۔گردن کی پیٹھ جہاں سورج کی روشنی اور ہوا کا گزر ہوتا تھاوہ گویا چاندی کا ٹکڑا تھی۔آپ صلی الله علیہ وسلمکی گردن چاندی کی سفیدی اور سونے کی سرخی سے زیادہ روشن اور خوب صورت تھی۔اور گردن کا وہ حصہ جس پر کپڑا نہیں ہوتا تھا وہ تو گویا چودھویں رات کا چاند تھا۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کی کیفیت
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے مبارک بالوں کی کیفیت کے بارے میں احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپصلی الله علیہ وسلم کے بال نہ تو بالکل سیدھے تھے اور نہ اتنے پیچ دار کہ جنہیں گھونگریالے کہا جا سکے‘بلکہ آپصلی الله علیہ وسلم کے بال مبارک ہلکے سے گھونگریالے تھے۔احادیث کے الفاظ ملاحظہ ہوں:
”وَکَانَ شَعْرُہ لَیْسَ بِجَعْدٍ وَلَا سَبْط“ٍ ․ (شمائل ترمذی‘ ح2)
”آپ صلی الله علیہ وسلم کے بال نہ بالکل سیدھے تھے اور نہ بالکل پیچ دار۔“

”وََلَمْ یَکُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطِطِ وَلَابِالسَّبْطِ ‘ کَانَ جَعْدًا رَجِلًا“ (ایضاً‘ح6)
”(رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے ) بال نہ تو بالکل سیدھے تھے اور نہ بالکل پیچدار‘بلکہ تھوڑی سی پیچیدگی لیے ہوئے تھے۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کی مانگ
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کی مانگ کے بارے میں روایات دو طرح کی ہیں ‘ایک میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے قصداً مانگ نکالنے کا تذکرہ ہے جب کہ دوسری روایات میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلممانگ نکالنے کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔اس کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ دوسری قسم کی روایات ابتدائے زمانہ پر محمول ہیں کہ اولاً نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مشرکین ِمکہ کی مخالفت اور اہل ِکتاب کی موافقت کی وجہ سے مانگ نکالنے کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔بعد میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم مانگ نکالنے کا قصداً اہتمام کرتے تھے۔حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
”اِنِ انْفَرَقَتْ عَقِیْقَتُہ فَرَقَھَا وَاِلَّا فَلاَ“․ (شمائل ترمذی‘ ح7)
”اگر سر کے بالوں میں خود مانگ نکل آتی تو مانگ رہنے دیتے ورنہ (آپ صلی الله علیہ وسلم خود مانگ نکالنے کا اہتمام)نہ کرتے۔“

حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مانگ نکالنے اور نہ نکالنے کے حوالے سے کافی تفصیل موجود ہے ۔وہ فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم ان کاموں میں اہل کتاب (یہود ونصاریٰ)کی موافقت پسند کرتے تھے جن میں اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہ آیا ہو۔اہل کتاب اپنے بالوں کی مانگ نہیں نکالتے تھے جبکہ مشرکین مانگ نکالتے تھے۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم اپنے بالوں کو پیشانی پر ڈال دیتے، یعنی مانگ نہ نکالتے۔پھر بعد میں مانگ نکالنی شروع کردی۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کی لمبائی
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کی لمبائی کے بارے میں روایات مختلف ہیں‘بعض میں بالوں کی لمبائی کندھوں تک(جُمّہ)‘بعض میں گردن تک(لِمَّہ) اور بعض میں کانوں کی لو تک (وَفْرَہ) کا ذکر ہے۔ احادیث کے الفاظ درج ذیل ہیں:
”لَہُ شَعْرٌ یَضْرِبُ مَنْکِبَیْہِ ․“ (شمائل ترمذی‘ ح 4)
”آپ صلی الله علیہ وسلم کے بال کندھوں تک آتے تھے۔“

”عَظِیْمَ الْجُمَّةِ اِلٰی شَحْمَةِ اُذُنَیْہ“ِ (شمائل ترمذی‘ ح3)
”آپ صلی الله علیہ وسلم گنجان بالوں والے تھے، جو کانوں کی لو تک آتے تھے۔“

”یُجَاوِزُشَعْرُہ شَحْمَةَ اُذُنَیْہِ اِذَا ہُوَ وَفَرَہ“ (شمائل ترمذی‘ ح7)
”جب آپصلی الله علیہ وسلم کے بال مبارک زیادہ ہوتے تو کان کی لو سے متجاوز ہوجاتے تھے۔“

شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے بالوں کے حوالے سے اختلاف کے بارے میں لکھتے ہیں:
”حقیقت میں کوئی اختلاف نہیں ہے ‘اس لیے کہ بال ایک حالت پر نہیں رہا کرتے‘ کبھی کم ہوتے ہیں، کبھی زائد ہوجاتے ہیں۔اور قصداً بھی کم کیے جاتے ہیں‘کبھی بڑھائے جاتے ہیں۔“ (شرح شمائل ترمذی‘ص15)

بعض شارحین نے ان کی تطبیق یہ کی ہے کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلمبال بنواتے تو کانوں کی لو تک ہوتے‘کبھی ایک ماہ تک بال نہ بنواتے تو گردن تک پہنچ جاتے اور کبھی حالات کے مطابق (یعنی جب حالاتِ سفر میں ہوتے تو )کئی کئی ماہ تک بال نہ بنواتے تو کندھوں تک پہنچ جاتے ۔

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک
نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی اور گنجان تھی اور بالوں کا رنگ سیاہ تھا۔حدیث کے الفاظ ہیں:کَثُّ اللِّحْیَةِ ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم)گھنی داڑھی والے تھے“اَسْوَدَ اللِّحْیَةِ (دلائل النبوة‘ج1‘ص217) ”(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم)کی داڑی کے بال سیاہ تھے۔“

نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی مہر نبوت
اللہ تعالیٰ نے اپنے ہر نبی کو کچھ نہ کچھ امتیازات دیے ہیں، جو انہیں عام لوگوں سے ممتاز کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو سب سے بڑھ کر امتیاز عطا فرمایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلمکے کندھوں کے درمیان مہر نبوت ثبت کر دی، جو ختم نبوت کی تصدیق کرتی ہے۔یہ مہر نبوت رسولی کی طرح تھی جس پر بال تھے۔حضرت سائب بن یزید اپنے بچپن کے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ میری خالہ مجھے دم کرانے کے لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس لے گئیں۔رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا‘میرے لیے برکت کی دعاکی اور میں نے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی پیا:
”ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَھْرِہ فَنَظَرْتُ اِلٰی خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَیْنَ کَتِفَیْہِ مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ“․ (رواہ البخاری و مسلم)
”پھر میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہوا ‘پس میں نے کندھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا جو مسہری کی گھنڈیوں کی طرح تھی۔“

نہ کوئی آپ صلی الله علیہ وسلم جیسا ہوگا ‘نہ کوئی آپ جیسا تھا!
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا حلیہ مبارک اور حسن و جمال ایسا کامل تھا کہ آپ اک شاہ کار نظر آتے تھے، جسے اس کے خالق نے بڑی محبت اور چاہت سے تخلیق کے سانچے میں ڈھالا تھا #

وہ اِک شہکارِ فطرت جس پہ خود خالق کو پیار آئے
آپ صلی الله علیہ وسلم کے جسم کا ہر عضو اور حصہ کمالِ حسن کو پہنچا ہوا تھا۔کسی ذی روح نے آپ جیسانہ آپ صلی الله علیہ وسلمسے پہلے کبھی دیکھا اور نہ قیامت تک دیکھ سکے گا‘ اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلمہر اعتبار سے حسن کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔جس نے بھی آپ کو دیکھا وہ بلااختیار پکار اٹھا کہ ہم نے اس سے پہلے حسن و جمال کا ایسا پیکر کبھی نہیں دیکھا ۔

٭…  حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں:
مَارَاَیْتُ شَیْئًا قَطُّ اَحْسَنَ مِنْہُ․ (شمائل ترمذی‘ح3)
”میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ حسین کوئی چیز (چاہے انسان ہو یا غیر انسان )نہیں دیکھی۔“

٭…حضرت علی جنہوں نے بچپن بھی آپ صلی الله علیہ وسلمکے ساتھ گزارا‘فرماتے ہیں:
لَمْ اَرَ قَبْلَہ وَلَا بَعْدَہ مِثْلَہ․ (شمائل ترمذی‘ح5)
”میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جیسا نہ آپ سے پہلے دیکھا اور نہ آپ کے بعد۔“

٭… حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں :
رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم فِیْ لَیْلَةِ اَضْحِیَانٍ، وَعَلَیْہِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، فَجَعَلْتُ اَنْظُرُ اِلَیْہِ وَاِلَی الْقَمَرِ، فَلَھُوَ عِنْدِیْ اَحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ ․(شمائل ترمذی‘ح9)
”میں ایک مرتبہ چاندنی رات میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو دیکھ رہا تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم سرخ جوڑا زیب تن فرمائے ہوئے تھے۔میں کبھی آپ صلی الله علیہ وسلمکی طرف دیکھتا اور کبھی چاند کی طرف (یعنی میں فیصلہ کرنا چاہتا تھا کہ ان دونوں میں سے کو ن زیادہ خوب صورت ہے؟بالآخر میں نے یہ فیصلہ کیاکہ)آپ صلی الله علیہ وسلم چاند سے بھی کہیں زیادہ جمیل و حسین اور منور ہیں۔“

٭…حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں:
مَا رَأَیْتُ شَیْئًا أَحْسَنَ مِنَ النَّبِیِّ صلی الله علیہ وسلم کَاَنَّ الشَّمْسَ تَجْرِیْ فِیْ وَجْہِہ ․
”میں نے نبی مکرم صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ حسین کوئی نہیں دیکھا، گویا ان کے چہرہ میں چمکتا سورج چلتا ہے۔“

٭…اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا:
لَرَاٰی زَلِیْخَا لَوْ رَاَیْنَ جَبِیْنَہ
لَاَثَرْنَ بِقَطْعِ الْقُلُوْبِ عَلَی الْیَدِ
”زلیخا کی سہیلیاں(جنہوں نے حضرت یوسف کے حسن کو دیکھ کر اپنے ہاتھوں کو کاٹ لیا تھا)اگر نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے چہرئہ انور کو دیکھ لیتیں تو ہاتھوں کے بجائے دلوں کو کاٹ لیتیں۔“
نہ کوئی آپ صلی الله علیہ وسلم سا ہوگا نہ کوئی آپ صلی الله علیہ وسلم جیسا تھا
کوئی یوسف سے پوچھے مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا حسن کیسا تھا

٭… نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے حسن کی جو تعبیر شاعرِ رسول حضرت حسان بن ثابت نے کی ہے، وہ کسی شاہ کار سے کم نہیں ہے:
وَاَحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِیْ
وَاَجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ
خُلِقْتَ مُبَرَّأً مِنْ کُلِّ عَیْبٍ
کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ
”آپ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ حسین کسی آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا اور نہ کسی ماں نے آپ سے زیادہ خوب صورت جنا ہے۔آپ صلی الله علیہ وسلم تو ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں، گویا آپ صلی الله علیہ وسلم نے جیسا چاہا ویسے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم کی تخلیق کر دی گئی۔“ (سبحان اللہ!)

اختتامی کلمات
کچھ عنوانات ایسے ہوتے ہیں جن پر جتنا بھی لکھا جائے وہ کم بلکہ نہ ہونے کے برابر معلوم ہوتا ہے‘مثلاً سورة الکہف ‘آیت 109 میں اللہ تعالیٰ نے اپنی شان کے حوالے سے فرمایا:
”(اے نبی صلی الله علیہ وسلم!)کہہ دیجیے کہ اگرہوجائے سمندر روشنائی میرے ربّ کے کلمات (لکھنے)کے لیے تو ختم ہوجائے گا سمندر، پیشتر اس کے کہ ختم ہوں میرے ربّ کے کلمات۔ اور اگر ہم لے آئیں اس کے مثل اور روشنائی(تب بھی کلماتِ رب ختم نہ ہوں گے)۔“

اسی طرح نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف ‘مدح اور حسن وجمال بھی ایک ایسا ہی عنوان ہے جس کو بیان کرنا شروع کریں تو اوراق کم اور سیاہیاں ماند پڑ جائیں۔بقول شاعر #
تھکی ہے فکر رسا اور مدح باقی ہے
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
تمام عمر لکھا اور مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے!

اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ عَلٰی سَیَّدِناَ مُحَمَّدٍ وَّاٰلِہ بِقَدْرِ حُسْنِہ وَ جَمَالِہ․




نبی کریم ﷺ کا لباس
پہلا باب : لباس :
یہ مضمون سید الانبیاء، وسید البشر، حضرت محمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کے لباس کے بیان میں ہے۔ اس مضمون کو لکھنے کا اہم مقصد وغرض یہ ہے کہ ہم اپنے لباس میں حتی الامکان نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو اختیار کریں اور وہ لباس جس کی وضع وقطع اور پہننا غیر مسنون ہے اس سے پرہیز کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لیے نمونہ بنایا ہے، جیساکہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ﴿ لَقَدْ کَانَ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُو اللّٰہَ وَالْیَوْمَ الآخِرَ ﴾․(سورہٴ الاحزاب 21) ، تم سب کے لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ذات بہترین نمونہ ہے۔

لباس مصدر ہے بمعنی ملبوس (یعنی پوشاک) جیساکہ کتاب بمعنی مکتوب۔ لباس کا لفظ عمامہ، ٹوپی، قمیص، جبہ، چادر، تہہ بند،پاجامہ اور جو کچھ پہننے میں آئے سب کو شامل ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے لباس کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ﴿ یَا بَنِی آدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُّوَارِی سَوْآتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَی ذٰلِکَ خَیْر﴾(سورہٴ الاعراف 26) اے آدم علیہ السلام کی اولاد! ہم نے تمہارے لیے لباس بنایا، جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے اور بہترین لباس تقوی کا لبا س ہے۔ لِبَاسُ التقوی سے مراد وہ لباس ہے جس میں حیا ہو۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿وَجَعَلَ لَکُمْ سَرَابِیْلَ تَقِیْکُمُ الْحَرَّ﴾ (سورہٴ النحل 81) اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں ۔

قرآن وسنت کی روشنی میں علمائے کرام نے تحریر کیا ہے کہ انسان اپنے علاقہ کی عادات واطوار کے لحاظ سے چند شرائط کے ساتھ کوئی بھی لباس پہن سکتا ہے کیوں کہ لباس میں اصل جواز ہے، جیساکہ سورہٴ الاعراف آیت نمبر32 میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ لباس اور کھانے کی چیزوں میں وہی چیز حرام ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے۔

دوسرا باب : شرعی لباس کی چند بنیادی شرائط : 
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں علمائے کرام نے لباس کی بعض حسب ذیل شرائط تحریرکی ہیں:
1..مرد حضرات کے لیے ایسا لباس پہننا فرض ہے ،جس سے ناف سے لے کر گھٹنے تک جسم چھپ جائے اور ایسا لباس پہننا سنت ہے جس سے ہاتھ ،پیر اور چہرے کے علاوہ مکمل جسم چھپ جائے۔ عورتوں کے لیے ایسا لباس پہننا فرض ہے،جس سے ہاتھ ،پیر اور چہرے کے علاوہ ان کا پورا جسم چھپ جائے۔ (نوٹ: یہاں لباس کا بیان ہے، نہ کہ پردے کا، غرضیکہ غیر محرم کے سامنے عورت کو چہرا ڈھانکنا ضروری ہے۔ )
2..لباس نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کے خلاف نہ ہو۔ (مثلاً مرد حضرات کے لیے ریشمی کپڑے اور خالص سرخ یا زرد رنگ کا لباس)
3..ایسا تنگ یا خفیف لباس نہ ہو جس سے جسم کے اعضاء نظر آئیں۔
4..مردوں کا لباس عورتوں کے مشابہ اور عورتوں کا لباس مردوں کے مشابہ نہ ہو۔
5..مردوں کا لباس زیادہ رنگین اور عورتوں کا لباس زیادہ خوش بو والا نہ ہو۔
6..مردوں کا لباس ٹخنوں سے اوپرجب کہ عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچے ہو۔
7..کفار ومشرکین کے مذہبی لباس سے مشابہت نہ ہو۔

تیسرا باب: آپ صلى الله عليه وسلم کا پسندیدہ لباس ”سفید پوشاک“ :
امت مسلمہ اس بات پر متفق ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سفید کپڑوں کو بہت پسند فرماتے تھے۔ متعدد احادیث میں اس کا تذکرہ ملتا ہے، یہاں اختصار کی وجہ سے صرف 2حدیثیں ذکر کررہا ہوں:
٭...حضرت عبد اللہ بن عباس  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کپڑوں میں سے سفید کو اختیار کیا کرو،کیوں کہ وہ تمہارے کپڑوں میں بہترین کپڑے ہیں اور سفید کپڑوں میں ہی اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (ترمذی / الجنائز994، ابو داوٴد/ اللباس 4061، ابن ماجہ/ باب ماجاء فی الجنائز، مسند احمد247/1 صحیح ابن حبان)
٭... حضرت سمرہ  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سفید لباس پہنو،کیوں کہ وہ بہت پاکیزہ ، بہت صاف اور بہت اچھا ہے اور اسی میں اپنے مردوں کو کفن دیا کرو۔ (النسائی ۔ الامر بلبس البیض من الثیاب، ترمذی، ابن ماجہ)

زیادہ پاکیزہ اس لیے کہ وہ بہت جلدی میلے ہوجاتے ہیں، اسی لیے زیادہ دھوئے جاتے ہیں،برخلاف رنگین کپڑوں کے، کیوں کہ دیر سے دھوئے جانے کی وجہ سے ان میں زیادہ گندگی ہوتی ہے۔ اچھے اس لیے کہ طبیعت سلیمہ ان کی طرف میلان کرتی ہے۔ (اشعة اللمعات ۔ کتاب اللباس) شیخ فقیہ ابو اللیث سمرقندی (متوفی 373ھ) نے اپنی کتاب ”بستان العارفین“ میں اور فقہ حنفی کی مشہور ومعروف کتاب ”رد المختار“ کے مصنف علامہ شامی نے تحریر کیا ہے کہ رنگوں میں پسندیدہ رنگ سفید ہے اور سفید لباس پہننا سنت ہے۔

چوتھا باب : رنگین لباس کے متعلق آپ صلى الله عليه وسلم کے ارشادات وعمل :
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم زیادہ تر سفید لباس پہنا کرتے تھے، اگرچہ دوسرے رنگ کے کپڑے بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے استعمال کیے ہیں۔ رنگین لباس چادر یا عبایہ یا جبہ کی شکل میں عموماً ہوا کرتا تھا،کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص اور تہہ بند عموماً سفید ہوا کرتی تھی۔

٭...حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کو خالص زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایاکہ یہ کافروں کا لباس ہے اس کو نہ پہنو۔ (مسلم 2077) ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو جلا ڈالو۔

٭...حضرت عمران بن حصین  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: نہ تو میں ارغوانی گھوڑے پر سوار ہوں گا اور نہ پیلے رنگ کے کپڑے پہنوں گا، جوریشمی حاشیہ والے ہوں اور فرمایا کہ خبردار رہو کہ مردوں کی خوش بو وہ خوش بو ہے جس میں رنگ نہ ہو اور عورتوں کی خوش بو وہ خوش بو ہے جس میں خوش بو نہ ہو، رنگ ہو۔ (مشکوة ص 375) ارغوان ایک سرخ رنگ کا پھو ل ہے، اب ہر سرخ رنگ کو ارغوانی کہا جاتا ہے، وہی یہاں مراد ہے۔

٭... حضرت ابی رِمثہ رفاعہ  فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو دو سبز کپڑوں میں ملبوس دیکھا۔ (ابو داوٴد4065، ترمذی2813)

٭...حضرت براء  فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا قد درمیانی تھا۔ ایک مرتبہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو سرخ دھاریوں والی چادر میں ملبوس دیکھا۔ میں نے کبھی بھی اس سے زیادہ کوئی خوب صورت منظر نہیں دیکھا۔ (بخاری 258/10 ومسلم2337)

٭...حضرت انس  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سرخ دھاریوں والی یمنی چادر کو بہت پسند فرماتے تھے۔ (بخاری ومسلم)

وضاحت… بعض روایات میں وارد ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سرخ پوشاک استعمال کی ہے، جبکہ دیگر احادیث میں مردوں کو سرخ اور پیلے کپڑے پہننے سے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ اس بظاہر تضاد کی محدثین وعلماء نے یہ توجیہ بیان کی ہے کہ خالص سرخ یا خالص پیلے کپڑے نہیں پہننے چاہیے، البتہ سرخ یا پیلے رنگ کی دھاریوں والے (یعنی ڈیزائن والے) کپڑے پہنے جاسکتے ہیں۔

پانچواں باب : آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص :
٭...حضرت ام سلمہ  فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلى الله عليه وسلم کو کپڑوں میں قمیص زیادہ پسند تھی۔ (ترمذی 1762، ابو داوٴد4025)

آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص کے جو اوصاف احادیث صحیحہ میں مذکور ہیں ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں :
٭...آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص کا رنگ عموماً سفید ہوا کرتا تھا۔ (ابوداوٴد، ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد، صحیح ابن حبان وغیرہ)
٭...آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص تقریباً نصف پنڈلی تک ہوا کرتی تھی۔ (ابو داوٴد، ابن ماجہ)
٭...آپ صلی الله علیہ وسلم کی قمیص کی آستین عموماً پہونچے تک ہوا کرتی تھی۔ (ابو داوٴد ج2ص203، ترمذی) کبھی کبھی انگلیوں کے سرے تک۔
٭...آپ صلى الله عليه وسلم کی قمیص اور قمیص کی آستین کشادہ ہوا کرتی تھی۔

چھٹا باب : آپ صلى الله عليه وسلم کا عمامہ :
آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمامہ اکثر اوقات سفید ہی ہوا کرتاتھا اور کبھی سیاہ اور کبھی سبز۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا عمامہ عموماً 6۔7 ذراع لمبا ہوا کرتا تھا۔

٭...حضرت عبداللہ بن عمر  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب عمامہ باندھتے تو اسے دونوں کندھوں کے درمیان ڈالتے تھے۔ یعنی عمامہ شریف کا ”شملہ“ دونوں کندھوں کے درمیان لٹکارہتا تھا۔ (مشکوة ص 374)
٭...حضرت جابر  سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اس حال میں مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے سر پر سیاہ عمامہ تھا۔ (مسلم، ترمذی)
٭...حضرت جعفر بن عمرو بن حریث اپنے والد  سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے آپ صلى الله عليه وسلم کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ دیکھا۔ (ترمذی)

نوٹ: شملہ لٹکانا مستحب ہے اور سنن زوائد میں سے ہے۔ شملہ کی کم از کم مقدار چار انگل ہے اور زیادہ سے زیادہ ایک ہاتھ ہے۔

ساتواں باب : آپ صلى الله عليه وسلم کی ٹوپی :
حضور اکرم صلى الله عليه وسلم عموماً سفید ٹوپی اوڑھا کرتے تھے۔ وطن میں آپ صلى الله عليه وسلم سر سے چپکی ہوئی ٹوپی اوڑھا کرتے تھے، البتہ آپ صلى الله عليه وسلم کے سفر کی ٹوپی اٹھی ہوئی ہوتی تھی۔ علامہ ابن القیم  اپنی بلند پایہ کتاب ”زاد المعاد فی ہدی خیر العباد“ میں تحریر کرتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم عمامہ باندھتے تھے اور اس کے نیچے ٹوپی بھی پہنتے تھے، آپ صلى الله عليه وسلم عمامہ کے بغیر بھی ٹوپی پہنتے تھے اور آپ صلى الله عليه وسلم ٹوپی پہنے بغیر بھی عمامہ باندھتے تھے۔ سعودی عرب کے تمام شیوخ کا فتویٰ بھی یہی ہے کہ ٹوپی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی سنت اور تمام محدثین ومفسرین وفقہاء وعلماء وصالحین کا طریقہ ہے ۔نیز ٹوپی پہننا انسان کی زینت ہے اور قرآن کریم (سورہ الاعراف 31) کی روشنی میں نماز میں زینت مطلوب ہے۔ لہٰذا ہمیں نماز ٹوپی پہن کر ہی پڑھنی چاہیے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر  نے اپنے غلام نافع کو ننگے سر نماز پڑھتے دیکھا تو بہت غصہ ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ زیادہ مستحق ہے کہ ہم اس کے سامنے زینت کے ساتھ حاضر ہوں۔ امام ابوحنیفہ  نے ننگے سر نماز پڑھنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے محدث شیخ ناصر الدین البانی  نے بھی اپنی کتاب” تمام المنة“ کے صفحہ164 پر تحریر کیا ہے کہ زیر بحث مسئلہ میں میری رائے یہ ہے کہ ننگے سر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔

آٹھواں باب :آپ صلى الله عليه وسلم کا جبہ :
٭...حضرت اسماء بنت ابوبکر  سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک طیالسی کسروانیہ جبہ مبارک نکالا، جس کا گریبان ریشم کا تھااور اس کے دونوں دامن ریشم سے سلے ہوئے تھے اور فرمایا کہ یہ اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کا جبہ ہے، جو ام الموٴمنین حضرت عائشہ  کے پاس تھا، جب وہ وفات پاگئیں تو اسے میں نے لے لیا۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اسے پہنا کرتے تھے۔ اب ہم اسے بیماریوں کے لیے دھوتے ہیں اور اس سے شفا حاصل کرتے ہیں۔ (مشکوة ص 374)

٭... آپ صلى الله عليه وسلم نے رومی اور شامی اونی جبوں کا بھی استعمال کیا ہے۔ (بخاری ومسلم)

نواں باب : آپ صلى الله عليه وسلم کا ازار (یعنی تہہ بند وپائجامہ وغیرہ) :
ازار اس لباس کو کہتے ہیں جو جسم کے نچلے حصہ میں پہنا جاتا ہے۔ عموماً نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم تہہ بند کا استعمال فرماتے تھے، کبھی کبھی آپ صلى الله عليه وسلم نے پائجامہ بھی استعمال کیا ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کا تہہ بند ناف کے اوپر سے نصف پنڈلی تک رہا کرتا تھا۔ صحابہٴ کرام بھی عموماً تہہ بند استعمال کرتے تھے اور آپ صلى الله عليه وسلم کی اجازت سے پائجامہ بھی پہنتے تھے۔

٭...حضرت ابو سعید الخدری  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کا لباس آدھی پنڈلی تک رہنا چاہیے۔ نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان اجازت ہے۔ لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔ (ابو داوٴد، ابن ماجہ)

٭...حضرت عبد اللہ بن عمر  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص بطور تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر عنایت نہیں فرمائے گا۔ (بخاری 217/10، مسلم 2085)

٭...حضرت ابو ہریرہ  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لباس کا جتنا حصہ ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم کی آگ میں ہے۔ (بخاری 218/10)

٭...حضرت عبد اللہ بن عمر  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لٹکانا تہہ بند ، قمیص اور عمامہ میں پایا جاتا ہے، جس نے ان میں سے کسی لباس کو بطور تکبر ٹخنوں سے نیچے لٹکایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ (ابو داوٴد4094، نسائی 208/8)

٭...حضرت عبد اللہ بن عمر  فرماتے ہیں کہ جو حکم نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے پائجامہ کے متعلق فرمایا وہی حکم قمیص کا بھی ہے۔ (ابو داوٴد)

٭...مذکورہ ودیگر احادیث کی روشنی میں علمائے کرام نے اس مسئلہ کی مذکورہ شکلیں اس طرح تحریر فرمائی ہیں:
نصف پنڈلی تک لباس: نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی سنت
ٹخنوں تک لباس: رخصت یعنی اجازت
تکبر کے بغیرٹخنوں سے نیچے لباس : مکروہ
تکبرانہ ٹخنوں سے نیچے لباس : حرام
عورتوں کا لباس ٹخنوں سے نیچا ہونا چاہیے۔

٭...حضرت عبد اللہ بن عمر  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص بطور تکبر اپنا کپڑا گھسیٹے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جانب نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ حضرت ام سلمہ  نے سوال کیا کہ عورتیں اپنے دامن کا کیا کریں؟ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: وہ (نصف پنڈلی سے) ایک بالشت نیچے لٹکائیں۔ حضرت ام سلمہ  نے دوبارہ سوال کیا کہ اگر پھر بھی ان کے قدم کھلے رہیں؟ تو آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: وہ (نصف پنڈلی سے) ایک ذراع (شرعی پیمانہ جو تقریباً 30 سینٹی میٹر کا ہوتا ہے) نیچے لٹکالیں، لیکن اس سے زیادہ نہیں۔ (ابو داوٴد 4119، ترمذی 1736)

دسواں باب : آپ صلى الله عليه وسلم کے لباس میں میانہ روی:
رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے اعلیٰ وعمدہ وقیمتی لباس بھی پہنے ہیں، مگر ان کی عادت نہیں ڈالی۔ ہر قسم کا لباس بے تکلف پہن لیتے تھے۔

٭...حضرت عبد اللہ بن عمر  فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : جس نے دنیا میں شہرت کا کپڑا پہنا، بروز قیامت اللہ تعالیٰ اسے ذلت کا کپڑا پہنائے گا۔ (ابوداوٴد ۔ باب فی لباس الشہرة)

٭...حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ ہمارے سامنے ام الموٴمنین حضرت عائشہ  نے ایک پیوند لگی ہوئی چادر اور موٹا تہہ بند نکالا ،پھر فرمایا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی روح مبارکہ ان دونوں میں قبض کی گئی۔ (بخاری ج2ص865، مسلم)

٭...ام الموٴمنین حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اکرم انے فرمایا: اے عائشہ! اگر تم مجھ سے ملنا چاہتی ہو تو تمہیں دنیا سے اتنا کافی ہو جیسے سوار مسافر کا توشہ اور امیروں کی مجلس سے اپنے آپ کو بچاوٴ اور کسی کپڑے کو پرانا نہ سمجھو، حتی کہ اس کو پیوند لگالو۔ (ترمذی1780) یہ انتہائی قناعت کی تعلیم ہے کہ پیوند لگے کپڑے پہننے میں عار نہ ہو۔

٭...حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی نعمتوں کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ (ترمذی 2820)
(یعنی اگر مال اللہ تعالیٰ نے دیا ہو تو اچھے کپڑے پہننے چاہییں۔)

٭... حضرت معاذ بن انس روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ڈر سے لباس میں فضول خرچی سے اپنے آپ کو بچایا ،حالاں کہ وہ اس پر قادر تھا تو کل قیامت کے روز اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کے سامنے اس کو بلائے گا اور جنت کے زیورات میں سے جو وہ چاہے گا اس کو پہنایا جائے گا۔ (ترمذی 2483)

٭...حضرت جابر  سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں گندے کپڑے پہنے ہوئے حاضر ہوا۔ آپ انے فرمایا : کیا اس شخص کو کوئی چیز نہیں ملی کہ یہ اپنے کپڑے دھوسکے؟ (نسائی، مسند احمد)

غرضیکہ حسب استطاعت فضول خرچی کے بغیر اچھے وصاف ستھرے لباس پہننے چاہییں۔

گیارہواں باب : لباس کے متعلق آپ صلى الله عليه وسلم کی بعض سنتیں :
دائیں طرف سے کپڑا پہننا سنت ہے:
٭...حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم جب قمیص زیب تن فرماتے تو دائیں طرف سے شروع فرماتے۔ (ترمذی ج1 ص302) اس طرح کہ پہلے دایاں ہاتھ دائیں آستین میں ڈالتے، پھر بایاں ہاتھ بائیں آستین میں ڈالتے ۔

نیا لباس پہننے کی دعا
٭...حضرت ابو سعید الخدری  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلى الله عليه وسلم جب نیا کپڑا پہنتے تو اس کا نام رکھتے، عمامہ یا قمیص یا چادر، پھر یہ دعا پڑھتے: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ اَنْتَ کَسَوْتَنِیْہِ، اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِہِ وَخَیْرِ مَا صُنِعَ لَہ․ُ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَہُ․ اے میرے اللہ! تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے یہ پہنایا، میں اس کپڑے کی خیر اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کی خیر مانگتا ہوں اور اس کی اور جس کے لیے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔ (ابو داوٴد، ترمذی)

پائجامہ پہننے کا طریقہ
٭...آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں ہے کہ پائجامہ /شلوار بیٹھ کرپہنیں۔ بعض احادیث ضعیفہ میں کھڑے ہوکر پائجامہ وغیرہ پہننے پر سخت وعید وارد ہوئی ہے، مثلاً:جس نے بیٹھ کر عمامہ باندھا یا کھڑے ہوکر سراویل (پائجامہ یا شلوار) پہنی تو اللہ تعالیٰ اسے ایسی مصیبت میں مبتلا فرمائے گا جس کی کوئی دواء نہیں۔

یہ حدیث شیخ شاہ عبد الحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب ”کشف الالتباس فی استحباب اللباس“ میں ذکر کی ہے۔ ہمارے علماء کرام ہمیشہ احتیاط پر عمل کرتے ہیں ، لہٰذا احتیاط اسی میں ہے کہ ہم اپنا پائجامہ وغیرہ بیٹھ کر پہنیں اگرچہ کھڑے ہوکر پہننا بھی جائز ہے۔

بالوں کی چادر
٭...حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ایک مرتبہ صبح کو مکان سے تشریف لے گئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن پر سیاہ بالوں کی چادر تھی۔ (شمائل ترمذی )

بارہواں باب : ریشمی لباس کے متعلق آپ صلى الله عليه وسلم کے ارشادات :
ریشمی لباس پہننا مردوں کے لیے حرام ہے، البتہ 2 یا3 یا 4 انگل ریشمی حاشیہ والے کپڑے مردوں کے لیے جائز ہیں۔ نیز خارش اور کھجلی کے علاج کے لیے ریشمی لباس کا استعمال مردوں کے لیے جائز ہے۔
٭...حضرت عمر فاروق  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس مرد نے دنیا میں ریشمی کپڑے پہنے وہ آخرت میں ریشمی کپڑوں سے محروم کردیا جائے گا۔ (بخاری، مسلم)
٭...حضرت عمر فاروق  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دنیا میں صرف وہی مرد ریشمی کپڑے پہن سکتا ہے جس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ (بخاری، مسلم)
٭...حضرت ابوموسی اشعری  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ریشمی کپڑے اور سونے کے زیورات میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔ (ترمذی 1720)
٭...حضرت عمر فاروق  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ریشم کے پہننے سے منع فرمایا ہے، مگر ایک یا دو یا تین یا چار انگلیوں کی مقدار۔ (بخاری/اللباس 5829، مسلم /اللباس والزینہ2069)
٭...حضرت انس  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے حضرت زبیر  اورحضرت عبد الرحمن بن عوف کو خارش کے علاج کے لیے ریشم کے کپڑے پہننے کی اجازت عطا فرمائی۔ (بخاری، مسلم )

تیرہواں باب : لباس میں کفار ومشرکین سے مشابہت :
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عمومی طور پر (یعنی لباس اور غیر لباس میں) کفارو مشرکین سے مشابہت کرنے سے منع فرمایا ہے، چناں چہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہے : جس نے جس قوم سے مشابہت اختیار کی وہ ان میں سے ہوجائے گا۔ (ابو داوٴد 4031)

لباس میں مشابہت کرنے سے خاص طور پر منع فرمایا گیا ہے:
٭...حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص  سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ان کو خالص زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو فرمایاکہ یہ کافروں کا لباس ہے، اس کو نہ پہنو۔ (مسلم 2077)
٭...خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق  نے آذربائیجان کے مسلمانوں کو پیغام بھیجا کہ عیش پرستی اور مشرکوں کے لباس سے بچو۔ (مسلم 2609)

چودہواں باب : مردوں اور عورتوں کے لباس میں مشابہت :
٭...حضرت عبد اللہ بن عباس  روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی لعنت ہو ان مردوں پر جو عورتوں سے (لباس یا کلام وغیرہ میں) مشابہت کرتے ہیں، اسی طرح لعنت ہو ان عورتوں پر جو مردوں کی (لباس یا کلام وغیرہ میں) مشابہت کرتی ہیں۔ (بخاری)






سیرت نبوی ﷺ اور ہمارا طرزِ عمل

  سید الکونین خاتم الابنیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے لے کر وفات تک، بچپن ، جوانی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑھا پا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت، آپ کا معاشرہ، آپ کے عقائد، آپ کے اخلاق، آپ کا رہن سہن غرض یہ کہ زندگی کے ہر مو ڑ اور ہر گوشہ کا نام سیرت ہے۔عقل و فہم اور دینی شعور رکھنے والے کسی بھی مسلمان پر یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ انسانی زندگی کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عالی ذات میں بہترین نمو نہ ہے قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ( الاحزاب ۲۱) اللہ کے رسول میں تمہارے لیے بہترین نمو نہ ہے ۔ نیز امتِ مسلمہ کے لیے آپ کی بے پایاں شفقت ومہر بانی اور مسلمانوں کی خیرو فلاح کے لیے قلبی تڑپ اور جہد مسلسل کے وقیع مضامین سے قرآن وحدیث بھرے ہوئے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں ایک مقام پر ارشاد باری ہے :
          لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُوٴمِنِیْنَ رَوٴُفٌ رَّحِیْمٌ (التوبہ ۱۲۸)
          ترجمہ: تمہارے پاس تمہیں میں سے ایک رسول تشریف لائے ہیں، ان پر تمہاری تکلیف بھاری ہے او روہ تمہاری بھلائی کے حریص ہیں اور ایمان والوں پر نہایت شفیق و مہر بان ہیں۔
          اسی شفقت و مہر بانی کے تعلق سے ایک حدیث ملاحظہ فرمائیں :
          ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم تلا قول اللّٰہ تعالیٰ فی ابراہیم: رَبِّ اِنَّھُنَّ اَضْلَلْنَ کَثِیْراً مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِی فَاِنَّہ مِنِّی وَ قال عیسیٰ اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ فَرَفَعَ یَدَ یْہِ فَقَالَ اللّٰھُمّ أمتی أمتی وَ بَکیٰ فقال اللّٰہ تعالیٰ یا جبرئیل اذھب الیٰ محمد وَرَبُّک اَعْلَمُ فَسْئَلُہ مَا یُبْکِیْکَ فاتاہ جبرئیل علیہ السلام فسالہ فاخبرہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بما قال وھواَ عْلَمُ فَقَالَ اللّٰہ تعالیٰ یا جبرئیل اِذْھَبْ الیٰ محمد فقل اِنَّا سَنُرْضِیْکَ فیِ اُمتک ولا نَسُوئُکَ (رواہ مسلم) ۱/ ۱۱۳)
           حضرت عبد اللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق یہ آیت تلاوت فرمائی رب انھن الخ (کہ میرے پروردگار ان بتوں نے بہت سے لو گوں کو گمراہ کر دیا یعنی ان کی وجہ سے بہت سے آدمی گمراہ ہو گئے، پس جو لوگ میری پیروی کریں وہی میرے ہیں، پس ا ن کے لیے تو میں آپ سے عرض کر تا ہوں کہ ان کو تو ہی بخش دے ۔
          اور عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول بھی تلاوت فرمایا اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ الخ یعنی اے اللہ اگر آپ میری امت کے ان لوگوں کو عذاب دیں تو یہ آپ کے بندے ہیں ( یعنی آپ کو عذاب و سزا کا پورا حق ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لیے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور کہا اے میرے اللہ !میری امت، میری امت ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دعا میں روئے، اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو فر مایا کہ محمد کے پاس جاوٴ؛ اگر چہ تمہارا رب سب خوب جانتا ہے؛ مگر پھر بھی تم جا کر ہماری طرف سے پو چھو کہ ان کے رونے کا سبب کیا ہے ؟ پس جبرئیل آپ کے پاس آ ئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پو چھا آپ نے جبرئیل علیہ السلام کو وہ بتلا دیا جو اللہ سے عرض کیا تھا یعنی اس وقت میرے رونے کا سبب امت کی فکر ہے۔ جبرئیل نے جاکر اللہ تعالیٰ سے عر ض کیا تو اللہ نے جبرئیلکو فرمایا کہ محمد کے پاس جاوٴ اور ان کو ہماری طرف سے کہو کہ تمہاری امت کے بارے میں ہم تمہیں راضی اور خوش کر دیں گے ، اور تمہیں رنجیدہ اور غمگین نہیں کریں گے ۔
          ایک مو قع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اَللّٰھُمَّ اْغْفِرْلِعَائشَةَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِھَا وَمَا اَسَرَّتْ وَمَا اَعْلَنَتْ۔ یہ دعاسن کرحضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہایہاں تک ہنسیں کہ ان کا سر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود کی طرف جھک گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھ کو میری دعا نے خوش کر دیا، عرض کیا حضرت !آپ کی دعاکیوں خوش نہ کر تی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خدا کی قسم ! یہی میری دعا میری تمام امت کے لیے ہر نماز کے بعد ہو تی ہے ۔ (مجمع الزوائد ج/ ۹ص/۲۴۴)
          یہ امت کے فکر وغم اور خیر خواہی کے جذبات سے معمور پیغمبرانہ مزاج تھاجو ہمہ وقت آپ کو مضطرب و بے چین رکھتا تھا ، اور یہ سلسلہٴ شفقت و مہر بانی صرف دنیا کی فانی زندگی تک محدود نہیں بلکہ محشر کے میدان میں بھی، جب ہر انسان ہی نہیں بلکہ ہر نبی نفسی نفسی کے عالم میں ہو گا، کرب و ابتلاء کے عین مو قع پر بھی زبانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم پر ”امتی امتی“ جاری ہو گا ، اور آپ دیگر انسانوں کے ساتھ ساتھ اپنی امت کے حق میں خصو صی شفاعت فرمائیں گے ۔
          پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو امت سے اس قدر محبت و پیار کا تعلق او رہم مسلمانوں کا سنتِ نبوی سے اعراض یقینا یہ انتہائی تشویشنا ک اور تکلیف دہ ہے، اللہ تعالیٰ ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے، جس نبی کو اسوہ بنا کر مبعوث کیا گیا، اس نبیِ رحمت نے زندگی کے کسی بھی گو شہ کو تشنہ نہیں چھوڑا؛ بلکہ کامل و مکمل طریقہ سے تمام شعبوں میں زبانی عملی ہر طرح سے اور ہر سطح سے رہبری فرمائی۔خواہ ان اُمور کا تعلق عبادت سے ہو یا معاملات سے یا معاشرت واخلاقیات سے، زندگی کا ہر مر حلہ اس آفتابِ نبوت کی پاکیزہ و مقدس روشنی سے منور اور روشن ہے، ہماری سب سے بڑی کو تاہی یہ ہے کہ ہم بے عملی کا شکار ہیں، رذیل دنیا کی حرص و طمع کے دبیز پر دوں نے ہمیں پوری طرح سے ڈھانپ رکھا ہے، یہی وجہ ہے کہ منزل کی صحیح سَمت معلوم ہو نے کے باوجود ہم اس پر چلنے سے عاجز و قاصر رہتے ہیں، شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنا محاسبہ خود کریں، اپنی عبادتوں کا جائزہ لیں ہماری نمازیں پیغمبر کی نماز سے میل کھاتی ہیں یانہیں۔ زکوٰة اور رمضان شریف کے روزوں، حج بیت اللہ اور دیگر عبادتی کاموں میں ہم اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ کو کتنا ملحوظ رکھتے ہیں ۔ اسی طرح معاملات کودیکھیں کہ اس میں ہم کس حد تک پیغمبرانہ اسوہ کو اختیار کیے ہوئے ہیں ، یاغیروں کے بنائے ہوئے اُصول اور ان کے بے برکت طریقے اختیار کر تے ہیں، معاملات کی صفائی و شفافیت کے متعلق نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات و ہدایات پر ہمیں کتنا اعتماد ہے، اخلاق و معاشرت کے پہلو سے بھی ہم اپنے طر زِ عمل پر نظر ڈالیں ، اخلاق نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری خصلتیں اور مزاج کتنا متاثر ہے ۔
          حرص و طمع، کینہ و حسد، حبِ جاہ ، حبِ مال، عجب وریا، کذب وخیانت ، غرور و گھمنڈ ، غصہ اور بخل جیسی خسیس اور گھٹیا عادتوں سے ہم عملی طور پر کتنی نفرت کر تے ہیں اور اخلاقِ عالیہ تواضع و انکساری توبہ واستغفار ، انس و محبت، زہد و توکل صبرو شکر، حلم و بر دباری ، صدق و اخلاص، احسان و رضا، شرم وحیا ، ہمدردی و رحم دلی، جیسے بلند اوصاف سے ہماری طبیعت کتنی مانوس ہے اور قت آ نے پر ان دو متضاد راہوں میں سے ہم کس راہ کو اختیار کر تے ہیں ۔ اسی طرح اپنی معاشرتی زندگی کا بھی جائزہ لیں اور بہت سنجیدگی سے محاسبہ کریں کہ قبیلہ و خاندان اعزاء و اقرباء پڑوسیوں اور دیگر لو گوں کے ساتھ رہن سہن اور گزر بسر کے سب طریقے ہمارے اچھے ہیں ؟ اپنی بستی و محلہ اور گھروں میں محبت و موانست کی فضا ہے ، یا نفرت و بیز اری کا ماحول ہے؟ خوش مزاجی ، بڑوں کی عزت و عظمت ، چھو ٹوں کے ساتھ شفقت و محبت ، ماتحتوں کے ساتھ حسنِ سلوک وروا داری ، لو گو ں کی خطا و لغزش معاف کر نا کمزوروں کی مدد کر نا مہمانوں کی ضیافت ، بھو کوں کو کھانا کھلانا ،مظلو موں کی مدد اور ہر شخص کے ساتھ محبت و شفقت کا معاملہ کر نے میں ہماری زندگی کا کتنا حصہ گزرا کہ جس کی بنیاد پر معاشرہ میں آد می ایک محترم اور بلند کر دار انسان کہلانے کا حق دار ہو جاتا ہے ، یہ بلند کر داری غیروں میں بھی اس کو با عزت مقام دیتی ہے ۔
           خلاصہ یہ ہے کہ ہم اپنا بھی محاسبہ کریں اور اپنے اہل وعیال کا بھی جائزہ لیں، آج ہمارے بچوں کو موبائل فون، ٹیلی ویژن وغیرہ کے ذریعہ کر کٹ کھیل کی معلومات ، کھلاڑیوں کے نام اور مختلف صوبوں، ملکوں میں کھیلے گئے میچوں کا رکارڈ ، فلموں کی اسٹوریاں وغیرہ خوب یاد رہتی ہیں۔اگر یاد نہیں تو پیغمبر علیہ الصلوٰة والسلام کے حالات اور ان کی سیرت یا دنہیں ، ا س میں یقینا بنیادی طور پر قصور ہمارا ہے ۔
           ہمیں خود سیرتِ طیبہ کا پتہ نہیں، اس سے یکسر غفلت ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کے نہ تو احوال ہمیں یاد ہیں اور نہ جاننے کی فکر ہے؛ البتہ زبانی محبت کا دعویٰ خوب ہو تا ہے سید الکو نین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نعوذ باللہ کوئی خبیث النفس شرارت کر دے تو ہمارا خون کھولنے لگتا ہے، ضرور کھولنا چاہیے اور اس پر جتنا بھی غصہ آ ئے کم ہے؛ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی دیکھیں کہ پیغمبر علیہ السلام کے ساتھ ہم نے خود کیا تعلق قائم کر رکھا ہے۔ ہماری زندگی سنتوں سے کس قدر معمورہے، ہمیں اس کا محاسبہ کر نے کی ضرورت ہے، ہمارے بچوں کے اندر نبی علیہ السلام کی سیرت کا کتنا چر چا ہو تا ہے ، ہمارے گھروں میں سنتیں کتنی زندہ ہیں؟
          اس کا سہل و مجرب طریقہ یہ ہے کہ صبح بیدار ہو نے سے سونے تک روز مرہ کی دعائیں یاد کی جائیں، بچوں کو بھی یاد کرائیں، اس مو ضوع کی اُردو ، ہندی مختلف زبانوں میں کتابیں بازار میں ملتی ہیں، ان کو ہم پڑھیں، اپنے اہل و عیال میں سنائیں، اسی سے ایک ماحول بنے گا اور سنتوں پر عمل کا داعیہ پیدا ہو گا، انشاء اللہ ہماری سیرت و صورت، عادات واخلاق سنتوں کے پاکیزہ رنگ میں رنگین ہو جائیں گے اور زندگی کے ہر مو ڑ اور ہر مر حلہ میں ہم پیارے نبی کی سیرت طیبہ کو اپنا اسوہ بنا کر زندگی گزاریں تو بلا شبہ دونوں جہاں میں سر خ روئی کا باعث ہو گا ،اور اس کے صالح اثرات نہ صرف یہ کہ ہماری زندگیوں میں ہی ظاہر ہوں گے؛ بلکہ ہماری نسلوں کو بھی اس کا فائدہ پہو نچے گا ، انشاء اللہ ۔
          اللہ رب العزت ہم سب کو عمل کی تو فیق سے نوازے اور اپنی عارضی و فانی زندگی کے ہر مر حلہ میں سنتِ نبوی کو پیشوا بنانے کے لیے ہمیں منتخب فرمائے کہ سیرت طیبہ کا اصل یہی پیغام ہے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت و تعلق اور ایمانی جذبہ کا یہی تقاضہ ہے اور اسی میں فلاحِ دارین ہے۔


”الشمائل النبوية والخصائص المصطفوية“ للامام الترمذی

ایک مطالعہ
شمائلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر گفتگو سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کی دو جہتیں ہیں، جو ہمیں دعوت وفکر ونظر فراہم کرتی ہیں، ان میں سے ایک یہ کہ تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بنیادی امتیازات کیا ہیں؟ اوران میں کتنی وسعت وہمہ گیری ہے، دوسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ظاہری وباطنی خط وخال کیاتھے؟ اور ان میں اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات میں کتنی ہم آہنگی اور توازن تھا؟ ان میں سے پہلی چیز کو تعلیماتِ نبوی سے موسوم کیا جاتا ہے اور دوسری کو سیرت نبوی اور شمائل نبوی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔

شمائل کی لغوی واصطلاحی تعریف:

          شمائل جمع ہے ”الشِّمال“ کی جیساکہ ”لسان العرب“ میں مذکور ہے، الشمال: الخُلُق، والجمع ”الشمائل“۔
          شمائل جمع ”الشمال“ معنی: طبیعت، عادت، سیرت، جیساکہ بولتے ہیں ”لیس مِنْ شِمالی أنْ أعْمَلَ بِشِمَالي“ (المنجد اردو مکتبہ مصطفائیہ، دیوبند)
          جمع الوسائل موٴلفہ ”ملا علی قاری“ میں شمائل کی وضاحت ان الفاظ میں مذکور ہے:
          سُمِّيَ الکتابُ بِالشَمائِل بالیاء جمع شِمالٍ بالکسر بمعنی الطبیعةِ، لا جمعُ شمأل
          اصطلاح میں ”شمائل“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق واحوال اور عادات کو کہتے ہیں اور بالفاظ دیگر ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم“ کے اخلاق وعادات، فضائل وشیم اور شب وروز کے معمولات کی تفصیلات کا نام ہے۔(۱)

