Wednesday, 6 April 2016

صدقات کے معانی، اقسام، فضائل اور مسائل

صدقہ کیا ہے؟
ہر وہ چیز جو انسان اپنے مال سے قربِ الٰہی حاصل کرنے کے لئے دینا ہے۔ اور یہی معنیٰ زکوۃ کے ہیں مگر صدقۃ اسے کہتے ہیں جو واجب(لازم) نہ ہو۔ اور کبھی واجب کو بھی صدقۃ سے موسوم کردیا جاتا ہے۔ جب کہ خیرات دینے والا اس سے صِدق (یعنی سچائی، صلاح اور تقویٰ) کا قصد(ارادہ) کرے۔
قرآن میں ہے:
خُذْ مِنْ أَمْوالِهِمْ صَدَقَةً
[سورۃ التوبة:103]
لے لیں آپ ان کے مال میں سے زکوٰۃ۔
اور آیت :
إِنَّمَا الصَّدَقاتُ لِلْفُقَراءِ
[سورۃ التوبة:60]
صدقات (یعنی زکوۃ و خیرات) تو مفلسوں کا حق ہے ۔
(سورۃ التوبة:60)
[المفردات في غريب القرآن: ص480]



حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ ‏‏‏‏۔
ترجمہ:
ہر بھلائی صدقہ ہے۔
[صحیح بخاری:6021، صحیح مسلم:2328(1005)، ابوداؤد:4947]


حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنْ تُفْرِغَ مِنْ دَلْوِكَ فِي إِنَاءِ أَخِيكَ۔
ترجمہ:
ہر بھلائی صدقہ ہے، اور بھلائی یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خوش مزاجی کے ساتھ ملو اور اپنے ڈول سے اس کے ڈول میں پانی ڈال دو۔
[جامع ترمذی:1970، مسند احمد:14877(22348)، الادب المفرد:304، مسند عبد بن حمید:1088، مسند الشھاب:90،  المستدرک الحاکم:2342]


حضرت بلال سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ، وَالْمَعْرُوف يقي سبعين نوعا من الْبلَاء ويقي ميتَة السوء وَالْمَعْرُوف وَالْمُنكر خلقان منصوبان للنَّاس يَوْم الْقِيَامَة فالمعروف لَازم لأَهله وَالْمُنكر لَازم لأَهله يقودهم ويسوقهم إِلَى النَّار »
ترجمہ:
"ہر نیکی صدقہ ہے، نیکیاں ستر قسم کی آفات اور بری موت سے بچاتی ہیں، نیکیاں اور برے اعمال دو خصلتیں ہیں جو قیامت کے دن لوگوں میں ڈالی جائیں گی، نیکیاں ان کے کرنے والوں کے ساتھ جوڑ دی جائیں گی، اور برائیاں ان کے کرنے والوں کے ساتھ جوڑ دی جائیں گی، اور انہیں آگ کی طرف لے جائیں گی۔"
[قضاء الحوائج-لابن ابي الدنيا:1، جامع الأحاديث-للسيوطي:15722، کنزالعمال:16443]

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 
«كُلُّ مَعْرُوفٍ صَدَقَةٌ، وَمَا أَنْفَقَ  الْمُسْلِمُ مِنْ نَفَقَتِهِ عَلَى نَفْسِهِ، وَأَهْلِهِ كُتِبَ لَهُ بِهَا صَدَقَةٌ، وَمَا وَقَى بِهِ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ عِرْضَهُ كُتِبَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ، وَكُلُّ نَفَقَةٍ أَنْفَقَهَا المُسْلِمُ فَعَلَى اللَّهِ خَلَفُهَا ضَامِنًا، إِلَّا نَفَقَةً فِي بُنْيَانٍ أَوْ مَعْصِيَةٍ". قَالَ: فَقُلْتُ لَابْنِ الْمُنْكَدِرِ: مَا قَوْلُهُ: "وَمَا وَقَى بِهِ الْمَرْءُ الْمُسْلِمُ عِرْضَهُ"؟ قَالَ: أَنْ يُعْطِيَ الشَّاعِرَ وَذَا اللِّسَانِ. قَالَ: لَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ: الْمُتَّقِي. »
ترجمہ:
ہر نیکی صدقہ ہے اور ہر وہ چیز جو آدمی اپنی جان پر خرچ کرتا ہے اور اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے تو اس کے لئے صدقہ (کا ثواب ) لکھا جاتا ہے ۔ اور جس مال کے ذریعہ اپنی عزت کو بچاتا ہے تو اس کے لئے صدقہ (کا ثواب ) لکھا جاتا ہے ۔ محمد بن المنکدر سے کہا گیا کہ اپنی عزت کا بچانا کیا ہے ؟ انہوں نے فرمایا ہروہ چیز جو کسی شاعر کو اور صاحب لسان متقی کو دیتا ہے۔
[قضاء الحوائج-لابن ابي الدنيا:8، مسند عبد بن حمید ؛1081، السنن الکبریٰ للبیھقی:21132، حاکم:2311، جامع الأحاديث-للسيوطي:15723، کنزالعمال:16318]



القرآن:

...اور تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو وہ اس کی جگہ اور چیز دے دیتا ہے، اور وہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

[سورۃ سبا:39-تفسیر الثعلبی:8/92، تفسیر قرطبی:14/307، الدر المنثور-امام سیوطی:6/707]



القرآن:
لوگوں کی بہت سی خفیہ سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں ہوتی، الا یہ کہ کوئی شخص صدقے کا یا کسی نیکی کا یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے۔ اور جو شخص اللہ کی خوشنودی حاصل کے کرنے کے لیے ایسا کرے گا، ہم اس کو زبردست ثواب عطا کریں گے۔
[سورۃ النساء:114-تفسیر قرطبی:5/383]


القرآن:
اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو، اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو (125) اور نیکی اختیار کرو، بیشک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
[سورۃ البقرۃ:195-تفسیر الثعالبی:1/405]
تفسیر:
(125) اشارہ یہ ہے کہ اگر تم نے جہاد میں خرچ کرنے سے بخل سے کام لیا اور اس کی وجہ سے جہاد کے مقاصد حاصل نہ ہوسکے تو یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مرادف ہوگا، کیونکہ اس کے نتیجے میں دشمن مضبوط ہو کر تمہاری ہلاکت کا سبب بنے گا۔

القرآن:

اور مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ (کیونکہ) وہ "بھلائی" کی تلقین کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، اور اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ یہ ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ اپنی رحمت سے نوازے گا۔ یقینا اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔

[سورۃ التوبة:71-تفسیر الدر المنثور-امام سیوطی:4/236]


حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«تَبَسُّمُكَ فِي وَجْهِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ،» وَأَمْرُكَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَهْيُكَ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ، وَإِرْشَادُكَ الرَّجُلَ فِي أَرْضِ الضَّلَالِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَبَصَرُكَ لِلرَّجُلِ الرَّدِيءِ الْبَصَرِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِمَاطَتُكَ الْحَجَرَ وَالشَّوْكَةَ وَالْعَظْمَ عَنِ الطَّرِيقِ لَكَ صَدَقَةٌ، وَإِفْرَاغُكَ مِنْ دَلْوِكَ فِي دَلْوِ أَخِيكَ لَكَ صَدَقَةٌ۔
ترجمہ:
"اپنے بھائی کے چہرے پر (خوشی سے) مسکرانا تمہارے لیے صدقہ ہے، اور نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا (بھی) صدقہ ہے، اور گمراہی کے مقام پر کسی شخص کو راستہ بتانا تمہارے لیے صدقہ ہے، اور کمزور نظر والے شخص کی راہنمائی کرنا تمہارے لیے صدقہ ہے، اور راستے سے پتھر، کانٹا اور ہڈی ہٹانا تمہارے لیے صدقہ ہے، اور اپنی بالٹی سے اپنے بھائی کی بالٹی میں پانی انڈیلنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔"



حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"لَيْسَ مِنْ نَفْسِ ابْنِ آدَمَ إِلَاّ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ فِي كُلِّ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَمِنْ أَيْنَ لَنَا صَدَقَةٌ نَتَصَدَّقُ بِهَا؟ فَقَالَ: "إِنَّ أَبْوَابَ الْخَيْرِ لَكَثِيرَةٌ: التَّسْبِيحُ، وَالتَّحْمِيدُ، وَالتَّكْبِيرُ، وَالتَّهْلِيلُ، وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَتُمِيطُ الأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَتُسْمِعُ الأَصَمَّ، وَتَهْدِي الأَعْمَى، وَتُدِلُّ الْمُسْتَدِلَّ عَلَى حَاجَتِهِ، وَتَسْعَى بِشِدَّةِ سَاقَيْكَ مَعَ اللَّهْفَانِ الْمُسْتَغِيثِ، وَتَحْمِلُ بِشِدَّةِ ذِرَاعَيْكَ مَعَ الضَّعِيفِ، فَهَذَا كُلُّهُ صَدَقَةٌ مِنْكَ عَلَى نَفْسِكَ".
ترجمہ:
بیشک آدم کے ہر بیٹے پر ہر وہ دن جس میں سورج نکلے صدقہ (لازم) ہے۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! ہم کہاں سے صدقہ دیں؟ آپ نے فرمایا: بھلائی کے بہت سے دروازے ہیں: تسبیح (سبحان اللہ)، تحمید (الحمد للہ)، تکبیر (اللہ اکبر)، تہلیل (لا الہ الا اللہ)، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا، بہرے کو (بات) سنا دینا، اندھے کو راستہ دکھا دینا، مدد کے طالب کو اس کی ضرورت تک پہنچا دینا، کسی پریشان فریاد رس کے ساتھ اپنی ٹانگوں کے زور سے (دوڑ کر) جانا، اور کسی کمزور کے ساتھ اپنی بازوؤں کے زور سے (مدد کرنا)۔ یہ سب تیرے اپنے نفس پر تیرے صدقات ہیں۔
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ سے معلوم ہوا کہ جب اپنے ڈول میں پانی بھر دینا صدقہ جیسے ثواب کا باعث ہے تو اس شکل میں جب کہ کسی کے پاس ڈول ہی موجود نہ ہو اسے اپنے ڈول سے پانی دینا اس سے کہیں زیادہ ثواب کا باعث ہوگا۔
[مشکوٰۃ المصابیح - صدقہ کی فضیلت کا بیان - حدیث نمبر 1908]


حضرت ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 "يُصْبِحُ عَلَى كُلِّ سُلَامَى مِنْ أَحَدِكُمْ صَدَقَةٌ. فَكُلُّ تَسْبِيحَةٍ صَدَقَةٌ. وَكُلُّ تَحْمِيدَةٍ صَدَقَةٌ. وَكُلُّ تَهْلِيلَةٍ صَدَقَةٌ. وَكُلُّ تَكْبِيرَةٍ صَدَقَةٌ. وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ صَدَقَةٌ. وَنَهْيٌ عَنِ الْمُنْكَرِ صَدَقَةٌ. وَيُجْزِئُ، مِنْ ذَلِكَ، ركعتان يركعهما من الضحى".
ترجمہ:
بے شک تم میں سے ہر شخص کے ہر جوڑ پر صدقہ (واجب) ہے۔ پس ہر تسبیح (سبحان اللہ کہنا) صدقہ ہے، ہر تحمید (الحمد للہ کہنا) صدقہ ہے، ہر تہلیل (لا الہ الا اللہ کہنا) صدقہ ہے، ہر تکبیر (اللہ اکبر کہنا) صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکنا صدقہ ہے، اور اِن سب (صدقات) کے لیے چاشت کی دو رکعتیں کافی ہیں۔


حضرت ابوہریرہؓ سے رواہت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«الْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ».
ہر اچھی بات (کا بتادینا) صدقہ (دینے کے برابر) ہے.
تشریح:
یہ دراصل ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے، امام بخاری نے اس پوری حدیث کو بھی روایت کیا ہے، اور ایک جگہ تعلیقاً صرف اتنا ہی ٹکڑا نقل کیا ہے، مطلب ظاہر ہے۔ کسی کے ساتھ اچھی بات شیریں انداز میں کرنا اس کے دل کی خوشی کا باعث ہوتا ہے اور اللہ کے کسی بندہ کے دل کو خوش کرنا بلا شبہ بڑی نیکی ہے۔


چاليس 40 طرح کا صدقہ:

1. دوسرے کو نقصان پہنچانے سے بچنا صدقہ ہے۔

[بخاری:2518]

2. اندھے کو راستہ بتانا بھی صدقہ ہے۔

[ابن حبان:3368]

3. بہرے سے تیز آواز میں بات کرنا صدقہ ہے۔ 

[ابن حبان:3368]

4. گونگے کو اس طرح بتانا کہ وہ سمجھ سکے صدقہ ہے۔

[ابن حبان:3377]

5. کمزور آدمی کی مدد کرنا بھی صدقہ ہے۔

[ابن حبان:3377]

6. راستے سے پتھر,کانٹا اور ہڈی ہٹانا بھی صدقہ ہے۔

[مسلم:1007]

7. مدد کے لئے پکارنے والے کی دوڑ کر مدد کرنا بھی صدقہ ہے۔

[ابن حبان:3377]

8. اپنے ڈول سے کسی بھائی کو پانی دینا صدقہ ہے۔

[ترمذی:1956]

9. بھٹکے ہوئے شخص کو راستہ بتانا صدقہ ہے۔

[ترمذی:1956]

10. لا الہ الا الله کہنا بھی صدقہ ہے۔

[مسلم:1007]

11. سبحان الله کہنا بھی صدقہ ہے۔

[مسلم:1007]

12. الحمدلله کہنا بھی صدقہ ہے۔

[مسلم:1007]

13. الله اکبر کہنا بھی صدقہ ہے۔

[مسلم:1007]

14. استغفرالله کہنا بھی صدقہ ہے۔

[مسلم:1007]

15. نیکی کا حکم دینا بھی صدقہ ہے۔

[مسلم:1007]

16. برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔

[مسلم:1007]

17. ثواب کی نیت سے اپنے گھر والوں پر خرچ کرنا صدقہ ہے۔

[بخاری:55]

18. دو لوگوں کے بیچ انصاف کرنا صدقہ ہے۔ [بخاری:2518]

19. کسی آدمی کو سواری پر بیٹھانا یا اس کا سامان اٹھا کر سواری پر رکھوانا صدقہ ہے ۔ [بخاری:2518]

20. اچھی بات کہنا صدقہ ہے۔

[بخاری:2589]

21. نماز کے لئے چل کر جانے والا ہر قدم صدقہ ہے۔

[بخاری:2518]

22. راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانا صدقہ ہے۔ [بخاری:2518]

23. خود کھانا صدقہ ہے۔

[نسائی-کبری:9185]

24. اپنے بیٹے کو کھلانا صدقہ ہے۔

[نسائی-کبری:9185]

25. اپنی بیوی کو کھلانا صدقہ ہے۔

[نسائی - کبری:9185]

26. اپنے خادم کو کھلانا صدقہ ہے۔

[نسائی-کبری:9185]

27. کسی مصیبت زدہ حاجت مند کی مدد کرنا صدقہ ہے۔

[نسائی:253]

28. اپنے بھائی سے مسکرا کر ملنا صدقہ ہے۔ 

[ترمذی:1963]

29. پانی کا ایک گھونٹ پلانا صدقہ ہے۔

[ابو یعلی:2434]

30. اپنے بھائی کی مدد کرنا صدقہ ہے۔

[ابو یعلی:2434]

31. ملنے والے کو سلام کرنا صدقہ ہے۔

[ابو داﺅد:5243]

32. آپس میں صلح کروانا صدقہ ہے۔

[تاریخ الکبیر-للبخاری:259/3]

33. تمہارے درخت یا فصل سے جو کچھ کھائے وہ تمہارے لئے صدقہ ہے۔

[مسلم: 1553]

34. بھوکے کو کھانا کھلانا صدقہ ہے۔

[شعب الایمان:3367]

35. پانی پلانا صدقہ ہے۔

[شعب الایمان:3368]

36. دو مرتبہ قرض دینا ایک مرتبہ صدقہ دینے کے برابر ہے۔

[ابن ماجہ:3430]

37. کسی آدمی کو اپنی سواری پر بٹھا لینا صدقہ ہے۔

[مسلم:1009]

38. گمراہی کی سر زمین پر کسی کو ہدایت دینا صدقہ ہے۔

[ترمذی:1963]

39. ضرورت مند کے کام آنا صدقہ ہے۔

[ابن حبان: 3368]

40. علم سیکھ کر مسلمان بھائی کو سکھانا صدقہ ہے۔

[ابن ماجہ:243]



القرآن:

ایمان کی علامت»مؤمن کی مددگاری۔

القرآن:

مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔۔۔

[سورۃ التوبۃ:71]

اور دیتے ہیں مال محبوب ہونے کے باوجود قرابت داروں، اور یتیموں، اور مسکینوں، اور مسافروں، اور سوال کرنے والوں کو۔۔۔

[البقرۃ:177]

۔۔۔اور ایک دوسرے کا تعاون کرو نیکی اور پرہیزگاری میں۔۔۔

[المائدۃ:2]

قرض دینے کی فضیلت:
حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کر رہے تھے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے: 
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُقْرِضُ مُسْلِمًا قَرْضًا مَرَّتَيْنِ إِلَّا كَانَ كَصَدَقَتِهَا مَرَّةً
ترجمہ:
کوئی مسلمان ایسا نہیں جو کسی مسلمان کو دو بار قرض دے، مگر اس کو ایک بار اتنے ہی مال کے صدقے کا ثواب ملے گا۔


قرض دینے کی فضیلت:
حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا دیکھا کہ صدقہ کا ثواب دس گنا ہے، اور قرض کا اٹھارہ گنا۔ میں نے کہا: جبرائیل! کیا بات ہے؟ قرض صدقہ سے افضل کیسے ہے؟ تو کہا: اس لیے کہ سائل سوال کرتا ہے حالانکہ اس کے پاس کھانے کو ہوتا ہے، اور قرض لینے والا قرض اس وقت تک نہیں مانگتا جب تک اس کو واقعی ضرورت نہ ہو۔
[سنن ابن ماجہ:2431 (طبرانی:7976، بیھقی:3565، الصحیحہ:3407)]
﴿اشارۂ قرآن»سورۃ الحدید:18﴾



حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
كُلُّ سُلَامَى مِنَ النَّاسِ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏كُلَّ يَوْمٍ تَطْلُعُ فِيهِ الشَّمْسُ يَعْدِلُ بَيْنَ الِاثْنَيْنِ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيُعِينُ الرَّجُلَ عَلَى دَابَّتِهِ فَيَحْمِلُ عَلَيْهَا أَوْ يَرْفَعُ عَلَيْهَا مَتَاعَهُ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَكُلُّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا إِلَى الصَّلَاةِ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيُمِيطُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ صَدَقَةٌ.
ترجمہ:
انسان کے ہر ایک جوڑ پر صدقہ لازم ہوتا ہے۔ ہر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے۔ پھر اگر وہ انسانوں کے درمیان انصاف کرے تو یہ بھی ایک صدقہ ہے اور کسی کو سواری کے معاملے میں اگر مدد پہنچائے، اس طرح پر کہ اسے اس پر سوار کرائے یا اس کا سامان اٹھا کر رکھ دے تو یہ بھی ایک صدقہ ہے اور اچھی بات منہ سے نکالنا بھی ایک صدقہ ہے اور ہر قدم جو نماز کے لیے اٹھتا ہے وہ بھی صدقہ ہے اور اگر کوئی راستے سے کسی تکلیف دینے والی چیز کو ہٹا دے تو وہ بھی ایک صدقہ ہے۔



حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إذا كان يوم الجمعة , قعدت الملائكة على ابواب المسجد فكتبوا من جاء إلى الجمعة , فإذا خرج الإمام طوت الملائكة الصحف , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المهجر إلى الجمعة كالمهدي بدنة، ثم كالمهدي بقرة، ثم كالمهدي شاة، ثم كالمهدي بطة، ثم كالمهدي دجاجة، ثم كالمهدي بيضة".
ترجمہ:
”جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے (اس دن) مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں، اور جو جمعہ کے لیے آتا ہے اسے لکھتے ہیں، اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکلتا ہے تو فرشتے رجسٹر لپیٹ دیتے ہیں“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والا ایک اونٹ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک گائے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بکری کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بطخ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک مرغی کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے۔
[صحیح البخاری:929+3211، صحیح مسلم:850، سنن ابن ماجه:1092، سنن نسائی:1386]


حضرت انس بن مالک ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ.
ترجمہ:
کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیتی میں بیج بوئے، پھر اس میں سے پرند یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔





حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا يغرس رجل مسلم غرسا، ولا زرعا، فياكل منه سبع، او طائر، او شيء، إلا كان له فيه اجر "، وقال ابن ابي خلف: طائر شيء.
ترجمہ:
”جو بھی مسلمان آدمی درخت لگاتا ہے اور کاشتکاری کرتا ہے، پھر اس سے کوئی جنگلی جانور، پرندہ یا کوئی بھی کھائے تو اس کے لیے اس میں اجر ہے۔“ ابن ابی خلف نے (یا کے بغیر) ”پرندہ کوئی چیز“ کہا۔
[صحيح مسلم:(1552)3970]
اس حدیث کا مفہوم یہ ہےکہ جو بھی مسلمان کوئی پودا لگائے یا فصل بوئے اور اس میں سے کوئی جان دار مخلوق کھا لے، تو اسے اس پر ثواب ملتا ہے، یہاں تک کہ اس کی وفات کے بعد بھی اس کے اس عمل کا ثواب اس وقت تک جاری رہتا ہے، جب تک اس کی یہ کھیتی اور لگایا ہوا درخت باقی رہتا ہے۔ اس حدیث میں کھیتی کرنے اور پودے لگانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ کیوں کہ کھیتی کرنے اور پودے لگانے میں بہت سی خیر مضمر ہے۔ اس میں دینی فائدہ بھی ہے اور دنیاوی بھی۔ اگر اس میں سے کوئی کھا لے، تو وہ اس کے لیے صدقہ ہو گا۔ اس سے عجیب تر یہ کہ اگر اس میں سے کسی چور نے کچھ چرا لیا، مثلا کوئی شخص کھجور کے پودے پاس آ کر اس میں سے کھجوریں چرا لے، تو اس کھجور کے مالک کو اس پر بھی اجر ملے گا، اگرچہ اسے اگر اس چور کا پتہ لگ جائے، تو وہ اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دے گا۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اس چوری کے بدلے میں قیامت کے دن تک اس کے لیے صدقہ کا ثواب لکھ دیتا ہے۔ اسی طرح جب کھیتی کو جانور یا کیڑے مکوڑے کھا جائیں، تو یہ بھی صدقہ شمار ہوگا۔ حدیث بالخصوص مسلم کا ذکر اس لیے ہوا ہے کہ وہی در حقیقت دنیا و آخرت میں صدقہ کے ثواب سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ 


القرآن:
جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے (اور) ہر بالی میں سو دانے ہوں (178) اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (ثواب میں) کئی گنا اضافہ کردیتا ہے، اللہ بہت وسعت والا (اور) بڑے علم والا ہے۔
[سورۃ البقرۃ:261]
تفسیر:
(178) اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سوگنا ثواب ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کا ثواب چاہیں اور بڑھا سکتے ہیں، واضح رہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کا قرآن کریم نے بار بار ذکر کیا ہے اور اس سے مراد ہر وہ خرچ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا جائے اس میں زکوٰۃ صدقات اور خیرات سب داخل ہیں۔

راہ اللہ (جہاد) میں خرچ کرنے کی فضیلت
حضرت خریم بن فاتک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَنْفَقَ نَفَقَةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏كُتِبَتْ لَهُ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ.
ترجمہ:
جس نے اللہ کے راستے (جہاد) میں کچھ خرچ کیا اس کے لیے سات سو گنا (ثواب) لکھ لیا گیا ۔


صدقہ کرنے کی نفلی مقدار: آمدنی کا تہائی حصہ
مسکینوں اور مسافروں پر خرچ کرنے کی فضلیت کے بیان میں

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
بَيْنَا رَجُلٌ بِفَلَاةٍ مِنْ الْأَرْضِ فَسَمِعَ صَوْتًا فِي سَحَابَةٍ اسْقِ حَدِيقَةَ فُلَانٍ فَتَنَحَّی ذَلِکَ السَّحَابُ فَأَفْرَغَ مَائَهُ فِي حَرَّةٍ فَإِذَا شَرْجَةٌ مِنْ تِلْکَ الشِّرَاجِ قَدْ اسْتَوْعَبَتْ ذَلِکَ الْمَائَ کُلَّهُ فَتَتَبَّعَ الْمَائَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي حَدِيقَتِهِ يُحَوِّلُ الْمَائَ بِمِسْحَاتِهِ فَقَالَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُکَ قَالَ فُلَانٌ لِلِاسْمِ الَّذِي سَمِعَ فِي السَّحَابَةِ فَقَالَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ لِمَ تَسْأَلُنِي عَنْ اسْمِي فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ صَوْتًا فِي السَّحَابِ الَّذِي هَذَا مَاؤُهُ يَقُولُ اسْقِ حَدِيقَةَ فُلَانٍ لِاسْمِکَ فَمَا تَصْنَعُ فِيهَا قَالَ أَمَّا إِذْ قُلْتَ هَذَا فَإِنِّي أَنْظُرُ إِلَی مَا يَخْرُجُ مِنْهَا فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ وَآکُلُ أَنَا وَعِيَالِي ثُلُثًا وَأَرُدُّ فِيهَا ثُلُثَهُ
ترجمہ:
ایک آدمی ایک جنگل میں تھا کہ اس نے بادلوں سے ایک آواز سنی کہ فلاں باغ کو پانی لگاؤ تو پھر ایک بادل ایک طرف چلا اور اس نے ایک پتھریلی زمین پر بارش برسائی اور وہاں نالیوں میں سے ایک نالی بھر گئی وہ آدمی برستے ہوئے پانی کے پیچھے پیچھے گیا اچانک اس نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اپنے باغ میں کھڑا ہو اپنے پھاوڑے سے پانی ادھر ادھر کر رہا ہے اس آدمی نے باغ والے آدمی سے کہا اے اللہ کے بندے تیرا نام کیا ہے اس نے کہا فلاں اور اس نے وہی نام بتایا کہ جو اس نے بادلوں میں سنا تھا پھر اس باغ والے آدمی نے اس سے کہا تو نے میرا نام کیوں پوچھا ہے اس نے کہا میں نے ان بادلوں میں سے جس سے یہ پانی برسا ہے ایک آواز سنی ہے کہ کوئی تیرا نام لے کر کہتا ہے کہ اس باغ کو سیراب کر، تم اس باغ میں کیا کرتے ہو اس نے کہا جب تو نے یہ کہا ہے کہ تو سنو میں اس باغ میں پیداوار پر نظر رکھتا ہوں اور اس میں سے ایک تہائی صدقہ خیرات کرتا ہوں اور ایک تہائی اس میں سے میں اور میرے گھر والے کھاتے ہیں جبکہ ایک تہائی میں اسی باغ میں لگا دیتا ہوں۔
[صحیح مسلم:2984(7473)]
فائدہ:
کس قدر برکت ہے اللہ کے نام پر صرف ایک تہائی آمدنی کے خرچ کرنے کی کہ پردئہ غیب سے ان کے باغ کی پرورش کے سامان ہوتے ہیں، اور کھلی مثال ہے اس مضمون کی جو پہلی حدیث میں گزرا کہ’’ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا‘‘ کہ باغ کی ایک تہائی پیداوار صدقہ کی تھی اور تمام باغ کے دوبارہ پھل لانے کے انتظامات ہو رہے ہیں۔
اس حدیث شریف سے ایک بہترین سبق اور بھی حاصل ہوتا ہے، وہ یہ کہ آدمی کواپنی آمدنی کا کچھ حصہ اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کے لیے متعین کرلینا زیادہ مفید ہے۔ اور تجربہ بھی یہی ہے کہ اگر آدمی یہ طے کرلے کہ اتنی مقدار اللہ کے راستہ میں خرچ کرنی ہے تو پھر خیر کے مصارف اور خرچ کرنے کے مواقع بہت ملتے رہتے ہیں۔ اور اگر یہ خیال کرے کہ جب کوئی کارِخیر ہوگا اس وقت دیکھا جائے گا، تو اوّل تو کارِ خیر ایسی حالت میں بہت کم سمجھ میں آتے ہیں، اور ہر موقع پر نفس اور شیطان یہی خیال دل میں ڈالتے ہیں کہ یہ کوئی ضروری خرچ تو ہے نہیں۔ اور اگر کوئی بہت ہی اہم کام ایسا بھی ہو جس میں خرچ کرنا کھلی خیر ہے، تو اکثر موجو د نہیں ہوتا۔ اور موجودگی میں بھی اپنی ضروریات سامنے آکر کم سے کم خرچ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اور اگر مہینہ کے شروع ہی میں تنخواہ ملنے پر ایک حصہ علیحدہ کرکے رکھ دیا جائے یا روزانہ تجارت کی آمدنی میں سے صندوقچی کا ایک حصہ علیحدہ کرکے اس میں متعینہ مقدار ڈال دی جایا کرے کہ یہ صرف اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا ہے، تو پھر خرچ کے وقت دل تنگی نہیں ہوتی کہ اس کو تو بہرحال وہ مقدار خرچ کرنا ہی ہے۔ بڑا مجرب نسخہ ہے، جس کا دل چاہے کچھ روز تجربہ کرکے دیکھ لے۔
ابووائل  ؒ کہتے ہیں کہ مجھ کو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قریظہ کی طرف بھیجا اور یہ ارشاد فرمایا کہ میں وہاں جاکر وہی عمل اختیار کروں جو بنی اسرائیل کا ایک نیک مرد کرتا تھا کہ ایک تہائی صدقہ کر دوں اور ایک تہائی اس میں چھوڑ دوں اور ایک تہائی ان کے پاس لے آئوں۔ (کنز العمال) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ? بھی اس نسخہ پر عمل فرماتے تھے۔
القرآن:
۔۔۔اور وہ بھیجتا ہے گرجنے والی بجلیاں پھر گراتا ہے اسے جس پر وہ چاہتا ہے۔۔۔
[سورۃ الرعد:13]
تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:4/ 625 

کم دولت والا شخص کوشش کے بعد خیرات کرے تو اس کا اجر»

تھوڑے مال میں سے صدقہ کرنا بہت سارے مال سے افضل ہے۔

صدقہ کرنے کی افضل مقدار: آمدنی کا آدھا حصہ

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

سَبَقَ دِرْهَمٌ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ "، فَقَالَ رَجُلٌ: وَكَيْفَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللهِ؟، قَالَ: " رَجُلٌ لَهُ مَالٌ كَثِيرٌ , فَأَخَذَ مِنْ عُرْضِهِ مِائَةَ أَلْفٍ فَتَصَدَّقَ بِهَا، وَرَجُلٌ لَيْسَ لَهُ إِلَّا دِرْهَمَانِ، فَأَخَذَ أَحَدَهُمَا فَتَصَدَّقَ بِهِ.

ترجمہ:

ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا ، لوگوں نے (حیرت سے) پوچھا: یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: ایک شخص کے پاس دو درہم تھے، ان دو میں سے اس نے ایک صدقہ کردیا، اور دوسرا شخص اپنی دولت (کے انبار کے) ایک گوشے کی طرف گیا اور اس (ڈھیر) میں سے ایک لاکھ درہم لیا، اور اسے صدقہ کردیا۔

[سنن نسائی:2527(2529)، صحیح ابن حبان:241(3347)، صحیح ابن خزیمہ:2443، مسند احمد:8929، مسند البزار:8897، المستدرک-الحاکم:1519، السنن الکبریٰ البيهقى:7779، صَحِيح الْجَامِع:3606، صَحِيح التَّرْغِيبِ:883]

﴿تفسیر الثعلبی:460، سورہ البقرۃ:274﴾

وضاحت:

مطلب یہ ہے کہ ثواب میں دینے والے کی حالت کا لحاظ کیا جاتا ہے نہ کہ دیئے گئے مال کا، اللہ کے نزدیک قدر و قیمت کے اعتبار ایک لاکھ درہم اس غریب کے ایک درہم کے برابر نہیں ہے جس کے پاس صرف دو ہی درہم تھے، اور ان دو میں سے بھی ایک اس نے اللہ کی راہ میں دے دیا۔

القرآن:

جو خرچ کرتے ہیں خوشحالی میں بھی، اور تنگی میں بھی

[آل عمران:134]

ہدایت یافتہ لوگوں کی تیسری اہم علامت:

جو متقی-مومن-توکل کرنے والے-دل کی عاجزی سے اللہ کے آگے جھکے والے-سجدہ کرنے والے جو تکبر نہیں کرتے۔

القرآن:

۔۔۔اور جو ہم نے دیا ہے اس میں سے(کچھ) وہ خرچ کرتے ہیں۔

[سورۃ البقرۃ:3 الانفال:3 الحج:35 القصص:54 السجدۃ:16 الشوریٰ:38]


ہر صبح کچھ نہ کچھ صدقہ کرنے کی فضیلت:
کنجوسی اور بخل کی کراہت:

حضرت ابوھریرہ ؓ نے کہ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ الْعِبَادُ فِيهِ إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلَانِ فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، ‏‏‏‏‏‏وَيَقُولُ الْآخَرُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا.
ترجمہ:
کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! ممسک اور بخیل کے مال کو تلف کر دے۔
[صحیح بخاری:1442، صحیح مسلم:1010()، مسند احمد:(7709-8217) السنن الكبري-للبيهقي:7816]

تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃ الانعام:73


حضرت ابودرداءؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ما طلعت شمس قط إلا بعث بجنبتيها ملكان يناديان يسمعان أهل الأرض إلا الثقلين : يا أيها الناس هلموا إلى ربكم، فإن ما قل وكفى خير مما كثر وألهى. ولا آبت شمس قط إلا بعث بجنبتيها ملكان يناديان، يسمعان أهل الأرض إلا الثقلين: اللهم أعط منفقا خلفا، وأعط ممسكا مالا تلفا.

ترجمہ:

”جب بھی سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں پہلوؤں میں دو فرشتے ہوتے ہیں، وہ جن و انس کے علاوہ زمین والوں کو سناتے ہوئے ندا دیتے ہیں: لوگو! اپنے رب کی طرف آؤ۔ بلاشبہ کفایت کرنے والا قلیل مال، غافل کر دینے والے کثیر مال سے بہتر ہوتا ہے۔ اسی طرح جب بھی سورج غروب ہوتا ہے تو اس کے دونوں پہلوؤں پر دو فرشتے بھیجے جاتے ہیں جو جن و انس کے علاوہ اہل زمین کو سناتے ہوئے اعلان کرتے ہیں: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما اور روک کر رکھنے والے کے مال کو ضائع کر دے۔“

[صحیح ابن حبان:2476، مسند أحمد:21720(5 /197) مسند ابوداود الطيالسي:979، سلسله احاديث الصحيحه:930]


فائدہ:
قرآنِ پاک کی آیات میں بھی نمبر (۲۰) پر جو آیت گزری ہے اس سے اس کی تائید ہوتی ہے، جس کا مضمون یہ ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس کابدل عطا کرے گا۔ اس جگہ اور بھی متعدد روایات اس کی تائید میں گزر چکی ہیں۔ حضرت ابو درداءؓ حضورِاقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جب بھی آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کی دونوں طرف دوفرشتے اعلان کرتے ہیں، جس کو جن وانس کے سوا سب سنتے ہیں، کہ اے لوگو! اپنے رب کی طرف چلو، تھوڑی چیز جوکفایت کا درجہ رکھتی ہو، اس زیادہ مقدار سے بہت بہتر ہے جو اللہ سے غافل کر دے۔ اور جب آفتاب غروب ہوتا ہے تو اس کے دونوں جانب دو فرشتے زور سے دعاکرتے ہیں: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما اور روک کر رکھنے والے کے مال کو برباد کر۔ (عینی بروایۃ احمد)
ایک حدیث میں ہے کہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں جانب دوفرشتے آواز دیتے ہیں کہ یا اللہ! خرچ کرنے والے کا بدل جلدی عطا فرمااور یا اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو جلدی ہلاک فرما۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آسمان میں دوفرشتے ہیں جن کے متعلق صرف یہی کام ہے کوئی دوسرا کام نہیں۔ ایک کہتا رہتا ہے: یا اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا کر۔ دوسرا کہتا ہے: یا اللہ! روک کر رکھنے والے کو ہلاکت عطا فرما۔ (کنز العمال)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح و شام کی خصوصیت نہیں، ان کی ہر وقت یہی دعا ہے، لیکن پہلی روایات کی بنا پر معلوم ہوتا ہے یہ فرشتے آفتاب طلوع ہونے کے وقت اور غروب کے وقت خاص طور سے یہ دعا کرتے ہیں۔ اور مشاہدہ اور تجربہ بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ مال جمع کرکے رکھنے والوں پر اکثر ایسی چیزیں مسلّط ہو جاتی ہیں جن سے وہ سب ضائع ہو جاتا ہے۔ کسی پر مقدمہ مسلّط ہو جاتا ہے، کسی پرآوارگی سوار ہو جاتی ہے، کسی کے چور پیچھے لگ جاتے ہیں۔
حافظ ابنِ حجر ؒنے لکھا ہے کہ بربادی کبھی تو بعینہٖ اس مال کی ہوتی ہے اور کبھی صاحب ِمال کی۔ یعنی وہ خود ہی چل دیتا ہے۔ اور کبھی بربادی نیک اعمال کے ضائع ہونے سے ہوتی ہے کہ وہ اس میں پھنس کر نیک اعمال سے جاتا رہتا۔ اور اس کے بالمقابل جو خرچ کرتا ہے اس کے مال میں برکت ہوتی ہے، بلکہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص صدقہ اچھی طرح کرتا ہے حق تعالیٰ شا نہٗ اس کے ترکہ میں اچھی طرح نیابت کرتے ہیں۔ (اِحیاء العلوم) یعنی اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا مال وارث برباد نہیں کرتے، لغو چیزوں میں ضائع نہیں کرتے، ورنہ اکثر رؤسا کے لڑکے باپ کے مال کا جو حشر کرتے ہیں وہ معلوم ہی ہے۔ امام نووِی  ؒ نے لکھا ہے کہ جو خرچ پسندیدہ ہے وہ وہی خرچ ہے جو نیک کاموں میں ہو، اہل وعیال کے نفقہ میں ہو یا مہمانوں پر خرچ ہو یا دوسری عبادتوں میں ہو۔ قرطبی ؒ کہتے ہیں کہ یہ فرض عبادت اور نفل عبادت دونوں کو شامل ہے، لیکن نوافل سے رُکنے والا بددعا کا مستحق نہیں ہوتا، مگر یہ کہ اس کی طبیعت پر ایسا بخل مسلّط ہو جائے جو واجبات میں بھی خوشی سے خرچ نہ کرے۔ (فقط) لیکن آیندہ حدیث تعمیم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

القرآن:
اور وہی ہے جس نے پیدا کیا آسمان اور زمین کو حق کے ساتھ۔۔۔
[سورۃ الانعام:73]
یعنی کہ جو لوگ یہاں اچھے کام کریں گے انہیں انعام سے نوازا جائے گا اور جو بدکار اور ظالم ہوں گے انہیں سزا دی جائے گی۔


القرآن:

جو خرچ کرتے ہیں خوشحالی میں بھی، اور تنگی میں بھی

[آل عمران:134]

جو لوگ اپنے مال دن رات خاموشی سے بھی اور علانیہ بھی خرچ کرتے ہیں وہ اپنے پروردگار کے پاس اپنا ثواب پائیں گے، اور نہ انہیں کوئی خوف لاحق ہوگا، نہ کوئی غم پہنچے گا۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 274]


تمام مال صدقہ کرنی کی ممانعت کا بیان

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ بِمِثْلِ بَيْضَةٍ مِنْ ذَهَبٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَصَبْتُ هَذِهِ مِنْ مَعْدِنٍ فَخُذْهَا فَهِيَ صَدَقَةٌ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَتَاهُ مِنْ قِبَلِ رُكْنِهِ الْأَيْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مِثْلَ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْرَضَ عَنْهُ ثُمَّ أَتَاهُ مِنْ قِبَلِ رُكْنِهِ الْأَيْسَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَتَاهُ مِنْ خَلْفِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَذَفَهُ بِهَا فَلَوْ أَصَابَتْهُ لَأَوْجَعَتْهُ أَوْ لَعَقَرَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَأْتِي أَحَدُكُمْ بِمَا يَمْلِكُ فَيَقُولُ هَذِهِ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يَقْعُدُ يَسْتَكِفُّ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى.
ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس تھے کہ ایک شخص انڈہ کے برابر سونا لے کر آیا اور بولا: اللہ کے رسول! مجھے یہ ایک کان میں سے ملا ہے، آپ اسے لے لیجئے، یہ صدقہ ہے اور اس کے علاوہ میں کسی اور چیز کا مالک نہیں، رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیرلیا، وہ پھر آپ ﷺ کے پاس آپ کی دائیں جانب سے آیا اور ایسا ہی کہا، رسول اللہ ﷺ نے اس سے منہ پھیرلیا، پھر وہ آپ ﷺ کے پاس آپ کی بائیں جانب سے آیا، رسول اللہ ﷺ نے پھر اس سے منہ پھیرلیا، پھر وہ آپ ﷺ کے پیچھے سے آیا آپ نے اسے لے کر پھینک دیا، اگر وہ اسے لگ جاتا تو اس کو چوٹ پہنچاتا یا زخمی کردیتا، پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں ایک اپنا سارا مال لے کر چلا آتا ہے اور کہتا ہے: یہ صدقہ ہے، پھر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، بہترین صدقہ وہ ہے جس کا مالک صدقہ دے کر مالدار رہے۔
[سنن ابوداؤد:1673، سنن الدارمی:1700]
القرآن:
۔۔۔اور لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (اللہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو تمہاری ضرورت سے زائد ہو۔۔۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 219]
﴿تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:1/608-609﴾

مالی صدقات کس پر لازم ہیں؟ شرعاً مالدار کون؟
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَيْسَ فِي أَقَلَّ مِنْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ شَيْءٌ " .
ترجمہ:
نہیں ہے (لازم) دو سو درہم سے کم میں کوئی شیء۔
[مصنف ابن أبي شيبة:9860-9862، دارقطنی:1902]
یعنی نہ زکوٰۃ لازم، نہ قربانی اور نہ ہی فطرہ۔

