Friday, 11 May 2012

اسلام اور سائنس


القرآن:
سَنُريهِم ءايٰتِنا فِى الءافاقِ وَفى أَنفُسِهِم حَتّىٰ يَتَبَيَّنَ لَهُم أَنَّهُ الحَقُّ ۗ أَوَلَم يَكفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلىٰ كُلِّ شَيءٍ شَهيدٌ {41:53}

عنقریب ہم دکھائیں گے ان کو اپنی نشانیاں  اطراف عالم میں بھی اور خود ان کی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ حق ہے۔ کیا تم کو یہ کافی نہیں کہ تمہارا پروردگار ہر چیز سے خبردار ہے.
[سورۃ فصلت:53]

آیات آفاقیہ و انفسیہ:
یعنی قرآن کی حقانیت کے دوسرے دلائل براہین تو بجائے خود رہے۔ اب ہم ان منکروں کو خود ان کی جانوں میں اور ان کے چاروں طرف سارے عرب بلکہ ساری دنیا میں اپنی قدرت کے وہ نمونے دکھلائیں گے جن سے قرآن اور حامل قرآن کی صداقت بالکل روز روشن کی طرح آنکھوں سے نظر آنے لگے۔ وہ نمونے کیا ہیں؟ وہ ہی اسلام کی عظیم الشان اور محیر العقول فتوحات جو سلسلہ اسباب ظاہری کے بالکل بر خلاف قرآنی پیشینگوئیوں کے عین مطابق وقوع پذیر ہوئیں۔ چنانچہ معرکہ "بدر" میں کفار مکہ نے خود اپنی جانوں کے اندر اور "فتح مکہ" میں مرکز عرب کے اندر اور خلفائے راشدین کے عہد میں تمام جہان کے اندر یہ نمونے اپنی آنکھوں سے دیکھ لئے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ "آیات" سے عام نشانہائے قدرت مراد ہوں جو غور کرنے والوں کو اپنے وجود میں اور اپنے وجود سے باہر تمام دنیا کی چیزوں میں نظر آتے ہیں جن سے حق تعالیٰ کی وحدانیت و عظمت کا ثبوت ملتا ہے اور قرآن کے بیانات کی تصدیق ہوتی ہے۔ جب کہ وہ ان سنن الہٰیہ اور نوامیس فطریّہ کے موافق ثابت ہوتے ہیں۔ جو اس عالم تکوین میں کارفرما ہیں۔ اس قسم کے تما م حقائق کونیہ اور آیات آفاقیہ و انفسیہ کا انکشاف چونکہ لوگوں کو دفعۃً نہیں ہوتا بلکہ وقتًا فوقتًا بتدریج ان کے چہرہ سے پردہ اٹھتا رہتا ہے۔ اس لئے سَنُرِیْھِمْ اٰیٰتِنَا سے تعبیر فرمایا۔کیا اللہ کی گواہی ناکافی ہے:یعنی قرآن کی حقانیت کو فرض کرو کوئی نہ مانے، تو اکیلے خدا کی گواہی کیا تھوڑی ہے جو ہر چیز پر گواہ ہے اور ہر چیز میں غور کرنے سے اسکی گواہی کا ثبوت ملتا ہے۔


سائنس یہ تو بتاتی ہے کہ ہم کیسے پیدا ہوتے ہے، نش و نما پاتے اور پھر مرتے ہیں، مگر یہ نہیں بتاتی کہ ہم کیوں اور کس کے کہنے یا کرنے پر پیدا ہوتے ہیں، نش  و نما پاتے اور پھر مرتے ہیں!لیکن "دین_اسلام" ہمیں اس کا مفصل، مدلل اور قابل_فہم جواب دیتا ہے.تومعلوم ہوا اسلام اور اس کے ماننے والے (بمقابلہ اسلام) سائنس اور اس کے  دلدادہ نادانوں سے ١٤٠٠ سال آگے ہیں، پیچھے نہیں۔

Science teaches us that how are we born, grow and then die, but it does not teaches us that why are we born, grow and then die? But Islam teaches us with detailed, Contend & understandable answers. So, It means that 1400 years ancient religion Islam & their Believers are Forward than Science & their immature followers.

قرآن اورثابت شدہ سائنسی حقائق

قران مختلف زمانوں میں مختلف عقول کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟ اسکے لیئے ہمیں قران کی کچھ زبردست آیات میں ڈوبنا پڑیگا۔ پھر ہم سمجھ پائینگے کہ ہر دور کا ذہن قران سے کسطرح مستفید ہو سکتا ہے۔

مدار(بشمول سورج کا مدار)۔:
اور وہی ہے جس نے دن اور رات اور سورج اور چاند کو تخلیق کیا۔ اور سب اپنے اپنے مداروں میں تیر رہے ہیں۔” (قران 21:33)
ساتویں صدی عیسوی میں، جب قران نازل ہوا اسوقت سورج اور چاند کی حرکت کو بیان کرنے کیلئے قران نے “یسبحنا” کا لفظ استعمال کیا، جسکا معنی “تیرنا” ہے۔ اس (تیرنے سے مماثل) حرکت کا مشاہدہ ایک صحرا کا بدوی عرب بھی کر سکتا تھا اور آج بھی یہ لفظ ہمارے لیئے اتنا ہی با معنی ہے۔ اجرام فلکی کی نقل و حرکت کے ہمارے سائینسی فہم سے بھی یہ لفظ زبردست مطابقت رکھتا ہے۔مستنصر میر، جو ینگ ٹاؤنsunmilkyway-580x580 سٹیٹ یونیورسٹی میں اسلامیات کے پروفیسر ہیں، انہوں نے بھی اسی نکتے کو انہی الفاظ میں بیان کیا ہے۔ (Nidhal Guessoum. Islam’s Quantum Question: Reconciling Muslim Tradition and Modern Science, 2011, p. 152)
دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ آیت سورج کہ بارے میں بھی یہی بتا رہی ہے کہ وہ بھی اپنے مدار میں تیر رہا ہے۔ یہ چیز ساتویں صدی کے اس نظریے سے بالکل الٹ ہے جسکے مطابق زمین کائینات کا مرکز ہے اور باقی تمام اجرام فلکی اسکے گرد گھوم رہے ہیں۔ اور قران کی زبان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ اکیسویں صدی کے فلکیات کے تصور سے بھی اتنی ہی مطابقت رکھتی ہے، جسکے مطابق سورج “ملکی وے” کہکشاں میں اپنے مدار پر چلا جا رہا ہے۔ سائیسدانوں کے مطابق سورج کو ملکی وے میں اپنا چکر پورا کرنے میں 226 ملین سال لگتے ہیں۔

: (Embryo)انسانی جنین
ثم خلقنا النطفۃ علقۃ
“پھر ہم نے نطفے کو جمے ہوئے خون کی شکل دی۔”( قران 23; 14)
قران نے یہاں “علقہ” کی اصطلاح استعمال کی ہے جسکا مطلب بیک وقت “خون کا لوتھڑا” بھی ہے اور “ایک چپکا ہوا مادہ”، جیسا کہ “جونک”، بھی۔ (Embryology in the Qur’ān: The ‘Alaqah Stage’, Elias Kareem. Accessed here ) یہ لفظ جنین کی رحم مادر میں نشونما کے ایک مرحلے کو بیان کرتا ہے۔جنین، بطور ایک جونک نما مادہ اور خون کا لوتھڑا، قدیم یونانی اور عبرانی اطباء کی اسکی وضاحت سے بھی مطابقت رکھتا ہے جنکا زمانہ نزول قران سے بہت پہلے کا ہے۔(Corpus Medicorum Graecorum: Galeni de Semine, (Galen: On Semen) pp. 92 – 95) اس لحاظ سے یہ اس دور کے سائینسی تصور ddسے بھی ہم آہنگ ہے۔
حیران کن طور پہ “علقہ” کا جو معنیٰ “جونک نما” کا ہے، اسکے مطابق وہ جونک کی بیرونی اور اندرونی ساخت سے اسکی مشابہت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔(تفصیل) جنین کا یہ تصور پندرہویں صدی عیسوی سے پہلے دریافت نہیں ہو سکتا تھا۔ اگرچہ جنین کا حجم استقرار حمل کے بائیسویں یا تئیسویں دن گندم کے دانے کے برابر ہوتا ہے اور بغیر کسی آلے کے آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے، لیکن اسکا تفصیلی معائینہ مائیکروسکوپ کے بغیر ممکن نہیں،(تفصیل) جسکی ایجاد پندرہویں صدی میں ہوئی۔(وکی پیڈیا)۔

عکس 1: جنین (ایمبریو) کا جونک کی بیرونی ساخت سے موازنہ
(سب سے اوپر والے عکس میں 3ملی میٹر حجم کا جنین پچیسویں دن پر دکھایا گیا ہے۔ درمیان والا عکس جونک کا ہے۔ سب سے نیچے والی تصویر انسانی جنین کا چھبیس سے تیس دنوں کے درمیانی عرصے کے دوران جدید ترین الیکٹران مائیکروسکوپ سے لیا گیا عکس ہے۔ دونوں میں مشابہت صاف دکھی جا سکتی ہے۔)

عکس 2: جنین (ایمبریو) کا جونک کی اندرونی ساخت سے موازنہ
ایک اور دلچسپ اور قابل غور بات یہ ہے کہ ایمبریو کو جونک کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ جونک ایک طفیلی جاندار ہے: یہ جس جاندار پہ رہتا ہے، اسی کے ساتھ چمٹ جاتا ہے اور 1اسکا خون چوسنا شروع کر دیتا ہے۔ بعینہٖ ایمبریو بھی اپنی ماں کے اثاثہ جات کو نچوڑ لیتا ہے۔ لہٰزا ہمیں انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے والدین کے ساتھ رحم کا سلوک کرنا چاہیئے، بالخصوص اپنی ماؤں کے ساتھ کہ انہوں نے جانتے بوجھتے ہماری پیدائیش کی خاطر اپنے جسمانی وسائل کی قربانی دی۔ یہ بات ہمیں اس چیز کی بھی یاد دہانی کرواتی ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں خود مختار، خود کفیل اور آزاد نہیں۔ رحم مادر میں بھی ہم اپنی ماؤں کے محتاج ہوتے ہیں۔ اس سے ہمارے اندر عاجزی پیدا ہونی چاہیئے کہ ہمیں ایک دوسرے پر انحصار کرنا پڑتا ہے اور آخری سہارا تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ہی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جونک اور انسانی جنین کے درمیان یہ تقابل لارڈ رابرٹ ونسٹن نے بھی کیا ہے جو “سائنس اینڈ سوسائیٹی” کے پروفیسر ہیں اور ساتھ ہی امپیریل کالج میں تولیدی علوم کے اعزازی پروفیسر بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
“جونک جس جاندار کے ساتھ بھی چمٹ کر اسکا خون چوس کے اپنی ضروریات زندگی حاصل کر سکتی ہو، وہ ایسا کر لیتی ہے؛ اور فرض کریں کہ اس مثال میں اسکا ذریعہ میں ہوں۔ جیسے ہی وہ میرا خون چوستی ہے، وہ اس میں سے ہر وہ چیز حاصل کر لیتی ہے جو اسے زندہ رہنے کیلیئے درکار ہے۔ وہ عملی طور پہ مجھ پہ پل رہی ہوتی ہے۔ حمل کا پورا دورانیہ بھی اسی قسم کے طفیلی تعلق کی مثال ہے۔ جونک کے برعکس ایمبریو اپنی ماں کا خون تو نہیں چوستا پر ہر وہ اس میں سے ہر وہ خام مال لوٹ لیتا ہے جو اسے اپنی نشونما کیلیئے درکار ہوتا ہے۔ یعنی پہلے دن سے ہی جونک اور ایمبریو صرف اور صرف اپنی ذات کیلئے سرگرم ہوتے ہیں۔”۔موضوع متعلق مزید ریسرچ کے لیے سائیٹ

کائینات کا پھیلنا:
آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا اور ہم ہی اسے توسیع دینے والے ہیں۔” ( قران 51:47)
قران ہمیں بتا رہا ہے کہ اللہ نے کائینات کو اپنی قدرت کاملہ اور قوت سے تخلیق فرمایا اور وہی اسے وسعت دے رہا ہے۔ یہاں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے، “لَمُوسِعُون” جسکے معنی ہیں “(ہم اسے) یقیناً وسیع کر رہے ہیں”۔
ساتویں صدی کی تفاسیر میں اسکا مطلب اتنا بیان کیا گیا کہ خدا نے ہماری زندگی کے دوام کیلیئے ایک وسیع اور بار آور کائینات تخلیق فرمائی۔ (تفسیر ابن کثیر) اور یہ بات بآسانی اس دور کے سامعین کو سمجھ بھی آگئی۔ لیکن جو بات حیران کن ہے وہ یہ کہ لفظ “لَمُوسِعُون” کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ کائینات کو مسلسل توسیع دیتا چلا جا رہا ہے یا دے چکا ہے۔لموسعون کی لغوی بحث۔ اور یہ بات حیرت انگیز طور پر کائینات کے پھیلاؤ کے جدید شواہد کے ساتھ بھی مطابقت رکھتی ہے۔

مستقبل کی دریافتوں پر ایک نوٹ:
جب ہم کسی سائنسی حقیقت اور قرانی آیت یا لفظ میں ربط تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ آیت نئی سائینسی تحقیق، ڈیٹا اور کسی نادر سائیسی حل کی جستجو کیلیئے مہمیز کا کام کرتی ہے۔
اگر ہم سائینس اور قران کے درمیان کوئی با معنی مطابقت یا موافقت پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو گویا ہم اپنے لیئے ایک ایسا دریچہ وا پاتے ہیں جس کے ذریعے مستقبل کی کسی سائینسی ایجاد یا تحقیقی نتائج کا راستہ دکھائی دیتا ہے جو کبھی ایک جاندار تجزیے کی راہ ہموار کر سکے۔ یہ بات اس مفروضے کی بنیاد کو ڈھا دیتی ہے کہ قران میں نقائص یا اغلاط ہیں، قطع نظر اس سے کہ سائینس کیا کہتی ہے۔ اور یہ محض ایک اٹکل کی بات نہیں، ایسے درجنوں متنوع دلائل ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ قران خدائی علامت ہے۔ اگرچہ یہ بات اس بحث کے سکوپ سے باہر ہے کہ ہم اسے تفصیل سے بیان کریں، لیکن قران کے الٰہی کلام ہونے کی سادہ سی دلیل اسکی پیچیدہ زبان کی معجزانہ حیثیت ہے۔

نتیجہ:
قران وہ کتاب ہے جو تدبر کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ قدرت اور سائینس سے متعلق قران کے بیشتر بیانات اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ وہ متنوع سامعین کو متاثر اور انکی عقول کو مطمئن کر سکیں، خواہ انکا تعلق ساتویں صدی سے ہو یا اکیسویں صدی سے۔ اور انکے پیش نظر یہ کتاب اپنے آپکو ایک قابل مطابقت ضابطہ ثابت ثابت کرتی ہے جسکے قلب میں ایک ناقابل تردید سچائی اور حقیقت ہے۔ یہ چیز یقیناً قاری کو ساچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اسکا مصنف کیسا ہو گا۔!!!
قران میں طبعی دنیا کے علوم بھی ہیں اور ہماری روحوں کی تہوں میں پنہاں جہتوں کے بھی۔ یہ ہمارے احساسات، ضروریات اور خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔ قران ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری زندگی کا ایک مقصد ہے اور یہ کہ اطاعت خداوندی ہمیں اس دنیا میں اندرونی سکون اور آخرت میں جنت تک پہنچا سکتی ہے۔ اور اس سے اعراض اس دنیا میں ڈپریشن اور اور آخرت میں جہنم تک پہنچانے کا باعث بن سکتا ہے۔
عنقریب ضرور ہم دکھائینگے انہیں اپنی نشانیاں آفاق (عالم) میں اور (خود) انکے نفسوں میں یہانتک کہ انکے لیئے واضح ہو جائے کہ بیشک وہ (قران) ہی حق ہے اور (بھلا) کیا کافی نہیں آپکا رب (اس بات پر) کہ بیشک وہ ہر چیز پر گواہ ہے؟” (قران 41:53)



کتاب:-سائنس اور قرآن

* اس کتاب میں 95 سائنسی تحقیق ہیں، اور یہ تحقیقات بڑی بڑی ہیں، جن کو غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔


* اس کتاب میں صرف آیتوں اور حدیثوں سے استدلال کیا گیا یے۔


* اس سے آیتوں کی تفسیر سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔


* ان تحقیقات کو سامنے رکھ کر غیرمسلموں کو کہہ سکتے ہیں کہ واقعی قرآن اللہ کی کتاب ہے۔


* سائنسی تحقیقات کے اعتبار سے بہت معلوماتی کتاب ہے۔


* کوشش کی گئی ہے کہ ہر ہر تحقیق کیلئے سائنسی فوٹو آجائے۔


* اس کتاب میں 124 آیتیں اور 14 حدیثیں ہیں۔

مفت ڈاؤنلوڈ کرنے کیلئے:

https://besturdubooks.net/science-aur-quran/


مزید کتابیں دیکھیں:

https://besturdubooks.net/?s=Science


















کیا قرآن سائنس کا مخالف ہے؟

سائنس کسے کہتے ہیں؟ اس سوال کے ماہرین کی طرف سے دیے گئے چند جوابات یہ ہیں: یہ طبیعی کائنات کا غیر جانبدارانہ مشاہدہ اور اس سے متعلق بنیادی حقائق کا مطالعہ ہے۔ اس کے معنی جاننے اور سیکھنے کے ہیں۔ اس کا مطلب علم ہے۔ یہ مشاہدے سے دریافت ہونے والے نتائج یا علمی حقائق کو مرتب اور منظم کرنے کا نام ہے۔ یہ تجرباتی علوم و حکمت یا فطری و طبیعی مظہر کا باقاعدہ علم یا ایسی سچائی ہے، جو مشاہدہ، تجربہ یا استقرائی منطق سے حقیقت کے کسی پہلو کا باقاعدہ مطالعہ کرنا ہیں۔ خلاصہ یہ کہ سائنس عبارت ہے علم، معلومات، مشاہدے و تجربے، حقائق کے غیر جانبدارانہ مطالعے، استقرائی منطق سے حقیقتِ واقعہ تک رسائی سے۔ اب دیکھیے مذہب کو بھی ان چیزوں سے کوئی سروکار ہے یا نہیں۔
قرآن کا مطالعہ کرنے والا ایک عام قاری بھی محسوس کرسکتا ہے کہ قرآن جگہ جگہ ان چیزوں پر زور دیتا ہے۔ وہ اپنے قاری سے کثرت اور تکرار کے ساتھ علم، مشاہدے، تدبّر و تفّکر اور حقائق کے غیر جانبدارانہ مطالعہ کا مطالبہ کرتا ہے۔ جاننے، سیکھنے اور علم حاصل کرنے کے حوالے سے قرآن کے مثبت رویے کا اندازہ اس سے لگایے کہ اس کے مطابق انسان کو اس کی تخلیق کے بعد سب سے پہلے علم الاشیا دیا گیا اور اسی بنا پر اسے فرشتوں پر فضیلت بخشی گئی۔ (البقرہ: ۳۰۔۳۳)، قرآن نے سب سے پہلے علم و تعلم کی اہمیت اجاگر کی۔ اس کے نزول کی ابتدا ہی علم و تعلیم سے متعلق آیات سے ہوئی۔ (العلق: ۱۔۵)، اس نے واضح کیا کہ علم والے اور بے علم برابر نہیں ہوسکتے۔ (الزمر:۹)، علم والے اللہ کے ہاں صاحبانِ فضل و کمال ہیں۔ (المجادلہ:۱۱)، اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو اہلِ علم ہیں۔ (الفاطر:۲۸)،
جہاں تک مشاہدے، تجربے، تدبر فی الخلق کے ذریعے حقیقت تک رسائل کا تعلق ہے تو قرآن حکیم نے اس پر اس قدر زور دیا ہے کہ اس کے مقدس اوراق میں سے کم ہی اس سے خالی ہوں گے۔ قرآن کے نقطہ نظر سے ذکرِ خداوندی کی ترجیحی اہمیت محتاج دلیل نہیں، لیکن اس کے نزدیک اس کے ساتھ بھی تدبر لازم ہے۔ وہ اصل اہلِ ذکر انہی کو مانتا ہے جو ذکرِ الٰہی کے ساتھ ساتھ تخلیق ارض و سما میں غور و فکر جاری رکھتے ہیں۔ (آل عمران:۱۹۱)، ایک عام آدمی بھی جانتا ہے کہ سائنس دان جانوروں، زمین و آسمان اور پہاڑوں وغیرہ کی ساخت پر اور ان سے متعلق دیگر امور پر تحقیقات پیش کرتے ہیں۔ قرآن پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ان چیزوں میں بِلاشبہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اور انسانوں کو ترغیب دیتا ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مشاہدہ اور تفکر و تدبر سے کام لیں (الغاشیہ: ۱۸۔۲۰، قٓ:۶)، مشاہدہ اور تدبر فی الخلق کی اہمیت کے پیش نظر قرآن نے ان لوگوں کو حیوانوں سے بھی بدتر اور جہنمی قرار دیا ہے، جو اپنے قوائے حسی کو مشاہدۂ فطرت اور ذہنوں کو تفکر و تدبر کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ (الاعراف:۱۷۹)
قرآن کی دعوتِ فکر و تدبر کے ضمن میں یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم نے کسی مظہرِ فطرت کو دیکھ کر اس پر غور و فکر کیے بغیر آگے گزر جانے کو نافرمانوں کی نشانی بتایا ہے (یوسف:۱۰۵)، اشیا کو ان کی اصلی حالت میں دیکھنے اور مشاہدے کے نتائج میں غلطی سے بچنے کے لیے قرآن بہ تکرار صحیفۂ فطرت کے مطالعہ کی دعوت دیتا ہے۔ مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے: ’’(اللہ) جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے، تم رحمان کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پائو گے، پھر پلٹ کر دیکھو، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑائو، تمہاری نگاہ تھک کر، نامراد پلٹ آئے گی‘‘۔ (الملک:۳۔۴)
یہاں قرآن بار بار نگاہ ڈالنے اور غور و فکر کرنے پرزور دے رہا ہے۔ سائنسی زبان میں یہی چیز مشاہدہ (Observation) اور تجربہ (Experiment) کہلاتی ہے۔ کسی چیز کا بار بار مشاہدہ کرنے اور حالات بدل بدل کر یعنی تجربہ کرکے مطالعہ کرنے اور غور و فکر کرکے گہرے نتائج اخذ کرنے کو سائنسی تحقیق (Scientific Research) کہا جاتا ہے۔تجربہ اور مشاہدہ کی انتہائی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ پرایمان مضبوط ہوتا اوراطمینانِ قلب نصیب ہوتاہے۔ چنانچہ مشاہدہ تجربہ اور تدبر فی الخلق کے اعتبار سے بھی قرآن اور سائنس میں ایک واضح تعلق نظر آتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں، اس کا اصل اور بنیادی کام انسان کی ہدایت ہے۔ تاہم وہ جہاں انسان کو اللہ کی معرفت کا درس دیتا ہے، وہاں اللہ کی کبریائی، خلاقیت اور علم و قدرت وغیرہ کے اظہار کے لیے اور اپنے دعوئوں کی حقانیت کے ثبوت میں کائنات اور اس میں کارفرما قوانین طبیعی سے تعرض کرتے ہوئے۔ ان کے کسی نہ کسی پہلو کو بطورِ دلیل پیش کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ کائنات اور اس کے مظاہر کے مشاہدے اور مطالعے کی دعوت دیتا ہے۔ گویا حقیقت تک رسائی کے لیے جن چیزوں پر سائنس کا انحصار ہے، قرآن بھی سچائی تک پہنچنے کی غرض سے انہی چیزوں کو ذریعہ بنانے کو کہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلاسفہ، علمائے دین اور اہل سائنس کے نمایاں اور بڑے بڑے افراد نے مذہب اور سائنس کے تصادم کے تصور کا رَد کیا اور ان کی قربت کا اثبات کیا ہے۔ مثلاً معرکہ آراء سائنسی نظریہ ’اضافیت‘ (Relativity) پیش کرنے والا، بیسویں صدی کا سب سے بڑا سائنس دان آئن اسٹائن کہتا ہے: ’’سائنسی تحقیق آدمی میں ایک خاص قسم کے مذہبی احساسات پیدا کرتی ہے، یہ ایک طرح کی عبادت ہے۔ میرے لیے راسخ ایمان کے بغیر اصلی سائنس دان کا تصور محال ہے‘‘۔ معروف فرانسیسی سائنس دان، فزیشن، ماہر امراضِ قلب اور فرانس کی میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر موریس بکائی لکھتے ہیں: ’’اس میں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اسلام نے مذہب اور سائنس کو ہمیشہ جڑواں بہنیں تصور کیا ہے۔ آج بھی، جب کہ سائنس ترقی کی انتہائوں کو چھو رہی ہے، وہ ایک دوسرے کے قدم بقدم ہیں‘‘۔
سائنس کے تناظر میں اسلام کی حقانیت پر بات کرنے میں موریس بکائی چونکہ بہت مشہور ہیں اوران کا عام حوالہ دیا جاتا ہے، اس لیے میرے بعض سائنس مخالف دوست اسے ہنسی میں اڑانے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ لوگوں کے پاس آجا کہ یہی حوالہ ہے، میں ان دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کا یہ خیال قلتِ مطالعہ یا سائنس سے تعصب کا نتیجہ ہے۔ اگر وہ تحقیق کی تھوڑی سی زحمت بھی گوارا کریں اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ مذہب اور سائنس کی قربت کا قائل صرف بکائی نہیں، دنیا کے اکثر سائنس دان ہیں۔ حتیٰ کہ آپ کو شاید ہی کوئی ایسا معتبر سائنس دان ملے جو مذہبی ذہن نہ رکھتا ہو۔ آئزک نیوٹن جسے دنیائے سائنس کا سب سے بڑا نام سمجھا جاتا ہے، دہریت کی مخالفت اور مذہب کے دفاع میں زور دار مضامین لکھتا رہا ہے۔ اس نے اپنی متعدد تحریروں میں ببانگ دہل اقرار کیا ہے کہ یہ کائنات اللہ کے وجود کی ناطق شہادت ہے۔ فرانسس بیکن، جو سائنسی طریق تحقیق کے بانیوں میں سے ہے، سائنس اور مطالعہ فطرت کو کلامِ خدا کے بعد ایمان کا سب سے ثقہ ثبوت قرار دیتا ہے۔ مشاہدۂ فلک کے لیے پہلے پہل ٹیلی اسکوپ استعمال کرنے والا مشہور سائنس دان گلیلیو کہتا ہے کہ یہ کائنات اور اس کے سارے حقائق خدا کے تخلیق کردہ ہیں، کائنات اللہ کی تحریر کردہ دوسری کتاب ہے، لہٰذا سائنس اور عقیدہ و مذہب کبھی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہوسکتے۔ جدید علمِ فلکیات کا بانی کیپلر سائنس کی طرف آیا ہی اپنے مذہبی رجحانات کی بنا پر تھا، اس نے واضح کیا ہے کہ اس نے اپنی سائنسی دریافتوں سے خدا کو پایا ہے۔
یہ تو سائنس دانوں کے خیالات تھے۔ جہاں تک علمائے اسلام کا تعلق ہے ان کے حوالے اس سے بھی زیادہ پیش کیے جاسکتے ہیں، لیکن مضمون کی شکایتِ تنگی داماں کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں صرف دو حوالوں پر اکتفا کروں گا، ایک علامہ اقبال کا، جو فلسفہ اور علم دین دونوں میں مسلمہ حیثیت رکھتے ہیں اور جدید مغربی تہذیب کے بہت بڑے ناقد ہیں اور دوسرا مولانا مودودی کا، جو بیسویں صدی کے دوران مسلمانانِ برصغیر میں مغربی تہذیب و اقدار کے مقابلہ میں اسلامی تہذیب اقدار پر اعتماد پیدا کرنے اور احیائے اسلام کے حوالے سے ایک اہم اور نمایاں مصنف اور جانے پہچانے عالمِ دین ہیں۔ موخر الذکر رقمطراز ہیں: ’’حقیقت یہ ہے کہ سائنس کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو انسانوں کے دل میں ایمان کو گہری جڑوں سے رائج کرنے والا نہ ہو۔ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، اناٹومی، اسٹرانومی غرض جس علم کو بھی دیکھیں اس میں ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جو انسان کو پکا اور سچا مومن بنا دینے کے لیے کافی ہیں۔ سائنس کے حقائق سے بڑھ کر آدمی کے دل میں ایمان پیدا کرنے والی کوئی دوسری چیز نہیں ہے۔ یہی تو وہ آیاتِ الٰہی ہیں جن کی طرف قرآن بارہا توجہ دلاتا ہے‘‘۔ مقدم الذکر کہتے ہیں: ’’واقعہ یہ ہے کہ مذہبی اور سائنس، مختلف طریق کار اپنانے کے باوجود، اس اعتبار سے بالکل ایک ہیں کہ دونوں کا مطمع نظر حقیقتِ واقعہ تک رسائی ہے‘‘۔

جب یہ بات واضح ہو گئی کہ قرآن کی دعوتِ مطالعۂ فطرت اور انفس و آفاق سائنس کی ترقی میں بنیادی اور اہم کردار ادا کرنے والی چیزیں ہیں، مذہب سائنس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ اس کو مہمیز لگاتا ہے اور اس حقیقت کا اعتراف دنیا کے عظیم سائنس دانوں اور مفکرین نے واضح الفاظ میں کیا ہے تو اس خیال کی بھی آپ سے آپ تردید ہو گئی کہ اسلامی فکر و تہذیب کا سائنس کی ترقی میں کوئی کردار نہیں۔ لہٰذا اس پر مزید تفصیلی دلائل کی حاجت نہیں۔ البتہ اس تصور کا بودا پن متحقق کرنے کی غرض سے اس پر بطورِ خاص چند سطور صَرف کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے:
یہ حقیقت مسلم اور غیر مسلم محققین نے عام تسلیم کرلی ہے کہ قرونِ وسطیٰ کے مسلمانوں کی سائنسی ترقی قرآن و حدیث کے مشاہداتی و تجرباتی اندازِ نظر کو اپنانے پرزور دینے کی بنا پر تھی، اور متعدد سائنسی دریافتیں مختلف شرعی احکام اور تقاضوں کا نتیجہ تھیں، مثلاً الجبرا کو اسلامی قانونِ وراثت اور فلکیات، جغرافیہ، جیومیٹری اور ٹرگنومیٹری کو سمت قبلہ اور اوقاتِ نماز معلوم کرنے کی اسلامی تقاضوں کے تحت ترقی ملی۔ ابن النفیس نے بخاری کی حدیث ’’اللہ نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں کیا، جس کی دوا پیدا نہ کی ہو‘‘۔ کو اپنی عظیم سائنسی دریافتوں کی بنیاد بنایا تھا۔ اس نے خون کی دل سے پھیپھڑوں کی طرف حرکت (Pulmonary Circulation) کو دریافت کیا اور اپنی اس تحقیق کو حشراجساد کے روایتی اسلامی تصور کی تائید میں پیش کیا۔ مسلم کیمیا گری اور علم نجوم کے محرکات بھی مذہبی تھے۔ قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ ان اسلامی ذرائع علم کے مستند ماہرین (علمائے دینیات) کے افکار و تحریرات نے بھی مختلف سائنسی علوم کی تحریک پیدا کی۔ مثال کے طور پر طبِ اسلامی میں سرجری اور تشریح الاعضا پر امام غزالی کی تصنیفات کے اثرات ہیں، جنہوں نے ان علوم کو تخلیقاتِ خداوندی کے ادراک کے لیے استعمال کرنے پر زور دیا۔ پندرہویں صدی کے مسلم ماہرِ کونیات علی القوشجی نے ارسطا طالیسی تصورِ سکونِ زمین کو غزالی وغیرہ ایسے عظیم مسلم ماہرینِ علومِ دین کی تنقید ارسطو سے تحریک پاکر رَد کیا تھا۔ امام غزالی نے خود ارسطو کے تصور کائنات کو رَد کرتے ہوئے تعددِ عوالم کا تصور پیش کیا۔ اسلام، اسلامی تہذیب اور اہل اسلام کے دنیائے سائنس میں غیر معمولی کردار کو مغربی اہلِ علم و قلم۔ جو بالعموم اسے ماننے میں تعصب میں مبتلا ہوتے ہیں نے بھی نہایت واضح لفظوں میں تسلیم کیا ہے۔ مثلاً رابرٹ بریفالٹ لکھتا ہے: مسلمانوں نے یونانیوں سے کہیں بڑھ کر تجربات پر زور دیا۔ ول ڈیوراں اقرار کرتا ہے کہ مسلم کیمیا دان علمِ کیمیا کے بانی ہیں۔ یورپ کو سائنسی طریق تحقیق سے متعارف کرانے والا مشہور مغربی سائنس دان راجر بیکن بھی مسلم سائنس دانوں سے متاثر تھا۔ یہ اور اس نوع کے دیگر لاتعداد واضح شواہد کے ہوتے ہوئے سائنسی ترقی میں اسلامی فکر و تہذیب کے کردار کا انکار، حق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔
تحریر ڈاکٹر شہباز منج، شعبہ اسلامیات، یونیورسٹی آف سرگودھا



جدید سائنسی ایجادات سے مذہبی کلام کی تصدیق – ایک طعنے کا جائزہ

قرآن کے حوالے سے سائنس کی بات پر  طنز بھی اسی طرح کا فیشن بن گیا ہے ،جیسا سائنس کی ہر بات کو قرآن سے نکالنے کا فیشن۔ کسی سائنسی دریافت کا کوئی تعلق قرآن سے بنا کر کوئی بے چارہ بات کر بیٹھے تو یار لوگ طعنہ ہی بنا لیتے ہیں. کسی چیز کا قرآن میں موجود ہونا جس پر بعد کا سائنسی علم دلیل بنے کوئی اچنبھے کی بات نہیں، جسے خواہ مخواہ اچنبھا سمجھ لیا گیا ہے۔

 جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پھر کیوں مسلمانوں کو پہلے پتہ نہ چلا؟؟اگر اس دریافت کا ذکر قرآن میں تھا تو مسلمانون نے پہلے کیوں نا دریافت کرلی ؟

یہ اتنا ہی سطحی سوال ہے جتنا زبردستی قرآن سے سائنس نکالنا، کسی سائنسی چیز کے قرآن کے ضمنی بیان سے موافق ہونے کی بات کا اس سے کیا تعلق کہ فلاں سائنسی نظریہ قرآن میں تھا تو پہلے مسلمانوں نے کیوں نہ معلوم کر لیا؟ جو بات واضح الفاظ کے قرینے سے معلوم ہو اور وہ بعد کے دور میں کسی مخصوص علم میں مہارت کے بعد دریافت ہو تو ایسی بات کو عجائب قرآن ماننے میں کیا  حرج  ہے۔؟

قرآن کے عجائب سے متعلق کوئی تصدیق کسی غیر مسلم سے بھی ہو سکتی ہے، یہ ایک ضمنی بات ہوتی ہے، اس پر پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں، مثلاً قرآن بہ طور کلام الہی جب مظاہر کائنات کی بات کرے گا تو لازماً ان غلط تصورات کو اپنے بیان میں شامل نہیں کرے گا ، جو اس کے زمانۂ نزول میں رائج تھے، اس سے واضح ہے کہ یونیورس سے متعلق اس کا بیان سائنسی دلچسپی کی چیز ہو سکتا ہے، اس طرح کہ آخر کیوں قرآن نے اپنے زمانہ نزول کے تصور سے مختلف انداز سے ایک چیز کو بیان کیا! اس سے اس کے ڈیوائن کیریکٹر کا ثبوت فراہم ہوتا ہے ، جو اعجاز کا ایک بدیہی پہلو ہے۔

 باقی رہا ہر ہرسائنسی بات کو قرآن سے جوڑنا تو اس رویے کے فضول ہونے میں بھی کوئی کلام نہیں۔ اس عمل کو ایک جنون اور مقصد بنا لینے کے ہم بھی مخالف ہیں کہ جو نئی سائنسی بات آئے اسے قرآن کے الفاظ کو توڑ مروڑ کر ثابت کردیا جائے۔ قرآن حقیقت کو بیان کرتا ہے، بسا اوقات سائنسدان جس متعلقہ حقیقت کو بیان کرتا ہے وہ قرآن کے محاورے کے مطابق ہوتی ہے اور بعض اوقات نہیں بھی۔ پھر  سائنس بجائے خود ایک ظنی علم ہے، اس کے نظریات و مفروضات حتمی نہیں ہوتے بلکہ علم کی ترقی کے ساتھ ان میں ترمیم و اضافہ یاان کے بالکل بدل جانے کا امکان موجود رہتا ہے۔ سائنس کے سامنے جب کسی مسئلے پر کافی مواد جمع ہو جاتا ہے اور کسی حقیقت کی جھلک محسوس ہونے لگتی ہے تو قیاس یا مفروضہ (Hypothesis) نمودار ہوتا ہے، پھر جب بہت سے سائنس دان اس کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اس کے مزید ثبوت مل جاتے ہیں تو اس کو نظریہ (Theory) کا مقام دے دیا جاتا ہے۔ پھر جب ایک لمبے عرصے تک اس نظریے کے ثبوت دنیا میں پہنچتے رہتے ہیں اور اکثر و بیشتر سائنس دان اس سے متفق ہو جاتے ہیں تو اس نظریے کو قانون (Law) کا رتبہ دے دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اس کے بعد اس میں کسی قسم کی تبدیلی کاامکان باقی نہیں رہا، بہت سی مثالیں ایسی ہیں کہ کسی قانون کو بعد کی تھیوری نے بدل ڈالا۔ لہٰذا ایک مسلمان کے شایان نہیں کہ وہ قرآن کے یقینی نصوص کو انسان کے غیر یقینی نظریات پر محمول کرے۔
یہ بات البتہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ سائنسی نظریات کی نوعیت ثابت شدہ اور مشاہدہ میں آئے ہوئے سائنٹفک حقائق سے مختلف ہے۔ قرآن کا کوئی بیان اگر ان حقائق سے تعرض کرتا ہے تو قرآنی حوالے سے نہ صرف یہ کہ ان کی تائید کی جاسکتی ہے بلکہ کی جانی چاہیے، کیونکہ ثابت شدہ اور مشاہدہ میں آئے ہوئے سائنٹفک حقائق اور قرآنی بیانات کے درمیان ٹکراؤ ناممکن ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر اہلِ علم تفسیرِ قرآن اور سائنس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عام سائنسی نظریات اور حقائق میں فرق ملحوظ رکھنے کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں۔






































قرآن حیرت انگیز کیسے ہے؟ ایک نومسلم ڈاکٹر کی تحقیقات وتاثرات

ڈاکٹر گیری ملر (Gary Miller) کینڈا کے ریاضی دان اور اک پرجوش عیسائی مشنری تھے ، ریاضی کے ذریعے کسی بھی چیز کا منطقی یا غیر منطقی ہونا ثابت کیا جاسکتاہے, اس کو دیکھتے ہوئے انہوں نے قرآن مجید میں خامی ڈھونڈی شروع کی . مقصد یہ تھا کہ اس سے عیسائیت کی تبلیغ میں مدد ملے گی، لیکن جب انہوں نے قرآن مجید پر تحقیق کی تو نتائج بالکل برعکس نکلے۔ گیری قرآن مجید میں کوئی بھی خامی ڈھونڈنے میں ناکام رہے اور بالاخرقرآنی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کر لیا اور عیسائیت کی بجائے اسلام کے مبلغ بن گئے۔ان کے مختلف لیکچرز مختلف سائیٹس پر موجود ہیں۔
ہم انکے قرآن پر ایک تحریری لیکچر کو اپنے اس سلسلے میں شامل کررہے ہیں ،یہ تحریر مختلف زاویوں سے قرآن کا تحقیقی انداز میں جائزہ لیتی ، فکر و نظر کے متعدد نئے دریچے وا کرتی ہے۔ اس میں جابجا قرآن کو پرکھنے ، اسکی کی صحت و صداقت کو جانچنے کے مختلف جدیدطریقوں پر بات کی گئی ہے اور انکو استعمال میں لاتے ہوئے قدیم و جدید مخالفین قرآن کے تاریخی و سائنسی اعتراضات کا تجزیہ پیش کیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر گیری نے اسلام قبول کرنے سے پہلے قرآن کا جس انداز میں جائزہ لیا ، انہیں قرآن میں جو انفرادیت نظر آئی اس پر اس لیکچر میں انہوں نے تفصیل سے بات کی ہے ۔ یہ تفصیل قرآن کی ان خصوصیات کو واضح کرتی ہے جو اسے باقی کتابوں سے جدا کرتیں اور اسکے الہامی ہونے کو ثابت کرتی ہیں. تحریر طویل ہے اس لیے مختلف موضوعات کے تحت کچھ قسطوں میں پبلش کی جائے گی۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭

‘‘قرآن حیرت انگیز کتاب ہے ’’
۔اس بات کا اعتراف صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیرمسلم حضرات حتیٰ کہ اسلام کے کھلے دشمن بھی کرتے ہیں۔ عموماً اس کتاب کو پہلی با ر باریکی سے مطالعہ کرنے والوں کو اس وقت گہرا تعجب ہوتا ہے جب ان پر منکشف ہوتا ہے کہ یہ کتاب فی الحقیقت ان کے تمام سابقہ مفروضات اور توقعات کے برعکس ہے۔ یہ لوگ فرض کیے ہوتے ہیں کہ چونکہ یہ کتاب چودہ صدی قبل کے عربی صحراء کی ہے اس لیے لازماً اس کا علمی اور ادبی معیار کسی صحراء میں لکھی گئی قدیم، مبہم اور ناقابلِ فہم تحریر کا سا ہوگا۔ لیکن اس کتاب کو اپنی توقعات کے خلاف پاکر ان کو گہرا تعجب ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے پہلے سے تیار مفروضہ کے مطابق ایسی کتاب کے تمام موضوعات اور مضامین کا بنیادی خیال یا عمود صحراء اور اس کی مختلف تفصیلات مثلاً صحرائی مناظر کی منظر کشی، صحرائی نباتات کا بیان،صحرائی جانوروں کی خصوصیات وغیرہ ہو نا چاہیے۔ لیکن قرآن اس باب میں بھی مستثنیٰ ہے۔ یقیناً قرآن میں بعض مواقع پر صحرا ء اور اس کے مختلف حالات سے تعرض کیا گیا ہے، لیکن اس سے زیادہ بار اس میں سمندر کی مختلف حالتوں کا تذکرہ وارد ہوا ہے، خاص طور سے اس وقت جب سمندرآندھی، طوفان، بھنور وغیرہ اپنی ساری تباہ کاریوں کے ساتھ جلوہ نما ہوتا ہے۔
عام طور پر کسی قدیم تاریخی کتاب کا مطالعہ کرنے والا اس بات کی بجا طور پر توقع رکھتا ہے کہ اس کے مضامین و فرمودات کے ذریعہ وہ اس زمانے کی صحتِ عامہ اور متداول طریقہ ہائے علاج کے متعلق کافی معلومات اکٹھا کر سکے گا۔دوسری تاریخی کتابوں مثلاً بائبل، وید، اوستھا وغیرہ میں واقعۃً ایسا ہے بھی، لیکن قرآن یہاں بھی یکتا ومنفرد ہے۔ یقیناً متعدد تاریخی مصادر میں ہمیں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے صحت و صفائی کی بعض ہدایتیں اور نصیحتیں عنایت فرمائی ہیں۔ لیکن ان کا تفصیلی تذکرہ قرآن میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ بادی النظر میں غیر مسلموں کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مفید طبی معلومات کو کتابِ محفوظ میں کیوں شامل نہیں فرما دیا؟
بعض مسلم دانشوروں نے اس مسئلے کی اس طرح تشریح کی ہے:اگرچہ طب سے متعلق اللہ کے رسولﷺ کے ارشادات اور ہدایتیں مبنی بر صحت اور قابلِ عمل ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم و حکمت میں یہ بات تھی کہ آئندہ زمانوں میں سائنس اور میڈیسن (Medicine)کے میدانوں میں بے مثال ترقی ہوگی جس کے نتیجے میں روایتی طبی ہدایتیں پرانی اور فرسودہ (Outdated) سمجھی جانے لگیں گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صرف اسی قسم کی معلومات کو درج فرمایا جو تغیرِ زمانہ سے متاثر نہ ہو سکیں۔ میری ناقص رائے میں اگر ہم قرآنی حقائق کو وحی الٰہی مان کر چلیں تو زیرِ بحث موضوع درست طریقے سے سمجھا جا سکے گا اور مذکورہ بالا بحث اور مناقشے کی غلطی بھی واضح ہو جائے گی۔
سب سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ قرآن اللہ کی وحی ہے، اس لیے اس میں وارد تمام معلومات کا سرچشمہ بھی وہی ذاتِ برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو اپنے پاس سے وحی کیا اور یہ اس کلامِ الٰہی میں سے ہے جو تخلیقِ کائنات سے پہلے بھی موجود تھا۔اس لیے اس میں کوئی اضافہ، کمی اور تبدیلی ممکن نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم تو محمدﷺ کی ذات اور آپ کی ہدایات و نصائح کے وقوع پذیر ہونے سے بہت پہلے وجود میں آ کر مکمل ہو چکا تھا۔اور ایسی تمام معلومات جو کسی متعین عہد یا مقام کے خاص طرزِ فکر و طرزِ حیات سے متعلق ہوں کلامِ الٰہی میں داخلہ نہیں بنا سکتیں۔کیونکہ ایسا ہونا واضح طور پر قرآن کے مقصدِ وجود کے منافی ہے اور یہ چیز اس کی حقانیت، رہتی دنیا تک کے لیے اس کی رہنمائی کی صلاحیت،بلکہ اس کے خالص وحی الٰہی (Pure Divine Revelation)ہونے پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر سکتی ہے۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن ایسا کوئی نسخۂ علاج (Home Remedies)تجویز نہیں کرتا جو مرورِ ایام کے ساتھ اپنی افادیت کھو دے، اور نہ اس میں اس ٹائپ کی کوئی رائے ذکر کی جاتی ہے کہ فلاں غذا افضل ہے یا فلاں دوا اس اس مرض میں شفا بخش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے صرف ایک چیز کو طبی علاج کے ضمن میں ذکر کیا ہے اور میری معلومات کی حد تک آج تک کسی نے اس کی مخالفت بھی نہیں کی ہے۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ شہد(Honey) کو شفا قرار دیا ہے اور میری معلومات کی حد تک کسی نے آج تک اس کا انکار بھی نہیں کیا۔

اگر کوئی یہ مفروضہ رکھتا ہے کہ قرآن، کسی انسانی عقل کا کارنامہ ہے، تو بجا طور پر ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ہم اس کتاب کے تالیف کرنے والے کے فکری و عقلی رجحانات کا کچھ نہ کچھ پر تو (Reflection) اس میں ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ متعدد انسائیکلو پیڈیاز (Encyclopedias) اور نام نہاد علمی کتابوں میں بھی قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وارد ہونے والے خیالات و توہمات (Hallucinations)کی پیداوار بتایا گیا ہے۔ (العیاذ باللہ) چنانچہ ضروری ہے کہ ہم خود قرآن میں اس دعوے کی صحت و عدمِ صحت کے ثبوت و دلائل تلاش کریں۔ لیکن کیا قرآن میں ایسے دلائل یا اشارے موجود ہیں ؟یہ جاننے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ معینہ اشیاء کیا ہیں جو صاحبِ کتاب کے ذہن و دماغ میں ہر آن گردش کرتی رہتی تھیں ؟اس کے بعد ہی ہم فیصلہ کر سکیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کن کن افکار نے قرآن میں اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔
تاریخ اسلامی کے ہر طالب علم کو یہ بات معلوم ہے کہ آپﷺ کی زندگی مشقتوں اور پریشانیوں سے بھری تھی۔آپ کی حیات میں ہی دیکھتے دیکھتے آپﷺ کے کئی بچے وفات پا گئے۔ حضرت خدیجہؓ آپﷺ کی محبوب و وفادار شریکِ حیات تھیں، وہ آپ کا بیحد خیال فرماتیں اور ہر مشکل گھڑی میں آپ کا سہارا بنتی تھیں۔ آزمائش و ابتلا کے تاریک دور میں ہر غم کی شریک بیوی بھی انتقال فرما جاتی ہیں۔ یہ بات ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ امّ المومنین حضرت خدیجہؓ فولادی کردار کی مالک اور بڑی دانش مند خاتون تھیں۔ احادیث میں آیا ہے کہ آپ ﷺ پہلی وحی کے نزول پر سراسیمگی میں تیزی سے گھر واپس لوٹے اور سارا ماجرا حضرت خدیجہؓ کو سنایا۔اس زمانے کو چھوڑیے، آج بھی ہمیں کوئی ایساعرب باشندہ نہیں مل سکے گا جو یہ اعتراف کرے کہ ‘‘میں فلاں موقعے پر اس درجہ خوف زدہ ہو ا کہ بھاگ کر اپنی اہلیہ کے پاس جا پہونچا ’’عرب حضرات عام طور پر ایسا نہیں کرتے۔ لیکن یہ واقعہ حضرت خدیجہؓ کی اثر آفریں (Influential)اور طاقتور شخصیت کی دلیل ہے۔ یہ ان موضوعات میں سے کچھ کی مثالیں ہیں جن کے بارے میں قوی اندازہ ہے کہ انہوں نے بتقاضائے بشریت، محمدﷺ کے شفیق دل میں اپنے اثرات ضرور چھوڑے ہوں گے۔ لیکن یہ چند مثالیں ہی میرے نقطۂ نظر کی بھرپور تائید کرتی نظر آتی ہیں۔
میرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر قرآن کریم محمدﷺ کے لا شعورانسانی ذہن کی اختراع اور ایجاد ہے، تو اس میں ضرور بالضرور ان جاں گسل واقعات کا تذکرہ یا ان کی طرف تھوڑا بہت اشارہ دکھائی پڑنا چاہیے، لیکن حقیقتِ واقعہ اس کے برعکس ہے۔ قرآن کہیں پر بھی محمدﷺ کے بچوں کی موت، پیاری شریکِ حیات کی جدائی اور اول وحی کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خوف، جس کو آپﷺ نے باحسن طریق اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ بانٹا تھا، قرآن کہیں بھی تفصیلاً یا اجمالاً ان بشری احساسات و جذبات کا تذکرہ کرتا دکھائی نہیں پڑتا۔ نفسیاتی نقطۂ نظر سے بھی یہ بات مستبعد ہے کہ ان چیزوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتسم نہ کئے ہوں گے۔ اب اگر یہ قرآن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بشری ذہن کی ایجاد ہے تو اس میں ان واقعات کے گہرے اثرات، یا کم از کم ان کے متعلق ادنیٰ اشارہ تو ہونا ہی چاہیے۔ لیکن ایسا نہیں ہے، اور یہ نہ ہونا قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کا اٹل ثبوت ہے۔
قرآن کو علمی طور پر دیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ قرآن علمی سطح پر ہمیں ایسے خزانے عطا کر سکتا ہے جن کے عشر عشیر سے بھی دیگر صحائف کے اوراق خالی ہیں۔ آج دنیا کو قرآن کے لازوال علمی سرچشمہ کی تلاش ہے اور وہ جتنا جلد اس کو پالے اس کے لیے بہتر ہوگا۔ دنیا میں آج بھی ایسے لوگوں کی بڑی تعداد موجود ہے جو کائناتی نظام کے بارے میں اپنے منفرد افکار و نظریات رکھتے ہیں۔ایسے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں، لیکن سنجیدہ علمی حلقوں میں ان کی گفتگو سننا تک گوارا نہیں کیا جاتا۔ ایسا کیوں ہے؟اس کا سبب یہ ہے کہ گزشتہ صدی کے اواخر سے علمی حلقوں میں کسی بھی مفروضہ یا تجربہ کے درست ہونے، نہ ہونے کے لیے ایک اصول تنقیع بر بِنائے تغلیط (Falsification Test) متعین کر دیا گیا۔ اہلِ علم کے الفاظ میں وہ زریں اصول یہ ہے:اگر تمہارے پاس صرف کوئی تھیوری ہے تو براہِ مہربانی اسے سمجھانے میں ہمارا وقت ضایع نہ کرو، البتہ اگر تمہارے پاس اس تھیوری کی صحت و عدمِ صحت کو ثابت کرنے کا کوئی عملی طریقہ موجود ہے تو ہم سننے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ اسی معیار کے اتباع میں علمی حلقوں نے صدی کے آغاز میں آئن سٹائن(Einstein) کی پذیرائی کی، آئن سٹائن نے ایک نئی تھیوری (Theory of Relativity)پیش کی اور کہا:میرا ماننا ہے کہ کائنات اس ترتیب پر چل رہی ہے، تمہارے پاس میرے نظریہ کو غلط یا صحیح جانچنے کے تین راستے ہیں۔‘‘ اور پھر چھ سال کی مختصر مدت میں اس کے نظریے نے تینوں راستوں کو کامیابی کے ساتھ عبور کر لیا۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ فی الواقع آئن سٹائن کوئی عظیم انسان تھا، البتہ اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس لائق تھا کہ اس کی بات کو بغور سنا جائے۔
قرآن اپنی حقانیت کے ثبوت میں انسانوں کے سامنے اِسی نوعیت کا معیارِ تفتیش پیش کرتا ہے۔ اس معیار کی روشنی میں قرآن کے بعض حقائق نے ماضی میں اپنی صحت کا لوہا منوایا ہے، جبکہ اس میں کچھ حقائق ابھی زمانے سے اپنی تصدیق کے منتظر ہیں۔ قرآن اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ ’’اگر یہ کتاب اپنے کلامِ الٰہی ہونے کے دعوے میں جھوٹی ہے تو تم فلاں طریقے سے اسے غلط ثابت کر کے دکھاؤ۔‘‘ حیرتناک بات یہ ہے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی آج تک کسی نے اس کے دعوے کے مطابق اس کے تجویز کردہ طریقے سے اسے باطل ثابت نہیں کیا۔ یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ مخالفین کی ہزار جز بز کے باوجود یہ کتاب اپنے دعوے میں صد فیصد سچی اور قابلِ اعتماد ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اوروں کے پاس اس قبیل کی کوئی چیز نہیں۔ان کے پاس جھوٹ اور سچ ثابت کرنے والا ایسا کوئی معیار، کوئی برہان نہیں۔ بلکہ ان بیچاروں کی اکثریت کو اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہمیں اپنے عقائد و نظریات کو پیش کرنے کے پہلو بہ پہلو مخاطب کو ان کی تردید و تغلیط کا موقع بھی دینا چاہیے۔ بہرحال اسلام ایسا کرتا ہے، قرآن اپنے مخاطبوں کو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ آؤ اور مجھ کو غلط ثابت کر کے دکھاؤ۔ یہ قرآن کی چوتھی سورت میں ہے، میں آپ کو بیان نہیں کر سکتا کہ پہلی بار اس آیت کو پڑھ کر میری کیا کیفیت ہوئی تھی۔قرآن کا چیلینج یہ ہے:
أَفَلاَ یَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِندِ غَیْْرِ اللّہِ لَوَجَدُواْ فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً (النساء :۸۲)
‘‘کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی۔’’
یہ قرآن کا سیدھا اور کھلا چیلنج ہے۔ یہ اصلاً منکرین کو سیدھی دعوت دیتا ہے کہ وہ اس میں کوئی خطا یا غلطی نکال کر دکھائیں۔ اس نوعیت کی دعوتِ مبارزت دینا کسی انسان کے بس کا روگ نہیں ہو سکتا۔دنیا میں کوئی آخری درجہ کا عالم و فاضل شخص بھی اس بات کی جرأت نہیں کر سکتا کہ امتحان گاہ سے اٹھتے ہوئے اپنی کاپی کے پہلے صفحے پر یہ نوٹ آویزاں کر دے کہ اس کاپی میں مندرج جملہ جوابات درست ہیں اور اگر کسی جانچنے والے کو اپنی قابلیت کا غرہ ہو تو اس دعوے کو غلط ثابت کر کے دکھائے۔ایسا کوئی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کو پڑھ کر کوئی بھی ممتحن اس میں غلطی کو ڈھونڈے بغیر ساری رات سو نہ سکے گا۔ لیکن یقین جانئے کہ قرآن اپنا پہلا تعارف اسی حیثیت سے کراتا ہے۔اپنے پڑھنے والے کے ساتھ قرآن کا ایک اور رویہ بھی انتہائی حیرتناک ہے۔وہ قارئین کے سامنے گوناں گو موضوعات پر بڑی شرح وبسط کے ساتھ اپنی معلومات پیش کر تا ہے اور چلتے چلتے کچھ اس قسم کی نصیحت کر دیتا ہے کہ ’’اگر تمہیں مزید معلومات درکار ہوں یا میری بتائی باتوں سے تم مطمئن نہ ہوئے ہو تو ایسا کرو کہ متعلقہ موضوع کے ماہرین سے استفسار کر کے دیکھ لو۔‘‘
یہ بھی ایک غیر مانوس اور عجیب بات ہے۔ ایسا تقریباً ناممکن ہے کہ کوئی شخص جو جغرافیہ (Geography)، نباتیات(Botany)،حیاتیات(Biology) جیسے علوم پر اتھارٹی نہ ہونے کے باوجود متعلقہ موضوعات پر قلم اٹھائے۔ اورپھراس کا دعوی بھی ہو کہ اگر کوئی میری کتاب کے مشمولات سے متفق نہیں ہے تو اسے اختیار ہے کہ وہ ان موضوعات کے مسلم الثبوت ماہرین سے ان کا تجزیہ کرا لے کہ آیا اس کتاب میں فی الواقع کوئی غلط بات کہی گئی ہے یا نہیں ؟

قرآن کے سائنسی بیانات:
بے شمار دانشوروں نے سائنسی موضوعات پر بیان کردہ قرآنی تفصیلات کو اپنی تحقیق وجستجو کا میدان بنایا اور اس کے نتیجے میں حیرت انگیز اکتشافات انجام دیے۔ماضی میں لکھی گئی مسلمان اہلِ علم و حکمت کی کتابوں میں موجود قرآنی آیات کے حوالے اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ یہ حضرات اپنے علم و تحقیق میں کس درجہ قرآن کی روشنی سے مستفیض ہوتے رہے تھے۔اسلاف کی یہ کتابیں اشارہ کرتی ہیں کہ ان بزرگوں کو مذکورہ بالا علمی میدانوں میں کسی مخصوص شے کی تلاش ہوتی تھی جس کو قرآن نے قطعی حقیقت کی حیثیت سے بیان کر دیا تھا۔
ان کے اعترافات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی تصریحات نے انہیں اس رخ میں چلنے پر آمادہ کیا تھا، کیونکہ قرآن کا اندازاس معرض میں بھی سب سے نرالا ہے۔وہ کسی بھی موضوع پر بات کرتے ہوئے آخری اور کلی حقائق بیان کر دیتا ہے۔ عبوری مراحل کی تفصیلات سے تعرض نہ کرتے ہوئے وہ صرف اتنا اشارہ کر دیتا ہے کہ یہ چیزیں اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ کہاں کہاں مل سکتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ ہر انسان کو بحث و تحقیق کی دعوت دیتا ہے اور بلا دلیل وجستجو کے اندھی تقلید کے رویّے کو قابلِ مذمت قرار دیتا ہے:
وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوا بِآیَاتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوا عَلَیْْہَا صُمّاً وَعُمْیَاناً (الفرقان:۷۳)
‘‘جنھیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں گر جاتے’’۔

چند سال قبل سعودی حکومت نے اپنے دارالسلطنت ریاض میں متعدد متخصص اہلِ علم کو اس بات کی دعوت دی کہ وہ رحمِ مادر میں بچے کے ارتقائی مراحل کا جائزہ قرآن کے بیان کردہ حقائق کی روشنی میں لیں۔اس علمی اجتماع کو منعقد کرنے میں سعودی اربابِ حکومت کے پیشِ نظر درجِ ذیل قرآنی حکم تھا: فَاسْأَلُواْ أَہْلَ الذِّکْرِ اِن کُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (الانبیاء :۷)‘‘تم لوگ اگر علم نہیں رکھتے تو اہلِ علم سے پوچھ لو۔’’
حاضرین میں ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ علم الجنین (Embryology)کے صدر پروفیسر کیتھ مور(Keith Moore) بھی تھے۔ موصوف نے اس موضوع پر درسی کتابیں تیار کی ہیں اور ان کا شمار اس موضوع پر دنیا کے معدودے چند نمایاں اہلِ علم میں ہوتا ہے۔ سعودی حکومت نے ان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنے اختصاص کی روشنی میں اس موضوع پر قرآن کے بیان کردہ حقائق کا جائزہ لیں اور ان کی صحت و عدمِ صحت پر اپنی بے لاگ رائے کا اظہار کریں۔ریاض میں قیام کے دوران ان کو تمام مطلوبہ آلات ووسائل بہم پہنچائے گئے اور ہر قسم کی مدد فراہم کی گئی۔ یقین جانیے کہ وہ اپنے اس تجربہ سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ بعد میں انہوں نے اپنی تصنیف کردہ کتابوں میں کئی بڑی تبدیلیاں کیں۔انہوں نے اپنی مشہورِ زمانہ کتاب ’ہم ولادت سے پہلے‘(Before We are Born) کے دوسرے ایڈیشن میں اضافہ کرتے ہوئے، علم الجنین (Embryology) پر قرآنی تفصیلات کو بڑے مدلل انداز میں درست قرار دیا۔ اس سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن ہر اعتبار سے زمانہ سے سابق ہے، وہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے پیروکاروں کا علم اس کے نہ ماننے والوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
میری خوش نصیبی تھی کہ میں نے پروفیسر کے ٹی وی پروگرام کو مسلسل دیکھا۔اس پروگرام میں پروفیسر نے اپنے تجربات کے نتائج پیش کیے تھے۔ ان دنوں اس پروگرام کا بڑا چرچہ تھا،پروفیسر موصوف نے اپنے پروگرام میں چند سلائیڈ تصویریں بھی دکھائی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ رحمِ مادر میں جنین کے نشوونما کے بارے میں قرآن نے جو معلومات ذکر کی ہیں وہ اب سے تیس سال پہلے تک بھی علمی دنیا میں غیر معروف تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بذاتِ خود قرآن کی بیان کردہ معلومات میں ایک چیز سے آج تک قطعی ناواقف تھے۔وہ یہ کہ جنین (Embryo) اپنے ارتقائی مراحل میں سے ایک مرحلہ میں ’علقہ‘(جونک،Leech) سے مشابہت رکھتا ہے اور یہ تشبیہ صد فیصد مطابقِ واقعہ ہے۔ اپنی کتاب میں اس واقعے میں انہوں نے مزید اضافہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ درحقیقت میں نے کبھی اس سے پہلے جونک کو نہیں دیکھا تھا۔ اس قرآنی تشبیہ کی سچائی جاننے کے لیے میں نے ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ حیوانیات (Zoology)سے رجوع کیا اور وہاں سے جونک کی فوٹو حاصل کی۔اپنے تقابلی مطالعہ کو مبنی بر صحت پاکر انہوں نے اس موضوع پر تحریر کی ہوئی اپنی درسی کتابوں میں جنین اور جونک کی تصاویر کو شائع کیا۔اس کے بعد پروفیسر موصوف نے ایک کتاب ’علم الاجنہ السریری(Clinical Embryology ) کے نام سے تحریر کی اور اس میں قرآن کی بتائی ہوئی معلومات کی روشنی میں اپنے علمی نتائج پیش کئے۔اس کتاب کی اشاعت سے کینڈا کے علمی حلقوں میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ طول و عرض میں اخبارات کی سرخیاں اس کتاب کی نذر ہو گئیں۔ بعض اخبارات کا رویہ قدرے مضحکانہ بھی تھا، مثلاً ایک اخبار کی سرخی یہ تھی: Surprising things found in Ancient Book (حیرت انگیز چیزیں ایک قدیم کتاب میں پائی گئیں )۔
اس مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر عام لوگوں کو واقعہ کی حقیقت کا علم نہیں تھا۔ ایک پریس رپورٹر نے پروفیسر کیتھ مور سے سوال کرتے ہوئے پوچھا تھا:کیا اس بات کا امکان نہیں ہے کہ قدیم عربوں کو ان معلومات کا علم رہا ہو اور قرآن کے مؤلف نے ان کو کتابی شکل میں محفوظ کر دیا ہو؟ہو سکتا ہے کہ عربوں نے ماضی میں عملِ جراحت کی ابتدائی شکل ایجاد کر لی ہو اور چند عورتوں کے پیٹ پھاڑ کر اس قسم کی چیزیں جان لی ہوں ؟
سوال کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر موصوف نے کہا تھا :آپ یہاں ایک اہم نکتہ فراموش کر رہے ہیں۔وہ یہ کہ جنین کے ابتدائی مراحل کی تصاویر جو آج ہر جگہ آسانی سے مل جاتی ہیں ان کو صرف اور صرف خُورد بین (Microscope) کے ذریعہ سے لیا جا سکتا ہے اور خُورد بین کب وجود میں آئی یہ آپ کی جنرل نالج میں ہوگا ہی۔یہ کہنا فضول ہے کہ چودہ سو سال پہلے کسی نے جنین کے ارتقائی مراحل جاننے کی کوشش کی تھی۔ کیونکہ اس زمانے میں لوگ اس کو دیکھ بھی نہیں سکتے تھے۔ قرآن میں مذکورہ جنین کے ابتدائی مراحل کی معلومات کو مجرد آنکھ سے دیکھنا ممکن ہی نہیں اور خُورد بین کا آلہ محض دو صدی قبل تک دنیا میں ناپید تھا۔یہ سوال پوچھے جانے پر کہ اب آپ اس کی کیا توجیہ کریں گے، انہوں نے صاف الفاظ میں کہا تھا:اس کی توجیہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ قرآن اللہ رب العالمین کا نازل کردہ کلام ہے۔
مذکور بالا مثال میں قرآن کے علمی بیانات کی تصدیق کرنے والا شخص اگرچہ غیر مسلم تھا، لیکن اس بات سے کوئی اصولی فرق نہیں پڑتا۔ اگر کوئی عام آدمی اس نوعیت کے قرآنی بیانات کی وکالت کرے تو ضروری نہیں کہ ہم اس کی بات قبول کر لیں۔ لیکن اصحابِ علم کو حاصل اعتبار و احترام کے پیشِ نظر اگر کوئی متبحر عالم، جس کی اپنے اختصاص پر قدرت اور کمال مسلّم و مقبول ہو، اس بات کا دعوی کرے کہ میرے متعلقہ موضوع پر وارد قرآنی بیانات صد فیصد درست ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس کے نتائج کو صحیح نہ مانیں۔
پروفیسر کیتھ مور کے تجربہ سے سبق لیتے ہوئے ان کے ایک ہم پیشہ ساتھی نے بھی اس قسم کوشش کی۔پروفیسر مارشل جونسن(Marshal Johnson)جو ٹورنٹو یونیورسٹی کے شعبۂ علم طبقات الارض((Geologyمیں استاد تھے، انہوں نے اپنے مسلم دوستوں سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ ان کے میدانِ اختصاص سے متعلق قرآن میں وارد معلومات کو اکٹھا کر کے انہیں دیں۔اور پھر ان کے علمی نتائج نے دوسری بار لوگوں کو حیرت واستعجاب میں مبتلا کر دیا کیونکہ اس موضوع پر بھی قرآنی بیانات سے جدید سائنسی انکشافات مکمل ہم آہنگ ہیں۔مختلف علمی موضوعات پر قرآنی بیانات کی رنگا رنگی کو دیکھتے ہوئے ہر علمی موضوع پر بحث و تحقیق کرنا ایک مستقل کتاب کا طالب ہے اور اس کے لیے طویل مدت بھی درکار ہوگی جو اس مختصر سے مقالہ میں ممکن نہیں۔
مذکور بالا تحقیقی بیانات کے تذکرے سے میرا مقصود یہ کہنا ہے کہ قرآن کریم مختلف موضوعات پر اپنی رائے بڑے نپے تلے لیکن واضح اسلوب میں پیش کر دیتا ہے اور اپنے قاری کو وصیت کرتا ہے کہ وہ ان موضوعات کے متخصص علماء و ماہرین کی تحقیقات کی روشنی میں قرآنی بیانات کو جانچے اور اہلِ علم و فضل سے مراجعت و مشاورت کے بعد ہی قرآن کی حقانیت پر صاد کرے۔ بلا شبہ قرآن کا اپنایا ہوا یہ جرأت مندانہ موقف ہمیں دنیا کی کسی دوسری کتاب میں نہیں ملتا۔ اس سے زیادہ حیرتناک بات یہ ہے کہ قرآن جہاں کہیں بھی اپنی معلومات پیش کرتا ہے وہ بیشتر اوقات اپنے قاری سے تاکید کرتا جاتا ہے کہ ان باتوں کو اس سے پہلے تم نہیں جانتے تھے۔واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں آج کوئی ایسی مقدس کتاب موجود نہیں ہے جواس طرح کی صراحت کرتی ہو۔ مثال کے طور پر عہد نامہ قدیم (Old Testament)میں بہت سی ایسی تاریخی معلومات ملتی ہیں کہ فلاں بادشاہ کا زمانہ یہ تھا اور اس نے فلاں بادشاہ سے جنگ کی تھی، یا فلاں فلاں بادشاہ کے اتنے اور اتنے بیٹے تھے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیشہ یہ شرط بھی ملتی ہے کہ اگر تمہیں مزید معلومات درکار ہیں تو فلاں فلاں کتاب سے رجوع کرو، یعنی سابق الذکر معلومات کا مصدر کچھ کتابیں ہیں جن کی طرف بہ وقتِ ضرورت رجوع کیا جا سکتا ہے۔ لیکن قرآن کا معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے، وہ اپنے پڑھنے والے کو معلومات فراہم کرتے ہوئے صراحت کر دیتا ہے کہ یہ باتیں اپنے آپ میں تمہارے لیے نئی ہیں اور کسی خارجی مصدر سے نہیں لی گئی ہیں۔ اور قرآن کی یہ نصیحت تو برقرار رہتی ہی ہے کہ اس دعوی پر شک کرنے والے اگر چاہیں تو بحث و تحقیق کر کے اس کو غلط ثابت کر نے کی کوشش کر لیں۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چودہ صدیوں کے طویل عرصہ میں کوئی ایک شخص بھی اس دعوے کو چیلنج نہیں کر سکا۔ حتیّٰ کہ کفار مکہ جو اسلام دشمنی میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتے تھے، وہ بھی قرآن کے اس دعوے کی تردید نہ کر سکے۔ کوئی ایک متنفس بھی یہ ادعاء نہ کر سکا کہ قرآن کی مبینہ معلومات سیکنڈ ہینڈ ہیں اور مجھے معلوم ہے کہ محمد ﷺ نے ان کو کہاں سے چرایا ہے۔اس قسم کا دعوی نہ کئے جانے کی وجہ یہ تھی کہ واقعتاً یہ حقائق اپنے آپ میں جدید تھے۔چنانچہ بحث وجستجو پر آمادہ کرنے والی قرآنی ہدایت کی پیروی میں خلیفۂ راشد ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں ایک وفد کو سدِ(دیوار)ذوالقرنین کی تلاش میں بھیجا۔ قرآنی وحی سے پہلے عربوں نے اس دیوار کے بارے میں کچھ نہیں سنا تھا، لیکن چونکہ قرآن نے اس کی علامات و قرائن واضح کر دیے تھے اس لیے انہوں نے اس دیوار کو ڈھونڈھ نکالا۔ اور در حقیقت یہ دیوار آج بھی موجودہ روس کے ڈربنڈ ((Durbendنامی مقام پر واقع ہے۔یہاں ایک بات ذہن نشیں کر لیجئے کہ اگرچہ قرآن میں متعدد چیزیں بڑی صحت اور دقت رسی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر وہ کتاب جو چیزوں کو درستگی اور باریکی سے بیان کر دے وہ منزل من اللہ قرار پائے گی۔صحیح بات یہ ہے کہ صحت و باریکی، وحیِ الٰہی ہونے کی شرطوں میں سے صرف ایک شرط ہے۔ مثال کے طور پر ٹیلیفون ڈائیریکٹری اپنی معلومات میں صحیح و دقیق ہوتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ منزل من اللہ ہے۔ فیصلہ کن بات یہ ہے کہ قرآنی معلومات کے اصل منبع و مصدر کو دلائل و براہین کے ذریعہ ثابت کیا جائے، اور یہ ذمہ داری قرآن کے مخاطب کی ہے۔ لہٰذا صورتِ مسئلہ کچھ اس طرح بنتی ہے کہ قرآن اپنے آپ میں ایک اٹل سچائی ہے، اب جس کو اس دعویٰ میں تردد ہو وہ قطعی دلیلوں سے اس کی تردید کر کے دکھائے۔اور خود قرآن اس قسم کی بحث و تمحیص کی ہمت افزائی کرتا ہے۔