مطالعہٴ سیرت ---- مقصد واہمیت:

          تاریخ شاہد ہے کہ ہرزمانے میں مسلمانوں نے اپنے ہادیٴ اعظم اوراپنے پیغمبرِ خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے سلسلے میں جو اعتناء کیا ہے، اس کی نظیر نہیں مل سکتی اور یقینا یہ سعادت اورامتیاز صرف اس امت کو حاصل ہے اور بقول علامہ شبلی نعمانی:
”مسلمانوں کے اس فخر کا قیامت تک کوئی حریف نہیں ہوسکتا کہ انھوں نے اپنے پیغمبر کے حالات اور واقعات کا ایک ایک حرف اس استقصا کے ساتھ محفوظ رکھا کہ کسی شخص کے حالات آج تک اس جامعیت اور احتیاط کے ساتھ قلم بند نہیں ہوسکے اور نہ آئندہ توقع کی جاسکتی ہے۔“(۲)
          آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت نگاری کا مقصد یہ نہیں ہے کہ محض تاریخی حیثیت سے لوگ اسے پڑھیں اور جانیں؛ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داستانِ حیات ”رستم وسہراب“ کا قصہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی خیالی کردار ہے اور اسی طرح اس کا مقام یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم اسے علم وادب کی تفریحی چوپال کا موضوع بنائیں؛ بلکہ اس کا عظیم مقصد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن اور اوصافِ حمیدہ واخلاقِ فاصلہ کا مطالعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ورضا حاصل کرنے کے لیے کیاجائے، جیساکہ قرآن کا واضح پیغام ہے: ”انْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِيْ“ ۔ (آل عمران:۳۱)
          اسی کے پیش نظر آپ کی حیاتِ مبارکہ پر ان گنت کتابیں لکھی گئیں اور لکھی جاتی رہیں گی؛ تاکہ دنیا کے سامنے فضائلِ اخلاق کا ایک آئیڈیل رہے، جیساکہ علامہ شبلی رقم طراز ہیں:
”سب سے زیادہ صحیح، سب سے زیادہ کامل، سب سے زیادہ علمی طریقہ یہ ہے کہ نہ زبان سے کچھ کہا جائے، نہ تحریری نقوش پیش کیے جائیں، نہ جبر وزور سے کام کیا جائے؛ بلکہ فضائلِ اخلاق کا ایک پیکرِ مجسم سامنے آجائے جو خود ہمہ تن آئینہٴ عمل ہو، جس کی ہر جنبشِ لب ہزاروں تصنیفات کا کام دے اور جس کا ایک ایک اشارہ اوامر سلطانی بن جائے، دنیا میں آج اخلاق کا جو سرمایہ ہے سب ان ہی نفوسِ قدسیہ کا پرتو ہے، دیگر اور اسباب صرف ایوانِ تمدن کے نقش ونگار ہیں۔“(۳)
          اب مطالعہٴ سیرت کے جو اہم اور خاص مقاصد ہیں، انھیں نکات کی صورت میں پیش کیاجاتا ہے؛ تاکہ اس کی افادیت پوری طرح عیاں ہوجائے۔
          ۱- انَّ الدَّارِسَ لِسِیْرَةِ الرَّسولِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقِفُ عَلی التَّطْبِیْقِ العَلَمِيِّ لِلرَّسولِ صلی اللہ علیہ وسلم وَأصْحَابِہ لأحکامِ الاسْلاَمِ التي تَضَمَّنَتْہا الآیاتُ القرآنیةُ والأحادیثُ النبویةُ الشریفةُ في مَجالاتِ الحیاةِ المُخْتَلِفَةِ
          ۲- انَّ الاقتداءَ بِرَسُوْلِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقْتَضِيْ مَعْرِفَةَ شَمَائِلہ وَأجْوَالہ وَدَلاَئِلِ نُبوتہ وخَصَائِصِہ صلی اللہ علیہ وسلم في المَجالاتِ المُختَلِفةِ، مَنْ عَرَفَ شَمَائِلَہوأحوالَہ المذکورةَ وَأحَبَّہ واقْتَدیٰ بہ․․․․
          ۳- انَّ الاقْتِدَاءَ بِرَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَأتباعِہ دَلِیْلٌ عَلٰی مَحَبَّةِ الْعَبْدِ ربَّہ، وَسَیَنَالُ الْعَبْدُ مَحَبَّةَ اللّٰہِ لَہ․․․
          ۴- أنَّ خَصَائِصَ النَّبِي صلی اللہ علیہ وسلم لاَ تَُعْرَفُ الاَّ فِي ضَوْءِ مَعْرِفَةِ سِیْرَتہ
          ۵- یَجِدُ الْمَرْءُ فِيْ سِیْرَةِ الرَّسُولِ مَا یُعِیْنُہ عَلٰی فَہْمِ کتابِ اللّٰہِ تعالٰی وسُنَّةِ رَسُوْلِہ صلی اللہ علیہ وسلم(۴)
          مندرجہ بالا اقتباس کا خلاصہ یہ ہے کہ مطالعہٴ سیرت کا مقصد یہ ہے کہ آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ کی عملی صورت ہمارے سامنے آسکے؛کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا و اتباع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال وحالات کی معرفت کی غماز ہوتی ہے اور سب سے بڑا فائدہ اس کا یہ ہے کہ قرآن وسنت کا اصلی فہم نصیب ہوتا ہے۔
          امتِ مسلمہ کا یہ وصفِ ممتاز ہے کہ اس نے اپنے قائدِ اعظم اور محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم سے حد درجہ لگاؤ وانسیت کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کے حالات محفوظ کرلی ہے۔ مثلاً ہر موقع کے افعال واقوال، رفتار و گفتار، عادات واطوار، معاملات ومجاہدات اور ملبوسات وغیرہ۔
          اسی اسوئہ حسنہ کی آئینہ دار شمائلِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آپ کے شمائل کی دو حیثیتیں ہیں، ایک خَلقی اور دوسرے خُلقی۔
          خلقی سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر کے اندر کون کون سے اوصافِ جمیلہ ودیعت کیے گئے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کی بناوٹ اور ساخت کس انداز کی تھی؟ اور خُلقی سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے؟ گھر کے لوگوں کے ساتھ ”خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَہْلہ وَأنَا خَیْرُکُمْ لِاَہْلِيْ“ کی عملی صورت کیا تھی اورنیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے شبانہ روز کے معمولات کیا تھے؟(۵)
          آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے ہرپہلو اورہر گوشے کو محفوظ کرنے کی کیا حکمت کار فرما تھی؟ اسے مندرجہ ذیل اقتباس سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال، وضع وقطع، شکل وشباہت، رفتار وگفتار، مذاقِ طبیعت، اندازِ گفتگو، طرزِزندگی، طریقِ معاشرت، اکل وشرب، نشست وبرخاست اور سونے جاگنے کی ایک ایک ادا محفوظ کرلی گئی، اور اس سے قدرتی طور پر یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ دیگر مذاہب کے اصول وتعلیمات وقتی تھے۔ ابدی نہ تھے۔“(۶) قرآن کریم نے اس ابدیت اور حکمت کویوں اعلان کیا : ”وَمَا أرْسَلْنَاکَ الاَّ رَحْمَةً لِلْعَالَمِیْن“ (الانبیاء:۱۰۷)

عصرِ حاضر میں اسوئہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت ومعنویت:

          عصرِ حاضر میں اس کی اہمیت ومعنویت دو چندہوگئی ہے۔ جہاں پر اسلام دشمن طاقتیں اسلام کو مٹانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر خر دہ گیری کررہی ہیں، غرض یہ کہ شرارِ بولہبی چراغِ مصطفوی کو خاکستر کردینا چاہتی ہے؛ لیکن اس شرارے میں انشاء اللہ وہ خود بھسم ہوجائے گی    ع
خاک ہوجاتے ہیں سورج کو بجھانے والے
          ایسے پرفتن حالات میں دنیا کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو جدید اسلوب میں اعلیٰ ماخذکی روشنی میں شائع کرنا وقت کی اہم ضرورت اور آواز ہے اور ایسا کرنا عصرِ حاضر میں ناگزیر بھی ہے؛ تاکہ دنیا کو یہ معلوم ہوسکے کہ نبیِ برحق اور اخلاق کے پیکر کا اصلی چہرہ یہ ہے،نہ کہ جو اسلام دشمن مصنّفین اور میڈیا دنیا کے سامنے پیش کررہا ہے، اس کی تازہ مثال ۱۱/۹ کی برسی پر ۹/ستمبر ۱۰ء کو ”پیری جونس“ کی شرارت کے جواب میں بعض اسلامی تنظیم کی جانب سے وہاں پر ایک پروگرام منعقد ہوا، جس میں اعلیٰ پیمانے پر قرآن تقسیم کیاگیا اور دو ہفتے کے مختصر وقفے میں ۱۵۰ سے زائد لوگ مشرف بہ اسلام ہوگئے۔ اور یہ ”وَعَسیٰ أنْ تَکْرَہُو شَیْئاً وَہُوَ خَیْرٌ لَکُمْ وَعسیٰ أنْ تُحِبُّوا شَیْئاً وَہُو شَرٌ لَکُمْ“۔ (البقرہ:۲۱۶) کی بہترین مثال ہے یعنی ہر شر میں خیر کا پہلو یہ سنتِ الٰہی ہے، ذرا سا صبر اور ہوش مندی سے کام لینے پر اس کے خوش گوار اور دور رس نتائج سامنے آتے ہیں۔ کسی کے حاشیہٴ خیال میں نہیں تھا کہ اس موقع پر ”جونس“ کی بیٹی کا یہ ریمارک سامنے آئے گا۔ ”میرا باپ پاگل ہوگیا ہے“ (راشٹریہ سہارا اردو ۱۷/ستمبر۱۰ء) اس موقع پر مشہور سیرت نگار مولانا نعیم صدیقی کا یہ اقتباس لائق تحسین ہے:
”حق یہ ہے کہ اصل مجرم ہم خود ہیں اورہم ہی محسنِ انسانیت کی شخصیت، پیغام اور کارنامے کو دنیا سے بھی اوجھل رکھنے والے ہیں اور اپنی نگاہوں سے بھی چھپانے والے ہیں۔ آج محسنِ انسانیت کی ہستی کا ازسر نو تعارف کرانے کی ضرورت ہے اوریہ خدمت شاید جوہری توانائی کے انکشاف سے بڑی خدمت ہوگی۔“(۷)
          قرآن کریم نے آفتاب کو سراج سے تعبیر کیا ہے، اور اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ مبارکہ کو سراج کہا ہے جس کی ہدایت ورحمت کی روشنی سے تمام کرئہ ارض کی ظلمتیں کافور ہوگئیں؛ کیونکہ یہ سند رب العالمین کی بارگاہ سے آپ کو ملی ہے۔
          انَّا اَرْسَلْنَاکَ شَاہِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِیْرًا وَدَاعِیاً الی اللّٰہِ بِاذْنِہ وَسِرَاجاً مُنِیْرًا․ (الاحزاب:۴۵-۴۶)
اے پیغمبراسلام ہم نے تم کو دنیاکے آگے حق کی گواہی دینے والا، سعادتِ انسانیت کی خوش خبری پھلانے والا، اللہ کی طرف اس کے حکم سے اس کے بندوں کو بلانے والا اور دنیا کی تاریکیوں کے لیے ایک چراغِ نورانی بناکر بھیجا ہے۔(۸)
          دنیا میں جس قدر بادشاہ ہوئے ہیں، اگر ان کے کارناموں کا جائزہ لیاجائے تو اس کا ماحصل یہی ہوگا کہ جو جس قدر بڑا بادشاہ تھا اتنا ہی زیادہ انسانوں کو غلام بنانے والا تھا اور اتنا ہی وہ انسانوں کی بربادی ونحوست کا باعث بنا۔ مثلاً سکندر دنیائے قدیم کا سب سے بڑا فاتح (Victor) تھا اور اس کے خمیر میں یہ شامل تھا کہ وہ تمام دنیا سے اپنے تخت کی پوجا کرائے گا اور اگر آج دنیا اسے یاد کرے تویہ یاد کن واقعات کی یاد تازہ کریں گے۔ بقول مولانا ابوالکلام آزاد ”یہ دنیا کی ویرانیوں، ہلاکتوں اور غلامیوں کی لعنتوں کا ایک بہت بڑا سرمایہ ہوگا۔ جو اسے ہاتھ آئے گا“ حضرتِ موسیٰ علیہ السلام کی حیاتِ مقدس کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مصر کی ایک جابروظالم گورنمنٹ کے پنجہٴ استبداد سے بنی اسرائیل کو نجات دلائی․․․․ حضرت مسیح نے کہا کہ میں صرف تورات کو قائم کرنے آیا ہوں، خود کوئی نئی دعوت نہیں لایا ہوں․․․ اور گوتم بدھ کی تمام تعالیم ووصایا کا ماحصل یہ بتلایا جاتا ہے کہ ”نجات دنیا کے ساتھ رہ کر حاصل نہیں ہوسکتی۔“(۹)
          اسی طرح سے قرآن کریم نے اگر کسی نبی یا رسول کے اسوہ کو کامل اسوہ قرار دیا ہے تو وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہے۔ ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِي رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ“ (الاحزاب:۲۱)
          آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے نمونہ ہے اورتمام شعبہٴ زندگی میں آپ کا نمونہ ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے، جیساکہ آپ کی کاملیت کی تصویر کشی علامہ سیدسلیمان ندوی نے اس طرح کی ہے:
”کوئی زندگی خواہ کسی قدر تاریخی ہو، جب تک وہ کامل نہ ہو ہمارے لیے نمونہ نہیں بن سکتی، کسی زندگی کا کامل اور ہر نقص سے بَری ہونا اس وقت تک ثابت نہیں ہوسکتا جب تک اس کی زندگی کے تمام اجزاء ہمارے سامنے نہ ہوں۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہرلمحہ پیدائش سے لے کر وفات تک ان کے زمانے کے لوگوں کے سامنے اور ان کی وفات کے بعد تاریخ عالم کے سامنے ہے، ان کی زندگی کا کوئی مختصر سے مختصر زمانہ بھی ایسا نہیں گزرا جب وہ اپنے اہلِ وطن کی آنکھوں سے اوجھل ہوکر آئندہ کی تیاری میں مصروف ہوں۔“(۱۰)
تنگ آجائے گی خود اپنی چلن سے دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ ترے انداز کبھی
(کیفی مرحوم)

شمائل ترمذی کا ایک طالب علمانہ جائزہ:

          اہل علم کے نزدیک گوترمذی کا درجہ صحیحین کے بعد ہے؛ لیکن اس کی بعض خصوصیات کی بنا پر اس کا افادہ صحاح کی تمام کتابوں سے بڑھ کر ہے، چنانچہ شیخ الاسلام اسماعیل ہروی رقم طراز ہیں کہ:
”ترمذی“، بخاری اور مسلم سے زیادہ فائدہ بخش ہے، ان دونوں کتابوں سے صرف صاحب کمال اور صاحب نظر فائدہ اٹھاسکتے ہیں اور ترمذی میں احادیث کی ضروری شرح بھی کردی ہے۔ اس لیے محدثین اور فقہاء وغیرہ ہر طبقہ کے لوگ مستفید ہوسکتے ہیں۔(۱۱)
          امام ترمذی نے شمائل ترمذی کے لیے وہی اعتنا کیاہے جو انھوں نے سنن ترمذی کے لیے کیاہے، ہمارے پیشِ نظر اس کا ایک علمی جائزہ مقصود ہے؛ اس لیے قدرے تفصیل سے بات آگے بڑھے گی؛ تاکہ پوری بحث کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
          یہ کتاب مختصر ضرور ہے؛ لیکن اپنی جامعیت کے اعتبار سے بے نظیرہے، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا پورا مرقع، سامنے آگیا ہے؛ چنانچہ صاحب ”مواہب لدنیہ“ جو شمائل ترمذی کے محشی ہیں لکھتے ہیں کہ امام ترمذی کی ”جامع“ تمام حدیثی اور فقہی فوائد اور سلف وخلف کے مذاہب کی جامع ہے، مجتہد کے لیے کافی ہے اور مقلد کو دوسری کتابوں سے بے نیاز کرنے والی ہے اورجس گھر میں یہ جامع ہوتو گویا اس گھر میں نبی بات کررہا ہے ، ”قَالَ المصنِّفُ مَنْ کانَ فِي بَیتہ ہَذا الکتابُ یَعنِي جامِعَہ فَکأَنَّما فِي بیتہ نبیٌ یَتَکَلُّمُ“(۱۲)
          شمائل ترمذی کے بعداس موضوع پر اور بھی کتابیں لکھی گئی ہیں؛ لیکن ان میں اولیت کا سہرا امام ترمذی کے سر جاتا ہے، کہ انھوں نے سب سے پہلے اس موضوع پر کتاب لکھی، کشف الظنون میں شمائل ترمذی کے علاوہ دو اور ”کتابوں کا نام ملتا ہے، ایک ابوالعباس جعفر بن محمد المستغفری المتوفی ۴۳۲ھ کی ”شمائل النبی“ ہے اور دوسری ابوالحسن علی بن محمد بن ابراہیم فزاری المعروف بہ ابن المقری غرناطی المتوفی۵۵۲ہجری کی ”شمائل بالنور الساطع الکامل“ ہے۔(۱۳)
          اسی طرح سے اور محدثین اور علمائے عظام کی کتابیں اس موضوع پر ملتی ہے مثلاً :
          (۱) دلائل النبوة ومعرفة احوال الشریعہ - ابوبکر البیہقی (المتوفی ۴۵۸ھ)۔
          (۲) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ - قاضی عیاض (المتوفی ۵۴۴ھ)، یہ کتاب شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی تعلیق کے ساتھ دمشق سے شائع ہوئی ہے اور دوجلدوں پر مشتمل ہے، الانوار فی شمائل النبی المختار - حسین بن مسعود البغوی (المتوفی ۵۱۶ھ)۔
          (۳) احوال النبی صلی اللہ علیہ وسلم - د․مہران ماہر عثمان نوری۔
          (۵) اخلاق النبی صلی اللہ علیہ وسلم وآدابہ - ابن حبان الاصفہانی (المتوفی ۳۶۹ھ)، یہ کتاب عبداللہ محمد الصدیق العمادی کی تحقیق کے ساتھ ۱۹۵۹ء میں قاہرہ سے شائع ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد کتابیں اس مسئلہ پر لکھی گئی ہیں، ”مشتے نمونہ از خروارے“ کے طور پر ان ہی چند پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
          امام ترمذی کی شمائل کو جو قبولیت حاصل ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ امام ترمذی نے شمائل کے اس مجموعہ میں ان تمام روایتوں کو جانچ پرکھ کر قلم بند کیا ہے اور ساری روایتوں کو معتبر اور صحیح سندوں کے ساتھ جمع کیا ہے اور یہ اپنی گوناگوں افادیت کے پیشِ نظر آج مدارس اسلامیہ کے نصاب میں شامل ہے اور بہت سے علماء و محدثین نے اس کی شرحیں لکھی ہیں، چند مشہور شرحیں یہ ہیں:
          ۱-       اشرف الوسائل فی شرح الشمائل: حافظ ابن حجر مکی (م۹۷۳ھ)
          ۲-       شرح شمائل: مصلح الدین محمد بن صلاح بن جلال اللاری ۹۷۹ھ
          ۳-       زہرالحمائل علی الشمائل: حافظ جلال الدین السیوطی
          ۴-       جمع الوسائل: نورالدین علی بن سلطان محمد القاری المعروف بہ ملا علی قاری (م۱۰۱۶ھ)
          ۵-       شرح شمائل: مولانا عصام الدین اسفرائنی (م۹۴۳ھ)
                   اس کا قلمی نسخہ مصر اور خدابخش لائبریری پٹنہ میں موجود ہے۔
          ۶-       مختصر الشمائل: الشیخ ناصرالدین البانی۔(۱۴)
          اسی طرح اردو میں بھی اس کی کئی مشہور شرحیں متداول ہیں، جیسے(۱) انوارمحمدی ترجمہ شمائل ترمذی مترجمہ مولانا کرامت علی جون پوری، پہلی بار یہ شرح ۱۲۵۲ھ میں بہ زبان ہندی یعنی قدیم اردو جواس زمانے میں رائج تھی محمدی چھاپہ خانہ کلکتہ سے شائع ہوئی تھی۔ اور یہ کتاب ایک طرح سے کمیاب تھی اوراس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانا دقت طلب تھا، اس لیے مولانا مجیب اللہ ندوی نے تصحیح اور نظرثانی کے بعداگست ۱۹۹۶ء ندوة التالیف والترجمہ جامعة الرشاد، اعظم گڈھ سے جدید ایڈیشن شائع کیا۔
          (۲) خصائص نبوی ترجمہ شمائل ترمذی شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی نے اس کا ترجمہ وتشریح بڑے دل نشیں انداز میں پیش کیا ہے اور ساتھ ہی اکابر کے افادات کو جمع کردیا ہے اور یہ شرح۱۳۴۴ھ میں شائع ہوئی۔
          (۳) شرح شمائل ترمذی یہ مولانا عبدالقیوم حقانی کی سلیس اردو زبان میں ہے اور نیز لغوی اور تحقیقی افادات پر مشتمل جامع شرح ہے، ”القاسم اکیڈمی“ جامعہ ابوہریرہ، خالق آباد، نوشہرہ، سرحد پاکستان سے۲۰۰۲ء میں شائع ہوئی ہے۔
          (۴) تلخیص شمائل الترمذی ڈاکٹر ابرار اعظمی نے عام لوگوں کے لیے اسناد کو حذف کردیا ہے اور مولانا کرامت علی کے لفظی ترجمہ کو بنیاد بناکر سلیس اردو زبان میں پیش کیاہے، ”نونہال اکیڈمی“ خالص پور اعظم گڈھ سے ۲۰۰۴ء میں شائع ہوئی ہے۔
          اس مفصل گفتگو کے بعداب شمائل میں آنے والی روایات میں سے چند روایتوں کو پیش کیاجاتا ہے اور ان کا مقابلہ صحیحین اور موطا امام مالک کی روایتوں سے کیاجاتا ہے، تاکہ اوپر جو دعویٰ کیا گیا ہے کہ امام ترمذی نے روایتوں کو جانچ پرکھ کر اس مجموعے کو تیار کیاہے، اس کو بدلائل ثابت کیاجائے؛ تاکہ شمائل ترمذی کی اہمیت ومقام کا صحیح اندازہ ہوسکے۔
          امام ترمذی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدوخال کے سلسلہ میں ”باب ما جاء فی خُلقِ رسولِ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم“ کے ضمن میں مختلف اکابر صحابہ کی روایات درج کی ہیں، ان روایتوں میں پہلی روایت انس بن مالک سے مروی ہے اور بعینہ اسی روایت کو امام مالک نے اپنی موطا میں درج کیاہے؛ لیکن امام موصوف نے موطا کے ”کتاب الجامع“ میں ایک باب ”ماجاء فی صِفَةِ النبی صلی اللہ علیہ وسلم“ کے تحت اس روایت کو نقل فرمایا ہے، وہ حدیث یہ ہے: ”حَدَّثَنِي عَنْ مالکِ بْنِ عَنْ ربیعةَ بِن أبِي عبدِ الرحمٰنِ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أنَّہ سَمِعَہ یَقُوْلُ کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْسَ بِالطَّوِیْلِ البَائِنِ وَلاَ بِالْقَصِیْرِ وَلاَ بِالأبیضِ الأمْہَقِ وَلاَ بِالأدمِ وَلاَ بِالْجعْدِ القَطَطِ وَلاَ بِالسِبْطِ بَعَثَہ اللّٰہُ تعالٰی عَلٰی رأسِ أربعینَ سنةً فَأقَامَ بِمَکةَ عَشَرَ سِنِیْنَ وَبِالمَدِیْنَةِ عَشَرَ سِنِیْنَ فَتَوفَّاہُ اللّٰہُ تعالٰی علی رأسِ سِتّیْنَ سَنَةً وَلَیْسَ فِيْ رَأسِہ وَلِحْیَتِہ عِشْرُوْنَ شَعْرَةً بَیْضَاءَ صلی اللہ علیہ وسلم“ (۱۵)
          اسی طرح سے امام ترمذی نے ”باب ما جاءَ فی شَعْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم“ کے تحت چند احادیث درج کی ہیں، ان میں سے دو حدیث امام مسلم نے ”باب الفضائل“ کے ضمن میں باب صفة شعر النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان کے تحت جمع کیا ہے، وہ روایات درج ذیل ہیں:
          ۱- حَدَّثَنَا یَحییٰ وأبو کُریبٍ قَالَا حَدَّثَنا اسْمَاعِیلُ ابنُ علیة عن حُمید عن انسٍ قال کان شَعْرُ رسولِ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم الی أنْصَافِ أذُنَیْہِ(۱۶)
          امام ترمذی نے جو روایت درج کی ہے اس کے الفاظ میں معمولی سا فرق ہے، مثلاً اسی روایت کو اس طرح درج کیاہے: ”․․․․ عَنْ أنسٍ أنَّ شَعرَ رَسولِ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کان الی أَنصافِ أذُنَیْہ“(۱۷)
          ۲- حدَّثنا قتادةُ لِأنسِ بْنِ مالکٍ کیفَ کان شَعرُ رسولِ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال کان شَعراً رجلاً لیس بالجَعْدِ ولا السَبْطِ بَینَ اُذنیہ وعاتِقِہ․(۱۸)
          اسی روایت کو امام ترمذی نے تھوڑے سے فرق کے ساتھ جمع کیا ہے مثلاً  ”عَنْ قتادةَ قال قلتُ لِأنَسٍ کیفَ کان شَعْرُ رسولِ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قال لَمْ یکنْ بِالجَعْدِ ولاَ بِالسبطِ کان یَبْلُغُ شعرُہ شَحمةَ أذنَیْہ (۱۹)
          امام ترمذی نے ”باب ماجاء فی وفاة رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم“ کے تحت کئی روایتیں حضرت عائشہ ام المومنین کے حوالے سے درج کی ہیں۔ یہاں پر دو روایتیں بخاری شریف سے اس سلسلے میں نقل کی جاتی ہیں جو کہ حضرت عائشہ ہی سے مروی ہیں:
          ۱- ”حدثنا ابن ہشامِ بنِ عُروةَ عن عُبادةَ بنِ عبدِاللّٰہِ بنِ الزُّبیرِ أنَّ عائشة أخبرَتْہُ اَنَّہا سَمِعَتِ النبيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَصْغَتْ الیہِ قَبْلَ أنْ یَمُوتَ وَہُوَ مُسنَد الی ظہرِہ یقول ”اللّٰہم اغْفِرلِي وَارْحَمْنِي وَاَلْحِقْنِي بالرفیق“۔(۲۰)
          ۲- حدَّثَنا عَنْ مُسلم حدَّثنا شعبةُ عن سَعْدٍ عن عُروةَ عن عائشةَ قالت لَمَّا مَرِضَ النبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم المرضَ الذي ماتَ فیہ جَعَلَ یقولُ ”فی الرفیق الأعلی“(۲۱)
          مندرجہ بالا دونوں روایتیں شمائل ترمذی میں ان الفاظ میں حضرت عائشہ ہی سے بھی مذکور ہیں؛ البتہ پہلی روایت کے الفاظ قدرِ مختلف ہیں، مثلاً  ”عن عائشةَ قالت کنتُ مسندةَ النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی صَدْرِي أوْ قَالَتَا الٰی حِجْرِي․․․“(۲۲)
          عن القاسم بنِ محمدٍ عَنْ عائشہ أنہا قالت رأیتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو بالموتِ․․․ ثم یقول اللّٰہمَّ أعني عَلیٰ منکرَّاتِ أو قال عَلی سَکَرَاتِ الموتِ(۲۳)
ولیعلم الطالبُ أن السیر           تَجْمَعُ ما صَحّ وما قد اُنْکِرا
(حافظ زین الدین عراقی)
          یعنی طالب علم کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ سیرت صحیح اور غیر صحیح روایات کا مجموعہ ہوتی ہے، حافظ عراقی کے اس ریمارک سے صاف واضح ہے کہ مرورِ وقت کے ساتھ علماء میں یہ ایک عام خیال پیدا ہوگیا تھا کہ فضائل ومناقب میں روایتوں کے سلسلے میں تحقیق وتنقید کی چنداں ضرورت نہیں ہے؛ لیکن امام ترمذی نے انتہائی احتیاط وجرح وتعدیل کے بعد ایک ایسا مجموعہ تیار کیا ہے ”جس میں تمام روایتوں کے معتبر اور صحیح ہونے کا خصوصی التزام کیاگیا ہے“(۲۴) البتہ صحاح ستہ میں جن کتابوں میں شمائل سے بحث کی گئی ہے، ان کی مزید روایات کا باہمی موازنہ ومقابلہ کرکے ان کے مجموعہ کی اہمیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔
          امام ترمذی شمائل میں ۹۷ صحابہ اور صحابیات کی روایت نقل کی ہیں، ان روایتوں میں سب سے زیادہ تفصیل حضرت حسن اور حسین کی اس روایت میں، جو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب ہند ابی ہالہ سے کی ہے، اس کے بعدحضرت علی، حضرت انس اور حضرت عائشہ کی روایات مذکور ہیں، امام حسنین جب ہند ابی ہالہ سے روایت نقل کرتے تھے تو ہند بن ابی ہالہ کا تذکرہ ان الفاظ سے کرتے تھے ”کانَ وَصّافاً للنبی صلی اللہ علیہ وسلم“ یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ آپ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ کرنے والے۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ تھے۔(۲۵)

ترتیب ابواب کی معنویت:

          شمائل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے آب دار موتی اور اسوئہ کاملہ کے لعل وگہر یوں تواحادیث وسیر کی دوسری کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں؛ لیکن ان بکھرے ہوئے لعل وگہر کو قرینے سے جس طرح امام ابوعیسیٰ ترمذی نے ایک لڑی میں پرویا ہے، یہ ان ہی کا حصہ ہے اور اس سلسلہ میں اولیت ان ہی کو حاصل ہے۔
          شمائل ترمذی کے ابواب پر نظرغائرڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی نے اس شمائل کے مجموعہ کو حد درجہ مہارت وقابلیت سے جمع کیاہے، ایک ہی نگاہ میں ایک کامل شخصیت کے جو بنیادی خدوخال ہوسکتے ہیں،سامنے آجاتے ہیں؛ چنانچہ پیدائش سے لے کر وفات تک کے احوال کو ایک گلدستہ کی شکل میں جمع کردیا ہے، مثلاً گلدستہ کی ہرکلی اورہر پھول کو وہیں پر رکھا ہے جہاں پر وہ مناسب تھا۔
          بالفاظ دیگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کے ہر گوشے کی تصویرکشی ایسی دل کش انداز میں کی ہے، جیسے شمائلِ نبوی ایک خوبصورت چمن ہو اور اس چمن میں ہر پھول وہیں پر قرینے سے سجائے گئے ہیں، جہاں پر وہ مناسب تھے۔ اور ایک مثال سے ترتیبِ ابواب کی ہم معنویت کو واضح کرنا چاہتے ہیں، شمائلِ محمدی ایک خوبصورت البم ہے اور اس البم میں مختلف تصویروں کو اس خوش سلیقگی سے اور نفاست سے سنوارا گیا کہ کہیں سے کوئی نقص دکھائی نہیں دیتا؛ بلکہ اس کا ایسا سما جاذبِ نظر ہے کہ کہنا پڑتا ہے   ع
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں

عام مسلمانوں پر شمائل کے اثرات وفوائد

          آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل ایک انسان ہی کی نہیں؛ بلکہ ایک انسان ساز کی داستان ہے، غارِ حراء سے لے کر غارِثور تک، حرمِ کعبہ سے لے کر طائف کے بازار تک، ازواجِ مطہرات کے حجروں سے لے کر میدانِ جنگ تک وسیع وعریض ہے اور بقول نعیم صدیقی ”اس کے نقوش بے شمار افراد کی کتابِ حیات کے اوراق کی زینت ہیں، ابوبکر وعمر، عثمان وعلی، عمار ویاسر، خالد وخویلد اور بلال وصہیب رضوان اللہ علیہم اجمعین، سب کے سب ایک ہی کتابِ سیرت کے اوراق ہیں۔(۲۶)
          محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ سے صحابہٴ کرام اور اولیائے عظام کے علاوہ عام لوگ بھی قیامت تک استفادہ کرتے رہیں گے اور پوری انسانیت نورِ محمدی سے فیض یاب ہوتی رہے گی اور اس سچائی کا اعتراف تاریخ ان لفظوں میں کرتی رہے گی اور بقول سیدسلیمان ”غرض دنیا کے اسٹیج پر ہزاروں قسم کی زندگیوں کے نمونے ہیں، جو بنی آدم کی عملی زندگی کے لیے سامنے ہیں؛ لیکن بتاؤ کہ ان مختلف اصنافِ انسانی میں سے کسی کی زندگی نوع ِانسانی کی سعادت، فلاح اور ہدایت کی ضامن اور کفیل اور اس کے لیے قابلِ تقلید نمونہ ہیں؟۔(۲۷)
***
مراجع
(۱)         سیرت نبوی کے قدیم واولین مآخذ اوران کا تنقیدی جائزہ از ڈاکٹر تقی الدین ندوی، معارف دارالمصنّفین، ص۴۴، جون۸۱ء۔
 (۲)       علامہ شبلی نعمانی، سیرة النبی، ج۱،ص۲۴، مکتبہ مدنیہ لاہور ۱۴۰۸ھ۔
(۳)         علامہ شبلی نعمانی، سیرة النبی، ج۱،ص۱۸، مکتبہ مدنیہ لاہور۱۴۰۸ھ۔
(۴)         الدکتور مہدی رزقہ اللہ احمد ”السیرة النبویہ فی ضوء المصادر الأصلیہ، دارامام الدعوہ للنشر والتوزیع، الریاض ۱۴۲۴ھ۔
(۵)        مولانا کرامت علی جون پوری،انوارمحمدی ترجمہ شمائل ترمذی، ص۹، ندوة التالیف والترجمہ، جامعة الرشاد اعظم گڈھ، جدید ایڈیشن، اگست ۱۹۹۶ء۔
(۶)        معارف، ص۴۳، جون۸۱۔
(۷)        محسنِ انسانیت، نعیم صدیقی، ص۷۱-۷۲، مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی، مارچ ۱۹۹۵ء۔
(۸)        مقالاتِ ابوالکلام آزاد، ص۴۳، اعتقاد پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی۔
(۹)        ایضاً، خلاصہ ۳۴-۴۲۔
(۱۰)       خطباتِ مدارس، ص۷، سید سلیمان ندوی، دارالمصنّفین اعظم گڈھ۔
(۱۱)        مولانا ضیاء الدین اصلاحی، تذکرة المحدثین، ج۱،ص۳۲۶، دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی اعظم گڈھ۔
(۱۲)       مواہب لدنیہ، ص۷، شیخ ابراہیم البیجوپوری، طبع ندارد۔
(۱۳)       حاجی خلیفہ کشف الظنون، طبع ندارد، ج۲، ص۶۷۔
(۱۴)       تذکرة المحدثین، ج۱،ص۳۴۱ و ۳۴۲۔
(۱۵)       موطا امام مالک، کتاب الجامع باب ما جاء فی صفة النبی، حدیث نمبر ۳۴۰۳۔
(۱۶)       الصحیح لمسلم کتاب الفضائل باب صفة شعر النبی، ص۶۲۱۵، المکتبہ الشاملہ، سعودی عربیہ۔
(۱۷)       شمائل للترمذی، ص۴، باب ما جاء فی شعر رسول اللہ۔
(۱۸)       الصحیح لمسلم، کتاب الفضائل باب صفة شعر النبی، حدیث نمبر ۶۲۱۳۔
(۱۹)       شمائل للترمذی، ص۴، باب ما جاء فی شعر رسول اللہ۔
(۲۰)       الصحیح للبخاری، حدیث ۴۴۴۰، الجزء السادس باب مرض النبی، المکتبة الشاملہ، سعودی عربیہ۔
(۲۱)       ایضاً، حدیث ۴۴۳۶۔
(۲۲)       شمائل للترمذی باب ما جاء فی وفات رسول اللہ، ص۲۸۔
(۲۳)      ایضاً۔
(۲۴)      معارف جون ۸۱ء، ص۴۴۲۔
(۲۵)      شمائل للترمذی ، ص۲، باب ما جاء فی خلق رسول اللہ۔
(۲۶)       نعیم صدیقی، محسنِ انسانیت، مرکزی مکتبہ اسلامی ۱۹۹۵ء۔
(۲۷)      خطباتِ مدراس، ص۱۶، سید سلیمان ندوی، زکریا بک ڈپودیوبند ۱۹۹۶ء۔
***


نبی اکرم ﷺ کی مکّی زندگی اورمصائب وآلام

از: مولانا خورشید عالم دائود قاسمی

 

 

         اللہ سبحانہ وتعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ۴۰؍سال کی عمر میں نبوت ورسالت سے سرفراز فرمایا۔ نبوت سے نوازے جانے کے بعد، آپﷺ  ۱۳؍سالوں تک مکّہ مکرمہ میں رہے۔ یہ زمانہ آپﷺ  کی مکی زندگی کہلاتا ہے۔ آپﷺ  نے مکی زندگی میں ، تین سالوں تک خفیہ طور پر، اپنے قریبی لوگوں کے سامنے اسلام پیش کیا۔ پھر آپﷺ نے دس سال تک،کھلم کھلا اشاعتِ اسلام کا کام کیا۔ اس کے بعدآپﷺ یثرب ہجرت کرگئے۔ اشاعتِ اسلام کی وجہہ سے کفارِ مکہ آپ ﷺ  کے جانی دشمن ہوگئے۔جوں جوں لوگ آپﷺ کے دستِ حق پرست پر اسلام کی بیعت کرتے رہے اوراسلام کی شعائیں پھیلتی رہی، کفارومشرکین کے غیض وغضب میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ مسلمان جو کچھ حیثیت رکھتے تھے یا ان کا کوئی حامی ومددگارتھا،  ان پر کفار ومشرکین  اپنے غصے اور ظلم وجور کا اظہار کرنے سے قاصروعاجز تھے؛ مگر جو مسلمان غریب ونادار تھے، ان کا کوئی حامی ومددگار نہ تھا اور نہ وہ خود کوئی خاندانی وقبائلی حیثیت رکھتے تھے، ان پر کفار ومشرکین نے ظلم وستم کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا۔ کفار نے ان کو طرح طرح سے پریشان کیااور ستایا؛ مگر ان کے ایمان میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا رہا۔ نبی اکرمﷺ کے دادا، پھر چچا ابوطالب قریش کی نظر میں بڑے شرف واعزاز کے مالک سے تھے اور آپﷺ کی خاندانی اور قبائلی وجاہت واہمیت بھی سب کے نزدیک مسلم تھی؛ اس لیے آپﷺ پر حملہ آور ہونا، ایک بڑی جنگ کو دعوت دینا تھا؛ اس لیے کچھ لوگ آپﷺ کو گزند پہونچانے سے گریز کرتے تھے؛ مگر اس کے باوجود بھی بہت سے حرماں نصیبوں نے نبی اکرمﷺ کو طرح طرح سے ستایا اور آپﷺ کومختلف مصائب وآلام سے دوچار ہونا پڑا۔  ذیل میں آپﷺ  کو  ’’مکی زندگی میں پیش آنے والے مصائب وآلام میں سے چند‘‘ پر، ہم نظر ڈالتے ہیں ۔

ساحر وکاہن

         جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوّت و رسالت کا اعلان نہیں کیا تھا، اس وقت آپﷺ   مکّہ میں ایک عقل مند ودانشور، امین وصادق اور اچھے انسان سے جانے جاتے تھے۔ جب آپﷺ  نے اپنی نبوت کا اعلان کیا؛ تو لوگوں نے آپﷺ  کوجادوگر اور کاہن وساحر  جیسے معیوب لقب سے مشہور کرنے کی کوشش کی؛ تاکہ لوگ آپﷺ  کے قریب نہ آئیں اور آپﷺ  کی باتیں نہ سنیں ؛ مگر اللہ نے جن کے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، ان حضرات کو اس کا کوئی اثر نہیں ہوا؛ بل کہ تکلیف ومشقت برداشت کرکے، آپﷺ  کے پاس تشریف لاتے تھے اور جلوۂ انوار ربّانی سے اپنے قلوب کو منور کرکے جاتے تھے۔

         کفار ومشرکین جب نبی اکرمﷺ  کے کسی معجزہ کا مشاہدہ کرتے؛ تو اسے قبول کرنے کے بجائے یہ کہتے کہ یہ ایک جادو ہے جو ابھی ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وَإِنْ یَرَوْا آیَۃً یُعْرِضُوا وَیَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ‘‘۔ (سورہ قمر:۲) ’’اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں ؛ تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہوا جاتا ہے‘‘۔ یعنی یہ جادو کا اثر ہے جو دیر تک نہیں چلا کرتا، خود ہی گزر جائے گا اور ختم ہوجائے گا۔ (معارف القرآن:۸/۷۲۲)

         ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے: ’’وَعَجِبُوا أَنْ جَائَہُمْ مُنْذِرٌ مِنْہُمْ وَقَالَ الْکَافِرُونَ ہَذَا سَاحِرٌ کَذَّابٌ‘‘۔ (سورہ ص:۴) ترجمہ:’’اور ان کفار (قریش) نے اس بات پر تعجب کیا کہ ان کے پاس ان (ہی) میں سے (یعنی جو ان کی طرح بشر ہے) ایک (پیغمبر) ڈرانے والا آگیا (تعجب کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی جہالت سے بشریت کو نبوت کے منافی سمجھتے تھے) اور (اس انکار رسالت میں یہاں تک پہنچ گئے کہ آپ کے معجزات اور دعوی نبوت کے بارے میں ) کہنے لگے کہ (نعوذ باللہ) یہ شخص (خوارق عادت کے کے معاملہ میں ) ساحر اور (دعوی نبوت کے معاملے میں ) کذّاب ہے‘‘۔

         حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے بھائی انیس کی زیارتِ مکہ اور اللہ کے رسولﷺ  سے ملاقات کی کہانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’میں نے اس  (انیس) سے پوچھا:تم نے (مکہ میں ) کیا کیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے مکہ میں ایک ایسے شخص (محمدﷺ ) سے ملاقات کی جو تمہارے دین پر ہے۔ اسے (اس بات کا) یقین ہے کہ اللہ نے اسے (رسول بناکر) بھیجا ہے۔ میں نے پوچھا:ان کے بارے میں لوگوں کا کیا خیال ہے؟ انھوں نے فرمایاکہ لوگ کہتے ہیں کہ (وہ) شاعر، کاہن اور ساحر ہے؛ جب کہ انیس (خود) ایک شاعر تھے۔ انیس نے کہا میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے، مگر (اس کا) کلام کاہنوں کی بات (جیسا ) نہیں ہے۔ میں نے ان کے کلام کو شعر کے بحروں پر پرکھا،؛ تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد نہیں جڑے گا شعر کی طرح۔ خداکی قسم وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں ۔ (مسلم شریف، حدیث:۲۴۷۳)

مجنون ودیوانہ

         نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا قابل ولائق انسان، جس نے کبھی کسی غیرمناسب کام کا ارتکاب نہیں کیا، لوگوں کے ساتھ شبّ وشتم سے بات نہیں کی اور کسی بڑے اور چھوٹے کے احترام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی؛مگراعلان نبوت کے بعد، کفارنے انھیں مجنون ودیوانہ کہنا شروع کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس نے اس عظیم معلمِ انسانیت، رہبر ِرشد وہدایت  اور عقل ودانش کے مینار کو مجنون  ودیوانہ کہا وہ خود مجنون ، پاگل، دیوانے،معاند ومتعصب اورسرکش وہٹ دھرم تھے۔

         اللہ تعالی نے ان کی حقیقت کو واشگاف کرتے ہوئے فرمایا: ’’أَنَّی لَہُمُ الذِّکْرَی، وَقَدْ جَائَہُمْ رَسُولٌ مُبِینٌ، ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْہُ، وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ‘‘۔ (سورہ دخان:۱۴-۱۲) ان کو (اس سے ) کب نصیحت ہوتی ہے (جس سے ان کے ایمان کی توقع کی جاوے)؛ حال آں کہ (اس سے قبل) ان کے پاس ظاہرشان کا پیغمبر آیا۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے سرتابی کرتے رہے اور یہی کہتے رہے کہ کسی دوسرے بشر کا سکھایا ہوا ہے (اور) دیوانہ ہے۔ (معارف القرآن، ج:۷، ص:۷۵۹)

         اللہ تعالی نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’وَقَالُوا یَا أَیُّہَا الَّذِی نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ إِنَّکَ لَمَجْنُونٌ‘‘۔ (سورہ حجر:۶) اور ان کفار (مکہ) نے(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے یوں کہا کہ اے وہ شخص جس پر (اس کے دعوے کے مطابق) قرآن نازل کیا گیا ہے، تم (نعوذ باللہ) مجنوں ہو (اور نبوت کا غلط دعوی کرتے ہو)۔

         روایت میں ہے کہ ضمادرضی اللہ عنہ مکّہ مکرمہ آئے، ان کا تعلق (قبیلہ) ازدشنوء ہ سے تھا۔ وہ جنوں اور آسیب وغیرہ کا جھاڑ پھونک کرتے تھے۔ انھوں نے مکہ کے چند بیوقوفوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ محمدﷺ  مجنون ہیں ۔ تو انھوں نے کہا کہ میں اس شخص کو دیکھوں ، شاید اللہ ان کو میرے ہاتھ سے شفا عطا فرمائے! وہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے ان سے ملاقات کی اور کہا: اے محمدﷺ ! میں جنون کو جھاڑتا ہوں اور اللہ تعالی میرے ہاتھ سے جس کو چاہتا ہے شفا دیتا ہے۔ تو کیا آپﷺ  کی خواہش ہے (کہ آپ جھڑوائیں )؟ پھر اللہ کے رسولﷺ  نے فرمایا: ’’سب تعریفیں اللہ کے لیے ہے۔ ہم اسی ذات کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ۔ جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں شہادت  دیتا ہوں کہ اللہ کے سوائے کوئی معبودنہیں ، وہ یکتا ہے اور اس کا کوئی ساجھی نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اب حمدوشہادتین کے بعد، جو چاہو کہو‘‘! وہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ آپﷺ  اپنے ان کلمات کو پھر سے کہیں ! چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو تین بار ان کے سامنے دہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا:میں نے کاہنوں کی باتیں ، جادوگروں کے اقوال اور شعرا کے اشعار سنے ہیں ؛ مگر میں نے آپﷺ  کے ان کلمات کے مثل نہیں سنا۔ یہ کلمات تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں ۔ پھر ضماد نے کہا:اپنا ہاتھ لائے میں اسلام کی بیعت کرتا ہوں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ پھر انھوں نے بیعت کی۔ پھر اللہ کے رسولﷺ  نے فرمایا:’’اور میں تمہاری قوم کی بھی بیعت لیتا ہوں ‘‘۔ انھوں نے کہا:(ہاں ) میری قوم کی طرف سے (بھی)۔ (مسلم شریف، حدیث: ۸۶۸)

بازار ذوالمجاز میں آپﷺ  پر ابو لہب کی سنگ باری

         طارق بن عبد اللہ المحاربی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے اللہ کے رسولﷺ  کو بازار ’’ذی المجاز‘‘ میں دیکھا؛ جب کہ میں خرید وفروخت میں مشغول تھا۔ آپﷺ  سرخ جبہ زیب تن کیے ہوے تھے اور بلند آواز سے یہ فرماتے جاتے تھے: ’’اے لوگو! لا الہ اللہ کہو، فلاح پاؤگے‘‘۔ ایک شخص آپ کے پیچھے پیچھے پتھر مارتا جاتا تھا، جس سے آپ کی پنڈلی اور ایڑی خون آلود ہوگئے۔ وہ شخص ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا: ’’اے لوگو!اس کی بات نہ سننا یہ جھوٹا ہے‘‘۔ محاربی فرماتے ہیں کہ میں سے پوچھا کہ یہ شخص  (آپﷺ )کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ لڑکا بنی عبد المطلب سے ہے۔ (پھر) میں پوچھا:وہ شخص کون ہے جو اس کا پیچھا کررہا ہے اور پتھر مار رہا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا یہ آپﷺ  کا چچا  عبد العزی یعنی ابو لہب ہے۔ (مصنف ابن أبی شیبہ، حدیث:۳۶۵۶۵)۔

بازار ذوالمجاز میں آپﷺ  پر ابوجہل کا مٹی پھینکنا

         بنو مالک بن کنانہ کے ایک شیخ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسولﷺ  کو بازار ’’ذی المجاز‘‘ میں دیکھاکہ یہ فرماتے تھے: ’’اے لوگو! لا الہ اللہ کہو، فلاح پاؤگے‘‘۔ راوی فرماتے ہیں کہ ابوجہل آپﷺ  پر مٹی پھینکتا تھا اور یہ کہتا تھا:اے لوگو! خیال رکھنا یہ شخص تم کوتمہارے دین کے حوالے سے دھوکہ نہ دیدے؛ کیوں کا اس کا ارادہ ہے کہ تم لات وعزی کو چھوڑ دو! جب کہ رسول اللہ ﷺ   اس کی طرف ذرہ برابر بھی التفات نہیں فرماتے تھے۔ (مسند احمد، حدیث:۱۶۶۰۳)

اونٹ کی اوجھڑی آپﷺ  کی پشت پر

         ایک دفعہ نبی کریمﷺ  کعبہ شریف کے پاس نماز ادا کررہے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی (وہاں ) بیٹھے تھے۔ان میں سے بعض نے بعض سے کہا:تم میں سے کون ہے جو فلاں قبیلے کی اونٹنی کی اوجھڑی لائے اور جب محمدﷺ   سجدے میں جائیں ؛ تو وہ اسے اس کی پشت پر رکھ دے؟ عقبہ بن ابی معیط جو نہایت ہی بدبخت، شقی القلب اور ملعون تھا، وہاں سے اٹھا اور وہ غلاظت لے کر آیا۔ پھر وہ آپﷺ  کے سجدہ کرنے کا انتظار کرنے لگا۔ جب آپﷺ  نے سجدہ کے لیے اپنے چہرہ مبارک کو زمین بوس کیا؛  تو اس نالائق نے اس اوجھڑی کو آپﷺ  کے پیٹھ پر کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔ آپﷺ   اس کے بوجھ کی وجہ سے اٹھ نہیں پارہے تھے۔ سجدہ کی ہی حالت میں پریشان تھے۔ دوسری طرف ابو جہل اور اس کے بے غیرت ساتھی سب کے سب ہنسنے اور ٹھٹھا مارنے لگے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے؛ مگر اپنی کمزوری وضعف اور ان ظالموں کے خوف سے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے سے عاجزتھے۔ پھر آپﷺ  کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئی اور اس کو آپﷺ  کے پشت مبارک سے ہٹایا۔ (صحیح بخاری، حدیث:۲۴۰/ ۳۱۸۵/۳۸۵۴)