کس پر کتنا صدقہ دینا لازم ہے؟
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لاؤ چالیسواں حصہ، ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم(یعنی چالیسواں حصہ)، اور تم پر کچھ بھی(یعنی زکاۃ، صدقۃ الفطر اور قربانی لازم) نہیں ہے یہاں تک کہ دو سو درہم (یعنی جدید ہندستانی اوزان کے مطابق، 52.5 تولہ چاندی) پورے ہوجائیں۔ پس جب دو سو درہم ہوں تو ان میں پانچ درہم ہیں۔ اور جو زیادہ ہو تو اس کی زکاۃ اس کے حساب سے ہوگی۔
[سنن ابوداؤد:1572، سنن ابن ماجہ:179، سنن الدارمی:1669، سنن الترمذی:620، سنن النسائی:2479، مسند احمد: 132، 146]

تشریح:
دو سو درہم، جدید ہندستانی اوزان کے مطابق، 52.5 تولہ چاندی بنتی ہے۔ یہی لازم صدقات کا نصاب ہے، اس سے کم مالدار شخص پر صدقاتِ واجبہ یعنی (1)زکوٰۃ (2)فطرہ اور (3)قربانی وغیرہ میں سے کچھ بھی لازم نہیں۔
اور صدقاتِ نافلہ کی تفصیل آگے آنے والی ہے۔


شرعی مالدار اور فقیر کون؟
(1)غنی(مالدار)۔۔۔یا وسعت(گنجائش)والا وہ ہے جس کے پاس دو سو درہم(تقریباً ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت جتنا) مال ہو۔ ورنہ وہ شرعی فقیر ہے۔
(2)شرعی مالدار پر صدقاتِ واجبہ یعنی فطرہ اور قربانی اسی وقت لازم ہوجاتے ہیں۔ اور (چاند کی تاریخ کے مطابق) اس مالداری میں پورا سال ہوجائے تو زکوٰۃ بھی لازم ہوجاتی ہے۔ لیکن فقیر پر کچھ لازم نہیں۔
(3)مالدار کا صدقات لینا ناحق ہے، اور فقیر کا لینا حق ہے۔ اور جس نے کسی مالدار کو دیا تو اسے دوبارہ صدقاتِ واجبہ ادا کرنا لازم رہیں گے۔


مقصد
القرآن:
۔۔۔۔تاکہ نہ رہے دولت تمہارے مالداروں کے درمیان۔۔۔۔
[سورۃ الحشر:7]

حلال کمائی سے خیرات کرنے کی فضیلت:

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ،‏‏‏‏ وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الْجَبَلِ۔

ترجمہ:

جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے، اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے تاآنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہوجاتا ہے۔

[صحیح بخاری:1410۔7430، مسند احمد:8381]
أو أعظم
یا اس سے بھی بڑا ہوجاتا ہے۔
[صحیح مسلم:1014]
أَوْ أَكْثَرَ
یا اس سے بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔
[المعجم الاوسط للطبراني:708]
فَتَصَدَّقُوا
لہٰذا تم صدقہ کیا کرو۔
[مسند احمد:7634، المعجم الاوسط للطبراني:2991]

القرآن:
اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے، اور اللہ ہر اس شخص کو ناپسند کرتا ہے جو ناشکرا گنہگار ہو۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 276]
تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:2/106



القرآن:
اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہو اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ (الله کے راستے میں) خرچ کیا کرو، اور یہ نیت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں (الله کے نام پر) دیا کرو گے جو (اگر کوئی دوسرا تمہیں دے تو نفرت کے مارے) تم اسے آنکھیں میچے بغیر نہ لے سکو۔ اور یاد رکھو کہ الله ایسا بےنیاز ہے کہ ہر قسم کی تعریف اسی کی طرف لوٹتی ہے۔
[سورۃ البقرة:267]



ضرورتمند کو کھلانے پلانے پر
7 خندقوں کے بقدر جہنم سے دوری:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ أَطْعَمَ أَخَاهُ خُبْزًا حَتَّى يُشْبِعَهُ وَسَقَاهُ مَاءً حَتَّى يَرْوِيَهُ بَعَدَهُ اللَّهُ عَنِ النَّارِ سَبْعَ خَنَادِقَ بُعْدُ مَا بَيْنَ خَنْدَقَيْنِ مَسِيرَةُ خَمْسِمِائَةِ سَنَةٍ»
ترجمہ:
جو شخص بھوکے کو کھانا کھلائے یہاں تک کہ اس کا پیٹ بھرجائے اور پیاسے کو پانی پلائے یہاں تک کہ وہ سیراب ہوجائے، تو اللہ پاک اس کھلانے پلانے والے کو جہنم سے سات(7) خندقوں کی مقدار دور فرمادیں گے، اور ہر دو خندقوں کی درمیانی مسافت پانچ سو(500) سال کے برابر ہوگی۔
[المستدرك على الصحيحين-حاکم: 7172 (صحیح)، مكارم الأخلاق للخرائطي:343، الترغيب في فضائل الأعمال-لابن شاهين:373، المعجم الاوسط-للطبرانی:6578، شعب الایمان-للبیھقی:3096، جامع الأحاديث-السيوطي:21301، كنز العمال:16373]
(یعنی کل تین ہزار پانچ سو(3500) سال کی مسافت کے بقدر اسے جہنم سے دور فرمادیں گے۔)

القرآن:
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔
[سورۃ البقرۃ:268، تفسیر الثعلبی:1/525]

 اگر لاعلمی میں کسی نے مالدار کو صدقہ دے دیا (تو اس کو ثواب مل جائے گا)۔
حضرت ابوہریرہؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ایک شخص نے (بنی اسرائیل میں سے) کہا کہ مجھے ضرور صدقہ (آج رات) دینا ہے۔ چنانچہ وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور (ناواقفی سے) ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں نے کہنا شروع کیا کہ آج رات کسی نے چور کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے۔ (آج رات) میں پھر ضرور صدقہ کروں گا۔ چنانچہ وہ دوبارہ صدقہ لے کر نکلا اور اس مرتبہ ایک فاحشہ کے ہاتھ میں دے آیا۔ جب صبح ہوئی تو پھر لوگوں میں چرچا ہوا کہ آج رات کسی نے فاحشہ عورت کو صدقہ دے دیا۔ اس شخص نے کہا اے اللہ! تمام تعریف تیرے ہی لیے ہے ‘ میں زانیہ کو اپنا صدقہ دے آیا۔ اچھا آج رات پھر ضرور صدقہ نکالوں گا۔ چنانچہ اپنا صدقہ لیے ہوئے وہ پھر نکلا اور اس مرتبہ ایک مالدار کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح ہوئی تو لوگوں کی زبان پر ذکر تھا کہ ایک مالدار کو کسی نے صدقہ دے دیا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ اے اللہ! حمد تیرے ہی لیے ہے۔ میں اپنا صدقہ (لاعلمی سے) چور ‘ فاحشہ اور مالدار کو دے آیا۔ (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) بتایا گیا کہ جہاں تک چور کے ہاتھ میں صدقہ چلے جانے کا سوال ہے۔ تو اس میں اس کا امکان ہے کہ وہ چوری سے رک جائے۔ اسی طرح فاحشہ کو صدقہ کا مال مل جانے پر اس کا امکان ہے کہ وہ زنا سے رک جائے اور مالدار کے ہاتھ میں پڑ جانے کا یہ فائدہ ہے کہ اسے عبرت ہو اور پھر جو اللہ عزوجل نے اسے دیا ہے ‘ وہ خرچ کرے۔
[صحيح البخاري:1421، صحیح مسلم:1022، سنن نسائی:2524]

فائدہ:
ایک حدیث میں یہ قصہ اور طرح سے ذکر کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ دوسرا قصہ ہو کہ اس قسم کے متعدد واقعات میں کوئی اشکال نہیں۔ اور اگر وہ یہی قصہ ہے تو اس سے اس قصہ کی کچھ وضاحت ہوتی ہے۔ طائوس ؒ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے منت مانی کہ جو شخص سب سے پہلے اس آبادی میںنظر پڑے گا اس پر صدقہ کروں گا۔ اتفاق سے سب سے پہلے ایک عورت ملی اس کو صدقہ کا مال دے دیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بڑی خبیث عورت ہے۔ اس صدقہ کرنے والے نے اس کے بعد جو شخص سب سے پہلے نظر پڑا اس کو مال دیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بدترین شخص ہے۔ اس شخص نے اس کے بعد جو سب سے پہلے نظر پڑا اس پر صدقہ کیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بڑا مال دار شخص ہے۔ صدقہ کرنے والے کو بڑا رنج ہوا تو اس نے خواب میں دیکھا کہ اللہ نے تیرے تینوں صدقے قبول کرلیے۔ وہ عورت فاحشہ عورت تھی، لیکن محض ناداری کی وجہ سے اس نے یہ فعل اختیار کر رکھا تھا۔ جب سے تو نے اس کو مال دیا ہے اس نے یہ برا کام چھوڑ دیا۔ دوسرا شخص چور تھا اور وہ بھی تنگ دستی کی وجہ سے چوری کرتا تھا۔ تیرے مال دینے پر اس نے چوری سے علیحدگی اختیار کرلی۔ تیسرا شخص مال دار ہے اور کبھی صدقہ نہ کرتا تھا۔ تیرے صدقہ کرنے سے اس کو عبرت ہوئی کہ میں اس سے زیادہ مال دار ہوں اس لیے زیادہ صدقہ کرنے کا مستحق ہوں، اب اس کو صدقہ کی توفیق ہوگئی۔ (کنز العمال)
اس حدیث شریف سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر صدقہ کرنے والے کی نیت اخلاص کی ہو اور اس کے باوجود وہ بے محل پہنچ جائے تو اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت ہوتی ہے، اس سے رنجیدہ نہ ہونا چاہیے۔ آدمی کا اپنا کام یہ ہے کہ اپنی نیت اخلاص کی رکھے کہ اصل چیز اپنا ہی ارادہ اور فعل ہے۔ اور ان صدقہ کرنے والے بزرگ کی فضیلت بھی ظاہر ہوئی کہ باوجود اپنی کوشش کے جب صدقہ بے جگہ صرف ہوگیا، تو اس کی وجہ سے بددل ہو کر صدقہ کرنے کاارادہ ترک نہیں کیا، بلکہ دوبارہ سہ بارہ صدقہ کو اپنے مصرف پر خرچ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہی وہ ان کا اخلاص اور نیک نیتی تھی جس کی برکت سے تینوں صدقے قبول بھی ہوگئے اور قبول کی بشارت بھی خواب میں ظاہر ہوگئی۔ حافظ ابنِ حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر صدقہ ظاہر کے اعتبار سے اپنے محل پر خرچ نہ ہوا ہو تو اس کو دوبارہ ادا کرنا مستحب ہے اور دوبارہ ادا کرنے سے اُکتانا نہیں چاہیے جیسا کہ بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ خدمت کو قطع نہ کر اگرچہ عدمِ قبول کے آثار ظاہر ہوں۔
علاّمہ عینی ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اللہ آدمی کی نیک نیتی کا بدلہ ضرور عطا فرماتے ہیں۔ اس لیے کہ ان صدقہ کرنے والوں نے خالص اللہ کے واسطے صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تھا (اسی لیے رات کو چھپا کر دیا تھا) تو حق تعالیٰ شا نہٗ نے اس کو قبول فرمایا اور بے محل خرچ ہو جانے کی وجہ سے مردود نہیں ہوا۔

حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں (جمعہ کا) خطبہ دیا اور فرمایا: لوگو! مرنے سے پہلے اللہ کی جناب میں توبہ کرو، اور مشغولیت سے پہلے نیک اعمال میں سبقت کرو، جو رشتہ تمہارے اور تمہارے رب کے درمیان ہے اسے جوڑو، اس کا طریقہ یہ ہے کہ اللہ کو خوب یاد کرو، اور خفیہ و اعلانیہ طور پر زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرو، تمہیں تمہارے رب کی جانب سے رزق دیا جائے گا، تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہاری گرتی حالت سنبھال دی جائے گی، جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر جمعہ اس مقام، اس دن اور اس مہینہ میں فرض کیا ہے، اور اس سال سے تاقیامت فرض ہے، لہٰذا جس نے جمعہ کو میری زندگی میں یا میرے بعد حقیر و معمولی جان کر یا اس کا انکار کر کے چھوڑ دیا حالانکہ امام موجود ہو خواہ وہ عادل ہو یا ظالم، تو اللہ تعالیٰ اس کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دے اور اس کے کام میں برکت نہ دے، سن لو! اس کی نماز، زکاۃ، حج، روزہ اور کوئی بھی نیکی قبول نہ ہوگی، یہاں تک کہ وہ توبہ کرے، لہٰذا جس نے توبہ کی اللہ اس کی توبہ قبول فرمائے گا، سن لو! کوئی عورت کسی مرد کی، کوئی اعرابی (دیہاتی) کسی مہاجر کی، کوئی فاجر کسی مومن کی امامت نہ کرے، ہاں جب وہ کسی ایسے حاکم سے مغلوب ہوجائے جس کی تلوار اور کوڑوں کا ڈر ہو۔


حضرت سالم ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ مَنْ کَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ کَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ بِهَا کُرْبَةً مِنْ کُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ
ترجمہ:
مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ ہی اسے کسی ہلاکت میں ڈالتا ہے جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے تو اللہ اس کی ضرورت پوری فرمائے گا اور جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی سے کوئی مصیبت دور کرے گا تو قیامت کے دن اللہ عزوجل اس کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کرے گا اور جو آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ عزوجل قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔
[صحيح البخاري:2442، صحیح مسلم:2580(6578)]

القرآن:
اور اگر کوئی تنگدست (قرض دار) ہو تو اس کا ہاتھ کھلنے تک مہلت دینی ہے، اور صدقہ ہی کردو تو یہ تمہارے حق میں کہیں زیادہ بہتر ہے، بشرطیکہ تم کو سمجھ ہو۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 280]

القرآن:
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں، اس لیے اپنے دو بھائیوں کے درمیان تعلقات اچھے بناؤ، اور الله سے ڈرو تاکہ تمہارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا جائے۔
[سورۃ نمبر 49 الحجرات،آیت نمبر 10]





حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، ‏‏‏‏‏‏سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللَّهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا حَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَنَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ أَبْطَأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ.
ترجمہ:
جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی پریشانیوں میں سے کسی پریشانی کو دور کردیا، اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی پریشانیوں میں سے بعض پریشانیاں دور فرما دے گا، اور جس شخص نے کسی مسلمان کے عیب کو چھپایا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کے عیب کو چھپائے گا، اور جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی، اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی کرے گا، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اور جو شخص علم دین حاصل کرنے کے لیے کوئی راستہ چلے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کے راستہ کو آسان کردیتا ہے، اور جب بھی اللہ تعالیٰ کے کسی گھر میں کچھ لوگ اکٹھا ہو کر قرآن کریم پڑھتے ہیں یا ایک دوسرے کو پڑھاتے ہیں، تو فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں، اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے، انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے مقرب فرشتوں میں کرتا ہے، اور جس کے عمل نے اسے پیچھے کردیا، تو آخرت میں اس کا نسب اسے آگے نہیں کرسکتا۔
[سنن ابن ماجہ:225]
 تخریج:
صحیح مسلم:2699، سنن ابی داود:4946، سنن الترمذی:2945



القرآن:
اے ایمان والو ! جب تم سے کہا جائے کہ مجلسوں میں دوسروں کے لیے گنجائش پید کرو، تو گنجائش پیدا کردیا کرو،  الله تمہارے لیے وسعت پیدا کرے گا، اور جب کہا جائے کہ اٹھ جاؤ، تو اٹھ جاؤ، تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے الله ان کو درجوں میں بلند کرے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو الله اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
[سورۃ المجادلة:11]



 

اس بیان کا تذکرہ کہ قیامت میں ہر شخص کا سایہ اس کا صدقہ ہوگا۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
كُلُّ امْرِئٍ فِي ظِلِّ صَدَقَتِهِ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ، أَوْ قَالَ: حَتَّى يُحْكَمَ بَيْنَ النَّاسِ.
ترجمہ:
ہر شخص اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا یہاں تک کہ لوگوں میں فیصلہ کر دیا جائے۔
[صحیح ابن حبان:229(3310) صحیح ابن خزیمہ:2432]

القرآن:
اگر تم صدقات ظاہر کر کے دو تب بھی اچھا ہے، اور اگر ان کو چھپا کر فقرا کو دو تو یہ تمہارے حق میں کہیں بہتر ہے، اور اللہ تمہاری برائیوں کا کفارہ کردے گا، اور اللہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 271]
﴿تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:2/ 81}

مخفی صدقہ کرنے کی فضیلت:
حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
صَدَقَةُ السِّرِّ تُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ 
ترجمہ:
مخفی طریقے سے صدقہ کرنا اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے۔
[معجم الأوسط الطبراني:3450 ، معجم الصغیر الطبراني:1034 ، صَحِيح الْجَامِع: 3795 , 3796 , الصَّحِيحَة: 1908 , صَحِيح التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيب:888-890]
حضرت ابن عباسؓ سے
[الجامع الصغیر للسیوطی:4683]
حضرت ابوسعیدؓ سے
[الجامع الصغیر للسیوطی:7207-7208]
القرآن:
اگر تم صدقات ظاہر کر کے دو تب بھی اچھا ہے، اور اگر ان کو چھپا کر فقرا کو دو تو یہ تمہارے حق میں کہیں بہتر ہے، اور اللہ تمہاری برائیوں کا کفارہ کردے گا، اور اللہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 271]
﴿تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:2/ 77-79}


لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دلانا اور اس کے لیے سفارش کرنا۔

حضرت اسماء ؓ نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: 
لَا تُوكِي فَيُوكَى عَلَيْكِ.
ترجمہ:
خیرات کو مت روک ورنہ روک دیا جائے گا تجھ پر تیرا رزق۔
[صحیح بخاری:1433 مسند احمد:26912-26987]
اور دوسری روایت میں فرمایا:
لَا تُحْصِي فَيُحْصَى عَلَيْكِ.
ترجمہ:
شمار (کرکے خرچ) مت کرو ورنہ تم پر بھی شمار (کرکے خرچ) کیا جائے گا۔
[جامع الترمذی:1960، معجم الکبیر للطبرانی:242]
القرآن:
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور تمہیں بےحیائی کا حکم دیتا ہے اور اللہ تم سے اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ کرتا ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا، ہر بات جاننے والا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 268]
﴿تفسیر البغوی:1/ 373﴾

القرآن:
حقیقت یہ ہے کہ تمہارا رب جس کے لیے چاہتا ہے رزق میں وسعت عطا فرما دیتا ہے، اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگی پیدا کردیتا ہے۔ یقین رکھو کہ وہ اپنے بندوں کے حالات سے اچھی طرح باخبر ہے، انہیں پوری طرح دیکھ رہا ہے۔
[سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 30]
﴿تفسیر ابن کثیر-ت السلامہ:5/ 70﴾



القرآن:
کہہ دو کہ : میرا پروردگار اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کی فراوانی کردیتا ہے، اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگی کردیتا ہے۔ اور تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو وہ اس کی جگہ اور چیز دے دیتا ہے، اور وہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
[سورۃ نمبر 34 سبإ، آیت نمبر 39]
﴿تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:6 /708﴾
[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: 9/61، 11/20، 30/220، 35/161]



حرص اور بخل کی مذمت

عَنْ عَائِشَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا ذَكَرَتْ عِدَّةً مِنْ مَسَاكِينَ قَالَ أَبُو دَاوُد:‏‏‏‏ وقَالَ غَيْرُهُ:‏‏‏‏ أَوْ عِدَّةً مِنْ صَدَقَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَعْطِي وَلَا تُحْصِي فَيُحْصَى عَلَيْكِ.
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ  انہوں نے کئی مسکینوں کا ذکر کیا   (ابوداؤد کہتے ہیں: دوسروں کی روایت میں عدة من صدقة (کئی صدقوں کا ذکر ہے) تو رسول اللہ  ﷺ  نے ان سے فرمایا:  دو اور گنو مت کہ تمہیں بھی گن گن کر رزق دیا جائے۔   
[سنن ابوداؤد:1700، سنن النسائی:2552]



تندرستی اور مال کی خواہش کے زمانہ میں صدقہ دینے کی فضیلت۔

حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنَى، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُمْهِلُ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتَ لِفُلَانٍ كَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِفُلَانٍ كَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ.
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ! کس طرح کے صدقہ میں سب سے زیادہ ثواب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس صدقہ میں جسے تم صحت کے ساتھ بخل کے باوجود کرو۔ تمہیں ایک طرف تو فقیری کا ڈر ہو اور دوسری طرف مالدار بننے کی تمنا اور امید ہو اور (اس صدقہ خیرات میں) ڈھیل نہ ہونی چاہیے کہ جب جان حلق تک آجائے تو اس وقت تو کہنے لگے کہ فلاں کے لیے اتنا اور فلاں کے لیے اتنا حالانکہ وہ تو اب فلاں کا ہوچکا۔
[صحیح بخاری:1419]
القرآن:
اور ہم نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے (اللہ کے حکم کے مطابق) خرچ کرلو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو وہ یہ کہے کہ : اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے تھوڑی دیر کے لیے اور مہلت کیوں نہ دے دی کہ میں خوب صدقہ کرتا، اور نیک لوگوں میں شامل ہوجاتا۔
[سورۃ نمبر 63 المنافقون، آیت نمبر 10]



دونوں نفخوں کے درمیانی وقفہ کے بیان میں


حضرت مطرف ؓ اپنے باپ سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کی خدمت آیا آپ پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا ابن آدم کہتا ہے:
(دوسری روایت میں ہے)
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
يَقُولُ الْعَبْدُ مَالِي مَالِي إِنَّمَا لَهُ مِنْ مَالِهِ ثَلَاثٌ مَا أَکَلَ فَأَفْنَی أَوْ لَبِسَ فَأَبْلَی أَوْ أَعْطَی فَاقْتَنَی وَمَا سِوَی ذَلِکَ فَهُوَ ذَاهِبٌ وَتَارِکُهُ لِلنَّاسِ.
ترجمہ:
بندہ کہتا ہے: میرا مال، میرا مال۔ حالانکہ اس کے مال میں سے اس کی صرف تین چیزیں ہیں: جو کھایا اور ختم کرلیا، جو پہنا اور پرانا کرلیا، جو اس نے اللہ کے راستہ میں دیا یہ اس نے آخرت کے لئے جمع کرلیا۔ اس کے علاوہ تو صرف جانے والا اور لوگوں کے لئے چھوڑنے والا ہے۔
[﴿صحیح مسلم:2958(7420)﴾ صحیح مسلم:2958(7422)، سنن الترمذی:2341، سنن نسائی:3613، مسند احمد:16348]

﴿تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:8/609-﴾
﴿تفسیر ابن ابی حاتم:1978(11/125) +7642(12/385)﴾
﴿تفسیر ابن کثیر-السلامۃ:1/ 569﴾
القرآن:
جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، ان کے لیے دنیوی زندگی بڑی دلکش بنادی گئی ہے، اور وہ اہل ایمان کا مذاق اڑاتے ہیں، حالانکہ جنہوں نے تقوی اختیار کیا ہے وہ قیامت کے دن ان سے کہیں بلند ہوں گے، اور اللہ جس کو چاہتا ہے بےحساب رزق دیتا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 212]

تفسیر:
یہ فقرہ دراصل کفار کے اس باطل دعوی کا جواب ہے کہ اللہ تعالیٰ چونکہ ہمیں خوب رزق دے رہا ہے، اس لئے یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ ہمارے عقائد اور اعمال سے ناراض نہیں ہے، جواب دیا گیا ہے کہ دنیا میں رزق کی فراوانی کسی کے حق پر ہونے کی دلیل نہیں، دنیوی رزق کے لئے اللہ کے نزدیک الگ معیار مقرر ہے، یہاں اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بےحساب رزق دے دیتا ہے، خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔

لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھانے والے کا ثواب

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ، ‏‏‏‏‏‏عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ﴿أَوْ عِلْمٌ يُنْتَفَعُ بِهِ﴾﴿أَوْ عِلْمٌ يُعْمَلُ بِهِ مِنْ بَعْدِهِ﴾، ‏‏‏‏‏‏وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ بَيْتًا لِابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَّتِهِ وَحَيَاتِهِ يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ.
ترجمہ:
مومن کو اس کے اعمال اور نیکیوں میں سے اس کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب پہنچتا رہتا ہے وہ یہ ہیں: ﴿صدقہ جاریہ﴾ وہ علم جو اس نے سکھایا اور پھیلایا ﴿جو نفع دے﴾﴿جس پر اس کے بعد عمل کیا جاتا رہا﴾، نیک اور صالح اولاد جو چھوڑ گیا ہو ﴿جو اس کیلئے دعا کرے﴾، وراثت میں قرآن مجید چھوڑ گیا، کوئی مسجد بنا گیا، یا مسافروں کے لیے کوئی مسافر خانہ بنوا دیا ہو، یا کوئی نہر جاری کر گیا، یا زندگی اور صحت و تندرستی کی حالت میں اپنے مال سے کوئی صدقہ نکالا ہو، تو اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی اسے ملتا رہے گا۔
[سنن ابن ماجہ:242-241]
تخریج:
﴿سنن النسائی:2651(3681)، سنن الترمذی:1376، صحیح مسلم:1631(4223)، صحیح ابن حبان:3965(3016)، سنن ابی داود:2880، سنن الدارمی:578﴾



القرآن:
یقینا ہم ہی مردوں کو زندہ کریں گے، اور جو کچھ عمل انہوں نے آگے بھیجے ہیں ہم ان کو بھی لکھتے جاتے ہیں اور ان کے کاموں کے جو اثرات ہیں ان کو بھی۔ اور ہم نے ایک واضح کتاب میں ہر ہر چیز کا پورا احاطہ کر رکھا ہے۔
[سورۃ نمبر 36 يس، آیت نمبر 12]
﴿تفسیر (امام) ابن کثیر-السلامۃ:6/ 566﴾




القرآن:
اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور ان کی اولاد نے بھی ایمان میں ان کی پیروی کی ہے تو ان کی اولاد کو ہم انہی کے ساتھ شامل کردیں گے، اور ان کے عمل میں سے کسی چیز کی کمی نہیں کریں گے۔ ہر انسان کی جان اپنی کمائی کے بدلے رہن رکھی ہوئی ہے۔
[سورۃ نمبر 52 الطور، آیت نمبر 21]


میت کیلئے صدقہ(ایصالِ ثواب)کرنا۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا ؟،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ نَعَمْ.
ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کر دوں تو کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ملے گا۔
[صحیح بخاری:1388، صحیح مسلم:1004، سنن ابوداؤد :2881، سنن ابن ماجہ:2717، صحیح ابن حبان:5843(3352) مسندأحمد:24251]






رشتہ داروں کو صدقہ دینا۔
حضرت سلمان بن عامر رضی الله عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:  
إِنَّ الصَّدَقَةَ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى ذِي الرَّحِمِ اثْنَتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ.
ترجمہ:
مسکین کو صدقہ کرنا صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار (مسکین) کو صدقہ کرنا صدقہ بھی ہے، اور صلہ رحمی بھی۔
[سنن النسائي: حديث نمبر 2582]
تخریج: 
[سنن ابی داود:2355، سنن الترمذی:658، 695، سنن ابن ماجہ:1699، سنن الدارمی:1721]


القرآن:
۔۔۔۔اور اللہ کی محبت میں اپنا مال دیں رشتہ داروں کو اور(پھر) یتیموں کو اور مسکینوں کو اور ۔۔۔
[سورۃ البقرۃ:177]
﴿تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:1/ 415﴾



حضرت سراقہ بن مالک سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
«أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى الصَّدَقَةِ أَوْ مِنْ أَعْظَمِ الصَّدَقَةِ ابْنَتُكَ مَرْدُودَةٌ عَلَيْكَ لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرُكَ»
ترجمہ:
کیا میں تمہیں سب سے عظیم﴿افضل﴾ صدقہ کے بارے میں آگاہ کردوں؟ (یہ خرچ کرنا ہے) اپنی اس(مطلقہ/بیوہ)بیٹی پر جو تمہاری طرف واپس کردی گئی ہو، اور تمہارے سوا اس کا کوئی کمانے والا نہیں۔
[حاکم:7345، طبرانی:6592 ﴿ابن ماجہ:3667، طبرانی:6591﴾ ]
﴿قرآنی شاھدی:سورۃ التوبۃ:71﴾




القرآن:
لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ (اللہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں ؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین، قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہونا چاہیے، اور تم بھلائی کا جو کام بھی کرو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 215]






پانی پلانے کی فضیلت:

‏‏‏‏‏‏أَنَّ سَعْدًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْجَبُ إِلَيْكَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْمَاءُ.
ترجمہ:
سعد بن عبادہ انصاری خزرجی ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر عرض کیا: کون سا صدقہ آپ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پانی (پلانے کا صدقہ)۔

[سنن ابوداؤد:1679، سنن النسائی:3694، سنن ابن ماجہ:3684، المستدرک-الحاکم:1511-1512، السنن الکبریٰ للبیھقی:7804]
وضاحت:
پانی کا صدقہ: مثلاً کنواں کھدوانا، نل لگوانا، مسافروں، مصلیوں اور دیگر ضرورت مندوں کے لئے پانی کی سبیل لگانا۔




القرآن:
(اے پیغمبر) ان لوگوں کے اعمال میں سے صدقہ وصول کرلو جس کے ذریعے تم انہیں پاک کردو گے اور ان کے لیے باعث برکت بنو گے، اور ان کے لیے دعا کرو۔ یقینا تمہاری دعا ان کے لیے سراپا تسکین ہے، اور اللہ ہر بات سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 103]


عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الصَّوْمِ أَفْضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏  شَعْبَانُ لِتَعْظِيمِ رَمَضَانَ ، ‏‏‏‏‏‏قِيلَ:‏‏‏‏ فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏  صَدَقَةٌ فِي رَمَضَانَ .
ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ  نبی اکرم  ﷺ  سے پوچھا گیا: رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہے؟ آپ نے فرمایا:  شعبان کے روزے جو رمضان کی تعظیم کے لیے ہوں ، پوچھا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ فرمایا:  رمضان میں صدقہ کرنا۔
 [سنن الترمذي:663]


عن كعب، قال: «الصدقة تضاعف يوم الجمعة»
ترجمہ :
حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جمعہ کے دن صدقہ (کا اجر و ثواب ) کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ:5513، حلية الأولياء:6/21]

عن ابن عباس قال: فقال كعب: «والصدقة فيه أعظم من سائر الأيام»
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ: حضرت کعب نے کہا: جمعہ کے دن میں صدقہ کرنا دیگر تمام ایام کی بنسبت زیادہ عظمت رکھتا ہے۔"
[مصنف عبد الرزاق:5558]

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «تُضَاعَفُ الْحَسَنَاتُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ»
ترجمہ:
حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: دگنا اجر ملتا ہے نیکیوں کا جمعہ کے دن۔
[معجم الاوسط للطبرانی:7895]






اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے یا کسی معمولی سے صدقہ کے ذریعے ہو۔

عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ كَان رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَنَا بِالصَّدَقَةِ انْطَلَقَ أَحَدُنَا إِلَى السُّوقِ فَتَحَامَلَ فَيُصِيبُ الْمُدَّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ لِبَعْضِهِمُ الْيَوْمَ لَمِائَةَ أَلْفٍ.
ترجمہ:
حضرت ابومسعود انصاری ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے بازار جا کر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور اس طرح ایک مد (غلہ یا کھجور وغیرہ) حاصل کرتے۔ (جسے صدقہ کردیتے) لیکن آج ہم میں سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ (درہم یا دینار) موجود ہیں۔
[صحیح بخاری؛1416، الطبراني:533-53]






عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَمَّا نَزَلَتْ آيَةُ الصَّدَقَةِ كُنَّا نُحَامِلُ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ رَجُلٌ فَتَصَدَّقَ بِشَيْءٍ كَثِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ مُرَائِي، ‏‏‏‏‏‏وَجَاءَ رَجُلٌ فَتَصَدَّقَ بِصَاعٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ صَاعِ هَذَا،‏‏‏‏ فَنَزَلَتِ:‏‏‏‏ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ ﴿سورة التوبة آية 79﴾.
ترجمہ:
حضرت ابومسعود انصاری ؓ نے فرمایا کہ جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو ہم بوجھ ڈھونے کا کام کیا کرتے تھے (تاکہ اس طرح جو مزدوری ملے اسے صدقہ کردیا جائے) اسی زمانہ میں ایک شخص (عبدالرحمٰن بن عوف) آیا اور اس نے صدقہ کے طور پر کافی چیزیں پیش کیں۔ اس پر لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہ آدمی ریاکار ہے۔ پھر ایک اور شخص (ابوعقیل نامی) آیا اور اس نے صرف ایک صاع کا صدقہ کیا۔ اس کے بارے میں لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ اللہ تعالیٰ کو ایک صاع صدقہ کی کیا حاجت ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم وہ لوگ جو ان مومنوں پر عیب لگاتے ہیں جو صدقہ زیادہ دیتے ہیں اور ان پر بھی جو محنت سے کما کر لاتے ہیں۔ (اور کم صدقہ کرتے ہیں) آخر تک۔
[صحیح بخاری:1415]

سخاوت کی فضیلت اور بخل کی مذمت
عَنْ عَائِشَةَ،  أَنَّهَا قَالَتْ: اشْتَدَّ وَجَعُ رَسُولِ اللهِ صَلى الله عَلَيه وسَلم وَعِنْدَهُ سَبْعَةُ دَنَانِيرَ أَوْ تِسْعَةٌ، فقَالَ: "يَا عَائِشَةُ،   مَا فَعَلَتْ تِلْكَ الذَّهَبُ؟ " فَقُلْتُ: هِيَ عِنْدِي، قَالَ: "تَصَدَّقِي بِهَا"، قَالَتْ: فَشُغِلْتُ بِهِ، ثُمَّ قَالَ: "يَا عَائِشَةُ،   مَا فَعَلَتْ تِلْكَ الذَّهَبُ؟ " فَقُلْتُ: هِيَ عِنْدِي، فقَالَ: "ائْتِنِي بِهَا"، قَالَتْ: فَجِئْتُ بِهَا، فَوَضَعَهَا فِي كَفِّهِ، ثُمَّ قَالَ: " مَا ظَنُّ   مُحَمَّدٍ أَنْ لَوْ لَقِيَ اللهَ وَهَذِهِ عِنْدَهُ؟ مَا ظَنُّ  مُحَمَّدٍ أَنْ لَوْ لَقِيَ اللهَ وَهَذِهِ عِنْدَهُ؟۔
ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا، جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو میرے پاس آپ کے چھ یا سات دینار تھے، رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں انہیں تقسیم کر دوں، لیکن نبی ﷺ کی تکلیف نے مجھے مصروف رکھا، آپ نے ان کے متعلق پھر مجھ سے پوچھا:’’ آپ نے ان چھ یا سات دیناروں کا کیا کیا؟‘‘ میں نے عرض کیا، اللہ کی قسم! آپ کی تکلیف نے مجھے مصروف کر دیا، انہوں نے وہ منگائے، پھر انہیں اپنی ہتھیلی میں رکھا، فرمایا:’’ اللہ کا نبی کیا گمان کرے کہ وہ اللہ عزوجل سے ملاقات کرے اور یہ اس کے پاس ہوں۔‘‘
[صحیح ابن حبان:3966+3967+7372]
[مسند احمد:24560-24733، السنن الکبریٰ للبیھقی:13029]

رزق کے معاملے میں اللہ سے بدگمانی»
القرآن:
اور کتنے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے۔ الله انہیں بھی رزق دیتا ہے، اور تمہیں بھی (32) اور وہی ہے جو ہر بات سنتا، ہر چیز جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 29 العنكبوت،آیت نمبر 60]
تفسیر:
(32) ہجرت کرنے میں ایک خوف ہوسکتا تھا کہ یہاں تو ہمارے روزگار کا ایک نظام موجود ہے، کہیں اور جاکر معلوم نہیں کوئی مناسب روزگار ملے یا نہ ملے، اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ دنیا میں کتنے جانور ایسے ہیں جو اپنا رزق ساتھ لئے نہیں پھرتے، بلکہ وہ جہاں کہیں جاتے ہیں الله تعالیٰ وہیں ان کے رزق کا انتظام فرماتا ہے، لہذا جو لوگ الله تعالیٰ کے حکم کی اطاعت میں وطن چھوڑیں گے، کیا الله تعالیٰ ان کے رزق کا انتظام نہیں فرمائے گا ؟ البتہ رزق کی کمی اور زیادتی تمام تر الله تعالیٰ کی مشیت اور حکمت پر موقوف ہے، لہذا وہی فیصلہ فرماتا ہے کہ کس کو کس وقت کتنا رزق دینا ہے۔


فتنوں کا علاج
حضرت حذیفہ ؓ نے بیان کیا کہ میں نے سنا ہے، اللہ کے رسول  ﷺ نے فرمایا تھا کہ:
فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَجَارِهِ تُكَفِّرُهَا الصَّلَاةُ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّيَامُ، ‏‏‏‏‏‏وَالصَّدَقَةُ.
ترجمہ:
انسان کے لیے اس کی اولاد، اس کا مال اور اس کے پڑوسی فتنہ (آزمائش و امتحان) ہیں جس کا کفارہ نماز، روزہ اور صدقہ بن جاتا ہے۔
[صحیح بخاری:1895،  مسند البزار:2844]
وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْكَرِ.
ترجمہ:
اور نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔
[صحیح بخاری:525+3586، صحیح مسلم:144(369)، سنن ابن ماجہ:3955، سنن الترمذی:2258]
القرآن:
اگر تم صدقات ظاہر کر کے دو تب بھی اچھا ہے، اور اگر ان کو چھپا کر فقرا کو دو تو یہ تمہارے حق میں کہیں بہتر ہے، اور اللہ تمہاری برائیوں کا کفارہ کردے گا، اور اللہ تمہارے تمام کاموں سے پوری طرح باخبر ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 271]

القرآن:
اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو تمہاری چھوٹی برائیوں کا ہم خود کفارہ کردیں گے۔  اور تم کو ایک باعزت جگہ داخل کریں گے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء،آیت نمبر 31]

تشریح:
بعض شارحین نے کہا: ممکن ہے کہ نماز میں سے ہر ایک اور اس کے ساتھ جو کچھ ہے وہ تمام مذکور چیزوں کا کفارہ ہو جائے، ہر ایک کا نہیں، اور یہ کہ مروڑنے اور پھیلانے کا کوئی باب ہو، مثال کے طور پر وہ نماز کفارہ ہو جاتی ہے۔ خاندان کے درمیان جھگڑا، اور بچے کے درمیان روزہ، وغیرہ.
فتنہ سے مراد وہ ہے جو کسی شخص کے ساتھ مذکور لوگوں میں سے کسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ یا ان سے غافل ہونا، یا ان کی خاطر کوئی ایسا کام کرنا جو اس کے لیے جائز نہیں، یا جس چیز سے اس پر واجب ہے اسے نظرانداز کرنا۔
ابن ابی جمرہ نے گناہوں کے ارتکاب کو حرام چیزوں میں پڑنے اور فرض کی خلاف ورزی سے منسوب کیا ہے۔ کیونکہ اطاعت اس کو باطل نہیں کرتی۔
جواب: اوّل کی وابستگی، اور یہ کہ حرام اور واجب کے کفارہ سے پرہیز کرنا ایک بڑا معاملہ ہے، اور یہ وہ معاملہ ہے جس میں جھگڑا ہو، لیکن معمولی باتوں میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کفارہ دیتا ہے: "اگر تم ان بڑے گناہوں سے بچو گے جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے، تو ہم تمہارے لیے تمہارے برے اعمال کا کفارہ دیں گے۔"
زین بن المنیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: کسی کے گھر والوں کے خلاف فتنہ ان کی طرف مائل ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے یا ان کے خلاف تفرقہ ڈالنے اور ترجیح دینے میں، حتیٰ کہ اپنے بچوں کو بھی، اور ان کے حقوق میں کوتاہی کی وجہ سے ہوتا ہے، اور وہ رقم کے ساتھ۔ عبادت سے غافل ہو جاتا ہے یا خدا کے حقوق سے محروم ہو جاتا ہے اور اولاد کے ساتھ فتنہ ذہن میں آتا ہے بچوں کی طرف فطری میلان اور اس کی ترجیح ہر ایک پر پڑوسی کے ساتھ تکلیف حسد اور غرور کے ساتھ پڑتی ہے اور حقوق میں بھیڑ ایک سلسلہ ہے جیسا کہ میں نے مثال سے ذکر کیا ہے لیکن نماز مختص ہے اور اس کے ساتھ کفارہ کے ساتھ جو ذکر کیا گیا ہے وہ بندوں کے بغیر میرے کہ دوسرے نیک اعمال کا کفارہ نہیں ہے۔ پھر مذکورہ بالا کفارہ اسی عمل سے ہو سکتا ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے، اور ممکن ہے کہ یہ توازن میں آجائے، اور پہلا زیادہ ظاہر ہو۔
ابن ابی جمرہ کہتے ہیں: مرد کو مرد کے لیے مخصوص کیا گیا تھا کیونکہ وہ اپنے گھر اور خاندان میں زیادہ تر اقتدار میں ہوتا ہے، ورنہ عورتیں مرد کی بہنیں ہوتی ہیں، انھوں نے بتایا کہ کفارہ ان چاروں کے لیے مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس نے ان کے علاوہ ان کی طرف بھی اشارہ کیا، اور تعریف یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو اس کے بندے کو خدا سے غافل کرتی ہے، وہ اس کے لیے فتنہ ہے، اور اسی طرح وہ چیزیں ہیں جو کفارہ دیتی ہیں، اور یہ صرف ان تک محدود نہیں ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے، بلکہ اس کے علاوہ اس سے تنبیہ فرمائی، چنانچہ اس نے عبادت کے اعمال کا ذکر کیا: نماز اور روزہ یام، اور مال کی عبادت سے: صدقہ، اور کلمات کی عبادت سے: نیکی کا حکم دینا۔
[فتح الباری» جلد 10/ص 391]

