Monday, 18 March 2013

ایصالِ ثواب کے دلائل اور چہل حدیث

ایصال کا مادہ وصل یعنی جوڑنا، پہنچانا ہے۔
[المصباح:909]

میت کو ایصالِ ثواب کرنا جائز ہے، لیکن اس کے لیے کوئی (١)عمل یا (٢)دن مقرر کرنا شریعت کی تعلیم نہیں، بلکہ اسے شریعت کی تعلیم ماننا بدعت ہے۔ 
کسی دن بھی کوئی بھی نیک عمل(جو اللہ کی رضا کیلئے ہو نہ کہ لوگوں کی رضا کیلئے اور سنت سے ثابت بھی ہو)
مثلًا:
میت/مُردوں کیلئے
(١) بخشش کی دعا کرنا
(٢)سوره يٰسٓ پڑھنا
(٣)نماز پڑھنا
[مصنف ابن أبي شيبة:12084][12459(ت الشثري) 12084(ت الحوت)]
(٤)روزہ رکھنا
(٥)قربانی کرنا
[ترمذی:1521] 
(٦)حج کرنا
اور
صدقات میں:
(١)پانی پلانے(کیلئے کنواں، نہر) کا صدقہ کرنا۔
(٢)کھجور کی باغ کا صدقہ کرنا۔
(٣)غلام آزاد کرنا۔
[ابوداؤد:3683، نسائی:3686]
(٤)میت کی نذر پوری کرنا۔
(٥)نفع بخش علم سکھانا۔
[صحیح مسلم:3033(4223)، الجامع الکبیر:13054]
یا علم کی نشر واشاعت کرنا۔
(٦)اپنے پیچھے "نیک" اولاد چھوڑ جانا۔
جو اس کیلئے دعا کرتی رہے۔
(٧)وہ قرآن کا نسخہ جو یہ دوسروں کیلئے چھوڑ گیا ہو۔
[ابن ماجہ:242، الجامع الکبیر:13054]
(٨)وہ مسجد جو اس نے بنوائی ہو.
[ابن ماجہ:242، الجامع الکبیر:13054]
(٩)مسافر خانہ بنوانا۔
[ابن ماجہ:242، الجامع الکبیر:13054]
(١٠)نہر(کنواں) جاری کروانا.
[ابن ماجہ:242، الجامع الکبیر:13054]
(١١)درخت لگوانا.
[الجامع الکبیر:13054]
(١٢)وہ صدقہ جو اس نے تندرستی اور زندگی کی حالت میں اپنے مال سے نکالا ہو.
وغیرہ
کرکے اس کا ثواب ایصال کر سکتے ہیں؛ بلکہ اپنے گزرے ہوئے مسلمان بھائیوں بہنوں کے لیے ہر روز دعاء مغفرت اور ایصال ثواب کرتے رہنا چاہئے۔


انسان نے جو کچھ نیک کام کیا اس کو اس کا ثواب ملا، اس نے اپنی طرف سے وہ ثواب کسی دوسرے کو پہنچایا خواہ مردہ ہو یا زندہ۔ بس ایصال ثواب کی حقیقت شرع میں اتنی ہے نیک کام خواہ صدقہ خیرات ہو یا ذکر، تلاوت، تسبیحات وغیرہ ہو۔

تنبیہ : مروجہ قرآن خوانی تو نہ ایصال ثواب کی غرض سے درست ہے اور نہ ہی کسی دوسرے مقصد سے صحیح ہے، اس کے لیے دن تاریخ کی تعیین کرنا یا اجتماع کا اہتمام کرنا بدعت ہے۔ قرآن پڑھ کر پیسہ وغیرہ لینا دینا ناجائز اور حرام ہے۔ اس تلاوتِ قرآن کا ثواب نہ پڑھنے والے کوحاصل ہوتا ہے نہ میت کو۔ اور پیسہ لینے اوردینے والے دونوں گناہ گار ہوتے ہیں۔ ایصالِ ثواب بلا معاوضہ کیا جائے۔

 البتہ فی نفسہ جو شخص جب چاہے جس قدر چاہے جس کو چاہے جہاں چاہے قرآن کریم پڑھ کر ثواب پہنچادیا کرے جائز و مستحسن ہے۔
احادیثِ کثیرہ سے اس کا ثبوت ہے، فتاویٰ شامی نیز فتح القدیر شرح الہدایہ میں دلائل جمع کردیے گئے ہیں۔
اِن القرآن بالأجر لا یستحق الثواب لا للمیت و لا للقارئ، والآخذ والمعطي آثمان
(کذا في الشامي)





والدین کیلئے ایصالِ ثواب:
اولاد کی دعا سے درجات میں ترقی حاصل ہوگی:
حدیث:
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَرْفَعُ الدَّرَجَةَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ يَارَبِّ أَنَّى لِي هَذِهِ فَيَقُولُ بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ۔

ترجمہ:

بلاشبہ اللہ تبارک وتعالیٰ نیک آدمی کا جنت میں درجہ بلند فرمائیں گے تووہ عرض کریگا، اے رب! میرے لیے یہ درجہ کہاں سے بڑھ گیا؟ تووہ ارشاد فرمائیں گے کہ تمہارے لیے تمہارے بیٹے کے استغفار کی وجہ سے (تمہارا درجہ بلند کیا گیا ہے)۔

[سنن ابن ماجہ:3660، تفسیر ابن کثیر»سورۃ الطور آیۃ21]
أخرجه أحمد (2/509، رقم 10618) ، وابن ماجه (2/1207، رقم 3660) قال البوصيرى (4/98) : هذا إسناد صحيح رجاله ثقات. والبيهقى (7/233، رقم 14116) مختصرًا موقوفًا دون موضع الشاهد. وأخرجه أيضًا: ابن أبى شيبة (6/93، رقم 29740) ، والطبرانى فى الأوسط (5/210، رقم 5108) . قال الهيثمى (10/210) : رواه أحمد والطبرانى فى الأوسط، ورجالهما رجال الصحيح غير عاصم بن بهدلة وقد وثق. وقال المناوى (2/339) : قال الذهبى فى المهذب: سنده قوى.




فائدہ:
یہ حدیث اصل میں تو حقیقی اولاد کی دعا اور استغفار کے لیے وارد ہوئی ہے اگراولاد کے معنی میں روحانی اولاد کوضمنا شامل کردیا جائے تواللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قوی اُمید ہے کہ وہ روحانی اولاد مثلاً شاگرد اور مرید بلکہ عام مؤمن کی دعا سے بھی مؤمن کا درجہ جنت میں بڑھایا جائے گا اگراللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ان کی دعا کوقبول فرمائیں گے تو، (امداداللہ)۔


والدین کیلئے ایصالِ ثواب کی قرآنی دعا:
رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِىۡ وَلـِوَالِدَىَّ وَلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ يَوۡمَ يَقُوۡمُ الۡحِسَابُ  ۞ 
ترجمہ:
اس دن میری بھی مغفرت فرمائیے میرے والدین کی بھی،  اور ان سب کی بھی جو ایمان رکھتے ہیں۔

رَبِّ اغۡفِرۡلِىۡ وَلِـوَالِدَىَّ وَلِمَنۡ دَخَلَ بَيۡتِىَ مُؤۡمِنًا وَّلِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِؕ وَلَا تَزِدِ الظّٰلِمِيۡنَ اِلَّا تَبَارًا  ۞ 
ترجمہ:
میرے پروردگار ! میری بھی بخشش فرما دیجیے، میرے والدین کی بھی، ہر اس شخص کی بھی جو میرے گھر میں ایمان کی حالت میں داخل ہوا ہے۔ اور تمام مومن مردوں اور مومن عورتوں کی بھی۔۔۔۔۔۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى أَسْلَافِنَا وَأَفْرَاطِنَا، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، ‌الْأَحْيَاءِ ‌مِنْهُمْ وَالْأَمْوَاتِ۔
[المدونة-مالك بن أنس (م179ھ) : ج1 / ص252]




========================================

 *ایصالِ ثواب اور مرحوم والدین کا حق ادا کرنے کا طریقہ:*
جو شخص ایک مرتبہ یہ دعا پڑھے:
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلَهُ الْكِبْرِيَاءُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ، لِلَّهِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلَهُ الْعَظَمَةُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ، لِلَّهِ الْمُلْكُ رَبِّ السَّمَوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ وَرَبِّ الْعَالَمِينَ، وَلَهُ النُّورُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ۔

ثُمَّ قَالَ: اجْعَلْ ثَوَابَهَا لِوَالِدَيَّ؛ لَمْ يَبْقَ لِوَالِدَيْهِ عَلَيْهِ حَقٌّ إِلَّا أَدَّاهُ إِلَيْهِمَا۔
*پھر یہ (دعا) کہے کہ "(یا اللہ!) اس کا ثواب میرے والدین کو پہنچا دے"، اس نے والدین کا حق ادا کردیا۔*
[الترغيب في فضائل الأعمال-امام ابن شاهين(م385ھ)» حدیث نمبر 302]
[ھدیۃ الاحیاء للاموات-امام ابو الحسن الھکاری(م486ھ)» حدیث نمبر 19]
[الکلام علی وصول القرأۃ للمیت-امام ابن ابی السرور الحنبلی(م676ھ)» صفحہ#223]

========================================




باب: میت کی طرف سے ایصالِ ثواب کا بیان

بَاب وُصُولِ ثَوَابِ الصَّدَقَةِ عَنْ الْمَيِّتِ إِلَيْهِ

صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۲۳۱۶/ حدیث مرفوع

۲۳۱۶۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللہِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ حَدَّثَنَا هِشَامٌ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ رَجُلًا أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللہِ إِنَّ أُمِّيَ افْتُلِتَتْ نَفْسَهَا وَلَمْ تُوصِ وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ أَفَلَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا قَالَ نَعَمْ۔

۲۳۱۶۔ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن بشر، ہشام، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی یا رسول اللہؐ! میری والدہ بغیر وصیت کے فوت ہوگئی ہے اور میرا گمان ہے اگر وہ بات کرتی تو وہ صدقہ کرتی، اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اس کو ثواب ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں!۔








صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۲۳۱۷/ حدیث مرفوع

۲۳۱۷۔ حَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ ح و حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ح و حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ حَدَّثَنَا الْحَکَمُ بْنُ مُوسٰی حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحٰقَ کُلُّهُمْ عَنْ هِشَامٍ بِهٰذَا الْإِسْنَادِ وَفِي حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ وَلَمْ تُوصِ کَمَا قَالَ ابْنُ بِشْرٍ وَلَمْ يَقُلْ ذٰلِکَ الْبَاقُونَ۔

۲۳۱۷۔ زہیر بن حرب، یحیی بن سعید، ابوکریب، ابواسامہ، علی بن حجر، علی بن مسہر، حکم بن موسی، شعیب بن اسحاق، ہشام، ابواسامہ اسی حدیث کی دوسری اسناد ذکر کی ہیں۔

باب: ہر قسم کی نیکی پر صدقہ کا نام واقع ہونے کا بیان

بَاب بَيَانِ أَنَّ اسْمَ الصَّدَقَةِ يَقَعُ عَلَى كُلِّ نَوْعٍ مِنْ الْمَعْرُوفِ

 صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۲۳۱۸/ حدیث متواتر مرفوع

۲۳۱۸۔ حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ح و حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي مَالِکٍ الْأَشْجَعِيِّ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ عَنْ حُذَيْفَةَ فِي حَدِيثِ قُتَيْبَةَ قَالَ قَالَ نَبِيُّکُمْ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ کُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ۔

۲۳۱۸۔ قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، ابوبکر بن ابی شیبہ، عباد بن عوام، ابومالک اشجعی، ربعی بن حراش، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر نیکی صدقہ ہے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۲۳۱۹/ حدیث متواتر مرفوع

۲۳۱۹۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلٰی أَبِي عُيَيْنَةَ عَنْ يَحْيَی بْنِ عُقَيْلٍ عَنْ يَحْيَی بْنِ يَعْمَرَ عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ الدِّيلِيِّ عَنْ أَبِي ذَرٍّ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا رَسُولَ اللہِ ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالْأُجُورِ يُصَلُّونَ کَمَا نُصَلِّي وَيَصُومُونَ کَمَا نَصُومُ وَيَتَصَدَّقُونَ بِفُضُولِ أَمْوَالِهِمْ قَالَ أَوَ لَيْسَ قَدْ جَعَلَ اللہُ لَکُمْ مَا تَصَّدَّقُونَ إِنَّ بِکُلِّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةً وَکُلِّ تَکْبِيرَةٍ صَدَقَةً وَکُلِّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةً وَکُلِّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةً وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ وَنَهْيٌ عَنْ مُنْکَرٍ صَدَقَةٌ وَفِي بُضْعِ أَحَدِکُمْ صَدَقَةٌ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ أَيَأتِي أَحَدُنَا شَهْوَتَهُ وَيَکُونُ لَهٗ فِيهَا أَجْرٌ قَالَ أَرَأَيْتُمْ لَوْ وَضَعَهَا فِي حَرَامٍ أَکَانَ عَلَيْهِ فِيهَا وِزْرٌ فَکَذٰلِکَ إِذَا وَضَعَهَا فِي الْحَلَالِ کَانَ لَهٗ أَجْرًا۔

۲۳۱۹۔ عبد اللہ بن محمد بن اسماء ضبعی، مہدی بن میمون، واصل مولی ابی عیینہ، یحیی بن عقیل، یحیی بن یعمر، ابواسود دیلی، حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے کچھ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول! مالدار سب ثواب لے گئے اوہ نماز پڑھتے ہیں جیسا کہ ہم نماز پڑھتے ہیں وہ ہماری طرح روزہ رکھتے ہیں اور وہ اپنے زائد اموال سے صدقہ کرتے ہیں، آپ نے فرمایا کیا اللہ نے تمہارے لئے وہ چیز نہیں بنائی جس سے تم کو بھی صدقہ کا ثواب ہو ہر تسبیح ہر تکبیر صدقہ ہے ہر تعریفی کلمہ صدقہ ہے اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہنا صدقہ ہے اور نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے اور برائی سے منع کرنا صدقہ ہے تمہارے ہر ایک کی شرمگاہ میں صدقہ ہے، صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول کیا ہم میں کوئی اپنی شہوت پوری کرے تو اس میں بھی اس کے لئے ثواب ہے فرمایا کیا تم دیکھتے نہیں اگر وہ اسے حرام جگہ استعمال کرتا تو وہ اس کے لئے گناہ کا باعث ہوتا اسی طرح اگر وہ اسے حلال جگہ صرف کرے گا تو اس پر اس کو ثواب حاصل ہوگا۔



صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۲۳۲۰/ حدیث مرفوع

۲۳۲۰۔ حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ الرَّبِيعُ بْنُ نَافِعٍ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ عَنْ زَيْدٍ أَنَّهٗ سَمِعَ أَبَا سَلَّامٍ يَقُولُ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ فَرُّوخَ أَنَّهٗ سَمِعَ عَائِشَةَ تَقُولُ إِنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّهٗ خُلِقَ کُلُّ إِنْسَانٍ مِنْ بَنِي آدَمَ عَلٰی سِتِّينَ وَثَلَاثِ مِائَةِ مَفْصِلٍ فَمَنْ کَبَّرَ اللہَ وَحَمِدَ اللہَ وَهَلَّلَ اللہَ وَسَبَّحَ اللہَ وَاسْتَغْفَرَ اللہَ وَعَزَلَ حَجَرًا عَنْ طَرِيقِ النَّاسِ أَوْ شَوْکَةً أَوْ عَظْمًا عَنْ طَرِيقِ النَّاسِ وَأَمَرَ بِمَعْرُوفٍ أَوْ نَهَی عَنْ مُنْکَرٍ عَدَدَ تِلْکَ السِّتِّينَ وَالثَّلَاثِ مِائَةِ السُّلَامَی فَإِنَّهٗ يَمْشِي يَوْمَئِذٍ وَقَدْ زَحْزَحَ نَفْسَهُ عَنْ النَّارِ قَالَ أَبُو تَوْبَةَ وَرُبَّمَا قَالَ يُمْسِي۔

۲۳۲۰۔ حسن بن علی حلوانی، ابوتوبہ ربیع بن نافع، معاویہ بن سلام، زید، ابوسلام، عبد اللہ بن فروخ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بنی آدم میں سے ہر انسان کو تین سو ساٹھ جوڑوں سے پیدا کیا گیا ہے، جس نے اللہ کی بڑائی بیان کی اور اللہ کی تعریف کی اور تہلیل یعنی لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کہا اور اللہ کی تسبیح یعنی سُبْحَانَ اللہِ کہا اور اَسْتَغْفَرَ اللہَ کہا اور لوگوں کے راستہ سے پتھریا کانٹے یا ہڈی کو ہٹا دیا اور نیکی کا حکم کیا اور برائی سے منع کیا تین سو ساٹھ جوڑوں کی تعداد کے برابر اس دن چلتا ہے اس حال میں کہ  اس نے اپنی جان کو دوزخ سے دور کر لیا ہے، ابوتوبہ کی روایت ہے کہ وہ شام کو سب گناہوں سے پاک و صاف ہوگا۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۲۳۲۱/ حدیث مرفوع

۲۳۲۱۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الدَّارِمِيُّ أَخْبَرَنَا يَحْيَی بْنُ حَسَّانَ حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ أَخْبَرَنِي أَخِي زَيْدٌ بِهٰذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهٗ غَيْرَ أَنَّهٗ قَالَ أَوْ أَمَرَ بِمَعْرُوفٍ وَقَالَ فَإِنَّهٗ يُمْسِي يَوْمَئِذٍ۔

۲۳۲۱۔ عبد اللہ بن عبدالرحمن دارمی، یحیی بن حسان، معاویہ، زیداوپر والی حدیث ہی کی دوسری سند ذکر کی ہے الفاظ کے تغیر وتبدل کی طرف اشارہ کیا، معنی ومفہوم ایک ہی ہے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۲۳۲۲/ حدیث مرفوع

۲۳۲۲۔ حَدَّثَنِي أَبُو بَکْرِ بْنُ نَافِعٍ الْعَبْدِيُّ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ کَثِيرٍ حَدَّثَنَا عَلِيٌّ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَکِ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ عَنْ جَدِّهٖ أَبِي سَلَّامٍ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللہِ بْنُ فَرُّوخَ أَنَّهٗ سَمِعَ عَائِشَةَ تَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُلِقَ کُلُّ إِنْسَانٍ بِنَحْوِ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ عَنْ زَيْدٍ وَقَالَ فَإِنَّهٗ يَمْشِي يَوْمَئِذٍ۔

۲۳۲۲۔ ابوبکر بن نافع عبدی، یحیی بن کثیر، علی بن مبارک، یحیی، زید بن سلام، ابوسلام، عبد اللہ بن فروخ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہر انسان کو تین ساٹھ جوڑوں سے پیدا کیا گیا ہے، معاویہ عن زید کی حدیث کی طرح اور اس میں ہے کہ وہ اس دن شام کرتا ہے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۲۳۲۳/ حدیث متواتر مرفوع

۲۳۲۳۔ حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ شُعْبَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهٖ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ قِيلَ أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَجِدْ قَالَ يَعْتَمِلُ بِيَدَيْهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ وَيَتَصَدَّقُ قَالَ قِيلَ أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ قَالَ يُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ قَالَ قِيلَ لَهٗ أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ قَالَ يَأْمُرُ بِالْمَعْرُوفِ أَوِ الْخَيْرِ قَالَ أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَفْعَلْ قَالَ يُمْسِکُ عَنْ الشَّرِّ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ۔

۲۳۲۳۔ ابوبکر بن ابی شیبہ، ابواسامہ، شعبہ، سعید بن ابی بردہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر مسلمان پر صدقہ لازم ہے، عرض کیا گیا اگر یہ نہ ہو سکے تو کیا حکم ہے؟ فرمایا اپنے ہاتھوں سے کمائے اور اپنے آپ کو نفع پہنچائے اور صدقہ کرے، عرض کیا اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو کیا حکم ہے؟ فرمایا ضرورت مند مصیبت زدہ کی مدد کرے، آپ سے عرض کیا گیا اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نیکی کا حکم کرے اور یہ بھی نہ کر سکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا برائی سے رک جائے اس کے لئے یہ بھی صدقہ ہے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۲۳۲۴/ حدیث مرفوع

۲۳۲۴۔ حَدَّثَنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنّٰی حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ مَهْدِيٍّ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهٰذَا الْإِسْنَادِ۔

۲۳۲۴۔ محمد بن مثنی، عبدالرحمن بن مہدی، شعبہ اسی حدیث کی دوسری سند ذکر کی ہے۔
صحیح مسلم۔ جلد:۱/ پہلا پارہ/ حدیث نمبر:۲۳۲۵/ حدیث متواتر مرفوع

۲۳۲۵۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ هٰذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا وَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُلُّ سُلَامَی مِنَ النَّاسِ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ کُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيهِ الشَّمْسُ قَالَ تَعْدِلُ بَيْنَ الِاثْنَيْنِ صَدَقَةٌ وَتُعِينُ الرَّجُلَ فِي دَابَّتِهٖ فَتَحْمِلُهٗ عَلَيْهَا أَوْ تَرْفَعُ لَهٗ عَلَيْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ قَالَ وَالْکَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ وَکُلُّ خُطْوَةٍ تَمْشِيهَا إِلَی الصَّلَاةِ صَدَقَةٌ وَتُمِيطُ الْأَذٰی عَنْ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ۔

۲۳۲۵۔ محمد بن رافع، عبدالرزاق بن ہمام، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے ہر آدمی کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے، فرمایا دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا صدقہ ہے، آدمی کو اس کی سواری پر سوار کرنا یا اس کا سامان اٹھانا یا اس کے سامان کو سواری سے اتارنا صدقہ ہے اور پاکیزہ بات کرنا صدقہ ہے اور نماز کی طرف چل کر جانے میں ہر قدم صدقہ ہے اور راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔








ایصالِ ثواب کی چار صورتیں اور ان کا حکم؟

مجموعی طور پر ایصالِ ثواب کی چار صورتیں ہیں:
(۱) مرحومین کے لئے دُعاء، اس کے درست ہونے پر تمام علماء اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے؛ اس کی سب سے بڑی دلیل خود قرآن مجید ہے، جس میں اپنے متوفی دینی بھائیوں کے لئے بھی دُعاء کرنا سکھایا گیا ہے:

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ۔

(سورۃ الحشر:۱۰)

(۲) مالی عبادتوں یعنی صدقات اور قربانی وغیرہ کے ذریعہ اس کے جائز ہونے پربھی اہلِ سنت والجماعت کا اجماع واتفاق ہے، علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ائمہ اس بات پرمتفق ہیں کہ صدقہ کا ثواب میت کوپہونچتا ہے او رایسے ہی دوسری مالی عبادت کا جیسے غلام آزاد کرنا، اس سلسلہ میں صریح حدیث موجود ہے: ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، یارسول اللہ ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے؛ اگرمیں ان کی طرف سے صدقہ کروں توکیا ان کونفع پہونچے گا، آپ نے جواب دیا ہاں!؛ اسی طرح خود رسول اللہ  کا اپنی امت کی طرف سے قربانی کرنا ثابت ہے، ظاہر ہے کہ یہ بہ طور ایصالِ ثواب کے ہی تھا۔
(۳) حج کے ذریعہ ایصالِ ثواب بھی درست ہے، جومالی عبادت بھی ہے اور بدنی بھی، آپ نے ایک خاتون کواپنی مرحوم والدہ کی طرف سے حج کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے، حدیث کی کتابوں میں بہ صراحت ووضاحت اس کا ذکر موجود ہے۔
(۴) بدنی عبادات جیسے قرآن، نماز، روزہ، ان کا ثواب پہونچے گا یانہیں؟ اس میں اہلِ سنت والجماعت کے ائمہ کے درمیان اختلاف ہے، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بدنی عبادت کے ذریعہ ایصالِ ثواب درست نہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ انسان کے لئے وہی ہے جس کواس نے خود کیا ہے اور حنفیہ وحنابلہ اور مالکیہ کے نزدیک بدنی عبادات کے ذریعہ بھی ایصالِ ثواب جائز ہے اور اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ ایمان کے بارے میں انسان کا اپنا عمل ہی مفید ہے، باپ کا ایمان کافر بیٹے، یابیٹے کا ایمان کافر باپ کے لئے مفید نہیں، ان حضرات کی نگاہ احادیث پر ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت میں مرحوم کی طرف سے اس کے ولی کے روزہ رکھنے کا حکم نبی  منقول ہے:

مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ۔

(بخاری، كِتَاب الصَّوْمِ،بَاب مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ،حدیث نمبر:۱۸۱۶، شاملہ، موقع الإسلام)

ایک حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے مردہ پرسورہ یسٰیٰن پڑھنے کوفرمایا، ایک صاحب نے آپ  سے استفسار کیا کہ میں اپنے والدین کے ساتھ ان کی زندگی میں حسن سلوک کیا کرتا تھا اب کس طرح حسن سلوک کرسکتا ہوں؟ ارشاد فرمایا: مرنے کے بعد حسن سلوک یہ ہے کہ اپنی نماز کے ساتھ ساتھ ان دونوں کے لئے بھی نماز پڑھو اور اپنے روزہ کے ساتھ ساتھ اُن لوگوں کے لئے بھی روزہ رکھو۔
مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر مظہری میں آیت: وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّامَاسَعَىٰ کی تفسیر میں اس پرتفصیل سے گفتگو کی ہے اور ایصالِ ثواب سے متعلق روایات کوجمع فرمایا ہے؛ چونکہ عبادات بدنیہ سے ایصالِ ثواب کے ثبوت پربہ کثرت روایات منقول ہیں، اس لئے اکثر شوافع محققین نے بھی اس مسئلہ میں حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کی رائے کوقبول کیا ہے؛ غرض کہ عام طور پراہلِ سنت والجماعت کے نزدیک دُعا، بدنی عبادات، مالی عبادت، ومرکب بدنی ومالی عبادت سب سے ایصالِ ثواب درست ہے، خاتم الفقہاء علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: انسان کے لئے یہ درست ہے کہ اپنے عمل نماز یاروزہ یاصدقہ یااس کے علاوہ کا ثواب دوسرے کے لئے کردے، اہلِ سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے؛ البت آج کل پیسے لے کرآیت کریمہ اور ختم قرآن کا جوطریقہ مروج ہوگی اہے یادعوت کی وجہ سے قرآن پڑھ کرایصال ثواب کی جوصورت رواج پاگئی ہے، یہ درست نہیں، یہ توگویا آیات قرآنی کوفروخت کرنے کے مترادف ہے، علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے خوب نکتہ کی بات کہی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ جب آدمی پیسے لیکر قرآن پڑھے تواس کا یہ عمل اخلاص سے خالی ہونے کی وجہ سے خود ہی باعثِ ثواب باقی نہیں رہا اور جب یہ عمل باعثِ اجر ہوا ہی نہیں تودوسروں کوکیوں کراس کا ثواب پہونچایا جاسکتا ہے، ایسی باتوں سے بچنا چاہئے۔

بہترین ایصالِ ثواب کیا ہے؟

اکثرفقہاء کے نزدیک بدنی عبادت نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن اور مالی عبادت یعنی صدقہ، قربانی کے ذریعہ مردہ کوایصالِ ثواب کیا جاسکتا ہے؛ البتہ ایصالِ ثواب کا زیادہ بہتر طریقہ صدقہ ہے؛ کیونکہ صدقہ سے ایصالِ ثواب کے دُرست ہونے پراہلِ سنت والجماعت کا اتفاق ہے؛ پھرصدقہ میں بھی ایک ایسا صدقہ ہے جس کا اثر اور نفع کم وقت تک محدود ہوتا ہے، جیسے: کسی کوکھانا کھلادینا۔
صدقہ کی بعض صورتیں ایسی ہیں کہ ان کا نفع دیرپا ہوتا ہے، اسے صدقہ جاریہ سے تعبیر کیا گیا ہے، یہ ایصالِ ثواب کا سب سے بہتر طریقہ ہے، جیسے: مسجد یامدرسہ تعمیر کرادینا، کنواں کھودوانا وغیرہ، رسول اللہ  سے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے اور وہ ان کی طرف سے کچھ کرنا چاہتے ہیں تورسول اللہ صلی اللہ عنہ وسلم نے کنواں کھودوانے کا مشورہ دیا؛ توایسے صدقات کے ذریعہ ایصالِ ثواب جس کے نفع کا دائرہ وسیع ہو اور زیادہ دنوں تک لوگ اس سے فائدہ اُٹھاسکیں، سب سے افضل طریقہ ہے۔




=============================

قرآن مجید سے ایصالِ ثواب کی دلیل کیا ہے؟

انسان کواصل اجر تواپنے اعمال کا پہونچتا ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے انسان کودوسروں کے اعمال کا اجر بھی پہنچاتے ہیں، دعا اور صدقہ دوسرے کے حق میں نافع ہونے اور اس کا ثواب پہنچنے پرتواہلِ سنت والجماعت کا اتفاق ہے ہی، جمہور اہل سنت کے نزدیک قرأت قرآن اور دوسری بدنی عبادتوں کا ثواب بھی پہنچتا ہے؛ یہی بات حدیث سے معلوم ہوتا ہے، حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا:

سورۂ یٰسین قرآن کا قلب ہے، جوشخص اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کے لئے پڑھے گا اس کی مغفرت ہوگی؛ نیز تم اس سورت کو اپنے مردوں پر پڑھا کرو۔

ایک شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے والدین زندہ تھے تومیں ان کے ساتھ حسن سلوک کیا کرتا تھا، اب ان کی وفات ہوگئی، تواب میں ان کے ساتھ کس طرح سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا: اپنی نماز کے ساتھ ان دونوں کے لئے نماز پڑھو اور اپنے روزوں کے ساتھ ان دونوں کے لئے روزہ رکھو۔
وَأخرج أَبُو الْقَاسِم بن عَليّ الزنجاني فِي فَوَائده عَن أبي هُرَيْرَة قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم من دخل الْمَقَابِر ثمَّ قَرَأَ فَاتِحَة الْكتاب و {قل هُوَ الله أحد} و {أَلْهَاكُم التكاثر} ثمَّ اللَّهُمَّ إِنِّي جعلت ثَوَاب مَا قَرَأت من كلامك لأهل الْمَقَابِر من الْمُؤمنِينَ وَالْمُؤْمِنَات كَانُوا شُفَعَاء لَهُ إِلَى الله تَعَالَى
[شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور:303، التفسير المظهري:9/ 129، تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي:3/ 275]

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ  نے فرمایا: جوقبرستان میں داخل ہو، وہ سورہ فاتحہ ، قل ہو اللہ احد اور أَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرْ پڑھے اور کہے کہ میں نے اس پڑھے ہوئے کلام کا ثواب اہلِ قبرستان مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے کردیا، تووہ لوگ اس شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کے نزدیک سفارشی ہونگے۔


وَأخرج عبد الْعَزِيز صَاحب الْخلال بِسَنَدِهِ عَن أنس رَضِي الله عَنهُ أَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم قَالَ من دخل الْمَقَابِر فَقَرَأَ سُورَة يس خفف الله عَنْهُم وَكَانَ لَهُ بِعَدَد من فِيهَا حَسَنَات۔
[شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور:304، تفسير الثعلبي:8/ 119، تفسير مجمع البيان: 8/ 254، تفسير القرطبي:3/ 15، روح البيان:7/ 443، الكلام على وصول القراءة للميت:1/ 222، نفحات النسمات في وصول إهداء الثواب للأموات:1/ 221، تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي:3/ 275، الأجوبة المرضية:45(1/ 169)،  اللباب في الجمع بين السنة والكتاب:1/ 330]

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں، آپ  نے ارشاد فرمایا: جوقبرستان میں داخل ہو اور سورۂ یٰسین پڑھے تواللہ تعالیٰ ان سب یعنی قبرستان میں مدفون لوگوں سے عذاب کو ہلکا کردیتے ہیں اور اس کے لئے ان تمام لوگوں کے برابر نیکیاں ہوتی ہیں۔

ابن الجلاج رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے اپنے صاحب زادگان سے فرمایا: جب تم لوگ مجھے میری قبر میں داخل کرو توقبر میں رکھتے ہوئے کہوبِسْمِ اللہِ وَعَلَی سُنَّۃِ رَسُوْلِ اللہِ پھرمٹی ڈال دو اور میرے سرہانے سورۂ بقرہ کا ابتدائی اور آخری حصہ پڑھو؛ کیونکہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کودیکھا ہے کہ وہ اس عمل کوپسند فرماتے تھے؛ محدثین نے اس کی سند کومعتبر ومقبول مانا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن اور بدنی عبادتوں کے ذریعہ ایصال ثواب حدیث سے ثابت ہے اور یہی ائمہ اربعہ میں امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ کی رائے ہے اور فقہاء شوافع میں سے بھی بہت سے لوگ اسی کے قائل ہیں؛ البتہ پیشہ ورانہ طریقہ پر پیسے لے کرقرآن مجید پڑھنا جائز نہیں اور اس کا ثواب نہیں پہنچتا؛ کیونکہ ثواب تو ایسے عمل پر ہوتا ہے جس میں اخلاص ہو، جوعمل اخلاص سے خالی ہو وہ خود لائق ثواب نہیں اور جوعمل خود ہی لائقِ ثواب نہ ہو اس کا ثواب دوسروں کو کیوں کر ایصال کیا جاسکتا ہے؟ یہی بات مشہور فقیہ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے۔


قرآن سے ایصالِ ثواب کے دلائل

(1) عن عبد الرحمن بن العلاء بن اللجلاج قال : قال لي أبي : يا بني ، إذا مت فالحد لي لحدا ، فإذا وضعتني في لحدي فقل : بسم الله وعلى ملة رسول الله صلى الله عليه وسلم ، ثم شن التراب علي شنا، ثم اقرأ عند رأسي بفاتحة البقرة وخاتمتها ، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ذلك . (رواه الطبراني في الكبير ، ورجاله موثقون)

ترجمہ:
حضرت عبدالرحمان کہتے ہیں کہ میرے والد (العلاء بن اللجلاج) نے مجھے وصیت کرتے ہوئے کہا کہ جب میں مرجاؤں تو میرے لئے لحد بناؤ اور جس وقت مجھے لحد میں رکھو تو "بسم الله وعلى ملة رسول الله صلى الله عليه وسلم" کہو، اس کے بعد مجھ پر مٹی ڈال دو، پھر میرے سرہانے سورہ البقرہ کا شروع اور آخر پڑھو، کیونکہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایسا کہتے ہوئے سنا ہے، (اس حدیث کو امام طبرانیؒ نے اپنی کتاب "المعجم الکبیر" میں روایت کیا ہے، اور اس کے رجال (یعنی روایت کرنے والے) قابلِ اعتماد ہیں.)
(2) حضرت ابن عمرؓ سے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوۓ سنا :
«‌إِذَا ‌مَاتَ ‌أَحَدُكُمْ فَلَا ‌تَحْبِسُوهُ، وَأَسْرِعُوا بِهِ إِلَى قَبْرِهِ، وَلْيُقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِهِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، وَعِنْدَ رِجْلَيْهِ بِخَاتِمَةِ الْبَقَرَةِ فِي قَبْرِهِ»۔
ترجمہ:
جب تم میں سے کسی کا انتقال ہوجاۓ تو اسے روکے مت رکھو، جلدی سے اس کی قبر میں پہونچادو، اور چاہیے کہ (تدفین کے بعد) اس کے سراہنے سورہ البقرہ کی ابتدائی آیات اور پائنتی اس کی آخری آیات پڑھ دی جاۓ.

]المعجم الكبير للطبراني:780(13613)، شعب الإيمان:(8854) 2/1230 ، الدر المنثور،للسيوطي :1/70، شرح الصدور للسيوطي:ص41، الموسوعة الفقهية الكويتية:16/42]
قال الحافظ «رواه الطبراني بإسناد حسن» (فتح الباري3/ 184) والتلخيص الحبير (2/ 135).
ترجمہ:
حافظ ابن حجرؒ نے فرمایا : "طبرانی نے اسے حسن سند سے روایت کیا ہے" (فتح الباري3/ 184) والتلخيص الحبير (2/ 135).



====================
(3) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ شَاذَانَ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنِي أَبِي، ثنا عَلِيُّ بْنُ مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، مُوسَى ، عَنْ أَبِيهِ، جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِيهِ، مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ الْحُسَيْنِ، عَنْ أَبِيهِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‌‌«مَنْ مَرَّ عَلَى ‌الْمَقَابِرِ ‌وَقَرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ إِحْدَى عَشْرَةَ مَرَّةً، ثُمَّ وَهْبَ أَجْرَهُ لِلْأَمْوَاتِ أُعْطِيَ مِنَ الْأَجْرِ بِعَدَدِ الْأَمْوَاتِ»
ترجمہ:
حضرت حسینؓ اپنے ابو حضرت علی بن ابی طالبؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
”جو شخص قبرستان سے گزرا اور قبرستان میں گیارہ مرتبہ قل ہو اللہ شریف پڑھ کر مُردوں کو اس کا ایصالِ ثواب کیا تو اسے مُردوں کی تعداد کے مطابق ثواب عطا کیا جائے گا۔”
[فضائل سورة الإخلاص-للحسن الخلال(م439ھ) :54 ، بستان الواعظين-ابن الجوزي(م597ھ)338، جامع الأحاديث:23962، الرافعی:2/297، تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي:3/275]
(دارقطنی، الرافعی(2/297)، عن علی، کنز العمال ج:۱۵ ص:۶۵۵ (٨/١٠٠)، حدیث:۴۲۵۹۵، اتحاف ج:۱۰ ص:۳۷۱، شرح الصدور للسيوطي:: ص:303، اعلاء السنن : ٨/٢١١)






(4)وَأخرج أَبُو الْقَاسِم بن عَليّ الزنجاني فِي فَوَائده عَن أبي هُرَيْرَة قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: من ‌دخل ‌الْمَقَابِر ثمَّ قَرَأَ فَاتِحَة الْكتاب و {قل هُوَ الله أحد} و {أَلْهَاكُم ‌التكاثر} ثمَّ اللَّهُمَّ إِنِّي جعلت ثَوَاب مَا قَرَأت من كلامك لأهل الْمَقَابِر من الْمُؤمنِينَ وَالْمُؤْمِنَات كَانُوا شُفَعَاء لَهُ إِلَى الله تَعَالَى.
ترجمہ:
جو شخص قبرستاں میں داخل ہو، اس کے بعد سورۃ الفاتحۃ ، قل ھو اللہ احد اور الھٰکم التکاثر پڑھے، اس کے بعد کہے کہ اے اللہ! میں نے جو تیرا کلام پڑھا ہے، اس کا ثواب میں نے اس قبرستان کے مسلمان مرد اور عورتوں کو بخشدیا تو وہ (سورتیں) اللہ کے ہاں اس کی شفاعت کریں گی۔
[شرح الصدور للسيوطي:ص130، تفسير المظهري:9/129، مرقاة المفاتيح:9/1228(1717)، تحفة الأحوذي:3/275، مطالب أولي النهى في شرح غاية المنتهى:1/936، أحكام تمني الموت:1/75]
[الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي:2/ 1569، الناشر: دار الفكر - سوريَّة - دمشق]







(5)عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى قَالَ:" مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ فَقَرَأَ سُورَةَ يس خَفَّفَ اللَّهُ عَنْهُمْ يَوْمَئِذٍ وَكَانَ لَهُ بِعَدَدِ حروفها حسنات".
ترجمہ:
جو کوئی قبرستان جائے اور سورۃ یٰس پڑھے(تو)ہلکا کردے گا اللہ ان سے عذاب اور ہوں گی پڑھنے والے کیلئے اس کے حروف کی تعداد کے موافق نیکیاں۔
]شرح الصدور للسيوطي:ص130، تفسير القرطبي: 15/3، تفسير المظهري:9/129، مرقاة المفاتيح:3/1228(1717)، تحفة الأحوذي:3/275، أحكام تمني الموت:1/75]







قرأتِ قرآن برائے ایصال ثواب:


          اہل السنة والجماعة کا اتفاق ہے کہ نفل عبادت مالی ہو یا بدنی اس کا ثواب ہدیہ کرنا یعنی دوسرے کو پہنچانا درست ہے اور اسے پہنچتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عمر حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عمرہ کیاکرتے تھے۔ ابن مُوفَّق نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ستر(۷۰) حج کیے ہیں۔ ابن السراج نے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دس ہزار مرتبہ قرآن ختم فرمائے اور اسی کے بقدر قربانی کی ہے(شامی،ج۳،ص۱۵۲دراصل اہداءِ ثواب کے ذریعہ میت کو نفع پہونچانا ایک مقصد شرعی ہے اور اعمال صالحہ اسی مقصد کے حصول کے طُرُق ہیں؛ چنانچہ قرأتِ قرآن کا معمول اس مقصد کے لیے بھی امت میں تسلسل کے ساتھ قائم ہے؛ بلکہ حضرات صحابہٴ کرام سے اس کا ثبوت موجود ہے، علامہ ابن القیّم جوزی نے اپنی کتاب ”الرُّوح“ میں امام شعبی سے نقل کیا ہے: کانت الانصارُ اذا ماتَ لہم المیتُ اختلفوا الی قبرہ ویقرء ون عِنْدَہ القرآنَ اور امام نووی نے یوں نقل کیا ہے کانت الانصارُ اذا حضروا عندَ المیت قرء وا سورةَ البقرة(الروح،ص۹۳، البتیان، مرقاة المفاتیح،ج۴،ص۱۹۸اور اتنا تو خود صاحبِ شریعت  صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے ․․․ ویقرأ عند رأسِہ فاتحةَ الکتاب وعند رجلَیْہ بخاتمةَ البقرة(مشکوة المصابیحاِس قرأتِ قرآن للمیت کے سلسلہ میں احادیث وآثار کا حاصل اور امت کا عمل کیا رہا ہے مُلا علی قاری کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے: الاحادیثُ المذکورةُ وہی اِن کانتْ ضعیفةً فمجموعُہا یَدُلُّ علی أن لذلک أصلاً واَن المسلمین ما زالوا فی کلِ عصرٍ و مصرٍ یجتمعونَ ویقرء ونَ لِموتاہُمْ مِنْ غیرِ نَکِیْرٍ فکان ذلک اِجماعاً(مرقاة،ج۴،ص۱۹۹پس تلاوتِ قرآن برائے ایصالِ ثواب اجتماعاً کی اصل خیرالقرون میں موجود ہے اورامت کا اس پر عمل بھی رہا ہے؛ لہٰذا بغیر کسی چیز کے التزام کے اجتماعی تلاوت کو ۔ نہ تو بدعت کہہ سکتے ہیں اورنہ ہی رسم قبیح۔ حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی بآواز بلند یا پست کے جواب میں لکھتے ہیں ”الجواب حامداً ومصلیا: افضل تو یہی ہے کہ جب ایک جگہ مجمع قرآن شریف پڑھے تو سب آہستہ پڑھیں الخ ، ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: یہ سب قید (تاریخ، دن، چیز، ہیئت اورآیت وسورة کی تخصیص) ختم کردیا جائے کہ یہ شرعاً بے اصل ہے صحابہ نے بغیر ان قیدوں کے ثواب پہنچایا ہے“(فتاوی محمودیہ،جلد اوّل قدیم)۔

جو عامی شخص اس تعیینِ عادی کو توقیتِ شرعی جانے اور گمان کرے کہ ان کے علاوہ دنوں میں ایصالِ ثواب ہوگا ہی نہیں،یا جائز نہیں،یا ان ایام میں ثواب دیگر ایام سے زیادہ کامل ووافر ہے،تو بلا شبہ وہ شخص غلط کار اور جاہل ہے اور اس گمان میں خطاکار اور صاحبِ باطل ہے۔(فتاویٰ رضویہ جدید:۹/۹۵۱)