سودے بازی کی کوشش

         کفار قریش نے محمدﷺ  کوقتل کرنے کے لیے سودے بازی کی بھی کوشش کی۔ کفار نے چاہا کہ عمارہ بن ولید کو ابوطالب کے سپرد کردیں اور اس کے عوض، ابوطالب محمدﷺ   کو ان کے حوالے کردیں ؛ تاکہ وہ آپﷺ   کو قتل کردیں ؛ چناں چہ کفار قریش نے ابوطالب کی خدمت میں عرض کیا:

         ’’اے ابو طالب! یہ (عمارہ) قریش کا سب سے بانکا اور خوب صورت نوجوان ہے۔ آپ اسے لے لیں ۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حق دار ہوں گے۔ آپ اسے اپنا لڑکا بنالیں ۔ یہ آپ کا ہوگا اور اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالے کردیں ، جس نے آپ کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی ہے، آپ کی قوم کا شیرازہ منتشر کررکھا ہے اور ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار بتلاتا ہے۔ ہم اسے قتل کریں گے ۔ بس یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے‘‘۔ ابو طالب نے کہا:  ’’خدا کی قسم! کتنا بُرا سودا ہے جو تم لوگ مجھ سے کررہے ہو! تم اپنا بیٹا مجھے دیتے ہو کہ میں اسے کھلاؤں پلاؤں ، پالوں پوسوں اور میرا بیٹا مجھ سے طلب کرتے ہو کہ اسے قتل کردو۔ خداکی قسم! یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔  (الرحیق المختوم، ص:۱۴۰)

ابوجہل کا آپﷺ  کے قتل کا ارادہ

         ایک دن ابوجہل نے قریشیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ محمدﷺ  ہمارے دین میں عیب نکالتا ہے۔ہمارے آباء واجداد اور معبودوں کی توہین کرتا ہے؛ ا س لیے میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ کل ایک بھاری پتھر لے کر بیٹھوں گااور جب وہ سجدہ کرے گا تو اسی پتھر سے اس کا سر کچل دوں گا ۔۔۔۔ جب صبح ہوئی تو وہ ویسا ہی پتھر جیسا کہ اس نے بیان کیا تھا، لے کر انتظار میں بیٹھ گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  آئے جیسا کہ آیا کرتے تھے۔۔۔۔ پھر  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نماز میں مشغول ہوگئے۔۔۔۔ جیسے ہی آپﷺ   سجدے میں گئے، ابو جہل نے پتھر اٹھاکر، آپﷺ  کی طرف بڑھا۔ جب وہ آپﷺ  کے قریب ہوا؛ توشکست خوردہ حالت میں لوٹا، اس کا رنگ فق تھا اور وہ ایسا مرعوب تھا کہ اس کے دونوں ہاتھ، اس کے پتھر سے چپک گئے تھے کہ وہ بمشکل اپنے ہاتھ سے پتھر پھینک سکا۔

         قریش کے کچھ لوگ اس کے پاس آئے اور پوچھنے لگے: ’’اے ابوجہل! تمھیں کیا ہوا؟‘‘ اس نے کہا: ’’میں  نے گزشتہ رات جو بات کہی تھی، وہی کرنے کے لیے کھڑا ہوا تھا؛ جب میں ان کے قریب پہنچا؛ تو ایک اونٹ آڑے آگیا۔ خدا کی قسم!  میں کبھی بھی کسی اونٹ کی کھوپڑی، گردن اور دانت اس اونٹ کی طرح نہیں دیکھا۔ وہ مجھے کھانا چاہ رہا تھا‘‘۔ (سیرت ابن ہشام۱/۲۹۸-۲۹۹)

گردن مبارک میں کپڑے کا پھندا

         مکہ کے کفار ومشرکین آپﷺ  کو آرام سے نماز بھی ادا نہیں کردینے دیتے تھے۔ آپﷺ  نماز میں ہوتے توکبھی وہ آپﷺ  کی پشت مبارک پر اونٹ کی ولادت کے وقت نکلنے والی غلاظت ڈالتے، تو کبھی آپﷺ  کے مبارک گردن میں کپڑے کا پھندا لگاتے۔ بخاری شریف میں ایک روایت ہے:

         حضرت عروہ بن زبیررحمہ اللہ نے (عبد اللہ) ابن عمرو بن عاص (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا: مجھے اس سخت ترین تکلیف سے باخبر کیجیے جس سے مشرکین نے آپﷺ   کو دوچار کیا۔ انھوں نے فرمایا:ایک بار نبیﷺ  حطیم میں نماز ادا کررہے تھے، اچانک عقبہ بن ابی مُعَیط آیا اور آپﷺ  کی گردن میں  اپنا کپڑا ڈال دیا۔  پھر اس نے سخت طریقے سے آپ رضی اللہ عنہ کا گلا گھونٹا۔ پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے عُقبہ کا مونڈھا پکڑا اور اس کو نبیﷺ   سے ہٹایا اور فرمایا: ’’کیا تم مارڈالوگے ایک شخص کو اس وجہ سے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟‘‘ (سورہ غافر:۲۸) (صحیح بخاری، حدیث:۳۸۵۶)

سر اور ڈاڑھی کے بال کھینچنا

         مشرکوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور ڈاڑھی کے بال پکڑکیاتنے زور سے کھینچے کہ آپﷺ  کے اکثر بال اکھڑ گئے۔ (سیرت حلبیہ اردو، ج:اول نصف آخر:۲۷۶)

آپﷺ   کی بیٹیوں کو طلاق

         نبی اکرمﷺ  کی دو صاحبزادیاں :حضرت امّ کلثوم اور رقیّہ رضی اللہ عنہما  کا نکاح، دشمنِ اسلام، ابو لہب کے دو لڑکے:عتیبہ اور عتبہ سے ہو چکا تھا؛ لیکن یہ نکاح صرف نکاح ہی تھا۔ ابھی رخصتی باقی تھی۔’’سورۃ لہب‘‘ کے نزول کے بعد، آپﷺ   کو بے عزت کرنے کی نیت سے، ابو لہب اور اس کی بیوی نے اپنے لڑکوں کو یہ حکم دیا کہ وہ آپﷺ  کی صاحبزادیوں کو طلاق دیدے؛ چناں چہ انھوں نے ان کو طلاق دے دی۔

         امام طبرانی قتادہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی عتیبہ بن ابی لہب کے ساتھ ہوئی تھی۔  حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا کی شادی، اس کے بھائی عتبہ بن ابی لہب کے ساتھ ہوئی تھی۔ جب اللہ تعالی نے تبت یدا أبی لَہب (سورہ لہب) نازل فرمائی؛ تو ابو لہب نے اپنے دونوں بیٹوں :عتیبہ اور عتبہ کو کہا: ’’اگر تم نے محمدﷺ  کی بیٹیوں کو طلاق نہ دی؛ تو تم دونوں کے سر کے لیے میرا سر حرام ہے‘‘۔ ان دونوں کی ماں :بنت حرب بن امیّہ نے کہا: ’’یہی ایندھن اٹھانے والی ہے کہ تم دونوں انھیں طلاق دے دو؛ کیوں کہ وہ دونوں صابی (اپنا دین بدلے ہوئے) ہیں ‘‘؛ چناں چہ ان دونوں نے انھیں طلاق دے دی۔ (تفسیردرّمنثور۸/۶۶۷)

         طلاق کا عمل جیسا کہ آج  کے کچھ شریف گھرانوں میں ، بڑی بے عزتی کی بات سمجھا جاتا ہے، اسی طرح اس وقت بھی عرب سماج کے شریف گھرانوں میں ، طلاق کو بے عزتی سمجھا جاتا تھا۔ پھر ایک ایسے باپ  کے لیے جو شرافت کا اعلی نمونہ ہو اور اس کی دو لڑکیوں کو بیک وقت طلاق ہوجانا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں ؛ جب کہ وہ باپ ہر طرف سے مصائب وآلام جھیل رہا ہو؛ توکتنے تکلیف کا باعث ہوسکتا ہے،اسے بیان کرنا مشکل ہے۔

تین سالہ  معاشرتی بائیکاٹ

         کفار قریش نے مل جل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ: ’’اس نے ہماری اولاد اور ہماری عورتوں تک کو ہم سے برگشتہ کردیا ہے‘‘۔ پھر ان لوگوں نے آپﷺ  کے خاندان والے سے کہا: ’’تم ہم سے دوگنا خون بہا لے لو اور اس کی اجازت دے دو کہ قریش کا کوئی شخص اس کوقتل کردے؛ تاکہ ہمیں سکون مل جائے اور تمھیں فائدہ پہنچ جائے‘‘۔ جب کفار قریش کی یہ تجویز منظور نہیں ہوئی؛ اس پر انھوں نے غصہ میں آکر یہ طے کیا کہ بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب، جو نبی اکرمﷺ  کے مددگار تھے، کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے اور انھیں شعب ابوطالب نامی گھاٹی میں محصور اور مقید کردیا جائے۔

         ایک روایت کے مطابق یہ بھی طے پایا کہ:’’نہ بنی ہاشم کی لڑکیوں کو بیاہ کر لاؤ اور نہ اپنی لڑکیوں کی ان کے یہاں شادی کرو، نہ ان کو کوئی چیز فروخت کرو اور نہ ان سے کوئی چیز خریدو اور نہ ان کی طرف سے کوئی صلح قبول کرو‘‘۔ چناں چہ جب بھی مکے میں باہر سے کوئی قافلہ آتا؛ تو یہ مجبور اور بے کس لوگ فوراً ان کے پاس پہنچتے؛ تاکہ ان سے کھانے پینے کا کچھ سامان خرید لیں ؛ مگر جب بھی ایسا ہوتا تو فورا وہاں ابولہب پہنچ جاتا اور کہتا کہ ’’دام اتنے بڑھادو کہ وہ تم سے کچھ نہ خرید سکیں ‘‘۔ پھر تاجر کی طرف سے ایسا ہی ہوتا؛ لہٰذا لوگ مایوس ہوکر، اپنے بچوں کے پاس واپس آجاتے، جو بھوک سے بیتاب تڑپتے اور بلکتے ہوتے تھے اور ان کو خالی ہاتھ دیکھ کر، وہ بچے سسک سسک کر رونے لگتے تھے۔

         اس گھاٹی میں مسلمانوں نے بڑا سخت وقت گزارا۔ قریش کے بائیکاٹ کی وجہ سے ان کو کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی تھی، لوگ بھوک سے بے حال ہوگئے؛ یہاں تک کہ گھاس پھونس اور درختوں کے پتے اور چمرے کھا کھا کر گزارہ کرنے لگے۔ یہ سلسلہ مستقل تین سالوں تک جاری رہا۔ (تلخیص از: سیرت حلبیہ اردو، ج:۱، نصف آخر، ص:۳۹۳-۳۹۴)

اہل طائف کا ظلم وستم

         ابوطالب کی وفات کے بعد، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال، سن دس نبوی میں ، اپنے آزاد کردہ غلام: زید بن حارِثہ کی معیت میں ،ثقیف سے مدد کی التماس کے لیے طائف کا (پیدل) سفر کیا۔ امید تھی کہ اللہ کے جس پیغام کے ساتھ آپﷺ   ان کے پاس آئے ہیں ، اہل طائف اسے قبول کریں گے۔ جب طائف پہنچے؛ تو ثقیف کے تین سراداران:عید یالیل، مسعود اور حبیب سے ملاقات کا ارادہ کیا۔ یہ تینوں آپس میں بھائی تھے۔ آپﷺ  ان کے پاس بیٹھے اور اسلام کے لیے مدد کرنے اور آپﷺ  کی قوم میں سے جو آپ ﷺ   کی مخالفت کرے، اس کے خلاف خود کی مدد کرنے کے حوالے سے گفتگو کی۔

         نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر، سرداران ثقیف نے نہایت ہی غیر سنجیدہ جوابات دیے۔ ایک نے کہا:’’وہ کعبہ کا غلاف پھاڑے گا، اگر اللہ نے تمھیں رسول بنایا ہو(اگر تم نبی ہو؛  تو اللہ مجھے غارت کرے‘‘!) دوسرے نے کہا: ’’کیا اللہ تعالیٰ کوتمہارے علاوہ کوئی اور نہیں ملا جسے وہ بھیجے؟‘‘ تیسرے نے کہا: ’’بخدا، میں تم سے کبھی بات نہیں کرسکتا۔ اگر تم سچ مچ اللہ کے نبی ہو جیسا کہ تم کہتے ہو؛  توتمہاری بات میرے لیے رد کرنا انتہائی خطرناک ہے اور اگرتم  اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہو؛ تو پھر مجھے تم سے بات نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ ثقیف سے ناامید ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  وہاں  سے کھڑے ہوئے اور ان سے کہا:’’تم لوگوں نے جو کچھ کیا ، بہرحال اسے خفیہ ہی رکھنا‘‘۔

         جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے واپسی کا ارادہ کیا؛ تو ان سرداروں نے اپنے غلاموں اور اوباشوں کو شہہ دیدی۔ انھوں نے آپﷺ   کو گالیاں دی، تالیاں بجائی اور شور مچائے؛ تاآں کہ لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ آپﷺ  کے راستے کے دونوں کنارے، لوگوں کی لائن لگ گئی۔ وہاں سے گزرتے وقت، جوں ہی اللہ کے رسولﷺ   ایک قدم اٹھاتے کہ وہ آپﷺ  کے قدموں پر پتھر مارتے؛ تا آں کہ آپﷺ   کے گھٹنے چور ہوگئے، پنڈلیاں گھائل ہوگئیں اور جوتے خون آلود ہوگئے۔ جب آپﷺ   کو پتھر لگتا؛ تو آپﷺ   زمین پر بیٹھ جاتے۔ وہ اوباش اور حرمان نصیب آپﷺ  کے بازو پکڑ کر اٹھاتے اور جب چلنا شروع کرتے؛ تو وہ پتھر مارتے اور ہنستے۔  زید بن حارِثہ آپﷺ   کو خود ڈھال بن کر بچاتے تھے؛ تا آں کہ ان کا سر بھی زخمی ہوگیا۔ (عیون الأثر۱/۱۵۵-۱۵۶)

         آپﷺ  کسی طرح ابنائے ربیعہ کے باغ میں پہنچے۔ تھوڑی دیر بعد، وہاں سے رخصت ہوئے۔  پھر آگے کیا ہوا، بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان میں ہی  ملاحظہ فرمائے: ’’میں غم سے نڈھال اپنے رخ پر چل پڑا اور مجھے قرن ثعالب میں ہی پہنچ کر افاقہ ہوا۔ جب میں نے اپنا سر اٹھایا؛ تو اچانک دیکھا کہ بادل کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ فگن ہے۔ جب میں نے اس میں دیکھا؛ تو حضرت جبرئیل موجود تھے۔ انھوں نے مجھے پکار کر کہا: ’’آپ کی قوم نے آپ سے جو بات کہی، اسے اللہ نے سن لیا۔ اب اللہ نے آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے؛ تاکہ آپ ان کے بارے میں جو حکم چاہیں اس فرشتہ کو دیں !  پھر پہاڑ کے فرشتے نے مجھے آواز دی، سلام کیا پھر کہا:اے محمدﷺ !  ان کے حوالے سے آپ جو چاہیں ۔ اگر آپ چاہیں کہ میں ان کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں ؟ (تویہی ہوگا)۔ نبی کریمﷺ  نے جواب دیا: ’’(نہیں ) بل کہ مجھے امید ہے کہ  اللہ ان کی پشتوں سے ایسی نسل پیدا کریں گے، جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گی‘‘۔ (بخاری شریف، حدیث:۳۲۳۱)

دارالندوہ میں قتل کا منصوبہ اور ہجرت کا حکم

         رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ میں ظلم وجور کی چکی میں اس طرح پستے دیکھ رہے تھے جو ناقابل برداشت تھا؛ لہٰذا ان کو مدینہ منورہ ہجرت کی اجازت دیدی، سوائے رفیق غار ابوبکر رضی اللہ عنہ کے۔ ابوطالب جیسے حامی ومددگاربھی وفات پاچکے تھے۔ اب قریش شدید غصے میں تھے کہ کب تک ہم اس شخص (محمدﷺ )کو برداشت کریں اور وہ ہمارے معبودوں اور آباء واجداد کی توہین کرتا رہے؛ چناں چہ ہمیں ان کو قید کردینا چاہیے، یا جلا وطن کردینا چاہیے یا پھر قتل کردینا چاہیے؛ تاکہ ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرلیں ۔ پھر قریش کے سرداران اپنے مشورہ گاہ:دار الندوہ میں خفیہ طور پر نبیﷺ  کے خلاف فیصلہ لینے کو جمع ہوئے۔ کسی نے کہا کہ اسے لوہے کی زنجیر میں باندھ کر، دروازہ بند کردو۔ کسی نے کہا کہ انھیں جلا وطن کردو۔ مگر نجدی شیخ کے روپ میں ، دار الندوہ میں بیٹھا مردود ابلیس نے ان رایوں کے نقص کو اجاگر کیا اور کہا کہ یہ کوئی رائے نہیں ہے۔ پھر ابوجہل بن ہشام نے یہ رائے دی کہ ’’ہم ہر قبیلے سے ایک قوی جوان کو منتخب کریں ۔ ہم ان میں سے ہر ایک جوان کو ایک تیز تلوار دیں ۔  وہ سب کے سب بیک ضرب، ان کو قتل کردیں ۔ جب وہ اسے اس طرح قتل کریں گے؛ تو ان کا خون مختلف قبائل میں بنٹ جائے گا؛ پھر میں نہیں سمجھتا کہ بنوہاشم سارے قریش سے جنگ کریں گے۔ جب اس صورت حال کا بنو ہاشم مشاہدہ کریں گے؛ تو دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے۔ پھر ہم ان کو دیت دیدیں گے‘‘۔ نجدی شیخ کی صورت میں بیٹھا ابلیس نے کہا کہ بات تو یہ ہے جو اس آدمی نے کہی اور اس رائے کے بعد کوئی رائے نہیں ہے؛ لہٰذا پوری قوم اس پر تیار ہوگئی ۔

         رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی مسلمان کو اس منصوبہ کا علم نہیں تھا۔ جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺ   کے پاس آئے اور کہا: آپﷺ  اپنے جس بستر پر رات گزارتے تھے، اس پر رات نہ گزاریں ۔ جب رات تاریک ہوئی؛ تو سب کے سب (قتل کے ارادیسے) آپﷺ  کا انتظار کررہے تھے کہ آپﷺ  کب سوتے ہیں ؛ تاکہ وہ سب آپ پر ٹوٹ پڑیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ سے کہا:میرے بستر پرلیٹ کر، میری اس حضرمی ہری چادرکو  اوڑھ کر سوجاؤ۔ کوئی ناپسندیدہ عمل ان کی طرف سے تمھیں پیش نہیں آئے گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے تھے؛ تو اسی چادر میں سوتے۔ پھر آپﷺ  اپنے ہاتھ میں ، لپ بھر مٹی لے کر ان کے سامنے سے نکلے۔ پھر آپﷺ   وہ مٹی ان تمام کے سر پر ڈالتے ہوئے سورہ یس کی آیات ۱-۵ کی تلاوت کررہے تھے۔ پھر اللہ تعالی نے ان کی قوت بینائی لے لی وہ آپ کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ جب آپﷺ   ان آیات کی تلاوت سے فارغ ہوئے؛ تو کوئی ایسا نہیں بچا تھا جس کے سر پر مٹی نہ پڑی ہو۔ پھر آپﷺ  وہاں سے رخصت ہوئے، جہاں آپﷺ   کو رخصت ہونا تھا۔ (سیرت ابن ہشام:۱/۴۸۲-۴۸۳)

         خلاصہ یہ ہے کہ تیرہ سالہ مکی دور میں نبی اکرمﷺ  کومختلف قسم کے ذہنی وجسمانی مصائب وآلام سے دوچار ہونا پڑا۔ کبھی آپﷺ  کے قتل کا ارادہ کیا گیا، کبھی آپﷺ  پر پتھر پھینکا گیا، کبھی مٹی پھینکی گئی، کبھی گرد وغبار پھینکا گیا، کبھی راستے میں کانٹے ڈالے گئے، کبھی ڈاڑھی اور سر کے بال نوچے گئے اور کبھی آپﷺ  کے چہرہ مبارک پر تھوکنے کی بدبختانہ کوشش کی گئی ؛ مگر آپﷺ  اسلام کی اشاعت کی خاطر، سب کچھ برداشت کرتے ہوئے دین کی دعوت میں ، ہمہ تن مشغول رہ کر، اپنی امت کو بہترین نمونہ فراہم کرگئے۔ ارشاد خداوندی ہے:(ترجمہ) ’’تم لوگوں کے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے جو اللہ سے اور روزِ آخرت سے ڈرتا ہواور کثرت سے ذکر الٰہی کرتا ہو(یعنی مومن کامل ہو اس کے لیے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا ۔‘‘ (سورہ أحزاب:۲۱)




نبی اکرم ﷺ کی مکی زندگی

ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک عملی نمونہ

    اسلام ، عالمی اورابدی مذہب ہے۔ اسلام کی تعلیمات اور اس کاسرمدی پیغام دنیا کے ہر گوشے میں بسے ہوئے انسانی افراد اور معاشرے کے لیے یکساںطور پر قابل عمل ہے۔ اس عالمی اور آفاقی مذہب کے پیغمبر آخر الزماں سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر مرحلہ اور ہر پہلو پوری امت مسلمہ کے لیے ایک کامل اسوہ اور مکمل نمونہ ہے جیسا کہ قرآن کریم کی شہادت ہے:  لَقَدْ کَانَ لَکُم فِیْ رَسُولِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (۲۱:۳۳) آپ کی گھریلو زندگی ہویا سماجی زندگی، مکی زندگی ہو یا مدنی زندگی ، عبادات ہوں یا معاملات، سیاسیات ہوں یا اخلاقیات و مذہبیات، آپ کی زندگی کا عملی نمونہ ہر شعبۂ زندگی میں تمام انسانوں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔
          نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کے لیے جو اس ملک میں اقلیت میں ہیں،ایک مکمل عملی نمونہ موجود ہے۔ ہمارے ملک میں اکثریت غیر مسلمین کی ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلمان یہاں کی آبادی کا تقریباً پندرہ فی صد ہیں۔ یہ ملک ہم مسلمانوں کا اپنا محبوب وطن ہے اور مسلمان اس سرزمین کے ایک اٹوٹ حصہ کے طور پر صدیوں سے آباد ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد اسی خاک میں مدفون ہیں اور اس بر صغیر میں ہماری تہذیب و تمدن اور تاریخ و روایات کے کتنے ہی انمٹ نقوش اور لاثانی یادگاریں ثبت ہیں کہ اگر اس گراں قدر تہذیبی، ثقافتی و تاریخی ورثہ کو ہندوستانی تاریخ سے مٹادیا جائے تو یہاں کی تاریخ روکھی اور بے رنگ نظر آنے لگے گی۔
          حصولِ آزادی کے بعد بھی گو مسلمانوں کو اس ملک میں مسلسل گذشتہ ساٹھ برسوں سے معاشی و تعلیمی اور سیاسی و سماجی آزمائشوں کا سامنا ہے؛ لیکن ملک کے مجموعی حالات مسلمانوں کے لیے اگر ہمت افزا نہیں تو کم از کم مایوس کن اور دل شکن بھی نہیں۔ یوں تواسلام کی ساری تعلیمات پر کاربند ہونا مسلمانوں کی مذہبی ذمہ داری اور اسلامی تقاضا ہے۔ تاہم مسلمانوں کے لیے ملک کے موجودہ حالات میں نبی اکرم کی حیاتِ طیبہ کا ’’مکی نمونہ‘‘ خاص طور پر مکمل عملی نمونہ پیش کرتا ہے۔


          مکی زندگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی شناخت تھی آپ کی صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی ۔ مکی زندگی میں نبوت و رسالت سے سرفراز ہونے سے پہلے اور بعد کے زمانہ میں آپ کی شناخت آپ کی صداقت و امانت، شرافت و پاکیزگی ، تواضع و انکساری اور تقوی و پاکبازی تھی؛ مکہ کا ہر باشندہ آپ کی شرافت و پاکیزگی اور اعلی اخلاق کا قائل تھا۔ آپ کو عام طور پر صادق اور امین کہا جاتا تھا۔ خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اس کے مقام تک اٹھا کر رکھنے میں قریش کے اندر جو سخت اختلاف پیدا ہوا اور جس کی وجہ سے خوںریز جنگ چھڑنے والی تھی ، وہ آپ کی جوانی کا زمانہ تھا، لیکن قریش کے سرداروں اور بڑے بوڑھوں کو جب یہ ہاشمی نوجوان دکھائی پڑا تو سب نے بیک آواز ہو کر کہا:  ھَذا مُحَمَّدُن الأَمِیْنُ رَضِیْنَا  ھَذا مُحَمَّدُن الأمِیْنُ (یعنی یہ محمد امین شخص ہیں، ہم ان سے خوش ہیں، یہ امین ہیں)۔اور سب نے اس نوجوان کے حکیمانہ فیصلے کو بخوشی قبول کیا اور اس طرح ایک خون ریز جنگ چھڑتے چھڑتے رہ گئی۔ (سیرۃ المصطفیٰ۱۱۶:۱، بحوالہ سیرت ابن ہشام)
          نبی اکرم ﷺ پر نبوت کے ابتدائی مراحل میں جب اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہوتا ہے کہ نبوت کے پیغام اور توحید کی دعوت کو علی الاعلان اپنے قبیلہ والوں تک پہنچا یا جائے،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوہِ صفا پر تشریف لاتے ہیں اور قریش کے قبائل کو آواز دیتے ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں : اے قریش! اگر میں کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے دشمن کی فوج حملہ آور ہونے کو تیار ہے تو کیا تم یقین کرو گے؟ پوری قوم یک زبان ہو کر کہتی ہے: نَعَمْ! مَا جَرَّبْنَا عَلَیْكَ اِلَّا صِدْقاً  (ہاں! ہم نے آپ میں سوائے صدق اور سچائی کے کچھ نہیں پایا)۔(صحیح بخاری ، حدیث نمبر 4397)
          آپ کی امانت و دیانت کا عالم تھا کہ مکہ کے بڑے بڑے تاجر خواہش مند ہوتے تھے کہ آپ ان کے تجارتی سامان لے کر شام و یمن وغیرہ کی عالمی منڈیوں میں جائیں تاکہ آپ کے ذریعہ ان کی تجارت کو فروغ حاصل ہو۔ نبوت و رسالت سے سرفراز ہونے کے بعد بھی مکہ کے وہ لوگ جو آپ کی دعوتِ اسلام کو نہیں مانتے تھے، وہ بھی آپ کے پاس اپنی امانتیں بغرض حفاظت رکھ جاتے تھے؛ انھیں اس بات کا اطمینان تھا کہ ان کی امانت اس امین کے علاوہ کسی اور کے ہاتھوں میں اتنی محفوظ نہیں ہے۔

صبر و استقامت

          نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا دوسرا سب سے واضح عنصر آپ کا بے پناہ جذبۂ صبر و استقامت، اولو العزمی اور اپنے صحیح موقف پر پہاڑ کی طرح قائم رہنے کی قوت تھی۔ تبلیغِ اسلام اور دعوتِ حق کے بعد مکہ کی اکثریت آپ کے خلاف تھی۔ وہ ہمیشہ آپ کے اور مٹھی بھر مسلمانوں کے در پئے آزار رہتے، انھیں تکلیفیں پہنچاتے، ایذائیں دیتے اور دن رات اسلام، پیغمبر اسلام اور متبعینِ اسلام کے خلاف سازشیں کرتے؛ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار مکہ کے اس برتائو کا جواب صبر و خاموشی اور ہمت و استقامت سے دیا۔ آپ نے دعوتِ حق کے اپنے موقف سے ذرہ برابر پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کیا، حتی کہ آپ کو پورے عرب کی بادشاہت، مال و دولت، حسین ترین عورتوں اور ہر خواہش کی چیز پیش کیے جانے کی پیش کش بھی کی گئی ، لیکن آپ نے اس دعوت حق کے سامنے ہر کسی پیش کش کو حقارت سے ٹھکرادیا۔ آپ نے خواجہ ابو طالب کی فہمائش کے جواب میں فرمایا کہ چچا اگر میرے ایک ہاتھ میں چاند دوسرے میں سورج رکھ دیا جائے اور کہا جائے کہ اس کام سے باز رہو، تو بھی میں ایسا نہیں کرسکتا۔

تصادم سے گریز اور دعوت و تبلیغ کا تسلسل

          آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صبر آزما اور مخالف ماحول میں اہلِ مکہ کے سامنے اعلی اخلاقی نمونہ پیش کیا ۔گالیوں کا جواب دعائوں سے، پتھر کا جواب نرم کلامی سے ، دل آزاری کا جواب ہمدردی و غم گساری سے دیا۔ آپ نے اس ماحول میں تصادم سے گریز کیا اور حکمت و بصیرت کے ساتھ کام کرتے رہے۔ لوگوں کی بھلائی اور دنیا و آخرت کی کامیابی کے لیے ان کو خدائے واحد اور اللہ کے پسندیدہ دین کی طرف بلاتے رہے۔ دعوت و تبلیغ کا جو فرضِ منصبی آپ نے اٹھایا تھا، اس پر پوری دلجمعی، استقامت اور سختی سے قائم رہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی دعوت دلوں کے قلعوں کو تسخیر کرتی چلی گئی اور مکہ کی ایک بڑی تعداد نے مخالف ماحول میں بھی اسلام میں کشش محسوس کی ۔جو لوگ کل تک آپ کے مشن کے شدید ترین دشمن تھے، وہ آپ کے اخلاق عالیہ اور دعوت حق کی گرمی سے پگھل کر پانی پانی ہوجاتے اور اہل ایمان کے حلقے میں شامل ہوجاتے۔
          آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی سے یہ چند خاص سبق ملتے ہیں کہ اہل ایمان کو اپنے حق و صداقت کے موقف پر پورے یقین و اعتماد کے ساتھ جمنا چاہیے اور اس کی طرف پورے وثوق کے ساتھ دعوت دینی چاہیے ۔ جہاں تک ہوسکے اپنے پڑوسیوں، اہل خاندان ، اہل وطن سے خواہ وہ کسی کبھی فکر و خیال اور مذہب کے ماننے والے ہوں ، ان سے اخلاق و محبت، خیر خواہی و ہمدردی اور بہتری و بھلائی کا برتائو کرنا چاہیے۔ نیز، معاشرے کے سامنے ہمیشہ اپنے اعلی کردار و عمل ، تقوی و طہارت، امانت و دیانت اور اخلاص و خیر خواہی کے ذریعہ بلند پایہ اخلاقی اقدار و آداب کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔

ہجرت حبشہ سے چند سبق

نبوت کے پانچویں برس دو مرحلوں میں تقریباً سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایماء پر حبشہ (موجودہ ایتھوپیا ، افریقہ) کی طرف ہجرت فرمائی۔ گو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ہجرت میں حصہ نہیں لیا، لیکن چوں کہ آپ کے اصحاب (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے آپ کے مشورہ سے ہجرت اختیار کی تھی اور آپ کی تعلیمات کی روشنی میں انھوں نے وہاں زندگی گزاری ؛ اس لیے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا ہی ایک حصہ تصور کیا جاتا ہے۔
          حبشہ ایک غیر مسلم ملک تھا، وہاں کا حکم راں نجاشی اس وقت نصرانی تھا۔ سو کے قریب مسلمانوں کی جمعیت وہاں کی قلیل ترین اقلیت تھی؛ لیکن حبشہ کی زندگی میں حضرات صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں جو لائحہ عمل اختیار کیا، وہ ہندوستان جیسے ملک میں رہنے والی مسلم اقلیت کے لیے ایک بہترین اسوہ ہے۔
          حبشہ پہنچنے کے بعد مسلمانوں نے وہاں اپنی کالونی بنالی اور اس عادل بادشاہ کي رعایا بن کر رہنے لگے۔ ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ کفار مکہ کے دو نمائندوں عبد اللہ بن ربیعہ اور عمرو بن العاص نے حبشہ کی سرزمین بھی مسلمانوں پر تنگ کرنی چاہی اور بادشاہ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا نا چاہا۔ اس موقع پر حبشہ کے مسلمانوں نے جو طریقۂ کار اختیار کیا، وہ ہمارے لیے روشن نمونہ کا درجہ رکھتا ہے۔ مسلمانوں نے سب سے پہلے اجتماعیت اور اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے، حضرت جعفرطیار رضی اللہ عنہ کو اپنا امیر منتخب کیا۔ پھر انھوں نے باہمی مشورہ اور اتفاقِ رائے سے یہ طے کیا کہ جس دین حق کی خاطر ہم نے اپنا وطن چھوڑا ہے، اس کے خلاف ہم کچھ نہیں کہیں گے اور جو کچھ حق ہوگا ، حکمت و بصیرت کے ساتھ معقول و مدلل انداز میں اس کو سامنے رکھیں گے۔ نیز، اپنے جائز مقصد کے حصول اور اپنی جان و مال کی حفاظت کے لیے عادل بادشاہ کے عدل و انصاف اور قانون کا سہارا لیں گے؛ چناں چہ جب قریشی نمائندوں نے نجاشی کے سامنے مسلمانوں پر یہ الزام لگایا کہ یہ بد دین ہوكر اپنے ملک سے بھاگ آئے ہیں ، ان کو واپس کیا جائے، تو نجاشی نے مسلمانوں سے صفائی پیش کرنے کو کہا۔ ان روشن اصولوں کی رہ نمائی میں حضرت جعفرِ طیار رضی اللہ عنہ نے نہایت معقول انداز میں کہا کہ: کیا ہم غلام ہیں جو تمہارے یہاں سے بھاگ آئے ہیں، یا ہم نے کسی کا قتل کیا ہے یا ہم کسی کا مال ہڑپ کرکے آئے ہیں۔اس بر محل اور معقول سوال کا جواب ان قریشی نمائندوں کے پاس نہیں تھا۔
          پھر نجاشی نے مسلمانوں سے پوچھا کہ آخر وہ کون سا دین ہے جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔ اس کے جواب میں حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے حضرت رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیمات کا جو خلاصہ پیش کیا، وہ ایک بہترین دینی اور سماجی نمونہ تھا۔ حضرت جعفرؓ نے اسلام کے تعارف پر مشتمل جو تقریر نجاشی کے دربار میں کی تھی، اس میں رسول پاک ﷺ کی چودہ تعلیمات کا ذکر تھا:  (۱) توحید (۲) سچائی (۳) امانت داری (۴) صلہ رحمی (۵) پڑوسیوں سے اچھا سلوک (۶) حرام کاموں سے پرہیز (۷) خوںریزی سے گریز (۸) بدکاری سے پرہیز (۹) جھوٹی بات سے پرہیز (۱۰) مالِ یتیم سے پرہیز (۱۱) عورتوں پر الزام تراشی سے گریز (۱۲) نماز قائم کرنا (۱۳) زکوٰۃ دینا (۱۴) روزہ رکھنا۔ان تعلیمات میں، مذہب، اخلاق اور سماج سب کچھ کی رہنمائی موجود ہے۔
          دوسرے دن قریشی نمائندوں نے ایک دوسری چال چلی اور حضرت عیسی علیہ السلام سے متعلق عبدیت کے اسلامی عقیدہ کے خلاف نجاشی عیسائی بادشاہ کو بھڑکانا چاہا کہ یہ لوگ حضرت عیسی عليه السلام کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے۔ مسلمانوں کے لیے یہ مشکل وقت تھا؛ لیکن حق پرستی اور صداقت شعاری کے روشن اصولوں کی روشنی میں جو اسلامی عقیدہ تھا، وہ حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے بلاکم و کاست پیش کردیا اور بالآخر حق کا بول بالا ہوا اور باطل رسوا و ذلیل ہو کر واپس ہوا۔
          کتبِ سیرت و احادیث میں حبشہ میں مسلمانوں کی عام زندگی کی تفصیلات نہیں ملتیں، لیکن جو کچھ جابجا روایات میں ملتا ہے، اس سے بھی ان کے طرزِ معاشرت کی ایک جھلک دکھائی دیتی محسوس ہوتی ہے۔ حضرات نے صحابہؓ نے اپنی چھوٹی سے بستی بنا کر تجارت وغیرہ کا پیشہ اختیار کیا اور مقامی غیر مسلم آبادی کے ساتھ معاملات کیا۔اس سے مسلمانوں کو یہ سبق ملتا ہے کہ جہاں بھی رہیں محنت و مشقت اور امانت و دیانت کے ساتھ حلال روزی کے ذرائع اختیار کریں۔
           مسلمانوں نے ملک کی خیر خواہی اور اہل ملک کے ساتھ وفاداری کا برتائو کیا۔ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انھیں دنوں نجاشی بادشاہ کو ایک بغاوت کا سامنا کرنا پڑا؛ چناں چہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان کی کامیابی کے لیے دعا کی۔ اس سے یہ اصول ماخوذ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے ملک اور عادل رہ نما کے ساتھ وفاداری اور خلوص و محبت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
          ہم مسلمانوں کو ہجرتِ حبشہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ نازک اور اہم مواقع پر اجتماعیت اختیار کرکے باہمی مشورہ سے کام لینا اور اپنا امیر منتخب کرلینا چاہیے۔ مسلمانوں کو یہ طے کرلینا چاہیے کہ کسی حال میں بھی حق و صداقت کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور اپنے ایمان و یقین کا سودا کسی صورت میں نہیں کریں گے، یہی ان کی مذہبی اور تہذیبی زندگی کی اساس ہے۔ نیز، جذباتیت سے گریز کرتے ہوئے حکمت و بصیرت سے کام لینا چاہیے اور مخالف حالات کا صبر و استقامت سے سامنا کرنا چاہیے ۔ دین کی دعوت، حکمت،معقولیت اور مدلل طریقہ سے اپنے ہم وطنوں کو دینی چاہیے اور ہمیشہ طاقت کا مقابلہ حکمت و دانائی سے کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ملک کے نظامِ عدل سے واقفیت حاصل کرنا چاہیے اور اسے اپنے تحفظ کے لیے اوراپنا حق حاصل کرنے كے ليے استعمال کرنا چاہیے۔
          نیز ، مسلمانوں کو جس ملک میں وہ رہیں، وہاں امن پسند شہری کی حیثیت سے رہنا چاہیے اور تخریبی کارروائیوں سے گریز کرنا چاہیے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے موقف، مقصدِ حیات اور طرزِ زندگی سے ہم وطنوں کو واقف کرائیں؛ تاکہ وہ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں اور تحفظ کے مسائل پیدا نہ کریں اور اسلام سے اجنبیت کی وجہ سے اس کو حریف نہ سمجھیں۔ نیز، مسلمانوں کو ہم وطنوں کے مذہب، مزاج اور تہذیبی شعار سے ضروری واقفیت حاصل کرنی چاہیے؛ تاکہ امن و سکون اور بقائے باہم کی راہ ہموار ہو۔ ہجرتِ حبشہ سے قبل سورئہ مریم کا نزول، نجاشی کی عدالت میں حضرت جعفرؓکی تلاوت ، اور نجاشی کے دربار میں آپ کی پوری تقریر کاخلاصہ یہی ہے۔
٭٭٭


رحمة للعالمین ﷺ اور اہل مکہ

ظہورِقدسی

                آفتابِ ہدایت، امام الانبیاء، حبیب کبریا حضرت محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم جب دنیا میں تشریف لاتے ہیں تو صورتِ حال یہ تھی کہ ولادت مبارکہ سے پہلے ہی والد بزرگوار حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کا انتقال ہوچکا تھا؛ لیکن دادا محترم خواجہ عبدالمطلب خود بھی یتیمی کا زمانہ دیکھ چکے تھے؛ اس لیے اپنے چوبیس سالہ نوجوان پیارے فرزند عبداللہ کی اس یادگار کو بہت پیار اور محبت دیتے تھے؛ چنانچہ پیدائش کی خبر پاتے ہی نومولود کو بی بی آمنہ سے لے کر خانہ کعبہ میں لے گئے اور دعاء وغیرہ سے فراغت کے بعد لائے اور محمد نام رکھا؛ جب کہ والدہ ماجدہ نے الہامی نام احمد رکھا، دونوں ہی نام عرب معاشرہ کے لیے نئے تھے۔ قریش نے عبدالمطلب سے کہا کہ یہ نام تو بالکل نیا ہے، تو جواب دیا کہ مسمّیٰ ہی نرالہ ہے سردار مکہ نے ساتویں دن ولیمہ کیا اور تمام قریش کی دعوت کی، آپ کے چچا ابولہب نے جب بھتیجہ کی ولادت باسعادت کی خبرسنی تو اپنی کنیز ثویبہ کو نومولود کی خدمت کے لیے آزاد کردیا، یہ اُن خوش نصیب خواتین میں سے ہیں جن کو رحمة للعالمین کو دودھ پلانے کی سعادت میسر ہوئی؛ کیوں کہ ابتداء میں آپ صلے اللہ علیہ وسلم کو حضرت آمنہ نے اور ان کے بعد حضرت ثویبہ نے دودھ پلایا، انھوں نے ہی حضرت حمزہ رضي الله عنه کو بھی دودھ پلایا تھا؛ اسی لیے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آپ صلے اللہ علیہ وسلم کے چچا بھی تھے اور دودھ شریک بھائی بھی، پھر حضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے کی سعادت عظمیٰ حضرت حلیمہ سعدیہ کے حصہ میں آئی، جو ظہور اسلام کے بعد مسلمان ہوئیں رضی اللہ عنہا وعنہم۔

والدہ ماجدہ اور دادا محترم سے مفارقت

                قضا وقدر کا کرشمہ ہی تھا کہ چھ سال کی عمر ہی کیا ہوتی ہے، اسی عہد طفولت میں والدہ ماجدہ بھی خداکو پیاری ہوگئیں؛ لیکن دادا محترم کا مشفقانہ سایہ ابھی باقی تھا تربیت وپرورش کی ذمہ داری بھی دادا محترم فرمارہے تھے، ابھی ماں کا غم غلط بھی نہ ہوا تھا کہ دادا بھی داغ مفارقت دے کر خدا کو پیارے ہوگئے، اب تربیت وپرورش کا بار چچا محترم ابوطالب نے بڑی خوش اسلوبی اور انتہائی شفقت ومحبت کے ساتھ اٹھایا اور ماں باپ ، یا دادا کے غم کو غلط فرمانے میں مکمل تعاون دیا؛ لیکن خداوند قدوس اپنے محبوب کو اس طریقے کے واقعات وحوادثات سے اشارہ دینا چاہتا تھا کہ اصل مربی اور رب وہ ذات ہے جو حَیٌّ لاَیَمُوْتُ ہے اور آپ صلے اللہ علیہ وسلم کو ظاہری مربیوں کی تربیت اور پرورش سے بے نیاز فرمادیا یا پھر ایسی پرورش ہوئی کہ ساری دنیا بھی مل کر نہ کرسکے، لہٰذا عجیب شان والا بچہ ہے اور نرالے اوصاف سے متصف ہے کہ نہ کھیل ہے نہ کود، نہ بچوں سی ضد ہے اور نہ بیہودہ حرکتیں، نہ لڑائی ہے نہ جھکڑا؛ بل کہ ایسے اوصاف ہیں جو بڑوں بڑوں میں ناپید ہیں، ہمیشہ سچ بولنا اور سچ کو فطرتِ ثانیہ بنالینا کہ عرب صادق کالقب دینے پر مجبور ہوئے؛ حالانکہ اس دورِ جاہلیت میں خلافِ واقعہ اور جھوٹ کو ایک کمال تصور کیا جاتا تھا، اسی طرح امانت ودیانت آپ صلے اللہ علیہ وسلم میں اس قدر پائی جاتی تھی کہ عبداللہ کے اس دُرِّ یتیم اور آمنہ کے لعل کو قریش امین سے یاد کرتے تھے، جب کہ اس شرور وفتن کے دور میں بچوں کو چھوڑئیے بڑوں میں بھی شاذ ونادر ہی امانت ودیانت پائی جاتی تھی۔