صدقہ و خیرات کے دس احکام ومسائل
اللہ تعالی کو راضی کرنے کےلیے اپنے مال کواس کی راہ میں خرچ کرنا ”صدقہ“ کہلاتا ہے۔موجودہ صورتحال کے پیش نظر صدقہ سے متعلق چند اہم باتیں ذکر کی جاتی ہیں جنہیں اس نیک عمل کے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
1: نیت کی درستگی:
ہر نیک عمل کے وقت نیت کا درست ہونا ضروری ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اس نیک عمل سے اللہ راضی ہو جائیں۔دنیاوی شہرت اور ریا کاری وغیرہ سے انسان خود کو بچائے ورنہ نیک عمل کے باوجود اللہ کے ہاں عذاب ہوگا۔
حدیث مبارک میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسے لوگوں کا تذکرہ فرمایا ہے کہ جنہوں نے دنیا میں بظاہر نیک اعمال کیے ہوں گے لیکن قیامت کے دن ان کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا وجہ یہ ہو گی کہ انہوں نے وہ کام اللہ کو راضی کرنے کے بجائے دنیاوی شہرت کے لیے کیے ہوں گے ۔
رَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ كُلِّهِ ، فَأُتِيَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا ، قَالَ : فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا؟ قَالَ : مَا تَرَكْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلاَّ أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ ، قَالَ : كَذَبْتَ وَلَكِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ : هُوَ جَوَادٌ ، فَقَدْ قِيلَ ، ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَى وَجْهِهِ ، ثُمَّ أُلْقِيَ فِي النَّارِ.
صحیح مسلم، رقم الحدیث :4958
ترجمہ: ایک وہ شخص کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال میں وسعت اور فراخی عطا فرمائی ہوگی اور مال کی اکثر اقسام اس کو دی ہوں گی ۔اس کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لایا جائے گا اس شخص کو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں دکھلائیں گے جسے وہ پہچان لے گا ۔ اللہ تعالیٰ اس شخص سے پوچھیں گے: تو نے اس کے لیے کیا کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے کوئی ایسی جگہ نہیں چھوڑی کہ جہاں خرچ کرنا آپ کو پسند ہو اور میں نے وہاں آپ کو راضی کرنے کے لیے خرچ نہ کیا ہو ۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ تو جھوٹ بول رہا ہے ۔ ہاں تو نے اس لیے خرچ کیا تاکہ لوگ تجھے سخی کہیں ۔ اور اس کا چرچا ہو چکا دنیا میں لوگوں نے تجھے سخی کہہ لیا۔ اس کے بارے حکم ہو گا کہ اسےمنہ کے بل گھسیٹ کرجہنم میں ڈال دیا جائے ۔
2:حلال مال صدقہ کریں:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡفِقُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبۡتُمۡ وَ مِمَّاۤ اَخۡرَجۡنَا لَکُمۡ مِّنَ الۡاَرۡضِ ۪ وَ لَا تَیَمَّمُوا الۡخَبِیۡثَ مِنۡہُ تُنۡفِقُوۡنَ وَ لَسۡتُمۡ بِاٰخِذِیۡہِ اِلَّاۤ اَنۡ تُغۡمِضُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ
سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:267
ترجمہ: اے ایمان والو!جو کچھ تم نے کمایا ہو اور جو پیداوار ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہو اس کی اچھی چیزوں کا ایک حصہ اللہ کے راستے میں خرچ کیا کرو۔ اور یہ نیت نہ رکھو کہ بس ایسی خراب قسم کی چیزیں اللہ کے نام پر دیا کرو گے جو اگر کوئی دوسرا تمہیں دے تو نفرت کی وجہ سے تم اسے آنکھیں جھکائے بغیر نہ لے سکو ۔ اور یہ بات اچھی طرح یاد رکھو کہ اللہ کی ذات ایسی بے نیاز ہے کہ ہر قسم کی تعریف بالآخر اسی کی طرف ہی لوٹ کر آتی ہے۔
3: عمدہ اور پسندیدہ مال صدقہ کریں:
لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ ۬ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فَاِنَّ اللہَ بِہٖ عَلِیۡمٌ
سورۃ اٰل عمران ، رقم الآیۃ :92
ترجمہ: کبھی بھی تم نیکی کے اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے جب تک تم ان چیزوں میں سے اللہ کے لیے خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہیں اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو اللہ اس کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں ۔
4:پہلے مستحق رشتہ داروں کو صدقہ دیں:
عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الصَّدَقَةَ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ وَعَلَى ذِي الرَّحِمِ اثْنَتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَة۔
السنن للنسائی، رقم الحدیث :2582
ترجمہ: حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسکین کو صدقہ دینے کا ایک ثواب ہے جبکہ مستحق رشتہ دار کو صدقہ دینے کا دوگنا ثواب ہے صدقے کا اور صلہ رحمی کا۔
5:صدقہ سے بیماریوں کو بھگائیں:
عَنْ عَبْدِ اللهِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَاوُوا مَرْضَاكُمْ بِالصَّدَقَةِ۔
السنن الکبریٰ للبیہقی، رقم الحدیث : 6593
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی بیماریوں کا علاج صدقہ کے ذریعے کرو۔
6:مخفی اور ا علانیہ صدقہ:
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةُ السِّرِّ تُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ وَصَدَقَةُ الْعَلَانِيَةِ تَقِي مِيْتَةَ السُّوءِ۔
شعب الایمان للبیہقی ، رقم الحدیث : 7704
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:چپکے سے صدقہ کرنا رب تعالیٰ کے غضب کو دور کرتا ہے اور علانیہ صدقہ کرنا بری موت سے بچاتا ہے۔
7: اعلانیہ بہتر اور مخفی زیادہ بہتر:
اِنۡ تُبۡدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ وَ اِنۡ تُخۡفُوۡہَا وَتُؤۡتُوۡہَا الۡفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ وَیُکَفِّرُعَنۡکُمۡ مِّنۡ سَیِّاٰتِکُمۡ ؕ وَاللہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ
سورۃ البقرۃ ،رقم الآیۃ:271
ترجمہ: صدقات کو اگر تم ظاہر کرکے دو تب بھی اچھی بات ہے اور اگر تم اسے چھپا کر فقراء کو دے دو تو یہ تمہارےلیے زیادہ بہتر ہے۔اور اللہ تعالیٰ تمہارے کچھ گناہ معاف فرمادیں گے اور تمہارے کاموں کی اللہ کو خوب خبر ہے ۔
8:حالات کے پیش نظر اعلانیہ صدقہ:
صدقہ دونوں طرح سے کرنا درست ہے ظاہر کر کے بھی کیا جائے تو اس میں حرج نہیں اور چھپا کر دیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں ظاہر کر کے دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے تاکہ باقی لوگوں میں بھی اس کی ترغیب اور شوق پیدا ہو اور وہ بھی نیکی کے کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اللہ کی رضا کو فراموش کر کے اپنی بڑائی، برتری اور شہرت کی خاطر ایسا کرنا ”ریا“ کہلاتا ہے۔
قرآن کریم نے کھلم کھلا صدقہ کرنے کی مذمت نہیں بلکہ تعریف فرمائی ہے اس لیے خشک طبیعت دینی اسرار و رموز سے ناواقف لوگوں کے اس دھوکے کا شکار ہرگز نہ ہوں کہ کھلم کھلا صدقہ کرنے سے ثواب نہیں ملتا،یہ سراسر دھوکہ ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص علی الاعلان صدقہ کرتا ہے اور اس کی جائز مقاصد کے پیش نظر مناسب تشہیر بھی کرتا ہے تاکہ اور لوگوں میں بھی شوق پیدا ہو یا مال دینے والوں کو یقین ہو جائے کہ ان کا دیا ہوا مال مستحق لوگوں تک پہنچ رہا ہے تو یہ عمل ہرگز شریعت کے خلاف نہیں ۔
9: صدقہ ضائع نہ کریں:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی
سورۃ البقرۃ، رقم الآیۃ:264
ترجمہ: اے ایمان والو!اپنے صدقات کو احسان جتلا کر اور )جس کو صدقہ دیا ہے اسے(تکلیف پہنچا کر ضائع نہ کرو۔
تنبیہ: موجودہ حالات میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے مخیر لوگ دل کھول کر صدقہ دے رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کے اس نیک عمل کو اپنی بارگاہ میںِ قبول فرمائے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کسی کو صدقہ دیتے وقت اس کی عزت نفس مجروح نہیں ہونی چاہیے۔ ہمارے ہاں یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ لوگ کسی کو معمولی چیز دیتے وقت بھی اس کی تصویر بنواتے ہیں اور اسے سوشل میڈیا پر پھیلاتے ہیں بعض مرتبہ معمولی سا راشن پیکج دیتے وقت کئی کئی لوگ اس کی تصویر بنوانے میں مصروف ہوتے ہیں ۔یہ گھٹیا حرکت ہے اسی وجہ سے مستحق لوگ بھی صدقہ لینےنہیں آتے۔
10: صدقہ میں دینی مدارس کو نہ بھولیں:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ۔
شعب الایمان للبیہقی،رقم الحدیث :8938
ترجمہ: حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے مخاطب !تیرا کھانا صرف دین دار متقی لوگ ہی کھائیں۔
عام خیال یہ ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے آنے والے معاشی بحران سے غریب ،مسکین خصوصاً دیہاڑی دار طبقہ بہت متاثر ہوا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں واقعتاً ایسا ہی ہے لیکن یہ بات بھی یاد رہے کہ ان حالات کا اثر دینی مدارس پر بھی بہت بری طرح پڑا ہے۔
دینی مدارس میں طلباء کی تمام بنیادی ضروریات پوری کی جاتی ہیں جن میں کھانا ، رہائش ، لباس ، کتب اور علاج معالجہ اور وظائف وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ اساتذہ و عملہ کی ماہانہ تنخواہیں ، راشن اور یوٹیلیٹی بلز اور تعمیرات وغیرہ جیسے اخراجات بھی مدارس والے عشر، زکوٰۃ ، صدقات اور عطیات سے پورے کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی راہ میں دل سے اور دل کھول کر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام

زکوٰۃ اور تزکیہ کیا ہے؟

«الزکاۃ» کے اصل معنیٰ اس نمو (افزونی) کے ہیں جو برکتِ الہیہ سے حاصل ہو، اس کا تعلق دنیاوی چیزوں سے بھی ہے اور اخروی امور کے ساتھ بھی۔ چناچہ (عربی میں) کہا جاتا ہے ﴿زکا الزرع یزکو﴾ کھیتی کا بڑھنا اور پھلنا پھولنا۔
قرآن پاک میں فرمایا:
أَيُّها أَزْكى طَعاماً
کس کا کھانا زیادہ صاف ستھرا ہے۔
[سورۃ الكهف:19]
اس میں ﴿أَزْكى﴾ سے ایسا کھانا مراد ہے جو حلال اور خوش انجام ہو، اور اسی سے زکوٰۃ کا لفظ مشتق ہے، یعنی *وہ حصہ جو مال سے حقِ الہیٰ کے طور پر نکال کر فقراء کو دیا جاتا ہے۔* اور اسے زکوٰۃ یا تو اسلئے کہا جاتا ہے کہ اس میں برکت کی امید ہوتی ہے اور یا اس لئے کہ اس سے نفس پاکیزہ ہوتا ہے۔ یعنی خیرات و برکات کے ذریعہ اس میں "نمو" ہوتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے تسمیہ میں ان ہر دو کا لحاظ کیا گیا ہو۔ کیونکہ یہ دونوں خوبیاں زکوۃ میں موجود ہیں قرآن میں اللہ تعالیٰ نے نماز کے ساتھ ساتھ زکوۃٰ کا بھی حکم دیا ہے چناچہ فرمایا:
وَأَقِيمُوا الصَّلاةَ وَآتُوا الزَّكاةَ
نماز قائم کرو اور زکوۃ ٰ ادا کرتے رہو۔
[سورۃ البقرة:43]
[المفردات في غريب القرآن: ص230-231]

⬅️ اور تزکیۂ نفس سے ہی انسان دنیا میں اوصافِ حمیدہ کا مستحق ہوتا ہے اور آخرت میں اجر وثواب بھی اسی کی بدولت حاصل ہوگا۔ اور تزکیۂ نفس کا طریق یہ ہے کہ انسان ان باتوں کی کوشش میں لگ جائے جن سے طہارتِ نفس حاصل ہوتی ہے، اور فعلِ تزکیہ کی نسبت تو انسان کی طرف کی جاتی ہے،کیونکہ وہ اس کا اکتساب کرتا ہے۔ جیسے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها
یقیناً وہ مراد کو پہنچا جس نے اپنی روح کو پاک کیا۔
[سورۃ الشمس:9]
اور کبھی یہ اللہ تعالےٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے، کیونکہ فی الحقیقت وہی اس کا فاعل ہے۔ چناچہ فرمایا:
بَلِ اللَّهُ يُزَكِّي مَنْ يَشاءُ
بلکہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کردیتا ہے۔
[سورۃ النساء:49]
اور کبھی اس کی نسبت نبی کی طرف ہوتی ہے، کیونکہ وہ لوگوں کو ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جن سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے۔ چناچہ قرآن میں ہے:
تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِها
کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو۔
[سورۃ التوبة:103]
يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ
وہ پیغمبر انہیں ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے، اور انہیں بذریعہ تعلیم (اخلاق رذیلہ) سے پاک کرتا ہے۔
[سورۃ البقرة:151]
اور کبھی اس کی نسبت "عبادت" کی طرف ہوتی ہے، کیونکہ عبادت "تزکیہ" کے حاصل کرنے میں بمنزلہ "آلہ" کے ہے۔ چناچہ یحیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا:
وَحَناناً مِنْ لَدُنَّا وَزَكاةً
اور اپنی جناب سے رحمدلی اور پاگیزگی دی تھی۔
[سورۃ مریم:13]
لِأَهَبَ لَكِ غُلاماً زَكِيًّا
تاکہ تجھے ایک پاکیزہ لڑکا بخشوں
[سورۃ مریم:19]
یعنی وہ فطرتاً پاکیزہ ہوگا اور فطرتی پاکیزگی جیسا کہ بیان کرچکے ہیں، وہ بطریقِ اجتباء(چننے کے طریقے سے) حاصل ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بعض بندوں کو عالم اور پاکیزہ اخلاق بنادیتا ہے اور یہ پاکیزگی تعلیم وممارست سے نہیں، بلکہ محض توفیقِ الہی سے حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ اکثر انبیاء اور رسل کے ساتھ ہوا ہے۔ اور آیت کے یہ معنیٰ ہوسکتے ہیں کہ وہ لڑکا آئندہ چل کر پاکیزہ اخلاق ہوگا لہذا "زکیا" کا تعلق زمانہ حال کے ساتھ نہیں بلکہ استقبال کے ساتھ ہے۔ قرآن میں ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكاةِ فاعِلُونَ
اور وہ جو زکوۃ دیا کرتے ہیں۔
[سورۃ المؤمنون:4]
یعنی وہ عبادت اس غرض سے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں "پاک" کر دے یا وہ اپنے نفوس کو پاک کرنے کی غرض سے عبادت کرتے ہیں۔ والمال واحد۔ لہذا ﴿للزکوۃ﴾ میں لام تعلیل کے لیے ہے، جسے لام علت و قصد کہتے ہیں اور لام تعدیہ نہیں ہے حتیٰ کہ یہ فاعلون کا مفعول ہو۔
⬅️ انسان کے تزکیۂ نفس کی دو صورتیں ہیں:
(1)ایک تزکیہ بالفعل یعنی اچھے اعمال کے ذریعہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا، یہ طریق محمود ہے۔ چناچہ آیت کریمہ:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاها
[سورۃ الشمس:9]
اور آیت:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى
[سورۃ الأعلی:14]
ان میں تزکیہ سے یہی مراد ہیں۔
(2)دوسرے تزکیہ بالقول ہے جیسا کہ ایک ثقہ( قابلِ اعتبار) شخص دوسرے کے اچھے ہونے کی شہادت دیتا ہے۔ اگر انسان خود اپنے اچھا ہونے کا دعوے ٰ کرے اور خود ستائی سے کام لے تو یہ مذموم ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے تزکیہ سے منع فرمایا ہے۔ چناچہ ارشاد ہے:
فَلا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ
تو پاک نہ ٹھہراؤ اپنے آپ کو 
[سورۃ النجم:32]
اور یہ نہی(روکنا) تادیبی ہے، کیونکہ انسان کا اپنے منہ آپ میاں مٹھو بننا نہ تو عقلاً ہی درست ہے اور نہ ہی شرعاً۔ یہی وجہ ہے کہ جب ایک دانش مند سے پوچھا گیا کہ وہ کونسی بات ہے جو باوجود حق ہونے کے زیب نہیں دیتی تو اس نے جواب دیا ﴿مدح الانسان نفسہ﴾ کہ انسان کا اپنے کی خود مدح کرنا۔
[المفردات في غريب القرآن: ص231]

ہر چیز کی ایک زکاۃ(یعنی پاکیزگی/نمو) ہے، اور بدن کی زکاۃ روزہ ہے۔۔۔۔ روزہ آدھا صبر ہے۔
حوالہ
لِكُلِّ شَيْءٍ زَكَاةٌ، ‏‏‏‏‏‏وَزَكَاةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ۔۔۔۔الصِّيَامُ نِصْفُ الصَّبْرِ۔
[سنن ابن ماجة:1745، عبد بن حمید:447 ﴿طبراني:5973، شعب الایمان-للبیھقي:3578﴾]


القرآن:

کہہ دو کہ : میرا پروردگار اپنے بندوں میں سے جس کے لیے چاہتا ہے رزق کی فراوانی کردیتا ہے، اور (جس کے لیے چاہتا ہے) تنگی کردیتا ہے۔ اور تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو وہ اس کی جگہ اور چیز دے دیتا ہے، اور وہی سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔

[سورۃ سبإ:39 تفسیر الدر المنثور]






رب کی ہدایت پر قائم رہنے والوں کی "تیسری" بنیادی نشانی»

(3)خرچ کرنے والے۔

القرآن:

۔۔۔الله نے انہیں جو کچھ (علم، قوت، مال، طعام) دیا ہے اس ﴿خیر/مال﴾ میں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔

[حوالہ سورۃ البقرۃ:3-5، الانفال:3، لقمان:4-5]

۔۔۔کوئی گناہ نہیں ان پر جن کے پاس خرچ کرنے کو (ضرورت سے زائد)کچھ نہیں۔۔۔

[التوبہ:91]

۔۔۔اور انکی آنکھیں آنسو بہاتی ہیں کہ ان کے پاس خرچ کرنے کو کچھ نہیں۔

[التوبہ:92]




کیوں خرچ کرتے ہیں؟

الله کی "محبت" میں مال خرچ کرتے ہیں۔

[البقرۃ:177، الدھر/الانسان:8]

رضائے الٰہی کی تلاش/چاہت میں

[البقرۃ:265، 272]




کن لوگوں پر خرچ کرتے ہیں؟

(1)رشتہ داروں (یعنی والدین، قریبی-بھائی بہنوں) پر بھی،

[البقرۃ:215]

(2)اور یتیموں پر بھی،

(3)اور ﴿محتاجی کے باوجود حیاء کے سبب لپٹ چمٹ کر نہ مانگتے اپنے گھروں ہی میں رہنے والے﴾مسکینوں پر بھی،

(4)اور قریبی پڑوسیوں، اور دور والے پڑوسیوں، ساتھ بیٹھے/کھڑے شخص پر بھی

[النساء:36]

(5)اور راہ گیر مسافروں پر بھی،

(6)اور فقیر-سائلوں پر بھی،

(7)اور صدقات کی وصولی پر مقرر اہلکاروں پر بھی،

(8)اور دلداری کیلئے محتاج نومسلموں پر بھی،

(9)اور غلاموں کو آزاد کرانے میں بھی،

(10)اور جو قرضدار قرض ادا نہ کرسکے اسکے قرض ادا کرنے میں بھی،

(11)اور الله کے رستے میں(مجاہدین ومہاجرین پر) بھی۔

[التوبہ:60، النور:22]

(12)اور قیدیوں کو کھلانے میں۔

[الدھر/الانسان:8]




کیسی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں؟

اپنی "پاکیزہ-حلال کمائی" میں سے

[البقرۃ:267]

اپنی "پسندیدہ" چیزوں میں سے

[آل عمران:92]

جو(روزمرہ استعمال سے) "زائد" ہو

[البقرۃ:219]



کب، کیسے اور کتنا خرچ کرتے رہتے ہیں؟

خرچ کرتے ہیں۔۔۔

رات میں بھی، اور دن میں بھی، اعلانیہ بھی، اور پوشیدہ بھی

[البقرۃ:274]

خوشحالی میں بھی، اور تنگی میں بھی

[آل عمران:134]

(خرچ)چھوٹا ہو یا بڑا

[التوبہ:121]

اگرچہ ایک کھجور کا "ٹکڑا" ہی ہو۔

[ترمذی:2352]

نہ فضول(غیرضروری)خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی کنجوسی کرتے ہیں

[الفرقان:67]

وہ دن(قیامت) آنے سے پہلے(تک) جس دن نہ کوئی سودا ہوگا، اور نہ کوئی دوستی (کام آئے گی)

[ابراھیم:31]

اور نہ کوئی سفارش ہوسکے گی

[البقرۃ:254]







خرچ کرنے کے فضائل و فوائد:

۔۔۔اور جو بھی "شیء" (یعنی علم، قوت، مال، طعام) تم خرچ کروگے تو وہ اس کے بدلے اور(بہتر۔زیادہ)چیز دے دیتا ہے۔۔۔

[سبا:39]

یہی لوگ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جو کبھی نقصان نہیں اٹھائے گی۔

[فاطر:29]

ان کیلئے بہت ہی بڑا اجر ہے۔

[الحدید:7]

یہ(خرچ کرنا)تم سب کیلئے خیر ہے۔

[التغابن:16]




جو خرچ نہیں کرتے سوائے ناپسندیدگی سے، اور نماز نہیں پڑھتے مگر سستی سے، یہ اس لئے کہ ان(منافقین) نے(دل میں)اللہ اور اسکے رسول سے کفر کیا۔

[التوبہ:54]

لہٰذا

الله پاک نے فرمایا:

اور ہم نے تمہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے (اللہ کے حکم کے مطابق) خرچ کرلو، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو وہ یہ کہے کہ : اے میرے پروردگار ! تو نے مجھے تھوڑی دیر کے لیے اور مہلت کیوں نہ دے دی کہ میں خوب صدقہ کرتا، اور نیک لوگوں میں شامل ہوجاتا۔

[المنافقون:10]

***************

القرآن:

۔۔۔اور خرچ کرنے والے۔۔۔
[سورۃ آل عمران:17»تفسیر الثعلبی:738]
۔۔۔اور تم جو چیز بھی خرچ کرتے ہو وہ اس کی جگہ اور چیز دے دیتا ہے۔۔۔۔
[سورۃ سبا:39»تفسیر البغوی:6/403]
اور نہ تو (ایسے کنجوس بنو کہ) اپنے ہاتھ کو گردن سے باندھ کر رکھو، اور نہ (ایسے فضول خرچ کہ) ہاتھ کو بالکل ہی کھلا چھوڑ دو، جس کے نتیجے میں تمہیں قابل ملامت اور قلاش ہو کر بیٹھنا پڑے۔
[سورۃ الإسراء:29»تفیسر ابن کثیر:5/70]
اب جس کسی نے (اللہ کے راستے میں مال) دیا، اور تقوی اختیار کیا۔ اور سب سے اچھی بات(اسلام) کو دل سے مانا۔ تو ہم اس کو آرام(جنت) کی منزل تک پہنچنے کی تیاری کرا دیں گے۔ رہا وہ شخص جس نے بخل(کنجوسی) سے کام لیا، اور (اللہ سے) بےنیازی اختیار کی۔ اور سب سے اچھی بات(اسلام) کو جھٹلایا۔ تو ہم اس کو تکلیف(جہنم) کی منزل تک پہنچنے کی تیاری کرا دیں گے۔
[سورۃ الليل:5-10»تفسير ابن ابي حاتم:19365]













صدقہ سے مراد وہ مال ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے غریب لوگوں کو دیا جائے.

[لسان العرب،  لابن منظور،10: 196]

امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں:

صدقہ وہ مال ہے جس کا ادا کرنا واجب نہ ہو بلکہ خیرات دینے والا اس سے قربِ الٰہی کا قصد کرے.

[مفردات ألفاظ القرآن، راغب اصفهانی، ص: 480]

گویا صدقہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے بعد وہ زائد مال و دولت ہے جسے مستحقین کے درمیان اس طرح خرچ کیا جائے کہ ان کا معاشی تعطل ختم ہو، ان کی تخلیقی جد وجہد بحال ہو اور وہ معاشرے کی ترقی میں مطلوبہ کردار بحسنِ خوبی سرانجام دے سکیں۔


قیامت آنے سے پہلے خرچ کرنا:

اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنفِقُوا مِمَّا رَزَقْنَاكُم مِّن قَبْلِ أَن يَأْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةٌ  وَالْكَافِرُونَ هُمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ:

اے ايمان والوں! جو كچھ ہم نے تمہيں ديا ہے اس ميں سے وہ دن آنے سے قبل اللہ كے راستے ميں خرچ كر لو جس دن نہ كوئى تجارت ہو گى اور نہ ہى دوستى كام آئے گى اور نہ سفارش اور كافر ہى ظالم ہيں۔

[سورۃ البقرۃ:254]


مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق

مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :

وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ

ترجمہ:

اور ان کے اموال میں مانگنے والوں اور نہ مانگنے والوں (دونوں) کا حق ہے۔

[سورۃ الذاریات:19]

محروم سے مراد، وہ ضرورت مند ہے جو سوال سے اجتناب کرتا ہے۔ چنانچہ مستحق ہونے کے باوجود لوگ اسے نہیں دیتے یا وہ شخص ہے جس کا سب کچھ آفت ارضی و سماوی میں تباہ ہو جائے۔


انسانیت کی خدمت اخلاقی فریضہ

ہم انسانوں کو جو بھی عنایات اور بھلائیاں ملتی ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم  ہے لہذا یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس عطا کردہ رزق سے غریبوں، مسکینوں، لاچار و مجبور، ضرورت مندوں ، یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کریں۔ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں متعدد مقامات پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامینِ مبارکہ میں صدقہ و خیرات کی فضیلت و اہمیت واضح الفاظ میں بیان کی ہیں۔ ذيل ميں چند ايک شرعى نصوص ذكر كى جاتى ہيں تاکہ  صدقہ و خيرات كى اہمیت ، فضیلت اور اسکی ترغيب  واضح ہو سکے۔


1۔ صدقہ ایمان کی دلیل

صدقہ ایمان کی دلیل ہے کیونکہ اللہ کے لیے صدقہ وہی کرتا ہے جس کا اللہ پر ایمان ہوتا ہے۔ حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

والصَّلاةُ نُورٌ، والصَّدَقَةُ بُرْهانٌ، والصَّبْرُ ضِياءٌ،

ترجمہ:

نماز نور ہے۔ صدقہ و خیرات انسان کے مسلم و مومن ہونے کی دلیل ہے اور صبر روشنی ہے۔

[صحيح مسلم:223]


2۔ صدقہ کرنے والے کے لیے فرشتوں کی دعا

صدقہ کرنے والے کے لیے فرشتے مال میں برکت کی دعا کرتے ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:

ما مِن يَومٍ يُصْبِحُ العِبادُ فِيهِ، إلَّا مَلَكانِ يَنْزِلانِ، فيَقولُ أحَدُهُما: اللَّهُمَّ أعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، ويقولُ الآخَرُ: اللَّهُمَّ أعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا

ترجمہ:

ہر دن جس میں بندے صبح کرتے ہیں ، دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ، ان میں سے ایک فرشتہ [دعا دیتے ہوئے] کہتا ہے اے اللہ ! خرچ کرنے والے کو اس کا [بہترین ] بدلہ عطا فرما اور دوسرا فرشتہ [بد دعا دیتے ہوئے کہتا ہے] اے اللہ ! روک کر رکھنے والے [کے مال]کو ضائع کردے ۔

[صحیح البخاري:1442، مسلم :1010]

کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو فرشتے کی اس دعا کے مستحق ٹھہرتے ہیں جو ہر صبح اپنی ڈیوٹی پر جانے سے قبل اپنے اہل وعیال کو جائز خرچ کے لیے حسبِ حاجت رقم دیتے ہیں ، اپنے پڑوس میں موجود کسی غریب ، بیوہ ، یتیم اور فقیر و مسکین کی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔ ہر دن کسی مہمان کی آمد کا انتظار کرتے ہیں ، اپنے گھر میں کوئی ایسا نظام رکھتے ہیں کہ ہر روز صبح کو کم یا زیادہ کوئی متعین مبلغ بطورِ صدقہ کے نکال کر رکھ دیتے ہیں جو وقتِ ضرورت صاحبِ حاجت کو دی جا سکے وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہم نے اپنی ایسی عادت بنالی ہے تو ہمیں خوشخبری ہے کہ ہم فرشتے کی اس دعائے خیر کے مستحق ٹھہر رہے ہیں اور کس قدر بد نصیب ہیں وہ لوگ کہ مال کی محبت ان کی رگوں میں رچی بسی ہے ، نہ زکاۃ دیتے ہیں ، نہ ہی اہل و عیال کے واجبی خرچ کا اہتمام کرتے ہیں ، نہ ہی غریبوں ، مسکینوں کے لیے ان کے مال میں کوئی حصہ ہے تو یاد رہے کہ اس حدیث میں وارد بد دعا کا ایک بڑا حصہ ہمارے ساتھ ہے۔


3۔  غضب ِ الہی کا خاتمہ ۔

صدقہ  و خیرات غضبِ الہی یعنی رب کے غصے کو ختم کرتے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

صِلَةُ الرَّحِمِ تَزيدُ في العُمْرِ ، و صَدَقةُ السِّرِّ تُطفِئُ غضبَ الرَّبِّ

ترجمہ:

صلہ رحمی عمر دراز کرتی ہے اور پوشیدہ صدقہ رب تعالیٰ کا غصہ بجھاتا ہے۔

[صحيح الجامع: 3766، السلسلة  الصحیحة: 1908]


4۔  تمام بیماریوں کے لیے علاج اور شفاء

صدقہ تمام بیماریوں کے لیے علاج اور شفاء ہے۔ حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

دَاوُوا مَرضاكُمْ بِالصَّدقةِ

ترجمہ:

صدقے کے ذریعے اپنے مریضوں کا علاج کرو۔

[صحيح الجامع:3358]


5۔عزت اور وقار کی حفاظت

صدقہ و خیرات انسان کی عزت اور وقار کی حفاظت کرتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ذُبُّوا عن أعْراضِكمْ بِأموالِكمْ

ترجمہ:

اپنے مالوں سے اپنی عزتوں کا دفاع کر لیا کرو۔

[صحیح الجامع:3426، السلسلة الصحیحة:2795]


6۔ جہنم کی آگ سے حفاظت

صدقہ جہنم کی آگ سے محفوظ رکھنے والا عمل ہے۔ حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَا مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا سَيُكَلِّمُهُ رَبُّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ تُرْجُمَانٌ فَيَنْظُرُ أَيْمَنَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ مِنْ عَمَلِهِ وَيَنْظُرُ أَشْأَمَ مِنْهُ فَلَا يَرَى إِلَّا مَا قَدَّمَ وَيَنْظُرُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ فَاتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ 

ترجمہ:

تم میں سے ہر شخص سے تمہارا رب اس طرح بات کرے گا کہ تمہارے اور اسکے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا وہ اپنے دائیں طرف دیکھے گا اور اسے اپنے اعمال کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا اور وہ اپنے بائیں طرف دیکھے گا اور اسے اپنے اعمال کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا پھر اپنے سامنے دیکھے گا تو اپنے سامنے جہنم کے سوا اور کوئی چیز نہ دیکھے گا۔ پس جہنم سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعے ہو سکے۔

[بخاري :7443، مسلم :1016]

معلوم ہوا کہ صدقہ بھی اللہ کے عذاب سے محفوظ رکھنے والا نیک عمل ہے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرے۔


7۔ جہنم کے لیے پردہ

صدقہ جہنم کے لیے پردہ ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ  رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خصوصی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

يا عائشةُ استتِري من النَّارِ ولو بشِقِّ تمرةٍ فإنها تسدُّ من الجائعِ مَسدَّها من الشَّبعانِ

ترجمہ:

اے عائشہ! جہنم کی آگ سے کوئی رکاوٹ تیار کرلو خواہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو کیونکہ کھجور بھی بھوکے آدمی کو سہارا دے دیتی ہے جو سیراب آدمی کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ یعنی اے عائشہ! دوزخ سے پردہ کرو چاہے وہ کھجور کی ایک پھانک ہی کے ساتھ کیوں نہ ہو۔

[السلسلة الصحيحة:2/564]


علامہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وَفِي الْحَدِيثِ الْحَثُّ عَلَى الصَّدَقَةِ بِمَا قَلَّ وَمَا جَلَّ، وَأَنْ لَا يَحْتَقِرَ مَا يَتَصَدَّقُ بِهِ، وَأَنَّ الْيَسِيرَ مِنَ الصَّدَقَةِ يَسْتُرُ الْمُتَصَدِّقَ مِنَ النَّارِ.

ترجمہ:

حدیث میں ترغیب ہے کہ تھوڑا ہو یا زیادہ صدقہ بہر حال کرنا چاہیے اور تھوڑے صدقے کو حقیر نہیں جاننا چاہیے کہ تھوڑے سے تھوڑا صدقہ متصدق کے لیے دوزخ سے حجاب بن سکتا ہے۔

[فتح الباري:1419]


8۔ روزِ قیامت سایہ

صدقہ روزِ قیامت  صدقہ کرنے والے کے لیے سایہ بن جائے گا۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:

كلُّ امرئٍ في ظِلِّ صَدَقَتِه حتى يُقْضَى بين الناسِ

ترجمہ:

’’ہر آدمی اپنے صدقے کے سائے میں کھڑا ہوگا یہاں تک کہ لوگوں کا فیصلہ ہوجائے۔

[صحيح الترغيب: 872]

یعنی صدقہ کرنے والا قیامت کے روز اپنے صدقے کے سائے میں کھڑا ہوگا۔ اس روز گرمی اور تمازت انتہائی درجے کی ہوگی۔ سائے کا نصیب ہونا اس روز بڑی غیر معمولی نعمت ہوگی۔


9۔ رزق اور مال میں برکت کا ذریعہ

صدقہ رزق اور مال میں برکت کا ذریعہ ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ما نَقَصَتْ صَدَقةٌ مِن مالٍ

ترجمہ:

صدقہ مال میں کچھ بھی کمی نہیں کرتا۔ بندے کے معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ ہی بلند فرماتا ہے۔

[صحيح مسلم:2588]


10۔ مال و دولت میں اضافہ

صدقہ مال کو بڑھاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

مَن تَصَدَّقَ بعَدْلِ تَمْرَةٍ مِن كَسْبٍ طَيِّبٍ، ولَا يَقْبَلُ اللَّهُ إلَّا الطَّيِّبَ، وإنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بيَمِينِهِ، ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ، كما يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ، حتَّى تَكُونَ مِثْلَ الجَبَلِ

ترجمہ:

جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے تاآنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔

[صحيح البخاري:1410]

یعنی جب صدقہ نکالا جائے تو اس سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے، اس میں برکت ہوتی ہے، مصیبتیں دور ہوتی ہیں۔ مال کی زیادتی یا تو عدد کے لحاظ سے ہوگی بایں طور کہ اللہ تعالیٰ بندے کے لیے رزق کے دروازے کھولے گا یا کیفیت کے اعتبار سے زیادتی ہوگی بایں طور کہ اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دے گا اور وہ برکت صدقہ کیے گئے مال سے زیادہ ہوگی۔


11۔ دل کی سختی کا علاج

صدقہ دل کی سختی کو ختم کر دیتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنگ دلی کی شکایت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:

إن أردت تليين قلبك، فأطعم المسكين وامسح رأس اليتيم

 ترجمہ:

”‏‏‏‏اگر تو دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلایا کر اور یتیم پر دستِ شفقت رکھا کر۔“

[السلسلة الصحیحة:2735]


12۔    قبر کی گرمی اور حرارت سے نجات

صدقہ  قبر کی گرمی اور حرارت سے نجات دیتا ہے۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إنَّ الصدقةَ لتُطفئُ عن أهلِها حرَّ القبورِ ، وإنما يستظلُّ المؤمنُ يومَ القيامةِ في ظِلِّ صدقتِه

ترجمہ:

بے شک صدقہ صاحبِ صدقہ کو قبر کی گرمی سے بچائے گا اور مومن ہی ہے جو روزِ قیامت اپنے صدقے کے سائے میں ہو گا۔“

[السلسلة الصحیحة:3484]


13۔ موت کے بعد بھی فائدہ:

صدقہ موت کے بعد بھی فائدہ دیتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ

ترجمہ:

”جب انسان مر جاتا ہے تو اسکے عمل کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے سوائے تین اعمال کے (جن سے اسے مرنے کے بعد بھی فائدہ پہنچتا ہے): ایک صدقہ جاریہ ہے، دوسرا ایسا علم ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرا نیک و صالح اولاد ہے  جو اسکے لیے دعا کرتی رہے“۔

[صحیح مسلم:1631]


صدقہِ جاریہ کی صورتیں:

 یعنی ایسا صدقہ جس کو عوام کی بھلائی کے لیے وقف کر دیا جائے۔ مثلاً : سرائے کی تعمیر، کنواں کھدوانا، نل لگوانا، مساجد و مدارس اور یتیم خانوں کی تعمیر کروانا، اسپتال کی تعمیر، پل اور سڑک وغیرہ بنوانا، ان میں سے جو کام بھی وہ اپنی زندگی میں کر جائے یا اسکے کرنے کا ارادہ رکھتا ہو ۔ اسی طرح کوئی اچھی کتاب لکھ جائے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں یا ایسے شاگرد تیار کر جائے جو کتاب و سنت کی روشنی میں علم کی اشاعت کریں اور اسے دوسروں تک پہنچائیں۔ یہ سب صدقہِ جاریہ میں شمار ہوں گے اور جب تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اسے ثواب ملتا رہے گا۔


14. عمر میں اضافہ:

صدقہ عمر میں اضافہ کرتا ہے۔  کثیر بن عبد اللہ المزنی اپنے والد گرامی کے واسطے سے اپنے جدِ امجد (حضرت عمرو بن عوف) سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ صَدَقَةَ الْمُسْلِمِ تَزِیْدُ فِي الْعُمْرِ، وَتَمْنَعُ مِیْتَةَ السُّوءِ، وَیُذْهِبُ اللهُ بِهَا الْکِبْرَ وَالْفَخْرَ

ترجمہ:

مسلمان کا صدقہ عمر میں اضافہ کرتا ہے، بری موت کو روکتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے تکبر و فخر کو ختم کر دیتا ہے۔

[طبرانی، المعجم الکبیر، 17: 22، رقم:31]


15۔ جنت میں خصوصی دروازہ

صدقہ کرنے والوں کے لیے جنت میں خصوصی دروازہ ہوگا۔  ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن أنْفَقَ زَوْجَيْنِ في سَبيلِ اللہِ نُودِيَ مِن أبْوَابِ الجَنَّةِ: يا عَبْدَ اللَّهِ هذا خَيْرٌ، فمَن كانَ مِن أهْلِ الصَّلَاةِ دُعِيَ مِن بَابِ الصَّلَاةِ، ومَن كانَ مِن أهْلِ الجِهَادِ دُعِيَ مِن بَابِ الجِهَادِ، ومَن كانَ مِن أهْلِ الصِّيَامِ دُعِيَ مِن بَابِ الرَّيَّانِ، ومَن كانَ مِن أهْلِ الصَّدَقَةِ دُعِيَ مِن بَابِ الصَّدَقَةِ

ترجمہ:

جو اللہ کے راستے میں دو چیزیں خرچ کرے گا اسے فرشتے جنت کے دروازوں سے بلائیں گے کہ اے اللہ کے بندے ! یہ دروازہ اچھا ہے پھر جو شخص نمازی ہوگا اسے نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا جو مجاہد ہوگا اسے جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا اور جو روزے دار ہوگا اسے باب الريان سے بلایا جائے گا اور جو کوئی صدقہ و خیرات دینے والا ہو گا اسے باب صدقہ (صدقہ و خیرات والے دروازہ) سے پکارا جائے گا۔

[صحيح البخاري:1897]


16۔ گناہوں کا خاتمہ

صدقہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ ایک دن میں صبح کو آپ سے قریب ہوا اور ہم چل رہے تھے۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ مجھے کوئی عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور جہنم سے دور رکھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تم نے ایک بہت بڑی چیز کا سوال کیا ہے اور بیشک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ آسان کر دے۔ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ألا أدلُّكَ على أبوابِ الخيرِ ؟ . قلتُ : بلَى يا رسولَ اللهِ ! قال : الصَّومُ جُنَّةٌ ، و الصَّدقةُ تُطْفِئُ الخطيئةَ كما يُطْفِئُ الماءُ النَّارَ

ترجمہ:

کیا میں بھلائی کے دروازوں کا نہ بتا دوں؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ دینا گناہوں کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے۔

[صحيح الترمذي:2616]


17۔ آفات اور بلاؤں سے چھٹکارا

صدقہ انسان کو آفات اور بلاؤں سے چھٹکارا دلاتا ہے۔ یحییٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:

“وَآمُرُكُمْ بِالصَّدَقَةِ، فَإِنَّ مَثَلَ ذَلِكَ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَسَرَهُ الْعَدُوُّ، فَأَوْثَقُوا يَدَهُ إِلَى عُنُقِهِ، وَقَدَّمُوهُ لِيَضْرِبُوا عُنُقَهُ فَقَالَ: أَنَا أَفْدِيهِ مِنْكُمْ بِالْقَلِيلِ وَالْكَثِيرِ. فَفَدَى نَفْسَهُ مِنْهُمْ”

ترجمہ:

اور تمہیں صدقہ و زکاۃ دینے کا حکم دیتا ہوں ۔ اس (صدقہ) کی مثال اس شخص کی سی ہے جسے دشمن نے قیدی بنا لیا ہے اور اسکے ہاتھ اسکی گردن سے ملا کر باندھ دیئے ہیں اور اسے لے کر چلے تاکہ اس کی گردن اڑا دیں تو اس (قیدی) نے کہا کہ میرے پاس تھوڑا زیادہ جو کچھ مال ہے میں تمہیں فدیہ دے کر اپنے آپ کو چھڑا لینا چاہتا ہوں پھر انہیں فدیہ دے کر اپنے کو آزاد کرا لیا۔

[صحيح الترمذي:2863]


18۔ بری موت سے حفاظت

صدقہ  بری موت سے بچاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

صَنائعُ المعروفِ تَقِي مَصارعَ السُّوءِ، والصَّدَقةُ خَفِيًّا تُطفئُ غضبَ الرَّبِّ، وصِلةُ الرَّحِمِ زيادةٌ في العُمُرِ، وكلُّ معروفٍ صدَقةٌ

ترجمہ:

رفاہی کام بُری موتوں، آفتوں اور ہلاکتوں سے بچاتے ہیں اور پوشیدہ خیرات رب کا غضب بجھاتی ہے اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک عمر میں برکت کا باعث ہے اور ہر نیکی صدقہ ہے۔

[صحيح الجامع:3796]

کیونکہ صدقہ و خیرات کرنا فلاحی و رفاہی کام ہے جو انسان کو مصائب اور پریشانیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔


19۔ نیک اعمال کی توفیق

صدقہ نیک اعمال کی توفیق دیتا ہے. حضرت حکیم بن حِزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا :

يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ، کُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، مِنْ صَدَقَةٍ، أَوْ عَتَاقَةٍ، وَصِلَةِ رَحِمٍ، فَهَلْ فِيْهَا مِنْ أَجْرٍ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَسْلَمْتَ عَلٰی مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ

ترجمہ:

 اے اللہ کے رسول ! میں نے دورِ جاہلیت میں جو نیکیاں کیں۔ یعنی صدقہ دیا، غلام آزاد کیے اور صلہ رحمی کی تو کیا مجھے اُن کا ثواب ملے گا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی پہلی نیکیوں کی وجہ ہی سے تو تمہیں دولتِ اسلام نصیب ہوئی ہے۔‘‘

[صحیح البخاري:1369، صحیح مسلم:123]


20۔ قابلِ رشک عمل

صدقہ و خیرات کرنا قابلِ رشک عمل ہے اور دنیا میں کوئی قابلِ رشک انسان اگر ہے تو  صدقہ و خیرات کرنے والا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

– لا حسدَ إلا على اثنتينِ رجلٌ آتاه اللهُ مالًا فهو ينفقُ منه آناءَ الليلِ وآناءَ النهارِ ورجلٌ آتاه اللهُ القرآنَ فهو يقومُ به آناءَ الليلِ وآناءَ النهارِ

ترجمہ:

حسد (یعنی رشک) صرف دو آدمیوں پر کرنا چاہیے: ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا تو وہ اسے رات کی گھڑیوں اور دن کے مختلف حصوں میں (راہِ خدا میں) خرچ کرتا رہا اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک عطا کیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرے۔

[صحیح  البخاري:5025، صحیح مسلم:815]


21سات سو گنا اجر و ثواب

ایک صدقے کا سات سو گنا اجر و ثواب ہے۔  خریم بن فاتک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

من أنفقَ نفقةً في سبيلِ اللَّهِ كتبت لَهُ بسبعمائةِ ضعفٍ

ترجمہ:

”جس نے اللہ کے راستے (جہاد) میں کچھ خرچ کیا اس کے لیے سات سو گنا (ثواب) لکھ لیا گیا“۔

[صحيح النسائي:3186]


22۔ خرچ کرو گے تو مال و دولت ملے گی

خرچ کرو گے تو مال و دولت ملے گی۔ حدیثِ قدسی ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

قالَ اللَّهُ تَبارَكَ وتَعالَى: يا ابْنَ آدَمَ أنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ وقالَ يَمِينُ اللهِ مَلأَى

ترجمہ:

اللہ تعا لیٰ نے فرمایا کہ اے آدم کے بیٹے! تو خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا اور آپ ﷺ نے فرمایا: ” اللہ کا دایاں ہاتھ (اچھی طرح) بھرا ہوا ہے۔

[صحيح مسلم:993]


جب اللہ کے خزانے بے شمار ہیں، بھرپور ہیں، ان میں کمی بھی نہیں ہوتی تو انسان کو چاہیے کہ اپنی ہر حاجت اسی کے سامنے پیش کرے اور سب کچھ اسی سے مانگے کیونکہ جن و انس کے سوا ہر مخلوق اسی سے سوال کرتی ہے اور وہ سب کو دیتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَسْأَلُهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ

ترجمہ:

آسمانوں اور زمین میں جو بھی مخلوق موجود ہے سب اسی سے مانگتے ہیں۔ وہ ہر روز ایک نئی شان میں ہے-

[سورۃ الرحمٰن:29]


23۔ دگنا اجر

صدقہ کرنے والے مرد ہوں یا عورتیں ” اللہ“ انہیں دگناعنایت کرے گا۔ نیز صدقہ کرنے والا ” اللہ“ کو قرض دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اجرِِ کریم سے ہمکنار فرمائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِنَّ الْمُصَّدِّقِينَ وَالْمُصَّدِّقَاتِ وَأَقْرَضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعَفُ لَهُمْ وَلَهُمْ أَجْرٌ كَرِيمٌ

ترجمہ:

مردوں اور عورتوں میں سے جو لوگ صدقہ کرنے والے ہیں اور جن لوگوں نے اللہ کو قرضِ حسنہ دیا، وہ ان کے لیے دگنا کردیا جائے گا اور انکے لیے عمدہ اجر ہوگا۔

[سورہ حدید:18]

یعنی فقیر، مسکین، محتاجوں اور حاجت مندوں کو خالص اللہ کی رضا کی جستجو میں جو لوگ اپنے حلال مال نیک نیتی سے راہِ خدا میں صدقہ دیتے ہیں انکے بدلے اللہ تعالیٰ بہت کچھ بڑھا چڑھا کر انہیں عطا فرمائے گا۔ دس گنا اور اس سے بھی زیادہ، سات سات سو تک بلکہ ان کے ثواب بے حساب ہیں۔


23. قرضِ حسنہ سے مراد

وہ صدقہ صرف اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے۔2۔ رزقِ حلال سے صدقہ کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ حرام مال سے کیے ہوئے صدقے کو قبول نہیں کرتا۔3۔ صدقہ کرنے والے کا اللہ اور اسکے رسول پر خالص ایمان ہونا چاہیے۔ 4۔ جسے صدقہ دیا جائے نہ اس پر احسان جتلایا جائے اور نہ اسے تکلیف دی جائے۔


24۔ سات سو گنا ثواب

مسلمان کو اس کے دیے ہوئے صدقے پر سات سو گنا ثواب دیا جائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ  وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ 

ترجمہ:

جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے اس کا اجر اس سے بھی بڑھا دیتا ہے اور اللہ بڑا فراخی والا اور بہت جاننے والا ہے۔

[سورۃ البقرۃ:261]


25۔ ڈبل واپسی

 جتنا خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ عطا فرمائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَا أَنفَقْتُم مِّن شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

ترجمہ:

اور جو کچھ تم خرچ کرتے ہو تو وہی اس کی جگہ تمہیں اور دے دیتا ہے اور وہی سب سے بہتر رازق  ہے‘‘

[سورۃ سبا:39]


26۔ گناہوں کی بخشش

اللہ تعالیٰ  صدقہ کرنے والے کے گناہوں کی بخشش کرے گا ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِن تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضَاعِفْهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ  وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ:

اگر تم اللہ کو قرضِ حسنہ دو تو وہ تمہیں کئی گنا بڑھا کر واپس کرے گا اور تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا۔ اللہ بڑا قدردان اور بڑا بردبار ہے۔

[سورۃ التغابن:17]


27۔ دو صدقوں کا اجر

سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الصَّدقةُ على المسْكينِ صدقةٌ، وعلى ذي القرابةِ اثنتان: صدقةٌ وصلةٌ

ترجمہ:

کسی حاجت مند ، مسکین و فقیر کو صدقہ دینا صرف ایک صدقہ ہے اور رشتے دار کو صدقہ دینا دو صدقات (کے برابر) ہے: ایک صدقہ اور دوسرا صلہ رحمی۔

[صحيح ابن ماجه:1506]


28. نِعمتوں کو دوام
صدقہ و خیرات سے نِعمتوں کو دوام ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:( إنَّ لِلّهِ تعالى أقوامًا يختصُّهم بالنِّعَمِ لمنافعِ العبادِ ، ويُقرُّها فيهم مابذلوها ، فإذا منعوها ، نزعها منهم ، فحولَّها إلى غيرِهم))

ترجمہ:

اللہ تعالیٰ کے كچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بندوں كو فائدہ دینے کیلئے نعمتوں سے نوازا ہوتا ہے۔ جب تک وہ لوگ خرچ كرتے رہتے ہیں، اللہ تعالی اُن كیلئے وہ نعمتیں برقرار ركھتا ہے ، لیکن جب وہ خرچ کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالی اُن سے وہ نعمتیں چھین لیتا ہے اور دوسروں كو عطا كر دیتا ہے۔

[صحيح الجامع:2164]


29. سب سے افضل صدقہ

صدقہ و خیرات کرنے کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے اور دنیا و آخرت میں اس کے بے شمار فوائد ہیں جبکہ  ماہِ رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی فضیلت کا علم ہمیں نبی اکرم ﷺ کی متعدد احادیثِ مبارکہ سے ملتا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ :

كانَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أجْوَدَ النَّاسِ، وكانَ أجوَدُ ما يَكونُ في رَمَضَانَ

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان کے مہینے میں اور بھی بڑھ جاتی تھی ۔

[صحيح البخاري:3220]


30.روزہ اور صدقہ موجباتِ جنت ہیں

حافظ ابنِ رجب رحمہ الله فرماتے ہیں:

إن الجمع بين الصيام والصدقة من موجبات الجنة ،كما في الحديث عن علي رضي الله عنه قال : قال رسول اللہ صلی الله علیه وسلم : إنَّ في الجنَّةِ غُرفًا تُرَى ظُهورُها من بطونِها وبطونُها من ظُهورِها فقامَ أعرابيٌّ فقالَ لمن هيَ يا رسولَ اللہِ فقالَ لمن أطابَ الكلامَ وأطعمَ الطَّعامَ وأدامَ الصِّيامَ وصلَّى باللَّيلِ والنَّاسُ نيامٌ (صحيح الترمذي: 1984) وهذه الخصال كلها تكون في رمضان، فيجتمع في المؤمن الصيام، والقيام، والصدقة، وطيب الكلام

ترجمہ :

روزے کے ساتھ صدقات و خیرات کو ملا لینا موجباتِ جنت میں سے ہے۔ جیسا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جنت میں ایسے کمرے ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آئے گا“ ایک دیہاتی نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کن لوگوں کے لیے ہوں گے؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ان لوگوں کے لیے ہوں گے جو اچھی گفتگو کرے، کھانا کھلائے، پابندی سے روزے رکھے اور رات کو  اس وقت نماز پڑھے جب لوگ سو رہے ہوں “

[صحيح الترمذي:1984]

یہ تمام صفات رمضان المبارک میں پیدا ہوتی ہیں اور مومن کے اندر روزہ، قیام اللیل، صدقہ اور اچھی و نرم گفتگو کی صفات جمع ہوجاتی ہیں۔

[لطائف المعارف، ص: 389]


اللہ تعالیٰ ہمیں کثرت سے صدقہ و خیرات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔

صدقہ کی فضیلت
(فقیہ ابواللیث سمرقندیؒ - متوفى 373ھ)
افضل صدقہ
فقیہ ابواللیث سمر قندیؒ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابو ذر غفاری نے فرمایا، نماز اسلام کا ستون ہے، جہاد عمل کی چوٹی ہے اور صدقہ ایک عجیب چیز ہے، صدقہ ایک عجیب چیز ہے، صدقہ ایک عجیب چیز ہے۔ ان سے روزہ کی متعلق سوال ہوا تو فرمایا کہ ہاں نیک عمل ہے، مگر فضیلت وہ نہیں، پوچھا گیا کون سا صدقہ افضل ہے فرمایا جو بہت ہو اور بہت ہو اور پھر یہ آیت پڑھی:
﴿لَن تَنَالُواْ الْبِرَّ حَتَّی تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّون﴾․ 
ترجمہ:
” یعنی تم خیر کامل کو کبھی حاصل نہ کر سکو گے جب تک اپنی محبوب چیز کو خرچ نہ کرو گے۔“
[سورۃ آل عمران، آیت:92]

سوال ہوا جس کے پاس نہ ہو؟ فرمایا جو مال بھی بچے صدقہ کر دے۔ پوچھا جس کے پاس مال نہ ہو؟ فرمایا بچا ہوا کھانا ہی سہی۔ عرض کیا گیا جس کے پاس یہ بھی نہ ہو؟ فرمایا اپنی قوت سے کسی کا تعاون کر دے پوچھا گیا جو یہ بھی نہ کر سکے ؟فرمایا آگ سے بچے خواہ کھجور کا ٹکڑا دے کر ہی سہی۔ کہا گیا جویہ بھی نہ کرے؟ فرمایا وہ اپنے آپ پر ضبط رکھے، کسی پر ظلم نہ کرنے پائے۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے یہ مضمون حضور ﷺ سے نقل کیا ہے ۔






بُخل کُفر کا شُعبہ ہے اور سخَاوت اِیمان کا شعبہ ہے
حضرت ابو دردا راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا جب بھی سوج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں جانب دو فرشتے مقرر ہوتے ہیں، جو یہ آواز لگاتے ( جسیجنات اور انسانوں کے سوا تمام اہل زمین سنتے ہیں) اے لوگو! اپنے رب کی طرف لپکو، بے شک قلیل مال، جو کفایت کرے، اس کثیر مال سے بہتر ہے جو غفلت پیدا کرے اور دو فرشتے یہ آواز لگاتے ہیں اے الله !اپنا مال برمحل یعنی نیک کاموں میں خرچ کرنے والے کو جلدی اس کا نعم البدل عطا فرما۔ اور ایسے موقعہ پر بخل کرنے والے کے مال کو تباہ و برباد فرما۔

حضرت ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ ایک ایسے شخص کے پاس سے گزرے، جوکعبہ شریف کے پَردوں سے چمٹا ہوا یہ دعا کر رہا تھا کہ اس بیت کی عظمت حرمت کے صدقے میری مغفرت فرما۔ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے الله کے بندے! اپنی حُرمت کے واسطے دعا مانگ کہ الله تعالی کے ہاں مومن کی حرمت وعظمت اس بیت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہ عرض کرنے لگا یا رسول الله! میں بہت ہی بڑا گنہگار ہوں۔ ارشاد فرمایا تیرا گناہ کیا ہے؟کہنے لگا میرے پاس مال کی بہتات ہے، چوپائے مویشی بھی بہت ہیں۔ اور گھوڑے بھی کثرت سے ہیں۔ لیکن جب کوئی آدمی ان میں سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو میں یوں ہو جاتا ہوں، جیسا میرے منھ سے آگ کے شعلے نکلتے ہیں، رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: اوفاسق! چل دور ہو جا، کہیں اپنی آگ سے مجھے بھی نہ جلا دینا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میرے جان ہے !اگر تو ہزار برس تک روزے رکھے اور نمازیں پڑھتا رہے، پھر اس کمینگی کی حالت میں مر جائے تو یقینا الله تعالیٰ تجھے دوزخ میں اوندھا لٹکائیں گے، کیا تجھے معلوم نہیں کمینگی کفر کا شعبہ ہے اور کفر کا ٹھکانا دوزخ ہے اور سخاوت ایمان کا شعبہ ہے او رایمان کا ٹھکانا جنت ہے؟!

سخاوت کی جڑ اور بخل کی جڑ
حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا سخاوت درخت ہے، جس کی جڑ جنت میں ہے او راس کی شاخیں دنیا میں لٹک رہی ہیں، جو شخص بھی اس کی کسی شاخ سے چمٹ گیا وہ اسے جنت کی طرف کھینچ لے گا اور بخل ایک درخت ہے جس کی جڑ دوزخ میں ہے اور شاخیں دنیا میں لٹک رہی ہیں، جو کوئی اس کی شاخ سے لگ جائے گا وہ اسے دوزخ کی طرف کھینچ لے گا، ایک حدیث میں ارشاد مبارک ہے بخیل الله سے دور جنت سے دور، لوگوں سے دور اور دوزخ کے قریب ہے اور سخی الله کے قریب جنت کے قریب، لوگوں کے قریب اور دوزخ سے دور ہے۔

ایک حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے، اپنے مالوں کو زکوٰة کے ذریعہ محفوظ کرو اور اپنے بیماروں کا صدقہ کے ذریعہ علاج کرو اور قسم قسم کی آفات کا دعاؤں سے مقابلہ کرو۔

حضرت عبدالرحمن سلمانی رسول الله ﷺ کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں کہ کسی سائل کو بات ختم کرنے سے پہلے نہ ٹوکو۔ پھر یا تو نرمی اور وقار کے ساتھ اسے کچھ دے دو یا احسن طریق سے جواب دے دو کہ بسا اوقات تمہارے پاس ایسے سائل بھی آتے ہیں جو جن ہوتے ہیں نہ انسان اور یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ الله کی عطا کردہ نعمتوں میں تمہارا کیا معاملہ ہے ؟ سعید بن مسعود  کندی راوی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص بھی دن یا رات میں صدقہ کرتا ہے اور زہریلے جانور کے ڈسنے سے دیوار یا چھت وغیرہ تلے دبنے سے تواچانک موت سے محفوظ رہتا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ صدقہ کرنے سے مال کبھی کم نہیں ہوتا اور جو شخص کسی ظلم کو معاف کرتا ہے الله تعالیٰ اس کی عزت افزائی فرماتے ہیں اور جو شخص الله کے لیے تواضع کرتا ہے الله تعالیٰ اسے اونچا کرتے ہیں۔

دو چیزیں شیطان اور رحمان کی طرف سے
حضرت ابن عباس  کا ارشاد ہے کہ دو چیزیں شیطان کی طرف سے ہیں اور دو الله تعالیٰ کی طرف سے پھر آپ نے یہ آیت پڑھی:
﴿الشَّیْْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُکُم بِالْفَحْشَاء وَاللّہُ یَعِدُکُم مَّغْفِرَةً مِّنْہُ وَفَضْلاً وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾․
ترجمہ:” شیطان تم کو محتاجی سے ڈراتا ہے او رتم کو بری بات کا مشورہ دیتا ہے ۔ اور الله تعالیٰ تم سے وعدہ کرتا ہے اپنی طرف سے گناہ معاف کر دینے کا اورزیادہ دینے کا اور الله تعالیٰ وسعت والے اور خوب جاننے والے ہیں۔“
(سورہ بقرہ، آیت:268)

یعنی الله تعالیٰ تمہیں صدقہ اور اطاعت کا حکم دیتے ہیں، تاکہ تم اس کی مغفرت اور فضل کو پا سکو اور الله تعالیٰ وسیع فضل والے ہیں ۔ صدقہ کرنے والے کے ثواب سے واقف ہیں۔

حضرت بریدہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں، جب کوئی قوم بد عہدی کرتی ہے الله تعالیٰ انہیں قتل وخون میں مبتلا کر دیتے ہیں اورجب کسی قوم میں بے حیائی پھیل جائے تو الله تعالیٰ ان پر موت مسلط کر دیتے ہیں او رکوئی قوم جب زکوٰة روک لیتی ہے تو الله تعالیٰ اس سے بارش روک لیتے ہیں۔

تین سطریں ،پانچ چیزیں
حضرت ضحاک نزال بن سُبرہ سے روایت کرتے ہیں کہ جنت کے دروازے پر تین سطریں لکھی ہوئی ہیں۔

پہلی سطر یہ ہے:”لااِلٰہَ اِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ․“

دوسری ہے:”اُمَّةٌ مُذْنِبَةٌ وَرَبٌّ غَفُوْرٌ․“
ترجمہ:” لوگ گنہگار اور پرورد گار مغفرت والا ہے۔“

تیسری سطر یہ ہے:”وَجَدْنَا مَا عَمِلْنَا، رَبِحْنَا مَا قَدَّمْنَا، خَسِرْنَا مَا خَلَّفْنَا․“
ترجمہ:” ہم نے اپنے اعمال کو پالیا اور جو آگے بھیجا وہ نفع میں رہا، جو پیچھے چھوڑا وہ خسارا اٹھایا۔“

کہتے ہیں کہ جو شخص پانچ چیزیں روکتا ہے الله تعالیٰ اس سے پانچ چیزیں روک لیتے ہیں۔
1..جو زکوٰة رو ک لیتا ہے، الله تعالیٰ اس کے مال کی حفاظت روک دیتے ہیں۔2..جو صدقہ روکتا ہے الله تعالیٰ اس سے عافیت روک لیتے ہیں۔3.. جو عُشر روکتا ہے الله تعالیٰ اس کی زمین کی برکتوں کو روک دیتے ہیں۔4.. جو دُعا روکتا ہے ،الله تعالیٰ قبولیت روک لیتے ہیں۔5.. اور جو شخص نماز میں سستی کرتا ہے، الله تعالیٰ موت کے وقت اس سے”لااِلٰہَ اِلَّا اللهُ“ روک دیتے ہیں۔

ابن مسعود فرماتے ہیں ایک شخص اپنی صحت اور ضرورت کی حالت میں جو ایک درہم خرچ کرتا ہے وہ ان سودرہموں سے بڑھ کر ہے جن کی مرتے وقت وہ وصیت کرتا ہے۔

عابد اور بخیل کا قصہ
فقیہ فرماتے ہیں، میں نے اپنے بزرگوں سے سُنا وہ فرماتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک شخص اپنے بخل کی وجہ سیملعون کے نام سے مشہو رتھا۔ اس کے پاس ایک دن ایک شخص آیا ،جو جہاد کا ارادہ رکھتا تھا۔ کہنے لگا اے ملعون! مجھے کچھ ہتھیار دے دے۔ جو جہاد میں میرے کام آئیں گے اور تیرے لیے دوزخ سے رہائی کا سامان ہو گا اس نے منھ پھیر لیا اور کچھ نہ دیا ۔ وہ آدمی واپس چل دیا، ملعون کو ندامت ہوئی ،اسے آواز دے کر بلایا او راپنی تلوار دے دی، وہ آدمی تلوار لے کر واپس لوٹا ،راستے میں عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی، ان کے ساتھ ایک عابد بھی تھا، جو ستر برس سے عبادت میں مصروف تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اس شخص سے پوچھا کہ تلوار کہاں سے لائے ہو؟ وہ شخص بولا ملعون نے دی ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ملعون کے اس صدقہ سے بہت خوش ہوئے۔ ادھر ملعون اپنے دروازہ پر بیٹھا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے عابد ساتھی کے چہرہ کو ایک نظر دیکھ لوں، یہ اٹھ کر دیکھنے لگا تو عابد نے کہا کہ میں تو اس ملعون سے بھاگتا ہوں، کہیں اپنی آگ میں مجھے بھی نہ جلا دے۔ الله تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندے کو بتاؤ کہ اس گنہگار کو اس کے صدقہ کی بدولت او رتمہاری محبت کی وجہ سے میں نے بخش دیا ہے اور اسے یہ بھی بتاؤ کہ وہ جنت میں تیرا ساتھی ہو گا۔ عابد کہنے لگا بخدا! مجھے تو اس کے ساتھ جنت میں جانا گوارا نہیں اور نہ ہی مجھے ایسا ساتھی پسند ہے۔ اس پر الله تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عليه السلام کو وحی بھیجی کہ میرے اس بندے کو کہو کہ تجھے میرا فیصلہ پسند نہ آیا اور میرے ایک بندہ کوتونے حقیر جانا۔ لہٰذا ہم نے تجھے ملعون اور دوزخی بنا دیا ہے اور تیرے جنت کے محلات کا اس کے دوزخ والے مقامات کے ساتھ تبادلہ کر دیا ہے۔ اب میں نے تیرے جنت والے درجات اپنے اس بندے کے لیے اور اس کا دوزخ والا ٹھکانہ تیرے لیے طے کر دیا ہے۔


صدقہ سے کیا کیا مصیبتیں ٹلتی ہیں؟
فقیہ ابو اللیث سمرقندی اپنی سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بستی پر سے گزرے ۔وہاں پر ایک دھوبی رہتا تھا۔بستی والوں نے آپ کے پاس اس کی شکایت کی کہ یہ ہمارے کپڑے پھاڑ دیتا ہے اور اپنے پاس روک بھی رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ یہ اپنی کپڑوں والی گانٹھ سمیت واپس نہ آسکے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ دعا کردی، اگلے دن دھوبی حسب معمول کپڑے دھونے کے لیے چلا گیا، تین روٹیاں ساتھ تھیں۔قریب ہی پہاڑوں میں ایک عابد رہتا تھا۔وہ دھوبی کے پاس آیا اور پوچھا کیا تیرے پاس کھانے کو روٹی ہے۔اگر ہے تو ذرا اسے سامنے کردے تا کہ میں اسے دیکھ سکوں یا اس کی بو ہی سونگھ لو کیوں کہ ایک عرصہ سے کھانا نہیں کھایا ۔دھوبی نے اسے ایک روٹی کھانے کو دے دی۔عابد نے دعا دیتے ہوئے کہا کہ اللہ تیرے گناہ معاف فرمائے اور دل کو پاک کرے۔دھوبی نے دوسری روٹی بھی دے دی وہ کہنے اللہ تعالیٰ تیرے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردے۔ دھوبی نے تیسری روٹی بھی پیش کردی۔عابد بولا اے دھوبی اللہ تعالیٰ تیرے لیے جنت میں محل بنائے۔القصہ شام ہوئی تو دھوبی! صحیح وسالم واپس آگیا۔بستی والوں نے حیران ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ دھوبی تو واپس آگیا ہے؟آپ نے دھوبی کو طلب فرمایا اور پوچھا کہ سچ بتا آج تو نے کیا عمل کیا ہے وہ کہنے لگا کہ ان پہاڑوں میں سے ایک عابد میرے پاس آیا، اس کے مانگنے پر میں نے تین روٹیاں اسے دیں اور ہر روٹی کے بدلے اس نے مجھے دعائیں دیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ذرا اپنی کپڑوں والی گانٹھ تو کھول کر دکھا، اسے کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سیاہ سانپ بیٹھا ہے، منہ میں لوہے کی لگام ہے ۔آپ نے سانپ کو پکارا تو اس نے لبیک (اے اللہ کے نبی میں حاضر ہوں)یا نبی اللہ کہہ کر جواب دیا۔ فرمایا کیا تجھے اس شخص کی طرف نہیں بھیجا گیا تھا؟وہ بولا بے شک! لیکن اس کے پاس ان پہاڑوں میں سے ایک عابد آیا اور اس سے روٹی مانگی۔اور ہر روٹی کے بدلے اس کو دعائیں دیتا رہا۔اور ایک فرشتہ پاس کھڑا آمین کہتا رہا۔اس پر اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھیجا، جس نے مجھے یہ لوہے کی لگام پہنادی۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دھوبی سے فرمایا۔اس عابد پر صدقہ کرنے کی بدولت تیرے پچھلے گناہ معاف ہو گئے ہیں، اب نئے سرے سے اعمال شروع کردے۔

سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں کہ ایک عورت باہر نکلی، گود میں چھوٹاسا بچہ تھا، ایک بھیڑیا آیا اور عورت سے بچہ اُچک کر لے گیا۔عورت پیچھے ہوئی، راستہ میں ایک سائل ملا، عورت کے پاس ایک روٹی تھی، وہ سائل کو دے دی۔اتنے میں بھیڑیا از خود بچے کو واپس لے آیا اور ایک پکارنے والے کی آواز سنائی دی کہ یہ لقمہ اس سائل والے لقمہ کے بدلہ میں واپس ہے۔

جناب معتب بن سمعی کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک راہب نے ساٹھ سال تک اپنے معبدمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی، ایک دن جنگل کی طرف نظر دوڑائی، زمین خوش نما معلوم ہوئی ۔جی میں آیا کہ اتر کر زمین کے مناظر سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔چلنا پھرنا چاہیے، اتر آیا، ایک روٹی بھی ساتھ تھی۔ایک عورت سامنے آئی بے قابو ہو کر گناہ میں مبتلا ہوگیا۔اس اثنا میں موت کے حالات طاری ہوگئے، ایک سائل نے آواز دی ،راہب نے روٹی اسے دے دی اور خود مرگیا ۔ادھر اس کے ساٹھ سال کے اعمال ترازو کے ایک طرف اور اس کا یہ گناہ دوسری طرف رکھا گیا۔ساٹھ سال کی عبادت پر یہ گناہ بھاری ثابت ہوا، پھر اس کی وہ روٹی اعمال والے پلڑے میں رکھی گئی، جس سے گناہ کے مقابلہ میں وہ پلڑا بھاری ہوگیا۔

مشہور ہے کہ صدقہ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے۔ حضرت ابو ذرغفاری فرماتے ہیں کہ زمین میں جب بھی کوئی صدقہ کیا جاتا ہے تو ستر شیطان اس سے دور کیے جاتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اس کے لیے رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ ھضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ صدقہ گناہ کو یوں ختم کرتا ہے جیسے پانی آگ کو۔

صدقہ کو ناپسند کرنے کا نتیجہ
حضرت عائشہ  سے روایت ہے کہ وہ بیٹھی ہوئی تھیں کہ ایک عورت آئی، اس نے ہاتھ آستین میں چھپا رکھا تھا ۔حضرت عائشہ  نے پوچھا ہاتھ باہر کیوں نہیں نکالتی ؟اس نے جواب سے گریز کیا۔حضرت عائشہ  نے کہا ضرور بتانا ہوگا ۔تو کہنے لگی ام الموٴمنین !قصہ یہ ہے کہ میرے والد صاحب صدقہ کا شوق رکھتے تھے اور والدہ اتنا ہی ناپسند سمجھتی تھی اور کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا کہ اس نے چربی کے ٹکڑے کسی پرانے کپڑے کے سوا کچھ صدقہ کیا ہو ۔قضائے الہٰی سے دونوں فوت ہوگئے، میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت قائم ہے۔اور میری ماں بھری خلقت میں یوں کھڑی ہے کہ پرانے کپڑے سے پردہ کا بدن چھپایا ہوا ہے ۔اور چرپی کا ٹکڑا ہاتھ میں لیے چاٹ رہی ہے اور ہائے پیاس پکار رہی ہے۔ادھر میرا والد ایک حوض کے کنارے بیٹھا لوگوں کو پانی پلارہا ہے اور یہی عمل میرے والد کو دنیا میں بھی بہت محبوب تھا۔میں نے ایک پیالہ پانی کا لے کر اپنی والدہ کو پلایا، اتنے میں اوپر سے آواز آئی، جس نے اسے پانی پلایا ہے اس کا ہاتھ شل ہوجائے۔چناں چہ میں بیدار ہوئی تو ہاتھ شل تھا۔

مالک بن دینار کی بیوی کا قصہ
کہتے ہیں کہ ایک دن مالک بن دینار بیٹھے ہوئے تھے، ایک سائل نے آکر کچھ مانگا، گھر میں کجھوروں کی ٹوکری پڑی تھی ۔بیوی سے منگوا کر نصف سائل کو دے دی اور نصف واپس کردی۔ بیوی کہنے لگی سبحان اللہ !تیرے جیسے بھی زاہد کہلاتے ہیں؟ کیا ایسا شخص بھی دیکھا ہے جو بادشا ہ کے حضور ناقص ہدیہ بھیجے؟مالک نے سائل کو واپس بلا لیا اور بقیہ کھجوریں بھی اس کو دے دیں، پھر بیوی کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے اری! محنت کیا کر اور خوب ہمت سے کام لے، اللہ پاک کا ارشاد ہے:

﴿خُذُوہُ فَغُلُّوہُ ،ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوہُ،ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُہَا سَبْعُونَ ذِرَاعاً فَاسْلُکُوہُ ﴾․(سورہ الحاقہ، آیت:32-30)
ترجمہ:اس شخص کو پکڑو اور اس کے طوق پہنادو پھر دوزخ میں اس کو داخل کرو ،پھر ایک ایسی زنجیر میں، جس کی پیمائش ستر گز ہو، اس کو جکڑ دو۔

سوال ہو گا یہ سختی کس وجہ سے ہے؟ تو جواب ملے گا ۔

﴿إِنَّہُ کَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللَّہِ الْعَظِیْمِ،وَلَا یَحُضُّ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ﴾․(سورہ الحاقہ، آیت:34-33)
ترجمہ:یہ شخص خدائے بزرگ برتر پر ایمان نہ رکھتا تھا اور غریب آدمیوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا ۔

اے اللہ کی بندی! خوب جان لے کہ ہم نے اس وبال کا ایک حصہ تو ایما ن لا کر اپنی گردن سے اتار دیا ہے اور دوسرا حصہ صدقہ خیرات کے ذریعہ اتارنا چاہیے۔

ایک بدوی کا قصہ
محمد بن افضل  یہ روایت کرتے ہیں کہ ایک بدوی کے پاس بکریا ں تھیں، مگر وہ صدقہ وغیرہ بہت کم کرتا تھا۔ایک دفعہ اس نے ایک بکری کا لاغر بچہ صدقہ میں دیا۔خواب میں دیکھتا ہے کہ اس کی تمام بکریاں جمع ہیں اور اسے سینگ ماررہی ہیں اور وہ لاغر بچہ اس کی مدافعت کررہا ہے ۔یہ بیدار ہوا تو کہنے لگا بخدا! ہمت ہوئی تو تیرے ساتھی بڑھاؤں گا ۔پھر اس کے بعد خوب صدقہ خیرات کرنے لگا۔

حضرت عدی بن حاتم رسول اللہ ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ تم میں سے ہر شخص کی اپنے رب سے گفتگو ہوگی ۔اور وہ اپنی دائیں بائیں اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال کو دیکھے گا اور سامنے نظر کرے گا تو دوزخ دکھائی دے گی۔لہٰذا آگ سے بچو، اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ سے ہی سہی۔

دس اچھی خصلتیں
فقیہ فرماتے ہیں کہ دس خصلتیں ایسی ہیں جن سے آدمی اچھے لوگوں میں شامل ہوتا ہے اور درجے پاتا ہے ۔پہلی صفت صدقہ کی کثرت ہے۔دوسری تلاوتِ قرآن کی کثرت ،تیسری ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنا جو آخرت کی یاد دلائیں اور دنیا سے بے رغبتی سکھائیں۔چوتھی صلہ رحمی کرنا، پانچویں بیمار کی مزاج پرسی کرنا، چھٹی ایسے اغنیا سے میل جول نہ رکھنا جو آخرت سے غافل ہوں۔ساتویں آنے والے دن کی فکر میں لگے رہنا۔آٹھویں امیدوں میں کمی اور موت کو بکثرت یاد کرنا۔نویں خاموشی اختیار کرنا اور کلام میں کمی رکھنا اور دسویں خصلت تواضع ہے اور گھٹیا لباس پہننا۔فقرا ء سے محبت کرنا، ان کے ساتھ مل جل کر رہنا، مساکین اور یتیموں کے قریب رہنا اور ان کے سروں پر ہاتھ رکھنا۔

صدقہ کو بڑھانے والی خصلتیں
کہتے ہیں کہ سات خصلتیں صدقہ کو بڑھاتی ہیں اور اس میں کمال پیدا کرتی ہیں ۔پہلی یہ کہ حلال مال سے صدقہ کرنا، اللہ کا ارشاد ہے:

﴿ أَنفِقُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ﴾(سورہ بقرہ، آیت:267)
ترجمہ :خرچ کرو عمدہ چیز کو اپنی کمائی میں سے۔

دوسری یہ کہ قلیل مال سے بھی بقدر ہمت دینا چاہیے ۔تیسری جلدی دینا کہ کہیں موقع نہ جاتا رہے ۔چوتھی یہ کہ بہترین اور عمدہ مال سے دینا ،کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿وَلاَ تَیَمَّمُواْ الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِیْہِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِیْہِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:267)
ترجمہ:اور ردی چیز کی طرف نیت مت لے جایا کروکہ اس میں سے خرچ کرو، حالاں کہ تم خود کبھی اس کے لینے والے نہیں، ہاں! مگر چشم پوشی کر جاؤ اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کے محتاج نہیں، وہ تعریف کے لائق ہیں۔

یعنی جس طرح تم نے کسی سے قرض لینا ہو تو ردّی مال نہیں لیتے سوائے اس کے کہ چشم پوشی اور درگزر کرجاؤ۔پانچویں یہ کہ ریا سے بچتے ہوئے چھپا کر صدقہ کرو۔چھٹی یہ کہ اس پر احسان بھی نہ جتاؤ کہ اجر باطل ہوجائے۔ ساتویں یہ کہ اس کے بعد تکلیف نہ پہنچاؤ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لاَتُبْطِلُواْ صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالأذَی﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:264) ترجمہ:تم احسان جتا کر یا ایذا پہنچا کر اپنی خیرات کو برباد مت کرو۔





قبولیت صدقہ کی بنیادی شرط
﴿مَّثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنبُلَةٍ مِّئَةُ حَبَّةٍ وَاللّہُ یُضَاعِفُ لِمَن یَشَاء ُ وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ،الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ ثُمَّ لاَ یُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُواُ مَنّاً وَلاَ أَذًی لَّہُمْ أَجْرُہُمْ عِندَ رَبِّہِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ، قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَیْْرٌ مِّن صَدَقَةٍ یَتْبَعُہَا أَذًی وَاللّہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ ، یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالأذَی کَالَّذِیْ یُنفِقُ مَالَہُ رِئَاء النَّاسِ وَلاَ یُؤْمِنُ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْْہِ تُرَابٌ فَأَصَابَہُ وَابِلٌ فَتَرَکَہُ صَلْداً لاَّ یَقْدِرُونَ عَلَی شَیْْء ٍ مِّمَّا کَسَبُواْ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْکَافِرِیْن﴾․(سورہ بقرہ، آیت:264-261)
مثال ان لوگوں کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال الله کی راہ میں ایسی ہے کہ جیسے ایک دانہ، اس سے اُگیں سات بالیں، ہر بال میں سو سو دانے اور الله بڑھاتا ہے جس کے واسطے چاہے اور الله بے نہایت بخشش کرنے والا ہے، سب کچھ جانتا ہے جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال الله کی راہ میں، پھر خرچ کرنے کے بعد نہ احسان رکھتے ہیں اور نہ ستاتے ہیں، انہیں کے لیے ہے ثواب ان کا اپنے رب کے یہاں اور نہ ڈر ہے ان پر اور نہ غمگین ہوں گے جواب دینا نرم اور در گز ر کرنا بہتر ہے اس خیرات سے جس کے پیچھے ہو ستانا اور الله بے پروا ہے، نہایت تحمل والا اے ایمان والو ا مت ضائع کرو اپنی خیرات احسان رکھ کر اور ایذا دے کر، اس شخص کی طرح جو خرچ کرتا ہے اپنا مال لوگوں کے دکھانے کو اور یقین نہیں رکھتا ہے الله پر اور قیامت کے دن پر سو اس کی مثال ایسی ہے جیسے صاف پتھر کہ اس پر پڑی ہے کچھ مٹی، پھر برسا اس پر زور کا مینہ، تو کر چھوڑا اس کو بالکل صاف ،کچھ ہاتھ نہیں لگتا ایسے لوگوں کے ثواب اس چیز کا جو انہوں نے کمایا اور الله نہیں دکھاتا سیدھی راہ کافروں کو

ربط:
پارے کی ابتدا میں اہل ایمان کو انفاق فی سبیل الله کا حکم دیا گیا کہ وقت کو غنیمت جان کر موت وقیامت کے آنے سے قبل جو کچھ راہ خدا میں خرچ کرنا چاہو اس میں دریغ مت کرو ، اس کے مبد او معاد کے تین واقعے بیان فرما کر بعثت کی حقانیت کو مزید واضح کر دیا، جب آخرت پر یقین کامل ہو گا تو اس کے لیے توشہ جمع کرنا بھی آسان ہو گا، اس لیے اب دوبارہ انفاق کی ترغیب دی جارہی ہے۔

تفسیر:
انفاق فی سبیل الله کے فضائل، آداب ، قبولیت کی شرائط
﴿مَّثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُون…﴾ اس آیت کریمہ میں انفاق فی سبیل الله او را س کے ثمرات کی مثال ایک دانے سے دی گئی ہے، جس کی سات بالیں نکلیں او رہر بالی میں سو دانے ہوں، جس طرح ایک دانہ سات سوگُنا دانوں کو لے کر آتا ہے، اسی طرح راہ الہی میں خرچ کیا گیا ایک درہم سات سو گنا ہو کر انسان کو واپس ملے گا، فی الواقع الله تعالیٰ دیتا ہے، لیتا نہیں ، بلکہ خرچ کرنے والے کی باطنی کیفیت، جذبہ اخلاص ، جوش وخروش کے بقدر بخشش خداوندی میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے ، اس کے فضل واحسان کی وسعتیں حدود سے بالاتر ہیں۔

صدقے کے بعد احسان جتلانے اور تکلیف پہنچانے سے اجر ضائع ہو جاتا ہے
کس کو ممنونِ احسان کرکے اس پر احسان جتلانا، حقیر سمجھنا یا کمزور سمجھ کر اس کے حقوق پامال کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا، اس سے انفاق فی سبیل الله کا اجروثواب بھی ضائع ہو جاتا ہے اور مقصد بھی فوت ہو جاتا ہے ، کیوں کہ اس کا مقصد تو یہ ہے کہ معاشر ے میں ہمدردی اور اخوت کے جذبات غالب رہیں ، معاشرہ بغض، حسد، عناد، تکبر کی آفتوں سے محفوظ رہے ، اگر احسان کرنے والا ممنون احسان کو حقیر جان کر اس سے ذلت آمیز رویہّ رکھے گا تو معاشرتی تقسیم خود بخود پیدا ہوتی چلی جائے گی ،جس کا انجام بغض وحسد، تکبر اور فساد کی شکل میں ظاہر ہو گا، اس لیے صدقہ کرنے کے بعد اس کے ثواب کی حفاظت کا اہتمام بھی کیا جائے، یہ اہتمام کرنے والے ہی قیامت کے دن پروانہ مغفرت کے مستحق ہوں گے، انہیں اس روز اپنے خرچ پر پشیمانی ہو گی اور نہ اجروثواب کے ضائع ہونے کا اندیشہ۔

قول معروف… دل داری کا ایک جملہ دل آزاری سے بہتر ہے
صدقہ کرنے کے بعد احسان جتلانے یا دل آزاری سے بہتر ہے کہ دل داری کا ایک جملہ بو ل کر معذرت کر لی جائے، یہ معذرت بھی نادار کے لیے درست ہے، صاحب حیثیت کو تو صدقہ ہی کرنا چاہیے اس کے حق میں تو معذرت بھی جرم ہے۔

دکھلاوے کے صدقے میں کوئی اجر نہیں ہوتا
جس صدقے کا مقصد رضائے الہی کا حصول نہ ہو، بلکہ نام ونمود اور ہوائے نفس کی تکمیل ہو ،اس کا کوئی اجر نہیں ہوتا ، اس صدقے کی مثال اس کھیت کی جیسی ہے، جسے کسان نے کسی چٹان پر مٹی کی موٹی تہہ کو زرخیر زمین سمجھ کر بو دیا ہو ، موسلادھار بارش ہو اور کھیت مٹی سمیت بہہ جائے اور چکنی چٹان کے علاوہ کچھ نہ رہے تو کسان کو کس قدر افسوس لاحق ہوتا ہے؟!