مولانا مودودی صاحب کا موقف

جناب مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب فرماتے ہیں:

”اگر کوئی مالی یا بدنی عبادت اللہ تعالیٰ کے لیے کی جائے اور بزرگانِ دین میں سے کسی کو اس غرض کے لیے اس کا ثواب ایصال کیا جائے کہ وہ بزرگ اس ہدیے سے خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ہدیہ بھیجنے والے کے سفارشی بن جائیں،تو یہ ایک ایسا مشتبہ فعل ہے، جس میں جواز وعدمِ جواز؛ بلکہ گناہ اور فتنے کی سرحدیں ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط ہو جاتی ہیں اور میں کسی پرہیزگار آدمی کو یہ مشورہ نہ دونگا کہ وہ اپنے آپ کو اس خطرے میں ڈالے۔

رہے وہ کھانے جو صریحاً کسی بزرگ کے نام پر پکائے جاتے ہیں اورجن کے متعلق بالفاظِ صریح یہ کہا جاتا ہے: یہ فلاں بزرگ کی نیاز ہے اورجن کے متعلق پکانے والے کی نیت بھی یہی ہوتی ہے کہ یہ ایک نذرانہ ہے،جو کسی بزرگ کی روح کو بھیجا جارہا ہے اور جن سے متعلق ہمارے یہاں طرح طرح کے آداب مقرر ہیں اور بے حرمتی،کی مختلف شکلیں ممنوع قرار پاتے ہیں اور ان نیازوں کی برکات اور فوائد کے متعلق گہرے عقائد پائے جاتے ہیں،تو مجھے ان کے حرام اورگناہ ہونے؛ بلکہ عقیدہٴ توحید کے خلاف ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے“۔(رسائل ومسائل:۲/۲۰۸)

سير اعلام النبلاء جزء 1 ص 122

أخبرنا إسماعيل بن أحمد الحيري قال أنبأنا محمد بن الحسين السلمي قال سمعت أبا الحسن بن مقسم يقول سمعت أبا علي الصفار يقول سمعت إبراهيم الحربي يقول قبر معروف الترياق المجرب أخبرني أبو إسحاق إبراهيم بن عمر البرمكي قال نبأنا أبو الفضل عبيد الله بن عبد الرحمن بن محمد الزهري قال سمعت أبي يقول قبر معروف الكرخي مجرب لقضاء الحوائج ويقال إنه من قرأ عنده مائة مرة قل هو الله أحد وسأل الله تعالى ما يريد قضى الله له حاجته حدثنا أبو عبد الله محمد بن علي بن عبد الله الصوري قال سمعت أبا الحسين محمد بن أحمد بن جميع يقول سمعت أبا عبد الله بن المحاملي يقول اعرف قبر معروف الكرخي منذ سبعين سنة ما قصده مهموم الا فرج الله همه


تاريخ بغداد جزء 1 ص 122 -123

أخبرنا إسماعيل بن أحمد الحيري قال أنبأنا محمد بن الحسين السلمي قال سمعت أبا الحسن بن مقسم يقول سمعت أبا علي الصفار يقول سمعت إبراهيم الحربي يقول قبر معروف الترياق المجرب أخبرني أبو إسحاق إبراهيم بن عمر البرمكي قال نبأنا أبو الفضل عبيد الله بن عبد الرحمن بن محمد الزهري قال سمعت أبي يقول قبر معروف الكرخي مجرب لقضاء الحوائج ويقال إنه من قرأ عنده مائة مرة قل هو لله أحد وسأل الله تعالى ما يريد قضى الله له حاجته حدثنا أبو عبد الله محمد بن علي بن عبد الله الصوري قال سمعت أبا الحسين محمد بن أحمد بن جميع يقول سمعت أبا عبد الله بن المحاملي يقول اعرف قبر معروف الكرخي منذ سبعين سنة ما قصده مهموم الا فرج الله همه
(جاری ہے)
“من حج عن ابیہ وامہ فقد قضی عنہ حجتہ وکان لہ فضل عشر حجج۔”
(دارقطنی، عن جابر، فیض القدیر ج:۶ ص:۱۱۶)

ترجمہ:…”جس شخص نے اپنے باپ یا اپنی ماں کی طرف سے حج کیا، اس نے مرحوم کا حج ادا کردیا، اور اس کو دس حجوں کا ثواب ہوگا۔”

(یہ دونوں حدیثیں ضعیف ہیں، اور دُوسری حدیث میں ایک راوی نہایت ضعیف ہے)


ایصالِ ثواب کے خلاف استدلالات کے جوابات

ایصالِ ثواب جائز ہے اور ایک سورت کا ثواب چند مردوں کوبخشا جائے تواس میں دونوں قول ہیں، باری تعالیٰ کے فضل کے لائق یہ ہے کہ سب کوپوری پوری سورت کا ثواب پہونچے، ایصالِ ثواب بدعت نہیں؛ بلکہ خیرالقرون سے اس پرعمل جاری ہے، حضور اکرم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کواس کی تلقین فرمائی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے؛ نیزبعد کے حضرات نے اپنے اعزہ کے لئے ایصالِ ثواب کیا ہے، اس مسئلہ میں اتنی وسعت سے روایات ہیں کہ ان کا شمار دشوار ہے، خود نبی کریم  نے اُمت کی طرف سے قربانی کی صوم، صلوٰۃ، صدقہ، حج، قرأت، اضحیہ سب ہی کا احادیث میں ثواب پہونچانا ثابت ہے، ہدایہ میں ہے:

لِمَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أَنَّهُ ضَحَّى بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ أَحَدَهُمَا عَنْ نَفْسِهِ وَالْآخَرَ عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِوَحْدَانِيَّةِ اللَّهِ تَعَالَى وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ۔

(الھدایۃ، كِتَابُ الْحَجِّ، بَابُ الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ، حدیث نمبر:۴۷۲۳، صفحہ نمبر:۳/۱۵۳، المکتبۃ المکیۃ)

اس حدیث کی تخریج زیلعی میں سات صحابہؓ سے کی گئی ہے؛ شیخ ابن ہمام نے اس کوحدیث مشہور قرار دے کرفرمایا ہے:

يَجُوزُ تَقْيِيدُ الْكِتَابِ بِهِ۔

(فتح القدیر، كِتَابُ الْحَجِّ،بَابُ الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ:۳/۱۴۳، مصطفی البابی، الحلبی، مصر)

نیز دارِقطنی کی روایت ہے:

أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: كَانَ لِي أَبَوَانِ أَبَرُّهُمَا حَالَ حَيَاتِهِمَا فَكَيْفَ لِي بِبِرِّهِمَا بَعْدَ مَوْتِهِمَا؟ فَقَالَ لَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إنَّ مِنْ الْبِرِّ بَعْدَ الْمَوْتِ أَنْ تُصَلِّيَ لَهُمَا مَعَ صَلَاتِكَ، وَتَصُومَ لَهُمَا مَعَ صِيَامِكَ۔

ترجمہ:

’’ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کے ساتھ کیسے نیکی کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اُن کی موت کے بعد اگر کوئی نیکی ہے تو وہ یہ ہے کہ تو اپنی نماز کے ساتھ اُن کے لیے بھی نماز پڑھے اور اُن کے لیے اپنے روزوں کے ساتھ روزے رکھے اور اپنے صدقہ کے ساتھ اُن کی طرف سے بھی صدقہ کرے۔‘‘
[مصنف ابن أبي شيبة:12084، عمدة القاري شرح صحيح البخاري : 3 / 119، تحفة الأحوذي شرح سنن الترمذي-المبارکفوري: 3 / 276.]

(فتح القدیر، كِتَابُ الْحَجِّ،بَابُ الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ:۳/۱۴۳، مصطفی البابی، الحلبی، مصر)

حضرت علی رضی اللہ عنہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم  کا ارشاد نقل فرماتے ہیں:

مَنْ مَرَّ عَلَى الْمَقَابِرِ، وَقَرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ إحْدَى عَشْرَةَ مَرَّةً ثُمَّ وَهَبَ أَجْرَهَا لِلْأَمْوَاتِ أُعْطِيَ مِنْ الْأَجْرِ بِعَدَدِ الْأَمْوَاتِ۔

ترجمہ:
…”جو شخص قبرستان سے گزرا اور قبرستان میں گیارہ مرتبہ قل ہو اللہ شریف پڑھ کر مُردوں کو اس کا ایصالِ ثواب کیا تو اسے مُردوں کی تعداد کے مطابق ثواب عطا کیا جائے گا۔”

(أخرجہ السیوطیؒ فی شرح الصدور، باب فی قرأۃ القرآن للمیت:۳۰۳، دارالمعرفۃ، بیروت)

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا:

يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِذَا نَتَصَدَّقُ عَنْ مَوْتَانَا وَنَحُجُّ عَنْهُمْ وَنَدْعُوْ لَهُمْ فَهَلْ يَصِلُ ذَالِکَ إِلَيْهِمْ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَيَفْرَحُوْنَ بِهِ کَمَا يَفْرَحُ أَحَدُکُمْ بِالطَّبَقِ إِذَا أُهْدِيَ إِلَيْهِ.

ترجمہ:

’’اے الله کے رسول ! اگر ہم اپنے فوت ہونے والوں کے لیے صدقہ کریں اور حج کریں اور ان کے لیے دعا کریں تو کیا ان سب چیزوں کا ثواب ان کو پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اور وہ اِس سے اِس طرح خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی کسی کو طشتری تحفے میں دے تو وہ خوش ہوتا ہے۔‘‘

[أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119]

(فتح القدیر، كِتَابُ الْحَجِّ،بَابُ الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ:۳/۱۴۳، مصطفی البابی، الحلبی، مصر)

ان سب کونیز دیگراحادیث وآثار کونقل کرکے (فتح القدیر، كِتَابُ الْحَجِّ،بَابُ الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ:۳/۱۴۳، مصطفی البابی، الحلبی، مصر) میں لکھا ہے:

فَهَذِهِ الْآثَارُ وَمَاقَبْلَهَا وَمَافِي السُّنَّةِ أَيْضًا مِنْ نَحْوِهَا عَنْ كَثِيرٍ قَدْتَرَكْنَاهُ لِحَالِ الطُّولِ يَبْلُغُ الْقَدْرَ الْمُشْتَرَكَ بَيْنَ الْكُلِّ، وَهُوَأَنَّ مَنْ جَعَلَ شَيْئًا مِنْ الصَّالِحَاتِ لِغَيْرِهِ نَفَعَهُ اللَّهُ بِهِ مَبْلَغَ التَّوَاتُرِ، وَكَذَا مَافِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى مِنْ الْأَمْرِ بِالدُّعَاءِ لِلْوَالِدَيْنِ فِي قَوْله تَعَالَى {وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا} وَمِنْ الْإِخْبَارِ بِاسْتِغْفَارِ الْمَلَائِكَةِ لِلْمُؤْمِنِينَ قَالَ تَعَالَى {وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِمَنْ فِي الْأَرْضِ} وَقَالَ تَعَالَى فِي آيَةٍ أُخْرَى {الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا} وَسَاقَ عِبَارَتَهُمْ { رَبَّنَا وَسِعْت كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ} إلَى قَوْلِهِ {وَقِهمْ السَّيِّئَاتِ} قَطْعِيٌّ فِي حُصُولِ الِانْتِفَاعِ بِعَمَلِ الْغَيْرِ فَيُخَالِفُ ظَاهِرَ الْآيَةِ الَّتِي اسْتَدَلُّوا بِهَا، وَھِیَ {وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إلَّامَاسَعَى} إذْظَاهِرُهَا أَنَّهُ لَايَنْفَعُ اسْتِغْفَارُ أَحَدٍ لِأَحَدٍ بِوَجْهٍ مِنْ الْوُجُوهِ لِأَنَّهُ لَيْسَ مِنْ سَعْيِهِ فَلَايَكُونُ لَهُ مِنْهُ شَيْءٌ فَقَطَعْنَا بِانْتِفَاءِ إرَادَةِ ظَاهِرِهَا عَلَى صِرَافَتِهِ فَتَتَقَيَّدُ بِمَا لَمْ يَهَبْهُ الْعَامِلُ۔

(فتح القدیر، كِتَابُ الْحَجِّ،بَابُ الْحَجِّ عَنْ الْغَيْرِ:۳/۱۴۳، مصطفی البابی، الحلبی، مصر)

آیتِ مذکورہ سے استدلال کا جواب بھی واضح ہوگیا، حافظ عینیؒ نے شارح ہدایہ اور زیلعیؒ نے شرح کنز میں اور طحطاویؒ نے شرح مراقی الفلاح میں معتزلہ کی اس دلیل کے آٹھ جوابات دیئے ہیں، ابن قیمؒ نے تو کتاب الروح گویا کہ اس قسم کے مسائل کے لئے ہی تصنیف کی ہے اور ہرعنوان پرسیر حاصل بحث کی ہے، آثار السنن میں مستقل بَابُ قِرَأَۃِ الْقُرْآنِ لِلْمَیِّتِ منعقد کیا گیا ہے، دوسری اور تیسری اور چوتھی آیت سے جواستدلال کیا گیا ہے وہ بالکل بے محل ہے، ان آیات کو مسئلہ مذکورہ سے کوئی علاقہ نہیں۔


















