Saturday 23 January 2021

خیر القرون میں بچوں کا جہادی جذبہ

 

*دورِ نبوت میں بچوں کا جہادی جذبہ:*

(1) حضرت عُمَيْرٌ جو آبِي اللَّحْمِ کے غلام اور کم عمر بچے تھے، جہاد میں شرکت کا شوق اُس وقت ہر بڑے چھوٹے کی جان تھا، خیبر کی لڑائی میں شرکت کی خواہش کی، اُن کے سرداروں نے بھی رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں سفارش کی کہ اجازت فرمادی جاوے، چنانچہ *حضور ﷺ نے اجازت فرمادی* اور ایک تلوار مَرحَمَت فرمائی جو گَلے میں لٹکالی؛ مگر تلوار بڑی تھی اور قَد چھوٹا تھا؛ اِس لیے وہ زمین پر گھِسٹتی جاتی تھی، اِسی حال میں خیبر کی لڑائی میں شرکت کی، چوں کہ بچے بھی تھے اور غلام بھی؛ اِس لیے غنیمت کا پورا حصہ تو ملا نہیں؛ البتہ بطورِ عطا کچھ سامان حصے میں آیا۔

[احمد:21940، ابوداؤد:2730، حاکم:2592، بیھقی:17968]

نوٹ:

اِن جیسے حضرات کو یہ بھی معلوم تھا کہ غنیمت میں ہمارا پورا حصہ بھی نہیں، اِس کے باوجود پھر یہ شوق کہ دوسرے حضرات سے سفارشیں کرائی جاتی تھیں، اِس کی وجہ دِینی جذبہ اور اللہ تعالیٰ اور اُس کے سچے رسول ﷺ کے وعدوں پر اِطمینان کے سِوا اَور کیا ہوسکتی ہے؟

 

 


 

*(2) حضرت عُمیر کا بدر کی لڑائی میں چھُپنا:*

حضرت عُمیر بن اَبی وَقاصُ ایک نوعُمر صحابی ہیں، شروع ہی میں مسلمان ہوگئے تھے، سعد بن اَبی وَقاصُ مشہور صحابی کے بھائی ہیں۔ سعدُ کہتے ہیں کہ: مَیں نے اپنے بھائی عُمیرُ کو بدر کی لڑائی کے وقت دیکھا، کہ لشکر کی روانگی کی تیاری ہو رہی تھی اور وہ اِدھر اُدھر چھُپتے پھر رہے تھے کہ کوئی دیکھے نہیں، مجھے یہ بات دیکھ کر تعجب ہوا، مَیں نے اُن سے پوچھا کہ: کیا ہوا؟ چھُپتے کیوں پھر رہے ہو؟ کہنے لگے: مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں حضورِ اقدس ﷺمجھے نہ دیکھ لیں، اور بچہ سمجھ کر (جهاد ميں) جانے کی مُمانَعت کردیں کہ پھر نہ جاسکوں گا، اورمجھے تمنا ہے کہ لڑائی میں ضرور شریک ہوں، کیا بعید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی کسی طرح شہادت نصیب فرمائیں!، آخر جب لشکر پیش ہوا تو جو خطرہ تھا وہ پیش آیا، اور حضورِ اقدس ﷺ نے اُن کے کم عمر ہونے کی وجہ سے انکار فرما دیا، اور جو خطرہ تھا وہ سامنے آگیا؛ مگر شوق کا غلبہ تھا، تحمُّل نہ کرسکے اور رونے لگے، حضورِ اقدس ﷺ کو شوق کا اور رونے کا حال معلوم ہوا تو اجازت عطا فرمادی، لڑائی میں شریک ہوئے، اور دوسری تمنا بھی پوری ہوئی کہ اِس لڑائی میں شہید ہوئے۔ اِن کے بھائی سعدؓ کہتے ہیں کہ: اُن کے چھوٹے ہونے اور تلوار کے بڑے ہونے کی وجہ سے مَیں اُس کے تَسموں میں گِرہیں لگاتا تھا؛ تاکہ اونچی ہوجائے۔