اس کی محنت، حصول نفع کی سار ی امیدیں اس طوفانی ریلے میں بہہ جاتی ہیں، اسی طرح ایمان سے محروم شخص کا انفاق ، یا دکھلاوے کی نیت سے کیا گیا صدقہ روزمحشر میں اس کے اعمال خیر سے ایسے ہی غائب ہو گا جیسے مٹی چٹان سے، پھر وہاں کا افسوس تو بہت بڑا افسوس ہے ، جس کی تلافی بھی ناممکن ہے۔

﴿وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَہُمُ ابْتِغَاء مَرْضَاتِ اللّہِ وَتَثْبِیْتاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ کَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبْوَةٍ أَصَابَہَا وَابِلٌ فَآتَتْ أُکُلَہَا ضِعْفَیْْنِ فَإِن لَّمْ یُصِبْہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْر﴾․(سورہ بقرہ، آیت:265)
اور مثال ان کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال الله کی خوشی حاصل کرنے کو اور اپنے دلوں کو ثابت کرنے کو، ایسی ہے جیسے ایک باغ ہے، بلند زمین پر، اس پرپڑا زور کامینہ تو لایا وہ باغ اپنا پھل دو چند اور اگر نہ پڑا اس پر مینہ تو پھوار ہی کافی ہے اور الله تمہارے کاموں کو خوب دیکھتا ہے

تفسیر:اخلاص نیت کے ساتھ صدقہ کرنے کی مثال
اس کے برعکس جن لوگوں کے صدقات وطاعات کا مقصد رضائے الہٰی کا حصول ہوتا ہے ،ان کے انفاق کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی بلند ٹیلے پر واقع ہو، زمین بھی زرخیر ہو ، اچھے محل وقوع کی وجہ سے وہ لطیف ہواؤں سے معمور رہتا ہو، اس پر اگر زور کی بارش پڑ جائے تو اس کا پھل دگنا ہو جائے او راگر ہلکی پھوار پڑ جائے تو بھی اس کی بارآوری کے لیے کافی ہے، یعنی ایسا باغ بہر صورت نفع دیتا ہے، اسی طرح رضائے الہٰی کے حصول کے لیے خرچ کیا گیا مال بھی بہر صورت آخرت میں نفع ہی پہنچائے گا۔ اخلاص کی کمی بیشی کے تناسب سے اس کے نفع میں کمی بیشی بھی ہو سکتی ہے، لیکن ضائع ہونے کا کوئی اندیشہ نہیں ۔ زوردار بارش اور پھوار سے اخلاص کے ادنی واعلیٰ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔

﴿أَیَوَدُّ أَحَدُکُمْ أَن تَکُونَ لَہُ جَنَّةٌ مِّن نَّخِیْلٍ وَأَعْنَابٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ لَہُ فِیْہَا مِن کُلِّ الثَّمَرَاتِ وَأَصَابَہُ الْکِبَرُ وَلَہُ ذُرِّیَّةٌ ضُعَفَاء فَأَصَابَہَا إِعْصَارٌ فِیْہِ نَارٌ فَاحْتَرَقَتْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللّہُ لَکُمُ الآیَاتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُون﴾․(سورہ بقرہ ،آیت:266)
کیا پسند آتا ہے تم میں سے کسی کو یہ کہ ہووے اس کا ایک باغ کھجور اور انگور کا، بہتی ہوں نیچے اس کے نہریں اس کو اس باغ میں اور بھی سب طرح کا میوہ حاصل ہو او رآگیا اس پر بڑھاپا اور اس کی اولاد ہیں ضعیف، تب آپڑا اس باغ پر ایک بگولا، جس میں آگ تھی، جس سے وہ باغ جل گیا، یوں سمجھاتا ہے تم کو الله آیتیں، تاکہ تم غور کرو

تفسیر:گزشتہ مثالوں کی مزید وضاحت
جس طرح تم میں سے کوئی شخص یہ گوارہ نہیں کرتا کہ اس کے عمر بھرکی کمائی جوکھجوروں اور انگورں کے باغ کی صورت میں موجود ہو اس میں نہریں بہہ رہی ہوں ، جس سے باغ کی خوش حالی اور حسن وجمال میں اضافہ ہو رہا ہو، باغ کا مالک بوڑھا شخص ہو، اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہوں ، ان کی معیشت کا دار ومدار صرف یہی باغ ہو، اس عمر میں جب انسان مشقت کا کام نہیں کر سکتااور مال کی ضرورت بھی زیادہ ہوتی ہے، یک بیک کوئی آگ کا بگولا آئے اور پورے باغ کو جلا کر خاکستر کردے، بوڑھے نے جس باغ پر امیدوں کی بہارسجا رکھی تھی اسی سے شعلے اٹھنے لگے، حسرتوں کا جنازہ آنکھوں کے سامنے سے گزر نے لگے، ایسے وقت میں بوڑھے کے دل میں گزرتے غموں کے طوفان کاکوئی اندازہ کرسکتا ہے؟ لیکن اس سے بڑھ کر حرماں نصیبی اس شخص کی ہے جس نے اپنے اعمال نامے میں انفاق فی سبیل الله کا باغ لگایا ہو ، پھر قیامت کے روز اسی پر بھروسہ کرکے اجر وجواب کی امید لگائے کھڑا ہو کہ اچانک اسے خبر دی جائے کہ تم نے جو انفاق فی سبیل الله کا باغ لگایا تھا وہ قبولیت کی شرائط سے محروم ہونے کی وجہ سے پھل دینے سے قاصر ہے، تمہارا سہارا ٹوٹ چکا ہے، اس کی حسرت کا کیا عالم ہو گا؟وہ حسرت بھی ناقابل تلافی حسرت ہو گی ۔ اگر تم اس اندوہناک انجام سے بچنا چاہتے ہو تو اپنے صدقات وطاعات کو ریا کاری اور دل آزاری سے بچائے رکھو۔

قبولیتِ صدقہ کی بنیادی شرط
انفاقی فی سبیل الله اور ہر قسم کی طاعات کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ نیکوکار صاحب ایمان ہو ، بغیر ایمان اورد ینِ اسلام کے کوئی نیکی بارگاہ الہٰی میں سند قبولیت حاصل نہیں کر سکتی، بلکہ دنیا ہی میں ان کی جزا چکا دی جاتی ہے۔ 

﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَنفِقُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُم مِّنَ الأَرْضِ وَلاَ تَیَمَّمُواْ الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِیْہِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِیْہِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ غَنِیٌّ حَمِیْد، الشَّیْْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَأْمُرُکُم بِالْفَحْشَاء وَاللّہُ یَعِدُکُم مَّغْفِرَةً مِّنْہُ وَفَضْلاً وَاللّہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ،یُؤتِیْ الْحِکْمَةَ مَن یَشَاء ُ وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ أُوتِیَ خَیْْراً کَثِیْراً وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:269-267)
اے ایمان! والو خرچ کرو ستھری چیزیں اپنی کمائی میں سے اوراس چیز میں سے کہ جوہم نے پیدا کیا تمہارے واسطے زمین سے اور قصد نہ کرو گندی چیز کا اس میں سے کہ اس کو خرچ کرو، حالاں کہ تم اس کو کبھی نہ لو گے، مگر یہ کہ چشم پوشی کر جاؤ او رجان رکھو کہ الله بے پروا ہے، خوبیوں والا شیطان وعدہ دیتا ہے تم کو تنگ دستی کا اور حکم کرتا ہے بے حیائی کا او رالله وعدہ دیتا ہے تم کو اپنی بخشش اور فضل کا اور الله بہت کشائش والا ہے، سب کچھ جانتا ہے عنایت کرتا ہے سمجھ جس کسی کو چاہے او رجس کو سمجھ ملی اس کو بڑی خوبی ملی اور نصیحت وہی قبول کرتے ہیں جو عقل والے ہیں

ربط:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ…﴾ بارگاہ الہٰی میں قبولیت انفاق کی چند شرائط کا تذکرہ گزشتہ آیت میں ہوا تھا اور کچھ شرائط کا تذکرہ اس میں ہے۔

تفسیر:حلال اور عمدہ مال راہ الہی میں خرچ کرنا چاہیے
الله کی راہ میں وہ چیز خرچ کرنی چاہیے جو حلال کمائی سے ہو اور عمدہ بھی ہو ۔ ناقص اور ردّی اشیاء کے خرچ کرنے سے نہ کوئی غریب فائدہ اٹھا سکتاہے، نہ ہی بخل جیسے باطنی مرض کا علاج ہو سکتا ہے او ررضائے الہی کے حصول کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، ایسی بے فائدہ چیز کے خرچ پر کیا ثواب ملے گا؟ ہاں! اگر عمدہ چیز میسر نہ ہو تو پھر قابل انتفاع تو ہو،ایسی بے کار چیزیں جو ہم خود ایک دوسرے کو دینے سے شرمائیں اور ان سے اعراض برتیں ،وہ بارگاہ الہٰی میں حاضر کرنے کے لائق کس طرح ہو سکتی ہیں ؟ 

مال تجارت میں زکوٰة اور عشر کے وجوب پر استدلال
اہل علم نے ﴿أَنفِقُواْمِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ ﴾ سے مال تجارت میں زکوٰة کے فرض ہونے پر استدلال کیا ہے اور ﴿وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَکُم ْ﴾ سے عشر کے وجوب پر استدلال کیا ہے۔ اس صورت میں انفاق کا حکم برائے وجوب ہوگا۔ اور من الارض کی قید سے سمندری جواہر اور ہیرے مستثنیٰ ہو گئے، ان پر زکوٰة نہیں ہے، بشرطیکہ مال تجارت نہ بنے۔ (احکام القرآن اللجصاص،البقرة تحت آیة رقم:267،احکام القرآن للقرطبی تحت آیة رقم:267)

الشَّیْْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْر
ربط:گزشتہ آیت میں عمدہ مال کے خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے او راس آیت کریمہ میں بتایا جارہا ہے کہ شیطان اس موقع پر مختلف اندیشے اور وسوسے جھونک کر ورغلاتا ہے ،اس لیے اس کے کہنے میں مت آنا۔

تفسیر:شیطان فقر کا خوف دلاتا ہے
شیطان فقر کا خوف دلا کر انفاق سے روکتا ہے، حالاں کہ بوقت گنجائش مناسب مقدار میں مال خرچ کرنے سے افلاس کا خطرہ لاحق ہی نہیں ہوتا ،چہ جائیکہ اس کا اندیشہ کیا جائے، جہاں خرچ کرنے میں دنیا وآخرت کی فلاح یقینی ہو اور نقصان کا ذرہ بھر بھی احتمال نہ ہو، وہاں افلاس کا خوف احمقوں کو ہی لاحق ہو سکتا ہے۔ شیطان بخیلوں کو انہی وہموں میں غلطاں رکھ کر خیرسے محروم رکھتا ہے، ہاں! اگر مال کے خرچ کرنے کی گنجائش نہ ہو یا خرچ کرنے سے افلاس او رمحتاج ہونے کے اسباب وقرائن یقینی طور پر موجود ہوں تو خرچ سے رک جانے میں کوئی حرج نہیں، نہ ہی انہیں بخل کا طعنہ دیا جاسکتا ہے، بلکہ ایسے شخص کو تو شریعت صدقات نافلہ سے روکتی ہے۔

یُؤتِیْ الْحِکْمَةَ مَن یَشَاء 
ربط:چوں کہ بخل انسان کو انفاق فی سبیل الله سے روکتا ہے ، اس لیے اس آیت میں بخل کا علاج تجویز کیا جارہاہے۔

تفسیر:حکمت کسے کہتے ہیں؟
الله جسے چاہتا ہے اسے ”حکمت“ سے نوازتا ہے اور جسے حکمت دی گئی اسے خیر کثیر عطا کر دی گئی، حکمت کیا ہے؟ امور دین کو صحیح طریقے سے سمجھنے کا نام حکمت ہے۔(احکام القرآن للقرطبی، البقرة تحت آیة رقم:269) اوردین کی فہم صحیح بخل کا علاج بھی ہے اور خیر کثیر کی بنیاد بھی، اعمال خیر کی پہچان بھی اسی سے ہوتی ہے، عقائد واعمال کے درجات جاننا کہ کون سے فرض، کون سے واجب، کون سے مسنون، کون سے مستحب اور کون سے اولیٰ اور کون سے مباح ہیں؟ پھر اسی لحاظ سے ان کی رعایت رکھنا، اسی طرح کون سا اختلاف کس درجے کا ہے او راس میں کس قدر شدّت، یا نرمی روا رکھی جائے؟ یہ سب چیزیں دین کی صحیح سمجھ کی برکت سے حاصل ہوتی ہیں۔اور آخرت میں نجات کا دارومدار بھی ان دو چیزوں پر قائم ہے ۔ درست عقائد اعمال صالحہ۔ اس لیے” حکمت “کو خیر کثیر کی بنیاد کہنا بالکل بجا ہے۔








رمضان اور زکاة




          رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی انسانوں میں ذہنی،ایمانی اور اعمالی اعتبار سے بہت سی خوش گوار تبدیلیاں واقع ہوتیں ہیں، نہ صرف یہ ، بلکہ ہمارے ارد گرد کے معاشرے میں امن و امان ، باہمی ہمدردی اور اخوت و بھائی چارگی کی ایک عجیب فضا قائم ہوتی ہے، چنانچہ اسی مہینے میں عام طور پر اپنے اموال کی زکاة نکالنے کا دستور ہے، اگرچہ زکاة کی ادائیگی کا براہِ راست رمضان المبارک سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ زکاة کے وجوب اور اس کی ادائیگی کا تعلق اس کے متعین نصاب کا مالک بننے سے ہے، لیکن چونکہ رواج ہی یہ بن چکا ہے کہ رمضان المبارک میں اس کی ادائیگی کی جاتی ہے؛ اس لیے اس موقع پر مناسب معلوم ہوا کہ اس ماہ میں جہاں رمضان ، روزہ اور ان سے متعلق ہر ہر عبادت پر لکھا جاتا ہے اور خوب لکھا جاتا ہے،وہاں اسی مہینے میں ”زکاة “ پر بھی لکھا جائے ؛ تاکہ اس فریضے کے ادا کرنے والے پوری ذمہ داری سے اپنے اس فریضے کو ادا کریں ، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ذہنوں میں رہے کہ ہم معاشرے سے اس فضا کو ختم کرنے کی کوشش کریں جو اس وقت عمومی طور پر سارے مسلمانوں میں اپنا زور پکڑ چکی ہے کہ زکاة رمضان میں نکالنی ہے، بلکہ ہم یہ ماحول بنائیں اور اسی کے مطابق دوسروں کی ذہن سازی کریں کہ زکاة نکالنے والا اپنی زکاة کی ادائیگی میں زکاة کے واجب ہونے کے وقت کا خیال رکھتے ہوئے اس کے وقت پر زکاة نکالے ،اور اس کے لیے رمضان کا انتظار نہ کرے؛چنانچہ ذیل میں ”زکاة کن اموال پر واجب ہوتی ہے؟“ پر تفصیلاً اور کچھ دیگر مسائل پر اجمالاً روشنی ڈالی جائے گی۔
زکاة کا معنی و مفہوم:
          زکاة کے لغوی معنی پاکی کے ہیں، اور شریعت کی اصطلاح میں ”مخصوص مال میں مخصوص افراد کے لیے مال کی ایک متعین مقدار “کو زکاة کہتے ہیں۔
(الاختیار لتعلیل المختار، کتاب الزکوٰة: ۱/۹۹، درالکتب العلمیہ)
          زکوٰة کو زکوٰة کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان مال کے ساتھ مشغول ہوتا ہے، تو اس کا دل مال کی طرف مائل ہو جاتا ہے ، دل کے اس میلان کی وجہ سے مال کو مال کہا جاتا ہے، اورمال کے ساتھ اس مشغولیت کی وجہ سے انسان کئی روحانی و اخلاقی بیماریوں اور گناہوں میں مبتلاہو جاتا ہے، مثلا: مال کی بے جا محبت، حرص اور بخل و غیرہ۔ان گناہوں سے حفاظت اور نفس و مال کی پاکی کے لیے زکوٰة و صدقات کو مقرر کیا گیا ہے، اس کے علاوہ زکوٰة سے مال میں ظاہری یا معنوی بڑھوتری اور برکت بھی ہوتی ہے، اس وجہ سے بھی زکوٰة کا نام زکوٰة رکھا گیا۔
زکاة کی فرضیت:
          زکاة اسلام کا ایک اہم ترین فریضہ ہے ، اس کی فرضیت شریعت کے قطعی دلائل سے ثابت ہے، جن کا انکار کرنا کفر ہے ، ایسا شخص دائرئہ اسلام سے اسی طرح خارج ہو جاتا ہے، جیسے نماز کا انکار کرنے والا شخص اسلام سے نکل جاتا ہے۔ زکاة کی فرضیت ہجرت ِ مدینہ سے پہلے ہوئی جبکہ دوسری طرف بہت سی آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی فرضیت ہجرت کے بعد ہوئی؛ چنانچہ اس بارے میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نفسِ فرضیت تو ہجرت سے پہلے ہوگئی تھی؛ لیکن اس کے تفصیلی احکامات ہجرت کے بعد نازل ہوئے۔
زکاة کے فوائد، ثمرات و برکات:
          زکاة اللہ رب العزت کی جانب سے جاری کردہ وجوبی حکم ہے، جس کا پورا کرنا ہرصاحب نصاب مسلم پر ضروری ہے، اس فریضہ کے سرانجام دینے پر انعامات کا ملنا سو فیصد اللہ تعالیٰ کا فضل ہے؛ کیونکہ اس فریضے کی ادائیگی تو ہم پر لازم تھی ، اس کے پورا کرنے پر شاباش ملنا اور پھر اس پر بھی مستزاد ،انعام کا ملنا (اور پھر انعام، دنیوی بھی اوراُخروی بھی)تو ایک زائد چیز ہے، دوسرے لفظوں میں سمجھیے کہ مسلمان ہونے کے ناطے اس حکم کا پورا کرنا ہر حال میں لازم تھا، چاہے کوئی حوصلہ افزائی کرے یا نہ کرے،کوئی انعام دے یا نہ دے؛ لیکن اس کے باوجود کوئی اس پر انعام بھی دے تو پھر کیا کہنے! اور انعام بھی ایسے کہ جن کے ہم بہر صورت محتاج ہیں،ہماری دنیوی و اُخروی بہت بڑی ضرورت ان انعامات سے وابستہ ہے، ذیل میں چند انعامات کا صرف اشارہ نقل کیا جارہا ہے، تفصیلی مباحث، دئیے گئے حوالہ جات میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں:
          (۱) زکاة کی ادائیگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مال کو بڑھاتے ہیں۔(البقرة:۲۶۷،صحیح البخاري، کتاب الزکاة،رقم الحدیث:۱۴۱۰)
          (۲) زکاة کی وجہ سے اجر و ثواب سات سو گنا بڑھ جاتا ہے۔(البقرة:۱۶۱، تفسیر البیضاوی:البقرة:۲۶۱)
          (۳)زکاة کی وجہ سے ملنے والا اجر کبھی ختم ہونے والا نہیں، ہمیشہ باقی رہے گا۔ (الفاطر:۲۹،۳۰)
          (۴) اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسے افراد(زکاة ادا کرنے والوں)کا مقدر بن جاتی ہے۔ (الأعراف:۱۵۶)
          (۵)کامیاب ہونے والوں کی جو صفات قرآن ِ پاک میں گنوائی گئیں ہیں، ان میں ایک صفت زکوة کی ادائیگی بھی ہے۔(الموٴمنین:۴)
          (۶) زکاة ادا کرنا ایمان کی دلیل اور علامت ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب الطھارة، رقم الحدیث:۲۸۰)
          (۷) قبر میں زکاة (اپنے ادا کرنے والے کو)عذاب سے بچاتی ہے۔(المصنف لابن أبي شیبة،کتاب الجنائز، رقم الحدیث:۱۲۱۸۸،۷/۴۷۳،دار قرطبة، بیروت)
          (۸) ایک حدیث شریف میں جنت کے داخلے کے پانچ اعمال گنوائے گئے ہیں، جن میں سے ایک زکاة کی ادائیگی بھی ہے۔ (سنن أبي داوٴد، کتاب الصلاة، باب فی المحافظة علی وقت الصلوٰت، رقم الحدیث۴۲۹،۱/۲۱۴،دار ابن حزم)
          (۹) انسان کے مال کی پاکی کا ذریعہ زکاة ہے۔ (مسند أحمد:مسند أنس بن مالک، رقم الحدیث:۱۲۳۹۴)
          (۱۰) انسان کے گناہوں کی معافی کا بھی ذریعہ ہے۔(مجمع الزوائد، کتاب الزکاة، باب فرض الزکاہ:۳/۶۳)
          (۱۱) زکاة سے مال کی حفاظت ہوتی ہے۔(شعب الإیمان للبیہقي،کتاب الزکاة، فصل في من أتاہ اللہ مالا من غیر مسألة،رقم الحدیث:۳۵۵۷، ۳/۲۸۲، دارالکتب العلمیہ)
          (۱۲)زکاة سے مال کا شر ختم ہو جاتا ہے۔ (السنن الکبریٰ للبیہقي،کتاب الزکاة، باب الدلیل علی أن من أدی فرض اللہ فی الزکاة، رقم الحدیث:۷۳۷۹)
          اوپر جتنے فضائل ذکر کیے گئے ہیں وہ ہر قسم کی زکاة سے متعلق ہیں ، چاہے وہ” زکاة “سونے چاندی کی ہو ، یا تجارتی سامان کی ،عشر ہو یا جانوروں کی زکاة ۔
زکاة ادا نہ کرنے کے نقصانات اور وعیدیں:
          فریضہ زکاة کی ادائیگی پر جہاں من جانب اللہ انعامات و فوائد ہیں، وہاں اس فریضہ کی ادائیگی میں غفلت برتنے والے کے لیے قرآن ِ پاک اور احادیث ِ مبارکہ میں وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں ، اور دنیا و آخرت میں ایسے شخص کے اوپر آنے والے وبال کا ذکر بکثرت کیا گیا ہے، ذیل میں ان میں سے کچھ ذکر کیے جاتے ہیں:
          (۱) جو لوگ زکاة ادا نہیں کرتے اُن کے مال کو جہنم کی آگ میں گرم کر کے اِس سے اُن کی پیشانیوں، پہلووٴں اور پیٹھوں کو داغاجائے گا۔(سورة توبہ:۳۴،۳۵)
          (۲) ایسے شخص کے مال کو طوق بنا کے اُس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔(سورة آل عمران:۱۸۰)
          (۳) ایسا مال آخرت میں اُس کے کسی کام نہ آ سکے گا۔ (سورة البقرة:۲۵۴)
          (۴)زکاة کا ادا نہ کرنا جہنم والے اعمال کا ذریعہ بنتا ہے۔(سورة اللیل:۵ تا۱۱)
           (۵)ایسے شخص کا مال قیامت کے دن ایسے زہریلے ناگ کی شکل میں آئے گا ،جس کے سر کے بال جھڑ چکے ہوں گے ، اور اس کی آنکھوں کے اوپر دو سفید نقطے ہوں گے،پھر وہ سانپ اُس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا، پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑے گا(اور کاٹے گا) اور کہے گا کہ میں تیرا ما ل ہوں ، میں تیرا جمع کیاہوا خزانہ ہوں۔(صحیح البخاري ، کتاب الزکاة، باب إثم مانع الزکاة،رقم الحدیث:۱۴۰۳،۲/۱۱۰،دارطوق النجاة)
          (۶) مرتے وقت ایسا شخص زکاة ادا کرنے کی تمنا کرے گا؛ لیکن اس کے لیے سوائے حسرت کے اور کچھ نہ ہو گا۔(سورة المنافقون:۱۰، صحیح البخاری، کتاب الزکاة، باب فضل صدقة الشحیح الصحیح، رقم الحدیث:۱۴۱۹، ۲/۱۱۰، دارطوق النجاة)
          (۷)ایسے شخص کے لیے آگ کی چٹانیں بچھائی جائیں گی،اور اُن سے ایسے شخص کے پہلو ، پیشانی اور سینہ کو داغا جائے گا۔(صحیح مسلم، کتاب الزکاة، باب إثم مانع الزکاة)
          (۸) ایسے افرادکوجہنم میں ضریع، زقوم، گرم پتھر، اور کانٹے دار و بدبو دار درخت کھانے پڑیں گے۔(دلائل النبوة للبیہقي، باب الإسراء ،رقم الحدیث:۶۷۹)
          (۹) ایسے افراد سے قیامت کے دن حساب کتاب لینے میں بہت زیادہ سختی کی جائے گی۔ (مجمع الزوائد، کتاب الزکاة، باب فرض الزکاة:۳/۶۲)
          (۱۰) جب لوگ زکاة روک لیتے ہیں تو اس کے بدلے اللہ تعالیٰ ان سے بارشیں روک لیتے ہیں۔ (المستدرک للحاکم، رقم الحدیث:۲۵۷۷)
          (۱۱) جب کوئی قوم زکاة روک لیتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو قحط سالی میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ (المعجم الأوسط للطبراني، تحت من اسمہ عبدان، رقم الحدیث:۴۵۷۷)
 زکاة ادا کرنے سے مال میں کمی واقع نہیں ہوتی:
          نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” کہ میں تین چیزوں پر قسم کھاتا ہوں اور تمہیں ایک اہم بات بتاتا ہوں، تم اسے یاد رکھنا۔ارشاد فرمایا :کہ کسی بندے کا مال زکاة (و صدقہ ) سے کم نہیں ہوتا، جس بندے پر بھی ظلم کیا جاتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو اللہ تعالی اس کی عزت میں اضافہ فرماتے ہیں۔اور جو بندہ بھی سوال کا دروازہ کھولتا ہے تو اللہ تعالی اس پر فقر اور تنگ دستی کا دروازہ کھول دیتے ہیں“، یا نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کا کوئی جملہ ارشاد فرمایا۔اور میں ( صلی اللہ علیہ وسلم) تمہیں ایک اور خاص بات بتاتا ہوں، سو تم اسے یاد رکھنا، ارشاد فرمایا: ”دنیا تو چار قسم کے افراد کے لیے ہے:
          ایک اس بندے کے لیے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال اور دین کا علم ،دونوں نعمتیں عطا فرمائیں، تو وہ اس معاملہ میں اپنے رب سے ڈرتاہے(اس طرح کہ اس مال کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں استعمال نہیں کرتا اور علمِ دین سے فائدہ اٹھاتا ہے)اور اس علم ِدین اور مال کی روشنی میں رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اوراس (مال)میں اللہ تعالیٰ کے حق کو پہچانتا ہے۔(مثلاً: مال کو اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کرتا ہے، اور دینی علم سے دوسروں کو تبلیغ، تدریس اور افتاء وغیرہ کے ذریعے سے فائدہ پہنچاتا ہے)تو یہ شخص درجات کے اعتبار سے چاروں سے افضل ہے۔
          دوسرے اس بندے کے لیے کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم کی نعمت تو عطا فرمائی لیکن مال عطا نہیں فرمایا، لیکن وہ نیت کا سچا ہے اور کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں فلاں آدمی کی طرح عمل کرتا (جو کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھ کر عمل کرتا ہے) تو یہ شخص اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتاہے اور اس شخص کا اور اس سے پہلے شخص کا ثواب برابر ہے۔
          تیسرے اس بندے کے لیے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال کی نعمت عطا فرمائی، لیکن علم کی نعمت عطا نہیں فرمائی، تو وہ علم کے بغیر اپنے مال کو خرچ کرنے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا، اور نہ ہی اس مال سے صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی اس مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتاہے، تو درجات میں یہ سب سے بدتر بندہ ہے۔
          چوتھے اس بندے کے لیے ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال کی نعمت عطا فرمائی اور نہ علم کی ، تو وہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی اس مال کے سلسلے میں فلاں بندے کی طرح عمل کرتا (جواپنے مال کے خرچ کرنے میں اللہ سے نہیں ڈرتا اور نہ ہی صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ ہی مال میں اللہ تعالیٰ کے حق کو سمجھتا ہے)سو یہ بندہ اپنی نیت کے مطابق صلہ پاتا ہے؛ پس اس کا گناہ اور وبال اس پہلے شخص کے گناہ اور وبال کے مطابق ہی ہوتا ہے“۔(ترمذی شریف کتاب الزہد رقم الحدیث:۲۳۲۵، ۴/۵۶۲)
زکاة کن افراد پر اور کن افراد کے لیے ہے؟
          دنیا میں بسنے والے افراد کا جائزہ لیا جائے تو ان تما م افراد کو تین طبقات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
          (۱) مال دار افراد، جن پر مخصوص شرائط کے بعد زکاة فرض ہوتی ہے۔
          (۲) دوسرے غریب افراد، جن پرزکاة فرض نہیں ہوتی اور ان کے لیے زکاة لینا جائز ہے۔
          (۳)تیسرے وہ متوسط درجے کے افراد، جن پر زکاة تو فرض نہیں ہوتی؛ لیکن ان کے لیے زکاة لینا بھی جائز نہیں۔
          اب ان تینوں قسم کے افراد کو پہچاننے کے لیے کیا معیار اور کسوٹی ہے کہ اس کے مطابق ہر طبقے والا اپنی حالت اور کیفیت کو پہچان کر اس کے مطابق اپنے اوپر عائد احکامات ِ الٰہیہ کوپہچان کر پورا کر سکے،اس کے لیے دو چیزوں کا جاننا ضروری ہے: ایک تو وہ کون سی اشیاء یا اموال ہیں جن کے ہوتے ہوئے زکاة فرض ہوتی ہے؟ اور دوسرا وہ اشیاء یا اموال کتنی مقدار میں ہوں کہ ان کے ہوتے ہوئے کوئی شخص زکاة دینے والا یا زکاة لینے والا ٹھہرتا ہے؟ان میں سے پہلی چیز کو ”اموالِ زکاة “ اور دوسری چیز کو ”نصابِ زکاة “ سے پہچانا جاتا ہے۔ذیل میں اموال ِ زکاة اور نصاب ِ زکاة کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے:
اموالِ زکاة:
          اموالِ زکاة سے مراد وہ اشیاء یا اموال ہیں، جن کا(مخصوص مقدار میں)مالک ہونے پر(جس کو نصاب سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی تفصیل آگے آرہی ہے) زکاة فرض ہوتی ہے۔وہ کل چار قسم (کی اشیاء یا اموال) ہیں:
          (۱) سونا، عام ہے کہ وہ زیور کی شکل میں ہو، اینٹ ہو یا کسی برتن وغیرہ کی شکل میں ہو، چاہے استعمال میں ہو یا نہ ہو، خالص ہو یا اس میں کوئی کھوٹ یا ملاوٹ وغیرہ ہو، بہر صورت یہ (سونا)مال ِ زکاة ہے۔
          (۲) چاندی، عام ہے کہ وہ زیور کی شکل میں ہو، اینٹ ہو یا کسی برتن وغیرہ کی شکل میں ہو، چاہے استعمال میں ہو یا نہ ہو، خالص ہو یا اس میں کوئی کھوٹ یا ملاوٹ وغیرہ ہو، بہر صورت یہ (چاندی)مال ِ زکاة ہے۔
          (۳) نقدی، اپنے ملک کی ہو یا کسی اور ملک کی، اپنے پاس ہو یا بینک میں، چیک ہو یا ڈرافٹ،نوٹ ہو یا سکّے، کسی کو قرض دی ہوئی ہو(بشرطیکہ ملنے کی امید ہو)یا اس کی سرمایہ کاری کر رکھی ہو،ان تمام صورتوں میں یہ (نقدی) مال ِ زکاة ہے۔
          (۴) مال ِ تجارت، یعنی تاجِر کی دکان کا ہر وہ سامان جو بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہو اور تا حال اس کے بیچنے کی نیت باقی ہو،تو یہ (مال ِ تجارت)مال ِ زکاة ہے۔(اور اگر مذکورہ مال (مال ِ تجارت )کوگھر کے استعمال کے لیے رکھ لیا، یا اس کے بارے میں بیٹے یا دوست وغیرہ کو ہدیہ میں دینا طے کر لیا، یا پھرویسے ہی اس مال کے بارے میں بیچنے کی نیت نہ رہی تو یہ مال ،مالِ زکاة نہ رہا)۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاة،أموال الزکاة:۲/۱۰۰،دار إحیاء التراث العربي)
          یہ کل چار قسم کے اموال ہیں جن پر (مخصوص مقدار تک پہنچنے پر)زکاة فرض ہوتی ہے، البتہ اگر کوئی مقروض ہو تو قرضوں کی ادائیگی کے بعد بچنے والے اموال کی زکاة دی جائے گی۔
نصابِ زکاة:
          سطورِ بالا میں معاشرے کے تین طبقات کو بیان کیا گیا تھا،جن کی تمیز ”نصاب “کے مالک ہونے پر موقوف ہے، اس تمیز کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ نصاب دو قسم کا ہوتا ہے، ایک نصاب کا تعلق ”زکاة دینے والے “ سے ہے اور دوسرے نصاب کاتعلق ”زکاة لینے والے “ سے ہے، دونوں قسم کے نصابوں میں کچھ فرق ہے، جو ذیل میں لکھا جا رہا ہے:
پہلی قسم کا نصاب (زکاة دینے والے کے لیے)
          اللہ رب العزت نے اپنے غریب بندوں کے لیے امراء پر ان کے اموال کی ایک مخصوص مقدار پر زکاة فرض کی ہے، جس کو نصاب کہا جاتا ہے، اگر کوئی شخص اس نصاب کا مالک ہو تو اس پر زکاة فرض ہے اور اگر کسی کے پاس اس نصاب سے کم ہو تو اس شخص پر زکاة فرض نہیں ہے۔
          (۱) اگر کسی کے پاس صرف ”سونا“ ہو اور کوئی مال(مثلاً:چاندی، نقدی یا مال تجارت) نہ ہو تو جب تک سونا ساڑھے سات تولے (479ء87گرام)نہ ہو جائے اس وقت تک زکاة فرض نہیں ہوتی، اور اگر سونا اس مذکورہ وزن تک پہنچ جائے تو زکاة فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاة، صفةالزکاة:۲/۱۰۵،دار إحیاء التراث العربي)
          (۲) اگر کسی کے پاس صرف ”چاندی “ ہو اور کوئی مال (سونا ، نقدی یا مال تجارت) نہ ہو تو جب تک چاندی ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)نہ ہو جائے اس وقت تک زکاة فرض نہیں ہوتی، اور اگر چاندی اس مذکورہ وزن تک پہنچ جائے تو زکاة فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاة،أموال الزکاة:۲/۱۰۰،دار إحیاء التراث العربي)
          (۳)اگر کسی کے پاس صرف ”نقدی“ ہو اور کوئی مال (مثلاً: سونا ، چاندی، یا مالِ تجارت) نہ ہوتو جب تک نقدی اتنی نہ ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام) چاندی خریدی جاسکے ، اس وقت تک زکاة فرض نہیں ہوتی اور اگر نقدی اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو زکاة فرض ہو جاتی ہے۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاة،أموال الزکاة:۲/۱۰۳،دار إحیاء التراث العربي)
          (۴) اگر کسی کے پاس سونا اور چاندی ہو (چاہے جتنی بھی ہو) یا سونا اور نقدی ہو یا سونا اور مالِ تجارت ہو یا چاندی اور نقدی ہویا چاندی اور مالِ تجارت ہویا (تینوں مال)سونا، چاندی اور نقدی ہو یا سونا ، چاندی اور مالِ تجارت ہو یا(چاروں مال) سونا، چاندی ، نقدی اور مالِ تجارت ہو تو ان تمام صورتوں میں ان اموال کی قیمت لگائی جائے گی ، اگر ان کی قیمت ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تو زکاة واجب ہو گی ورنہ نہیں۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاة،صفة الزکاة:۲/۱۰۵،۱۰۶،دار إحیاء التراث العربي)
دوسری قسم کا نصاب (زکاة لینے والے کے لیے)
          اس نصاب میں مذکورہ نصاب (یعنی پہلی قسم کے نصاب کی تمام صورتوں )کے ساتھ ضرورت سے زائد سامان کو بھی شامل کیا جائے گا،اور یہاں بھی وہ تمام صورتیں بنیں گی جو پہلی قسم کے نصاب میں بنتی تھیں، مثلاً:
          (۱) اگر کسی کے پاس صرف ”سونا“ اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو تو ان دونوں قسم کے اموال کی قیمت لگائی جائے گی ،اگر ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاة لینا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔
          (۲) اگر کسی کے پاس صرف ”چاندی “ اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو اور کوئی مال (سونا ، نقدی یا مال تجارت) نہ ہوتو ان دونوں قسم کے اموال کی قیمت لگائی جائے گی اگر ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاة لینا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی واجب ہے۔
          (۳)اگر کسی کے پاس صرف ”نقدی“ اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو اور کوئی مال (مثلاً: سونا ، چاندی، یا مالِ تجارت) نہ ہوتو جب ان کی قیمت اتنی ہو جائے کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جاسکے، تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کو زکاة لینا جائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی واجب ہے۔ اور اگر ان دونوں کی قیمت اتنی نہ ہو کہ اس سے ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی خریدی جا سکے تو ایسے شخص کا زکاة لینا جائز ہے۔
          (۴) اگر کسی کے پاس سونا ،چاندی اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو (چاہے جتنا بھی ہو)۔
           (۵) اگر کسی کے پاس سونا ، نقدی اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو۔
           (۶) اگر کسی کے پاس سونا،مالِ تجارت اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو ۔
          (۷) اگر کسی کے پاس چاندی ، نقدی اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو۔
          (۸) اگر کسی کے پاس چاندی ، مالِ تجارت اورضرورت سے زائد سامان ہو۔
           (۹) اگر کسی کے پاس (چاروں مال)سونا، چاندی ، نقدی اور ”ضرورت سے زائد سامان“ہو۔
          (۱۰) اگر کسی کے پاس سونا ، چاندی ،مالِ تجارت ہو اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہو۔
          (۱۱) اگر کسی کے پاس (پانچوں مال)سونا،چاندی، نقدی ،مالِ تجارت اور ”ضرورت سے زائد سامان “ہوتوان تمام صورتوں میں ان تمام اموال کی قیمت لگائی جائے گی ، اگر انکی قیمت ساڑھے باون تولے (35ء612گرام)چاندی کی قیمت کے برابر ہو جائے تو اس مقدار کی مالیت کے مالک کا زکاة لیناجائز نہیں ہے اور ایسے شخص پر صدقہ فطر اور قربانی کرنا واجب ہے۔اور اگر مذکورہ صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہوتو ایسا شخص شریعت کی نگاہ میں صاحب نصاب نہیں کہلاتا، یعنی اس شخص کا زکاة اور ہر قسم کے صدقات ِ واجبہ لینا جائز ہو گا۔ (بدائع الصنائع،کتاب الزکاة، مصارف الزکاة:۲/۱۵۸،دار إحیاء التراث العربي)
ضرورت سے زائد سامان:
          وہ تمام چیزیں جو گھروں میں رکھی رہتی ہیں ، جن کی سالہا سال ضرورت نہیں پڑتی ، کبھی کبھار ہی استعمال میں آتی ہیں، مثلاً: بڑی بڑی دیگیں ، بڑی بڑی دریاں، شامیانے یا برتن وغیرہ۔ (الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الأول فی تفسیر الزکاة:۱/۱۷۴، رشیدیہ)
          الف:وی سی آر۔ ڈش ،ناجائز مضامین کی آڈیو ویڈیو کیسٹیں جیسی چیزیں ضروریات میں داخل نہیں ؛بلکہ لغویات ہیں۔مذکورہ قسم کا سامان ضرورت سے زائد کہلاتا ہے، اس لیے ان سب کی قیمت حساب میں لگائی جائے گی۔
          ب:رہائشی مکان ، پہننے، اوڑھنے کے کپڑے، ضرورت کی سواری اور گھریلو ضرورت کا سامان جو عام طور پر استعمال میں رہتا ہے، یہ سب ضرورت کے سامان میں داخل ہیں، اس کی وجہ سے انسان شرعاً مال دار نہیں ہوتا، یعنی ان کی قیمت نصاب میں شامل نہیں کی جاتی۔
(الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الأول فی تفسیر الزکاة:۱/۱۷۴، رشیدیہ)
          ج: صنعتی آلات، مشینیں اور دوسرے وسائل رزق (جن سے انسان اپنی روزی کماتا ہے)بھی ضرورت میں داخل ہیں ان کی قیمت بھی نصاب میں شامل نہیں کی جاتی، مثلاً:درزی کی سلائی مشین، لوہار اور کاشت کار وغیرہ کے اوزار، سبزی یا پھل بیچنے والی کی ریڑھی یا سائیکل وغیرہ۔(الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الأول فی تفسیر الزکاة:۱/۱۷۴، رشیدیہ)
          د:اگر کسی کے پاس ضرورت پوری کرنے کا سامان ہے؛ لیکن اس نے کچھ سامان اپنی ضرورت سے زائد بھی اپنے پاس رکھا ہوا ہے، مثلاً:کسی کی ضرورت ایک گاڑی سے پوری ہو جاتی ہے لیکن اس کے پاس دو گاڑیاں ہیں، تو اس زائد گاڑی کی قیمت کو نصاب میں داخل کیا جائے گا۔
(بدائع الصنائع،کتاب الزکاة،مصارف الزکاة:۲/۱۵۸،دار إحیاء التراث العربي)
زکاة واجب ہونے کے لیے تاریخ:
          زندگی میں سب سے پہلی بار جب کسی کی ملکیت میں پہلی قسم کے نصاب کے مطابق مال آجائے، تو وہ دیکھے کہ اس دن قمری سال (چاند )کی کون سی تاریخ ہے؟اس تاریخ کو نوٹ کر لے، یہ تاریخ اس شخص کے لیے زکاة کے حساب کی تاریخ کے طور پر متعین ہو گئی ہے۔واضح رہے کہ زکاة کے وجوب اور ادائیگی کے لیے قمری سال ہونا ضروری ہے ، اگر کسی کو قمری تاریخ یاد نہ ہو تو خوب غور و فکر کر کے کوئی قمری تاریخ متعین کر لینا چاہیے،آئندہ اسی کے مطابق حساب کیا جائے گا۔
زکاة کا حساب کرنے کا طریقہ:
          جس چاند کی تاریخ کو کسی کے پاس بہ قدر نصاب مال آیا ، اس سے اگلے سال ٹھیک اسی تاریخ میں اپنے مال کا حساب کیا جائے اگر بہ قدر (پہلی قسم کے )نصاب کے مال ہے تو اس کل مال کا اڑھائی فیصد (2.5%) زکاة دینا ہو گی۔(العالمگیریہ، کتاب الزکاة:۱/۱۷۵، رشیدیہ)
سامان کی قیمت لگانے کا طریقہ:
          ”پہلی قسم کا نصاب “اور ”دوسری قسم کا نصاب “پہچاننے کے طریقے میں جو یہ ذکر کیا گیا کہ ”دوسری قسم کے نصاب میں ضرورت سے زائد سامان کی قیمت لگائی جائے “ تو اس قیمت سے مراد اس سامان کی قیمت فروخت ہے نہ کہ قیمتِ خرید۔یعنی حساب کرنے کی تاریخ میں اس سامان کی قیمت لگوائی جائے جو عام بازار میں اس کی قیمت کے برابر ہواور عموماً اس قیمت پر وہ بک بھی جاتی ہو،اس کو نصاب میں شمار کیا جائے گا۔اسی طرح سونا ، چاندی کی بھی قیمت فروخت کا اعتبار ہو گا۔مثلاً: کراچی میں کسی شخص نے یہ چیز دس ہزار میں خریدی، پھر فروخت کرنے کے وقت اس کی قیمت پندرہ ہزار یا کم ہو کے سات ہزار ہو گئی تو فروخت والی قیمت کو زکاة کے لیے شمار کیا جائے گا۔ (رد المحتار، کتاب الزکاة،باب زکاة الغنم:۲/۲۸۶، سعید)
مال پر سال گذرنے کا مطلب:
          جس تاریخ میں زکاة واجب ہوئی تھی، اس کے ایک سال بعد زکاة دی جائے گی،اس ایک سال کے گذرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس پہلی تاریخ اور ایک سال کے بعد والی تاریخ میں مال نصاب کے بہ قدر اس شخص کی ملکیت میں رہے، ان دونوں تاریخوں کے درمیان میں مال میں جتنی بھی کمی بیشی ہوتی رہے ، اس سے کچھ اثر نہیں پڑتا، بس شرط یہ ہے کہ مال نصاب سے کم نہ ہو گیا ہو، یعنی مال کے ہر ہر جز پر سال کا گذرنا شرط نہیں ہے؛ بلکہ واجب ہونے کے بعد اگلے سال اسی تاریخ تک نصاب کا باقی رہنا ضروری ہے، اگر نصاب باقی ہوا تو ادائیگی لازم ہو گی ورنہ نہیں۔ (بدائع الصنائع، کتاب الزکاة،اموال الزکاة:۲/۹۶،دار إحیاء التراث العربي)
مالِ تجارت کی زکاة کے احکام:
          ”مال ِ تجارت سے مراد “پیچھے واضح کی جا چکی ہے کہ تاجِر کی دکان کا ہر وہ سامان جو بیچنے کی نیت سے خریدا گیا ہو اور تا حال اس کے بیچنے کی نیت باقی ہو،تو یہ (مال ِ تجارت)مال ِ زکاة ہے۔(اور اگر مذکورہ مال (مال ِ تجارت )کوگھر کے استعمال کے لیے رکھ لیا، یا اس کے بارے میں کسی کو ہدیہ میں دینا طے کر لیا، یا پھرویسے ہی اس مال کے بارے میں بیچنے کی نیت نہ رہی تو یہ مال ،مالِ زکاة نہ رہا)۔بعض افراد اس غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ تجارت کا مال صر ف و ہ ہے جس کی انسان باقاعدہ تجارت کرتا ہو، اور نفع کمانے کی نیت سے خرید و فروخت کرتا ہو؛حالانکہ شرعاً کسی چیز کے مالِ تجارت بننے کے لیے اس میں مذکورہ قید ضروری نہیں؛ بلکہ جو چیزبھی انسان فروخت کرنے کی نیت سے خریدے وہ تجارت کے مال میں شمار ہوتی ہے، البتہ خریدتے وقت فروخت کرنے کی نیت نہ ہوتو بعدمیں فروخت کر لینے کی نیت سے وہ چیز مالِ تجارت نہیں بنے گی۔دوسری طرف وہ چیز جسے تجارت کی نیت سے خریدا تھا اگر بعد میں تجارت کی نیت بدل لی تو وہ چیز مالِ تجارت سے نکل جائے گی۔سونا ، چاندی اور نقدرقم اس تعریف سے خارج ہے، یعنی ان کے لیے کسی خاص نیت وغیرہ کی ضرورت نہیں، یہ ہر حال میں مالِ زکاة ہیں۔(ردالمحتار،کتاب الزکاة: ۲/۲۶۷،سعید)
تجارتی اموال سے متعلق چند مسائل :
          (۱) جن اشیاء کو فروخت کرنا مقصود نہ ہو ؛ بلکہ ان کی ذات کو باقی رکھتے ہوئے ان سے کرایہ وغیرہ حاصل کرنا یا کسی اور شکل میں نفع کمانا مقصود ہو، تو وہ چیزیں مالِ تجارت میں داخل نہیں ہیں۔مثلاً: کارخانوں کا منجمد اثاثہ ، پرنٹنگ پریس، مشینری، پلانٹ، دوکان کا سامان ، استعمال کی گاڑی، ٹریکٹر، ٹیوب ویل، کرائے پر چلانے کی نیت سے خریدی گئی گاڑی، رکشہ وغیرہ، کرائے پر دینے کی نیت سے بنا یا گیا مکان یا دوکان وغیرہ،گھر کے استعمال کے برتن، کرائے پر دینے کے لیے رکھے ہوئے برتن ، کراکری کا سامان، فریج ، فرنیچر، سلائی یا دھلائی کی مشین، ڈرائی کلینرز کے پلانٹ وغیرہ۔اس قسم کی چیزیں چونکہ فروخت کرنے کی نیت سے نہیں خریدی گئیں؛بلکہ ان کو باقی رکھ کر ان سے نفع اٹھانا مقصود ہے؛ اس لیے یہ مالِ تجارت میں داخل نہیں ہوں گی اور ان پر زکاة واجب نہیں ہوگی، ہاں اگر ان کو خریدا ہی فروخت کرنے کے لیے ہو تو یہ مالِ تجارت ہو ں گی۔ اسی طرح موجودہ دور میں بعض مکینک حضرات اپنے کام کاج کے اوزاروں کے ساتھ بعض اوزاروں کو اس لیے خریدتے ہیں کہ بہ وقتِ ضرورت گاہکوں کی مشینری وغیرہ میں فٹ کر دیں گے، اور اس کی قیمت گاہکوں سے وصول کر لیں گے، تو یہ مال بھی مالِ تجارت میں داخل ہے۔ (ردالمحتار، کتاب الزکاة: ۲/۲۶۷،سعید)
          (۲) اگر کوئی جانور بیچنے کے لیے خریدے تو وہ بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں،ان کی زکاة بھی واجب ہو گی(احسن الفتاویٰ:۴/۲۸۶)
          قصاب جو جانور ذبح کر کے گوشت بیچتے ہیں تو یہ جانور بھی مالِ تجارت میں داخل ہیں۔جو جانور دودھ حاصل کرنے کے لیے خریدے تو وہ مالِ تجارت میں داخل نہیں ہیں؛ البتہ ان کے دودھ سے حاصل ہونے والی کمائی نقد رقم میں داخل ہو کر نصاب کا حصہ بنے گی۔(احسن الفتاویٰ:۴/۲۸۷)
          (۳) اگر کسی کا پولٹری فارم یا مچھلی فارم ہو،تو ان کی زکاة میں یہ تفصیل ہے کہ ان کی زمین، مکان اور ان سے متعلقہ سامان پر تو زکاة فرض نہیں ہوتی،البتہ مرغیاں یا مچھلیاں اگر فروخت کرنے کے لیے رکھی ہیں تو یہ مالِ تجارت ہیں اوراگر فروخت کرنے کے لیے نہیں،بلکہ مرغیوں کے انڈے حاصل کرنے کے لیے وہ مرغیاں رکھی ہیں تو ان انڈوں سے حاصل ہونے والی آمدنی پر زکاة ہو گی۔(احسن الفتاویٰ:۴/۳۱۰)جو شخص انڈے فروخت کرنے کے لیے خریدتا ہے تو وہ انڈے مالِ تجارت ہیں،اور اگر ان انڈوں سے چوزوں کا حصول مقصود ہے تو ان بچوں کی قیمت پر زکاة لازم ہوگی۔
سامانِ تجارت کی قیمت لگانے کا طریقہ:
          ”پہلی قسم کا نصاب “اور ”دوسری قسم کا نصاب “پہچاننے کے طریقے میں جو یہ ذکر کیا گیا کہ ”دوسری قسم کے نصاب میں ضرورت سے زائد سامان کی قیمت لگائی جائے “ تو اس قیمت سے مراد اس سامان کی قیمت فروخت ہے نہ کہ قیمتِ خرید۔یعنی حساب کرنے کی تاریخ میں اس سامان کی قیمت لگوائی جائے جو عام بازار میں اس کی قیمت کے برابر ہواور عموماً اس قیمت پر وہ بک بھی جاتی ہو،اس کو نصاب میں شمار کیا جائے گا۔ (رد المحتار، کتاب الزکاة،باب زکاة الغنم:۲/۲۸۶، سعید)
قرض پر زکاة کا حکم:
          جو رقم کسی کو بطور قرض دی ہو ، اس کی دو قسمیں ہیں :ایک تووہ قرض ہے ، جس کے (کبھی نہ کبھی)واپس ملنے کی امید ہو ۔ دوسرا وہ قرض ہے ،جس کے واپس ملنے کی (کبھی بھی)امید نہ ہو ۔
           تو پہلی قسم والے قرض کی زکاة دی جائے گی اور دوسری قسم کے قرض کی زکاة نہیں دی جائے گی؛البتہ اگر کبھی یہ قرض بھی وصول ہو گیا تو اس کی بھی زکاة ادا کی جائے گی۔(ہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الاول:۱/۱۷۴، ۱۷۵، رشیدیہ)
قرض کی تین قسمیں:
          پہلی قسم والے قرض کی تین قسمیں ہیں: (۱)دَین قوی (۲) دَین متوسط (۳) دَین ضعیف۔ ان تینوں قسم کے دُیون (قرضوں) کے وصول ہونے پر زکاة کی ادائیگی کا طریقہ اور حکم قدرے مختلف ہے، ذیل میں اجمالاً دَین کی تینوں قسموں پر روشنی ڈالی جاتی ہے:
دَین قوی کا حکم:
          اگر کسی شخص کونقد روپیہ یا سونا یا چاندی بہ طور ِ قرض دی،یا کسی شخص کے ہاتھ تجارت کا مال بیچا اور اس کی قیمت ابھی وصول نہیں ہوئی،پھر یہ مال ایک سال یا دو، تین سال کے بعد وصول ہوا تو ایسے قرض کو ”دَینِ قوی“ کہتے ہیں۔
          ایسا قرض اگرچاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہے تو وصول ہونے پر سابقہ تمام سالوں کی زکاة حساب کر کے دینا فرض ہے، لیکن اگر قرض یک مُشت وصول نہ ہو ،بلکہ تھوڑا تھوڑا وصول ہو ، تو جب چاندی کے نصاب کا بیس فی صد (یعنی: ساڑھے دس تولے)وصول ہو جائے، تو صرف اس بیس فی صدکی زکاة ادا کرنا فرض ہو گا، پھر جب مزید بیس فی صدوصول ہو جائے گا تو اس کی زکاة ادا کرنافرض ہو گی، اسی طرح ہر بیس فی صد وصول ہونے پرزکاةفرض ہوتی رہے گی اور زکاة سابقہ تمام سالوں کی نکالی جائے گی۔
          اور اگر قرض کی رقم چاندی کے نصاب کے برابر نہیں؛ بلکہ اس سے کم ہے تو اس پر زکاة فرض نہیں ہو گی؛ البتہ اگر اس آدمی کی ملکیت میں کچھ اور مال یا رقم ہے اور دونوں کو ملانے سے چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو جاتے ہیں تو زکاة فرض ہو گی۔(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الزکاة، باب زکاة المال:۲/۳۰۵،۳۰۶،۳۰۷، سعید)
دَین متوسط کا حکم:
          اگر کسی کو قرض نقد روپے اور سونا چاندی کی صورت میں نہیں دیا اور تجارت کا مال بھی فروخت نہیں کیا، بلکہ کوئی چیز فروخت کی جو تجارت کی نہیں تھی، مثلاً:پہننے کے کپڑے یا گھر کا کوئی سامان یا کوئی زمین فروخت کی تھی،اس کی قیمت باقی ہے، تو ایسے قرض کو ”دَین ِمتوسط “کہتے ہیں۔
          تو اگر یہ قیمت چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہے اور چند سالوں کے بعد وصول ہوئی تو وصول ہونے پر سابقہ تمام سالوں کی زکاة اس پر فرض ہو گی اور اگر یک مُشت وصول نہ ہو تو جب تک یہ قرض چاندی کے نصاب کے برابر یا اس سے زائد وصول نہ ہو جائے، تب تک زکاة ادا کرنا فرض نہ ہو گا، البتہ وصول ہونے کے بعد گذشتہ تمام سالوں کی زکاة ادا کرنا فرض ہے۔
          اگر مذکورہ شخص صاحبِ نصاب ہو تو ”دَین متوسط“ سے جو بھی تھوڑی تھوڑی رقم ملتی رہے، اس کو اپنے پاس موجود نصاب میں ملاتا رہے اور زکاة دے۔(العالمگیریہ، کتاب الزکاہ، باب اقسام الدیون:۱/۱۷۵، رشیدیہ)
دَین ِ ضعیف کاحکم:
          کسی شخص کو نہ نقد روپیہ قرض دیا، نہ سونا چاندی فروخت کی اور نہ ہی کوئی اور چیز فروخت کی، بلکہ کسی اور سبب سے یہ قرض دوسرے کے ذمے ہو گیا، مثلاً: شوہر کے ذمے اپنی بیوی کا حق مہر ادا کرنا باقی ہو، یا بیوی کے ذمے شوہر کا بدلِ خلع ادا کرنا باقی ہو،یا کسی کے ذمے دیت ادا کرنا باقی ہو یا کسی مالک کے ذمے اپنے ملازم کی تنخواہ دینا باقی ہو ، تو ایسے قرضوں کو ”دَین ِ ضعیف“ کہتے ہیں۔
          ایسے قرضوں پر زکاة کی ادائیگی کا حکم یہ ہے کہ ان اموال کی زکاة کا حساب وصول ہونے کے دن سے ہو گا، اس شخص پر سابقہ سالوں کی زکاة فرض نہیں ہو گی۔وصول ہونے کے بعد اگر یہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہو تو اس نصاب کے ساتھ اس مال کو ملا کے زکاة ادا کرے گا، ورنہ وصول ہو جانے کے بعد اس مال پر سال گذر جانے کے بعد زکاة ادا کرے گا۔(فتح القدیر، کتاب الزکاة: ۲/۱۲۳، رشیدیہ)
          اور جو ادھار خود لیا ہوا ہے ،اس کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ فورا ً سارے کا سارا ادا کرنا لازم ہے، تو اس کو نصاب سے منہا کیا جائے گا، دوسری قسم یہ کہ یک مشت اس کل رقم کی ادائیگی لازم نہیں بلکہ قسطوں میں ادا کرنا ہے تو صرف اس مہینے کی قسط نصاب سے منہا کی جائے گی۔اس کے علاوہ قرض اگر تجارت کے لیے لیا ہے تو اس کی بھی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ کسی عمارت ، بلڈنگ یا مشینری وغیرہ کے لیے لیاہے تو اسے نصاب سے منہا نہیں کیا جائے گا اور اگر محض تجارت کے لیے لیا ہے تو اسے نصاب سے منہا کیا جائے گا۔(رد المحتار، کتاب الزکاة:۲/۲۶۳، سعید)
بینکوں سے زکاة کاٹنے کا حکم:
          حکومت کے آرڈینیس کے تحت حکومت بینکوں سے لوگوں کی رقمیں زکاة کی مد میں کاٹتی ہے۔شرعاً اس طریقے سے زکاة کی ادائیگی نہیں ہوتی، حکومتِ وقت کے اس طرح زکاة کاٹنے میں شرعاً دس خرابیاں ہیں، جنہیں فتاویٰ بینات جلد دوم ،ص:۶۳۵-۶۴۰ میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے، بہ وقتِ ضرورت وہاں مراجعت کرلی جائے۔(فتاویٰ بینات،کتاب الزکاة، حکومت کا مسلمانوں سے زکاة وصول کرنا :۶۴۰-۶۳۵ ، مکتبہ بینات)
کمیٹی کی رقم پر زکاة کا حکم:
          کچھ افراد مل کے کمیٹی ڈالتے ہیں، کچھ ممبروں کی کمیٹی پہلے نکل آتی ہے،مثلاً: بیس افراد نے مل کر ایک ایک ہزار روپے جمع کر کے کمیٹی ڈالی، ان میں سے ایک کی کمیٹی پہلے نکل آئی، اب اس شخص کے پاس انیس ہزار روپے دوسروں کے ہیں اور ایک ہزار اپنا، تو یہ شخص اگر صاحب نصاب ہے تو یہ اپنے ایک ہزار روپے کو اس نصاب میں داخل کرے گا، انیس ہزار کو نہیں،اسی طرح ہر ممبر صرف اتنی رقم نصابِ زکاة میں جمع کرے گا، جتنی اس نے ابھی تک جمع کروائی تھی، البتہ آخری شخص پورے بیس ہزار کو اپنے نصاب میں شامل کرے گا، اور اگر یہ مذکورہ افراد صاحبِ نصاب نہ ہوں تو اس نکلنے والی کمیٹی کی رقم پر زکاة واجب نہیں ہو گی۔(الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الزکاة، الباب الأول فی تفسیر الزکاة: ۱/۱۷۳، رشیدیہ)
خلاصہ کلام:
          آخر میں بطورِ خلاصہ ان تمام اثاثوں کا ذکر کیا جاتا ہے، جن پر زکاة واجب ہوتی ہے اور جن پر واجب نہیں ہوتی:
وہ اثاثے جن پر زکاة واجب ہوتی ہے:
          (۱) سونے کی مارکیٹ ویلیو(خواہ سونا زیور کی صورت میں ہو، یا کسی بھی شکل میں ہو)۔ (۲) چاندی کی مارکیٹ ویلیو (خواہ چاندی زیور کی صورت میں ہو یا کسی بھی شکل میں ہو)۔(۳) نقد رقم۔ (۴) کسی کے پاس رکھی گئی امانت (خواہ رقم ہو یا سونا، چاندی)۔(۵)بینک بیلنس۔(۶) غیر ملکی کرنسی کی مارکیٹ ویلیو۔ (۷) کسی بھی مقصد (مثلاً: حج ، بچوں کی شادی یا مکان وغیرہ کی خریدنے) کے لیے رکھی ہوئی رقم۔(۸) حج کے لیے جمع کروائی ہوئی وہ رقم ،جو معلم کی فیس اور کرایہ جات وغیرہ کاٹ کر واپس کر دی جاتی ہے۔ (۹) بچت سرٹیفکیٹ مثلاً: NIT،NDFC،FEBC، کی اصل رقم (اگرچہ ان کا خریدنا ناجائز ہے)۔(۱۰) پرائز بانڈز کی اصل قیمت (اگرچہ ان کی خرید و فروخت اور ان پر ملنے والا انعام جائز نہیں ہے) ۔(۱۱) انشورنس پالیسی میں جمع کردہ اصل رقم (اگرچہ مروجہ انشورنس کی تمام صورتیں ناجائز ہیں)۔ (۱۲) قرض دی ہوئی رقم(بشرطیکہ واپس ملنے کی امید ہو)۔ (۱۳) کسی بھی مقصد کے لیے دی ہوئی ایڈوانس رقم، جس کا اصل یا بدل اسے واپس ملے گا۔ (۱۴) سیکورٹی ڈیپازٹ کے طور پر جمع کردہ رقم۔ (۱۵) بی سی (کمیٹی)میں جمع کروائی ہوئی رقم(بشرطیکہ ابھی تک کمیٹی نکلی نہ ہو)۔ (۱۶) تجارتی یا تجارت کی نیت سے خریدے گئے حصص۔ (۱۷) شرکت والے معاملے میں اپنے حصے کے قابلِ زکاة اثاثوں کی رقم مع نفع۔ (۱۸) بیچنے کے لیے خریدا ہوا سامان، جائیداد، حصص اور خام مال۔ (۱۹) تجارت کے لیے خریدی ہوئی پراپرٹی۔ (۲۰) ہر قسم کے تجارتی مال کی مارکیٹ ویلیو (یعنی: قیمتِ فروخت)۔ (۲۱) فروخت شدہ چیزوں کی قابلِ وصول رقم۔ (۲۲) تیار مال کا اسٹاک۔ (۲۳) خام مال۔
جو رقم مالِ زکاة سے منہا کی جائے گی:
          (۱) ادھار لی ہوئی رقم۔ (۲) خریدی ہوئی چیز کی واجب الاداء قیمت۔ (۳) کمیٹی حاصل کرنے کے بعد بقیہ اقساط کی رقم۔ (۴) ملازمین کی تنخواہ ، جس کی ادائیگی اس تاریخ تک لازم ہو چکی ہے۔ (۵) یوٹیلٹی بلز، کرایہ وغیرہ جن کی ادائیگی اس تاریخ تک لازم ہو چکی ہو۔ (۶) گزشتہ سالوں کی زکاة اگر ابھی تک اداء نہ کی گئی ہو۔ (۷) قسطوں پر خریدی ہوئی چیز کی واجب الاداء قسطیں۔
          اب ماقبل میں ذکر کیے گئے ”وہ اثاثے جن پر زکاة واجب ہوتی ہے“ کی تمام صورتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی کل قیمت جمع کر لیں ، پھر ”جو رقم مالِ زکاة سے منہا کی جائے گی“ میں ذکر کی گئی صورتوں کے ہونے کی صورت میں تمام چیزوں کی قیمت جمع کر کے پہلی رقم میں سے گھٹا لیں، اب جو رقم باقی بچے ، اس کا چالیسواں حصہ(یعنی : ڈھائی فی صد )بطورِ زکاة نکال کر مستحقین تک پہنچائیں۔
ناقابلِ زکاة اثاثے:
          (۱) رہائشی مکان، ایک ہو یا زیادہ۔ (۲) دوکان ؛ البتہ دوکان کا مال مالِ زکاة ہوتا ہے۔ (۳) فیکٹری کی زمین ، بشرطیکہ فروخت کی نیت سے نہ لی گئی ہو۔ (۴) دوکان، گھر، فیکٹری کا فرنیچر۔ (۵) زرعی زمین ، بشرطیکہ فروخت کی نیت نہ ہو۔(۶) کرایہ پر دیا ہوا مکان ، دوکان یا فلیٹ۔ (۷) مکان ، دوکان، اسکول یا فیکٹری بنانے کے لیے خریدا ہوا پلاٹ۔ (۸) کرایہ پر چلانے کے لیے ٹرانسپورٹ گاڑی، مثلاً: ٹیکسی ، رکشہ یا بس وغیرہ۔
***





