Saturday 25 December 2021

جرابوں پر مسح کی شرائط

’’خفین‘‘ پر مسح کرنا جائز ہے اور ’’خفین‘‘ ایسے موزے کو کہتے ہیں جو پورے چمڑے کے ہوں، اسی طرح ”مجلد“ یعنی وہ موزے جن کے اوپر اور نچلے حصے میں چمڑا ہو ، اور ”منعل“ یعنی وہ موزے جن کے صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو ان تینوں پر مسح کرنا جائز ہے۔

اسی طرح ایسی جرابیں جن میں تین شرطیں پائی جائیں تو ان پر بھی مسح کرنا جائز ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) ایسے گاڑھے (موٹے) ہوں کہ ان میں پانی نہ چھنے یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے.

(2) اتنے مضبوط ہوں کہ بغیر جوتوں کے بھی اس میں ایک فرسخ (تین میل) پیدل چلنا ممکن ہو.

(3) وہ کسی چیز سے باندھے بغیر اپنی موٹائی اور سختی کی وجہ سے پنڈلی پر خود قائم رہ سکیں، اور یہ کھڑا رہنا کپڑے کی تنگی اور چستی کی وجہ سے نہ ہو ۔

ان کے علاوہ باقی اونی، سوتی یا نائلون کی مروجہ جرابوں پر مسح کرنا ائمہ متبوعین میں سے کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے۔

واضح رہے کہ قرآن کریم میں جو وضو کا طریقہ بیان ہوا ہے ان میں اصل حکم پاؤں دھونے کا ہے، لیکن چمڑے کے موزوں پر مسح کرنے کی باجماعِ امت اجازت دی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے موزوں پر مسح کرنا اور آں حضرت ﷺ کا اس کی اجازت دینا ایسے تواتر سے ثابت ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے، اور چمڑے کے یہ موزے جنہیں ’’خفین‘‘ کہا جاتا ہے اس کے بارے میں تواتر موجود ہے، لہذا اس پر تو بلاشک وشبہ مسح جائز ہے، اور جو موزے اتنے ثخین(موٹے) ہوں کہ وہ اپنی خصوصیات اور اوصاف میں چمڑے کے ہم پایہ ہوگئے ہوں (جن کی شرائط ماقبل میں گزریں) ایسے موزوں پر فقہاء نے مسح کی اجازت دی ہے، اور فقہاء نے یہ شرائط بھی تابعین کے فتوے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے اخذ کی ہیں، چناچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں روایات ہے کہ حضرت سعید ابن المسیب اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”جرابوں پر مسح جائز ہے بشر ط یہ کہ وہ موٹی ہوں“۔

"عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، والحسن أنهما قالا: «يمسح على الجوربين إذا كانا صفيقين»". (مصنف ابن أبي شيبة (1/ 171) برقم:1976)
اور ”صفیق“ اس کپڑے کو کہا جاتا ہے جو خوب مضبوط اور دبیز ہو. اور حضرت حسن بصری اور حضرت سعید ابن المسیب رحمہ اللہ دونوں جلیل القدر تابعین میں سے ہیں،انہوں نے صحابہ کرام کا عمل دیکھ کر ہی یہ فتوی دیا ہے۔

اور اسی موٹائی کی وضاحت کرتے ہوئے فقہاء نے جرابوں پر مسح کرنے کے لیے مذکورہ شرائط ذکر کی ہیں، ایسے موزے چوں کہ چمڑے کے اوصاف کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے ان کو بھی اکثر فقہاء نے ”مسح علی الخفین“ کی احادیث کی ”دلالۃ النص“ اور مذکورہ آثار صحابہ کی بنا پر ”خفین“ کے حکم میں داخل کرلیا ہے، چناچہ علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ فتح القدیر میں تحریر فرماتے ہیں:

فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 157):
" لا شك أن المسح على الخف على خلاف القياس فلايصلح إلحاق غيره به إلا إذا كان بطريق الدلالة وهو أن يكون في معناه، ومعناه الساتر لمحل الفرض الذي هو بصدد متابعة المشي فيه في السفر وغيره للقطع بأن تعليق المسح بالخف ليس لصورته الخاصة بل لمعناه للزوم الحرج في النزع المتكرر في أوقات الصلاة خصوصا مع آداب السير".

کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر جرابیں پتلی اور اتنی باریک ہوں کہ ان میں سے پانی رس جائے تو سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان پر مسح کرنا جائز نہیں "انتہی
"بدائع الصنائع" (1/10)

اسی طرح ابن قطان الفاسی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ : اگر جرابیں موٹی نہ ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے" انتہی
"الإقناع في مسائل الإجماع" ( مسئلہ نمبر:  351)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کیا جرابوں پر موزوں کی طرح مسح کرنا جائز ہے؟
تو انہوں نے کہا:
"جرابوں پر مسح کرنا  اس وقت جائز ہے جب انہیں پہن کر چلنا ممکن ہو، چاہے جرابوں کے تلوے چمڑے کے ہوں یا نہیں" انتہی
"مجموع الفتاوى" (21/213)



ائمہ اربعہ (چاروں اماموں) کا اتفاق:
فقہ حنفی :
لَا ‌يَجُوزُ ‌الْمَسْحُ ‌عَلَى ‌الْجَوْرَبِ الرَّقِيقِ مِنْ غَزْلٍ أَوْ شَعْرٍ بِلَا خِلَافٍ۔
[البحر الرائق شرح كنز الدقائق-ابن نجيم : ج 1 ص 192 الناشر: دار الكتاب الإسلامي]
سوت اور بالوں کی باریک جرابوں پر بغیر کسی اختلاف کے مسح کرنا جائز نہیں۔

قال أبو حنيفة: ‌لا ‌يجوز ‌المسح ‌على ‌الجورب إلا أن يكون منعلا
فرمایا ابوحنیفہؒ نے: نہیں ہے جائز مسح جرنا جوراب پر مگر یہ کہ وہ ہو  منعل۔
[التجريد للقدوري(م428ھ) : ج 1 ص 326 مسئلہ 65، فرمان#1352]
”منعل“ یعنی وہ موزے جن کے صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو۔

فقہ شافعی:
(‌وَإِنْ ‌لَبِسَ ‌جَوْرَبًا ‌جَازَ ‌الْمَسْحُ عَلَيْهِ بِشَرْطَيْنِ أَحَدُهُمَا أَنْ يَكُونَ صَفِيقًا لَا يَشِفُّ وَالثَّانِي أَنْ يَكُونَ مُنَعَّلًا فَإِنْ اخْتَلَّ أَحَدُ الشَّرْطَيْنِ لم يجز المسح عليه).
[المجموع شرح المهذب-النووي: ج 1 ص 499]
ایسی جرابیں جن میں درج ذیل دو شرطیں پائی جائیں ان پر مسح جائز ہے ورنہ جائز نہیں نمبر 1: سخت اور اتنی موٹی ہوں کہ پانی کو )فوراً(جذب نہ کریں۔
نمبر 2 : منعل ہو یعنی جس کے نیچے چمڑا لگا ہوا ہو۔

فقہ مالکی :
وَمثل ‌الْخُف ‌فِي ‌الْجَوَاز ‌والجورب وَهُوَ مَا كَانَ من قطن أَو كتَّان أَو صوف كسى ظَاهره بِالْجلدِ
فَإِن لم يجلد فَلَا يَصح الْمسْح عَلَيْهِ
[الخلاصة الفقهية على مذهب السادة المالكية: ج 1 ص 37 (ص43 دار الكتب العلمية)]
روئی ، السی اور اون کی مجلد (یعنی جس کے اوپر نیچے چمڑا لگا ہوا ہو) جراب مسح کے جواز میں موزے کی طرح ہے اگر مجلد نہ ہو تو اس پر مسح کرنا جائز نہیں۔

فقہ حنبلی :
‌يجوز ‌المسح ‌عليهما ‌إذا ‌ثبت بنفسه وأمكن متابعة المشي فيه وإلا فلا۔
[الشرح الكبير على متن المقنع: ج 1 ص 30 (ج1 ص149 ط المنار) (1/ 381 ت التركي)]
جرابوں پر مسح صرف اس صورت میں جائز ہے جس میں درج ذیل دو شرطیں ہوں: نمبر 1 : بغیر باندھنے کے ٹھہری رہیں۔
نمبر2 : ان میں(بغیر جوتی کے)مسلسل چلنا ممکن بھی ہو ورنہ مسح کرنا جائز نہیں۔ 

مزید تفصیل لے لیے ”فقہی مقالات“ (حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم) جلد 2 ص:9 تا 24 کا مطالعہ مفید رہے گا۔