نکاح

                بچپن سے جوانی تک آپ صلے اللہ علیہ وسلم کے اخلاقِ حسنہ اور عباداتِ مبارکہ سے قریب قریب تمام قریش متاثر تھے، اسی لیے تمام مکہ میں آپ صلے اللہ علیہ وسلم کو پیار، محبت، شفقت اور الفت خوب خوب ملی اور ہر طرف آپ صلے اللہ علیہ وسلم کے بلند کردار، اچھے اخلاق اور پاکیزہ عادات وصفات کا چرچہ تھا، شدہ شدہ یہ خبریں ایک پاکباز اور خوش بخت خاتون حضرت خدیجہ بنتِ خویلد کو بھی پہنچیں اور یہ خاتون پہلے سے دوشوہروں کے ساتھ رہ چکی تھیں، صاحب اولاد تھیں، ساتھ ہی صاحبِ ثروت ودولت بھی، لہٰذا اس خاتون نے آپ کو اپنا مال لے کر ملک شام تجارت کے لیے بھیجا اور اپنے ایک غلام میسرہ کو ساتھ میں لگایا پورے سفر میں اس غلام نے آپ کے اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار وعادات کا خوب خوب مشاہدہ کیا اور تجارت میں بھی خوب نفع حاصل ہوا، واپسی پر غلام میسرہ نے خدیجة الکبریٰ سے حالاتِ سفر بیان کیے، تو آپ کے اخلاق، کردار، عادات اور اوصاف بیان کرتے کرتے تھکتے نہ تھے جس کا خدیجہ رضي الله عنها کے دل پر عجیب اثر ہوا، لہٰذا انھوں نے اپنی خواتین سے مشورہ کرکے آپ کو پیغامِ نکاح دیا، یہ خاتون اگرچہ بیوہ تھیں؛ لیکن بڑے بڑے سرداروں کے پیغامات ٹھکراچکی تھیں اور آپ کو سنتِ انبیاء پر عمل کرنا اور امت کو سبق دینا تھا، لہٰذا چچابزرگوار حضرت ابوطالب سے مشورہ کیا اور اشارہ پاکر پیغام قبول فرمایا۔ واضح رہے کہ عین عنفوانِ شباب کا عہد تھا، اگر نفسانی خواہشات کی تکمیل مقصود ہوتی تو اپنے سے پندرہ سال بڑی اور صاحب اولاد بیوہ خاتون سے عقد نہ فرماکر کسی دوشیزہ اور نوجوان خوبصورت وخوبرو لڑکی سے عقدِ نکاح ہوتا؛ البتہ حضرت خدیجہ بنت خویلد بھی معزز اور شریف خاندان وقبیلہ سے تھیں، جیساکہ آپ نجیب الطرفین تھے، یعنی آپ صلے اللہ علیہ وسلم کا دَدْھیال اور نَنْھیَال دونوں ہی عرب کے بہترین قبیلے، بہترین قوم اور بہترین شاخ تھے، یہی وجہ بھی تھی کہ آپ کا تمام قریش ادب واحترام کرتے تھے، پس آپ کے عقد مسنون میں تمام رؤساءِ قریش شریک ہوئے اور خطبہ ابوطالب نے پڑھا اور یہ نکاح نہایت بابرکت ثابت ہوا۔
قیامِ امن انجمن کا قیام
                اس نکاح اور عقد کے بعد آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کا سارا وقت عبادتِ خدا اور بنی آدم کی فلاح و بہبود اور خیر اندیشی میں مصروف رہتا تھا، انہی دنوں آپ نے اکثر قبائل کے سرداروں اور باشعور لوگوں کو ملک کی بے امنی، راستوں کا خطرناک ہونا، مسافروں کا لٹنا اور غریبوں، کمزوروں اور زیردستوں پر زبردستوں کا ظلم بیان کرکے ان سب باتوں کی اصلاح پر توجہ دلائی، آخر ایک انجمن اور کمیٹی قائم ہوئی جس میں بنوہاشم، بنومطلب، بنواسد، بنوزہرہ اور بنوتمیم شامل ہوئے اور اس انجمن وکمیٹی کے اہم مقاصد یہ تھے: (۱) ملک سے بے امنی دور کرنا (۲) مسافروں کی حفاظت کرنا (۳) غریبوں کی امداد کرنا اور (۴)زبردستوں کو زیردستوں پر ظلم کرنے سے روکنا (رحمة للعالمین،ج۱،ص۴۳)
واقعہٴ تحکیم
                اسی طرح جب تعمیرکعبہ کے موقع پر حجرِ اسود کو نصب کرنے میں تمام قبائل قریش باہم شدید اختلاف کا شکار ہوئے یعنی ہر قبیلہ اور خاندان حجراسود کو نصب کرنے کی دولت اور سعادت حاصل کرنا چاہتا تھا یہ اختلاف جب حد سے تجاوز کرگیا تو ابوامیہ بن مغیرہ نے رائے دی کہ کسی کو حَکَم اور فَیْصَل بنالیاجائے، پھر اس کے فیصلہ اور حکم پر عمل کیا جائے، اپنے سب سے معمَّر شخص کی رائے کو تمام قبائل نے پسند کیا اوریہ طے ہوا کہ کل صبح خانہٴ کعبہ میں جوسب سے پہلے آئے وہی حَکَمْ ہوگا، حسن اتفاق کہ سب سے پہلے حرم شریف میں آنے والے شخص حضرت محمد صلے اللہ علیہ وسلم تھے اور جب قریش نے دیکھا کہ محمد ہیں تو خوشی سے نعرہ لگایا ہٰذَا لَأمینٌ رضیناہ (امین آگئے ہم سب راضی اور خوش ہیں) چنانچہ آپ نے ایسا حکیمانہ فیصلہ فرمایا کہ کسی کی نہ دل شکنی ہوئی اور نہ کوئی اس دولت وسعادت سے محروم رہا (ہادیٴ عالم ص ۵۳)
قرب زمانہٴ بعثت
                جب بعثت کا زمانہ قریب ہوا تو آپ کو آبادی سے وحشت ہونے لگی اور آپ تنہائی تلاش کرنے لگے؛ چنانچہ پہاڑوں میں جاکر غارِ حراء میں کئی کئی دن قیام فرماتے، ستو اور پانی اپنے ہمراہ لے جاتے یاکبھی کبھی حضرت خدیجہ رضي الله عنها  ہی کھانا وغیرہ پہنچادیتی تھیں، وہاں عبادتِ خداوندی میں مصروف رہتے، اس عبادت میں تحمید وتقدیسِ الٰہی کے ساتھ قدرتِ الٰہیہ پر تدبر وتفکر بھی شامل تھا، اسی وقت آپ کو رات میں خواب دکھنے شروع ہوئے اور یہ خواب نہایت سچے ہوتے تھے، یعنی جو کچھ رات میں خواب میں نظر آتا، دن میں ویسا ہی ظہور میں آتا۔ (رحمة للعالمین بحوالہ مشکوٰة شریف عن عائشة رضي الله عنها ص۵۱۳)
بعثت ونبوت
                جب آپ کی عمر قمری حساب سے چالیس سے ایک دن اوپر ہوئی، وہ دوشنبہ کا دن تھا، تو حضرت روح الامین علیہ السلام حکمِ نبوت لے کر آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے، اس وقت آپ غارِ حرا کے اندرعبادت میں مصروف تھے، حضرت روح الامین علیہ السلام نے فرمایا: محمد! بشارت قبول کیجیے، آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں!
تبلیغ کا آغاز
                اس کے بعد ایک عرصہ تک سلسلہٴ وحی بند رہا، یہی فطرتِ وحی کا زمانہ کہلاتا ہے۔ پھر وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو آپ نے دامنِ کوہ سے واپس ہوکر تبلیغ شروع فرمادی، یہاں سے تبلیغِ اسلام اور اشاعتِ دین کا آغاز ہوا؛ بل کہ یوں کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ مصائب وآلام کا دور شروع ہوا، جب آنحضرت نے نبوت اور وحدتِ خداوندی کا اعلان فرمایا تو خواتین میں خدیجہ رضی اللہ عنہا، دوستوں میں ابوبکر رضی اللہ عنہ، بچوں میں علی رضی اللہ عنہ، غلاموں میں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور باندیوں میں حضرت ثویبہ مشرف باسلام ہوئے، یہ سب وہ حضرات اور شخصیات ہیں، جو آپ کے چالیس سال کے لمحہ لمحہ اور ہر ہر حرکت وسکون سے واقف تھے، ان سب کا اولِ وہلہ میں مسلمان ہوجانا آپ کی اعلیٰ صداقت اور راست بازی کی قوی دلیل ہے؛ لیکن قریش میں کھلبلی مچ گئی اور وہ لوگ جو زنا، جوا، قتل، عہد شکنی، آوارگی، ہر ایک قانون ووعدہ کی بندش وقیود سے آزاد رہنے، بے شمار عورتوں کو گھر میں ڈال رکھنے کے عادی تھے اور قانونِ اسلام انکو اپنی پیاری بل کہ محبوب ترین عادت کا دشمن معلوم ہوتا تھا، لہٰذا انھوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر باندھ لی اور اسلام کا نام ونشان مٹانے کا فیصلہ کرلیا، چنانچہ وہی قبائلِ قریش جو آپ صلے اللہ علیہ وسلم کو پیار ومحبت دیتے تھے، جان کے دشمن بن گئے، جوادب واحترام کرتے تھے، اب وہ نام لینا بھی گوارہ نہ کرتے تھے نام ونشان مٹانے کے درپے ہوگئے، وہی چچا جو خوشی میں باندی کو آزاد کرچکا تھا، طرح طرح سے تکالیف پہنچانے لگا۔
رحمة للعالمین کے ساتھ قریش کی بدسلوکیاں
                بسا اوقات نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے جاتے؛ تاکہ پاؤں مبارک زخمی ہوں، آپ کے دروازے پر غلاظتیں اور گندی چیزیں پھینکی جاتیں؛ تاکہ صحت اور جمعیتِ خاطرمیں خلل پیدا ہو، حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضي الله عنه  کا چشم دید بیان ہے کہ ایک روز آپصلے اللہ علیہ وسلم صحن کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے، عتبہ بن ابی معیط آیا اور اپنی چادر کو لپیٹ کر رسّی جیسا بنایا جب اللہ کا رسول صلے اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گیا تو چادر حضرت کی گردن میں ڈال کر پیچ پر پیچ دینے شروع کئے اور آپ کی مبارک گردن بہت بھچ گئی تاہم رسول اللہ اسی اطمینانِ قلب سے سجدے میں پڑے رہے؛ تاآنکہ ابوبکر رضي الله عنه وہاں آئے ، انھوں نے عتبہ کو دھکا دے کر ہٹایا اور فرمایا جو آیت مبارکہ ہے: أتقتلون رَجُلاً أنْ یقولَ ربّی اللّٰہُ وقد جائکم بالبینات (کیا تم ایسے بزرگ آدمی کو مارتے ہو اور صرف اس جرم میں کہ وہ اللہ کو اپنا پروردگار کہتا ہے اور تمہارے پاس روشن دلائل بھی لے کر آیا ہے) (رحمة للعالمین بحوالہ بخاری شریف باب ما لقی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من المشرکین)
                ایک اور واقعہ ہے کہ آپ حرم شریف میں نماز میں مشغول تھے اور قریش بھی بیٹھے ہوئے تھے مردود ابوجہل نے کہا کہ آج شہر میں فلاں جگہ اونٹ ذبح ہوا ہے اوجھڑی پڑی ہوئی ہے، کوئی جاکر اٹھالائے بدبخت عتبہ اٹھا اور نجاست بھری اوجھ اٹھالایا جب نبی صلے اللہ علیہ وسلم سجدے میں گئے تو مبارک پیٹھ پر رکھ دی، آنحضرت تو رب العزت کی طرف متوجہ تھے کچھ خبر بھی نہ ہوئی کفار مارے خوشی اور ہنسی کے لوٹے جاتے تھے۔
ایذا رسانی کی باقاعدہ کمیٹی
                نبی صلے اللہ علیہ وسلم پر جو ظلم وزیادتی اور جوروستم ہورہے تھے کفار قریش انھیں ہنوز ناکافی سمجھتے تھے، چنانچہ متفرق کوششوں کے لیے باقاعدہ کمیٹی تشکیل دی، جس کا میرِ مجلس اور امیر عبدالعزّٰی ابولہب مقرر ہوا اور مکہ کے پچیس رؤسا اور سردار اس کے ممبران منتخب ہوئے، اس کمیٹی کی مہم اور ذمہ داری یہ طے ہوئی کہ جو لوگ دور دراز کے علاقوں سے مکہ آئیں، انھیں اللہ کے نبی محمد صلے اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا جائے؛ تاکہ وہ ان کی باتیں نہ سنیں اور ان کی عظمت اور توحید ورسالت کے قائل نہ ہوں، ایک نے کہا کہ ہم کاہن بتلائیں گے، ولید بن مغیرہ بولا میں نے بہت سے کاہن دیکھے ہیں، ان کی باتوں میں اور محمد صلے اللہ علیہ وسلم کی باتوں میں یگانگت نہیں ہے؛ اس لیے عرب ہمیں جھوٹا کہیں گے، پس کچھ اور کہاجائے، دوسرے نے کہا دیوانہ کہیں گے، ولید نے کہا محمد کو دیوانگی سے کیا نسبت ہے، ایک بولا ہم شاعر کہیں گے، ولید بولا ہم خوب جانتے ہیں کہ شعر کیا ہوتا ہے، اصنافِ سخن ہم کو بخوبی معلوم ہیں محمد کے کلام کو شعر سے ذرہ بھی مشابہت نہیں، کسی نے کہا ہم جادوگر کہیں گے ولید نے کہا محمد جس طہارت، نفاست اور لطافت سے رہتا ہے وہ ساحروں اور جادوگروں میں کہاں ہوتی ہے، سب نے عاجز وقاصر ہوکر کہا چچا آپ ہی بتائیں ہم کیا کہیں، ولید نے کہا کہ کہنے کے لیے بس ایک بات ہے کہ اس کے کلام میں کچھ ایسا اثر ہے جس سے باپ بیٹے، بھائی بھائی اور میاں بیوی میں جدائی ہوجاتی ہے؛ اس لیے اس کی باتوں کے سننے سے بچا جائے اور پرہیز کیا جائے یہ تجویز منظور ہوگئی۔ (سیرت ابن ہشام، ج۱،ص۹۰)
                دوسری کمیٹی یہ بنائی گئی کہ محمد کو طرح طرح سے دق اور پریشان کیا جائے، بات بات میں اس کی ہنسی اڑائی جائے، تمسخر اور ایذا سے اُسے سخت تکالیف دی جائیں اور محمد کو سچا جاننے اور ماننے والوں کو انتہائی درجہ کی تکالیف سے دوچار کیا جائے۔
جاں نثاروں پر ظلم وستم
                چنانچہ تمام مسلمانوں اور ہمدردانِ نبی کو شعب ابی طالب میں بائیکاٹ کرکے قید کیاگیا، حضرت بلال حبشی رضي الله عنه  کو امیہ بن خلف گلے میں رسی ڈال کر اوباش لڑکوں کو دے دیتا وہ ان کو پہاڑوں اور پتھروں میں گھسیٹتے پھرتے، مکہ کی گرم اور تپتی ریت پر انہیں لٹادیاجاتا اور گرم پتھر ان کی چھاتی پر رکھ دیے جاتے، مشکیں باندھ کر لاٹھی ڈنڈوں سے پیٹا جاتا، دھوپ میں بٹھادیا جاتا، بھوکا پیاسا رکھا جاتا، حضرت بلال رضي الله عنه  ان تمام ایذاؤں پر صبر فرماتے تھے، ایک مرتبہ صدیق اکبر رضي الله عنه  نے دیکھ لیا تو خرید کر آزاد فرمادیا، حضرتِ عمار رضي الله عنه ، ان کے والد حضرت یاسر رضي الله عنه  اور والدہ حضرت سُمیَّہ رضي الله عنها  کو مختلف سزائیں دی جاتی تھیں، مردود ابن ہشام ابوجہل نے ایک برچھا حضرت سمیہ رضي الله عنها  کی اندام نہانی پر مارا جس سے بیچاری انتقال کرگئیں اور اسلام میں پہلی شہادت پیش کرنے والی خاتون ہوئیں۔ حضرت ابوفکیہہ رضي الله عنه  جن کا نام افلح تھا ان کے پاؤں میں زنجیریں باندھ کر پتھریلی زمین پر گھسیٹا جاتا، حضرت خباب بن ارت رضي الله عنه  کے سرکے بال کھینچے جاتے، گردن مروڑی جاتی اوربارہا آگ کے دہکتے ہوئے شعلوں اور انگاروں پر لٹایا جاتا، حضرت عثمان بن عفان رضي الله عنه  کے اسلام لانے کا علم جب ان کے چچا کو ہوا تو کمبخت حضرت عثمان رضي الله عنه  کو کھجور کی چٹائی میں لپیٹ کر باندھ دیتا اور نیچے سے دھواں دیا کرتا تھا، حضرت مصعب بن عمیر رضي الله عنه  کو ان کی والدہ نے گھر سے نکال دیا تھا جرم صرف اسلام کا قبول کرنا تھا، بعض جاں نثاروں کو قریش گائے اور اونٹ کے چمڑوں میں لپیٹ کر دھوپ میں پھینک دیتے تھے اور بعض کو لوہے کی زرہیں پہناکر پتھروں پر گرادیتے تھے، انتہا یہ ہوئی کہ گھربار چھوڑنے پر مجبور کیا، کبھی اسلام کے شیدائی حبشہ کی جانب ہجرت کرتے ہیں اور کبھی یثرت (مدینہ منورہ) کی طرف اور شہر چھوڑنے کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑا کبھی نجاشی کے دربار میں مسلمانوں کے خلاف شکایات لے کر گئے اور کبھی مدینہ پر بار بار چڑھائی کرکے مسلمانوں اور اہل اِسلام کو پریشان کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی؛ لیکن ہجرتِ مدینہ اور ہجرتِ حبشہ اسلام کی ترقی کے لیے سنگِ میل ثابت ہوئیں؛ چنانچہ اسلام کو رفتہ رفتہ عروج ہوتا رہا۔
قریش کی عہد شکنی
                کفارِ مکہ ابھی تک اپنی حرکات سے باز نہیں آئے تھے کہ اسی دوران صلح حدیبیہ کا واقعہ بھی پیش آیا اور کفارِ مکہ نے اپنی دیرینہ عادت کے موافق صلح کی خلاف ورزی کی؛ کیونکہ معاہدہ تھا کہ دس سال تک باہم جنگ اور لڑائی نہیں ہوگی اور جو قبائل چاہیں قریش سے مل جائیں اور جو چاہیں مسلمانوں سے مل جائیں، پس بنوبکر نے قریش کا ساتھ دینا پسند کیا اور بنو خزاعہ نے مسلمانوں سے معاہدہ کیا، وہ مسلمانوں کے حلیف ہوگئے، ابھی صلح حدیبیہ کو دوسال بھی نہ گزرے تھے کہ بنوبکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور قریش نے اسلحہ سے بنوبکر کی امداد کی، مزید برآں عکرمہ بن ابی جہل، سہیل بن عمرو اور صفوان بن امیہ نے جو سردارانِ قریش تھے نقاب اوڑھ کر اپنے حوالی اور موالی کے ساتھ حملہ میں بنوبکر کا ساتھ دیا، لہٰذا اللہ کے نبی اپنے حلیف اور دوست قبیلے بنوخزاعہ کی حفاظت کی غرض سے دس ہزار کی جمعیت لے کر ماہِ رمضان ۸ھ میں مکہ کی جانب روانہ ہوئے اور آپ کا قصد یہ تھا کہ اہل مکہ کو اس آمد کی خبر اور اطلاع نہ ہونے پائے، چنانچہ ایسا ہی ہوا، جب آپ صلے اللہ علیہ وسلم مکہ کے باہر خیمہ زن ہوگئے اور اہل مکہ کو باخبر کرنے کے لیے لشکر میں الاؤ رشن کرنے کا حکم فرمایا تب ان کو خبر ہوئی، رات میں قیام کے بعد صبح کے وقت لشکر اسلام کو مختلف راستوں سے شہر میں داخلہ کا حکم فرمایا اور درج ذیل ہدایات اور احکام پر عمل کرنے اور پابندی کرنے کی تاکید فرمائی: (۱) جو شخص ہتھیار پھینک دے اسے قتل نہ کیا جائے (۲) جو شخص خانہ کعبہ میں چلا جائے اسے قتل نہ کیا جائے (۳) جو اپنے گھر میں بیٹھ جائے اسے قتل نہ کیا جائے (۴) جو شخص ابوسفیان کے گھر چلا جائے اسے قتل نہ کیا جائے (۵) جو شخص حکیم بن حِزام کے گھر چلا جائے اسے قتل نہ کیا جائے (۶) بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے (۷) زخمی کو قتل نہ کیا جائے (۸)قیدیوں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کیا جائے، یہ ہدایات اس شخص اور مظلوم کی اس ظالم قوم کے لیے ہیں جس نے جینا دوبھر اور زندگی حرام کررکھی تھی، یہی ہے صفتِ رحمة للعالمین صلے اللہ علیہ وسلم بہرکیف مختلف راستوں سے داخل ہونے والے اسلامی دستوں میں سے صرف حضرت خالد بن ولید رضي الله عنه  کے دستہ سے کچھ تعارض ہوا، جس میں معارضین کو بھاگنے کی نوبت پیش آئی، باقی تمام دستے بلا مزاحمت داخلِ شہر ہوگئے، آج وہ قوم جو مغولب ومقہور ہوکر ہجرت پر مجبور ہوئی تھی وہی فاتحانہ شان وشوکت کے ساتھ مکہ میں داخل ہورہی تھی؛ اس لیے بعض حضرات کی زبان پر بے ساختہ یہ جملہ آگیا الیوم یوم الملحمہ (آج مقابلہ اور بدلے کا دن ہے) لیکن قربان جائیے اللہ کے نبی رحمة للعالمین صلے اللہ علیہ وسلم پر کہ فوراً روکا اور فرمایاکہ کہو الیوم یوم المرحمہ (آج رحم کرنے اور معاف کرنے کا دن ہے) خدا کے برگزیدہ رسول صلے اللہ علیہ وسلم ۲۰/رمضان ۸ھ کو جب مکہ میں داخل ہوئے اس وقت سرجھائے سورہ الفتح کی تلاوت میں مصروف تھے اور اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کی جانب چلے جارہے تھے، وہاں پہنچ کر خدا کے مقدس گھر کو بتوں کی آلائش سے پاک فرمایا، اس وقت خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے، اللہ کے رسول صلے اللہ علیہ وسلم کمان کے گوشے یا چھڑی کی نوک سے ہرایک بت کو گراتے جاتے اور زبانِ مبارک سے پڑھتے جاتے تھے جاء الحقُ وزَہَقَ البَاطِلُ انَّ البَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا (حق کا غلبہ ہوا اور باطل ملیا میٹ ہوا اور وہ اُسی لیے ہے) جَاءَ الحَقُّ وما یُبْدیٴُ الباطِلُ وَمَا یُعِیْدُ (حق آگیا اور باطل نہ کرنے کا رہا نہ دھرنے کا) پھر رحمة للعالمین نے کعبة اللہ کے کلید بردار عثمان بن ابی طلحہ کو بلاکر چابی لی پھر خانہ کعبہ میں جاکر ہر ہر گوشہ میں اللہ اکبر کے ترانے گائے، شکرانے کی نماز ادا کی پھر نہایت عجز وانکساری کے ساتھ اللہ رب العزت کے سامنے پیشانی خاک پر رکھ دی، اسی دوران وہ تمام بڑے بڑے لوگ اور سردارانِ قریش جمع ہوگئے، جنھوں نے متعدد مسلمانوں اور اسلام کا نام لینے والوں کو شہید کیا یا کرایا تھا، سیکڑوں نبی کے جاں نثاروں کو ایذائیں اور تکالیف دے کر گھربار چھوڑنے اور مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا تھا، دین اسلام کو تباہ وبرباد کرنے میں اور مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کرنے میں حبشہ، شام، نجد اور یمن تک کے سفر کیے تھے، جنھوں نے مدینة الرسول صلے اللہ علیہ وسلم پر بار بار حملے کئے تھے، مکہ سے ساڑھے تین سو میل دور بھی خدا کے نبی اور اس کے ماننے والوں کو چین کی سانس نہیں لینے دی تھی، حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کو فنا کرنے میں زر سے، زور سے، تدبیر سے، ہتھیار سے اور تزویر سے اپنا سارا زور صرف کرچکے تھے اور اکیس سال تک اپنی ناکام کوششوں میں برابر منہمک رہے تھے، آج رحمة للعالمین صلے اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرجھکائے رحم کی درخواست زبانِ حال وقال سے کررہے تھے اور خدا کے وہ رسول صلے اللہ علیہ وسلم جو رحمة للعالمین کی شان کے ساتھ مبعوث ہوے تھے اس جماعت اور گروہِ قریش کی طرف نگاہِ رحمت سے دیکھ رہے تھے اور اپنی شانِ رحمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام حالات کو نظر انداز فرماکر زبانِ رحمت سے کہہ رہے تھے:
          یَا مَعْشَرَ قُریش! انَّ اللّٰہَ قَدْ اَذْہَبَ عنکم نخوة الجَاہِلِیَّةِ وتَعَظُّمَہا بالأبَاءِ، الناسُ مِنْ آدَمَ وآدَمُ خُلِقَ مِنْ تُرَابٍ ثم تَلاَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَأیُّہَا النَّاسُ انَّا خَلَقْنٰکُمْ مِنْ ذَکَرٍ وَأنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ أکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أتْقَاکُمْ (سورة الحجرات)
اے گروہِ قریش! خدا نے تمہاری جاہلانہ نخوت اور آباء واجداد پر اترانے کاغرور آج توڑ دیا (سچ تو یہ ہے) سب لوگ آدم علیہ السلام کے فرزند ہیں اور آدم علیہ السلام مٹی سے پیدا کیے گئے ہیں (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد وعورت سے بنایا اور خاندان وقبیلے سب جان پہچان کے لیے بنائے ہیں اور خدا کے یہاں تو اس کی عزت زیادہ ہے، جس میں تقویٰ زیادہ ہو۔
                پھر رحمة للعالمین صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سردارانِ قریش! اللہ کے رسول سے کس طریقہ کے برتاؤ کی توقع لے کر آئے ہو؟ مکہ والوں نے کہا کہ ہمیں اپنے سردار کے فرزند سے عمدہ سلوک اور اچھے برتاؤ کی امید اور توقع ہے رحمتِ عالم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: آج تمہارے ساتھ وہی معاملہ ہوگا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا، لہٰذا تمام لوگوں کو معاف فرماکر صرف ایسے حضرات کے لیے فرمایا جو زندگی بھر اللہ اور رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے سب سے بڑے دشمن تھے کہ جہاں ملیں قتل کردیا جائے ایسے لوگوں کی تعداد بھی پندرہ سولہ سے متجاوز نہ تھی؛ لیکن ان میں بھی جو مسلمان ہوکر رحمتِ دوعالم صلے اللہ علیہ وسلم سے رحم کی درخواست کرتے، انہیں بھی معافی دے کر صلہ رحمی کی مثال قائم فرمادی۔
حرفِ آخر
                رحمتِ دوعالم صلے اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ اور مبارک زندگی کو تین ادوار اور حصوں پر تقسیم کیا جاسکتا ہے:
                (۱) بعثت و نبوت سے قبل چالیس سال اس پوری مدت اور پورے عرصے میں تمام قریش خواہ اپنے ہوں یا پرائے، چھوٹے ہوں یا بڑے سب ہی آمنہ کے لعل اور عبداللہ کے فرزند پر جاں نثار تھے، شفقت ومحبت سے پیش آتے تھے اور ادب واحترام کی وجہ سے نام نہ لے کر صادق اور امین کے لقب سے پکارتے تھے۔
                (۲) دوسرا دور بعثت ونبوت کے بعد سے فتحِ مکہ تک، اکیس سال اس عرصے میں صورتِ حال یکسر بدل گئی تھی اور قریش کا بچہ بچہ اللہ کے رسول صلے اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا اور عداوت ودشمنی میں بھی حد سے متجاوز تھا اور صورتِ حال کے بدلنے کی وجہ صرف یہ تھی کہ قریش کو اپنی آزادخیالی، بے مہار زندگی اور مذہب وقانون کی بندشوں سے بے پرواہ رہنے جیسی عادت کے لیے اسلام اور بانیِ اسلام دشمن نظر آتے تھے، لہٰذا مذہبِ اسلام اور اسلام کا نام لینے والوں کا نام ونشان مٹانا انھوں نے اپنا مقصدِ زندگی بنالیا تھا۔
                (۳) تیسرا دور فتح مکہ سے شروع ہوتا ہے یہ دور مندرجہ دوسرے دور سے بالکل مختلف تھا کہ جو قوم پہلے طاقتور اور زور آور تھی وہ اب کمزور و ناتواں ہوچکی تھی اور جو حضرات دوسرے دور میں بے سروسامانی کے عالم میں تھے وہ خداوند عالم کے فضل وکرم سے بھاری جمعیت اور سازوسامان سے آراستہ ہوچکے تھے اور صورتِ حال اس لحاظ سے بھی بدلی ہوئی تھی کہ دوسرے دور میں جو قوم طاقتور اور زورآور تھی وہ کمزوروں پر ظلم وستم کو روا رکھتی تھی بل کہ کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھی اور جو حضرات اس تیسرے دور میں غالب تھے وہ ظلم تو کجا بدلہ لینے کو جائز نہیں کہہ رہے تھے جب کہ عالمی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ فاتح قوم نے مفتوحوں پر ظلم کیا ہے؛ لیکن یہ قوم اقوام کی تاریخ سے سبق لینے یا اس پر عمل کرنے کے لیے نہیں؛ بل کہ ایک ایسی نئی تاریخ رقم کرنے والی قوم تھی اور ہے، جسے تا ابد اقوامِ عالم دیکھتی رہیں اور اس سے سبق لے کر عالم کو فتح کرنے کا راستہ ہموار کریں، اسی کو سیرت نگار اور موٴرخ اسلام لکھتے ہیں کہ: اسلام بزورِ شمشیر نہیں پھیلا؛ بل کہ اسلام کی نشر واشاعت اخلاقِ حسنہ کے ذریعہ ہوئی ہے اور فتح مکہ اس کی زندئہ جاوید مثال ہے کہ قریش کا غرور اور گھمنڈ خاک میں مل چکا تھا اور اپنی زندگی کی بھیک مانگنے کے لیے بیت اللہ شریف میں جمع تھے، اُدھر اللہ کا وہ رسول صلے اللہ علیہ وسلم جو آٹھ سال پہلے اسی مادروطن کو چھوڑنے پر مجبور ہوا تھا اور ساڑھے تین سو میل کے فاصلے پر بھی قریش سے متعدد مرتبہ دق اور پریشان ہوچکا تھا، اگر چاہتا تو بیک زبان ان کی گردن کاٹنے کا حکم فرماتا؛ کیوں کہ ان میں مسلمانوں کے قاتل، نبی صلے اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے دشمن، اسد اللہ حضرت حمزہ رضي الله عنه  کا قاتل، ان کی مبارک نعش کی بے حرمتی کرنے والا اور حضرت حمزہ رضي الله عنه  کا کلیجہ چبانے والی وغیرہ وغیرہ ایسے بہت سے تھے جن سے نا بھولنے والی ایذائیں اور تکالیف پہنچی تھیں، لیکن اللہ کے رسول رحمة للعالمین صلے اللہ علیہ وسلم ہیں اوروہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰة والسلام کے واقعہ کو دوبارہ زندہ فرمانے والے ہیں، لہٰذا وہی معاملہ فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا آپ نے فرمایاکہ تم سب پر آج کوئی گرفت نہ ہوگی؛ چنانچہ اس اخلاق کا اثر یہ ہوا کہ وہ سب مسلمان ہوگئے، یہ ہے اشاعتِ اسلام کا اصل سبب، اللہ رب العزت تمام ملت کو اخلاقِ نبویہ علی صاحبہا الصلوٰة والسلام پر عمل کرنے کی سعادتِ عظمیٰ نصیب فرمائے، آمین ثم آمین۔


سلام اُن پر جنہوں نے زخم کھاکر پھول برسائے
آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے پہلووٴں میں ایک اہم پہلو آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق ہیں، یہ ایسا پہلو ہے جس میں تمام مصلحین امت آپ صلی الله علیہ وسلم سے پیچھے نظر آتے ہیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم جلوت اورمجمع عام میں جس میں بات کی دعوت دیتے تھے، خلوت میں بھی بذاتِ خود اس پر عمل پیرا تھے۔

ام المومنین حضرت عائشہ سے کسی نے پوچھا آپ صلى الله عليه وسلم کے اخلاق کیسے تھے ؟ اماں جان نے جواب دیا کیا تم نے قرآن کریم نہیں پڑھا؟ ”کان خلقہ القرآن ․“ ( ابوداوٴد1/190 دیوبند ) یعنی قرآن کریم جن اوصاف حمیدہ کو چاہتا ہے وہ آپ صلى الله عليه وسلم کی ذات گرامی میں بدرجہٴ اتم موجود تھے اور قرآنِ کریم جن امور سے روکتا ہے آپ صلى الله عليه وسلم ان سے مکمل پاک تھے ۔

اخلاقِ کریمانہ میں سے ایک اہم وصف عفو ودر گذر ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم میں یہ وصف بدرجہٴ اتم موجود تھا اور اس کا مظاہر ہ باربار آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی میں ہوا جس طریقہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ”خیر المال العفو“ یعنی معاف کرنا بہترین دولت ہے اس کی تعلیم دی اسی طرح عملی زندگی میں اس کو آشکارا کیا کہ امت اس عظیم وصف کو اپنا کر دار ین کی سعادت پائے۔

اہل طائف سے عفو ودرگذر 
اہلِ مکہ پر سالہاسال محنت کرنے کے باوجود وہ دامنِ اسلام سے وابستہ نہ ہوئے اور ہرطرح کی تکالیف پہنچانا انہوں نے اپنا شیوہ بنا لیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے طائف کا ارادہ کیا ، وہاں آپ صلی الله علیہ وسلم کی کچھ قرابتیں بھی تھیں اور یہ امید تھی کہ جب وہاں مسافرانہ ہیئت سے جائیں گے تو عرب کی روایت کے مطابق میری بات غور سے سنیں گے اور بہت ممکن ہے کہ وہ اسلام میں داخل ہوجائیں اور وہاں سے اسلام کا پھیلنا نسبتاً آسان ہوجائے ، مگر ان لوگوں نے خلاف توقع سختی کا معاملہ کیا، اپنے یہاں رہنے نہیں دیا ، اوباشوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے لگا دیا ، جنہوں نے پتھر مار مار کر آپ صلی الله علیہ وسلم کے جسم کو لہو لہان کردیا، ایک موقع پر جب ان اوباشوں سے نجات ملی اور تھوڑی دیر آرام کرنے کی غرض سے رکے تو ان کی سنگ دلی کو سوچ کر دل بھر آیا ، پہاڑ کا ذمہ دار فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ !اگر آپ حکم دیں تو میں ان دونوں پہاڑوں کو ملادوں، تاکہ یہ دشمن اس میں پس کر رہ جائیں ، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم راضی نہ ہوئے اور فر مایا ممکن ہے کہ ان کی آئندہ نسل حلقہ بگوش اسلام ہوجائے۔

غزوہٴ احد کے موقع پر عفو ودرگذر 
غزوہٴ احد کے موقع پر جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید ہوئے تو یہ واقعہ اصحاب نبی پر گراں گزرا تو صحابہٴ کرام  نے کفار مکہ کے لیے بددعا کی درخواست کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا میں لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں۔( الوفاء2/21 بیروت)

ناشائستہ کلمات کہنے والوں سے در گزر 
حضرت جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں، جب غزوہٴ حنین کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں میں مال تقسیم کررہے تھے تو ایک آدمی آیا اور بھر ے مجمع میں بڑے ترش لہجے میں کہا اے محمد !انصاف کرو آپ صلی الله علیہ وسلم نے کہا تعجب ہے میں نہیں انصاف کروں گا تو کون انصاف کرے گا؟! اگر میں نے انصاف نہ کیا تو میں خسارے میں رہوں گا، حضرت عمرنے کہا اگر آپ صلی الله علیہ وسلم اجازت دیں تو میں اس منافق کو قتل کردوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ چھوڑدو لوگ کہیں گے کہ محمد اپنے ہی اصحاب کاقتل کرتے ہیں ( الوفاء 2/22 بیروت) یعنی اتنے سارے صحابہ کی موجودگی میں اور پھر نبی کے ساتھ اس طرح پیش آنا کوئی معمولی بات نہیں تھی ، لیکن اس کے باوجود آپ نے اس سے در گزر فر مایا۔

غزوہٴ حنین میں نومسلموں کی تالیف قلب کے واسطے مال غنیمت کا بڑا حصہ ان میں تقسیم کیا گیا تھا، جس پر بعض حضرات ناراض تھے اور اپنی ناراضگی کا اظہار حضرت عبد اللہ بن مسعود کے سامنے کیا اور یہ کہا کہ اس تقسیم سے اللہ کی خوش نودی کا ارادہ نہیں کیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ یہ بات شان نبی میں گستاخی تھی ، اس لیے حضرت بن مسعود نے آپ کے سامنے اس کا ذکر کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم کا چہرہٴ انور غصہ کی وجہ سے متغیر ہوگیا، پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ رحم کرے موسیٰ علیہ السلام پر، ان کو اس سے زیادہ تکلیف دی گئی تھی ، لیکن انہوں نے صبر کیا۔ ( السیرة النبویة لابن کثیر 3/686بیروت)

اہل مکہ سے در گزر 
اہل مکہ کا ظلم مکی زندگی میں کسی سے مخفی نہیں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کو نعوذ باللہ کبھی پاگل ، کبھی شاعر ، کبھی مجنون ، کبھی جادو گر کہنا ، اسی طرح دھمکیاں دینا، راستے میں کانٹے بچھانا اور نجاست کا جسم مبارک پر انڈیل دینا معمول کی بات تھی ، اس کے باوجود جب مکہ فتح ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے دشمنوں کو معاف کردیا، جنہوں نے اپنی پوری زندگی آپ صلی الله علیہ وسلم کی دشمنی میں بسر کی اور ہر دم آپ صلی الله علیہ وسلم کے خون کے پیاسے تھے، مثلاً صفوان بن امیہ آپ کے قدیم دشمنوں میں شمار ہوتے تھے ،آپ صلی الله علیہ وسلم کو نعوذ باللہ قتل کرنے کے لیے ایک آدمی کو مقرر بھی کیا تھا، جسے اللہ نے ناکام کردیا ، ابوسفیان بن حرب جو تمام جنگوں میں آپ کے خلاف محاذبنانے کی بھر پور کوشش کرتے رہے اور لوگوں کو ابھار کرکبھی احد کے میدان میں لائے اور کبھی غزوہٴ خندق میں یہودیوں کے ہمراہ مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوئے ، عکرمہ بن ابی جہل اور ان کے والد یعنی ابوجہل کی دشمنی تو ایک معروف بات ہے، ان تمام لوگوں سے آنحضرت کا در گزر اور اپنے دامن عفو میں جگہ دینا تاریخ کا ایک ایسا نایاب واقعہ ہے جس کی نظیر پیش کرنے سے تاریخ عاجز ہے، کسی بھی فاتح کا فتح کے بعد ملک میں غارت گری مچانا عام سی بات ہے، جس کو قرآن کریم نے ﴿ان الملوک اذا دخلوا قریة افسدوہا﴾ کہہ کر بہترین نقشہ کھینچا ہے اور بتایا ہے کہ فاتح مقبوضہ بستیوں میں قتل وخون کا بازار گرم کرتے ہیں ، لیکن دوسری طرف آقائے رحمت صلی الله علیہ وسلم ہیں کہ معزز چچا کے قاتلین کو بھی معافی کا پروانہ عطا کرتے ہیں ۔( الوفاء 2/22 بیروت)

زید بن سعنہ کی گستاخی سے در گزر 
عبد اللہ بن سلام فر ماتے ہیں : زید بن سعنہ اسلام لانے سے پہلے آپ صلى الله عليه وسلم سے کچھ لین دین کا معاملہ کرتے تھے ، ایک مرتبہ آپ کو انہوں نے ایک متعین وقت کے لیے قرض دیا تھا ،ابھی اس مدت کے آنے میں کچھ دن باقی تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم ایک جنازے میں شریک تھے، یہ آئے اور آپ کی چادر پکڑ کر کھینچنے لگے اور بہت زیادہ سخت سست کہا اور کہا اے عبد المطلب کے خاندان والو! تم لوگ ہمیشہ یوں ہی ٹال مٹول کرتے رہتے ہو ، آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ حضرت عمر موجود تھے ، غصہ سے بے تاب ہوگئے اور کہا اے اللہ کے دشمن! تو اللہ کے نبی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے اور اس طرح بکواس کرتا ہے!! اگر میرا بس چلتا تو میں تیری گردن ہی اڑا دیتا ، آپ صلى الله عليه وسلم بڑے ہی اطمینان سے حضرت عمر کو دیکھ رہے تھے، پھر مسکرا کر فر مایا: اے عمر! تمہارا تو یہ کام تھا کہ اس کو قرض وصول کرنے میں نرمی اختیار کرنے کی تلقین کرتے اور اچھاسلوک کرنے کا حکم دیتے اور مجھ کو قرض ادا کرنے کو کہتے ، تمہارا یہ کام نہیں کہ ان کہ درپہٴ آزارہوجاوٴ، انہیں لے جاوٴ، بیس صاع کھجور دے دو اور زائد بھی دو۔ اس کے بعد زین بن سعنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔( جمع الوسائل 2/157پاکستان)

عبد اللہ بن ابی سے در گزر 
رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابی سے کون واقف نہیں؟ اس نے ہر اعتبار سے آپ صلى الله عليه وسلم کو اور آپ صلى الله عليه وسلم کے اصحاب کو تکلیف دی اور اس میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، اس کے باوجود جب اس کا انتقال ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم اس کی نمازہ جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے ، حضرت عمر سے رہا نہ گیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے آکر کہنے لگے کہ اللہ کا دشمن جس نے آپ کو اس طرح سے تکلیفیں دی ہیں اور آپ اس کی نمازہ جنازہ پڑھا رہے ہیں ؟! تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مسکرا کر جواب دیا: اے عمر !مجھ کو اختیار دیا گیا ہے، اگر مجھ کو یہ بات معلوم ہوتی کہ ( ستر مرتبہ سے زائد استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہوجائے گی تو میں اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتا) ( الوفاء 2/19 بیروت)

آج امت مسلمہ اس اہم صفت ”حلم“ سے دور ہے، اس کے فقدان کے سبب معاشرہ عجیب کشمکش سے دوچار ہے ، فتنہ وفساد، قتل وغارت گری کا بازار گرم ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم تو غیروں کے ساتھ بھی عفو ودر گزر کا معاملہ کرتے تھے، آج ہم اپنے بھائیوں اور خاندان میں بھی اختیار نہیں کرتے، کاش! ہم اس صفت کو اپنا لیں تو کتنے جھگڑے ختم ہوجائیں اور کتنے خاندان سکون واطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے لگیں۔


رشتے داروں کے ساتھ آپ ﷺ کا رحیمانہ سلوک
انسانیت کے بے شمار طبقات ایسے ہیں جو رحم وکرم کے مستحق ہیں،اگر ان طبقات کی جانب بر وقت توجہ نہ دی گئی کہ تویہ طبقات انسانی حقوق سے محروم ہوجائیں گے، لہٰذا آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت کے جن کمزور طبقات کی جانب بر وقت توجہ فرمائی، انہیں میں رشتہ داروں کا بھی طبقہ ہے، ایک بھائی کمزور وبے سہارا ہے تو دوسرا بھائی مال دار وصاحب ثروت ہے، ایسے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے رشتہ داری کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے صاحب ثروت کو اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھنے کی تلقین فرمائی، کمزور کونصیحت فرمائی کہ وہ اپنے بھائی سے جڑا رہے، اس طرح سے گویا آپ صلی الله علیہ وسلمنے رشتہ داروں کے حقوق بیان کر کے موقع بموقع ان پر خرچ کرنے کی ترغیب دے کر، ان کے مصالح کی رعایت پر آمادہ کر کے ان کے ساتھ رحیمانہ طرزِ عمل اپنانے کی تلقین کرکے، بہر صورت رشتے داری کو باقی رکھنے کا حکم دے کر رشتے داروں پر آپ صلی الله علیہ وسلمنے رحم کیا ہے، یہ آپ کے رحم وکرم کا ہی اثر تھا کہ انسانیت کے اس طبقے نے بھی اس سے وافر حصہ پایا، رحم کے معنی رشتہ داری کے ہیں، گویا رحم وکرم کا پہلو اور رحمت کا عنصر رشتہ داروں کے ساتھ لازمی ہے، اگر رشتہ داروں کے ساتھ ہی رحیمانہ طرز عمل نہ اپنایا جائے تو پھر یہ رحمت کا پہلو کس کام آئے گا؟! انسانی رحمت کے اولین حق دار اس کے عزیز واقارب ہی تو ہیں، اگر کوئی شخص اہل دنیا کے ساتھ رحیمانہ برتاوٴ اپنائے؛ لیکن جو عین رحمت کے مستحق ہیں انہیں سے صرف نظر کرے تو یہ بڑے خسارے کی بات ہے، ایک تو آپ صلی الله علیہ وسلمکے اقوال میں صلہ رحمی کی اہمیت بتائی گئی ہے، دوسرے آپ صلی الله علیہ وسلمنے عملی طور پر صلہ رحمی کی وہ مثالیں پیش کی ہیں، جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے۔

صلہ رحمی کی اہمیت
حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں ہی اللہ ہوں، میں ہی رحمن ہوں، میں نے ہی رشتہ داری کو پیدا کیا ہے، جو شخص رشتہ داری کو جوڑے گا میں اس کو جوڑ دوں گااور جو رشتہ ناطہ توڑے گا میں اس کو توڑدوں گا۔(بخاری:5528)ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: رشتہ داری عرش کے ساتھ معلق ہے، جو شخص رشتہ داری قائم رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کو جوڑیں گے اور جو قطع تعلق کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے کاٹ دیں گے۔(مسلم: 4635) ان دونوں احادیث میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے قطع رحمی پر جو وعیدذکر کی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت خاصہ سے دور کردیں گے۔ (مشکوٰة ص:402)

پسندیدہ عمل وناپسندیدہ عمل
آپ صلی الله علیہ وسلم سے ایک صحابی نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک محبوب عمل کیا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلمنے جواب دیا کہ اللہ پرایمان لانا، اس کے بعدسائل نے دو بارہ سوال کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے جواب دیا، صلہ رحمی کرنا۔

غور کیجیے! اس حدیث پاک میں آپ صلی الله علیہ وسلمنے بنیادی چیز ایمان کے بعد جس کا تذکرہ کیا ہے وہ صلہ رحمی ہے اور یہ بھی بتایا کہ صلہ رحمی اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے، گویا صلہ رحمی کو اپنانے والا بندہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں میں شامل ہوتا ہے، جس نے صلہ رحمی کو اپنا شیوہ ووطیرہ بنالیا اس نے اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل میں رغبت کا اظہار کیا، اس کے آگے سائل نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل کونسا ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے جواب دیا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا شرک کے بعد سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل وہ قطع رحمی ہے۔ ان احادیث میں غور طلب امر یہ ہے کہ اہم اور بنیادی چیز ایمان کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلمنے صلہ رحمی کا تذکرہ فرمایا ہے، اسی سے صلہ رحمی کی اہمیت خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ جو بھی مومن ہوگا وہ صلہ رحمی کے زیور سے خود بخود آراستہ ہوگا اور جو شخص بھی مومن بننا چاہ رہا ہو، اسے صلہ رحمی سے متصف ہونا ہی پڑے گا اور وعید کے طور پر آپ صلی الله علیہ وسلمنے ذکر فرمایا: اگر کوئی بد ترین عمل اللہ کو زیادہ ہی ناپسند ہے تو وہ شرک ہے، اس شرک جیسے بد ترین عمل کے تذکرے کے بعد قطع رحمی کاتذکرہ اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بھی قطع رحمی انتہائی ناپسند ہے، اور قاطعِ رحم اللہ کی نگاہوں سے گر جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ قاطعِ رحم کو اپنی خصوصی عنایات والطاف ورحمتوں سے محروم کردیتے ہیں۔

جنت میں داخلے کا سبب
کسی بھی مسلمان کی اولین خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اخروی اعتبار سے کام یاب ہو اور جہنم سے نجات پاکر جنت میں داخل ہوجائے، اور جنت میں داخلے کے کئی اسباب ہیں، جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ذکر فرمائے ہیں، انہیں میں ایک سبب آپ صلی الله علیہ وسلم نے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کو بھی جنت میں داخلہ کا ذریعہ قرار دیا اور جو شخص قطع رحمی یا تعلقات ورشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ رکھے اور رشتہ داروں سے بے اعتنائی وبے توجہی برتے اس کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے بڑی سخت وعید ذکر فرمائی کہ ایسا شخص جنت میں داخلے کا مستحق نہیں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: رشتہ داری توڑنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔(مسلم: 4637) نیز آپ صلی الله علیہ وسلم سے ایک صحابی نے سوال کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس کے ذریعہ میں جنت میں داخل ہوجاوٴں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جوابا ارشاد فرمایا: ایک اللہ کی عبادت وبندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نیز نماز ادا کرو، زکوٰة دیاکرو اور رشتہ داری کو جوڑا کرو۔ (بخاری:1309) گویا ان چاروں میں سے کسی ایک میں بھی کمی کر ے تو اس کے جنت میں داخلے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

صلہ رحمی کا بدلہ دنیا میں
بعض نیک کاموں کے فوائد تو اخروی اعتبار سے ظاہر ہوتے ہیں، لیکن بعض نیک کام ایسے ہیں کہ جن کا نقد فائدہ دنیا میں بھی ہوتا ہے، انہی میں ایک صلہ رحمی ہے کہ اس کا فائدہ دنیا ہی میں ظاہر ہوتاہے، لہٰذا آپ صلی الله علیہ وسلم نے عمر میں اضافہ کا ایک ذریعہ صلہ رحمی کو قرار دیا، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے اقارب پر رحم وکرم کو نقد ثواب کا ذریعہ قرار دیا، ٹھیک اسی طرح قطع رحمی کا بدلہ اللہ تعالیٰ آخرت میں تو دیں گے ہی، لیکن ان کے نقصانات دنیا میں بھی ظاہر ہوتے ہیں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: قطع رحمی سے زیادہ جلد کسی اور چیز میں پکڑ نہیں ہوتی، ایک اور موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکڑ ہوتی ہے۔

رشتہ دار پر صدقہ کا دُگنا اجر
عموما قاعدہ ہے کہ انسان احسان کے تابع رہتا ہے، عموی طور پر انسان اپنے محسنین کے ساتھ اچھا ہی رویہ اپناتا ہے، تعلقات کی برقراری کو اہمیت دیتا ہے اوروں کے بہ نسبت محسنین کو ہر کوئی اہمیت کی نظر سے دیکھتا ہے، لہٰذا آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس احسان کے ذریعہ بھی رشتہ داری کو جوڑنے کو اہم قرار دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے عام افراد پر صدقہ کرنے کے بجائے رشتہ داروں پر خرچ کو بھی ثواب کا ذریعہ ووسیلہ قرار دیا، اس سے آگے بڑھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عام مسکین پر صدقہ سے تو ایک گناہی ثواب پائے گا لیکن اگر کوئی شخص غریب رشتہ دار کو صدقہ دیتا ہے تو اس کو دُگنا ثواب واجر ملے گا، ایک اجر تو صدقے ہی کا، دوسرا صلہ رحمی کا اجر۔ (مشکوٰة المصابیح) ایک اور موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے مال دار عورتوں کو جو اپنے شوہروں پر اور ان کے بچوں پر خرچ کرتی ہیں انہیں دُگنے اجر کی بشارت سنائی، ایک رشتہ داری کا اجر، دوسرے صدقہ کا اجر۔(بخاری: 3730) نیز حضرت ابو طلحہ نے جب اپنے انتہائی قیمت درخت راہ ِخدا میں صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اپنے رشتہ داروں پر صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ (بخاری: 1368)

برابری کرنے والا جوڑنے والا نہیں
خاندانی تعلقات کی بقا کے لیے انسان کو جس حد تک بھی گذرنا پڑسکتا ہے اس کواختیار کرنے سے دریغ نہ کرنے کا حکم دیا اور ہر حال میں اسے اپنانے کی تلقین کی اور بہر صورت رشتہ داری باقی رکھنے کا حکم دیا، اگر ایک جانب سے زیادتی ہورہی ہے اور شتہ داری کاٹنے کی کوشش کی جارہی ہے تو ایسی صورت میں دوسرے فریق کو برابری کرنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ یہاں تک فرمادیا کہ برابری کرنے والا رشتہ داری کو جوڑنے والا نہیں، بلکہ رشتہ داری کو جوڑنے والا تو وہ ہے جب قطع رحمی کی جائے تو یہ صلہ رحمی کرے۔(بخاری: 5532) نیز ایک صحابی رسول نے آکر آپ صلی الله علیہ وسلمکو یہ خبر دی کہ میں تو صلہ رحمی کرتا ہوں اور مخالف قطع رحمی کرتا ہو تو میں کیا کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم قطع رحمی کرنے والوں کے ساتھ صلہ رحمی اسی طرح کرتے رہو، جب تک تم یہ طرزِ عمل اختیار کروگے اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہوگی۔(مسلم: 4640)

بہترین صدقہ
مال دار کو اگر خرچ کی اہمیت وفضیلت بتائی جائے تو خرچ پر آمادہ ہوسکتا ہے، رشتہ داروں پر خرچ کے لیے تیار ہوبھی سکتا ہے، لیکن اگر کسی ایسے آدمی پر خرچ کرنے کی ترغیب دی جائے جو ظالم بھی ہو، قریبی رشتہ دار بھی ہو تو مظلوم مال دار پر کیا گذرے گی؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ صرف ظالم رشتہ دارپر خرچ کرنے کی ترغیب دی، بلکہ اگر مظلوم ظالم رشتہ دار پر خرچ کرے تو اس کو بہترین صدقہ قرار دیا، آپ کے رحیمانہ وکریمانہ اثرات سے ظالم رشتہ داروں تک نے بھی وافر حصہ پایا۔

زرق میں کشادگی کا ذریعہ
صلہ رحمی کے فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ اس کے رزق میں اضافہ کیا جائے اس کا تذکرہ زیادہ دیر تک باقی رہے تو چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے، صلہ رحمی سے رزق میں کشادگی ہوگی۔ رزق جیسی اہم چیز جس کے اضافہ کے لیے انسان ہر وقت کوشاں وساعی رہتا ہے اس کے بھی اضافہ کا ذریعہ صلہ رحمی ہی کو قرار دیا، نیز موت میں تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ یا تو عمر میں برکت ہوگی یا یہ کہ ایسا شخص عمر کو ضائع نہیں کرے گا، یا اس کا ذکر طویل زمانے تک باقی رہے گا، یہ عمر میں اضافہ مخلوق کے اعتبار سے ہے، نہ کہ خالق کی اعتبار سے۔(حاشیہ مشکوٰة: ص: 419)

الغرض نہ صرف یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی زبانی ہی ترغیب دی ہے بلکہ عملی طور پر اس کے نمونے ومثالیں آپ صلی الله علیہ وسلمنے اپنے عمل سے پیش فرمائی ہیں، چناں چہ سیرت کی کتابوں میں اس کی بے شمار نظیریں ومثالیں موجود ہیں، حضرت علی جو ابو طالب کے بیٹے تھے ان کی کفالت اپنے ذمہ لی، کیوں ابو طالب معاشی اعتبار سے نہایت تنگ دست تھے، جس کی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلمنے حضرت علی کی تعلیم وتربیت اور کفالت کا انتظام کیا اور ایک بھائی حضرت عثمان کے حوالے کیا کہ ابو طالب کا بوجھ ہلکا ہوسکے، آج امت مسلمہ کا عالم یہ ہے کہ جتنے حقوق جتنی اہمیت رشتہ داری کی آپ صلی الله علیہ وسلم نے بتلائی ہے امت مسلمہ اتنی ہی زیادہ ان سے لا پروا ہے او رجتنی وعیدیں قطع تعلق کے سلسلہ میں بیان فرمائی ہے او رجتنا قطع رحمی سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے اتنی ہی زیادہ امت مسلمہ قطع رحمی سے قریب ہوتی جارہی ہے، مسلم معاشرہ میں قطع رحمی ایک محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے، تھوڑی سی اَن بَن پر رشتہ داروں سے زندگی بھر کے لیے دوری روز مرہ کا معمول بن چکا ہے، ایک گھر میں رہتے ہوئے برسہا برس تک ایک بھائی دوسرے بھائی کی صورت دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتا، کوئی عفو ودر گذر سے کام لے کر صلح کے لیے آمادہ نہیں، لہٰذا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، عفو ودر گذر کو لازم پکڑے، اور قطع رحمی وغیرہ سے مکمل پر ہیز کرے۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے، آمین!