ایصال ثواب اور مروّجہ قرآن خوانی کا حکم



مومن کے عمل کا اجر وثواب
موٴمن اس عارضی دنیوی زندگی میں اپنی موت سے پہلے پہلے جو بھی نیک کام کرے گا؛ چاہے اپنی زبان سے ہو کہ ہاتھ سے یا اپنے مال کے ذریعہ اس کا ثواب ضرور پائے گا یعنی عمل کا اجر اس کے نامہٴ اعمال میں لکھا جائے گا؛ لیکن مرنے کے بعد عمل کا دفتر بند ہوجاتا ہے اور ایک لمحہ کے لیے بھی کوئی عمل کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے؛ اس لیے نیکیوں پر اجر و ثواب کا سلسلہ بھی ختم ہوجاتا ہے؛ البتہ چند اعمال واسباب ایسے ہیں کہ مرنے کے بعد بھی اس کا اجر میت کو پہنچتا رہتا ہے (یہی حال اس کے برے عمل اور گناہ کا ہے) حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اذا مات ابن آدم انقطع عملہ الا من ثلاث صدقة جاریة أو علم ینتفع بہ أو ولد صالح یدعو لہ (رواہ مسلم) جب انسان مرجاتا ہے تو اس کا عمل بند ہوجاتا ہے؛ مگر تین چیزیں: (۱) ایک صدقہٴ جاریہ یعنی ایسا صدقہ جس سے زندہ لوگ نفع حاصل کرتے رہیں (۲) دوسری ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں (۳) تیسری ایسی نیک اولاد جو اپنے والدین کے لیے دعا کرتی رہے، ان تین قسم کے اعمال کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یعنی اس کے نامہٴ اعمال میں لکھا جاتا رہے گا۔
ایک دوسرے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں ارشاد فرمایا: ان مما یلحق الموٴمن عملہ وحسناتہ بعد موتہ علمًا علّمہ ونشرہ أو ولدًا صالحا ترکہ أو مصحفا ورّثہ أو مسجدًا بناہ أو بیتاً لابن السبیل بناہ أو نہرًا اجراہ أو صدقة أخرجہا من مالہ فی صحتہ وحیاتہ تلحقہ من بعد موتہ (الترغیب، ص۱۹۶/۱ عن ابن ماجہ)بے شک موٴمن کے عمل اور اس کی نیکیوں میں سے جس کا ثواب موٴمن کو اس کے مرنے کے بعد پہنچتا رہتا ہے: (۱) وہ علم ہے جو اس نے دوسرے کو سکھایا اور پھیلایا (۲) یا نیک اولاد جو اس نے چھوڑی ہے (۳) یاقرآن پاک کا کسی کو وارث بنایا یعنی تلاوت کے لیے وقف کردیا (۴) یا مسجد تعمیر کی (۵) یا مسافر کے لیے کوئی سرائے یعنی مسافر خانہ بنایا (۶) یا نہر جاری کی (۷) یا اپنے مال میں سے نفلی صدقہ نکالا، تندرستی اور زندگی میں تو ان چیزوں کا اجر وثواب مرنے کے بعد بھی میت کو پہنچتا رہے گا۔
ایصال ثواب اور اس کے اغراض
جس طرح میت کو اپنے بعض اعمال کا اجر وثواب پہنچتے رہنا متعدد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اور اہل ایمان کا ان احادیث پر عمل بھی پایاجاتا ہے، اسی طرح میت کو کسی نیک عمل کے ذریعہ نفع پہنچانا اور میت کا اس سے نفع اٹھانا احادیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ مثلاً حضرت انس بن مالک نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یا رسول اللہ! ہم اپنے مُردوں کے لیے دعا کرتے ہیں، ان کے لیے صدقہ کرتے ہیں اور ان کی طرف سے حج کرتے ہیں، کیا ان اعمال کا ثواب ان مُردوں تک پہنچتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو ثواب پہنچتا ہے اور وہ اس سے خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی خوش ہوتا ہے، جب اسے کھجور کا طبق ہدیہ کیا جائے۔ ایک اور حدیث میں ہے جس شخص نے اپنے والدین یا دونوں میں سے ایک کی قبر کی زیارت کی اور قبر کے پاس یٰسین شریف پڑھی تو اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔
ایصال ثواب کا منشا عموماً یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے میت سے عذاب میں تخفیف کردیتے ہیں یا دور فرمادیتے ہیں، کبھی میت کے درجات کی بلندی یا میت پر شفقت وترحم ہوتا ہے، کبھی اس کا مقصد والدین کی طاعت ہوتا ہے اور کبھی میت کے حق کی ادائیگی یااس کے احسان کا بدلہ دینا ہوتا ہے۔ اور ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ خود ایصال ثواب کرنے والا اجر وثواب کا مستحق ہو۔ یہ سب دینی مقاصد ہیں جو احادیث میں مذکور ہیں، جیسے حدیث شریف میں آیاہے کہ جو شخص قبرستان گیا اور یٰسین شریف پڑھی تو اللہ تعالیٰ اس دن مردوں سے عذاب میں تخفیف کرتے ہیں اور مُردوں کی تعداد کے برابرپڑھنے والے کو اجر دیتاہے۔ بہرحال ایصال ثواب ایک شرعی مقصد ہے۔
تنبیہ: میت کو نفع پہنچانے اورپہنچنے کے ذرائع میں سے ولد صالح کااپنے والدین کے لیے دعا کرنا یا دوسرے اشخاص کا میت کے لیے دعائے مغفرت کرنا بھی ایصال ثواب کے حکم کلی شرعی میں داخل ہے، جیساکہ مذکورہ احادیث میں اس کا ذکر صراحتاً موجود ہے۔
ایصال ثواب کے مختلف طریقے
ایصال ثواب چاہے مالی عبادت کے ذریعہ ہو، جیسے صدقات و خیرات کرنا یا مسکین و حاجت مند کو کھلانا، پلانا (یا پہنانا یا ان کی کوئی اور ضرورت پوری کرنا) یا بدنی عبادت سے ہو، جیسے نفل نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن وذکر واعتکاف اور طواف یا نفل حج یا عمرہ ایسے عمل کے ذریعہ ہو جس سے مخلوق کو نفع پہنچے اور اللہ کا قرب حاصل ہو، جیسے کنواں یا نہر کھدوانا (آج کل بورنگ کردینا) یا پل یا مسافرخانہ بنوانا، پھلدار یا سایہ دار درخت لگانا، مسجد کی تعمیر کرنا یا مصحف شریف یعنی قرآن مجید کو تلاوت کے لیے وقف کرنا یا اولاد کو دینی تعلیم دلانا وغیرہ ان سب چیزوں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اوراس سے میت کو خوشی وراحت ملتی ہے۔
پس فرائض کے سوا ہر نیک عمل سے چاہے کرتے وقت مُردوں کی طرف سے نیت کی ہو یا کرکے اس کا ثواب بخشا جائے اور ثواب چاہے کسی خاص میت کو بخشے یاتمام مومنین کو اور چاہے عمل کرنے والا تنہا کرے یا چند افراد مل کر انجام دیں ہر طرح مُردوں کو نفع پہنچانا درست اور ثابت ہے؛ بلکہ زندوں کو بھی ثواب بخشنا درست اور جائز ہے۔ الاصل اَنَّ کلمَن اَتی بعبادةٍ مّا أی سواء کانت صلاةً أو صومًا أو صدقةً أو قراء ةً أو ذکرًا أو طوافًا أو حجًا أو عمرةً ․․․جمیع أنواع البر (شامی وبحر) الافضل لمن یتصدق نفلاً اَن ینوی لجمیع المومنین والمومنات لانہا تصل الیہم ولا ینقص من أجرہ شیء ہو مذہب أہل السنة والجماعة (شامی) اصل یہ ہے کہ جو کوئی کسی قسم کی عبادت کرے خواہ نماز ہو یاروزہ یا صدقہ یاقرأت قرآن یا ذکر یا طواف یا حج یا عمرہ․․․․ ہر طرح کی نیکیوں کا ثواب پہنچانا درست ہے اور ایصال ثواب کرنے والے کے لیے بہتر یہ ہے کہ تمام مومنین اور مومنات کی نیت کرے؛ اس لیے کہ سب کو بھیجے ہوئے نیک عمل کا پورا ثواب پہنچتا ہے، بھیجنے والے کے اجر میں سے کچھ کم نہیں کیا جاتا، یہی اہل السنة والجماعة کا مذہب ہے۔ فہذہ الآثار وما قبلہا وما فی السنة أیضاً من نحوہا عن کثیر قد ترکناہ لحال الطول یبلغ القدر المشترک بین الکل وہو من جعل شیئًا من الصالحات لغیرہ نفعہ اللّٰہ بہ مبلغ التواتر(فتح القدیر صفحہ۱۴۲:۳) علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ احادیث و آثار بکثرت ہیں طوالت کی وجہ سے ہم نے ترک کردیا، ان سب سے قدر مشترک ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص کسی بھی نیک عمل کا ثواب دوسرے کو پہنچائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو ضرور نفع دے گا یہ بات یقینی ہے۔
ایصال ثواب کے لیے قرأتِ قرآن
قرآن پاک کی تلاوت چاہے انفرادی طور پر ہو یا کسی جگہ اکٹھے ہوکر دونوں طرح صحیح اور مستحسن ہے۔ تلاوتِ قرآن کی اصل غایت تو رضائے الٰہی ہے؛ لیکن دوسرے مقاصد خیر کے لیے بھی قرآن کریم کا پڑھنا احادیث وآثار سے ثابت ہے؛ چنانچہ ایصال ثواب کے لیے جو ایک شرعی مقصد ہے، قرآن کریم کا پڑھنا خیرالقرون کے زمانہ سے جاری اور صحابہٴ کرام کی ایک جماعت سے ثابت ہے۔ حدیث شریف میں ہے: ان لکل شیء قلب وقلب القرآن یسین فاقروٴہا علی موتاکم ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے، قرآن پاک کا دل سورئہ یٰسین ہے، پس اسے مردوں پر پڑھا کرو؛ اس لیے میت کے لیے یٰسین شریف پڑھنا اور پڑھوانا دونوں درست ہے۔ (فتح القدیر) محی السنہ امام نووی اپنی کتاب ”التبیان فی آداب حملة القرآن“ میں انصار مدینہ کا ایک معمول نقل کرتے ہیں الأنصار اذا حضروا عند المیت قروٴا سورة البقرة انصار مدینہ جب میت کے پاس حاضر ہوتے تو سورئہ بقرہ پڑھا کرتے تھے۔ مشہور شارحِ مشکوٰة ملا علی قاری جلیل القدر تابعی امام شعبی کا قول نقل کرتے ہیں کانت الأنصار اذا مات لہم المیت اختلفوا الی قبرہ یقروٴن القرآن (مرقات صفحہ ۱۹۸:۴) علامہ ابن القیم  نے بھی اپنی کتاب ”الروح/۹۳“ میں امام شعبی کا قول ذکر کیا ہے، یعنی انصار میں جب کسی کا انتقال ہوتا تو اس کی قبر پر جاتے اور قرآن پڑھتے تھے۔ اس سلسلہ میں مختلف احادیث وآثار ذکر کرکے ملا علی قاری لکھتے ہیں الأحادیث المذکورة وہی ان کانت ضعیفة فمجموعہا یدل علی أن لذلک اصلاً وان المسلمین ما زالوا فی کل عصر ومصر یجتمعون ویقروٴن لموتاہم مِن غیر نکیر فکان ذلک اجماعًا یعنی میت کے ایصال ثواب کے لیے قرأتِ قرآن کی مذکورہ احادیث اگرچہ ضعیف ہیں؛ مگر مجموعہ دلالت کرتا ہے کہ اس کی اصل موجود ہے؛ چنانچہ مسلمان ہر زمانہ اور شہر میں جمع ہوتے ہیں اور اپنی میت کے لیے قرآن پڑھتے ہیں، پس عملاً یہ اجماع ہوگیا۔ (مرقات، ص:۱۹۹:۴) اور جب خیرالقرون؛ بلکہ ایک جماعت صحابہ سے اس کا ثبوت موجود ہے، تو پھر ایصال ثواب کے لیے اجتماعی قرأتِ قرآن کو بدعت نہیں کہا جائے گا؛ البتہ اگر خلاف شرع کسی پابندی کے ساتھ کیا جائے تو پھر ممنوع کہلائے گا۔
مروّجہ قرآن خوانی کا حکم فتاویٰ کی روشنی میں
عوام میں پائی جانے والی قرآن خوانی کئی پابندیوں اور لازم کیے ہوئے امور کے ساتھ ہوا کرتی ہے، جن کی شریعت میں کوئی اصل خیرالقرون میں نہیں ملتی، ایسی خلاف شرع پابندی اور التزام والی قرآن خوانی قابل ترک ہے، اس میں شرکت بھی ممنوع ہے۔
(۱) امام ربّانی فقیہ عصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی تحریر فرماتے ہیں: ”ثواب میت کو پہنچانا بلا قید وتاریخ وغیرہ اگر ہوتو عین ثواب ہے اور جب تخصیصات اور التزامات مروّجہ ہوں تو نادرست اور باعث مواخذہ ہوجاتاہے“ (فتاویٰ رشیدیہ)
(۲) حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری مفتی اعظم گجرات تحریر فرماتے ہیں: رسم ورواج کی پابندی اور برادری کی مروت اور دباؤ کے بغیر اور کوئی مخصوص تاریخ اور دین معین کیے بغیر اور دعوت کا اہتمام اور اجتماعی التزام کے بغیر میت کے متعلقین، خیرخواہ اور عزیز واقرباء ایصال ثواب کی غرض سے جمع ہوکر قرآن خوانی کریں تو یہ جائزہے ممنوع نہیں ہے۔ (فتاویٰ رحیمیہ۳۸۹/۱)
(۳) حضرت مولانا سیدزوّار حسین نقشبندی اپنی کتاب ”عمدة الفقہ“ میں لکھتے ہیں: قرأت قرآن کے لیے قبر کے پاس بیٹھنا نیز قرآن شریف پڑھنے کے لیے حافظوں اور قرآن خوانوں کو بٹھانا بھی بلاکراہت جائز ہے؛ جبکہ پڑھنے والے اجرت پرنہ پڑھتے ہوں اور پڑھوانے والے کو اجرت (دینے) کا خیال نہ ہو۔ (عمدة الفقہ،ص:۵۳۶/۲)
(۴) حضرت فقیہ الامت مفتی اعظم ہند مفتی محمودحسن گنگوہی تحریر فرماتے ہیں: الجواب حامدا ومصلیا ”افضل تو یہی ہے کہ جب ایک جگہ مجمع قرآن شریف پڑھے تو سب آہستہ پڑھیں؛ لیکن زور سے پڑھیں تب بھی گنجائش ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ص:۲۵/۱) ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: ایصال ثواب میں نہ تاریخ کی قید ہے کہ شب برأت ۱۵/شعبان، ۱۰/محرم اور ۱۲/ربیع الاوّل ہو۔ نہ ہیئت کی قید ہے کہ چنوں پر کلمہ طیبہ پڑھا جائے یا کھانا سامنے رکھ کر فاتحہ دی جائے۔ نہ سورتوں وآیتوں کی تخصیص ہے کہ قل اور پنج آیات ہو اورنہ کسی اور قسم کی قید ہے یہ سب قید ختم کردیا جائے کہ یہ شرعاً بے اصل ہے، صحابہ نے بغیر ان قیدوں کے ثواب پہنچایا ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ، ص:۲۰۶/۱ قدیم)
(۵) حضرت مفتی احمد بیمات خلیفہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی تحریر فرماتے ہیں: الجواب حامداً ومصلیاً۔ جب کسی دن یا تاریخ کو لازم نہ کیاجائے کھانے پینے کا مستقل انتظام نہ کیا جائے نیز اسے ایسا ضروری اور لازم نہ سمجھا جائے کہ اس قرآن خوانی میں شریک نہ ہونے والے پر طعن و تشنیع کی جائے تو بغرض ایصال ثواب جائزہے؛ اس لیے کہ ایصال ثواب کا ثبوت متعدد احادیث سے ہے۔ فقط: واللہ اعلم بالصواب (فتاویٰ فلاحیہ، ص:۴۰۸/۱)
قرآن خوانی میں خلاف شرع امور سے احتراز
حدیث و فقہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایصال ثواب کے لیے مالی عبادتوں کا طریقہ زیادہ نفع بخش ہے کہ اس سے عام انسان کو بھی نفع ہوتا ہے اور میت کو بھی اجر وثواب پہنچتا رہتا ہے؛ البتہ قرأت قرآن (قرآن خوانی) کے ذریعہ ایصال ثواب کیا جائے، تو پھر فقہ وفتاویٰ کی روشنی میں چند امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
(۱) قرآن پڑھنے یا پڑھوانے پراجرت مقرر نہ کی جائے اورنہ اجرت لی جائے۔ بہت سے علاقہ میں قرآن خوانی کرانے والے حافظ وغیرہ سے کم یا زیادہ پڑھنے پر معاوضہ کی پیش کش کرتے ہیں اور کبھی پڑھنے والے خود ہی معاوضہ طے کرتے ہیں اور بعض مرتبہ بغیر طے کیے ہدیہ کے نام پر دیا جاتا ہے؛ چونکہ قرآن خوانی کرانے والے کے دل میں ہوتا ہے کہ نذرانہ دینا ہوگا اور پڑھنے والے کے دل میں ہوتا ہے کہ نذرانہ ضرور ملے گا؛ اس لیے یہ نذرانہ (ہدیہ) بھی جسے مجلس کے بعد پیش کرنے کا رواج ہے اجرت کے مشابہ ہے؛ لہٰذا یہ سب صورت ناجائز ہے اور اس طرح پڑھنے پر اجر وثواب نہیں ملتا ہے، تو ایصال ثواب کیسے ہوگا؟
(۲) قرآن خوانی میں شرکت کرنا برادری مروت کے دباؤ یا بدنامی کے ڈر سے نہ ہو اسی طرح قرآن خوانی میں شریک نہ ہونے والے پر کوئی طعن وملامت نہ کیا جائے۔ قرآن خوانی میں شرکت کرنے والے عموماً برادری مروت کی وجہ سے بیٹھتے ہیں، کبھی قرآن خوانی کرانے والوں کے طعن وملامت سے بچنے کے لیے شریک ہوتے ہیں، ایسی قرآن خوانی سے تو بہتر یہ ہے کہ کسی غریب ومسکین اور مستحق کی حاجت ضروریہ پوری کرکے اس کا ثواب میت کو پہنچایا جائے۔
(۳) انتقال کے بعد قرأت قرآن کے لیے دنوں کی تخصیص نہ ہو جیسے تیسرے دن اور دسویں دن میں قرآن خوانی کرنا پھر چالیسویں دن میں کرنا پھر سال پورا ہونے پرکرنا۔ عوام کے نزدیک یہ تیجہ، چہلم اور برسی وغیرہ ایسے متعین ہیں کہ ذرا بھی اس میں خلاف نہیں کیاجاتا، اسی طرح قرآن خوانی کے لیے تاریخ متعین نہ ہو مثلاً ۲۷ویں رجب، ۱۵ویں شعبان، دسویں محرم، ۱۲ویں ربیع الاوّل وغیرہ۔ اگر دن یا تاریخ کے التزام کے ساتھ قرآن خوانی کی جاتی ہے تو پھر یہ شرع کے خلاف ہے، اس میں شرکت ممنوع ہے؛ بلکہ اسے بند کرنے کی سعی کی جائے۔
(۴) خاص ہیئت کے ساتھ، خاص سورتیں اور خاص آیتوں کے پڑھنے کو ضروری قرار نہ دیا جائے جیسے کھانا سامنے رکھ کر چاروں قل اور پنج آیات پڑھ کر ایصال ثواب کرنا؛ کیونکہ ثواب کا پہنچنا اس طریقہ پر موقوف نہیں ہے، اگر اس طرح کیا جائے گا تو یہ طریقہ صحیح نہ ہونے کی وجہ سے قابل ترک ہوگا۔
(۵) مجلس قرآن خوانی کے بعد شریک ہونے والوں کو کھلانا یا پلانا یا شیرینی تقسیم کرنے کا التزام نہ ہو۔ عام طور سے قرآن خوانی کے بعد کم از کم شیرینی (یعنی کوئی بھی میٹھی چیز پھل یا مٹھائی یا نان خطائی وغیرہ) تقسیم کرنے کو لازم سمجھتے ہیں اور بعض مرتبہ شریک ہونے والے اگر شیرینی تقسیم نہ کی جائے تو طنز کرتے ہیں، یہ دونوں صورتیں غلط ہیں اور قابل اصلاح ہیں۔
(۶) قرآن خوانی میں شرکت کرنے والے کا مقصد شہرت وتفاخر یا دنیوی جاہ ومنصب کاحصول ہے یا قرآن پڑھوانے والا خود ہی شہرت وتفاخر کے لیے کررہاہے تو یہ بھی جائز نہیں ہے، ایسی صورت میں دونوں فریق قابل موٴاخذہ ہیں ثواب تو کہاں ملے گا؟
حاصل یہ کہ کسی کے انتقال پر ایصال ثواب کے لیے شریعت میں مختلف طریقے ہیں، کسی بھی طریقہ پر عمل کیا جاسکتا ہے؛ البتہ ایسا طریق اختیار کیا جائے تو بہتر ہے جس سے عام لوگوں کو تادیر فائدہ حاصل ہوتا رہے اورمیت کو بھی اس کا اجر وثواب پہنچتا رہے اور ختم قرآن کرنا یا کم از کم یٰسین شریف پڑھنا یا پڑھوانا بھی درست ہے، شرط یہ ہے کہ خلاف شرع قید وپابندی نہ ہو چاہے مسجد میں ہو یا گھر میں۔ زمانہٴ سلف سے اس کا معمول جاری ہے؛ چنانچہ مدارسِ دینیہ میں بھی کسی شخصیت کے انتقال پر اگر قرآن خوانی ہوتی ہے تو وہ مذکورہ قیود وپابندیوں سے خالی ہواکرتی ہے؛ اس لیے ایسی پاکیزہ قرآن خوانی کے جائز؛ بلکہ مستحسن ہونے میں کوئی شک نہیں ہے، اکابر علمائے دیوبند اور اسلاف کے واقعات میں اس کا ذکر موجود ہے۔ مثلاً حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے صاحب زادے ریاست دکن کے قاضی مولانا حافظ محمد احمد نانوتوی کا جب انتقال ہوا، اس وقت برصغیر کے سیکڑوں مدارس میں؛ جبکہ ہزاروں کبار علماء موجود تھے، ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی گئی۔ (تفصیل کے لیے دارالعلوم دیوبند کی سالانہ روئداد ملاحظہ ہو) لہٰذا بعض اہل علم کا ایصال ثواب کے لیے مطلقاً اجتماعی قراء ت قرآن کو بدعت قرار دینا صحیح نہیں ہے۔
البتہ خواہش پرستوں نے اِس عمل صالح میں مختلف پابندیاں لگادی ہیں، جو شرع کے خلاف ہیں اور عوام میں ایسی ہی قرآن خوانی کا رواج چل رہاہے اور لوگ ان پابندیوں کے نبھانے کو ضروری سمجھتے ہیں اس لیے احادیث وفتاویٰ کی روشنی میں ایسی مروّجہ قرآن خوانی قابلِ اصلاح ہے۔ دین کا صحیح فہم رکھنے والے سنجیدہ اور بااثر حضرات کو چاہیے کہ خلاف شرع امور سے اپنے علاقے کے لوگوں کو روکنے کی جدوجہد فرمائیں۔
$ $ $


چہل حدیث ایصال ثواب

1. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

وفي رواية : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما وَإِنْ کَانَ عَلَيْهِ نَذْرٌ قَضٰی عَنْهُ وَلِيُّهُ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصوم، باب من مات وعليه صوم، 2 / 690، الرقم : 1851، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 803، الرقم : 1147، وأبو داود في السنن، کتاب الصيام، باب فيمن مات وعليه صيام، 2 / 315، الرقم : 2400-2401، وأيضًا في کتاب الأيمان والنذور، باب ما جاء فيمن مات وعليه صيام صام عنه وليه، 3 / 237، الرقم : 3311، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 175، الرقم : 2919.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی فوت ہو جائے اور اس کے ذمہ روزے (باقی) ہوں تو اُس کا ولی اس کی طرف سے وہ روزے رکھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس (فوت ہونے والے) پر کسی نذر کا پورا کرنا باقی ہو (جو اس نے مانی تھی) تو اُسے اس کی طرف سے اس کا ولی پوری کرے۔‘‘

اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

2. عَنْ عَاءَشِةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ رَجُـلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَکَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

وَرَوَاهُ مُسْلِمٌ فِي بَابِ وُصُوْلِ ثَوَابِ الصَّدَقَاتِ إِلَی الْمَيِتِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب موت الفجأة البغتة، 1 / 467، الرقم : 1322، ومسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم : 1004، وأبوداود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء فيمن مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم : 2881، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب إذا مات الفجأة هل يستحب لأهله أن يتصدقوا عنه، 6 / 250، الرقم : 3649، وابن ماجه في السنن، کتاب الوصايا، باب من مات ولم يوصی هل يتصدق عنه، 2 / 906، الرقم : 2717.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا : میری والدہ اچانک فوت ہو گئی ہے اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ (بوقت نزع) گفتگو کر سکتی تو صدقہ (کی ادائیگی کا حکم) کرتی. اگر میں اس کی طرف سے خیرات کروں تو کیا اسے ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

امام مسلم نے ’’صدقات کے ثواب کا فوت شدگان کو پہنچنا‘‘ کے باب میں یہ حدیث نقل کی ہے۔

3. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ، جَاءَتْ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ : إِنَّ أُمِّي نَذَرَتْ أَنْ تَحُجَّ، فَلَمْ تَحُجَّ حَتّٰی مَاتَتْ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ حُجِّي عَنْهَا، أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلٰی أُمِّکِ دَيْنٌ أَکُنْتِ قَاضِيَةً؟ اقْضُو اﷲَ، فَاﷲُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإحصار وجزاء الصيد، باب الحج والنذور عن الميت، والرّجل يحجّ عن المرأة، 2 / 656، الرقم : 1754، والنسائي في السنن، کتاب مناسک الحج، باب الحج عن الميت الذي نذر أن يحج، 5 / 116، الرقم : 2632، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 346، الرقم : 3041.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ (قبیلہ) جُہَینہ کی ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کیا : میری والدہ نے حج کی منت مانی تھی لیکن وہ حج نہ کر سکی یہاں تک کہ فوت ہوگئی. کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں تم اس کی طرف سے حج کرو. بھلا بتاؤ تو اگر تمہاری والدہ پر قرض ہوتا تو کیا تم اسے ادا نہ کرتیں؟ پس اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرو کیونکہ وہ زیادہ حق دار ہے کہ اُس کا قرض ادا کیا جائے۔‘‘

اِسے امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ رضي اﷲ عنهما تُوُفِّيَتْ أُمُّهُ وَهُوَ غَائِبٌ عَنْهَا فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ وَأَنَا غَائِبٌ عَنْهَا، أَيَنْفَعُهَا شَيءٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ. قَالَ : فَإِنِّي أُشْهِدُکَ أَنَّ حَائِطِيَ الْمِخْرَافَ صَدَقَةٌ عَلَيْهَا.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوصايا، باب إذا قال أرضي أو بستاني صدقة عن أمي فهوجائز، 3 / 1013، الرقم : 2605، وعبد الرزاق في المصنف، 9 / 159، الرقم : 16337، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 18، الرقم : 537، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 278، الرقم : 12411، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 615.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا اور وہ اس وقت موجود نہ تھے۔ وہ بارگاہِ رسالت میں عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوگیا ہے اور میں اُس وقت حاضر نہ تھا، اگر میں ان کی طرف سے کوئی صدقہ و خیرات کروں تو کیا انہیں ثواب پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں. حضرت سعد عرض گزار ہوئے کہ میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرا مخراف نامی باغ ان کی طرف سے صدقہ ہے۔‘‘

اِسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَجُـلًا قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ أُمِّي تُوُفِّيَتْ أَفَيَنْفَعُهَا إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَإِنَّ لِي مَخْرَفًا فَأُشْهِدُکَ أَنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهِ عَنْهَا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَبِهِ يَقُوْلُ أَهْلُ الْعِلْمِ يَقُوْلُوْنَ : لَيْسَ شَيْءٌ يَصِلُ إِلَی الْمَيِتِ إِلَّا الصَّدَقَةُ وَالدُّعَاءُ. وَقَدْ رَوَی بَعْضُهُمْ هٰذَا الْحَدِيْثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِيْنَارٍ عَنْ عِکْرِمَةَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم مُرْسَلًا.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 56، الرقم : 669، وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في من مات وصية يتصدق عنه، 3 / 118، الرقم : 2882، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 252، الرقم : 3655، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 370، الرقم : 3504.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہو چکی ہے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں تو کیا وہ اسے کوئی نفع دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! اس آدمی نے عرض کیا : میرے پاس ایک باغ ہے، آپ گواہ رہیں کہ میں نے یہ باغ اس کی طرف سے صدقہ کر دیا.‘‘

اِسے امام ترمذی، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے، اور علماء کا یہی قول ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’میت کو صرف صدقہ اور دعا پہنچتی ہے۔ بعض محدثین نے یہ حدیث بواسطہ حضرت عمرو بن دینار اور حضرت عکرمہ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے۔

6. عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رضی الله عنه أَنَّهُ قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : اَلْمَاءُ. قَالَ : فَحَفَرَ بِئْرًا، وَقَالَ : هٰذِهِ لِأُمِّ سَعْدٍ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب في فضل سقي المائ، 2 / 130، الرقم : 1681، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 41، الرقم : 1424، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1 / 362، الرقم : 1912.

’’حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! اُمّ سعد (یعنی میری والدہ ماجدہ) کا انتقال ہوگیا ہے۔ سو (ان کی طرف سے) کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانی (پلانا) تو انہوں نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا : یہ اُمّ سعد کا کنواں ہے۔‘‘

اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

7. عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رضی الله عنه أَنَّ أُمَّهُ مَاتَتْ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ، أَفَأَتَصَدَّقُ عَنْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : سَقْيُ الْمَاءِ. فَتِلْکَ سِقَايَةُ سَعْدٍ أَوْ آلِ سَعْدٍ بِالْمَدِيْنَةِ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.

أخرجه النسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب ذکر اختلاف علی سفيان، 6 / 254-255، الرقم : 3662-3666، وابن ماجه في السنن، کتاب الأدب، باب فضل صدقة المائ، 2 / 1214، الرقم : 3684، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 284، الرقم : 22512، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 20، الرقم : 5379.