یہاں یہ علمی حقیقت بھی ہمارے ذہنوں سے اوجھل نہ ہو کہ اگر کوئی انسان کسی کائناتی مظہرہ ((Phenomenon کی علمی توجیہ نہ کر سکے تو اسے لازماً دوسروں کی توجیہات کی صداقت کا اعتراف کرنا ہی چاہیے۔ہم ایسا نہیں کہتے، لیکن اس صورت میں اس شخص کی ذمہ داری ہوگی کہ بذاتِ خود اس کی کوئی معقول توجیہ برآمد کر کے دکھائے۔ یہ علمی نظریہ ہماری زندگی کے بیشمار تصورات پر صادق آتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر یہ قرآنی تحدی سے مکمل ہم آہنگ ہوتا دکھائی پڑتا ہے۔ قرآن اپنے منکرین کے سامنے بڑی پریشانیاں کھڑی کر دیتا ہے، وہ آغازِ گفتگو ہی میں اپنے مخالف سے اس قسم کا عہد لے لیتا ہے کہ اگر آپ کسی حقیقت کو صحیح تسلیم نہیں کرتے تو اس کو غلط ثابت کر کے دکھائیں۔قرآن کی متعدد آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی شناعت بیان کی ہے جو حقائق سننے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کے ذریعے سے ان کو نہیں آزماتے اور عقل کے اندھے ہو کر اپنے عناد و انکار پر اڑے رہتے ہیں :
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْراً مِّنَ الْجِنِّ وَالاِنسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لاَّ یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُونَ بِہَا أُوْلَ ئِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلَ ئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ (الاعراف:۹۷۱)
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوے ہیں۔‘‘
گویا قرآن کے الفاظ میں ایسا شخص قابلِ ملامت ہے جو معلومات کو سن کر رد و قبول کے لیے اپنی عقلی صلاحیتوں کو رو بہ عمل نہیں لاتا ہے۔

’’ استنفادِ بدیل ‘‘ (Exhausting the Alternatives)
قرآن کی صحت و صداقت جانچنے کے اور بھی طریقے پائے جاتے ہیں۔ان میں ایک مسلمہ طریقہ’’ استنفادِ بدیل ‘‘ (Exhausting the Alternatives)کا ہے۔بنیادی طور پر ہم قرآن کا یہ دعویٰ دیکھتے ہیں کہ وہ وحیِ الٰہی ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیا ہے؟دوسرے الفاظ میں قرآن اپنے قاری کو چیلنج کرتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی توجیہ پیش کرے، ورق اور سیاہی سے تیار شدہ یہ کتاب کہاں سے آئی ہے؟اگر یہ اللہ کی وحی نہیں ہے تو اس کا مصدر کیا ہے؟حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج تک کوئی اس مظہرہ کی اطمینان بخش متبادل توجیہ پیش نہیں کرسکاہے۔
غیر مسلموں کی طرف سے قرآن کے منزل من اللہ نہ ہونے کے سلسلے میں جو توجیہات عرض کی گئی ہیں ان کو دو بڑے عنوانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مخالفین کی تمام ہرزہ سرائیاں ان دائروں سے باہر کم ہی نکلتی ہیں۔ مخالفین کا ایک گروہ جو متعدد اصحابِ علم، سائنس دانوں اور تعقّل زدہ لوگوں پر مشتمل ہے، کہتا ہے کہ بڑے طویل عرصہ تک قرآن اور محمد ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کر کے ہم اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ درحقیقت محمدﷺ ایک عبقری (Genius)انسان تھے،جن کو اپنے بارے میں (نعوذ باللہ) یہ وہم ہو گیا تھا کہ وہ ایک نبی ہیں۔اس کی وجہ ان کی عقل میں فتور اور نامساعد حالات میں ان کی پرورش و پرداخت ہے۔ ایک جملہ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ حقیقتاً ایک فریب خوردہ(Fooled) انسان تھے۔
اس گروپ کے بالمقابل مخالفین کا دوسرا گروہ ہے جس کا کہنا ہے کہ دراصل محمد ایک جھوٹے انسان تھے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ آپس میں بھی کبھی قرآن کے متعلق اتفاقِ رائے نہیں کر سکے ہیں۔اسلام اور اسلامی تاریخ پر لکھے گئے بہت سارے مغربی مصادر و مراجع میں ان دونوں مفروضات کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ پہلے پیراگراف میں محمدﷺ کو ایک فریب خوردہ،مختل الحواس انسان کی شکل میں پیش کریں گے اور معاً اگلے اقتباس میں انھیں جھوٹا، کذاب کے القاب سے نوازتے دکھائی دیں گے۔حالانکہ اندھی مخالفت کے زور میں یہ حضرات علمِ نفسیات کی ابجدی حقیقت کو بھی دانستہ یا نادانستہ فراموش کر جاتے ہیں کہ کوئی انسان بیک وقت محبوس العقل اور جھوٹا شاطر(Imposter) نہیں ہو سکتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص مخبوط العقل ہے اور اپنے آپ کو نبی سمجھ بیٹھا ہے تو اس کا معمول یہ نہیں ہوگا کہ وہ رات کے آخری پہر میں جاگ کر اگلے دن کے لیے لائحہ عمل تیار کرے تاکہ اس کی نبوت کا ڈھونگ جاری رہ سکے۔ اگر وہ مختل العقل ہے تو وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اپنی دانست میں سچا نبی ہوگا اور اسے کامل یقین ہوگا کہ آئندہ کل جو بھی ناگہانی سچویشن رونما ہوگی، وحیِ الٰہی ہر موقعہ پر اس کی دادرسی کر دے گی۔ اور واقعہ ہے بھی کہ قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ کفار و مشرکین کے سوالات و اعتراضات کے جواب میں نازل ہوا ہے۔مختلف خلفیوں (Back Grounds) کے حامل مخالفین الگ الگ سطحوں پر آپﷺ سے سوالات دریافت کرتے تھے اور اللہ کی جانب سے وحی کے ذریعے آپﷺ کو اس سے باخبر کیا جاتا تھا۔ لہٰذا اگر آنحضورﷺ کو دماغی خلل(Mind Delusion) کا شکار باور کر بھی لیا جائے تو فطری طور پر ان کا رویہ جھوٹے شخص کا سا نہیں ہو سکتا۔غیر مسلم مخالفین علمی سطح پر کبھی اس بات کا اقرار نہیں کر سکتے کہ یہ دونوں از قبیلِ اضداد صفتیں کسی ایک آدمی میں یکجا ہو سکتی ہیں۔کوئی بھی انسان یا تو فریب خوردہ ہوگا یا جھوٹا، بیک وقت دونوں ہرگز نہیں ہو سکتا۔ جس چیز پر میں زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ کہ متعلقہ دونوں صفات دو متضاد شخصیتوں کا مظہر ہیں اور ایک شخص میں ان کا پایا جانا صرف خوابوں کی دنیا میں ممکن ہے۔
آنے والے منظر نامے کے ذریعہ آپ جان لیں گے کہ کس طرح غیرمسلم مخالفین،کولہو کے بیل کی مانند ایک دائرے میں گھومتے گھومتے خود اپنے کھودے ہوئے اعتراضات کے گڈھوں میں آ گرتے ہیں۔اگر آپ ان میں سے کسی سے پوچھیں کہ تمھارے فہم کے مطابق یہ قرآن کہاں سے آیا ہے؟وہ جواب دے گا کہ یہ ایک مخبوط العقل انسان کی خیال آفرینی کا کرشمہ ہے۔ اب آپ اس سے پوچھیں : ’’اگر یہ کسی پاگل ذہن کی پیداوار ہے تو اس میں یہ علمی باتیں کہاں سے آ گئیں ؟اس کو تو تم بھی مانو گے کہ قرآن میں ایسی معلومات کا تذکرہ ہے جو اس وقت عربوں کو نہیں معلوم تھیں ‘‘، اب وہ لاشعوری طور پر اپنے جواب میں تبدیلی کرتے ہوئے کہے گا:’’ہو سکتا ہے کہ محمدﷺ مخبوط العقل نہ ہوں، اور انھوں نے یہ معلومات بعض غیر ملکی اجنبیوں سے سن کر ان کو اپنی طرف منسوب کر دیا ہو، اور اس بہانے جھوٹ موٹ نبوت کا دعوی بھی کر دیا ہو‘‘۔اس نقطہ پر آ کر آپ اس سے پوچھیں :’’اگر تمھارے مطابق محمد ﷺ جھوٹے نبی تھے تو کیا وجہ ہے کہ انھیں اپنے آپ پر اس درجہ اعتماد کیوں تھا؟کیوں ان کے تمام تصرفات سے فی البدیہہ جھلکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سچا نبی متصور کرتے تھے؟‘‘اس نقطہ پر پہونچ کروہ تنگ نائے میں پھنسی بلی کی طرح اپنے سابقہ موقف کی طرف پلٹی مارتے ہوئے کہے گا :’’ممکن ہے کہ وہ فی الواقع جھوٹا نہ ہو، بلکہ مخبوط العقل ہو جو کہ خود کی نبوت میں یقین کرتا تھا‘‘ یہاں آ کر بحث و تمحیص کا دائرہ گھوم کر پھر وہیں آ رکتا ہے جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی۔
جیسا کہ میں پیچھے ذکر کر چکا ہوں کہ قرآنِ کریم میں ایسے بہت سارے علمی حقائق مذکور ہیں کہ جن کو اللہ عالم الغیب کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ہے۔علی سبیل المثال: کون تھا جس نے محمدﷺ کو سدِ ذی القرنین کے متعلق بتایا جبکہ وہ جزیرۃ العرب کی حدود سے باہر شمال میں ہزاروں کیلو میٹر کی دوری پر واقع ہے، ؟کون تھا جس نے علمِ جنین کے بارے میں بالکل درست معلومات سے محمدﷺ کو آگاہ کیا تھا؟ان حقائق کی کثرت کو دیکھتے ہوئے بھی جو لوگ ان کو ذاتِ الٰہی کا فیضان نہیں ماننا چاہتے، آٹومیٹیکلی ان کے پاس صرف ایک آپشن باقی رہ جاتا ہے۔ یعنی کسی گمنام اور مجہول شخص نے یہ بیش بہا معلومات کا خزانہ، محمدﷺ کی جھولی میں ڈال دیا تھا، جس کا خاطر خواہ استحصال کرتے ہوئے محمد ﷺ نے نبوت کا دعوی کر دیا۔ لیکن اس غلط مفروضہ کو بڑی آسانی کے ساتھ محض ایک مختصر سے سوال کے ذریعہ رد کیا جا سکتا ہے:اگر بموجب اس مفروضہ کے محمدﷺ ایک جھوٹے نبی تھے، تو آخر انھیں اپنے جھوٹ پر اتنا بھروسا کیوں تھا؟کیوں کر انھوں نے ایک بت پرستانہ ماحول میں رائج مذہبی عقائد ورسوم پراس درجہ بیباکی و شجاعت کے ساتھ تیز و تند تنقیدیں کیں، جس کا تصور بھی کسی نفاق پرست جھوٹے مدعیِ نبوت سے نہیں کیا جا سکتا؟۔ یہ بے مثال خود اعتمادی و بیباک شجاعت صرف اور صرف سچی وحیِ الٰہی کی سرپرستی میں میسر آ سکتی ہے۔
یہاں میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، اسلامی تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کو بھی یہ بات معلوم ہوگی کہ آنحضرت ﷺ کا ایک چچا ابولہب دینِ اسلام کی دعوت کا کٹر مخالف تھا۔ اسلام سے اس کی دشمنی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ ملعون راستا چلتے آپﷺ کا پیچھا کیا کرتا تھا، جہاں آپﷺ رک کر کسی کو وعظ و تبلیغ فرماتے یہ فوراً جا پہنچتا اور بڑی شدومد کی ساتھ آپﷺ کی تردید کرنے لگتا۔ الغرض زندگی کے ہر ہر شعبے میں محمد ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات کے برعکس کرنا اس کی زندگی کا شیوہ تھا۔ اسی ابو لہب کی موت سے تقریباً دس سال پہلے آنحضرتﷺ پر ایک چھوٹی سورت نازل ہوئی۔ یہ مکمل سورت ابو لہب سے متعلق تھی اور یہی اس کا نام بھی پڑا۔ اس سورت نے پوری وضاحت اور قطعیت کے ساتھ ابو لہب کو جہنمی یا دوزخی قرار دیا ہے۔دوسرے الفاظ میں معلوم تاریخ میں پہلی بار کسی انسان کو مدتِ امتحان ختم ہونے سے پہلے ہی نتیجہ بتا دیا گیا۔قرآن جو کلامِ ربانی ہے اس میں اگر کسی کے بارے میں صراحت کے ساتھ اہلِ جہنم ہونے کا تذکرہ آ جائے تو اس کا سیدھا مفہوم یہ ہوگا کہ اب ایسے شخص کو قبولِ ایمان کی توفیق نہیں ہوگی اور ہمیشہ ہمیش کے لیے وہ ملعون و مردود ہی رہے گا۔
ابو لہب اس سورت کے نزول کے بعد دس سال تک زندہ رہتا ہے اور اس طویل مدت میں وہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتا۔اس قدر اسلام دشمنی کے باوجود اس سے کبھی یہ نہ بن سکا کہ وہ بر سرِ عام یہ اعلان کر دیتا:
’لوگو!ہم سب نے سنا ہے کہ محمدﷺ کی وحی کے دعوے کے مطابق،میں کبھی اسلام قبول نہیں کروں گا اور میرا انجام دوزخ مقدر ہو چکا ہے، لیکن دیکھو میں آج اسلام میں داخلہ کا اعلان کرتا ہوں اور جان لو کہ میرا مسلمان ہو جانا محمد ﷺ کے لائے ہوئے قرآن کی روشنی میں ناممکن تھا، اب تم لوگ فیصلہ کرو کہ ایسی خدائی وحی کے بارے میں کیا کہو گے؟‘
وہ اگر ایسا اعلان کر دیتا تو یقین مانیے نہ صرف قرآن کی صداقت مشکوک ہو جاتی،بلکہ اسلام کی بیخ کنی کا اس کا دیرینہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو جاتا۔لیکن وہ ایسا نہ کر سکا، حالانکہ اس کی شر پسند طبیعت سے ایسے ردِ عمل کی بجا طور پر امید کی جا سکتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہوتا، پورے دس سال گزر جاتے ہیں اور وہ اپنی طبعی موت مر کر ہمیشہ کے لیے واصلِ جہنم ہو جاتا ہے لیکن اس پوری مدت میں اس کے اندر قبولِ اسلام کا کوئی داعیہ پیدا نہیں ہو پاتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر محمدﷺ اللہ کے سچے رسول نہیں تھے تو انھیں یقینی طور پر کیسے معلوم ہوا کہ ابو لہب قرآن کی پیشن گوئی کو حرف بہ حرف درست قرار دیتے ہوئے بالآخر کفر پر ہی مرے گا؟محمد ﷺ کو یہ خود اعتمادی کہاں سے حاصل ہو گئی کہ وہ اپنے مشن کے کٹر مخالف کو کامل دس سال اس بات کا موقعہ دیے رہیں کہ اگر وہ چاہے تو ان کے دعوۂ نبوت کو جھوٹا ثابت کر دکھائے؟اس کا بس یہی جواب ہے کہ آپﷺ فی الواقع اللہ کے سچے رسول تھے۔ انسان وحیِ الٰہی کے فیضان سے سرشار ہو کر ہی اس قسم کا پرخطر چیلینج پیش کر پاتا ہے۔

محمد ﷺ کا اپنی صداقت پر یقین اور اس کی تبعیت میں اللہ کی نصرت و حفاظت پر اعتماد کس بلندی کو پہنچا ہوا تھا، ہم اس کی دوسری مثال پیش کرتے ہیں۔ ہجرت کے موقعے پر آپﷺ نے مکہ کو خیر باد کہہ کر حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ مشہور پہاڑ’’ ثور‘‘ کے ایک غار میں پناہ لی تھی۔ کفارِ مکہ آپﷺ کے خون کے پیاسے بن کر پوری طاقت کے ساتھ آپﷺ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ ایسی ہولناک صورتِ حالات میں یہ ہوتا ہے کہ تلاش کرنے والی ایک پارٹی قدموں کے نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے ٹھیک اسی غار کے بالمقابل پہنچ جاتی ہے جس میں آپﷺ پناہ گزیں تھے۔ بس لمحہ کی دیر تھی کہ کوئی اس غار میں جھانک کر دیکھ لے اور اسلامی تاریخ کوئی دوسرا رخ اختیار کر نے پر مجبور ہو جاتی۔ حضرت ابو بکرؓ بھی حالات کی سنگینی سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ یقین جانیے اگر محمدﷺ اپنے دعوے میں جھوٹے ہوتے اور آپ کی رسالت محض ایک دھوکا ہوتی، تو ایسی صورت میں آپ کا فطری ردِ عمل یہ ہونا چاہیے تھا کہ آپ ﷺ اپنے ساتھی سے کہتے:
’اے ابوبکرؓ ذرا غار کے پچھلی طرف جا کر تو دیکھو، کیا وہاں کوئی جائے فرار ہے؟یا فرماتے:ابو بکرؓ ! وہاں کونے میں دبک کے بیٹھ جاؤ اور بالکل آواز نہ کرو۔‘
آپﷺ نے ایسا کچھ نہیں فرمایا، اس وقت آپﷺ نے حضرت ابوبکر ؓ سے جو کہا وہ آپﷺ کے توکل علی اللہ کا غماز اور اپنی نبوت کی سچائی پر کامل یقین کا مظہر تھا۔ قرآن نے اس وقت کی نازک صورتِ حال میں آپ کا ردِ عمل (Reaction)اس طرح ذکر کیا ہے:
ثَانِیَ اثْنَیْْنِ ِذْ ہُمَا فِیْ الْغَارِ اِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّہَ مَعَنَا(التوبہ: ۴۰)’جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘
اب مذکورہ بالا مثالوں کی روشنی میں فیصلہ کیجیے کہ کیا کسی جھوٹے،دھوکے باز مدعیِ نبوت کو ایسی پرخطر صورت حال میں اپنے جھوٹ پر اس درجہ اعتماد ہو سکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ یقین و توکل کی یہ کیفیت کسی کاذب فریبی کو میسر آ ہی نہیں سکتی۔ جیسا کہ پیچھے ذکر آیا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ قرآن کو وحیِ الٰہی نہ ماننے والے اپنے آپ کو ایک خالی دائرہ (Vacant Circle )میں گھرا پاتے ہیں اور ان سے کوئی معقول جواب نہیں بن پاتا۔ کبھی وہ محمد ﷺ کو ایک دیوانہ شخص گردانتے ہیں اور کبھی جھوٹا دھوکہ باز۔ ان کی عقل میں اتنی موٹی بات بھی نہیں آتی کہ دیوانگی اور مکاری متضاد صفات ہیں اور کسی ایک آدمی میں ان کے اجتماع کی بات کہنا بذاتِ خود پاگل پن کی علامت ہے۔

قرآن اور سستے  ریڈی میڈ عذر و اعتراضات:
سات سال پہلے کی بات ہے، میرے ایک وزیر دوست میرے گھر تشریف لائے تھے۔ ہم جس کمرے میں گفتگو کر رہے تھے، وہاں قریب میز پر قرآن مجید رکھا ہوا تھا، جس کے بارے میں وزیر موصوف کو علم نہیں تھا۔ دورانِ گفتگو میں نے قرآن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: میں اس کتاب پر ایمان رکھتا ہوں۔‘‘ وزیر صاحب نے از راہِ تفنن کتاب پر ایک اچٹتی سی نظر ڈال کر فرمایا: ’’میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ اگر یہ کتاب بائبل نہیں ہے تو ضرور بالضرور کسی انسان کی تصنیف کردہ ہے۔‘‘ میں نے ان کے دعوے کے جواب میں صرف اتنا کہا: ’’چلئے میں آپ سے اس کتاب میں موجود چند باتوں کا تذکرہ کرتا ہوں۔ اور تین یا چار منٹوں میں، میں نے ان کے سامنے قرآن کے چند علمی حقائق پیش کر دیے۔ ان چند منٹوں نے اس کتاب کے تعلق سے ان کے نظریہ میں بڑی تبدیلی پیدا کر دی، انھوں نے کہا: ’’آپ کی بات سچ ہے، اس کتاب کو کسی انسان نے نہیں بلکہ شیطان نے لکھا ہے۔‘‘
میری نظر میں اس قسم کا احمقانہ لیکن افسوسناک موقف اختیار کرنے کی کچھ وجوہات ہیں : اولاً یہ ایک جلدی میں تراشا ہوا سستا عذر ہے، اس کے ذریعہ کسی بھی لاجواب کر دینے والی سچویشن سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ بائبل کے عہد نامہ میں بھی اسی قسم کا ایک واقعہ درج ہے۔ قصّے کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ اپنی معجزاتی قوت سے ایک مردہ آدمی کو زندہ کر دیتے ہیں۔ اس آدمی کی موت چار دن پہلے واقع ہو چکی تھی، لیکن حضرت عیسیٰ کے ’قم‘ کہہ دینے سے وہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اس حیرتناک منظر کا مشاہدہ بعض یہودی بھی کر رہے تھے، اس واضح معجزہ کو سر کی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ان کا جو تبصرہ تھا وہ قابل عبرت ہے۔ انھوں نے کہا: ’’یا تو یہ شخص (حضرت عیسیٰؑ ) بذات خود شیطان ہے یا شیطان اس کی مدد کر رہا ہے۔‘‘
اس قصے کو دنیا بھر کے عیسائی کلیساؤں میں بار بار ذکر کیا جاتا ہے اور عیسائی حضرات موٹے موٹے اشک بہاتے ہوئے اس قصے کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں : ’’اگر ہم اس جگہ ہوتے تو یہودیوں کی سی حماقت ہم سے سرزد نہ ہوئی ہوتی۔‘‘ لیکن رونے کا مقام ہے کہ بعینہ یہی لوگ تین چار منٹ میں چند قرآنی علمی معجزات کو جان لینے کے بعد وہی طرز عمل اختیار کرتے ہیں جو ان کے نبی کے تعلق سے یہودیوں نے کیا تھا، یعنی یہ شیطان کا کام ہے یا اس کتاب کی تیاری میں شیطان کا تعاون شامل رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ حضرات جب مباحثہ کے دوران کسی تنگ زاویے میں پھنس جاتے ہیں اور کوئی معقول و مقبول جواب انھیں سجھائی نہیں دیتا تو پھر ان کی جانب سے اسی طرح کے سستے اور ریڈی میڈ اعتراض کا سہارا لیا جاتا ہے۔
اس قسم کے کمزور فکری موقف کی دوسری مثال ہمیں کفارِ مکہ کے یہاں بھی دکھائی پڑتی ہے۔ اسلامی دعوت کے سامنے علمی و عقلی سطحوں پر ہزیمت اٹھانے کے بعد انھوں نے بھی اسی نوعیت کے عذر تراشنے شروع کر دیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ شیطان ہی ہے جو محمدﷺ کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اس طرح کی ساری افواہوں، عذر تراشیوں اور الزامات کی پر زور تردید کی ہے۔ اس سلسلے کی ایک خاص آیت یہ ہے:
وَمَاھُوَ بِقَوْلِ شَیْطَانِ رَجِیْمٍoفَأَیْنَ تَذْھَبُوْنَoاِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٌ لِّلْعَالَمِیْنَo(التکویر۲۵-۲۷)’’یہ کسی شیطان مردود کا قول نہیں ہے، پھر تم لوگ کدھر چلے جا رہے ہو؟ یہ تو سارے جہاں والوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔‘‘
اور اس طریقے سے قرآن نے، ان خیالی مفروضات کی قلعی کھولی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم میں بے شمار ایسے دلائل و شواہد موجود ہیں جو اس مفروضے کی، پوری وضاحت کے ساتھ تردید کرتے ہیں۔ مثلاً قرآن کی چھبیسویں سورت میں ارشاد فرمایا گیا ہے:
وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّیَاطِیْنُoوَمَایَنْبَغِیْ لَھُمْ وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَo اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَo (الشعراء:۲۱۰-۲۱۲)’’اس (کتاب مبین) کو شیاطین لے کر نہیں اُترے ہیں، نہ یہ کام ان کو سجتا ہے، اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں، وہ تو اس کی سماعت تک سے دُور رکھے گئے ہیں۔‘‘
اور ایک دوسری جگہ یہ تعلیم دی جاتی ہے:
فَاِذَا قَرَأَتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ (النحل:۹۸)’’جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔‘‘
اب ان آیات پر غور کر کے بتایا جائے کہ کیا شیطان اس طرح کی کتاب خود تیار کرسکتا ہے؟ کیا شیطان اتنا ہی سادہ لوح ہے کہ وہ اپنے قارئین سے التماس کرے گا کہ دیکھو میری کتاب پڑھنے سے پہلے تم اللہ سے اس بات کی دُعا ضرور کرو کہ وہ میرے کید و شر سے تمھاری حفاظت فرمائے۔ اس طرح کی حرکت آخری درجہ کی خود فریبی و حماقت ہے جس کی توقع انسان سے تو کی جا سکتی ہے مگر شیطان سے نہیں۔
اب ایک دوسرے پہلو سے غور کیجئے، عام آدمی تک کے احاطۂ معلومات میں یہ بات ہے کہ شیطان سے غلطیوں کا صدور ہوتا ہے اور یہ کہ وہ معصوم عن الخطا نہیں ہے۔ اس عام معلومات کا لازمی تقاضا بنتا ہے کہ وہ اپنی تصنیف کردہ کتاب کو بھی غلطیوں اور تناقضات سے بھر دے، جب کہ قرآن صراحت کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ اس کے اندر کسی قسم کا تناقض نہیں کیونکہ وہ منزل من اللہ ہے۔
اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً۔ (النساء:۸۲)
’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی ہے۔‘‘
عام طورسے غیر مسلموں کے پاس اور بھی کچھ اعذار ہیں جن کی بنیاد پر، قرآن کو انسانی قوت مخیلہ کی اختراع قرار دیا جاتا ہے۔ غیر مسلموں کی جانب سے کیے گئے اسلام کے گہرے مطالعہ اور بحث و تحقیق کا جو حاصل عموماً نظر آتا ہے وہ چند باہم متناقض مفروضات کا پلندہ ہے۔ بیشتر مفروضوں کا بنیادی تھیم یہی ہوتا ہے کہ دراصل محمدﷺ کو ایک نفسیاتی بیماری لاحق تھی، اس بیماری کا نام اسطوری لمس یا خود پسندی کا جنون (Mythomania) ہے۔ اس بیماری میں مبتلا شخص اپنے ہر جھوٹ کو دل کی گہرائیوں سے سچ سمجھتا ہے۔ غیر مسلموں کا کہنا ہے کہ محمدﷺ بھی دراصل ایک ایسے ہی انسان تھے، ان کو اپنے بارے میں نبی ہونے کا واہمہ ہو گیا تھا۔ ان حضرات کے اس نظریہ کو بفرض محال کچھ دیر کے لیے تسلیم کر بھی لیا جائے تو بڑی دشواری یہ پیدا ہو جاتی ہے کہ اس مرض میں مبتلا انسان کبھی بھی زندگی کی سچائیوں اور روز مرہ کے واقعات سے خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پاتا، لیکن محمدﷺ کے کیس میں ہم پاتے ہیں کہ ان کی لائی ہوئی کتاب پوری کی پوری حقائق پر مبنی اور واقعات کا مرقع ہے۔ اور قرآن کا مبنی بر حقیقت و صداقت ہونا، ہر انسان خود بخود بحث و تحقیق کر کے جان سکتا ہے۔
اس مرض میں مبتلا انسان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی خیالی دنیا میں رہنے والا گوشہ نشیں بن جاتا ہے۔ وہ جیتے جاگتے سماج کی گہماگہی کا سامنا نہیں کر پاتا، اس لیے خاموشی کے ساتھ اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے۔ جدید نفسیاتی طب بھی ایسے شخص کا علاج یہی تجویز کرتی ہے کہ اسے تسلسل کے ساتھ حقائق کی دنیا سے دوچار کرایا جاتا رہے۔ مثال کے طور پر اگر ایسا نفسیاتی مریض اپنے آپ کو انگلینڈ کا بادشاہ خیال کرتا ہے، تو اس کا معالج اس کی تردید میں یہ نہیں کہے گا کہ ’’تم بادشاہ نہیں ہو، بلکہ حقیقت میں تمہیں دماغی شکایت ہے‘‘۔ ایسے مریض کے طریقۂ علاج کی رو سے فوراً تردید کے بجائے اس کے سامنے حقائق پیش کیے جائیں گے۔ مثلاً اس سے کہا جائے گا: اگر تم ہی انگلینڈ کے بادشاہ ہو تو بتاؤ آج ملکہ کہاں قیام پذیر ہوں ؟ اور تمھارے وزیر اعظم کا اسمِ گرامی کیا ہے؟ اور تمھارے شاہی پہرے دار بھی نہیں معلوم کہاں ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کا مریض ان سوالوں کے جواب میں صعوبت محسوس کرتے ہوئے الٹے سیدھے جواب دے گا، مثلاً آج ملکہ اپنے مائیکے گئی ہیں۔ وزیر اعظم کا انتقال ہو گیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور آخر کار ان حقائق کی کوئی معقول توجیہہ نہ پاکر وہ اس مضحکہ خیز مرض سے شفا پا جاتا ہے اور جیتے جاگتے واقعات کے سامنے سپرڈالتے ہوئے مان لیتا ہے کہ حقیقت میں وہ انگلینڈ کا بادشاہ نہیں ہے۔
قرآن حکیم کا اپنے سرکش مخالفین کے ساتھ تعامل بھی کم و بیش وہی ہوتا ہے، جو نفسیاتی نقطۂ نظر سے مائتھومینیا میں مبتلا شخص کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ قرآن حکیم اپنے قارئین کو مجبو ر کر دیتا ہے کہ وہ مسئلے کی تمام ابعاد (Dimensions) اور پہلؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی شئے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراس پورے پروسس (Process) میں، وہ انسان کو گم راہی کی تنگ نائیوں سے نکال کر ہدایت کی وسیع شاہ راہ پر لا کھڑا کرتا ہے۔ اس پر حکمت لائحۂ عمل کے ذریعے سے، لاشعوری طور پر انسان کے حاشیۂ خیال تک سے یہ احمقانہ اعتقاد زائل ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم میں بیان کردہ حقائق کسی انسانی ذہن کی اپج یا پینک ہیں۔
قرآن کریم کا یہ لوگو ں کو حقائق و واقعات کے ذریعے قائل کرنے والا انداز ہی متعدد غیر مسلموں کے اسلام کی طرف متوجہ ہونے کا باعث بنا ہے۔ عصر حاضر کے ایک اہم علمی مرجع جدید کیتھولک انسائیکلو پیڈیا (New Catholic Encyclopedia) میں قرآن کریم سے متعلق قابل ذکر تبصرہ کیا گیا ہے۔ قرآن کریم کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے کیتھولک چرچ نے صراحت کے ساتھ یہ اعتراف کیا ہے:
’’ماضی کے مختلف ادوار میں قرآن کریم کے مصدر و منبعِ معلومات کے متعلق مختلف نظریات پیش کئے گئے ہیں، لیکن آج کسی عقلِ سلیم کے حامل انسان کے لیے ان میں سے کسی نظریے کو مان لینا ممکن نہیں ‘‘۔
تاریخ میں اپنی اسلام دشمنی میں بدنام کیتھولک چرچ کو بھی مجبوراً قرآن حکیم کو انسانی دماغ کی پیداوار سمجھنے والے نظریات کو غیر معقول قرار دینا پڑا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ قرآن حکیم تمام عیسائی چرچوں کے لیے ہمیشہ سے بڑا دردِسر رہا ہے۔ ان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ قرآن حکیم سے کوئی ایسی دلیل ڈھونڈ نکالیں، جس کے ذریعے سے قرآن حکیم کو الہامی کلام کے بجائے انسانی کلام قرار دیا جا سکے، لیکن عملاً ایسا ممکن نہیں ہوسکا۔ اِس سلسلے میں کیتھولک چرچ دیگر چرچوں سے اس بات میں ممتاز ہے کہ اس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے مروجہ تمام احمقانہ توجیہات کو لغو قرار دیا ہے۔ کلیسا (Church) کی تصریح کے مطابق گزشتہ چودہ صدیوں میں قرآنی مظہرہ (Phenomenon) کی کوئی منطقی و معقول تفسیر پیش نہیں کی جا سکی ہے۔ بالفاظ دیگر اس کو اقرار ہے کہ قرآن حکیم کا قضیہ اتنا آسان نہیں کہ اسے درخورِ اعتنا ئ ہی نہ سمجھا جائے۔ بلاشبہ دوسرے لوگ اتنے علمی اعتراف و احترام کے بھی روادار نہیں ہوتے، بل کہ ان کا عام رد عمل یہی ہوتا ہے کہ ’’یہ قرآن حکیم ہوسکتا ہے اس طرح تصنیف دیا گیا ہوگا یا اس طرح‘‘۔ ان ٹامک ٹوئیوں میں سرگرداں یہ حضرات بیشتر اوقات خود اپنے اقوال کی نامعقولیت اور باہمی تناقض کا ادراک نہیں کر پاتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ کیتھولک کلیسا کی یہ تصریح خود عام عیسائی حضرات کے لیے دشواری پیدا کر دیتی ہے، کیوں کہ اس تصریح کی موجودگی میں ان کا قرآن کریم کے تئیں معاندانہ رویہ اپنا مذہبی اعتبار کھو دیتا ہے۔ چوں کہ ہر عیسائی شخص کے دینی فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ ہر صورت میں اپنے چرچ کے احکام و فرامین کا پابند رہے گا۔ اب اگر کیتھولک چرچ اعلان کرتا ہے کہ قرآن حکیم کے بشری تخلیق ہونے سے متعلق بازار علم میں جو بھی نظریات پھیلے ہوئے ہیں ان پر کان نہ دھرا جائے، تو ایک عام عیسائی اس مخمصے کا شکار ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی دوسری توجیہ معتبر نہیں ہے تو آخر مسلم نقطۂ نظر سے اس پر غور کیوں نہ کیا جائے؟ اس کا اعتراف تو سبھی کرتے ہیں کہ قرآن حکیم میں کچھ تو ہے، جس کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ لہٰذا جب کسی دوسری تفسیر کا اعتبار نہیں تو آخر کیوں قرآن حکیم سے متعلق مسلم عقیدے کے لیے معاندانہ موقف کو برقرار رکھا جائے؟ مجھے معلوم ہے کہ مسئلے کے اس پہلو پر وہی غیر مسلم حضرات غور و تدبر کرسکیں گے جن کی بصیرت کو اندھے دینی تعصب نے بالکل محو نہیں کر دیا ہے اور جو حقائق کو کسی خاص فکر ونظرئیے کی عینک سے دیکھنے کے عادی نہیں ہوئے ہیں۔
موجودہ کیتھولک چرچ کے صف اول کے ممتاز رہنماؤں میں ایک نام مسٹر ہانس (Hans) کا آتا ہے۔ موصوف نے ایک مدت دراز تک قرآن حکیم پر ریسرچ کی ہے اور اس سلسلے میں انھوں نے متعدد اسلامی ممالک میں لمبے عرصے تک قیام بھی کیا ہے۔ کیتھولک دنیا میں ان کو کافی اعتبار حاصل ہے۔ اپنے طویل ریسرچ کے خلاصے کے طور پر انھوں نے ایک رپورٹ مرتب کی تھی جو حالیہ دنوں میں شائع بھی ہوگئی ہے۔ اس رپورٹ میں انھوں نے لکھا ہے : ’’اللہ رب العزت نے محمد ﷺ کے واسطے سے انسان سے ہم کلامی کی ہے‘‘۔
ایک بار پھر ایک ممتاز غیر مسلم دینی را ہ نما نے، جو اپنے حلقوں میں معتبر بھی خیال کیا جاتا ہے، اس بات کی شہادت دی ہے کہ قرآن حکیم اللہ کا کلام ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کیتھولک بابا (Pope) نے اس رائے کو مان لیا ہوگا، لیکن اس کے باوجود، عوامی مقبولیت کے حامل کسی معروف دینی راہ نما کا قرآن حکیم کے تئیں مسلم نقطۂ نظر کی تائید کرنا اپنے آپ میں کافی سے زیادہ وزن رکھتا ہے۔ مسٹر ہانس اس لحاظ سے بھی تحسین کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس واقعی حقیقت کا اعتراف کیا کہ فی الواقع قرآن کریم میں ایسا کچھ ہے جسے آسانی سے نظر اندا ز نہیں کیا جا سکتا اور ایسا اس لیے ہے کہ درحقیقت قرآنی کلمات کا مصدر و منبع خود ذاتِ باری تعالیٰ ہے۔
جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ قرآن حکیم سے متعلق تمام احتمالات ختم ہو جاتے ہیں۔ مزید کسی ایسے احتمال کا امکان نہیں رہ جاتا جس کی موجودگی میں قرآن حکیم کا انکار لازم آتا ہو۔ قرآن کریم اگر وحی ربانی نہیں ہے تو وہ ایک دھوکا اور فریب ہے، اور اگر وہ دھوکا اور فریب ہے تو ہر انسان کو حق پہنچتا ہے کہ وہ معلوم کرے کہ اس عظیم الشان فریب کا مصدر کیا ہے اور کس کس مقام پر یہ کتاب ہمیں دھوکا دے رہی ہے؟
سچ بات تو یہ ہے کہ ان سوالات کے صحیح جوابوں پر ہی بڑی حد تک قرآن حکیم کی صداقت و صحت کا انحصار ہے اور ان سوالات پر چپ سادھ لینا اشارہ کرتا ہے کہ دعوے داروں کے پاس اپنے موقف کی تائید میں کچھ نہیں ہے۔ اتنا سب کچھ جان لینے کے باوجود اگر مخالفین کو اصرار ہے کہ قرآن حکیم محض ایک فریب ہے، تو انھیں اس دعوے کے کچھ دلائل بھی پیش کرنے چاہئیں۔ کیوں کہ اب دلائل دینے کی ذمے داری ان کی بنتی ہے اور یہ کوئی صحتمند رویہ نہیں کہ کوئی بھی شخص کسی معقول دلیل کے بغیر اپنے گھسے پٹے نظریے کو بس پیش کرتا رہے۔ میں ایسے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں : ’’مجھے قرآن حکیم میں موجود کوئی ایک دھوکا یا جھوٹ لا کر دکھاؤ۔ اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو اس کو مکر و فریب یا جھوٹ کہنا بند کرو‘‘۔
قرآن حکیم کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ غیر متوقع طور پر رونما ہونے والے حادثات کو بھی الگ اور انوکھے انداز میں پیش کرتا ہے۔ یہ حوادث صرف زمانۂ ماضی پر موقوف نہیں ہوتے، بل کہ ان میں سے کچھ دراز ہوتے ہوتے ہمارے عہد سے بھی متعلق ہو جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر قرآن حکیم اپنے منکرین کے لیے جس طرح کل ایک محیرالعقول مسئلہ بنا ہوا تھا اُسی طرح آج بھی ہے۔ قرآن حکیم ہر گزرتے لمحے کے ساتھ اپنی تائید میں دلائل کا اضافہ کرتا جاتا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ قرآن حکیم آج بھی وہ حیرت انگیز طاقت ہے جس کے ساتھ آسانی سے لوہا نہیں لیا جا سکتا۔ میں ایک مثال دیتا ہوں، قرآن کریم کی ایک آیت ہے:
أَوَلَمْ یَرَالَّذِیْنَ کَفَرُوآأَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْا ٔرضَ کَانَتاَ رَتْقاً فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء کُلَّ شَیْ ئِِ حَیِّ أَفَلَا یُوْمِنُوَْ) (الانبیآء: ۳۰)
’’کیا وہ لوگ جنھوں نے (نبیﷺ کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انھیں جدا کیا اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی، کیا وہ ہماری اس خلاّقی کو ’’نہیں مانتے ‘‘ ؟
مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ آیت کریمہ میں مذکور بعینہ انھی معلومات کے نام نہاد انکشاف کرنے پر ۱۹۷۳میں انکارِ خدا کے قائل دو ملحدوں کو نوبل پرائز (Nobel Prize) سے نوازا گیا تھا۔ حالانکہ قرآن حکیم نے صدیوں پہلے اس کائنات کی ابتداء کے بارے میں وضاحت فرما دی تھی۔ انسانیت آج تک قرآن حکیم میں مذکور اس کائناتی سچائی کو ثابت کرنے میں لگی ہوئی ہے۔
دوسری قسم کی مثال میں وہ آیات پیش کی جا سکتی ہیں جن میں مسلمانوں اور قومِ یہود کے باہمی تعلقات کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ان آیات میں قرآن حکیم کے پیش نظر یہ نہیں ہے کہ وہ دونوں دینوں کے متبعین کے باہمی تعلقات کو کم سے کمتر کرنا چاہتا ہے، بل کہ یہاں اس کا مقصد واقعی زندگی میں موجود دونوں جماعتوں کے اجتماعی تعلقات کا خلاصہ ہے۔ قرآن کریم نے دو ٹوک انداز میں اس بات کی پیشین گوئی کی ہے کہ یہودیوں کے مقابلے میں عیسائی حضرات کا رویہ مسلمانوں کے تئیں قدرے بہتر ہوگا:
لَتَجِدَنَّ اۂ شَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِلَّذِیْنَ آمَنُوْالْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃ لِلَّذِیْنَ آمَنُواْلَّذیْنَ قَالُوْااِنَّا نَصَارٰی۔(المائدہ:۸۲)
’’تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے اور ایمان لانے والوں کے لیے دوستی میں قریب تر ان لوگوں کو پاؤ گے جنھوں نے کہا کہ ہم نصاریٰ ہیں ‘‘۔
اس تصریح میں چھپی گہری حقیقت کا شعور اسی وقت ممکن ہے جب ہم اس کے حقیقی معنی کا اس کے جملہ ابعاد (Dimensions) و اطراف کے ساتھ ادراک کرسکیں۔ یہ درست ہے کہ تاریخ میں بہت سارے عیسائی اور یہودی حضرات نے اسلام قبول کیا ہے، لیکن اگر ہم اس موضوع کو ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر دیکھیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ یہود اپنی کٹر اسلام دشمنی میں زیادہ مشہور رہے ہیں۔ میرے خیال میں بہت کم لوگوں کو احساس ہوگا کہ اس قسم کی آسمانی صراحت کتنے دور رس اندیشوں کو ہوا دے سکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس آیت کے ذریعے یہودیوں کے ہاتھ اسلام کے ابطال اور قرآن حکیم کو غیر منزل من اللہ ثابت کرنے کا ایک سنہرا موقع میسر آ گیا ہے۔ ان کو صرف اتنا کرنا ہوگا کہ وہ عالمی سطح پر اتفاق کر کے چند برسوں کے لیے مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کر لیں کیوں کہ اس کے بعد وہ ببانگ دہل اعلان کرسکتے ہیں کہ اب تمہارا مقدس قرآن حکیم تمہارے بہترین کرم فرماؤں کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ وہ یہود ہیں کہ عیسائی؟ دیکھو تمھارا قرآن ہمارے بارے میں کیا کہتا ہے جب کہ ہمارا عمل تمھارے ساتھ اس کے برعکس ہے، کیا اب بھی یہ قرآن تمھارے نزدیک کلام الٰہی ہے؟
جی ہاں ! قوم یہود کو قرآن حکیم کو غلط ثابت کرنے کے لیے صرف اتنا کرنے کی ضرورت ہے، لیکن مسئلے کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ وہ گزشتہ چودہ سو سال میں ایسا نہیں کرسکے ہیں اور یہ حیرت انگیز عرض (Offer) آج بھی لامتناہی مدت صلاحیت (Validity) کے ساتھ موجود ہے۔

قرآن کا موضوعی (Objective) جائزہ :
اوپر جتنی بھی مثالیں مذکور ہوئی ہیں، وہ دلائل کی معروضی (Subjective) قسم سے تعلق رکھتی ہیں، آئیے اب ہم موضوعی (Objective) انداز میں بھی قرآن حکیم کی حقیقت کا جائزہ لیں۔یہ جاننا حیرت سے خالی نہ ہوگا کہ قرآن کریم کی صداقت کو ریاضی (Mathematics) کے کسی فارمولے (Rule of Probability) سے بھی ثابت کیا جا سکتا ہے۔ میں پہلے اس کی وضاحت کے لیے ایک مثال دیتا ہوں : اگر ایک شخص کے پاس کسی سوال کے جواب میں دو آپشن ہیں اور وہ اپنے اندازے سے کسی ایک کو اختیار کرتا ہے تو ممکن ہے کہ وہ ہر دو بار میں ایک مرتبہ درست ہو، کیوں کہ اس کے پاس دو احتمالات میں ایک قطعی طور پر درست ہوگا۔ جیسے جیسے مسائل کی کثرت ہوتی جائے گی اندازے کی اصابت کا احتمال کم سے کم ہوتا جائے گا۔ اب ہم ا س مثال کو قرآن کریم پر آزماتے ہیں —
سب سے پہلے ہمیں ان تمام موضوعات کی تعداد شمار کرنا ہوگی جن پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن حکیم نے اپنی کسی رائے کا اظہار کیا ہے۔واضح رہے کہ ان موضوعات پر قرآن کریم میں مذکور بیانات کی صحت کا احتمال، ریاضی کے سابق الذکر اصول کی روشنی میں بے حد کم ہے۔ بل کہ قرآن حکیم میں مذکور موضوعات کی تعداد اس قدر زیادہ اور متنوع ہے کہ عملی طور پر اس قاعدے کی روشنی میں ان کی صحت کا احتمال صفر سے کم بچتا ہے۔ اب اگر قرآن حکیم کے سامنے لاکھوں احتمالات غلطی کے ہیں اور وہ مسلسل درست اندازہ دیے جا رہا ہے تو اس کا سیدھا نتیجہ یہی ممکن ہے کہ اس کتاب کے مؤلف نے اس کی تیاری میں ظن و تخمین کے بجائے قطعی حقائق سے استفادہ کیا ہے۔ میں مثالیں دوں گا، ان شاء اللہ ان کی روشنی میں ثابت ہو جائے گا کہ قرآن حکیم اپنے درست بیانات کے ذریعے کس طرح ممکنہ غلط احتمالات کی تردید کرتا آیا ہے۔
قرآن کریم نے سورج اور خلا میں اس کی حرکاتی کیفیت کے متعلق بھی تبصرہ کیا ہے۔ یہاں پھر ہمارے سامنے دو آپشن آ جاتے ہیں، اول: سورج ہوا میں پھینکے گئے پتھر کے مانند حرکت کرتا ہے، دوم: سورج کی حرکت اس کی اپنی ہوتی ہے۔ قرآن دوسرے احتمال کا ذکر کرتا ہے، قرآن حکیم کی رو سے سورج اپنی ذاتی حرکت کی رو سے چلتا ہے۔ قرآن کریم نے خلا میں سورج کی حرکت کو ’سبح‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے:
لَا الشَّمْسُ یَنبَغِیْ لَہَآ أَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ اللَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبِحُوْنَ۔ (یٰسین:۴۰)
’’نہ سورج کے بس میں یہ ہے کہ وہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن پر سبقت لے جا سکتی ہے۔ سب ایک ایک فلک میں تیر رہے ہیں ‘‘۔
عربی زبان میں سبح کے معنی تیرنے کے ہیں۔ لیکن اس میں باعتبارِ تضمن یہ شامل ہے کہ تیرنے والا اپنی کوشش و قوت استعمال کر کے تیر رہا ہو۔ کیوں کہ بے جان تنکے کی طرح پانی میں تیرتے رہنے کے لیے عربی زبان میں طفایطفواطفواً، کا فعل آتا ہے،جو کہ یہاں نہیں استعمال کیا گیا۔ قرآن کریم نے سورج کی خلائی حرکت کے لیے ’’سبح‘‘ کا لفظ استعمال کر کے آشکارا کیا ہے کہ فضا میں سورج کی حرکت بے ضبط و قید نہیں ہے۔ وہ کسی پھینکی ہوئی چیز سے مشابہ نہیں، بل کہ وہ اپنی حرکت اور اپنے سفر میں خود بھی گھوم رہا ہے۔
)عشرہ 1980ء کے اواخر میں سات ماہرین فلکیات پر مبنی ایک تحقیقی ٹیم نے طویل فلکیاتی مطالعات کے بعد ایک عجیب و غریب انکشاف کیا۔ ( اس ٹیم کی سربراہی ماؤنٹ ولسن رصد گاہ کے ایلن ڈریسلر، بک رصد گاہ کی سینڈرا فیہر، اور کیمبرج یونیورسٹی کے ڈونالنڈ لنڈن بیل کررہے تھے ) ان ماہرین نے دریافت کیا کہ ملکی وے کہکشاں اور اس کی پڑوسی ” اینڈرو میڈا ” کہکشاں، چالیس کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے مقامی گروہ ( لوکل گروپ ) کے مرکز کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ ( لوکل گروپ سے مراد لگ بھگ بیس کہکشاؤں پر مشتمل ایک چھوٹا سا کہکشانی جھرمٹ ہے ہماری کہکشاں یاملکی وے، اسی جھرمٹ میں شامل ہے ) دوسری دریافت انہوں نے یہ کی کہ لوکل گروپ اور سنبلہ () نامی کہکشاں جھرمٹ ( جیسے اس تناظر میں لوکل گروپ کا پڑوسی کہنا زیادہ صحیح ہوگا ) تقریبا 600 کلومیٹر فی سکینڈ کی فتار سے ” ہائیڈراسینڈراس ” (Hydra Centaurus) نامی ایک بہت بڑے کہکشانی جھرمٹ (سپر کلسٹر) کی طرف حرکت کررہے ہیں۔ جبکہ ہائیڈاسینٹارس خود بھی اسی سمت میں، اسی رفتار سے حرکت کررہا ہے کہ جس سمت میں وِرگو کہکشانی جھرمٹ جارہا ہے۔
اسے ہم یوں بھی بیان کرسکتے ہیں کہ لوکل گروپ، وِرگو اور ہائیڈراسینٹارس، تینوں کے تینوں ایک یکجا وجود (Single Entity) کی حیثیت سے 600 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے ایک سمت بڑھتے چلے جاررہے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اُس سمت میں کوئی نادیدہ شے ہے۔ جو انہیں کسی عظیم کشش گر () کی طرف انہیں اپنی طرف کھنچ رہی ہے۔ظاہر ہے کہ اس مجموعے میں ہماری ملکی وے کہکشاں بھی شامل ہے، اور ہمارا سورج اسی کہکشاں کا ایک ستارہ ہے۔ لہذا وہ بھی ساتھ ساتھ حرکت کرہا ہے۔ )

یہ تو قرآنی بیان ہے لیکن ذرا سوچیے کیا اس چیز کا جان لینا آسان بات ہے؟ کیا کوئی عام آدمی بتا سکتا ہے کہ سورج اپنی حرکت کے دوران میں خود بھی گردش کرتا ہے؟ صرف عصرِ حاضر میں اس بات کا امکان پیدا ہوسکا ہے کہ ہم بینائی کھو دینے کا خطرہ مول لیے بغیر سورج کا بہ غور مطالعہ کرسکیں اور اس کی تصویریں اتار سکیں۔ ان تصاویر کے ذریعے پہلی بار ہمارے علم میں یہ بات آسکی ہے کہ سورج کی ظاہری پرت پر تین دھبے (Spots) ہیں جو روزانہ پچیس بار گھومتے ہیں۔ دھبوں کی اس حرکت نے تاریخ میں پہلی بار قطعی طور سے ثابت کر دیا کہ سورج محور پر گھومتا رہتا ہے۔ اس طرح قرآن حکیم کے ایک اور کائناتی بیان کی تصدیق، جو اب سے چودہ صدیوں قبل دیا گیا تھا، ناقابل تردید بنیادوں پر ہو گئی۔
اگر ہم آج سے چودہ سو سال پہلے کی دنیا میں لوٹ جائیں تو ہم پائیں گے کہ اس وقت کے ترقی یافتہ متمدن معاشروں کو بھی مناطق زمنیہ یا بالفاظ دیگر ٹائم زون (Time Zone) کے متعلق کچھ خبر نہ تھی۔ لیکن قرآن کریم اس ضمن میں جو اظہار خیال کرتا ہے وہ انتہائی حد تک حیرت انگیز ہے۔ یہ تصور کہ ایک خاندان کے بعض افراد کسی ملک میں صبح کا ناشتہ تناول فرما رہے ہوں، دریں اثناء اسی خاندان کے بعض دوسرے افراد کسی دوسرے ملک میں ڈنر ٹیبل پر تشریف رکھتے ہوں، اپنے آپ میں بڑا تعجب خیز ہے اور آج بھی اس کو عجوبہ سمجھنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے کا انسان اپنے کمزور وسائل سفر کے باعث اس قابل نہیں ہوسکا تھا کہ عام حالات میں وہ ایک دن میں تیس میل سے زیادہ مسافت طے کرسکے۔ مثال کے طور پر صرف ہندستان سے مراکش کا سفر کئی مہینوں میں ہوتا تھا اور گمان غالب یہی ہے کہ مراکش میں موجود ہندستانی مسافر دوپہر کا کھانا تناول کرتے ہوئے یہی خیال کرتے ہوں گے کہ ہندستان میں ان کے اہل خانہ بھی اس وقت دوپہر کا کھانا کھا رہے ہیں۔
قرآن حکیم چوں کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے،جس کا علم مطلق ہے اور جس سے کائنات کی کوئی حقیقت پوشیدہ نہیں، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم جب قیامت کی بات کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ قیامت کا معاملہ پلک جھپکتے واقع ہوگا :
وَمَآاۂ مْرُالسَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِأَوْھُوَ أَقْرَبُ۔ (النحل: ۷۷)’’اور قیامت کے برپا ہونے کا معاملہ کچھ دیر نہ لے گا مگر بس اتنی کہ جس میں آدمی کی پلک جھپک جائے، بل کہ اس سے بھی کچھ کم‘‘۔
تو وہ کہتا ہے کہ یہ قیامت بعض لوگوں کو دن میں آلے گی اور بعضوں کو رات میں آ دبوچے گی:
أَفَاۂ مِنَ أَھْلُ الْقُرَیٰ أَنْ یَأتِیْہُمْ بَأْسُنَا بَیَاتاً وَّہُمْ نَآئِمُوْنَ۔ أَوْأَمِنَ أَھْلُ الْقُرَیٰ أَنْ یّأْتِیَہُمْ بِأْسُنَا ضُحیً وَّہُمْ یَلْعَبُوْنَ۔أَفَأَمِنُوْا مَکْرَاللّٰہِ فَلاَ یَأْمَنُ مَکْرُاللّٰہِ اِلّا الْقَوْمُ الْخَاسِرُوْنَ۔ (الاعراف: ۹۷۔۹۹)
’’کیا بستیوں کے لوگ اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک ان پر رات کے وقت نہ آ جائے جب وہ سوتے پڑے ہوں ؟یا انھیں اطمینان ہو گیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک ان پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں ؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں ؟ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے جو تباہ ہونے والی ہو‘‘۔
ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ وقت کے مختلف مناطق کا علم کائنات کے خالق کے کلام میں موجود ہے، جب کہ یہ معلومات چودہ صدیوں پہلے کسی کے حیطۂ خیال میں نہیں تھیں۔ ٹائم زون کی آفاقی سچائی، قدیم انسان کی نظروں سے اوجھل اوراس کے تجربات کے دائرے سے خارج تھی اور تنہا یہ حقیقت قرآن کو منزل من اللہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔
گزشتہ مثالوں کی روشنی میں اگر آپ متبادل احتمالات کا فارمولا استعمال کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ہر مثال کے ذریعے قرآن کی صداقت کچھ اور واضح ہو گئی ہے۔ اور بھی ایسی سیکڑوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ان کے ساتھ صحیح احتمالات کی فہرست بھی طویل ہوتی جائے گی۔ ہم ان تمام قرآنی موضوعات سے سردست نہ تعرض کرتے ہوئے صرف یہ عرض کریں گے کہ یہ احتمال کہ محمد ﷺ جو ایک ناخواندہ انسان تھے، انھوں نے بے شمار موضوعات پر بالکل درست اندازے لگائے اور اپنے کسی بھی اندازے میں ان سے غلطی کا ارتکاب نہ ہوا، بذات خود اس احتمال کی صحت کاتناسب اس درجے کم ہے کہ عقل سلیم کا حامل کوئی اسلام کا بدترین دشمن بھی اس کو نہ مانے گا۔ لیکن قرآن حکیم اس احتمال کے چیلنج کو بھی بڑے معقول انداز میں ختم کر دیتا ہے۔
یہاں میں ایک مثال پر اپنی بات ختم کروں گا، اگر کوئی اجنبی شخص آپ کے علم کی حد تک پہلی بار آپ کے ملک میں داخل ہوتا ہے اور آپ سے کہتا ہے: میں تمہارے والد کو جانتا ہوں، میں پہلے ان سے مل چکا ہوں تو یقیناً آپ اس نووارد کے بیان پر شک کریں گے اور آپ کا سوال ہوگا: تم یہاں ابھی پہلی بار آئے ہو، تمھیں میرے والد سے تعارف کیسے ہو گیا؟ آپ اس سے متعلق چند باتیں بھی دریافت کریں گے مثلاً میرے والد کا قد کیسا ہے؟یا وہ کس رنگ کے ہیں ؟ اگر اس نووارد نے ان تمام سوالات کے صحیح جوابات دے دیے تو آپ مطمئن ہو جائیں گے آپ کہیں گے: مجھے یقین ہے کہ تم میرے والد کو جانتے ہو وغیرہ البتہ مجھے نہیں معلوم کہ تم نے انہیں کیسے جانا؟ قرآن حکیم کا اپنے مخاطبوں کے ساتھ بھی کچھ یہی معاملہ ہے، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ خالقِ ارض وسماء کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ سارے انسانوں کا حق ہے کہ وہ اپنے طور پر سوالات اور مباحثوں کے ذریعے اس کی صداقت کے با رے میں اپنا اطمینان کر لیں، اگر یہ خالق کونین کا کلام ہے تب یہ فلاں فلاں چیز کے بارے میں سب کچھ جانتا ہوگا… وغیرہ۔ اس ضمن میں یقینی بات یہ ہے کہ جو بھی خود سے قرآن میں بحث و تحقیق کرے گا وہ خود ہی حقیقت کا ادراک کر لے گا۔ ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن حکیم ایک ایسا خزانہ ہے جو رہتی دنیا تک کو اپنے بیش بہا لعل و جواہر سے نوازتا رہے گا اور جو انسان جتنا اس کی گہرائی میں غواصی کرے گا اتنے ہی قیمتی موتی اس کی جھولی میں آتے جائیں گے۔ چنانچہ ہر صاحب عقل انسان پر لازم ہے کہ زندگی کے ہر مرحلے میں وہ اس کتابِ ہدایت سے مستنیر ہوتا رہے۔
ٹورنٹو یونیورسٹی کے ایک فاضل انجینئر (Engineer) کو علم نفسیات میں گہری دلچسپی تھی اور اس سلسلے میں انھوں نے کافی کچھ مطالعہ بھی کیا تھا۔ انجینئر موصوف نے مصاحبین کی ایک جماعت کے ساتھ مل کر ’اجتماعی مباحثوں کی قوتِ تاثیر (Efficiency of Group Discussions) کے موضوع پر ریسرچ کیا ہے۔ اس ریسرچ کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ مجموعے کی وہ کیا تعداد ہوتی ہے جو بحث و مناقش میں زیادہ سودمند ثابت ہوسکتی ہے۔ اس ریسرچ کے جو نتائج سامنے آئے ہیں وہ کافی چونکا دینے والے ہیں۔ اس ریسرچ کی روسے کسی بھی قسم کے مباحثے یا مناقشے کے لیے موزوں ترین تعداد دو افراد کی ہوتی ہے۔ کسی کو بھی اس ریسرچ سے ایسے نتیجے کی توقع نہیں تھی، لیکن اسی نصیحت کو قرآن کریم نے بہت پہلے دنیا کے سامنے پیش کر دیا تھا:
قُلْ اِنَّمَا أَعْظُکُمْ بِوَاحِدَۃِِ أَنْ تَقُوُمُوْا لِلّٰہِ مَثْنَی وَفُرَادَی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا مَا بِصَاحِبِکُمْ مِنْ جِنَّۃِِ اِنْ ھُوَ اِلّاَ نَذِیْرٌ لَّکُمْ بَیْنَ یَدَی عَذَابِِ شَدِیْدِِِ۔ (سبأ: ۴۶)
’’اے نبیﷺ ! ان سے کہو کہ میں تم کو بس ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں۔ خدا کے لیے تم اکیلے اکیلے اور دو دو مل کر اپنا دماغ لڑاؤ اور سوچو، تمہارے صاحب میں آخر ایسی کون سی بات ہے جو جنون کی ہے؟ وہ تو ایک سخت عذاب کی آمد سے پہلے تم کو متنبہ کرنے والا ہے‘‘۔
اس کے علاوہ قرآن حکیم کی سورۃ الفجر میں ایک شہر کا نام ’ارم‘ (Iram) آیا ہے:
أَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادِِ۔ اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ۔ الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلَہَا فِی الْبِلَادِ۔ (الفجر: ۶۔۸)
’’تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے رب نے کیا برتاؤ کیا اونچے ستونوں والے عادِ ارم کے ساتھ، جن کے مانند کوئی قوم دنیا کے ملکوں میں پیدا نہیں کی گئی تھی‘‘۔
قدیم تاریخ میں یہ شہر غیر معروف تھا، بل کہ مؤرخین کے حلقوں میں بھی اس کا کوئی تذکرہ نہیں پایا جاتا تھا۔ نیشنل جیوگرافک (National Geographic)میگزین نے ۱۹۷۸ء کے ماہ دسمبر کے اپنے شمارے میں اس شہر کے متعلق کچھ حیرت ناک انکشافات کیے ہیں۔ اس میگزین کے مطابق ۱۹۷۳؁ء میں ملک سوریا (شام) میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے ذریعے ’البا‘ (Elba) نامی شہر کا انکشاف ہوا ہے۔ معلوم پڑتا ہے کہ اس شہر کی عمر تقریباً چار ہزار تین سو سال ہے، لیکن اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کھدائی کرنے والوں نے اس شہر میں ایک مقام سے جو غالباً سرکاری استعمال میں تھا، ایک قدیم زبان میں لکھا رجسٹر بھی برآمد کیا ہے۔ اس رجسٹر میں ان تمام شہروں کے نام درج ہیں جن کے ساتھ اہلِ ’البا‘ کے تجارتی تعلقات قائم تھے۔ اب آپ کو یقین آئے یا نہ آئے اس رجسٹر میں ’ارم‘ نامی ایک شہر کا نام بھی درج ہے۔البا شہر کے باشندے کے ’’ارم ‘‘ نامی شہر کے ساتھ تجارتی روابط رکھتے تھے۔
آخر میں محترم قارئین سے التماس ہے کہ براہ کرم اس آیت کریمہ پر ضرور غور فرمائیں :
وَقَالُوا لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَیْہِ آیَاتٌ مِّنْ رَّبِّہ قُلْ اِنَّمَا اْلآیَاتُ عِنْدَاللّٰہِ وَاِنَّمَا أَنَا نَذِیْرٌمُّبِیْنٌ۔ أَوْلَمْ یَکْفِیْہِمْ أَنَا أَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتَابَ یُتْلٰی عَلَیْہِمْ اِنِّیْ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً وَّذِکْرٰی لِقَوْمِِ یُّؤمِنُوْنَ۔ (العنکبوت: ۵۱)
’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ کیوں نہ اتاری گئیں اس شخص پر نشانیاں اس کے رب کی طرف سے، کہو نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں، اور میں صرف خبردار کرنے والا ہوں کھول کھول کر۔ اور کیا ان لوگوں کے لیے یہ (نشانی) کافی نہیں ہے کہ ہم نے تم پر کتاب نازل کی جو انہیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے؟درحقیقت اس میں رحمت ہے اور نصیحت ان لوگوں کے لئے جو ایمان لاتے ہیں ‘‘۔