[الإصابة في تمييز الصحابة(امام)ابن حَجَر العَسْقلاني: ج4 ؍ ص603 ، دار الكتب العلمية - بيروت]

 

 

 

*(3) دو انصاری بچوں کا ابوجہل کو قتل کرنا:*

حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ مشہور اور بڑے صحابہ میں ہیں، فرماتے ہیں کہ: مَیں بدر کی لڑائی میں میدان میں لڑنے والوں کی صف میں کھڑا تھا، مَیں نے دیکھا کہ میرے دائیں اور بائیں جانب انصار کے دو کم عُمر لڑکے ہیں، مجھے خیال ہوا کہ مَیں اگر قَوی اور مضبوط لوگوں کے درمیان ہوتا تو اچھا تھا، کہ ضرورت کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرسکتے، میرے دونوں جانب بچے ہیں یہ کیا مدد کرسکیں گے! اِتنے میں اِن دونوں لڑکوں میں سے ایک نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا: چچا جان! تم ابوجہل کو بھی پہچانتے ہو؟ مَیں نے کہا: ہاں! پہچانتا ہوں، تمھاری کیا غرض ہے؟ اُس نے کہا: مجھے یہ معلوم ہوا کہ وہ رسولُ اللہ ﷺ کی شان میں گالیاں بکتا ہے، اُس پاک ذات کی قَسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر مَیں اُس کو دیکھ لوں تو اُس وقت تک اُس سے جدا نہ ہوں گا کہ وہ مرجائے یا مَیں مر جاؤں، مجھے اُس کے اِس سوال اور جواب پر تعجب ہوا، اِتنے میں دوسرے نے یہی سوال کیا، اور جو پہلے نے کہا تھا وہی اِس نے بھی کہا، اِتِّفاقاً میدان میں ابوجہل دوڑتا ہوا مجھے نظر پڑگیا، مَیں نے اُن دونوں سے کہا کہ: تمھارا مَطلُوب جس کے بارے میں تم مجھ سے سوال کررہے تھے، وہ جارہا ہے، دونوں یہ سُن کر تلواریں ہاتھ میں لیے ہوئے ایک دَم بھاگے چلے گئے، اور جاکر اُس پر تلوار چلانی شروع کردی، یہاں تک کہ اُس کو گِرا دیا۔

نوٹ:

یہ دونوں صاحبزادے مُعاذ بن عَمرو بن جَموحؓ اور مُعاذ بن عَفراءؓ ہیں، مُعاذ بن عَمروؓ کہتے ہیں کہ: مَیں لوگوں سے سنتا تھا کہ ابوجہل کو کوئی نہیں مار سکتا، وہ بڑی حفاظت میں رہتا ہے، مجھے اُسی وقت سے خَیال تھا کہ مَیں اُس کو ماروں گا۔ یہ دونوں صاحبزادے پیدل تھے اور ابوجہل گھوڑے پر سوار تھا، صفوں کو درست کر رہا تھا، جس وقت عبدالرحمن بن عوفؓ نے دیکھا اور یہ دونوں دوڑے، تو گھوڑے سوار پر براہِ راست حملہ مشکل تھا؛ اِس لیے ایک نے گھوڑے پر حملہ کیا اور دوسرے نے ابوجہل کی ٹانگ پر حملہ کیا، جس سے گھوڑا بھی گِرا اور ابوجہل بھی گرا، اور اُٹھ نہ سکا، یہ دونوں حضرات اُس کو ایسا کرکے چھوڑ آئے تھے کہ اُٹھ نہ سکے، وہیں پڑا تڑپتا رہے؛ مگر مُعوِّذ بن عَفراءؓ اُن کے بھائی نے اَور ذرا ٹھنڈا کردیا کہ مَبادا اُٹھ کر چلا جائے؛ لیکن بالکل اِنھوں نے بھی نہ نمٹایا، اِس کے بعد عبداللہ بن مسعودؓ نے بالکل ہی سر جُدا کر دیا۔