اسلام کا نظامِ کفالتِ عامہ
آج سے چودہ سو تیس سال قبل جب دنیا موجودہ وقت سے زیادہ غیر متمدّن اور ظلمت و جہالت کا شکار تھی، معاشرے کا ہر ہر شعبہ اِفراط و تفریط کا شکار ہو چکا تھا ، غریب اور کمزوروں سے جینے کا حق چھین لیا گیا تھا، الغرض ہر شعبہ اور ہر طبقہ بہت زیادہ کسم پُرسی کا شکار ہو چکا تھا ، اِن تمام حالات کے درمیان نظامِ معاش بھی ہر طرح کی ناہمواریوں کا شکار تھا، ایسے میں جب نااُمیدی کے بادل پورے آسمان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھے ، ایک آفتاب وماہتاب ایک طریقہ زندگی لے کر نمودار ہوا اور ظلمت سے بھری دنیا کے گوشے گوشے کو نورانیت سے بھر گیا، بہت ہی قلیل مدت 23 سال کے عرصہ میں اس ”طریقہ زندگی“ (جسے ”اسلام“ کہتے ہیں )نے اپنا لوہا منوا لیااور ہر میدان میں ایسا نظام پیش کیا کہ دنیا امن کا گہوارہ بن گئی ، شیراور بکری ایک ہی گھاٹ پر پانی پیتے نظر آنے لگے،امرا کو عزت ملی تو غریبوں کو سکون اور آسائش ملی، ہر فرد دوسرے کے غم کو اپنا غم اور دوسرے کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے لگا، حتی کہ پورا معاشرہ ایک جسد ِ واحد کانظارہ پیش کرنے لگا، جس کے ایک حصے کی تکلیف کو محسوس کرنے والا صرف ایک عضو ہی نہیں ہوتا ،بلکہ پورا جسم ہوتا ہے۔

ان طریقہ ہائے زندگی میں سے اسلام کا نظام ِ کفالت یا نظام ِ تکافل بھی ہے،جو ایسا جامع نظام ہے جس کے تحت ایسا معاشی نظام قائم ہو گا،جس میں بلا کسی تخصیص وامتیاز ، معاشرے کے ہر فرد کو، کسی نہ کسی شکل میں، اتنا سامان ِ معاش ہر حال میں میسر ہو جائے ، جس کے بغیر عام طور پر کوئی انسان نہ اطمینان کے ساتھ زندہ رہ سکتا ہے اور نہ ہی اپنے متعلقہ فرائض وحقوق سر انجام دے سکتا ہے، اس نظام کے تحت ملکی و قومی دولت کی گردش کا دائرہ کار چند اغنیاء اور بڑے مالدار لوگوں کے درمیان محدود نہ ہونے پائے کہ دوسرے ان کے رحم وکرم کے محتاج ہوں، بلکہ اس صورت میں تو اور بھی خصوصیت کے ساتھ اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے، کہ معاشرے کے وہ افراد جو مسکین ، محتاج اور نادار ہوں اور کسی طبعی عذر کی وجہ سے معذور ہوں، جس کی وجہ سے کوئی معاشی کام کرنے اور اپنے لیے خودروزی کمانے کے لائق نہ ہوں،یا مناسب روزگار نہ ملنے کی وجہ سے حالت ایسی ہو گئی ہو تو ایسے ضرورت مند افراد کی ”معاشی کفالت“ حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہے اور اسی طرح جو اُن کے عزیز و اقربا ہیں ، اُن کے ذمہ اِن کی کفالت ہوگی اور معاشرے کے جو دیگر مال دار لوگ ہیں وہ صدقات ِ واجبہ و نافلہ اور عطیات سے ایسے افراد کی کفالت کا انتظام کریں گے۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے :
اسلام افراد ِ معاشرہ کے درمیان جس معاشی مساوات کو پیدا کرنا چاہتا ہے وہ یہ نہیں کہ معاشرے کے تمام افراد کے درمیان مال و دولت یکساں اور برابر ہو، جتنی اور جیسی ایک فرد کے پاس ہو اتنی اور ویسی ہی تمام افراد کے پاس ہو،کیوں کہ ایسی مساوات ،خیالی دنیا میں تو ہو سکتی ہے ،لیکن حقیقت کی دنیا میں نہیں ہو سکتی، اسلام جس مساوات کو چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ مال و دولت کی کمی بیشی کے ساتھ ساتھ افراد ِ معاشرہ کے معیار ِ زندگی اور مظاہر ِ معیشت میں زیادہ سے زیادہ یکسانیت اور برابری ہو،لہذٰا اسلام غنی کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنا زائد اور اضافی مال راہِ خدا اور مصارفِ خیر میں خرچ کر کے اللہ تعالی کی خوش نودی اورروحانی عظمت اور اخلاقی برتری حاصل کرے۔


اس کے بعد یہ جاننا بھی نہایت ضروری ہے کہ مغربی دنیا اور بعض جدّت کی طرف مائل مسلم دانش ور بھی یہ پروپیگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ”اسلام نے کوئی معاشی نظام نہیں دیا “ ان کا یہ کہنا انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے ، اس لیے کہ معیشت کا تعلق حصولِ رزق اور پیدائش ِ دولت سے ہے، اور یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کھانے پینے، پہننے،اوڑھنے اور رہنے سہنے کے لیے انتظام کیا جانا انسانی تاریخ کا اتنا قدیم عنصر ہے جتنی دنیا کی تاریخ ، تو کیا ایسا ممکن ہے کہ اسلام آنے کے بعد ہزار سال تک(جو کہ دنیا میں اسلام کے عروج کا دور ہے) لوگ ضروریات ِ زندگی سے محروم تھے؟!

ہر گز نہیں!بلکہ حضراتِ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا مختصر دور توہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے، کہ جو نظام محض 23 سال میں انہوں نے پوری دنیا میں متعارف کرا کے رائج بھی کر دیا اوروہ 32 سال تک اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم رہا ، پھر غیروں کی سازشوں اور کوششوں سے اِس نظام کے ختم ہونے تک ایک ہزار برس لگ گئے، یعنی جو فلسفہ معاش ساتویں صدی عیسوی میں انسانیت کے سامنے آیا اُس کے اثرات سترہویں صدی عیسوی تک بھی مٹائے نہ جا سکے اور آج بیسویں صدی میں بھی دنیا کی ایک بڑی آبادی اِس نظام کو اپنائے ہوئے ہے، پھر اِس نظام کو فرسودہ کیونکر کہا جا سکتا ہے؟!

اسلامی نظام ِ معاش و نظامِ کفالت کو برباد کرنے کے لیے سالہا سال کوششیں ہوئیں ، منصوبے بنے ، اُن پر عمل ہوا اور ایک حد تک اِن اسلام دشمن عناصر کو کام یابی بھی ہوئی، اُن منصوبوں میں سے ایک منصوبہ ”نظام ِ انشورنس “ بھی ہے جو اسلام کے نظامِ کفالت ِ عامہ کو ختم کرنے کے لیے وجود میں آیا ، ایک نظر اِس مغربی نظام ِ انشورنس کے مقاصد پر ڈال لی جائے، تا کہ اس کے مقابل اسلام کے نظام کفالت کی جامعیت اور افادیت پوری طرح واضح ہو جائے۔

نظام انشورنس سماجی اور معاشی تحفظ کا ضامن نہیں بن سکتا، کیوں کہ اِس کا دائرہ کار انتہائی محدود ہے، اگر کچھ تھوڑا بہت نظر آرہا ہے تو محض اِن ہی افراد کے لیے یہ نظام ہے، جو کمپنی کی پالیسی لیتے ہیں ، یہ وہ افراد ہوتے ہیں جو عام طور پر سرمایہ دار ہی ہوتے ہیں ، اِس نظام میں ایسے طبقہ یا افراد کے لیے کوئی حصہ نہیں ہے، جو اُن کے پالیسی ہولڈر نہیں ہیں، جو معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں، ایسے افراد کو سہارا دینے کا، ان کاساتھ دینے کا،ان کو چلانے کا، گرے پڑے ہووٴں کو اٹھانے کا کوئی پروگرام یا کوئی حصہ نہیں ہے، جو معاشی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں ، اِس نظام میں نہ یتیم بچوں کے سروں پر رکھنے کے لیے دستِ شفقت ہے (کیوں کہ ان کا باپ پالیسی ہولڈر نہیں تھا)اور اُس بیوہ کے لیے کھانے کے ایک لقمہ کا بھی انتظام نہیں ہے ، جس کا مزدور خاوند بیمہ کمپنی میں اپنایا اپنی اس بیوہ کا بیمہ نہ کرا سکا تھا، اِس نظام میں اُن غربا اور مساکین کے لیے کوئی پالیسی یا انتظام نہیں ہے، جو مکان نہ ہونے کے باعث کھلے آسمان تلے زندگی بسر کر رہے ہیں یا دن بھر مزدوری نہ ملنے کے سبب بھوکے سونے پر مجبور ہیں ، ایسا کیوں ؟؟ اِس لیے کہ وہ بیمہ کمپنی کے ممبر نہیں ہیں ، اُن کے پاس اِن کی اَقساط ادا کرنے کے لیے وسائل نہیں ہیں۔

مذکورہ تفصیل کے بعد یہ بات کھل کے سامنے آجاتی ہے، کہ” نظام ِ انشورنس“ جس پر آج مغرب فخر کر رہا ہے اور غریبوں کو اپنا محسن ہونا بتا رہا ہے ، جس کے پُر فریب اور پُرکشش اشتہارات ”ہر فکر کو دور کیجیے“ اور ”غم کو اپنے قریب بھی نہ پھٹکنے دیں“ کا سبق پڑھا رہے ہیں ، دراصل یہ (نظام) مذموم سرمایہ کاری کی کوکھ سے جنم لینے والا ایک نیا نظام استحصال، دولت کو اپنے پاس جمع کرتے رہنے کا جدید حیلہ اور عالمِ اسلام میں یہودی کاروبار کو فروغ دینے والا ذہنی ، فکری و عملی منصوبہ ہے ، جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ”امیر کے لیے سب کچھ اور نادار و بے کَس غریب کے لیے کچھ نہیں“۔ 

اِس کے بر عکس اسلام کے نظام ِ کفالت ِ عامہ کو پہچانیے اور اِس کی جامعیت اور کاملیت کا بڑی بیدارمغزی اور پوری بصیرت سے جائزہ لیجیے کہ کتنادودھ اور کتنا پانی ہے؟! جِس کا مقصد اسلامی ریاست کے متمول ، صاحب ِ ثروت افراد سے جائز اور شرعی طریقے سے لے کر اور غربا ومساکین اور معذورین سے کچھ بھی نہ لے کر، مملکت و ریاست کے تمام باشندوں (بلا تمیز مسلم و کافر )کی ہر قسم کی سماجی ، معاشرتی، و معاشی حاجات و ضروریات کی کفالت ، غیر متوقع پیش آمدہ حادثات کا تحفظ اور نقصانات کی تلافی کی ضمانت دینا ہے۔

یہ نظام (کفالت )اس معاشی نظام کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد محض معاشی کفالت نہیں، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ امن و سلامتی کی ضمانت دینا ہے،اس (اسلامی نظام ) کا رکن بننے کے لیے کوئی قسطیں ، کوئی فیس نہیں ادا کرنا پڑتی ،بلکہ صرف احکاماتِ الٰہیہ کے سامنے سر تسلیم ِ خم کرتے ہوئے اسلام کو بحیثیت ضابطہ حیات تسلیم کرنا ، امرا کا جائز شرعی واجبات (زکاة ، صدقات واجبہ، عشر وغیرہ) ادا کرنا اور پوری زندگی الله کا بندہ بن کر رہنا ہے اور بہ صورت ِ ذمی،اسلامی ریاست کا وفادار شہری بن کر رہنا اور معمولی جزیہ کا ادا کرنا ہے۔

اسلام جس قسم کا نظام ِ کفالت پیش کرتا ہے، اس میں اوّلیت اس بات کو دی گئی ہے کہ اسلامی ریاست کا کوئی شخص بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہے، اس نظام میں امیر کو ترغیب دے کر اور آخرت کا خوف دلا کر یہ درس دیا جا تا ہے کہ وہ غریب اور محروم المعیشت تک اس کی ضروریاتِ زندگی پہنچائے، جو شخص مفلس اور نادار کی حاجت روائی نہ کرے وہ کامل مسلمان ہی نہیں۔

قرآن ِ پاک کا معاشی نظام سے متعلق اُسلوب
اسلام میں کمال حاصل کرنے کے لیے جن صفات کا ہونا ضروری ہے، اُن میں سے ایک صفت غرباء کو کھانا کھلانے کی تلقین بھی ہے،ملاحظہ ہو:

﴿أرء یت الذي یکذب بالدّین فذٰلک الذي یدع الیتیم ولا یحض علی طعام المسکین﴾۔ (الماعون:1 تا3)

ترجمہ:”کیا تو نے ایسے شخص کو دیکھا جو جزا و سزا کا منکر ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا کھلانے کی تلقین نہیں کرتا“۔

دیکھیے !غریب کو خود کھانا کھلانے سے انکار تو دور کی بات ہے، یہاں تو اگر کوئی فرد کسی دوسرے متمول شخص کو کسی بھوکے شخص کوکھانا کھلانے کی تلقین نہیں کرتا تب بھی اسے صحیح اور کامل دین دار قرار نہیں دیا جارہا۔

ایک اور جگہ تو بہت سخت لہجے میں فرمایا گیا:
﴿خذوہ فغلوہ ثم الجحیم صلّوہ ثم في سلسلة ذرعھا سبعون ذراعاً فاسلکوہ إنہ کان لا یوٴمن باللہ العظیم ولا یحض علی طعام المسکین﴾۔ (الحاقة:30 تا34)

ترجمہ: ”اسے پکڑو اور اس کے گلے میں طوق ڈالو، پھر اسے جہنم میں داخل کرو، پھر اسے ستر گز لمبی زنجیر میں جکڑدو، یقینا یہ وہی ہے جو خدائے بزرگ و بر تر پر ایمان نہیں لایا تھا اور نہ ہی محتاج کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا تھا“۔

ایک اور جگہ ایمان والوں کی صفات ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا:

﴿ویطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکیناً و یتیماً وأسیراً ﴾․ (الدھر:۸)

ترجمہ:”اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں (اپنا) کھانا مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھلاتے ہیں“۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
﴿في أموالہم حقٌ معلومٌ للسائل والمحروم﴾․ (المعارج:24،25)

ترجمہ:”ان کے اموال میں ایک مقررہ حصہ ہے، مانگنے والے کا اور ہارے ہوئے کا“۔

مذکورہ آیات میں امرا کے لیے ایک راہِ عمل متعین کر دی گئی اور پھر دوسرے طرز پر مقصد یہ بتایا گیاکہ:

﴿کي لا یکون دولةً بین الأغنیاء منکم﴾․(الحشر:۷)

ترجمہ:”تاکہ وہ (دولت)تمہارے مال داروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتی رہے“۔

آیت ِ کریمہ میں اسلامی معاشرے اورحکومت کی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی قاعدہ بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ مال صرف مال داروں میں ہی گھومتا رہے،یا امیر! روز بروزامیر تر اور غریب دن بدن غریب تر ہوتے چلے جائیں، اس مقصد کے لیے سود حرام کیا گیا، زکوٰة فرض کی گئی، مالِ غنیمت میں خُمس مقرر کیا گیا، صدقات کی ترغیب دی گئی، مختلف قسم کے کفارات کی ایسی صورت تجویز کی گئی جِن سے غریب افراد کی خاطر خواہ دل داری اور حاجت براری ہو سکے ، میراث کا ایسا قانون بنایا گیاکہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میں پھیل جائے ، اخلاقی حیثیت سے بخل کو سخت قابلِ مذمت اور سخاوت و فیاضی کو بہترین صفت قرار دیا گیا ، الغرض وہ تمام انتظامات کیے گئے کہ دولت پر بااثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ ہو اور دولت کا بہاوٴ امیروں سے غریبوں کی طرف بھی ہو جائے۔

احادیث ِ مبارکہ کا معاشی نظام سے متعلق اُسلوب
سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہے کہ یہ افرادِ معاشرہ سے سخاوت کو بالکلیہ ہی ختم کر دیتا ہے، چناں چہ اِس نظام کی کسی بھی کتاب کو اُٹھا کے دیکھ لیا جائے کہ اس میں سخاوت و فیاضی کا کوئی ایک بھی عنوان ڈھونڈنے سے نہ مل سکے گا ، اس کی وجہ یہی ہے کہ اس نظام کا خمیر ہی بخل اور امساک سے اٹھایا گیا ہے، جب کہ سخاوت و فیاضی کریمانہ اَخلاق کے وہ حصے ہیں جو اللہ رب العزت کی راہ میں خرچ کرنے سے فقرا و مساکین کی محبت ، دنیاداری کی حقارت جیسی عمدہ روحانی غذا پاتے ہیں ، نبی اکرم ﷺ نے سخاوت و فیاضی کے اوصاف ِ حمیدہ کے ذریعے اپنے مال و دولت میں امت کے غربا اور بے کسوں کو بھی شامل فرمایا اور اِس طرح گردش ِ دولت کی راہیں کشادہ کر دیں اور بخل و اِرتکازِ دولت کی عاداتِ رذیلہ کے مضر اثرات کو ختم فرمایا اور اِس خصلتِ حمیدہ میں امت کو بھی اپنے ساتھ شامل فرمایا ، جابجا ان کی ذہن سازی کی ، کبھی ترغیب کے ذریعے اور کبھی ترہیب کے ذریعے، لیکن اِن سب سے بڑھ کر خود آپ ﷺ کا اپنا پاکیزہ عمل، نمونہ تھا، جس کی ادنیٰ سی جھلک پہلی بار نازل ہونے والی وحی کے وقت آپ ﷺ پرطاری ہونے والی گھبراہٹ کو دیکھ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا آپ کو تسلی دیتے ہوئے آپ کی اعلیٰ صفات شمار کرواناہے، ملاحظہ ہو:

”فقالت خدیجة:کلّا واللہ، ما یخزیک اللہ أبداً، إنک لَتصل الرحم، وتحمل الکلّ، وتکسب المعدوم وتقري الضیف وتعین علی نوائب الحق“․(صحیح البخاري، کتاب بدء الوحي،رقم:3،7/1،دارطوق النجاة)

ترجمہ: (آپ ﷺ کی گبھراہٹ کو دیکھ کر ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:”ہر گز نہیں! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کریں گے، آپ تو رشتوں کو جوڑنے والے ہیں، آپ تو کمزوروں ، بے کسوں کا سہارا بنتے ہیں ، جن کا کوئی کمانے والا نہیں آپ اُن کو کما کر کھلاتے ہیں ، ناتواوٴں کے بوجھ اُٹھاتے ہیں، مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور آفت زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں“۔

یہ تو آپ ﷺ کی صفاتِ عالیہ کی ایک ادنیٰ سی جھلک ہے، ورنہ تو پوری حیاتِ طیبہ یہی أسوہ پیش کرتی ہے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

”أیما أھل عرصة أصبح فیھم امرء جائعاً فقد برئت منھم ذمة اللہ“۔(المستدرک علی الصحیحین، کتاب البیوع، رقم الحدیث:2165،14/2، دار الکتب العلمیة)

ترجمہ: ”کسی بھی بستی میں کوئی شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ رات بھر بھوکا رہا ہو، تو اللہ رب العزت کا ذمہ اس بستی سے بری ہے“۔

نبی اکرم ﷺ نے غربا کی امداد کی اس قدر ترغیب دی کہ صحابہ کرام رضی الله عنہم کہنے لگے کہ ہمارے پاس جو زائد اموال ہیں ان میں ہمارا کوئی حق نہیں ہے،ملاحظہ ہو:

”عن أبي سعید الخدري رضي اللہ عنہ قال:بینما نحن في سفر مع النبي صلی الله علیہ وسلم إذ جاء رجل علی راحلة لہ، فجعل یصرف بصرہ یمیناً وشمالاً، فقال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم :”من کان معہ فضل ظھر فلیعد بہ علی من لا ظھر لہ، ومن کان لہ فضل من زادٍ ، فلیعد بہ علی من لا زاد لہ“، فذکر من أصناف المال ما ذکر حتیٰ رأینا أنہ لا حق لأحدٍ منّا في فضلٍ“۔(ریاض الصالحین، باب الإیثار والمواساة، رقم:566،ص:173، دارالسلام)

ترجمہ:”حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے ہم راہ ایک سفر میں تھے کہ ایک شخص آیا اور دائیں بائیں دیکھنے لگا، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس زائدسواری ہو وہ اُسے دے دے جِس کے پاس سواری نہ ہو اور جِس کے پاس ضرورت سے زائد زادِ راہ ہو تو وہ (اُس توشے کو) اُسے دے دے جِس کے پاس زادِ راہ نہ ہو،حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ مختلف انواع کے اموال( اسی طرح اوروں کو دینے ) کا ذکر فرماتے رہے کہ ہم (میں سے ہر ایک )نے گمان کرلیا کہ ہم میں سے کسی کو بھی اپنے ضرورت سے زائد مال پر کوئی حق نہیں“۔

ایک اور حدیث شریف میں ارشاد فرمایا:
”من کان عندہ طعام إثنین فلیذھب بثالث، فإن أربع فخامس، أو سادس“۔(صحیح البخاري ، کتاب الہبہ، رقم الحدیث:2581، 156/1، دارالشعب ، القاھرة)

ترجمہ:جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے آدمی کو اپنا مہمان بنا لے اور اگر چار (آدمیوں)کا کھانا ہو تو پانچوے یا چھٹے کو(اپنا مہمان بنا لے)“۔

ایک اور روایت میں ہے کہ :
”طعام الإثنین کافي الثلاثة و طعام الثلاثة کافي الأربعة“(ریاض الصالحین، باب الإیثار و المواساة، رقم الحدیث:565، ص:173، دارالسلام)

ترجمہ: ”دو افراد کا کھانا تین افراد کو کفایت کر جائے گا اور تین کا کھانا چار کو کفایت کر جائے گا“۔

کفالت کے اس سلسلے کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

”عن جابر رضی اللہ عنہ یقول:سمعت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم یقول:”طعام الواحد یکفي الإثنین، وطعام الإثنین یکفي الأربعة، وطعام الأربعة یکفي الثمانیة“ ․(صحیح مسلم، کتاب الأشربة، باب فضیلة المواساة، رقم :5489، 132/2، دارالجیل، بیروت)

ترجمہ:”حضرت جابرؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ ایک فرد کا کھانا دو کے لیے کافی ہو جائے گا، دو کا کھانا چار افراد کے لیے کافی ہو جائے گا اور اسی طرح چار افراد کا کھانا آٹھ افراد کے لیے کافی ہو سکتا ہے“۔

یہ ہیں وہ تعلیمات جو اسلام کی جامعیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جن پر عمل پیرا ہو کریہ امت وحدتِ امت کا نمونہ پیش کر سکتی ہے،یہ تصور امت کے اندر سے منافرت کی بو تک مٹا دیتا ہے اور امت َ مسلمہ کو یک جان کر دیتا ہے،اس کی بہت ہی دل کش تعبیر نبی اکرم ﷺ نے بیان فرمائی ہے:

”مثل الموٴمنین في توادّھم وتراحمھم وتعاطفھم مثل الجسد إذا اشتکیٰ منہ عضوٌ تداعیٰ لہ سائر الجسم بالسھر والحمیٰ“․ (صحیح مسلم، کتاب البروالصلة، باب تراحم الموٴمنین، رقم : 6751،20/8، دارالجیل، بیروت)

ترجمہ:”موٴمنین کی مثال ان کے آپس میں محبت و شفقت ، اُنس ومودت اور لطف و کرم میں ایک جسم کی مانند ہے، جس کے ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بیداری اور بخار میں اس کا شریک ہوتا ہے“۔ اس سے اندازہ کر لینا چا ہیے کہ کیا مغرب کا پیش کردہ نظامِ انشورنس اسلام کے نظام ِ کفالت عامہ کے برابر ہوسکتا ہے؟!