’’حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن کی والدہ فوت ہو گئیں تو انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میری والدہ فوت ہوگئی ہے، کیا میں ان کی طرف سے صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں! انہوں نے عرض کیا : تو کونسا صدقہ بہتر رہے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانی پلانا. (تو انہوں نے ایک کنواں خرید کر مسلمانوں کے لئے وقف کر دیا.) پس یہ کنواں مدینہ منورہ میں سعد یا آل سعد کی پانی کی سبیل (کے نام سے مشہور) تھا.‘‘

اِسے امام نسائی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔

8. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَکَ مَالًا وَلَمْ يُوْصِ. فَهَلْ يُکَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟ قَالَ : نَعَمْ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب وصول ثواب الصدقات إلی الميت، 3 / 1254، الرقم : 1630، والنسائي في السنن، کتاب الوصايا، باب فضل الصدقة عن الميت، 6 / 251، الرقم : 3652، وابن ماجه في السنن، کتاب الوصايا، باب من مات ولم يوص هل يتصدق عنه، 2 / 206، الرقم : 2716، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 371، الرقم : 8828.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے مال چھوڑا ہے، لیکن اُنہوں نے وصیت نہیں کی. اگر میں اُن کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا یہ (صدقہ) اُن کے گناہوں کا کفّارہ ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں.‘‘ اِسے امام مسلم، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

9. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ : إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ فَقَالَ : أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ، أَکُنْتِ تَقْضِيْنَهُ؟ قَالَتْ : نَعَمْ. قَالَ : فَدَيْنُ اﷲِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 804، الرقم : 1148، وابن حبان في الصحيح، 8 / 299، 335، الرقم : 3530، 3570، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 255، الرقم : 8012.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور اُن پر ایک ماہ کے روزے واجب ہیں. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ بتاؤ اگر اُس پرکچھ قرض ہوتا تو کیا تم اُس کی طرف سے وہ قرض ادا کرتیں؟ اُس عورت نے عرض کیا : ہاں. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس اﷲ تعالیٰ زیادہ حقدار ہے کہ اس کا قرض (پہلے) ادا کیا جائے۔‘‘ اِسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

10. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، إِذَا أَتَتْهُ امْرَأَةٌ. فَقَالَتْ : إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلٰی أُمِّي بِجَارِيَةٍ وَإِنَّهَا مَاتَتْ. قَالَ : فَقَالَ : وَجَبَ أَجْرُکِ. وَرَدَّهَا عَلَيْکِ الْمِيْرَاثُ. قَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّهُ کَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ. أَفَأَصُوْمُ عَنْهَا؟ قَالَ : صُوْمِي عَنْهَا. قَالَتْ : إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ. أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ : حُجِّي عَنْهَا.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب قضاء الصيام عن الميت، 2 / 805، الرقم : 1149، والترمذي في السنن، کتاب الزکاة، باب ما جاء في المتصدّق يرث صدقته، 3 / 54، الرقم : 667، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 66-67، الرقم : 6314-6316، وابن ماجه في السنن، کتاب الصدقات، باب من تصدق بصدقه ثم ورثها، 2 / 800، الرقم : 2394، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 349، 351، 359، 361، الرقم : 23006، 23021، 23082، 23104.

’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک عورت آئی اور عرض کیا : میں نے اپنی ماں کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی اور اب میری ماں فوت ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں ثواب مل گیا اور وراثت نے وہ باندی تمہیں لوٹا دی. اس عورت نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے (بھی باقی) تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے روزے رکھو. اس نے عرض کیا : میری ماں نے حج بھی کبھی نہیں کیا تھا کیا میں اس کی طرف سے حج بھی ادا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اس کی طرف سے حج بھی ادا کرو (اسے ان سب اعمال کا ثواب پہنچے گا).‘‘

اِسے امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

11. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : جَاءَ تِ امْرَأَةٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اﷲِ، إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ. قَالَ : أَرَأَيْتِ لَوْ کَانَ عَلٰی أُخْتِکِ دَيْنٌ، أَکُنْتِ تَقْضِيْنَهُ؟ قَالَتْ : بَلٰی، قَالَ : فَحَقُّ اﷲِ أَحَقُّ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

أخرجه النسائي في السنن الکبری، 2 / 173-174، الرقم : 2912-2915، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام من نذر، 1 / 559، الرقم : 1758.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میری بہن کا انتقال ہوگیا ہے اور اس پر دو ماہ کے روزے باقی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تیری بہن پر قرض ہوتا تو کیا تو ادا کرتی؟ اُس نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کا حق زیادہ ادا کرنے کے لائق ہے۔‘‘

اِسے امام نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

12. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فََقَالَ : إِنَّ أُخْتِي مَاتَتْ وَلَمْ تَحُجَّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ فَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : أَرَأَيْتَ لَوْ کَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ، فَاﷲُ أَحَقُّ بِالْوَفَاءِ.

رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

أخرجه ابن حبان في الصحيح، باب الکفارة، 9 / 306، الرقم : 3993، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 339، الرقم : 14724.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا : میری بہن وفات پا چکی ہے اور اُس نے حج نہیں کیا تھا تو کیا میں اُس کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر اس پر قرض ہوتا تو تم یقینا ادا کر دیتے، پس اللہ تعالیٰ وفاء کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘

اِسے امام ابن حبان اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ أَبِيْهَا مَاتَ وَلَمْ يَحُجَّ. قَالَ : حُجِّيْ عَنْ أَبِيکِ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.

أخرجه النسائي في السنن، کتاب الحج، باب الحج عن الميت الذی لم يحج، 5 / 116، الرقم : 2634، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 87، الرقم : 5877، وأيضًا في المعجم الکبير، 18 / 284، الرقم : 727، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 10 / 213.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : میرے والد فوت ہو گئے ہیں اور اُنہوں نے حج ادا نہیں کیا تھا. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اپنے والد کی طرف سے حج کر لے۔‘‘ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔

14. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامُ شَهْرٍ فَلْيُطْعَمْ عَنْهُ مَکَانَ کُلِّ يَوْمٍ مِسْکِيْنًا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء من الکفارة، 3 / 96، الرقم : 718، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب من مات وعليه صيام رمضان قد فرط فيه، 1 / 558، الرقم : 1757، وابن خزيمه في الصحيح،3 / 273، الرقم : 2056.

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص وفات پا جائے اور اُس کے ذمہ رمضان شریف کے روزے باقی ہوں تو اُس کی طرف سے ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔‘‘

اِسے امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

15. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : إِذَا مَرِضَ الرَّجُلُ فِي رَمَضَانَ ثُمَّ مَاتَ وَلَمْ يَصُمْ أُطْعِمَ عَنْهُ وَلَمْ يَکُنْ عَلَيْهِ قَضَاءٌ وَإِنْ نَذْرٌ قَضٰی عَنْهُ وَلِيُّهُ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب فيمن مات وعليه صيام، 2 / 315، الرقم : 2401، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 256، الرقم : 8021.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : جب کوئی شخص رمضان میں بیمار ہو جائے پھرصحت یاب نہ ہو بلکہ مر جائے تو اس کی جانب سے کھانا کھلایا جائے اور اس کے اوپر قضا نہیں ہے۔ اور اگر اس نے نذر مانی ہو تو اس کا ولی اس کی نذر پورا کرے .‘‘ اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

16. عَنْ حَنَشٍ قَالَ : رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِکَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ : مَا هٰذَا؟ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الضحايا، باب الأضحية عن الميت، 3 / 94، الرقم : 2790، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 702، الرقم : 1200، وأبو يعلی في المسند، 1 / 355، الرقم : 459، والحاکم في المستدرک، 4 / 255، الرقم : 7556.

’’حنش کا بیان ہے کہ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو دنبے قربانی کرتے دیکھا تو عرض کیا : یہ کیا ہے؟ اُنہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنی طرف سے قربانی کرنے کی وصیت فرمائی تھی. چنانچہ (ارشادِ عالی کے تحت) میں (ہمیشہ) ایک قربانی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے پیش کرتا ہوں.‘‘

اِسے امام ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔

17. عَنْ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ صَالِحٍ قَالَ : سَمِعْتُ أَبِي يَقُوْلُ : انْطَلَقْنَا حَاجِّيْنَ فَإِذَا رَجُلٌ فَقَالَ لَنَا : إِلٰی جَنْبِکُمْ قَرْيَةٌ يُقَالُ لَهَا الْأُبُلَّةُ، قُلْنَا : نَعَمْ، قَالَ : مَنْ يَضْمَنُ لِي مِنْکُمْ أَنْ يُصَلِّيَ لِي فِي مَسْجِدِ الْعَشَّارِ رَکْعَتَيْنِ أَوْ أَرْبَعًا وَيَقُوْلَ : هٰذِهِ لِأَبِي هُرَيْرَةَ. سَمِعْتُ خَلِيْلِي رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ اﷲَ يَبْعَثُ مِنْ مَسْجِدِ الْعَشَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُهَدَاءَ لَا يَقُوْمُ مَعَ شُهَدَاءِ بَدْرٍ غَيْرُهُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الملاحم، باب في ذکر البصرة، 4 / 113، الرقم : 4308.

’’ابراہیم بن صالح بن درہم کا بیان ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد کو فرماتے ہوئے سنا : ہم حج کے ارادے سے گئے تو ایک آدمی نے ہم سے کہا : کیا تمہارے ایک طرف اُبلّہ نامی بستی ہے؟ ہم نے کہا : ہاں. اس نے کہا : تم میں سے کون ہے جو مجھے اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ مسجد عشار میں میرے لیے دو یا چار رکعتیں پڑھے اور کہے کہ ان کا ثواب ابو ہریرہ کے لیے ہے؟ میں نے اپنے خلیل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مسجد عشار سے ایسے شہیدوں کو اُٹھائے گا کہ شہدائے بدر کے ساتھ اُن کے سوا کوئی اور کھڑا نہ ہوگا.‘‘ اِسے امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔

18. عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ نَذَرَ فِي الْجَاهِلِيَةِ أَنْ يَنْحَرَ مِاءَةَ بَدَنَةٍ وَأَنَّ هِشَامَ بْنَ الْعَاصِ نَحَرَ حِصَّتَهُ خَمْسِيْنَ بَدَنَةً، وَأَنَّ عَمْرًوا سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ ذَالِکَ. فَقَالَ : أَمَّا أَبُوْکَ فَلَوْ کَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيْدِ فَصُمْتَ وَتَصَدَّقْتَ عَنْهُ نَفَعَهُ ذَالِکَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 181، الرقم : 6704.

’’حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیںکہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! عاص بن وائل نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اُونٹنیوں کی قربانی کریں گے اور ہشام بن العاص نے اپنے باپ کی طرف سے پچاس اونٹنیوں کی قربانی کی تو کیا اس کا ثواب اُنہیں ملے گا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا باپ توحید کو ماننے والا تھا اور تم نے اس کی طرف سے روزے رکھے یا صدقہ کیا تو یہ اسے نفع پہنچائیں گے۔‘‘ اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

19. عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيْهِ عَنْ جَدِّهِ أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ الْعَاصَ بْنَ وَائِلٍ کَانَ نَذَرَ فِي الْجَاهِلِيَةِ أَنْ يَنْحَرَ مِاءَةَ بَدَنَةٍ، وَإِنَّ هِشَّامَ بْنَ الْعَاصِ نَحَرَ حِصَّتَهُ خَمْسِيْنَ، أَفَيُجْزِيءَ عَنْهُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ أَبَاکَ لَوْ کَانَ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيْدِ فَصُمْتَ عَنْهُ أَوْ تَصَدَّقْتَ عَنْهُ أَوْ أَعْتَقْتَ عَنْهُ، بَلَغَهُ ذَالِکَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 58، الرقم : 12078، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 192، وبدر الدين العينيفی عمدة القاري، 3 / 119.

’’حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! عاص بن وائل نے دورِ جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ وہ سو اونٹنیوں کی قربانی کریں گے اور (ان کے بیٹے) ہشام بن العاص نے اپنے والد کی طرف سے پچاس اونٹنیوں کی قربانی کی تو کیا اس کا ثواب انہیں ملے گا؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تمہارا والد توحید کو ماننے والا تھا اور تم نے اِس کے لیے روزے رکھے یا صدقہ کیا یا کوئی غلام آزاد کیا تو ان چیزوں کا ثواب اُسے ملے گا.‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

20. عَنْ عَطَائٍ وَسُفْيَانَ وَزَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ث قَالُوْا : جَاءَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أُعْتِقُ عَنْ أَبِي وَقَدْ مَاتَ؟ قَالَ : نَعَمْ.

رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12083، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 279، الرقم : 12421، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119.

’’حضرت عطائ، حضرت سفیان اور حضرت زید بن اسلم ث سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اپنے مرحوم باپ کی طرف سے غلام آزاد کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں.‘‘ اِسے امام ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

21. عَنْ أَبِي جَعْفَرَ أَنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ رضي اﷲ عنهما کَانَا يُعْتِقَانِ عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه بَعْدَ مَوْتِهِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12088، وبدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119.

’’حضرت ابو جعفر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت حسن اور حسین رضی اﷲ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اُن کی طرف سے غلام آزاد کرتے تھے۔‘‘

اِسے امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

22. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ حَجَّ عَنْ أَبَوَيْهِ أَوْ قَضَی عَنْهُمَا مَغْرَمًا بُعِثَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ الْأَبْرَارِ.

رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الدارقطني في السنن، کتاب الحج، باب المواقيت، 2 / 260، الرقم : 110، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 11، الرقم : 7800، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 146.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے والدین کی طرف سے حج کیا یا اُن کا قرض ادا کیا وہ روزِ قیامت نیکو کاروں کے ساتھ اُٹھایا جائے گا.‘‘

اِسے امام دار قطنی نے روایت کیا ہے۔

23. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا حَجَّ الرَّجُلُ عَنْ وَالِدَيْهِ تُقُبِّلَ مِنْهُ وَمِنْهُمَا، وَاسْتُبْشِرَتْ أَرْوَاحُهُمَا فِي السَّمَاءِ، وَکُتِبَ عِنْدَ اﷲِ تَعَالٰی بِرًّا. رَوَاهُ الدَّارَ قُطْنِيُّ.

أخرجه الدار قطني في السنن، کتاب الحج، باب المواقيت، 2 / 259، الرقم : 109، وابن قدامة في المغني، 3 / 102.

’’حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر کوئی آدمی اپنے والدین کے لئے حج کرتا ہے تو اُس کا اور اُس کے والدین کا حج قبول کر لیا جاتا ہے، آسمانوں میں اُن کی اَرواح کو بشارتیں دی جاتی ہیں اور اُس بندے کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیکو کار لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘

اِسے امام دار قطنی نے روایت کیا ہے۔

24. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَمَرَ بِکَبْشٍ أَقْرَنَ يَطَأُ فِي سَوَادٍ وَيَبْرُکُ فِي سَوَادٍ وَيَنْظُرُ فِي سَوَادٍ، فَأُتِيَ بِهِ لِيُضَحِّيَ بِهِ، فَقَالَ لَهَا : يَا عَائِشَةُ، هَلُمِّي الْمُدْيَةَ. ثُمَّ قَالَ : اشْحَذِيْهَا بِحَجَرٍ. فَفَعَلَتْ، ثُمَّ أَخَذَهَا وَأَخَذَ الْکَبْشَ فَأَضْجَعَهُ ثُمَّ ذَبَحَهُ، ثُمَّ قَالَ : بِاسْمِ اﷲِ، اَللّٰهُمَّ تَقَبَّلْ مِنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَمِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ. ثُمَّ ضَحّٰی بِهِ. رَوَاهُ مُسْلِم وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الأضاحي، باب استحباب الضحية وذبحها مباشرة بلا توکيل والتسمية والتکبير، 3 / 1557، الرقم : 1967، وأبو داود في السنن، کتاب الضحايا، باب ما يستحب من الضحايا، 3 / 94، الرقم : 2792، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 78، الرقم : 24535، وابن حبان في الصحيح، 13 / 236، الرقم : 5915، وأبو عوانة في المسند، 5 / 62، الرقم : 7791.

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ایسا سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا، جس کے ہاتھ، پیر اور آنکھیں سیاہ ہوں. سو قربانی کرنے کے لیے ایسا مینڈھا لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! چھری لاؤ، پھر فرمایا : اس کو پتھر سے تیز کرو. میں نے اس کو تیز کیا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا اور ذبح کرنے لگے، پھر فرمایا : اللہ کے نام سے، اے اللہ! محمد، آلِ محمد اور اُمتِ محمد کی طرف سے اس کو قبول فرما. پھر اس کی قربانی کی.‘‘ اِسے امام مسلم، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔

25. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلٰی قَبْرَيْنِ، فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِيرٍ، أَمَّا هٰذَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَأَمَّا هٰذَا فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيْمَةِ. ثُمَّ دَعَا بِعَسِيْبٍ رَطْبٍ، فَشَقَّهُ بِاثْنَيْنِ فَغَرَسَ عَلٰی هٰذَا وَاحِدًا وَعَلٰی هٰذَا وَاحِدًا. ثُمَّ قَالَ : لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأدب، باب الغيبة، 5 / 2249، الرقم : 5705، ومسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، الرقم : 292، والنسائي في السنن، کتاب الطهارة، باب التنزه عن البول، 1 / 30، الرقم : 31، وأبو داود في السنن،کتاب الطهارة، باب الاستبراء من البول، 1 / 6، الرقم : 20.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اِن دونوں مُردوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور اُنہیں کسی بڑے گناہ کے سبب عذاب نہیں دیا جا رہا. ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا. جب کہ دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تر ٹہنی منگوائی اور چیر کر اُس کے دو حصے کر دیئے۔ ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر نصب کر دیا. پھر فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی.‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وفي رواية عنه : قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِقَبْرَيْنِ فَقَالَ : إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِيْرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيْمَةِ. ثُمَّ أَخَذَ جَرِيْدَةً رَطْبَةً، فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ، فَغَرَزَ فِی کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً. قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لِمَ فَعَلْتَ هٰذَا؟ قَالَ : لَعَلَّهُ يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوضوئ، باب ما جاء في غسل البول، 1 / 88، الرقم : 215، ومسلم في الصحيح، کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 / 240، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب وضع الجريدة علی القبر، 4 / 106، الرقم : 2069، وابن حبان في الصحيح، 7 / 398، الرقم : 3128، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 225، الرقم : 1980.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ہی مروی ایک روایت میں ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے جن میں عذاب دیا جا رہا تھا. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی کبیرہ گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا. ایک پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا جبکہ دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سبز ٹہنی لی اور اُس کے دو حصے کیے۔ پھر ہر قبر پر ایک حصہ گاڑ دیا. لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ایسا کیوں فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شاید کہ اﷲ تعالیٰ اِن کے عذاب میں تخفیف رکھے گی جب تک یہ سوکھ نہ جائیں.‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

وفي رواية عنه : قَالَ : مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِحَائِطٍ مِنْ حِيْطَانِ الْمَدِيْنَةِ أَوْ مَکَّةَ فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُوْرِهِمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : يُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِيْرٍ. ثُمَّ قَالَ : بَلٰی، کَانَ أَحَدُهُمَا لَا يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ وَکَانَ الْآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيْمَةِ. ثُمَّ دَعَا بِجَرِيْدَةٍ، فَکَسَرَهَا کِسْرَتَيْنِ فَوَضَعَ عَلٰی کُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا کِسْرَةً. فَقِيْلَ لَهُ : يَا رَسُولَ اﷲِ، لِمَ فَعَلْتَ هٰذَا؟ قَالَ : لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا أَوْ إِلٰی أَنْ يَيْبَسَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.

أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوضوئ، باب من الکبائر أن لا يستتر من بوله، 1 / 88، الرقم : 213، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب وضع الجريدة علی القبر، 4 / 106، الرقم : 2068، وابن خزيمة في الصحيح، 1 / 32، الرقم : 55، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 663، الرقم : 2198.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے ہی مروی ایک روایت میں ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ یا مکہ معظمہ کے ایک باغ کے پاس سے گزرے تو دو انسانوں کی آوازیں سنیں جنہیں ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہیں عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی کبیرہ گناہ کے باعث نہیں. پھر فرمایا : بلکہ اِن میں سے ایک تو پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کھاتا پھرتا تھا. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ٹہنی منگوائی اور اُس کے دو حصے کر کے ہر قبر پر اُن میں سے ایک حصہ رکھ دیا. عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تک یہ خشک نہ ہوں گی اِن کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی.‘‘ اِسے امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

26. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنهما قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمًا إِلٰی سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ حِيْنَ تُوُفِّيَ، فَلَمَّا صَلّٰی عَلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَوُضِعَ ِفي قَبْرِهِ وَسُوِّيَ عَلَيْهِ سَبَّحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَسَبَّحْنَا طَوِيْـلًا ثُمَّ کَبَّرَ فَکَبَّرْنَا، فَقِيْلَ : يا رَسُوْلَ اﷲِ، لِمَ سَبَّحْتَ ثُمَّ کَبَّرْتَ؟ قَالَ : لَقَدْ تَضَايَقَ عَلٰی هٰذَا الْعَبْدِ الصَّالِحِ قَبْرُهُ حَتّٰی فَرَّجَهُ اﷲُ عزوجل عَنْهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 360، الرقم : 14916.

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اُن کی طرف گئے۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کی نماز جنازہ پڑھ لی، اُنہیں قبر میں رکھ دیا گیا اور قبر کو برابر کر دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسبیح فرمائی. پس ہم نے بھی طویل تسبیح کی. پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر فرمائی تو ہم نے بھی تکبیر کہی. اِس پر عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! آپ نے تسبیح و تکبیر کیوں فرمائی؟ ارشاد ہوا : اس نیک بندے پر قبر تنگ ہو گئی تھی. (ہم نے تسبیح و تکبیر کی) یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اِس پر فراخی فرما دی.‘‘

اِسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔

27. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَـلَاثَةٍ : إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْ لَهُ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الوصية، باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعد وفاته، 3 / 1255، الرقم : 1631، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 28، الرقم : 38، وأبو داود في السنن، کتاب الوصايا، باب ما جاء في الصدقة عن الميت، 3 / 117، الرقم : 2880، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير، 1 / 88، الرقم : 239.