حیرت انگیز قرآن تحریر: پروفیسرگیری ملر،اساک یونی ورسٹی، ترکی، ترجمہ: ذکی الرحمن غازی ندوی

 


عصر حاضر کی سائنسی تحقیق اور متعلقہ اسلامی احکام

                پچھلی دو تین صدیوں سے سائنسی ایجادات (scientific inventions) نے ہماری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہ سائنسی ایجادات ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہیں، چاہے وہ ہماری روزمرہ کے استعمال کی اشیا ہوں یا جنگی سازو سامان، چاہے وہ طب (medical science) ہو یا مواصلاتی نظام (telecommunication systems) ۔ غرض زمین کی گہرائیوں سے لے کر آسمان کی بلندیوں تک، سمندروں میں پانی سے لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں تک، سائنسی ایجادات نے زندگی کے طول و عرض کو گھیر رکھا ہے۔ ہر سائنسی ایجاد کے پیچھے سائنسدانوں کی ایک ٹیم (team) کی انتھک محنت شامل ہوتی ہے اور وہ دن رات سائنسی تحقیق کر کے کسی ایجاد کو پایہٴ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔

                عمومی طور پر سائنسی ایجادات اور تحقیق کرنے کے لیے ڈاکٹریٹ (Doctor of Philosophy PhD) ایک باضابطہ ڈگری سمجھی جاتی ہے [1] ۔ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایک انسان کے اندر سائنسی تحقیق اور ایجاد کرنے کی باقائدہ صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔ آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری (PhD) سائنسی تحقیق کرنے کے لیے ایک باضابطہ لائسنس (license) ہے ۔ ایک طالب علم کو تقریبا تین سے چار سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے، ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے اور اس دورن وہ کسی مضمون پر تحقیق کرتا ہے اور کوئی ایجاد کرتا ہے؛ چونکہ طالب علم کا یہ پہلا یا دوسرا تجربہ ہوتا ہے، لہٰذا وہ کوئی بڑی ایجاد نہیں کرپاتا؛ البتہ اپنے پی ایچ ڈی سپروائزر (PhD supervisor) کی سربراہی میں پہلے سے موجودہ ایجادات کے اندر تھوڑا سا تنوع پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب پی ایچ، ڈی کا طالبِ علم تین چار سال تک اس سارے عمل سے دو تین مرتبہ گزر جاتا ہے تو اس کو تھوڑی بہت سائنسی تحقیق اور ایجاد کرنے سے مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک پی ایچ ڈی کے طالبِ علم کو اپنی تحقیق اور ایجاد کو عالمی سطح پر منوانے کے لیے تحقیقی مقالے (research papers) لکھنے پڑتے ہیں [2] ۔ ان ہی تحقیقی مقالوں کی بنیاد پر سائنسدانوں اور پروفیسرز کی ایک کمیٹی اس کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازتی ہے۔

                اس مضمون کے اندر ہم سائنسی تحقیقات، ایجادات اور متعلقہ امور پر تفصیل سے معلومات فراہم کریں گے اور ہماری یہ کوشش ہوگی کہ انشااللہ اگر کوئی مسلمان سائنسدان اس مضمون کو پڑھ کر سائنسی تحقیقات اور ایجادات، اسلامی احکامات کی روشنی میں شروع کردے تو انشااللہ اس کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں گی۔جیسا کہ ہم سب لوگوں کو اس بات کا یقین ہے کہ اللہ رب العزت نے ہماری کامیابی اپنے پورے کے پورے دین پر چلنے میں رکھی ہے۔چونکہ ہمارا دین، دینِ فطرت ہے، لہٰذا اس میں ہر ہر شعبے سے متعلق احکامات بھی موجود ہیں۔ اب چونکہ ہم اس مضمون میں سائنسی تحقیق اور اس سے متعلقہ امور پر بات کر رہے ہیں تو ہمیں اس شعبے سے متعلق اللہ تعالی کے احکامات اور حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے ارشادات کو سامنے رکھنا ہو گا۔ ان احکامات کو جاننے کے لیے ہم نے حضرت مولانا مفتی محمد نعیم میمن صاحب دامت برکاتہم خلیفہ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید سے اس شعبے سے متعلق مسائل پوچھ کر اس مضمون میں شامل کیے ہیں۔ اگر سائنسدان اور پروفیسرحضرات سائنسی تحقیق کے شعبے میں ان احکامات کو سامنے رکھ کر تحقیق کریں گے تو انشااللہ، اللہ رب العزت دونوں جہانوں میں کامیاب کریں گے۔

                اب سب سے پہلے ہم سائنسی تحقیقی مقالہ (research paper) اور اس کی متعلقہ اقسام بیان کرتے ہیں؛ تاکہ قارئین کو سائنسی اصطلاحات سمجھنے میں آسانی ہو۔ سائنٹفک کمیونٹی کے اندرعمومی طور سے سب سے زیادہ اہمیت (weightage) حقِ سندِ ایجاد کو دی جاتی ہے، پھر جرنل کے مقالہ کو اور پھر کانفرنس کے تحقیقی مقالہ کو۔ ہم مثال کے طور پر یہ بات قارئین کو بتاتے چلیں کہ اگر کوئی سائنسدان کسی یونیورسٹی میں یا کسی سائنسی تحقیقاتی ادارے میں روزگار کے حصول کے لیے درخواست بھیجتا ہے تو اس کے لکھے ہوئے تحقیقی مقالہ جات کو دیکھا جاتا ہے کہ اس سائنسدان نے کتنے حقِ سندِ ایجاد رجسٹرڈ کروائے ہیں، کتنے اس نے جرنل کے تحقیقی مقالے لکھے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے علاوہ حکومتی اداروں اور بین الاقوامی فنڈنگ اداروں سے پیسوں کے حصول کے لیے بھی یہ تحقیقی مقالے ہی معیار ہوتے ہیں۔ نیز محکماتی ترقی کے لیے بھی یہ تحقیقاتی مقالے دیکھے جاتے ہیں۔

ٹیبل نمبر: سائنسی تحقیقی مقالہ اور اس کی متعلقہ اقسام

سائنسی تحقیقی مقالہ انگریزی نام
حقِ سندِ ایجاد Patent
کتاب کا باب Book Chapter
جرنل مقالہ Journal Research Paper
میگزین مقالہ Magazine Research Paper
کانفرنس مقالہ Conference Research Paper
پوسٹر Poster Abstract
ٹیکنیکل رپورٹ Technical Report
                اب چونکہ کسی سائنسدان کی ترقی کا دارومدار کسی حد تک اس کے چھپے ہوئے تحقیقی مقالوں کی بنیاد پر ہوتا ہے، لہٰذا ہر سائنسدان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اچھی سے اچھی جگہ اور زیادہ سے زیادہ اس کے تحقیقی مقالہ جات چھپیں۔اس کی وجہ سے سائنسدانوں کے اندر ایک مقابلہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو کہ اچھی سے اچھی ایجاد کا پیش خیمہ بنتی ہے؛ مگر اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے وہ یہ کہ بعض سائنسدان حضرات جن کو سائنسی تحقیق سے متعلق احکامات کا پتہ نہیں ہو تا، وہ اپنے قیاس پر ہی عمل کرتے ہیں اور یہ کوشش کرتے ہیں کے جائز ناجائز ہر طریقے سے ان کے تحقیقی مقالہ جات چھپ جائیں اور اس کے لیے وہ مختلف تاویلات کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ذیل میں ہم نے سائنسی تحقیق سے ایجاد تک کے مرحلے کو عمومی طور پر ایک تصویر کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے (دیکھیے تصویر نمبر۱)۔ تصویر نمبر(۱) دیکھنے کے بعد یہ بات عیاں ہے کہ آئیڈیا سے لے کر ایجاد کے منظرِ عام ہونے تک ، ہر مرحلے پر دھوکہ دہی ہوسکتی ہے۔ اس دھوکہ دہی اور فریب سے بچنے کے لیے سائنسدانوں نے تحقیقی مقالوں کو جانچنے کا عمل وضع کیا ہے جو کو سائنسی اصطلاح میں تحقیقی مقالہ کا جانچنا (Peer Review) کہتے ہیں۔ کسی سائنسی تحقیقی مقالہ کے جانچنے کے طریقہٴ کار کو ہم نے عمومی طور پر ایک تصویر کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے (دیکھیے تصویر نمبر۲)۔

تصویر نمبر 1: سائنسی تحقیقی اور ایجاد كا منظر عام پر آنا

ایجاد كا منظر عام پر آنا ¬ تحقیقی مقالہ كا چھپنا ¬ تحقیقی مقالہ لكھنا ¬ آئیڈیا اور اس كا جواز دینا
اب ہم حق تصنیف‏‏، حق ایجاد اور اس سے متعلقہ شرعی امور كا ذكر كرتے ہیں۔

تصویر نمبر (2):تحقیقی مقالہ كے جانچنے كا طریقہ كار [3]

3 تنقید نگاروں كی طرف سے تنقید كو مرتب كرنا ¬ تحقیقی مقالہ كم از كم 3 تنقید نگاروں كو بھیجنا ¬ ایڈیٹر كا تحقیقی مقالہ كو جانچنا ¬ مصنف كا تحقیقی مقالہ جرنل میں جمع كرنا
¯                                               

ایڈیٹر انچیف كو رائے دینا ® تحقیقی مقالہ كو منظور كرنا ® تحقیقی مقالہ كا چھپنا
                                       9 

تحقیقی مقالہ كو نامنظور كرنا
حقِ تصنیف اور حقِ ایجاد کی شرعی حیثیت

                وکی پیڈیا (wikipedia) میں سندِ حقِ ایجاد (patents) کی تعریف لکھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک طرح کے حقوق ہیں جو کہ ایک ملک ایک سائنسدان اور محقق کو ایک محدود وقت کے لیے دیتا ہے؛ تاکہ عوام کو اس کی ایجاد سے آگاہ کیا جائے[4] ۔ یہ ایک طرح کی فکری ملکیت (intellectual property) ہے۔ سندِ حقِ ایجاد (patents) دینے کے طریقہٴ کار اور قوانین ملک در ملک الگ الگ ہوتے ہیں۔ سندِ حقِ ایجاد (patents) میں اصل میں کسی دوسرے شخص کو بغیر اس کی اجازت کے وہ ایجاد بنانے، اس کا استعمال کرنے، اور اس کو بیچنے وغیرہ کے حق سے روکا جاتا ہے۔

                یہ بات بہت اہم ہے کہ جب سائنسدان کوئی ایجاد کرتا ہے تو وہ اپنی اس ایجاد کو تحقیقی مقالے (research paper) کے ذریعے منواسکتا ہے؛ البتہ سندِ حقِ ایجاد کے اندر بہت زیادہ تکنیکی تفصیلات ہوتی ہیں اور اس ایجاد کو بنانے کی تفصیلات بہت گہرائی میں ہوتی ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے اندر زیادہ تر یہ سندِ حقِ ایجاد رجسٹرڈ کروائے جاتے ہیں۔ مثلا ایک کمپنی نے ایک سائنسدان سے ایک دوائی کی سندِ حقِ ایجاد خرید رکھا ہے تو صرف وہی کمپنی اس دوائی کو بنا سکتی ہے اور اس سے منافع حاصل کر سکتی ہے اور ا س کا کچھ حصہ سائنسدان کو بھی دے گی۔ اب ذیل میں ہم حقِ تصنیف اور سندِ حقِ ایجاد سے متعلق سوال و جواب پیش کرتے ہیں۔

                سوال :- مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی نے اپنی تصنیف جواھرالفقہ، جلد دوم، باب حقِ تصنیف اور حقِ ایجاد کی شرعی حیثیت کے اندر حقِ سندِ ایجاد کا ذکر کیا ہے [5]۔ اس میں حضرت مفتی صاحب نے لکھا ہے کہ اپنی کسی تصنیف اور ایجاد کو رجسٹرڈ کرواکر دوسروں کو اس کی اشاعت یا صنعت سے روکنا جائز نہیں! ۔ تو کیا سندِ حقِ ایجاد حاصل کرنا بھی شرعی طور پر جائز ہے؟

                جواب :- حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ عالی صاحب نے اس کی اجازت دی ہے کہ حقِ تصنیف بیچنا جائز ہے اور اس کی تفصیل فقہی مقالات، جلد اول حقوق مجردہ کی خرید و فروخت میں موجود ہے [6]۔

                سوال :- جو سائنسدان تحقیقی مقالے چھاپتے ہیں وہ مختلف پبلیشرز (publishers) کے ذریعے منظرِ عام پر آتے ہیں ۔ ٹیلی مواصلات (telecommunications) اور کمپیوٹر نیٹ ورکس (computer networks) سے متعلق جو مشہور پبلیشرز ہیں وہ (IEEE, Elsevier, Springer, Wiley, Inderscience, ACM etc) وغیرو ہیں۔ ہر سائنسدان پبلیشر کو کاپی رائٹ (copy right) دیتا ہے اور پھر وہ پبلیشر اس تحقیقی مقالے کو پیسوں کے عوض بیچتے ہیں۔ لہٰذا کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ نیز کیا تحقیقی مقالے بھی مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کے اس حکم کے ذیل میں آتے ہیں جو کہ انھوں نے جواھر الفقہ میں لکھا ہے یعنی اپنی کسی تصنیف اور ایجاد کو رجسٹرڈ کرواکر دوسروں کو اس کی اشاعت یا صنعت سے روکنا جائز نہیں؟

                جواب :-اب جائز ہے، جیسا کہ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی صاحب کی تحقیق ہے [6]۔

                تحقیقی مقالوں سے متعلق شرعی احکام (Islamic Commandments related to Research Papers)

                حکومتِ پاکستان کے ذیلی ادارے اعلیٰ تعلیمی کمیشن (Higher Education Commission) نے معیار بنا رکھا ہے کہ اسسٹنٹ پروفیسر (Assistant Professor) کو ایسوسی ایٹ پروفیسر (Associate Professor) کے عہدے پر ترقی حاصل کرنے کے لیے ایک مخصوص تعداد میں تحقیقی مقالے شائع کرنے ہوں گے۔نیز عالمی سطح پر بھی اس سائنسدان اور محقق کو کافی پذیرائی ملتی ہے جو کہ زیادہ سے زیادہ تحقیقی مقالے لکھتا ہے اور اسی سائنسدان کو ریسرچ فنڈز (research funding) اور پی ایچ ڈی (PhD) کے طلبا ملتے ہیں جو کہ زیادہ سے زیادہ تحقیقی مقالے لکھتا ہے۔ لہذا ہر محقق اور سائنسدان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اعلی معیار کے تحقیقی مقالے لکھے؛ البتہ کچھ لوگ ان میں ایسے بھی شامل ہوتے ہیں جو کہ پروفیشنل (professional) طور پر تحقیق و ٹیکنالوجی (research and technology) میں اتنے مضبوط نہیں ہوتے، لہٰذا وہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے تحقیقی مقالہ شائع ہو جائے۔ اس کے لیے وہ پیسے دے کر بھی تحقیقی مقالے شائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، نیز وہ تحقیقی مقالے چھاپنے میں اپنے اثر و رسوخ کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ ان سب کوششوں کا بنیادی مقصد الگے گریڈ میں ترقی اور پذیرائی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اب اس تمہید کے بعد تحقیقی مقالوں سے متعلق سوال و جواب پیش کرتے ہیں۔

                سوال :- بعض مرتبہ دوستی یاری کے اندر یا دوسرے پر احسان کرنے کے لیے، کیا ایک شخص کا اپنے تحقیقی مقالے (research paper) میں نام ڈالنا درست ہے؟

                جواب :- جائز نہیں ہے۔

                سوال :- بعض پروفیسرز حضرات اور سائنسداں، تحقیقی مقالوں کے اندر ایک دوسرے کے نام ڈالتے ہیں؛ جبکہ اس سائنسداں یا پروفیسر نے اس تحقیقی مقالے کے اندر کوئی کام نہیں کیا ہوتا۔ کیا یہ شرعی طور پر جائز ہے؟

                جواب :- اگر اس ساتھی نے کام نہیں کیا تو اس کا نام ڈالنا خیانت ہو گا اور ایک قسم کا دھوکہ اور جھوٹ کا گناہ بھی لازم ہو گا۔

                سوال :- پیسے دے کر معیاری جرنلز (journals) کے اندر تحقیقی مقالہ چھپوانا جائز ہے یا نہیں؟

                جواب :- پیسے دے کر تحقیقی مقالہ شائع کرنا جائز نہیں اور یہ رقم رشوت شمار ہو گی۔

                سوال :- کیا غیر معیاری جرنلز میں چھاپنا جائز ہے؟

                جواب :- گنجائش ہے۔

                سوال :- کیا پیسے والے جرنلز میں چھاپنا جائز ہے؟

                جواب :- بغیر پیسوں کے چھپوایا جائے۔

                سوال :- کیا ہم کسی ساتھی کی مدد کرنے کی نیت سے اس کا نام تحقیقی مقالے میں ڈال سکتے ہیں؟

                جواب :- قانوناً گنجائش ہو تو ڈال سکتے ہیں یا پھر مقالہ میں اس سے کچھ کام لیا جائے؛ تاکہ جھوٹ لازم نہ آئے۔

                سوال :- کیا ہم کسی ادارے کی بااثر شخصیت کا نام، مثلا ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ (Head of Department) ، ڈین آف انجینئر نگ (Dean of Engineering) وغیرہ کا نام تعلقات بڑھانے کی خاطر تحقیقی مقالے میں ڈال سکتے ہیں؟

                جواب :- اگر قانوناً اجازت ہو تو ڈال سکتے ہیں، دھوکہ اور جھوٹ نہ ہو۔

                سوال :- کیا بیرون ملک کے کسی پروفیسر یا سائنسدان کا نام فنڈز حاصل کرنے کے لیے تحقیقی مقالے میں ڈال سکتے ہیں؟

                جواب :- اوپر کی شرط کے ساتھ۔

                سوال :- کیا ہم ایک وقت میں ایک تحقیقی مقالہ دو یا دو سے زیادہ جرنلز میں جمع کرواسکتے ہیں؛ جبکہ پبلشرز اس کی اجازت نہیں دیتے؟

                جواب :- ان کے علم میں لاکر ایسا کرلیں۔

                سوال :- کیا ایسا کرنا جائز ہے کہ چند سائنسداں مل جائیں اور ایک دوسرے کا نام تحقیقی مقالے میں ڈال دیا کریں؟

                جواب :- گنجائش ہے، اگر سب نے مل کر کام کیا ہے۔

                ان تمام تفصیلات کے بتانے کے بعد ہم دعاگو ہیں کہ اللہ رب العزت ہمیں پورے کے پورے دین پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

***

حواشی و حوالہ جات

http://en.wikipedia.org/wiki/Doctor_of_Philosophy [1]

http://en.wikipedia.org/wiki/Academic_paper#Scholarly_paper [2]

Peer review: The nuts and bolts, July 2012 [3]

http://www.senseaboutscience.org/resources.php/99/peer-review-the-nuts-and-bolts

http://en.wikipedia.org/wiki/Patent [4]

[5] مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی ، جواھر الفقہ، جلد دوم، باب حقِ تصنیف اور حقِ ایجاد کی شرعی حیثیت ۔

[6] حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہ عالی ،فقہی مقالات، جلد اول حقوق مجردہ کی خرید و فروخت ۔

——————————————-










جدید میڈیکل سائنس کی بنیاد رکھنے والے مسلم معالجین

انگریزی تحریر: ڈیوڈ بلیو شمانز


فلسفی اور طبیب 
ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن رشد 1126ء کو قرطبہ میں پیدا ہوا۔ ابن رشد مغربی خلافت کے لیے ابن سینا سے (جو مشرقی خلافت کے لیے معزز سمجھا جاتا تھا) زیادہ قابلِ احترام تھا۔یورپ میں Averros کے نام سے معروف ہے اور زیادہ تر فلسفہ پر تحقیق کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔ ابن رشد کا طب پر اصولی کام ایک چھوٹی سی جلد میں ہے جس کا نام”کتاب الکلیات فی الطب“ ہے، یعنی طب کے عمومی اصول۔ یہ کتاب ایک اہم طبی تلخیص ثابت ہوئی۔ اس کتاب کی ابتدا میں اس نے مختصر لیکن جامع طور پر انسانی جسم کی تشریح کا جائزہ لیا ہے، پھربدن کے مختلف حصوں اور اعضا کے افعال، انسانی جسم کے مختلف نظاموں کی بیماریوں، غذاوٴں، ادویات، زہروں،طبی غسل اور صحت کو برقرار رکھنے میں ورزش کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب میں سرجری کا حصہ مختصر طور پر پٹی باندھنے، طبی داغ لگانے ، خون بند کرنے والی ادویات اور پھوڑوں کے علاج پر مشتمل ہے۔ خاص طور پر سب سے زیادہ یاد گاری کام اس کا چیچک کا دقیق مطالعہ ہے۔ ابن رشد لکھتا ہے کہ چیچک زندگی میں صرف ایک دفعہ حملہ کرتا ہے۔ اب تک یہ قوت مناعت حاصل کرنے کا پہلا معلوم حوالہ ہے۔

جلاوطن طبیب
موسیٰ بن میمون (لاطینی میں Maimonides کہا جاتا ہے) نشاة ثانیہ کے دور سے اگر چہ پہلے پیدا ہوا تھا ،لیکن وہ اسی دور(نشاة ثانیہ) کا آدمی تھا۔ ابن رشد سے صرف بارہ سال بعد وہ بھی قرطبہ میں پیدا ہوا۔ ایک ایسے خاندان میں جس نے آٹھ نسلوں تک دانش ور ہی پیدا کیے۔ مسلم دنیا میں رہنے والا ،یہودی مذہب کا پیروکار، اپنے زمانے کا بے حد ذہین اور فطین شخص تھا جس کی علمی کام یابیاں قانون، فلسفہ اور طب کے شعبوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ بالکل ابتدائی دور میں اس نے سائنس اور فلسفہ میں دلچسپی ظاہر کی۔مسلمان دانشوروں کے علمی کام کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ اس نے یونانی فلاسفہ کے کام کا بھی مطالعہ کیا ،جو عربی تراجم کے ذریعے اس زمانے میں قابلِ رسائی تھے۔ یہودی قانون پر اس کا اہم علمی کام عربی زبان میں ہے ،جس کے لیے اس نے عبرانی رسم الخط استعمال کیا اور ایک مذہبی دانش ور کی حیثیت سے اس نے مذہب اور طب کے اختلاط کی مخالفت کی ہے۔ قرونِ وسطیٰ کا وہ واحد دانش ور شخص تھا جس میں حقیقتاً چار تہذیبوں کا ملاپ نظر آتا ہے، یعنی یونانی رومی تہذیب، عرب تہذیب، یہودی تہذیب اور یورپی تہذیب۔

جب وہ دس سال کا تھا تو موحدین نے قرطبہ کو فتح کرلیا۔ انہوں نے شہر کے یہودی اور عیسائیوں کے سامنے تین مطالبات رکھے، مسلمان ہوجاوٴ، جلاوطنی اختیار کرو یا مرنے کے لیے تیار ہوجاوٴ۔ موسیٰ بن میمون کے خاندان نے جلاوطنی اختیار کی، بالآخر انہوں نے قاہرہ کے نزدیک سکونت اختیار کی۔جب خاندان کے حادثات نے انہیں تنگ دستی کی وادی میں دھکیلا تو اس نے طب کا پیشہ اختیار کیا۔

موسیٰ بن میمون نے عربی زبان میں دس معروف طبی کتابیں لکھی ہیں۔ اس نے بہت سی دوسری چیزوں کے ساتھ امراض کی کیفیتیں بشمول دمہ ، ذیابیطس ، ہیپاٹائٹس ، اور نمونیا بیان کی ہیں۔ اس نے اعتدال اور صحت مندانہ طرزِ زندگی پر زور دیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ایک طبیب کو کئی طریقوں سے ذی علم ہونا چاہیے۔ مرض اور مریض دونوں کا علاج کرنا چاہیے۔طبیب صرف مرض کا علاج نہ کرے، بلکہ جسم اور روح دونوں کی تن درستی کی کوشش کرے اور اپنے آپ کو انسانی اور روحانی اقدار سے مزین کرے، جس میں سب سے نمایاں رحم دلی اور ترس ہے۔

اس کے تمام طبی علمی کام میں اکثر اس طرح کی للکار دکھائی دیتی ہے، جسے وہ جالینوس کی ”قیاسی اْپج“ قرار دیتا ہے، جب کوئی چیز اس کے تجربات کے خلاف ہو۔ اس کی تحریروں میں یہ خیال بھی ہے کہ طب میں ذاتی مشاہدہ و تجربہ کتابوں میں تحریری سند سے زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ مذکورہ خیال کے باوجود اس کے شوق نے اْسے رومی(عیسائی) اطبا کے وسیع ادبی کام کی تلخیص پر آمادہ کیا، جو اس نے ایک چھوٹی سی کتاب میں کر دکھایا، جسے ایک طبیب جیب میں رکھ کر لے جا سکتا ہے۔ اگر چہ وہ تالمود(یہودیوں کی مذہبی کتاب) کا عالم تھا،جب امراض کی شناخت کا مرحلہ پیش آتا تو موسیٰ بن میمون کو ہم آج کل کی اصطلاح میں خالص ”طبیعی سائنس دان“ یعنی مشاہدہ پر سختی سے یقین رکھنے والا معالج کہہ سکتے ہیں۔ اس نے کوشش کی ہے کہ مذہب اور طب کو واضح طور پر الگ الگ کرے۔ اس وقت جب کہ جادو، توہم پرستی اور علمِ نجوم جیسی چیزیں طب کے شعبے میں دور دور تک رواج پاچکی تھیں، اس کی تحریروں میں ان چیزوں یا تالمود میں مندرج ادویات کا ذکر نہیں ملتا، البتہ جوچیز درست اور فائدہ مند ہے اسے موسیٰ بن میمون نے استدلال کے ساتھ پیش کیا۔

موسیٰ بن میمون فرد کو ہدایت کرتا ہے کہ وہ اپنی صحت کا خیال اس طریقے پر رکھے کہ بری عادتوں سے اجتناب کرے اور جب بیمار ہو تو بلا توقف علاج معالجہ کی تلاش میں توجہ کرے۔ وہ لکھتا ہے کہ ”فرد کی توجہ اس کے بدن کی طبعی حرارت پر ہر چیز سے پہلے ہونی چاہیے۔ اس معاملے میں سب سے بہتر (کارکردگی کے حوالے سے) معتدل جسمانی ورزش ہے، جو جسم اور روح دونوں کے لیے مفید ہے“۔ وہ اس زمانے میں معمر مریضوں کے لیے ورزش کا ایک روزانہ علاج بیان کرتا ہے، جو جدید طریقہ علاج کے زیادہ قریب ہے۔ اس نے مساج(مالش) کے فوائد بھی بیان کیے ہیں کہ یہ بدن کی قدرتی حرارت کو تحریک دیتا ہے، یہاں تک کہ بدن کو قدرتی انداز سے دوبارہ صحت سے مالا مال کردیتا ہے۔

اس نے سب سے پہلے مثبت سوچ کے طبی فوائد جان لیے تھے، جس نے بعد میں سائیکوسومیٹکس(جہاں جذباتی عوامل مرض پیدا کرتے ہیں) ادویات کی ابتدائی شکل اختیار کرلی۔ تعویذ یا جادو ٹونا اگرچہ اس کے عقلی تناظر کی دنیا میں قابل نفرت ہیں آیا مریض کی طبی ضرورتوں کا خیال رکھتے ہوئے غیر اہمیت کے حامل ہوجاتے ہیں؟ وہ لکھتا ہے کہ اگر یہ چیزیں مریض کی حالت کو بہتر کرتی ہیں تو انہیں برقرار رکھنا چاہیے تاکہ مریض کا ذہن اور زیادہ خلل کا شکار نہ ہوجائے۔

قلب کے سر بستہ راز
علاوٴ الدین ابو الحسن علی ابن حزم القرشی الدمشقی، جس کو مختصر طور پر ابن النفیس کے نام سے علمی دنیا میں جانا جاتا ہے، 1213ء کو دمشق میں پیدا ہوا۔ ایوبی دور میں، اسلامی دنیا کے علم و دانش کا مرکز قاہرہ قرار پایا۔ اپنی عمر کے ابتدائی بیس سالوں میں وہ قاہرہ منتقل ہوا اور بالآخر آٹھ سو بستروں پر مشتمل المنصوری ہاسپٹل کا سربراہ مقرر ہوا۔

انتیس سال کی عمر میں اس نے شرح تشریح القانون لکھی، جو ابن سینا کی القانون کے اناٹومی والے حصے کی تشریح ہے۔ اس کتاب میں علم تشریح (Anotomy) سے متعلق انکشافات کی ایک بڑی تعداد بشمول پھیپھڑوں کے دوران خون کے متعلق ابتدائی تشریح کا بیان موجود ہے۔

ابن النفیس نے یہاں تک وضاحت کی ہے کہ دل کے دونوں بطون(خانوں) کی درمیانی دیوار مضبوط ہے اور بغیر سوراخ کے ہے، اسی طرح اس نے جالینوس کے اس قدیم نظریے کو غلط قرار دیا ہے کہ خون دل کے دائیں حصے سے بائیں حصے کو بلا واسطہ گزر کر جاتا ہے۔ ابن النفیس درست طور پر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خون کو دائیں بطن سے گزر کر پھیپھڑوں میں داخل ہونا چاہیے، جہاں اس کے ہلکے اجزا پھیپھڑوں کی ورید میں سرایت کرجاتے ہیں، تاکہ اس کے ساتھ ہوا(آکسیجن) مل جائے، پھر بائیں جوف میں داخل ہو جاتا ہے اور آخر کار پورے جسم میں چلا جاتا ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کوئی اس قابل ہوا کہ وہ یہ بتائے کہ کس طرح ہوا (آکسیجن) خون کے ساتھ ملاپ کرتا ہے۔

ابن النفیس نے شعری دوران خون کی موجودگی کی طرف بھی اشارہ کیا، یہ ثابت کرتے ہوئے کہ ”پھیپھڑوں کی شریان اور ورید کے مابین چھوٹے سوراخ یا راستے (منافذ) ہیں“۔ اگر چہ پھیپھڑوں سے متعلق دوران خون کا نظریہ محدود تھا ،لیکن چار سو سال بعد مارسلو مالپیگی (Marcello Malpighi) نے پورے بدن میں شعری دوران خون کا فعل بیان کرکے ثابت کیا۔چودھویں صدی تک ابن النفیس کا یہ انکشاف ضائع ہو چکا تھا اور 1924ء تک اس کا کچھ پتہ نہیں تھا، لیکن جب مصری طبیب محی الدین التطاوی نے برلن کی پروشین سٹیٹ لائبریری میں شرح تشریح القانون کا ایک نسخہ معلوم کیا جس سے ابن النفیس کی دریافت کا صحیح اندازہ لگایا گیا، جس سے چار سو سال بعد یہ بھی واضح ہوا کہ یہ ولیم ہاروے(William Harvey) نہیں، بلکہ ابن النفیس ہی تھا جس نے دورانِ خون کا نظام دریافت کیا تھا۔

بدقسمتی سے ابن النفیس کا بیجا طور پر گمنامی میں رہنا کوئی انوکھی یا غیر معمولی بات نہیں۔ قرونِ وسطیٰ کی صدیوں میں ہزاروں مسلم طبیبوں نے، چاہے وہ معمولی طبیب ہوں یا غیر معمولی قابلیت کے حامل، زیادہ تر میڈیکل سائنس کے مراکز سے باہر کام کیا اور رہائش اختیار کی۔ ان طبیبوں نے جان جوکھوں میں ڈال کر علمی اور تحقیقی کام کیا، کچھ عیسائی اور یہودی دانش وروں پر مشتمل چھوٹی جماعتوں نے بھی ذہنی مشقت کی، تاکہ آنے والے دور کے تقاضے پورے ہوسکیں، مترجمین اور علمی تحقیق پھیلانے والوں کا کردار کہ ان کے مسلمان پیش رووٴں نے بغداد میں المامون کی گنجائش کو پورا کیا ہے۔ بہت سے طبیب غیر مستقل طور پر کسی جگہ رہے یامتنوع ثقافتوں/ نسلوں پر مشتمل ملک ہسپانیہ جہاں طلیطلہ، بارسلونا اور Segovia نقل مکانی کرتے رہے، جس نے ان کی مدد کی۔ دوسرے طبیب فرانس، اٹلی اور سسلی کے شہروں میں جمع ہوئے، جو اسلامی دنیا کے قریب تھے۔ یہ مسلم طبیب ثقافتی واسطہ بھی ثابت ہوئے کہ مغرب کو ایک ہزار سالہ قدیم علم و دانش کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا اور قیمتی علمی ورثہ بھی عطا کیا، جس نے آج کی مغربی طب (جدید میڈیکل سائنس) کی بنیاد رکھی۔

یہ سب وہ طبیب ہیں جنہوں نے مسلم دنیا میں قیمتی علمی ورثہ اور تدابیردریافت کیں اور مزید یہ کہ انسانی جسم اور دماغ کی لاینحل معمے حل کیے۔ انہوں نے ہسپتال، سرجری اور علم ادویہ کے شعبوں کی بنیاد رکھی۔ سرجیکل آلات ایجاد کیے اور ایسے عملی طریقے استعمال میں لائے جن کی بنیاد ذاتی تجربے پر تھی، تاکہ مفروضات/ نظریات کی جانچ پرکھ کرسکیں۔ انہوں نے مذہب اور طب کو جدا جدا خانوں میں رکھا اور عورتوں کے لیے طب کا دروازہ کھول دیا۔ شخصی صحت، خوراک اور حفظانِ صحت کے متعلق ان کے اکثر اصول آج بھی درست تسلیم کیے جاتے ہیں۔ شاید ان اصولوں میں سب سے زیادہ اہم اصول ان کا یورپی معا لجین کو یہ سبق دینا ہے کہ بیماری صرف صحت کے صحیح راستے سے انحراف کا نام ہے اور دوا کا کام بیماری کا علاج ہے۔

اگر ان میں سے کچھ اصول ہمیں بہت ہی آسان اور واضح دکھائی دیتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنسی ترقی نے گزشتہ کل کی ایجاد کو آج کی معلومات کا علم بنا دیا ہے۔




تری عظمت کے مقابل مرا سجدہ کیا ہے․․․․!
 
سائنس کو اِس بات کا اعتراف ہے کہ کائنات کا ننانوے فی صد سے بھی زائد مادہ یا Matter نہ ضبطِ جستجو ہی میں آسکا ہے اور نہ کسی طاقتوردوربین کی نگاہ میں سما ہی سکا ہے۔اِس ترقی یافتہ دور کے Cosmologistsکا بیان ہے کہ جس قدر کائنات انسانی ادراک کے احاطے میں آچکی ہے اُس کا مادہ دیگر نامعلوم کائناتوں میں موجود مادّے کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ فضائے بسیط میں تیرنے والی کہکشائیں،اِس بنا پر گم نہیں ہو پاتیں کہ یہ دوسری کہکشاؤں یا کا سمک مادوں سے کسی قوت کے ذریعہ بندھی ہوئی ہیں۔Big Bang Theory کہتی ہے کہ انتہائی کثیف اور انتہائی گرم کائنات ابتداء میں ایک جان یا Compact شکل میں تھی۔ پھرایک زبردست کا سمک Cosmic دھماکہ نے ایک ایسی صورتحال پیدا کردی کہ کائنات کے پھیلنے کے عمل کا آغاز ہوگیااور یہ تسلسل کے ساتھ ہر لمحہ جاری ہے۔ 1915ء میں مشہور سائنسدان البرٹ آئنس ٹائن نےTheory of Relativity پیش کی تھی اور اِسی تھیوری کی بنیاد پر اسBig Bang Theoryکی صورت گری ہوئی تھی ۔اکیسویں صدی میں ، جسے سائنسی دھماکوں کی صدی بھی کہا جاتا ہے،جس دھماکہ خیزواقعہ کی بظاہر انسانوں کو خبر ہوئی، چودہ سو سال پہلے،جب کہ اُس وقت جدید سائنس کا جنم بھی نہیں ہوا تھا، ربِّ کائنات نے اپنی آخر ی کتاب میں کیااس کا تذکرہ نہیں کر دیاتھا؟اکیسویں سورة” الانبیاء“ کی تیسویں آیت میں نہایت واضح الفاظ یہ ہیں: ”حقائق کا انکار کرنے والے انسان کیا اتنا غور نہیں کرتے کہ آسمان اور زمین اور ساری چیزیں ایک ہی واحد یونٹ کی طرح تھیں، پھر ہم نے انہیں یکبارگی ہی جدا جدا کردیااور ہم نے مائع (پانی) سے ہر شے میں حیات ڈالی، تو کیا پھر بھی انہیں ماننا نہیں ہے؟“


پتہ نہیں کتنے کروڑوں سال قبل یہ واقعہ رو نما ہوا ہوگا ! تاہم چودہ سو سال قبل اِس حقیقت کی خبرکے پیچھے رب تعالیٰ کی یہی مشیت کارفرما نظر آتی ہے کہ آسمانی کتاب کے ذریعہ انسانوں پر یہ حقیقت کھول دی جائے تاکہ دنیا سائنسی دریافتوں اور اکتشافات کی راہ میں ترقی کرتی چلی جائے۔ لیکن افسوس کہ انسان پھر بھی بات کو سمجھ نہیں پائے۔یہاں تک کہ یہ آیت عصرِ حاضر کے انسانوں کے لئے ایک برمحل شہادت بن کر سامنے آئی اور یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوگئی کہ یہ کتاب کسی انسانی کاوشِ فکر و نظر کا نتیجہ نہیں ہے۔ اگرچہ کہ خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے اعلان فرمادیا تھا کہ یہ کتاب رب تعالیٰ کی نازل کردہ ہے اور یہ کوئی انسانی تصنیف نہیں، جسکا ذکرچھبیسویں سورة الشعراء کی آیات۱۹۲تا ۱۹۵ میں فرمائی۔” اوراے محمد صلی اللہ علیہ و سلم بیشک یہ قرآن رب العالمین کی طرف سے آپ کے قلب مبارک پر اُتارا گیا ہے، جسے جبریل روح الامین لیکر اُترے ہیں، تاکہ آپ ساری انسانیت کو وارننگ دیدیں، یہ صاف، ششتہ، آسان عربی زبان میں ہے۔“اس پر مستزاد یہ کہ اٹھائیسویں سورة کی آیت چھیاسی میں فرمایا : ”اور اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم آپ تو اس کے امید وار بھی نہ تھے کہ آپ پر آسمانی وحی اتاری جاتی، یہ تو سراسررحمت ہے آپ کے رب کی ۔“ اور یہ بھی صاف صاف اعلان کروایا کہ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا یُوْحٰی اِلَیَّ،”میں تو صرف اسی کی اتباع کرتا ہوں جس کی وحی مجھ پررب العالمین کی طرف سے آتی ہے ۔“


قرآن ِحکیم اُسی باعظمت رب ہی کی تو کتاب ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو ایک ہی لفظ ”کُن“ سے پیدا فرمادیا۔ وہی ربِّ ذوالجلا ل ہی تو ہے جو اِس بے پناہ کائنات کے ایک ایک ذرّے کا نہ صرف خالق ہے بلکہ وہ اُس کی نگہبانی بھی کررہا ہے۔وہ انسان جو اکتشافات پراِتراتے نہیں تھکتا، اُسے چاہیے کہ کائنات میں اپنی حیثیت کا ادراک اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر لے۔ وہ انسان جن کے دامن میں کتاب اللہ کا نور سمٹ آیا ہے،اُن پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خاموش بیٹھنے کا تصو ر تک نہ کریں،بلکہ پیغامِ کتاب اللہ کی ترسیل کو پوری امانت داری کے ساتھ اپنے سر لیں اور دنیا کے بے نور سینوں کو منور کرتے ہوئے خود اپنی زندگیوں کو بھی منور کرلیں۔


سائنس کے بے خداعلمبرداراگر کتابِ اِلٰہی کی طرف رجوع کرتے ہیں تویقینی ہے کہ سائنسی اکتشافات کی رفتارتیزتر بھی ہوجائے گی اور اخلاقی ضابطوں میں بندھ کریہ ترقی روحانی قدروں سے مزیّن بھی ہو جائے گی اورجن تباہ کارو مہلک ہتھیاروں کی دوڑ میں یہ بے خدا سائنسدان دنیاکے قائدین کو اُلجھا رکھا ہے اور کاروبار کی نام ونہاد نفع بخشی کے خوابوں کو ان کی بے نور آنکھوں میں سجا د یا ہے، اگر یہ چاہیں تواِن ہی ترقیوں کو سسکتی ، بلکتی انسانیت کے زخموں کا مداوابنا سکتے ہیں۔


مادہ ہو یا مائع، ہوا ہو یا لوہے کی مانند سخت منرلس، گیسیں ہوں یاٹھوس اشیاء،نظروں کی گرفت میں آنے والا آسمان ہو یا نہ نظر آنے والی کائنات،غرض کہ ہر شئے نے اُسی مالک کے ہاتھوں اپنے وجود کا جامہ پہنا ہے،جس نے نہ صرف کائنات بنا د ی ،بلکہ”کل یوم ھو فی شان“ والی آن بان کے ساتھ ہر لمحہ اسکے تخلیقی کارناموں کا سلسلہ جاری ہے۔ پھر یہ کہ رب تعالی نے کائنات کو ایک بار وجود عطا کرکے بس یوں ہی چھوڑ نہیں دیا ہے بلکہ اسے مسلسل وسعت بھی دئے جارہا ہے۔ جیسا کہ اکاونویں سورت کی سینتالیسویں آیت میں درج ہے:”اور آسمان کو ہم ہی نے اپنے دستِ قدرت سے بنایا ہے اور ہم وسعت دئے ہی جاتے ہیں۔“


خلائی سائنس کے محققین کا حال یہ ہے کہ وہ ثبوت کے نام پر دنیا کے سامنے اب تفصیلات پیش کر رہے ہیں کہ یہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے جبکہ اِس ثبوت کے فراہم کیے جانے کے چودہ صدیوں قبل ہی ربَِ کائنات نے یہ معلومات اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اپنی ہی کتاب میں نازل فرما دی تھیں۔ اِس لیے دعویٰ ثبوت کے بجائے مقام عبرت سمجھتے ہوئے مالک کائنات کی قوتوں اور طاقتوں کا اعتراف ہونا چاہیے، بے بضاعتی و انکساری کی کیفیت اُبھرنی چاہیے، جملہ انسانوں کے تئیں فکر مندی اور انصاف پسند ی کے جذبات مستحکم ہونے چاہئیں، ظلم و زیادتی کے سد باب کے ساتھ انسانی فلاح و بقاکی فکر مقدم ر ہنی چاہیے، اور جو افراد خو د کوحاملین قرآن کہتے ہیں انہیں خوابِ غفلت سے بیدار ہو کر کم از کم اب تو سوچنا چاہئے کہ دنیا کی سائنسی امامت تو دور کی بات ہے،آخرکیا بات ہے کہ اِس میدان میں آخری صف میں بھی انہیں کوئی مقام کیوں حاصل نہیں ! کہیں ایسا تو نہیں کہ کتاب اللہ کو اسکے جائز وقار اوراِس کی عظمت کو اہمیت نہیں دی گئی ، جیسا کہ اِس کا حق تھا!!


ویسے بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ سائنسی نظریات بدلتے رہتے ہیں اوراِن ہی تبدیلیوں کے حوالے سے ارتقاء بھی ہوتا رہتا ہے۔Big Bang Theory کا پیش کیا جانا ہی ایسے ارتقاء کا ایک ثبوت ہے جس کے ذریعہ یہ حقیقت جاں گزیں ہو جاتی ہے کہ رب کائنات ہی قوت وحشمت کا سر چشمہ ہے کہ جو ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ایک ہی دھماکے کے ذریعہ اتنی عظیم کائنات کو وجود میں لا سکتا ہے اور اُسی کو یہ قدرت حاصل ہے کہ وہ صور میں ایک ہی پھونک کے ذریعہ اس پوری کائنات کو ختم بھی کردے؟ہمیں پتہ بھی نہیں کہ کتنے کروڑوں سالوں پہلے یہBig Bang والا واقعہ ظہور پذیر ہوا ہوگا؟ضروری بھی نہیں کہ اِس کا ہمیں پتہ ہو۔ہاں! البتہ ہمیں فکر ہونی چاہیے کہ کب صور میں پھونک دیا جائے گا کہ جس کے نتیجہ میں کب، کس لمحہ ساری کی ساری کائنات لپیٹ کر پھینک دی جائے گی!


یہ خبر تو ہمیں ہے ہی کہ کچھ قوتیں ہیں ، جیسے کشش ثقل ، برقی قوت ،مقناطیسی اور نیوکلیائی قوتیں ،جو ہمارے اطراف کار فرما ہیں، جن کی تخلیق ایک زبردست قوتوں والے رب ہی کے دستِ قدرت سے ممکن ہوئی ہے اور اُسی ربِّ باحشمت نے ان ساری طاقتوں کو پھیلادیا ہے ۔ نظریہ کہتا ہے کہBig Bangکے معاً بعد اگلے ہی لمحے پروٹون تیار ہوئے، پھرفوراً ہی پروٹون اور نیوٹران کے باہمی ملاپ سے مرکزے یا Neucleous وجود میں آئے،Big bang کے کئی ملین سالوں بعد تک وجود میں آنے والی گرمی ایک مقرر رفتار سے ٹھنڈی ہوتی رہی، پھر پروٹون اور الکٹرون کے باہمی میل سے ہائیڈروجن کے جوہر وجود میں آئے۔گو کہ یہ معلومات حیرت انگیز ہیں، تاہم سائنس کی اِن معلومات کوکبھی حتمی نہیں کہا جاسکتا۔1929 ء کے بعد سے آج تک مزید انکشافات کے سبب اس تھیوری میں تبدیلیاں ہوتی چلی جا ر ہی ہیں۔ مثلاًفضا میں ہیلیم گیس کی غیر موجودگی سے کئی نئی تحقیقات سامنے آرہی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں ہمیں دو سبق ضرور ملتے ہیں۔ اولاً یہ کہ خالقِ کائنات کی قوت کا اندازہ لگانا کسی مخلوق کے بس کی بات نہیں ۔ثانیاً، یہ کہ ایک طرف اس کائنات کو صور میں ایک ہی پھونک سے ختم کرنے کے بعد صور میں دوسری پھونک سے، ایک لمحے کے توقف کے بغیر اپنی مرضی کی شکل و صورت میں وہ دوبارہ پیدا کرنے پر قادرہے۔ اِن دونوں اسباق کا تذکرہ خالقِ کائنات نے اپنی کتاب میں کر دیا ہے اور ایک تیسرے سبق کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔یہ تیسرا سبق ہمیں چالیسویں سورہ کی ستاونویں آیت میں موجود ہے کہ:”آسمانوں اور زمین کی تخلیق انسانوں کی تخلیق سے بھی بڑا کام ہے ! لیکن انسانوں کی اکثریت اس کا احساس نہیں کرپاتی۔“


یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس سے سائنسدانوں کی ایک بڑی تعداد بے خبر ہے ۔ اگر وہ بندگانِ خدا، جنہیں کتاب اللہ کی امانت دی گئی، ان آیتوں میں موجود حقائق سے اِن زیرک انسانوں کو باخبر کردیں تو کیا عجب کہ یہ لوگ بھی آخرت کے انجام سے واقف ہو جائیں اور اپنی مغفرت کی فکر کرنا شروع کردیں۔ورنہ ہوگا یہ کہ یہ حضرات صرف کائناتی حقائق کے ثبوت ہی پہنچاتے پہنچاتے خدا کے حضور بے نیل و مرام پہنچ جائیں گے اور اہلیانِ کتاب کو کوستے رہ جائیں گے کہ انہوں نے کبھی قرآنی حقائق سے ہمیں آشنا نہیں کیا۔ کیا عجب کہ اُخروی ناکامیابیوں کے غار میں انہیں بھی دھکیل دینے کی یہ سائنسدان ایک بڑی وجہ بن جائیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جن کے پاس اللہ کی کتاب ہے وہ کتاب اللہ سے اپنے رشتے کو مضبوط کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں۔وہ محدود فروعی معاملات ، رسم ورواج اور طریقہ ہائے عبادت کی جزئیات میں گم ہو کر رہ گیے ہیں۔ورنہ سائنسی علوم میں مہارت کے ساتھ ان تمام علوم کے مثبت استعمال کے ذریعہ انسانیت کے دکھوں کا مداوا اب بھی ممکن ہے۔ یہ دنیا اپنی حسین و جمیل تابناکی کے ساتھ تمام باشندوں کے لئے امن و شانتی کا گہوارہ بن سکتی ہے ۔ انسانیت کی انسانیت اپنی زندگی کی آخری منزل یعنی آخرت میں اپنے رب کی رضا اور مغفرت حاصل کرنے کی طرف مائل ہو سکتی ہے، ابد الآباد جنت کی مستقل و پائیدار آسائشوں کی حقد ار بن سکتی ہے۔


سوال یہ ہے کہ اتنی کاملیت کے ساتھ ایک ہیbangمیں کس نے اس کائنات کو وجود بخشا؟ کون ہے جس نے ان ساری چیزوں کی تخلیق فرمائی؟پھران کے وجود کا مقصد کیا ہے؟کیا یہ سب محض یوں ہی بے مقصد پیدا کیے گیے ہیں ۔؟یہ اور ایسے سوالا ت کی تحقیق کے لئے اگر انسانیت کے سامنے آسمانی کتاب ہوتی تو ایک طویل عمر کی ضرورت نہ پڑتی۔لیکن واضح رہے کہ یہ تحقیق اُس تحقیق سے اہم نہیں کہ جس میں یہ معلوم کیا جائے کہ ہمارا مقصدِ پیدائش کیا ہے؟ اورہماری وجہِ تخلیق کیا ہے؟ یہ کوشش ہمیں اس حقیقت کی طرف لے جاتی ہے کہ ہم یہاں تھے نہیں بلکہ بھیجے گئے ہیں اور ہمیں اپنے مقررہ وقت پر یہاں سے لوٹ بھی جانا ہے۔پھرسوال یہ اُٹھتا ہے کہ کہاں لوٹ کر جانا ہے اوردنیا میں ہمارے قیام کے بعدہماری حتمی منزل کیا ہے ؟ رب ذوالجلال ہم سے تیئیسویں سورة کی ایک سو پندرھویں آیت میں ہم سے پوچھتا ہے: ”انسانو!کیا تم یہ سوچتے ہو کہ ہم نے تمہیں یونہی بے مقصد پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف لوٹ کر آنا نہیں ہے؟“ ہر ایک انسان کو اپنے اپنے وقت پرلوٹنا ہے، موت پر کبھی فتح نہیں پائی جاسکتی، زندگی اور موت کے خالق ہی نے چھپن ویں سورہ کی ساٹھویں آیت میں اعلان کردیا ہے کہ:”ہم نے تمہاری تقدیر میں موت کو لکھ دیا ہے اور تم( ہمیں اس سے روک نہیں سکوگے) سبقت نہیں لے جا سکوگے۔“پھر اس موت کے بعد ہمیں جانا کہاں ہے اور وہاں کیا ہونے والا ہے؟اس کے جواب میں ہماری موت اور حیات کا مالک ہم سے پندرھویں سورت کی پچاسیویں اور چھیاسیویں آیات میں ہمیں اپنے جواب سے سرفراز فرماتا ہے:”اورہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے، نہیں تخلیق کیامگر ایک با مقصد حق کے ساتھ اور بے شک قیامت کی ساعت کا لمحہ ضرور آکر رہے گا۔ سوجو لوگ ان حقائق کو نہیں مان رہے ہیں ان سے پروقار طریقے سے درگذر کریں۔بے شک آپ کا رب ہی خلّاق ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے۔“


یہ حقیقت ہمیں فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ایک ہی ’کُن‘ اور Bangکوایک بار پھر وقوع پذیر ہونا ہے،جب ساری کائنات ایک ہی لمحہ میں ختم کردی جائے گی۔جسے قرآنِ حکیم” صورمیں پھونک“کہتا ہے، پھر ایک اور ’کُن ‘ کے ساتھ تمام ذی اختیار مخلوق اپنے دفترِ اعمال کے ساتھ کھڑی ہوگی جسے دنیاوی زندگی کے امتحان میں شریک کیا گیاتھا۔ پھر حساب لیا جائے گا کہ اِس مخلوق نے اپنے فرائض نبھائے یا نہیں؟اپنی ذمہ داریاں ادا کیں یا نہیں؟انہیں اپنی ہستی کی پہچان ہوگئی تھی یا نہیں؟یا وہ پنی طاقت کے نشے میں چور ہی رہے! کہیں ایسا تو نہیں کہ انسان نے اپنی طاقت کو اپنی جیسی مخلوق کی فلاح و بہبود پر استعمال کرنے کے بجائے مظالم ڈھانے کے لیے استعمال کیا تھا؟کہیں ایسا تو نہیں کہ جس مقام پر اُسے رب نے آباد کیا تھاوہاں وہ اپنے گرد و پیش کے لیے بے ثمر ثابت ہوئی اورباعثِ فساد بن گئی؟اپنے فرائض کی انجام دہی کو اپنی من مانیوں کے حوالے کیا؟


حقیقتاًدوسروں کی فکر سے زیادہ ہمارے لئے اہمیت اس سوال کی ہونی چاہئے کہ ہمارے کیافرائض ہیں، جنہیں ہمیں سر انجام دینا ہے؟پہلے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کس نے ان فرائض کو ہم پر عائد کیا ہے؟اِن فرائض کی مکمل بجاآوری پرکس صلہ کی ہمیں اُمید ہونی چاہیے؟ورنہ کس سزا کا ہمیں اندیشہ لاحق ہونا چاہیے؟پھر یہ کہ ان سوالات کے جوابات کے ہم خود مکلف ہیں یا ہمیں اپنے خالق ، مالک اور ربِّ اعلیٰ سے رجوع ہونا ہوگا۔! سچی بات تو یہ ہے کہ ہم ان بنیادی سوالات کے جوابات دینے کے قابل ہی نہیں ہیں۔”صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے“ کے مصداق ہم دعو ت دیتے ہیں کہ ہم سب مل کر اپنے خالق ہی سے پوچھیں کہ پروردگار! ہمیں اِن اُمورمیں اپنی رہنمائی سے نوازیو․․․․! رب تعالےٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اُس نے کتابِ ہدایت میں ہمارے اِن سارے سوالوں کے جواب پہلے ہی صاف اور واضح طور پر عطا کر دیے ہیں۔ وہی کتابِ ہدایت جس کے سوا کوئی کتاب ہدایت نہیں․․․․ جو عرشِ اعظم سے عربی مبین میں نازل شدہ ہے اور آج بھی دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں یہ موجود نہیں۔ ہر شخص کو کم از کم اتنی کوشش تو ضرور کرنی چاہیے کہ وہ اپنے مالک کے احکام کا علم حاصل کرے۔ دنیا میں کسی کو دو وقت کی روٹی بھی بغیر محنت کے میسر نہیںآ تی۔ لیکن مالک کے احکام معلوم کرنے کے لیے اتنی محنت کی ضرورت بھی نہیں۔بس اتنا کرنا ہے کہ کتابِ ہدایت سے رشتہ ایک بار استوار ہو جائے، ہر روز اس سے یہ معلوم کیا جائے کہ ہمارے کن کاموں سے رب ناراض ہو تا ہے اور کن کاموں سے اُس کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔اُس کی نظرمیں ایک کامیاب زندگی کیا ہے۔ یہی ایک محفوظ راستہ دکھائی دیتا ہے ہماری دنیا کی زندگی کو سدھارنے کا اور یہی ایک راستہ باقی رہتا ہے ہماری دوسری اورآخری زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا۔


تری عظمت کے مقابل مرا سجدہ کیاہے


کوہ احسان ترے شکر مرا رائی ہے


***
_____________________________
جدید سائنس اسلام کی خادمہ

            جدید سائنس اسلام کی ایک ادنیٰ دست بستہ خادمہ ہے۔ اس سے اسلام کو خواہی نخواہی فائدہ پہنچ رہا ہے اوراسلامیات کو سمجھنے اور سمجھانے میں اس سے بڑی مددملتی ہے؛ چناں چہ استبعاد عقلی کی بیساکھی کے سہارے مادہ پرستوں نے اسلامیات کی متعدد چیزوں کا انکار کیا تھا؛ لیکن جدید سائنس کی نت نئی ایجادات واکتشافات سے ان میں سے کئی چیزیں محسوس ومشاہدہ کا درجہ حاصل کررہی ہیں اور ان کا استبعاد عقلی ختم ہورہا ہے؛ اسی لیے محدث العصر علامہ انورشاہ کشمیری قدس سرہ جدید سائنس کو اقرب الی الاسلام قرار دیتے تھے۔ دارالعلوم دیوبند (وقف) کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:

            ”ایک بار آپ (محدث العصر علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہ) سے پوچھا گیا کہ فلسفہٴ قدیم اسلام سے زیادہ قریب ہے یا جدید سائنس؟ فرمایا کہ ”سائنس جدید اقرب الی الاسلام ہے۔“

            اور واقعہ بھی یہی ہے کہ نئی تحقیقات سے اسلام کو سمجھنے میں جس قدر مدد ملتی ہے، اس کے پیش نظر آپ کا یہ ارشاد صرف توسع پر مبنی نہیں؛ بل کہ اس میں اصابت رائے کی پوری روشنی بھی موجود ہے۔

            جاننے والے جانتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے کہ معراج کو سمجھنے کے لیے کس قدر موشگافیاں کرناپڑتی تھیں؛ مگر عصرحاضر میں جب انسان ایک کُرہ سے دوسرے کُرہ میں بے تکلف سفر کررہا ہے، تو معراج کو سمجھنا اور سمجھانا لاینحل مسئلہ نہیں رہا۔

            اعمال کے وزن کی اطلاع جو حدیث و قرآن میں مسلسل ملتی رہی۔ ”مقیاس الحرارة“ (تھرمامیٹر) کی موجودگی میں بقائمی ہوش وحواس وزن اعمال کا انکار کون کرسکتا ہے؟

            اقوال کی حفاظت کے لیے موجودہ وقت کا ٹیپ ریکارڈر ایک بہترین ثبوت ہے۔“ (نقش دوام، ص:۱۱۷-۱۱۸)

            حضرت مولانا سید احمد رضا صاحب بجنوری رحمة اللہ علیہ، علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہ کا ملفوظ نقل فرماتے ہیں:

            ”قرآن مجید میں ہے کہ اہل جنت واہل جہنم آپس میں ایک دوسرے کو دیکھیں گے، پہچانیں گے اور باتیں کریں گے؛ حالاں کہ ان کے درمیان بہت غیرمعمولی فاصلہ ہوگا، تو اب ٹیلیفون، لاسلکی تلغراف، ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی ایجادات نے اس کو بھی قریب عقل ومشاہدہ کردیا ہے۔

            اصوات واعمال کا ریکارڈ مستبعد سمجھا جاتاتھا؛ مگر گراموفون کی ایجاد نے اس سے بھی مانوس کردیا کہ حق تعالیٰ نے زمین اوراس کے متعلقات میں بھی اخذ وریکارڈ کا مادہ ودیعت فرمادیا تھا، جس کو ہم یورپ کی ان ایجادات سے پہلے عقل ومشاہدہ کی روسے نہ سمجھ سکتے تھے۔ (ملفوظات محدث کشمیری، ص:۹۴-۹۵)

            حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں:

            ”روزانہ نئی ایجادیں نکلتی ہیں، جن سے بہت سے مستبعد کا مشاہدہ ہونے لگا، یہ اللہ کی رحمت ہے کہ ایسے لوگوں سے تائید دین کا کام لیا ہے، جو کافر ہیں کہ وہ نئی نئی ایجادیں کردیں، جن سے بہت سے شبہات حل ہوگئے۔

            چناں چہ لوگوں کو شبہ تھا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا﴾ (الزلزال:۴) ”اس روز زمین اپنی سب (اچھی بری) خبریں بیان کرنے لگے گی۔“) زمین کیسے بولے گی؛ کیوں کہ وہ جمادات میں سے ہے؟ اللہ نے اس کی نظیر گراموفون (آلہٴ صوت نگار) ایجاد کرادیا کہ یہ نہ انسان ہے نہ حیوان اور نہ نباتات اور پھر بولتا ہے۔ اب اس کو کس قسم میں داخل کروگے، جو اس کے لیے نطق کو جائز رکھوگے؟

            ․․․․ ظاہر ہے کہ جمادات ہی میں سے ہے، تو جمادات کے بولنے کا استبعاد بھی ختم ہوگیا۔ (خطبات حکیم الامت، ص:۱۷۵-۱۷۶، ج:۷)

            ”صحیح بخاری“ میں ہے:

․․․․ عَنْ اَبِيْ ہُرَیْرَةَ – رضی اللّٰہ عنہ – أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: ہَلْ تَرَوْنَ قِبْلَتِیْ ہٰہُنَا؟ فَوَاللّٰہِ مَا یَخْفیٰ (لَا یَخْفیٰ) عَلَیَّ خُشُوْعُکُمْ وَلَا رُکُوْعُکُمْ، اِنِيْ لَأَرَاکُمْ مِنْ وَوَاءِ ظَہْرِيْ․ (صحیح بخاری، کتاب الصلاة، باب عظة الامام الناس فی اتمام الصلاة وذکر القبلة، ص:۵۹، ج:۱، قدیمی: کراچی)

            ”․․․․ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کیا تم سمجھتے ہو کہ میرا قبلہ ادھر ہے؟ (یعنی کیاتم یہ سمجھتے ہو کہ میں قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھا رہا ہوں؛ اس لیے مجھے صرف اسی جہت میں نظر آتا ہے اور مجھے تمہاری کچھ خبر نہیں؟) اللہ کی قسم! مجھ پر نہ (سب ارکان میں) تمہارا خشوع (یا تمہارے سجدے) مخفی ہیں اور نہ تمہارا رکوع۔ یقینا میں تمھیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھتاہوں۔“

            حدیث بالا میں مذکور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیٹھ کے پیچھے سے دیکھنے کو عقل پرستوں نے بعید سمجھا تھا؛ حالاں کہ اس میں عقلاً کوئی استبعاد نہ تھا؛ چناں چہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں:

            ”آئینہ میں صورت تب تک نظر آتی ہے؛ جب تک کہ آنکھ کسی دیکھنے والے کی کھلی ہوئی ہو؛ کیوں کہ نظر آنے کی حقیقت یہ ہے کہ شعاع آنکھ سے نکل کر آئینہ پر پڑکر پھر رائی (دیکھنے والے) کی طرف لوٹتی ہے؛ اس لیے صورت نظر پڑتی ہے۔ جب نگاہ نہ کی تو شعاع نہ نکلی، تو پھر نظر آنے کا کوئی سبب نہیں۔ غرض آئینہ میں جو نظر آتا ہے، وہ کوئی مبائن چیز نہیں؛ بل کہ اس چہرے پر نگاہ لوٹ کر پڑتی ہے۔

            جب مرئی (جس چیز کو دیکھا جائے) سے اپنی شعاعوں کا تعلق علت ہے رویت کی، پس اگر کسی شخص کو یہ قوت حاصل ہو کہ سیدھی شعاعوں کو مقوس کرسکے (کمان کی طرح موڑسکے)، تو اس کو پیچھے سے بھی مثل سامنے کے نظر آئے گا؛ چناں چہ صوفیہ کے بعض اشغال میں سر نظر آنے لگتا ہے اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پیچھے سے بھی دیکھتے تھے اوراس کی وجہ میں بعض علماء کہتے ہیں کہ آپ کے پیچھے سر میں دو سوراخ تھے، ان سے نظر آتا تھا، تو اس کی کوئی ضرورت نہیں؛ بل کہ ممکن ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے شعاعوں کے مقوس بنانے کی قوت مرحمت فرمائی تھی۔ جب آپ قصد فرماتے، دیکھ لیتے۔ آگے کا قصد فرماتے، آگے دیکھ لیتے اور پیچھے کا قصد کرتے، پیچھے نظر فرمالیتے۔ ہرشخص میں یہ قوت نہیں؛ اس لیے نظر نہیں آتا۔“