نبیِ رحمت ﷺ اور کسبِ معاش

       یٰایُّہا الرُّسُلُ کُلُوْا مّنَ الطَّیِّبَاتِ (الآیة) اس خدائی حکم اور قانونِ الٰہی پر تمام انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام نے اپنے اپنے زمانے اور عہد کے لحاظ سے مختلف طریقوں سے عمل کیا بالخصوص نبی آخر الزماں، رحمت عالم، ہادیٴ دوعالم حضرت محمد مصطفی ﷺ نے بھی مذکورہ قرآنی دستور کو عملی جامہ پہنایا، آقائے دو جہاں کبھی دایہ حلیمہ کے بچوں کے ساتھ بکریاں چراتے ہیں، تو کبھی خواجہ ابوطالب کے ساتھ بغرض تجارت شام کا سفر کرنے پر بضد ہوتے ہیں، محبوب رب العالمین اگر خدیجتہ الکبریٰ کا مال، مضاربت کے طور پر لے کر شام کا سفر فرماتے ہیں، تو اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے بدلے جنگل میں چراتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں؛ کیوں کہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہوتا اور اللہ کے نبی حضرت داؤد علیٰ نبینا وعلی الصلوٰة والسلام اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے تھے اور حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمة اللہ علیہ ”معارف القرآن“ میں فرماتے ہیں کہ: کسبِ معاش کے ذرائع میں تجارت اور محنت سب سے افضل اور اطیب ذریعہٴ معاش ہے؛ لہٰذا رسولِ خدا ﷺ نے تجارت اور سوداگری فرمائی ہے۔
شغل تجارت
                (۱) حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء سے روایت ہے کہ میں نے بعثت سے قبل ایک مرتبہ محمد بن عبداللہ ﷺ سے ایک معاملہ کیا، میرے ذمہ کچھ دینار باقی تھا، میں نے آپ ﷺ سے وعدہ کیا کہ میں ابھی لے کر آتا ہوں، اتفاق سے گھر جاکر وعدہ بھول گیا، تین دن کے بعد یاد آیا کہ آپ ﷺ سے وعدہ کرکے آیا تھا، یاد آتے ہی فوراً وعدہ گاہ پہنچا تو آپ ﷺ کو اسی مقام پر منتظر پایا۔ آپ ﷺ نے صرف اتنا فرمایا کہ: تم نے مجھ کو زحمت دی، میں تین روز سے اسی جگہ تمہارا انتظار کررہا ہوں۔
                (۲) آپ ﷺ نے بعثت سے قبل عبداللہ بن سائب کے ساتھ بھی تجارت میں شرکت فرمائی تھی، وہ آپ ﷺ سے کہتے ہیں کنتَ شریکی فنعم الشریکُ لا تداری ولا تماری (آپ ﷺ تو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک تھے، نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات میں جھگڑتے تھے)۔
                (۳) آپ ﷺ نے قیس بن سائب کے ساتھ بھی تجارت میں شرکت فرمائی تھی، وہ فرماتے ہیں کان خیرَ شریکٍ لا یماری ولا یشاری (آپ بہترین شریک تھے، نہ جھگڑتے تھے، نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے)۔
                (۴) حضرت خدیجہ بنت خویلد کے مال میں بطور مضاربت ملکِ شام جاکر تجارت کرنا تواتر کی حد تک مشہور ومعروف ہے، اسی سفر میں حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ ساتھ تھے، انھوں نے آپ ﷺ کے اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار کا خوب مشاہدہ کیا اور واپسی پر وہ رُودادِ سفر بیان کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ایک صاحب نے آپ ﷺ سے کہا: لات وعزی کی قسم کھاؤ! آپ ﷺ نے فرمایا میں نے کبھی لات وعزّٰی کی قسم نہیں کھائی، یہ سن کر وہ صاحب کہنے لگے یہ نبی آخر الزماں کی علامت ہے؛ غرض یہ کہ یہی سفر عقدِ مسنون کا سبب اور ذریعہ ثابت ہوا۔
اصولِ تجارت
                قرآن کریم، احادیث رسول ﷺ اور سیرتِ طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بزنس اور تجارت بہترین پیشہ اور نبی کی سنت ہے، بشرطیکہ اسلامی اصول اور آداب کا لحاظ رکھا جائے؛ لہٰذا تجارت پیشہ لوگوں کو بہت سے اہم اور شرعی امور کی پابندی کرنی چاہیے اور متعدد کاموں سے بچنا اور پرہیز کرنا چاہیے اور ساتھ ہی عقیدہ یہ ہو کہ ان امور کی پابندی اور پرہیز سے دارین کی فلاح مقدر ہوگی۔
تجارت میں مطلوب اوصاف
                (۱) تقویٰ: رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں تاجر لوگ قیامت کے دن نافرمان لوگوں میں شامل کرکے اٹھائے جائیں گے، سوائے ان لوگوں کے جو اللہ سے ڈریں، نیکی اختیار کریں اور سچ بولیں۔
                (۲) امانت ودیانت: رسولِ خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا: التاجرُ الصدوقُ الأمینُ مع النبیین والصدیقین والشہداء (سچا امانت دار تاجر آخرت میں انبیا، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا) (ترمذی،ج۳،ص۱۴۵)
                (۳) سچائی: اوپر کی روایت میں دیانت وامانت کے ساتھ ایک وصف صدق اور سچائی بھی مذکورہے۔
                (۴) نرمی اور حسن اخلاق: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مزارعت کو حرام نہیں فرمایا؛ بلکہ یوں ارشاد فرمایا کہ: ایک دوسرے کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرو (مشکوٰة شریف،ص۳۱۵)
                (۵) بہتر ادائیگی: آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ: تم میں سب سے بہتر وہ ہے، جو ادائیگی میں سب سے بہتر ہو (بخاری شریف، ج۱،ص۳۲۲)
                (۶) تول میں جھکاؤ: اجرت لے کر وزن کرنے والے سے حبیب کبریا ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ زِنْ وأرْجحْ (تولو اور جھکاہوا تولو)
                (۷) صبح سویرے بیداری: اللہ کے نبی ﷺ نے دعاء فرمائی کہ اے اللہ میری امت کے لیے اس کی صبح کے اوقات میں برکت عطا فرما، لہٰذا راویِ حدیث حضرت صخرغامدی اپنے تاجروں کو صبح کے وقت ہی بھیجتے تھے؛ چنانچہ وہ مالدار ہوگئے اور ان کے مال میں اضافہ ہوگیا۔ (مشکوٰة شریف،ص۳۳۹)
                (۸) صدقہ: قیس بن غرزہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، اس زمانہ میں ہمیں ”سماسرہ“ کہا جاتا تھا، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ”تجار“ کی جماعت! بیشک شیطان اور گناہ دونوں خریدوفروخت میں آجاتے ہیں، پس تم اپنی تجارت کے ساتھ صدقہ کو ملالو (مشکوٰة شریف،ص۲۴۳)
                (۹) سخاوت: نبیِ آخر الزماں ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ سخی انسان پر رحم فرمائے جب وہ بیچے جب وہ خریدے اور جب وہ تقاضہ کرے (بخاری شریف ج۱،ص۲۷۸)
                (۱۰) تنگ دست کی رعایت: نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کسی تنگ دست کو مہلت دے یا معاف کردے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو اپنے عرش کے سائے میں جگہ دے گا، جس دن اللہ کے عرش کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا (ترمذی شریف، ج۱،ص۱۵۶)
                مذکورہ بالا اوصاف کے علاوہ تاجر میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع بہت ضروری ہے اور حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی رحمة اللہ علیہ سیرتِ المصطفیٰ کی پہلی جلد میں فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ سب سے زیادہ بامروت، سب سے زیادہ خلیق، سب سے زیادہ پڑوسیوں کے خبرگیر، سب سے زیادہ حلیم وبردبار، سب سے زیادہ سچے اور سب سے زیادہ امانت دار تھے، لہٰذا یہ تمام اوصاف ہر مسلمان میں ہونے چاہئیں خواہ وہ تاجر ہو یا نہ ہو۔
جن چیزوں جن سے تاجر کو بچنا چاہیے
                (۱) ناپ تول میں کمی: ارشاد باری ہے وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْن اذا اکْتَالُوا علی الناسِ یَسْتَوفُونَ وَاذا کَالواہُمْ أوْ وَزَنُواہم یُخْسِرُونَ (تطفیف) (بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے کہ جب وہ لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیتے ہیں اور جب لوگوں کو ناپ کریا تول کر دیں تو گھٹادیتے ہیں)
                (۲) دھوکہ: رسولِ خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا مَنْ غَشّ فَلَیْسَ مِنَّا (جو کوئی دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں) (مشکوٰة شریف ص۲۴۸)
                (۳) جھوٹ: ایک مرتبہ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں گناہوں میں سب سے بڑا گناہ نہ بتلاؤں، صحابہ نے عرض کیا: ضرور بتلائیے اے اللہ کے رسول ﷺ! فرمایا: اللہ کے ساتھ شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور آپ ﷺ سہارا لگاکر بیٹھے ہوئے تھے تو بیٹھ گئے اور فرمایا: یاد رکھو اور جھوٹ بات اور جھوٹی گواہی سے بچے (راوی نے) دو مرتبہ کہا، پھر آپ ﷺ اسی کو دہراتے رہے، یہاں تک کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ آپ ﷺ خاموش نہ ہوں گے (بخاری شریف ص۸۸۴)
                (۵) وعدہ خلافی کرنا: اوپر حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء کی روایت میں گزرا کہ آپ ﷺ حسب وعدہ تین روز تک وعدہ گاہ پر انتظار فرماتے رہے اور بعد میں کوئی جھگڑا یا برا بھلا بھی نہیں کہا (سیرت المصطفیٰ جلد۱)
                (۶) قسم کھانا: عام طور پر تجارت پیشہ لوگوں میں جھوٹی سچی قسمیں کھانے کی عادت ہوتی ہے، لیکن حضرت خدیجہ کے مال کو لے کر جب شام تجارت کے لیے گئے تھے تو میسرہ بیان کرتے ہیں ایک صاحب قسم کھلانے لگے تو آپ ﷺ نے قسم کھانے سے انکار فرمادیا (سیرت مصطفی جلد۱)
                (۷) بیجا مناقشہ کرنا: حضرت قیس بن سائب کی روایت گزری کہ آپ ﷺ بہترین شریک تجارت تھے اور جھگڑا کرتے تھے نہ کسی قسم کا مناقشہ کرتے تھے (ایضاً)
                (۸) کسی کو نقصان پہنچانا: نبی رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کسی مسلمان کو نقصان پہنچائے اللہ اسے نقصان پہنچائے گا اور کسی کو مشقت میں ڈالے اللہ اس پر مشقت ڈالے گا (مشکوٰة شریف ص۲۴۹)
                (۹) گالی گلوج: فحش گوئی اور ہر بُری بات سے اجتناب بھی ضروری ہے، کیوں کہ آپ ﷺ ان چیزوں سے سب سے زیادہ بچتے اور پرہیز کرتے تھے۔
بکرایاں چرانا
                فخرالاولین والآخرین، امام الانبیاء والمرسلین، شفیع المذنبین، رحمة للعالمین اور حبیب ربّ العالمین حضرت محمد ﷺ نے جب آنکھیں کھولیں اور ذرا ہوش سنبھالا تو رضاعی والدئہ محترمہ حلیمہ سعدیہ سے پوچھا کہ: رضاعی بھائی عبداللہ نظر نہیں آتے، حضرت سعدیہ نے فرمایا کہ: وہ بکریاں چرانے جاتے ہیں، اسی وقت فرمایا کل سے میں بھی بھائی عبداللہ کے ہمراہ بکریاں چرانے جاؤں گا، گویا اسی وقت یہ احساس فرمالیا کہ: اپنا بار دوسروں پر ڈالنے کے بجائے خود اٹھانا چاہیے، نیز جب آپ مکہ میں رہتے تھے تو اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے بدلے چراتے تھے۔
                حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مقام” الظہران“ میں ہم نبی کریم ﷺ کے ساتھ تھے کہ وہاں پیلو کے پھل چننے لگے، آپ ﷺ نے فرمایا: سیاہ دیکھ کر چنو وہ زیادہ خوش ذائقہ اور لذیذ ہوتے ہیں، ہم نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ ﷺ! کیا آپ ﷺ بکریاں چرایا کرتے تھے؟ کہ آپ کو یہ بات معلوم ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کوئی نبی ایسا نہیں ہوا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کہ کوئی ایسا نبی نہیں ہوا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا کہ آپ نے بھی؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ہاں میں اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط پر چرایا کرتا تھا۔
اجرت پر بکریاں چرانا
                اجرت لے کر کوئی کام کرنا، خواہ بکریاں چرانا ہو یا کوئی دوسرا کام کرنا شانِ نبوت ورسالت کے خلاف نہیں ہے، بعض سیرت نگاروں کو ایسا محسوس ہوا تو انھوں نے اس واقعہ کی تاویلات فرمائی ہیں؛ حالاں کہ محققین کی رائے یہی ہے کہ کام کی اجرت اور مزدوری لینا کوئی غیرشرعی امر نہیں ہے اور نہ ہی مقامِ رسالت کے خلاف ہے، ہاں! تبلیغ احکام اور اشاعت دین پر اجرت لینا شانِ نبوت کے خلاف ہے، جس کو جابجا کلام الٰہی میں بیان کیاگیا ہے، نسائی شریف میں حضرت نصر بن حزن سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ اونٹ والے اور بکریوں والے آپس میں فخر کرنے لگے تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ موسیٰ علیہ السلام نبی بناکر بھیجے گئے اور وہ بکریوں کے چرانے والے تھے، داؤد علیہ السلام نبی بناکر بھیجے گئے اور وہ بھی بکریاں چرانے والے تھے اور میں بھی نبی بناکر بھیجا گیا اور میں بھی اپنے گھروالوں کی بکریاں مقامِ اجیاد میں چرایا کرتا تھا۔
حضرات انبیا علیہم السلام سے بکریاں چروانا
                حاملینِ نبوت ورسالت حضرات انبیا ورسل علیہم الصلوٰة والسلام کو چوں کہ بارگاہِ ایزدی سے ایک خاص مقصد اور مشن کے تحت بھیجاگیا تھا اور وہ ہے امت کی گلہ بانی یعنی بعثت ونبوت سے سرفراز فرمانے کے بعد بنی نوعِ آدم کو ہر ہر نشیب و فراز سے بچاتے ہوئے ہموار راستہ پر چلانا اور گمراہ کن اور پیچیدہ راستوں سے نکال کر صراطِ مستقیم اور معتدل راہ پر چلاتے ہوئے منزلِ مقصود تک پہنچانا، اس مقدس و پاکباز گروہ اور جماعت کا فریضہٴ منصبی ہوتا تھا اور افرادِ انسان بالکل بے خبر اور بے نکیل جانور کی طرح ہر طرف دوڑنا اور ہر چراگاہ سے چرنا، اپنا فطری عمل جانتے ہیں، پس انبیاء علیہم السلام ہر ہر گام پر حفاظت فرماتے ہیں، جبکہ ہر چہار جانب سے انسانی بھیڑیے شیطان کے حملے ہوتے ہیں، ساتھ ہی نفوس کا مستقل من چاہا راستہ ہوتا ہے، جو رب چاہے راستوں سے ذرہ برابر میل نہیں کھاتا، پس یہ دونوں درندے یعنی شیطان اور نفسِ امّارہ گمراہ کن راستوں کو تمام تر زیبائش و آرائش سے آراستہ کرکے اولادِ آدم اور حوّا کے لاڈلوں کو راہِ راست اور خدائی ڈگر سے ہٹاکر کسی بھی غلط راستے پر ڈالنے کو مقصدِ زندگی سمجھتے ہیں اور شیطان اپنی ذریات کو اسی پر انعامات سے نوازتا ہے کہ کسی صورت بھی انسانوں کو راہِ جنت سے برگشتہ کرکے راہِ جہنم پر گامزن کردیا جائے، اس صورتِ حال میں اگر انبیاء اور رسولوں کی مقدس جماعت کی اور ان کے پیروکاروں کی کاوش وکوشش اور جدوجہد نہ ہوں تو راہِ راست کے راہرو حضرات اور خدا کے فرماں برداروں کا کیا حال ہوگا؟ وہ کسی ادنیٰ عقل رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں ہے، اولادِ آدم اور بناتِ حوّا کی یہ حالت جانوروں میں بکریوں سے بہت زیادہ میل کھاتی ہے کہ اونٹ، گائے، بیل اور بھینس کو چرانا اور سنبھالنا اتنا مشکل نہیں ہے، جتنا بکریوں کو چرانا اور ان کی حفاظت کرنا مشکل ترین ہے؛ کیوں کہ بکریاں کبھی اِدھر بھاگتی ہیں تو کبھی اُدھر، ابھی یہاں ہیں تو تھوڑی دیر میں وہاں نظر آتی ہیں اور چرواہا بے چارہ سرگرداں اور پریشان رہتا ہے ، کبھی اِدھر سے روکتا ہے توکبھی اُدھر سے، مزید براں بھیڑیے کا خوف وخطرہ ہمہ وقت لگا رہتا ہے، درندہ ہمیشہ گھات میں رہتا ہے کہ کب چرواہے کی نظر ہٹے اور وہ اپنا کام تمام کربھاگے، چرواہا چاہتا ہے کہ تمام بکریاں یکجا اکٹھی رہیں؛ تاکہ بھیڑیوں اور درندوں سے حفاظت رہے، صبح سے شام تک بھیڑبکریوں کے پیچھے پیچھے اسی طرح بھاگتا اور دوڑتا رہتا ہے، بالکل اسی طرح حضراتِ انبیاء اولاد آدم کے ریوڑ اور امت کے افراد کے لیے متفکر اور پریشان رہتے ہیں کہ تمام افرادِ امت اور بنی آدم کا پورا ریوڑ راہِ راست اور صراطِ مستقیم پر گامزن رہے۔ شیطان اور نفس امّارہ کے حملے سے ہرہر فرد محفوظ رہے، بلکہ نبی اور رسول کو اپنی قوم اور امت کی فکر چرواہے سے بہت زیادہ ہوتی ہے کہ چرواہا کم از کم رات کو سکون کی نیند سوتا ہے؛ لیکن نبی ورسول کو سوتے، جاگتے، کھاتے، پیتے، چلتے، پھرتے ہر وقت یہی فکر رہتی ہے کہ امت میں صلاح وفلاح کیسے پیدا ہو اور قوم اپنی ہلاکت وبربادی کے راستے سے بچ کر دائمی راحت وآرام کا راستہ کس طرح اختیار کرے اور قوم وملت بالکل بکریوں کی طرح اپنی ہلاکت وتباہی کی فکر نہیں کرتی، شیطانی درندوں اور نفس کے پھندوں میں قوم پھنستی رہتی ہے، نبی قوم کی یہ حالت دیکھ کر اس قدر دکھی ہوتے ہیں کہ مخلوق اس کا اندازہ شاید نہ کرسکے؛ البتہ خالق کو اس کا اندازہ ضرور ہوتا ہے؛ کیوں کہ وہ عَالِمُ الغَیْب وَالشَّہَادَةِ ہے، پس ارشادِ باری ہے: لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَفْسَکَ أنْ لاَّ یَکُوْنُوْا مُوٴْمِنِیْنَ(الکہف) (شاید آپ ﷺ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے اپنی جان دیدیں گے)
حرفِ آخر      
                اللہ رب العزت کا یہ مقدس گروہ نہایت برگزیدہ اور چنیدہ ہوتا ہے، تمام انسانوں میں خداتعالیٰ کا سب سے پسندیدہ طبقہ یہی انبیاء اور رسولوں کا ہے، اگر باری تعالیٰ چاہتا تو دنیا کا مال ودولت اور حکومت واقتدار اس مقدس جماعت کے قدموں میں ڈال دیتا؛ لیکن قانونِ الٰہی اور خدائے بزرگ وبرتر کی عادتِ مبارکہ بالکل مختلف رہی ہے کہ یہ مقربین بارگاہِ خدا اکثر وبیشتر فقر وفاقہ اور تنگ دستی میں مبتلا رہے ہیں، اپنی اور اہل خانہ کی ضروریاتِ زندگی کے لیے جدوجہد اور محنت ومشقت کرتے نظر آتے ہیں وجہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ امت اور قوم سبق حاصل کرے؛ کیوں کہ انسانوں کی اکثریت غربت وافلاس کی شکار ہے اوریہ بات بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کی تصدیق کرنے اور پیروی کرنے میں پہل کرنے والے بھی یہی لوگ ہوتے ہیں اور دولت مند حضرات اور صاحب اقتدار لوگ ہمیشہ یا اکثر وبیشتر مخالفت کرتے ہیں؛ کیوں کہ ان کو اپنا اقتدار، اپنی چودھراہٹ اور اپنی موج ومستی ختم ہوتی دِکھتی ہے؛ چنانچہ مخالفت پر کمر کس لیتے ہیں اور دبے کچلے لوگ، معاشرہ میں کمتر سمجھے جانے والے لوگ اور فقر وفاقہ میں مبتلا افراد نبی اور رسول کا دامن تھامنے اور ساتھ دینے میں ہی عافیت وراحت محسوس کرتے ہیں۔ پس نبی اور رسول اپنے ماننے والوں کی اکثریت کو ذریعہٴ معاش کا راستہ دکھانے کے لیے کبھی تجارت کو اختیار کرتے ہیں اور اس کے فضائل وفوائد بیان کرتے ہیں تاکہ امت کا بڑا طبقہ اس پیشہ سے جڑکر اپنا اور اپنے اہل خانہ کا معاش درست کرسکے، کبھی نبی بکریاں چراتے ہیں کہ امت کا دوسرا گروہ اور بہت سے افراد اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے کام اختیار کرے خواہ اپنے مویشی سے یا دوسرے لوگوں کے مویشیوں کو اجرت پر چراکر بچوں کی پرورش وغیرہ کا نظم کرسکے؛ بہرکیف ہر طبقہ اور ہر جماعت اصولِ شریعت (قرآن وحدیث) کے ساتھ ذریعہٴ معاش اختیار کرسکتا ہے؛ چنانچہ ہر وہ پیشہ جائز ہوگا جس میں اصولِ شریعت کی مخالفت نہ ہو اور اتباع سنت کی بھی نیت ہو، تو دنیا کے ساتھ ساتھ ذخیرئہ آخرت بھی ہوگا، خدا تعالیٰ تمام امت کو اتباعِ سیدالمرسلین کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے! آمین یا رب العالمین۔






سیرتِ نبوی ﷺ میں سادگی کے نقوش


آج ہر طرف سامانِ دنیا کی ریل پیل ہے، ہر کوئی عیش کوشی کا متمنی، ہر ایک دنیوی زندگی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کا خواہاں، ہر شخص سامانِ عیش وعشرت کا طلب گار، ہر کوئی دنیاوی آسائش میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کاخواہاں، امیر ہو کہ غریب ہر کوئی اسی فکر میں مست ومگن ہے کہ کیسے اسباب دنیا وسیع ہوں؟ نیز کیسے اس کی زندگی مادی وسائل کے اعتبار سے معیاری و مثالی بنے، بس اسی فکرِ دنیا میں عمر عزیز کٹ رہی ہے، اور دن بہ دن دوسری دنیا کے قریب ہورہے ہیں؛ حالانکہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسباب عیش وعشرت اختیار کرنے میں اپنے آقا سرورِدوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ عمل کو جانیں، اور اسوہٴ نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنانے کی کوشش کریں کہ کیسے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسباب و وسائل کی وسعت پر قادر ہوتے ہوئے دنیوی عیش سے اعراض کیا، بقدر زیست دنیا استعمال کر کے اہل دنیا کے لیے انمٹ نقوش ثبت کر گئے، جن میں اہل دنیاکے لیے راہِ عمل ہے، کہ جسے اپنا کر ایک مسلمان اپنی اخروی زندگی سدھار سکتا ہے، بجائے اس کے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی زہدانہ زندگی کے ان اہم واقعات کو اپنی زندگی کے لیے عملی نمونہ بناتے، اور اعمال کی انجام دہی میں یہ واقعات ہمارے لیے مہمیز کا کام دیتے ہم نے انھیں قصہ کہانی سمجھ لیا؛ اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان واقعات کو عملی تحریک کا ذریعہ بنائیں، جب زندگی حالات سے دوچار ہو تو ان واقعات کے استحضار سے اپنے قلب ودماغ کو صبر وشکر کا عادی بنائیں۔ ویسے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی کل زندگی ہی روشن ابواب پر مشتمل ہے، انھیں میں ایک اہم اور روشن باب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زہدانہ زندگی کا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا زہد اختیاری ہے، اس میں اعتدال ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی مُسرفانہ زندگی سے بے زار ہے، اس میں قلب وزبان صبر وشکر کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے، ہمارے لیے یہی اسوہ ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بچھونا:

          جب انسانی جسم راحت کا عادی ہوجائے تو اس پر مجاہدہ بہت ہی شاق ہوتا ہے، تکلیف ومشقت جھیلنا بڑا گراں گزرتا ہے، جس کی بناء پر مصائب میں الجھ کر مسکرانا اس کے لیے دشوار ہوتا ہے، راحتِ جسمانی کے لیے ایک بچھونا وبستر بھی ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بچھونے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حضرت ابن مسعود بیان فرماتے ہیں، ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایسی چٹائی پر آرام کیا جس سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر کچھ نشانات آگئے، ابن مسعود سے رہا نہ گیا وہ بول پڑے کہ اگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اجازت دیں تو میں نرم چٹائی بچھادوں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے لیے دنیا کی کیا ضرورت ؟ میری اور دنیا کی مثال اس مسافر کی طرح ہے جو گرماں کے زمانے میں سفر کررہا ہو اور تھوڑی دیر کے لیے درخت کے سائے میں آرام کیا اور چل دیا، اسی طرح کے الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے اس وقت بھی مروی ہیں جب حضرت عائشہ نے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نرم بستر بچھادیا تھا، (مشکوٰة: ۴۴۲) (الوفاء باحوال المصطفیٰ۲/۴۷۵ بیروت) اسی کو مولانا مناظر حسین گیلانینے بڑے عمدہ انداز میں یوں بیان فرمایا: کہ خاک کے فرش کے سوا جس کے پاس کوئی فرش نہ تھا، وہ اگر خاک پے سویا تو کیا خاک سویا، جو تخت پر سوسکتا تھا وہ مٹی پر سویا تو اسی کا سونا ایسا خالص سونا ہے جس میں کوئی کھوٹ نہیں(النبی الخاتم:۵۲)نیز آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کی کیفیت حضرت عائشہ یوں بیان فرماتی ہیں:

          انَّمَا کَانَ فِرَاشُ رَسُوْل اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم الَّذِيْ یَنَامُ عَلَیْہِ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُہ لِیْفٌ․آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کا بستر چمڑے کا تھا، جس میں کھجور کے پتے بھردیے جاتے تھے۔

لباس میں سادگی:

          حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو قمیص کپڑوں میں زیادہ پسند تھی، (الوفاء۲/۵۶۳) حضرت عائشہ نے ابو بردہ کو ایک موٹا سا جبہ اور ایک موٹا سا ازار نکال کر بتایا اور اس بات کی نشاندہی کردی کہ یہی وہ دونوں کپڑے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس دنیا سے پردہ فرماگئے۔ (الوفاء باحوال المصطفیٰ۲/۵۶۵)
          تکلّفات وتصنعات سے احتراز کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  عمدہ سے عمدہ لباس سے گریزاں تھے، ایک صحابی نے ایک عمدہ لباس عطا کیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی، اور نماز کے بعد فوراً اسے اتارا او ر لوٹا دیا، دوسرا سادہ لباس زیب تن فرمایا اور ارشاد فرمایا: لے جاوٴ اس سے میری نماز میں خلل واقع ہوا۔(الوفاء: ۵۶۴)
طعام میں سادگی:
          ظاہری طور پر جسمِ انسانی کی بقاء کا ذریعہ غذا ہے؛ لیکن وہی غذا انسان کے لیے مفید ہے، جو بندگی پر قائم رکھنے کا سبب بنے؛ اس لیے کہ مقصو دِ اصلی اطاعت وبندگی ہے، جب مقصود اصلی سے صرفِ نظر کر کے غذا کے لیے دوڑدھوپ ہوگی تو ظاہر ہے اس میں حرمت وحلت کے پہلو کو بھی نظر انداز کیا جائے گا، یہ غذا انسان کے لیے مفید ہونے کے بجائے مضر ہوگی، جس میں سادگی کے بجائے تنوعات و تکلّفات شامل ہونگی، جس میں فضول خرچی واسراف کی بہتات ہوگی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کھانے میں انتہائی محتاط طریقہ اختیار کرتے تھے، حضرت عبد اللہ ابن عباس آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے طعام کی کیفیت کاتذکرہ اس طرح فرماتے ہیں: عموماً جو کی روٹی اور سرکہ استعمال کرتے(الوفاء باحوال المصطفیٰ ۲/۵۹۸) اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  یہ دعا بھی فرماتے: اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتاً․ (مشکوٰة: ۴۴۰) اے اللہ آلِ محمد کے رزق کو بقدر زیست بنا، نیز جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے پہاڑوں کو سونا بنانے کی پیشکش کی گئی تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اے میرے رب میں تو یہ پسند کرتا ہوں کہ ایک دن پیٹ بھر کھاوٴں اور ایک دن بھوکا رہوں؛ تاکہ جب کھاوٴں تو تیرا شکر کروں، اور جب بھوکا رہوں تو آپ کی جانب گریہ وزاروی میں لگا رہوں(مشکوة:۴۴۲) آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی طرزِ عمل وتربیت کا نتیجہ تھا کہ صحابہٴ کرام بھی اسی طرزِ عمل کو اپنانے کے لیے کوشاں رہتے؛ چنانچہ ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا، جس کے سامنے بھنی ہوئی مچھلی رکھی ہوئی تھی، آپ کو مدعو کیا گیا، آپ نے انکار کردیا، اور فرمایا: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا سے پردہ فرماگئے جو کی روٹی بھی پیٹ بھر نہ کھائی(مشکوٰة: ۴۴۷) حضرت عبد الرحمن بن عوف مال دارصحابہ میں ہیں، اس کے باوجود ایک دفعہ برتن میں روٹی اور گوشت لایا گیا، اس کو دیکھ کر رونے لگے، رونے کی وجہ دریافت کی گئی، تو فرمایا: آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا سے پردہ فرماگئے؛ مگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی، ہمارے لیے اس موٴخر شدہ میں خیر نہیں(الوفاء ۲/۴۸۱) ایک دفعہ عمر تقریر کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ لوگوں نے دنیا سے کیا کیا نفع اٹھایا؛ مگر میں نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا ہے کہ ایک ایک دن گزر جاتا؛ مگر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس ردی کھجور بھی نہ ہوتی(الوفاء ۲/۴۸۰) یہ وہ افراد تھے جو اپنے لیے اسبابِ ِرزق کی وسعت کو خیر تصور نہ کرتے، خود حضرت عمر  ایک وسیع وعریض اسلامی ریاست کے مقتدر اعلی ہوتے ہو ئے انتہائی سادگی پسند تھے، اور دنیاوی تکلّفات سے گریزاں تھے۔
رہن سہن میں سادگی:
          آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  چاہے سفر میں ہوں یا حضر میں ہر گز ایسی ہیئت کو پسند نہ فرماتے جس سے نمایاں ہوکر ظاہر ہوں، جب آب  صلی اللہ علیہ وسلم  گھر میں ہوتے تو گھر کے کام کاج خود کر لیا کرتے، اپنی بکری کا دودھ دوہتے، نیز دیگر امور میں ہاتھ بٹاتے، جب راستہ چلتے تو خود آگے اور دوسروں کے پیچھے چلنے کو نا پسندفر ماتے؛بلکہ صحابہ کرام کو ساتھ ساتھ چلنے کی تلقین فرماتے، اسی طرزِ عمل کی بنا پر بعض دفعہ نوواردین آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی پہچان میں شک وشبہ میں پڑ جاتے؛ چنانچہ جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ منورہ پہونچے تو اسی طرح کا واقعہ پیش آیا، الغرض آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی کل زندگی سادگی سے عبارت تھی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ہر ہر عمل سے سادگی ظاہر ہوتی تھی، ایک مومن ہونے کے ناطے ہمیں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سادگی پر مر مٹنے کی حسرت ہونی چاہیے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے زہد وسادگی کے بے شمار واقعات کتب حدیث وسیر میں مذکور ہیں، یہ تو سیرت نبویہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی چند جھلکیاں ہیں،آپ کی مکمل زندگی ہی سادگی سے عبارت ہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ سیرت مطہرہ کے ان تابناک پہلووٴں کو اپنے لیے راہِ عمل کے طور پر متعین کریں، اپنی نجی وخانگی زندگی میں اپنائیں، اس طرح زندگی میں صالحیت آئیگی، اور معاشرہ پر بھی صالح اثرات مرتب ہوں گے، نیز ہم اس خام خیالی میں نہ رہیں کہ سیرت کے چند جلسوں اور چند تقاریر ومضامین سے سیرت کا مقصود حاصل ہوجائے گا؛ بلکہ اس کے لیے مستقل جدوجہد اور عملی مشق کی ضرورت ہے، اور معمولات ِنبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنانے کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے!آمین۔




بچوں کے ساتھ آپ   کا مشفقانہ سلوک

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامل ومکمل نظرآئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مربیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے تمام ہی معلّمین آپ کے خوشہ چین نظر آئیں، آپ علیہ الصلاة والسلام کی ازدواجی زندگی کا جائزہ لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے لیے بہترین شوہر ہیں، آپ ں کی مجاہدانہ وسپاہیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے بہادر آپ سے کوسوں دور ہوں گے، اسی طرح بچوں کے ساتھ آپ ں کے حسنِ سلوک کا جائزہ لیں تو آپ ں بہترین مربی بھی ہیں، نیز آپ سے زیادہ کوئی بچوں پر رحم کرنے والابھی نہ ہوگا، آپ ں نے بچوں کے ساتھ نرمی، محبت، عاطفت، ملاطفت کا درس نہ صرف اپنی تعلیمات ہی کے ذریعہ دیا؛ بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کا ثبوت پیش فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں(سنن ابی داوٴد: ۴۹۴۳ باب فی الرحمة) اسی طرح آپ ں نے فرمایا: جو نرمی سے محروم ہے وہ تمام ہی خیر سے محروم ہے (مسلم: ۲۵۹۲ باب فضل الرفق) بچوں کے تئیں حسنِ سلوک کے عطر بنیر سیرت کے چند نمونے ذیل میں مذکور ہیں:
اولاد واحفاد کے ساتھ
          آپ ں کے فرزند حضرت ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو آپ ں بڑے غمزدہ تھے، آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، حضرت عبد الرحمن بن عوف  نے تعجب خیز لہجہ میں استفسار کیا: آپ بھی رورہے ہیں؟ آپ ں نے جواب دیا، اے ابن عوف یہ رحمت ہے، بلا شبہ آنسو بہہ رہے ہیں، دل غم زدہ ہے؛ لیکن اس حالتِ غم میں بھی ہم وہی بات کہیں گے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو، پھر آپ صنے فرمایا: اے ابراہیمہم تمہاری جدائی سے غم زدہ ہیں، (بخاری: ۱۳۰۳، باب قول النبی انا بک الخ) اس صورتِ حال کو دیکھ کر حضرت انس نے فرمایا: اہل وعیال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشفق میں نے کسی کو نہیں دیکھا (مسلم: ۲۳۱۶) بچپن کا زمانہ بے شعوری وبے خیالی کا زمانہ ہوتا ہے، اس زمانہ میں بچے بڑوں کے رحم وکرم کے محتاج ہوتے ہیں، بچے انھیں کو اپنا محسن سمجھتے ہیں جو انھیں اپنے قریب رکھتے ہیں، تربیت کا جو حسین موقع قربت وانسیت سے ممکن ہے، ڈانٹ ڈپٹ سے زجرو توبیخ سے اس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ عمل یہی رہا کہ بچوں کو بالکل اپنے سے قریب رکھا حتی کہ بچوں کے کھیل کا بھی لحاظ کیا، اگر کسی موقع پر وہ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سوار ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضرورت کی تکمیل کا بھر پور خیال رکھا؛ چنانچہ اپنے نواسوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھر پور محبت کا مظاہرہ فرمایا۔ حضرت عبد اللہ بن شداد  اپنے والدسے نقل فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں حضرت حسن یا حسین کو ساتھ لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، درمیان نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ طویل فرمایا: حضرت شداد فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سوار ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں ہیں، لہٰذا میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا، جب نماز مکمل ہوگئی تو صحابہ کرام نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دورانِ نماز سجدہ طویل فرمایا، ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ کوئی معاملہ پیش آیا ہے یا یہ کہ آپ پر وحی اتررہی ہے، آپں نے فرمایا:ان میں سے کوئی بات نہ تھی؛ بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار تھا، میں نے مناسب نہ سمجھا کہ بچہ کی ضرورت کی تکمیل سے پہلے سجدہ ختم کروں (مسند احمد : ۱۶۰۳۳حدیث شداد بن الہاد)
          اقرع بن حابس نے دیکھا کہ آپ ں حضرت حسن کو چوم رہے ہیں، یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ حضور ں میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما، آپ ں نے فرمایا: جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا (بخاری: ۵۹۹۷، باب رحمة الولد وتقبیلہ ) ایک د فعہ آپ حضرت حسن کو چوم رہے تھے ایک دیہاتی نے حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا کہ اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔(بخاری: ۵۹۹۸ باب رحمة الولد وتقبیلہ)
          غور کیجئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد سے خود محبت فرمائی؛ بلکہ امت کو بھی اس کی تعلیم دی، اور رحیمانہ سلوک کے ترک پر دھمکی دی کہ وہ شخص عند اللہ بھی قابلِ رحم نہیں، لہٰذا بچوں کے ساتھ مشفقانہ برتاوٴ ہمارا وطیرہ ہونا چاہیے، حضرت ابو ہریرة فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے گھر کے صحن میں بیٹھ کر حضرت حسن کے بارے میں دریافت کیا، تھوڑی ہی دیر میں وہ آگئے، آپ ں نے انھیں گلے سے لگایا، بوسہ دیااور فرمایا: اے اللہ! میں حسن سے محبت رکھتا ہوں تو بھی حسن سے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھ (بخاری: ۳۷۴۹، باب مناقب الحسن)جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ان کی صاحبزادی امامہ سے آپ ں بہت زیادہ محبت کا اظہار فرماتے، ان پر بہت زیادہ شفقت فرماتے، بعض دفعہ اپنے ساتھ مسجد بھی لے آتے، وہ آپ ں پر حالت ِ نماز میں سوار بھی ہوجاتیں، جب آپ سجدہ میں جاتے تو انھیں نیچے اتار دیتے، جب قیام فرماتے تو کاندھے پر سوار فرمالیتے(بخاری: ۵۱۶ باب إذا حمل جاریة صغیرة)
           بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں کے پاس آتے، انھیں گود میں بٹھاتے، انھیں چومتے ان کے لیے دعا فرماتے، آپ ں نے اپنے نواسوں کے ذریعہ اپنی آل واولاد کے ساتھ رہنے کا طریقہ سکھلایا۔
دیگر بچوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل
          ہم بچوں سے محبت کرتے ہیں؛ صرف اپنے ہی بچوں سے، دوسروں کے بچوں سے محبت یکسر نا پید ہے، آپ ں نے اس تفریق کا خاتمہ فرمایا، جہاں آپ ں نے اپنے بچوں کے تئیں تعلق کا اظہار فرمایا، وہیں دیگر صحابہٴ کرام کی اولاد پر بھی نگاہِ شفقت ڈالی۔
          ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ میرے گھر ایک لڑکا تولد ہوا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر حاضر ہوا، آپ ں نے اس کا نام ابراہیم رکھا، کھجورسے اس کی تحنیک (گھُٹّی) فرمائی، اور اس بچے کے لیے برکت کی دعافرمائی، (بخاری: ۵۴۶۷ باب تسمیة المولود) یہ ابو موسی اشعری کے بڑے صاحبزادے تھے، حضرات صحابہٴ کرام کی عادتِ طیبہ یہ تھی کہ کسی کے گھر بھی ولادت ہوتی تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے آپ بچے کو لیتے، اسے چومتے اس کے لیے برکت کی دعا کرتے، اسی طرح جب بعض دفعہ دورانِ نماز بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تخفیف فرمادیتے، (بخاری: ۷۰۷ باب من أخف الصلاة عند بکاء الصبی) اسی طرح ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام خالد کو بلایا، بذاتِ خود اس لڑکی کو خصوصی قمیص پہنائی، اور فرمایا: اس وقت تک پہنو کہ یہ پُرانی ہوجائے(بخاری: ۵۸۲۳ با ب الخمیصة السوداء) ایک دفعہ آپ نے ایک بچے کو گود میں اٹھالیا، بچے نے کپڑے پر پیشاب کردیا، آپ نے اس پر پانی بہا کر صاف کرلیا، (بخاری: ۶۰۰۲ با ب وضع الصبی فی الحجر) حضرت انس فرماتے ہیں کہ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، اس کانام ابو عمیر تھا، (اس کے پاس ایک چڑیا تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ابو عمیر سے فرمانے لگے: ”یَا أبَا عُمَیْر! مَا فَعَلَ الْنُغَیر؟“ یعنی اے ابو عمیر تمہاری چڑیا کیا ہوئی؟ (بخاری:۶۱۲ باب الانبساط إلی الناس) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشغولیت ومصروفیت کے باوجود صحابہٴ کرام کی اولاد کے ساتھ نرمی، محبت، انسیت اور الفت کا معاملہ فرماتے، انھیں خوش کرنے کی ترکیبیں اپناتے، ان کے پرندوں کے تئیں استفسار کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کردہ اس محبت بھرے جملے سے فقہاء عظام نے کئی مسائل نکالے ہیں۔
حقوق میں بچوں کی تقدیم
          آج تمام تر تنازعات کا حل حقوق کی ادائیگی پر موقوف ہے، ہر کوئی اپنے حق کا طالب ہے؛ لیکن دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے بیزار ہے ،آپ ں نے نہ صرف اکابر کے حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دی؛ بلکہ آپ ں نے اصاغر کے حقوق تک کا لحاظ فرمایا، اور اصاغر کے حقوق ادا کرتے ہوئے امت کی توجہ اس جانب مبذول فرمائی کہ ہر ایک کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے،حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں : ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پینے کی کوئی چیز لائی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا، اس کے بعد آپ ں نے دیکھا کہ آپ کی دائیں جانب ایک بچہ ہے، اور بائیں جانب صحابہٴ کرام ہیں، آپ ں نے اس بچے سے اجازت چاہی کہ اگر تم اجازت دو تو میں یہ مشروب ان بڑے حضرات کو عنایت کروں، اس بچے نے کہا، ہر گز نہیں، قسم بخدا میں (آپ کے تبرک میں) اپنے حق پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا، یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے پیالہ اسے تھمادیا (بخاری:۲۳۶۶ باب من رأی أن صاحب الحوض الخ) اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچوں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام ہو، بچوں کے حقوق معلوم کرکے انھیں ادا کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
یہودی بچے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل
          مسلمان بچوں کے ساتھ توہم کسی قدر نرمی کا مظاہرہ کر ہی لیتے ہیں؛ لیکن کفار کے بچوں کے ساتھ ہمارا جو طرزِ عمل ہوتا ہے ،وہ نا قابلِ بیان ہے، ان پر تو کوئی نظرِ التفات ہوتی ہی نہیں، قربان جائیے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اپنے اُسوہ سے کفار کے بچوں کے ساتھ بھی نرمی کی تلقین کی،ایک یہودی شخص کا لڑکا آپ ں کی خدمت میں تھا، وہ ایک دفعہ بیمار ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازخود تشریف لا کر اس کی عیادت فرمائی، اس بچے کے سر ہانے بیٹھے، پھر اس بچے سے فرمایا: اسلام قبول کرو، اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی، والد نے بھی کہا: ابوالقاسم (ا) کی اطاعت کر! لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے نکلے، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ أَنْقَذَہ مِنَ النَّار (بخاری : ۱۳۵۶ باب إذا أسلم الصبي فمات)کہ تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے ہیں جس نے اس کو آگ سے بچالیا، یہ حدیث بتارہی ہے کہ بچے پر شفقت ونرمی کی جائے، چاہے وہ بچہ کافر ہی کا کیوں نہ ہو!
لڑکی کا خصوصی مقام
          زمانہٴ جاہلیت میں عرب لڑکی کی پیدائش کو اپنے لیے عارسمجھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کے حقوق کا تحفظ کیا، لڑکیوں کے اکرام کی تعلیم دی، اس کی تربیت اس پر خرچ کی تلقین کی، لہٰذا آپ علیہ السلام نے فرمایا: جس نے دو لڑکیوں کی بالغ ہونے تک پرورش کی، قیامت کے دن میں اور وہ ایک ساتھ ہونگے (مسلم :۲۶۳۱ با ب فضل الإحسان إلی البنات
          الغرض آپ علیہ السلام نے اپنے قول وعمل سے معاشرہ کے ایک کمزور طبقہ پر رحم وکرم کے عجیب وغریب نمونے پیش فرمائے، آنے والی امت کو تلقین کی کہ اس طبقہ کا لحاظ کرو، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی سے پرہیز کرو؛ کیونکہ یہی بچے مستقبل کے اثاثہ ہیں، ان بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک ان کی صحیح انداز میں تربیت روشن وتابناک مستقبل کی ضامن ہوگی، ابتدائی مراحل میں بچوں کے ساتھ بے اعتنائی وبے احتیاطی بچوں کے لیے غلط راہیں فراہم کریں گی، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا خاتمہ کر کے سیرتِ طیبہ کی روشنی میں بچوں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے!