زمانہ جس قدر خیرالقرون سے دور ہوتا جارہا ہے اتنا ہی فتنوں کی تعداد اور افزائش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ہر روزایک نیا فتنہ سر اٹھاتا ہے اور عوام الناس کو اپنے نئے اعتقاد ،افکار اور اعمال کی طرف دعوت دیتاہے۔ اپنی خواہشات نفسانی کے پیش نظر قرآن وسنت کی وہ تشریح کرتا ہے جو ان کے خود ساختہ مذہب واعمال کے مطابق ہو۔عوام چونکہ ان کے مکروفریب سے ناواقف ہوتے ہیں ۔لہذا ان کے دام میں پھنس جاتے ہیں اور بعض اوقات اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ۔
ان فتنوں میں سے ایک بڑا اور اہم فتنہ غیرمقلدیت کا ہے،جن کا کام امت کے معمول بہا اعتقادات اور اعمال کے مقابلے میں نئے اعتقادات اور اعمال مارکیٹ میں متعارف کروانا ہے۔یہ فرقہ دعوی تو عمل بالحدیث کا کرتاہے لیکن در حقیقت عامل علیٰ حدیث النفس ہے۔انہوں نے اپنا سارا زور فروعی مسائل پر لگایاا اور اس حد تک گئے کہ مستحب ،اولیٰ وغیر اولیٰ کے اختلاف کو خِلاف کا جامہ پہنا تے ہوئے اہل السنۃ والجماعۃ کے اکثر مسائل کو قرآن وسنت کے خلاف قرار دیا۔ من جملہ ان مسائل میں سے ایک مسئلہ جرابوں پر مسح کرنا بھی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں احکامِ وضوبیان فرماتے ہوئے فرمایا :
یاایھاالذین امنوا۔۔ وارجلکم الی الکعبین
[سورۃ المائدہ :آیت6]
قرآن مجید کی اس آیت کا تقاضایہ تھا کہ وضو میں ہمیشہ پاؤں دھوئے جائیں۔ کسی بھی صورت میں ان پر مسح جائز نہ ہو، لیکن موزوں پر مسح حضورﷺ کے اتنی قولی ،فعلی اور تقریری احادیث سے ثابت ہے جومعنیً متواتر یا کم از کم مشہور کے درجے تک پہنچی ہوئی ہیں۔ ان روایات کی وجہ سے پوری امت کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن مجید کی مذکورہ آیت میں پاؤں دھونے کا حکم تب ہے جب موزےنہ پہنے ہوں اور اگر موزے پہنے ہوں تو تب دوران وضو ان پر مسح کرنا جائز ہوگا ۔

(۱)محدث کبیر امام ابن منذرؒ حضرت حسن بصری ؒ سے نقل فرماتے ہیں:
حدثنی سبعون من اصحاب رسول اللہ  انہ مسح علی الخفین
ترجمہ:
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ستر صحابہ سے سنا کہ حضور ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔
[الاوسط لابن المنذر ج1ص430]



:2قد صرح جمع من الحفاظ بان المسح علی الخفین متواتروجمع بعضھم رواتہ فجاوزالثمانین ومنھم العشرة
ترجمہ:
حدیث کے حفاظ کی ایک بڑی جماعت نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ خفین پر مسح کا حکم متواتر ہے۔ بعض حضرات نے خفین کے مسح کی روایت کرنے والے صحابہ کرامؓ کی تعداد کو جمع کیا تو ان کی تعداد 80سے بھی زیادہ تھی، جن میں عشرہ مبشرہ بھی شامل تھے۔
[فتح الباری : کتاب الوضوء، باب المسح علی الخفین]

(۳حضرت ملاعلی قاریؒ مشکوٰة کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:
قال الحسن البصری ادرکت سبعین نفراًمن الصحابة یرون المسح علی الخفین ولٰہذا قال ابوحنیفة ماقلت بالمسح حتیٰ جاءنی فیہ مثل ضوءالنھار۔
ترجمہ: حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا میں نے ستر ایسے صحابہ کو پایا جو خفین پر مسح کے قائل تھے۔ امام ابوحنیفہ ؒ نے اسی وجہ سے فرمایا کہ میں خفین پر مسح کا اس وقت تک قائل نہ ہواجب تک میرے پاس اس کے دلائل اس حد تک واضح وروشن نہ ہوئے جس طرح دن کی روشنی ہوتی ہے۔
[المرقاة شرح مشکوٰۃ: ج2ص77]