            اور(حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ) اس توجیہ کو حضرت مولانا یعقوب صاحب (نانوتوی) رحمة اللہ علیہ سے نقل فرماتے تھے۔ (ملفوظات حکیم الامت، ص:۱۹۸-۱۹۹، ج:۱۲)

            محدث العصر علامہ محمد انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

            ”یہ دیکھنا بہ طور معجزہ تھا، ایسا ہی ثابت ہے امام احمد رحمة اللہ علیہ سے اور فلسفہٴ جدیدہ نے ثابت کردیا ہے کہ قوتِ باصرہ تمام اعضاءِ انسانی میں ہے۔“ (ملفوظات محدث کشمیری، ص:۳۴۲-۳۴۳)

            علامہٴ موصوف نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا:

واعلم أن المتنورین الذین لا یوٴمنون بآیات اللّٰہ، وہم بہفوات اوربا یوٴمنون، قد استبعدوا منطق الأعضاء في المحشر، مع أن زعمائہم قد أقروا الیوم بسریان البصر في سائر الجسد، فلا یستبعد منہم أن یقروا بسریان النطق أیضًا، ولو بعد حین․ (فیض الباری، کتاب التفسیر، سورة الفرقان، باب قولہ: ﴿اَلَّذِیْنَ یُحْشَرُوْنَ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ﴾، ص:۲۱۸، ج:۴، ط: المجلس العلمی، ڈابھیل)

            ”جان لو! وہ روشن خیال لوگ جو اللہ کی آیات کا یقین نہیں کرتے اور یورپ کی بیہودہ باتوں کا یقین کرلیتے ہیں، انھوں نے محشر میں اعضاءِ انسانی کے بولنے کو بعید خیال کیا؛ حالاں کہ ان کے زعماء اور لیڈروں نے (آنکھ کے علاوہ) بقیہ اعضاء میں قوت باصرہ کے نفوذ وسرایت کرنے کا فی زماننا اعتراف کیاہے، تو ان سے بعید نہیں کہ وہ (زبان کے علاوہ) بقیہ اعضاءِ انسانی میں قوت گویائی کے سرایت کرنے کا اعتراف بھی کرلیں؛ اگرچہ ایک عرصہ بعد سہی۔“

            لیورپول کے رہائشی برطانوی فوجی کریگ لوندبرگ (Craig Lundberg) کی بہ عمر ۲۱ سال ۲۰۰۷/ میں عراق میں اپنی خدمات کے دوران گرینیڈ لگنے کی وجہ سے آنکھوں کی بینائی چلی گئی تھی۔ اس کے متعلق آج سے تقریباً آٹھ سال قبل ایک خبر ملکی وغیرملکی اخبارات وغیرہ ذرائع ابلاغ کی زینت بنی تھی کہ اب وہ اپنی زبان کی مدد سے دیکھنے کی ٹیکنالوجی استعمال کرے گا۔ روزنامہ ”جنگ“ لندن بابت: ۱۶/رمضان المبارک ۱۴۳۰ھ بروز اتوار مطابق ۶/ستمبر۲۰۰۹/ کے شمارے میں یہ خبر کچھ اس طرح شائع ہوئی تھی:

نابینا برطانوی فوجی زبان کی مدد سے دیکھنے کی ٹیکنالوجی استعمال کرے گا

            اس ٹیکنالوجی پرمبنی آلہ برین پورٹ ویژن کہلاتاہے اور اسے ایک امریکی کمپنی نے تیار کیا ہے۔

            ”لندن (پی اے) ایک نابینا برطانوی فوجی ملک میں پہلا شخص ہے، جو زبان کی مدد سے دیکھنے کی ٹیکنالوجی استعمال کرسکے گا۔ اس ٹیکنالوجی پر مبنی آلہ برین پورٹ ویژن کہلاتا ہے اور اسے ایک امریکی کمپنی نے تیار کیا ہے۔ یہ برطانوی فوجی جو اپنی خدمات کے دوران دونوں آنکھوں کی بصارت سے محروم ہوگیا تھا، اس آلہ کی مدد سے اپنی روز مرہ کی زندگی آسانی سے گزارسکے گا۔ علم بصارت پر دفاعی مشیرونگ کمانڈر روب شکاٹ نے بتایا کہ نابینا فوجیوں اور شہریوں کے لیے یہ بڑی اہم ٹیکنالوجی ہے اور انھوں نے خود یونیورسٹی آف پیٹس برگ میڈیکل کے ایک دورے میں اس کا مشاہدہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس میں ایک کیمرہ عینک کے دوشیشوں پر رکھا ہے؛ تاکہ بیرونی ماحول کو سکین کرسکے۔ یہ الیکروڈز سے منسلک ہے، جنھیں زبان پر رکھا جاتا ہے اور زبان بیرونی ماحول کو محسوس کرتی ہے۔ اگر کوئی مکمل نابینا آدمی کمرے میں آئے، تو وہ اس آلے کی مدد سے فرنیچر اور دوسری چیزوں کو دیکھ اور محسوس کرسکتا ہے۔“

            واضح ہو کہ اب یہ برطانوی فوجی زبان کی مدد سے دیکھنے اور اپنی روزمرہ کی زندگی گزارنے لگا ہے۔ اس لحاظ سے زبان میں بھی قوت باصرہ ہونے کی یہ ایک زندہ مثال ہے۔ اسی طرح زمانے کے گزرنے کے ساتھ نئے تجربات ہوتے رہیں گے اور بقیہ اعضاء سے دیکھنے کی مثالیں بھی سامنے آتی رہیں گی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

            ”صحیح بخاری“ کتاب الجہاد، کتاب فضائل الصحابة، کتاب اللباس اور کتاب الأدب میں مختلف طرق سے ایک روایت مروی ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت اقدس میں کچھ کپڑے آئے، جن میں خز (ایک خاص قسم کا کپڑا) یا اون کی دھاری دار ایک سیاہ چھوٹی چادر بھی تھی۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین سے دریافت فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے، ہم یہ چادر کس کو دیں؟ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم خاموش رہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ام خالد کو میرے پاس لاؤ! ان کو (چھوٹی ہونے کی وجہ سے) اٹھاکر لایاگیا۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے چادر لے کر اپنے دست مبارک سے ام خالد کو پہنایا: اوڑھایا اور (علیٰ اختلاف الروایتین) دویا تین دفعہ فرمایاکہ اسے پرانا اور بوسیدہ کرو (یعنی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا دی کہ تمہاری عمر اس قدر لمبی ہو کہ تم اس کپڑے کو پہن پہن کر پرانا کردو)! اس چادر میں سبز یا زرد رنگ کے پھول تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ان پھولوں کو دیکھ کر اپنے دست مبارک سے ام خالد کو اشارہ کرکے فرمانے لگے: یَا أُمَّ خَالِدٍ، ہٰذَا سَنَاہْ! ”اے ام خالد! یہ عمدہ ہے!“ سَنَا حبشی زبان میں الحسن یعنی عمدہ کے معنی میں آتا ہے۔

            اسحاق بن سعید راوی فرماتے ہیں کہ مجھ سے خاندان کی ایک عورت نے بیان کیا کہ اس نے وہ کپڑا ام خالد رضی اللہ عنہا پر دیکھا۔

            عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ کپڑا باقی رہا، یہاں تک کہ راوی نے (طویل زمانہ کا) ذکر کیا۔

            امام بخاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی خاتون نے اتنی لمبی عمر نہیں پائی، جتنی ام خالد رضی اللہ عنہا نے پائی (چناں چہ موسیٰ بن عقبہ کا ام خالد رضی اللہ عنہا کو پانا ان کی طول عمری پر دلالت کرتا ہے؛ اس لیے کہ موسیٰ بن عقبہ نے ام خالد رضی اللہ عنہا کے علاوہ صحابہ وصحابیات رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو نہیں پایا ہے۔ فتح الباری)

            اس حدیث پاک کے طرق مختلفہ سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعا کی برکت سے ام خالد رضی اللہ عنہا نے لمبی عمر پائی؛ یہاں تک کہ ان کی درازیِ عمر کا لوگوں میں چرچا ہوا، اسی طرح انکا کپڑا (قمیص یا چادر) طویل عرصہ تک ان کے زیر استعمال رہا۔ اس حدیث پر کلام کرتے ہوئے محدث العصر علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

قولہ: ﴿فبقیت حتی ذکر) أی: بقیت تلک القمیص، لم یخلقہا مضی اللیالی ومرور الأیام، ولعل تلک القمیص أیضًا تکون تتوسع علیہا بقدر جسدہا فانہا اذا تقصمت کان صبیة، فلا بدّ من الزیادة في القمیص، ومن یوٴمن ببقاء تلک القمیص الی زمن لم تخلق، لم یعجز عن الایمان بسعتہا أیضًا، وأما من لم یجعل اللّٰہ لہ نورًا فما لہ من نور․ (فیض الباری، کتاب الجہاد، باب من تکلم بالفارسیة الخ، ص:۴۵۸، ج:۳، ط: المجلس العلمی، ڈابھیل)

            ”وہ قمیص باقی رہی، مرور ایام کے باوجود وہ بوسیدہ نہیں ہوئی، نہ پھٹی اور بسا ممکن ہے کہ وہ قمیص بھی ام خالد کے جسم کے اعتبار سے بڑھتی اورکشادہ ہوتی رہی ہو؛ اس لیے کہ جب انھوں نے قمیص پہنی تھی، تو وہ بچی تھیں؛ لہٰذا قمیص کا بڑھنا ضروری ہے۔ جو شخص مدت دراز تک اس قمیص کے باقی رہنے کا یقین کرے گا، تووہ اس کے بڑھنے اور کشادہ ہوتے رہنے کو ماننے سے پیچھے نہیں رہے گا؛ لیکن جس کو اللہ ہی نورِ یقین نہ دے، اس کوکہیں سے بھی نور میسر نہیں ہوسکتا۔“

            چند ماہ قبل کی ایک نئی ایجاد نے جسم کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ قمیص کے بڑھنے کو سمجھنا اور سمجھانا نہایت آسان کردیا۔ روزنامہ ”جنگ“ لندن میں شائع ہونے والی حسب ذیل خبر کو پڑھیے اور اپنے ایمان کو تازہ کیجیے:

بچوں کے ساتھ ساتھ بڑھنے والے کپڑے تیار

            والدین بچوں کے لیے ہر چند ماہ بعد کپڑوں کے بارے میں فکرمند رہتے ہیں۔ ایک جانب تو اس سے وقت ضائع ہوتا ہے، تو دوسری جانب مہنگے کپڑے خریدنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ چھوٹے بچوں کے کپڑے دو مرتبہ دھلنے کے بعد انھیں نہیں آتے؛ کیوں کہ چھوٹے بچے بہت تیزی سے بڑھتے ہیں؛ لیکن اب پیٹٹ پلی (Petit Pli) یہ فرنچ زبان کا لفظ ہے، جس کا تلفظ ”پیٹی پلی“ ہے۔ عمرفاروق) نامی ایک کمپنی نے ایسا اسمارٹ لباس بنایا ہے، جسے ایک مرتبہ خریدنے کے بعد دوسال تک بچوں کے لیے دوسرالباس خریدنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پیٹی پلی کے مطابق پیدائش کے دوسال تک بچے سات مرتبہ جسامت بڑھاتے ہیں اوران کے لیے سات مرتبہ کپڑے خریدنے پڑتے ہیں۔ اس کمپنی نے جو لباس بنایاہے ، وہ ۴ سے ۳۶ ماہ تک کے بچوں کے لیے فٹ بیٹھتا ہے۔ کمپنی کے سربراہ ریان ماریویاسین (Ryan Mario Yasin) پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اورانھوں نے کہا کہ بچے کو بار بار نیا سائز پہناکر ہم زمین کے وسائل خرچ کررہے ہیں اور دوسری جانب آبادی اس پر بڑی رقم خرچ کرتی ہے۔ ان کا تیار کردہ لباس واٹر پروف، ہوا پروف، پائیدار اور بار بار دھونے کے قابل ہے۔ اس لباس کے اندر خاص لچک دار میٹریل شامل کیاگیاہے اور جب اسے کھینچا جاتاہے، تو کپڑا پتلا ہونے کی بجائے موٹا ہوجاتا ہے اور یہ خاصیت بلٹ پروف لباسوں میں پائی جاتی ہے، اس ایجاد کو برطانیہ میں جیمز ڈائسن ایوارڈ دیاگیاہے۔ (روزنامہ ”جنگ“ لندن، بابت: بدھ ۲۲/ذوالحجہ ۱۴۳۸ھ مطابق ۱۳/ستمبر ۲۰۱۷/)

            سائنس کی یہ ایجاد چوں کہ نئی نئی ہے، بہ الفاظ دیگر اس ایجاد میں سائنس خود بچی ہے؛ اس لیے ۴ماہ سے۳ سال تک کے بچوں کے لیے مذکورہ لباس تیار کیا ہے۔ اس شعبہ میں سائنس جب جوان ہوگی، تو جوانی تک اور بوڑھی ہوگی، تو بوڑھاپے تک کارآمد لباس تیار کرے گی۔ اسی طرح دیگر شعبوں پر ہاتھ ڈالتی رہے گی، تو اسلام کی یہ خادمہ اسلامیات کے دوسرے مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے میں مزید سہولت کارثابت ہوگی، ان شاء اللہ تعالیٰ․ وَمَا ذٰلِکَ عَلیٰ اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ․

————————————
یہ فتویٰ سائنس کا ہے ملاّ کا نہیں

(۱) دنیامیں انسان کی آمد، انسان کا خالق سے رشتہ، انسان کا مخلوق سے رشتہ، انسان کا کائنات سے رشتہ، انسان کا انسان سے رشتہ مرد اور عورت کا کائنات میں کام ومقام یہ چند بہت اہم بنیادی سوالات رہے ہیں۔ جن کا جواب تاریخ کے ہر دور میں آسمانی ہدایت کے تحت بھی دیا گیا اور خالص فلسفیانہ اور عقلی جوابات بھی دئے گئے۔ اسی طرح کے اہم ترین سوال یعنی اختلافِ مرد و زن و حیثیت مرد وزن پر حالیہ دور میں پھر اختلاف اور بحث چھڑی ہوئی ہے۔ ہوا یہ کہ ماہ جنوری میں ایک مباحثہ کے دوران دنیا کی 100 سب سے بہتر یونیورسٹیوں میں نمبر ایک کی یونیورسٹی ہارورڈ کے صدر لیری سمرس (Larry Summers) نے ایک سوال کے جواب میں یہ کہہ دیا کہ حساب اور انجینئرنگ جیسے مضامین میں خواتین کی کم نمائندگی کی وجہ حیاتیاتی اختلافات (جسمانی) ہوسکتے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے دنیا کے مختلف ترقی یافتہ ممالک میں اس سلسلہ میں ہوئی ریسرچ کا حوالہ بھی دیا۔ امریکہ کی ایک تحقیق میں کیمیلا بینبو (Camilla Benbow) اور ڈیوڈ لیبنکی (Daid Lubinski) 20 سال تک ذہین طلباء کے ریکارڈ کے مطالعہ سے پتہ چلا کہ لڑکے حساب، کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ میں بہتر صلاحیت دکھاتے ہیں اور لڑکیاں بایولوجی، سماجیات اور عمرانیات میں زیادہ بہتر صلاحیت اور دلچسپی دکھاتی ہیں۔ جرمنی کی گین یونیورسٹی کے سائنسداں پیٹرا کیمپل وغیرہ نے اس کی ایک امکانی وجہ زمانہ حمل میں نر جنین کا مردوں کے خاص ہارمون (Testosterone) سے زیادہ فیضیاب ہونا بتایا ہے۔ جبکہ مادہ جنین کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ وکاس سنگھ ٹائمس آف انڈیا 30/1/05 لیری سمرس کے اس علمی انکشاف کے بعد دنیا بھر میں اس موضوع پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ امریکہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ امریکی اسکولوں میں اساتذہ میں خواتین اساتذہ کی تعداد 35% ہے مگر حساب اور سائنس کے میدان میں یہ تعداد 20% رہ جاتی ہے۔ ٹائمس آف انڈیا 28/1/05 ۔

ایک اور تحقیق جو کہ 7/2/05 کو شائع ہوئی اس کے مطابق مردوں کا دماغ خواتین کے مقابلہ 4 گنا تیزہوتا ہے۔ تحقیق کے مطابق مردوں کے دماغ کے خلیات Cells میں پیغامات کی ترسیل کی رفتار خواتین کی رفتار سے 4گنا زیادہ ہوتی ہے۔ ٹورنٹو یونیورسٹی کے پروفیسر ایڈ اور فلپ ورنان اور یونیورسٹی آف ویسٹرن اونٹاریو کے اینڈریو جائسن نے اپنی تحقیقات کی روشنی میں بتایا کہ ہم نے 186 مرد طلباء اور 201 طالبات پر مختلف سائنسی تجربات سے دونوں کے دماغی خلیات کی رفتار کار میں یہ فرق پایا۔ اس کی وجہ وہ یہ بتاتے ہیں کہ مردوں کے دماغی خلیات پر ایک حفاظتی مادّہ مائلین Myelin کی پرت خواتین کے خلیات کے مقابلہ زیادہ موٹی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان خلیات کے درمیان اور آپس میں خواتین کے خلیات کے مقابلہ زیادہ سرعت سے پیغامات ارسال ہوتے ہیں۔

(۲) سائنسدانوں نے پایا کہ کسی شے کو دیکھنے کے بعداس کی اطلاع کو آنکھ سے دماغ کے اُس حصہ تک پہنچنے میں جہاں سے اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے جو وقت لگتا ہے وہ مدت خواتین میں زیادہ ہے۔

راجر ڈابسن اور آئبرڈیل۔ سنڈے ٹائمز لندن بحوالہ 7/2/05 to 1 ان سائنسی انکشافات کے بعد ”جدیدیت“ اور ”سائنسی فکر“ کے حاملین نے عجیب غیر سائنسی اور اڑیل رویہ اپنایا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ اختلاف یا فرق بناوٹ کا نہیں ماحول کا ہے۔ کیونکہ عرصہٴ دراز سے خواتین کی حق تلفی ہوتی رہی ہے ان کو کمتر، کم عقل اور کمزور بتایا گیا ہے تو شاید انھوں نے بھی ایسا مان لیا ہے ورنہ اگر ان کو مردوں کے برابر مواقع ملیں تو وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ وغیرہ۔

مگر مغرب کے ہی بڑے بڑے مفکرین اور محققین بھی کوئی ”دقیانوسی ملاّ“ تو نہیں ہیں اگر وہ تجربات کی روشنی میں کچھ رائے اور نتائج پیش کررہے ہیں تو یا تو اسے مان لینا چاہئے یا اسے ردّ کرنے کے لیے علمی، عقلی ، تاریخی دلائل لانے چاہئیں۔ ورنہ بقول پروفیسر اسٹیون پنکر Steven Pinker کے کہ کسی سائنسی رائے کو پیش کردینے سے ہی اتنا مشتعل ہوجانا اور کوئی دلیل نہ دینا سچائی کو جارح بتانے جیسا ہے۔ پروفیسر موصوف اسی ہارورڈ یونیورسٹی میں علم النفسیات کے پروفیسر ہیں۔ انسانی سماج میں مرد اور عورت کی ذمہ داریاں، حقوق اور دائرئہ کار کے بارے میں جو الٰہی رہنمائی ملتی ہے اُس کے برخلاف جب بھی انسانوں نے چلنے کی کوشش کی تو یاتو عورت کو دیوی بنایا یا دیوداسی۔ مگراس کواس کا صحیح مقام، مرتبہ اور دائرئہ کار نہیں دیا۔ اس حقیقت سے کیسے انکار ممکن ہے کہ مرد اور عورت دونوں کی بناوٹ، مزاج، رجحانات، اندرونی نظام اور ہارمون کانظام اور ان کے افعال سب انتہائی مختلف ہیں۔ اب یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک جیسے ہی کاموں کے لیے اتنی الگ مخلوق بنائی جاتی؟ اگر مرد اور عورت دونوں ایک جیسے کام کرسکتے ہیں یا ایک جیسی ذمہ داریاں اٹھاسکتے ہیں تو دونوں میں اتنا واضح بدنی، ذہنی ، نفسیاتی فرق کیوں ہے؟

عورتوں کو کمزور بتاکر ان پر ظلم کرنا کسی بھی الٰہی رہنمائی کے شایان شان نہیں ہے۔ جن طاقتوں نے عورتوں کی ترقی کے نام پر انہیں 24 گھنٹہ کام پر لگادیا ہے، وہ ہی دراصل سب سے بڑے ظالم ہیں۔ ورنہ شریعت نے دونوں کو ان کے لیے موزوں دائرئہ کار مختص کیا ہے۔ اسی لحاظ سے عائلی اور سماجی قوانین بنائے گئے ہیں۔ ترغیبات کے ذریعہ حسن سلوک کی تلقین کی گئی ہے۔ اس سے بڑھ کر کیا بات ہوگی کہ آخری خطبہ میں اور آخری وصیت میں حضور اکرم … نے عورتوں سے خصوصی بہتر برتاؤ کی تلقین کی۔ جن جدید و قدیم تہذیبوں نے اس تقسیم دائرئہ کار کو نظر انداز کیا انھوں نے مردوزن دونوں کے ساتھ ظلم کیا۔ سائنس جوں جوں ترقی کرے گی اور حقیقتوں سے پردہ اٹھائے گی اسلام کا چہرہ روشن سے روشن تر ہوتا جائے گا۔ باطل کا پروپیگنڈہ بیکار جائے گا۔

$ $ $
______________________________

سائنس دانوں کو پرکھنے کا معیار اور علمائے کرام پر الزامات

Evaluating the Performance of Scientists and Blame on Ulama e Kiram

دنیا کے اندر کچھ معیارات قائم ہیں اور ان معیارات کی بنیاد پر لوگوں کو اُن کے متعلقہ شعبوں میں ان کی کارکردگی کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے، مثلاً اگر کسی اسکول کی دوسری کلاس کے طالب علم کی پرفارمنس Performance کو پرکھنا ہے تو اس کا ایک عالمی معیار بھی مقرر ہے اور ملکی معیار بھی مقرر ہے اور ایک باضابطہ امتحانی پراسس کے ذریعے سے اس طالب علم کے تعلیمی معیار کو جانچا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے اگر کسی مدرسے کے طالب علم کےتعلیمی معیار کو پرکھنا ہے تو اس کے لیے ہم وفاق المدارس العربیہ (جوکہ دینی تعلیمی بورڈ ہے) میں اس کے حاصل شدہ نتیجے کو سامنے رکھتے ہو ئےاس طالب علم کی تعلیمی استعداد اور کارکردگی کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اب چاہے وہ طالب علم کسی بھی درجے (متوسطہ، ثانویہ، خاصہ، عالیہ، عالمیہ) کا ہو، اس کی تعلیمی کارکردگی کواس کے حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر مختلف درجات ( ممتاز، جیدجدا، جید، مقبول، ضعیف ) میں رکھا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے میڈیسن، انجینئرنگ، کامرس، یا کسی اور شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی کارکردگی کو بھی آسانی کے ساتھ پرکھا جاسکتا ہے اور اس کے لیے پہلے سے متعین شدہ ’’کارکردگی کے اہم اشارے‘‘ Key Performance Indicators (KPIs)  موجود ہیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ تعلیمی بورڈ جتنا معتبر ہوگا، اتنا ہی لوگوں کا اس کے نتیجے پر اعتبار ہوگا۔

ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز کا کردار 
حکومتِ پاکستان کی جانب سے ہائر ایجوکیشن انسٹی ٹیوٹ Higher Education Institutes  (HEI) کی کارکردگی کو مؤثر بنانے اور ان کی جانچ پڑتال کے لیے مختلف ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز Accreditation Councils and Professional Bodiesکا نظم بھی باقاعدہ موجود ہے، جو کہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ ان اداروں کے تعلیمی معیارات کو جانچنے، ان کی عمومی جانچ پڑتال کرنے، اور ان کی استعداد کو بڑھانے سے متعلق تجاویز حکومتِ وقت اور ان اداروں کو بروقت دے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز، ریگولیٹری باڈیز کا بھی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں (دیکھئے: ٹیبل نمبر ۱)۔
ان ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز کی اہمیت اور افادیت سمجھنے کے لیے ہم پاکستان انجینئرنگ کونسل کو ایک مثال کے طور پر لیتے ہیں۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل جو کہ انجینئرنگ، انجینئرنگ کی تعلیم اور انجینئرنگ کے متعلقہ مسائل کو پاکستان کے اندر دیکھتی ہے، اس کے دائرہ کار کے اندر پورے پاکستان سے فارغ ہونے والے انجینئرز کو رجسٹرڈ کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان کے اندر کوئی بھی انجینئر کام نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ باقاعدہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ نہ ہوجائے۔ نیز پاکستان کے اندر مختلف کمپنیوں اور حکومتی اداروں کو ٹھیکے لینے اور کوئی بھی انجینئرنگ سے متعلق کام کی اجازت نہیں ملے گی جب تک کہ وہ پاکستان انجینئرنگ کونسل کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اُترتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان انجینئرنگ کونسل پورے پاکستان کے تمام انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے انجینئرنگ پروگراموں کو نہ صرف یہ کہ ریگولیٹ کرتی ہے، بلکہ انجینئرنگ یونیورسٹیوں کے انجینئرنگ کے نصاب کی تدوین، اس نصاب کو عصری تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کرنا اور اس نصاب کی جانچ پڑتال بھی اسی کے دائرہ کار میں آتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان انجینئرنگ کونسل، پور ے پاکستان کے انجینئرز کی نمائندہ آواز کے طور پر بھی دیکھی جاتی ہے جو کہ اپنی تجاویز حکومت کو دیتی ہے۔ اور آخر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل اس بات کو بھی یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہے کہ پوری دنیا پاکستان کی انجینئرنگ کی ڈگریوں کو عالمی سطح پر تسلیم Recognize کرے اور پاکستان کی کسی بھی انجینئرنگ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے طالب علم کو اعلیٰ تعلیم مثلاً ماسٹرز M.S اور پی ایچ ڈی P.H.D میں بین الاقوامی یونیورسٹیوں میں بغیر کسی مشکل اور پریشانی کے داخلہ مل سکے۔ اور پاکستان کی انجینئرنگ ڈگری کو آکسفورڈ یونیورسٹی، کیمبرج یونیورسٹی، ہارورڈ یونیورسٹی، اور ایم آئی ٹی کی انجینئرنگ ڈگری کے مساوی تسلیم کیا جائے۔ نتیجے کے طور پر ایک طالب علم جو کہ یونیورسٹی آف سڈنی، آسٹریلیا سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرے گا، وہ مساوی تسلیم کی جائے گی NED یونیورسٹی آف انجینئرنگ یونیورسٹی کی انجینئرنگ کی ڈگری کے۔ نیز اگر پاکستان سے فارغ التحصیل کسی انجینئر کو کسی بھی ملک میں کوئی انجینئرنگ کے شعبے میں جاب حاصل کرکے اپنی خدمات انجام دینی ہوں تو اس کو کوئی اضافی کورس یا سرٹیفکیٹ حاصل نہ کرنا پڑے۔
 

ٹیبل نمبر ۱: حکومتِ پاکستان کی مختلف ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز کے نام
پاکستان میڈیکل کونسل - میڈیسن، میڈیسن کی تعلیم اور متعلقہ مسائل کو دیکھتی ہے۔ اس کا پرانا نام پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل تھا۔
Pakistan Medical Commission (PMC) [1] 
پاکستان بار کونسل - قانون، قانون کی تعلیم اور متعلقہ مسائل کو دیکھتی ہے۔
Pakistan Bar Council     (PBC) [2] 
پاکستان انجینئرنگ کونسل - انجینئرنگ، انجینئرنگ کی تعلیم اور متعلقہ مسائل کو دیکھتی ہے۔
Pakistan Engineering Council (PEC) [3] 
پاکستان نرسنگ کونسل - نرسنگ، نرسنگ کی تعلیم، اور متعلقہ مسائل کو دیکھتی ہے۔
Pakistan Nursing Council (PNC) [4] 
پاکستان فارمیسی کونسل - فارمیسی سے متعلق مسائل اور فارمیسی کی تعلیم سے متعلق چیزوں کو دیکھتی ہے۔
Pharmacy Council for Pakistan (PCP) [5] 
نیشنل کونسل فار طب - طب، طب کی تعلیم اور متعلقہ مسائل کو دیکھتی ہے۔
National Council for Tibb (NCT) [6] 

ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کا سائنسدانوں، محققین اور پروفیسروں کو پرکھنے کا معیار
 
جس طرح یہ ساری ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز مختلف پروفیشنز کی نمائندگی کرتی ہیں اور اُن کے پرکھنے کے معیارات قائم کرتی ہیں، بعینہ اسی طرح سائنسدانوں، محققین اور پروفیسروں کو پرکھنے کےبھی اصول و معیارات مقرر ہیں۔ ہمارے وطنِ عزیز پاکستان کے اندر ہائر ایجوکیشن کمیشن Higher Education Commission (HEC) کی جانب سے تین پیمانے کسی بھی پروفیسر کو جانچنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں(7)۔ ان میں پہلا: اس کے پاس ڈاکٹریٹP.H.D کی ڈگری کا ہونا ہے۔ دوسرا: اس کا تدریس و تحقیق کا تجربہ Teaching and Research Experience اور تیسرا: اس کے سائنسی تحقیقی مقالہ جات Scientific Research Papers کی مطلوبہ تعداد میں اشاعت ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی شرائط کے مطابق BPS Scale پر پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں تقرر کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:
٭    لیکچرار Lecturerکے تقرر کے لیےصرف ماسٹرز کی ڈگری مطلوب ہے۔
٭    اسسٹنٹ پروفیسر Assistant Professor کے تقرر کے لیے صرف پی ایچ ڈی کی ڈگری مطلوب ہے۔
٭    ایسوسی ایٹ پروفیسرAssociate Professor کے تقرر کے لیے پی ایچ ڈی ڈگری کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر دس سال کا تدریس و تحقیق کا تجربہ ہو یا پانچ سال کا پی ایچ ڈی کے بعد کا تجربہ ہو، یعنی  Post P.H.D Experience، اور دس تحقیقی مقالے بھی چھپے ہوئے ہوں۔
٭     پروفیسر Professor کے تقرر کے لیے پی ایچ ڈی کی ڈگری کے ساتھ ساتھ مجموعی طور پر پندرہ سال کا تدریس و تحقیق کا تجربہ ہو یا دس سال کا پی ایچ ڈی کے بعد کا تجربہ ہو، یعنیPost P.H.D Experience، اور پندرہ تحقیقی مقالے بھی چھپے ہوئے ہوں۔
اس بات سے قطع نظر کہ یہ تقرر کے معیارات اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے سائنسدانوں، محققین، اور پروفیسروں کوپرکھنے کے پیمانے عالمی معیارات کے مطابق نہیں ہیں، مگر ابھی ہم اس بحث میں نہیں پڑ رہے، ان شاءاللہ! کسی دوسرے موقع پر اس موضوع پر تفصیلی بات کریں گے۔

پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی PCST  کا سائنسدانوں کو پرکھنے کا معیار
پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی Pakistan Council for Science and Technology (PCST) جو کہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجیMinistry of Science and Technology (MOST)  حکومتِ پاکستان کا ایک ذیلی ادارہ ہے، جس کا ایک مقصد پاکستان کے اندر وفاقی حکومت کو سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق تجاویز دینا بھی ہے، وہ پاکستان کے سائنسدانوں کوسائنس کے تمام شعبوں میں پرکھ کر پاکستان کے سب سے زیادہ نتائج دینے والے سائنسدانوں Productive Scientists of Pakistan (PSP) کی فہرست ہر سال مرتب کرتا ہے۔ وہ سائنسدانوں کو ان کی سائنسی کارکردگی کی بنیاد پر پرکھتا ہے اور ان میں جن عوامل کو وہ مدِ نظر رکھتے ہیں، وہ یہ ہیں: اس سائنسدان کی کتب جو اس نے شائع کیں، اس کو جو ملکی اور بین الاقوامی ایوارڈز ملے ہیں، اس کی تحقیق کا اثر، اس کو جو مختلف پروجیکٹس سے آمدنی ہوئی ہے، نیز اس کے تحقیقی مقالوں کا ایمپیکٹ فیکٹر اور اس کے زیرِ سرپرستی کتنے طلباء نے پی ایچ ڈی ڈگری کا حصول کیا ہے (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے: ٹیبل نمبر ۲)۔

ٹیبل نمبر: ۲، پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے سائنسدانوں کو پرکھنے کا معیار
Parameter (عوامل)

Weightage (وزن) 

Cumulative Impact Factor

%20

Citation (Total Citations, h-index, Citations per article) 

%40

Patents Granted

%5

P.H.D Supervised

%5

Books Published/Edited

%5

External Research Grants

%10

Applied Research Output/Innovation

%10

Awards

%5

 


عالمی سطح پر سائنسدانوں کو پرکھنے کا معیار
عالمی سطح پر سائنسدانوں کو مختلف پیمانوں پر اُن کی کارکردگی کی بنیاد پر پرکھا جاتا ہے اور یہ کارکردگی کے جانچنے کا معیار سائنس کے ہر شعبے کے حساب سے الگ الگ ہوتے ہیں، مثلاً کمپیوٹر سائنس کے شعبے کے سائنسدانوں کو فلکیات، طبیعات، کیمیا، یا طب کے سائنسدانوں کے معیارات کے مطابق نہیں جانچا جائے گا۔ اب ہم ان میں سے کچھ پرکھنے کے معیارات سے متعلق بات کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک معیار اس سائنسدان کا اپنے شعبے کے اندربین الااقوامی ایوارڈز کا جیتنا بھی ہے۔ پھر یہ ایوارڈز بھی سائنس کے ہر شعبے کے مطابق الگ الگ ہوتے ہیں، مثلاً ایک ایوارڈ ہے جس کو ٹیورنگ ایوارڈ ACM Turing Award کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایوارڈ صرف کمپیوٹر سائنس کے شعبے کے اندر کام کرنے والے سائنسدانوں کو ہی دیا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے کمیونیکیشن کے شعبے کے اندر کام کرنے والوں کو مارکونی پرائز Marconi Prize  (8) سے نوازا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے ریاضی کے شعبے کے اندر گراں قدر خدمات انجام دینے پر ایبل پرائز The Abel Prize  (9) سے نوازا جاتا ہے۔ اسی طریقے سے طبیعات، کیمیا، طب، لٹریچر، امن اور اکنومکس کے شعبہ جات کے اندر نوبل پرائز Nobel Prize  (10) بھی دئیے جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدانوں Highly Cited Researchers کی فہرست بھی شائع کی جاتی ہے جو کہ سائنس کے ہر شعبے کے اندر دنیا کے بہترین سائنسدانوں اور محققین کی نشاندہی کرتی ہے۔ اسی طریقے سے سائنسدانوں کی تحقیق کے معیار کو جانچنے کے لیے ببلیومیٹرکسBibliometrics کے عوامل کو استعمال کرتے ہوئے ہم کسی بھی سائنسدان کی کارکردگی کو جانچ اور پرکھ سکتے ہیں۔

علمائے کرام، مفتیانِ کرام اور دینی طبقے پر الزامات کی بوچھاڑ
ہم نے تفصیل کے ساتھ سائنسدانوں کو ملکی اور بین الااقوامی سطح پر جانچنے اور پرکھنے کےکچھ پیمانے بیان کردئیے ہیں۔ اب اگر غور کیا جائے تو چاہے یہ پیمانے ملکی سطح کے ہوں یا بین الااقوامی سطح کے، ان میں مذہب، رنگ، نسل، قومیت، فرقہ وغیرہ کو شامل نہیں کیا جارہا ہے، بلکہ سائنسدانوں کو اُن کی سائنسی کارکردگی کی بنیاد پرہی پرکھا جارہا ہے۔ سوال یہ ہےکہ پھر
٭    کیوں پاکستان کے انگریزی اخبارات کے اندر ایسے مضامین چھپتےرہتے ہیں جن کے اندر علمائے کرام اور مفتیانِ کرام پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ سائنسدانوں کو غیر سائنسی معیارات پر جانچ اور پرکھ رہے ہیں؟
٭    کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ جب تک علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کی اس سوچ کو جڑ سے ختم نہیں کردیا جاتا کہ سائنسدانوں کو مذہب اور ان کے فرقے کے مطابق نہ جانچا جائے، تب تک پاکستان ترقی نہیں کرسکتا؟
٭     کیوں ٹی وی چینلز پر اور یو ٹیوب پر بعض حضرات آکر علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور اُن حضرات پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ پاکستان کے اندر سائنس کی ترقی میں رکاوٹ یہ مُلا اور مولوی حضرات ہیں؟
٭     کیوں بعض حضرات یہ کہتے تھکتے نہیں کہ پاکستان میں چونکہ مُلا کا راج ہے تو اس وجہ سے پاکستان سائنسی طور پر ترقی نہیں کرسکا؟ 
٭     کیوں بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ سائنس اور مذہب الگ الگ ہیں اور ان مولویوں کو نہ صرف یہ کہ طاقت کے ایوانوں سے باہر رکھا جائے، بلکہ ان کو سیاست کا حق بھی نہ دیا جائے ؟ 
٭     کیوں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ مدرسے ہی اصل بیماری کی جڑ ہیں اور اگر ان مدرسوں کے نصاب کو تبدیل کیا جائے تو پھر پاکستان سائنسی میدان میں ترقی کرسکے گا؟
٭     کیوں یہ بحث چھیڑ دی جاتی ہے کہ مذہب اور سائنس الگ الگ ہیں اور اس پر اپنی طرف سے موشگافیاں کی جاتی ہیں اور خود ساختہ اور غیر مستند لوگوں کو ٹی وی پروگراموں میں بلا کر دینی طبقے کے موقف کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟
٭     کیوں یہ کہا جاتا ہےکہ دیکھو بڑی مشکل سے پاکستان نے طبیعات کے اندر ایک نوبل پرائز جیتا تھا اور اس ایک نوبل پرائز کے پیچھے بھی یہ علماء ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں اور اس سے براءت کا اظہار کرتے ہیں؟
 غرض اس طرح کے بیسیوں سوالات باقاعدہ ایک منظم طریقے سےمین اسٹریم میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے سے ہماری نوجوان نسل کےاذہان کے اندر منتقل کیے جاتے ہیں، تاکہ اُن کو مذہب سے، علمائے کرام سے، مفتیانِ کرام سے اور مدارس سے دور کیا جائے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ سوالات میرے خود ساختہ نہیں بلکہ راقم ان سوالات کو انگریزی اخبارات میں گاہے بگاہے پڑھتا رہتا ہے اور مختلف مواقع پر ان کو سنا بھی ہے۔ خیر! ابھی ہمارا موضوع ان تمام سوالات کے جوابات کا احاطہ کرنا نہیں اور ہم واپس اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔

چور مچائے شور کا عملی مظاہرہ
وطنِ عزیز پاکستان میں دینی طبقے اور خاص طور پر علمائے کرام پر یہ الزام تراشی کی جاتی ہے کہ وہ سائنسدانوں کو ان کی سائنسی کارکردگی کے بجائے ان کے مذہب، رنگ، نسل، اور دیگر عوامل کی بنیاد پر پرکھتے ہیں۔ اگر ہم اس الزام کی تفصیل میں جائیں تو ہمیں یہ بات پتہ چلتی ہے کہ علمائے کرام پر یہ صرف الزام تراشی ہے اور اس الزام کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ سائنسدانوں کو ان کی سائنسی کارکردگی کے بجائے ان کے مذہب، رنگ، نسل، اور دیگر عوامل کی بنیاد پر پرکھنے کا بنیادی سہرہ تو آپ (یعنی مغرب) ہی کے سر پر ہے، مثلاً اگر کسی یہودی النسل سائنسدان کو کوئی ایوارڈ ملتا ہے تو مغرب خود اس کی بہت زیادہ تشہیر کرتا ہے۔ اگر کسی کالے رنگ کے سائنسدان کو کوئی ایوارڈ ملتا ہے تو مغرب ہی اس کی تشہیر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی اقلیتی فرقے کے سائنسدان کو کوئی ایوارڈ ملتا ہے تو اس کی غیر معمولی تشہیر کے پیچھے بھی مغرب ہی ہوتا ہے۔ اور یہ سب مغرب  Equity, Diversity, and Inclusion کے نام پر کرتا ہے۔ مغرب اس کے ذریعے یہ باور کروانا چاہتا ہے کہ ان کے یہاں تعصب نہیں ہے اور وہ رنگ، نسل، مذہب، قومیت، اور دیگر عوامل سے بالاتر ہوکرصرف سائنسی بنیادوں پر ہی ایک سائنسدان کی کارکردگی کو پرکھتے ہیں، یعنی جب وہ یہودی النسل، کالے رنگ، یا اقلیتی فرقے کے سائنسدانوں کی بہت زیادہ تشہیر کرتے ہیں تو ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مغرب‘ رنگ، نسل، مذہب، فرقے کو نہیں دیکھتا، بلکہ مغرب نے سائنسدان کو صرف اس کی سائنسی کارکردگی کی بنیاد پر ہی جانچا ہے۔ 

علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا سائنسی باڈیزاور سائنسی اداروں پر اثر انداز ہونا
پھر ذرا خود ہی انصاف سے کام لیجئے اور دیکھئے کہ کیا ملکی سطح پر یعنی پاکستان کی سطح پر جب سائنسدانوں کی کارکردگی کو پرکھا جارہا ہے تو اس میں کون سے ادارے ملوث ہیں؟ مختلف ایکریڈیشن کونسل اور پروفیشنل باڈیز، ہائر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان کونسل فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، عصری تعلیم کے ادارے اور حکومتِ وقت۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ان اداروں میں کہاں علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا دخل ہے؟ کہاں مفتیانِ کرام مملکتِ پاکستان کے اندر سائنسدانوں کے پرکھنے کے معیارات پر اثر انداز ہو رہے ہیں؟ اگر پاکستان کے اندر سائنسدانوں کو پرکھنے کے معیارات کے اندر کوئی جھول ہے اور پاکستان کے اندر ان میں سے کوئی بھی ادارہ سائنسی کارکردگی کے بجائے رنگ، نسل، مذہب، قومیت، اور دیگر عوامل کو سائنسدانوں کی کارکردگی کا معیار بنا رہا ہے (جب کہ حقیقت میں ایسا بھی نہیں ہے)، تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ان اداروں کی کوتاہی کا الزام بھی علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کے سر تھوپ دیا جائے؟ اور پھر جب ہم عالمی سطح پر سائنسدانوں کے پرکھنے کے معیارات پر بات کرتے ہیں تو کیا نوبل پرائز سلیکشن کمیٹی میں علمائے کرام اور مفتیانِ کرام اثر انداز ہوتے ہیں؟ کیا کسی اورعالمی ایوارڈ کی سلیکشن کمیٹی میں علمائے کرام اثر انداز ہوتے ہیں؟ یقیناً بالکل ایسا نہیں ہے۔ اس کے برخلاف‘ علمائے کرام تو امانت داری اور دیانت داری کا سبق دیتے ہیں کہ ہر کام کے اندر میرٹ اور اہلیت کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بھی ایوارڈ اور تقرر کیا جائے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کے یہ دائرہ کار Mandate کے اندرہی نہیں آتا کہ وہ سائنسی پالیسی مرتب کریں تو پھر ان پر الزام کیسا؟ غرض الزام لگانے والوں کی نیت ہی میں کھوٹ ہے اور وہ سائنس کی آڑ میں عوام کو علمائے کرام سے متنفرکرنا چاہتے ہیں۔

پاکستانی سائنسدانوں اور محققین کی سائنسی کارکردگی
یہاں پر تو گنگا ہی اُلٹی بہہ رہی ہے کہ بھلا علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا کسی ایک آدھ واقعے پر سائنسدانوں ہی کی اصلاح کی خاطر ان کو متنبہ کرنا کہ آپ بعض سائنسدان اور لبرل حضرات سائنسدانوں کی کارکردگی کے معیارات کو گڈ مڈ نہ کریں تو بجائے اس کے کہ اپنی اصلاح کی جاتی، اپنے سائنس میں نکمے پن، کاہلی، کام چوری، اور کرپشن کو کم کیا جاتا، اور علمائے کرام کا شکر ادا کرتے ہوئے اپنے فرائضِ منصبی کو تندہی کے ساتھ انجام دیا جاتا، اُلٹا سائنسی دنیا میں پاکستان کی ناکامی، بے وقعتی اور زوال کا الزام بھی ان حضرات علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کے سر بڑی چالاکی کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ اب آپ ہی ذرا انصاف سے کام لیں کہ قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ان سائنسدانوں نے کتنے نوبل پرائز Nobel Prize حاصل کیے ہیں؟ کیا پاکستانی سائنسدانوں نے کبھی ٹیورنگ ایوارڈ ACM Turing Award حاصل کیا ہے؟ کتنے پاکستان کے اندر آئی ای ای ای فیلوزIEEE Fellows موجود ہیں؟ کتنے دنیا کے ایک فیصد بہترین سائنسدانHighly Cited Researchers پاکستان کے اندر موجود ہیں؟ کتنے ایبل پرائز The Abel Prize پاکستانی محققین نے حاصل کیے؟پاکستان کی کوئی بھی یونیورسٹی دنیا کے ۱۰۰ بہترین یونیورسٹیوں میں تو درکنار، دنیا کی ۵۰۰ یونیورسٹیوں میں بھی ان کا نام بڑی مشکل سے آتا ہے اور بمشکل آ بھی جائے تو اگلے سال نکل بھی جاتا ہے۔ غرض ایک طویل فہرست ہے جس سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ہماری ملکی کارکردگی مجموعی طور پر سائنس کے میدان میں کیسی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم سائنسدان اپنے سائنسی شعبوں میں مہارت حاصل کریں، خوب محنت کریں۔ کرپشن، اقربا پروری، سُستی سے بچیں اور امانت اور دیانت سے کام لیتے ہوئے ملک و ملت کا نام سائنسی دنیا میں روشن کریں، مگر صورتحال ہم سب کے سامنے ہے۔

علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کی تنخواہوں کا سائنسدانوں کی تنخواہوں اور مراعات سے موازنہ
ایک اور حیران کن موازنہ ان پروفیسروں اور سائنسدانوں کی تنخواہوں اور مراعات کی مد میں ہے۔ ہمارے سروں کے تاج علمائے کرام اور مفتیانِ کرام ہم سے کچھ نہیں مانگتے، بلکہ اُلٹا ہمارے ایمان اور ہماری نسلوں کے ایمان کی فکر کرتے ہیں اور اس کے بدلے کچھ بھی نہیں لیتے، بلکہ پوری زندگی تنگدستی ہی میں گزار دیتے ہیں۔ پاکستان کے کسی بڑے شہر کی بڑی جامع مسجد اور مدرسے کے اندر کسی عالم اور مفتی کی ماہانہ تنخواہ ۳۰ یا ۴۰ ہزار سے بھی زیادہ نہیں جاتی، جبکہ اس کے برعکس اگر ہم عصری تعلیمی اداروں کے سائنسدانوں اور پروفیسرز کی تنخواہیں دیکھیں تو الامان والحفیظ، کوئی موازنہ ہی نہیں مدرسے کی تنخواہوں سے۔ اس وقت ایچ ای سی کے ایک حالیہ نوٹیفیکیشن ۲۰۲۱ ء کے مطابق ٹی ٹی ایس Tenure Track System (TTS) Scale  کے اسکیل کے مطابق:
٭     ایک اسسٹنٹ پروفیسر Assistant Professor کی ماہانہ تنخواہ تقریباً ایک لاکھ پچھتر ہزار روپے سے شروع ہو کر تین لاکھ چھپن ہزار( 175,500 - 356,475  – Salary: Rs) تک جاتی ہے۔
٭     ایک ایسوسی ایٹ پروفیسرAssociate Professor کی تنخواہ تقریباً دولاکھ تریسٹھ ہزار ماہانہ سے شروع ہو کر چار لاکھ ترانوے ہزار ( 263,250 - 493,590  – Salary: Rs ) تک جاتی ہے۔
٭    اسی طرح ایک فل پروفیسرProfessor کی تنخواہ تقریباً تین لاکھ چورانوے ہزار ماہانہ سے شروع ہو کر چھ لاکھ چوراسی ہزار ( 394,875 - 684,450 – Salary: Rs) تک جاتی ہے۔
پھر اگر بی پی ایس اسکیل BPS Scale اور ایس پی ایس اسکیل SPS Scale کی بات کریں تو وہاں پر تنخواہوں کا پیکیچ الگ ہے۔اس کے علاوہ جو دیگر مراعات ان سائنسدانوں کو ملتی ہیں وہ الگ ہیں، جن کے اندر علاج معالجے کی سہولیات، عمدہ آفس، ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے طلباء کی رہنمائی کرنے پر علیحدہ الاؤنس اور بہت کچھ۔اس کے علاوہ جو پورے پاکستان کےاندر ان سائنسدانوں کو انفرااسٹرکچر اور دیگر ریسورسس حاصل ہیں وہ الگ۔ تو پھر ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ کی کارکردگی عالمی اور ملکی سطح پر نظر بھی آئے، مگر اس کے برخلاف آپ میں سے کچھ لبرل اور مذہب بیزار لوگوں کی بندوقوں کا رخ علمائے کرام اور دینی طبقے کی طرف ہی اُٹھتا ہے، الا ماشاء اللہ۔

قادیانیوں کا نوبل پرائز کو اپنے مذہب کی حقانیت کے طور پر استعمال کرنا
جب مسلمانوں کو اور خاص طور پر دینی طبقے کو خاص طور پر اس بات پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ کیوں مذہب کی بنیاد پر کسی سائنسدان کو جانچ رہے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مذہبی طبقہ اور علمائے کرام محض ردِ عمل کے طور پر ایسا کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اگر علمائے کرام کسی انفرادی سائنسدان کو کچھ کہہ رہے ہیں تو یہ محض ایک ردِ عمل کے طور پر ہے نہ کہ علمائے کرام عمومی طور پر تمام سائنسدانوں سے متعلق یہی رائے رکھتے ہیں، مثلاًجب ڈاکٹر عبدالسلام کو نوبل پرائز ملتا ہے اور قادیانی طبقہ ایک منظم تحریک کے ذریعے campaign  چلاتا ہے اور اپنے قادیانی مذہب کو حق ثابت کرنے کے لیے نوبل پرائز کو دلیل کے طور پر استعمال کرتا ہے تو اس کا لازمی امر یہ ہے کہ دینی طبقہ اور علمائے کرام اس کا رد کریں گےاور یہ کہیں گے کہ یہ نوبل انعام حاصل کرنا کوئی مافوق الفطرت کام نہیں ہے کہ آج تک کسی کو نہ ملا ہو۔اگر قادیانیوں کی اس بودی دلیل کو ہی دیکھا جائے تو پھر کیا عیسائی مذہب ہی اصل مذہب ہے؟ کیونکہ سب سے زیادہ نوبل پرائز جیتنے والے شاید عیسائی مذہب ہی کے پیروکار ہوں گے؟ اصل میں جب علمائے کرام ڈاکٹر عبد السلام کے نوبل پرائز کو رد کرتے ہیں تو اس کا مقصد قادیانیوں کی اس دلیل کو رد کرنا ہوتا ہے کہ آپ لوگ یعنی قادیانی اور مذہب سے متنفر ایک خاص طبقہ مذہب کو سائنس کے جانچنے کا معیار نہ بنائے اور اس رد کا مقصد نوبل پرائز کو رد کرنا نہیں ہوتا۔ بقول شاعر:

خِرد کا نام جنوں پڑ گیا جنوں کا خِرد
جو چاہے آپ کا حُسنِ کرشمہ ساز کرے

یعنی پہلے قادیانی طبقہ، لبرل طبقہ اور مذہب سے متنفر طبقہ سائنس کے علاوہ کے معیارات پر سائنس دانوں کو خود ہی پرکھے اور خوب اس کی تشہیر کرے اور پھر جب علمائے کرام اور دینی طبقہ اس کا رد کرے تو پھر انہی علمائے کرام کو اس کا موردِ الزام ٹھہرایا جائے کہ یہ تو سائنس دانوں کو غیر سائنسی معیارات مثلاً مذہب، رنگ، نسل، قومیت، فرقہ وغیرہ کی بنیاد پر پرکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ سراسر ناانصافی اور اس لبرل اور مذہب بیزار طبقے کا دوہرا معیار ہے۔ اسی بات کو ہمارے حضرت، شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی v نے بڑی تفصیل کے ساتھ اپنی ایک کتاب ’’غدارِ پاکستان‘‘ کے اندر بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر فرمایا ہے کہ کس طرح قادیانی دجل و فریب دے کر ڈاکٹر عبد السلام کے نوبل پرائز کو اپنے قادیانی مذہب کی حقانیت کی دلیل کے طور پر استعمال کرتے آرہے ہیں۔ جوحضرات اس پر مزید تفصیل دیکھنا چاہتے ہیں، وہ حضرت شہید رحمۃ اللہ علیہ کی اس کتاب کا مطالعہ کرلیں۔ 

علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا سائنسی تحقیق اور سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کرنا
جہاں تک پاکستان میں دینی طبقے، علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا تعلق ہے کہ وہ غیر مسلم سائنسدانوں کے کام کو سراہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ان کی سا ئنسی تحقیق و ایجادات کو نہ صرف سراہتے ہیں، بلکہ اس بات کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان کے اندر بھی نوجوان سائنسدان سائنس کے اندر دن دوگنی رات چوگنی ترقی کریں اور کبھی بھی دینی طبقے، علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کی طرف سے سائنس دانوں کو غیر سائنسی معیار پر نہیں پرکھا جاتا۔ ہاں! اگر کبھی سائنسدانوں کی طرف سے مذہب اور دین پر تنقید ہوتی ہے یا سائنسدان اپنے سائنسی دائرہ کار سے نکل کر مذہب کے اصولوں پر اپنی غیر منطقی رائے زنی کرتے ہیں تو یہ دینی طبقے، علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کا حق ہے کہ وہ اس کی تردید و تنقید کریں۔ اصل میں مسائل جب شروع ہوتے ہیں جب لوگ اپنے دائرہ کار سے نکل کر دوسروں کے دائرہ کار میں مداخلت کرتے ہیں۔ جب جب مذہب بیزار سائنسدانوں، لبرل طبقے اور پاکستان دشمن قوتوں کی طرف سے مذہب، رنگ، نسل، فرقے کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کیا جائے گا، تب تب ان شاءاللہ یہ بوریہ نشیں اللہ والے علمائے کرام دین کی حفاظت کے لیے اپنی پوری کوشش کرتے رہیں گے اور علمائے کرام کی طرف سے ردِ عمل بھی آئے گا۔
علمائے کرام اور مفتیانِ کرام اصولوں کی بات کرتے ہیں اور انہوں نے کبھی بھی سائنس، سائنسی ترقی، اور سائنسی تعلیم کی نفی نہیں کی ہے، بلکہ وہ تو ہر چیز کو اس کے جائز مقام پر رکھ کر حق بات کرتے ہیں۔ علمائے کرام اور مفتیانِ کرام تو اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ ہر شخص اپنے شعبے میں خوب مہارت حاصل کرے اور دنیا میں مسلمانوں کا اور خاص طور پر وطنِ عزیز پاکستان کا نام روشن کرے۔الحمدللہ! پاکستانی بحیثیتِ قوم نہ صرف یہ کہ غیر مسلم سائنسدانوں کے کام کو سراہتے ہیں، بلکہ پاکستانی عوام یہ کوشش بھی کرتی ہے کہ اپنے نوجوان طبقے کو مغرب کی اعلیٰ تعلیم گاہوں میں بھیج کر اپنے اسلام کی اس تعلیمی میراث کو دوبارہ ان سےحاصل کیا جائے۔ راقم بذاتِ خود اس کا چشم دید گواہ ہے کہ جب بھی حضرات مفتیانِ کرام اور علمائے کرام سے مشورہ لیا تو انہوں نے ہمیشہ حوصلہ افزائی ہی کی اور سائنسی علوم میں مہارت اور اپنے کام کو امانت داری اور احسن طریقے سے انجام دینے کی ترغیب دی۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح سوچ اور فکر کے ساتھ علمائے کرام کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ملک و قوم اور مسلمانوں کی خدمت کی توفیق دے، آمین یا رب العالمین!

حواشی و حوالہ جات
[1]   Pakistan Medical Commission (PMC)-https://www.pmdc.org.pk/ 
[2]  Pakistan Bar Council (PBC)-http://pakistanbarcouncil.org.pk/ 
[3]   Pakistan Engineering Council (PEC)- https://www.pec.org.pk/
[4]  Pakistan Nursing Council (PNC)-http://www.pnc.org.pk/ 
[5]   Pakistan Pharmacy Council (PCP)- https://www.pcpisb.gov.pk/ 
[6]  National Council for Tibb (NCT)-http://www.nct.gov.pk/ 
[7] HEC Faculty Appointment Criteria for Engineering, Information Technology, and Computing Disciplines, Accessed: 25 Feb 2022, https://www.hec.gov. pk/english/ services/ universities /QA /Documents /Engineering ,%20IT, %20and%20 Computing %20 discplines.pdf 
[8]   Marconi Prize - https://www.marconisociety.org/marconi-prize/ 
[9]  The Abel Prize - https://abelprize.no/ 
[10]  Nobel Prize - https://www.nobelprize.org/ 


 


______________________________

علمائے کرام اور سائنسدانوں کی ذمہ داریاں  اور کام کا دائرہ کار

تحقیق کی آڑ میں شریعت کی مَن مانی تشریح
 

اُمتِ مسلمہ کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو بہت سے فکری اور نظریاتی فرقے بنے ہیں، جن سے اُمت میں افتراق و انتشار پیدا ہوا ہے۔ اگر ان فرقوں کے بننے کے عوامل پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان فرقوں کے بننے کی بنیادی وجہ قرآن و حدیث کی مَن مانی تشریح ہے۔ قرآنِ پاک کے معنی کے لیے جو شرائط وآداب ہیں اُن سے متعلق شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس کے لیے پندرہ علومِ دینیہ میں مہارت اور دسترس حاصل کرنا ضروری ہے اور ان میں سب سے اہم علمِ وہبی ہے جو کہ حق سبحانہ تقدس کا عطیۂ خاص ہے، جو کہ وہ اپنے مخصوص بندوں کو عطا فرماتے ہیں، یعنی تھوڑی عربی جان لینے یا اردو ترجمے دیکھ کر اگر کوئی اپنی رائے داخل کرے گا تو یہ سراسر گمراہی ہوگی۔ 
اگر ماضی قریب کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے توان فتنوں کو پیدا کرنے والوں میں بعضے پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان اور ایسے نام نہاد عصری علوم و جامعات کےمحققین شامل تھے جنہوں نے اسلاف کی رائے سے ہٹ کر تحقیق کی آڑمیں شریعت کی مَن چاہی تشریح عوام کے سامنے پیش کی اور عوام کی ایک بڑی تعداد اُن کی وجہ سے گمراہ ہو گئی اور یہ گمراہی پھیلانے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ تمام پروفیسر، ڈاکٹر، انجینئر، سائنسدان، اور محققین حضرات ہی گمراہ ہوگئے ہیں، لہٰذا یہ قطعاً مناسب نہیں کہ ہم عمومی طور پر ان تمام حضرات پر ہی گمراہی کا لیبل چسپاں کردیں اور نہ ہی ایسا کرنا چاہیے۔ ماضی بَعِید میں مسلمان سائنسدانوں میں ابو ریحان محمد بن احمد البیرونی، فخر الدین رازی، ابو نصر محمد بن محمد فارابی، ابن سینا، محمد بن موسیٰ خوارزمی، امام غزالی، اور ابن خلدون جیسےقابلِ ذکر نام ہمیں نظر آتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر سائنسدان طب، فلکیات، طبیعات، کیمیا، فلسفہ، علم الکائنات (کونیات)، ما بعد الطبیعات، منطق، ریاضی اور جغرافیہ وغیرہ سائنسی علوم کے ماہر تھے اور ان میں سے کچھ کی دینی حیثیت بھی مُسَلَّم تھی، جن میں امام غزالیؒ کا نام قابلِ ذکر ہے، جبکہ ماضی قریب میں ہمیں بے تحاشا قابلِ ذکر مسلمان سائنسدان، ڈاکٹر، انجینئر، اور محققین عالمی اُفق پر نظر آجائیں گے جنہوں نے اپنے متعلقہ شعبے اورسائنس کی دنیا میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔
نیز اُمتِ مسلمہ میں بعض اِسْتِثْنائی مثالیں موجود ہیں جن میں بعض ڈاکٹر، محققین، انجینئر، اور سائنسدانوں ہی کو اللہ پاک نے اتنی مقبولیت سے نوازا کہ جنہوں نے پہلے علمائے کرام ، مفتیانِ کرام اور مشائخ کی صحبت اُٹھائی اور پھر انہی حضرات سے اللہ پاک نے اتنا کام لیا کہ وقت کے بڑے بڑے علمائے کرام نے ان سے فیض حاصل کیا ، مثلاً حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے کئی خلفاء دنیاوی شعبوں سے وابستہ تھے اور دینی اور دنیاوی شعبوں کا حسین امتزاج تھے، مگر ان مثالوں سے ہم عمومی طور پر یہ نتیجہ اخذ نہیں کرسکتے اور نہ ہی کرنا چاہیے کہ دین کی تشریح انجیئیر، پروفیسر، محققین اور سائنسدانوں کے ذمہ ہے اور نہ ہی عمومی سطح پر اس کا اطلاق کرنا چاہیے کہ ایسی پالیساں مرتب کی جائیں کہ آگے آنے والی نسلوں میں یہ اِسْتِثْنائِیَّہ مثالیں عمومیت اختیار کرلیں ۔

انجینئر، سائنس دان، ڈاکٹر وغیرہ اپنے شعبہ میں مہارت پیدا کریں
ہمارے ملکِ عزیز میں اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے، یعنی جو انجینئر، پروفیسر، محققین اور سائنسدان حضرات ہیں، بجائے اس کے کہ وہ عالمی سائنسی تحقیق میں اپنا نام روشن کریں اور اپنے سائنسی شعبے میں مہارت حاصل کرکے پوری دنیا میں اپنا لوہا منوائیں اور اُمت کو درپیش جدیدمسائل کا متبادل سائنسی حل پیش کریں، وہ اپنی ذمہ داریاں تو تندہی سے انجام نہیں دے رہے، بلکہ ان ہی میں سے بعض انجینئر، پروفیسر، محققین اور سائنسدان حضرات دینی مسائل میں اپنی رائے زنی شروع کردیتے ہیں، یعنی آپ کو بہت سارے انجینئر، پروفیسر، محققین اور سائنسدان ایسے ملیں گے کہ جن کو اُن کے اپنے سائنسی شعبے میں تو مہارت حاصل نہیں اور وہ دینی مسائل میں عوامی سطح پر فتویٰ دینا شروع کردیتے ہیں اور اپنے آپ کو دینی اتھارٹی گرداننا شروع کردیتے ہیں۔ یہ بالکل غلط روش ہے اور امُتِ مسلمہ کی تاریخ اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ جو اُمت میں گمراہی پھیلی وہ اسی روش سے پھیلی اور انہی لوگوں کی دینی کم علمی، کم فہمی اور تکبر سے اُمت نے بڑے بڑے فتنے دیکھے۔ 
دیکھیے! اگر کوئی انجینئر، پروفیسر، محقق اور سائنسدان کسی خاص شعبے کا ماہر ہے اور اس شعبے سے متعلق شرعی حکم معلوم کرنا ہے تو وہ انجینئر، پروفیسر، محقق اور سائنسدان اس شعبے کی مستند تکنیکی تفصیلات مستند دارالافتاء اور حضرات مفتیانِ کرام کی خدمت میں پیش کرے گا اور پھر یہ حضرات مفتیانِ کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلہ سے متعلق شرعی حکم بیان فرمائیں، یعنی جواز اور عدمِ جواز کا فیصلہ فرمائیں۔ یہاں ایک بات ضرور ذہن میں رہے کہ مفتیانِ کرام فرماتے ہیں کہ کسی عام شخص کو اپنی صوابدید پر جواز اور عدم جواز بیان کرنے کا حق نہیں ہے، لیکن ایک عام آدمی کو مفتی کی طرف سے جواز اور عدمِ جواز کی حکایت بیان کرنے کا حق ہے، خاص طور پر جب وہ شخص کسی سائنسی شعبے کا ماہر ہو اور اُس کو اس سائنسی ٹیکنالوجی کے معاملات اور اس کی اصل حقیقت کا علم اور ادراک ہو، مثلاً کوئی انجینئر، پروفیسر، محقق اور سائنسدان اپنی طرف سے تحقیق کرکے یہ فیصلہ نہیں کرسکتا کہ کون سی چیز جائز ہے اور کون سی ناجائز۔ البتہ یہ انجینئر، پروفیسر، محقق اور سائنسدان ، حضرات مفتیانِ کرام سے پوچھ کر اس مسئلہ کے حکم کی حکایت بیان کرسکتا ہے۔ 
خلاصہ اس بات کا یہ ہوا کہ انجینئر، پروفیسر، محقق اور سائنسدان کا قطعاً یہ کام اور ذمہ داری نہیں کہ وہ خود فتویٰ دینا شروع کردیں اور کسی چیز کی شرعی حیثیت کی وضاحت میں اپنی رائے زنی شروع کردیں، اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ اپنے دائرہ کار سے تجاوز کریں گے، اُن کا یہ عمل ضدین کا اجتماع ہوگا اور اُن کا فتویٰ بھی شرعی طور پر معتبر نہیں ہوگا۔ حضرات علمائے کرام یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ پروفیسروں، انجینئروں، ڈاکٹروں، اور سائنسدانوں سے دینی مسائل نہ پوچھے جائیں، کیونکہ اُن میں یہ صلاحیت ہی نہیں ہوتی کہ وہ صحیح دینی مسائل میں اُمت کی رہنمائی کرسکیں۔