بوڑھوں اور حیوانات کے ساتھ

آپ ﷺ  کا کریمانہ سلوک
         اُداس چہرہ، سفید ڈاڑھی، ہاتھ میں لاٹھی، کھال میں سِلْوٹ، چال میں سستی، بات میں لرزہ، یہ معاشرہ کا وہ کمزور طبقہ ہے، جسے ہم ”بوڑھا“ کہتے ہیں، انسانی زندگی کئی مراحل سے گزرتے ہوئے بڑھاپے کو پہونچتی ہے، بڑھاپا گویا اختتامِ زندگی کا پروانہ ہے، اختتامی مراحل ہنسی خوشی پورے ہوں تو اس سے دلی تسلی بھی ہوتی ہے، رہن سہن میں دشواری بھی نہیں؛ لیکن آج جو صورتحال سن رسیدہ افرا د کے ساتھ روا رکھی گئی ہے، اس سے عمر رسیدہ افراد کی پریشانی میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے؛ حالانکہ والد نے بچے کی پرورش اس امید پر کی تھی کہ وہ بڑھاپے میں سہارا بنے گا، بجائے اس کے کہ یہ لڑکا بوڑھے باپ کو سہارا دیتا، کمر کو بھی توڑ دیتا ہے۔ایک جانب معاشرہ کی یہ صورتحال ہے، دوسری جانب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کے ساتھ کمزوروں کے ساتھ ضعیفوں کے ساتھ بہت ہی زیادہ حسنِ سلوک کا مظاہر کیا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ عمر رسیدہ افراد کی قدر دانی کی تعلیم دی، وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ قدردانی کا ثبوت بھی مہیا فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن رسیدہ افراد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عظمت وبڑائی کا تقاضہ یہ ہے کہ بوڑھے مسلمان کا اکرام کیا جائے (ابوداوٴد: ۴۸۴۳ باب فی تنزیل الناس منازلہم، حسن) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے بال اسلام کی حالت میں سفید ہوئے ہوں، اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا (ترمذی: ۱۶۳۴ باب ماجاء فی فضل من شاب، صحیح) ان احادیث سے سن رسیدہ افراد کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، اول الذکر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رسیدہ کو حاملِ قرآن وعادل بادشاہ پر بھی مقدم کیا ہے؛ حالانکہ ان دونوں کی اہمیت وعظمت اپنی جگہ پر مسلم ہے، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کی رعایت کرتے ہوئے، ان کی حمایت فرمائی، دوسری حدیث میں بڑھا پے کے اثرات کا اخروی فائدہ بیان کیا کہ جس پر بڑھاپا اسلام کی حالت میں آیا ہو تواس کے لیے اللہ اس بڑھاپے کی قدردانی کرتے ہوئے روزِ محشر نور مقدر فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کا اکرام واحترام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے، (بخاری: ۶۲۳۴ باب تسلیم الصغیر علی الکبیر) بڑوں کے اکرام واحترام کی ایک شکل سلام بھی ہے،بڑوں کی عمر ان کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے چھوٹے ہی بڑوں کو سلام کیا کریں؛ تاکہ یہ سلام چھوٹوں کی جانب سے بڑوں کے اکرام کا جذبہ بھی ظاہر کرے، اور بڑوں کے لیے بھی دل بستگی کا سامان ہو، کئی مقامات پر بڑوں کو بچوں سے اسی بات کی شکایت ہوتی ہے کہ بچے انھیں سلام نہیں کرتے، فطری طور پر بڑے عزت کے طالب ہوتے ہیں، کیوں نہ ہم ان کے اس تقاضے کا لحاظ کرتے ہوئے سلام کے ذریعہ ان کے جی کو خوش کریں، مجالس میں کوئی مشروب آئے تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا لحاظ کیا اس کو اولاً بڑے نوش فرمائیں، بڑوں سے آغاز ہو، فرمایا: بڑوں سے آغاز کرو؛بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مسواک کرتے ہوئے دو میں سے بڑے کو پہلے مسواک عنایت فرمائی (ابوداوٴ: ۵۰ باب فی الرجل یستاک، صحیح) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑوں کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے فرمایا: اَلْبَرَکَةُ مَعَ أکَابِرِکُمْکہ برکت تو تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے، کون ہے جو برکت کا متلاشی نہ ہو؟ کون ہے جو برکت کا طلبگار نہ ہو؟ آج تو کئی ایک بے برکتی کے شاکی ہیں، ایسے میں بر کت کے حصول کا آسان طریقہٴ کار یہ ہے کہ بوڑھوں کو اپنے ساتھ رکھا جائے، ان کے اخراجات کی کفالت کی جائے، اس سے آمدنی میں برکت ہوگی، نیز ایک موقع پر فرمایا: بات چیت میں بھی بڑوں کو موقع دیا، کَبِّرِ الکِبَرَ، اس کی تشریح کرتے ہوئے یحییٰ نے فرمایا: بات چیت کا آغاز بڑے لوگوں سے ہو، (بخاری: ۶۱۴۲ باب اکرام الکبیر) ایک موقع پر بوڑھوں کے اکرام کے فضائل وفوائد ذکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نوجوان نے کسی بوڑھے کا اکرام اس کی عمر کی بنیادپر کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے بڑھاپے میں اکرام کرنے والا شخص مقرر فرمائیں گے(ترمذی: ۲۰۲۲ باب ما جاء فی اجلال الکبیر، ضعیف)کون ہے جو اپنے بڑھاپے کو ہنسی خوشی پورا نہیں کرنا چاہتا ؟ کون ہے جو بڑھاپے میں خدمت گزاروں سے کتراتا ہے؟ کون ہے جو بڑھاپے میں آرام وسکون نہیں چاہتا؟ ان سب کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک آسان نسخہ عنایت فرمایا کہ اپنے بوڑھوں کا اکرام کرو تمہیں بڑھاپے میں خدمت گار مل جائیں گے، الغرض! مختلف مواقع پر مختلف انداز سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کی اہمیت وعظمت کو واضح کیا، اور امت کو ان پر توجہ کی تعلیم دی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کریمانہ اخلاق ہیں کہ امت کے ہر کمزور طبقہ پر بذاتِ خود بھی رحم وکرم کا معاملہ کیا، اور وں کو بھی رحم وکرم سے پیش آنے کی تلقین کی۔
بڑوں کے ساتھ آپ ﷺ کا طرز عمل
                ایک سن رسیدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے، آنے والے کے لیے لوگوں نے مجلس میں گنجائش نہ پیدا کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورتحال کو دیکھ کر صحابہٴ کرام ث سے مخاطب ہو کر فرمایا: جو شخص چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، بڑوں کی عزت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں (ترمذی: ۱۹۱۹ باب ماجاء فی رحمة الصغیر) یعنی ایک مسلمان میں جو صفات ہونی چاہیے ان میں سے ایک بڑوں کا اکرام بھی ہے، اگر کوئی اس وصف سے متصف نہیں تو گویا وہ ایک اہم مسلمانی صفت سے محروم ہے، اگر کوئی اس اہم اسلامی صفت کا خواستگار ہے تو اسے بڑوں کے اکرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، فتحِمکہ کے بعد جو حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے انھیں میں ایک اہم واقعہ حضرت ابو بکر صدیق ص کے بوڑھے والد کا بھی پیش آیا، لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ حق پر ست پر اسلام قبول کرنے کے لیے انھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بڑھاپے کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ان کو گھر ہی میں کیوں نہ چھوڑا؟ میں خود ان کے گھر پہونچ جاتا (مستدرک حاکم: ۵۰۶۵ ذکر مناقب ابی قحافہ)
                واضح رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہورہے ہیں، اس کے باوجود بوڑھوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ رحیمانہ وکریمانہ سلوک ہے؛ حالانکہ دیگر فاتحین کا طرزِ عمل تو وہ ہے، جسے قرآن حکیم نے بیان کیا ہے کہ جب فاتحین کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کو برباد کردیتے ہیں، اہلِ عزت کو ذلیل کرتے ہیں، یہی ان کا طرہٴ امتیاز ہے، (النمل: ۳۴) یہ عمر رسیدہ افراد کی عملی قدر دانی ہے، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثبوت فراہم کررہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعظیم کرتے ہوئے یہ تصور نہ کیا کہ ابو قحافہ ایک طویل عرصہ تک کفر کی حالت میں رہے، اب کفر مغلوب ہوا تو وہ مسلمان ہورہے ہیں، بعض دفعہ انسان سابقہ اختلاف کی وجہ سے کسی کی تعظیم وتکریم سے کتراتا ہے؛ حالانکہ اس میں ان لوگوں کے لیے اسوہ ہے کہ سن رسیدہ کی بہر صورت تعظیم کی جائے، نماز کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی حریص اس حرص وطمع کے باوجود بھی بوڑھوں کی رعایت میں نماز میں تخفیف فرمادی، ابو مسعود ص انصاری فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کرنے لگے کہ میں ظہر کی نماز میں فلاں شخص کی طویل قرأت کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا، ابو مسعود ص کہتے ہیں کہ میں نے اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس غضبناک کیفیت میں دیکھا اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام ث سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: نمازیوں میں نماز سے نفرت مت پیدا کرو، لہٰذا جو بھی شخص امامت کرے وہ ہلکی نماز پڑھا یا کرے، کیوں کہ اس میں کمزور بھی ہیں، بوڑھے بھی ہیں، ضرورت مند بھی ہیں (بخاری: ۷۰۲ باب إذا طول الامام وکان الرجل ذاحاجة) ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے طویل قرأت کی شکایت کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ ص پر غصہ ہوتے ہوئے فرمایا: فَتَّانٌ فَتَّانٌ!(بخاری: ۷۰۱ باب إذا طول الامام) اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو! تین دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو دھرایا، غور وخوض کا مقام ہے کہ سن رسیدہ اور کمزور افراد کی رعایت کا سلسلہ نماز جیسے اہم فریضہ میں بھی جاری ہے، بڑھیا کا مشہور واقعہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑھیا کا سامان اٹھا کر شہر مکہ کے باہر پہونچا دیا تھا؛ حالانکہ وہ بڑھیا جو اسلام سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی میں مصروف تھی؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے طفیل اس بڑھیا نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ ایک دفعہ مجلس میں بائیں جانب اکابر صحابہٴ کرام ث تشریف فرما تھے اور دائیں جانب ایک بچہ تھا اور مجلس میں کوئی مشروب پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے سے اجازت چاہی کہ چونکہ تم دائیں جانب ہو اگر تم اجازت دو تو میں اس کا آغاز ان بڑے صحابہ کرام ث سے کروں، اس بچے نے اپنے آپ پر کسی کو ترجیح دینے سے انکار کردیا؛ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مشروب اسی کے ہاتھ میں تھما دیا، (بخاری: ۲۳۶۶، باب من رأی أن الحوض الخ) غور طلب امر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں جانب بڑوں کی موجودگی کے باوجود اس بات کی کوشش کی کہ مشروب کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لیے بچے سے اجازت بھی مانگی؛ لیکن بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نوش کردہ برکت کی وجہ سے اپنے آپ پر کسی کو ترجیح نہ دی، اس سے بھی بڑوں کے ساتھ اکرام کا درس ملتا ہے کہ بہر صورت ان کے اکرام کی کوشش کی جائے، ان کی توہین سے بیزارگی کا اظہار ہو۔
                ان اقوال واحوال کا سرسری جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھوں کا ہر موقع پر لحاظ فرمایا، کسی بھی بوڑھے کا اکرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کی بنیاد پر کیا، رشتہ داری وتعلق سے بالا تر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو تر جیح دی،آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانیت کے اس ستم رسیدہ طبقے کے ساتھ احترام واکرام کا معاملہ کیا جائے، ان کے حقوق جان کر پورے کرنے کی کوشش کریں، کسی چیز کے ذریعہ بڑھاپے میں انھیں تکلیف نہ دیں، ان کی ضروریات پوری کرکے ان پر احسان کرتے ہوئے ان کی دعاوٴں میں شامل ہوں، بعض دفعہ بوڑھوں سے ہونے والی خطاوٴں سے نظر انداز کریں۔
حیوانات کے ساتھ آپ  ﷺ  کا رحیمانہ سلوک
                اس دور میں جب کہ مسلمانوں کی شبیہ بگاڑ کر پیش کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے، مسلمانوں کو مسیحا کے بجائے قاتل، صلح پسند کے بجائے جنگجو، امن پسند کے بجائے شدت پسند کے عنوان سے متعارف کرنے کی پیہم کوشش جاری ہے، دشمنانِ اسلام کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ مسلمان کبھی شدت پسند وجنگجو ہو ہی نہیں سکتا؛ کیونکہ اس کا رشتہ ایسے نبی کریم ا سے ملتا ہے، جو صرف انسانیت ہی کے لیے نہیں؛ بلکہ سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں، جن کی رحمت کا اثر صرف انسانوں تک ہی محدود نہ تھا؛ بلکہ اس سے متجاوز ہو کر آپ کا سایہٴ عاطفت ورحمت چرند پرند حیوانات تک کے لیے عام تھا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ جانوروں کے ساتھ نرمی کی ہدایات دیں، وہیں عمل کے ذریعہ بھی جانور کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کردکھا یا، آج جب کہ جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی خاطر کئی تنظیمیں بیدار ہورہی ہیں، کئی حکومتیں جانوروں کے تحفظ کے لیے سرگرم مہمیں چلارہی ہیں، جانوروں کے حقوق کی رعایت نہ کرنے والوں کے لیے کڑی سے کڑی سزائیں تجویز کی جارہی ہیں، ان قوانین کے پامال کرنے والوں کو قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑرہی ہیں، قربان جائیے نبیِ اکرم ا پر جنہوں نے آج سے چودہ صدی قبل حیوانات کے حقوق کے تحفظ اور ان کی حمایت کا اعلان فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو بھوکا رکھنے، اسے تکلیف دینے، اس پر سکت سے زائد بوجھ لادنے سے منع فرمایا، نیز جانور کو نشانہ بنانے، جانور پر لعنت کرنے والے کو مجرم قرار دیا، جانوروں کو تکلیف دینے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دل کی سختی میں سے شمار کیا ۔
                جانور کے ساتھ رحم وکرم ان کے ساتھ نرمی کے بے شمار واقعات کتابوں میں مذکور ہیں؛ لیکن ہم چند واقعات واقوال کے نقل پر اکتفاء کرتے ہیں۔
نشانہ بازی
                زمانہٴ جاہلیت میں جانوروں کو تکلیف دینے کی رائج صورتوں میں ایک اہم صورت زندہ جانور کو نشانہ بازی کے لیے مقرر کرنا تھا، غور کیجیے زندہ جانور کو جب تیروں کے ذریعہ چھلنی کیا جاتا ہوگا تو وہ کس قدر انھیں تکلیف ہوتی ہوگی، آپ ں نے اس سے منع فرمایا، ایک دفعہ ابن عمر ص قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے جو ایک زندہ پرندہ کو لٹکا کر نشانہ بازی کررہے تھے، وہ ابن عمر ص کو دیکھ کر متفرق ہوگئے، ابن عمر ص نے ان سے دریافت کیا: یہ کس نے کیا ہے؟ اس فعل کے مرتکب پر اللہ کی لعنت ہے،پھر ابن عمر ص نے آپ ں کا قول نقل کیا: اللہ کی لعنت اس شخص پر ہے جس نے نشانہ بازی کے لیے ذی روح کو استعمال کیا(مسلم: ۹۵۸، باب صبر البہائم) ایک دفعہ ابن عمر ص یحییٰ بن سعید ص کے پاس آئے تو دیکھا کہ ایک غلام مرغی کو باندھ کر نشانہ بازی کررہا ہے، ابن عمر ص نے اس مرغی کو کھول دیا، پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے، اس بچے کو ڈراوٴ! اس طرح پرندہ کو قید کرکے قتل کرنے سے روکو؛ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کو قید کرکے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے(بخاری: ۵۵۱۴ مایکرہ من المثلة)
پرندہ اور اس کے والدین میں جدائیگی
                اولاد سے فطری محبت جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں ودیعت کررکھی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ جذبہ جانوروں کو بھی عطا کیا ہے، بعض طاقتور جانور تو اولاد کی جدائیگی پر حملہ آور بھی ہوجاتے ہیں؛ لیکن جو جانور کمزور ہو اولاد سے وہ جدائیگی کے غم میں گھٹ جاتا ہے، اسی طرح کا ایک واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر میں پیش آیا، ابن مسعود ص فرماتے ہیں ہم سفر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضرورت کے لیے تشریف لے گئے، اتنے میں ہم نے ایک سرخ پرندے کو اس کے چوزوں سمیت دیکھا، لہٰذا ہم نے بچوں کو اٹھالیا، ان چوزوں کی ماں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، اور اپنے بازوہلا کر کچھ کہنے لگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہٴ کرام سے پوچھا کس نے اس پرندے کے بچوں کو اس سے جدا کر کے تکلیف دی ہے، اس کے بچوں کو لوٹا دو (ابوداوٴد: ۳۶۷۵،کراہیةاحراق العدو بالنار)
مثلہ کی ممانعت
                جانوروں کو زندہ رکھ کر اگر اس کے اعضاء وجوارح کو کاٹا جائے تو اسے کتنی تکلیف ہوگی؟ اس کا اندازہ کرنا دشوار ہے، جانوروں کو جن ذرائع سے تکلیف دی جاتی، انھیں میں ایک طریقہ زمانہٴ جاہلیت میں مثلہ کا بھی رائج تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریقہٴ کار کی مذمت کی، اور اس کے مرتکب پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ، جس شخص نے جانور کا مثلہ کیا، اس پر آپ ں نے لعنت فرمائی (بخاری: ۵۵۱۵ مایکرہ من المثلة) ایک دفعہ مثلہ زدہ گدھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے گزرا تو آپ علیہ الصلاة والسلام نے اس کے مرتکب پر لعنت فرمائی (مسلم: ۲۱۱۷ باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ)
جانوروں پر احسان، مغفرت کا ذریعہ
                کسی کی ضرورت کی تکمیل، کسی کی تکلیف کا دفعیہ، جس طرح اس کی ضرورت انسانوں میں پائی جاتی ہے، اسی طرح جانور بھی احسان کے مستحق ہوتے ہیں؛ بلکہ بے زبان جانور انسانوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی احسان کے مستحق ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی تکلیف بیانی کے لیے زبان نہیں رکھتے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں انسانوں کے ساتھ احسان کی تعلیم دی ہے، وہیں جانوروں کے ساتھ بھی احسان کی ترغیب دی ہے؛ بلکہ بعض خصوصی مواقع پر جانوروں کے ساتھ احسان کو مغفرت کا ذریعہ قرار دیا؛ چنانچہ آپ ں نے فرمایا: ایک راہ رو پیاس سے بے تاب ہوکر کنواں میں اتر کر پانی پی لیتا ہے، جب کنواں سے باہر نکلتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک کتا پیاس کی شدت سے کیچڑ کھارہا ہے، اس شخص نے محسوس کیا کہ یہ کتا بھی میری ہی طرح پیاسا ہے، لہٰذا وہ شخص کنواں میں اترا، اور اپنے موزے میں پانی بھر لیا، اور کتے کو سیراب کیا، اس خدمت پر اللہ نے اس بندہ کی قدر دانی کی، اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت کردی، صحابہٴ کرام نے سوال کیا؟ کیا ہمیں جانوروں پر بھی احسان کرنے سے اجر ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر ذی روح پر احسان کرنے سے اجر ملے گا (بخاری: ۶۰۰۹، باب رحمة الناس والبہائم) اس سے تعجب خیز واقعہ وہ ہے جو ابوہریرةص سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دفعہ پیاس کی شدت سے ایک کتا کنواں کے ارد گرد گھوم رہا تھا، قریب تھا کہ پیاس کی وجہ سے وہ ہلاک ہوجائے، اچانک ایک گنہ گارعورت جو بنی اسرائیل کی تھی، اس نے اپنے موزے کو نکالا، اور کتے کو پانی پلایا، اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی مغفرت فرمادی، (بخاری:۳۴۶۷) غور کرنے کا مقام ہے، ایسے جانورکے ساتھ رحم کرنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغفرت کا ذریعہ قرار دیا ہے ، جسے بعض علماء نے نجس العین تک قرار دیا ہے، بعض علماء نے اگر کتا برتن میں منھ ڈال دے تو سات آٹھ دفعہ برتن کو دھونے کا حکم دیا ہے، اس کے بالمقابل جانوروں کے ساتھ بُرا سلوک بعض دفعہ انسانوں کو جہنم میں بھی لے جاتا ہے، ایک عورت ایک بلی کو تکلیف دینے کے سلسلے میں جہنم میں چلی گئی، اس عورت نے بلی کو باندھ دیا تھا، اس کو نہ کھلاتی تھی اور نہ ہی اس کو چھوڑتی تھی کہ باہر وہ اپنی غذا کا انتظام کرسکے، حتی کہ وہ کمزور ہوگئی اور مر گئی(مسلم: ۲۶۱۹)
جانوروں کے ساتھ نرمی کا معاملہ
                نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی نرمی کا برتاوٴ کرتے تھے؛ بلکہ حضرات صحابہٴ کرام ث کو بھی اس کی تلقین فرماتے، ایک دفعہ ایک اونٹ بدک گیا، صحابہٴ کرام ث کے لیے اس اونٹ کو سنبھالنا دشوار ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے جس میں یہ اونٹ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ کی طرف بڑھ رہے تھے، تو صحابہٴ کرا م ث نے کہا: یہ اونٹ کٹخنے کتے کی طرح ہوگیا ہے، یہ آپ پر حملہ آور ہوسکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گھبرانے کی کوئی بات نہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اونٹ پر نظر التفات کیا تووہ اونٹ سجدہ ریز ہوگیا، آپ ں نے اس کی پیشانی پکڑی اور اسے کام پر لگادیا، یہ دیکھ صحابہٴ کرام ث کہنے لگے، جب جانور آپ کو سجدہ کرسکتا ہے، ہم انسان ہو کر آپ کو سجدہ کیوں نہ کریں، کسی انسان کے لیے سجدہ درست نہیں، اگر کسی انسان کے لیے سجدہ درست ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کا سجدہ کرے(مسند احمد: ۱۲۶۱۴) ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے، وہاں ایک اونٹ تھا، اس نے جیسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو وہ رونے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے آنسو پوچھے، وہ خاموش ہوگیا، آپ ں نے اس کے مالک کے سلسلہ میں دریافت کیا تو ایک انصاری صحابی نے کہا کہ میں اس کامالک ہوں، آپ ں نے فرمایا: کیا تم جانور کے سلسلہ میں اللہ سے نہیں ڈرتے، جس کا اللہ تمہیں مالک بنایا ہے، اس سے کام زیادہ لیتے ہو، اور بھوکا رکھتے ہو، (ابوداوٴد:۲۵۴۹)
ذبح میں احسان کا پہلو
                جانور بھی بڑی حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، وہ بھی آثار وقرائن سے پتہ لگالیتے ہیں کہ اب ان کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے؛ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کے سامنے چاقو وغیرہ تیز کرنے سے منع کیا، اس سے جانور کو گھبراہٹ ہوگی، نیز آپ ں نے ذبح میں احسان کے پہلو کو اپنانے کی بھی ترغیب دی کہ جانور کو مکمل طور پر ذبح کیا جائے، کہیں اسے تڑپتا ہوا نہ چھوڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان کو لازم کیا ہے، جب تم قتل کرو تو اچھے انداز میں قتل کرو، جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح ذبح کرو، چھری کو تیز کر لیا کرو، اور مذبوح کو راحت پہونچاوٴ(مسلم : ۱۹۵۵) ایک صحابی نے فرمایا: یا رسول اللہ …! میں بکری کو ذبح کرتا ہوں، اس پر رحم بھی آتا ہے، آپ ں نے فرمایا: اگر تم نے بکری پر رحم کیاتو اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے گا(مسند احمد: ۱۵۵۹۲)
                ابن عباس رضی  اللہ عنہ  فرماتے ہیں: ایک صحابی جانور کو لٹا کر چھری تیز کرنے لگے، آپ ں نے فرمایا: تم اس جانور کو کئی موتوں سے مارنا چاہتے ہو، لٹانے سے پہلے ہی چھری کیوں نہ تیز کی (مستدرک حاکم: ۷۵۶۳)
                ابوامامہ رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں: جس نے مذبوحہ چڑیا ہی پر رحم کیوں نہ کیا ہو، اللہ تعالیٰ روزِ محشر اس پر رحم فرمائیں گے، (طبرانی کبیر: ۷۹۱۵) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور پر لعنت کرنے سے بھی منع فرمایا، ایک سفر میں ایک صاحب جانور پر لعنت کرنے لگے، آپ ں نے فرمایا: جس نے اس اونٹنی پر لعنت کی ہے، وہ ہمارے ساتھ نہ آئے (مسند احمد: ۱۹۷۶۵)
                الغرض! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی جانوروں پر رحم کے واقعات سے بھر ی پُری ہے، یہ چند نقول ہیں جس سے ہمیں عبرت ونصیحت حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم خلقِ خدا کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کریں۔


نبی اکرم ﷺ کا کافروں کے ساتھ حسن سلوک
دینِ اسلام یہ اس صاف شفاف نظامِ زندگی کانام ہے جس میں ایک طرف خالق ومخلوق کے باہمی ربط وتعلق اور خالق جل مجدہ کے مخلوق پر کیا حقوق ہیں کی تعلیم دی گئی ہے ، تو دوسری جانب مخلوق میں سے بالخصوص انسانوں کو بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک اللہ تعالی کے حقوق اداکرنے کے ساتھ ساتھ اس دنیا میں اپنے ہم جنس انسانوں کے ساتھ کس طرح زندگی گذاریں،بلکہ کائنات جس میں حیوانات ،نباتات اور جمادات وغیرہ بھی ہیں ان کے ساتھ کس طرح کا معاملہ زندگی میں ہو اس کا بھی سبق اسی دین اسلام میں دیا گیا ہے ،اس مذہب کے متبعین کو مسلمان یا مسلمین کہا گیا ہے،جو لوگ اس مذہب سے محروم ہیں ان کو اسلامی اصطلاح میں کفار ومشرکین ،اہل کتاب اور ملحدین کے ناموں سے جاناجاتاہے،اسلام چوں کہ وہ مذہب ہے جو تمام انسانوں کے لئے ہے ،اسلام کی تعلیم اپنے متبعین کو یہ ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کا کام انجام دیں اور اس سے محروم انسانوں کو اس سے روشناس کرائیں،تاکہ وہ بھی اپنے خالق جل مجدہ کے دین کو اختیار کرکے دنیا وآخرت کی کامیابی سے ہمکنار ہوں،اسی مقصد عظیم کے لئے تمام انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالی نے بھیجا اورآخر میں پیغمبرِ اسلام سرور دو جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے آخری نبی بناکر مبعوث کیا گیا جن کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہ آئے گا،آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا قیمتی حصہ تقریباً تئیس سال اسلام کی نشرواشاعت میں صرف فرمایا،اسی دعوتی مقصد کو لیکر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جہاں تک ہوسکا دنیا کے مختلف گوشوں میں پہنچے اور دعوت ِ اسلام کا عظیم کام انجام دیا،آج ان کی قبریں دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں، مگر ایک طویل ترین عرصہ سے اسلام کی نشرو اشاعت کا کام بالعموم مدہم وکمزور ہے ،انفرادی یا بعض اجتماعی کوششیں گرچہ کہیں نہ کہیں ہوتی رہیں مگر اس عظیم دعوت اسلام کی ذمہ داری اور منصبی فریضہ کی تبلیغ مسلمانوں سے جس درجہ مطلوب تھی اس اہتمام اور اس عظمت کے ساتھ کام نہ ہوا اور آج دنیا کی اکثر آبادی کفر وشرک یا الحادی افکار پر ہے ،لہٰذا امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس دین حنیف پر جہاں خود عمل پیرا رہے ، وہیں اس کی نشرواشاعت اور تبلیغی ذمہ داری سے بھی غافل نہ رہے ،عصر حاضر میں دوسری اقوام سے جو امت مسلمہ کا دعوتی تعلق ہے اس کو واضح کرنے کی اشد ضرورت ہے،آئندہ سطور میں لکھی جانے والی تحریر اسی تناظر میں ہے کہ سیرت وتاریخ کے تابندہ دعوتی نقوش کو ہم ذہن نشین کرکے داعی ومدعو کے رشتہ کو پہچانیں اور اسوہ رسول (صلی الله علیہ وسلم ) کو سامنے رکھتے ہوئے دعوتی فریضہ انجام دیں،واضح رہے کہ اس سلسلہ کے متعدد مضامین مضمون نگار کے قلم سے ہندوستان کے بعض معروف رسالوں میں شائع ہوچکے ہیں،بالخصوص ماہنامہ ارمغان میں اس کی متعدد قسطیں شائع ہوچکی ہیں،جن میں واضح کیا گیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم غیر مسلمین کے لیے کتنے خیر خواہ تھے اور ان کی فلاح وکام یابی کے لیے کس قدر فکر مند تھے ،حتی کہ اس راہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی جان کی بازی تک لگادی، قرآن کریم کی متعدد آیات میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی اس دلی کیفیت کو بیان کیا گیاہے، مثلاً: ارشاد عالی ہے: ﴿لعلک باخع نفسک ألا یکونوا مؤمنین﴾(الشعراء:3) اے نبی ! شاید آپ اس رنج میں اپنے کو ہلاک کرلیں گے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔ درج ذیل مضمون پاکستان کے معروف ومؤقر رسالہ ماہنامہ الفاروق کے لیے تحریر کیا گیا ہے،اس امید کے ساتھ کہ پاکستان میں ایک بڑی تعداد غیر مسلمین کی ہے، جن میں اسلامی چراغ روشن کرنے کی اشد ضرورت ہے، تاکہ وہ محروم بھی نور ایمانی سے روشن ہوکر دنیا وآخرت میں کام یاب وکامران ہوں۔ واللہ ولی التوفیق

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
آپ صلی الله علیہ وسلم صحابہ کرام کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ شدید پیاس لگی ،آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دوافراد (شاید علی وزبیررضی اللہ عنہما) حاضر ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان دونوں سے فرمایا: فلاں جگہ جاؤ، وہاں تمہیں ایک عورت ملے گی، اس کے ہم راہ ایک اونٹ ہے جس پر پانی کے دو گھڑے رکھے ہیں ،جاؤ اس عورت کو بلالاؤ ، یہ دونوں حضرات گئے توعورت کو اسی مقام پر پایا جہاں آپ صلی الله علیہ وسلم نے نشان دہی کی تھی،یہ عورت اونٹ پر سوار تھی اور اس کے دونوں طرف پانی کے دومشکیزے لٹکے ہوئے تھے،ان حضرات نے اس عورت سے کہا: رسول اللہ (صلی الله علیہ وسلم ) نے تمہیں بلایا ہے ، عورت بولی ،کون رسول اللہ ؟ کیا وہی جو ایک نئے دین کی دعوت دیتے ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں وہی ہیں جن کو تم سمجھ رہی ہواور فی الحقیقت وہ اللہ کے سچے رسول ہیں،الغرض یہ حضرات اس عورت کولے کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے پانی میں سے کچھ پانی ایک برتن میں ڈال دیا جائے ،چناں چہ ایسا ہی کیا گیا ،پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس برتن کے پانی میں لعاب دہن شامل فرماکر کچھ پڑھا، پھر اس پانی کو اس کے مشکیزوں میں واپس ڈال دیاگیا،پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کے گھڑوں سے لوگ اپنے برتنوں میں پانی بھر لیں،چناں چہ صحابہ کرام نے تمام برتنوں میں جوکچھ اس وقت تھے پانی بھر لیا،(راوی حدیث حضرت عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ پانی بجائے کم ہونے کے اس میں اضافہ ہی ہوا ) پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس خاتون کے کپڑے کو بچھوادیااور صحابہ کو حکم دیا کہ جوکچھ میسر ہو اس کولا کر دے دیں ،چنانچہ صحابہ کرام نے جوکچھ ہوسکا کھجور ،آٹا،ستو وغیرہ اس کولالا کر دیا، یہاں تک کہ اس کا کپڑا بھرگیا،تب آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کوحکم دیا کہ : اب تم یہ سب لے کر چلی جاؤ ،ہم نے تمہارے پانی سے کچھ بھی نہیں لیا،ہاں! اللہ تعالی نے ہمیں پانی عطافرمایا اور ہمیں سیراب کیا،یہ عورت واپس ہوگئی اور اپنے گھر والوں کے پاس آئی، اُن سے بتایا کہ آج میں تمہارے پاس ایسے شخص کے پاس سے آئی ہوں جو لوگوں میں سب سے بڑا جادوگر ہے یا یہ کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں،یہ سننا تھا کہ اس عورت کے قبیلہ کے لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور تمام کے تما م لوگ اسلام میں داخل ہوگئے ۔ (بخاری رقم:337،والسنن الکبری للبیہقی واللفظ لہ رقم:127) یہ روایت بیہقی کی ہے، بخاری کے روایت کے الفاظ میں اس کا اضافہ ہے کہ مسلمانوں کے دعوتی وجہادی قافلے اس کے پاس سے گذرتے ،مگر اس قبیلہ والوں سے تعرض نہ کرتے، یہاں تک کہ ایک دن اس عورت نے قبیلہ والوں سے کہاکہ یہ حضرات رعایت میں تم سے تعرض نہیں کرتے، بہتر ہے کہ تم لوگ اسلام قبول کرلو، اس عورت کے کہنے پر سب قبیلہ والوں نے اسلام قبول کرلیا ۔ واللہ تعالی اعلم

مسلم شریف کی روایت میں مزید یہ اضافہ ہے کہ ا س عورت نے بتایا کہ وہ بچوں والی ایک بیوہ عورت ہے اور یتیم بچوں کی پرورش کرتی ہے،پھر جب یہ خاتون واپس اپنے قبیلہ میں تاخیر سے پہنچی تو ان لوگوں نے پوچھا آج تمہیں تاخیر کیوں ہوئی ؟ اس نے سارا قصہ سنایااور کہا:سچی بات یہ ہے کہ وہ اللہ کے سچے نبی ہیں، جیساکہ ان کا دعوی ہے ۔

حدیث شریف میں متعدد اہم باتیں ضمنا آگئیں،ایک اجنبی دشمن کافروں کی عورت کے ساتھ مسلمانوں کا سلوک کتنا رحیمانہ، کریمانہ، مشفقانہ اور احسان مندانہ تھا،عصر حاضر میں آج اس کے برعکس دشمن سے متعلق ہر چیز کو تباہ وبرباد کیا جاتاہے،مگر رحمت دوعالم صلی الله علیہ وسلم جس دین کو لے کرآئے اس میں ایسی بے رحمی کو دخل کہاں؟ دشمن سے دشمنی اپنی جگہ، مگر دشمنوں کی عورتیں،ان کے بچے ،ان کے مذہبی افراد بوڑھے وغیرہ، یعنی سماج کے کمزوروں پر خاص رحم اور خصوصی توجہ وعنایت کی اسلام میں تلقین کی گئی ہے، اس واقعہ میں یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس عورت کاسارا پانی لے کر چلے جاتے اور اس کو قتل کرکے لاش کوپھینک دیتے ،یہاں کوئی دیکھنے والا بھی نہ تھا،مگر ایسی کمینی حرکت کسی ایسے شخص سے ممکن نہیں جس نے نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم کا لایا ہوا کلمہ لا الہ الا اللہ پڑھا ہو ۔

ان پاکیزہ ومقدس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جگہ اور کوئی ہوتا تو ایک تنہاعورت، وہ بھی بیا بان جنگل میں مل جاتی تو اس کو لقمہ تر سمجھ کر اس کی عزت سے کھلواڑ کرتا ،مگر یہاں اسلام کے ماننے والے تھے کہ جن کی نظر میں غیر عورت جہاں کہیں بھی ہو وہ اس کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں ،نا کہ اس کی عزت کو خاک میں ملانے والے۔

واقعہ میں یہ بھی ہوسکتا تھا کہ اس عور ت سے پانی لے کر اس کو واپس کردیا جاتا ،مگر سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم جو پیکر جود وسخا تھے کس طرح آپ سے یہ ممکن تھا،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو خوب اکرام کرکے اور عطایا ونوازشات کے ساتھ باعزت رخصت فرمایا کہ یہی آپ صلی الله علیہ وسلم کی شایان شان بات تھی ۔

سہیل بن عمرو کے زمانہ کفر کے احوال بھی ملاحظہ فرمائیں:
# حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم گذررہے تھے کہ اسامہ بن زید نظرآئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کواپنی سواری پراپنے آگے سوارکرلیااور سہیل بن عمر و کے دونوں ہاتھ گردن تک بندھے ہوئے تھے ،یہی سہیل کہتے ہیں کہ :جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مکہ میں (فتح مکہ کے وقت) داخل ہوئے تو میں اپنے گھر میں داخل ہوا اور اندر سے دروازہ بند کرلیااور عبد اللہ کو میں نے یہ پیغام بھیجاکہ وہ جاکرمحمد (صلی الله علیہ وسلم )سے میرے لیے امان لے لے،یاد رہے کہ یہ وہی عبد اللہ ابو جندل ہیں، جو صلح حدیبیہ کے موقع پر ابھی دوسال قبل بیڑیوں میں جکڑے ہوئے آئے تھے اور یہی ان کے والد سہیل اس پر راضی نہ تھے کہ ان کے اس بیٹے کو بیڑیوں سے نجات مل جائے اور یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوجائیں،مگر آج تقریباً دو سال بعد یہی باپ اپنے اسی بیٹے سے اپنی جان کی امان طلبی کی درخواست کررہے ہیں۔ بہر حال یہ صاحبزادہ حضرت عبد اللہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ا ور عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ ! کیا آپ میرے والد کو امان دیں گے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم تو پہلے ہی سب کوامان دے چکے تھے ،آپ نے فرمایا: ہاں ،وہ امان میں ہے، اللہ کی امان میں،یہ فرماکر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے آس پاس کے حضرات سے فرمایا: جن کو سہیل بن عمرو ملے توا س سے کوئی تعرض نہ کرے، میری ذات کی قسم! بلاشبہ سہیل صاحب عقل اور شریف النفس ہے،مگر سہیل جیسے شخص پر اسلام مخفی نہیں،یہ سننا تھاکہ سہیل کے بیٹے عبد اللہ نے جاکر اپنے باپ کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے نکلے ہوئے یہ پیار بھرے جملے سنائے ،جیسے ہی سہیل نے یہ جملے سنے تو کہا: اللہ کی قسم! (محمدصلی الله علیہ وسلم) بچپن میں اور بڑے ہوکر بھی نیک وصالح ہی رہے۔

امن ملنے کے بعد سہیل امن وامان کے ساتھ آتے جاتے ،یہاں تک کہ وہ وقت آیا جب آپ صلی الله علیہ وسلم فتح مکہ سے فارغ ہوکر غزوہ حنین کے لیے تشریف لے گئے تو اب سہیل بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہم راہ گئے، مگر ابھی بھی شرک وکفر پر ہی تھے ،یہاں تک کہ اسی سفر میں جعرانہ کے مقام پر سہیل نے اسلام قبول کیااور آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو حنین کی غنیمت میں سے سو اونٹ عطا کیے ۔

موقع کی مناسبت سے سہیل ہی کا ایک واقعہ حدیث وسیرت کی کتابوں میں مذکور ہے، یہ بھی ذرادلچسپ ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
اسلام کی شان وشوکت دن بدن بڑھتی رہی ،آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ میں اسلام کی خوب خوب نشرواشاعت ہوئی ،آپ صلی الله علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو وفاشعار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلام کی دعوت اور دین حق کی نشرواشاعت میں کوئی کمی نہ چھوڑی !اپنی جان ومال اور اوقات غرض یہ کہ ہر عزیزترین چیزکو اسلام کے لیے قربان کردیا،حضرت ابوبکر کی قیادت وامارت میں اسلام کادرخت پھلتا پھولتا رہا،اگرچہ کچھ فتنے بھی سامنے آئے، مثلاً مانعین زکوة کافتنہ کہ کچھ لوگوں نے زکوة کی ادائیگی سے انکار کیا،اسی طرح ارتداد کافتنہ وغیرہ، مگر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جانثار صحابہ کرام کی جانفشانی وقربانی سے ان فتنوں کا سدباب کیا اور اسلام کا کارواں آگے ہی بڑھا،یہاں تک کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے، ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کازمانہ آیا جو اسلام کی نشرواشاعت اور اس کے عظیم ترین دائرہ کا وسعت کا زمانہ ثابت ہوا ،عراق وروم اور فارس فتح ہوا ، شام فتح ہوکر قبلہ اول بیت المقدس مسلمانوں کو بذریعہ صلح یہود نے سپردکردیا،مصرپر اسلام کاجھنڈا لہرایا،بلکہ آگے بڑھ کراسلام کے شعاعیں مشرق ومغرب اور شمال وجنوب ہر چہار سمت پھیلیں اور لوگ اسلام کی آغوش میں آتے چلے گئے،انہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کازمانہ ہے، قریش کے کچھ سربرآوردہ لوگ حضرت عمر سے ملنے کے لیے آئے ،ان میں ابو سفیان اور یہ مذکورہ صحابی جن کا ذکر اوپر ہوا سہیل بن عمر و بھی تھے ،ان حضرا ت نے اطلاع کی کہ ہم فلاں فلاں ملنا چاہتے ہیں،اسی وقت میں کچھ اور فقراء مسلمین بھی حاضر ہوگئے، وہ بھی بغرض ملاقات آئے تھے ،ان میں حضرت بلال ،حضرت صہیب ،حضرت عماربن یاسر(رضی اللہ عنہم) تھے،اندر سے ملنے کی اجازت جن کو ملی وہ ان فقراء حضرات صحابہ کو ملی ،یہ دیکھ کر ابو سفیان جو اب مسلمان ہی تھے اور صحابیت کے درجہ سے مشرف ہوچکے تھے، تلملا گئے ،کہنے لگے :میں نے آج کی طرح نہیں دیکھا کہ ان غلاموں کو تو اجازت ِملاقات ملے اور ہم بیٹھے رہیں، ہماری طرف کوئی التفات وتوجہ ہی نہیں؟ اس موقع پر یہی سہیل بن عمر رضی اللہ عنہ گویا ہوئے : ا ے لوگو ! میں تمہارے چہروں اور غصہ کو دیکھ رہا ہوں ،پس اگر تمہیں غصہ ہی ہے تو اپنے اوپر غصہ ہو ،اِن (فقراء) کو دعوت اسلام پیش کی گئی تو انھوں نے اس کو بہت جلد قبول کیا اورتمہیں اسلام کی دعوت دی گئی تو تم پیچھے ہی رہے ،اس لیے جب یہ حضرات اسلام میں آگے رہے تواب انہی کو سبقت واولیت حاصل رہے گی، تمہیں اب ان سے آگے بڑھنے کا حق نہیں اور اب جب یہ آگے ہی رہے تو اب تو تمہارے لیے ان کے پیچھے رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں،ہاں! اب تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ جہاد میں جاؤ اور اسلام کی نشرواشاعت میں محنت کرو، امید ہے کہ اللہ تعالی تمہیں جہاد کے شرف سے شرف یاب فرماکر شہادت سے نوازدیں ، یہ کہہ کر سہیل بن عمرو نے اپنا کپڑا جھاڑا اور اٹھ کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ شام پہنچ گئے۔

ابن شاہین کی روایت کے مطابق سہیل بن عمرو کا قول ہے : اللہ کی قسم! میں مسلمانوں کے ساتھ ہر موقع پر آگے رہوں گا جس طرح کہ میں مشرکین وکفار کے ساتھ آگے آگے رہا اور اسی طرح اسلام کے لیے خرچ کروں گا جس طرح میں نے کفر وشرک کی راہ میں خرچ کیا، تاکہ معاملہ برابر سرابر ہوجائے ۔

انہی سہیل بن عمرو سے روایت منقول ہے کہ جس میں انھوں نے فرشتوں کو میدان بدر میں جنگ کرتے ہوئے قتل کرتے ہوئے اورقید کرتے ہوئے دیکھا۔

(دلائل النبوة:ج 3/53) حضرت امام شافعی رحمة اللہ علیہ کا قول الاصابة فی تمییز الصحابہ میں ابن حجر نے نقل کیا ہے جو سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے: ”کان سہیل محمود الاسلام من حین اسلم “ فرماتے ہیں سہیل جب سے اسلام لائے ان کی اسلامی زندگی قابل تعریف ہی رہی ۔

حضرت سعید بن فضالہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں اور سہیل بن عمرو ایک مرتبہ ساتھ ہی تھے، حضرت ابو بکر کا زمانہ تھا ،میں نے سہیل کو یہ کہتے ہوئے سنا : اللہ کے راستہ میں تھوڑی دیر کا کھڑا ہونا اس سے افضل ہے کہ کوئی اپنے گھر میں ساری زندگی عمل کرے،پھر سہیل نے کہا: اب میں مرابط (اسلامی حدود پر حفاظتی ذمہ داری اداکرنا) ہی رہوں گا، یہاں تک کہ مجھے موت آجائے اور کبھی مکہ واپس نہ ہوں گا،چناں چہ سہیل نے اپنا یہ عہد پورا کیا اور تازندگی شام میں مرابط رہے، یہاں تک کہ عمواس کی مشہور طاعونی بلا میں سنہ 18ھ میں وفات پائی ۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ ۔ (الاصابة 3/213)