موزوں پر مسح کے جواز اورعدم جواز کے اعتبار سے اصولی طورپر اس کی تین قسمیں بنتی ہیں۔
(۱حقیقی خفین :(چمڑے کے موزے )ان پر باجماع امت مسح کرنا جائز ہے۔
(۲حکمی خفین :(وہ موزے جو چمڑے کے نہ ہوں لیکن موٹے ہونے کی بناءپر ان میں اوصاف چمڑے کے موزوں ہوں) ایسے موزوں پر مسح کے بارے میں فقہاءکا اختلاف ہے، جمہور فقہاء کا فتوی انہی موزوں پر جواز کا ہے۔
(۳)غیر حقیقی غیرحکمی خفین:(مروجہ اونی ،سوتی یانائیلون کی جرابیں)ایسی جرابوں کے بارے میں جمہور امت کا اتفاق ہے کہ مسح جائز نہیں۔

(۱ملک العلماءامام علاءالدین ابوبکر بن سعودالکاسانی الحنفی تحریر فرماتے ہیں:
فان کانا رقیقن یشفان الماءلایجوز المسح علیھا باجماع
ترجمہ: اگر موزے اتنے پتلے ہوں کہ ان میں سے پانی چھن جاتا ہو تو ان پر بالاجماع مسح جائز نہیں۔
[بدائع الصنائع ج1ص83کتا ب الطہارة]

(۲امام ابو محمد عبداللہ بن احمد بن قدامہ المقدسی الحنبلی نے اپنی کتاب ”المغنی“میں مسئلہ”مسح علی الجوربین“کے تحت فرمایا ہے:
لایجوز المسح علیہ الا ان یکون مما یثبت بنفسہ ویمکن متابعة المشی فیہ واما الرقیق فلیس بساتر۔
ترجمہ:
کپڑے کے موزے پر مسح جائز نہیں۔ ہاں اگر موزے اتنے مضبوط ہوں کہ پنڈلی پر خود سے ٹھہرے رہیں اور ان کو پہن کر مسلسل اور غیرمعمولی چلنا ممکن ہو ۔جہاں تک پتلے موزوں کا معاملہ ہے (جن میں مذکورہ شرائط نہ ہوں)تو وہ پاؤں کے لئے ساتر نہیں۔
[المغنی لابن قدامہ ج1ص377مسئلہ85]
ہر مسئلے کی طرح لامذہب فرقہ غیرمقلدین نے جمہور امت کے اجماع اور تعامل سے ہٹ کر اپنا ایک نیا اور امتیازی موقف اختیار کیا ہے ۔اور مروجہ اونی ،سوتی یا نائیلون وغیرہ کی جرابوں کو موزوں کی مماثل قرار دے کر ان پر بھی مسح کو جائز کہا۔
[نماز نبوی ص77]
اپنے اس موقف پر چند ان ضعیف روایات کا سہارا لیا جواصول جرح وتعدیل کے اعتبار سے قابل استدلال نہیں۔



غیر مقلدین کے مستدلات اور ان کا جائزہ
(۱)عن مغیرة بن شعبة قال توضاالنبی  ومسح علی الجوربین والنعلین
[سنن ابی داود ج1ص33باب المسح علی الجوربین]
اس حدیث کے ذیل میں غیرمقلد عالم مولوی عبدالرحمان مبارک پوری نے مختلف ائمہ کے اقوال نقل کرکے اس کو ضعیف اور ناقابل استدلال ٹھہرایا ہے۔چنانچہ لکھا ہے (۱) ضعفہ کثیر من ائمة الحدیث ترجمہ: حدیث کے کافی سارے اماموں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔(۲) امام مسلم بن الحجاج فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی ابوقیس اودی اور ہزیل بن شرحبیل نے حدیث کے بقیہ تمام راویوں کی مخالفت کی ہے باقی رواة نے موزوں پر مسح کو نقل کیا ہے ۔لہذا ابوقیس اور ہذیل جیسے راویوں کی وجہ سے قرآن کو نہیں چھوڑا جاسکتا۔
(تحفة الاحوذی ج1ص 346,347باب ماجاءفی المسح علی الجوربین)