شرعی مسائل کے استنباط کا حق کس کو ہے؟
دیکھیے! ہمیں کچھ بنیادی سوالات کے جوابات واضح طور پر معلوم ہونے چاہئیں، مثلاً: کیا شریعت میں ’’مفتی مجتہد‘‘ کے علاوہ بھی کوئی شرعی مسائل کا استخراج کرسکتا ہے؟ قرآن وسنت سے مسائل نکال سکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! کیا ’’مفتی مجتہد‘‘ کے علاوہ بھی کسی کے پاس اتنا علمی رسوخ ہوتا ہے کہ وہ شریعت کے مسائل میں اتھارٹی ہو؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ اس بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ جب بھی ہمیں شریعت سے متعلق کوئی حکم جاننا ہوگا، ہم مستند مفتیانِ کرام سے رجوع کریں گے اور انہی سے پوچھے گئے مسائل کی روشنی میں عمل کریں گے۔
 مستند مدارسِ دینیہ میں دارالافتاء میں جدید مسائل میں مختلف موضوعات پر ٹھوس شرعی تحقیق ہوتی ہے۔ ٹھوس شرعی تحقیق سے مراد یہ ہے کہ اس سائنسی موضوع کے ماہرین سے رجوع کیا جاتا ہے، سائنسی مسئلہ کی ماہیت پر غور کیا جاتا ہے ، شرعی تکییف کی جاتی ہےاور پھر کافی غور و خوض اور تحقیق کے بعد اس مسئلہ پر شرعی حُکم بتایا جاتا ہے۔المختصر، قرآنِ پاک کی تفسیر ہو یا شریعت کے احکامات بتانا، احادیث مبارکہ سے مسائل کا استنباط ہو یا مختلف احادیث کی تطبیق، عوام کو مسائل کا حکم شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے بتانا ہو یا دینی علوم میں غور وتدبر، یہ سب کام حضرات علمائے کرام کی ذمہ داریوں میں سے ہیں اور انہی پر جچتے ہیں کہ وہ اس موضوع کے ماہر ہیں۔
اب اس کے برعکس صورتِ حال پر غور فرمائیے۔ کچھ مدارسِ دینیہ میں بعض صاحبانِ علم یہ ذہن سازی کررہے ہیں کہ آپ خود ہی سائنسی مضمون کے ماہر بن جائیں، خود ہی سائنسی موضوع پر تحقیق کریں، اس پر سائنسی مقالے چھاپیں اور پھر اس سائنسی موضوع پر شرعی حکم بتائیں۔ یہ بھی سراسر غلط سوچ ہے اور غلط طریقہ کار ہے کہ فتویٰ کی بنیاد سائنسی موضوع کے ماہرین سے رجوع کیے بغیر ہی رکھی جائے۔اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس سے معاشرے میں جدید مسائل کے حوالے سے تشکیک پیدا ہوجاتی ہے اور علمائے کرام کی رائے میں اختلاف کی بنیاد پڑتی ہے، کیونکہ ایسے علمائے کرام کی سائنسی بنیاد ہی مضبوط نہیں ہوتی، اور وہ سائنسی شعبے کے ماہر نہیں ہوتے اور اپنے تئیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑے سائنسدان اور محقق بن گئے ہیں اور انہوں نے ’’مفتی‘‘ کے ساتھ ’’ڈاکٹر‘‘ کا ٹائٹل بھی حاصل کرلیا ہے، لہٰذا اب وہ خود ہی سائنسدان، معاشی ماہر، اور محقق بن گئے ہیں۔ 
الحمدللہ! پاکستان کے بیشتر مدارسِ دینیہ اور جمہور مفتیانِ کرام اس ذہن سازی سے متاثر نہیں ہوئے ہیں، بلکہ راقم نے خود کئی بڑے مستند مدارس اور جید مفتیانِ کرام کے عمل کا مشاہدہ کیا، یہ تمام حضرات الحمدللہ سائنسی شعبے کے ماہرین سے ہی سائنسی مسئلہ کی تکنیکی ماہیت سمجھتے ہیں اور پھر جدید مسائل کا حل اُمت کو پیش کرتے ہیں۔    

مسائل کا متبادل حل دینے میں احتیاط
آج کل نوجوان علمائے کرام کی ایک ذہن سازی یہ کی جارہی ہے کہ مسائل کا متبادل حل دینا علمائے کرام کی لازمی ذمہ داری ہے۔دیکھیے اس میں تو دو رائے نہیں کہ متبادل ہونا چاہیے اور بتانا بھی چاہیے اور بعض جید مفتیان کرام مسائل کا جواب دیتے وقت متبادل بھی بتا دیتے ہیں اورسائل کو نصیحت بھی فرمادیا کرتے ہیں اور ان حضرات میں ہمارے محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ نے اپنے دور میں اکابر اہلِ افتاء کی ایک جماعت کے ذریعہ یہ خدمت انجام دی تھی، جس کے بنیادی خطوط اور خاکے محفوظ ہیں۔ مگر متبادل حل دینے کی آڑ میں ناجائز کو جائز تو قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ 
نیزیہ بھی ضروری ہے کہ متبادل نصوص کے احکامات کے ذیل میں ہونا چاہیے، یعنی مثلاً شراب حرام ہے، زنا حرام ہے، سُود حرام ہے تو کیا مسلمان مفتیانِ کرام کے ذمہ فرض ہے کہ وہ زنا ، شراب، اور سُود کا متبادل دیں؟ بھئی متبادل تو شریعت نے پہلے ہی سے بتا دیا ہے، مثلاً زنا کا متبادل نکاح ہے، شراب کا متبادل دودھ یا کسی پھل کا جوس ہے، اور سُود کا متبادل کاروبار ہے، مگر متبادل ڈھونڈتے وقت یہ کہنا کہ نہیں ہم نے ہر حال میں متبادل دینا ہے اور شریعت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھنا ہے، کسی صورت بھی مناسب نہیں، مثلاً سُود کا متبادل دیتے وقت سُود ہی کی کسی نئی شکل کو جائز قرار دینا کسی صورت بھی قابلِ قبول نہ ہوگا۔ شراب کا متبادل دیتے وقت کسی نئی قسم کی شراب ہی کو جائز قراد دے دینا کسی صورت قابلِ قبول نہ ہوگا۔آپ ہی انصاف فرمائیے کہ کیا اس طرح کےمتبادل قابلِ قبول ہوں گے؟ نہیں، ہرگز نہیں! لہٰذا متبادل کی تلاش میں مسلمان مفتیانِ کرام پر ہرگز یہ لازم نہیں کہ وہ زبردستی حرام اور ناجائز چیزوں کو جائز و حلال بتلائیں۔
اسی تناظر میں ذیل کے اقتباسات بہت اہم ہیں:
1:’’بہرحال ہمارے ملک میں بڑی ضرورت ہے کہ فقہ اسلامی کی جدید تدوین کے ذریعہ جو قرآن و سنت اور حضرت حق جل ذکرہٗ اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے منشا کے مطابق صالحین کے موروثہ اثاثہ کی روشنی میں کی جائے، جدید پیدا شدہ مسائل کا حل تلاش کرکے فیصلہ کردینا چاہیے، تاکہ دینِ اسلام کا مضبوط اور حسین وجمیل قلعہ قیامت تک اعداء اور اغیار کے حملوں سے محفوظ رہے۔ مشکل سب سے بڑی یہ ہے کہ ہم یورپ کے جدید معاشی و اقتصادی نظام اور معاشرتی نظام کو پہلے ہی اپنا لیتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ جوں کا توں یہ پورا نظام اسلام کے اندر فٹ ہوجائے، یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
(دینی مدارس کی ضرورت اور جدید تقاضوں کے مطابق نصاب و نظامِ تعلیم، انتخاب از مقالات محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری قدس سرہٗ، جمع و ترتیب: مولانا محمد انور بدخشانی صاحب مدظلہٗ، صفحہ: ۱۴۲)
2:’’فقہاء کرام نے فرمایا کہ ’’جو آدمی اپنے اہلِ زمانہ سے واقف نہ ہو (یعنی اہلِ زمانہ کے طرزِ زندگی، ان کی معاشرت، ان کے معاشی معاملات اور ان کے مزاج و مذاق سے واقف نہ ہو) تو وہ جاہل ہے۔‘‘ ایک عالم کے لیے جس طرح قرآن و سنت کے احکام سے واقف ہونا ضروری ہے،اسی طرح اس کے لیے زمانہ کے ’’عرف‘‘ اور زمانہ کے حالات سے واقف ہونا بھی ضروری ہے، اس کے بغیر وہ شرعی مسائل میں صحیح نتائج تک نہیں پہنچ سکتا۔حضرت امام محمد بن الحسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں یہ بات وضاحت کے ساتھ ملتی ہے کہ فقہ کی تدوین کے دوران وہ باقاعدہ بازاروں میں جاکر تاجروں کے پاس بیٹھتے، اور ان کے معاملات کو سمجھتے تھے اور یہ دیکھا کرتے تھے کہ کونسے طریقے بازار میں رائج ہیں، ظاہر ہے کہ ان کا مقصد خود تجارت کرنا نہیں تھا، وہ صرف یہ جاننے کے لیے ان تاجروں کے پاس بیٹھتے تھے کہ ان کے کیا طریقے ہیں؟ اور ان کے درمیان آپس میں کیا عرف رائج ہے؟ اس لیے کہ ان چیزوں سے واقفیت ایک عالم اور بالخصوص ایک فقیہ اور مفتی کے فرائض میں داخل ہے کہ جب اس کے بارے میں اس کے پاس سوال آئے تو وہ اس سوال کے پس منظر سے اچھی طرح واقف ہو، اس کے بغیر وہ صحیح نتائج تک نہیں پہنچ سکتا ۔۔۔۔۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ جب کسی علاقے یا معاشرے میں ناجائز کاروبار کی کثرت ہو تو چونکہ عالم اور مفتی صرف فتویٰ جاری کرنے والا نہیں ہوتا، بلکہ وہ ایک داعی بھی ہوتا ہے، اس لیے اس کا کام اس حد پر جاکر ختم نہیں ہوجاتا کہ وہ صرف اتنا کہہ دے کہ فلاں کام ناجائز اور حرام ہے، بلکہ بحیثیت داعی اس کے فرائض میں یہ بھی داخل ہے کہ اس کام کو ناجائز اور حرام کہنے کے بعد یہ بھی بتائے کہ اس کا متبادل حلال طریقہ کیا ہے؟ وہ متبادل قابلِ عمل بھی ہونا چاہیے اور شریعت کے احکام کے مطابق بھی۔‘‘ (مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ، اسلام اور جدید معیشت وتجارت، ادارۃ المعارف، کراچی)
متبادل حل دینے میں خلطِ مبحث اور متبادل حل دینے میں علماء کرام کا دائرہ کار 
متبادل دینے کی آڑ میں بعض صاحبانِ علم خَلْطِ مَبْحَث کرچکے ہیں۔دیکھیے! متبادل کی ایک بڑی وسیع تعریف ہوسکتی ہے۔اگر شرعی تکییف کرکے یہ بتا دیا جائے کہ سُود حرام ہے اور آپ سُود سے بچیں، تو یہ تو حکم بتانے کے زمرے میں آتا ہے۔اگر یہ بتا دیا جائے کہ آپ سُود کے بدلے تجارت کرلیں تو یہ متبادل دینا کہلائے گا۔لیکن اگر مسائلِ جدیدہ میں متبادل دینے سے مُراد یہ ہے کہ حضرات علمائے کرام اپنے دائرہ کار سے ہی باہر نکل کر کام کریں تو یہ ہر گز مناسب نہ ہوگا، اس کو دو مثالوں سے سمجھتے ہیں:

متبادل حل دینے میں علماء کرام کے دائرہ کار کی پہلی مثال: حرام اجزاء پر مشتمل دوا
 
فرض کریں کہ ایک دوائی ہے جس کو بنانے میں خنزیر یعنی سور کے خلیے استعمال کیے گئے ہیں، اب اس کا حکم بتاتے وقت یہ کہا جائے کہ اس کو استعمال کرنا منع ہے تو یہ حکم بتانے کے زمرے میں آئے گا، جیسا کہ درجِ ذیل ہے:
’’کسی بھی حرام چیز کو بطورِ دوا استعمال کرنا بھی حرام ہے، الا یہ کہ بیماری مہلک یا ناقابلِ برداشت ہو اور مسلمان ماہر دین دار طبیب یہ کہہ دے کہ اس بیماری کا علاج کسی بھی حلال چیز سے ممکن نہیں ہے اور یہ یقین ہو جائے کہ شفا حرام چیز میں ہی منحصر ہے، اور کوئی متبادل موجود نہیں ہےتو مجبوراً بطورِ دوا و علاج بقدرِ ضرورت حرام اشیاء کے استعمال کی گنجائش ہوتی ہے، ورنہ نہیں۔‘‘     (فتویٰ نمبر: 144110200078 ، دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن )
 پھر اس کا متبادل دے دیا جائے کہ آپ اس حرام اجزاء والی دوائی کے بجائے فلاں حلال اجزاء والی دوائی استعمال کرلیجئے تو یہ بات بھی عقل میں آتی ہے، مگر یہ مفتیانِ کرام کا دائرہ کار نہیں کہ وہ ہر دوائی سے متعلق تحقیق کریں کہ فلاں دوائی کا متبادل کون کون سی دوائیاں ہیں؟ یہ سائل ہی کے ذمہ ہے کہ وہ حضرات مفتیانِ کرام سے پوچھ پوچھ کر مسلمان ماہر دین دار طبیب سے پوچھ کر متبادل تلاش کرے۔مسئلہ تب شروع ہوتا ہے کہ جب نوجوان مفتیانِ کرام کی ذہن سازی کی جائے اور اُن کو اس بات کی ترغیب دی جائے کہ آپ خودتحقیق کیجیے اورجدید طبی علوم کو سیکھیے اور پھر سیکھ کر اس حرام اجزاء والی دوائی کا متبادل دیجیے،یعنی نوجوان مفتیانِ کرام بذاتِ خود ایم بی بی ایس MBBS کریں، پھر ایم ڈی M.Dکریں اور پھر کلینیکل پریکٹس کریں اور طبی دواؤں پر لیبارٹری میں تحقیق کریں اور پھر حرام اجزاء والی دوائی کا متبادل دیں، یعنی مدارسِ دینیہ کے اندر طب کی تحقیق سے متعلق شعبے قائم ہوں، جس کے اندر اس مسئلے پر تحقیق کی جائے اور امت کو نئی دوائی بنا کر اس حرام اجزاء والی دوائی کا متبادل پیش کیا جائے جو کہ امت کی ضرورت کا حل ہو۔ 
ہماری گزارش ہوگی کہ یہ مسلمان علمائے کرام اور مدارس کی قطعاً ذمہ داری نہیں کہ وہ اس طرح کی تحقیق کریں، بلکہ یہ تو اُن کے دائرہ کار ہی میں نہیں آتا اور جو صاحبانِ علم اس طریقے کی ذہن سازی کررہے ہیں، ان کو خَلْطِ مَبْحَث ہوچکا ہے۔اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ امتِ مسلمہ کو اس حرام اجزاء والی دوائی کا متبادل ملنا چاہیے، مگر یہ ذمہ داری کس کی ہے؟ اس کا تعین ضروری ہے۔سب سے پہلے تو یہ مسلمان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا اہتمام کرے کہ مسلمانوں کے لیے حلال اجزاء والی دوائیاں ملک میں درآمد کرے اور عالمی دوا ساز کمپنیوں سے گفت و شنید کرے، تاکہ عالمی دوا ساز کمپنیاں مسلمان ممالک میں حلال اجزاء والی دوائیاں ہی بھیجیں، اس کے لیے مسلمان ممالک او آئی سی کا فورم بھی متحرک کرسکتے ہیں۔ نیز ملک کے اندر حکومتی حلال کمیٹیوں کے ذریعے بھی اس کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ اصولی طور پر تو مسلمان ممالک کو سائنس میں اتنی ترقی کرنی چاہیے کہ وہ خود ایسی دوائیاں ملک کے اندر بنائیں اور یہ مسلمان سائنسدانوں اور محققین کا کام ہے کہ وہ ایسی سائنسی تحقیق کریں جس سے امت کی ضرورت کو پورا کیا جائے اور متبادل حل پیش کرنا مسلمان سائنسدانوں اور اس متعلقہ شعبے کے ماہرین کی ہی ذمہ داری ہے۔

متبادل حل دینے میں علماء کرام کے دائرہ کار کی دوسری مثال: یوٹیوب کی کمائی
متبادل حلال طریقہ بتا تے وقت علمائے کرام کا دائرہ کار کیا ہوگا؟ اس کو ایک اور مثال سے سمجھتے ہیں، جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ علمائے کرام کو معاملات کی خبر ہونی چاہیے، مگر اس سے قطعاً یہ مراد نہیں ہے کہ وہ خود ہی ماہر بن جائیں۔ نیز اتنی استعداد حضرات مفتیانِ کرام میں ہونی چاہیے کہ وہ زیرِ نظر مسئلہ کی باریکیوں کو بھی سمجھ سکیں، تاکہ مسئلہ کی شرعی تکییف میں کوئی دشواری پیش نہ آئے، مثلاً اگر ایک سوال دارالافتاء میں آیا کہ یوٹیوب کے اشتہارات سے ہونے والی کمائی کا کیا حکم ہے؟تو اس سوال کے جواب میں تحقیق اور مشاہدے کے بعد حضرات مفتیانِ کرام یوٹیوب کے اشتہارات سے ہونے والی کمائی سے اجتناب کا کہتے ہیں۔
یوٹیوب کے اشتہارات سے ہونے والی کمائی کے سوال کا جواب بتاتے وقت مفتیانِ کرام نے یہ طریقہ کار اختیار کیا کہ سب سے پہلے وہ کمپیوٹر سائنس کے ماہرین سے رجوع کرکے سمجھیں گے کہ یوٹیوب پر اشتہارات کس طریقے سے کام کرتے ہیں، ان اشتہارات پر کس کا کنٹرول ہوتا ہے، یوٹیوب پر جب کوئی مونیٹائیزیشن (اشتہارات وغیرہ سے پیسے کمانا) شروع کرے گا تو اس میں کن کن عوامل کی بنیاد پر اشتہارات چلیں گے، جیسے جغرافیائی محل و قوع، سرچنگ ہسٹری، وغیرہ۔ نیز جب یوٹیوب پر کوئی اکاؤنٹ کھول رہا ہےتو وہ کیا معاہدہ کررہا ہے؟ اس میں کون کون سی بنیادی شقیں ہیں جن کو صارف نے قبول کیا ہے؟ پھرمفتیانِ کرام مختلف قسم کے اشتہارات کی اقسام کو دیکھیں گے،پھر جب کمپیوٹر سائنس کے ماہرین سے رجوع کرنے کے بعد، تحقیق اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ویڈیو بنانے والے کو اس بات کا اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنی مرضی کے اشتہار چلانے پر یو ٹیوب کو پابند کرے، اور اکثر اوقات یہ اشتہارات غیر شرعی چیزوں پر مشتمل ہوتے ہیں، اور اس کے علاوہ بھی ان اشتہارات میں کئی مفاسد ہوتے ہیں، جیسے میوزک، نامحرم کی تصاویر، اور جاندار کی تصاویروغیرہ ۔ تو ان تمام باتوں کا احاطہ کرنے کے بعد مفتیانِ کرام یوٹیوب کے اشتہارات سے ہونے والی کمائی کا حکم بتائیں گے جو کہ اس سے اجتناب کا ہے۔
اب جب حلال متبادل حل دینے کی بات آئی تو حضرات مفتیانِ کرام یہ کہیں گے کہ سائل کے ذمہ لازمی تھوڑی ہے کہ یوٹیوب کے ذریعے ہی اشتہارات سے کمائی کرے،سائل کو چاہیے کہ وہ کسی اور حلال طریقۂ کاروبار سے کمائی کرلے۔ کوئی بھی مفتیانِ کرام سے یہ توقع نہیں رکھے گا کہ پہلے وہ کمپیوٹر سائنس میں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کریں ، پھر کئی سال کمپیوٹر سائنس میں عالمی معیار کی تحقیق کریں اور پھر اس مسئلہ کا جواب دیں ۔نیزکوئی بھی مفتیانِ کرام سے یہ توقع نہیں رکھے گا کہ خود مفتیانِ کرام ہی یو ٹیوب کا متبادل دیں، یعنی یوٹیوب سے ملتا جلتا اسٹریمنگ پلیٹ فارم بنائیں جس میں نہ میوزک ہو، نہ نامحرم کی تصاویر ہوں، نہ جاندار کی تصاویر ہوں اور نہ ہی کوئی دوسرا شرعی محظور ہو،بلکہ اگر کوئی مفتی صاحب ایسا کریں گے تو وہ اپنے دائرہ کار اور حدود سے تجاوز کریں گے، کیونکہ یوٹیوب کا متبادل حل دینا کمپیوٹر سائنسدانوں کے دائرہ کار میں آتا ہے اور یہ اسلامی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ متعلقہ محکموں کے ذریعے سے یو ٹیوب جیسے متبادل پلیٹ فارمز کا اجراء کریں جن میں شرعی قباحتیں موجود نہ ہوں۔
جس طریقے سے اگر کوئی سائنسدان ، محقق، پروفیسر اور انجینئر اپنے شعبے کے دائرہ کار سے نکلےگا اور اپنے شعبے سے نکل کر شریعت کی باتوں میں دخل دے گا، قرآن و حدیث کی من مانی تشریح کرے گا، اور خود ہی فقہی احکامات نکالنے شروع کرے گا تو اس سے گمراہی پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ بعینہٖ اگر نوجوان مفتیانِ کرام تحقیق کے نام پرخود ہی سائنسدان، محقق، انجینئر اور پروفیسر بن جائیں گے اور سائنس کے شعبے میں رائے زنی کریں گے تو اس کو کس چیز سے تعبیر کیا جائے گا؟
خلاصہ یہ کہ متبادل بتانا مفتی کی ذمہ داری ہے، لیکن متبادل بنانا نہ صرف یہ کہ اس کے فرائض اور دائرہ کار سے خارج ہے، بلکہ حرام بھی ہے۔
 الحاصل پوری تفصیل کا مقصد یہ ہوا کہ علمائے کرام اور سائنسدانوں کے ذمہ لازم ہےکہ وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کریں اور اپنے فرائضِ منصبی نبھائیں، یعنی جو ذمہ داریاں حضرات علمائے کرام اور مفتیانِ کرام کی ہیں وہ اُن پر کاربند رہیں اور جو سائنسدانوں ، محققین، پروفیسر اور انجینئر حضرات کی ذمہ داریاں ہیں، وہ اُن ذمہ داریوں کو پوری تندہی کے ساتھ انجام دیں۔ اسی سے معاشرہ اِفراط وتفریط سے بچے گا اور ترقی کرے گا۔ اگر علمائے کرام اور سائنسدان اپنے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کریں گے تو اسی سے معاشرے میں اَبتری پھیلے گی اور خَلْطِ مَبْحَث پیدا ہوگا۔اللہ پاک امتِ مسلمہ کی ہر قسم کے فتنوں اور گمراہی سے حفاظت فرمائیں، آمین۔
 
______________________________

اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق
مولانا ابوعمار زاہد الراشدی
(۲۵ نومبر کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے امام ابوحنیفہؒ ہال میں ’’اسلام اور سائنس‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں پیش کی گئی گزارشات کا خلاصہ۔)


بعد الحمد والصلوٰۃ! اسلام اور سائنس کے حوالہ سے مختلف پہلوؤں پر آپ حضرات نے فاضل مقررین کے ارشادات سماعت فرمائے ہیں۔ اس موضوع پر گفتگو کے بیسیوں دائرے ہیں، میں ان میں سے ایک صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہوں گا کہ کیا اسلام اور سائنس آپس میں متصادم ہیں؟ اس لیے کہ عام طور پر یہ بات دنیا میں کہی جاتی ہے کہ مذہب اور سائنس ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ان کے درمیان بعد اور منافاۃ ہے۔ میں آج کی گفتگو میں اس سوال کا جائزہ لینے کی کوشش کروں گا۔ سب سے پہلے اس بات پر غور فرمائیں کہ مذہب اور سائنس کے باہم مخالف اور متصادم ہونے کا جو تاثر عام طور پر پایا جاتا ہے اس کے بڑے اسباب دو ہیں۔ ایک نظری اور اصولی ہے جبکہ دوسرا سبب تاریخی اور واقعاتی ہے۔ 

اصولی پہلو یہ ہے کہ سائنس کائنات کی اشیاء پر غور و فکر کرنے، ان کی حقیقت جاننے، ان کی افادیت و ضرورت کو سمجھنے، ان کے استعمال کے طریقے معلوم کرنے، ان سے فائدہ اٹھانے اور تجربات کے ذریعہ انہیں زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کا نام ہے، اور سائنس اسی دائرہ میں ہر دور میں متحرک رہی ہے۔ جب تک کائنات کی بیشتر اشیاء تجربات و مشاہدات کے دائرے میں نہیں آئی تھیں، ان پر غور و فکر کا سب سے بڑا ذریعہ عقلیات کا ہوتا تھا، اس لیے سائنس بھی معقولات کا ایک شعبہ اور فلسفے کا حصہ سمجھی جاتی تھی۔ خود ہمارے ہاں درس نظامی میں فلکیات کو معقولات کے مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا تھا لیکن جب کائنات کی متعدد اشیاء انسان کے محسوسات، مشاہدات اور تجربات کے دائرہ میں شامل ہونے لگیں تو سائنس کو معقولات اور فلسفہ سے الگ ایک مستقل مضمون کا درجہ حاصل ہوگیا اور فلسفہ اور سائنس کا رخ الگ الگ سمتوں کی طرف ہوگیا۔ اسی طرح سائنس اس دور میں تجربات و مشاہدات کے بغیر محض معقولات کا حصہ سمجھی جاتی تھی اور آسمانی تعلیمات اور فلسفہ و معقولات کے درمیان مسلسل کشمکش رہتی تھی۔ خاص طور پر اس تناظر میں یہ بحث زیادہ شدت اختیار کر جاتی تھی کہ وحی اور عقل کا باہمی تعلق کیا ہے اور ان میں سے کس کو فائنل اتھارٹی کا درجہ حاصل ہے؟ یہ دور عقل اور وحی کے درمیان کشمکش کا دور تھا جو آج بھی جاری ہے۔ چونکہ سائنس معقولات کے دائرہ کی چیز تھی اس لیے سائنس کو بھی مذہب سے الگ بلکہ اس سے متصادم تصور کیا جاتا تھا، لیکن جب سے عملی تجربات، مشاہدات اور تحقیقات کے ذریعہ سائنس کا دائرہ فلسفہ سے الگ ہوا ہے صورت حال بالکل مختلف ہوگئی ہے۔ 

ایک اور بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وحی کائنات کے حقائق کی نشاندہی کرتی ہے اور سائنس بھی انہی حقائق و اشیاء پر تجربات کرتی ہے۔ اس لیے ان دونوں کے درمیان تصادم کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ بلکہ میری طالب علمانہ رائے میں دونوں میں باہمی تقسیم کار کا ماحول سا بن گیا ہے۔ مثلاً انسانی جسم جو کہ میڈیکل سائنس کا موضوع ہے اور وہی وحی الٰہی کا موضوع بھی ہے۔ میڈیکل سائنس اس سوال کا جائزہ لیتی ہے کہ انسانی باڈی کی ماہیت کیا ہے، اس کے اعضاء کا آپس میں جوڑ کیا ہے، ان کا نیٹ ورک کیا ہے، میکنزم کیا ہے اور یہ کس طرح صحیح کام کرتے ہیں؟ جبکہ وحی الٰہی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ انسانی وجود کس نے بنایا ہے اور اس کا مقصدِ وجود کیا ہے؟ میں سائنس دانوں سے کہا کرتا ہوں کہ ہمارے درمیان کوئی اختلاف نہیں، اس لیے کہ ہمارا دائرہ کار ہی الگ الگ ہے۔ انسانی باڈی کے بارے میں دو سوالوں پر آپ بحث کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی ماہیت اور نیٹ ورک کیا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ کیسے صحیح کام کرتی ہے ، اور خرابی پیدا ہوجائے تو اسے صحیح کیسے کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ ہمارا یعنی وحی الٰہی کی بات کرنے والوں کا موضوع اس سے الگ دو سوال ہیں۔ ایک یہ کہ انسان کو بنایا کس نے ہے اور دوسرا یہ کہ کس مقصد کے لیے بنایا ہے؟ 

کسی بھی چیز کے مکمل تعارف کے لیے چار سوال ضروری ہوتے ہیں۔ (۱) یہ کیا ہے؟ (۲) یہ کیسے کام کرتی ہے؟ (۳) یہ کس نے بنائی ہے؟ اور (۴) کس مقصد کے لیے بنائی ہے؟ پہلے دو سوال سائنس کا موضوع ہیں جبکہ دوسرے دو سوال مذہب کا موضوع ہیں۔ اس لیے ان کے درمیان کوئی اختلاف اور تنازعہ نہیں ہے۔ 

مذہب اور سائنس کے درمیان اختلاف اور تنازعہ کے عوامی تاثر کی دوسری وجہ تاریخی اور واقعاتی ہے۔ وہ یہ کہ جس دور میں یورپ میں سائنسی تجربات کا کام شروع ہوا اور سائنس دانوں نے کائنا ت کی متعدد اشیاء پر عقلی بحثوں سے آگے بڑھ کر عملی تجربات اور مشاہدات کا آغاز کیا اس وقت یورپ میں مسیحی مذہب کی فرمانروائی تھی اور ریاست و حکومت میں مذہبی قیادت کو فیصلہ کن درجہ حاصل تھا۔ مسیحیت کی اس دور کی مذہبی قیادت نے ان سائنسی تجربات و مشاہدات کو مذہب سے متصادم قرار دے کر ان کی مخالفت کی اور سائنسی تجربات پر الحاد اور ارتداد کا فتویٰ لگا کر ایسا کرنے والوں کو سزائیں دینا شروع کر دیں۔ اس کا سلسلہ بہت طویل اور افسوسناک رہا ہے جس سے یہ تاثر عام ہوگیا کہ مذہب سائنس کا مخالف ہے اور مذہبی تعلیمات میں سائنسی تجربات و مشاہدات کی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کو بھی اسی پر قیاس کر لیا گیا کہ مسیحیت کی پاپائی تعبیر کی طرح اسلام بھی سائنس کا مخالف ہے۔ حالانکہ اسلام نے سائنس اور سائنسی تجربات کی کبھی مخالفت نہیں کی، بلکہ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر کائنات پر غور و فکر کی دعوت دی ہے ان میں سے ایک کا حوالہ دینا چاہوں گا کہ سورۃ آل عمران کی آخری آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آسمان و زمین کی تخلیق اور شب و روز کے اختلاف میں ارباب دانش (اولوالالباب) کے لیے آیات اور نشانیاں ہیں اور ارباب فکر و دانش یتفکرون فی خلق السماوات والارض آسمان و زمین کی تخلیق پر غور و فکر کرتے ہیں، البتہ اس غور و فکر کا ہدف ’’مقصدیت‘‘ کو قرار دیا ہے کہ وہ زمین و آسمان کی تخلیق پر غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ ربنا ما خلقت ھذا باطلاً، یا اللہ! تو نے اسے بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ 

اسلام نے کائنات کے نظام پر غور و فکر کی دعوت دی ہے اور یہ تاریخی حقیقت ہے کہ اس غور و فکر یعنی سائنسی مشاہدات و تجربات کی اصل بنیادیں مسلمانوں نے ہی فراہم کی ہیں جن پر آج پوری سائنس کی عمارت کھڑی ہے۔ اس لیے اسلام کو مسیحیت کے اس دور پر قیاس کرنا درست نہیں ہے اور یہ کہنا قطعی طور پر خلاف حقیقت ہے کہ اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم ہے۔ اس کے اس کے ساتھ یہ بھی عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ سائنس ہماری مخالف نہیں بلکہ معاون اور مؤید ہے کہ قرآن و حدیث کے بیان کردہ بہت سے حقائق کو سائنس نے عمل و تجربہ کے ساتھ ثابت کیا ہے جس سے قرآن و حدیث کی صداقت مزید واضح ہو کر سامنے آئی ہے۔ اس کے بیسیوں پہلو ہیں جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آج کی مختصر گفتگو میں ان میں سے دو تین کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔ 

قرآن کریم نے قیامت کے دن اعمال کے وزن کی بات کی ہے کہ انسان کے اعمال و اقوال کا وزن کیا جائے گا۔ اس پر اعتراض کیا گیا بلکہ ا س کی تعبیر و تشریح میں اہل سنت اور معتزلہ وغیرہ کے مابین ایک عرصہ تک اختلاف رہا کہ قول اور عمل تولنے کی چیز نہیں ہے، اس لیے کہ قول اور عمل صادر ہونے کے بعد معدوم ہو جاتے ہیں، چنانچہ بات اور عمل کا وزن نہیں کیا جا سکتا اور نہیں کیا جائے گا۔ مگر سائنس نے قول اور عمل دونوں کو محفوظ کر کے بلکہ ان کی مقدار کا تعین کر کے اس اعتراض کو ختم کر دیا، اور قرآن کریم نے اعمال کے وزن کی جو بات کی ہے اسے صحیح ثابت کر دیا۔ 

دوسری مثال یہ عرض کروں گا کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب ماں کے پیٹ میں حمل قرار پاتا ہے تو اس کے ساتھ ایک فرشتے کی ڈیوٹی لگ جاتی ہے جو ہر چالیس روز کے بعد رپورٹ پیش کرتا ہے کہ اب یہ کس کیفیت میں ہے۔ اور جب تین چلے پورے ہو کر اس میں روح ڈالنے کا وقت آتا ہے تو فرشتہ اللہ تعالیٰ سے سوال کرتا ہے کہ ما أجلہ اس کی عمر کتنی ہوگی؟ ما کسبہ اس کا کسب و عمل کیا ہوگا؟ ما رزقہ اس کے رزق کا کوٹہ کتنا ہوگا؟ اور اشقی ام سعید یہ نیک بختی یا بدبختی میں سے کس کھاتے میں شمار ہوگا، وغیر ذلک۔یہ سوال و جواب مکمل کرنے کے بعد اسے روح کا کنکشن دے دیا جاتا ہے۔ میں جب اس حدیث مبارکہ کو پڑھتا ہوں تو میرے ذہن میں سائنس کے بیان کردہ جین (Gene) کا تصور آجاتا ہے کہ جس جین کی بات سائنس دان کرتے ہیں کہیں یہ وہی فائل تو نہیں جو فرشتہ انسان کے جسم میں روح ڈالے جانے سے پہلے مکمل کر کے سیل کر دیتا ہے؟ 

ایک اور مثال بھی دیکھ لیں کہ بخاری شریف ہی کی ایک اور روایت کے مطابق جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان مرنے کے بعد جب قبر میں جاتا ہے اور مٹی میں مل جاتا ہے تو اس کے جسم کا ہر عضو بوسیدہ ہو کر خاک ہو جاتا ہے۔ اِلاعجب ذنبہ فیہا یرکب مگر اس کی دُمچی کا مہرہ فنا نہیں ہوتا، وہ باقی رہتا ہے اور اسی سے اس کی دوبارہ تشکیل و ترتیب ہوتی ہے۔ میرے خیال میں آج کی سائنس جس کلون (Clone) کی بات کرتی ہے اور جس پر کلوننگ کے ایک مستقل کام کی بنیاد رکھی گئی ہے غالباً وہی عجب ذنبہ یعنی دُمچی کا مہرہ ہے جو انسان کی دوبارہ تخلیق کی بنیاد بنے گا۔ اور وہ پہلے سے الگ وجود نہیں ہوگا بلکہ اسی کی نشاۃ ثانیہ ہوگی۔ 

ایک اور مثال بھی سامنے رکھ لیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر معراج کے مشاہدات بیان کرتے ہوئے ایک مجرم کو سزا دیے جانے کا ذکر کیا اور اس کا جرم یہ بتایا کہ وہ جھوٹ گھڑتا تھا اور یبلغ بہ الأفاق اسے دنیا کے کناروں تک پہنچا دیتا تھا۔ یہ جھوٹ گھڑنے والی بات سمجھ میں آتی تھی لیکن اسے دنیا کے کناروں تک پہنچا دینے کی بات آج سے ڈیڑھ صدی قبل سمجھ میں آنے والی بات نہیں تھی۔ مگر سائنس نے اسے بھی حقیقت ثابت کر دیا ہے کہ سچ ہو یا جھوٹ کسی بات کو آناً فاناً دنیا کے مختلف کناروں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ 

حضرات محترم! میں نے چند ارشادات آپ کے سامنے اس حوالہ سے کیے ہیں کہ اسلام اور سائنس میں کوئی تصادم نہیں ہے بلکہ اسلام سائنسی تحقیقات کی دعوت دیتا ہے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ جبکہ سائنس وحی الٰہی کے بیان کردہ حقائق کی تائید کرتی ہے اور مسلسل کرتی جا رہی ہے۔ اس لیے سائنس کے علم سے جہاں انسانی سوسائٹی کو نت نئی سہولتیں اور فوائد حاصل ہو رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ، اسی طرح یہ آسمانی تعلیمات کی مؤید اور معاون بھی ہے۔ البتہ اسے محض معروضیت کے دائرہ میں رکھنے کی بجائے ’’مقصدیت‘‘ کا پہلو بھی اس کے حوالہ سے اجاگر کرنا ہوگا اور یہی اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو تمام علوم و فنون سے صحیح استفادے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ 
______________________________

’’اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق‘‘

(فیس بک پر جناب محمد زاہد صدیق مغل کا تبصرہ)


جناب مولانا زاہد الراشدی صاحب کا 'اسلام اور سائنس' پر کالم پڑھا، مختصر تبصرہ یہ ہے:

’’سائنس کائنات کی اشیاء پر غور و فکر کرنے، ان کی حقیقت جاننے، ان کی افادیت و ضرورت کو سمجھنے کا نام ہے، ان کے استعمال کے طریقے معلوم کرنے کا نام ہے۔‘‘
نہ جانے وہ کون سی سائنس ہے جو ’’حقیقت تلاش‘‘ کررہی ہے۔ جدید سائنس، جس کا ظہور تاریخ میں ہوا، وہ تو کائنات کے ذرے ذرے کو سرمایے میں تبدیل کرکے نفع میں اضافے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔

سائنس کا دائرہ کار ’’(1) یہ چیز کیا ہے؟ اور (2) کیسے کام کرتی ہے‘‘ ہے جبکہ مذہب کا دائرہ کار ’’(3) اسے کس نے بنایا ہے‘‘ اور ’’(4) اس کا مقصد کیا ہے‘‘ ہے۔ ۔۔۔

نجانے اس دنیا کی وہ کون سی سائنس ہے جو ’’اشیاء کی مقصدیت‘‘ فرض کیے بغیر ہی کام کیے جارہی ہے۔

’’وحی کائنات کے حقائق کی نشاندہی کرتی ہے، سائنس بھی انہی حقائق و اشیاء پر تجربات کرتی ہے، اس لیے ان دونوں کے درمیان تصادم کی کوئی وجہ نہیں۔‘‘
اوپر کہا کہ ان دونوں کا دائرہ کار الگ الگ ہے، مگر ایک بھی ہے۔

مجھے تو آج تک ایسا سائنس دان نہیں ملا جو یہ کہتا ہو کہ ’’میں حقیقت تلاش کررہا ہوں‘‘، نہ ہی کوئی ایسے والدین جو اپنے بچے کو کسی سائنسی شعبے میں داخلہ دلاتے ہوئے یہ کہتے ہوں: ’’جاؤ بیٹا حقیقت تلاش کرو‘‘۔ بھائیو! یہ ’’پروفیشن‘‘ ہے، ملین بلین ڈالر پروفیشن جس کے پیچھے کارپوریٹ، ریاست و مارکیٹ اکانومی کا سٹرکچر کھڑا ہے۔ ان تینوں کے Nexus کے بغیر ٹیکنالوجیکل ترقی کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ شاید ہم پاکستانی برے لوگ ہیں، اس لئے سائنس کے ذریعے حقیقت تلاش نہیں کرتے بلکہ یورپ و امریکہ ہر جگہ لوگ اسے پروفیشن اور کیرئیر کے طور پر ہی لیتے ہیں۔

سائنس سے حاصل ہونے والے مادی فوائد کو مد نظر رکھ کر اسے اپنی طرف سے تھیورائز کرلینا کہ سائنس ایسی ہوتی ہے یا ویسی، کوئی علمی طریقہ نہیں۔ سائنس کیا ہے اور کیسے کام کرتی ہے؟ اس کے لیے فلاسفی آف سائنس میں اس سے متعلق مباحث کی ڈویلپمنٹ کو دیکھنا چاہیے۔ انہیں نظر انداز کرکے سائنس کے بارے میں اپنی طرف سے وضع کردہ نظریات کی روشنی میں کی جانے والی گفتگو بے معنی ہے۔

   ______________________________

قرآنی الفاظ کے جدید وقدیم مفاہیم کی گنجائش

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ قرآن کا کام تو محض شرعی و دینی امور سے بحث کرنا ہے۔ یہ تو مراسمِ عبودیت اور عقائد و احکام کا مجموعہ ہے۔ سائنس کی ترقی اور نئی نئی معلومات سے اسے کیا سروکار؟ نیز اگر یہ کہا جائے کہ قرآن سائنسی مواد سے بحث کرتا ہے اور جدید سائنسی معلومات سے قرآن کے بہتر فہم میں مدد ملتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پرانے لوگ قرآن کو درست طور پر نہ سمجھ سکے۔

یہ بات قرآن کی عظمت کو صحیح طور پر نہ سمجھ سکنے کی دلیل ہے۔ ہمیں یہ حقیقت کبھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ قرآن سب انسانوں اور سب زمانوں کے لیے ہے، جو لوگ جس دور میں بھی اس کا مطالعہ کریں گے، یہی محسوس ہوگا کہ یہ انہی لوگوں اور اسی دَور کے لیے نازل ہوا ہے۔ چونکہ یہ ایسی ہستی کا کلام ہے، جو ازلی و ابدی ہے اور جس کا علم سب زمانوں کو محیط ہے، گردشِ ایام جس میں کبھی بھی کوئی ترمیم و اضافہ یا اصلاح و تجدید تجویز نہیں کرسکتی۔ لہٰذا لازم تھا کہ اس کے الفاظ کی ساخت و ترکیب ایسی ہو اور اس کے معانی میں ایسی وسعت و لچک رکھی جائے کہ یہ پرانے لوگوں کی سمجھ سے بالا ہو اور نہ نئے لوگوں کو پرانا لگے۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے، جو کسی انسان کے بس کی بات نہیں۔

چنانچہ قرآن جہاں عقائد و احکام اور مراسمِ عبودیت سکھاتا ہے، وہاں وہ غلط افکار و نظریات کی تردید کے لیے تکوینی امور اور انسان اور کائنات سے متعلق حقائق کو بھی زیر بحث لاتا ہے، مگر ان حقائق کے بیان میں ایسا انداز اختیار کرتا ہے کہ ان سے جہاں نئے نئے معانی اخذ کرنے کی گنجائش باقی رہتی ہے، وہاں پرانا مفہوم (اگر وہ قرآن کے گہرے مطالعے کے بعد پوری محنت و دیانت داری سے اخذ کیا گیا تھا تو) بھی غلط قرار نہیں پاتا۔ اس سلسلہ میں مولانا شہاب الدین ندوی نے ایک مثال پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ قرآن حکیم میں کہا گیا ہے کہ: ’’ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی ہی سے پیدا کیا ہے‘‘ (الانبیاء:۳۰)۔ موجودہ دور سے پہلے اس کا مطلب یہ لیا جاتا رہا کہ تمام حیوانات نطفہ ہی سے وجود پذیر ہوتے ہیں، جو پانی ہی کی ایک شکل ہے، یا مجازاً اس کو پانی کہہ سکتے ہیں۔ یہ مفہوم اپنی جگہ بالکل صحیح تھا، مگر جدید سائنسی تحقیقات کی بدولت ایک نیا مفہوم سامنے آیا ہے، جس کے پیش نظر قرآن حکیم کے حیرت انگیز اعجاز کا حال بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ حیاتیات (Biology) کی ترقی کی بدولت اس بات کا پتا لگایا جاچکا ہے کہ تمام حیوانات و نباتات کی تشکیل یکساں قسم کے مادے سے ہوتی ہے اور خوردبینی مشاہدے سے پتا چلا ہے کہ حیوانات و نباتات کے اجسام نہایت درجہ ننھے ننھے خانوں پر مشتمل ہیں۔ ان خانوں میں ایک لیس دار چِپ چِپا اور متحرک مادّہ بھرا رہتا ہے، جس کو نخزمایہ یا پروٹو پلازم کا نام دیا گیا ہے اور کیمیائی تجزیہ سے پتا چلا ہے کہ اس مادّہ کا اکثر و بیشتر حصہ پانی ہی پر مشتمل ہے۔
اس طرح کی کئی مثالیں ہیں۔ یوں یہ بات مسلّم ہو جاتی ہے کہ قرآن حکیم کے وہ بیانات جو کسی حوالے سے کسی شعبۂ علم سے متعلق ہیں، ہر زمانے کی معلومات اپنے دامن میں سمیٹ لینے کی گنجائش رکھتے ہیں، بشرطیکہ وہ معلومات یا تو مشاہدہ میں آئے ہوئے حقائق ہوں یا ان کا تعلق ایسے نظریات سے ہو، جو متعلقہ شعبۂ علم میں آگے بڑھنے اور اس سلسلہ میں زیادہ بہتر اور درست معلومات کے حصول کی طرف رہنمائی کرتے ہوں اور منہاج کے اعتبار سے غلط نہ ہوں اور نہ ہی قرآن کے اجمالی مفہوم سے ٹکراتے ہوں۔

سائنسی علم سے فہم القرآن میں ترقی:
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ کائنات، حیات اور انسان سے متعلق سائنس جو حقائق سامنے لاتی ہے، ان سے قرآن کی بعض ان آیات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے جن میں کسی نہ کسی حوالے سے ان حقائق سے تعرض کیا گیا ہوتا ہے۔ قرآن حکیم نے اس حقیقت کی طرف ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:
سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ… (حٰم السجدۃ:۵۳)۔ ’’عنقریب ہم اُن کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان کے اپنے نفس میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی برحق ہے‘‘۔
چنانچہ سائنس انفس و آفاق میں خداوند قدوس کی جو نشانیاں دریافت کرے، ان کے پیش نظر ہم اپنے فکر کے اعتبار سے معانیٔ قرآن کو ان علمی اکتشافات کے مطابق وسعت دے سکتے ہیں۔
مغرب میں آزادانہ غور و فکر اور حیات و کائنات سے متعلق عقلی توجیہات کے حوالے سے مقتدر اہلِ مذہب کا متعصبانہ اور جارحانہ رویہ بالآخر مذہب اور سائنس کی حریفانہ کشاکش پر منتج ہوا۔ سائنس سے وابستہ لوگ ردعمل کی نفسیات کا شکار ہو کر مطلقاً مذہب کے دشمن بن گئے۔ رفتہ رفتہ مذہب اور سائنس کے تصادم اور ٹکرائو کا تصور عام ہو گیا۔ عیسائیت کے نقائص، عیسائیت کے مذہب کی واحدہ نمائندہ ہونے اور سائنس دانوں کے مذہب کے خلاف اندھے تعصب کے سبب، مغرب میں یہ سوال قابل التفات نہ سمجھا گیا کہ کوئی مذہب ایسا بھی ہو سکتا ہے، جو آزادانہ غور و فکر کے خلاف عیسائیت کے تعصبات سے بالاتر ہو؟ لیکن امرِ واقعہ یہ ہے کہ ایسا مذہب، جیسا کہ بعد کے زمانوں میں خود بہت سے مغربی اہلِ سائنس نے اعتراف کیا، اسلام کی شکل میں موجود تھا۔ اس کی الہامی کتاب نہ صرف عیسائیت اور بائبل کے برعکس ایسے کسی تعصب ہی سے آزاد تھی بلکہ غور و فکر اور مشاہدہ و تجربہ، جو سائنس کا اصل الاصول ہے، کو مہمیز لگاتی تھی۔
اسلام کی پوری تاریخ شاہد ہے کہ یہاں مذہب اور سائنس کبھی ایک دوسرے کے متوازی دھارے نہیں رہے۔ قرآن اور جدید سائنس کے تناظر میں، جدید تر دَور میں، البتہ بعض مسلمان افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں۔ بعض قرآن سے سائنس کی جزئیات نکالنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض سائنس کو شجر ممنوعہ بنانے کی۔ یہ دونوں رویے بالبداہت دو انتہائوں سے عبارت ہیں۔ قرآن سائنس کی کتاب ہے اور نہ اس سے مطلق بے تعلق۔ قرآن کا اصلی مقصود انسان کی ہدایت اور اسے دنیا و آخرت میں کامیابی کی راہ پر ڈالنا ہے۔ اس مقصد کے حوالے سے قرآن کا رویہ معروضی اور سائنٹفک ہے۔ وہ اپنے پیش کردہ نظریات و دعاوی کو گوش و نگاہ بند کرکے ماننے کے بجائے انفس و آفاق پر غور و فکر اور ان کا مشاہدہ و تجربہ کرکے ماننے پر زور دیتا ہے۔ انفس و آفاق کے مشاہدہ و تجربہ اور غور و فکر ہی پر سائنس کا انحصار ہے۔ گویا سائنس ایک ایسی چیز پر منحصر ہے، جس پر قرآن اپنے مقصد کے حصول کی غرض سے بطور ذریعہ کے زور دیتا ہے۔ انسان اور کائنات کے خالق کا ابدی اور لازوال کلام ہونے کے ناطے قرآن میں جہاں ایسی باتوں کا پایا جانا محال ہے، جو مشاہدہ میں آئی ہوئی حقیقت کے خلاف ہوں، وہاں ایسی چیزوں کا پایا جانا ناگزیر بھی ہے، جو مختلف زمانوں کے لوگوں کو اللہ تعالیٰ، اس کے پیغمبروں اور اس کے معجز کلام کی حقانیت کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ بنیں۔ چنانچہ جہاں بعض نئے سائنسی حقائق قرآن کے بعض بیانات کے بہتر فہم کا سبب بنتے ہیں، وہاں سائنسی نوعیت اور پیش گوئیوں کی قبیل کے قرآنی بیانات معروضی رویے کے حامل غیر مسلم اہل علم و سائنس کو قرآن کی جانب متوجہ کرنے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ ان شاء اللہ اس وقت تک جاری رہے گا، جب تک سب پر یہ واضح نہیں ہو جاتا کہ یہ حق ہے: سَنُرِیْہِمْ اٰیٰتِنَا فِی الْآفَاقِ وَفِیْ اَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ… (حٰم السجدۃ:۵۳)۔
استفادہ تحریر ڈاکٹر شہباز منج ، بشکریہ: ماہنامہ ’’البرہان‘‘ لاہور۔
______________________________


قرآن کی سائنسی تفسیر
ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری
مترجم: ڈاکٹر سید متین احمد شاہ

Baljon نے 1961ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب: 1880- 1960 Modern Muslim Koran Interpretation میں ایک حصہ قرآن کی سائنسی تفاسیر کے لیے خاص کیا ہے1۔تفسیر -خاص طور پر جدید دور میں – کے بارے میں بیسویں صدی کی ستر کی دھائی میں تین اور مصنفین- ذہبی، شرقاوی اور جانسن - کی سامنے آنے والے مرکزی تصانیف ، جو قرآن کی جدید تفسیر کے ساتھ خاص یا ان سے تعلق رکھتی ہیں، میں انھوں نے اس طرزِ تفسیر کے تجزیے اور وضاحت کے لیے ایک معتد بہ حصہ خاص کیا ہے2۔ یہ گفت گو انھی مطالعات کا تسلسل ہے۔ اس میں اس رجحان پر بات ہوگی اور کسی حد تک انھی موضوعات کا احاطہ ہوگا، جو دیگر اہلِ علم نے زیرِ بحث لائے ہیں؛ تاہم اس رجحان کا یہ مطالعہ گذشتہ صدی کے آخری چوتھائی حصے پر عمومی طور پر روشنی ڈالے گا۔ مصنف کی عربی، انگریزی اور اردو زبانوں سے شناسائی کے باعث یہ مطالعہ انھی زبانوں میں لکھی گئی تصانیف تک محدود ہوگا اور عرب ، جنوبی ایشیا اور انگریزی دنیا کا جائزہ لے گا۔

(1)

اٹھارویں صدی مسلمانوں اور اہلِ یورپ کے مابین کشمکش کے باب میں حدِ فاصل ہے۔ 1798ء میں مصر پر فرانسیسی قبضہ ان ممالک کے درمیان طاقت کے بدلتے توازن کا نقطۂ عروج تھا۔ اس صدی کے دوران میں مسلمانوں کو اہلِ یورپ کے ساتھ تعامل کا ایک بڑا موقع ہاتھ آیا۔ یہ تعامل زیادہ تران کی اپنی سرزمینوں پر پیش آیا جہاں ان کا سامنا یورپی فوجیوں، سائنس دانوں، اطبا، انجینئروں، تاجروں اور اہلِ انتظام سے ہوا، تاہم یورپ کے بعض حصوں میں بھی ان کے ساتھ تعامل ہوا جہاں ان کے طرزِ زندگی، اداروں اور رویوں کے بارے میں ان کی سوچ کی تشکیل ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف اگر مغربی تہذیب کے کئی ایسے پہلو تھے جنھوں نے مسلمانوں کا غصہ بھڑکایا تو دوسری طرف اس کے متعدد پہلو ایسے بھی تھے جن کی انھوں نے اپنے معاشروں میں پائے جانے والے امور سے زیادہ مدح و ستائش کی۔ یورپی جدیدیت کے پہلوؤں میں سے جس پہلو کو عام طور پر زیادہ پسند کیا گیا- اور جسے مسلمانوں نے اہلِ یورپ کی ترقی اور قوت کا سب سے بڑا عنصر بھی سمجھا – وہ ان کی غیرمعمولی ترقی تھی جو انھوں نے علم ، خصوصاً سائنس اور ٹیکنالوجی ، کے میدان میں کی3۔

مرورِ وقت کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد جدید یورپی علم، خصوصاً طبعی علوم اور ٹیکنالوجی، کی ضرورت کے ادراک کے لیے اٹھی4۔ یہ ضرورت فکری اور عملی ضرورتوں کے تحت محسوس کی گئی۔ فکری اعتبارات سے قطعِ نظر، عملی پہلو سے علمِ جدید کا حصول مسلمانوں کے لیے واحد راستہ نظر آیا جو بڑھتی ہوئی عسکری کم زوری، معاشی بدحالی اور پس ماندگی کا مداوا ہو سکتا تھا۔ انیسویں صدی کے دوران میں مسلمانوں میں جدید یورپی علم کے نفع بخش پہلوؤں سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت کا احساس بڑھتا گیا۔ کئی مسلم حکم رانوں نیز مفکرین کو شدت سے اس ضرورت کا احساس ہوا۔محمود ثانی( م 1839ء) ، محمد علی پاشا(م 1849ء)، خیرالدین تیونسی (م 1889ء)، رِفاعہ الطَہطاوی (م 1871ء)، جمال الدین افغانی(م 1897ء)، محمد عَبْدُہُ (م 1905ء) اور سرسید احمدخان (م 1898ء) نے ان علوم کے حصول کی صدا بلند کی۔ جن کے پاس سیاسی قوت تھی اور عملی سطح پر انھوں نے احوال کو بہتر بنانا چاہا – جن میں سے بعض یورپ کے خیالات اور اداروں سے متاثر تھے – انھوں نے تبدیلی کا کام شروع کر دیا۔

ہماری راے میں، قرآن کی سائنسی تفسیر کے مظہر کا آغاز ،مسلمانوں کو طبعی علوم کے حصول کے لیے مہمیز دینے کے علم کے طور پر شروع ہوا۔ یہ استدلال پیش کیا گیا کہ مسلمانوں سے ایسا کرنے کا مطالبہ اسلامی نقطۂ نظر سے ہے، اس میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں اور یہ بہت قابلِ ستائش کام ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس موضوع کے ساتھ نئے موضوعات اور دلائل جمع کیے گئے، جیسا کہ ہم دیکھیں گے۔ ان میں سے اہم ترین بات یہ تھی کہ قرآن (اور حدیث) میں ایسی متعدد سائنسی صداقتیں موجود ہیں، جن کا انکشاف نزولِ قرآن سے بہت بعد میں ، موجودہ دور ہی میں ہو سکا ہے۔ جن قرآنی آیات میں اس طرح کی سائنسی صداقتوں کا وجود سمجھا گیا، انھیں بڑی قوت کے ساتھ قرآنی کی اعجازی حیثیت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس استدلال میں یہ بات شامل تھی کہ قرآنِ کریم تخلیقِ کائنات کے بارے میں بنیادی حقائق، بلکہ سائنسی حقائق اور قوانین کے ایک بڑے ذخیرے، جیسے بگ بینگ تھیوری (Big Bang) پر مشتمل ہے۔ یہ باتیں اس حقیقت کے اثبات کے لیے بیان کی جاتی ہیں کہ قرآن، محدود انسانی علم کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے غیرمحدود علم پر مشتمل ہے۔ ان امور کی روشنی میں اب کئی مسلمان اہلِ علم کی طرف سے یہ بات کثرت سے کہی جا رہی ہے کہ قرآن نہ صرف علمِ خداوندی، حیات بعدالموت اور ان اصولوں پر مشتمل قابلِ اعتماد مصدر ہے جن پر انسانی طرزِ عمل کو استوار ہونا چاہیے، بلکہ وہ سائنسی علم کا بھی ایک قابلِ اعتماد مرجع ہے5۔ 

گذشتہ چودہ صدیوں میں تفسیرِ قرآن کے پیچھے یہ عنصر کارفرما رہا ہے کہ اس میں انسان کے لیے ہدایت کا سامان ہے تاکہ وہ موجودہ دنیا اور آخرت میں ایک اچھی زندگی گزار سکے۔ اس کا سب سے پہلا مطالبہ ایمان کا ہے جو اس بات کو ضروری قرار دیتا ہے کہ اس ایمان کے اجزا کی تفصیلی وضاحت کرے۔دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ انسان کا عمل تقویٰ پر مبنی ہو۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، آیت ’’إن الذين آمنوا وعملوا الصالحات‘‘ کی توضیح پورے قرآن میں کی گئی ہے، اس لیے یہ کہنا شاید غلط نہیں ہو گا کہ جس مرکزی بات کی طرف قرآن توجہ دلاتا ہے، وہ صراطِ مستقیم کی توضیح ہے جو ایمان اور عملِ صالح کا جامع ہے6۔ 

مسلمان ہمیشہ یہ بات سمجھتے رہے ہیں کہ قرآن انسان کی اس بنیادی ضرورت کے ضروری علم پر مشتمل ہے، تاہم انھوں نے بمشکل ہی اس کو تمام میدانوں کے لیے تفصیلی علم کا مصدر سمجھا ہے۔ جو لوگ اس نظریے کی طرف میلان رکھتے ہیں یا انھیں اس کا قائل سمجھا گیا ہے کہ قرآن میں ہر چیز بشمول سائنس کا علم ہے، معدودے چند رہے ہیں اور انھیں متعین کرنا ممکن ہے۔ اس کی وجہ سادہ ہے کہ ان کا رویہ جمہور مسلمان اہلِ علم سے منحرف رہا ہے۔محمد حسین الذہبی، جنھوں نے قرآن کی سائنسی تفسیر کی بنیادیں ابتدائی عہد کی مسلم فکری روایت میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، اس حوالے سے صرف یہ نام پیش کر سکے ہیں: غزالیؒ، جلال الدین سیوطیؒ اور ابوالفضل المُرسی7۔اس طرح کے اہلِ علم کے جو اقوال ملتے ہیں -جن سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ قرآن مخصوص سائنسی معلومات کا مصدر ہے- مبہم سے ہیں اور ان کا اسلوب یقینی نہیں ہے8۔

(2)

سائنسی تفسیر کا رجحان انیسویں صدی کے نصفِ آخر کے کچھ مسلمان اہلِ علم کی تحریروں میں نمایاں یا کسی حد تک ممتاز ہوا ہے۔ان میں سے ایک مصری طبیب محمد بن احمد الاسکندرانی ہیں جنھوں نے 1880ء میں قاہرہ سے ایک کتاب ’’كشف الأسرار عن النورانيۃ القرآنيۃ فيما يتعلق بالأجرام السماويۃ والأرضيۃ‘‘ اور ایک دوسری کتاب 1883ء میں استنبول سے شائع کی۔اس کتاب کا عنوان’’تبيان الأسرار الربانيۃ في النبات والمعادن والخواص الحيوانيۃ‘‘ تھا۔ان دونوں کتابوں میں مصنف نے طبعی علوم سے متعلق بعض سوالات کی تشریح ان قرآنی آیات کی روشنی میں کی ہے جو مصنف کو سوالات کے جواب کے سلسلے میں مفید مطلب معلوم ہوئیں۔ مصر میں اس رجحان کی ترجمانی احمد مختار الغازلی (مصنف’’رياض المختار‘‘) ، طبیب عبداللہ فکری باشا، محمد توفیق صدقی (م1920ء، مصنفِ کتاب’’الدين في نظر العقل الصحيح‘‘، قاہرہ 1323ھ) اور عبدالعزیز اسماعیل، (مصنفِ کتاب’’الإسلام والطب الحديث‘‘، قاہرہ 1938ء) نے کی۔

تاہم یہ رجحان طنطاوی جوہری کی تحریروں، خصوصاً ان کی تفسیر’’الجواھر في تفسير القرآن الكريم‘‘ (1940ء)، میں اوجِ کمال پر پہنچا9۔ یہ 26 جلدوں پر مشتمل ضخیم کتاب ہے۔ جوہری نے بڑے زوروشور سے کہا کہ قرآن کی 750 آیات ایسی ہیں جو واضح طور پر طبعی کائنات سے متعلق ہیں۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر متعدد دیگر آیات بھی ہیں ، جو، ان کے نزدیک، اگرچہ طبعی کائنات سے اس سطح کا براہ راست تعلق نہیں رکھتیں۔ دوسری طرف جوہری کہتے ہیں کہ قانونی امور سے متعلق آیات 150 سے زیادہ نہیں ہیں10۔  وہ مسلمان اہلِ علم پر سخت انداز میں تنقید کرتے ہیں کہ انھوں نے قرآن کے اساسی اہمیت کے موضوع، طبعی علوم، سے لاعلمی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کے بجائے فقہ پر زیادہ توجہ مبذول کی ہے، جوان کے نزدیک، کم اہمیت کی چیز ہے۔ جوہری یہاں ایک بار پھر مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اپنی ترجیحات کی ترتیب تبدیل کریں اور سب سے زیادہ اہمیت طبعی علوم کو دیں۔ حسبِ ذیل اقتباس اس موضوع پر جوہری کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتا ہے:

اے امتِ اسلام!... میراث کی چند ایک آیات ہیں، جن میں ریاضی کا صرف ایک حصہ شامل ہے، لیکن ان 750 آیات کا کیا کیجیے جن میں کائنات کی تمام نیرنگیاں سما گئی ہیں؟ یہ سائنس کا دور ہے، یہ [اپنی مکمل شکل میں ] نورِاسلام کے ظہور کا زمانہ ہے، یہ عہدِ ترقی ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ ہمیں کونی علوم سے متعلق آیات پر اسی نہج پر توجہ کیوں نہیں دینی چاہیے جس پر چل کر ہمارے اسلاف نے آیاتِ میراث پر توجہ دی؟ میں، الحمد للہ، یہ بات کہتا ہوں کہ آپ کو اس تفسیر میں سائنسوں کا لُبِ لُباب ملے گا۔ ان علوم کا مطالعہ، میراث کے مطالعے سے زیادہ برتر ہے، کیوں کہ اول الذکر کی حیثیت ’فرضِ کفایہ‘ کی ہے، جب کہ ثانی الذکر کا مقصود علم میں ترقی ہے جو عمیق ایمان کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کی حیثیت ہراس شخص پر ’فرضِ عین‘ کی ہے جو ان کے حصول کی صلاحیت رکھتا ہو11۔ 

اوپر کی بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ابتدائی مراحل میں، جنوبی ایشیا کے علما کے مقابلے میں، مصری علما ’سائنسی تفسیر‘ کے حوالے سے زیادہ معروف تھے، اگرچہ یہ بات درست ہے کہ جنوبی ایشیا میں سرسید احمد خان سائنس اور سائنسی افکار سے بہت لگاؤ رکھتے تھے اور ان کی دینی آرا پر ان کے عہد کے سائنسی خیالات کا رنگ موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں سرسید کے ہم مذہبوں کی نظر میں وہ اس معاملے میں اس حد تک جا چکے تھے کہ انھیں ’نیچری‘ کا تحقیر آمیز خطاب ملا۔ سرسید نے قرآنی آیات کے ایک بڑے حصے کی تفسیر طبعی علوم کے دائرے میں رہ کر کی، یہاں تک کہ انھوں نے معجزات پر مبنی آیات کی تشریح بھی اسی انداز سے کی۔ سرسید کا کہنا تھا کہ سائنسی حقائق تک رسائی کے لیے سماوی صحیفوں کی طرف دیکھنے کے بجائے ابتدائی طور پر سائنسی طریقِ کار اختیار کرنا چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ سرسید نے مذہب اور سائنس کے مابہ النزاع امور کے ساتھ ایک طویل عرصہ زورآزمائی کی اور ایسے اصولوں کے استخراج کی کوشش کی جو دونوں کے درمیان مطابقت کا کام دے سکیں۔ اس کشمکش کے حل کے لیے انھوں نے فطرت کو ’Work of God‘ (فعلِ خداوندی) اور قرآن کو (جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں) ’Word of God‘ (قولِ خداوندی)کہا۔ ان کا یہ پختہ نظریہ تھا کہ ’ورڈ آف گاڈ ‘اور ’ورک آف گاڈ ‘میں کبھی تعارض نہیں ہو سکتا۔ جن صورتوں میں کہیں تعارض ہے تو اس کے حل کے لیے سرسید نے مختلف اصول وضع کیے۔ تاہم جب ہم ان کی تفسیر یا تحریروں کے متعلقہ حصوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو بلاشبہ یہ بات نظر آتی ہے کہ ان کا رجحان ’ورک آف گاڈ‘ کی طرف ، ’ورڈ آف گاڈ‘ کی بنسبت زیادہ ہے12۔

مُرُورِ وقت کے ساتھ سائنس اور مذہب (یا صحیح لفظ میں اسلام) کے درمیان خطوطِ امتیاز موجودہ صدی میں کئی مسلم مفکرین کے ذہنوں میں دھندلے ہوتے چلے گئے، تاہم اس رجحان کا ارتقا اسلام اور سائنس کے تعلق اور طبعی علوم کے مسائل کی تفہیم سے تعلق رکھنے والی آیات کی تفسیر کے صحیح منہج کےحوالے سے ایک نہیں بلکہ کئی نقطہ ہاے نظر اور رجحانات کے ظہور کا باعث بنا ہے۔