عورتوں کے حقوق سیرتِ نبوی کی روشنی میں

     تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہٴ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی، جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتاتھا؛ حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا ۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھناروحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے، وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولادِ نرینہ کی تابع اور محکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا؛ یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔
                 اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت وسلطنت گردش کرتی رہی ہے، یوں تو خاندان اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا؛ لیکن بعض مسائل پر مرد پر بھی ایک عورت کو بالادستی حاصل رہی، اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں، جہاں عورتوں کا بول بالا ہے؛ لیکن ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا، ان کے حقوق پر دست درازی جاری ہی رہی اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی۔(۱)
                لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت وپستی کے گڑھوں سے نکالا جب کہ وہ اس کی انتہا کو پہنچ چکی تھی، اس کے وجود کو گو ارا کرنے سے بھی انکار کیا جارہا تھا تو نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم رحمة للعالمین بن کر تشریف لائے اور آپ نے پوری انسانیت کو اس آگ کی لپیٹ سے بچایا اور عورت کو بھی اس گڑھے سے نکالا۔ اور اس زندہ دفن کرنے والی عورت کو بے پناہ حقوق عطا فرمائے اور قومی وملی زندگی میں عورتوں کی کیا اہمیت ہے، اس کو سامنے رکھ کر اس کی فطرت کے مطابق اس کو ذمہ داریاں سونپیں۔
                مغربی تہذیب بھی عورت کوکچھ حقوق دیتی ہے؛ مگر عورت کی حیثیت سے نہیں؛ بلکہ یہ اس وقت اس کو عزت دیتی ہے، جب وہ ایک مصنوعی مرد بن کر ذمہ داریوں کابوجھ اٹھانے پر تیار ہوجائے؛ مگر نبیِ کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کالایا ہوا دین عورت کی حیثیت سے ہی اسے ساری عزتیں اور حقوق دیتا ہے اور وہی ذمہ داریاں اس پر عائد کی جو خودفطرت نے اس کے سپرد کی ہے۔(۲)
                عام طور پر کمزور کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے کافی محنت وکوشش کرنی پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکر ان کو ان کے جائز حقوق ملتے ہیں، ورنہ تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔ موجودہ دور نے اپنی بحث وتمحیص اور احتجاج کے بعد عورت کے کچھ بنیادی حقوق تسلیم کیے اوریہ اس دور کا احسان مانا جاتا ہے؛ حالاں کہ یہ احسان اسلام کا ہے، سب سے پہلے اسی نے عورت کو وہ حقوق دیے جس سے وہ مدتِ دراز سے محروم چلی آرہی تھی۔ یہ حقوق اسلام نے اس لیے نہیں دیے کہ عورت اس کامطالبہ کررہی تھی؛ بلکہ اس لیے کہ یہ عورت کے فطری حقوق تھے اور اسے ملنا ہی چاہیے تھا ۔ اسلام نے عورت کا جو مقام ومرتبہ معاشرے میں متعین کیا، وہ جدید وقدیم کی بے ہودہ روایتوں سے پاک ہے، نہ تو عورت کوگناہ کا پُتلا بنا کر مظلوم بنانے کی اجازت ہے اور نہ ہی اسے یورپ کی سی آزادی حاصل ہے۔(۳)
                یہاں پر ان حقوق کاذکر کیاجاتا ہے جو اسلام نے عورت کو دیے؛ بلکہ ترغیب و ترہیب کے ذریعہ اسے ادا کرنے کا حکم بھی صادر کیا۔
عورتوں کو زندہ رکھنے کاحق
                عورت کا جو حال عرب میں تھا وہی پوری دنیا میں تھا؛ عرب کے بعض قبائل لڑکیوں کودفن کردیتے تھے۔ قرآن مجید نے اس پر سخت تہدید کی او راسے زندہ رہنے کا حق دیا اور کہا کہ جو شخص اس کے حق سے روگردانی کرے گا، قیامت کے دن خدا کو اس کاجواب دینا ہوگا۔ فرمایا:
                وإذا الموٴدةُ سُئِلَتْ بأیِ ذنبٍ قُتِلَتْ (التکویر: ۸۔۹)
                اس وقت کو یاد کرو جب کہ اس لڑکی سے پوچھا جائے گا جسے زندہ دفن کیاگیا تھا کہ کس جرم میں اسے مارا گیا۔
                ایک طرف ان معصوم کے ساتھ کی گئی ظلم وزیادتی پر جہنم کی وعید سنائی گئی تو دوسری طرف ان لوگوں کوجنت کی بشارت دی گئی۔ جن کادامن اس ظلم سے پاک ہو او رلڑکیوں کے ساتھ وہی برتاوٴ کریں جو لڑکوں کے ساتھ کرتے ہیں اور دونوں میں کوئی فرق نہ کریں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی لڑکی ہو وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا(۴)۔
عورت بحیثیتِ انسان
                اسلام نے عورت پر سب سے پہلا احسان یہ کیا کہ عورت کی شخصیت کے بارے میں مرد وعورت دونوں کی سوچ اور ذہنیت کو بدلا۔ انسان کے دل ودماغ میں عورت کا جو مقام ومرتبہ اور وقار ہے اس کو متعین کیا۔ اس کی سماجی، تمدنی، اور معاشی حقوق کا فرض ادا کیا۔ قرآن میں ارشاد ربانی ہے :
                خلقکم من نفسٍ واحدةٍ وخَلَقَ منہا زوجَہا (النساء: ۱)
                اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدم) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔
                اس بنا پر انسان ہونے میں مرد وعورت سب برابر ہیں۔ یہاں پر مرد کے لیے اس کی مردانگی قابلِ فخر نہیں ہے اور نہ عورت کے لیے اس کی نسوانیت باعثِ عار۔ یہاں مرد اور عورت دونوں انسان پر منحصر ہیں اور انسان کی حیثیت سے اپنی خلقت اور صفات کے لحاظ سے فطرت کا عظیم شاہکار ہے۔ جو اپنی خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے ساری کائنات کی محترم بزرگ ترین ہستی ہے۔ قرآن میں ا شاد ہے کہ:
                وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ آدَمَ وَحَمَلْنٰہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰہُم مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰہُمْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلاً(سورہ بنی اسرائیل: ۷۰)
                ہم نے بنی آدم کو بزرگی وفضیلت بخشی اور انھیں خشکی اور تری کے لیے سواری دی۔ انھیں پاک چیزوں کا رزق بخشا اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سی چیزوں پر انھیں فضیلت دی۔
                اورسورہ التین میں فرمایا:
                لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ (التین: ۴)
                ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا۔
                چنانچہ آدم کو جملہ مخلوقات پر فضیلت بخشی گئی اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو سرفرازی عطا کی گئی اس میں عورت برابر کی حصے دارہے۔(۵)
عورتوں کی تعلیم کا حق
                انسان کی ترقی کا دارومدار علم پر ہے کوئی بھی شخص یاقوم بغیر علم کے زندگی کی تگ ودو میں پیچھے رہ جاتاہے۔ اور اپنی کُند ذہنی کی وجہ سے زندگی کے مراحل میں زیادہ آگے نہیں سوچ سکتا اور نہ ہی مادی ترقی کا کوئی امکان نظر آتاہے؛ لیکن اس کے باوجود تاریخ کا ایک طویل عرصہ ایسا گزرا ہے جس میں عورت کے لیے علم کی ضرورت واہمیت کو نظر انداز کیاگیا اور اس کی ضرورت صرف مردوں کے لیے سمجھی گئی اور ان میں بھی جو خاص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں صرف وہی علم حاصل کرتے تھے اور عورت علم سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔
                لیکن اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد وعورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ وپابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی، جیسا کہ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: طلب علم فریضة اور دوسری جگہ ابوسعید خدی کی روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
                مَنْ عَالَ ثلاثَ بناتٍ فأدَّبَہُنَّ وَزَوَّجَہُنَّ وأحسنَ الیہِنَّ فلہ الجنة(۶)
                جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم تربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔
                اسلام مرد وعورت دونوں کو مخاطب کرتا ہے اور اس نے ہر ایک کو عبادت اخلاق وشریعت کا پابند بنایا ہے جو کہ علم کے بغیر ممکن نہیں۔ علم کے بغیر عورت نہ تو اپنے حقوق کی حفاظت کرسکتی ہے اور نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرسکتی ہے جو کہ اسلام نے اس پر عائد کی ہے؛ اس لیے مرد کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے۔
                جیسا کہ گزشتہ دور میں جس طرح علم مردوں میں پھیلا، اسی طرح عورتوں میں بھی عام ہوا۔ صحابہ کے درمیان قرآن وحدیث میں علم رکھنے والی خواتین کافی مقدار میں ملتی ہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط اور فتویٰ دینا بڑا ہی مشکل اور نازک کام ہے؛ لیکن پھر بھی اس میدان میں عورتیں پیچھے نہیں تھیں؛ بلکہ صحابہٴ کرام کے مدِمقابل تھیں، جن میں کچھ کا ذکر کیا جاتاہے۔ مثلاً:
                حضرت عائشہ، حضرت ام سلمہ، حضرت ام عطیہ، حضرت صفیہ، حضرت ام حبیبہ، اسماء بنت ابوبکر، ام شریک، فاطمہ بنت قیس، وغیرہ نمایاں تھیں۔(۷)
معاشرتی میدان
                جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی رہ گزر سے مٹانے کی کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔ وہ ہستی جو عالمِ دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائی( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اس نے اس مظلوم طبقہ کو یہ مژدہ جانفزا سنایا:
                حُبِّبَ الَیَّ مِنَ الدُّنْیَا النِّسَاءُ والطِّیُبُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَیْنِيْ فِی الصَّلوٰةِ(۸)
                مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔
                اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد وتقویٰ کی دلیل نہیں ہے، انسان خدا کا محبوب اس وقت ہوسکتاہے جب وہ اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرے جن سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے، اس کی نظامت اور جمال کا متمنی ہو اور عورتوں سے صحیح ومناسب طریقے سے پیش آنے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے نکاح کو لازم قرار دیا گیا ہے، اس سلسلے میں آپ کا ارشاد ہے:
                النکاحُ من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی(۹)
                نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت سے روگردانی کی اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔(۱۰)
                چنانچہ ایک عورت بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے گھر کی ملکہ ہے اور اس کے بچوں کی معلم ومربی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
                ہن لباس لکم وانتم لباس لہن (البقرہ: ۱۸۷)
                عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا ۔
                یعنی کہ تم دونوں کی شخصیت ایک دوسرے سے ہی مکمل ہوتی ہے۔ تم ان کے لیے باعثِ حسن وآرائش ہو تو وہ تمہارے لیے زینت وزیبائش غرض دونوں کی زندگی میں بہت سے تشنہ پہلو ہوتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کے بغیر پایہٴ تکمیل تک نہیں پہنچتے۔(۱۱)
معاشی حقوق
                معاشرہ میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ جو جاہ وثروت کامالک ہے، لوگ اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس نہیں ہے لوگ اس کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے، عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔ اسے دنیا کے تمام سماجوں اور نظاموں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کمزور رکھا، سوائے اسلام کے، پھر اس کی یہی معاشی کمزوری اس کی مظلومیت اور بیچارگی کا سبب بن گئی۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اسی مظلومیت کا مداوا کرنا چاہا۔ اور عورت کو گھر سے باہر نکال کر انھیں فیکٹریوں اور دوسری جگہوں پر کام پر لگادیا۔ اس طرح سے عورت کا گھر سے باہر نکل کر کمانا بہت سی دیگر خرابیوں کا سبب بن گیا، ان حالات میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے راہِ اعتدال اختیار کیا۔
                (۱) عورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمہ ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمہ۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمہ ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمہ ہے، ارشاد باری تعالی ہے کہ:
                عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہ(البقرہ: ۲۳۶)
                خوشحال آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے۔
                (۲) مہر: عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:
                وَآتُواْ النَّسَاءَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَةً فَإِن طِبْنَ لَکُمْ عَن شَیْْءٍ مِّنْہُ نَفْساً فَکُلُوہُ ہَنِیْئاً مَّرِیْئاً(النساء: ۴)
                عورتوں کا ان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے کھاوٴ۔
                (۳) وراثت: بعض مذہبوں کے پیشِ نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا؛ لیکن ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ اس کے لیے قرآن میںلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأنْثَیَیْنِ ارشاد ہوا ہے یعنی مرد کو عورتوں کے دو برابر حصے ملیں گے۔ (النساء: ۱۱) یعنی عورت کاحصہ مرد سے آدھا ہے، اسی طرح وہ باپ سے ، شوہر سے، اولاد سے، اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے۔
                (۴) مال وجائیداد کا حق: اس طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے؛ کیوں کہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ داری نہیں ہے؛ بلکہ وہ سب سے حاصل کرتی ہے؛ اس لیے یہ سب اس کے پاس محفوظ ہے۔ اگر مرد چاہے تو اس کا وراثت میں دوگنا حصہ ہے؛ مگر اسے ہر حال میں عورت پر خرچ کرنا ہوتا ہے، لہٰذا اس طرح سے عورت کی مالی حالت (اسلامی معاشرہ میں) اتنی مستحکم ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔
                (۵) پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے؛ لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔ اس طرح سے اسلام کا عطا کردہ معاشی حق عورت کو اتنا مضبوط بنادیتا ہے کہ عورت جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے؛ جب کہ عورت ان معاشی حقوق سے کلیتاً محروم ہے۔
تمدنی حقوق
                 شوہر کاانتخاب : شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت پر بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
                لَایُنْکَحُ الْاَیْمُ حَتّٰی تُسْتَأمَرُ وَلاَ تُنْکَحُ الْبِکْرُ حتی تُسْتأذن(۱۲)
                شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔(۱۳)
                اگر بچپن میں کسی کا نکاح ہوگیا ہو، بالغ ہونے پر لڑکی کی مرضی اس میں شامل نہ ہو تو اسے اختیار ہے کہ اس نکاح کو وہ رد کرسکتی ہے، ایسے میں اس پر کوئی جبر نہیں کرسکتا۔
                ہاں اگر عورت ایسے شخص سے شادی کرنا چاہے جو فاسق ہو یا اس کے خاندان کے مقابل نہ ہو تو ایسی صورت میں اولیاء ضرور دخل انداز ی کریں گے۔
خلع کا حق
                 اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم اور ناکارہ شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق عدالت کے ذریعے دلائے جاتے ہیں۔
حسن معاشرت کا حق
                قرآن میں حکم دیا گیا: وعاشروہن بالمعروف عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آوٴ (النساء: ۱۹) چنانچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاوٴ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خیرُکم خیرُکم لاہلہ۔ تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔(۱۴)
بیویوں کے حقوق
                اسلام کے آنے کے بعد لوگوں نے عورتوں کو بے قدری کی نگاہوں سے دیکھا، اس بے قدری کی ایک شکل یہ تھی کہ لوگ عبادت میں اتنے محو رہتے تھے کہ بیوی کی کوئی خبر نہیں۔ حضرت عمرو بن العاس اور حضرت ابودرداء کا واقعہ کابڑی تفصیل سے حدیث میں مذکور ہے کہ کثرتِ عبادت کی وجہ سے ان کی بیوی کو ان سے شکایت ہوئی، نبی  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر سمجھایا اور فرمایا کہ تم پر تمہاری بیویوں کا بھی حق ہے، لہٰذا تم عبادت کے ساتھ ساتھ اپنی بیویوں کا بھی خیال رکھو۔
                بیویوں کے حقوق کے بارے میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم حجة الوداع کے موقع پر فرمایا:
                ”لوگو! عورتوں کے بارے میں میری وصیت قبول کرو وہ تمہاری زیر نگین ہیں تم نے ان کو اللہ کے عہد پر اپنی رفاقت میں لیا ہے اور ان کے جسموں کو اللہ ہی کے قانون کے تحت اپنے تصرف میں لیا ہے تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ گھر میں کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تمھیں ناگوار ہے اگر ایسا کریں تو تم ان کو ہلکی مار مار سکتے ہو اور تم پر ان کو کھانا کھلانا اور پلانا فرض ہے۔(۱۵)
                آپ نے ایک جگہ اور فرمایا:
                خیرُکم خیرُکم لاہلہ وأنا خیرُکم لاہلي(۱۶)
                تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہو اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔
                انَّ أکْمَلَ الموٴمنینَ ایماناً أحسنُہم خُلقاً وألطفُہم لأہلہ(۱۷)
                کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔
                نبی  صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور ہر جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دلجوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے رفاقت کے دوران صبروتحمل سے کام لینے والا ہو اور محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔(۱۸)
عورتوں کا معاشرتی مقام اسلام کی نظر میں
                اسلام میں معاشرتی حیثیت سے عورتوں کو اتنا بلند مقام حاصل ہے کہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ معاشرت کے باب میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر مرد کو مخاطب کرکے یہ حکم دیتا ہے کہ ان کے ساتھ معاشرت کے باب میں ”معروف“ کاخیال کیا جائے؛ تاکہ وہ معاشرت کے ہر پہلو اور ہر چیز میں حسن معاشرت برتیں۔ ارشاد ربانی ہے کہ:
                وَعَاشِرُوہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِہْتُمُوہُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَہُواْ شَیْْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْْراً کَثِیْراً(النساء: ۱۹)
                اور ان عورتوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کے ساتھ زندگی گزارو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ممکن ہے کہ تم کوئی چیز ناپسند کرو اور اللہ اس میں خیر کثیر رکھ دے۔
                 معاشرت کے معنی ہیں، مل جل کر زندگی گزارنا، اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک تو مردوں کو عورتوں سے مل جل کر زندگی گزارنے کا حکم دیاہے۔ دوسرے یہ کہ ”معروف“ کے ساتھ اسے مقید کردیا ہے، لہٰذا امام ابوبکر جصاص رازی(المتوفی ۷۰ھ) معروف کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس میں عورتوں کا نفقہ، مہر، عدل کا شمار کرسکتے ہیں۔
                اور معروف زندگی گزارنے سے مطلب یہ ہے کہ گفتگو میں نہایت شائستگی اور شیفتگی سے کام لیا جائے باتوں میں حلاوت ومحبت ہو حاکمانہ انداز نہ ہو اور ایک بات کو توجہ کے ساتھ سنیں اور بے رخی بے اعتنائی نہ برتیں اور نہ ہی کوئی بدمزاحی کی جھلک ظاہر ہو۔(۱۹)
                قرآن میں صرف معاشرت کے لیے ہی نہیں کہا گیا کہ عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے پیش آنا مردوں پر خدا نے فرض کیاہے؛ بلکہ اسی کے ساتھ ہر طرح کے مسائل کے بارے میں کہا گیا ہے۔ جیسے مطلقہ عورت کے باری میں صاف طور پر یہ اعلان کیا گیا ہے کہ:
                وَلاَ تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَاراً لَّتَعْتَدُواْ (البقرہ: ۲۳۱)
                ایذا دِہی کے خیال سے ان کو نہ روک رکھو؛ تاکہ تم زیادتی کرو۔
 آزادیِ رائے کا حق
                اسلام میں عورتوں کی آزادی کا حق اتنا ہی ہے جتنا کہ مرد کو حاصل ہے خواہ وہ دینی معاملہ ہو یا دنیاوی۔ اس کو پورا حق ہے کہ وہ دینی حدود میں رہ کر ایک مرد کی طرح اپنی رائے آزادانہ استعمال کرے۔
                ایک موقع پر حضرت عمر نے فرمایا کہ :”تم لوگوں کو متنبہ کیاجاتا ہے کہ عورتوں کی مہر زیادہ نہ باندھو، اگر مہرزیادہ باندھنا دنیا کے اعتبار سے بڑائی ہوتی اور عنداللہ تقویٰ کی بات ہوتی تو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ مستحق ہوتے۔(ترمذی)
                حضرت عمر کواس تقریر پر ایک عورت نے بھری مجلس میں ٹوکا اور کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں؛ حالاں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
                وَآتَیْْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنطَاراً فَلاَ تَأْخُذُواْ مِنْہُ شَیْْئاً (النساء: ۲۰)
                اور دیا ہے ان میں سے کسی ایک کو ڈھیر سا مان تو اس میں سے کچھ نہ لو۔
                جب خدا نے جائز رکھا ہے کہ شوہر مہرمیں ایک قنطار بھی دے سکتا ہے تو تم اس کو منع کرنے والے کون ہوتے ہو۔ حضرت عمر نے یہ سن کر فرمایا کُلُّکُمْ أعْلَمُ مِنْ عُمَر تم سب تم سے زیادہ علم والے ہو۔اس عورت کی آزادیِ رائے کو مجروح قرار نہیں دیا کہ حضرت عمر کو کیوں ٹوکا گیا اور ان پر کیوں اعتراض کیا گیا؛ کیوں کہ حضرت عمر کی گفتگو اولیت اور افضیلت میں تھی۔ نفس جواز میں نہ تھی۔
                اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کو اپنی آزادیِ رائے کا پورا حق ہے؛ حتی کہ اسلام نے لونڈیوں کو بھی اپنی آزادانہ رائے رکھنے کاحق دیا۔ اور یہ اتنی عام ہوچکی تھی کہ عرب کی لونڈی اس پر بے جھجھک بناتردد کے عمل کرتی تھیں حتی کہ رسالت مآب  صلی اللہ علیہ وسلم کی اس رائے سے جو بحیثیت نبوت ورسالت کے نہیں ہوتی تھی، اس پر بھی بے خوف وخطر کے اپنی رائے پیش کرتی تھیں اور انھیں کسی چیز کاخطرہ محسوس نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی نافرمانی کا۔(۲۰)
                اس آزادیِ رائے کا سرچشمہ خود آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس تھی۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت نے ازواجِ مطہرات میں آزادیِ ضمیر کی روح پھونک دی تھی، جس کااثر تمام عورتوں پر پڑتا تھا۔
--------------------
حواشی:
(۱)           مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ، سید جلال الدین عمری، مطبع ادارہٴ تحقیق وتصنیفِ ا سلامی، مارچ۱۹۸۶ء،ص:۱۵
(۲)           اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریابتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۱۵
(۳)          اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریابتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۲۹۔۳۰
(۴)          ابوداوٴد، باب فضل من عال یتامی، ابوداوٴد سلیمان بن الاشعث السجستانی، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع، ص:۹۳۰
(۵)          اسلام میں عورت کا مقام ومرتبہ، ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۳۱
(۶)           ابوداوٴد، باب فضل من عال فی یتامی، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع، ص:۹۳۱
(۷)          مسلمان عورتوں کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ: سید جلال الدین عمری، ادارہٴ تحقیق وتصنیفِ اسلامی، مارچ ۱۹۸۶ء، ص: ۲۹
(۸)          نسائی ، ابی عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی الشہیر (النسائی)، مکتبہ معارف للنشر والتوزیع، ۱۳۰۳ھ ص: ۶۰۹
(۹)           بخاری، کتاب النکاح، کتب خانہ رشیدیہ، دہلی، ص: ۷۵۷۔۷۵۸
(۱۰)         بخاری، کتاب النکاح، کتب خانہ رشیدیہ، دہلی، ص: ۷۵۷۔۷۵۸
(۱۱)          اسلام میں عورت کا مقاموم ومرتبہ: ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۳۵
(۱۲)         مشکوٰة کتاب النکاح، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۷۰
(۱۳)         مشکوٰة، باب عشرة النساء، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۸۱
(۱۴)         مشکوٰة، کتاب النکاح، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۷۰
(۱۵)         مشکوٰة بروایت صحیح مسلم ، فی قصة حجة الوداع، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۲۵
(۱۶)         مشکوٰة، باب عشرة النساء، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص: ۲۸۱
(۱۷)         مشکوٰة، عن ترمذی، کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند، ص:
(۱۸)         اسلام میں عورت کامقام، مرتبہ: ثریا بتول علوی، اسلامک بک فاوٴنڈیشن، نئی دہلی ۱۹۹۳ء، ص: ۶۰۔۶۱
(۱۹)         اسلام میں عورت کامقام، مولوی عبدالصمد رحمانی، دینی بک ڈڈپو اردوبازار، دہلی، ص: ۱۷
(۲۰)         اسلام میں عورت کامقام، مولوی عبدالصمد، رحمانی،دینی بک ڈپو، اردوبازار دہلی، ص: ۲۲۔۲۳







اسوہ نبی ﷺ کو اپنانے کی ضرورت
چھٹی صدی عیسوی تاریخ انسانی کی نہایت تاریک ترین صدی رہی ہے، ایسی صدی جس میں ہر طرف ظلم وستم، جبروتشدد اور قتل وغارت گری کا بازا رگرم تھا۔ ضلالت وکج روی، فحاشی وعریانیت اور شرک وبت پرستی کا خوف ناک سایہ انسانی آبادی پردراز ہوتا جارہا تھا۔ لوٹ مار، چوری،شراب نوشی، زنا کاری، انسانی حقوق کی علانیہ پامالی، کون سی ایسی برائی ہے، جو اس وقت کے انسانی معاشرے میں موجود نہ تھی۔ انسانی قافلہ اپنی غیر انسانی حرکتوں کے سبب روبہ ہلاکت تھا۔ انسانی اور سماجی قدریں ایک ایک کرکے رخصت ہوتی جارہی تھیں۔ فتنہ وفساد کے اندھیرے ہر طرف پھیلتے جارہے تھے۔ انسانی اقدار، اخلاق حسنہ، ایک انسان کا دوسرے انسان پر حق، مالک وآقا کے حدود اور حاکم وررعایا کے باہمی حقوق وفرائض اور اس قسم کے سارے اقدار ومعیار قصہٴ پارینہ بن چکے تھے۔ اپنے ظاہری ڈھانچے او رچہرے بشرے کے ساتھ انسان زندہ تھا، لیکن انسانی روح غائب ہو گئی تھی۔ صحیح رہ نمائی کے فقدان کی وجہ سے ہر طرف جنگل کا قانون رائج تھا۔ ایک شخص دوسرے شخص کے خون کا پیاسا تھا، ایک بھائی دوسرے بھائی کا جانی دشمن بنا ہوا تھا، اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں دور دور تک کوئی بندہٴ خدا ایسا نظر نہ آتا تھا جس کے اندر معاشرے کی قیادت کا حوصلہ اور جذبہ ہو۔ دنیا انسانوں کی خدا فراموشی، بتانِ ہزار رنگ کی پرستش اور جہالت وشرک کے اندھیروں کی وجہ سے لگاتار تباہی کی طرف بڑھتی جارہی تھی۔ اس وقت کے عرب معاشرے کی حالت زار سیرت النبی کے مؤلف علامہ شبلی کی زبانی سن لیجیے:

”بتوں پر آدمیوں کی قربانی چڑھائی جاتی تھی، باپ کی منکوحہ بیٹے کو وراثت میں ملتی تھی، حقیقی بہنوں سے ایک ساتھ شادی جائز تھی ، ازدواج کی کوئی حد نہ تھی۔ قماربازی، شراب خوری، زنا کاری کا رواج عام تھا۔ بے حیائی کی یہ حالت تھی کہ سب سے بڑانام ور شاعر امرؤ القیس، جوشاہ زادہ بھی تھا، قصیدہ میں اپنی پھوپھی زاد بہن کے ساتھ اپنی بد کاری کا واقعہ مزے لے لے کر بیان کرتا اور یہ قصیدہ درکعبہ پر آویزاں کیا جاتا ہے۔ لڑائیوں میں لوگوں کو زندہ جلا دینا ، مستورات کے پیٹ چاک کر دینا، معصوم بچوں کو تہ تیغ کرنا عموماً جائز تھا۔“ (سیرت النبی)

ایسے پر آشوب حالات میں بھٹکے ہوئے انسانی قافلے کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلانے کے لیے خالق کائنات، مالک دو جہاں، الله تبارک وتعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو روئے ارضی پر مبعوث فرمایا۔ آج سے چودہ سو سال قبل جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت آمنہ کی گود میں آنکھیں کھولی تھیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ایک معجزہ تھی، اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس دنیائے آب وگل میں آتے ہی قیصر وکسری کے ایوانوں میں ہل چل مچ گئی۔ شرک وبت پرستی کے ایوانوں میں کہرام برپا ہو گیا، بتانِ ہزار رنگ اوندھے منھ گر پڑے۔ روبہ زوال انسانیت نے ٹھہر کر سانس لی اور فراموش کردہ راہ انسانی قافلے نے اپنی سمت سفر درست کی۔ عاشق رسول اورمشہور سیرت نگار مولانا عبدالماجد دریا بادی نے آپ کی دلادت باسعادت کے بعد روئے ارضی پر رونما ہونے والی تبدیلی کا نقشہ اسی طرح کھینچا ہے:

”زمین خشک اور پیاسی پڑی ہوتی ہے ، بارش کے فیض سے افسردہ چمن لہلہانے لگتا ہے، مردہ کھیتی میں جان پڑتی ہے ، سویا ہوا سبزہ جاگ اٹھتا ہے، باغ سنسان پڑا ہوتا ہے ، بہار کی ہوا چلتے ہی نئی اور ہری پتیاں نکل آتی ہیں اور اجڑا ہوا باغ پھر سرسبز وشاداب ہو جاتا ہے ۔ عالم پر شب کی سیاہی چھائی ہوتی ہے، ہر شے تاریکی میں گم ہوتی ہے۔ صبح کے طلوع ہوتے ہی، ہر طرف اجالا پھیل جاتا ہے اور ہر ذرہ روشن ہونے لگتا ہے، ایک پاک روح دنیا میں اصلاح وتزکیہ کے لیے آتی ہے او راپنے فیض صحبت سے، بہت سے اندھوں کو بینا، بہت سے بیماروں کو تن درست او ربہت سے مردوں کو زندہ کر دیتی ہے۔“ (ذکر رسول صلى الله عليه وسلم، ص:19)

آقائے دو جہاں، سرکار مدینہ، تاج دار بطحا، محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم ایک انسان تھے، مگر وہ ہادی عالم اور رہبر انسانیت کا اعلیٰ منصب دے کر مبعوث کیے گئے تھے، چالیس سال کی عمر میں ہی کارنبوت کا پروانہ مل جاتا ہے، اس لیے الله کی طرف سے مفوضہ ذمے داری کی ادائیگی اورانسانی معاشرے کو صحیح خطوط پر لانے کے لیے شبانہ روز جدوجہد کی۔ راہ میں مشکلات آئیں، مصائب نے دامن تھاما، مسائل نے سنگ گراں کا رول ادا کیا، اپنوں نے بے نیازی دکھائی، دشمنوں نے دشمنی سے کام لیا، لیکن کیا مجال کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ناساز گار حالات او رمصائب ومسائل کے سامنے سپر ڈال دی ہو۔ بلکہ تاریخ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حالات نے جتنی مخالفت کی، کفر وشرک او رحیوانیت و درندگی کی لہروں نے جس قدر تیور دکھائے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے الله کے حکم پر انسانی آبادی کو اس کا کھویا ہوا مقام یاد دلایا کہ ان کی تخلیق کا اصل مقصد کیا ہے اور اس وسیع وعریض تخلیق کی پشت پر کون سا مقصد کار فرما ہے۔ انسان جو اپنے خالق ومالک حقیقی کو فراموش کرکے ہزاروں قسم کی برائیوں کی بیڑیاں اپنے پیروں میں ڈالے ہوئے تھا، رسم رواج کے تنگ نائے میں بند تھا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں ان برائیوں او رغیر انسانی رسم ورواج کی زنجیروں سے آزاد کرایا۔ انہیں ہزاروں خداؤں کے سامنے سجدہ کرنے سے منع کیا او رانہیں ایک خدا کی بندگی کادرس دیا۔ انہیں یہ سبق یاد دلایا کہ پوراا نسانی کنبہ خدائے وحدہ لاشریک کا کنبہ ہے۔ انسانوں کے درمیان نسل اورعلاقائیت کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں۔ اسلام میں قوم وقبیلہ اور کالے گورے کی کوئی تمیز نہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے انسانیت وشرافت، اخوت وبھائی چارگی ، ایک دوسرے کے احترام اورمحبت کی بنیاد پر وہ انسانی نظام برپا کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کی کایا پلٹ ہو گئی۔

آپ صلى الله عليه وسلم نے چالیس سال کی عمر میں نبوت پائی اورمحض 23/ سال کی مختصر مدت میں تہذیب وتمدن سے نا آشنا عرب بدووں میں وہ انسانی روح بیدار کر دی کہ بڑے بڑے فلاسفر، مصلح ، تحریک ساز اور تاریخ داں انگشت بدنداں ہیں۔ یہ عالم انسانیت پر آپ صلى الله عليه وسلم کا بڑا احسان ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنی ذات کی پروانہ کرکے عالم انسانیت کو اجتماعی ذلت اور خواری کی طرف بڑھنے سے بچالیا۔ انسانی قافلے کو صراط مستقیم پر گام زن کرکے اس قافلے کے ارکان کو اِدھراُدھر مارے مارے پھرنے اور ذلت کی زندگی جینے سے تحفظ عطا کیا۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کو اس دنیا کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کیا گیا ہے اور رحمة للعالمین کا یہ لقب خود خالق ارض وسمانے عطا کیا ہے، عربی داں جانتے ہیں کہ رحمت بڑا ہی جامع لفظ ہے، جس میں محبت، شفقت، ہم دردی ، اخوت وبھائی چارگی اور فضل واحسان کے سارے پہلو بیک وقت سما جاتے ہیں۔ پھر عالمین کے لفظ میں جو نکتہ پوشیدہ ہے، وہ بھی اہل علم پر مخفی نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم صرف عالم انسانیت کی طرف ہی مبعوث نہیں ہوئے تھے، بلکہ جن وبشر اور چرند وپرند جیسی دوسری مخلوقات کو بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کی رحمت اور فضیلت کا دائرہ محیط ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ جانوروں کے لیے بھی رحمت بن کر نمودار ہوئی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے انسانوں کے ساتھ ہی نہیں ، جانوروں کے ساتھ بھی نرم روی اور رحم دلی کا رویہ اپنانے کی تلقین کی ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کیا چھوٹا او رکیا بڑا ، کیا بیگانہ او رکیا رشتہ دار ، کیا عربی او رکیا عجمی، کیا مسلم اور کیا غیر مسلم سبھی کے ساتھ رحمت اور نرمی کا برتاو کرنے کی اپنے اصحاب کو تعلیم دیا کرتے تھے کہ نرمی، خوش خلقی او رحسن سلوک سے پتھر دل بھی پسیج جاتے ہیں ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”اے اہل زمین! تم مخلوق خدا پر رحم کرو، خدا تم پر حم کرے گا۔“ حالی کی زبان میں اس مفہوم کو اس طرح ادا کیا گیا ہے #
        کرو مہربانی تم اہل زمین پر
        خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

اسلام اور اسلامی تعلیمات کسی خاص ملک یا کسی خاص قوم کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں، یہ تو پور ی انسانیت کی صلاح وفلاح کا عالمی مذہب بن کر آیا ہے ہمارے پیغمبر آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسلام کو ایک جامع نظام حیات کے طور پر متعارف کرایا، جس میں عبادت وعقائد سے لے کر معاملات اورانسانی معاشرت کے تمام اصول وآداب اور قوانین وضوابط بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کر دیے گئے ہیں۔ تعلیم ،معاش، سیاست، زراعت، تجارت، انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے وضاحت کے ساتھ روشنی نہ ڈالی ہو۔ میاں بیوی کے کیا حقوق ہیں، غیر مسلموں سے کس طرح پیش آنا چاہیے، اولاداور والدین کے درمیان رشتوں کی کیا نوعیت ہے، ایک مسلمان او رصاحب ایمان کو کن اوصاف کا حامل ہونا چاہیے، ایک جمہوری اور سیکولر ملک میں رعایا اور حکم ران کے درمیان حقوق وفرائض کی کیا حدود ہیں، غرض انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی زندگی کے تمام اسرار ورموز کو بڑے شرح وبسط کے ساتھ بیان کر دیا ہے ۔ لیکن کیا ہم نے کبھی اپنے باطن کو ٹٹول کر دیکھا کہ ہم نے ان اسلامی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کی کس حد تک کوشش کی؟ کیا ہم نے صدق دلی کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ کے اتباع او رحیات نبوی کی پیروی کی کوشش کی؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری اجتماعی او رانفرادی زندگی سے اسلامی روح اس طرح غائب ہو گئی او رہم اس طرح مغربیت کے طوفان کے شکار ہوتے جارہے ہیں کہ ہمیں دیکھ کر مسلمان تو بڑی بات ہے، یہود بھی شرماتے ہیں۔ علامہ اقبال نے ایسے ہی مسلمانوں کی مذہبی حالت کی صحیح ترجمانی اس طرح کی تھی #
        یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

آپ صلی الله علیہ وسلم اخلاق حسنہ اور حسن سلوک کا مجسمہ تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ لیکن ہم میں ایسے کتنے ہیں جن کے حسن اخلاق اور خوشی خلقی سے دوسرے متاثر ہوں اور ہماری عادت واطوار او رحرکت وعمل سے سبق لے کر اسلام کی آفاقیت کا نقش غیر مسلموں کے دلوں پر قائم ہو سکے؟ آج ہماری بد اخلاقی، بدسلوکی، اسلام فراموشی او رحیا سوز حرکتوں کی وجہ سے انسانیت اور آدمیت جیسے قیمتی اقدار دنیا سے فنا ہوتے جارہے ہیں۔ ہم انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ہم درادنہ معاملہ نہیں کرتے، بلکہ اس کے حسب نسب، قوم وعلاقہ اور اس کے سیاسی اور سماجی پس منظر کے اعتبار سے معاشرت ومعاملت کرتے ہیں۔ ذات پات کی تفریق، علاقائیت کی وبا، رنگ ونسل کا عفریت ہمارے اعصاب پر بری طرح سوار ہے ۔ کہیں فرقہ بندی ہے تو کہیں ذاتیں ہیں۔ ہمارے بیچ میں خود ساختہ امتیازات اور تفریق کی وہ دیوار حائل ہے کہ مخلوق خدا اس کی وجہ سے نفرت اور عصبیت کا شکار ہوتی جارہی ہے جب کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ تما م مخلوق خدا کا کنبہ ہے او رخدا کا سب سے زیادہ محبوب بندہ وہ ہے ، جو اس کے بندوں کے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آئے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم تو اہل ایمان سے حسن سلوک سے پیش آتے ہی تھے، غیر مسلموں اور جانی دشمنوں کے ساتھ بھی بڑی مروت سے پیش آتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم صلح وعفو اور در گزر کرنے کے عمل کو بہت پسند فرماتے تھے۔ حدیث نبوی ہے : ” جو تجھ سے قطع تعلق کرے، اس سے بھی ملتے رہو، جو تم پر ظلم کرے، اس کومعاف کردو، جو تمہارے ساتھ برا سلوک کرے اس کے ساتھ بھی بھلائی کرو۔“ صحابہ کرام نے ایک بار کفار مکہ کی ایذارسانی سے تنگ آکر دربارِ نبوت میں جب یہ عرض کیا کہ ان کے لیے بد دعا فرما دیں تو آپ نے بس اتنا فرمایا کہ بارالہ! ہماری قوم کو راہ راست دکھا دیجیے کہ یہ لوگ نادان ہیں، ہمیں جانتے اور پہچانتے نہیں۔ غزوہٴ احد، فتح مکہ اور صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے کفار ومشرکین کے ساتھ جو برتاؤ کیا اس نے پتھر دل پر بھی تیر کا سا اثر کیا۔ وہ کون سی اذیت اور مصیبت تھی جس سے آپ صلی الله علیہ وسلم کو نہ گزارا گیا ہو ، طائف تشریف لے گئے تو وہاں کے شرارت پیشہ لڑکوں نے پتھروں سے جسم اطہر کو لہولہان کر دیا، خدائی پیغام لے کر جہاں بھی گئے، آپ کا استقبال گالیوں، لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے کیا گیا، قسم قسم کے الزامات کا ٹھیکرا آپ کے سر پھوڑا گیا، مجنوں، پاگل، دیوانہ اورساحر کہا گیا، اپنے مقصد سے پھر بھی باز نہ آئے تو شعب ابی اطالب میں نظر بندی کا دشوار گزار مرحلہ عبور کرنا پڑا۔ مختصر یہ کہ مختلف طریقوں سے آپ پر عرصہٴ حیات تنگ کرنے کی کفار مکہ نے کوشش کی، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم ہر موقع پر صبر وتحمل کے پیکر بنے رہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسی صبر وسکون نے خدا معلوم کتنے کفار مکہ پر تیر کا سا اثر کیا اور انہوں نے اسلام او رایمان کی آغوش میں پناہ لی۔ جس طرح پھول کی پتی سے ہیرے کا جگرکٹ جاتا ہے، اسی طرح اخلاق کی نادیدہ تاثیر انسانی دلوں پر اثر انداز ہوتی ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ آج بھی ہمیں دعوت عمل دیتے ہیں، تاکہ اسلام کا آفاقی پیغام پتھردل انسانوں پر جادو کا اثر کرسکے۔ لیکن آج کا المیہ ہے کہ نہ ہمارے قلب میں سوز ہے، نہ روح میں کوئی احساس باقی ہے اور نہ ہی ہمیں پیغام محمد کا کوئی پاس ہے۔ آج ہمارے اندر سے اخلاق کا جنازہ نکل چکا ہے اور ہماری بداخلاقی اور بے مروتی کو دیکھ دیکھ کر غیروں کی زبان سے یہ طنزیہ جملہ نکلتا ہے #
        تھے تو وہ آباء تمہارے مگر تم کیا ہو؟

آج مشرق ومغرب او رپوری دنیا چیخ چیخ کر مساوات اور برابری کا نعرہ لگارہی ہے، حالاں کہ دنیا والوں نے خود ایسے غیر منصفانہ اصول اور ضابطے بنا رکھے ہیں، جس میں انسانیت ایک مرکزی نقطے پر جمع ہونے کے بجائے مزید دھڑوں اور گروہوں میں منقسم ہوتی جارہی ہے ۔ یہاں تو ہر جگہ اورہر شعبہ میں شہ زوروں کا دخل ہے، اس انسانی دنیا میں کم زورں کا کوئی فریاد رس نہیں اورکون ہے جو سماج کے پسماندہ اور دبے کچلے طبقے کی خیر خبر لے؟ جب کہ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم کے اسوہٴ حسنہ پر غور کیا جائے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر مساوات او رانسانی برابری کا درس دیا ہے ۔ عدل وانصاف ہی آپ کا نعرہ تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ سارے انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ تم آپس میں نہ بغض وعناد کا مظاہرہ کرو، نہ پشت پھیرو، بلکہ برادرانہ تعلقات کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہو کر عالم انسانیت کو برابری او رمساوات کا جو منشور دیا تھا، وہ آج بھی ہمیں غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جابرانہ نظام کے ایک ایک ستون کو اپنے پیروں تلے روند دیا تھا اور مسلمانوں کی ایک بڑی جمعیت کے سامنے علی الاعلان یہ کہا تھا کہ نہ کسی عربی کو غیر عربی پر فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہے ۔ بیسویں صدی میں دنیا کے نقشے پر نمود ار ہونے والی عالمی تنظیم اقوام متحدہ نے برابری اور عدل ومساوات کے جو اصول قائم کیے، اس کاواضح اعلان آپ صلی الله علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل ہی کر دیا تھا۔

آج پھر دنیا انہی حالات سے گزر رہی ہے ، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت عالم انسانیت پر چھائے ہوئے تھے۔ ہم اپنے گردوپیش کا جائزہ لیں، ہمیں اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ چوری، لوٹ مار، قتل وغارت گری، فحاشی وعریانیت، ہوس رانی، زنا کاری اور علانیہ بد کاری کا وہ کون سا مرض ہے جو آج کے انسانوں کی رگوں میں خون بن کر نہیں گردش کر رہا؟ عورت ، شراب، قمار، شہوت پرستی، سود خوری کی ہر طرف حکم رانی نظر آتی ہے۔ انسانوں نے ایک خدا کو چھوڑ کئی خدا تراش لیے ہیں ۔ پورے انسانی معاشرے پر مردنی کی کیفیت چھائی ہوئی ہے ۔ ہر جگہ تاریکیوں نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، کہیں روشنی کا نام ونشان نظر نہیں آتا۔ انسان اپنے ظاہری جسمانی ڈھانچے کے ساتھ ضرور موجود اور زندہ ہے، مگر حقیقت میں اس کے اندر کا انسان مرچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معمولی باتوں کے لیے اپنے دوسرے بھائی کی جان اورمال کادشمن بنا ہوا ہے ۔ اس کے اندر سے اچھائی او ربرائی کی تمیزرخصت ہوچکی ہے ۔ انسانی حقوق کی پامالی اب چند لمحوں کا کھیل بن کر رہ گئی ہے ۔ جس طرح ولادت نبوی سے پہلے قیصر وکسری کی جابرانہ اور ظالمانہ حکومت ظلم وستم کا فرمان جاری کرتی تھی، اسی طرح آج بھی چند بڑی طاقتیں اپنی جھوٹی شان وشوکت اور اسلحہ وطاقت پر اترا رہی ہیں اور وہ علی الاعلان چھوٹے اور کم زورممالک کو موت کا فرمان جاری کرتی ہیں اور اگر کوئی سرموبھی ان عالمی طاقتوں کے فرمان سے انحراف کر ے تو اس کے خلاف اپنے حواریوں کے تعاون سے وہ سازش کی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ ۔ امریکا کے ہاتھوں پہلے افغانستان اور پھر عراق کی تباہی اس کی گواہ ہے۔ لاقانونیت اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون آج اتنا زو رپکڑتا جارہا ہے کہ سارے کم زور ممالک اور وہاں کے باشندے خوف کی چادر میں لپٹے نظر آتے ہیں۔

انسانیت اجتماعی طور پر دکھی اور زخمی ہے، اس کے دکھوں اور زخموں کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں ، وہ بے چین او ربے کل ہے، اس کو کوئی جائے سکون وقرار نہیں مل رہا ہے ۔ اگر کوئی سکون او رعافیت کی جاہے، تو وہ پیارے آقا تاج دار مدینہ محمد صلی الله علیہ وسلم کا اسوہٴ حسنہ ہے کہ وہیں تمام امراض کی دوا موجود ہے ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے قرآن وحدیث پر مبنی جو نظام خداوندی چھوڑا تھا، آج پھر ضرورت ہے کہ ہم اس کی طرف جست لگائیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اسی نظام کو اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں برپا کرنے کی کوشش کریں ،جس نے آج سے چودہ سو سال قبل بھٹکے ہوئے انسانی قافلے کی انگلی پکڑ کر اس کو صحیح راہ دکھائی تھی۔ ہم مسلمانوں کوخاص طور سے اپنے قول وعمل کے ذریعے اسلام کا مکمل نمونہ بنا کر اپنے کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ہم اپنی قولی اور عملی زندگی کی دوبارہ تجدید کریں، مال ودولت کی بے جاہوس چھوڑ دیں، بلاوجہ جاہ ومنصب کے پیچھے نہ بھاگیں، رشوت ستانی اور سود خوری کی لعنت سے باز آجائیں، انسانوں کے ساتھ بد خوئی اور بد معاملگی سے پیش آنا چھوڑدیں، عورتوں، بچوں او رکمزوروں پر ظلم نہ کریں، اپنے ملک وقوم کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیں۔ قومی یکجہتی، بقائے باہم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے اصولوں پر عمل کرکے دکھائیں۔ یہی اعمال آپ صلی الله علیہ وسلم سے سچی محبت اور بے ریا دوستی کا عین تقاضا ہے۔ ہماری حرکت وعمل سے ہی اسلام کا آفاقی پیغام غیروں کے قلب ونظر پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔






رسول اللہ ﷺ کے موئے مبارک


(آج کل بعض اشخاص کا کہنا ہے، کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بطورِ تبرک جو موئے مبارک ان کے پاس ہیں، وہ بڑھتے اور زیادہ ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں زیر نظر مضمون تحریر کیاگیاہے)

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر یوم النحر میں منیٰ میں تشریف لاکر جمرئہ عقبہ کی رمی کے بعد اونٹوں کی قربانی کی، اس کے بعد مشہور اور صحیح قول کے مطابق معمربن عبداللہ العدوی رضی اللہ عنہ سے اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا، پھر موئے مبارک تقسیم فرمائے، ”صحیح مسلم“ وغیرہ میں ہے:

عن ابن مالک؛ أن رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أَتٰی مِنٰی . فأتٰی الجمرةَ فرماہا ثم أتٰی منزلَہ بِمنٰی ونَحَرَ. ثم قال للحلّاق: خذ وأشارَ الی جانِبہ الأیمنِ. ثم الأیسرِ. ثم جَعَلَ یُعطِیْہِ الناسَ. (صحیح مسلم بشرح النووي، ص:۴۵، ج:۹ کتاب الحج، باب بیان أن السنة یوم النحر أن یرمي الخ)

”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے منیٰ آمد کے بعد جمرہ کے پاس تشریف لاکر، اس کی رمی کی، پھر منیٰ میں اپنی اقامت گاہ تشریف لائے اور قربانی کی۔ پھر حلاق سے فرمایا: لو، اور اپنے سرمبارک کی دائیں جانب اشارہ فرمایا۔ پھر (اسی طرح) بائیں جانب۔ پھر وہ موئے مبارک (حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے) لوگوں کو دینے لگے۔“

عن انس بن مالک؛ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رمٰی جمرةَ العقبةِ. ثم انصرفَ الٰی البُدن فَنَحَرَہا والحجامُ جالسٌ، وقال بیدہ عن رأسِہ، فحَلَقَ شِقَّہ الأیمنَ. فقَسَّمہ فِیْمَنْ یَلیہِ. ثم قال: أحلِقْ الشِّقَّ الاٰخَرَ. فقال: أینَ أبوطلحةَ؟ فأعطاہُ ایَّاہُ. (صحیح مسلم بشرح النووي، ص:۴۶، ج:۹ کتاب الحج، باب بیان أن السنة یوم النحر أن یرمي الخ)

”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جمرئہ عقبہ کی رمی کی، پھر اونٹوں کی طرف تشریف لے گئے اور ان کا نحرکیا، حجام صحابی بیٹھے ہوئے تھے، آپ نے اپنے دستِ مبارک سے سر (کی دائیں جانب حلق) کے لیے اشارہ فرمایا، تو انھوں نے آپ کے سرِمبارک کی دائیں جانب حلق کیا، آپ نے ان بالوں کو اپنے قریب لوگوں میں (حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے) تقسیم فرمایا، پھر حجام صحابی سے فرمایا: دوسری جانب حلق کرو۔ (انھوں نے بائیں جانب حلق کیا) پھر آپ نے دریافت فرمایا: ابوطلحہ کہاں ہیں؟ (حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے) پس آپ نے وہ موئے مبارک ان کو دئیے۔“

صحیح بخاری میں ہے:

عن انسٍ رضى الله عنه؛ أن رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لما حَلَقَ رأسَہ کان ابوطلحةَ اوّلُ من اَخَذَ من شعرِہ. (صحیح بخاری، ص:۲۹، ج:۱ کتاب الوضوء، باب الماء الذي یغسل بہ شعر الانسان)

”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جب اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا، تو حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے موئے مبارک لینے والوں میں اوّل تھے۔“

اس امر میں روایات مختلف ہیں کہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے سرِمبارک کی دائیں جانب کے موئے مبارک دئیے تھے یا بائیں جانب کے؟ شیخ ابن القیم رحمة اللہ علیہ نے ”زاد المعاد“ (ص:۲۵۳،۲۵۴ دارالکتب العلمیہ۔ سن طباعت: ۲۰۰۷ء) میں اس پر قدرے تفصیل کے ساتھ کلام کیاہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی اور علامہ عینی رحمہما اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ، کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے دونوں جانبوں کے بال حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو دئیے تھے، پھر دائیں جانب کے بال حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے حکم سے لوگوں میں تقسیم کردئیے تھے اور بائیں جانب کے بال آپ ہی کے حکم سے اپنی اہلیہ حضرت ام سُلیم رضی اللہ عنہا کو دے دئیے تھے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ”الاصابة“ میں ”حضرت جُعشم الخیر رضی اللہ عنہ“ کے تعارف میں فرماتے ہیں:

وجُعشم الخیر (رضی اللّٰہ عنہ) بایع تحت الشجرة، وکساہ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قمیصَہ ونعلَیہِ، وأعطاہُ مِن شعرہ (صلی اللّٰہ علیہ وسلم). (الاصابة في تمییز الصحابة، ص:۲۳۶، ج:۱)

”حضرت جُعشم الخیر رضی اللہ عنہ نے (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے (رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دست مبارک پر) بیعت کی، اور نبی صلى الله عليه وسلم نے ان کو اپنا کرتا مبارک، نعلینِ مبارک اور اپنے کچھ موئے مبارک عنایت فرمائے تھے۔“

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا موئے مبارک تقسیم فرمانے کا راز

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنے موئے مبارک حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم میں کیوں تقسیم فرمائے تھے؟اس سلسلہ میں علامہ زرقانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وَاِنّما قسَّم شعرَہ في اصحابہ لِیکونَ برکةً باقیةً بینَہم وتذکرةً لہم، وکأنَّہ أشارَ بذلک الٰی اقترابِ الأجل. (شرح العلامة الزرقاني علی المواہب اللدنیة، ص:۱۹۶، ج:۸، دارالمعرفة، بیروت)

”رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنے موئے مبارک اپنے اصحاب میں اس لیے تقسیم فرمائے، تاکہ وہ ان میں بطور برکت اور یادگار رہیں اور اسی سے گویا آپ صلى الله عليه وسلم نے قربِ وصال کی طرف اشارہ فرمادیا۔“

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں:

حضور صلى الله عليه وسلم کا اپنا بالِ مبارک تقسیم کرنا، اپنی تعظیم وعبادت کے لیے نہ تھا؛ بلکہ صحابہ كرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کی محبت پر نظر کرتے ہوئے ان کے نزاع وقتال کے رفع دفع کرنے کے لیے تھا، اگر آپ صلى الله عليه وسلم اپنے بالوں کو دفن کراتے، تو یقینا صحابہ رضوان الله تعالى عليهم اجمعين زمین سے ان کو نکالنے کی کوشش کرتے،اور عجب نہیں کہ قتال کی نوبت آجاتی۔ (ملفوظات حکیم الامت، ص:۱۷۱، ج:۲۳، ملفوظ:۵۰۱)

موئے مبارک کے ساتھ صحابہٴ کرام رضوان الله تعالى عليهم اجمعين کا معاملہ

حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کو حجة الوداع یا کسی عمرہ میں حلق کے موقع پر یا عام حالات میں بال تراشنے کے موقع پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک حاصل ہوئے، تو انھوں نے ان کو بحفاظت رکھا، اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے۔

حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے عمرہ کے موقع پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے حاصل ہونے والے موئے مبارک اپنی ٹوپی میں سی کر رکھ دئیے تھے، ان کی برکت سے جنگ میں کامیابی ان کے قدم چومتی تھی، علامہ عینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

قد ذَکَرَ غیرُ واحدٍ أن خالدَ بنَ الولیدِ رضی اللّٰہ عنہ کانَ في قلنسوتہ شعراتٌ من شعرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلذلک کان لا یقدم علٰی وجہ الّا فتح لہ. (عمدة القاري، ص:۶۳، ج:۱۰)

”کئی حضرات نے ذکر کیا ہے کہ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے، اسی وجہ سے حضرت خالد رضی اللہ عنہ جس جانب پیش قدمی فرماتے تھے، اُنھیں کامیابی حاصل ہوتی تھی۔“

”مجمع الزوائد“ میں ہے:

عن جعفر بن عبد اللّٰہ بن الحکم؛ أن خالدَ بنَ الولیدِ فَقَدَ قلنسوةً لہ یومَ الیرموکِ. فقال: اُطْلُبوہا، فلم یَجِدُوہا. فقال: اُطْلُبوہا، فوَجَدُوہا، فاذا ہي قلنسوةٌ خَلِقَةً، فقال خالد: اعتمر رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فحَلَقَ رأسَہ، فابتدَرَ الناسُ جوانبَ شعرہ، فسبقتُم الٰی ناصِیَتہ، فجعلتُہا في ہذہ القلنسوةِ، فلم أشْہَدْ قتالا وہي معي الاّ رُزقتُ النصرةَ.

قال الحافظ الہیثميُّ: رواہ الطبراني وأبو یعلٰی بنحوہ، ورجالُہما رجالُ الصحیح، وجعفر سَمِعَ من جماعةٍ من الصحابةِ، فلا أدري سمع من خالدٍ أم لا. (مجمع الزوائد، ص:۴۳۰، ۴۳۱، ج:۹، حدیث: ۱۵۸۸۲)

”جعفر بن عبداللہ بن الحکم سے مروی ہے، کہ حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی جنگِ یرموک کے موقع پر گم ہوگئی، اُنھوں نے لوگوں سے فرمایا: اسے تلاش کرو! لوگوں نے تلاش کرنے پرنہیں پائی۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے دوبارہ تلاش کرنے کا حکم فرمایا، اب کی بار لوگوں نے پالی، لوگوں نے دیکھا کہ وہ ایک بوسیدہ ٹوپی ہے۔ (اس کے باوجود جس اہتمام سے اسے تلاش کیا، کروایا، اس پر لوگوں کو تعجب ہوا، تو ان کے تعجب وحیرت کو ختم کرنے کے لیے) حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے عمرہ ادا فرمایا، اس کے بعد اپنے سرِمبارک کا حلق کرایا، تو لوگ آپ کے سرمبارک کی مختلف جانبوں کے موئے مبارک کی طرف سبقت کی غرض سے بڑھے، پس میں نے آپ کے سرمبارک کے سامنے کی جانب کے بالوں کے لیے ان سب سے سبقت حاصل کرلی۔ پھر میں نے وہ موئے مبارک اس ٹوپی میں رکھ دیے، اس ٹوپی کے ساتھ جس جنگ میں شریک ہوا، اس میں مجھے کامیابی ہی ملی۔“

قاضی عیاض رحمة اللہ علیہ، الشفاء میں فرماتے ہیں:

کانتْ في قلنسوةِ خالد بنِ الولیدِ شعراتٌ من شعرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فسقطَتْ قلنسوتُہ فی بعض حروبہ، فشدَّ علیہا شدةً انکر علیہ أصحابُ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لکثرةٍ من قتلٍ فیہا، فقال: لم اَفْعَلْہا بسببِ القلنسوة بل لما تضمنتہ من شعرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، لئلا اسلب (وفی نسخة: تسلب) برکتَہا وتقع في أیدی المشرکین. (الشفاء مع شرحہ نسیم الریاض، ص:۴۳۴، ج:۳)

”حضرت خالد بن الولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک میں سے کچھ موئے مبارک تھے۔ ایک جنگ میںآ پ کی ٹوپی گرگئی، تو اس کے لیے انھوں نے سخت حملہ کیا، (جو) نبی صلى الله عليه وسلم کے اصحاب (کو غیرمعمولی معلوم ہوا، اس لیے انھوں) نے ان پر نکیر کی؛ کیوں کہ اس حملہ میں بہت آدمی قتل ہوئے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کہ میں نے یہ حملہ ٹوپی کی وجہ سے نہیں کیا؛ بلکہ اس میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک تھے، ان کی وجہ سے کیاتھا، کہ مبادا کہیں میں ان کی برکت سے محروم نہ ہوجاؤں اور یہ مبارک بال مشرکین کے ہاتھ میں پہنچ جائیں۔“

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق منقول ہے، کہ آپ نے مرضِ وفات میں اپنے بیٹے یزید کو بلایا اور فرمایا:

یا بنیّ؛ انی صَحِبْتُ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فخَرَجَ لحاجةٍ، فاتَّبعتُہ باداوة، فکساني أحدَ ثوبیہ الذی کان علی جلدہ، فخبأتہ لہذا الیوم، وأخذَ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من اظفارہ وشعرہ ذاتَ یوم فأخذتُہ وخبأتہ لہذا الیومِ، فاذا أنامتُّ فاجعل ذلک القمیصَ دونَ کفنی ممّا یلی جلدی، وحُذْ ذلک الشعرَ والأظفارَ فاجعلَہُ في فمي وعلٰی عیني ومواضع السجود مني. (الاستیعاب، ص:۴۷۳، ج:۳)

”اے بیٹے! میں ایک مرتبہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ہم راہ تھا، آپ حاجت کے لیے نکلے، میں چھاگل لے کر آپ کے پیچھے گیا، (اور وضو کرایا) تو آپ نے زیب تن کیے ہوئے دو کپڑوں میں سے ایک کپڑا مجھے عنایت فرمایا، وہ میں نے اس دن کے لیے چھپا رکھا تھا۔ (اسی طرح) رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایک دن اپنے ناخن اور بال مبارک کاٹے، تو میں نے انھیں لے لیا تھا اور اس دن کے لیے حفاظت سے رکھ لیا تھا، تو تم اس قمیص کو میرے کفن کے نیچے میرے بدن سے متصل رکھ دینا۔ اور وہ بال اور ناخنِ مبارک لے کر میرے منھ میں اور میری آنکھوں اور سجدہ کی جگہوں پر رکھ دینا۔“
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی جانب سے موئے مبارک حاصل ہوئے تھے، انھوں نے بھی ان کو بحفاظت رکھا تھا، چناں چہ ”مسند احمد“ میں ہے:

عن محمدِ بنِ عبد اللّٰہ بن زیدٍ أن اباہُ حدثہ أنہ شہد النبيَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عندَ المنحر ہو ورجل من قریشٍ وہو یقسم الأضاحي، فلم یصبہ شیءٌ ولا صاحِبَہ، فحَلَقَ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رأسَہ في ثوبہ فأعطاہ فقسّم منہ علٰی رجالٍ، وقَلَمَ اظفارَہ فأعطاہ صاحِبَہ. قال: فانَّہ عندنا مخضوبٌ بالحناء، والکتمِ یعني شعرَہ. (مسند أحمد، ص:۴۲، ج:۴)

”محمد بن عبد اللہ بن زید سے مروی ہے کہ ان کے والد عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا، کہ وہ اور ایک قریشی آدمی منحرکے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب موجود تھے، دراں حالیکہ آپ قربانی کے جانور تقسیم فرمارہے تھے، ان کو اور ان کے ساتھی کو کوئی جانور نہیں ملا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سرِمبارک کا حلق اس طرح کرایا، کہ موئے مبارک آپ کے کپڑے میں گریں، آپ نے انھیں موئے مبارک عنایت فرمائے اور کچھ موئے مبارک دوسرے لوگوں میں تقسیم فرمائے۔ آپ نے اپنے ناخن مبارک تراشے، وہ ان کے ساتھی کو دیے۔ راوی فرماتے ہیں: وہ یعنی موئے مبارک ہمارے پاس ہیں، جو حناء اور ایک خاص قسم کے پودے کے رنگ سے رنگین ہیں۔“

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک محفوظ تھے، کسی کو نظر بدلگتی، یاکوئی بیمار ہوتا، تو پانی بھیجتے، موئے مبارک اس میں ڈال دئیے جاتے، لوگ وہ پانی استعمال کرتے،تو ان کی برکت سے شفاء مل جاتی؛ چنانچہ ”صحیح بخاری“ میں ہے:

حدَّثَنا مالکُ بنُ اسماعیلَ قال: حدثَّنا اسرائیلُ، عن عثمانَ بنِ عبد اللّٰہ بن موہب قال: ارسلَني أہلي الی أم سلمةَ بقدحٍ من ماء - وقَبَضَ اسرائیلُ ثلاثَ أصابعَ - من قصة (او فضة)، فیہ (او فیہا) شعرٌ من شعرِ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکان اذا أصاب الانسانَ عینٌ أو شیءٌ بَعَثَ الیہا مخضبہ، فأطلعتُ في الجلجل، فرأیتُ شعراتٍ حُمْرًا. (صحیح بخاری، ص:۸۷۵، ج:۲ کتاب اللباس، باب ما یذکر في الشیب).