اس کے علاوہ اور بہت سی روایات و آثار اس بارے میں منقول ہیں، مثلاً:

”صح عن أبي عبیدة بن الجراح وثلٰث مائة من الصحابة أن زادھم فني، فأمرھم أبو عبیدة، فأجمعوا أزوادھم في مزودین و جعل یقوتھم إیاھا علی السواء“․(المحلّٰی لابن حزم، کتاب الزکاة، إن اللہ فرض علی الأغنیاء ما یکفي الفقراء، 4/283، دارالکتب العلمیة)

ترجمہ:”حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ اور تین سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق یہ روایت درجہ صحت کو پہنچتی ہے کہ(ایک مرتبہ) ان کا سامانِ خوردونوش ختم ہونے کے قریب آلگا تو حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ جس جس کے پاس جس قدرہے، وہ حاضر کرے اور پھر سب کو یک جا کیا اور ان سب میں برابرتقسیم کر کے سب کو ”قوت لایموت“کا سامان مہیا کر دیا“۔

وعن أبي موسیٰ رضی اللہ عنہ، قال قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم:”إن الأشعریین إذا أرملوا في الغزو، أو قلّ طعام عیالھم بالمدینة ، جمعوا ما کان عندھم في ثوب واحدٍ، ثم اقتسموہ بینھم في إناءٍ واحدٍ بالسویة، فھم مني وأنا منھم“․(ریاض الصالحین، باب الإیثار والمواساة، رقم الحدیث:568،ص:173،دار السلام)

غور کریں اس حدیث شریف میں نبی کریم ﷺ نے اشعری قبیلہ والوں کی اس وجہ سے تعریف کی کہ جب کبھی سفرحضر میں ان کے ہاں غلہ کی کمی ہو جاتی تو وہ اپناغلہ ایک کپڑے میں جمع کر دیتے اور پھر برابرتقسیم کر لیتے، چناں چہ آپ ﷺ نے ان کے بارے میں خوش ہو کر فرمایا ”وہ لوگ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں“۔

”المحلی بالآثار“ میں علامہ ابن حزم نے لکھا ہے کہ ”اس بات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص بھوکا ننگا یا ضروریاتِ زندگی سے محروم ہے تو مال دار کے خاص مال میں سے اس کی کفالت کرنا فرض ہے“۔(المحلی، کتاب الزکاة:283/4،دارالکتب العلمیة)

”اسلام کا اقتصادی نظام“ میں حضرت مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ تمام آئمہ مجتہدین کا بھی یہی مسلک ہے۔(اسلام کا اقتصادی نظام،ص:46،ندوة المصنفین)

خلاصہ کلام!اسلام اپنی تعلیمات کے ذریعے تعاون و تکافل کا وہ اعلیٰ ترین معیارقائم کرتا ہے، جس کی بلندیوں تک آج مذموم سرمایہ دار اور لا دین اشتراکی ذہن رکھنے والے کا تخیل،پرواز ہی نہیں کر سکتا۔ اسلام معاشی کمزوریاں دور کرنے کے لیے اجتماعی کفالت ِعامہ کا جو تصور پیش کرتا ہے اُسے صرف وعظ و تلقین ہی تک نہیں چھوڑا اور نہ ہی اسے صرف انفرادی اور اجتماعی وجدان کے رحم و کرم کے سپرد کیا ہے، بلکہ اسلامی ریاست کے امیر المومنین کو ذمہ دار بنایا ہے، کہ وہ اس نظام کو عملی جامہ پہنائے اور اس کے احیا میں آنے والی ہر رکاوٹ دور کرے۔

اسلامی نظامِ تکافل کی حدود و طریقہ کار
مندرجہ بالا سطور میں یہ بات تفصیل سے گذر چکی ہے کہ کفالت ِ عامہ بنیادی طور پر اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے، اس کے تحت اب جائزہ اس بات کا لینا ہے کہ یہ نظام ، ریاست میں بسنے والے صرف مسلمانوں کے لیے ہو گا یا غیر مسلم بھی اس نظام سے مستفید ہو سکیں گے۔اور پھر اس نظام کے تحت کس قسم کی ضروریات پوری کی جائیں ؟

ہر انسان کے ساتھ کچھ ضروریات ایسی ہوتی ہیں جو انسانیت کی فلاح و بہبود سے متعلق ہوتی ہیں،مثلاً:تعلیم،صحت ، تزویج، نومولود بچوں کے وظائف ، معذور افراد کی دیکھ بھال ، مقروضوں کے قرضوں کی ادائیگی وغیرہ۔ 

اس کے بعد یہ جاننا بھی ضروری ہے، نظامِ کفالت کا سارا بوجھ سرکاری ریاست کے ہی ذمے ہے یا معاشرے کے افراد بھی اس میں شامل ہیں، چناں چہ معلوم ہوتا ہے کہ افرادِ امت کے ذمہ بھی کچھ مختلف نوعیت کی ذمہ داریاں لاحق ہوتی ہیں،جن میں کچھ قانونی اور کچھ اخلاقی ذمہ داریاں ہیں، قانونی ذمہ داریوں کو ”صدقاتِ واجبہ“(مثلاً:زکوٰة، عشر ، صدقة الفطر، کفارات اور نذور وغیرہ) اور اخلاقی ذمہ داریوں کو” انفاق“ (مثلاً:صدقاتِ نافلہ، قرضِ حسنہ، ہبہ، عاریت، وصیت، امانت، اوقاف، میراث اور نفقات وغیرہ)سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

پھر اس کے بعد سوال یہ پید اہوتا ہے کہ یہی سرکاری ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے مصارف کہاں سے اور کیسے لائیں گے؟اس کے لیے کون کون سے ذرائع اختیار کیے جائیں گے؟تو یہ مصارف اور ذرائع آمدنی اسلام میں متعین ہیں، مثلاً: زکوٰة، خمس، متعین شرائط کے ساتھ جائز ٹیکس، اموالِ فاضلہ، خراج، منافع تجارت وغیرہ۔

خلاصہ کلام!اگر مندرجہ بالا شعبوں کا احیا ہو جائے اور یہ مصروف ِ عمل ہو جائیں تو ممکن ہی نہیں کہ ملک میں دولت کے ذخائر پر محض چند اور مخصوص افراد قابض ہوں اور گردشِ دولت کا بہاوٴ صرف اور صرف سرمایہ کاروں کی طرف ہی ہو اور اس کے برعکس دوسری طرف غریب طبقہ ظلم کی چکی میں پِس رہا ہو اور بھوک پیاس کی حالت میں ایک ایک لقمے کا محتاج ہو۔

اگر اسلام کا یہ نظام ِ کفالت وجود میں ہوتو کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں غیروں کے بنائے ہوئے نظامِ انشورنس وغیرہ کا سہارا لینا پڑے اور اپنے دین و مذہب کا خون کرنا پڑے۔ البتہ اس کے لیے انتھک محنت کرنا ہو گی، کہ جس طرح آج سے چودہ سو سال قبل یہ نظامِ کامل پوری طرح چمکتا ہوا ،انسان کو انسان اور جہالت و نفسانیت میں ڈوبے معاشرے کو ایک صالح اور پُر امن معاشرے میں ڈھال چکا تھا ، جس کی حقانیت کا اعتراف اپنے تو اپنے ، غیربھی کرنے پر مجبور ہوگئے، اسلامی اخوت اور بھائی چارے کی ایسی ایسی مثالیں قائم ہوئیں کہ آج تک مغربی معاشرہ اس کی کوئی نظیر پیش نہ کر سکا، تو کوئی وجہ نہیں کہ کوئی نظام اس وقت ”جب کوئی ظاہری ٹھاٹ باٹ نہ تھے“ اپنا اثر قائم کر سکتا ہو اور آج کے دور میں بے اثر ہو!!اگر معاشرے کے چند بااثر افراد مل کر ہمت و کوشش کر لیں اور اپنے فاضل اموال کو مذکورہ بالا مدّات میں خرچ کر لیں اور پھر ان کی دیکھا دیکھی کچھ اور اور پھر کچھ اور حتیٰ کہ ہر طرف ایک عام فضا بن جائے تو یقینا مقصود حاصل ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

اسلام کا نظامِ کفالت کن کن افراد کے لیے مفید ہو گا؟
اسلامی ریاست میں بسنے والے چوں کہ صرف مسلمان ہی نہیں ہوتے، بلکہ غیر مسلم بھی ہوتے ہیں تو ریاست میں مقیم ہر مسلم و غیر مسلم کی کفالت اس نظام کا حصہ ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہدِمبارک میں جب”حیرہ “ فتح ہوا تو اس موقع پر ایک معاہدہ لکھا گیا، جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے کفالت ِ عامہ کا ذکر ہے، ملاحظہ ہو:

”وجعلتُ لہم أیّما شیخ ضعُف عن العمل أو أصابتہ اٰفةٌ من اٰفاتٍ أو غنیاً فافتقر وصار أھلُ دینہ یتصدّقون علیہ، طرحت جزیة، وعیل من بیت مال المسلمین وعیالہ ما أقام بدارالہجرة ودارالإسلام“․(کتاب الخراج لأبي یوسف، باب في الکنائس والبیع والصلبان،ص:144، مطبوعة سلفیة)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: ”میں طے کرتا ہوں کہ اگر ذمیوں میں سے کوئی ضعیف ہو ، کام نہ کر سکتا ہو، یا آسمانی یا زمینی آفات میں سے کوئی آفت اس پر آپڑے ، یا ان کا کوئی مال دار محتاج ہو جائے اور اس کے اہلِ مذہب اس کو خیرات دینے لگیں،تو ایسے تمام افراد کو جزیہ معاف ہے اور بیت المال سے ان کی اور ان کے اہلِ خانہ کی کفالت کی جائے گی، جب تک وہ دارالہجرة اور دارالاسلام میں اقامت پذیر ہوں“۔

اسی تناظر میں دور فاروقی کا بھی ایک واقعہ ملاحظہ کر لیا جائے، جسے امام ابو یوسف  نے اپنی کتاب الخراج میں نقل کیا ہے:

”قال: وحدثني عمر بن نافع عن أبي بکر، قال:مرّ عمر بن الخطاب رضي اللہ عنہ بباب قومٍ وعلیہ سائلٌ یسأل، شیخٌ کبیرٌ، ضریر البصر، فضرب عضُدہ من خلفہ، وقال: مِن أيِّ أہل الکتاب أنتَ؟ فقال: یھوديٌ، قال: فما ألجأک إلی ما أریٰ؟ قال: أُسأَلُ الجزیةَ، والحاجةُ، والسِنُّ، قال: فأخذ عمر بیدہ، وذھب بہ إلی منزلہ، فرضَخ لہ بشيء من المنزل، ثم أرسل إلی خازنِ بیتِ المال، فقال:اُنظر ھذا وضُربائَہ، واللہ ماأنصفناہ أن أکلنا شبیبتَہ، ثم نخذُلہ عند الھرَم ﴿إنما الصدقات للفقراء والمساکین﴾ و”الفقراء“ من المسلمین، وھذا من ”المساکین“ من أھل الکتاب، ووضع عنہ الجزیةَ وعن ضُربائِہ، قال أبو بکر:أنا شہِدت ذلک من عُمَرَ ورأیتُ ذلٰک الشیخَ “․(کتاب الخراج لأبي یوسف، في من یجب علیہ الجزیة؟ص:126، الطبعة السلفیة، القاھرة)

اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نابینا بوڑھے شخص کو بھیک مانگتے دیکھا، اس سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ وہ یہودی ہے، بھیک مانگنے کا سبب دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کہ جزیہ کی ادائیگی، معاشی ضروریات اور پیرانہ سالی نے(بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا )۔یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے، جو موجود تھا وہ دیا اور پھر بیت المال کے خزانچی کے پاس فرمان بھیجا کہ یہ اور اس جیسے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو، اللہ کی قسم! ہم اس کے ساتھ ہر گز انصاف نہیں کر سکتے کہ اس کی جوانی کی محنت (بصورتِ جزیہ) تو کھائیں، مگر اس کے بڑھاپے میں اسے بھیک مانگنے کے لیے چھوڑ دیں، قرآن پاک میں ہے:﴿إنما الصدقات للفقراء والمساکین﴾اورمیرے نزدیک یہاں ”فقراء“ سے مرادمسلمان مفلس ہیں(اور ”مساکین “سے مراد اہل کتاب کے مساکین و فقراء ہیں) اور یہ سائل مساکینِ اہلِ کتاب میں سے ہے، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جزیہ معاف کر دیا۔

مذکورہ بالا اور اس جیسی اور بہت سی نظائر سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام کا نظامِ کفالت بلا تمیزمسلم و کافر سب کے لیے ہے ، یہ ایسا ابرِ رحمت ہے جو باغ اور کوڑے کرکٹ ، ہر جگہ برستا ہے۔

کن ضروریات کو پورا کیا جائے گا؟
انسان کی ضروریات دو قسم کی ہیں:اول وہ ضروریات جن پر انسان کی زندگی کا دارومدار ہے اور دوسری وہ ضروریات جو حیاتِ انسانی میں نکھار کا سبب بنتی ہیں:

پہلی قسم کی ضروریات
ضروریات کی اس قسم میں بنیادی طور پر خوراک، لباس، جائے سکونت اور ابتدائی و ضروری طبی امداد شامل ہے، اسلامی حکومت تمام مذکورہ ضروریات کو پورا کرے گی، مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی  لکھتے ہیں کہ: ”اسلامی حکومت کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر فرد خواہ وہ امیر ہو یا فقیر ، مرد ہو یا عورت، کواس کی استعداد اور حالت کے مطابق ان تین بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے ہر قسم کی سہولیات پہنچائے، وہ تین چیزیں یہ ہیں: کھانے پینے کی سہولت، کیوں کہ یہ ہر فرد کی زندگی کا ذریعہ ہے، اور اس کے بغیر زندگی کا تصور ہی نہیں۔ لباس کی ضرورت،خواہ وہ روئی کا ہو یا کتان (قیمتی کپڑا) یااُون کا۔ ازدواجی زندگی کی سہولت، کیوں کہ یہ انسانی نسل کی بقا کے لیے ضروری ہے “۔ (اسلام کا اقتصادی نظام، ص:153، ندوة المصنفین)

دوسری قسم کی ضروریات
اس قسم میں وہ ضروریات شامل ہیں،جو انسان کو اخلاقی اعتبار سے اور معاشرتی اعتبار سے مضبوط کرتی ہیں،ان میں تعلیم و تربیت، صحت و دیگر مصائب، غیر شادی شدہ اور شادی شدہ افراد کی کفالت، مقروضوں کے قرضوں کی ادائیگی، نومولود بچوں کے وظائف، اپاہج و ناکارہ افراد کی کفالت، مسافر خانوں کی تعمیر، خواتینِ اسلام کی کفالت وغیرہ وغیرہ۔(ان تمام صورتوں کے تفصیلی احکامات کتاب الأموال لأبی عبید،کتاب الخراج لیحیی بن آدم القرشی، سیرة عمر بن عبد العزیز لابن عبد الحکیم، سیرة عمر بن عبد العزیز لابن جوزی، سیرة عمر بن الخطاب لابن جوزی، تاریخ الخلفاء للسیوطی، الطبقات الکبریٰ لابن سعد میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔)

کفالت کس حد تک کی جائے گی؟
اسلام کے نظام ِ کفالت عامہ کی حدود کیا ہیں؟ تو جاننا چاہیے کہ جوں جوں اسلامی ریاست وسیع ہوتی جائے گی اور وسائل بڑھتے جائیں گے، اسی طرح کفالت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جائے گا، چناں چہ اسلام کے نظام تکافل و کفالتِ عامہ کی وسعت ، جامعیت، کاملیت و حدود کا اندازہ لگانے کے لیے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ، جنہیں خلیفہ راشد تسلیم کیا گیا ہے، کا نمونہ ہمارے سامنے ہے کہ :

”کتب عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ إلی عبدالحمید بن عبد الرحمن، وھو بالعراق:”أن أخرج للناس أعطیاتھم“ فکتب إلیہ عبد الحمید: ”إني قد أخرجت للناس أعطیاتھم، وقد بقي في بیت المال“فکتب إلیہ:”أن انظر کل من أدان في غیر سفہ ولا سرف، فاقض عنہ“․ فکتب إلیہ:”إني قد قضیت عنھم، قد بقي في بیت مال المسلمین مالٌ“․ فکتب إلیہ:”أن انظر کل بکرٍ لیس لہ مالٌ، فشاء أن تزوجہ، فزوِّجہ واصدق عنہ“․ فکتب إلیہ:”إني قد زوَّجتُ کل من وجدتُ، وقد بقي في بیت مال المسلمین مالٌ“․ فکتب إلیہ:بعد مخرج ھذا، أن انظر من کانت علیہ جزیة فضعف عن أرضہ، فأسلفہ مایقوي بہ علیٰ عمل أرضہ، فإنا لا نریدھم لعامٍ ولا لعامین“ قال:قال العمري ھٰذا أو نحوہ“․(کتاب الأموال لأبي عبید، الجزء الثالث: صنع عمر بن عبد العزیز في تقسیم الفيء:۱/۳۶۳، دارالہدي النبوي، مصر)

مذکورہ روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ :”حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اپنے گورنر کے نام لکھا کہ وہ لوگوں کے عطایا ان کو ادا کرے، گورنر نے جواب لکھا کہ میں نے عوام کے عطایا انہیں اداکر دیے ہیں ، مگر بیت المال کی رقم بچی پڑی ہے (اس کا کیا کروں؟) تو آپ  نے لکھا کہ ایسے مقروضوں کو تلاش کرو جنہوں نے کسی بغیر نادانی کے کاموں کے ، یا بغیر فضول خرچی کے قرض لیا ہو، ان کا قرض ادا کر دو۔ گورنر نے لکھا کہ میں نے ایسے تمام (مقروضوں) کے قرضے ادا کر دیے ہیں پھر بھی مسلمانوں کے بیت المال میں رقم بچ گئی ہے۔ آپ نے لکھا کہ ہر ایسے کنوارے کو تلاش کرو جس کے پاس مال نہ ہو ، مگر وہ شادی کرنا چاہتا ہو، اس کی شادی کراوٴ اور اس کا مہر ادا کرو۔ گورنر نے لکھا کہ میں نے جس کسی کوایسا پایا ، اس کا نکاح کرا دیا ہے، مگر پھر بھی بیت المال میں رقم باقی ہے۔ آپ نے لکھا کہ ہر ایسے ذمی(شخص ) کو تلاش کرو جس پر جزیہ ہو، اور (مفلسی کے باعث ) اپنی زمین آباد کرنے سے عاجز ہو، اسے قرضہ دو، تا کہ وہ اپنی زمین (کی آباد کاری) کا کام کرنے کے قابل ہو جائے، کیوں کہ ہم ان (ذمیوں) کو صرف ایک سال یا دو سال کے لیے ہی نہیں رکھنا چاہتے (بلکہ ان سے حسن و سلوک کا طویل رشتہ چاہتے ہیں)“۔

اس روایت سے خوب اچھی طرح اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسلام کا نظامِ کفالت ِ عامہ کتنا جامع اور وسیع ہے کہ وسائل کی دست یابی کے ساتھ ساتھ اس کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے اور پھیلتا جاتا ہے اور پھر رعایا کی ضروریات کی تکمیل کا اندازہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ایک ارشاد سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے، فرمایا:

”أما واللہ! لئن بقیت لأرامل أھل العراق لأدعنھن لا یفتقرن إلیٰ أمیرٍ بعدي“․(کتاب الخراج لیحییٰ بن آدم القرشي، باب الرفق بأھل الجزیة،رقم الحدیث:۲۴۰،ص:۷۳، المکتبة العلمیة)

فرمایا:”اللہ( جل شانہ) کی قسم ! اگر میں اہلِ عراق کی بیواوٴں کے لیے (اگلے سال تک) زندہ رہ سکا، تو انہیں ایسا (غنی) کر دوں گا کہ وہ میرے بعد کسی امیر کی اعانت کی محتاج نہیں رہیں گی“۔

اور پھر ان خواہشات کی تکمیل حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور ِ خلافت میں ہوئی، جس کی طرف ان کے ایک گورنر یحییٰ بن سعید نے اشارہ کیا ہے، ملاحظہ ہو:

”قال یحییٰ بن سعید: بعثني عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ إلی صدقات إفریقیة، فاقتضیتھا وطلبت فقراء، نعطیھا لھم، فلم نجد بھا فقیراً ،ولم نجد من یأخذھا مني، قد أغنیٰ عمر بن عبد العزیز الناس، فاشتریت بھا رقاباً فأعتقتھم، وولائھم للمسلمین“․ (سیرة عمر بن عبد العزیز لابن عبد الحکیم :۱/۶۵)

یحییٰ بن سعید بیان کرتے ہیں کہ” مجھے امیر المو منین عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے افریقہ میں صدقات کی وصولی کے لیے بھیجا ، میں نے صدقات وصول کئے اور ایسے لوگوں کی تلاش کی جنہیں صدقات دے سکوں ، مگر ایسا شخص نہ ملا جو صدقہ قبول کرے،حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے اہل عراق کو (اتنا )غنی کردیا تھا (کہ انہیں صدقہ قبول کرنے کی حاجت ہی نہیں رہی تھی) بالآخر میں نے اس صدقہ سے غلاموں کو خرید کے آزاد کیا“۔ 

یہ انتہا ہے اسلام کے نظامِ کفالتِ عامہ کی ، اس حقیقت سے نظریں چُرا کر مغرب کے قائم کردہ نظاموں کو قائم کرنا ، ان کو رواج دینا بالخصوص ”نظامِ انشورنس“کو اسلام کے اس کامل نظام کے مقابل کھڑا کرنا ظلم نہیں تو اورکیا ہے؟ انسان کا بنایا ہو ا نظام شاید قانون ساز کی تجوری کو توبھرسکتا ہو لیکن ہر ہر انسان کے لیے وہ مفید و معاون ہو ، ایسا ہونا محال ہے، اس عالمی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے قانونِ الہٰی ہی کارگر ثابت ہو سکتا ہے، کوئی اور نہیں۔


فصلِ اوّل
مال خرچ کرنے کے فضائل میں

اللہ کے پاک کلام اور اس کے سچے رسول سید البشر ﷺ کے ارشادات میں خرچ کرنے کی ترغیب اور اس کے فضائل اتنے کثرت سے وارد ہیں کہ حد نہیں۔ ان کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیسہ پاس رکھنے کی چیز ہے ہی نہیں۔ یہ پیدا ہی اس لیے ہوا ہے کہ اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ کیا جائے۔ جتنی کثرت سے اس مسئلہ پر ارشادات ہیں ان کا دسواں بیسواں حصہ بھی جمع کرنا مشکل ہے۔ نمونہ کے طور پر چند آیات اور چند احادیث کا ترجمہ اپنی عادت کے موافق پیش کرتا ہوں۔



آیات:
۱۔ ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاھُمْ یُنْفِقُوْنَo وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ ج وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَo اُولٰٓئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo 
ترجمہ:
(یہ کتاب یعنی قرآن شریف) راستہ بتانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو جو یقین لاتے ہیں غیب کی چیزوں پر اور قائم رکھتے ہیں نماز کو اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ ایسے ہیں جو یقین رکھتے ہیں (ایمان لاتے ہیں) اس کتاب پر بھی جو آپ پر نازل کی گئی اور ان کتابوں پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کی گئیں اور آخرت پر بھی وہ یقین رکھتے ہیں۔ یہی لوگ اُس صحیح راستہ پر ہیں جو ان کے ربّ کی طرف سے ملا ہے اور یہی لوگ فلاح کو پہنچنے والے ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:2-5]
فائدہ:
اس آیت ِشریفہ میں کئی مضمون قابلِ غور ہیں۔
ا: راستہ بتانے والی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو، یعنی جس کو مالک کا خوف نہ ہو، مالک کو مالک نہ جانتا ہو، وہ اپنے پیدا کرنے والے سے جاہل ہو، اس کو قرآن پاک کا بتایا ہوا راستہ کب نظر آسکتا ہے۔ راستہ اسی کو نظر آتا ہے جس میں دیکھنے کی صلاحیت بھی ہو۔ جس میں دیکھنے کا ذریعہ آنکھ ہی نہ ہو، وہ کیا دیکھے گا۔ اسی طرح جس کے دل میں مالک کا خوف ہی نہ ہو وہ مالک کے حکم کی کیا پرواہ کرے گا۔
ب: نماز کو قائم رکھنا یہ ہے کہ اس کو اس کے آداب اور شرائط کی رعایت رکھتے ہوئے پابندی اور اہتمام سے ادا کرے، جس کا تفصیلی بیان رسالہ ’’فضائل نماز‘‘ میں گزر چکا ہے۔ اس میں حضرت ابنِ عباس ? کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ نماز کو قائم کرنے سے یہ مراد ہے کہ اس کے رکوع و سجود اچھی طرح ادا کرے، ہمہ تن متوجہ رہے اور خشوع کے ساتھ پڑھے۔

قتادہ  ؒ کہتے ہیں کہ نماز کا قائم کرنا اس کے اوقات کی حفاظت رکھنا، اور وضو کا اور رکوع و سجود کا اچھی طرح ادا کرنا ہے۔
ج: فلاح کو پہنچنا بہت اُونچی چیز ہے۔ فلاح کا لفظ جہاں کہیں آتا ہے وہ اپنے مفہوم میں دین اور دنیا کی بہبُود اور کامیابی کو لیے ہوئے ہوتا ہے۔ امام راغب  ؒ نے لکھا ہے کہ دنیوی فلاح اُن خوبیوں کا حاصل کرلینا ہے جن سے دنیوی زندگی بہترین بن جائے، اور وہ بقا اور غنا اور عزت ہیں۔ اور اُخروی فلاح چار چیزیں ہیں۔ وہ بقا جس کوکبھی فنا نہ ہو، وہ تونگری جس میں فقر کا شائبہ نہ ہو، وہ عزت جس میں کسی قسم کی ذلت نہ ہو، وہ علم جس میں جہل کا دخل نہ ہو۔ اور جب فلاح کو مطلق بولا گیاتو اس میں دین و دنیا دونوں کی فلاح آگئی۔ 




۲۔ لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَکِنَّ الْبِرّ َمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ ج وَاٰتٰی  الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی القُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلا وَالسَّائِلِیْنَ وَفِی الرِّقَابِج وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتٰی الزَّکوٰۃَ ج   الآیۃ۔
ترجمہ:
سارا کمال اسی میں نہیں کہ تم اپنا منہ مشرق کی طرف کرلو یا مغرب کی طرف، لیکن اصل کمال تو یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ پر ایمان لائے اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور اللہ کی کتابوں پر اور سب پیغمبروں پر، اور اللہ کی محبت میں مال دیتا ہو اپنے رشتہ داروں  کو اور یتیموں کو اور غریبوں کو اور مسافروں کو اور ( لاچاری میں ) سوال کرنے والوں کو، اور (قیدیوں اور غلاموں کی) گردن چھڑانے میں خرچ کرتا ہو، اور نماز کو قائم رکھتا ہو، اور زکوٰۃ کو ادا کرتا ہو کہ اصل کمالات یہ چیزیں ہیں۔ (آیتِ شریفہ میں ان کی بعض اور صفات کا ذکر فرما کر ارشاد ہے) کہ یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ متقی ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:177]

فائدہ:
حضرت قتادہ  ؒکہتے ہیں کہ یہود مغرب کی طرف نماز پڑھتے تھے اور نصاریٰ مشرق کی طرف نماز پڑھتے تھے، اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔ اور بھی متعدد حضرات سے اس قسم کا مضمون نقل کیا گیا ہے۔ (دُرِّ منثور)
 امام جَصَّاص  ؒ نے لکھا ہے کہ آیت شریفہ میں یہود اور نصاریٰ پر رد ہے کہ جب انھوں نے قبلہ کے منسوخ ہونے (یعنی یت المقدس کی بجائے کعبہ کو قبلہ قرار دینے) پر اعتراض کیا تو حق تعالیٰ شا نہٗ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ نیکی اللہ کی اطاعت میں ہے، بغیر اس کی اطاعت کے مشرق و مغرب کی توجہ کوئی چیز نہیں ہے۔ (احکام القرآن)
 ’’اللہ کی محبت میں مال دیتا ہو‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اِن چیزوں میں اللہ  کی محبت اور خوشنودی کی وجہ سے خرچ کرے۔ نام و نمود، اپنی شہرت عزت کی وجہ سے خرچ نہ کرے کہ اس ارادہ سے خرچ کرنا نیکی برباد گناہ لازم کا مصداق ہے، اپنا مال بھی خرچ کیا اور اللہ  کے یہاں بجائے ثواب کے گناہ ہوا۔
حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتے، (کہ کتنا خرچ کیا) بلکہ تمہارے اعمال اور تمہارے دلوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ (کہ کس نیت اور کس ارادہ سے خرچ کیا) (مشکوٰۃ المصابیح) 
ایک اور حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ مجھے تم پر بہت زیادہ خوف شرکِ اصغر کا ہے۔ صحابہ ? نے عرض کیا: یا رسول اللہ! شرکِ اصغر کیا ہے؟ حضور ﷺنے فرمایا: دکھلاوے کے لیے عمل کرنا۔ احادیث میں بہت کثرت سے دکھاوے کے لیے خرچ کرنے پر تنبیہ کی گئی ہے جو آیندہ آئے گی۔ 
یہ ترجمہ اس صورت میں ہے کہ آیتِ شریفہ میں اللہ کی محبت میںدینا مراد ہو۔ بعض علماء نے خرچ کرنے کی محبت کا ترجمہ کیا ہے: یعنی جو خرچ کیا ہے اس پر مسرور ہو۔ یہ نہ ہو کہ اُس وقت تو خرچ کردیا، پھر اس پر قلق ہو رہا ہے کہ میں نے کیوں خرچ کردیا؟ کیسی بے وقوفی ہوئی روپیہ کم ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ (احکام القر آن) 
اور اکثر علماء نے مال کی محبت کا ترجمہ کیا ہے: یعنی باوجود مال کی محبت کے اِن مواقع میں خرچ کرے۔ ایک حدیث میں ہے: کسی شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! مال کی محبت کا کیا مطلب ہے، مال سے تو ہر ایک کو محبت ہوتی ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب تو مال خرچ کرے تو اس وقت تیرا دِل تیری اپنی ضرورتیں جتائے اور اپنی حاجت کا ڈر دِل میں پیدا ہو کہ عمر ابھی بہت باقی ہے مجھے احتیاج نہ ہو جائے۔
ایک حدیث میں ہے حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا: بہترین صدقہ یہ ہے کہ تو ایسے وقت میں خرچ کرے جب تندرست ہو، اپنی زندگی اور بہت زمانہ تک دنیا میں رہنے کی امید ہو۔ ایسا نہ کر کہ صدقہ کرنے کو ٹالتا رہے یہاں تک کہ جب دم نکلنے لگے اور موت کا وقت قریب آجائے تو کہنے لگے کہ اتنا فلاں کو دیا جائے اور اتنا فلانی جگہ دیا جائے کہ اب تو وہ فلاں کا ہوگیا۔(دُرِّ منثور)
 مطلب یہ ہے کہ جب اپنے سے مایوسی ہوگئی اور اپنی ضرورت اور حاجت کا ڈر نہ رہا تو آپ نے کہنا شروع کردیا کہ اتنا فلاں مسجد میںاتنا فلاں مدرسہ میں۔ حالاںکہ اب وہ گویا وارث کا مال بن گیا۔ اب حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ ہے۔ جب تک اپنی ضرورتیں وابستہ تھیں تب تو خرچ کرنے کی توفیق نہ ہوئی، اب جب کہ وہ دُوسرے کے یعنی وارث کے پاس جانے لگا تو آپ کو اللہ واسطے دینے کا جذبہ پیدا ہوا۔ اسی واسطے شریعتِ مطہرہ نے حکم دے دیا کہ مرتے وقت کا صدقہ ایک تہائی مال میں اثر کرسکتا ہے۔ اگر کوئی اس وقت سارا مال بھی صدقہ کرکے مرجائے تو وارثوں کی اجازت بغیر تہائی سے زیادہ میں اس کی وصیت معتبر نہ ہوگی۔
اس آیتِ شریفہ میں مال کو یتامیٰ مساکین وغیرہ پر خرچ کرنے کو مستقل طور پر ذکر فرمایا ہے اور آخر میں زکوٰۃ کو علیحدہ ذکر فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اخراجات زکوٰۃ کے علاوہ باقی مال میں سے ہیں۔ اس کا بیان احادیث کے ذیل میں نمبر( ۱) پر آرہا ہے۔




۳۔ وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ج وَاَحْسِنُوْاج اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَo
ترجمہ:
اور تم لوگ اللہ کے راستے میں خرچ کیا کرو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں تباہی میں نہ ڈالو، اور (خرچ وغیرہ کو) اچھی طرح کیا کرو، بے شک حق تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں اچھی طرح کام کرنے والوں کو۔
[سورۃ البقرۃ:195]
فائدہ:
حضرت حذیفہ ؓفرماتے ہیں کہ ’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو ‘‘ یہ فقر کے ڈر سے اللہ کے راستہ میں خرچ کا چھوڑ دینا ہے۔ حضرت ابن عباس ?  فرماتے ہیں کہ ہلاکت میں ڈالنا یہ نہیں ہے کہ آدمی اللہ کے راستہ میں قتل ہو جائے، بلکہ یہ اللہ کے راستہ میں خرچ سے رُک جانا ہے۔ حضرت ضحاک بن جبیر ؒ فرماتے ہیں کہ انصار اللہ کے راستہ میں خرچ کیا کرتے تھے اور صدقہ کیا کرتے تھے۔ ایک سال قحط ہوگیا، ان کے خیالات برے ہوگئے اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا چھوڑ دیا۔ اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔حضرت اسلم ؒکہتے ہیں کہ ہم قسطنطنیہ کی جنگ میں شریک تھے، کفار کی بہت بڑی جماعت مقابلہ پر آگئی۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص تلوار لے کر ان کی صف میں گھس گیا۔ دوسرے مسلمانوں نے شور کیا کہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیا۔ حضرت ابوایوب انصاری ؓبھی اس جنگ میں شریک تھے، وہ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایاکہ یہ اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں ہے۔ تم اس آیت شریفہ کا یہ مطلب بتاتے ہو۔ یہ آیت تو ہمارے بارے میں نازل ہوئی۔ بات یہ ہوئی تھی کہ جب اسلام کو فروغ ہونے لگا اور دین کے حامی بہت سے پیدا ہوگئے تو ہماری یعنی انصار کی چپکے چپکے یہ رائے ہوئی کہ اب اللہ  نے اسلام کو غلبہ تو عطا فرما ہی دیا اور لوگوں میں دین کے مددگار بہت سے پیدا ہوگئے۔ ہمارے اموال کھیتیاں وغیرہ عرصہ سے خبرگیری پوری نہ ہوسکنے کی وجہ سے برباد ہو رہی ہیں، ہم ان کی خبر گیری اور اصلاح کرلیں۔ اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔ اور ہلاکت میں اپنے کو ڈالنا اپنے اموال کی اصلاح میں مشغول ہو جانا اور جہاد کو چھوڑ دینا ہے۔ (دُرِّ منثور)




۴۔ وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَo قُلِ الْعَفْوَ ط  الآیۃ 
ترجمہ:
لوگ آپ سے یہ پوچھتے ہیں کہ (خیرات میں) کتنا خرچ کریں؟ آپ فرما دیجیے کہ جتنا (ضرورت سے) زائد ہو۔
[سورۃ البقرۃ:219]

فائدہ:
یعنی مال تو خرچ ہی کرنے کے واسطے ہے۔ جتنی اپنی ضرورت ہو اس کے موافق رکھ کر، جو زائد ہو وہ خرچ کردے۔ حضرت ابن عباس? فرماتے ہیں کہ اپنے اہل و عیال کے خرچ سے جو بچے وہ عَفْو ہے۔ حضرت ابو امامہؓ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اے آدمی! جو تجھ سے زائد ہے اس کو تو خرچ کردے، یہ بہتر ہے تیرے لیے۔ اور تو اس کو روک کر رکھے یہ تیرے لیے برا ہے۔ اور بقدرِ ضرورت پر کوئی ملامت نہیں۔ اور خرچ کرنے میں ان لوگوں سے ابتدا کر جو تیرے عیال میں ہیں۔ اور اونچا ہاتھ (یعنی دینے والا ہاتھ) بہتر ہے اس ہاتھ سے جو نیچے ہو۔ (یعنی لینے کے لیے پھیلا ہوا ہو) حضرت عطا ؒ سے بھی یہی نقل کیا گیا ہے کہ عفو سے مراد ضرورت سے زائد ہے۔ (دُرِّمنثور)
حضرت ابوسعیدخدریؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس سواری زائد ہو، وہ ایسے شخص کو سواری دے جس کے پاس سواری نہیں ہے۔ اور جس کے پاس توشہ زائد ہو، وہ ایسے شخص کو توشہ دے جس کے پاس توشہ نہ ہو۔ (حضورﷺ نے اس قدر اہتمام سے یہ بات فرمائی) ہمیں یہ گمان ہونے لگا کہ کسی شخص کا اپنے کسی ایسے مال میں حق ہی نہیں ہے جو اس کی ضرورت سے زائد ہو۔ (ابوداود)
اور کمال کا درجہ ہے بھی یہی کہ آدمی کی اپنی واقعی ضرورت سے زائد جو چیز ہے وہ خرچ ہی کرنے کے واسطے ہے، جمع کرکے رکھنے کے واسطے نہیں ہے۔ بعض علماء نے عفو کا ترجمہ سَہْل کا کیا ہے۔ یعنی جتنا آسانی سے خرچ کرسکے کہ اس کو خرچ کرنے سے خود پریشان ہو کر دنیوی تکلیف میں مبتلا نہ ہو اور دوسرے کا حق ضائع ہونے سے آخرت کی تکلیف میں مبتلا نہ ہو۔ حضرت ابنِ عباس? سے نقل کیا گیا کہ بعض آدمی اس طرح صدقہ کرتے تھے کہ اپنے کھانے کو بھی ان کے پاس نہ رہتا تھا، حتیٰ کہ دوسرے لوگوں کو ان پر صدقہ کرنے کی نوبت آجاتی تھی،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں تشریف لائے۔ حضورِاقدسﷺ نے ان کی یہ حالت دیکھ کر لوگوں سے کپڑا خیرات کرنے کو ارشاد فرمایا۔ بہت سے کپڑے چندہ میں جمع ہوگئے۔ حضورﷺ نے ان میں سے دو کپڑے ان صاحب کو عطا فرما دیے۔ اس کے بعد پھر حضورﷺنے صدقہ کرنے کی ترغیب دی اور لوگوں نے صدقہ کا مال دیا تو ان صاحب نے بھی دو کپڑوں میں سے ایک صدقہ میں دے دیا، تو حضورﷺنے ناراضی کا اظہار فرمایا اور ان کا کپڑا واپس فرما دیا۔ (دُرِّمنثور)
قرآنِ پاک میں اپنی احتیاج کے باوجود خرچ کرنے کی ترغیب بھی آئی ہے، لیکن یہ انھیں لوگوں کے لیے ہے جو اس کو بشاشت سے برداشت کرسکتے ہوں، ان کے دلوں میں واقعی طور پر آخرت کی اہمیت دنیا پر غالب آگئی ہو، جیسا کہ آیات کے سلسلہ میں نمبر (۲۸ ) پر یہ مضمون تفصیل سے آرہا ہے۔