مُعاذ بن عَمروؓ کہتے ہیں کہ: جس وقت مَیں نے اُس کی ٹانگ پر حملہ کیا تو اُس کا لڑکا عِکرمہ(بن ابوجہل) ساتھ تھا، اُس نے میرے مونڈھے پر حملہ کیا جس سے میرا ہاتھ کٹ گیا، اور صرف کھال میں لٹکا ہوا رہ گیا۔

[اُسدُ الغابة في معرفة الصحابة(امام)ابن الاثير : ج5 ص184، رقم4969 - دار الكتب العلمية]

 

مَیں نے اُس لٹکے ہوئے ہاتھ کو کمر کے پیچھے ڈال دیا، اور دن بھر دوسرے ہاتھ سے لڑتا رہا؛ لیکن جب اُس کے لٹکے رہنے سے دِقَّت ہوئی تو مَیں نے اُس کو پاؤں کے نیچے دبا کر زور سے کھینچا، وہ کھال بھی ٹوٹ گئی جس سے وہ اَٹک رہا تھا اور مَیں نے اُس کو پھینک دیا۔

[تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس (الدِّيار بَكْري) : ج1 ص403]

 

 

 

*(4) حضرت رافعؓ اور حضرت ابنِ جُندُبؓ کا مُقابلہ:*

نبیٔ اکرم ﷺ کی عادتِ شریفہ یہ تھی کہ جب لڑائی کے لیے تشریف لے جاتے تومدینہ مُنوَّرہ سے باہر جانے کے بعد لشکر کا مُعایَنہ فرماتے، اُن کے احوال کو، اُن کی ضرورتوں کو دیکھتے اور لشکر کی اِصلاح فرماتے، کم عُمر بچوں کو واپس فرمادیتے، یہ حضرات شوق میں نکل پڑتے؛ چناںچہ اُحُد کی لڑائی کے لیے جب تشریف لے جانا ہوا تو ایک موقع پر جاکر لشکر کا مُعایَنہ فرمایا، اور نوعمروں کو لڑکپن کی وجہ سے واپس فرما دیا، جن میں حضراتِ ذیل بھی تھے: عبداللہ بن عمرؓ، زید بن ثابتؓ، اُسامہ بن زیدؓ، زید بن اَرقمؓ، بَراء بن عازِبؓ، عَمرو بن حَزمؓ، اُسَید بن ظُہَیرؓ، عُرابہ بن اَوسؓ، ابوسعید خُدریؓ، سَمُرہ بن جُندُبؓ، رافِع بن خَدِیجؓ؛ کہ اِن کی عمریں تقریباً تیرہ چودہ برس کی تھیں، جب اِن کو واپسی کا حکم ہوا تو حضرت خَدِیج نے سفارش کی، اورعرض کیا کہ: یا رسولَ اللہ! میرا لڑکا رافع تیر چَلَانا بہت اچھا جانتا ہے، اور خود رافع بھی اجازت کے اِشتیاق میں اُبھر اُبھر کر کھڑے ہوتے تھے، کہ قَد لاَنبا معلوم ہو، حضور ﷺ نے اجازت عطا فرمادی، تو سَمُرہ بن جُندُبؓ نے اپنے سوتیلے باپ مُرَّہ بن سِنانؓ سے کہا کہ: حضور ﷺ نے رافع کو تو اجازت مَرحَمَت فرمادی اور مجھے اجازت نہیں عطا فرمائی؛ حالاں کہ مَیں رافع سے قوِی ہوں، اگر میرا اور اُس کا مقابلہ ہو تو مَیں اُس کو پَچھاڑ لوںگا، حضورﷺ نے دونوں کا مقابلہ کرایا تو سَمُرہؓ نے واقعی رافعؓ کو پچھاڑ لیا؛ اِس لیے حضور ﷺ نے سمُرہؓ کو بھی اجازت عطا فرمادی، اِس کے بعد اَور بچوں نے بھی کوشش کی، اور بعضوں کو اَور بھی اجازت مل گئی، اِسی سلسلے میں رات ہوگئی، حضور ﷺ نے تمام لشکر کی حفاظت کا انتظام فرمایا، اور پچاس آدمیوں کو پورے لشکر کی حفاظت کے واسطے مُتعیَّن فرمایا، اِس کے بعد ارشاد فرمایا کہ: ہماری حفاظت کون کرے گا؟ ایک صاحب اُٹھے، حضورﷺ نے فرمایا: تمھارا کیا نام ہے؟ اُنھوں نے کہا: ذَکوان، حضور ﷺ نے فرمایا: اچھا، بیٹھ جاؤ، پھر فرمایا: ہماری حفاظت کون کرے گا؟ ایک صاحب اُٹھے، حضور ﷺ نے نام دریافت کیا، عرض کیا: ابوسَبَع (سَبَع کا باپ)، حضور ﷺ نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، تیسری مرتبہ پھر ارشاد ہوا کہ: ہماری حفاظت کون کرے گا؟ پھر ایک صاحب کھڑے ہوئے، حضورِ اقدس ﷺ نے نام دریافت کیا، اُنھوں نے عرض کیا: ابنِ عبدُالقیس(عبدِقیس کا بیٹا)، حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: اچھا، بیٹھ جاؤ، اِس کے تھوڑی دیر بعد ارشاد ہوا کہ: تینوں آدمی آجاؤ، تو ایک صاحب حاضر ہوئے، حضورﷺ نے فرمایا کہ: تمھارے دونوں ساتھی کہاں گئے؟ اُنھوں نے عرض کیا:یا رسولَ اللہ! تینوں دفعہ مَیں ہی اُٹھا تھا، حضور ﷺ نے دعا دی اور حفاظت کا حکم فرمایا، رات بھر یہ حضورﷺ کے خیمے کی حفاظت فرماتے رہے۔

[تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس (الدِّيار بَكْري) : ج1 ص422]


نوٹ:

یہ شوق اور وَلولے تھے اُن حضرات کے، کہ بچہ ہو یا بڑا، ہر شخص کچھ ایسا مَست تھا کہ جان دینا مُستَقِل مقصود تھا، اِسی وجہ سے کامیابی اُن کے قدم چومتی تھی۔ رافع بن خَدِیج نے بدر کی لڑائی میں بھی اپنے آپ کو پیش کیا تھا؛ مگر اُس وقت اجازت نہ مل سکی تھی، پھر اُحُد میں پیش کیا جس کا قِصَّہ ابھی گزرا، اِس کے بعد سے ہر لڑائی میں شریک ہوتے رہے، اُحُد کی لڑائی میں سینے میں ایک تیر لگا، جب اُس کو کھینچا گیا تو سارا نکل آیا؛ مگر بھالے کا حصہ اندر بدن میں رہ گیا، جس نے زخم کی صورت اختیار کرلی، اور اخیر زمانے میں بڑھاپے کے قریب یہی زخم ہرا ہوکر موت کا سبب بنا۔

[اُسدُ الغابة في معرفة الصحابة(امام)ابن الاثير : ج2 ص232، رقم:1580 - دار الكتب العلمية]




(5) سیدنا حسينؓ کے ساتھ راہِ جہاد میں شریک بچوں میں امام باقر کے علاوہ باقی شہید ہونے والے بچوں میں:
عبداللہ بن حسینؓ

[ تاریخ یعقوبی : ج۲ ص ۲۴۵]

علی بن حسینؓ

[مقتل خوارزمی : ج۲ ص ۳۲]

حسن بن حسن[مثنیٰ]

[الارشاد،شیخ مفید : ص ۳۶۶]

قاسم بن الحسن

[تاریخ طبری، ج ۴، ص ۳۴۱]

عون ومحمد
[مناقب آل ابی طالب : ج ۳، ص ۲۵۴]
اس کے علاوہ عبداللہ بن مسلم بن عقیل ، محمد بن مسلم ، محمد بن ابی سعد، عمرو بن جنادہ ، قاسم بن حبیب اور دیگر بچے بھی کربلا میں موجود تھے اور امام حسین علیہ السلام کے رکاب میں شہید ہوئے۔