ایک موضوع جس سے سابقہ، معاصر اسلامی مباحث میں کثرت سے پیش آ رہا ہے، یہ ہے کہ قرآن سائنس کے حصول کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کی وضاحت کے لیے متعدد آیات کا حوالہ دیا جاتا ہے جن میں اللہ کی نشانیوں کے طور پر قدرتی مظاہر کا ذکر کیا جاتا ہے یا جن میں انسان کو ان مظاہر پر تدبر اور مشاہدے کی ترغیب دی جاتی ہے13۔  دوسرے لفظوں میں یہ آیات اس غرض کے لیے بیان کی جاتی ہیں کہ قدرتی مظاہر کے صحیح مشاہدے سے انسان کا سائنسی علم ترقی کرتا ہے جو کہ مطلوب ہدف ہے۔ اس طرح سائنس کا حصول نہ صرف کائنات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ علم (کائنات میں جاری قوانین کا علم ) حاصل کرنے اور اسے مسخر کرنے کی انسان کی مخفی تمنا کا جواب ہے، بلکہ یہ ایک دینی عمل اور فریضہ بھی ہے۔

اس تصور کی سب سے طاقت ور تعبیر ہمیں جنوبی ایشیا کے معروف فلسفی شاعر محمد اقبال (م1938ء) کے ہاں ملتی ہے۔ اس فکر کی تعبیر یوں تو ان کے مختلف اشعار میں بیان کی گئی ہے، لیکن سب سے زیادہ مؤثر اور مربوط انداز میں ، جیسا کہ توقع کی جا سکتی ہے، اسے The Reconstruction of Religious Thought in Islam میں بیان کیا گیا ہے۔ اقبال نے قرآن کی کئی آیات نقل کی ہیں جو یا تو فطرت کے مظاہر میں (خدا کی) ’نشانیوں‘ کو بیان کرتی ہیں، یا اہلِ ایمان کو ان پر غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتی ہیں۔ اس سلسلے میں انھوں نے تقریباً وہی آیات نقل کی ہیں جنھیں موجودہ صدی کے دیگر مسلم اہلِ علم نے نقل کیا ہے14،  لیکن اقبال نے ان آیات کو نسبتاً بڑی معنویت کا جامہ پہنایا ہے۔ ایک تو اس پہلو سے کہ ان آیات نے مسلم فکر کی تشکیل میں کردار ادا کیا ہے اور نتیجتاً تاریخِ انسانیت پر ان کا اثر بہت گہرا ہے۔

اقبال کا خیال ہے کہ اس کائناتی تدبر میں قرآن کا براہِ راست ہدف ، انسان میں اس چیز کا شعور اجاگر کرنا ہے، جس کی علامت یہ فطرت ہے15۔  اقبال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ آیات جو کائنات پر تدبر کی دعوت دیتی ہیں، وہ اسلامی ثقافت کی حقیقی روح کی ترجمان ہیں، کیوں کہ معرفت کے مقاصد کے لیے ان کا ارتکاز متناہی اور محسوس امور پر ہوتا ہے16۔  یہ علامت فکر اور اسلامی تہذیب کی امتیازی علامت ہے جو اسے یونانی فکر سے ممتاز کرتی ہے جس کے ساتھ اپنی تاریخ کے آغاز میں اسے تعامل کا سابقہ پیش آیا تھا۔ یونانی فکر زیادہ تر حقیقت کے بجائے نظریے سے اعتنا کرتی ہے۔ یہ بات سمجھنے کے لیے ہم اقبال کی طرف رجوع کرتے ہیں:

قرآن حقیقتِ اعلیٰ کی نشانیاں فطرت کے تمام مظاہر میں دیکھتا ہے جو انسان کے حسی ادراک پر منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان نشانیوں پر غور و فکر کرے اور ان سے ایک اندھے اور بہرے انسان کی طرح اعراض نہ کرے، کیوں کہ وہ انسان جو ان آیات کو اپنی اس زندگی میں نہیں دیکھتا، وہ آنے والی زندگی کے حقائق کو بھی نہیں دیکھ سکے گا۔ زندگی کے ٹھوس حقائق کے مشاہدے کی اس دعوت اور نتیجتاً آہستہ آہستہ پیدا ہونے والے اس احساس سے قرآن کی تعلیمات کے مطابق کائنات اپنی اصل میں حرکی اور متناہی ہے اور فروغ پذیری کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مسلم مفکرین اور اس یونانی فکر کے درمیان کشمکش کی کیفیت پیدا ہوئی جس کا انھوں نے اپنی فکری تاریخ کی ابتدا میں بڑے انہماک سے مطالعہ کیا تھا17۔ 

اوپر ذکر کردہ وجوہات کی بنا کر یہ بات باعثِ تعجب نہ ہو گی کہ اقبال کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ اسلام کا ظہور ، استقرائی عقل کا ظہور تھا18۔  اقبال مسلمان اہلِ علم اور سائنس دانوں کے کردار سے واقف تھے جو انھوں نے علم کی مختلف شاخوں، جیسے ریاضی، فلکیات، طبیعیات اور کیمیا میں ادا کیا۔ یہ حصہ اگرچہ علم کے متعین میدانوں سے تعلق رکھتا ہے، تاہم جس چیز نے اقبال کو حقیقی معنیٰ میں خوشی سے سرشار کیا، وہ عقلِ انسانی کے ارتقا میں اسلام کا تاریخی رول تھا۔ تاریخ میں اسلام کا مرکزی کردار یہ تھا کہ اس کی تعلیمات کے زیرِ اثر سائنسی روح اور سائنسی منہاج کا وہ راستہ ہم وار ہوا جو آج کی جدید سائنس کی برومندیوں کا مصدر ہے19۔ 

اقبال نے جس بات پر زور دیا ہے، وہ اسلام اور سائنس کے سوال کی معاصر بحث کا ایک جزوِ لاینفک بن چکی ہے۔ اس موضوع پر لکھنے والے متعدد عظیم مسلم مصنفین پورے طور پر اس بات کے قائل ہیں کہ فطری مظاہر سے تعلق رکھنے والی یا ان پر غور و فکر پر ابھارنے والی آیات کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ سائنسی ابحاث میں دل چسپی لیں اور یہ چیز اسلام کے ضروری مطالبات میں سے ہے۔جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا، اقبال اس بات سے آگاہ تھے کہ قرآن کی طرف سے عائد کردہ اس تدبرِ فطرت کا بنیادی ہدف ، انسان میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا ہے، جس کی یہ فطرت ایک علامت ہے20۔  اس موضوع پر جو لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے، اس کے وسیع مطالعے اور اس باب میں پیش کیے گئے اساسی امور پر توجہ مبذول کرنے سے انسان جو تاثر لیتا ہے وہ یہ ہے کہ اقبال کا مذکورہ بالا ملاحظہ (جس کی بنت کاری اتنے مربوط اور دقیق اسلوب میں کی گئی ہے کہ معدودے چند عقول ہی اسے گرفت میں لے سکتی ہیں۔ )اپنے قارئین اور سامعین پر قابلِ ذکر اثر نہیں مرتب کر سکا۔ ذاتی طور پر اقبال کا روحانیتِ اسلام اور اس کی تعلیمات پر یقین اس قدر راسخ اور ان کی ذات کا جزوِ لازم تھا کہ ان کے نزدیک مشاہدۂ کائنات کے تصور سے خالق کی تذکیر ایک ناگزیر امر ہے۔ اقبال کے بعد کی نسلوں کے ہاں بظاہر لگتا ہے کہ مظہرِ فطرت ان کے ہاں زیادہ سے زیادہ ’سائنسیت‘ اور انسان کی خدمت کے لیے قوانینِ فطرت کی دریافت کا نام ہے۔

(3)

حالیہ عشروں میں مسلمان اہلِ علم نے اس گفت گو کے ضمن میں ایک موضوع متعارف کروایا ہے، جو اگرچہ اس سے پہلے بھی اسلامی روایت کا جز رہا ہے، تاہم وہ کسی حدتک نیا ہے۔ ہم یہ بات دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح اقبال نے پوری قوت سے تجربی طریقِ کار کو متعارف کروانے میں اسلامی کلچر کے رول پر زور دیا ہے جو ان کے نزدیک سائنسی حقائق تک رسائی کا وسیلہ ہے، تاہم ایسا نہیں لگتا کہ اقبال تجربے اور مشاہدے پر اعتماد کیے بغیر محض قرآن کے گہرے مطالعے کی اساس پر یہ باور کرتے ہیں کہ علم کی حدود اور آفاق کی توسیع کی جا سکتی ہے اور یہ کہ صرف سماوی کتاب سائنسی تحقیق کا بدل ہو سکتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اسلام اور سائنس کی حالیہ بحث میں ایسے کوئی حتمی تصورات نہیں ملتے جو تجربی طریقِ کار کے مؤثر ہونے کی نفی کرتے ہوں، تاہم اس تصور پر زور دیا جاتا ہے کہ قرآن سائنسی حقائق کا خزینہ ہے۔ معاملہ یوں ہے کہ انسان اکثر اس بات پر متحیر ہوتا ہے کہ دو مصادر -قرآن اور سائنس دانوں کے استعمال کردہ تجربی طریقِ کار- کے درمیان اصل تعلق کیا ہے؟ تاہم یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔

بظاہر لگتا ہے کہ قرآن کے تمام علوم کا مخزن ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے جو بات محرک ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن پر لوگوں کے ایمان کو راسخ کیا جائے۔دوسرے لفظوں میں اس کا مقصود یہ ثابت کرنا ہے کہ دیگر اسبابِ اعجاز -لغوی وغیرہ- کے علاوہ قرآن اعجاز کے ایک بہت مؤثر پہلو، سائنسی اعجاز کا بھی حامل ہے21۔

ایک معروف معاصر ماہرِ ارضیات زغلول نجار ہیں جو علومِ ارض کے ساتھ اسلام سے متعلق بھی وسیع علم رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن تکرار کے ساتھ پہاڑوں کے زمین کی میخیں ہونے کا تصور پیش کرتا ہے۔ یہ پہاڑ زمین کی اوپر کی سطح کو نہ صرف ہلنے سے روکے ہوئے ہیں، بلکہ وہ زمین کے ٹھہراؤ کے لیے میخوں کا کام بھی دیتے ہیں۔ نجار کہتے ہیں کہ یہ حقیقت قرآن کے نزول کے تیرہ صدیوں کے بعد انیسویں صدی کے نصف میں جا کر معلوم ہو سکی ہے22۔  پہاڑوں کے بارے میں آخری دور میں علوم جن حقائق تک پہنچے ہیں، ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نجار کہتے ہیں: ’’یہ ان بے شمار شہادتوں کی چند مثالیں ہیں جو قرآن کے الوہی مزاج اور رسالتِ محمدیہ کے صدق کا اثبات کرتی ہیں کہ کسی بھی انسان کو انیسویں صدی کے نصف سے پہلے ان حقائق کا پتا نہیں تھا اور 1960ء سے پہلے یہ بات اس شکل میں سامنے نہیں آئی تھی۔ ‘‘23

موریس بوکائی کی کتاب بائبل، قرآن اور سائنس گذشتہ دو عشروں سے مسلمانوں میں نہایت مقبول رہی ہے۔ اس کتاب کا مرکزی تصور یہ ہے کہ سائنسی طریقِ کار سے قطعی طور پر ثابت شدہ مواد اور وحی کے مابین کوئی تعارض نہیں ہے۔ بوکائی بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے قرآنی متن اور جدید سائنسی حقائق کے درمیان مطابقت کا مطالعہ کیا ہے24 اور اس مطالعے نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا ہے کہ قرآن میں کوئی ایک بھی بیان ایسا نہیں ہے کہ جدید سائنسی نقطۂ نظر سے اس کی تردید ممکن ہو25۔  انھوں نے اسی طریقِ مطالعہ کو بائبل پر بھی منطبق کیا لیکن نتائج بالکل مختلف تھے۔ یہاں تک کہ اس کی پہلی کتاب، کتابِ پیدائش میں ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو جدید سائنسی حقائق سے مکمل طور پر بعید ہیں۔)26 (یہ بات اہم ہے کہ بوکائی نے کتاب کا اختتام ان الفاظ پر کیا ہے:

حضرت محمد ﷺ کے زمانے کی معلومات کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے یہ بات ناقابلِ تصور معلوم ہوتی ہے کہ قرآن کے بہت سے وہ بیانات جو سائنس سے متعلق ہیں، کسی بشر کا کام ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات مکمل طور پر صحیح ہے کہ قرآن کو وحی ِ آسمانی کا اظہار سمجھا جائے، لیکن ساتھ ہی اس استناد کے سبب جو اس سے فراہم ہوتی ہے، نیز ان سائنسی بیانات کی وجہ سے جن کا آج بھی مطالعہ کرنا بنی نوعِ انسان کے لیے ایک چیلنج ہے، اس کو ایک انتہائی خصوصی مقام حاصل ہے27۔ 

مصر کے عبدالرزاق نوفل نے اسلام اور سائنس کے تعلق پر متعدد معروف کتابیں تحریر کی ہیں۔ اپنی کتاب القرآن والعلم الحديث کے بالکل ابتدائی باب إعجاز القرآن میں مصنف قرآن کو ایک ’معجزۂ سرمدی‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ ذکر کرتے ہیں کہ ماضی میں مسلمانوں نے قرآن کے مختلف پہلوؤں پر زور دیا جیسے اس کی بلاغت، ادبی اسلوب، نغماتی وصف، پیش گوئیاں (جن کی تائید رونما ہونے والے واقعات نے کی۔) اور اس کے تشریعی احکام28۔  نوفل آگے چلتے ہوئے کہتے ہیں کہ عصرِ حاضر میں قرآن کا سائنسی اعجاز ، ناقابلِ انکار حقیقت بن گئی ہے۔ ’’جدید دور میں علوم کی فکری پیش رفت نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ قرآن ، سائنس کی کتاب ہے جس نے تمام علوم و حکمت کی بنیادیں پیش کر دی ہیں۔جب بھی علم کی کوئی نئی شاخ سامنے آتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن نے یا تو پہلے ہی اس طرف متوجہ کیا ہوتا ہے یا کم از کم اس کی طرف اشارہ دیا ہوتا ہے۔‘‘29  نوفل آگے چل کر قرآن کے سائنسی معجزات کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں وہ سب سے پہلے قرآن کی ایک یا زائد آیات ذکر کرتے ہیں اور پھر ہمارے دور کے مسلمہ سائنسی نظریات پیش کرتے ہیں جو قرآن سے مطابق معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن کہتا ہے:’’أنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاھُمَا ‘‘(الأنبياء: 21: 30۔) (آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انھیں پھاڑ دیا۔) جب Laplace نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا، تو نوفل کہتے ہیں: ’’یہ بات سائنس کی فتح مندی سمجھی گئی، اگرچہ قرآن نے یہ بات صدیوں پہلے کہ دی تھی۔‘‘(کذا) 30   نوفل کہتے ہیں کہ ’’اگر ہمیں غیر عرب دنیا کو بھی مخاطب کرنا ہے کہ قرآن ایک سائنسی معجزہ ہے، [ایسی کتاب] جو جدید سائنس کی مبادیات ، حتی کے اس کی نئی ترقیوں پر بھی مشتمل ہے، تو پھر کیا قرآن کا یہ معجزاتی پہلو اہلِ مغرب کو اس کی اعجازی نوعیت کے بارے میں قائل کرنے کے لیے کافی نہیں ہوگا؟ ‘‘31

ایک دوسرا علمی کام جو مسلمانوں میں غیر معمولی دل چسپی کا موجب بنا ہے، کیتھ ایل مور(Keith L.Moore) کی علم الجنین (Embryology) پر معروف کتابThe Developing Human ہے۔ ہم یہاں اس کے تیسرے ایڈیشن کا حوالہ دے رہے ہیں جو عبدالمجید زِندانی کی طرف سے’’ قرآن و حدیث کے تعلق سے مطالعہ: اسلامی اضافہ جات کے ساتھ‘‘ شائع ہوا تھا۔ زندانی یمن کے معروف عالم ہیں جو اعجازِ قرآن و سنت کی کمیٹی (جس کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔) کے روحِ رواں رہے ہیں۔

مُور کی کتاب پر اپنے دیباچے میں وہ ذکر کرتے ہیں کہ اس کتاب کا متن پہلے والا ہی ہے ’’البتہ انسانی جنینیات کے حوالے سے قرآن وسنت کے بیانات کے متعدد حوالہ جات کا اضافہ کیا گیا ہے۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں: ’’اول تو مجھے علم الجنین کے وجود سے پہلے ساتویں صدی عیسوی میں محفوظ کیے گئے ان بیانات کی درستی پر حیرت ہوئی۔ اگرچہ مجھے دسویں صدی میں شان دار مسلم تاریخ کے سائنس دانوں اور طب کے میدان میں ان کی کچھ کارکردگی سے شناسائی تھی، لیکن مجھے قرآن وسنت میں موجود حقائق کا کچھ پتا نہیں تھا۔ اسلامی اور دیگر طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ علم الجنین کے بارے میں ان قرآنی بیانات کے مفاہیم کو معاصر سائنسی علم کی اساس پر سمجھیں۔ (یہ بات بڑی تاکید سے کہی گئی ہے۔) ‘‘32

اس مقالے کی مقصد کے پیشِ نظر ہمارے لیے بنیادی دل چسپی کی چیز کیتھ مور کا نقطۂ نظر نہیں ہے، بلکہ ہماری اصل دل چسپی ان ’’اضافہ جات‘‘ ، طریقِ مطالعہ اور ان ’’اضافہ جات ‘‘کے بین السطور مقاصد سے ہے۔ یہ بات قابلِ ملاحظہ ہے کہ ’’اضافہ جات‘‘ ، علم الجنین سے متعلق قرآن وسنت کے مواد کے بہت جامع اور محتاط مطالعے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جہاں تک اس کام کے مقصد کا تعلق ہے، اس کے لیے عبدالمجید زندانی کے قلم سے ’’اسلامی اضافہ جات کے تعارف‘‘ کی طرف رجوع کرنا چاہیے کہ:

قرآن و حدیث کئی مقامات پر اللہ کی تخلیق پر عمیق غور و فکر اور مشاہدے کے لیے انسان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں بیان کردہ متعدد میدانوں میں، جدید طریقوں کے استعمال کے ذریعے ، جدید تحقیقات نے حیرت انگیز ملتے جلتے نتائج پیش کیے ہیں۔ جوہری اعتبار سے چودہ سو سال قبل پیش کردہ قرآن و سنت کے واضح بیانات اور سائنسی شواہد کی بنیاد پر ثابت شدہ عصرِ حاضر کے حقائق کے درمیان اتفاق ہے۔ ایک طرف قرآن و حدیث کی نصوص اور دوسری طرف ثابت شدہ سائنسی حقائق کے اس دل چسپ اتفاق کی طرف مسلمانوں اور غیر مسلموں کی توجہ مبذول کی گئی تھی۔۔۔ حضرت محمد ﷺ پر نازل ہونے والی قرآنی نصوص اور آپ کی احادیث میں ، جنین (Embryo) کے ارتقا کے مراحل کے بارے میں موجود معلومات کو پا کر علم الجنین کے ماہرین کو حیرت ہو گی۔ یہ نصوص ان حقائق سے نقاب کشائی کرتے ہیں جن سے متعلق ساتویں صدی عیسوی میں قرآن کے نزول کے بعد مدتوں تک انسان کو غلط فہمی لاحق رہی ہے۔ یہ بات کہنے کی حاجت نہیں کہ سائنس کی قرآنی نصوص کے ساتھ مکمل ہم آہنگی واضح ہو جائے گی ، کیوں کہ قرآن اللہ کا کلام ہے جس کا علم سچا ہے۔‘‘33

(4)

ہم نے اہلِ علم کے بیان کردہ جو متاثر کن شواہد ذکر کیے ہیں ( اور کئی اور بھی جو جگہ کی تنگی کے پیشِ نظر درج نہیں کیے جا سکے۔) ان کے باوجود بعض بہت سنجیدہ سوالات ہیں جو قرآن اور سائنس کے تعلق کے بارے میں ہیں، جو ہنوز نہایت عالمانہ سنجیدگی کے ساتھ تعرض کرنے کا تقاضا کرتے ہیں۔

جو اہلِ علم قرآن کے سائنسی معجزات کے تصور کی بات کرتے ہیں، ان کے موقف کی ایک کم زوری، ان کی طرف سے قرآن اور سائنس میں مطابقت دکھانے کی غیر سنجیدہ جلد بازی ہے۔ وہ اس جذبے سے اس حد تک بے قابو ہو جاتے ہیں کہ علمی احتیاط اور فکری بلوغ کا خون ہو جاتا ہے۔ وہ نتائج نکالنے میں جلدی کرتے ہیں اور لگتا ہے کہ کسی حقیقت کو جاننے سے زیادہ ان پر کسی نظریے کے اثبات کی دھن سوار ہے۔ معاصر اسلامی ڈسکورس عجلت پسندی اور فکری پختگی کی کمی کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ مجھے اپنا اختصاص اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں بگ بینگ جیسے سائنسی نظریات کا معاینہ کر سکوں کہ آیا وہ قطعی طور ثابت شدہ ہیں یا محض مفروضات ہیں؛ لیکن مسلمان اہلِ علم کا ایک پورا گروہ ہے جو اپنے جذبے کے ہاتھوں مجبور ہو کر قرآن کی طرف دوڑتا ہے تاکہ اس کی ایک یا دو آیات کے بیان سے اس کی عظمت کو ثابت کرے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ قرآن نے برسوں پہلے یہی حقیقت بیان کی تھی جو سائنس دان اب کہ رہے ہیں۔ (ہمارے نزدیک اگر قرآن میں بگ بینگ تھیوری کی تائید میں کوئی آیت نہ بھی ہوتی، تب بھی وہ اللہ کا کلام ہونے کی وجہ سے مقدس ہی ہوتا۔) تاہم آئیے ہم مذکورہ جذبے کے حوالے سے قرآن سے کچھ مثالوں کو سامنے رکھتے ہیں جنھیں بظاہر قرآن کی عظمت کو ثابت کرنے کے لیے جدید نظریات کے اثبات کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔

ہم ایک کتاب پر نظر ڈالتے ہیں جو حالیہ سالوں میں مسلمان اہلِ علم کے درمیان گردش کرتی رہی ہے جسے نور باقی نے تصنیف کیا۔ اس میں ہمیں یہ بات ملتی ہے کہ بگ بینگ تھیوری کی تائید سورۂ فلق 113: 2 آیت سے ہوتی ہے۔ فعل، فلق کا معنی ہے پھاڑنا، شگاف ڈالنا۔۔ٹکڑے کرنا، توڑنا34۔ سورۂ فلق کی اس آیت میں، سورت کے سیاق کے پیش نظر، علما نے کہا ہے کہ اس کا معنی ہے "کہ دیجیے میں صبح کے مالک کی پناہ مانگتا ہوں۔" آیت میں چوں کہ 'فلق' کا معنیٰ موجود تھا، اس سے ہلوک نور بکی نے غلط طور پر یہ مفہوم مراد لیا کہ یہاں بڑے دھماکے (بگ بینگ، جو کائنات کے وجود میں آنے کا سبب بنا) کے رب کی پناہ مانگی گئی ہے۔ اس لیے مصنف نے سورۂ فلق کی پہلی دو آیات کا ترجمہ کیا:"میں (مابعد نظریۂ انفجارِ عظیم جس نے کائنات کو وجود دیا) سے ہر اس چیز کے شر سے پناہ مانگتا ہوں جو پیدا کی گئی ہے۔ اسی مصنف نے آیت {وَالسَّمَاءَ بَنَيْنَاھَا بِأيْدٍ وَإنَّا لَمُوسِعُونَ} [الذاريات: 47] کا ترجمہ یوں کیا ہے: "ہم کائنات کو وسعت دے رہے ہیں۔"35 ہم فتح اللہ خان کی کتاب God, Universe and the Man: The Holy Qur'an and the Hereafter دیکھتے ہیں36۔ یہ مصنف مذکورہ بالا آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ کائنات توانائی سے پیدا کی گئی ہے۔ وہ اپنا نقطۂ نظر واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جس توانائی کے ذریعے ایٹم بنا ہے، اس کی طرف واضح اشارہ آئن سٹائن کی مساوات E=mc2 سے کیا گیا ہے۔ لہذا تمام کائنات توانائی سے پیدا کی گئی ہے۔ آیت کے دوسرے حصے میں مصنف کے نزدیک کائنات کے پھیلاؤ کے معروف نظریے کا بیان ہے۔ آیت کے دونوں حصوں کا مطلب یہ ہوا کہ کائنات، جو کہ توانائی سے پیدا ہوئی ہے، پھیل رہی ہے37۔ اس ساری اپروچ میں ایک بڑا مسئلہ، جس کی طرف اوپر ہم مختصر اشارہ کر آئے ہیں، یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ قرآن کی ترجیحات کو بدل دیتی ہے۔ قرآنی آیات اس اپروچ کے مطابق ہمیں کائناتی حقائق کا علم دیتی ہیں گویا قرآن انھی حقائق کا بنیادی مصدر ہوا۔ یہ بات واضح ہے کہ کائنات کے بارے میں ان حقائق کو انسان خود اپنی کاوشوں سے دریافت کر سکتا ہے ۔یہ بات بھی واضح ہے کہ سائنسی مظاہر جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ قرآن نے ان کی طرف اشارہ کیا ہے، دنیا کے سامنے قرآنی اعجاز کے طور پر پیش کیے جانے سے پہلے اکثر حالات میں انسانوں -عموماً‌ غیر مسلموں- نے دریافت کیے ہیں۔

ان سب باتوں کو ایک طرف رکھیے، ایک نکتہ ہنوز تشنہ رہتا ہے کہ قرآن کے بنیادی مقاصد کیا ہیں؟ وہ کون سی اساسی چیزیں ہیں، جنھیں قرآن انسانیت تک پہنچانا چاہتا ہے؟ اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ ؒ کا ایک فرمان مشعل راہ ہے؛ وہ فرماتے ہیں:

قرآن کے بنیادی مقاصد پانچ ہیں۔ پہلی چیز احکام ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ کیا چیزیں اوامر ہیں اور کیا نواہی۔ یہ احکام عبادات سے لے کر معاملات تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ موضوع فقہاء کا ہے۔ دوسرا موضوع گم راہ فرقوں -یہود، نصاریٰ، مشرکین اور منافقین- کا ہے۔ یہ موضوع متکلمین کی دلچسپی سے تعلق رکھتا ہے۔ تیسرا موضوع وہ قصص ہیں جو مخلوق کو اللہ کی نعمتیں یاد دلاتے ہیں (تذکیر بآلاء اللہ)، اللہ کے کمال کو بیان کرتے ہیں کہ کس طرح اللہ نے زمین آسمان پیدا کیے اور ساری مخلوق کو کسبِ رزق کے طریقے سکھائے ۔ تیسرا موضوع تذکیر بایام اللہ کا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کس طرح اللہ نے گذشتہ امتوں کے ساتھ معاملہ کیا؛ بعض کو انعامات سے سرفراز کیا اور بعض کو سزا دی۔ پانچواں موضوع تذکیر بالموت و مابعد الموت کا ہے۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ جن آیات کو قرآن کی سائنسی آیات کہا جاتا ہے، وہ شاہ ولی اللہ ؒ کی تقسیم کے مطابق تذکیر بآلاء اللہ کے زمرے میں آتی ہیں۔

تاہم اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ زمین، آسمان، سیارے، بارش، سمند ر اور پہاڑ وغیرہ ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ قرآن ان کے بارے میں انسانیت کو باخبر کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ کائناتی مظاہر کے بارے میں نشانیوں والی آیات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی توجہ ان بنیادی حقائق کی طرف منعطف کی جائے تاکہ وہ کائناتی مظاہر کے مقابلے میں زیادہ بڑے اور اہم درجے کے مقاصد تک پہنچ سکے۔ ان آیات کو ان کے سیاق سے ہٹا کر دیکھنا ان کے مجوزہ مقاصد سے آزاد کرنا ہے۔ انھیں قرآن کے اصل خطاب سے جدا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کو ان کے حقیقی مفاہیم اور اہمیت سے دور کر دیا جائے۔ اس طرح کی باتیں کہ قرآن ہر قسم کے علم کی کتاب ہے38، ہوش مند ، پختہ اور ذمے دار اہلِ علم کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح قرآن کے بارے میں اس طرح کے چلتے ہوئے بیانات کہ اس میں ہر قسم کا علم ہے، ان کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تراث میں کوئی تائیدی دلیل موجود نہیں ہے۔ ایک طرف دیکھا جائے تو اس قسم کے پر جوش بیانات میں کارفرما رویوں کا انجام غالبا اس بات پر ہوتا ہے کہ قرآن کو ہمیشہ بدلتی رہنے والی سائنس کے تابع کیا جائے اور اسلامی علما کو غلامانہ وفاداری کے کردار پر مجبور کیا جائے جو سائنس دانوں کے اشاروں پر چلیں اور کتابِ عزیز کو جدید نظریات کے تابع بنائیں۔ دوسرے پہلو سے دیکھا جائے تو اس قسم کے مبالغہ آمیز دعوے کہ قرآن تمام اساسی علوم کا مصدر ہے ، علمیاتی پراگندگی اور فکری آوارگی کا باعث ہیں اور یہ چیز کتاب اللہ اور سائنس دونوں کے لیے مضر ہے۔

حواشی
 (1) مرحوم ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کا ایک مقالہ” “Scientific Exegesis of the Qur'an کے نام سے اڈنبرگ یونی ورسٹی کے مطالعاتِ قرآنی پر معروف مجلے Journal of Qur‘anic Studiesکے شمارہ Vol:3, No:1 (2001) میں شائع ہوا۔ قرآنِ کریم کی تفسیر کے جدید رجحانات میں سائنسی تفسیر کا رجحان خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے پیشِ نظر اس مقالے کو اردو قالب میں ڈھالا گیا ہے۔ (مترجم)

See J.M.S.Baljon, Modern Muslim Koran Interpretation 1880-1960 (Leiden: Brill, 1961),pp.88-98.
(2)  محمد حسین الذہبی، التفسير والمفسرون، طبع سوم (قاہرہ: مکتبہ وہبہ، 1985ء) ، دیکھیے خصوصا ، ج 2،ص 454- 468؛ عفت محمد الشرقاوی، اتجاھات التفسير في مصر في العصر الحديث(قاہرہ: مکتبۃ الکِیلنی، 1972ء)، ص 367- 377؛

Jansen, J.J.G. The Interpretation of the Koran in Modern Egypt, Leiden: Brill, -1974, pp. 35-54.
فہد عبد الرحمن الرومی، منھج المدرسۃ العقليۃ الحديثۃ، طبع سوم، (بيروت: مؤسسۃ الرسالۃ، 1407ھـ)، ص 269- 283۔

(3)   دیکھیے:

lbert Hourani, Arabic Thought in the Liberal Age, 1798-1939 (London, Oxford, New York: Oxford University Press, 1970); Bernard Lewis, The Emergence of Modern Turkey, II edition (London, Oxford, New York: Oxford University Press, 1968), and Gulfishan Khan, Indian Muslim Perceptions of the West During the Eighteenth Century (Karachi: Oxford University Press, 1998). 
(4)

Cf. J.J.G. Jansen, The Interpretation of the Koran in Modern Egypt, p. 41
خصوصا یہ الفاظ :”یقینا (مسلمانوں میں) جدید سائنسی تفسیر اور مغرب کے عرب اور مسلم دنیا پر اثر کے درمیان ایک تعلق ہے۔انیسویں صدی کے نصفِ آخر میں مسلم اقلیم کے زیادہ سے زیادہ حصے یورپی تسلط کے نیچے آ گئے۔ مصرخود بھی 1882ء میں برطانوی فوج کے زیر قبضہ آ چکا تھا۔۔۔یورپ کا یہ تسلط ، بہترین یورپی ٹکنالوجی کے باعث ممکن ہوا تھا۔بہت سے مخلص مسلمانوں کے لیے کسی تفسیر میں یہ بات پڑھنا وجہ تسلی ہے کہ جن سائنسوں اور اصولوں نے یورپ کو مسلمانوں پر غلبہ دیا ، ان کی بنیاد اصل میں ان اصولوں اور سائنسوں پر قائم ہے جو قرآن میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ “

(5) قابل ذکر بات یہ ہے کہ ارضیات کے ایک نام ور مسلمان پروفیسر زغلول النجار کی کتاب ہے۔

Sources of Scientific Knowledge: The Geographical Concept of Mountains in the Qur'än ( Herndon: VA: The Association of Muslim Scientists and Engineers and The International Institute of Islamic Thought, 1991.)
(6)  مذکورہ کتاب شاید قرآن کے بنیادی مقاصد کو بیان کرنے کی ایک غیر ماہرانہ کوشش ہے۔ اس پر ایک واضح، بلیغ اور صحیح وضع کردہ بیان کے لیے دیکھیے: شاہ ولی اللہ دھلوی، الفوز الكبير في أصول التفسير، ترجمہ:رشید احمد انصاری، اس کے ساتھ مولانا تقی عثمانی، تفسیر کے چند ضروری اصول (لاہور: ادارہ اسلامیات، 1982ء)، ص 4، 5۔نیز دیکھیے:بدر الدین الزرکشی، البرھان في علوم القرآن(قاہرہ: الحلبی، 1957ء)، ج 1، ص 16- 21۔

(7)  دیکھیے ذہبی، 1985ء، ج 2، ص 454- 464۔یہ بحث کہ قرآن ، بشمول سائنسی علم، ہر قسم کے علم کو شامل ہے، اس کی تائید قرآن کی دو آیات( الأنعام 6: 38، اور النحل 16: 89)سے کی جاتی ہے۔اگر ہم ان آیات پر قرآن کی تفاسیر کی طرف مراجعت کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ اس اختلاف کی بمشکل ہی کوئی بنیاد ہے۔

(8)  نفسِ مرجع۔

(9)  (قاہرہ: الحلَبی، 1340ھ- 1351ھ)۔

(10)  یہ بات کہ قرآن کی کائنات سے متعلق آیات، قانون سے متعلق آیات سے زیادہ ہیں، زیرِ بحث گفت گو کے تحت آنے والی ایک مکرر گفت گو بن چکی ہے۔750 کا عدد بھی ان قلم کاروں کی بڑی تعداد نے نقل کیا ہے جو ان کے طرزِ فکر کے حامی ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جوہری نے مسلم اہلِ دانش کے ایک طبقے پر کتنا اثر ڈالا ہے۔

(11)  دیکھیے: ذہبی، 1985ء، ج 2، ص 483- 484۔

(12)  دیکھیے: سرسید احمد خان، تفسیر القرآن(لاہور: دوست ایسوسی ایٹس، 1994ء)، مختلف مقامات سے۔نیز دیکھیے: سی ڈبلیو ٹرول۔Sayyid Ahmad Khan: A Reinterpretation of Muslim Theology (کراچی: آکسفرڈ، نیویارک، دھلی: آکسفرڈ یونی ورسٹی پریس، 1979ء)، خصوصاً، باب 5۔

(13)  جوآیات اس حوالے سے نقل کی جاتی ہیں،ان کا بغور مطالعہ یہ دکھاتا ہے کہ ان آیات کا اصل مقصد بجائے خود فطری مظاہر پر غور و فکر کی ترغیب دینا نہیں ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ 'مومن' ان کائناتی چھوٹے حقائق کے مشاہدے سے بلند ہو کر اعلیٰ، بڑے حقائق کی معرفت حاصل کرے - ایسے حقائق جو خدا کے علم، حکمت، قدرت، شفقت اور رحمت کو ظاہر کرتے ہیں، ایسے حقائق جو مکمل طور پر یہ واضح کرتے ہیں کہ موجودہ زندگی کے بعد قیامت اور آخرت آئے گی۔

(14)   مثال کے طور پر دیکھیے: البقرۃ 2: 164؛ الفرقان25: 45- 46؛الغاشيۃ 88: 17- 20؛الروم30: 22؛ الرعد 13: 14؛الانشقاق 84: 16- 19؛ العنكبوت 29: 20؛ النحل 16: 12؛ فصلت 41: 20؛ النور 24: 44؛ يونس 10: 66؛ الفرقان 25: 62؛ لقمان 31: 27 وغیرہ۔

(15)    محمد اقبال، The Reconstruction of Religious Thought in Islam (لاہور: ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، 1982ء)، ص 13۔

(16)   نفسِ مرجع، ص 131۔

(17)   نفسِ مرجع، ص 126۔

(18)   نفسِ مرجع، ص 125۔

(19)   نفسِ مرجع ، خصوصی طور پر دیکھیے: ص 129- 131۔

(20)  نفسِ مرجع، ص 13۔

(21)   یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1980ء میں مکہ میں مسلم ورلڈ لیگ نے ایک کمیٹی بعنوان Committee on the Scientific Miracles of the Qur'an and Sunnah بنائی۔

(22)  دیکھیے:النجار

Sources of Scientific Knowledge: The Geographical Concept of Mountains in the Qur'än (Herndon: VA: The Association of Muslim Scientists and Engineers and The International Institute of Islamic Thought, 1991.), pp. 47-50.
(23)   نفسِ مرجع، ص 50۔

(24)  موریس بوکائی، The Bible, the Qur'än and Science (لاہور: پروگریسو بکس، س ن)، صvii۔

(25)   نفسِ مرجع، ص viii۔

(26)   نفسِ مرجع، ص viii۔

(27)   نفسِ مرجع، ص 251- 252۔

(28)  عبدالرزاق نوفل، القرآن والعلم الحديث (قاہرہ: دار المعارف، 1959ء)، ص 11ff۔

(29)   نفسِ مرجع، ص 29۔

(30)   نفسِ مرجع، ص 29۔

(31)   نفسِ مرجع، ص 29۔

(32)   کِیتھ مُور، The Developing Human: Clinically Oriented Embryology یہ کتاب عبدالمجید الزندانی کے قلم سے اسلامی اضافات کے ساتھ شائع ہوئی۔ طبعِ ثالث(جدہ:دار القبلہ، 1983ء)، ص viii c۔ خط کشیدہ الفاظ میرے ہیں۔یہ بات قابلِ فہم ہے کہ مُور کو ایسے کہنا چاہیے تھا۔ تاہم،کلمۂ ناشر کا ایک جز آسانی سے قابل فہم نہیں جو دارالقبلہ براے اسلامی ادب جدہ کی طرف سے لکھا گیا ہے:”مجھے یہاں ایک نکتے کی وضاحت کرنے دیجیے۔ یہ قرآن ، باوجود اس بات کے کہ وہ سائنی امور کو بیان کرتا اور ان کی تصدیق کرتا ہے، سائنس کی کتاب نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی نوع کی ہدایت کی بہترین کتاب ہے۔ (سورۃ البقرۃ 2: آیت 2) خالقِ فطرت کے 'جہان' (کذا: درست 'لفظ'ہے۔) ہونے اوراس کے اپنے دعوے کے مطابق:”یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔(سورہ 2، آیت 2)اسے ان امورکی تصدیق کرنی چاہیے جنھیں سائنس مشاہدے، تحقیق اور تجربے /۔ سے ثابت کرتی ہے۔“(ص۔viii b.)(خط کشیدہ الفاظ میرے ہیں۔) مذکورہ بالا بیان کی دلالتوں پر غور کرتے ہوئے انسان کچھ تردد کا شکار ہو جاتا ہے۔میں اگر سمجھنے میں غلطی نہیں کر رہا تو یہ بات ، قرآن کے اس مقامِ بلند سے لگا نہیں کھاتی جو اسلام کی رو سےاسے حاصل ہے۔

(33)  نفسِ مصدر، ص 12 اے۔

(34)  ہلوک نور باقی ، Verses From The Holy Quran And The Facts Of Science، ترجمہ: Metin Beynam (کراچی: انڈس پبلشنگ کارپوریشن، 1992ء)۔

(35)  نفسِ مصدر، ص 308-314۔نیز دیکھیے: ص 223- 232۔اگر میں ذاتی لحاظ سے عرض کروں تو مجھے بنيناھا بأيد کی روایتی تفہیم زیادہ آسان محسوس ہوتی ہے جس کے مطابق یہ آیت اللہ کی قوتِ تخلیق پر زور دے رہی ہے ،کہ اس نے آسمان جیسی مشکل چیز کو پیدا کرڈالا۔اس بات کی تائیدکلمۂ أيد کے استعمال سے ہوتی ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تنہا خدا نے آسمان کو بلا کسی کی مدد کے پیدا کیا، کیوں کہ اس کے پاس ایسا کرنے کی طاقت ہے۔

(36) (لاہور: Wajidalis، 1982ء)۔

(37)   نفسِ مصدر، ص 48۔بعید از قیاس ہونے کے علاوہ یہ تفسیر روایتی تفسیر کے روحانی لحاظ سے مالامال پہلوسے محروم معلوم ہوتی ہے جو بہت قوت سے انسان کو خداے برتر کی یاد دلاتا ہے۔

(38) - ابراہیم بی سید در ایم اے کے لودھی، ادارت:Islamization of Attitudes and Practices in Science and Technology (Herndon, VA:The International Institute of Islamic Thought and the Association of Muslim Social Scientists, ، 1989ء)، ص 119۔


قرآن کی سائنسی تفاسیر – کیا دل بھی سوچتا ہے

ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب مغرب سے آنے والی خام سائنسی معلومات سے مرعوب ہو کر بعض لوگوں نے قرآن مجید کی واضح اور صریح تعلیمات کو ایسی ایسی تاویلات کی خراد پر چڑھا یا کہ خدا کی پناہ۔ چنانچہ جس زمانے میں نیوٹن کے ’میکانکی نظریہ کائینات‘ [Mechanical world view]کا غلغلہ عام ہوا جس کے مطابق پوری کائینات علت ومعلول کے قانون میں اسطرح جکڑی ہوئی ہے کہ اس سے سر مو تجاوز نہیں کرسکتی تو لوگوں نے مافوق الفطرت حقائق کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ اب بعض مسلمان مفکرین کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ قرآن میں بیان کردہ معجزات [مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا اثر نہ کرنا،آپ ﷺکا بحالت بیداری آناًفاناًمعراج کا سفر کرناوغیرہ]تو اس سائنسی نظرئیے سے میل نہیں کھاتے ،لہذا انھوں نے اسلام کی عافیت اسی میں جانی کہ قرآن مجید کے الفاظ میں کسی طرح کھینچا تانی کرکے یہ ثابت کردیا جائے ان معجزات کی کوئی مافوق الفطرت [super natural]حقیقت نہیں بلکہ یہ عادی اسباب کے تحت ہی رونما ہوئے تھے۔ پھر بات صرف معجزات پر ہی ختم نہیں ہوئی، بلکہ جب آدم علیہ السلا م کی پیدائش،شیطان کا انہیں سجدہ نہ کرنا،فرشتوں کا وجود اور انکا آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنا،جنت دوزخ کا وجود وغیرہ حقائق بھی سائنسی نظریات سے ٹکراتے نظر آئے تو انہیں بھی تمثیلات کہہ کر انکی الٹی سیدھی تاویلات کردی گئیں۔
اگر کوئی ان تاویلات فاسدہ کی تفصیلات جاننا چاہتا ہو توصرف [سر]سید احمد خان کی تفسیرالقرآن دیکھ لے کہ جس میں فرشتوں کو انسان کی مثبت صلاحتیں، جن اور شیاطین کو منفی جذبات، آدم علیہ السلام کو فرد کے بجائے نوع انسانی، جنت اور جہنم کو مقامات کے بجائے راحت وخوشی اور تکلیف و مصیبت کی انسانی کیفیات سے تعبیر کر کے ان اسلامی تصورات کی سائنسی نظریات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ الغر ض یہ کہ سائنسی علم کو معیار بنا کر قرآنی تعلیمات کو اس پر پرکھنا قرآن کے واضح اور صریح احکامات و تعلیمات کے انکار کا راستہ کھولتا ہے۔خطبات اقبال میں جنت و جہنم کو مقامات کے بجائے کیفیات قرار دیا گیا ہے یہی نقطۂ نظر غلام احمد پرویز نے اختیار کیا۔ یہ نقطہ نظر نیا نہیں مسلم فلاسفہ کی تاریخ میں مل جاتا ہے۔
کیا دل بھی سوچتا ہے؟
آج کے دور میں اس رویے کی جھلک دیکھنا ہو تو قلب کی حقیقت پر مختلف مفکرین کی آراء پر غور کرلیجئے ۔ قرآن میں کئی مقامات پر یہ بات دہرائی گئی ہے کہ بد کردار لوگوں کے قلوب پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ چونکہ موجودہ سائنس یہ دعوی کرتی ہے کہ سوچنے کا عمل تو ذہن سر انجام دیتا ہے جبکہ دل تو محض خون کی روانی برقرار رکھنے کی ایک مشین ہے، لہذا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنسی تحقیقات کی روشنی میں قرآن کی ان آیات کا مطلب کیا ہوگا جن میں دلوں پر مہر لگانے کی بات کہی گئی ہے؟
جب لوگوں سے اس بات کا کوئی سائنسی جواب نہ بن پایا تو انھوں نے اس اعتراض کا حل نکالنے کی راہ یہ نکالی کہ عر بی زبان میں قلب کا ترجمہ صرف دل ہی نہیں بلکہ ’ذہانت‘ [intellect] بھی ہوتا ہے۔ لہذا قرآن کی آیا ت کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ ان کی ذہانت پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت کے بارے میں سوچ نہیں سکتے۔ اس انوکھی تفسیر پر ایک اشکال یہ پیدا ہوا کہ قرآن میں تو کہا گیا ہے کہ قلب ’صدر ‘ میں ہے [فانہا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور: حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں] اور صدر کا معنی سینہ یا چھاتی ہوتا ہے۔ تواگر قلب سے مراد ذہانت ہے [جس کا منبع ذہن ہوتا ہے ]، اور ذہن سینے میں نہیں ہوتا، تو پھر قلب کے صدر میں ہونے کے کیا معنی ہونگے؟ اس کے جواب میں یہ کہہ دیا گیا کہ صدر کا معنی سینہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسکا مطلب ’وسط‘ [centre] بھی ہوتا ہے، لہذا اب آیت کے معنی یہ ہوئے کہ تمہاری ذہانت [قلب] جو تمہارے وسط [صدر]میں ہے۔
اگر تفسیر کا معیار عربی لغت ہی ٹھہرے، ، پھر تو ہر باطل سے باطل نظریہ بھی لوگوں نے اسی قرآن سے ثابت کردکھایا ہے۔ اہل علم پر اس آیت میں صدر کے معنی وسط لینے کی معنوی بے ڈھنگی عین واضح ہے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہمیں قرآن کی ایسی تاویل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے جو احادیث، پوری اسلامی تاریخ ،اسلامی علمیت اور روایت کو رد کرتی ہو؟ یہ تاویل اس قدر لغو ہے کہ اس پر کلام کرنا بھی تضیع اوقات ہے ، البتہ چند اصولی باتیں ذیل میں بیان کردی گئی ہیں:

1. کیا سائنس کے پاس اس بات کا کوئی حتمی ثبوت ہے کہ سوچنے کا کام صرف ذہن ہی کرتا ہے؟ اگر کوئی کہے ہاں، تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ اسے سائنس کا کچھ علم ہی نہیں ، وہ اسلیے کہ ہم نے پچھلے مضمون میں اس بات پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی کہ سائنس کے پاس علم حاصل کرنے کا ایسا کوئی طریقہ ہے ہی نہیں جس کے ذریعہ انسان کسی بات کو ثابت کرسکے۔

2. یہ دعوی بھی اپنی جگہ غلط ہے کہ دل کا سوچنے کے عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، وہ س لیے کہ علم نفسیات اور حیاتیات کی جدید تحقیقات کے مطابق دماغ اور دل میں ایک خاص نوعیت کا تعلق بہر حال موجو د ہے ۔ فرض کریں کل کو یہ تحقیقات مزید آگے بڑھ کر یہ ثابت کردیں کہ سوچنے کے عمل میں دل کا بھی کچھ عمل دخل ہے تو ہمارے مفکرین کیا کریں گے؟ کیا پھر قرآنی الفاظ کی نئی تفسیر کریں گے؟ کیا اس سے لوگوں کا ایمان قرآن پر سے متزلزل نہیں ہوگا؟

3. اگر تفسیر کے لیے سائنس ہی معیار و منہاج ہو تو پھر دل ہی کیا ، سائنس تو روح کا بھی انکار کرتی ہے جبکہ قرآن و احادیث تو اس کے اثبات سے بھرے پڑے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اب اس روح کے بارے میں ہمارے مفکرین کیا کہیں گے؟ انہیں چاہئے کہ یا تو اسکا انکار کردیں یا پھر اس کی بھی کوئی نئی سائنسی توجیہہ کردیں [جیسے ایک صاحب نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے روح سے مراد وہی شے ہو جسے سائنس توانائی [energy]کہتی ہے ، انا للہ وانا الیہ راجعون]۔ حق بات یہی ہے کہ جو لوگ سائنس کو بنیاد بنا کر قرآن کی تفسیر کرتے ہیں وہ اسی قسم کی عجیب وغریب باتیں کرتے ہیں جن کا اسلامی علمیت اور عقل و خرد سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

4. لفظ قلب کی تعبیر ذہانت اور صدر کی وسط کرنے والوں نے یہ نہ سوچا کہ اس تعبیر کے بعد ان احادیث نبوی ﷺ کا کیا بنے گا جن میں قلب کو دل ہی کہا گیا ہے ؟ مثلاً ایک مشہور حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد ان الفاظ میں روایت ہوا ہے :


ان فی الجسد مضغضۃاذاصلحت، صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ الاوھی القلب
ترجمہ: بے شک جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، اگر وہ اصلاح یافتہ ہو تو سار جسم صالح ہوتا ہے، اگر گوشت کے اس لوتھڑے میں فساد پیدا ہوجائے تو سارا جسم مفسد ہوجا تا ہے۔ جان لو وہ قلب ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اس حدیث میں قلب کے لیے لفظ مضغضۃاستعمال کیا گیا ہے جسکا معنی قریب قریب ’گوشت کا لوتھڑا ‘ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ذہانت کو مضغۃ یعنی گوشت کا لوتھڑا کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا، بلکہ مضغۃ تو دل ہی ہو سکتا ہے۔ نیز یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ یہ دل ہی ہے جو گوشت کے لوتھڑے کی مانند ہوتا ہے نہ کہ ذہن، جس سے صاف معلوم ہوا کہ اس حدیث میں قلب دل ہی کو کہا گیا ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے تقوے کے مقام کے بارے میں اپنے سینہ مبارک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ التقوی ھھنا ،تقوی یہاں ہوتا ہے [یعنی دل میں ]۔ ایسے ہی ایک اورروایت میں بیان ہوا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپﷺ سے فرمایا کہ مجھے اپنی جان آپﷺ سے زیادہ عزیز محسوس ہوتی ہے تو آپﷺ نے انکے سینہ مبارک پر ہلکا سا ہاتھ سے جھٹکا دیا جس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب یہ کیفیت بدل گئی ہے اور آپﷺ کی محبت اپنی جان سے بھی بڑھ گئی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سینے پر ہاتھ کیوں مارا؟ اگر قلب سے مراد ذہانت ہوتی تو سر پر ہاتھ مارنا چاہئے تھا۔ اسی طرح ایک حدیث میں بیان ہو ا ہے کہ جب کوئی مومن ایک گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نشان ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر تو وہ توبہ کرلے تو وہ سیاہ نشان مٹا دیا جاتا ہے، اور اگر وہ مزید گناہ کرتا ہی چلا جائے تو وہ سیاہ نشان بھی بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اسکا پورا قلب سیاہ ہوجاتا ہے اور پھر اس سے توبہ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قلب سے مراد ذہن ہے تو اس پر سیاہ نشان کے کیا معنی ہوئے؟
کیا سائنس اس بات کو مانتی ہے کہ کہ گناہ کے کام کرنے سے کسی شخص کی ذہانت یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے؟ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ کافر، گناہ گار اور فاسق وفاجر قسم کے لوگوں کی ذہانت کے چرچے بھی چہار دنگ عالم میں عام ہیں۔ مثلاً آئن سٹائن مشہور سائنس دان ہے جس کی ذہانت بھرے سائنسی نظریات نے فزکس کی دنیا میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا ہے، لیکن اسکا کردار اورزندگی کس قدر غیر اخلاقی تھی اسکا اندازہ اس کے ان خطوط سے لگایا جاسکتا ہے جو اس کی پوتی نے شائع کیے [انہیں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ اپنی بیوی کے سوا تمام عورتوں سے تعلقات رکھتا تھا] اسی طرح کانٹ اتنا ذہین آدمی تھا کہ پچھلے تین سو سال میں پورے مغربی فکر و فلسفے میں اس پائے کا فلسفی آج تک پیدا نہیں ہوا، لیکن وہ اغلام باز تھا۔ اسی طرح بیسویں صدی کا مشہور ترین فلسفی فوکو [Focault]ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوا۔ یہ محض چند مثالیں ہیں، ورنہ اگر آپ دنیا کے اکثر وبیشتر ’ذہین‘ ترین سائنسدانوں وغیرہ کی زندگی کا مطالعہ کرکے دیکھیں گے ، تو اکثر و بیشتر کی زندگیاں اخلاق رزیلہ نجاست اور تعفن سے بھری ہوئی دکھائی دے گی۔ سوال یہ ہے کہ ایسے گناہ گار لوگ پھر اتنے ذہین کیوں ہیں؟
یہ چند احادیث تو بر جستہ ہی بیان کردی گئی ہیں ورنہ اگر کتب احادیث کو بغور پڑھا جائے تو اس موضوع پر دسیوں احادیث پیش کی جاسکتی ہیں۔ اب ایک طرف یہ احادیث ہیں جو در حقیقت قرآن مجید کی اصل شارح ہیں، دوسری طرف وہ الل ٹپ لغوی تاویلات ہیں جو ہمارے مفکرین حضرات بیا ن کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان میں سے کس کی بات مانی جائے ؟ ظاہر بات ہے کہ احادیث کے سامنے ایسی لغوی بحثوں اور ظنی [speculative]سائنسی اصولوں کی حیثیت مکھی کے پر جتنی بھی نہیں۔

5. فرض کریں کہ ہم ایک لمحے کے لیے یہ دعوی مان لیتے ہیں کہ سوچنے کا کام ذہن ہی کرتا ہے دل نہیں کرتا، تب بھی قرآنی اصطلاح ’قلب‘ کی کوئی نئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ۔وہ اس لیے کہ حقیقت کا ادراک عقل کے بس کی بات ہی نہیں [اس بات کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں]۔ عقل کی پرواز تو صرف وہاں تک ہے جہاں تک حواس خمسہ سے حاصل ہونے والے مشاہدات و تجربات اسے لے جاسکتے ہیں، اور اس دنیامیں مابعد الطبعیاتی حقائق [مثلاً ذات باری تعالی، مقصد انسانی، زندگی بعد الموت وغیرہ ] پر کوئی مشاہدہ ممکن ہی نہیں کہ جس کے ذریعے ان حقائق کے حوالے سے عقل کوئی رائے قائم کرسکے۔ لہذا حقیقت کا ادراک سرے سے عقل کے ذریعے ممکن ہی نہیں، بلکہ اسکا ذریعہ تو قلب ہے ۔ قرآن و حدیث نے حقیقت کے ادراک کے لیے اسی قلب کی پاکیزگی اور تطہیر کی جانب اصل توجہ دلائی ہے اور اگر کسی کو قلب کی دنیا کے حالات جاننے کا شوق ہو تو حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ کی کتاب احیاء العلوم الدین کی تیسری اور چوتھی جلد پڑھ لے۔

پس جاننا چاہئے کہ درست طریقہ تفسیر یہی ہے کہ ہم قرآن مجیدکو ہی بنیاد بنا کر باقی نظریات کے حق یا باطل ہونے کا فیصلہ کریں کیونکہ قرآن ہی اصل ’معیار اور علمیت [episteme] ہے اور اس حقیقت کو قرآن نے اپنے لیے فرقان [حق و باطل میں فرق کرنے کامعیارو میزان ]اور الحق [واحد اور اصل حقیقت]کے الفاظ کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے۔یعنی قرآن خود آخری اور حتمی معیار اور میزان علم ہے جسمیں تول کر ہر نظرئیے کی حقانیت کو جانچا جانا چاہیے۔ بھلا ہو مولانا احمد رضا خانؒ ، مولانا اشراف علی تھانویؒ ، مولانا قاسم نانوتویؒ ، پیر مہر علی شاہؒ ، سید جماعت علی شاہؒ ، مولانا محمود الحسنؒ ، سید احمد سعیدکاظمیؒ ، مولانا شفیع عثمانیؒ ، پیر کرم شاہ الازہری [رحمہم اللہ اجمعین] اور ان جیسے اور علما ء اور صوفیاء کرام کا جنہوں نے زمانے کے عام چلن سے مرعوب نہ ہو کر حق کی وہی تعبیر اختیا ر کیے رکھی جو صحیح روایات کے ساتھ اسلاف سے ثابت ہے۔ اگر یہ حضرات نے بھی زمانے کے عام چلن کے مطابق خام سائنس سے مرعوب ہو کر قرآن کی غلط سلط تاویلات عوام میں عام کر دیتے تو سائنس کی دنیا میں نیوٹن کے نظرئیے کے ابطال کے بعد عوام الناس کا قرآن مجید کی حقانیت سے ایمان جاتا رہتا [اس کی ایک مثال آگے آئے گی]۔

______________________________

قرآن کی سائنسی تفسیرات کے ضمن میں ایک عام گمراہی

الفاظ قرآنی کی دور ازکار تاویلات کرکے فی زمانہ مروج سائنس کے ہر مشہور نظرئیے کو قرآن سے ثابت کرنے کی کوشش کرنا بھی شامل ہے ۔ اس سعی کے پیچھے یہ مفروضہ کارفرما ہے کہ قرآن مجید سے کسی سائنسی نظرئیے کا ثابت نہ ہوسکنا گویا قرآن کے لیے ایک قسم کا عیب ہے۔لہذا ڈارون کے حیات انسانی کے نظریہ ارتقاء، کائنات کی ابتداء کی بگ بینگ تھیوری [Big Bang Theory]، نیززمین کی حرکت وسورج کی مرکزیت سے لیکر ایٹم بم تک کے نظریات قرآن سے نکالے جارہے ہیں اور ایسا کرنے میں ہی اسلام کا بھلا سمجھا جارہا ہے۔اس قسم کے تفسیری شاہکار خصوصاً مصر کے علامہ طنطاوی کی تفسیرا لجواہر میں دیکھے جاسکتے ہیں، جس کے بارے میں علماء کی رائے یہ ہے کہ اس کتاب میں سوائے قرآن کی تفسیر کے اور سب کچھ ہے۔
اس طرز تفسیر کے مضمرات و نقصانات کا اندازہ اس تاریخی حقیقت سے لگایا جاسکتاہے کہ جس وقت دنیا میں یہ نظریہ عام تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج اس کے گرد گھومتا ہے تو چرچ نے اس عقیدے کو عیسائی ایمانیات کا لازمی حصہ بنا کر اسے بائبل کے ساتھ منسوب کردیا۔اس عقیدے کو اپنانے کی وجہ یہ نہ تھی کہ بائبل میں اس کے بارے میں کوئی واضح تعلیم دی گئی تھی ،بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ عقیدہ چرچ کے اس تصور کے ساتھ مناسبت رکھتا تھا کہ چونکہ خدا کا بیٹا اس زمین پر تشریف لایا، لہذا زمین ہی کائنات کامرکز بھی ہونی چاہئے۔ البتہ جب سائنس کی دنیا میں کو پرنیکس [Copernicus]کے اس نظرئیے کو مقبولیت حاصل ہوئی کہ کائنا ت کا مرکز زمین نہیں بلکہ سورج ہے اور زمین اس کے گرد چکر لگاتی ہے تو عیسائی دنیا کا ایمان بائبل سے جاتا رہا۔اس ناقابل تلافی نقصان کی اصل ذمہ دار بائبل نہیں بلکہ چرچ کا ناعاقبت اندیشانہ رویہ تھا جس نے ایک ایسی بات کو بائبل کی طرف منسوب کیا جس کی اس میں کوئی تعلیم نہیں دی گئی تھی اور اس رویے کا نقصان سائنس کو نہیں بلکہ عیسائیت کو ہوا۔جلتی پر تیل ڈالنے کا کام چرچ کے ان مظالم نے کیا جو بعض ملحد قسم کے سائنس دانواں پر توڑے گئے ۔اس رد عمل کے بجائے اگر چرچ اپنی علمی غلطی کا اعتراف کرکے یہ اعلان کردیتا کہ بائبل کے ساتھ مرکزیت زمین کے نظرئیے کومنسوب کرنا غلط ہے تو شاید نا عیسائی مذہب کو ناقابل تلافی نقصان نہ پہنچتا اور نہ چرچ اور پوپ کے کردار کو تاریخ میں محض ایک برائی کے طور پر رقم کرکے مسخ کیا جاتا۔
جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ قرآن کی سائنسی تفسیر کے پیچھے یہ غلط مفروضہ کار فرما ہے کہ کسی سائنسی نظرئیے کا قرآن سے ثابت نہ ہونا قرآن کے لیے ایک عیب ہے۔ درحقیقت یہ مفروضہ قرآن کے اصل موضوع کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں کہ جسمیں فزکس، کیمسٹری، حیاتیات وغیرہ کی تفصیلات بیان کی گئی ہوں بلکہ قرآن کا اصل موضوع نوع انسانیت کی اس راستے کی طرف ہدایت کرنا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر وہ اپنے رب کے حضور سر خرو ہوسکے۔چنانچہ کسی سائنسی نظرئیے کا قرآن میں نا ہونا کوئی عیب نہیں کیونکہ یہ قرآن کا موضوع ہی نہیں۔اگر کوئی شخص قانون کی کسی کتاب میں کسی سائنسی ایجاد کی وجہ سے پیدا ہونے والی قانونی پیچیدگیوں کی تفصیلات دیکھ کر یہ طے کرلے کہ وہ سائنس کا ہر نظریہ اس کتاب سے نکالے گا تو ایسے شخص کی عقل پر ہر شخص ماتم کرے گااور اس سے یہی کہے گا کہ بھائی یہ قانون کی کتاب ہے نا کہ سائنس کی نیز اس میں اگر کوئی سائنسی بات زیر بحث لائی بھی گئی ہے تواسے قانون ہی کے موضوع کے تحت سمجھنا چاہئے۔جس طرح قانون کی کتاب میں طب،فزکس ،کیمسٹری کی تفصیلات کا نہ ہونا کوئی عیب نہیں ایسے ہی قرآن میں سائنسی بیانات کا نہ ہونا کوئی عیب نہیں۔نیز جس طرح کسی قانون کی کتا ب میں کسی سائنسی ایجاد یا تاریخی واقعے کے درج ہونے سے وہ سائنس یا تاریخ کی کتاب نہیں بن جاتی ،بالکل اسی طرح قرآن میں کسی سائنسی حقیقت کی طرف ضمناً اشارہ آجانے سے قرآن سائنس کی کتاب نہیں بن جاتی بلکہ اس بیان کی صحیح تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ اسے قرآن کے عمومی موضوع کے تحت ہی سمجھا جائے۔یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے قرآن میں ماضی کی کئی امتوں کے حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے ،اب اگر کوئی شخص قرآن کو تاریخ کی کتاب سمجھ لے اور اس میں ساری انسانیت کے تاریخی واقعات تلاش کرنا شروع کردے تو وہ سخت غلطی کا مرتکب ہوگاکیونکہ قرآن جب کسی ماضی کے واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہے تو بطور تاریخی حوالے کے نہیں بلکہ بطورہدایت [نصیحت،عبرت،ہمت و صبر پیدا کرنا وغیرہم] کرتا ہے اور اسی پس منظر میں رہ کر ہی ان واقعات کی درست تفہیم ممکن ہے۔مثلاًحضرت یوسف علیہ السلام کا طویل قصہ بیان کرنے کے بعد سورہ یوسف کی آخری آیت میں قرآن کہتا ہے :
لقد کا ن فی قصصھم عبرۃ لاولی الباب [اگلے لوگوں کے ان واقعات میں ہوش مندوں کے لیے عبرت ہے]
ایسے ہی کسی سائنسی بیان کے بعد قرآن کہتا ہے کہ اس میں عقل اور ایمان والوں کے لیے اللہ کی نشانیاں ہیں یا اس میں عقل والوں کے لیے عبرت کا سامان ہے وغیرہ۔ دوسرے لفظوں میں قرآن کا کسی سائنسی حقیقت کوبیان کرنے کا مقصد ہرگزکسی سائنسی نظرئیے کی داغ بیل ڈالنا ، لوگوں کو سائنس سکھانا یا انسانوں کو تسخیر کائنات پر ابھارنا نہیں ہوتا، بلکہ ہدایت انسانی کی خاطر اسے ایک ایسی حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے جس پر غور کرکے وہ اصل حقیقت تک پہنچ کر خود کو اپنے رب کے حضور جھکا دے۔
یہ چند باتیں اختصار کے ساتھ اہل علم کی خدمت میں عرض کی گئی ہیں۔کوئی ہرگز اس احساس کمتری میں مبتلا نہ ہو کہ سائنس کو قرآن سے علیحدہ کرنے سے خدا نا خواستہ معجز نما قرآن کی شان کم ہوجائے گی، بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ سائنسی علم کی حقیقت سے ناوقفیت کی بنا پر ہمارے مفکرین نے سائنس کو اسلامیانے کی خاطر جودعوے تراش رکھے ہیں وہ مغربی سائنس کی تاریخ سے تو میل کھاتے ہیں، مگر تاریخ انبیاء اور قرآن کی بنیادی تعلیمات سے ہرگزمطابقت نہیں رکھتے ۔ نیز سائنسی علم کو قرآنی علوم میں جگہ دینا گویا ایساہی ہے جیسے کوئی شخص کسی پاک ،صاف اور شفاف پانی کی نہر میں کہیں دور دراز سے ایک گدلے پانی کا پرنالہ گرانا شروع کردے۔ ہمیں اس بات میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ ہمارے مفکرین کی ایسی تمام سعی اورکوششیں خلوص نیت پر ہی مبنی ہیں، لیکن صرف خلوص نیت کسی بات کے صحیح ہونے کا معیار نہیں بن سکتا ، جیسے کسی ماں کا کتنے ہی خلوص اور محبت کے ساتھ اپنے بچے کو زہر پلادینا بچے کے لیے تریاق نہیں بن سکتا۔
سائنسی علمیت کو قرآن پر منطبق کرنے کے نتائج