(۳امام بیہقی ؒ نے اس حدیث کو منکر کہا ہے (سنن البیہقی ج1ص290 کتاب الطہارة ،باب کیف المسح علی الخفین)
عبدالرحمن مبارکپوری حدیث کے ضعف پر ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال نقل کرنے کے بعد حدیث کے بارے میں اپنا موقف سناتے ہیں کہ ”میرے نزدیک اس حدیث کا ضعیف قرار دینا مقدم ہے امام ترمذی ؒ کے حسن صحیح کہنے پر
(تحفة الاحوذی ج1ص347)

دوسری دلیل:
عن ابی موسیٰ ان رسول اللہ  توضا ومسح علی الجوربین والنعلین۔
(ابن ماجہ ج1ص186کتاب الطہارة باب ماجاءفی المسح علی الجوربین والنعلین)
یہ حدیث بھی غیرمقلدین کے لئے حجت نہیں بنتی۔ اس لئے کہ اس کی سند پر ائمہ جرح وتعدیل نے کافی بحث کی ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجرؒ نے اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں امام یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ اس حدیث کا راوی عیسیٰ بن سنان ضعیف الحدیث ہے۔
(تہذیب التہذیب ج8ص212)
امام الجرح والتعدیل حافظ شمس الدین الذہبی ؒاپنی کتاب میزان الاعتدال میں عیسیٰ بن سنان کے متعلق لکھتے ہیں کہ اما م احمد بن حنبل ؒ نے اس کے متعلق فرمایا کہ وہ ضعیف ہے ۔
(میزان الاعتدال ج5ص376)
مشہور غیرمقلد عالم عبدالرحمن مبارکپوری نے اپنی کتاب تحفۃ الاحوذی میں اس حدیث کی سند پر کلام کرتے ہوئے امام ابوداود کا قول نقل کیا ہے کہ ”یہ حدیث نہ متصل ہے اور نہ قوی ہے“ابوحازم نے حدیث کے راوی سفیان کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے حدیث لکھی تو ہیں لیکن بطور استدلال پیش نہیں کی جاسکتیں۔
تیسری دلیل:
عن بلال ان رسول اللہ  یمسح علی الخفین والجوربین.
(طبرانی ج1ص350رقم1063)
یہ حدیث بھی بطور حجت پیش نہیں کی جاسکتی اس لئے کہ امام زیلعیؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں یزید بن زیاد ہے اور وہ ضعیف ہے ۔
(نصب الرایہ للزیلعی ج1ص185,186)
(۲)حافظ ابن حجر ؒفرماتے ہیں کہ یزید ضعیف تھا، آخری عمر میں اس کی حالت بدل گئی تھی اور وہ شیعہ تھا۔
(تقریب ج2ص365)

چوتھی دلیل:
عن ثوبان قال بعث رسول اللہ  سریة فاصابھم البرد فامرھم ان یمسحوا علی العمائم والتساخین۔
(ابوداود ج 1ص 19)
اس حدیث کے بارے میں عبدالرحمن مبارک پوری لکھتاہے کہ یہ حدیث منقطع ہے ۔امام ابن ابی حاتم کتاب المراسیل ص22پر امام احمدؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ حدیث کے راوی راشد بن سعد کا سماع ثوبان سے ثابت نہیں۔
(تحفة الاحوذی ج1ص330)
(۲)تساخین کے لغت میں تین معانی کئے گئے ہیں۔(۱)ہانڈیاں (۲)موزے(۳)علماءکے سر پر ڈالنے کا کپڑا
(المنجد ص474)
لہذا متعین طور پر اس کو صرف جرابوں پر حمل کرنا درست نہیں۔