ترجمہ: (۱) ”امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، کہ ہم سے مالک بن اسماعیل نے، ان سے اسرائیل نے روایت بیان کی، وہ عثمان بن عبداللہ بن موہب سے نقل کرتے ہیں، کہ میرے گھروالوں نے مجھے پانی کا پیالہ دے کر ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا (اور اسرائیل نے تین انگلیاں سکیڑیں) بالوں کے گچھے کی وجہ سے چاندی کے اس پیالہ کی وجہ سے، جس میں نبی صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک تھے ۔

جب کسی انسان کو نظرِ بدلگتی، یا کوئی اور عارض وبیماری پیش آتی، تو ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس اپنے ٹب کو بھیجتا، عثمان بن عبداللہ فرماتے ہیں: میں نے ڈبیہ میں جھانکا، تو میں نے سرخ موئے مبارک دیکھے۔“

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم سے بعد والوں کو حاصل ہوئے۔ چناں چہ ”صحیح بخاری“ میں ہے:

عَنِ ابنِ سیرینَ قال: قلت لعَبِیدةَ: عندنا من شعرِ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم اَصبناہ مِن قبلِ انس او من قبل أہل انس. فقال: لأن تکون عندی شعرة منہ أحب اليّ مِنَ الدنیا وما فیہا. (صحیح بخاري، ص:۲۹، ج:۱، کتاب الوضوء، باب الماء الذي یغسل بہ شعرُ الانسان)

”حضرت محمد ابن سیرین رحمة اللہ علیہ سے مروی ہے، کہ میں نے عبیدہ (سلمانی) سے کہا: ہمارے پاس بنی صلى الله عليه وسلم کے چند موئے مبارک ہیں، جو ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، یا کہاکہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ کے خاندان کی جانب سے حاصل ہوئے ہیں۔ عبیدہ سلمانی نے کہا: میرے پاس آپ صلى الله عليه وسلم کا ایک موئے مبارک ہونا مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ پسند ہوتا۔“

حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے ”خلق قرآن“ کے مسئلہ میں حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ کی آزمائش کا ذکر کرتے ہوئے نقل فرمایا ہے، کہ معتصم کی خلقِ قرآن کی بات نہ ماننے پر اس نے کہا:

خُذُوہُ واخلعوہ واسحبوہ . قال أحمد: فأخذتُ وسحبتُ وخلعتُ وجیء بالعقابین والسیاط وأنا انظر، وکان معي من شعراتِ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم مصرورة في ثوبي، فجردوني منہ وصرت بین العقابین. (البدایة والنہایة ص:۳۶۸، ج:۱۰)

”ان کو پکڑو اور کھینچو اور ان کے ہاتھ اکھیڑدو، امام احمد رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ مجھے پکڑکر کھینچا گیا اور میرے ہاتھ اکھیڑے گئے۔ اور میری نظروں کے سامنے تازیانے لگانے کے لیے دو لکڑیاں اور کوڑے لائے گئے۔ میرے ساتھ نبیٴ اکرم صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک میں سے چند موئے مبارک تھے، جو میرے کپڑے میں بندھے (رکھے) ہوئے تھے، انھوں نے وہ کپڑا میرے بدن سے اتارلیا اور میں دو لکڑیوں کے درمیان (معلق)ہوگیا۔“

حافظ شمس الدین ذہبی رحمة اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں:

قال: وقد کانَ صار اليّ شعرٌ من شعرِ النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في کُمّ قمیصي، فوجَّہ اليّ اسحاقُ بنُ ابراہیمَ، یقول: ما ہذا المصرور؟ قلت شعرٌ من شعر رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وسعی بعضہم لیخرق القمیص عنّي، فقال المعتصم لاتخرقوہ، فنزع، فظننت أنہ انما دُرِیٴَ عن القمیصِ الخرقُ بالشعر. (سیر أعلام النبلاء، ص:۴۸۱، ج:۹)

”امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ نبی صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک میں سے چند موئے مبارک مجھے حاصل ہوئے تھے، جو میرے کُرتے کی آستین میں تھے، اسحاق بن ابراہیم میرے پاس آکر کہنے لگا: یہ بندھی (رکھی) ہوئی چیز کیا ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے چند موئے مبارک ہیں، خلیفہ کے آدمیوں میں سے ایک میرا کُرتا پھاڑنے کے لیے لپکا، تو معتصم نے کہا: اس کو مت پھاڑو، پس کرتا اتارلیاگیا، میرے گمان میں موئے مبارک کی برکت کی وجہ سے کرتا پھاڑے جانے سے محفوظ رہا۔“

موجودہ زمانے میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک کا وجود

مذکورہ بالا روایات وعباراتِ کتب سے معلوم ہوا، کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اپنے موئے مبارک تقسیم فرمائے تھے، حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے انھیں بحفاظت رکھا اور ان سے برکت حاصل کرتے رہے، پھر انھیں سے وہ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوئے، ممکن ہے کہ اسی طرح قرناً بعد قرنٍ اورنسلاً بعد نسلٍ موئے مبارک بعد والوں میں منتقل ہوتے ہوئے آج کے زمانے میں کسی کے پاس پہنچے ہوں، اور وہ اس کے پاس موجود ہوں۔

ترکی میں استنبول کے مشہور عجائب گھر توپ کاپے سرایے میں موجودتبرکات بشمول موئے مبارک کے متعلق شیخ الاسلام حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم اپنے مشہور سفرنامہ ”جہانِ دیدہ“ میں تحریر فرماتے ہیں:

”یوں تو دنیا کے مختلف حصوں میں آں حضرت صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب تبرکات پائے جاتے ہیں، لیکن مشہور یہ ہے، کہ استنبول میں محفوظ یہ تبرکات زیادہ مستند ہیں، ان میں سرورِ دوعالم صلى الله عليه وسلم کا جبہٴ مبارک، آپ کی دوتلواریں، آپ کا وہ جھنڈا جس کے بارے میں مشہور یہ ہے، کہ وہ غزوئہ بدر میں استعمال کیاگیا تھا، موئے مبارک، دندانِ مبارک، مقوقش شاہِ مصر کے نام آپ کا مکتوبِ گرامی اور آپ کی مہرِ مبارک شامل ہیں۔“ (جہانِ دیدہ، ص:۳۳۸)

حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمة اللہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

”طوب قابی (توپ کاپے) کے میوزیم میں کئی ہال ہیں، ایک ہال میں حضور صلى الله عليه وسلم کی دو تلواریں چاندی کے ایک صندوق میں رکھی ہوئی ہیں، یہیں سونے کے دو صندوق ہیں، ایک میں حضور صلى الله عليه وسلم کا موئے مبارک اور مہر ہے، جو عقیق کو تراش کر بنائی گئی ہے، مہر گلابی رنگ کے عقیق کی ہے اور بیضوی شکل کی ہے....“ (مقالاتِ حکیم الاسلام، ص:۳۸۷)

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ:

حجة الوداع میں حضور صلى الله عليه وسلم نے اپنے سر کے موئے مبارک اتار کر تقسیم فرمائے ہیں، ظاہر ہے، کہ بال سرپر ہزاروں ہوتے ہیں، وہ کتنوں کے پاس پہنچے ہوں گے،اور اس میں ایک ایک بال کے کتنے حصے کرکے ایک ایک نے آپس میں تقسیم کیے ہوں گے، اور کتنے حفاظت سے رکھے ہوں گے، اس لیے اگر کسی جگہ موئے مبارک کا پتہ چلے، تواس کی جلدی تکذیب نہ کرنا چاہیے۔ (ملفوظات حکیم الامت، ص:۱۳۹، ۱۴۰، ج:۱۱)

”فتاویٰ رحیمیہ“ میں ہے:

سوال: یہ مشہور ہے، کہ اکثر بڑے شہروں میں اور دیہات میں حضور پُرنور صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک ہیں، کیا یہ درست ہے؟اور کیا اس کی تعظیم کی جائے؟

الجواب: حدیث شریف سے ثابت ہے، کہ نبیٴ کریم علیہ الصلاة والسلام نے اپنے موئے مبارک صحابہٴ کرام کو تقسیم فرمائے تھے۔ ”فتاویٰ ابن تیمیہ“ میں ہے: فان النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حَلَقَ رأسَہ، واعطیٰ نصفَہ لأبی طلحةَ ونصفَہ قَسَّمَہ بینَ الناسِ. (ص:۴۳، ج:۱) تو اگر کسی کے پاس ہو، تو تعجب کی بات نہیں۔ اگر اس کی صحیح اور قابل اعتماد سند ہو، تو اس کی تعظیم کی جائے، اگر سند نہ ہو اور مصنوعی ہونے کا بھی یقین نہیں، تو خاموشی اختیار کی جائے، نہ اس کی تصدیق کرے اور نہ جھٹلائے، نہ تعظیم کرے اورنہ اہانت کرے۔ فقط (فتاویٰ رحیمیہ، ص:۲۷۷، ج:۲، مکتبہ رحیمیہ ،انڈیا)

موئے مبارک کی زیارت

موئے مبارک اگر اصلی ہوں، تو دیگر تبرکاتِ نبویہ علی صاحبہا الف الف صلاة وتحیة کی طرح اس کی زیارت باعثِ خیر وبرکت ہے؛ لیکن شرط یہ ہے، کہ اس میں افراط وتفریط نہ ہو، کوئی اعتقادی یا عملی خرابی نہ ہو، رسومِ بدعت اور بے پردگی نہ ہو، زیارت میں کوئی تاریخ ودن معین اور ضروری نہ سمجھا جائے۔

موئے مبارک کا بڑھنا

آج کل بعض اشخاص کا کہنا ہے، کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک جن حضرات کے پاس ہیں، ان سے تصدیق حاصل کی ہوئی ہے، کہ موئے مبارک سے دوسرے موئے مبارک پیدا ہوتے ہیں، مثلاً ایک تھا، تو دو تین ہوگئے، کسی کے پاس تو ایک ہی تھا، مگر ایک میں سے پیدا ہوتے ہوتے ایک سو بیس تک پہنچ گئے، اس نے کئی آدمیوں کو دیے۔

مذکورہ بعض اشخاص کی رائے کے تجزیے کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے، کہ اوّلاً سائنٹفک طریقے سے کٹا، یا اکھڑا ہوا بال بڑھ سکتا ہے یا نہیں، ان کو زیر بحث لایا جائے۔

سائنس کہتی ہے، کہ بال اگنے کا عمل غدود (FOLLICLE) میں ہوتا ہے، اور یہ غدود ہماری چمڑی میں ہوتا ہے۔ پھر بال مردہ قراتین خلیے (CELLS KERATIN, PROTEIN)سے بنتا ہے، اوراس کے بڑھنے کے لیے غدود میں خون کا سیلان وجریان ضروری ہے۔

اس اعتبار سے ظاہر ہے، کہ جب بال کٹا یا اکھڑا ہوا ہو، تو وہ از خود بڑھ ہی نہیں سکتا؛ کیوں کہ اس کے بڑھنے کے لیے بنیادی چیزیں چمڑی اور غدود ہی ندارد ہے۔

اس سے معلوم ہوا، کہ جن لوگوں کے پاس واقعتا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک ہیں، ان کا سائنٹفک طریقے سے بڑھنا توناممکن ہے۔

جہاں تک معاملہ ہے خرقِ عادت کے طور پر بڑھنے کا، جسے یا تو معجزہ کا نام دیا جائے یا کرامت کا؛ چناں چہ علامہ شہاب خفاجی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے، کہ خرقِ عادت سے مقصود محض تشریف وتکریم ہو، تو وہ کرامت ہے، خواہ نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو یا ولی کے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ کی عبارت سے یہی مفہوم ہوتا ہے۔ (نسیم الریاض شرح الشفاء للقاضی عیاض: ۴۴۰، ج:۲، الباب الرابع) تو اس کے لیے بنیادی بات یہ معلوم کرنی ہے، کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد خوارق کا ظہور ہوسکتا ہے یا نہیں؟

بعد از وفات خوارق کے ظہور کے سلسلے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ نے ”کراماتِ امدادیہ“ میں تحریر فرمایا ہے:

”جاننا چاہیے، کہ بعض اولیاء اللہ سے بعد انتقال کے بھی تصرفات وخوارق سرزد ہوتے ہیں اور یہ امر معناً حدِّ تواتر تک پہنچ گیا ہے۔“ (ملفوظات حکیم الامت، ص:۱۰۴، ج:۲۹ بحوالہ کرامات امدادیہ)

جب ولی سے انتقال کے بعد خوارق کا صدور ہوسکتا ہے، تو اس سے معلوم ہوتا ہے، کہ نبی سے بطریقِ اولیٰ صدور ہوسکتا ہے؛ چناں چہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ نے ”دربارِ نبوت کی حاضری کا ایک عجیب واقعہ“ (نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا معجزہ بعد الوفات) کے زیر عنوان ”فیض الجود“ کے حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے:

”سرورِ عالم صلى الله عليه وسلم کے معجزاتِ باہرہ کے سامنے یہ کوئی بڑی چیز نہیں؛ لیکن اس سے یہ امر اور ثابت ہوا، کہ رسالت مآب صلى الله عليه وسلم جس طرح روضہٴ اقدس میں زندہ تشریف فرما ہیں، اسی طرح آپ کے معجزات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس قسم کے واقعات ایک دو نہیں، سیکڑوں کی تعداد میں امت کے ہر طبقے کو پیش آتے رہتے ہیں۔“ (کشکول، ص:۱۴۹)

اس سے معلوم ہوا، کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی خوارق کا ظہور ہوسکتا ہے، لہٰذا آپ صلى الله عليه وسلم کے موئے مبارک کے بڑھنے کا معجزہ یا کرامت مستبعد نہیں؛ بلکہ آپ کے خوارقِ عظیمہ شہیرہ کے سامنے یہ تو ادنیٰ بات ہے؛ مگر آج تک بندہ کی نظر سے کسی معتبر کتاب میں موئے مبارک بڑھنے کا یہ معجزہ یاکرامت نہیں گزری،اور نہ ہی کسی معتبر وثقہ آدمی سے سنی۔

آج جو بعض لوگ کہہ رہے ہیں، کہ ایک موئے مبارک سے دوسرے موئے مبارک پیدا ہورہے ہیں، تو تعجب وحیرت اس بات پر ہے، کہ اس خارقِ عادت امر کا ایسا معنی خیز اخفاء کیوں ہے؟ اوراس کواس طرح صیغہٴ راز میں کیوں رکھا جارہا ہے؟ ایسا کیوں نہیں کیا جاتا، کہ صاحبِ بصیرت وبصارت، معتبر وثقہ اور عادل اشخاص کو موئے مبارک بڑھنے کے اس عمل کا مشاہدہ کرایا جائے؛ تاکہ وہ اس کا حتمی فیصلہ کرسکیں، کہ یہ کسی خداع وتزویر، حیلہ وتدبیر، مسمریزم وقوتِ متخیلہ میں تصرف اور شعبدہ بازی ونظربندی کی کرشمہ سازی ہے، یا صرف اور صرف کائن من الغیب ہے۔



سیرتِ طیبہ کااجمالی خاکہ

 


 

یَا صَاحِبَ الجَمَالِ وَ یَا سَیِّدَ البَشَرْ مِنْ وَجْھِکَ الْمُنِیْرِ لَقَدْ نُوِّرَ الْقَمَرْ

لَا یُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حَقَّہ                 بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اے صاحب جمال کل اے سرورِ بشر                   رُوئے منیر سے ترے روشن ہوا قمر

ممکن نہیں کہ تیری ثنا کا ہو حق اَدا                      بعد از خدا بزرگ توہے قصہ مختصر

اِبتدائی حالات

نسب شریف: سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔

کنیت: ابو القاسم۔ وَالدہ کا نام: آمنہ بنت وہب۔ وِلادت: بروز دوشنبہ ۱۲/ ربیع الاوّل عام الفیل۔ وَالد ماجد کا اِنتقال وِلادت سے قبل ہی بحالتِ سفر مدینہ منورَہ میں ہوچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت آپ کے دادا عبد المطلب نے کی اور حلیمہ سعدیہ نے دودھ پلایا۔ پھر آپ کی عمر مبارک چھ سال کی ہوئی تو آپ کی والدہ ماجدہ آپ کو مدینہ آپ کے ننہال لے گئیں، واپسی میں بمقامِ ابوا اُن کا انتقال ہوا اور آپ کی پرورش اُمّ ایمن کے سپرد ہوئی۔ آٹھ سال کے ہوئے تو دادا کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا، کفالت کا ذمہ آپ کے چچا ابو طالب نے لیا۔ نو سال کی عمر میں چچا کے ساتھ شام کا سفر فرمایا اور ۲۵ سال کی عمر میں شام کا دوسرا سفر حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی تجارت کے سلسلہ میں فرمایا اور اس سفر سے واپسی کے دو ماہ بعد حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا سے عقد ہوا۔ ۳۵ سال کی عمر میں قریش کے ساتھ تعمیرِ کعبہ میں حصہ لیا اور پتھر ڈھوئے، حجرِ اسود کے بارے میں قریش کے اُلجھے ہوئے جھگڑے کا حکیمانہ فیصلہ فرمایا جس پر سبھی خوش ہوگئے۔

تعلیم و تربیت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیدا ہوئے تھے اور ماحول و معاشرہ سارا بت پرست تھا؛ مگر آپ بغیر کسی ظاہری تعلیم و تربیت کے نہ صرف ان تمام آلائشوں سے پاک صاف رہے؛ بلکہ جسمانی ترقی کے ساتھ ساتھ عقل و فہم اور فضل و کمال میں بھی ترقی ہوتی گئی؛ یہاں تک کہ سب نے یکساں و یک زبان ہوکر آپ کو صادق و امین کا خطاب دیا۔

مری مشّاطگی کی کیا ضرورت حسنِ معنی کو

کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالہ کی حنا بندی

خلوت و عبادت

بچپن میں چند قیراط پر اہلِ مکہ کی بکریاں بھی چرائیں؛ مگر بعد میں آپ کو خلوت پسند آئی؛ چناں چہ غارِ حرا میں کئی کئی راتیں عبادت میں گزر جاتیں۔ نبوت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھنے لگے، خواب میں جو دیکھتے ہو بہو وہی ہوجاتا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستورِ تعلیم

حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا ہر پہلو نرالا اور اُمت کے لیے مینارِ ہدایت ہے؛ اگرچہ آپ کا تشریعی دور، نبوت کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے کا دور بھی چاہے بچپن کا دور ہو یا جوانی کا اُمت کے لیے اس میں ہدایت موجود ہے۔

آپ کے دودھ پینے کا زمانہ ہے؛ لیکن اتنی چھوٹی عمر میں بھی آپ کو عدل و انصاف پسند ہے اور آپ دوسروں کا خیال فرماتے ہیں، حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا ایک طرف کا دودھ پلاکر دوسری طرف پیش فرماتی ہیں؛ لیکن آپ اسے قبول نہیں فرماتے؛ کیوں کہ وہ آپ کے دودھ شریک بھائی کا حق ہے۔

بچپن سے اجتماعی کاموں میں اتنا لگاؤ اور دلچسپی ہے کہ جب بیت اللہ شریف کی تعمیر ہورہی تھی تو آپ بھی قریشِ مکہ کے ساتھ پتھر اٹھاکر لا رہے ہیں۔

اور شرم وحیاء اتنی غالب ہے کہ جب آپ کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ دیکھتے ہیں کہ آپ ننگے کندھے پر پتھر اُٹھاکر لارہے ہیں تو ترس کھاتے ہوئے آپ کا تہ بند کھول کر کندھے پر رکھ دیا۔ آپ شرم کے مارے بے ہوش ہوکر گر پڑے، یہ فرماتے ہوئے کہ میری چادر مجھ پر ڈال دو۔

کسب حلال کی یہ اہمیت کہ قریش کی بکریاں چراتے اور اس کی مزدوری سے اپنی ضروریات پوری فرماتے اور جب اور بڑے ہوئے تو تجارت جیسا اہم پیشہ اختیار فرمایا اور التاجر الصدوق الأمین (امانت دار سچے تاجر) کی صورت میں سامنے آئے۔

معاملہ فہمی اور معاشرے کے اختلافات کو ختم کرنے اور اس میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی وہ صلاحیت ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر کے وقت حجرِ اسود کو اپنی جگہ رکھنے پر قریش کی مختلف جماعتوں میں اختلاف پیدا ہوا اور قریب تھا کہ ناحق خون کی ندیاں بہہ جاتیں؛ لیکن آپ نے ایسا فیصلہ فرمایا جس کی سب نے تحسین کی اور اس پر راضی ہوگئے۔

صداقت و امانت کے ایسے گرویدہ کہ بچپن سے آپ الصادق الأمین کے لقب سے یاد کیے جانے لگے اور دوست تو دوست دشمن بھی آپ کے اس وصف کا اقرار کرتے تھے؛ چناں چہ قبائل قریش نے ایک موقع پر بیک زبان کہا: ”ہم نے بارہا تجربہ کیا؛ مگر آپ کو ہمیشہ سچا پایا“۔ یہ سب قدرت کی جانب سے ایک غیبی تربیت تھی؛ کیوں کہ آپ کو آگے چل کر نبوت و رسالت کے عظیم مقام پر فائز کرنا تھا اور تمام عالم کے لیے مقتدیٰ بنانا تھا اور امت کے لیے آپ کی زندگی کو بہ طورِ اُسوہٴ حسنہ پیش کرنا تھا۔

”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَاللہَ کَثِیْرًا“(الاحزاب:۲۱)

”بلاشہ اے مسلمانو! تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں عمدہ نمونہ ہے اُس شخص کے لیے جو اللہ کی ملاقات کا اور قیامت کے دن کا خوف رکھتا ہے اور اللہ کو بکثرت یاد کرتا ہے۔“

نبوت:

جب سنِ مبارک چالیس کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں تھے کہ جبرئیل علیہ السلام سورة اقرأ کی ابتدائی آیتیں لے کر نازل ہوئے، اس کے بعد کچھ مدت تک وحی کی آمد بند رہی، پھر لگاتار آنے لگی۔

وحی آسمانی آپ تک پہنچانے کے لیے جبریلِ امین علیہ السلام کا انتخاب ہوا جن کو ہمیشہ سے انبیاء علیہم السلام اور باری تعالیٰ کے درمیان واسطہ بننے کا شرف حاصل تھا اور جن کی شرافت، قوت، عظمت، بلند منزلت اور امانت کی خود اللہ نے گواہی دی ہے۔

”اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْلٍ کَرِیْمٍ، ذِیْ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَکِیْنٍ، مُّطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْنٍ“․ (التکویر۱۹ تا ۲۱)

”بے شک یہ قرآن ایک معزز فرشتے کا لایا ہوا کلام ہے جو بڑی قوت والا صاحبِ عرش کے نزدیک ذی مرتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے اور وہ امانت دار ہے۔“

اس وحی اِلٰہی کی روشنی میں آپ کی ایسی تربیت ہوئی کہ آپ ہر اعتبار سے کامل بن گئے اور آپ کی زندگی کا ہر پہلو اُمت کے لیے ایک بہترین اُسوہٴ حسنہ بن کر سامنے آگیا۔ امت کے ہر فرد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک اعلیٰ مثال ہے، جسے وہ سامنے رکھ کر زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کرسکتاہے۔

دعوت و تبلیغ

اِبتداء ً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوشیدہ طور پر دعوت و تبلیغ کا سلسلہ شروع فرمایا، ابتدائی دعوت پر عورتوں میں حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا، مردوں میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ، بچوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ، آزاد شدہ غلاموں میں حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور غلاموں میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ سب سے پہلے اِیمان لائے، ان کے بعد بہت سے آزاد اور غلام اس دولت سے بہرہ مند ہوئے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علانیہ دعوت و تبلیغ کا حکم ہوا؛ چناں چہ آپ نے تمام قوم کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے اور بت پرستی چھوڑنے کی دعوت پوری قوت سے شروع کی، بعض نے مانا اور بعض اپنی گم راہی پر قائم رہے۔

ہجرتِ حبشہ

قوم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو طرح طرح سے ستانا شروع کیا، چناں چہ ۵ ء نبوی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو حبشہ ہجرت کرجانے کا حکم فرمایا، یہ سب سے پہلی ہجرت تھی، اسی سال حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مشرف بہ اسلام ہوئے۔

۷ ء نبوی میں قریش نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے خلاف ایک معاہدہ پر دستخط کیے کہ جب تک یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے حوالے نہیں کرتے اُس وقت تک ان سے ہر قسم کا مقاطعہ کیا جائے۔ اس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ شعب ابی طالب میں نظر بند کردیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو ہجرتِ حبشہ کا حکم فرمایا، یہ دوسری ہجرت کہلاتی ہے۔

۱۰ ء نبوت میں قریش کے بعض افراد کی کوشش سے یہ معاہدہ ختم ہوا اور آپ کو آزادی ملی، اسی سال نصاریٰ نجران کا ایک وفد مسلمان ہوا، اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب اور آپ کی غم گسار زوجہٴ مطہرہ حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔ قریش کی اِیذا رسانی اور بڑھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف کی تبلیغ کے لیے تشریف لے گئے۔ اُنہوں نے ایک نہ سنی؛ بلکہ اُلٹا درپے ایذاء ہوئے۔ یہ سال عام الحزن (غم کا سال) کہلاتا ہے۔

۱۱ ء نبوت اسی سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج ہوئی، پنج گانہ نماز فرض ہوئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر عرب کے مختلف قبائل کو دعوت دی؛ چناں چہ مدینہ کے قبیلہ خزرج کے چھ آدمی مسلمان ہوئے۔

۱۲ ء نبوت اس سال اوس و خزرج کے بارہ افراد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ یہ بیعت عقبہٴ اولیٰ کہلاتی ہے۔

۱۳ ء نبوت اس سال مدینہ کے ستر مردوں اور بیس عورتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی، یہ بیعت عقبہٴ ثانیہ کہلاتی ہے۔

ہجرتِ مدینہ

مدینہ میں اسلام کی روشنی گھر گھر پھیل چکی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا، قریش کو پتہ چلا تو اُنہوں نے دار الندوة میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کا ناپاک منصوبہ بنایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرلیا، اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ منصوبہ خاک میں ملادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا حکم ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے گھیرے سے باطمینان نکلے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، ان کو ساتھ لے کر غارِ ثور تشریف لے گئے، یہاں تین دن رہے، پھر ہجرت فرمائی اور مدینہ کی نواحی بستی قُبا پہنچے۔

؁  ۱  ھ  اِسلام کا نیا دور

یہاں سے اِسلام کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے قبا میں چودہ دن قیام رہا، وہاں ایک مسجد بنائی، وہاں سے مدینہ طیبہ منتقل ہوئے۔ حضرت ابو ایوب اَنصارِی رَضی اللہ عنہ کے گھر قیام فرمایا مسجد نبوی کی تعمیر فرمائی، اذان شروع ہوئی اور جہاد کا حکم ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت و جہاد کے لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعتیں بھیجنا شروع کیں۔

سرایا و غزوات

جس جہاد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود شریک ہوئے اسے غزوہ کہتے ہیں اور جس میں خود نہیں گئے، صحابہ کی جماعت کو بھیجا اسے سریہ کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرایا کی تعداد ۴۷/ ہے اور غزوات کی تعداد ۲۷/ ہے۔ اس سال آپ نے تین دستے (سریے) روانہ فرمائے؛ لیکن مقابلہ نہیں ہوا۔

؁  ۲  ھ:

اس سال غزوہٴ دُوّان، غزوہٴ بواط، غزوہٴ عشیرہ اور غزوہٴ بدر صغریٰ ہوئے۔ تحویلِ قبلہ کا حکم ہوا، روزہ رمضان، زکوٰة و فطرة واجب ہوئے۔ اسی سال (رمضان میں) مشہور غزوہٴ بدر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ۳۱۳/ جاں نثار تھے اور قریش ایک ہزار؛ مگر شکست قریش ہی کو ہوئی، ان کے سردار مارے گئے اور ستر قید ہوئے، مسلمانوں کے چودہ آدمی شہید ہوئے۔ اسی سال غزوہٴ قرقرة الکدر، غزوہٴ بنی قینقاع اور غزوة السویق ہوئے، تینوں میں جنگ نہیں ہوئی۔ سیّدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر رُخصتی ہوئی۔

؁  ۳  ھ:

اس سال غزوہٴ غطفان اور غزوہٴ بحران ہوئے، مقابلہ نہیں ہوا، پھر مشہور جنگ اُحد ہوئی، قریش قبائلِ عرب کو اکٹھا کر کے بدر کے مقتولوں کا بدلہ لینے جبلِ اُحد کے پاس جمع ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار کی جمعیت کے ساتھ مدینہ سے باہر نکلے، ۳۰۰/ منافق راستہ ہی میں پلٹ گئے، دامنِ اُحد میں دونوں فوجیں لڑیں، کفار کو شکست ہوئی، ایک درّہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازوں کی ایک جماعت اس وصیت کے ساتھ مقرر فرمائی تھی کہ ہم مریں یا جئیں تمہیں بہرحال تاحکم ثانی اپنی جگہ رہنا ہوگا۔ ان میں سے بعض نے مسلمانوں کی فتح اور کافروں کی شکست دیکھ کر جگہ چھوڑ دی، دشمن کو لوٹ کر پیچھے سے حملہ کا موقع مل گیا، جنگ کا پانسہ پلٹ گیا، ستر صحابہ شہید ہوئے جن کے سردار حمزہ رضی اللہ عنہ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہٴ اَنور زخمی ہوا، سامنے کے دندانِ مبارک شہید ہوئے، اگلے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے تعاقب میں حمراء الاسد تک گئے؛ مگر دشمن بچ نکلا، مقابلہ نہیں ہوا، اسی سال شراب کی حرمت نازل ہوئی۔

؁  ۴  ھ:

اس سال غزوہٴ بنی نضیر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کا محاصرہ کیا اور انھیں جلا وطن کیا، پھر غزوہٴ ذات الرقاع ہوا، مقابلہ کی نوبت نہیں آئی، اس سفر میں ”نمازِ خوف“ اور ”تیمم“ کا حکم نازل ہوا، پھر غزوہٴ اُحد صغریٰ ہوا، گزشتہ سال جنگ اُحد سے واپسی پر قریش کہہ گئے تھے کہ آئندہ سال پھر اسی مقام پر جنگ ہوگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسبِ وعدہ اُحد کی طرف نکلے؛ لیکن قریش مقابلہ کے لیے نہیں آئے۔

؁  ۵  ھ:

اس سال غزوہٴ دومة الجندل ہوا، دشمن اپنے مویشی چھوڑ کر بھاگ گئے، پھر غزوہٴ بنی مصطلق ہوا، مقابلہ میں اس قبیلے کے دس آدمی مارے گئے۔ باقی قید ہوئے، انہی قیدیوں میں ان کے سردار حارث کی لڑکی جویریہ تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو آزاد کر کے اُن سے نکاح کرلیا، یہ نکاح تمام قیدیوں کے آزاد کرنے اور ان کے اِسلام لانے کا ذریعہ بنا۔ پھر غزوہٴ احزاب پیش آیا، قریش نے تمام قبائلِ عرب اور یہود کو ساتھ لے کر دس ہزار کی تعداد میں مدینہ کا محاصرہ کیا، مسلمانوں نے اپنی حفاظت کے لیے ایک لمبی خندق کھودی، قریش کا محاصرہ پندرہ دِن جاری رہا بالآخر اللہ تعالیٰ نے تند ہوا اور فرشتوں کا لشکر بھیجا اور دشمن ناکام لوٹا، پھر غزوہٴ بنی قریظہ ہوا اور یہود بنی قریظہ کو عہد شکنی کی سزا میں قتل کیا گیا، اسی سال حج فرض ہوا اور پردہ کی آیات نازل ہوئیں۔

؁  ۶  ھ:

اس سال غزوہٴ بنی لحیان، غزوة الغابہ اور صلح حدیبیہ ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ کے ساتھ عمرہ کی نیت سے غیر مسلح مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوئے۔ قریش نے مقامِ حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا۔ آخر کار چند شرطوں پر صلح ہوئی، ان میں سے ایک یہ تھی کہ دونوں فریق دس سال تک آپس میں جنگ نہیں کریں گے۔ اسی موقع پر ایک درخت کے نیچے بیعتِ رضوان ہوئی، اسی سال آپ نے مختلف بادشاہوں کے نام دعوتی خطوط بھیجے، ان میں سے بعض مسلمان ہوگئے۔

؁  ۷  ھ:

اس سال حدیبیہ سے واپسی پر خیبر فتح ہوا، مہاجرین حبشہ کی واپسی ہوئی، فدک مصالحانہ طور پر فتح ہوا، غزوہٴ وادی القریٰ ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی معیت میں عمرة القضاء کے لیے مکہ تشریف لے گئے، وہاں تین دن قیام کے بعد واپسی ہوئی۔

؁  ۸  ھ:

اس سال جنگ موتہ ہوئی، جس میں مسلمانوں کے تین سپہ سالار، زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب، عبد اللہ بن رواحہ یکے بعد دیگرے شہید ہوئے۔ پھر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو امیرِ لشکر مقرر کیا گیا، دشمن کو شکست ہوئی اور کافی مالِ غنیمت ہاتھ آیا، اسی سال مکہ مکرمہ کی فتح کا عظیم واقعہ ہوا۔ قریش نے جنگ بندی کا معاہدہ توڑ ڈالا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ مکرمہ میں فاتحانہ داخل ہوئے، قریش نے ہتھیار ڈال دیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امنِ عام کا اعلان فرمایا، کعبة اللہ کے گرد و پیش سے بتوں کی نجاست کو صاف کیا، اِرد گرد کے قبائل میں بت شکنی کے لیے وفود بھیجے۔

مکہ کی فتح اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دُشمنوں سے سلوک

کون نہیں جانتا کہ مکی زندگی کے تیرہ (۱۳) سالوں میں مکہ وَالوں نے آپ اور آپ کے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم پر کیا کیا ستم ڈھائے، انھیں تپتی ریت اور آگ کی چنگاریوں پر لٹایا گیا، اُنھیں مکہ میں اَپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا حتیٰ کہ انھیں شہید تک کردِیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح کی تکلیفیں دِی گئیں، آپ کے رَاستے میں کانٹے بچھائے گئے، نماز میں سجدہ کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی سر پر ڈالی گئی؛ یہاں تک کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا ناپاک منصوبہ بنایا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچے تو وَہاں بھی اُن کے خلاف سازشیں رچیں اور جنگِ بدر، جنگِ اُحد اور جنگِ احزاب کی نوبت آئی۔

لیکن اب مکہ مکرمہ فتح ہوگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت سے اس شہر میں دَاخل ہوتے ہیں؛ لیکن دُنیا کے فاتحین کی طرح متکبرانہ اَنداز میں ہر گز نہیں؛بلکہ نہایت تواضع اور اِنکساری کے ساتھ، سرِ مبارک جھکائے ہوئے، ہزاروں جانثاروں کے ساتھ رَبُّ العزت کا شکر اَدا کرتے ہوئے۔ بیت اللہ کو بتوں سے پاک فرماتے ہیں اور اُس کا طواف فرماتے ہیں۔ مجمع اکٹھا ہوجاتا ہے۔ قریشِ مکہ آپ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور اُن کے دِل و دماغ میں وہ تمام جرائم آکھڑے ہوتے ہیں جو اُنہوں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ کیے تھے۔ آج یہ سب مجرم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سرجھکائے بیٹھے ہیں۔

آج اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جگہ کوئی اور دُنیا کا فاتح حکمران ہوتا تو اَپنے دُشمنوں کے ساتھ کیا سلوک کرتا؟ غالباً وہی کرتا جو جابر حکمران کیا کرتے ہیں؛ لیکن آپ اللہ کے رسول اور رحمة للعٰلمین ہیں، اخلاق کے اُونچے مقام پر فائز ہیں، جن کے اَعلیٰ اور عظیم اخلاق کی تعریف خود بارِی تعالیٰ نے فرمائی ہے:

”وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“۔(القلم:۲)

ترجمہ: اور بے شک آپ بڑی بلند اخلاقی پر قائم ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سب سے مخاطب ہوکر فرمایا: تمہارَا کیا خیال ہے آج میں تم سے کیا سلوک کرنے وَالا ہوں؟ سب نے بیک زبان جواب دِیا: أخٌ کریمٌ وابنُ أخٍ کریمٍ۔ آپ ایک شریف بھائی ہیں اور ایک شریف بھائی کے فرزند ہیں یعنی ہم آپ سے اُمید رکھتے ہیں جو ایک شریف بھائی سے رَکھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں آج تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اَپنے بھائیوں سے کہی تھی:

 ”لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ط یَغْفِرُ اللہُ لَکُمْ وَھُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ“․(یوسف:۹۲)

ترجمہ:آج تم پر کوئی سرزنش اور ملامت نہیں، اللہ تم کو معاف کرے اور وہ سب رحم کرنے وَالوں سے زیادَہ رحم کرنے وَالا ہے۔

یعنی سزا تو سزا آج میں تمہارے جرائم بھی یاد نہیں دِلاوٴں گا کہ اُن کا تذکرہ کر کے تم پر ملامت کی جائے۔ پھر فرمایا: اذْھَبُوا فَأَنْتُمُ الطُلَقَاءُ۔”جاوٴ تم سب آزاد ہو“!

 آج رحم و کرم کا دن ہے، جو شخص ابو سفیان کے گھر داخل ہوجائے اسے امن ہے، جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اسے امن ہے ، جو مسجدِ حرام میں داخل ہوگیا اسے امن ہے۔

اِسی حسنِ اخلاق کا نتیجہ تھا کہ اُن میں سے اَکثر مسلمان ہوئے اور دِل و جان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے لگے اور دُشمن کی بجائے دوست بن گئے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اُمت کو کریمانہ اخلاق کی تعلیم دِی ہے، وہاں اپنے عمل سے اُن کے سامنے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بھی پیش فرمایا ہے۔ آپ کی یہ اخلاقی تعلیمات آپ کی زِندگی میں روزِ روشن کی طرح واضح ہیں، جن کی نظیر انسانی تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔

غزوہٴ حنین

فتحِ مکہ کے بعد غزوہٴ حنین ہوا، قبیلہٴ ثقیف و ہوازن کے لوگ مقابلہ کی تیاری کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِطلاع ملی تو بارہ ہزار کا لشکر ان کے مقابلہ میں لے کر نکلے، بعض مسلمانوں کو خیال ہوا کہ اتنا بڑا لشکر کیسے مغلوب ہوسکتا ہے؛ مگر دشمن نے تیروں کی بارش شروع کی تو مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چند صحابہ کے ساتھ جمے رہے، پھر مسلمانوں نے پلٹ کر حملہ کیا، دشمن کو شکست ہوئی، کچھ مارے گئے، کچھ بھاگ گئے، ان کی عورتیں اور بچے قیدی بنے، تمام مال مویشی پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا، جو بھاگ نکلے تھے وہ طائف جاکر قلعہ بند ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس دن تک طائف کا محاصرہ کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ واپس ہوئے، جنگِ حنین کے قیدی یہیں تھے، اتنے میں قبیلہٴ ہوازن مسلمان ہوکر حاضر خدمت ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قیدی واپس کردیے۔ جعرانہ سے عمرے کا احرام باندھا اور راتوں رات عمرہ ادا کر کے مدینہ طیبہ روانہ ہوگئے۔

؁  ۹  ھ:

اس سال غزوہٴ تبوک ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رُومیوں کی تیارِی کی اِطلاع ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تیس ہزار کا لشکر لے کر روم کی سرحد پر مقامِ تبوک پہنچ گئے۔ لیکن رومی مقابلہ کے لیے نہیں آئے، اَئیلہ کے سردار اور دوسرے قبائل نے جزیہ پر صلح کرلی۔ اسی سال حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ”اَمیرِ حج“ بناکر بھیجا، یوم النحر میں اعلان کیا گیا کہ آئندہ کوئی مشرک حج کرنے نہیں آئے گا، نہ برہنہ طواف کرے گا۔ اسی سال مختلف علاقوں کے وفود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔

؁  ۱۰ ھ:

اس سال حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امارت میں ایک دستہ بنی مذحج کے مقابلہ میں بھیجا، ان کے بیس آدمی مارے گئے باقی مسلمان ہوئے۔ اسی سال حضرت معاذ بن جبل اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما کو تعلیم و تبلیغ کے لیے یمن بھیجا۔ اس سال کا اہم ترین واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حج ہے۔ جسے حجة الوداع، حجة البلاغ، حجة الکمال، حجة التمام، حجة الاسلام کہا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات اور منیٰ کے خطبوں میں دین کے بنیادی اُصولوں کی تعلیم فرمائی۔

بنیادی اُصولوں کی تعلیم

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی حاکمِ وقت اور قاضی کے لیے نمونہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پورے عالم کے لیے نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک مسلمان حاکم کے لیے بھی اُسوہٴ حسنہ ہے؛ کیوں کہ آپ ایک اِسلامی مملکت کے ایک عادل سربراہ بھی تھے اور آپ نے اس مملکت کو نہایت کامیابی کے ساتھ چلایا۔

آپ کی سیرت ایک قاضی اور جج کے لیے بھی بہترین نمونہ ہے؛ کیوں کہ آپ ایک عادل اور منصف قاضی بھی تھے اور آپ نے قضاء اور عدل و انصاف کے وہ اُصول بیان فرمائے جن سے اِنسانیت قیامت تک مستغنی نہیں ہوسکتی، آپ ہی کا فرمان ہے:

”بخدا اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیٹی فاطمہ بنت محمد بھی چوری کا اِرتکاب کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔“

اور آپ ہی کا فرمان ہے:

”اگر لوگوں کو صرف ان کے دعوے اور مطالبہ پر ان کا مطلوب دے دیا جائے تو کچھ لوگ دوسروں کے خون اور مالوں کا دعویٰ شروع کردیں گے؛ لیکن مدعی کے ذمہ ثبوت ہے اور مدعا علیہ پر قسم ہے۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی فوجی جرنیل کے لیے نمونہ

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک فوجی جرنیل اور بہادر سپاہی کے لیے بھی اُسوہٴ حسنہ ہے؛ کیوں کہ آپ میں ایک فوجی قائد کی شجاعت، تدبر اور شفقت جیسی اعلیٰ صفات موجود تھیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری اور شجاعت

بہادری اور شجاعت ایسی کہ غزوہٴ حنین میں جب دشمنوں نے تیروں کی بارش برسادی تو بہتوں کے قدم اُکھڑ گئے؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جانثاروں کے ساتھ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ رہے تھے اور فرمارہے تھے:

أنَا النَّبِیُّ لَا کَذِبْ

أنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ

”میں سچا نبی ہوں، میں عبد المطلب کا سپوت ہوں۔“

ایک بار اہلِ مدینہ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ کوئی دُشمن حملہ کرنے والا ہے، گھبرا کر باہر نکلے؛ تاکہ معلومات حاصل کریں، کیا دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا ایک گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار باہر سے واپس تشریف لارہے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ گھبراؤ نہیں میں سب دیکھ کر آگیا ہوں، کوئی خطرہ نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے ہر فرد کو ایک مجاہد اور مضبوط اِنسان دیکھنا چاہتے تھے، آپ ہی کا ارشاد ہے:

”ایک قوی مومن اللہ کے ہاں زیادہ بہتر اور پیارا ہے کمزور مومن کے مقابلے میں اور دونوں میں خیر موجود ہے“۔

سنتِ مشورہ

آپ غزوات میں تجربہ کار صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ بھی فرماتے تھے اور اس پر عمل بھی فرماتے جیسا کہ غزوہٴ بدر اور غزوہٴ خندق کے واقعات اس پر شاہد ہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحم دلی اور عدل و اِنصاف

اس شجاعت کے ساتھ رحم دلی اور عدل و اِنصاف کا یہ عالم ہے کہ جب کسی لشکر اور فوج کو روانہ فرماتے تو انھیں اس بات کی تاکید فرماتے کہ کسی عورت، بچے، بوڑھے اور عبادت میں مشغول اِنسان کو ہرگر قتل نہ کیا جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر و تحمل

صبر و تحمل میں آپ سب کے امام ہیں، ایک اَعرابی آتا ہے اور آپ کی چادر کو اتنا زور سے کھینچتا ہے کہ گردنِ مبارک پر نشانات پڑجاتے ہیں اور وہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اللہ کے مال میں سے دیجیے۔ آپ مسکرا رہے ہیں اور حکم فرماتے ہیں کہ اس کو اتنا مال دے دیا جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم اِستقامت کے پہاڑ

حق پر صبر و اِستقامت کی آپ نے وہ مثال قائم فرمائی جس کی نظیر تاریخِ انسانیت پیش کرنے سے قاصر ہے، آپ کے مخالفین نے آپ کو مال و دولت، خوب صورت عورت اور دنیا کے جاہ و جلال کی لالچ دی؛ تاکہ آپ دعوتِ حق کو ترک کردیں؛ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی آپ کو ذرہ برابر متأثر نہ کرسکی اور آپ نے ان کو ان تاریخی کلمات سے جواب دیا جو اہلِ حق کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ رہیں گے، آپ نے فرمایا:

”قسم بخدا! اگر یہ لوگ سورج کو میرے داہنے ہاتھ پر رکھ دیں اور چاند کو بائیں ہاتھ پر رکھ دیں؛ تاکہ میں اپنی اس دعوتِ حق کو چھوڑدوں تو میں ہرگز اسے نہیں چھوڑوں گا؛ جب تک کہ اللہ اسے غالب نہ کردے یا اسی میں میری موت آجائے۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عفو و کرم

عفو و کرم میں اگر دیکھا جائے تو آپ کا کوئی ثانی نہیں ملے گا، فتحِمکہ کی مثال جو اوپر گزری، ایسی ہے کہ اس کی کوئی نظیر پیش نہیں کی جاسکتی، خود آپ کا ارشاد ہے:

”جو تجھ سے قطع رحمی کرے تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کر، جو تجھے نہ دے تو اسے دے، جو تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کردے اور جو تجھ سے برا سلوک کرے تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کر۔“

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت

جود و سخا میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے آگے ہیں، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں:

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان المبارک میں تو آپ کی جود و سخا کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا تھا۔“

اُونچے اخلاق

اخلاق میں آپ اتنے اُونچے مقام پر تھے کہ خود باری تعالیٰ نے آپ کی اس صفت کو خصوصیت سے ذکر کیا: ”اور یقینا آپ بڑے بلند خلق پر قائم ہیں“۔

بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست

اسی طرح آپ ایک بہترین شوہر، مشفق باپ اور وفادار دوست بھی تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کا نمونہ پیش فرماکر اُمت کو بتادیا کہ ایک مسلمان شوہر کیسا ہونا چاہیے؟ ایک باپ کیسا ہو؟ اور ایک دوست کیسا ہو؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامیاب معلم اور مربی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک امتیازی صفت معلم اور مربی کی ہے۔ آپ کامل معلم، استاذ اور ایک عظیم مربی تھے؛ اس لیے تعلیم کے میدان میں کام کرنے والے اور جن حضرات پر نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری ہے سب کے لیے آپ اُسوہٴ حسنہ ہیں۔

؁  ۱۱ ھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وِصال

؁  ۱۱ ھ: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رُومیوں کے مقابلہ میں ”اُسامہ کا لشکر“ تیار فرمایا؛ مگر لشکر کی روانگی سے قبل ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ناساز ہوگئی۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرضِ وفات تھا، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہے، نماز کی امامت کے لیے اپنی جگہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔ دو شنبہ بارہ ربیع الاوّل کو ۶۳/ سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وِصال ہوا؛ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی امانت اللہ کے بندوں کو پہنچاچکے تھے اور دعوت و ہدایت کا کام پورا ہوچکا تھا۔ چہار شنبہ کی رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا، تین کپڑوں میں کفن دیا گیا اور مسلمانوں نے غم زدہ دلوں کے ساتھ فرداً فرداً نمازِ جنازہ پڑھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا وہی حجرہ آپ کی آخری آرام گاہ بنی۔

صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وأصحابہ وأتباعہ وسلم تسلیما کثیرا کثیرا

اولاد

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین صاحب زادے تھے: قاسم، عبد اللہ، اِبراہیم سب کا بچپن میں ہی اِنتقال ہوا۔

چار صاحب زادیاں تھیں: زینب، رُقیہ، اُمّ کلثوم اورفاطمة الزہرا۔

ازواجِ مطہرات

خدیجة الکبریٰ، عائشہ صدیقہ، حفصہ، اُمّ سلمہ، سودہ، زینب بنت جحش، میمونہ، زینب بنت خزیمہ، جویریہ، صفیہ، اُمّ حبیبہ۔

حضرت خدیجة الکبریٰ اور زینب بنت خزیمہ کی وفات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں ہوئی۔ باقی نو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وِصال کے وقت موجود تھیں رضی اللّٰہ عنہن۔

حسن و جمال

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کے بیان سے تو قلم و قرطاس قاصر ہیں؛ تاہم حضرت حسان بن ثابت کے دو اشعار تشنگیِ شوق کی تسکین کے لیے حاضر ہیں۔

وَأحْسَنَ مِنْکَ لَمْ تَرَقَطُّ عَیْنِيْ

وَأجْمَلَ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاء

خُلِقْتَ مُبَرَّئًا مِنْ کُلِّ عَیْبٍ

کَأنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاء

آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین میری آنکھوں نے نہیں دیکھا

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جمیل کسی ماں نے کوئی بچہ نہیں جنا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر عیب سے فطرتاً پاک و صاف پیدا ہوئے

گویا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے ویسے ہی پیدا ہوئے

 

$$$

 

--------------------------------------------



2 comments:

  1. ماشا اللہ۔ ۔آ پ نے دین کا بہت سا کام، بہت آسان طریقے سے پیش کر دیا۔

    ReplyDelete