1. عقل وحی پر حاکم ہے

سائنس کا تصور حقیقت قبول کرلینے کا دوسرا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ علم کا اصل منبع وحی نہیں بلکہ عقل انسانی ہے، نیز یہ کہ وحی تب ہی معتبر ہوگی کہ جب وہ سائنس کے اصولوں کے مطابق ہو۔ دوسرے لفظوں میں وحی عقل پر نہیں، بلکہ عقل وحی پر حاکم ہے۔یہ دعوی کہ سائنس کے ذریعے حق تک پہنچنا ممکن ہے اس بات کا اقرار ہے کہ عقل کے ذریعے خیر اور شر، حق اور باطل کا ادراک کرلینا ممکن ہے۔اور اگر عقل کے ذریعے ایسا کرنا ممکن ہے تو پھر وحی، نبوت اور شریعت بے کار باتیں ہیں جنکی کوئی ضرورت ہی نہیں۔یہی وہ رجحانات ہیں جو قرون اسلام میں معتزلہ فرقے کے ہاں پائے جاتے تھے جب انھوں نے عقل کو وحی سے بالاتر گردانا تو خود کو شریعت، نبوت اور وحی سے بے نیاز سمجھنے لگے۔
یہ کوئی قصہ پارینہ ہی نہیں، بلکہ اگر کوئی شخص اس رجحان کا عملی نظارہ کرنا چاہتا ہے تو وہ مغربی فلاسفہ اور ان کے الحادی خیالات پر بننے والے معاشروں کو دیکھ لے کہ جہاں عقل اور سائنس کی غیر منطقی بالا دستی کے نتیجے میں فکر آخرت ، خوف خدا، للہیت، عشق رسول، تقوی،عفت، حیا، زہد، فقر، قناعت وغیرہ جیسے مذہبی حقائق اور اعلی صفات کس طرح مہمل اور بے معنی ہوکر رہ گئی ہیں۔ اور بدقسمتی یہ ہے کہ اب مسلمان معاشروں میں بھی جدید سائنسی علوم کی اعلی سطح پر بالادستی کی وجہ سے اخروی نجات کے بجائے دنیاوی عیش و آرام، اصلاح و تسخیر قلب نیز علم باطن کے حصول کے بجائے سائنسی ایجادات اور تسخیر کائنات کرنے کی فکر اور رجحانات عام ہوتے جارہے ہیں جو ایک نہایت خطرناک امرہے۔

2. اسلامی تعلیمات قابل رد ہیں:


اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ سائنسی علمیت کو اسلام پر منطبق کرنے کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ اس کوشش کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم یہ مان لیں کہ اسلام کی تمام تعلیمات،بشمول اس کے عقائد،احکامات ،اخلاقیات ،وغیرہم، اصولی طور پر قابل رد[falsifiable] ہیں۔یہ اسلیے ضروری ہے کیونکہ فی زمانہ مروج سائنسی معیار علم کے مطابق صرف وہی باتیں اور مفروضات علم کہلانے کے مستحق ہیں جنہیں تجربے اور مشاہدے میں لاکر رد کرنا ممکن ہو [اس کی تفصیل پچھلے مضمون میں’’سائنس کا نظریہ تردیدیت ‘‘کے تحت کی گئی تھی ]۔ جو مفروضات تجربے کی روشنی میں ناقابل رد ہوں وہ قطعاً سائنسی علم نہیں ہوسکتے۔چنانچہ سائنس اور غیر سائنس میں تمیز کرنے والی شے یہ ’امکان تردید‘ ہی ہے ۔
اب دیکھئے کہ اس بات کی زد کہاں کہاں پڑتی ہے ۔قرآن مجید سورہ بقرہ کے بالکل ابتدائی کلمات میں اپنا تعارف ہی ان الفاظ سے کراتا ہے کہذالک الکتاب لاریب فیہ یعنی اس میں بیان کردہ حقائق کے غلط ہونے یا ان میں شک کرنے کا کوئی امکان ہے ہی نہیں ۔ایک شخص کا ایمان اس وقت تک معتبر ہی نہیں ہوتا جب تک وہ اس بات پر کامل ایمان نہ رکھتا ہو کہ اسلام کے بیان کردہ حقائق نا قابل رد ہیں۔اب علماء خود پڑتال کرسکتے ہیں کہ کیاایسے شخص کا ایمان کوئی حیثیت رکھتا ہے جو اس بات کے امکان کو بھی مانتا ہو کہ قرآن و سنت میں بیان کردہ حقائق تجربے وغیرہ کی روشنی میں غلط ثابت کیے جاسکتے ہیں؟ لہذایہ کہنا کہ ’اسلام ایک سائنسی مذہب ہے ‘ ایک مومن کے ایمان پر نقب لگانے کے مترادف ہے۔

3. اسلامی تعلیمات حتمی اور دائمی نہیں:


دوسری اہم بات جس کی طرف توجہ کرنا لازم ہے وہ یہ کہ کسی علم کے سائنس کہلانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کبھی حتمی اورقطعی نہ ہو۔ سائنسی علم وہی ہوتا ہے کہ جس میں ارتقاء [progress]کا عمل اور امکان ہمیشہ جاری رہے۔سائنس میں کوئی بھی حقیقت حتمی نہیں ہوتی۔اس کے تمام تر حقائق عارضی نوعیت کے ہوتے ہیں یعنی جسے تجربے کی روشنی میں آج حقیقت سمجھ کر مان لیا گیا ہے،ہو سکتا ہے کل کوئی نیا تجربہ اس کی تردید کردے اور وہ بات جسے اب تک حقیقت سمجھا جاتا تھا بدل کر ماضی کی حکایت اور آج کی گمراہی بن جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سائنس میں دریافت شدہ حقائق اس وقت تک کی میسر آنے والی معلومات اور مشاہدات کی روشنی میں ہوتے ہیں اور چونکہ مشاہدات و مدرکات میں تنوع اور وسعت کا امکان ہر لمحہ موجود رہتا ہے، اسلیے سائنس کے ہر اصول وقاعدے میں تبدیلی و تغیر کا امکان ہر وقت موجود رہتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سائنس کی دریافت کردہ کسی بھی حقیقت کو حتمی اور قطعی قرا رنہیں دیا جاتا۔ چنانچہ وہ علم جو اس بات کا دعوی کرے کہ اس میں جو بات کہہ دی گئی ہے وہ حتمی ،قطعی اور زمان ومکان کی قیود سے آزاد ہے ہرگز سائنس نہیں ہوسکتا۔
لہٰذایہ کہنا کہ ’اسلام ایک سائنسی مذہب ہے ‘ اس بات کے اعتراف کے مترادف ہے کہ اس میں بیان کردہ تمام حقائق آفاقی اور ابدی نہیں بلکہ عارضی ہیں ۔نیز وقت اور حالات کے تبدیل ہونے سے انکی حقانیت بدل سکتی ہے۔ اب علما ء کرام اس بات سے خوب واقف ہیں کہ جو شخص ایسا ایمان رکھتا ہو اس کے ایمان کی حیثیت کیا ہے۔اس قسم کے عقیدے کے بعد ان دعووں میں آخر کیا معنویت رہ جاتی ہے کہ اسلام ایک آفاقی دین ہے اور محمد ﷺ ساری نوع انسانی کے ہر ہر فرد ،وقت اور مقام کے لیے راہ ہدایت متعین کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں؟
اسلام کو سائنسی علم کی کسوٹی کو پرپرکھنے کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ ہر سو دو سو سال کے بعد بنیادی عقائداور احکامات میں تبدیلی لائی جائے اور ہر صدی کے بعد احکام و قوانین از سر نو مرتب کیے جائیں۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے متجددین حضرات آئے دن اجتہاد کے نام پردین اسلام کی نئی تعبیروتشریحات پیش کرتے رہتے ہیں اور انہیں علما ء کرام سے بھی یہ شکایت رہتی ہے کہ انھوں نے اجتہاد کا دروازہ بند کیوں کردیا ہے۔ان متجددین کو دراصل یہی غم کھا ئے جاتا ہے کہ کسی طرح اسلام کو سائنسی علوم [چاہے وہ نیچرل ہوں یا سوشل سائنسز] کے عین مطابق ثابت کردکھائیں ۔لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ وہ اسلام کو جس معیار علم پر منطبق کرنا چاہتے ہیں اس علم میں بذات خودکسی بات کے حق اورباطل پر ہونے کی جانچ کرنے کا کوئی قطعی معیار موجودنہیں۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سوا سو سال کے عرصے میں بلامبالغہ اسلام کی درجنوں تعبیرات پیش کی جا چکی ہیں اور ہر نئی تعبیر پیش کرنے والے مفکر کا یہی دعوی ہے کہ ’اصل اسلام ‘ توبس یہی ہے۔ پس سائنس کی اتنی حقیقت جان لینا ہی ایک ہوش مند شخص کی آنکھیں کھولنے دینے کے لیے کافی ، مگر چونکہ ذہن سائنس کے سحر اور کفر سے مغلوب ہوچکے ہیں تو اس غلبے کو رفع کرنے کی خاطر ان دلائل کا جائزہ لینا بھی ضروری ہوجاتا ہے جس کے سہارے جدید سائنس کواسلام کے مساوی یا متبادل حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

______________________________

رحم مادر میں بچے کے علم کے متعلق آیت اور الٹراساؤنڈ

بڑی تعداد میں مستشرقین و ملحدین قرآن و سنت کے مختلف گوشوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اپنی مرضی کے ”منطقی دلائل“ پیش کر کے کہا جاتا ہے کہ فلاں بیان فلاں وجہ سے صحیح نہیں ہے۔ یہ لوگ آیات کا سیاق و سبا ق اپنی مرضی کا کشید کرتے ہیں یا سیاق و سباق کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے صرف آیت کی سٹیٹمنٹ کو ہی کافی سمجھتے ہیں ۔ جبکہ قرآن مجید کی کسی آیت کے صحیح مطلب کو سمجھنے کے لئے اس آیت کا شان نزول اور آیت میں استعمال زبان کو صحیح طور پر سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ کسی آیت کے متعلق سمجھنا درست نہیں کہ وہ تنہا کھڑی ہے اور بغیر کسی بیرونی معلومات کے سمجھی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید کی ایک آیت جس کا عموماً غلط مفہوم کیا جاتا ہے، جس میں رحم مادر اوراوقاتِ بارش کے متعلق اللہ تعالی کے اختصاصی علم کے متعلق بات کی گئی ہے ، اس آرٹیکل میں جدید سائنس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ کیسے اس متعلق مدعیان کے دعوے بے بنیاد ہیں۔

تعارف
قرآن مجید کے متعلق اٹھائے گئے عمومی سوالات میں سے ایک سوال اس آیت کے متعلق ہے:
إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ۔
بےشک قیامت کا علم الله ہی کو ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور یہ کہ وہ کس زمین میں مرے گا ۔بےشک الله تعالیٰ سب باتوں کا جاننے والا خبیر ہے۔ (لقمان 31:34)
جب سے موسم کی کیفیت کے متعلق پیشگوئی کرنا اور مادر شکم میں پیدا ہونے والے بچہ کی جنس کا پتا لگا لینا ممکن ہوا ہے، یہ اعتراض عام دوہرایا جارہا ہے کہ سائنس کی ترقی نے اس آیت کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ اس آیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں آیت کے پس منظر پر اور آیت میں علم کی کون سی قسم مذکورہ ہے اس پر غور کرنا ہو گا۔

آیت صرف علم غیب کے متعلق بات کرتی ہے
آیتِ موضوع میں صرف اور صرف علم غیب کے متعلق ہے نہ کہ دوسری طرح کے علوم کے متعلق۔ سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الانعام 6:59)
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا اور اس کو خشکی اور تری کی سب چیزیں معلوم ہیں۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضور ﷺ کے ایک صحابی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
عن ابن عباس:” وعنده مفاتح الغيب “قال: هن خمس: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنزلُ الْغَيْثَ إلى إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ، سورۃ لقمان 34(تفسیر طبری جلد 11 صفحہ 402 الرقم:13307 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ 2000)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ” وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ “ پانچ چیزیں ہیں، جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے کہ قیامت کب آئے گی، بارش کب ہو گی اور رحموں میں کیا ہے۔ اور کسی نفس کو علم نہیں کہ کل کیا ہو گا ، اور کسی نفس کو علم نہیں کہ اس کو موت کہاں آئے گی۔ بے شک اللہ تعالیٰ سب باتوں کا جاننے والا خبیر ہے۔

علم غیب کیا ہے؟
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غیب کا مطلب کیا ہے۔ جید حنفی سکالر النسفی(المتوفی 710ھ) لکھتے ہیں:
”والغيب وهو ما لم يقم عليه دليل“(تفسیر نسفی جلد 2 صفحہ 617 مطبوعہ دار الکلم طیب بیروت1998ء)
”اور غیب وہ ہے جس پر کوئی ثبوت نہیں ہے“۔
لہٰذا وہ علم جو وحی سے یا مشاہدے کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے وہ ”علم غیب“ نہیں ہے چنانچہ انکے ذریعے کسی کا جنس کا پتا لگا لینا یا موسمی کیفیت کا مظاہر کو دیکھتے ہو پیشگوئی کرنا اس آیت کے زیر نہیں آتا۔

آیت کا شان نزول
آیت سے صرف یہ مراد نہیں کہ صرف مذکورہ پانچ چیزیں ہی اللہ تعالیٰ کے علم مطلق میں ہیں، بلکہ یہ پانچ چیزیں، پانچ سوالات کے جواب میں بتلائیں گئیں ہیں جیسے کہ سیاق سباق سے ذیل میں بتلایا گیا ہے۔
وارث بن عمرو نامی ایک بدو حضور ﷺ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ: ”قیامت کب آئے گی؟ پھر اس نے پوچھا کہ ہماری زمینیں قحط زدہ ہیں، بارش کب ہو گی؟ میں اپنی بیوی کو اس حالت میں چھوڑ آیا کہ وہ حاملہ تھی، میری حاملہ بیوی کیا جنے گی؟ میں نے کل اور آج جو کچھ کیا وہ تو مجھے معلوم ہے مگر میں آئندہ کل کیا کروں گا ؟ اور یہ کہ مجھے اپنی جائے پیدائش کا علم ہے مگر میری موت کہاں واقع ہوگی ؟“۔ یہ آیت اس بدو کے جواب میں نازل ہوئی کہ ان چیزوں کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔(فتح القدیر للشوکانی جلد 4 صفحہ 282 مطبوعہ دار ابن کثیر دمشق 1414ھ)
علامہ مودودی وضاحت فرماتے ہیں:
” یہاں ایک بات اور بھی اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے ، کہ اس آیت میں امور غیب کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔ یہاں تو صرف سامنے کی چند چیزیں مثالاً پیش کی گئی ہیں جن سے انسان کی نہایت گہری اور قریبی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور انسان اس سے بےخبر ہے ۔ اس سے نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ صرف یہی پانچ امور غیب ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ حالانکہ غیب نام ہی اس چیز کا ہے جو مخلوقات سے پوشیدہ اور صرف اللہ پر روشن ہو، اور فی الحقیقت اس غیب کی کوئی حد نہیں ہے “۔(تفہیم القرآن جلد 4 صفحہ 29 مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور)

زیر بحث آیت میں علم سے کیا مراد ہے؟
یہ بالکل واضح ہے کہ یہاں علم سے مراد اس طرح کا علم نہیں جس میں اندازہ دہی کے لئے بھی کچھ علمی ڈگریوں کی ضرورت ہو، جو علم کئی طریقوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے مثلاً خوابوں، سازو سامان، سوجھ و بوجھ کے ذریعے وغیرہ، اس طرح کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ در حقیقت یہ اللہ تعالیٰ کے علم سے مناسبت بھی نہیں رکھتا۔ مثلاً ایک شخص بادلوں سے اندازہ لگائے کہ بارش برسے گی، سورۃ القمان کی زیر بحث آیت میں اس طرح کا علم مراد ہی نہیں ہے۔ عظمتِ خداوندی بھی اس بات کے شایان شان ہے کہ یہ علم کی وہ قسم ہونی چاہیے جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے منسوب ہو اور اس کی ذات واحد سے خاص ہو۔ چنانچہ وہ علم جو ہر ایک کو معلوم ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ منسوب ہو گا۔ اور وہ تمام مشترکہ علم بھی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔اختصار کی غرض سے ہم وسیع معنوں میں اللہ تعالیٰ کے علم کی دو حصوں میں درجہ بندی کر سکتے ہیں:
۱)وہ علم جو کسی بھی ذریعہ سے حاصل نہیں کیا جا سکتا یعنی علم غیب۔
۲)وہ علم جو ہر چیز کا اور اس کی ہر یک تفصیل کا گھراؤ کئے ہوئے ہے یعنی علم محیط۔
درج ذیل آیت اس بات کو واضح کرتی ہے:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الانعام 6:59)
”اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا اور اس کو خشکی اور تری کی سب چیزیں معلوم ہیں“۔
یہ آیت علم غیب کے علاوہ کامل اور ہر چیز پر محیط علم کے متعلق ہے، جیسا کہ” مَا “ کے لفظ سے پتا چلتا ہے جو یہاں ہر چیز کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔

انسانی علم ان دونوں قسموں میں سے نہیں
انسانی علم نہ تو انڈیپینڈینٹ ہے اور نہ ہی قطعی۔ ایک ڈاکٹر کسی شخص کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کئی نتائج حاصل کر سکتا ہے مگر یہ علم کسی ذریعہ سے حاصل شدہ ہے۔ اسی طرح ایک شخص دور سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ وہاں آگ ہے، لیکن اس شخص نے اٹھتے ہوئے دھوئیں سے یہ علم حاصل کیا ہے۔ اس لئے اس علم کو علم غیب نہیں کہا جا سکتا ۔ کیونکہ ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ مہیا کیا گیا یا انتقال شدہ علم، علم غیب نہیں ہو سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ کوئی بھی علم جو کسی ذریعہ پر منحصر ہے علم غیب نہیں کہلایا جا سکتا۔ جیسے مثال کے طور پر اگر کسی ڈاکٹر سے حاملہ عورت کے لائے بغیر پوچھا جائے کہ اس عورت کے پیٹ میں موجود بچے کی جنس کیا ہے؟ تو ڈاکٹر یہ بتانے سے قاصر ہے، کیونکہ اس کا علم منحصر علی الذات ہے۔ اسی وجہ سے یہ علم زیر بحث آیت کے بیان کے انڈر نہیں آتا۔
مزید ایسے ہی سائنسی علم قطعی نہیں ہے۔ بارش کے متعلق جاننا شاید آسان ہو مگر یہ قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں، ہر ایک جگہ پر کب اور کتنی بارش ہو گی۔ جیسا کہ فرشتے بارش کو برسانے کا فعل انجام دیتے ہیں مگر ان کے بھی علاقہ جات مختص ہوتے ہیں جن کے متعلق ان کو علم دیا جاتا ہے۔ علم قطعی و کامل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات برحق کو ہے۔

رحم مادر میں کیا ہے کے علم کا انتقال ممکن ہے
سورۃ لقمان کی اس آیت 34میں اکیلے خدا کی ملکیت علم کو ظاہر کرنے کے لئے لفظ ”عند“ استعمال ہوا ہے اور یہی لفظ ثواب کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علوم دوسروں کو بھی عطا کئے جا سکتے ہیں۔ رحم مادر میں موجود بچہ کے جنس معلوم کر لینے کے متعلقہ سائنسی علوم میں ہونے والی اس ترقی سے بہت پہلے مسلمان علماء نے ذکر کر دیا تھا کہ یہ علوم دوسروں کو عطا کئے جا سکتے ہیں۔ علامہ آلوسیؒ تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:
أنه عزّ وجلّ إذا أمر بالغيث وسوقه إلى ما شاء من الأماكن علمته الملائكة الموكلون به ومن شاء سبحانه من خلقه عزّ وجلّ، وكذا إذا أراد تبارك تعالى خلق شخص في رحم يعلم سبحانه الملك الموكل بالرحم بما يريد جلّ وعلا كما يدل عليه ما أخرجه البخاري عن أنس بن مالك عن النبي صلّى الله عليه وسلم قال: «إن الله تعالى وكل بالرحم ملكا يقول: يا رب نطفة يا رب علقة يا رب مضغة فإذا أراد الله تعالى أن يقضي خلقه قال: أذكر أم أنثى شقي أم سعيد فما الرزق والأجل؟ فيكتب في بطن أمه فحينئذ يعلم بذلك الملك ومن شاء الله تعالى من خلقه عزّ وجلّ۔
جب اللہ کسی جگہ بارش برسانے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ متعلقہ جگہ پر مامور بارش کے فرشتوں کو اس کا علم دے دیتا ہے، اسی طرح مخلوق میں سے جس کو وہ چاہتا بتا دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب اللہ تعالیٰ شکم مادر میں کیسی کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس کام پر مامور فرشتوں کو علم دہ دیتا ہے جو اس کام کو سر انجام دیتے ہیں۔ پس جیسا کہ ہم صحیح بخاری میں دیکھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ اے رب ! یہ نطفہ قرار پایا ہے ۔ اے رب ! اب علقہ یعنی جما ہوا خون بن گیا ہے ۔ اے رب ! اب مضغہ ( گوشت کا لو تھڑا ) بن گیا ہے ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش پوری کرے تو وہ پوچھتا ہے اے رب لڑکا ہے یا لڑکی ؟ نیک ہے یا برا ؟ اس کی روزی کیا ہو گی ؟ اس کی موت کب ہو گی ؟ اسی طرح یہ سب باتیں ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں۔(الرقم:6595) “ اور ان سب باتوں کا علم فرشتہ خدا سے پاتا ہے اور مخلوق میں سے جسے اللہ چاہے یہ علم عطا کر دیتا ہے۔(روح المعانی جلد 11 صفحہ 109 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت 1415ھ)

اسی طرح تاریخ میں اس سے بھی پہلے ہم دیکھ سکتے ہیں ، علماء اس علم کے انتقال کی بات کرتے ہیں ۔ تفسیر ابن کثیر میں حافظ عماد الدین ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
”هَذِهِ مَفَاتِيحُ الْغَيْبِ الَّتِي اسْتَأْثَرَ اللَّهُ تَعَالَى بِعِلْمِهَا، فَلَا يَعْلَمُهَا أَحَدٌ إِلَّا بَعْدَ إِعْلَامِهِ تَعَالَى بِهَا، فَعِلْمُ وَقْتِ السَّاعَةِ لَا يَعْلَمُهُ نَبِيٌّ مُرْسَلٌ وَلَا مَلَكٌ مُقَرَّبٌ لَا يُجَلِّيها لِوَقْتِها إِلَّا هُوَ، وَكَذَلِكَ إِنْزَالُ الْغَيْثِ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ وَلَكِنْ إِذَا أَمَرَ بِهِ عَلِمَتْهُ الْمَلَائِكَةُ الْمُوَكَّلُونَ بذلك، ومن يشاء اللَّهُ مَنْ خَلْقِهِ، وَكَذَلِكَ لَا يَعْلَمُ مَا في الأرحام مما يريد أن يخلقه تَعَالَى سِوَاهُ، وَلَكِنْ إِذَا أَمَرَ بِكَوْنِهِ ذِكْرًا أَوْ أُنْثَى أَوْ شَقِيًّا أَوْ سَعِيدًا، عَلِمَ الملائكة الموكلون بذلك، ومن شاء الله من خلقه، وكذا لَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا فِي دُنْيَاهَا وَأُخْرَاهَا وَما تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ فِي بَلَدِهَا أَوْ غَيْرِهِ مِنْ أَيِّ بِلَادِ اللَّهِ كَانَ، لَا عِلْمَ لِأَحَدٍ بِذَلِكَ “
یہ غیب کی وہ کنجیاں ہیں جن کا علم اللہ تعالی نے کسی اور کو نہیں دیا ۔ مگر سوائے اُس کے جس کو اللہ علم عطا فرمائے ۔ قیامت کے آنے کا صحیح وقت نہ کوئی نبی مرسل جانتا تھا اور نہ کوئی مقرب فرشتہ، اس کا وقت کا علم صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ اسی طرح بارش کب اور کہاں اور کتنی برسے گی اس کا علم بھی کسی کو نہیں ہاں جب فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جو اس پر مقرر ہیں تب وہ جانتے ہیں اور مخلوق میں سے جسے اللہ معلوم کرائے۔ اسی طرح حاملہ کے پیٹ میں کیا ہے؟ اسے بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ مگر وہ جب مامور فرشتے کو حکم دیتا کہ یہ نر ہو گا یا مادہ؟، نیک ہو گا یا بد ؟ تو مامور فرشتے کو اس کا علم ہو جاتا ہے اور مخلوق میں سے جسے اللہ معلوم کرائے ۔ اسی طرح کسی کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کل یہاں یا قیامت کے حساب سے کیا کمائے گا ۔ اسی طرح کسی نفس کو علم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا۔ آیا اپنی زمین پر مرے گا یا کہیں ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔(تفسیر ابن کثیر جلد 6 صفحہ 315 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت1418ھ)
قرآنی آیت کی یہ تفاسیر اس وقت کے جید علمائے اسلام کی ہیں جس دور میں جدید سائنسی ترقی نہیں ہوئی تھی۔ پس فرشتوں کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے ”علم غیب“ کا محتاج ہے۔ چنانچہ اسی طرح کوئی اگر کوئی کسی ذریعے سے حاملہ بچے کی حالت کا علم حاصل کرلیتا ہے تو یہ بات اس قرآن ی آیت کے خلاف نہیں جاتی۔ بے شک اسلام وقت کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے۔

مَا فِي الْأَرْحَامِ کے دوسرے معانی
کچھ علماء نے مَا فِي الْأَرْحَامِ سے مراد نا مولود بچے کی جنس کے متعلق علم لیا ہے اور کچھ نے اس علم سے مراد صرف جنس نہیں لی بلکہ کئی اور چیزیں مثلاً بچے کا رنگ، وہ بچہ خوش ہو گا یا نہیں، اس بچے کا ذریعہ معاش کیا ہو گا وغیرہ۔ مذکورہ بالا حدیث صحیح بخاری بھی اس رائے کو تقویت بخشتی ہے اور اس رائے پر مزید کوئی سوال اٹھنے کا جواز نہیں بچتا۔ تاہم بدو کے سوال کی وجہ سے نامولود بچے کی جنس کا علم بھی ایک صحیح نقطہ ہے۔ یہ زیادہ صحیح ہو گا کہ مَا فِي الْأَرْحَامِ سے نا صرف بچے کی جنس کے متعلق علم لیا جائے بلکہ مذکورہ بالا علوم کو بھی اس میں شامل رکھا جائے۔

خلاصہ
” مَا فِي الْأَرْحَامِ“یعنی” حاملہ عورت کے پیٹ میں کیا ہے؟ “کے علم کی دو درجہ بندیاں علم غیب اور علم محیط ہیں۔ چاہے ڈاکٹروں کا بچے کی جنس کے متعلق علم ہو یا موسمی پیشگوئیوں جو قدرتی مظاہر کی محتاج ہیں ، دونوں ان اقسام علم سے نہیں ہیں۔ باوجود اس کے کہ قرآن پاک خود اور جید علمائے اسلام نے بھی صراحت کی ہے کہ ان چیزوں کا علم بھی اللہ جیسے چاہے عطا کر سکتا ہے۔ چاہے وہ وحی کے ذریعہ سے ہو یا چاہے وہ مشاہدات کی بنیاد پر ہو۔
تحریر عدیل طارق خان



قرآن مجید اور سائنس کے تعلق کی نوعیت، اہمیت و ضرورت

تعارف

اسلام کے لفظی معنی اطاعت کے ہیں ،اسلام کامل اور مکمل ضابطۂ حیات ہےاور فطرت کا دین ہے اسلام کائنات کے ظاہری اور چھپے ہوئے وجود کے ظاہر ہونے اور انسان کے متعلق سارے احوال اور تبدیلیوں پر نظر رکھنے والا دین ہے ۔ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اسلام نے یونانی فلسفوں کے ارد گرد بھٹکنے والے انسانوں کو علم کی روشنی سے منور کرتے ہوئے سائنسی علوم کی بنیادیں مہیا کیں۔ اسلامی تعلیمات کا اہم اور بنیادی ماخذ قرآن مجید ہے اور انسان قرآن مجید کا بنیادی موضوع ہے، انسان کو بار بار اس بات کی دعوت دی گئی کہ وہ ارد گرد میں پیش آنے والے واقعات، حالات اور تغیرات سے باخبر رہے اور ان پر تفکرو تدبر کرے ـ اللہ رب العزت کی طرف سے عطا کردہ علم وعقل اور قوت و شعور سے کائنات کے ظاہری و باطنی رازوں پر سوچے ۔ اللہ تبارک وتعالی نے کامل مسلمان کے صفات قرآن مجید کے اندر کچھ یوں ارشاد فرمائی ہے :


ان في خلق السماوات والأرض واختلاف الليل والنهار لآيات لأولي الألباب الذين يذكرون الله قياما وقعودا وعلى جنوبهم ويتفكرون في خلق السموات والأرض ربنا ما خلقت هذا باطلا سبحانك فقنا عذاب النار 1

"زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور دن اور رات کے باری باری سے آنے میں ان ہوشمند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے ، ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی ساخت میں غوروفکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں ) پروردگار ! یے سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے ،تو پاک ہے اس سےکہ عبس کام کرے –پس اے رب ! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔2


سائنس اور مذہب کے باہمی ربط کو سمجھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس سوال کے دونوں ہی جز انسانی زندگی اور خصوصا عصر حاضر میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں، ایسی اہمیت جس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ اگر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس بیان میں کوئی مبالغہ نہیں کہ دونوں ہی چیزیں آج کے ہر انسان کے لئے ناگزیر ہیں، ا ور اگر کوئی اس حقیقت سے ناواقف یا کسی سبب سے اس بدیہی حقیقت کو قبول کرنے سے صرف نظر کرتا ہے، تو وہ خود اپنی زندگی کو نامکمل بنانے اور ناقص رکھنے کی سعی نا مشکور کرتا ہے، خواہ اسے خود اس کا علم تک نہ ہو-قرآن حکیم نے ایمان والوں کی بنیادی صفات و شرائط کے ضمن میں جو اوصاف ذکر کئے ہیں ان میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں غور و فکر اوت تفکر و تدبر (علم تخلیقیات (Cosmology) کو بنیادی اہمیت حاصل ہوئی۔3 موجودہ دور سائنسی علوم کے عروج کادور کہلایا جاتا ہے۔ سائنس کو بجا طور پر عصری علوم (Contemporary Knowledge) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔لہذا دؤر جدید میں دین کی صحیح اور نتیجہ خیز اشاعت کا کام سائنس کے جدید بنیادوں پر ہی بہتر طریقے سے پورا کیا جا سکتے ہے اس دور میں اس کام کی اہمیت پچھلے صدیوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے کہ مسلم معاشروں میں جدید سائنسی علوم کی ترویج کو فروغ دیا جائے اور دینی تعلیم کو سائنسی تعلیم سے ربط جوڑ کر حقانیت اسلام کا بول بالا کیا جائے۔ دور حاضر کے مسلمان طالب علم کے لئے اس ربط کو قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھنا اہم ہے۔4 مذہب خالق(Creator ) پربحث کرتا ہے اور سائنس اللہ تعالی کی پیدا کردہ خلق (Creation ) پر، یعنی کہ مذہب کا موضوع خالق اورسائنس کا موضوع خالق کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہےاگر اللہ تبارک و تعالی کی بنائی ہوئی کائنات میں تفکر وتدبر اور سوچ و بچار درست اور مثبت انداز میں کی جائے تو اس مثبت تحقیق پر لامحالہ انسان کو خالق کی معرفت نصیب ہوگی اور وہ بے اختیار پکار اٹھے گا۔5


ربنا ما خلقت هذا باطلا 6

ترجمہ : اے ہمارے رب! تو نے یے سب کچھ بے فائدہ پیدا نہیں کیا۔

اس آیت کی تفسیر حافظ صلاح الدین یوسف نے تفسیر احسن البیان میں اس طرح کی ہے : یعنی وہ لوگ جو زمین و آسمان کی تخلیق اور کائنات کے دیگر اسرارورموز پر غور وفکر کرتے ہیں ، انھیں کائنات کے خالق اور اس کے اصل فرمانروا کی معرفت حاصل ہو جاتی ہےاور وہ سمجھ جاتے ہیں کے اتنی طویل وعریض کائنات کا یے لگابندھا نظام جس میں ذرا خلل نظر نہیں آتا ، یقینا اس کے پیچھے ایک اعلی ہستی ہے جو اس نظام کوایک منظم طور پر چلارہی ہےاور اس کی تدبیر کر رہی ہے اور وہ ہے اللہ رب کائنات کی ذات7۔ یہ گفتگو اس اعتبار سےکی جاتی ہے کہ سائنس مذہب کا انکار کرکے جن خطرات سے دوچار ہورہی ہے، ان سے  بچنے کا محفوظ طریقہ مذہب کے زیرسایہ آجانے کے سوا کچھ نہیں ہے، یہی فطرت کا تقاضابھی ہے۔ لیکن ایک اور پہلو سے بھی سائنس کو مذہب کی چھتری درکار ہے، سائنس نے انکشافات و اکتشافات کے میدان میں تو یقینا بے حد ترقی کرلی ہے، مگر وہ اخلاقیات اور نفسیات کے میدان میں بہت پیچھے ہے، ان میدانوں میں اس کے انحطاط پر یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ سائنس جیسے جیسے نئی نئی ترقی سامنے لارہی ہے، اخلاقیات کے میدان میں اس کا تنزل اور انحطاط اسی رفتار سے زیادہ ہورہا ہے۔8


اہمیت و ضرورت
اس حقیقت میں کوئی شبہ نہیں کہ کائنات، حیات اور انسان سے بارے میں سائنس جو حقیقتیں سامنے لاتی ہے، ان سے قرآن کی بعض ان آیات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملتی ہے جن میں کسی نہ کسی طرح ان حقائق سے تعرض کیا گیا ہوتا ہے جیسے قرآن مجید میں فرمان باری تعالی ہے:

سنریهم ایتنا فی الآفاق وفی انفسهم یتبین حتی لهم انه الحق.9
ترجمہ : "جلد ہم انھیں اپنی نشانیاں آفاق (دنیا) میں بھی اور خودان کی ذات میں بھی دکھائیں گے حتی کہ ان کے لیے واضح ہو جائے گا کہ بے شک یہ (قرآن ) حق ہے "۔


اس آیت میں اللہ رب العزت نے انسان کی داخلی نشانیوں (Internal Signs) اور کائنات کے اندر مختلف جگہ بکھری ہوئی باہری نشانیوں (External Signs) کو دکھائیں گے ۔ جن کو دیکھ کر بندہ خود ہی بے تحاشہ پکار اٹھے گا کہ جو چیز اللہ تبارک وتعالی نے بتادی ہے وہ سب حق ہے۔10قرآن مجید کی چاہت اور مقصد انسان ذات کی ہدایت اور اس کی دنیاوی اور اخروی زندگی درست کرنا ہے ۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو قرآن مجید کا طریقہ سائنسی اور معروضی ہے ـ وہ اپنے پیش کردہ نظریوں اور دعوائوں پر آنکھیں بند کرکے ایمان لانے کے بجائے اللہ رب العزت کی کائنات کی قدرت کے اشتکار اور کمالات کو دیکھ کر تجربےپہ تفکر وتدبر اور ان کا مشاہدہ و تجربہ کرکے ایمان لانے کی بات کرتا ہے۔ سائنس بھی تو ان قدرتی کمالات کو دیکھنے اور تجربے کا نام ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائنس ایک ایسی چیز کا نام ہے جو قرآن حکیم کے مقصد کا حاصل اور غرض کا ذریعہ ہے۔ قرآن مجید رب کائنات کا کلام ہے ۔ اس میں ایسی باتوں کا کا پایا جانا محال ہے جو مشاہدہ سے حاصل ہوتی ہوں مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس ہو۔ قرآن مجید میں ایسی چیزوں کا پایا جانا بھی نا گزیر ہے کہ مختلف ادوار میں لوگوں کو اللہ رب کائنات ، پیغمبر اور اس کے کلام کی حقانیت کی طرف توجہ دلانے کا ذریعہ بنیں ۔ چنانچہ جس جگہ کچھ نئی سائنسی حقیقتیں قرآن مجید کے کچھ بیانوں کی زیادہ سمجھ کا سبب بنتے ہیں ، اس جگہ سائنسی نوعیت اور پیش گوئیوں کے قبیل کے بیانات قرآنی معروضی رویے کے حامل غیر مسلم جو اہل علم اور سائنس کی تعلیم کے حامل ہیں ۔ ان کو قرآن حکیم کی طرف توجہ دلانے کا ذریعہ بھی بنتے ہیں ـ


قرآن نے ان علوم کی طرف جو دعوت دی ہے وہ کائنات کے مظاہرمیں تفکر و تدبر اور دنیا کی نعمتوں سے مفید ہونے اوراس کی چیزوں سے عبرت حاصل کرنے کی دعوت پر مشتمل ہے۔ ارشاد ربانی ہے:انظروا ماذا فی السموت والأرض11

ترجمہ : ان کو بتا دو "جو کچھ زمین اور آسمانوں میں ہے اس کو آنکھیں کھول کر دیکھو"۔12

ایک اور جگہ آیا ہے:


والأرض مددنها وألقینا فیها رواسی وأنبتنا فیها من کل شیء موزون۔13

ہم نے زمین کو پھیلایا، اس میں پہاڑ جمائے، اس میں ہر نوع کی نباتات ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار کے ساتھ اگائی۔

اس آیت میں لفظ "موزون" (ٹھیک ٹھیک نپی تلی مقدار) بڑی گہری اور عجیب و غریب تعبیر ہے۔ علم کیمیا (CHEMISTRY) اور علم نباتات (BOTANY) میں مہارت رکھنے والوں نے ثابت کیا ہے کہ کوئی نبات جن عناصر پر باندھی ہوئی ہوتی ہے، ہر عنصر ان میں سے ایک متعین مقدار میں شامل ہوتا ہے۔ اس مقدار کا صحیح اندازہ ناپ تول کی گہری مشینوں کے ذریعے، جن سے سینٹی گرام اور ملی گرام بھی ناپاجاتا ہے، کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ہرنبات میں یہ عناصر ایک خاص تناسب سے رہتے ہیں ۔ آیت میں کل شئ (ہرچیز) کہا گیا ہے، جس میں انتہائی عام طور پرپائےجاتے ہے اور ان کی صفت "موزون" لائی جاتی ہے۔ ان ذرائع سے ایسے فنی سائنسی مسائل کی طرف اشارہ دیا جاتا ہے جو اس دور سے پہلے کسی انسان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آسکتے تھے ـ


جب سے انسانی زندگی زمین پر شروع ہوئی ہے تب سے انسان نے ہمیشہ تخلیق کے اس عظیم منصوبے میں اسکی اپنی حیثیت اور خود زندگی کے مقاصد سمجھنے کی سعی کی ہے۔ سچ کی اس تلاش میں صدیوں کے اس عرصے میں اور مختلف تہذیبوں نے منظم طور پر مذہب کو مستقل زندگی کی تشکیل دے دی ، اور اعلی حدود تک انسانی تاریخ کا راستہ متعین کیا ۔ اسی طرح بعض مذاہب کی بنیاد لکھی ہوئی کتب پر مشتمل ہے ـ

انسان کے ذہن میں اب یے سوال آتا ہے کہ قرآن حکیم اور جدید سائنس میں یکسانیت اور مطابقت ملتی ہے یا نہیں۔اس کے جواب میں سب سے پہلے یہ بات انسان کو ذہن نشین کرنی چاہئے کہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں بلکہ یہ نشانیوں یعنی آیات کی کتاب ہے۔ قرآن مجید میں چھ ہزار دو سو  چھتیس آیات ہیں، جن میں ایک ہزار سے زائد آیات سائنسی علوم کےبارے میں بتاتی ہیں اور سائنس کی معلومات فراہم کرتی ہیں 14ـ

قرآن کریم میں جہان سائنس کا ذکر ملتا ہے وہاں مذہب کا تذکرہ بھی موجود ہے ، اس کا مطلب یہ ہوا کہ سائنس اور مذہب کا اکٹھا ذکر ملتا ہے ، مگر یہ دورحاضر کا المیہ ہے کہ سائنس اور مذہب دونوں کی سربراہی ایک دوسرے سے نا آشنا لوگوں کے پاس ہےـ اسی طرح ان دونوں قسم کے لوگ ایک دوسرے کے مقابلے میں دوسرے علم سے دور ہونے کی وجہ سے اسے دوسرے علوم کو اپنے علوم سے مخالف اور ان علوم کو آپس میں ربط و تعلق سے علحدگی تصور کرتے ہیںـ جسے عام لوگ ناقص علم اور کم فہمی کے باعث سائنس اور مذہب میں تضاد سمجھتے ہیں ۔

قرآن مجید میں مستقبل کی سائنسی ترقی کا ذکر
قرآن مجید کے بیان کندہ اسلوب سے اس بات کاثبوت ملتا ہے کہ قرآن مجید میں مستقبل کی باتوں کا ذکر اشارات کی صورت میں ملتا ہے اور سائنس کی ترقی کے اتنے زیادہ اشارات قرآن حکیم میں موجود ہیں کہ قرآن اور سائنس کا ایک ساتھ علم رکھنے والےآدمی کو قرآن شریف سائنسی تحقیق کا انسائیکلوپیڈیا محسوس ہوگا- قرآن مجید میں تفکر وتدبر کرنے کی بیحد اہمیت اور ضرورت ہے جسے قرآن مجید نے بہت مرتبہ فرمایا ہے، قرآ ن مجید میں بہت سے ایسی مثالیں موجود ہیں لیکن کچھ مختصر طور پر ذکر کرتے ہیں۔ حضرت موسی ؑ کے معجزات کے حوالے سے دو علوم یعنی علوم نجوم اور علم جادو کا تذکرہ آیا ہے ، جن سے مراد قوم فرعون کے لوگ ہیں اور وہ ان علوم میں ماہر تھے اور اتنی اہمیت کے حامل تھے کہ اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں ان کا تفصیل سے کئی بار ذکر فرمایا- اور تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یے علوم آجکل اتنی ترقی کی منزل پربالکل نہیں ہیں جتنی ترقی ان علوم کو فرعون کے عہد میں تھی۔ یعنی اس علم میں ترقی کی ابھی کافی گنجائش ہوسکتی ہے اور اس لحاظ سے مستقبل میں اس کے ترقی کے کافی امکانات ہو سکتے ہیں ۔اسی طرح اس جیسا ایک اور مثال حضرت یوسفؑ کی زندگی وحالات کے واقعے میں رؤیا کی تعبیر اور باتوں کا انجام نکالنے کا ذکر کیا گیا ہے ۔اللہ تبارک وتعالی نے یے علم دوسرے انبیاء کے علاوہ حضرت یوسف ؑ کو خود سکھایا اسی وجہ سے اس علوم کے جواز میں کسی قسم کے کوئی شک و شبہہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جیسا پہلے ذکر کیا گیا کہ آجکل کے زمانے میں اس علم کو سائنس کی حیثیت حاصل نہیں ہے بلکہ جو بزرگ خواب کی تعبیر بتاتے ہیں وہ اپنی دل کے خلوص سے اندازہ بتاتاہے ۔ اگر یے باقاعدہ علم ہوتا تو اس کو سکھایا جاسکتا اور اس پردوسرے علوم کی طرح کئی مستند کتب بھی لکھی ہوئی ہوتیں اور علمی مراکز میں بھی اس کی درس وتدریس کا بھی باقاعدہ نظام بنایا جاتا۔15
قرآن مجید اور علم الطب ((Holy Qurʾān and Medical Science
علاج ومعالجہ اور طبعی خدمات سماجی خدمات کی فہرست میں آتی ہیں اگر ایک ڈاکٹر نیت کے خلوص کے ساتھ کسی مریض کا علاج کرے ۔اور وہ مریض صحتیاب ہوجائے تو اس ڈاکٹر کے لئے ایسا یہ عمل ہے جیسا کہ اس نے پوری دنیا کے انسانوں کو زندگی عطا کی اور اگر اس کی کسی غفلت ،کام چوری یا سستی یا غلط تشخیص یا غلط دوائی تجویز کرنے سے کوئی مریض فوت ہوجاتاہے تو یے ایسا ہے جیسا کہ اس نے پوری دنیا کے انسانوں کی جان لی-
من قتل نفسا بغير نفس أو فساد في الأرض فكأنما قتل الناس جميعا ومن أحياها فكأنما أحيا الناس جميعا16
تخلیق کائنات (The Big Bang)
فلکیات کے ماہرین نے کائنات کی تخلیق کی وضاحت ایک مقبول نظریے بگ بینگ سے کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک کائنات شروع میں ایک بڑی کمیت (Primary Nebula) تھی پھر بگ بینگ (دوسری علیحدگی) ہوئی، جس کے باعثس کہکشائیں (Galaxies) ظہور پذیر ہوئیں ۔ پھر یہ کائنات ستاروں ،سیاروں ،شمس و قمر کی صورت میں منقسم ہو گئیں17۔ کائنات کی شروعات بلکل اچھوتی تھی اور ایسا اتفاقیہ ہوجانے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا، کائنات کی ابتدا سے متعلق مندرجہ ذیل آیت ہمیں بتاتی ہے کہ

اولم یر الذین کفروا ان السموت والارض کانتا رتقا ففتقنهما18

ترجمہ :" کیا کفار نے دیکھا نہیں کہ بے شک آسمان اور زمین دونوں ملے ہوئے تھے، تو ہم نے جدا جدا کردیا "

شعبہ تقابل ادیان کا مشہور ماہر ڈاکٹر محمد ذاکر نائیک اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی اس آیت اور بگ بینگ کے نظریے کے درمیان مطابقت سے انکار کرنا ناممکن ہے۔ چونکہ ایک کتاب جو کہ چودہ سو سال پہلے عرب میں نمودار ہوئی ، اس عمیق سائنسی حقیقت کی حامل کیسے ہو سکتی ہے؟

مذہب اور سائنس کے بنیاد میں فرق
مذہب اور سائنس دونوں میں عدم تضاد کا سب سے پہلا سبب یہ ہے کہ دونوں کی بنیادیں ہی الگ الگ ہیں۔ حقیقت میں سائنس کا موضوع "علم"ہے اور علم کا موضوع "ایمان" ہے- علم ظن پر ہوتا ہے اسی بنا پر اس میں خطا کا اندیشہ پایاجاتاہے اور سائنس کی تمام پیش رفت اقدام و خطاء (Trial & Error) لمبی کوشش و کاوش سے عبارت ہے ـ جبکہ ایمان کی بنیادشبہات کے برعکس یقین پرہوتی ہے، اسی لئے اس میں غلطی کاکوئی اندیشہ موجودنہیں- جبکہ قرآن حکیم کی سورۃ البقرۃ میں اللہ رب العزت نے ایمان والوں کو اپنی خوشخبری ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:

الذین یومنون بالغیب19

ترجمہ : جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔

گویا ایمان مذہب کی بنیاد ہے ،جس کو تجربہ اورمشاہدہ کے بنیاد پرحاصل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اسے کسی مشاہدے کے بغیریقین پر نصیب ہوتا ہے ـ یعنی ایمان کے لیئے کسی مشاہدے کی ضرورت نہیں بلکہ اسے بھروسہ کہ ذریعے حاصل کیا جاتا ہے ۔ ایمان اس حقیقت کو سچی دل سے قبول کرنے کا نام ہے جو مشاہدے میں نہیں آتے اور غیب کے پردہ میں رہتے ہیں ـ اس کو ہم اپنے خود ساختہ علم کے ذریعے سے معلوم نہیں کر سکتے بلکہ انہیں تجربات اور مشاہدات کے بغیر صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے حکم سے تسلیم کیا جاتاہے ، مذہب ان حقائق کی بنیاد پر مبنی ہے ، جو اوپر بیان ہو چکے ہیں ـاس کے برعکس ہمیں جو چیزیں مشاہدے میں آرہی ہیں جن کے بارے میں حقائق اور مشاہدات روز مرہ کی زندگی میں ہمارے تجربے میں آتے رہے ہیں ، ان مشاہدات و حقیقت کا علم سائنس کہلاتا ہے ـچنانچہ سائنس انسان کے ہاتھوں سے تشکیل پانے والا علم (Human acquired Wisdom)ہے، جبکہ مذہب اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے عطاکردہ علم(Allah-Gifted Wisdom) ہے۔اسی لئے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سائنس کا سارا علوم امکانات پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ مذہب میں کوئی امکانات نہیں بلکہ وہ(Human acquired Wisdom) سراسر قطعیات پر مشتمل ہوتا ہے۔ مذہب کی ساری حقیقت ووثائق اور حتمیت ( ( Certainty & Finalityپر باندھی ہوئی ہیں یعنی مذہب کی ہر بات حتمی اور واجب حکم کی حیثیت رکھتی ہےاس کہ بالمقابل سائنس کا آغاز اور اس کی بنیاد ہی مفروضوں ((Hypothesisپر مبنی ہے اسی لئے سائنس میں امکان کا درجہ (degree of probability) زیادہ تر مشتمل ہوتا ہے ـ مفروضہ، مشاہدہ اور تجربہ کے مختلف مرحلوں سے طئی کر کہ کوئی شی قانون (law) کے درجہ پر پہنچتی ہے اور اس کے بعد جاکر اس کا علم ’حقیقت‘ کے زمرے میں تصور کیا جاتا ہے، سائنس کی تحقیقات کی ساری پیش رفت میں درحقیقت صورتحال اس نتیجے پر ہے کہ جن حقائق کو ہم بارہا اپنی عقل کی کسوٹی پر جانچنے اور مشاہدے کرنے کے بعد سائنسی قوانین تسلیم کرتے ہیں ان میں بھی زیادہ تر تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔ چنانچہ ان حقائق کی بناء اور اس زائد تفریق کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذہب اور سائنس میں ٹکراؤ کا امکان ہی خارج از بحث ہے۔20 قرآن اور سائنس کے تعلق کے بارے میں جو علوم پائے جاتے ہیں ان کو مختصر طور پہ جائزہ لینا بہت اہم ہیں۔

1: علم الطب (Medical Science)

طب کے علوم میں تاریخ اسلامی بھی عدیم المثال مقام کی حیثیت رکھتی ہے، اس علوم کےتحقیقی میدان میں ابو القاسم، ابن رشد، الکندی ،الرازی زہراوی اور ابن سینا کے نام فہرست میں شمار ہوتے ہیں ۔مسلمان سائنس دانوں نے اسلام کے پہلے زمانے میں ہی اعلی قسم کے طبی ادارے (Medical Colleges)اور ہسپتالیوں کی بنیاد ڈالی تھی ، جہاں علم الادویہ (Pharmacy) اور علم الجراحت (Surgery) کی درس وتدریس بھی ہوتی تھیں۔21

ابو الحسن بن سینا (Avicenna) (1037ء) نے "القانون"(Canon of Medicine) جیسی تصنیف لکھ کر طب کی دنیا مین ایک عظیم دور کی بنیاد ڈالی - اس تصنیف کے تراجم عربی، لاطینی اور دوسری زبانوں میں بھی کیا گیا ، اسی طرح یہ تصنیف سن 1650ء میں اتنی ترقی پذیر ہوئی کہ یے کتاب یورپ کے مختلف یونیورسٹیز کے نصاب میں بھی شامل رہی 22ـ

دنیائے اسلام کے نامور طبیب الرازی (930ء) نے علم الطب (Medical Science) پر دو سو سے زائد کتابوں کی تصنیف کی تھیں ، ان کتب میں سے بعض کتب کا لاطینی، انگریزی اور اس کے علاوہ دوسری جدید زبانوں میں ان تراجم کئے گئے اور انھیں صرف 1498ء سے 1866ء تک تقریبا چالیس مرتبہ چھاپا گیا smallpox اور Measles پر سب سے اول الرازی نے ہی متعارف کرواکر پیش کئے۔23

البیرونی ابو ریحان (1048ء) نے pharmacology کی تصنیف کی۔ علی بن عیسی بغدادی اور عمار الموصلی کی امراض چشم اور ophthalmology پر لکھی گئی کتب اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف اول تک یورپ اور فرانس کےطبی کالیجز (medical colleges ) میں textbooks کے طور پر ان کے نصاب میں شامل تھیں۔ ایک مغربی مفکر E. G. Browne جو غیر مسلم تھے، وہ مسلمانوں کی ان باتوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتا ہے: "جب عیسائی یورپ کے لوگ اپنی صحتیابی کے لئے اپنے بتوں کے سامنے اپنا سر جھکاتے تھے اس وقت مسلمانوں کے ہاں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز، معا لجین، ماہرین اور شاندار ہسپتال موجود تھے"۔

"اسلامی دنیا میں دسویں صدی عیسوی سے ہی طب کے علوم اور علم الادویہ کا باقائدہ نظام رکھا گیا تھا۔ ایک وقت ایسا تھا جس وقت سنان بن ثابت نے بغداد میں ممتحنین کے بورڈ کے رئیس تھے۔ ادویہ سازوں کو بھی باقاعدہ منظم کیا گیا تھا اور عربوں نے ہی سب سے پہلے میڈیکل سٹورز قائم کئے حتی کہ طبی نقطۂ نظر سے حجاموں کی دکانوں کا بھی معائنہ کیا جاتا تھا۔ گیارہویں صدی عیسوی میں سفری (mobile) ہسپتالوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ 1284ء کے قریب دمشق میں قائم شدہ عظیم الشان ’المنصور ہسپتال‘ موجود تھا۔ جس کے دروازے امیر و غریب، مرد وخواتین، غرض تمام مریضوں کے لئے کھلے تھے اور اس ہسپتال میں عورتوں اور مردوں کے لئے علیحدہ علیحدہ وارڈ موجود تھے۔ ایک وارڈ مکمل طور پر بخار کے لئے (fever ward) ایک آنکھوں کی بیماریوں کے لئے (eye ward) ایک وارڈ سرجری کے لئے (surgical ward) اور ایک وارڈ پیچش (dysentery) اور آنتوں کی بیماریوں (intestinal ailments) کے لئے مخصوص تھا۔ علاوہ ازیں اس ہسپتال میں باورچی خانے، لیکچر ہال اور ادویات مہیا کرنے کی ڈسپنسریاں بھی تھیں اور اسی طرح طب کی تقریبا ہر شاخ کے لئے یہاں اہتمام کیا گیا تھا"۔

یہ بات بھی اہم ہے کہ مسلمانوں کی طبی تحقیقات و تعلیمات کے تراجم یورپی زبانوں میں کئے گئے جن کے ذریعے یہ سائنسی علوم یورپی مغربی دنیا تک منتقل ہوئے۔ خاص طور پر ابوالقاسم الزہراوی اور المجوسی کی کتب نے طبی تحقیق کی دنیا میں انقلاب بپا کیا۔

"ان کے طبی علم اور معلومات والی کتب جن کا بعد ازاں لاطینی اور یورپی زبانوں میں تراجم ہوئے، ان کی انسانی جسم میں خون کی گردش کے متعلق علم کی و سعت کا انکشاف سامنے آتا ہیں۔ ’ابوالقاسم الزہراوی‘ کی جراحی پر تحقیق ’کتاب التصریف لمن عجز عن التالیف‘ اس کتاب کا ترجمہ Cremona کے Gerard نے لاطینی زبان میں کیا، اور اس کی ایک صدی بعد Shem-tob ben Isaac نے بھی عبرانی زبان میں اس کا ترجمہ کیا۔ اس طبی علوم کے میدان میں ایک اور اہم ترین کام المجوسی (وفات 982ء) کی تصنیف ’کتاب الملیکی‘ ہے، ’براؤن‘ کے مطابق ان اشیاء سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مسلمان طبیبوں کو شریانوں کے سسٹم کے متعلق بنیادی معلومات اورتصورات معلوم تھیں اور ’میکس میئرہوف‘ کے الفاظوں میں ’ابن النفیس‘ (وفات 1288ء) وقت اور مرتبے کے لحاظ سے ’ولیم ہاروے‘ کا پیش رو تھا۔ درحقیقت انھیں ’مائیکل سرویٹس‘ سے تین صدیاں قبل سینے میں پھیپھڑوں کی حرکت اور خون کی گردش کا سراغ لگایا تھا۔ خون صاف کئے جانے کے بعد بڑی بڑی شریانوں میں وہ یقینا پھیپھڑے کی شریانوں میں بلند ہونا چاہئے تاکہ اس کا حجم بڑھ سکے اور وہ ہوا کے ساتھ مل سکے تاکہ اس کا بہترین حصہ صاف شفاف ہو جائے اور وہ نبض کی شریان تک پہنچ سکے جس سے یہ دل کے بائیں حصے میں پہنچتا ہے"۔24

نتیجہ

قرآن مجید ایک ایسا منبع علوم ہے جو مختلف الجہات (ہمہ جہت) ہونے کے علاوہ تمام علوم کا جامع بھی ہے۔ قرآن مجید کے علاوہ کوئی الہامی کتاب (بیک وقت) ان ہمہ وصف خاصیتوں کی حامل نہیں ہو سکتی۔ سائنسی ترقی کے آغاز سے لے کر ترقی کی موجودہ اوج ثریا تک کے ادوار میں جب ہم قرآنی تعلیمات اور انسانی (کاوشوں کی زائیدہ) سائنس کی دریافتوں اور تجربات کے مابین نسبت قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو قرآنی تعلیمات پر ہمارا ایمان پہلے سے بھی مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ مزید برآں قرآن حکیم خود اپنی آیات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے سائنسی بنیادوں پر تفکر و تدبر کی درس دیتا ہے۔

قرآن حکیم کائنات کے جن حیا تیا تی اور طبعی حقائق کو بیان کرتا ہے، جدید سائنسی علوم کا فیض عام ہونے سے قبل انسانیت انہیں جاننے سے قاصر تھی۔ اب جبکہ قرآن مجید کے ان بیانات کی بلا شک و شبہ کاملا تصدیق میسر آ چکی ہے، لہذا کسی بھی غیرمتعصب شخص کو اس کی باقی تعلیمات کے قبولنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیئے۔ خاص طور پر جب ان تعلیمات کی عملی توجیہہ دنیا میں موجود ہر چیز سے بالا و برتر ہے۔

اگرچہ (اقدام و خطاء کے) امکانات اور سائنسی مشاہدات کی مختلف تعبیرات کا پہلو بھی (شکوک و شبہات پیدا کرتے ہوئے) ذہن پر چھایا رہتا ہے مگر پھر بھی مذکورہ بالا وجوہات سائنسی تناظر میں قرآن مجید کے مطالعہ کو ناگزیر قرار دیتی ہیں، جس کا سبب یہ ہے کہ سائنسی مشاہدات کی توضیح و تشریح میں پائے جانے والے اختلافات منطق، گرامر اور دوسرے لسانی قواعد کے ماہرین میں پائے جانے والے اختلافات ہی کی طرح (معمولی نوعیت کے حامل) ہیں۔

حوالہ جات

آل عمران، 3 : 190، 191
مودودی،ابو الاعلی سید، تفہیم القرآن (ترجمہ سورہ آل عمران آیت نمبر 190،191) لاہور ترجمان القرآن
القادری، ڈاکٹرمحمد طاہر، اسلام اور جدید سائنس، صفحہ 52، فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ ،منہاج القرآن پرنٹر لاہور،جولائی 2012ع
محولہ بالا، صفحہ 57
محولہ بالا، صفحہ 58
آل عمران، 3/191
القرآن، حافظ صلاح الدین یوسف، تفسیر احسن البیان، دارالسلام ، صفحہ 125،( تفسیر آل عمران :191)
سائنس اور آج کی دنیا، ماہنامہ ترجمان القرآن لاہور،دسمبر 1994ء
( 41 : حم السجدۃ :53 ) ، تفسیر احسن البیان، ص:787
القادری،اسلام اور جدید سائنس صفحہ58،59
یونس، آیت :100
ترجمہ تفہیم القرآن
الحجر: ۱۹
نائیک،ڈاکٹرمحمد ذاکر،قرآن اور جدید سائنس، صفحہ 70،مطبع: زاہد بشیر پرنٹر لاہور
جاہ حشمت ڈاکٹر ، قرآن اور جدید سائنس،لاہور اردو بازار صفحہ 88،89
المائدہ ، آیت 32
نائک،ڈاکٹر محمد ذاکر عبدالکریم ۔ قرآن اور جدید سائنس،صفحہ 71،72
الانبیآء ،آیت : 30
البقرۃ : آیت 2،3
القادری، ڈاکٹر محمد طاہر،اسلام اور جدید سائنس صفحہ61
محولا بالا
محولا بالا، صفحہ94،95،
محولا بالا، صفحہ،95
(Ibn al-Nafis and his Theory of the Lasser Circulation, Islamic Science, 23 : 166, June, 1935)
______________________________

اسلام اور سائنس میں تضاد کا تحقیقی جائزہ

اسلام اور سائنس میں موافقت یا مخالفت کا موضوع موجودہ دور کا اہم مسئلہ ہے ۔ علمی حلقوں میں اس کے متعلق مختلف نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں ۔[1] اس مقالے میں اسلام اور سائنس کے مابین تعلق کی نوعیت سے بحث کی گئی ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ ان کا آپس میں کیا تعلق ہے؟


 

مذہب اور سائنس میں کشمکش کا تاریخی جائزہ

 

مذہب اور سائنس میں چپقلش کا آغاز اس وقت ہو اجب اہل کلیسا کا یورپ پر مکمل تسلّط تھاا ور عیسائیت سیاہ وسفید کی مالک تھی۔ عدم رواداری، تعصّب اور توہّم پرستی نے حصولِ علم اور سائنسی مطالعے کو ناممکن بنا دیا تھا ۔ حریت فکر اور سائنسی تحقیقات کی ہر کوشش کو اہل کلیسا نے جبرًا دبا رکھا تھا اور ایسی ہر تعلیم کو ناجائز قرار دے دیا تھاجو ان کے من گھڑت معتقدات کے خلاف ہو۔ [2]جب سائنس کے غلبے کا دور آیا تو مذہب (عیسائیت ) کے خلاف شدید ردِّعمل اور نفرت کا اظہار کیا گیا۔ ابتدا میں یہ کشمکش فقط عیسائیت اور سائنس کے مابین تھی مگر بعد میں نفسِ مذہب (خواہ کوئی بھی مذہب ہو) سائنس کا مدِّ مقابل تصور کر لیا گیا۔[3] مذہب اور سائنس میں مخالفت کا یہ غلط تصور فقط عیسائی دنیا تک ہی محدودنہ رہا بلکہ اسلامی ممالک میں بھی اسکے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔جب ہم مذہب اور سائنس میں مخالفت کے محرکات تلاش کرتے ہیں تو ہمیں دو طرح کی وجوہات نظر آتی ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ مغربی دنیاکی طرف سے ہے جبکہ دوسری وجہ اہل اسلام کی طرف سے ہے۔
 

پہلا سبب: مغربی دنیا کی مخالفت


 

حضرت عیسٰی علیہ السلام کے رفع آسمانی کے بعد بنی اسرائیل کے علماء نےکتاب مقدس میں بہت سی تحریفات کر دی تھیں۔[4] کتاب مقد س میں تحریف کی بدولت یونانی فلسفہ بائبل کا حصہ بن گیا۔ جسے دین عیسوی کے ماننے والے آہستہ آہستہ اپنا مستقل عقیدہ سمجھنے لگ گئے۔ یونانی فلسفہ چونکہ بے شمار اغلاط پر مشتمل تھا اس لیے کتاب مقدس میں سائنسی اغلاط در آئیں۔[5]محمد قطب لکھتے ہیں "یورپ میں مذہب اور سائنس کی چپقلش کا اصل باعث اہل کلیسا کی حماقت تھی جس کی وجہ سے انہوں نے سوچے سمجھے بغیریونان سے ورثے میں ملنے والے بعض "سائنسی حقائق" کو اپنے مذہب کا جزو بنا کر انہیں تقدس کا رنگ دے دیا تھا۔ان کے نزدیک ان(نظریات) کا انکار صداقت اور حقیقت کا انکار تھا"۔[6] مولانامودودی لکھتے ہیں "اگرچہ کائنات کے آثار کا مشاہدہ ، ان کے اسرار کی تحقیق، ان کے کُلی قوانین کی دریافت، ان کے مظاہر پر غوروفکر، اور ان کو ترتیب دے کر قیاس و برہان کے ذریعے سے نتائج کا استنباط، کوئی چیز بھی مذہب کی ضد نہیں ہےمگر سوئے اتفاق سےنشاۃِ جدید(Renaissance) کے عہد میں جب یورپ کی نئی علمی تحریک رونما ہوئی ، تو اس تحریک کو اُن عیسائی پادریوں سے سابقہ پیش آیا جنہوں نے اپنے مذہبی معتقدات کو قدیم یونانی فلسفہ و حکمت کی بنیادوں پر قائم کر رکھا تھا ااور جو یہ سمجھتےتھے کہ اگر جدید علمی تحقیقات اور فکری اجتہاد سے ان بنیادوں میں ذرا سا بھی تزلزل واقع ہو ا تو اصل مذہب کی عمارت پیوندِ خاک ہو جائے گی"۔[7]جب نشاۃ ثانیہ کی تحریک کا آغاز ہوا تو "ابتدا میں لڑائی حریتِ فکر کے عَلم برداروں اورکلیسا کے درمیان تھی مگر ۔۔۔بعد کے ادوار میں یہ انتہاء پسندی اس حد تک پہنچی کہ اس کے بعد نفس مذہب (خواہ وہ کوئی مذہب ہو) اس تحریک کا مدّمقابل قرار دیا گیا۔[8] عیسائیت کی شکست اور سائنس کی فتح کے بعد اگرچہ یہ جنگ اب ختم ہو چکی ہے لیکن جدید ذہن اب بھی اسلام سمیت دیگر تمام ادیان کو عیسائیت ہی کے پردے میں دیکھ رہا ہے اور انہیں بھی سائنسی تحقیقات پر پہرے بٹھانے والے اور باطل ادیان سمجھ رہا ہے حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ مذہب اور سائنس میں مغایرت کی بحث کبھی بھی اسلام کی بحث نہ تھی بلکہ یہ عیسائیت کے مسخ شدہ مذہب اور سائنس کی جنگ تھی۔[9]
 

مذہب اور سائنس میں جس خلیج کی ابتدا اہل کلیسا نے کی تھی، ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے اس کو مزید تقویت بخشی۔ ڈارون سے ڈیڑھ صدی پہلے آئزک نیوٹن کےلیے سائنس مذہب سے الگ نہیں تھی۔ بلکہ اس سے بالکل برعکس یہ مذہب کا ایک پہلو تھی اور بالآخر اس کے تابع تھی لیکن ڈارون کے زمانے کی سائنس نے خود کو مذہب سے نہ صرف الگ کر لیا بلکہ اس کی حریف بن گئی۔ اس طرح مذہب اور سائنس کے درمیان ہم آہنگی کی آخری رمق بھی ختم ہو گئی اور وہ دو مخالف سمتوں میں چلنے لگے جس کی وجہ سے انسانیت مجبور ہوگئی کہ وہ دو میں سے کسی ایک کو منتخب کرے۔[10]
 

مذہب اور سائنس کے درمیان معاندانہ رویے کی ایک بڑی وجہ اہل مغرب کا مادی طرز فکرہے جس کے لوازم میں سے ہے کہ قدرت کی نشانیوں سے عبرت حاصل کرنے اور خالق کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اسکی نشانیوں کا مذاق اڑایا جائے ۔موریس بکائیے مغرب کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "انسان علم کی شاہراہ پر جیسے جیسے آگے قدم بڑھاتا ہے' خصوصا انتہائی چھوٹی اشیاء کے بارے میں' اس کی معلومات میں جو اضافہ ہوتا ہے اس سے ایک خالق کے وجود کی تائید میں دلائل زیادہ قوت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان حقائق سے دوچار ہونے کے بعد بجائے اسکے کہ انسان میں عجزکی صفت پیدا ہو اس میں گھمنڈ پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ خدا کے تصور کا اسہتزاء کرنے لگتا ہے اور اس طرح سے وہ کسی بھی ایسی چیزکو جو اس کو عشق و نشاط سے علیحدہ کر دے، کچلتا ہوا آگے بڑھنے لگتا ہے۔ یہ اس مادہ پرست سماج کا وہ مثالی پیکر ہے جو اس وقت مغرب میں نشوونما پا رہا ہے"۔[11]