مسح علی الجوربین کے بارے میں غیرمقلدین اکابر کی رائے
(۱)غیر مقلدین کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی لکھتا ہے:”مذکورہ (اونی یا سوتی)جرابوں پر مسح جائز نہیں کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں اور مجوزین نے جن چیزوں سے استدلال کیا ہے اس میں خدشات ہیں
(فتاویٰ نذیریہ از نذیرحسین دہلوی ج1ص327)
(۲)دوسری جگہ لکھتا ہے ”خلاصہ یہ ہے کہ (باریک )جرابوں پر مسح کے جواز پر نہ قرآن سے کوئی دلیل ہے نہ سنت صحیحہ سے نہ قیاس سے۔
(۳)غیرمقلدین کے مشہور عالم ابوسعید شرف الدین دہلوی کا جرابوں پر مسح کے بارے میں فتویٰ: ”پھر یہ مسئلہ (جرابوں پر مسح)نہ قرآن سے ثابت ہے نہ احادیث مرفوعہ صحیحہ سے نہ اجماع سے نہ قیاس سے نہ چندصحابہ کے فعل سے اور غسل رجلین قرآن سے ثابت ہے ۔لہذا خف چرمی(موزوں)کے سوا جرابوں پر مسح ثابت نہیں۔“(زبیر علی زئی متروک مردود عند الجمہور نے اس مسئلہ پر اپنی فطرت سے مجبور ہو کر امت مسلمہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے جسے آئندہ شمارہ میں واضح کیا جائے گا۔)پتہ چلا کہ مسح علی الجوربین ایسا مسئلہ ہے جس کے جواز عدم جواز کے بارے میں غیرمقلدین کے خود آپس متفرق اقوال ہیں ۔لہذا ان ضعیف روایات کے بل بوتے پر پوری امت سے ہٹ کر ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ مسجد بنانا اورجمہور امت کے تعامل کو جو کہ قرآن وسنت وآثار صحابہ وتابعین ؒ کےعین موافق ہے، چھوڑنا ضد اور ہٹ دھرمی کے علاوہ کچھ نہیں۔اللہ سے دعاہے کہ ہمیں سنت صحیحہ کی اتباع کی توفیق نصیب. فرمائے۔آمین



Tuesday 21 December 2021

تہلیل - یعنی اللہ کا ذکر کرنے - مراد لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ کہنے - کے معنی، تشریح اور فضائل

 Islamic Affirmation:

A lullaby type remembrance with cheer and acclamation.

تَھلِیل - یعنی خوشی اور جلال کا نعرہ۔
یعنی لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ کہنا۔

لَا = نہیں ہے
إِلَهَ = کوئی خدا-معبود (عبادت یعنی سجدہ-نیاز-پکارے جانے وغیرہ کے قابل)
إِلَّا ‌اللَّهُ = سوائے اللہ کے۔


ایک مرتبہ یہ کلمہ توحید کہنے کی فضیلت:
اللہ کے آخری پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لوگوں میں اعلان کردو: جس نے کہا: نہیں ہے کوئی اِلٰه(خدا-معبود) سوا اللہ کے، وہ داخل ہوگا جنت میں۔
[صحيح ابن حبان:151]
تفسیر سورۃ النساء:48، محمد:16



اِلٰه (خدا-معبود) کا قرآنی مفہوم:
اِلٰه کہتے ہیں جو سب کا خالق، کائنات کا نظام سنبھالنے والا، دعائیں سننے والا، تکلیفیں دور کرنے والا، سب کو ہدایت اور رزق دینے والا ہو۔
[حوالہ سورۃ النمل:60-64]


القرآن:
بھلا وہ کون ہے جو قبول کرتا بےقرار(مجبور ولاچار)کی (دعا)جب وہ پکارے اور دور کردیتا ہے تکلیف۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) الله کے ساتھ کوئی اور اِلٰه ہے؟ بہت کم تم سمجھتے ہو۔
[سورة النمل:62]

یعنی وہ ہستی جو (1)پکارنے والوں کی غائبانہ پکار سنتی ہو اور (2)تکلیف دور کرنے پر قادر ہو۔۔۔وہی إِلَهَ ہے۔
لہٰذا
جو سب کے خالق ومالک الله کے علاؤہ کسی مخلوق میں یہ دو باتیں مانے وہ الله کے ساتھ مخلوق کو برابری کا درجہ دیتے حصہ دار اور شریک بناکر شرک جیسا خالق کے ساتھ عظیم ظلم کرتا ہے۔


کلمہ کی قرآنی تفسیر:
الله کے سوا کوئی اِلٰه نہیں
[دلائلِ قرآن-محمد:19،انبیاء:22]
۔۔۔یعنی۔۔۔
کوئی عبادت کے لائق نہیں
[فصلت:14]
کوئی غیب جاننے والا نہیں
[نمل:65]
کوئی گناہوں کا بخشنے والا نہیں
[آل عمران:135]
کوئی ڈرنے-ڈرانے کے لائق نہیں
[توبۃ:12،احزاب:39]
کوئی آسمانی فضا میں اڑتے پرندے تھامنےوالا نہیں
[نحل:79،ملک:19]
کوئی تکلیف دور ہٹانے-والا نہیں
[انعام:17،یونس:107]