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے سوائے تین چیزوں کے (ان کا اجر اسے برابر ملتا رہتا ہے) : ایک وہ صدقہ جس کا نفع جاری رہے، دوسرا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے اور تیسری وہ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔‘‘

اِسے امام مسلم نے، بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

28. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِِِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ.

وَقَالَ التِِِّرْمِذِيُّ : وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَأُمِّ سَلَمَةَ وَعَائِشَةَ وَجَابِرٍ وَسُعْدَی الْمُرِّيَةِ وَهِيَ امْرَأَةُ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اﷲِ. حَدِيْثُ أَبِي سَعِيْدٍ حَدِيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ صَحِيحٌ

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا اﷲ، 2 / 631، الرقم : 916، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين المريض عن الموت والدعاء له عنده، 3 / 306، الرقم : 976، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب في التلقين، 3 / 190، الرقم : 3117، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 / 5، الرقم : 1826.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو.‘‘

اِسے امام مسلم، ترمذی، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔

امام ترمذی یہ حدیث روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ اس باب میں حضرت ابوہریرہ، اُم سلمہ، عائشہ صدیقہ، جابر اور سعدی مریہ زوجہ طلحہ بن عبید اللہ ث سے بھی روایات منقول ہیں. یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے

وفي رواية : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ مَاجَه وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا اﷲ، 2 / 631، الرقم : 917، وابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين الميت لا إله إلا اﷲ، 1 / 464، الرقم : 1444، وابن أبي شيبة في المصنف، کتاب الجنائز، باب في تلقين الميت، 2 / 446، الرقم : 10857.

’’ایک روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو.‘‘

اِسے امام مسلم، ابن ماجہ اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔

قَالَ ابْنُ عَابِدِيْنِ الشَّامِيُّ :

أَمَّا عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ فَالْحَدِيْثُ أَيْ : لَقِّنُوْا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. مَحْمُوْلٌ عَلٰی حَقِيْقَتِهِ، لِأَنَّ اﷲَ تَعَالٰی يُحْيِيْهِ عَلٰی مَا جَاءَتْ بِهِ الْآثَارُ.

ذکره ابن عابدين الشامي في رد المحتار، 2 / 191.

امام ابن عابدین شامی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’اہل سنت و جماعت کے نزدیک حدیث مبارکہ - اپنے مرنے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو - کو اس کے حقیقی معنیٰ پر محمول کیا جائے گا کیوں کہ اﷲ تعالیٰ تدفین کے بعد مردے میں زندگی لوٹا دیتا ہے اور اس پر واضح آثار (روایات) موجود ہیں.‘‘

وفي رواية : قال مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْکَدِرِ : دَخَلْتُ عَلٰی جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِص وَهُوَ يَمُوْتُ، فَقُلْتُ : اقْرَأ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم السَّلَامَ.

رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.

أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء فيما يقال عند المريض إذا حضر، 1 / 466، الرقم : 1450.

’’ایک روایت میں محمد بن المنکدر بیان کرتے ہیں : میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے وقت ان کے پاس گیا تو میں نے عرض کیا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام بھیجو.‘‘ اِسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

29. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِينَ. قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَيْفَ لِـلْأَحْيَاءِ؟ قَالَ : أَجْوَدُ وَأَجْوَدُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.

أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين الميت لا إله إلا اﷲ، 1 / 465، الرقم : 1446، والحکيم الترمذي في نوادر الأصول، 2 / 279، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 1 / 510، الرقم : 1626، والهندي في کنز العمال، 15 / 237، الرقم : 42163.

’’حضرت عبد اﷲ بن جعفر روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے فوت شدگان کو

لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ الْحَلِيمُ الْکَرِيمُ، سُبْحَانَ اﷲِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰـلَمِينَ

کی تلقین کیا کرو. صحابہ کرام ث نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اِسے زندہ لوگوں کے واسطے پڑھنا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بہت ہی اچھا ہے، بہت ہی اچھا ہے۔‘‘

اِسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية : عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقِّنُوا هَلْکَاکُمْ قَوْلَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.

أخرجه النسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 / 5، الرقم : 1827.

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے ہلاک ہو جانے والوں کو لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کی تلقین کرو.‘‘ اِسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية : عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ الأَوْدِيِّ، قَالَ : شَهِدْتُ أَبَا أُمَامَةَ وَهُوَ فِي النَّزْعِ، فَقَالَ : إِذَا أَنَا مُتُّ، فَاصْنَعُوا بِي کَمَا أَمَرَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ نصْنَعَ بِمَوْتَانَا، أَمَرَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : إِذَا مَاتَ أَحَدٌ مِنْ إِخْوَانِکُمْ، فَسَوَّيْتُمُ التُّرَابَ عَلٰی قَبْرِهِ، فَلْيَقُمْ أَحَدُکُمْ عَلٰی رَأسِ قَبْرِهِ، ثُمَّ لِيَقُلْ : يَا فُـلَانَ بْنِ فُـلَانَةَ، فَإِنَّهُ يَسْمَعُهُ وَلَا يُجِيْبُ، ثُمَّ يَقُوْلُ : يَا فُـلَانَ بْنَ فُـلَانَةَ، فَإِنَّهُ يَسْتَوِی قَاعِدًا، ثُمَّ يَقُوْلُ : يَا فُـلَانَ بْنَ فُـلَانَةَ، فَإِنَّهُ يَقُوْلُ : أَرْشِدْنَا رَحِمَکَ اﷲُ، وَلٰـکِنْ لَا تَشْعُرُونَ، فَلْيَقُلْ : اُذْکُرْ مَا خَرَجْتَ عَلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا شَهَادَةَ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ، وَأَنَّکَ رَضِيْتَ بِاﷲِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِيْنًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا، فَإِنَّ مُنْکَرًا وَنَکِيْرًا يَأخُذُ وَاحِدٌ مِنْهُمْا بِيَدِ صَاحِبِهِ، وَيَقُوْلُ : انْطَلِقْ بِنَا مَا نَقْعُدُ عِنْدَ مَنْ قَدْ لُقِّنَ حُجَّتَهُ، فَيَکُوْنُ اﷲُ حَجِيْجَهُ دُوْنَهُمَا، فَقَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَإِنْ لَمْ يَعْرِفْ أُمَّهُ؟ قَالَ : فَيَنْسُبُهُ إِلٰی حَوَّاءَ، يَا فُـلَانَ بْنِ حَوَّاءَ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ. وَقَال ابْنُ حَجَرٍ الْعَسْقَـلَانِيُّ : إِسْنَادُهُ صَالِحٌ وَقَدْ قَوَاهُ الضِّيَاءُ فِي أَحْکَامِهِ. وَقَالَ ابْنُ الْمُلَقَّنِ : وَلَيْسَ فِي إِسْنَادِهِ إِلَّا سَعِيْدُ بْنُ عَبْدِ اﷲِ فَـلَا أَعْرِفُهُ وَلَهُ شَوَاهِدٌ کَثِيْرَةٌ يَعْتَضِّدُ بِهَا.

أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 249، الرقم : 7979، والهيثمي في مجمع الزوائد، 2 / 324؛ 3 / 45، والعسقلاني في تلخيص الحبير، 2 / 135-136، وابن الملقن في خلاصة البدر المنير، 1 / 274-275، الرقم : 958، والهندي في کنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، 15 / 256-257، الرقم : 42406.

’’ایک روایت میں حضرت سعید بن عبد اﷲ اَودی بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا درآں حالیکہ وہ حالتِ نزع میں تھے۔ اُنہوں نے فرمایا : جب میں فوت ہوجاؤں تو میرے ساتھ وہی کچھ کرنا جس کا حکم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں فرمایا ہے۔ ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تمہارا کوئی مسلمان بھائی فوت ہوجائے اور اسے قبر میں دفن کرچکو تو تم میں سے ایک آدمی اُس کے سرہانے کھڑا ہوجائے اور اسے مخاطب کر کے کہے : اے فلاں ابن فلانہ! (فلانہ مؤنث کا صیغہ ہے جس سے مراد ہے کہ اسے اُس کی ماں کی طرف منسوب کرکے پکارا جائے گا.) بے شک وہ مدفون سنتا ہے لیکن جواب نہیں دیتا. پھر دوبارہ مردے کو مخاطب کرتے ہوئے کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس آواز پر وہ بیٹھ جاتا ہے۔ پھر کہو : اے فلاں ابن فلانہ! اس پر وہ مردہ کہتا ہے : اﷲ تم پر رحم فرمائے، ہماری رہنمائی کرو. لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں ہوتا. پھر وہ کہے : اُس اَمر کو یاد کرو جس پر تم دنیا سے رُخصت ہوتے ہوئے تھے اور وہ یہ کہ اِس اَمر کی گواہی کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں؛ اور یہ کہ تو اﷲ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغمبر ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا. جب یہ سارا عمل کیا جاتا ہے تو منکر نکیر میں سے کوئی ایک دوسرے فرشتے کا ہاتھ پکڑتا ہے اور کہتا ہے : مجھے اِس کے پاس سے لے چلو، ہم اس کے ساتھ کوئی عمل نہیں کریں گے کیونکہ اس کو اِس کی حجت تلقین کر دی گئی ہے۔ سو اﷲ تعالیٰ اس کی حجت بیان کرنے والا ہوگا منکر نکیر کے علاوہ. پھر ایک آدمی نے کہا : یا رسول اﷲ! اگر میں اس کی ماں کو نہ جانتا ہوں تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر اُسے اماں حواء کی طرف منسوب کرو. (اور یوں کہو : ) اے فلاں ابن حوائ.‘‘

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فرمایا : اس کی اسناد صالح ہیں، جب کہ ضیاء مقدسی نے اسے احکام میں قوی قرار دیا ہے۔ ابن ملقن انصاری نے فرمایا : اس کے صرف ایک راوی سعید بن عبد اﷲ کو میں نہیں جانتا، لیکن اس روایت کے کثیر شواہد ہیں جو اسے تقویت بہم پہنچاتے ہیں.

30. عَنْ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ الْأَشْهَلِيِّ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا صَلّٰی عَلَی الْجَنَازَةِ قَالَ : اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِنَا وَمَيِتِنَا وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا وَصَغِيْرِنَا وَکَبِيْرِنَا وَذَکَرِنَا وَأُنْثَانَا.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَقالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما يقول في الصلاة علی الميت، 3 / 344، الرقم : 1024، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب الدعائ، 4 / 74، الرقم : 1986، وأبوداود في السنن، کتاب الجنائز، باب الدعاء للميت، 3 / 211، الرقم : 3201، وابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في الدعاء في الصلاة علی الجنازة، 1 / 480، الرقم : 1498، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 368، الرقم : 8795.

’’حضرت ابو ابراہیم اشہلی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی کی نماز جنازہ پڑھتے تو یہ دعائیہ کلمات ادا فرماتے : اے اللہ! ہمارے زندوں، مُردوں، حاضر و غائب، چھوٹوں، بڑوں، مَردوں اور عورتوں سب کو بخش دے۔‘‘

اِسے امام ترمذی، نسائی، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا اور امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

31. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِتِ وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ : اسْتَغْفِرُوْا لِأَخِيْکُمْ وَسَلُوا لَهُ التَّثْبِيْتَ، فَإِنَّهُ الآنَ يُسْأَلُ.

رَوَاهُ أَبُوْدَاوُدَ وَالْبَزَّارُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. وَقَالَ الْمَقْدَسِيُّ : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ.

أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للميت في وقت الإنصراف، 3 / 215، الرقم : 3221، والبزار في المسند، 2 / 91، الرقم : 445، والحاکم في المستدرک، 1 / 526، الرقم : 1372، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 522، الرقم : 378.

’’ایک روایت میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو اس کی قبر پر ٹھہرتے اور فرماتے : اپنے بھائی کے لیے مغفرت طلب کرو اور (اللہ تعالیٰ سے) اس کے لیے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کے بارے میں پوچھے جانے والے سوالات میں) ثابت قدمی کی التجا کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیے جائیں گے۔‘‘

اِس حدیث کو امام ابو داود اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے اور امام مقدسی نے فرمایا : اِس کی اسناد حسن ہیں.

قَالَ مُلَّا عَلِيٌّ الْقَارِيُّ فِي شَرْحِ هٰذَا الْحَدِيْثِ :

وَقَالَ ابْنُ حَجَرٍ : وَفِيْهِ إِيْمَاءٌ إِلٰی تَلْقِيْنِ الْمَيِتِ بَعْدَ تَمَامِ دَفْنِهِ وَکَيْفِيَتُهُ مَشْهُوْرَةٌ، وَهُوَ سُنَّةٌ عَلَی الْمُعْتَمَدِ مِنْ مَذْهَبِنَا خِلَافًا لِمَنْ زَعَمَ أَنَّهُ بِدْعَةٌ، کَيْفَ، وَفِيْهِ حَدِيْثٌ صَرِيْحٌ يُعْمَلُ بِهِ فِي الْفَضَائِلِ اتِّفَاقًا، بَلِ اعْتَضَدَ بِشَوَاهِدَ يُرْتَقٰی بِهَا إِلٰی دَرَجَةِ الْحَسَنِ.

ذکره ملا علي القاري في مرقاة المفاتيح، 1 / 327.

ملا علی قاری اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : ’’حافظ ابن حجر عسقلانی کا کہنا ہے کہ اِس روایت میں میت کو دفن کر چکنے کے بعد تلقین کرنے کی طرف اشارہ ہے اور ہمارے مذہب (اَہل سنت و جماعت) کے مطابق یہ معتمد سنت ہے، بخلاف اُس شخص کے جس نے یہ گمان کیا کہ یہ بدعت (سیئہ) ہے۔ اور یہ کیسے ہو سکتا ہے جب کہ اس ضمن میں واضح حدیث بھی موجود ہے جس پر فضائل کے باب میں بالاتفاق نہ صرف عمل کیا جاسکتا ہے بلکہ وہ اتنے شواہد سے مضبوط ہے کہ وہ درجہ حسن تک جا پہنچی ہے۔‘‘

امام جلال الدین سیوطی الدر المنثور فی التفسیر بالماثور میں سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 27 - {يُثَبِّتُ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَفِی الْاٰخِرَةِ}- اللہ ایمان والوں کو (اس) مضبوط بات (کی برکت) سے دنیوی زندگی میں بھی ثابت قدم رکھتا ہے اور آخرت میں (بھی) - کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں :

وَأَخْرَجَ سَعِيْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ عَنْ رَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ وَضَمْرَةَ بْنِ حَبِيْبٍ وَحَکِيْمِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالُوْا : إِذَا سُوِّيَ عَلَی الْمَيِتِ قَبْرُهُ وَانْصَرَفَ النَّاسُ عَنْهُ، کَانَ يُسْتَحَبُّ أَنْ يُقَالَ لِلْمَيِتِ عَنْدَ قَبْرِهِ : يَا فُـلَانُ! قُلْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ، ثَـلَاثَ مَرَّاتٍ، يَا فُـلَانُ! قُلْ : رَبِّيَ اﷲُ وَدِيْنِي اَلْإِسْلَامُ وَنَبِيِي مُحَمَّدٌ. ثُمَّ يَنْصَرِفُ.

’’سعید بن منصور نے راشد بن سعد، ضمرہ بن حبیب اور حکیم بن عمیر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا : جب میت کو قبر میں دفن کر دیا جائے اور لوگ واپس جانے لگیں تو مستحب ہے کہ ان میں سے ایک شخص میت کی قبر پر کھڑا ہوکر کہے : اے فلاں! کہہ دو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں. اور یہ تین بار کہے۔ پھر کہے : اے فلاں! کہہ دو کہ میرا رب اﷲ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں. اس کے بعد وہ شخص بھی واپس چلا جائے۔‘‘

امام جلال الدین سیوطی کا سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 27 کی تفسیر میں اس روایت کو بیان کرنا ہی اِس اَمر کی دلیل ہے کہ قبر پر کھڑے ہوکر تلقین کرنے سے مومنین کو منکر نکیر کے سوالات کے جواب دینے میں ثابت قدمی نصیب ہوتی ہے اور یہ مستحب عمل ہے اور یہی اِس آیت مبارکہ میں بیان کیے گئے الفاظ کا مفہوم ہے۔

اس کے بعد امام سیوطی نے درج ذیل ایک اور روایت بھی بیان کی ہے :

وَأَخْرَجَ ابْنُ مَنْدَهْ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضی الله عنه قَالَ : إِذَا مُتُّ فَدَفَنْتُمُوْنِي، فَلْيَقُمْ إِنْسَانٌ عِنْدَ رَأسِي، فَلْيَقُلْ : يَا صَدَی بْنَ عَجْلَانَ! اذْکُرْ مَا کُنْتَ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلَ اﷲِ.

’’ابن مندہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : میرے مرنے کے بعد جب مجھے دفنا چکو تو ایک انسان میری قبر کے سرہانے کھڑا ہوکر کہے : اے صدی بن عجلان! یاد کرو اُس عقیدے کو جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اس بات کی گواہی پر کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اﷲ کے رسول ہیں.‘‘

حافظ ابن رجب الحنبلی اھوال القبور واحوال اھلھا الی النشور میں لکھتے ہیں :

حَدَّثَنِي بَعْضُ إِخْوَانِي أَنَّ غَانِمًا جَاءَ الْمُعَافَی بْنَ عِمْرَانَ بَعْدَ مَا دُفِنَ، فَسَمِعَهُ وَهُوَ يُلَقَّنُ فِي قَبْرِهِ، وَهُوَ يَقُوْلُ : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. فَيَقُوْلُ الْمُعَافٰی : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ.

ابن رجب الحنبلي في أهوال القبور وأحوال أهلها إلی النشور / 50.

’’ہمارے بھائیوں میں سے ایک نے روایت کیا ہے کہ غانم، معافی بن عمران کے پاس اُس وقت آئے جب انہیں دفن کیا جا چکا تھا. پس اُسے سنا گیا جب کہ اُسے قبر میں تلقین کی جارہی تھی. تلقین کرنے والا کہہ رہا تھا : لا إله إلا اﷲ. اور معافی بن عمران بھی جواباً کہہ رہے تھے : لا إله إلا اﷲ. ‘‘

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :

قَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ أَمَرَ بِالتَّلْقِيْنِ بَعْدَ الدَّفْنِ، فَيَقُوْلُ : يَا فُـلَانَ بْنَ فُـلَانٍ! اذْکُرْ دِيْنَکَ الَّذِي کُنْتَ عَلَيْهِ مِنْ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ، وَأَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ، وَأَنَّ الْبَعْثَ حَقٌّ وَأَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ، لَا رَيْبَ فِيْهَا، وَأَنَّ اﷲَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقَبُوْرِ، وَأَنَّکَ رَضِيْتَ بِاﷲِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِيْنًا، وَبِمُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم نَبِيًّا، وَبِالْقُرْآنِ إِمَامًا وَبِالْکَعْبَةِ قِبْلَةً، وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ إِخْوَانًا.

ابن عابدين الشامی في رد المحتار، 2 / 191.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تدفین کے بعد مردے کو تلقین کرو. تلقین کرنے والا میت کو یہ کہے : اے فلاں کے بیٹے! یاد کرو وہ دین جس پر تم دنیا میں تھے یعنی اِس اَمر کی گواہی کہ کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں. جنت اور دوزخ کے ہونے اور قیامت کے قائم ہونے پر جس میں کوئی شک نہیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اہل قبور کو اٹھائے گا اور تم اللہ کو رب مانتے تھے، اسلام کو دین مانتے تھے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی اور رسول مانتے تھے، قرآن کو امام اور کعبہ کو قبلہ اور تمام مسلمانوں کو بھائی مانتے تھے۔‘‘

ٍ پھر فرماتے ہیں :

لَا نَهْيَ عَنِ التَّلْقِيْنِ بَعْدَ الدَّفْنِ لِأَنَّهُ لَا ضَرَرَ فِيْهِ، بَلْ فِيْهِ نَفْعٌ، فَإِنَّ الْمَيِتَ يَسْتَأنِسُ بِالذِّکْرِ عَلٰی مَا وَرَدَ فِيْهِ الْآثَارُ.

’’تدفین کے بعد تلقین سے منع نہیں کیا جائے گا اِس لیے کہ اِس میں (یعنی مردے کو تلقین کرنے میں) کوئی حرج نہیں بلکہ سراسر فائدہ ہے کیوں کہ میت ذِکر اِلٰہی سے مانوس ہوتی ہے جیسا کہ آثارِ صحابہ سے واضح ہے۔‘‘

32. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : تُرْفَعُ لِلْمَيِتِ بَعْدَ مَوْتِهِ دَرَجَتُهُ، فَيَقُوْلُ : أَي رَبِّ، أَيُّ شَيئٍ هٰذِهِ؟ فَيُقَالُ : وَلَدُکَ اسْتَغْفَرَ لَکَ.

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.

أخرجه البخاري في الأدب المفرد / 28، الرقم : 36

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ موت کے بعد جب میت کے لیے ایک درجہ بلند کیا جاتا ہے تو وہ عرض کرتی ہے : اے رب! یہ کیا ہے؟ اُسے کہا جاتا ہے : تیرے بیٹے نے تیرے لیے بخشش کی دعا کی ہے (یہ اِسی استغفار کے سبب ہے).‘‘ اِسے امام بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔

وفي رواية : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ : يَتْبَعُ الرَّجُلَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنَ الْحَسَنَاتِ أَمْثَالُ الْجِبَالِ، فَيَقُوْلُ : أَنّٰی هٰذَا؟ فَيُقَالُ : بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ. رَوَاهُ الْهَيْثَمِيُّ.

أخرجه الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 210، والسيوطي في شرح الصدور / 296، الرقم : 20.