 

دوسرا سبب: اہل اسلام کی مخالفت

 

علمائے دین (جنہوں نے صرف مدرسے سے علم حاصل کیا تھااور سائنس کے نظریات سے
 

واقف نہ تھے) نے یہ غلط تصور قائم کر لیاکہ جو فلسفہ مدرسے میں پڑھایا جاتا ہے وہ قرآن و حدیث سے

 

ماخوذ ہے۔ مدرسے کے روائتی انداز [12]کی وجہ سے انہوں نے اس حقیقت کوجاننا کبھی ضروری ہی نہیں سمجھا کہ یہ حقیقت میں یونانی فلسفہ ہے۔ اور اس فلسفے کے بعض تصورات سائنسئ نظریات کے خلاف ہیں۔اس غلط تصور کا کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب بھی سائنس کی کوئی نئی ایجاد ان کے سامنے آئی جو یونانی فلسفہ کے مخالف تھی تو انہوں نے سمجھاکہ یہ نظریہ اسلام کے خلاف ہےجوکہ ایک بالکل غلط معیار تھا۔ اور اس طرح کی فکر کو اپنانا غلط سوچ اور اصلیت سے بے خبری کی بنا پر تھا۔[13]

 

اسلام اور سائنس کا باہمی تعلق
 

اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے عقل پر پہرے بٹھانے کی بجائےعالمِ ارض و سما میں غورو فکر کرنے اورتسخیر کائنات کو بندہ مومن کی بنیادی صفات میں سے شمار کیا ہے قرآن کریم میں بے شمار ایسی آیات پائی جاتی ہیں جن میں لیل ونہار کی گردش، آسمان وزمین کی تخلیق، سمندروں میں کشتیوں کے چلنے اور ہواؤں کے آنے جانے میں بھرپور انداز میں غور وفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔خالد خان خلجی اسلام اور سائنس کے تعلق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں" قرآن کریم باربار ملکوت السموات و الارض میں غور وفکر ،تدبر اور تسخیر کی تاکید کرتا ہے علم اور حکمت کے حصول پر اسلام کا زور اور وسیع النظری دیکھ کر سائنس بھی اسلام کی مخالف نہیں بلکہ مظہر اسلام اور خادم اسلام ہے جوں جوں دنیا میں ترقی ہو گی سائنس اور حکمت اسلام کو منکشف کرتا رہے گا"۔ [14]موریس بکائیے لکھتے ہیں کہ " قرآن جہاں ہمیں سائنس کو ترقی دینے کی دعوت دیتا ہے وہاں خود اس میں قدرتی حوادث سے متعلق بہت سے مشاہدات و شواہد ملتے ہیں اور اس میں ایسی تشریحی تفصیلات موجود ہیں جو جدید سائنسی مواد سے کلی طور پر مطابقت رکھتی ہیں۔ یہودی، عیسائی تنزیل میں ایسی کوئی بات نہیں۔[15]

 

اسلام کے قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور سائنسی قوانین فطرت کی دریافت کا نام ہے جو کائنات میں غیر متبدل شکل میں محفوظ ہیں لہذا ہر سائنسِ حقیقت اور صداقت، دین فطرت کا عین تقاضا ہے اسکی ضد اور مخالف نہیں یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال میں مسلمانوں نے اسلام کے اس عطا کردہ تصور کے تحت نہ کسی سائنسی دریافت کی مخالفت کی اور نہ کسی سائنسی حقیقت کی دریافت پر کسی ایک فردکو سزا دی گئی۔ مسلم سائنس دانوں نے سائنس کے حقائق معلوم کیے اور ایجادات بھی کیں اور یورپ نے ان سے سائنس سیکھی لیکن نہ انکی مخالفت کی گئی اور نہ سائنس دانی کی وجہ سے مسلم سائنسدانوں کے اسلامی عقائد میں فرق آیا یہ امر واضح دلیل ہے کہ سائنس اور اسلام میں توافق ہے تخالف نہیں البتہ مسلم سائنسدانوں اور ان کے شاگرد یورپی سائنسدانوں کے بنیادی اصول میں فرق تھا جس کی وجہ سے اسلامی سائنس ان خرابیوں سے محفوظ رہی جو موجودہ یورپی سائنس کو لاحق ہوئیں۔[16]

 

موریس بکائیے لکھتے ہیں کہ"اسلام کے نقطہ نظر سے مذہب اور سائنس کی حیثیت ہمیشہ دو جڑواں بہنوں کی سی رہی ہے۔شروع ہی سے اسلامی تمدن کے دور عروج میں سائنس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔جس سے نشاۃ ثانیہ سے قبل خودمغرب نے بھی استفادہ کیا ہے موجودہ سائنسی معلومات نے قرآن کریم کی آیات پر جو روشنی ڈالی ہے اس سے صحیفوں اور سائنس کے درمیان مقابلہ کے لیے فہم و ادراک کی ایک نئی راہ نکل آئی ہے۔ پہلے یہ آیتیں ان معلومات کے عدم حصول کی بناء پر مبہم تھیں جو ان کی توضیح و تشریح میں ممد و معاون ہوسکتی ہیں"۔ [17]مولانا مودودی مذہب اور سائنس میں امتزاج کو اسلام کے وقار اور عالمگیریت کے خلاف نہیں سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک اسلام سائنس کو درست سمت میں لے جانے کے لیے ھادی کا کردار ادا کرتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ " ہم مذہب اور سائنس کے امتزاج کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک تو حقیقی مذہب وہ ہے جو سائنس کی روح، اسکی رہنما طاقت بن جائے۔ اسلام درحقیقت ایساہی مذہب ہے اور آج اسکو سائنس کی روح بننے سے اگر کوئی چیز روکے ہوئے ہے تو وہ اس کا اپنا اندرونی نقص نہیں ہے بلکہ اس کے علم برداروں کی غفلت اور موجودہ سائنس کے علم برداروں کا جہل اور جاہلانہ تعصب ہے۔ یہ دو اسباب دور ہو جائیں، پھر یہ سائنس کے قالب میں جانہی بن کر رہے گا"۔ [18]"سائنس کی ترقی اسلام کی صداقت پر مہر ثبت کرتی ہے ایسی کوئی ترقی نہیں جس کا اسلام میں ذکر نہیں۔ اسلام کے سوا ہر مذہب سائنس سے متصادم و خائف ہے حق کبھی خائف یا مسخ نہیں ہو سکتا"۔[19]

 

علوم انسانی کے ارتقائی مراحل کی طرف نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی ایجادات اور نمایاں سائنسی کارناموں کے میدان میں مسلمان سب سے پیش پیش رہے ہیں۔ ڈاکٹر غلام قادر لون لکھتے ہیں کہ علوم شرعیہ کی نشرواشاعت میں مسلمانوں نے جس جانفشانی، عرق ریزی، اور دیدہ وری کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے مگر یہ ان کا دینی فریضہ تھا جس کی پشت پر خدمت دین کا جذبہ بھی کار فرما رہا ہے۔حیرت اس پر ہے کہ مسلمانوں نے دنیاوی علوم میں بھی اسی دیدہ وری، تحقیق و تفتیش اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے جو علوم دینیہ کےلیے خاص تھی۔ تاریخ، جغرافیہ، حیاتیات، کیمسٹری، فزکس، طب اور ہئیت اور ریاضی جیسے علوم میں مسلمانوں کے شاندار کارناموں کو پڑھ کر عقل چکرا جاتی ہے۔ [20]جارج سارٹن (George Sarton)مسلمانوں کے دسویں صدی کے نصف اول کے کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "بنی نوع انسان کا اہم کام مسلمانوں نے سرانجام دیا ۔ سب سے بڑا فلسفی الفارابی مسلمان تھا، سب سے بڑے ریاضی دان ابو کامل اور ابراہیم بن سنان مسلمان تھے ۔سب سے بڑا جغرافیہ دان اور قاموسی المسعودی مسلمان تھا اور سب سے بڑا مورخ الطبری بھی مسلمان ہی تھا"۔ [21]آرنلڈ ٹائن بی(Arnold Toynbee) ابن خلدون کو یوں خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ جہاں تک فلسفہ تاریخ کا تعلق ہے عربی ادب جس عظیم آدمی کے نام سے روشن ہے وہ ابن خلدون ہے ، عیسائی دنیا اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتی حتی کہ افلاطون، ارسطو وغیر ہ بھی اس خصوص میں اس کے ہم پلہ نہ تھے۔[22]

 

اسلام اور سائنس میں ہم آہنگی کے متعلق سائنسدانوں کی آراء

 

ذیل میں چند ایک سائنسدانوں کی اسلام کے متعلق آراء کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اسلام اور سائنس میں تعلق کا بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔*

سارٹن اپنی کتاب تاریخ سائنس کا تعارفمیں لکھتا ہےکہ "مسلمانوں کی سائنس کو ہم کس طرح سمجھ سکتے ہیں جب تک ہم اس بات کو پوری طرح نہ سمجھ لیں کہ وہ قرآن کے محور پر گھومتی ہے"۔[23]
فرانس کے مشہور شہنشاہ اور ہیرو جرنیل نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا"وہ وقت دور نہیں جب میں دنیا کے تمام تعلیم یافتہ ، داناو مہذب انسانوں کو قرآن کی صداقتوں پر دوبارہ جمع کروں گا۔ قرآن وہ واحد الہامی کتاب ہے جس کی تعلیمات میں وہ صداقت ہے جو دنیا کو مسرت سے ہم کنار کرسکتی ہے"۔
ڈاکٹر بینا ٹسیٹ، جن کا تعلق پیر س سے ہے، 1935ء میں مسلمان ہوئے ا ور اسلامی نام علی
 

 

 

سلمان رکھا، کہتے ہیں " میں پیرس کی ایک کیتھولک فیملی سے تعلق رکھتا ہوں ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد عیسائیت سے منکر ہو گیا۔ کیونکہ اسکے اصول عقل کی رسائی سے باہر تھے چنانچہ میں نے قرآن حکیم کا مطالعہ شروع کر دیا۔ اس میں بعض ایسے سائنسی حقائق پائے جنہیں ماڈرن سائنس نے آج دریافت کیا ہے۔ تب مجھے مکمل یقین ہو گیا کہ خدا ایک ہے اور محمد ﷺ اسکے سچے رسول ہیں"۔
*

برطانیہ کا فاضل جے ڈبلیو گراف بیان کرتا ہے "قرآن وہ واحد کتاب ہے جس کے الہامی ہونے پر بے شمار تاریخی دلائل موجود ہیں اور محمد ﷺ وہ واحد رسول ہیں جن کی زندگی کا کوئی پہلو پوشیدہ نہیں۔ اسلام ایک ایسافطری اور سادہ مذہب ہے جو فضولیات اور بے ہودگیوں سے پاک ہے۔ قرآن نے اس مذہب کی تفصیل پیش کی اور رسول ﷺ نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔ قول وعمل کا یہ حسین امتزاج کہیں اور نظر نہیں آتا"۔[24]
ڈاکٹر لی آن۔ ایم۔اے، پی۔ ایچ۔ڈی، ایل۔ ایل۔ڈی برطانیہ کا ایک سائنسدان تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام ہارون مصطفی رکھا، کہتا ہے۔"اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسکی بنیاد عقل پر رکھی گئی ہے۔عقل انسانی دماغ کی ایک اہم قوت ہے جسے کلیسا خاطر میں نہیں لاتا لیکن اسلام کا یہ حکم ہے کہ کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے اسے عقل کے پیمانے پر پرکھو۔ اسلام اور صداقت دو مترادف الفاظ ہیں اور کوئی شخص عقل کی مدد کے بغیر صداقت تک نہیں پہنچ سکتا"۔[25]
ڈاکٹر مارقس ایک جرمن صحافی تھا اور اسلام لانے کے بعد حامد مارقس کہلانے لگا، لکھتا ہے " اوّلا میں اس اخلاقی و روحانی انقلاب سے متاثر ہوا جو اسلام نے پیدا کیا دوم اس حقیقت سے کہ اسلامی تعلیمات سائنس کی جدید تحقیقات سے متصادم نہیں"۔[26]
موریس بکائیے لکھتے ہیں" کسی بشر کے لیے جو ساتویں صدی عیسوی میں بقید حیات ہو ' قرآن
 

 

 

میں اتنے بہت سے موضوعات پر جو اسکے زمانے سے تعلق نہ رکھتے ہوں اور جو باتیں صدیوں بعد
 

منکشف ہونے والی ہوں' بیان دے سکے۔ میرے نزدیک قرآن کے لیے کوئی بشری توضیح و تشریح ممکن نہیں ہے"۔[27]
 

اسلامی تعلیمات اور سائنسی نظریات میں تضاد کا علمی جائزہ

 

"اہل کلیسا کی سائنسی نظریات کی مخالفت کی بدولت مذہب اور سائنس کے مابین تضاد کا ایک عام رویہ رواج پاگیا ہے اسکے اثرات جس طرح مغربی دنیا میں مرتب ہوئے ہیں اسی طرح مسلم معاشرے بھی اس تصور سے محفوظ نہیں رہ سکے ہیں۔سائنسی دریافتوں کے اولین دور میں سائنس اور اسلام میں اسی طرح تضاد سمجھا جاتا تھا جیسے مغربی معاشروں میں عیسائیت کی تعلیمات اور سائنس میں آج بھی سمجھا جاتا ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ روش قدرے تبدیل ہو رہی ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات اسلامی تعلیمات کو تدریجا ثابت کر رہی ہیں۔ اسلام اور سائنس پر نمایاں کام کرنے والے سکالر مظفر حسین علامہ اقبال کی بابت لکھتے ہیں کہ "علامہ اقبال کو پختہ یقین تھا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنس اور مذہب کے مابین ایسی ہم آہنگیوں کا انکشاف ہوتا جائے گا جس سے اسلام کی حقانیت دنیا پر منکشف ہوتی جائےگی یعنی جوں جوں علم میں ہمارا قدم آگے بڑھے گا زیادہ سے زیادہ بہتر نظریات سامنے آتے جائیں گے جو قرآنی حقائق کی تائید و تصدیق کریں گے"۔[28]
 

اسلام اور سائنس میں تعلق کی نوعیت کو سمجھنے کے لیےذیل میں ہم اسلامی تعلیمات کے متعلق سائنسی تحقیقات کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ تضاد کی نوعیت واضح ہو جائے ۔
*

انسان کی تخلیق کا قرآنی نظریہ اور جدید سائنس
 

 

 

موریس بکائیے اپنی معرکۃ الآرا کتاب بائبل قرآن اور سائنس میں لکھتے ہیں "جس لمحہ سے قدیم انسانوں کی تحریروں میں افزائش نسل کے موضوع پر تفصیلات کا سلسلہ شروع ہو اہے، اس وقت سے ان میں ایسے بیانات پیش ہوتے رہے ہیں جو درست نہیں ہیں۔ قرونِ وسطی میں اور نسبتا زیادہ دور جدید میں بھی افزائش نسل کے موضوع کو تمام اقسام کے اساطیر اور توہمات گھیرے رہے ہیں۔۔۔قرآن کریم میں کیفیت اس سے قطعا مختلف ہے ۔ الکتاب بہت سے مقامات پر صحیح میکانیات کو بتاتی اور افزائش نسل کے
 

واضح مدارج کو بیان کرتی ہے جس میں کسی ایک مقام پر بھی درست نہ ہونے کا کوئی امکان نہیں"۔[29]
 

قرآن کریم افزائش نسل سے متعلق جن متعدد نکات کی جانب توجہ مبذول کرواتا ہے ان کی فہرست درج ذیل ہے۔
 

1۔ بار آوری کا عمل رقیق مادہ کی صرف نہایت قلیل مقدار سے انجام پاتا ہے۔ 2۔ بارآور کرنے والے رقیق مادہ کے اجزائے ترکیبی 3۔ بار آور شدہ بیضہ کا استقرار 4۔ جنین کا ارتقاء
 

موریس بکائیے ان نکات کی تفصیلات بیان کرتے ہوے جنین کے ارتقاء کے تحت لکھتے ہیں کہ" جنین کے بڑھنے اور ترقی کے بعض مدارج کا قرآنی بیان پوری طرح ان معلومات سے مطابقت رکھتا ہے جو اس کے بارے میں آج ہمیں حاصل ہیں اور قرآن کریم میں ایک بیان بھی ایسا نہیں ہے جو جدید سائنس کے لحاظ سے تنقید کی زد میں آ سکے"[30]
 

حیاتیات کے بارے قرآن قاعدہ کلیہ بتاتا ہے کہ :
 

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ[31]
 

"اور ہر زنده چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں ﻻتے"
 

ڈاکٹر ذاکر نائیک لکھتے ہیں "آج ہم جانتے ہیں کہ ہر زندہ مخلوق کی بنیادی اکائی خلیہ ہے اور خلیہ بیشتر سائٹو پلازم پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ تقریبا نوے فیصد پانی ہوتا ہے۔ ہر زندہ مخلوق پچاس فیصد سے نوے فیصد پانی پر مشتمل ہوتی ہے۔ کیا عرب کے صحراؤں میں کسی کو یہ اندازہ ہوسکتا تھا یا ایسا خیال بھی آسکتا تھا کہ ہر زندہ چیز پانی سے بنی ہے جبکہ قرآن یہ حقیقت 1400 برس پہلے بیان کر چکا ہے"۔[32]
 

جس دور میں سائنس کا وجود تک نہ تھا اس وقت اللہ رب العزت نے اپنی آخری کتاب کے اندر تخلیق انسانی کے مختلف مراحل کا اس احسن انداز سے ذکر کیا ہے کہ موجودہ دور کے دانشور اور سائنسدان نہ صرف حیران ہیں بلکہ ان کے لیے تحقیق کے نئے دروازے بھی کھل رہے ہیں۔ اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کے مختلف مراحل کا مرحلہ وار بڑی خوبصورتی سے ذکر فرمایا ہے۔ درج ذیل آیات میں
 

مراحل کی تفصیل یوں بیان فرمائی گئی ہے۔
 

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلٰـلَـةٍ مِّنْ طِيْنٍ ۔ ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِيْ قَرَارٍ مَّكِيْنٍ ۔
 

ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَـلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَـلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْــمًا ۤ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ۭفَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ[33]
 

"یقیناً ہم نے انسان کو مٹی کے جوہر سے پیدا کیا پھر اسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا پھر نطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا کردیا۔ پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنا دیں، پھر ہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا، پھر دوسری بناوٹ میں اس کو پیدا کردیا۔ برکتوں واﻻ ہے وه اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے واﻻ ہے"
 

سورۃ المومنون کی ان آیات میں انسانی ارتقاء کے سات مراحل بیان کیے گیے ہیں۔
 

1۔سللۃ من طین2۔نطفہ3۔علقہ 4۔مضغۃ5۔عظام6۔لحم7۔خلق آخر
 

سورۃ السجدۃ میں ارشاد ربانی ہے
 

ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـــِٕدَةَ ۭ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ[34]
 

"جسے ٹھیک ٹھاک کر کے اس میں اپنی روح پھونکی، اسی نے تمہارے کان آنکھیں اور دل بنائے (اس پر بھی) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو"
 

ٹورانٹو یونیورسٹی میں شعبہ اٹانومی کے پروفیسرڈاکٹر کیتھ ایل مور (Dr. Keith L.Moore) لکھتے ہیں:

 

“The verse 9 of surah 32 tells us that the faculties of hearing, seeing, and feeling are bestowed upon us in this order. Embryologists confirm that this is exactly the order of development of special senses. Moore further confirms that the primordial of the internal ears appear before the beginning of the eyes, and that the brain, which is the site of understanding, differentiates last”.[35]

 

"سورۃ السجدہ کی آیت نمبر 9 اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ مخصوص حس سامعہ، حس باصرہ اور حس لامسہ بالترتیب نمو پاتی ہیں ۔ایمبرالوجی کے ماہرین کے مطابق انسانی حواس مذکورہ ترتیب سے ہی وجود میں آتے ہیں پروفیسر مور تصدیق کرتے ہیں کہ کانوں کے اندرونی عضویات آنکھوں کی ابتدا سے

 

پہلے ظاہر ہوتے ہیں پھر دماغ (سمجھنےکی صلاحیت) اسے ممتاز کرتی ہے"۔

 

“The realization that the human embryo develops in stages was not discussed and illustrated until the 15th century. After the microscope was discovered in the 17th century by Leuven Hook, descriptions were made of the early stages of the chick embryo. The staging of human embryos was not described until the 20th century. Streeter (d.1941) developed the first system of staging which has now been replaced by a more accurate system proposed by O'Rahilly (d.1972)”. [36]

 

"حیاتیاتی نشوونما کی مرحلہ وار تخلیق کےمتعلق پندھرویں صدی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی ۔بطن مادر میں انسان کے حیاتیاتی نشوونما کے یہ مدارج معلوم کرنے کا باقاعدہ سائنسی نظام سب سے پہلے 1941ء میں سٹریٹر (Streeter)نے ایجاد کیا جو بعد ازاں 1972ء میں O, Rahilly کے تجویز کردہ نظام کے ذریعےزیادہ بہتر اور صحیح شکل میں بدلا گیا اور اب اکیسویں صدی کے آغاز تک یہ نظام مرحلہ وار تحقیق کے بعد بھرپور مستحکم ہو چکا ہے" مگر قرآن مجید کا ان مدارج کو اس ترتیب سے بیا ن کرنا ایک ناقابل انکار معجزہ ہے جس کی جدید سائنس بھی معترف ہے۔

 

مندرجہ بالا سائنسی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ سائنسی نظریات نہ صرف قرآن کی تصدیق کرتے ہیں بلکہ سائنسی تحقیقات کے لیے قرآن رہنما کا کردار ادا کرتا ہوا نظر آتاہے۔*

قرآن اور تسخیر کائنات
 

 

 

قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں صرف آفاق کے مشاہدے کے ضمن میں کم و بیش سات سو آیات نازل ہوئی ہیں اور بے شمار سماوی حقائق سے استشہاد کیا گیا ہے۔[37] مظاہر فطرت میں غوروفکر اور تسخیر کائنات کے متعلق چند آیات بطور نمونہ ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:

 

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۠ وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ

 

لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ[38]

 

"آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو

 

لئے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کر، مرده زمین کو زنده کردینا، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں"

 

اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى[39]

 

"اللہ وه ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پھر وه عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے، اسی نے سورج اور چاند کو ماتحتی میں لگا رکھا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے"

 

وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ[40]

 

"اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے"

 

وَهُوَ الَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ[41]

 

"اور دریا بھی اسی نے تمہارے بس میں کر دیے ہیں کہ تم اس میں سے (نکلا ہوا) تازه گوشت کھاؤ اور اس میں سے اپنے پہننے کے زیورات نکال سکو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس میں پانی چیرتی ہوئی (چلتی) ہیں اور اس لیے بھی کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور ہوسکتا ہے کہ تم شکر گزاری بھی کرو"

 

اَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِيْ جَوِّ السَّمَاۗءِ ۭ مَا يُمْسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ[42]

 

"کیا ان لوگوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا جو تابع فرمان ہو کر فضا میں ہیں، جنہیں بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی اور تھامے ہوئے نہیں، بیشک اس میں ایمان ﻻنے والے لوگوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں"
 

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَّا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً [43]
 

"کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کی ہر چیز کو ہمارے کام میں لگا رکھا ہے اور
 

تمہیں اپنی ظاہری وباطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں "
 

سَنُرِيْهِمْ اٰيٰتِنَا فِي الْاٰفَاقِ وَفِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ اَنَّهُ الْحَقُّ ۭ اَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ اَنَّهٗ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ [44]
 

"عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے، کیا آپ کے رب کا ہر چیز سے واقف و آگاه ہونا کافی نہیں"
 

قرآن کریم اپنے ماننے والوں کو سائنسی انداز فکر اپنانے اور اللہ رب العزت کی پھیلی ہوئی نشانیوں پر غوروفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے ۔ اور اس فعل کو ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیتا ہے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں:
 

الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِھِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ [45]
 

"جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائده نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے"
 

اِنَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ[46]

 

"آسمانوں اور زمین میں ایمان داروں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں"

 

ڈاکٹر اسرار لکھتے ہیں " یہ قرآن کے اسی انداز اوراسلوب کا نتیجہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنے دور عروج میں آفاق و انفس کے تمام گوشوں اور پہلوؤں سے متعلق سائنس کے جملہ شعبوں کے ذخیرہ معلومات کو ہندو یونان سے اخذ کیا اور پھر نہ صرف یہ کہ انہیں ترقی دے کر بام عروج تک پہنچایا بلکہ متعدد نئے علوم و فنون ایجاد کئے اور فی الجملہ قافلہ انسانیت کو زمانہ وسطیٰ کی جہالت کی تاریکیوں اور توہمات کے اندھیروں سے نکال کر مشاہدہ و تجربہ، تحقیق و تفتیش اور ایجاد و اختراع کی شاہراہ پر ڈال دیا"[47]
 

ذیل میں چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سائنس تسخیر کائنات کے
 

ضمن میں کس طرح قرآنی حقائق کی تصدیق کرتی ہے۔

 

کائنات کی وسعت پذیری: قرآن اور جدید سائنس کے تناظر میں

 

ذیل میں کائنات کی وسعت پذیر ی کے متعلق مختلف ادوار میں پیش ہونے والے سائنسی نظریات اور ان کا قرآنی نظریہ کے ساتھ تقابل کیا جاتا ہے۔
 

بیسویں صدی کے شروع تک کائنات کے جمود کا نظریہ قائم تھا یہاں تک کہ 1915ءمیں جب آئن سٹائن نے اپنا نظریہ اضافت پیش کیا تو اسے نظریہ جمود پر اس قدر یقین تھا کہ اس نے اس نظریے کے متوازی مشہور عالم تخلیقیاتی مستقل(Cosmological Constant) کو متعارف کرواتے ہوئے اپنے نظرئیےمیں ممکنہ حد تک تبدیلی کر دی۔1922ء میں روسی ماہر طبیعات اور ریاضی دان الیگزنڈر فرائڈ مین (Alexander Friedman)نے پہلی بار کائنات کی وسعت پذیری کا نظریہ پیش کیا جسے 1929ء میں ایڈون ہبل نے سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا یوں مرحلہ وار سائنسی تحقیقات کے بعد بالآخر 1965ء میں دو امریکی ماہرین طبیعات (آرنو پنزیاس اور رابرٹ ولسن ) [48]نے اسے ثابت کر دیا۔

 

یہاں یہ بات دل چسپ ہے کہ سائنس نے مرحلہ وار تحقیقات کے بعد جس حقیقت تک رسائی حاصل کی ہے اس کی نشاندہی قرآن حکیم میں پہلے ہی سے کر دی گئی تھی۔ [49]اس ضمن میں ارشادات خداوندی ملاحظہ ہوں۔
 

يَزِيْدُ فِي الْخَلْقِ مَا يَشَاۗءُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ [50]
 

"مخلوق میں جو چاہے زیادتی کرتا ہے اللہ تعالیٰ یقیناً ہر چیز پر قادر ہے"
 

وَالسَّمَاۗءَ بَنَيْنٰهَا بِاَيْىدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ [51]
 

"آسمان کو ہم نے (اپنے) ہاتھوں سے بنایا ہے اور یقیناً ہم کشادگی کرنے والے ہیں"
 

وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ [52]"اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں"
 

مندرجہ بالا آیات صراحت سے بتا رہی ہیں کہ یہ کائنا ت ہر آن تغیر پذیر ہے اور اس میں ہر لمحہ وسعت پیدا ہورہی ہے۔
 

نظام ِ شمسی میں سائنسی تحقیقات اور قرآنی نظریہ

 

نظام شمسی میں سائنس کے ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ

 

کس طرح قرآنی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں ذیل میں ملاحظہ ہوں۔*

معلوم انسانی تاریخ کے مطابق سب سے پہلے جو نظام شمسی کے متعلق نظریہ قائم ہوا تھاوہ سمیری (Sumerians )، کلدی ، مصری اور بابلی (Babylonians) قوم کا تھا۔ ان کے خیال میں زمین ساکن تھی جبکہ تمام اجرام سماوی زمین کے گرد گردش کرتے تھے۔
فیثا غورث وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ نظریہ قائم کیا کہ سورج ساکن ہے جبکہ زمین اس کے گرد گردش کرتی ہے۔ تقریبا ایک سو سال تک اس نظریے کا دور دورہ رہا جو بعد میں ختم ہو گیا۔
فیثا غورث کے بعد بطلیموس نے دوبارہ سے زمین کے ساکن ہونے اور سورج کا اس کے گرد گردش کرنے کا نظریہ پیش کیا جس کو زبردست پذیرائی ملی ۔یہ کوئی نیا نظریہ نہ تھا بلکہ بطلیموس نے ارسطو کے نظریے ہی کو فروغ دیا تھا۔ بطلیموس نے زمین کے گرد سورج کی حرکت سے لوگوں کو عملی طور پر آگاہ کیا۔ سکونِ زمین کا نظریہ بطلیموس کے نام سے مشہور ہوا۔ اُس نےاس نظریے کی وضاحت اپنی کتاب "المجسطی " (Almagest) میں کروائی۔ اس کے خیال میں زمین کائنات کا مرکز ہے اور تما م سیارے زمین کے گرد گھوم رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے مدار میں بھی کسی ان دیکھی طاقت کے گرد گھوم رہے ہیں۔بطلیموس کا یہ نظریہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں خاصا مقبول رہا اور عیسائی مذہب کے حصے کے طور پر متعارف رہا۔
اسلامی اندلس کے نامور سائنسدان ابو اسحق ابراہیم بن یحیی زرقالی قرطبی (Arzachel) نے بطلیموس کے نظریے کو دلائل و براہین کے ساتھ رد کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ بطلیموسی نظریہ تقریبا ایک ہزار سال سےعیسائی دنیا میں عقیدے کی حیثیت اختیا ر کر چکا تھا۔زرقالی نے 1080 ء میں سورج اور زمین دونوں کے محو حرکت ہونے کا نظریہ پیش کیا۔ اس تھیوری کے مطابق زمین اور سورج دونوں میں سے کوئی بھی مرکز کائنا ت نہیں ہےاور
زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔
کوپر نیکس (1473ء سے 1543ء ) نے سولہویں صدی کے آغاز میں بطلیموس کے نظریے کو باطل قرار دے دیا۔ بطلیموسی نظریہ چونکہ عیسائیت میں عقید ے کی شکل اختیا ر کر چکا تھا اس لیے اس کے باطل ہونے سے عیسائی دنیا میں بہت بڑا دھچکا لگا۔
ٹیکو براہی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج اور چاند دونو ں زمین کے گرد حرکت کر رہے ہیں جبکہ باقی پانچوں سیارے سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ یوں سولہویں صدی میں سائنس ایک دفعہ پھر خطا ء کی طرف چل پڑی۔ٹیکو براہی کا یہ نظریہ بطلیموس اور کوپر نیکس کے نظریے کا بے تکا اجتماع تھا۔
اٹلی کے سائنسدان گلیلیو نے 1609 ءمیں دور بین ایجاد کر کے کائنات کا مشاہدہ کیا تو ماضی کے تما م نظریات یکے بعد دیگرے مسترد ہو گئے ۔ کوپر نیکس کا نظریہ قدرے درست تھا۔
گلیلیو کے بعد جوہانز کیپلر نے ٹیکو براہی کے نظریا ت کا مشاہدہ کیا اس نے کوپر نیکس کے نظریے میں موجود سقم دور کر کے اس کو درست قرار دے دیا۔ یہ وہی نظریہ تھا جو 1080 ء میں قرطبہ کے مسلمان سائنسدان زرقالی نے پیش کیا تھا۔
سترھویں صدی کےوسط میں سر آئزک نیوٹن نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج ساکن ہے اور تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ نیوٹن نے باقی ساری کائنات کو بھی ناقابل تبدیل قرار دیا۔*

بیسویں صدی کے مشہور زمانہ سائنسدان آئن سٹائن نے برسوں کی تحقیق اور عرق ریزی کے بعد نظریہ اضافت پیش کیا جس کے مطابق تمام اجرام سماوی (خواہ وہ ستارے ہوں یا سیارے ) حرکت میں ہیں۔ علمی حلقوں میں اس نظریے کو قبولیت حاصل ہوئی اور یوں مسلم سائنسدان زرقالی کا پیش کردہ نظریہ حقیقت بن کر سامنے آ گیا۔
 

 

 

یہ نظریہ قرآن حکیم کی عکاسی کرتا ہے تا ہم اس نظریے میں بھی چند اصلاحات کی ضرورت ہے۔ [53]قرآن کریم اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتا ہے

 

وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ [54]

 

"اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں"

 

مرج البحرین پرفرانسیسی سائنسدان کی تحقیق

 

"ایک فرانسیسی سائنسدان جیک وی کوسٹو نے سمندروں کے پانی پر تحقیق کرتے کرتے اپنی ساری زندگی صرف کر دی اور ایک نظریہ قائم کیا جسے "کوسٹو کی تھیوری" کا نام دیا گیا کوسٹو نے دریافت کیا کہ بحر روم اور بحر اوقیانوس کیمیائی اور حیاتیاتی لحاظ سے ایک دوسرےسے مختلف ہیں موصوف نے اس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے آبنائے جبرالٹر کے نزدیک زیر سمندر تحقیقات کر کے بتایا کہ جبرالٹر کے جنوبی ساحلوں (مراکش) اور شمالی ساحلوں (اسپین)سے بالکل غیر متوقع طور پر میٹھے پانی کے چشمے ابلتے ہیں یہ سمندری پانی میں ہوتے ہیں یہ بہت بڑے چشمے ایک دوسرے کی طرف 45 ڈگری کے زاویہ پر تیزی سے بڑھتے ہوئے ایک ڈیم کی طرح کنگھی کے دندوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اس عمل کی وجہ سے بحیرہ روم اور بحیرہ اوقیانوس اندر سے ایک دوسرے میں خلط ملط نہیں ہوتے۔ [55]قرآن حکیم نے اس حقیقت سے یوں پردہ اٹھا یا ہے
 

مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ ۔ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ [56]

 

"اس نے دو دریا جاری کر دیے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ان دونوں میں ایک آڑ ہے

 

کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے"

 

کوسٹو کو جب بعد میں معلوم ہوا کہ جس تحقیق پر اس نے اپنی ساری زندگی صرف کر دی اس کی وضاحت تو قرآن کریم نے 1400 سال پہلے کر دی تھی ۔ یہ حقیقت جان کر وہ بہت حیران ہو اا اور اسلام قبول کر لیا۔[57]
 

تسخیر ماہتاب اور قرآنی پیشین گوئی

 

جولائی 1969 ء میں امریکہ کے خلائی تحقیقاتی ادارے 'ناسا' (National Aeronautic
 

Space Agency)کے تحت تین سائنسدانوں کےہاتھوں تسخیر ماہتاب کا کارنامہ انجام پذیر ہو جس کی شہادت قرآن نے چودہ سو سال پہلے دے دی تھی۔ [58]قرآن کریم نے تسخیر ماہتاب کی طرف یوں اشارہ کیا ہے

 

وَالْقَمَرِ اِذَا اتَّسَقَ۔ لَتَرْكَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ ۔فَمَالَهُمْ لَايُؤْمِنُونَ[59]
 

"اور چاند کی جب کہ وه کامل ہو جاتا ہے۔یقیناً تم ایک حالت سے دوسری حالت پر پہنچو گے۔انہیں کیا ہو گیا کہ ایمان نہیں ﻻتے"
 

قرآن کریم نے تسخیر ماہتاب کیطرف اشارہ کرتے ہوئے اس امر کی طرف بھی توجہ دلوائی کہ " فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ " یعنی اس مہم کو سر کرنے والے ایمان والے نہیں ہوں گے۔
 

نبی اکرم ﷺ کے اشارے سے چاند کا دولخت ہونا احادیث مبارکہ میں وارد ہوا ہے حالیہ تحقیقات میں "اپالو 10 اور 11 کے ذریعے ناسا نے چاند کی جو تصویر لی ہے اس سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ زمانہ ماضی میں چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا۔ یہ تصویر ناسا کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہے اور تاحال تحقیق کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ ناسا ابھی تک کسی نتیجے پر نہیں پہنچی ہے۔ اس تصویر میں راکی بیلٹ کے مقام پر چاند دو حصوں میں تقسیم ہوا نظر آتا ہے"۔[60]
*

اسلام اور فلسفہ زمان و مکان
 

 

 

اسلام کی وہ تعلیمات جن کا تعلق ماوراء العقل امورسے ہے اور جن پر ہمیشہ سے غیر مسلموں کی طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہوتی رہی ہے وہ زمان و مکان سے تعلق رکھتی ہیں۔20 ویں صدی تک ان تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک رات میں سات آسمانوں کی سیر کر لی جائے اور عرصہ دراز تک بغیر کچھ کھائے پئے انسان زندہ رہ سکے لیکن آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت نے اس معمے کو بھی حل کردیا اور اب اسکو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ زمان اور مکان کی حیثیت مطلق نہیں ہے بلکہ یہ اضافی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذیل میں مافوق العقل واقعات کے ذکر سے پہلےنظریہ اضافیت

 

کی وضاحت کی جاتی ہے تاکہ ان واقعات کےمتعلق سائنسی توجیہات کو بہتر طورپر سمجھا جاسکے۔

 

 

نظریہ اضافت
 

 

 

نیوٹن (1642ء تا 1727ء) سے پہلے زمان و مکان دونوں کو مطلق سمجھا جاتا تھا ۔ نیوٹن نے اپنے نظریات میں مکان کی مطلق حیثیت کو تو رد کر دیا تھا مگر زما ن کی اضافی حیثیت کے بارے میں وہ کوئی رائے قائم نہ کرسکا۔ بیسویں صدی میں آئن سٹائن نے اپنے نظریہ اضافیت میں مکان کے ساتھ زمان کو بھی اضافی قرار دے دیا اور یوں انسانی علوم کے سفر ارتقاء میں اس مادی کائنات کا ہر ذرہ اضافی قرار پایا۔ موجودہ دور میں خود فزکس ہی کے قوانین اس تمام عالم پست و بالا کو اضافی اور حادث ثا بت کر چکے ہیں۔[61]

 

سٹیفن ہاکنگ زمان ومکان کے متعلق اپنی شہرہ آفاق تصنیف “A Brief History of Time”میں لکھتا ہے کہ " ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ مکان ، زمان سے مکمل طور پر الگ اور آزاد نہیں ہے بلکہ وہ اس سے مل کر ایک اور شے بناتا ہے جسے مکان زمان (Space-Time) کہتے ہیں"چنانچہ مکان زمان کی حیثیت کے پیش نظر کہیں وقت مسلسل پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے تو کہیں وہ سکڑ کر محض چند ثانیوں میں سمٹ آتا ہےگویا اس کی مطلق حیثیت جدید نظریات کی رو سے دور کہیں پیچھے رہ گئی ہے نظریہ اضافیت کے مطابق مطلق وقت کچھ معانی نہیں رکھتا ہر فرد اور شے کے لیے وقت کا ایک الگ پیمانہ ہے جس کا انحصار اس حقیقت پر ہوتا ہے کہ وہ کس مکان میں کس طریقے سے محو حرکت ہے ۔یہاں آ کر زمان و مکان کی انفرادی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہےاور وہ باہم مل کر زمان مکان کو تشکیل دیتے ہیں۔[62]

 

قرآن کریم میں قیامت کے دن کی بابت مختلف آیات وارد ہوئی ہیں جو اضافیت زمان و مکان کی تشریح کرتی ہوتی دکھائی دیتی ہیں کہ ایک ہی مکان میں کچھ لوگوں کے لیے وقت اتنی سرعت سے گزار دیا جائے گا کہ ان کو پلک جھپکنے کی مقدار محسوس ہو گا جبکہ باقی لوگوں کے لیے وہ ہزاروں سال تک محیط ہو

 

جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

 

وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ[63]

 

"اور قیامت کا امر تو ایسا ہی ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا، بلکہ اس سے بھی زیاده قریب "

 

وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ [64]
 

" ہاں البتہ آپ کے رب کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا ہے"

 

تَعْرُجُ الْمَلٰۗىِٕكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَـنَةٍ [65]
 

"جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے"

 

علامہ شمس الحق افغانی زمان و مکان کے متعلق رقمطراز ہیں کہ "قدیم اور جدید فلاسفہ اس بات پر متفق ہیں کہ حرکت کی تیزی اور سرعت کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہےجس زمانے میں جس قدر حرکت ممکن ہے اسی زمانے میں وہی حرکت اس زمانے کے کروڑویں حصے میں بھی ممکن ہے۔۔۔البتہ ایسی تیز حرکت مشاہدہ میں نہ ہونے کی وجہ سے تعجب انگیز ضرور ہے جیسے قدیم زمانے میں تیز رفتار میزائل کا تصور حیرت انگیز تھا۔ [66]ہارون یحیی وقت کو ادراک سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "چونکہ وقت صرف ادراکات پر مشتمل ہے اس لیے یہ اضافی ہے اور یہ کلی طور پر ادراک کرنے والے پر منحصر ہے"۔[67]

 

مذکورہ بالا سائنسی نظریا ت کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا دشوار نہیں ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک فرد پر وقت اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ گزر جائے اور دوسرے فرد پر ایک ہی مکان میں وقت اپنی رفتار بدل دے۔جدید سائنس اس امر کی صداقت کی گواہی دے چکی ہے کہ زمان اور مکان کی مطلق حیثیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اسی قانون کے پیش نظر معراج کی رات حضور ﷺ کے لیے وقت کو طول دے دیاگیا، اصحاب کہف اور عزیر ؑکےلیے طویل عرصے کو ایسے گزاردیا کہ جب وہ بیدار ہوئے تو ان کو ایک یوم یا یوم کا بعض حصہ محسوس ہوا۔یہی اصول ہمیں حضرت آصف بن برخیہ کے تخت کو چند ثانیوں میں دربار سلیمانی میں پیش کردینےمیں کارفرما نظر آتا ہے۔ *

معجزہ ، کرامت اور جدید سائنس
 

 

 

اسلامی تعلیمات میں ایسے واقعات جن کی توجیہہ کرنے سے عقل انسانی عاجز ہے، کو کرامت اور معجزہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت بعض اوقات اپنی قدرت کاملہ کے باعث ایسے واقعات کا ظہور فرماتا ہے جن کو دیکھ کر عقل انسانی ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتی ہے لیکن اہل ایمان کے لیے ایسی نشانیاں ان کے ایمان میں اضافے کا سبب بنتی ہیں ۔ قرآن کریم میں اصحاب کہف کا واقعہ، حضرت عزیرؑ کا سو سال تک سوئے رہنا اور دوبارہ جی اٹھنا، سلیمان ؑ کے درباری کا ملکہ سبا کا تخت آن واحد میں دربار میں حاضر کردینااور حضورﷺ کاایک ہی رات میں معراج کرنا ایسے واقعات ہیں جن پر غیر مسلم ہمیشہ شک ہی میں مبتلا رہے ہیں۔

 

اگرچہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ان واقعات کی توجیہہ کافی آسان ہو گئی ہے تاہم جدید سائنس سے چند ایسے شواھد پیش کیے جاتے ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامیتعلیمات نہ صرف حقیقت پر مبنی ہیں بلکہ تحقیق کے نئے باب کھولنے میں بھی ممدو معاون ہیں۔

 

جدید جینیاتی سائنس کے مطابق انسان اب سمندری پودوں اور پھولوں کی مانند ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے ۔ جینیاتی سائنس کے ماہر پروفیسر ٹام کرگ کا کہنا ہے " بعض حیوانا ت ایسے ہیں جن پر گزرتے ہوئے وقت کا کوئی اثر نہیں ہوتا سمندر کی تہوں میں پائے جانے والے پھول جو گل لالہ سے مشابہت رکھتے ہیں ایسی ہی غیر فانی مخلوق میں شمار ہوتے ہیں اور ایک صدی کا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ان پھولوں کی تازگی اور شگفتگی میں قطعا کوئی فرق نہیں آتا وہ آج بھی ویسے ہی ترو تازہ ہیں جیسے انہیں ابھی ابھی سمندر کی تہوں سے چنا گیا ہو اسی طرح انسان کے جسم میں بعض ایسے خلیوں کا سراغ لگا لیا گیا ہے جو فنا کی دست و برد سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔انسانی خصیوں اور بیضوں میں موجودیہ خلیے کبھی فنا نہیں ہوتے۔ ۔ ۔مزید لکھتے ہیں کہ انسانی ڈی این اے میں موجود جینز کاہمارے غیر فانی ہونے سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ سمندری پھولوں کی مانند یہ جینز انسانوں میں بھی موجود ہوتے ہیں تا ہم ان کے بر عکس انسانی جسم میں غیر فانی جینز اس کے تولیدی خلیوں تک ہی محدود رہتے ہیں لیکن ہر انسانی خلیے میں در حقیقت یہ جینز موجود ہوتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ بیدار اور متحرک نہیں ہوتے چنانچہ جس دن جینیاتی ماہرین یہ جان لیں گے کہ ان خفیہ اور غیر متحرک جینز کو کیسے اور کیوں کر بیدار اور فعال کیا جا سکتا ہے اس دن ہم عمر جاودانی کا سر بستہ راز پا لیں گے۔"

 

فرانسیسی سائنسدان چارلس ایڈورڈ براؤن سیکوریڈ کے خیال میں انسان ہمیشہ جوان رہ سکتا ہے اگر وہ بعض جانوروں کے خصیوں سے حاصل کردہ ٹیکے لگاتا رہے، وی آنا ایک نامور سائنسدان کا خیال ہے کہ ایک خاص طریقہ اختیار کر کے ریڑھ کی ہڈی میں ایک خاص تجربہ کے بعد انسانی جسم میں اتنے جنسی ہارمون خود بخود پیدا ہو سکتے ہیں کہ انسان کبھی بوڑھا نہ ہو گا ڈاکٹر وردنوف نے لوگوں کو تازہ دم اور جوان رکھنے کے لیے بندروں کے جسم کے بعض حصوں اور غدودوں کو انسانی اجسام میں آپریشن کے بعد لگا دینے سے انسان کو جوان بنا دیا تھا بعض امریکی سائنسدانوں اور ڈاکٹروں نے بھی اس طریقہ کا ر کو اپنایا اور خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ۔

 

دماغ کے بعد انسانی جسم کا سب سے اہم جز ودل ہے سائنسدان ایک عرصے سے ایسا مصنوعی دل بنانے میں لگےہوئے ہیں جو انسان کے قدرتی دل کی طرح طویل مدت تک بغیر رکے دھڑکتا رہے ۔ حال ہی میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ فزیالوجی کے ایک سائنسدان ڈاکٹر نوبل پینتیس سال کی جدوجہد کے بعد ایسا دل بنانےمیں کامیاب ہو گئے ہیں جو ان کے بقول کبھی رکے گا نہیں بلکہ سدا دھڑکتا ہی رہے گاعلاوہ ازیں اس مصنوعی دل کی مدد سے دل کو مستقبل میں لاحق ہونے والی ہر قسم کی بیماریوں کا قبل از وقت اور باآسانی پتہ لگایا جا سکے گا۔[68]
 

آج کا انسان اگر ایک بات کو ناممکن قرار دیتا ہے تو کل وہی بات حقیقت کا روپ دھار کر سامنے آ جاتی ہے۔کچھ عرصہ قبل انسان کی چاند تک رسائی محض ایک محال تصور تھا لیکن موجودہ دور میں یہ ایک حقیقت کے طور پر سامنے آ چکی ہے۔ لاکھوں میل دور تک انسان کی آواز کی شنوائی ناممکن سمجھی جاتی تھی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے خطبہ کے دوران سینکڑوں میل دور حضرت ساریہ کو کہا کہ "یا ساریۃ الجبل" [69]اے ساریہ پہاڑ کی آڑ لو تو لوگوں کوآپ کی اس بات پر تعجب ہوا لیکن بعد میں حضرت ساریہ کی تصدیق کے بعد یقین آگیا۔ دور جدید میں راکٹ، ٹیلی فون، انٹر نیٹ، ٹیلی ویژن اور کمپوٹر نے یہ ساری چیزیں ممکن بنا دی ہیں۔[70]
 

اصحاب کہف اور حضرت عزیر ؑ کا اتنے عرصے تک بغیر خوراک اور پانی کے زندہ رہنے کو غیر مسلموں نے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنا یا ہے لیکن جدید سائنس نے اب یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ انسان عرصہ دراز تک کچھ بھی نہ کھائے اور زندگی کے شب و روز بسر کرتا رہے۔ اس دار فانی میں درجنوں ایسے افراد گزرے ہیں جو عرصہ دراز تک کچھ کھائے پئے بغیر زندہ رہے ۔ان میں مسلمان بھی تھےاور غیر مسلم بھی ۔ ذیل میں چند غیر مسلموں کے ایسے ہی واقعات نقل کیے جاتے ہیں کہ جنہوں نے عرصہ

 

دراز تک کچھ نہ کھایا اور زندہ بھی رہے۔

 

1۔ کونرس روتھ جرمنی کا ایک شہر ہے اس شہر کی ایک خاتون تھرسیانو مان اس بات کو عجیب

 

نہیں سمجھتیں کہ انہوں نے 1927 سے عرصہ دراز تک کچھ نہیں کھایا صرف شرکت عشائیہ ربانی کے وقت وہ ایک پتلا سا کاغذی توست کھا لیتی تھیں اس کے سوا اس طویل عرصے میں ایک سبیل بھی ان کے منہ میں اڑ کر نہیں گئی۔

 

2۔ کچھ نہ کھانے والوں میں سے تھریسا نامی خاتون بہت مشہور ہے اور ہزاروں لاکھوں آدمی ان کی زیارت کے لیے آتے رہتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ میرا کچھ نہ کھانا برت یا روزہ نہیں ہے اس لیےکہ مجھے بالکل بھوک نہیں لگتی۔اس عجیب و غریب خاتوں کے متعلق بہت سی کتابیں لکھی گی ہیں پچھلی جنگ عظیم کے دوران انہوں نے راشن کارڈ بھی نہیں لیاتھا اور یہ کہہ دیا تھا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں پچھلے دس سال کے اندر انہوں نے اپنا معائنہ کرنے والوں کو نہیں روکا۔ مسٹر سرجن ایونس نے اپنی مشہور کتاب "بھوتوں کی کھوج" میں اس کا ذکر کیا ہے۔

 

3۔ بروک لن نیویارک کی ایک خاتون ماتی ریچن تھیں وہ اپنے زمانے کے بے خوراک زندہ رہنے والوں میں سب سے زیادہ مشہور تھیں اور اس کی تائید ان کے ڈاکٹر بھی کرتے تھے بلکہ ڈاکٹر تو ان کے متعلق یہاں تک کہتےتھے کہ 1864 میں دس ہفتے تک وہ بغیر سانس لیے زندہ رہیں ان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں سے دیکھے بغیر کتاب پڑھ لیتی تھیں۔

 

4۔ایک خاتون ایو فلچن تھیں جنکے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ 1597 سے 1621 تک صرف گلاب کے پھولوں کی خوشبو سونگھ کر زندہ رہیں کہتے ہیں کہ انہون نے 1594 میں دعا کی تھی اے خدا مجھے بھوک کے تقاضوں سے نجات دے اور خوراک کی عادت کو ترک کرتے کرتے انہیں تین سال لگ گئے۔ فلچن کا ایک موی مجسمہ المیسٹرڈیم میں رکھا ہوا ہے ۔[71]

 

سائنس اس نوعیت کے واقعات کی توجیہ کرنے سے قاصر ہے جو کہ صدیوں پرانے نہیں بلکہ ماضی قریب میں رونما ہوئے ہیں اور ان کے عینی شاھدیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔سائنس کی بنیاد چونکہ تجربے اور مشاہدے پر ہے جبکہ اس کائنات میں بہت سی چیزیں ایسی بھی وقوع پذیر ہو رہی ہیں جن کی حقیقت کو تجربے اور مشاہدے کی کسوٹی پر پرکھنا کسی طور پر بھی درست نہیں ہے ۔ سائنس کے محدود دائرہ کار اور محدود آلات کی بدولت ان چیزوں کی حقیقت سےانکار نہیں کیا جاسکتا جوکہ تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں۔
 

خلاصہ ونتائج
 

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات اور عالمگیر دین ہے اس نے زندگی کے تما م مسائل کے متعلق اصول و قواعد وضع کیے ہیں ۔ معاشیات، معاشرت، طب، انجینئرنگ، حکمت، سائنس، صحافت، بزنس، سیاست اور بے شمار علوم کے چشمے اسی سے پھوٹتے ہیں۔ قرآن مجید کی 750 آیات یعنی نواں حصہ مظاہر فطرت پر غوروخوض کرنے کی دعوت دیتا ہے اور اس غوروفکر کو بندہ مومن کی بنیادی صفات میں شمار کرتا ہے۔جب یہ حقیقت ہے کہ قرآنی تعلیمات کا 9/1 حصہ سائنس سے متعلق ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ سائنس اور اسلام میں کسی قسم کا کوئی تصادم ہوسائنس تو اسلام کی نقیب ہے اس کی ایجادات سے اسلام کی حقانیت مزید واضح ہو جاتی ہے۔اگر دور حاضر کے فلاسفہ اوردانشور شعوری سائنسز کو بھی باقی علوم کی طرح جگر سوزی کے ساتھ پروان چڑھائیں تو کچھ بعید نہیں کہ شعوری سائنسز بھی مادی و حیاتیاتی علوم کی طرح بنی نوع انسان کو الہامی علوم کی صداقت کی طرف لے آئیں۔[72]
 

سائنس صداقت کی تلاش میں ہر آن ارتقائی مراحل سے گرزتی رہتی ہے جس کی بدولت بعض مسائل کو فوری طور پر تجرباتی بنیادوں پر ثابت نہیں کر پاتی اور نہ ہی ٹھوس علمی بنیادوں پران کی صداقت سے انکار کرتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت تک رسائی حاصل کر لیتی ہے یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے سائنس ترقی کررہی ہے ہے اسلام کی حقانیت ثابت ہورہی ہے جس کی واضح دلیل مغربی دنیا میں اسلام کا تیزی سے پھیلنا ہے۔
 

سفارشات
 

میکانیکی اور تیکنیکی ترقی نے انسان کو ایک ایسے دور میں داخل کر دیا ہے جہاں تحقیق و جستجو کا میدان روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جارہاہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لیے بہت سنجیدہ مسائل پید اہورہے ہیں۔ ۔ ۔نئی ایجادات نے عقل انسانی کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ نوجوان نسل کے سامنے مادی ترقی کا ایک سحر انگیز اور پر کشش ماحول پیدا ہو گیا ہے جس میں مذہب اور دین کی باتیں فرسودہ اور بے سود دکھائی دینے لگی ہیں۔ اس مادہ پرستی کے ماحول نے مسلمانوں کو اسلام اور اسکے تقاضوں سے دور کر دیا ہے اور ان کے دنیوی اور دینی تقاضوں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل کر دی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر اگر ہم نے ایمان اور اسکے تقاضوں کو واضح اور قابل فہم انداز میں پیش نہ کیا تو اس داخلی انتشار کے باعث مسلمانوں کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں مزید محدود اور مسدود ہو کر رہ جائیں گی اور ہماری دینی اور دنیوی دونوں طرح کی محرومیاں مزید بڑھتی چلی جائیں گی"۔[73]اس صورت حال کے پیش نظر مسلم امہ کے دانشوروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عصر حاضر کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھیں اورجس طرح ہمارے اسلاف نے اسلام پر یونانی فلسفے اور منطق کے حملے کوروکنے کے لیے علم کلام ایجاد کیا تھا اور عقائد اسلامیہ کا داخلی اور خارجی فتنوں سے دفاع کیاتھا اسی طرح موجودہ دور کے فتنہ مادیت کو روکنے کے لیےمستقل بنیادوں پرسائنسی علوم کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوں۔ اس سلسلے میں اہم ترین کام مادیت اور روحانیت کے درمیان اعتدال اور توازن قائم کرنا اور قرآن کریم کو علمی اورعملی بنیادوں پر ہر دور میں تمام علوم و فنون کے لیے مستند مصدر کی حیثیت کے طور پر متعارف کروانا ہے۔یہی وہ راز ہے کہ جس کے ذریعے بھٹکی ہوئی اور سکون کی متلاشی انسانیت دنیا کے اندر امن کی زندگی گزار سکتی ہے۔ اس کے لیے ضرور ی ہے کہ قرآن کریم میں سائنسی طرز فکر کا جو رجحان 19 ویں صدی سے پنپ رہا ہے اسکو مزید آگے بڑھایا جائے اور سائنسی تحقیقات کے ذریعے دنیا کے سامنے واضح کر دیا جائے کہ اسلام نہ صرف سائنسی انداز فکر کی دعوت دیتا ہے بلکہ سائنس کے لیے پیشوا کا کردار ادا کرتے ہوئے تحقیقات کے نئے باب بھی کھولتاہے۔ مزید یہ کہ یورپ کی سائنس جس سمت رواں دواں ہے اس راستے میں سوائے حیرت، اضطراب، ہیجان اور نفسانی خواہشات کے کچھ اور نہیں ہے جس کا لازمی نتیجہ ظلم و استبداد اور امن عالم کی تباہی ہے۔

حوالہ جات
مذہب اور سائنس میں تعلق کے متعلق عام طور پر دو بنیادی نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ جن میں سے ایک موافقت اور دوسرا مخالفت کا ہے۔ (تا ہم) ڈاکٹر یحیٰ خالدنے، بسطامی محمد خير کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے مذہب اور سائنس کے تعلق کو چار گروہوں یعنی مؤيدین (Advocates) ، جدت پسند (Modernists)، مخالفین (Rejectionists) اور معتدلین (Moderates)میں تقسیم کیا ہے۔ طنطاوی اور مصطفی المراغی کو مذہب و سائنس کی تائیدکرنے والوں (Advocates) میں شمار کیا جاسکتا ہے جبکہ جدت پسند(Modernists) جو کہ مذہب کی تشریح سائنس اور سائنسی ترقی کے تناظر میں کرتے ہیں، میں سر سید احمد خان کا نام قابل ذکر ہے ۔ ڈاکٹر یحیٰ خالد بیان کرتے ہیں کہ بنت الشاطی (عائشہ عبدالرحمان) اور محمود شلتوت نے بھی سائنسی تفاسیر پر تنقید کی ہے جبکہ انہوں نے محمد البہی اور حسن البنا کو معتدل رویہ رکھنے والوں (Moderates) میں سے شمار کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی اور ڈاکٹر محمد عبدالتواب حامد کے مطابق مخالفین (Rejectionists) میں ابو اسحاق شاطبی کا نام سر فہرست ہے۔ امین الخولی، محمد عزت دروزہ، صبحی صالح، محمد حسین الذھبی اورسید قطب نے قرآن کی روشنی میں سائنسی تعلیمات کا رد کیاہےجبکہ دوسری طرف الغزالی، محمد بن عمر الرازی، طاہر بن عاشور، اور طنطاوی نے کچھ حدود و قیود کے ساتھ سائنسی تشریحات کی تائید کی ہے۔(تفصیل کے لیے درج ذیل مقالہ ملاحظہ ہو)
 

Muhammad Ashfaq (2005), Study of Scientific, Metaphysical and Aesthetic Aspects of Sūrah Al-Rahmān, MS Thesis from HITEC University Taxila, Pp. 7-8

پرویز امیر علی ہود بھائی، مسلمان اور سائنس،مشعل بکس آر۔بی۔5، سیکنڈ فلور،عوامی کمپلیکس، عثمان بلاک، نیوگارڈن ٹاؤن، لاہور، 2002، ص 44
مودودی،سید ابو الاعلیٰ(۱۴۰۶ھ)،تنقیحات، نوید حفیظ پرنٹر زلاہور، 2013ء، ص 11
الازھری،پیرکرم شاہ، ضیاء النبی، ضیاءالقرآن پبلی کیشنز، گنج بخش روڈ،لاہور، 1999ء ،30: 1
طاہر القادری ، ڈاکٹر ،اسلام اور جدید سائنس ، منہاج القرآن پرنٹرز ، لاہور، 2001ء، ص 67
محمد قطب،شبہات حول الاسلام (ترجمہ: اسلام اور جدید ذہن کے شبہات)، مترجم محمد سلیم کیانی، البدر پبلی کیشنز 23۔ راحت مارکیٹ اردو بازار لاہور، 2013ء ص 11
ابوالاعلیٰ موودودی، تنقیحات، نوید حفیظ پرنٹر زلاہور، 2013ء، ص 10
ایضا، ص 11
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص68
طارق اقبال سوہدری ، سائنس قرآن کے حضور میں، نشریات اردو بازار لاہور، 2007ء، ص 35
موریس بوکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس، مترجم ثناء الحق صدیقی، آواز اشاعت گھر، الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور،ص۔ 143
مدارس اسلامیہ میں علوم عقلیہ اور علوم آلیہ کو بھی اس طرح پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے کہ ان میں غور و فکر ، تنقید اور اختلاف رائے سے قطع نظر من وعن تسلیم کر لیا جاتاہے۔
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، منہاج القرآن پرنٹرز ، لاہور، 2001ء، ص70
خالد خان خلجی، انسان اسلام اور سائنس، ادارہ روحانی سائنس، کوئٹہ، 2004ء، مقدمہ: ص 7
موریس بوکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس، مترجم ثناء الحق صدیقی، آواز اشاعت گھر، الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور،ص۔ 141
علامہ شمس الحق افغانی، سائنس اور اسلام، مکتبۃ الحسن 29/9 لال چوک عبدالکریم روڈ قلعہ گوجر سنگھ ، لاہور، 1985ء، ص 24
موریس بکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس، مترجم ثناء الحق صدیقی،ص۔ 22
سید ابو الاعلیٰ موودودی، تنقیحات، ص۔ 10، 11
خالد خان خلجی، انسان اسلام اور سائنس، ص 1
ڈاکٹر غلام قادر لون، مسلمانوں کے سائنسی کارنامے، مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ ملتان روڈ لاہور، 1999، ص 22
↑ George Sarton (1927 Reprint 1953), Introduction of the History of science, - Baltimore, Vol. 1,Pp. 624
اردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہ لاہور، پاکستان، طبع اول،1: 503- 508
عرفان محمود برق، قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں، علی پرنٹر رشید روڈ، لاہور، 2004ء، ص 43-44
شاہد محمود ملک، انکشافات حق، الحق سٹاکسٹ، کوٹلی،آزاد کشمیر، ص 175-176
ایضا، ص 228
ایضا، ص 229
موریس بکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس، مترجم ثناء الحق صدیقی ،ص 152
محمد رفیع الدین، ڈاکٹر ، قرآن اور علم جدید یعنی احیائے حکمت دین، مقدمہ ازمظفر حسین، اسلامی اکادمی - 17، اردو بازار، لاہور، 1986ء، ص 3
موریس بکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس،مترجم: ثناء الحق صدیقی، ص۔240
ایضا، ص ۔ 247
الانبیاء، 21: 30
ذاکر نائک، ڈاکٹر، بائبل اور قرآن جدید سائنس کی روشنی میں، مترجم: سید امتیاز احمد، دارالنوادر، الحمد مارکیٹ اردو بازار لاہور، 2007ء، ص 122
سورۃ المومنون،23: 12-14
سورۃ السجدہ،32 : 9
↑ . Dr. Ibrahim B. Syed, Attitude of a Muslim Scholar at Human Embryology,- [Presented at the Islamic Attitude and Practice in Science Seminar, Organized by the International Institute for Islamic Thought, Washington, D.C. February 28-March 1, 1987.]
↑ . Keith L. Moore, A Scientist's Interpretation of References to Embryology in the Qur'an, The Journal of the Islamic Medical Association, Vol.18, Jan-June 1986, Pp.15-16
ڈاکٹر اسرار احمد، مطالعہ فطرت اور ایمان، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، 1983ء ص 12
سورۃ البقرۃ،2: 164
سورۃ الرعد،13 : 2
سورۃ ابراہیم،14 : 33
سورۃ النحل،16: 14
سورۃ النحل،16: 79
سورۃ لقمان،31: 20
سورۃ فصلت،41: 53
سورة آل عمران،3: 191
سورة الجاثية،45 : 3
ڈاکٹر اسرار احمد، مطالعہ فطرت اور ایمان، ص 12
یہ دونوں سائنسدان امریکہ کی ریاست نیوجرسی میں واقع "بیل فون لیبارٹریز" میں کام کرتے تھے ، جنہیں 1978ء میں نوبل پرائز بھی عطاکیا گیا.
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص446-448
سورۃ الفاطر،35: 1
سورۃ الذاریات،51: 47
سورۃ النحل،16 : 8
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص242- 249
سورۃ یسین،36: 40
↑ . Halūk Nūr Bāqī, (2005 Qur’āni Ayāt aur Sa’insī Haqā’iq (Qur’ānic Verses and Scientific Facts) translated by Feroz Shah, Aligarh Publisher, Lahore, Pp. page 55-56 See also Huseyn HilmiIsık,( 2012 )Why they Become Muslims, Hakikat Kitabvi Publications, Pp. 46-47, http://www.hakikatkitabevi.com
سورۃ الرحمن،55 : 19-20
عرفان محمود برق، قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں، علی پرنٹر رشید روڈ، لاہور، 2004ء، ص 44
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص222
سورۃ انشقاق،84 : 18-20
طارق اقبال سوہدری ، سائنس قرآن کے حضور میں، نشریات اردو بازار لاہور، 2007ء، ص 92
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص384
ایضا، ص 358-359
سورۃ النحل16,: 77
سورۃ الحج،22: 47
سورۃ المعارج،70 : 4
شمس الحق افغانی، سائنس اور اسلام، مکتبۃ الحسن 29/9 لال چوک عبدالکریم روڈ قلعہ گوجر سنگھ ، لاہور، 1985ء، ص 200
ہارون یحییٰ، کائنات، نظریہ وقت اور تقدیر، اداراہ اسلامیات، لاہور، 2002ء، ص 66
عرفان محمود برق، قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں، علی پرنٹر رشید روڈ، لاہور، 2004ء، ص 309-310
ابن عساکر، تاريخ دمشق، 20: 25
عرفان محمود برق، قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں، ص 335
ایضا، ص 314-315
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، 2001ء، ص262
ڈاکٹر اسرار احمد، مطالعہ فطرت اور ایمان، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، 1983ء ص 12





No comments:

Post a Comment