کلمہ کی حدیثی تفسیر:
پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر فرض نماز کے بعد یہ پڑھا کرتے تھے: کوئی معبود نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے، ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں، اسی کی ہے بادشاہت اور اسی کیلئے ہے تعریف اور وہ ہر بات پر قادر ہے، اے اللہ جو کچھ تو دے، اس کو کئی روکنے والا نہیں اور جو چیز تو روک لے اس کا کوئی دینے والا نہیں اور کوشش والے کی کوشش تیرے سامنے کچھ فائدہ نہیں دیتی۔ 
[صحیح بخاری»حدیث#844]

نہیں ہے کوئی گناہوں کا بخشنے والا سوائے تیرے
[بخاری:834]


نہیں ہے کوئی شفا دینے والا سوائے تیرے
[بخاری:5742]

نہیں ہے کوئی کاشف(یعنی تکلیف ٹالنے والا) سوائے تیرے۔
[بخاری:5744]

نہیں ھدایت دیتا بہتر اخلاق کی سوائے تیرے۔۔۔نہیں دور کرتا ہے برے اخلاق سے سوائے تیرے
[ابوداؤد:834]

نہیں لاتا کوئی بھلائی سوائے تیرے اور نہیں دفع کرتا ہے کوئی برائی سوائے تیرے
[جامع معمر بن راشد:19512]

نہیں ہے کوئی مالک ان دونوں(یعنی تیرے فضل اور تیری رحمت کے)سوائے تیرے۔
[مصنف ابن ابی شیبۃ:29579]

میری حق پر کوئی مدد نہیں کرسکتا سوائے تیرے، اور نہیں دے سکتا کوئی اسے سوائے تیرے۔
[ترمذی:3570]

نہیں ہے کوئی نحوست سوائے تیری طرف سے اور نہیں ہے کوئی خیر سوائے تیرے خیر کے۔
[مصنف ابن ابی شیبۃ:26411]






کلمہ کی فضیلت:
الله پاک کے آخری پیغمبر محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ
ترجمہ:
۔۔۔اور ہر تہلیل (یعنی لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ کہنا) بھی صدقہ(نیکی) ہے۔۔۔
[صحیح مسلم:720(2329)]

الله کے رسول ﷺ نے فرمایا:
جس نے کہا کہ: لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ، وہ داخل ہوگا جنت میں.
[صحیح (امام) ابن حبان(م354ھ) » کتاب الایمان » باب فرض الایمان » حدیث#169]
 تفسیر سورۃ النساء:48، 116

۔۔۔اس(کلمہ)کا اخلاص یہ ہے کہ یہ(کلمہ)اسے روک دے اللہ کی حرام کردہ باتوں سے.
[طبرانی:5074]

ہمیشہ کلمہ لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ اپنے پڑھنے والے کو نفع دیتا ہے اور اس سے عذاب و بلا دور کرتا ہے جب تک کہ اس کے حقوق سے بے پروائی نہ برتی جاۓ۔۔۔(یعنی)...الله کی نافرمانی کھلے طور پر کی جاۓ پھر نہ اس کا انکار کیا جاۓ اور نہ ہی ان کو روکنے/بدلنے کی کوشش کی جاۓ۔
[الترغیب-الاصبھانی:307]

میں ایسا کلمہ(یعنی لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ)جانتا ہوں کہ جو بھی اپنی موت کے وقت اُس کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اُس سے(موت کی)تکلیف دور کردے،اُس کا رنگ چمکنے لگے اور وہ خوش کردینے والا منظر دیکھے...
[الأسماء و الصفات للبیھقی:172]

”لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ“ اپنے پڑھنے والے کو کسی نہ کسی دن ضرور کام دےگا، اگرچہ اس سے پہلے اُسے(اپنے گناہوں کی وجہ سے)کچھ نہ کچھ سزا ملی ہو۔
[صحیح ابن حبان:3004]

جو بندہ بھی اخلاص کے ساتھ کہے: ”لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ“ تو اُس(کی دعاؤں)کیلئے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ کلمہ عرشِ الٰہی تک جا پہنچتا ہے، بشرطیکہ(اس کا کہنے والا)کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔
[ترمذی:3590]