’’ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : روزِ قیامت ایک شخص کو پہاڑوں جتنی نیکیاں ملیں گی وہ (حیران ہو کر) پوچھے گا : یہ کہاں سے آئیں؟ اُسے بتایا جائے گا : تیرے بیٹے کا تیرے لیے مغفرت کی دعا کرنا اِس کا سبب ہے۔‘‘ اِسے امام ہیثمی نے روایت کیا ہے۔

33. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا الْمَيِتُ فِي قَبْرِهِ إِلَّا يَشْبَهُ الْغَرِيْقَ الْمُتَهَوِّبََ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ وَلَدٍ أَوْ صَدِيْقٍ ثِقَةٍ، فَإِذَا لَحِقَتْهُ کَانَتْ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيْهَا، وَإِنَّ اﷲَ لَيُدْخِلَ عَلٰی أَهْلِ الْقُبُوْرِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْوَرِّ، أَمْثَالَ الْجِبَالِ، وَإِنَّ هَدْيَةَ الْإِحْيَاءِ لِـلْأَمْوَاتِ : الِْاسْتِغْفَارُ لَهُمْ، وَالصَّدَقَةُ عَنْهُمْ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 4 / 103، الرقم : 6323، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 / 203، الرقم : 7905، والهندي في کنز العمال، 15 / 317، الرقم : 42971، والخطيب التبريزي في مشکاة المصابيح، 2 / 728، الرقم : 2355، والغزالي في إحياء علوم الدين، 4 / 492.

’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قبر میں میت کی مثال ڈوبنے والے اور فریاد کرنے والے کی طرح ہے جو اپنے ماں باپ، بھائی یا کسی دوست کی دعا کا منتظر رہتا ہے۔ جب اُسے دعا پہنچتی ہے تو اُسے دنیا جہاں کی ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ بے شک اہلِ دنیا کی دعا سے اللہ تعالیٰ اہل قبور کو پہاڑوں کے برابر اجر عطا فرماتا ہے۔ مُردوں کے لئے زندوں کا بہترین تحفہ اُن کے لیے استغفار اور صدقہ کرنا ہے۔‘‘

اِسے امام دیلمی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

34. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا عَلٰی أَحَدِکُمْ إِذَا تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ تَطَوُّعاً فَيَجْعَلُهَا عَنْ أَبَوَيْهِ، فَيَکُوْنُ لَهُمَا أَجْرُهَا وَلَا يُنْقَصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيءٌ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 358، الرقم : 7726، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 138.

’’حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی شخص نفلی صدقہ کرے اور اس کو اپنے والدین کی طرف سے کر دے، تو اس کے والدین کو اس کا (پورا) اجر ملتا ہے جب کہ اس کے اپنے اجر میں سے بھی کچھ کمی نہیں ہوتی.‘‘ اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

35. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا مِنْ أَهْلِ بَيْتٍ يَمُوْتُ مِنْهُمْ مَيِتٌ، فَيَتَصَدَّقُوْنَ عَنْهُ بَعْدَ مَوْتِهِ إِلَّا أَهْدَاهَا إِلَيْهِ جِبْرِيْلُ. عَلٰی طَبَقٍ مِنْ نُوْرٍ، ثُمَّ يَقِفُ عَلٰی شَفِيْرِ الْقَبْرِ، فَيَقُوْلُ : يَا صَاحِبَ الْقَبْرِ الْعَمِيْقِ، هٰذِهِ هَدِيَةٌ أَهْدَاهَا إِلَيْکَ أَهْلُکَ فَاقْبَلْهَا. فَيُدْخَلُ عَلَيْهِ فَيَفْرَحُ بِهَا وَيَسْتَبْشِرُ وَيَحْزَنُ جِيْرَانُهُ الَّذِيْنَ لَا يُهْدَی إِلَيْهِمْ بِشَيئٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 315، الرقم : 6504، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 139.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جب اہل خانہ میں سے کوئی اپنے فوت شدہ عزیز کے لیے صدقہ و خیرات کر کے ایصال ثواب کرتا ہے تو اُس کے اِس ثواب کا تحفہ حضرت جبرائیل ں ایک خوبصورت تھال میں رکھ کر اس قبر والے کے سرہانے جا کر پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں : اے صاحبِ قبر! تیرے فلاں عزیز نے یہ ثواب کا تحفہ بھیجا ہے تو اِسے قبول کر. وہ شخص اِسے قبول کر لیتا ہے، وہ اس پر خوش ہوتا ہے اور (دوسرے قبر والوں کو) خوشخبری سناتا ہے اور اُس کے پڑوسیوں میں سے جن کو اس قسم کا کوئی تحفہ نہ ملا ہو وہ غمگین ہوتے ہیں.‘‘

اِسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

36. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّهُ سَأَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِذَا نَتَصَدَّقُ عَنْ مَوْتَانَا وَنَحُجُّ عَنْهُمْ وَنَدْعُوْ لَهُمْ فَهَلْ يَصِلُ ذَالِکَ إِلَيْهِمْ؟ قَالَ : نَعَمْ، وَيَفْرَحُوْنَ بِهِ کَمَا يَفْرَحُ أَحَدُکُمْ بِالطَّبَقِ إِذَا أُهْدِيَ إِلَيْهِ. رَوَاهُ الْعَيْنِيُّ.

أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 119.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اللہ! اگر ہم اپنے فوت ہونے والوں کے لیے صدقہ کریں اور حج کریں اور ان کے لیے دعا کریں تو کیا ان سب چیزوں کا ثواب ان کو پہنچے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، اور وہ اِس سے اِس طرح خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی کسی کو طشتری تحفے میں دے تو وہ خوش ہوتا ہے۔‘‘

اِسے امام بدر الدین عینی نے روایت کیا ہے۔

37. عَنْ عُمَرَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ حَجَّ عَنْ وَالِدَيْهِ بَعْدَ وَفَاتِهِمَا کُتِبَ لَهُ عِتْقًا مِنَ النَّارِ، وَکَانَ لِلْمَحْجُوْجِ عَنْهُمَا أَجْرُ حَجَّةٍ تَامَّةٍ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُّنْقَصَ مِنْ أُجُوْرِهِمَا شَيءٌ.

رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه البيهقيفي شعب الإيمان، 6 / 205، الرقم : 7912.

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی اپنے والدین کی وفات کے بعد اُن کے لئے حج کرے تو اُس کے لئے جہنم سے چھٹکارا لکھ دیا جاتا ہے اور جس کی طرف سے حج کیا گیا اُس کو ایک مکمل حج کا ثواب ملے گا، بغیر اِس کے کہ اُن کے اَجر میں کمی بیشی کی جائے۔‘‘

اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

38. عَنِ الدَّارَقُطْنِيِّ، قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، کَيْفَ أَبَرُّ أَبَوَيَّ بَعَدَ مَوْتِهِمَا؟ فَقَالَ : إِنَّ مِنَ الْبِرِّ بَعْدَ الْمَوْتِ أَنْ تُصَلِّيَ لَهُمَا مَعَ صَلَاتِکَ، وَأَنْ تَصُوْمَ لَهُمَا مَعَ صِيَامِکَ، وَأَنْ تَصَدَّقَ عَنْهُمَا مَعَ صَدَقَتِکَ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَبَدْرُ الدِّيْنِ الْعَيْنِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.

أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 59، الرقم : 12084، وبدر الدين العينيفي عمدة القاري، 3 / 119، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 3 / 276.

’’امام دار قطنی روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کے ساتھ کیسے نیکی کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اُن کی موت کے بعد اگر کوئی نیکی ہے تو وہ یہ ہے کہ تو اپنی نماز کے ساتھ اُن کے لیے بھی نماز پڑھے اور اُن کے لیے اپنے روزوں کے ساتھ روزے رکھے اور اپنے صدقہ کے ساتھ اُن کی طرف سے بھی صدقہ کرے۔‘‘

اِسے امام ابن ابی شیبہ اور بدر الدین عینی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔

39. عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اقْرَءُوا يٰس عَلٰی مَوْتَاکُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.

39 :أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب القرائة عند الميت، 3 / 191، الرقم : 3121، وابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في ما يقال عند المريض إذا حضر، 1 / 466، الرقم : 1448، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 265، الرقم : 10913، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 27، الرقم : 20329.

’’حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے وفات پانے والوں کے پاس ’’سورہ یٰس‘‘ پڑھا کرو.‘‘

اِس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية : عَنْ أَبِي بَکْرٍ الصِّدِّيْقِ ص، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ زَارَ قَبْرَ وَالِدَيْهِ أَوْ أَحَدَهُمَا فَقَرَأَ عِنْدَهُ أَوْ عِنْدَهُمَا يٰس غُفِرَ لَهُ.

رَواهُ الْعَيْنِيُّ.

أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 118.

’’ایک روایت میں ہے : حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے اپنے ماں باپ کی قبر کی زیارت کی یا ان دونوں میں سے کسی ایک کی (قبر کی) اور ان دونوں یا ایک کے پاس سورہ یسین پڑھی تو اُسے بخش دیا جائے گا.‘‘ اِسے امام بدر الدین عینی نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية : عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه يَرْفَعُهُ : مَنْ دَخَلَ الْمَقَابِرَ فَقَرَأَ سُوْرَةَ يٰس، خَفَّفَ اﷲُ عَنْهُمْ يَوْمَئِذٍ.

رَوَاهُ الْعَيْنِيُّ وَقَالَ : رَوَاهُ أَبُوْ بَکْرٍ النَّجَّارُ فِي السُّنَنِ.

أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 118، والمبارکفوري في تحفة الأحوذي، 3 / 275.

’’ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں : جو شخص قبرستان گیا اور اس نے (مُردوں کو ایصالِ ثواب کرنے کے لیے) سورہ یاسین پڑھی تو روزِ قیامت اللہ تعالیٰ اُس کے گناہ کم کر دے گا.‘‘

اِسے امام بدر الدین عینی نے روایت کیا اور فرمایا : اِسے ابو بکر النجار نے اپنی ’السنن‘ میں روایت کیا ہے۔

40. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِذَا مَاتَ أَحَدُکُمْ فَـلَا تَحْبِسُوْهُ وَأَسْرِعُوْا بِهِ عَلٰی قَبْرِهِ، وَلْيُقْرَأ عِنْدَ رَأَسِهِ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ وَعِنْدَ رِجْلَيْهِ بِخَاتِمَةِ الْبَقَرَةِ فِي قَبْرِهِ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ.

40 :أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 444، الرقم : 31613، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 / 16، الرقم : 9294، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 284، الرقم : 1115، والسيوطي في الدر المنثور، 1 / 70.

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اُسے روک نہ رکھو بلکہ اُسے جلدی قبر تک لے جائو، اُس کی قبر پر اُس کے سر کی جانب سورہ فاتحہ اور اُس کے پاؤں کی جانب سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھو.‘‘

اِسے امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية : عَنِ الْعَبَّاسِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ : سَأَلْتُ يَحْيَی بْنَ مَعِيْنٍ عَنِ الْقِرَاءَةِ عِنْدَ الْقَبْرِ، فَقَالَ : حَدَّثَنَا مُبَشَّرُ بْنُ إِسْمَاعِيْلَ الْحَلَبِيُّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ الْعَـلَاءِ بْنِ اللَّجْلَاجِ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّهُ قَالَ لِبَنِيْهِ : إِذَا أَدْخَلْتُمُوْنِي قَبْرِي فَضَعُوْنِي فِي اللَّحْدِ وَقُوْلُوْا : بِاسْمِ اﷲِ وَعَلٰی سُنَّةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَسُنُّوْا عَلَيَّ التُّرَابَ سَنًّا وَاقْرَؤُوْا عِنْدَ رَأْسِي أَوَّلَ الْبَقَرَةِ وَخَاتِمَتَهَا، فَإِنِّي رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَسْتَحِبُّ ذَالِکَ. رَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ.

أخرجه البيهقي في السنن الکبری، 4 / 56، الرقم : 6860.

’’اور ایک روایت میں حضرت عباس بن محمد بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے حضرت یحییٰ بن معین سے قبر کے نزدیک تلاوتِ کلام مجید کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا : ہمیں مبشر بن اسماعیل الحلبی نے عبد الرحمن بن علاء بن لجلاج سے، انہوں نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا : جب تم مجھے میری قبر میں اُتارو اور مجھے لحد میں رکھو تو ’بِاسْمِ اﷲِ وَعَلٰی سُنَّةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم‘ کہو اور پھر مجھ پر مٹی ڈالو اور میرے سرہانے سورہ بقرہ کا ابتدائی و آخری حصہ تلاوت کرو. کیونکہ میں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو دیکھا کہ وہ اِس عمل کو مستحب جانتے تھے۔‘‘ اِسے امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

41. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ مَرَّ بَيْنَ الْمَقَابِرِ، فَقَرَأَ {قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ}، أَحَدَ عَشَرَ مَرَّةً، ثُمَّ وََهَبَ أَجْرَهَا لِـلْأَمْوَاتِ، أُعْطِيَ مِنَ الْأَجْرِ بِعَدَدِ الْأَمْوَاتِ.

رَوَاهُ الْعَيْنِيُّ. وَقَالَ : رَوَاهُ أَبُوْ بَکْرٍ النَّجَّارُ فِي السُّنَنِ.

أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 118.

’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی قبروں میں سے گزرا اور اُس نے گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھ کر فوت شدگان کو ایصالِ ثواب کیا تو اُس کو اُن فوت شدگان کی تعداد کے مطابق اجر دیا جائے گا.‘‘

اِسے امام بدر الدین عینی نے روایت کیا اور فرمایا : اِسے ابو بکر النجار نے اپنی ’السنن‘ میں روایت کیا ہے۔

وفي رواية : عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ قَالَ : اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، رَبِّ السَّمَوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَلَهُ الْکِبْرِيَاءُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، ِﷲِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَلَهُ الْعَظَمَةُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، هُوَ الْمَلِکُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَالَمِيْنَ، وَلَهُ النُّوْرُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، مَرَّةً وَاحِدَةً، ثُمَّ قَالَ : اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ ثَوَابَهَا لِوَالِدَيَّ لَمْ يَبْقَ لِوَالِدَيْهِ حَقٌّ إِلَّا أَدَّاهُ إِلَيْهِمَا.

رَوَاهُ الْعَيْنِيُّ. وَقالَ : رَوَاهُ أَبُوْ حَفْصِ بْنِ شَاهِيْنَ(م835ه).

أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري، 3 / 118-119.

’’اور ایک روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ایک بار یوں کہے :

{اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، رَبِّ السَّمَوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَلَهُ الْکِبْرِيَاءُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، ِﷲِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، وَلَهُ الْعَظَمَةُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، هُوَ الْمَلِکُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَالَمِيْنَ، وَلَهُ النُّوْرُ فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُ، مَرَّةً وَاحِدَةً}

’’سب تعریفیں تمام جہانوں کے پروردگار کے لیے ہیں جو زمین و آسمان کا رب ہے، تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، زمین و آسمان میں اُسی کے لیے بڑائی ہے، وہی غالب، حکمت والا ہے، اُسی کے واسطے تمام تعریفیں ہیں جو زمین و آسمان اور تمام جہانوں کا رب ہے، اُسی کے لیے عظمت ہے، زمین و آسمان میں وہی غالب حکمت والا ہے، وہی بادشاہ اور زمین و آسمان اور تمام جہانوں کا رب ہے، اُسی کا نور زمین و آسمان میں ہے اور وہی غالب حکمت والا ہے‘‘ اور پھر یوں دعا کرے : {اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ ثَوَابَهَا لِوَالِدَيَّ} ’’اے میرے مولا! اِس کا ثواب میرے والدین کو پہنچا.‘‘ تو اُس پر اُس کے والدین کا کوئی بھی حق باقی نہیں رہتا بلکہ اُس نے اُن کے تمام حقوق ادا کر دیئے۔‘‘

اِسے امام بدر الدین عینی نے روایت کیا اور فرمایا : اِسے ابو حفص شاہین نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية : عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ : کَانَتِ الْأَنْصَارُ تَسْتَحِبُّ أَنْ يُقْرَأَ عِنْدَ الْمَيِتِ بِسُوْرَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ. رَوَاهُ الـلَّالَکَائِيُّ.

أخرجه اللالکائي في اعتقاد أهل السنة / 164.

’’امام شعبی روایت کرتے ہیں کہ اَنصار اِس امر کو مستحب گردانتے تھے کہ میت کے پاس کھڑے ہو کر قرآنی سورتوں کی تلاوت کی جائے۔‘‘

اِسے امام لالکائی نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية عنه : قَالَ : کَانَتِ الْأَنْصَارُ إِذَا مَاتَ لَهُمُ الْمَيِتُ اخْتَلَفُوْا إِلٰی قَبْرِهِ، يَقْرَؤُوْنَ الْقُرْآنَ. رَوَاهُ مُـلَّا عَلِيُّ الْقَارِيُّ وَالسَّيُوْطِيُّ.

أخرجه ملا علي القاري في مرقاة المفاتيح، 4 / 173، والسيوطي في شرح الصدور، 1 / 303.

’’حضرت شعبی سے ہی روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں : انصار کا یہ معمول تھا کہ جب اُن کا کوئی عزیز فوت ہو جاتا تو وہ اُس کی قبر پر آتے جاتے اور وہاں قرآن پڑھتے تھے۔‘‘ اِسے ملا علی القاری اور سیوطی نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية : عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ : کَانَ يُقَالُ : اَلْأَمْوَاتُ أَحْوَجُ إِلَی الدُّعَاءِ مِنَ الْأَحْيَاءِ إِلَی الطَّعَامِ. رَوَاهُ ابْنُ رَجَبٍ الْحَنْبَلِيُّ.

أخرجه ابن رجب الحنبلي في أهوال القبور وأحوال أهلها إلی النشور / 132.

’’حضرت سفیان بن عیینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مُردوں کے بارے میںکہا جاتا تھا کہ جس طرح زندوں کو خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اُس سے بڑھ کر مُردوں کو دعا کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘ اِسے ابن رجب حنبلی نے روایت کیا ہے۔

وفي رواية : عَنْ سُفْيَانَ قَالَ : قَالَ طَاوُوْسٌ رضی الله عنه : إِنَّ الْمَوْتَی يُفْتَنُوْنَ فِي قُبُوْرِهِمْ سَبْعًا فَکَانُوْا يَسْتَحِبُّوْنَ أَنْ يُطْعَمَ عَنْهُمْ تِلْکَ الْأَيَامِ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ السُّيُوْطِيُّ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ وَلَهُ حُکْمُ الرَّفْعِ.

أخرجه أبو نعيم في حلية الأوليائ، 4 / 11، والعسقلاني في المطالب العالية، 5 / 330، الرقم : 834، وابن الجوزي في صفة الصفوة، 2 / 289، والسيوطي في الديباج علی صحيح مسلم، 2 / 491، الرقم : 905، وأيضًا في شرحه علی سنن النسائي، 4 / 104.

’’حضرت سفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت طاووس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک فوت ہونے والے سات دن تک اپنی قبروں میں آزمائش میں رہتے ہیں، اس لیے لوگ ان دنوں میں ان کی طرف سے کھانا کھلانے کو مستحب سمجھتے تھے۔‘‘

اِسے امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام سیوطی نے فرمایا : اِس کی اسناد صحیح ہے اور اِس کا حکم مرفوع روایت کا ہے۔

وفي رواية : عَنْ طَاؤُوْسِ : کَانُوْا يَسْتَحِبُّوْنَ أَنْ لَا يَتَفَرَّقُوْا عَنِ الْمَيِتِ سَبْعَةَ أَيَامٍ، لِأَنَّهُمْ يُفْتَنُوْنَ وَيُحَاسَبُوْنَ فِي قُبُوْرِهِمْ سَبْعَةَ أَيَامٍ.

أخرجه بدر الدين العيني في عمدة القاري في شرح صحيح البخاري، 8 / 70.

’’حضرت طاؤوس رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ائمہ و اسلاف اس عمل کو پسند کرتے تھے کہ میت کی قبر سے سات دنوں تک جدا نہ ہوا جائے (یعنی کم از کم سات دنوں تک وہاں فاتحہ و قرآن خوانی کا معمول جاری رکھا جائے) کیونکہ سات دنوں تک میت کی قبر میں آزمائش ہوتی ہے اور ان کا حساب ہوتا ہے۔‘‘

أَقْوَالُ الْأَئِمَّةِ فِي إِيْصَالِ الثَّوَابِ
اِیصالِ ثواب کے بارے میں اَئمہ کرام کے اَقوال

1. قَالَ الْإِمَامُ أَبُوْ الْحَسَنِ الْأَشْعَرِيُّ (م174ه) :

وَنَرَی الصَّدَقَةَ عَلٰی مَوْتَی الْمُسْلِمِيْنَ وَالدُّعَاءِ لَهُمْ وَنُؤْمِنُ بِأَنَّ اﷲَ يَنْفَعُهُمْ بِذَالِکَ.

ذکره الأشعري في الإبانة عن أصول الديانة، 1 / 31.

امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اور ہماری رائے میں مسلمان مُردوں کے لیے صدقہ کرنا اور اُن کے لیے دعا کرنا جائز ہے، اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ انہیں ان (اَعمالِ صالحہ) کے بدلے نفع دے گا.‘‘

2. قَالَ الطَّحَاوِيُّ (م321ه) فِي الْعَقِيْدَةِ الطَّحَاوِيَةِ :

وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ، وَصَدَقَاتِهِمْ مَنْفِعَةٌ لِـلْأَمْوَاتِ.

ذکره الطحاوي في العقيدة الطحاوية / 56.

امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ ’عقیدہ طحاویہ‘ میں فرماتے ہیں : ’’(جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) ان کے لیے زندہ لوگوں کی دعائیںاور صدقہ کرنا نفع دیتا ہے۔‘‘

3. قَالَ النَّسَفِيُّ (م537ه) :

وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ لِـلْأَمْوَاتِ وَصَدَقَتِهِمْ عَنْهُمْ نَفْعٌ لَهُمْ.

ذکره عبد اﷲ الهرري في المطالب الوفية شرح عقائد النسفية / 153.

امام نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’(جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) ان کے لیے زندہ لوگوں کی دعائیں اور اُن کے صدقات مُردوں کو نفع دیتے ہیں.‘‘

4. قَالَ سَعْدُ الدِّيْنِ التَّفْتَازَانِيُّ (م791ه) :

وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ لِـلْأَمْوَاتِ وَصَدَقَتِهِمْ أَيْ صَدَقَةِ الْأَحْيَاءِ عَنْهُمْ أَي عَنِ الْأَمْوَاتِ نَفْعٌ لَهُمْ.

ذکره سعد الدين التفتازاني في شرح لشرح العقائد المسمی بالنبراس مع التعليقات القسطاس / 579.

امام سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’(جو لوگ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں) اُن کے لیے زندہ لوگوں کی دعائیںاور زندوں کا ان (مُردوں) کے لئے صدقہ کرنا انہیں نفع دیتا ہے۔‘‘

5. قَالَ ابْنُ أَبِي الْعِزِّ الدِّمَشْقِيُّ (م792ه) فِي شَرْحِ الْعَقِيْدَةِ الطَّحَاوِيَةِ :

إِتَّفَقَ أَهْلُ السُّنَّةِ أَنَّ الْأَمْوَاتَ يَنْتَفِعُوْنَ مِنْ سَعْيِ الْأَحْيَاءِ بِأَمْرَيْنِ : أَحَدُهُمَا : مَا تَسَبَّبَ إِلَيْهِ الْمَيِتُ فِي حَيَاتِهِ، وَالثَّانِي : دُعَاءُ الْمُسْلِمِيْنَ وَاسْتِغْفَارُهُمْ لَهُ، وَالصَّدَقَةُ وَالْحَجُّ عَلٰی نِزَاعٍ فِيْمَا يَصِلُ مِنْ ثَوَابِ الْحَجِّ. فَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَسَنٍ (131-189ه) : أَنَّهُ إِنَّمَا يَصِلُ إِلَی الْمَيِتِ ثَوَابُ النَّفَقَةِ، وَالْحَجُّ لِلْحَاجِّ. وَعِنْدَ عَامَةِ الْعُلَمَاءِ : ثَوَابُ الْحَجِّ لِلْمَحْجُوْجِ عَنْهُ، وَهُوَ الصَّحِيْحُ. وَاخْتُلِفَ فِي الْعِبَادَاتِ الْبَدَنِيَةِ، کَالصَّوْمِ، وَالصَّلَاةِ، وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ، وَالذِّکْرِ، فَذَهَبَ أَبُوْ حَنِيْفَةَ وَأَحْمَدُ وَجَمْهُوْرُ السَّلَفِ إِلٰی وَصُوْلِهَا، وَالْمَشْهُوْرُ مِنْ مَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ وَمَالِکٍ عََدْمُ وُصُوْلِهَا. وَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْبِدَعِ مِنْ أَهْلِ الْکَلَامِ إِلٰی عَدْمِ وُصُوْلِ شَيْئٍ اَلْبَتَّةَ، لَا الدُّعَاءُ وَلَا غَيْرُهُ. وَقَوْلُهُمْ مَرْدُوْدٌ بِالْکِتَابِ وَالسُّنَّةِ.

ذکره ابن أبي العز الدمشقي في شرح العقيدة الطحاوية / 345- 346.

’’اہلِ سنت اس بات پر متفق ہیں کہ مردہ لوگ زندوں کی طرف سے کیے گئے عمل سے دو اُمور میںنفع حاصل کرتے ہیں : ان دو میں سے ایک یہ کہ میت نے اپنی حیات میں کوئی عمل کیا ہو (جیسے صدقہ وغیرہ). اور دوسرا مسلمانوں کا ان کے لیے دعا و استغفار کرنا، صدقہ و خیرات کرنا اور حج کرنا. اور حج کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یا نہیں؟ پس محمد بن حسن الشیبانی بیان کرتے ہیں کہ بے شک میت تک صدقہ کا ثواب پہنچتا ہے، اور حج کا ثواب حج کرنے والے کے لیے ہے۔ عام علماء کا موقف ہے کہ حج کا ثواب محجوج عنہ (جس کی طرف سے حج کیا گیا) کے لیے ہے، اور یہی صحیح موقف ہے، اور بدنی عبادات، جیسے : روزہ، نماز، تلاوتِ قرآن اور ذکر کے بارے میں اختلاف ہے۔ پس امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور سلف کا موقف ہے کہ ان کا ثواب پہنچتا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور مذہب عدمِ وصول کا ہے۔ اہل کلام میں سے بعض اہل بدعات اِس طرف گئے ہیں کہ کسی بھی چیز کا ثواب مطلقًا نہیں پہنچتا، نہ دعا اور نہ ہی غیر دعا. اور اُن کا یہ قول کتاب و سنت کی روشنی میں مردود (ناقابل قبول) ہے۔‘‘

6. قَوْلُ ابْنِ تَيْمِيَةَ :

علامہ ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوی، 7 / 498-499 میں قرآن و سنت کی نصوصِ قطعیہ سے گناہوں کی بخشش کے دس اَسباب بیان کیے ہیں. اُنہوں نے چوتھا اور پانچواں سبب اِیصالِ ثواب کو قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

اَلسَّبَبُ الرَّابِعُ : اَلدَّافِعُ لِلْعِقَابِ : دُعَاءُ الْمُؤْمِنِيْنَ لِلْمُؤْمِنِ، مِثْلُ صَلَا تِهِمْ عَلٰی جَنَازَتِهِ.

’’(گناہوں سے بخشش کا) چوتھا سبب اور عذاب سے بچانے والی مومن بندوں کی دوسرے مومنین کی (بخشش) کے لیے کی جانے والی دعائیں ہیں، جیسا کہ وہ اس کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں.‘‘

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَا مِنْ مَيِتٍ تُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ يَبْلُغُوْنَ مِاءَةً کُلُّهُمْ يَشْفَعُوْنَ لَهُ إِلَّا شُفِّعُوا فِيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب من صلی عليه مائة شفعوا فيه، 2 / 654، الرقم : 947.

’’جس میت پر سو مسلمانوں کا گروہ نماز پڑھے اور وہ سب اس کے لئے شفاعت کریں تو اس کے حق میں اُن کی شفاعت قبول کر لی جاتی ہے۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوْتُ فَيَقُوْمُ عَلٰی جَنَازَتِهِ أَرْبَعُوْنَ رَجُـلًا لَا يُشْرِکُونَ بِاﷲِ شَيْئًا إِلَّا شَفَّعَهُمُ اﷲُ فِيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب من صلی عليه مائة شفعوا فيه، 2 / 655، الرقم : 948.

’’جو مسلمان شخص فوت ہو جائے اور اس کے جنازہ میں چالیس ایسے لوگ ہوں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو تو اللہ تعالیٰ میت کے حق میں ان کی شفاعت قبول فرما لیتا ہے۔‘‘

صحیح مسلم کی مذکورہ بالا دو حدیثیں بیان کرنے کے بعد علامہ ابن تیمیہ مزید لکھتے ہیں :

وَهٰذَا دُعَاءٌ لَهُ بَعْدَ الْمَوْتِ. فَـلَا يَجُوْزُ أَنْ تُحْمَلَ الْمَغْفِرَةُ عَلَی الْمُؤْمِنِ التَّقِيِ الَّذِي اجْتَنَبَ الْکَبَائِرَ، وَکُفِّرَتْ عَنْهُ الصَّغَائِرُ وَحْدَهُ، فَإِنَّ ذَالِکَ مَغْفُوْرٌ لَهُ عِنْدَ الْمُتَنَازِعِيْنَ. فَعُلِمَ أَنَّ هٰذَا الدُّعَاءَ مِنْ أَسْبَابِ الْمَغْفِرَةِ لِلْمَيِتِ.

’’اور یہ دعائے بخشش اس کے لیے موت کے بعد ہے۔ اور یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ یہ مغفرت صرف متقی مومن کے لئے ہے جو کہ پہلے ہی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہا ہے اور اس کے صغیرہ گناہ یک بارگی مٹا دیئے گئے ہیں. بے شک (صغیرہ گناہوں کا مٹایا جانا) تو اختلاف کرنے والوں کے ہاں بھی تسلیم شدہ ہے۔ پس جان لیا گیا ہے کہ دعا بھی میت کی مغفرت کے اسباب میں سے ہے۔‘‘

اِس کے بعد علامہ ابن تیمیہ پانچواں سبب لکھتے ہیں :

اَلسَّبَبُ الْخَامِسُ : مَا يُعْمَلُ لِلْمَيِتِ مِنْ أَعْمَالِ الْبِرِّ، کَالصَّدَقَةِ وَنَحْوِهَا، فَإِنَّ هٰذَا يُنْتَفَعُ بِهِ بِنُصُوْصِ السُّنَّةِ الصَّحِيْحَةِ الصَّرِيْحَةِ، وَاتِّفَاقِ الْأَئِمَّةِ وَکَذَالِکَ الْعِتْقِ، وَالْحَجِّ، بَلْ قَدْ ثَبَتَ عِنْدَهُ فِي الصَّحِيْحَيْنِ أَنَّهُ قَالَ : مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ. وَثَبَتَ مِثْلُ ذَالِکَ فِي الصَّحِيْحِ مِنْ صَوْمِ النَّذْرِ مِنَ الْوُجُوْهِ الْأُخْرَی، وَلَا يَجُوْزُ أَنْ يُعَارَضَ هٰذَا بِقَوْلِهِ {وَاَنْ لَّيْسَ لِـلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی} [النجم،53 : 39] لِوَجْهَيْنِ :

أَحَدُهُمَا : أَنَّهُ قَدْ ثَبَتَ بِالنُّصُوْصِ الْمُتَوَاتِرَةِ وَإِجْمَاعِ سَلَفِ الْأُمَّةِ أَنَّ الْمُؤْمِنَ يَنْتَفِعُ بِمَا لَيْسَ مِنْ سَعْيِهِ، کَدُعَاءِ الْمَلَائِکَةِ، وَاسْتِغْفَارِهِمْ لَهُ، کَمَا فِي قَوْلِهِ تَعَالٰی : {اَلَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُوْنَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا} [غافر، 40 : 7]. وَدُعَاءُ النَّبِيِيْنَ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَاسْتِغْفَارِهِمْ، وَکَدُعَاءِ الْمُصَلِّيْنَ لِلْمَيِتِ، وَلِمَنْ زَارُوْا قَبْرَهُ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ.

ذکره ابن تيمية في مجموع الفتاوی، 7 / 498-499.

’’(گناہوں کی بخشش کا) پانچواں سبب وہ نیک اعمال ہیں جو میت کے لئے کیے جاتے ہیں. جیسے صدقہ اور اس طرح کے اعمال. پس یہ بات سنت صحیحہ صریحہ کی نصوص سے ثابت ہے کہ میت کو ان اعمال کا فائدہ ہوتا ہے اور اس پر ائمہ کرام کا اتفاق ہے اور اسی طرح (میت کی طرف سے) غلام آزاد کرنے اور حج کرنے کا فائدہ (بھی میت کو پہنچتا) ہے۔بلکہ یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیحین میں ثابت شدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو کوئی فوت ہو جائے اور اس پر (ماہِ رمضان کے) روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے ادا کرے۔‘‘ اِسی طرح کا حکم الصحيح میں دیگر قرائن کی بنا پر منت کے روزوں سے بھی ثابت ہے۔ پس (یہ تمام تفاصیل جان لینے کے بعد) یہ کہنا جائز نہیں کہ اس کا اللہ تعالیٰ کے قول {وَاَنْ لَّيْسَ لِـلْاِنْسَانِ اِلاَّ مَا سَعٰی} ’’اور یہ کہ انسان کو (عدل میں) وہی کچھ ملے گا جس کی اُس نے کوشش کی ہو گی‘‘ کے ساتھ کوئی تعارض ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں :

پہلی وجہ یہ ہے کہ بے شک یہ بات نصوص متواترہ اور ائمہ سلف کے اِجماع سے ثابت ہے کہ مؤمن کو اس عمل سے بھی فائدہ ملتا ہے جس کے لیے اُس نے کوئی کوشش نہ کی ہو، جیسا کہ ملائکہ کی دعا اور ان کا مومن بندے کے حق میں استغفار کرنا ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے : {جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو اُس کے اِرد گِرد ہیں وہ (سب) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اہلِ ایمان کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں.} اور اِسی طرح نبیوں اور مؤمنین کی دعائیں اور ان کا استغفار کرنا، نماز پڑھنے والوں کا میت کے لیے دعا کرنا، اور قبروں پر جانے والوں کا صاحبِ قبر کے لیے دعا کرنا (بھی مغفرت کے اسباب میں سے ہے).‘‘

علامہ ابن تیمیہ نے اپنی دوسری کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں بھی اِیصالِ ثواب پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور اِس کی مشروعیت پر بالتفصیل لکھا ہے :

فَأَمَّا مَا يَذْکُرُهُ بَعْضُ النَّاسِ مِنْ أَنَّهُ يَنْتَفِعُ الْمَيِتُ بِسَمَاعِ الْقُرْآنِ بِخِلَافِ مَا إِذَا قُرِءَ فِي مَکَانٍ آخَرَ، فَهٰذَا إِذَا عُنِيَ بِهِ : أَنَّهُ يَصِلُ الثَّوَابُ إِلَيْهِ إِذَا قُرِءَ عِنْدَ الْقَبْرِ خَاصَّةً، فَلَيْسَ عَلَيْهِ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْمَعْرُوْفِيْنَ، بَلِ النَّاسُ عَلٰی قَوْلَيْن :

أَحَدُهُمَا : أَنَّ ثَوَابَ الْعِبَادَاتِ الْبَدَنِيَةِ مِنَ الصَّلَاةِ وَالْقِرَاءَةِ وَغَيْرِهِمَا يَصِلُ إِلَی الْمَيِتِ کَمَا يَصِلُ إِلَيْهِ ثَوَابُ الْعِبَادَاتِ الْمَالِيَةِ بِالْإِجْمَاعِ، وَهٰذَا مَذْهَبُ أَبِي حَنِيْفَةَ وَأَحْمَدُ وَغَيْرِهِمَا، وَقَوْلُ طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَمَالِکٍ وَهُوَ الصَّوَابُ لِأَدِلَّةٍ کَثِيْرَةٍ ذَکَرْنَا فِي غَيْرِ هٰذَا الْمَوْضِعِ.

وَالثَّانِي : أَنَّ ثَوَابَ الْعِبَادَةِ الْبَدَنِيَةِ لَا يَصِلُ إِلَيْهِ بِحَالٍ. وَهُوَ مَشْهُوْرٌ عِنْدَ أَصْحَابِ الشَّافِعِيِّ وَمَالِکٍ. وَمَا مِنْ أَحَدٍ مِنْ هٰـؤُلَاءِ يَخُصُّ مَکَانًا بِالْوُصُوْلِ أَوْ عَدْمِهِ.

فَأَمَّا اسْتِمَاعُ الْمَيِتِ لِـلْأَصْوَاتِ مِنَ الْقِرَاءَةِ وَغَيْرِهَا : فَحَقٌّ، لٰـکِنَّ الْمَيِتُ مَا بَقِيَ يُثَابُ بَعْدَ الْمَوْتِ عَلٰی عَمَلٍ يَعْمَلُهُ هُوَ بَعْدَ الْمَوْتِ مِنِ اسْتِمَاعِ أَوْ غَيْرِهِ. وَإِنَّمَا يُنْعَمُ أَوْ يُعَذَّبُ بِمَا کَانَ قَدْ عَمِلَهُ فِي حَيَاتِهِ هُوَ، أَوْ بِمَا يَعْمَلُ غَيْرُهُ بَعْدَ الْمَوْتِ مِنْ أَثَرِهِ، أَوْ بِمَا يُعَامَلُ بِهِ. کَمَا قَدِ اخْتُلِفَ فِي تَعْذِيْبِهِ بِالنِّيَاحَةِ عَلَيْهِ، وَکَمَا يُنْعَمُ بِمَا يُهْدَی إِلَيْهِ، وَکَمَا يُنْعَمُ بِالدُّعَاءِ لَهُ، وَإِهْدَاءِ الْعِبَادَاتِ الْمَالِيَةِ بِالْإِجْمَاعِ.

وَکَذَالِکَ قَدْ ذَکَرَ طَائِفَةٌ مِنَ الْعُلَمَائِ مِنْ أَصْحَابِ أَحْمَدَ وَغَيْرِهِمْ، وَنَقَلُوْهُ عَنْ أَحْمَدَ، وَذَکَرُوْا فِيْهِ آثَارًا : أَنَّ الْمَيِتَ يَتَأَلَّمُ بِمَا يُفْعَلُ عِنْدَهُ مِنَ الْمَعَاصِي. فَقَدْ يُقَالَ أَيْضًا : إِنَّهُ يُتَنَعَّمُ بِمَا يَسْمَعُهُ مِنَ الْقِرَاءَةِ وَذِکْرِ اﷲِ.

ذکره ابن تيمية في إقتضاء الصراط المستقيم / 378-379.

’’اور بعض لوگوں کا جو یہ بیان ہے کہ میت کو قرآن حکیم سننے سے فائدہ ہوتا ہے (جب اس کی قبر کے پاس پڑھا جائے) بخلاف اس کے کہ جب کسی دوسری جگہ پر پڑھا جائے۔ اس بات سے اگر یہ مراد لیا جائے کہ ثواب صرف اسی صورت میں پہنچتا ہے جب خاص طور پر قبر کے پاس ہی پڑھا جائے، تو معروف علماء میں سے کسی کی بھی یہ رائے نہیں ہے۔ بلکہ اس بارے میں دو آراء ہیں :

پہلا قول : بدنی عبادات کے بارے میں ہے جیساکہ نماز اور تلاوتِ قرآن حکیم اور اس کی علاوہ دیگر بدنی عبادات کا ثواب بھی میت کو پہنچے گا جس طرح مالی عبادات کا ثواب پہنچتا ہے اور اس پر اجماع ہے۔ اور یہ ابو حنیفہ اور احمد بن حنبل کا مذہب ہے۔ ان دونوں کے علاوہ شافعی اور مالکی فقہاء کے ایک گروہ کا بھی یہی قول ہے۔ یہی حق ہے۔ اس پر بہت سے دلائل ہیں جنہیں ہم نے اس مقام کے علاوہ دوسری جگہ بیان کیا ہے۔

دوسرا قول یہ ہے کہ جہاں تک بدنی عبادات کا تعلق ہے تو فقہائے شافعی اور مالکی کے نزدیک میت کو اس کا ثواب کسی طور نہیں پہنچتا. اور ان میں سے کوئی بھی قبر کے پاس یا دور ہونے کو خاص نہیں کرتا.‘‘

’’پس جہاں تک میت کا قرآن پاک کی تلاوت وغیرہ سننے کا تعلق ہے تو یہ حق ہے لیکن میت کو موت کے بعدہر اس عمل کا ثواب ملتا ہے جو وہ کرتا ہے جیسا کہ قرآن کی تلاوت سننا وغیرہ. پس اسے ہر اس عمل کی جزا و سزا ملتی رہتی ہے جو اس نے دنیا میں کیا تھا یا اس مرنے والے کے علاوہ اس کے بتانے کی وجہ سے کوئی اور کرتا ہے یا جس کا وہ معاملہ کرتا ہے۔ جس طرح کہ اس (میت) پر نوحہ کیے جانے کی صورت میں اس کو عذاب دیے جانے میں اختلاف ہے۔ اور جس طرح اس کو اپنی طرف آنے والے (اعمالِ صالحہ کے) ہدایا کی صورت میں نعمت ملتی ہے اور اسی طرح اس کو اپنے لیے کیے جانے والی دعائے بخشش کی نعمت ملتی ہے اور مالی عبادات میں سے اس کی طرف ہدیہ کیا جاتا ہے۔ اس پر اجماع ہے۔
اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے پیرو کار علماء کرام کے ایک طبقہ اور دیگر نے امام احمد سے نقل کیا ہے اور اس میں یہ قول بیان کیا ہے : بے شک میت کو اپنے پاس ہونے والے گناہوں سے تکلیف پہنچتی ہے۔ پس یہ بھی کہا جاتا ہے : میت جو کچھ تلاوتِ قرآن اور ذکر الٰہی سنتی ہے اسے (ثواب کی صورت میں) انعام دیا جاتا ہے۔‘‘

7. قَوْلُ ابْنِ عَابِدِيْنِ الشَّامِيِّ :

علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ایصال ثواب پر اہل سنت والجماعت کا موقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

صَرَّحَ عُلَمَاؤُنَا فِي بَابِ الْحَجِّ عَنِ الْغَيْرِ بِأَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً أَوْ صَوْمًا أَوْ صَدَقَةً أَوْ غَيْرَهَا کَذَا فِي الْهِدَايَةِ، بَلْ فِي زَکَاةِ التَّتَارْخَانِيَةِ عَنِ الْمُحِيْطِ، اَلْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْـلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيْعِ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيءٌ. وَهُوَ مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ.

ذکره ابن عابدين الشامي في رد المحتار، 2 / 243.

’’ہمارے علماء نے دوسرے کی طرف سے حج کرنے کے باب میں اِس بات کی تصریح کی ہے کہ انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو بخش دے۔ خواہ وہ عمل نماز ہو، روزہ ہو، کوئی صدقہ ہو یا کچھ اور، اِسی طرح الھدایہ میں مذکورہ ہے۔ بلکہ فتاویٰ تتارخانیہ میں زکوٰۃ کے باب میں محیط سے منقول ہے ہے کہ ایصال ثواب کرنے والے کے لیے افضل یہ ہے کہ وہ تمام مومنین و مومنات کو ایصال ثواب کی نیت کرے، اِس طرح سب کو ثواب پہنچ جائے گا اور اِیصال کرنے والے کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہو گی. یہی اہل سنت والجماعت کا موقف ہے۔‘‘



No comments:

Post a Comment