یہ ایسا کلمہ ہے کہ اس سے کوئی عمل آگے نہیں بڑھ سکتا اور یہ(پچھلے)کسی گناہ کو چھوڑتا نہیں ہے۔
[ابن ماجہ:3797]

اگر مرنے والا اسے(دل کے یقین سے)کہے تو(قیامت کے دن)وہ کلمہ اعمال ناموں کیلئے نور بن جاتا ہے، اور اس کا جسم اور روح موت کے وقت اس کی وجہ سے خوشی اور تروتازگی پاتے ہیں۔
[ابن ماجہ:3795]

اس سے اس کا چہرہ منور ہوجاتا ہے، اور الله اسے مصیبت سے کشادگی دیتا ہے۔‏
[احمد:1384]

جھنم حرام ہوجاتی ہے
‏[حاکم:1298]

جہنّم سے ہر اُس شخص کو نکال لو جس نے کہا ہو ”لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ“ اور اُس کے دل میں ایک ذَرَّہ برابر بھی ایمان ہو۔اور ہر اُس شخص کو نکال لو جس نے”لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ“کہا ہو،یا مجھے یاد کیا ہو،یا کسی موقعے پر مجھ سے ڈرا ہو۔
[ترمذی:2593، احمد:12772 حاکم:234]


کلمہ



روزانہ تھلیل کہنے کی تعداد اور فضیلت:

الله کے آخری پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:

وَهَلِّلِي اللهَ مِئَةَ تَهْلِيلَةٍ ۔۔۔ أَحْسِبُهُ قَالَ تَمْلَأُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَا يُرْفَعُ يَوْمَئِذٍ لِأَحَدٍ عَمَلٌ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَ بِمِثْلِ مَا أَتَيْتِ بِهِ.
ترجمہ:
اور سو(100)مرتبہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰه (یعنی نہیں ہے کوئی خدا سوائے الله کے) کہو،  یہ آسمان و زمین کو بھر دے گا، اس دن کسی شخص کا عمل اتنا بلند نہیں ہوگا سوائے اس شخص کے جو اسی طرح کہے۔
[السلسلة الأحاديث الصحيحة:1316]


 
.....لا تَذَرُ ذَنباً، ولا يَسبِقُها عَمَلٌ".
ترجمہ:
.....یہ(عمل) نہیں چھوڑتا کوئی گناہ، اور نہیں بڑھتا اس سے کوئی عمل۔
[صحيح الترغيب والترهيب:1553]



 
.....وَمِائَةً بِالْعَشِيِّ كَانَ كَمَنْ أَعْتَقَ مِائَةَ رَقَبَةٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيل
ترجمہ:
۔۔۔اور سو(100) بار "شام" کو بھی اللہ کی تہلیل  (یعنی لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ) کہے تو وہ ایسا ہو جائے گا گویا اس نے اولاد اسماعیل میں سے سو(100) غلام آزاد کئے۔۔۔
[ترمذی:3471]



 
مَا مِنْ عَبْدٍ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , مِائَةَ مَرَّةٍ إِلَّا بَعَثَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَوَجْهُهُ كَالْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ , وَلَمْ يُرْفَعْ لِأَحَدٍ يَوْمَئِذٍ عَمَلٌ أَفْضَلُ مِنْ عَمَلِهِ إِلَّا مَنْ قَالَ مِثْلَ قَوْلِهِ أَوْ زَادَ
ترجمہ:
جو بندہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ سو مرتبہ کہے تو اللہ پاک اس کو قیامت کے روز اس حال میں اٹھائیں گے کہ اس کا چہرہ چودھویں چاند کی مانند چمکتا ہوگا اور اس روز اس کے عمل سے بڑھ کر کسی کا عمل نہیں ہوسکتا، الایہ کہ کوئی اسی جیسا عمل کرے یا اس سے بھی زیادہ۔
[مسند الشاميين للطبراني:994]





مرنے سے پہلے، زندگی بھر کے، بغیرمانگے، اللہ کے انعامات کا شکر ادا کرلو۔۔۔بےشک جنت میں داخلہ اللہ کی رحمت(رضا) ہی سے ہوگا، لیکن اعمال ہی (1)قیامت کے حساب، (2)جہنم کے عذاب اور (3)جنت میں سب سے نیچے پیچھے ہونے کی دائمی ندامت سے بچانے کا وسیلہ ہیں۔