۵۔ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً ط  وَاللّٰہُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ o
ترجمہ:
کون ہے ایسا شخص جو اللہ کو قرض دے اچھی طرح قرض دینا، پھر اللہ تعالیٰ اس کو بڑھا کر بہت زیادہ کردے (اور خرچ کرنے سے تنگی کا خوف نہ کرو) کہ اللہ ہی تنگی اور فراخی کرتے ہیں (اسی کے قبضہ میں ہے) اور اسی کی طرف (مرنے کے بعد) لوٹائے جائو گے۔
[سورۃ البقرۃ:245]

فائدہ:
اللہ کے راستہ میںخرچ کرنے کو قرض سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ جیسے قرض کی ادائیگی اور واپسی ضرور ہوتی ہے، اسی طرح اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کا اجر و ثواب اور بدلہ ضرور ملتا ہے، اس لیے اس کو قرض سے تعبیر کیا۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو قرض دینے سے اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا مراد ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی تو حضرت ابو الدَّحْدَاح انصاریؓ حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! اللہ   ہم سے قرض مانگتے ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا بے شک۔ وہ عرض کرنے لگے: اپنا دستِ مبارک مجھے پکڑا دیجیے۔ (تاکہ میں آپﷺ کے دستِ مبارک پر ایک عہد کروں) حضور ﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ انھوں نے معاہدے کے طور پر حضورﷺ کا ہاتھ پکڑ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنا باغ اپنے اللہ کو قرض دے دیا۔ ان کے باغ میں چھ سو درخت کھجوروں کے تھے اور اسی باغ میں ان کے بیوی بچے رہتے تھے۔ یہاں سے اٹھ کر پھر اپنے باغ میں گئے اور اپنی بیوی اُمِ دَحْدَاحؓ سے آواز دے کر کہا کہ چلو اس باغ سے نکل چلو، یہ باغ میں نے اپنے رب کو دے دیا۔ دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہؓفرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے اس باغ کو چند یتیموں پر تقسیم کردیا۔
ایک حدیث میں ہے کہ جب یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی { مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ } الآیۃ جو ایک نیکی کرے اس کو دس گنا ثواب ملے گا۔ تو حضورﷺ نے دعا کی کہ یا اللہ! میری امت کا ثواب اس سے بھی زیادہ کردے۔ اس کے بعد یہ آیت { مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ}  الآیۃ نازل ہوئی۔ حضور ﷺنے پھر دعا کی: یا اللہ! میری امت کا ثواب اور بھی زیادہ کردے۔ پھر { مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ }الآیۃ  جو نمبر (۷) پر آرہی ہے نازل ہوئی۔ حضورﷺنے پھر دعا کی: یا اللہ! میری امت کا ثواب بڑھادے۔ اس پر { اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِحِسَابٍo } ( الزمر: ع ۲) نازل ہوئی کہ صبر کرنے والوں کو ان کا ثواب پورا پورا دیا جائے گا، جو بے اندازہ اور بے شمار ہوگا۔
ایک حدیث میں ہے کہ ایک فرشتہ ندا کرتا ہے: کون ہے جو آج قرض دے اور کل کو پورا بدلہ لے لے ؟ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ  فرماتے ہیں: اے آدمی! اپنا خزانہ میرے پاس امانت رکھا دے۔ نہ اس میں آگ لگنے کا اندیشہ ہے، نہ غرق ہو جانے کا، نہ چوری کا۔ میں ایسے وقت میں وہ تجھ کو پورا کا پورا واپس کروں گا جس وقت تجھے اس کی انتہائی ضرورت ہوگی۔ (دُرِّمنثور)




۶۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلاَخَُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ ط الآیۃ۔
ترجمہ:
اے ایمان والو! خرچ کرو ان چیزوں میں سے جو ہم نے تم کو دی ہیں، قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں نہ تو خرید و فروخت ہوسکتی ہے، نہ دوستی ہوگی، نہ کسی کی (اللہ کی اجازت بغیر) سفارش ہوگی۔
[سورۃ البقرۃ:254]

فائدہ:
یعنی اس دن نہ تو خرید و فروخت ہے کہ کوئی اس دن دوسروں کی نیکیاں خریدلے، نہ دوستی ہے کہ تعلقات میں کوئی دوسرے سے نیکیاں مانگ لے، نہ بغیر اجازت کے سفارش کا کسی کو حق ہے کہ اپنی طرف سے منت سماجت کرکے سفارش ہی کرالے۔ غرض جتنے اسباب دوسرے سے اعانت حاصل کرنے کے ہوا کرتے ہیں وہ سب ہی اس دن مفقود ہوں گے۔ اس دن کے واسطے کچھ کرنا ہے تو آج کا دن ہے۔ جو بونا ہے بولیا جائے، اُس دن تو کھیتی کے کاٹنے کا ہی دن ہے۔ جو بویا گیا ہے وہ کاٹ لیا جائے گا۔ غلہ ہو یا پھول، کاٹنے ہوں یا ایندھن، ہر شخص خود ہی غور کرلے کہ وہ کیا بو رہا ہے۔
۷۔ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ط وَاللّٰہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ o    ( البقرۃ : ع ۳۶ )
جو لوگ اللہ کے راستے میں (یعنی خیر کے کاموں میں) اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک دانہ  ہو، جس میں سات بالیں اُگی ہوں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ (تو ایک دانے 
سے سات سو دانے مل گئے) اور اللہ  جس کو چاہے زیادہ عطا فرما دیتے ہیں۔ اللہ  بڑی وسعت والے ہیں (ان کے یہاں کسی چیز کی کمی نہیں) اور جاننے والے ہیں۔ (کہ خرچ کرنے والے کی نیت کا حال بھی ان کو خوب معلوم ہے)
فائدہ:  ایک حدیث میں آیا ہے کہ اعمال چھ  قسم کے ہیں اور آدمی چار قسم کے ہیں۔ اعمال کی چھ قسمیں یہ ہیں کہ دو عمل تو واجب کرنے والے ہیں اور دو عمل برابر سرابرہیں۔ اور ایک عمل دس گنا ثواب رکھتا ہے اور ایک عمل سات سو گنا ثواب رکھتا ہے۔جو واجب کرنے والے ہیں وہ تو یہ ہیں کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ شرک نہ کرتا ہو وہ جنت میں داخل ہو کر رہے گا اور جو ایسی حالت میں مرے کہ شرک کرتا ہو وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ اور برابر سرابریہ ہیں کہ جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے اور عمل نہ کرسکے اس کو ایک ثواب ملتا ہے، اور جوگناہ کرے اس کو ایک بدلہ ملتا ہے۔ اور جو شخص کوئی نیکی کرے اس کو دس گنا ثواب ملتا ہے۔ اور جو اللہ کے راستے میں خرچ کرے اس کو ہر خرچ کا سات سو گنا ثواب ملتا ہے ۔اورآدمی چار طرح کے ہیں۔ ایک وہ لوگ ہیں جن پر دنیا میں بھی وسعت ہے اور آخرت میں بھی، دوسرے وہ جن پر دنیا میں وسعت آخرت میں تنگی، تیسرے وہ جن پر دنیا میں تنگی آخرت میں وسعت، چوتھے وہ جن پر دنیا میں بھی تنگی آخرت میں بھی تنگی۔ (کنزالعمال) کہ یہاں کے فقر کے ساتھ اعمال بھی خراب ہوئے جن کی وجہ سے وہاں بھی کچھ نہ ملا، دنیا اور آخرت دونوں ہی برباد ہوگئے۔
 حضرت ابوہریرہؓحضورِ اقدسﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص ایک کھجور کے بقدر بھی صدقہ کرے بشرطے کہ طیب مال سے ہو خبیث مال نہ ہو، اس لیے کہ حق تعالیٰ  طیب مال کو ہی قبول کرتے ہیں، تو حق تعالیٰ شا نہٗ اس صدقہ کی پرورش کرتے ہیں جیسا کہ تم لوگ اپنے بچھیرے کی پرورش کرتے ہو، حتیٰ کہ وہ صدقہ بڑھتے بڑھتے پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔ (مشکوٰۃ شریف)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص ایک کھجور اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے حق تعالیٰ شا نہٗ اس کے ثواب کو اتنا بڑھا تے ہیں کہ وہ اُحد کے پہاڑ کے بڑا ہو جاتا ہے۔ اُحد کا پہاڑ مدینہ طیبہ کا بہت بڑا پہاڑہے۔ اس صورت میں سات سو سے بہت زیادہ اجر و ثواب ہو جاتا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب یہ سات سوگُنے والی آیتِ شریفہ نازل ہوئی تو حضورِ اقدسﷺنے اللہ  سے ثواب کے زیادہ ہونے کی دعا، اس پر پہلی آیت نمبر(۵) والی نازل ہوئی۔ (بیان القرآن) اس قول کے موافق اس آیتِ شریفہ کا نزول مقدم ہوا۔ دوسری حدیث میں اس کا عکس آیا ہے جیسا کہ پہلے نمبر (۵)کے ذیل میں گزرا۔





۸۔ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَایُتْبِعُوْنَ مَا اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَا اَذًی لا لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ  ج وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَo
ترجمہ:
جو لوگ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر نہ تو ( جس کو دیا اس پر) احسان جتاتے ہیں اور نہ (کسی اور طرح) اس کو اذیت پہنچاتے ہیں تو ان کے لیے ان کے رب کے پاس اس کا ثواب ہے اور (قیامت کے دن) ان کو نہ تو کسی قسم کا خوف ہوگا نہ وہ غمگین ہوں گے۔
[سورۃ البقرۃ:245]

فائدہ:
یہ آیتِ شریفہ پہلی آیت کے بعد ہی ہے اور اس رکوع میں سارا ہی مضمون اسی کے متعلق ہے۔ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی ترغیب اور احسان جتا کر اس کو برباد نہ کرنے پر تنبیہ ہے۔ اور کسی اور طرح سے اذیت پہنچانے کا یہ مطلب ہے کہ اپنے اس احسان کی وجہ سے اس کے ساتھ حقارت کا برتائو کرے، اس کو ذلیل سمجھے۔
حضورِ اقدسﷺکا ارشاد ہے کہ چند آدمی جنت میں داخل نہ ہوں گے۔ ان میں سے ایک شخص وہ ہے جو اپنے دیے پر احسان جتائے، دوسرا وہ ہے جو والدین کی نافرمانی کرے، تیسرے وہ ہے جو شراب پیتا رہتا ہو وغیرہ وغیرہ۔ (دُرِّمنثور) 
امام غزالی ؒ نے ’’اِحیاء‘‘ میں صدقہ کے آداب میں لکھا ہے کہ اس کو مَنّ اور اَذًی  سے برباد نہ کرے۔  مَنّ اور اَذًی  کی تفسیر میں علماء کے چند قول ہیں۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ مَنّ یہ ہے کہ خود اس سے اس کا تذکرہ کرے اور اذًی یہ ہے کہ اس کا دوسروں سے اظہار کرے۔ بعض نے فرمایا ہے کہ مَن یہ ہے کہ اس عطا کے بدلہ میں اس سے کوئی بیگار لے اور اَذًی یہ ہے کہ اس کو فقیری کا طعنہ دے۔ بعض نے فرمایا ہے کہ مَنّ یہ ہے کہ اس عطا کی وجہ سے اپنی بڑائی اس پر ظاہر کرے اور اَذًی یہ ہے کہ اس کو سوال کی وجہ سے جھڑکے۔ امام غزالی ؒفرماتے ہیں کہ اصل مَنّ یہ ہے کہ اپنے دل میں اپنا اس پر احسان سمجھے، اسی کی وجہ سے پھر اُمورِ بالاظاہر ہوتے ہیں۔ حالاںکہ اس فقیر کا اپنے اُوپر احسان سمجھنا چاہیے کہ اس نے اللہ  کا حق اس سے قبول کرکے اس کو بری الذمہ بنادیا اور اس کے مال کی پاکی کا سبب بنا اور جہنم کے عذاب سے جو زکوٰۃ کے روکنے کی وجہ سے ہوتا، نجات دلائی۔ (اِحیاء العلوم )
مشہور محدث امام شَعْبِی ؒفرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے آپ کو ثواب کا اس سے زیادہ محتاج نہ سمجھے جتنا فقیر کو اپنے صدقہ کا محتاج سمجھتا ہے، اس نے اپنے صدقہ کو ضائع کردیا اور وہ صدقہ اس کے منہ پر مار دیا جاتا ہے۔ (اِحیاء العلوم) 
قیامت کا دن نہایت ہی سخت رنج و غم اور خوف کا دن ہے، جیسا کہ اس رسالہ کے ختم پر آرہا ہے ۔اس دن کسی کا بے خوف ہونا، غمگین نہ ہونا بہت اونچی چیز ہے۔







۹۔ اِنْ تُبْدُوْا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ھِیَ ج وَاِنْ تُخْفُوْھَا وَتُؤْتُوْھَا الْفُقَرَآئَ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَیُکَفِّرُ عَنْکُمْ مِّنْ سَیِِّاتـِکُمْ ط  وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo
ترجمہ:
صدقات کو اگر تم ظاہر کرکے دو تب بھی اچھی بات ہے اور اگر تم ان کو چپکے سے فقیروں کو دے دو تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اور حق تعالیٰ شا نہٗ تمہارے کچھ گناہ معاف کردیں گے، اور اللہ  کو تمہارے  کاموں کی خبر ہے۔
[سورۃ البقرۃ:271]

دوسری آیت میں ارشاد ہے:
اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّا وَّعَلاَنِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ ج وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ ولَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ o
ترجمہ:
جو لوگ اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں رات دن، پوشیدہ اور کھلم کھلا، ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس اس کا ثواب ہے اور قیامت کے دن نہ ان کو کوئی خوف ہوگا نہ وہ مغموم ہوں گے۔
[سورۃ البقرۃ:274]

فائدہ:
ان دونوں آیتوں میں صدقہ کو چھپا کر دینا اور کھلم کھلا ظاہر کرکے دینا دونوں طریقوں کی تعریف کی گئی ہے۔ اور بہت سی احادیث اور قرآنِ پاک کی آیات میں رِیا کی یعنی دکھلاوے کے لیے کام کرنے کی برائی اور اس کو شرک بتایا ہے، اور ثواب کو ضائع کر دینے والا بلکہ گناہ کو لازم کر دینے والا بتایا ہے۔ اس لیے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دکھلاوا اور چیز ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جو کام کھلم کھلا کیا جائے وہ رِیا ہی ہو، بلکہ رِیا یہ ہے کہ اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے واسطے، اپنی شہرت کے واسطے، اپنا کمال ظاہر کرنے اور عزت حاصل کرنے کے واسطے، کوئی کام کیا جائے تو وہ رِیا ہے۔
اور جو اللہ  کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا جائے اور اللہ کی خوشنودی کسی مصلحت سے اعلان ہی میں ہو تو وہ رِیا نہیں ہے۔ 
اس کے بعد ہر عمل بالخصوص صدقہ میں افضل یہی ہے کہ وہ اِخفا کے ساتھ کیا جائے کہ اس میں رِیا کا احتمال بھی نہیں رہتا، اور صدقہ لینے والے کی ذلت اور اذیت سے بھی امن ہے۔ اور یہ بھی مصلحت ہے کہ اس وقت اگرچہ رِیا نہ ہو، لیکن جب عام طور سے لوگوں میں سخاوت مشہور ہونے لگے تو عُجب اور خودبینی پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ لوگوں میں اگر شہرت ہوگی تو پھر بہت سے لوگ سوالات سے پریشان کرنے لگیں گے اور اپنے مال دار ہونے کی شہرت سے دنیوی نقصانات کئی قسم کے پیدا ہونے لگیں گے، حکومت کے ٹیکس، چوروں کی نگاہیں، حاسدوں کی دشمنی۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ صدقہ کا مخفی طور سے دینا رِیا اور شہرت سے زیادہ بعید ہے۔ اور حضورﷺکا ارشاد بھی نقل کیا گیا ہے کہ افضل صدقہ کسی تنگدست کا اپنی کوشش سے کسی نادار کو چپکے سے دے دینا ہے۔ اور جو شخص اپنے صدقہ کا تذکرہ کرتا ہے وہ اپنی شہرت کا طالب ہے اور جو مجمع میں دیتا ہے وہ ریاکار ہے۔
پہلے بزرگ اِخفا میں اتنی کوشش کرتے تھے کہ وہ یہ بھی نہیں پسند کرتے تھے کہ فقیر کو بھی اس کا علم ہو کہ کس نے دیا۔ اس لیے بعض تو نابینا فقیروں کو چھانٹ کر دیتے تھے، اور بعض سوتے ہوئے کی جیب میں ڈال دیتے تھے، اور بعض کسی دوسرے کے ذریعے سے دلواتے کہ فقیر کو پتہ نہ چلے اور اس کو حیا نہ آوے۔ بہرحال اگر شہرت اور رِیا مقصود ہے تو نیکی برباد گناہ لازم ہے۔
امام غزالی  ؒ نے لکھا ہے کہ جہاں شہرت مقصود ہوگی وہ عمل بے کار ہو جائے گا۔ اس لیے کہ زکوٰۃ کا وجوب مال کی محبت کو زائل کرنے کے واسطے ہے۔ اور حبِ جاہ کا مرض لوگوں میں حبِ مال سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اور آخرت میں دونوں ہی ہلاک کرنے والی چیزیں ہیں، لیکن بخل کی صفت توقبر میں بچھو کی صورت میں مسلط ہوتی ہے، اور رِیا اور شہرت کی صفت اژدہا کی صورت میں منتقل ہو جاتی ہے۔ (اِحیاء العلوم)
ایک حدیث میں ہے کہ آدمی کی برائی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انگلیوں سے اس کی طرف اشارہ کیا جانے لگے۔ دینی امور میں اشارہ ہو یادنیوی امور میں۔ حضرت ابراہیم بن ادہم ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنی شہرت کو پسند کرتا ہو اس نے اللہ تعالیٰ سے سچائی کا معاملہ نہیں کیا۔ ایوب سختیانی ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص اللہسے سچائی کا معاملہ کرتا ہے اس کو یہ پسند ہوا کرتا ہے کہ کوئی اس کا گھر بھی نہ جانے کہ کہاں ہے۔ (اِحیاء العلوم) 
حضرت عمرؓایک مرتبہ مسجدِ نبوی میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ حضرت معاذؓ حضورِ اقدسﷺکی قبر شریف کے پاس بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے دریافت کیا کہ کیوں رو رہے ہو؟ حضرت معاذؓنے فرمایا کہ میں نے حضورﷺ سے سنا تھا کہ ریا کا تھوڑا سا حصہ بھی شرک ہے اور حق  ایسے متقی لوگوں کو محبوب رکھتا ہے جو زاویۂ خمول میں رہتے ہوں کہ اگر کہیں چلے جاویں تو کوئی تلاش نہ کرے اور مجمع میں آویں تو کوئی ان کو پہچانے بھی نہیں۔ ان کے دل ہدایت کے چراغ ہوں اور ہر گرد آلود تاریک مقام سے خلاصی پانے والے ہوں۔ (اِحیاء العلوم)
 غرض رِیا کی مذمت بہت سی آیات اور احادیث میں وارد ہوئی ہے، لیکن ان سب کے باوجود کبھی اعلان میں دینی مصلحت ہوتی ہے، مثلاً: دوسروں کی ترغیب کہ ضرورت کے موقع پر ایک آدھ شخص کے صدقہ سے دینی اہم ضرورتیں پوری نہیں ہوسکتیں، ایسے وقت میں صدقہ کا اظہار دوسروں کی ترغیب کا سبب بن کر ضرورت کے پورا ہونے کا سبب بن جاتا ہے۔ اسی لیے حضورِ اقدسﷺکا ارشاد ہے کہ قرآن پاک کو آواز سے پڑھنے والا ایسا ہے جیسا اعلان کے ساتھ صدقہ کرنے والا۔ اور قرآن پاک کو آہستہ پڑھنے والا ایسا ہے جیسا کہ چپکے سے صدقہ کرنے والا۔ (مشکوٰۃ شریف) کہ قرآن پاک کا بھی مقتضائے وقت کے مناسب کبھی آواز سے پڑھنا افضل ہوتا ہے اور کبھی آہستہ پڑھنا۔ پہلی آیتِ شریفہ کے متعلق بہت سے علماء سے نقل کیا گیا کہ اس آیتِ شریفہ میں صدقۂ فرض یعنی زکوٰۃ اور صدقۂ نفل دونوں کا بیان ہے اور صدقۂ فرض کا اعلان سے ادا کرنا افضل ہے جیسا کہ اور فرائض کا بھی یہی حکم ہے کہ ان کا اعلان کے ساتھ کرنا افضل ہے۔ اس لیے کہ اس میں دوسروں کی ترغیب کے ساتھ اپنے اوپر سے اس الزام اور اتہام کا دفع کرنا مقصود ہے کہ یہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے دوسری مصالح کے علاوہ نماز میں جماعت مشروع ہوئی کہ اس میں اس کے ادا کرنے کا اعلان ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ علامہ طبری ؒ وغیرہ نے اس پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے کہ صدقۂ فرض میں اعلان افضل ہے اور صدقۂ نفل میں اِخفا افضل ہے۔ زین بن المنیر ؒ کہتے ہیں کہ یہ حالات کے اختلاف سے مختلف ہوتا ہے، مثلاً: اگر حاکم ظالم ہوں اور زکوٰۃ کا مال مخفی ہو تو زکوٰۃ کا اخفا اولیٰ ہوگا، اور اگر کوئی شخص مقتدا ہے اس کے فعل کا لوگ اتباع کریں گے تو صدقۂ نفل کا بھی اعلان اولیٰ ہوگا۔ (فتح الباری)
حضرت ابن عباس? نے آیتِ شریفہ (مذکورہ بالا) کی تفسیر میں ارشاد فرمایا ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے نفل صدقہ میں آہستہ کے صدقہ کو علانیہ کے صدقہ پر ستر درجہ فضیلت دی ہے۔ اور فرض صدقہ میں علانیہ کو مخفی صدقہ پر پچیس درجہ فضیلت دی ہے۔ اور اسی طرح اور سب عبادات کے نوافل اور فرائض کا حال ہے۔ (دُرِّ منثور) یعنی دوسری عبادات میں بھی فرائض کو اعلان کے ساتھ ادا کرنا چھپ کر ادا کرنے سے افضل ہے کہ فرائض کو چھپ کر ادا کرنے میں ایک اپنے اُوپر تہمت ہے۔ دوسرے یہ بھی مضرت ہے کہ اپنے متعلقین یہ سمجھیں گے کہ یہ شخص فلاں عبادت کرتا ہی نہیں، اور اس سے ان کے دلوں میں اس عبادت کی وقعت اور اہمیت کم ہو جائے گی۔ اور نوافل میں بھی اگر دوسروں کے اتباع اور اقتدا کا خیال ہو تو اعلان افضل ہے۔
حضرت ابن عمر?کے واسطے سے حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا کہ نیک عمل کا چپکے سے کرنا اعلان سے افضل ہے، مگر اس شخص کے لیے جو اتباع کا ارادہ کرے۔ حضرت ابو امامہ ؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابوذرؓنے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ کون سا صدقہ افضل ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ کسی فقیر کو چپکے سے کچھ دے دینا اور نادار کی کوشش افضل ہے۔ اور اصل یہی ہے کہ نفلی صدقہ کا مخفی طور سے ادا کرنا افضل ہے۔ البتہ اگر کوئی دینی مصلحت اعلان میں ہوتو اعلان بھی افضل ہو جاتا ہے، لیکن اس بات میں اپنے نفس اور شیطان سے بے فکر نہ رہے کہ وہ صدقہ کو برباد کرنے کے لیے دل کو یہ سمجھائے کہ اعلان میں مصلحت ہے۔ بلکہ بہت غور سے اس کو جانچ لے کہ اعلان میں واقعی دینی مصلحت ہے یا نہیں؟ اور صدقہ کرنے کے بعد بھی اس کا تذکرہ نہ کرتا پھرے کہ یہ بھی علانیہ صدقہ کرنے میں داخل ہو جاتا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ آدمی کوئی عمل مخفی کرتا ہے تو وہ مخفی عمل لکھ لیا جاتا ہے۔ پھر جب وہ اس کا کسی سے اظہار کردے تو وہ مخفی سے علانیہ میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ پھر اگر وہ لوگوں سے کہتا پھرے تو وہ علانیہ سے رِیا میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ (اِحیاء العلوم)
حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ سات آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ  اس دن اپنے سایہ میں رکھیں گے جس دن اللہ کے سوا کہیں سایہ نہ ہوگا۔ (یعنی قیامت کے دن) ایک عادل بادشاہ۔ (حاکم)۔ دوسرے وہ نوجوان جو اللہ کی عبادت میں نشوونما پاتا ہے۔ تیسرے وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہو۔ چوتھے وہ دو شخص جن میں صرف اللہ کی وجہ سے محبت ہو، کوئی دنیوی غرض ایک کی دوسرے سے وابستہ نہ ہو، اسی پر اُن کا آپس میں اجتماع ہو اور اسی پر علیحدگی ہو۔ پانچویں وہ شخص جس کو کوئی حسب نسب والی خوبصورت عورت اپنی طرف متوجہ کرے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (اسی طرح کوئی مرد کسی عورت کو متوجہ کرے اور وہ عورت یہی کہہ دے) چھٹے وہ شخص جو اتنا چھپا کر صدقہ کرے کہ بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو کہ داہنے ہاتھ نے کیا خرچ کیا۔ ساتویں وہ شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرکے روپڑے۔ اس حدیث میں سات آدمی ذکر فرمائے ہیں۔ دوسری احادیث میں ان کے علاوہ اور بھی بعض لوگوں کے متعلق یہ وارد ہوا ہے کہ وہ اس سخت دن میں عرش کے سایہ کے نیچے ہوں گے۔ علماء نے ان کی تعداد بیاسی تک گنوائی ہے جن کو صاحب ’’اِتِّحاف‘‘ نے نقل کیا ہے۔ بہت سی احادیث میں حضورﷺکا ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ مخفی صدقہ اللہ کے غصہ کو زائل کر دیتا ہے۔
حضرت سالم ابنِ ابی الجعد ؒکہتے ہیں کہ ایک عورت اپنے بچے کے ساتھ جارہی تھی، راستہ میں بھیڑیے نے اس بچہ کو اُچک لیا۔یہ عورت اس بھیڑیے کے پیچھے دوڑی۔ اتنے میں ایک سائل راستہ میں ملا۔اس نے سوال کیا ۔عورت کے پاس ایک روٹی تھی وہ سائل کو دے دی۔ وہ بھیڑیا واپس آیا اور اس کے بچے کو چھوڑ کر چلا گیا۔
 حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ تین آدمیوں کو حق تعالیٰ شانہٗ محبوب رکھتے ہیں اور تین آدمیوں سے ناراض ہیں۔ جن کو حق تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں ان میں ایک تو وہ شخص ہے کہ ایک آدمی کسی مجمع سے کچھ سوال کرنے آیا جو محض اللہ تعالیٰ کے واسطے سے سوال کرتا تھا کہ اس کی ان لوگوں سے کچھ قرابت بھی نہ تھی، ایک شخص اس مجمع سے اٹھا اور ان کی غیبت میں چپکے سے سائل کو کچھ دے دیا، جس کے عطیہ کی اللہ کے سوا کسی کو بھی خبر نہ ہوئی۔ دوسرا وہ شخص محبوب ہے کہ ایک جماعت رات بھر سفر میں چلی اور جب نیند اُن چلنے والوں پر غالب ہوگئی ہو اور وہ تھوڑی دیر آرام لینے کے لیے سواریوں سے اترے ہوں،ان میں کوئی شخص اس وقت بجائے لیٹنے کے نماز میں کھڑا ہو کر حق تعالیٰ شانہٗ کے سامنے عاجزی کرنے لگا ہو۔ تیسرا وہ شخص ہے کہ ایک جماعت جہاد کر رہی ہو اور کفار سے مقابلہ میں شکست ہونے لگے اور لوگ پشت پھیرنے لگیں، اس وقت یہ شخص ان میں سے سینہ تان کر مقابلہ میں ڈٹ جائے حتیٰ کہ شہید ہو جائے یا فتح ہو جائے۔ اور تین شخص جن سے حق تعالیٰ شا نہٗ ناراض ہیں، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو بوڑھا ہو کر بھی زنا میں مبتلا ہو۔ دوسرے وہ شخص ہے جو فقیر ہو کر تکبر کرے۔تیسرے وہ مال دار ہے جو ظالم ہو۔ احادیث کے سلسلہ میں نمبر (۱۵) پر بھی یہ حدیث آرہی ہے ۔
ایک اور حدیث میں ہے حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورِ اقدس ﷺ نے خطبہ پڑھا جس میں ارشاد فرمایا: اے لوگو! مرنے سے پہلے پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کرلو، اور نیک عمل کرنے میں جلدی کیا کرو ایسا نہ ہو کسی دوسرے کام میں مشغولی ہو جائے اور وہ رہ جائے، اور اللہ کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ لو کثرت سے اس کا ذکر کرکے اور مخفی اور علانیہ صدقہ کرکے کہ اس سے تمہیں رزق دیا جائے گا، تمہاری مدد کی جائے گی اور تمہاری شکستگی کی اصلاح کی جائے گی۔ 
ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ہر شخص اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا جب تک کہ حساب کا فیصلہ نہ ہو۔ یعنی قیامت کے دن جب آفتاب نہایت قریب ہوگا ہر شخص پر اس کے صدقات کی مقدار سے سایہ ہوگا، جتنا زیادہ صدقہ دیا ہوگا اتنا ہی زیادہ سایہ ہوگا۔ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ صدقہ قبروں کی گرمی کو دور کرتا ہے اور ہر شخص قیامت میں اپنے صدقہ سے سایہ حاصل کرے گا، اور یہ مضمون تو بہت سی روایات میں آیا ہے کہ صدقہ بلائوں کو دور کرتا ہے۔ اس زمانہ میں جب کہ مسلمانوں پر ان کے اعمال کی بدولت ہر طرف سے ہر قسم کی بلائیں مسلط ہو رہی ہیں، صدقات کی بہت زیادہ کثرت کرناچاہیے۔ بالخصوص جب کہ دیکھتی آنکھوں عمر بھر کا اندوختہ کھڑے کھڑے چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔ ایسی حالت میں بہت اہتمام سے بہت زیادہ مقدار میں صدقات کرتے رہنا چاہیے کہ اس میں وہ مال بھی ضائع ہونے سے محفوظ ہو جاتا ہے جو صدقہ کیا گیا اور اس کی برکت سے اپنے اوپر سے بلائیں بھی ہٹ جاتی ہیں، مگر افسوس کہ ہم لوگ ان احوال کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی صدقات کا اہتمام نہیں کرتے۔ ایک حدیث میں ہے کہ صدقہ برائی کے ستّر دروازے بند کرتا ہے ۔ایک حدیث میں ہے کہ صدقہ اللہ کے غصے کو دور کرتا ہے اور بری موت سے حفاظت کرتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ صدقہ عمر کو بڑھاتا ہے، اور بری موت کو دور کرتا ہے، اور تکبر اور فخر کو ہٹاتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ ایک روٹی کے لقمہ سے یا ایک مٹھی کھجور یا اور کوئی ایسی ہی معمولی چیز جس سے مسکین کی ضرورت پوری ہوتی ہو تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتے ہیں۔ ایک صاحبِ خانہ جس نے صدقہ کا حکم دیا، دوسرے گھر کی بیوی جس نے روٹی وغیرہ پکائی، تیسرے وہ خادم جس نے فقیر تک پہنچایا۔ یہ حدیث بیان فرما کر ارشاد فرمایا: ساری تعریفیں ہمارے اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمارے خادموں کو بھی ثواب میں فراموش نہیں کیا۔ 
ایک مرتبہ حضورِ اقدسﷺنے دریافت فرمایا: جانتے ہو کہ بڑا سخت طاقت ور کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: جو مقابلہ میں دوسرے کو پچھاڑ دے۔ حضورﷺ نے فرمایا: بڑا بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے اُوپر قابو یافتہ ہو۔ پھر دریافت فرمایا: جانتے ہو کہ بانجھ کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ جس کے اولاد نہ ہو۔ حضورﷺنے فرمایا: نہیں، بلکہ وہ آدمی ہے جس نے کوئی اولاد آگے نہ بھیجی ہو۔ پھر حضورﷺنے فرمایا: جانتے ہو فقیر کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: جس کے پاس مال نہ ہو۔ حضورﷺ نے فرمایا: فقیر اور پورا فقیر وہ ہے جس کے پاس مال ہو اور اس نے آگے کچھ نہ بھیجا ہو۔ (کہ وہ اس دن خالی ہاتھ کھڑا رہ جائے گا جس دن اس کو سخت احتیاج ہوگی)۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ سے خریدلے اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو، میں تجھے اللہ جل کے کسی مطالبہ سے نہیں بچا سکتا۔ اے عائشہ! کوئی مانگنے والا تیرے پاس سے خالی نہ جائے، چاہے بکری کا کھر ہی کیوںنہ ہو۔ (دُرِّ منثور)
امام غزالی  ؒ نے لکھا ہے کہ پہلے لوگ اس کو برا سمجھتے تھے کہ کوئی دن صدقہ کرنے سے خالی جائے چاہے ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، چاہے روٹی کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت میں ہر شخص اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا۔ (اِحیاء العلوم)




۱۰۔ یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ط
ترجمہ:
حق تعالیٰ شانہٗ سود کو مٹاتے ہیں اور صدقات کو بڑھاتے ہیں۔
[سورۃ البقرۃ:276]
فائدہ:
صدقات کا بڑھانا اس سے پہلے بہت سی روایات میں گزر چکا ہے کہ آخرت میں اس کا ثواب پہاڑ کے برابر ہوتا ہے۔ یہ تو آخرت کے اعتبار سے تھا۔ اور دنیا میں بھی اکثر بڑھتا ہے کہ جو شخص صدقہ اخلاص کے ساتھ کثرت سے کرتا رہتا ہے اس کی آمدنی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے، جس کا دل چاہے تجربہ کرکے دیکھ لے۔ البتہ اخلاص شرط ہے، رِیا اور فخر نہ ہو۔ اور سود آخرت میں تو مٹایا ہی جاتا ہے دنیا میں بھی اکثر برباد ہو جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں کہ سود اگرچہ بڑھا ہوا ہو، لیکن اس کا انجام کمی کی طرف ہوتا ہے۔ اور معمر ؒکہتے ہیں کہ چالیس سال میں سود میں کمی ہو جاتی ہے۔ حضرت ضحاک ؒ فرماتے ہیں کہ سود دنیا میں بڑھتا ہے اور آخرت میں مٹا دیا جاتا ہے۔ حضرت ابوبَرْزَہؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی ایک ٹکڑا دیتا ہے، وہ اللہ  کے یہاں اس قدر بڑھتا ہے کہ اُحد پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے۔




۱۱۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ج الآیۃ۔ 
ترجمہ:
اے مسلمانو! تم (کامل) نیکی کو حاصل نہ کرسکو گے یہاں تک کہ اس چیز کو خرچ نہ کرو جو تم کو (خوب) محبوب ہو۔
[سورۃ آل عمران:92]
فائدہ:
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ انصار میں سب سے زیادہ درخت کھجوروں کے حضرت ابو طلحہ ؓ کے پاس تھے اور اُن کا ایک باغ تھا جس کا نام بیرحاء تھا۔ وہ ان کو بہت ہی زیادہ پسند تھا۔ یہ باغ مسجد نبوی کے سامنے ہی تھا۔ حضورِ اقدسﷺاکثر اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کا پانی نوش فرماتے جو بہت ہی بہترین پانی تھا۔ جب یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی تو حضرت ابوطلحہؓ حضورِاقدسﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! حق تعالیٰ شا نہٗ یوں ارشاد فرماتے ہیں:  { لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَط} اور مجھے ساری چیزوں میں بیرحاء سب سے زیادہ محبوب ہے۔ میں اس کو اللہ کے لیے صدقہ کرتا ہوں اور اس کے اجر و ثواب کی اللہ سے امید رکھتا ہوں، آپﷺ جہاں مناسب سمجھیں اس کو خرچ فرمادیں۔ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: واہ! واہ! بہت ہی نفع کا مال ہے۔ میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ اس کو اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردو۔ ابو طلحہؓ نے عرض کیا: بہتر ہے۔ اور اس کو اپنے چچا زاد بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروںمیں بانٹ دیا۔ ایک اور حدیث میں ہے: ابو طلحہؓنے عرض: کیا یارسول اللہ! میرا باغ جو اتنی بڑی مالیت کا ہے وہ صدقہ ہے اور میں اگر اس کی طاقت رکھتا کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہوتو ایسا کرتا۔ مگر باغ ایسی چیز نہیں جو مخفی رہ سکے۔
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب مجھے اس آیتِ شریفہ کا علم ہوا تو میں نے ان سب چیزوں میں غورکیا جو اللہ نے مجھے عطا فرمائی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ ان سب میں مجھے سب سے زیادہ محبوب اپنی باندی مرجانہ ہے۔ میں نے کہا کہ وہ اللہ کے واسطے آزاد ہے۔ اس کے بعد اگر میں اس چیز سے جس کو اللہ کے واسطے دے دیا ہو، دوبارہ نفع حاصل کرنا گوارا کرتا تو اس باندی سے آزاد کر دینے کے بعد نکاح کرلیتا، (کہ وہ جائز تھا اور اس سے صدقہ میں کچھ کمی نہ ہوتی تھی، لیکن چوںکہ اس میں صورت صدقہ میں رجوع کی سی تھی) یہ مجھے گوارا نہ ہوا۔ اس لیے اس کا نکاح اپنے غلام حضرت نافع ؒ سے کردیا۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عمر? نماز پڑھ رہے تھے۔ تلاوت میں جب اس آیتِ شریفہ پر گزر ہوا تو نماز ہی میں اشارہ سے اپنی ایک باندی کو آزاد کردیا۔ حق تعالیٰ شانہٗ اور اس کے پاک رسولﷺ کے ارشادات کی وقعت اور ان پر عمل کرنے میں پیش قدمی تو کوئی ان حضرات صحابہ کرام?سے سیکھے۔ واقعی یہی حضرات اس کے مستحق تھے کہ حضورﷺ کے صحابی بنائے جاتے۔ حضورﷺ کی خادمیت ان ہی حضرات کے شایانِ شان تھی۔  رضي اﷲ تعالٰی عنہم وأرضاھم أجمعین۔
حضرت عمرؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کو لکھا کہ جلولاء کی باندیوں میں سے ایک باندی اُن کے لیے خرید دیں۔ انھوں نے ایک بہترین باندی خرید کر بھیجی۔ حضرت عمر ؓ نے اس باندی کو اپنے پاس بلایا اور یہ آیتِ شریفہ پڑھی اور اس کو آزاد کردیا۔ حضرت محمد بن مُنْکَدِرؓکہتے ہیں کہ جب یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی تو حضرت زید بن حارثہؓکے پاس ایک گھوڑا تھا جو اُن کو اپنی ساری چیزوں میں سب سے زیادہ محبوب تھا۔ وہ اس کو لے کر حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے۔ حضورﷺ نے اس کو قبول فرمالیا اور لے کر ان کے صاحب زادہ حضرت اسامہ ؓ کو دے دیا۔ حضرت زیدؓ کے چہرہ پر اس سے کچھ گرانی کے آثار ظاہر ہوئے۔ (کہ گھر کے گھر ہی میں رہا، باپ کے بجائے بیٹے کا ہوگیا) حضورِ اقدسﷺنے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے تمہارا صدقہ قبول کرلیا۔ (یعنی تمہارا صدقہ ادا ہوگیا، اب میں چاہے اس کو تمہارے بیٹے کو دوں یا کسی اور رشتہ دار کو یا اجنبی کو۔ اس لیے کہ تم تو بیٹے کو نہیں دے رہے جس سے خود غرضی کا شبہ ہو، تم تو مجھے دے چکے، اب مجھے اختیار ہے کہ میں جس کو دل چاہے دوں)
قبیلہ بنی سُلَیم کے ایک شخص کہتے ہیں کہ حضرت ابوذر غفاریؓرَبْذَہ نامی ایک گائوں میں رہتے تھے۔ وہاں ان کے پاس اونٹ تھے اور ان کا چرانے والا ایک ضعیف آدمی تھا۔ میں بھی وہاں اُن کے قریب ہی رہتا تھا۔میں نے ان سے عرض کیا کہ میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں۔ آپ کے چرواہے کی مدد کروں گا اور آپ کے فیوض حاصل کروں گا۔ شاید اللہ آپ کی برکات سے مجھے بھی نفع عطا فرمادیں۔ حضرت ابوذرؓ نے فرمایا: میرا ساتھی وہ ہے (یعنی ایسے شخص کو میں اپنا ساتھی بناسکتا ہوں) جو میرا کہنا مانے۔ اگر تم اس کے لیے تیار ہوتو مضائقہ نہیں، ورنہ میرے ساتھ رہنے کا ارادہ نہ کرو۔ میں نے پوچھا کہ آپ کس چیز میں میری اطاعت چاہتے ہیں؟ فرمایا کہ جب میں کوئی چیز کسی کو دینے کے لیے مانگوں تو سب سے بہتر چھانٹ کردو۔ میں نے قبول کرلیا اور ایک زمانہ تک ان کی خدمت میں رہا۔ ان کو معلوم ہوا کہ اس گھاٹ پر جو لوگ آباد ہیں ان کو تنگی ہے۔ مجھ سے فرمایا کہ ایک اونٹ میرے اونٹوں میں سے لائو۔ میں نے حسبِ وعدہ تلاش کیا تو ان سب میں بہترین ایک اونٹ نر تھا جو بہت سدھا ہوا تھا، اس جیسا کوئی جانور ان میں نہیں تھا۔ میں نے اس کے لے جانے کا ارادہ کیا، لیکن مجھے خیال ہوا کہ اس کی خود یہاں بھی (جفتی وغیرہ کے لیے) ضرورت رہتی ہے۔ اس کو چھوڑ کر باقی اونٹوں میں جو سب سے افضل اور بہتر جانور تھا وہ ایک اونٹنی تھی، میں اس کو لے گیا۔ 
اتفاق سے حضرت کی نظر اس اونٹ پر پڑ گئی جس کو میں مصلحت کی وجہ سے چھوڑ کر گیا تھا۔ مجھ سے فرمانے لگے: تم نے مجھ سے خیانت کی۔ میں سمجھ گیا اور اس اونٹنی کو واپس لاکر وہ اونٹ لے گیا۔ حاضرین مجلس سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ دو آدمی ایسے چاہییں جو ایک ثواب کا کام کریں۔ دو شخصوں نے اپنے آپ کو پیش کیا کہ ہم حاضر ہیں۔ فرمایا کہ اگر تمہیں کوئی عذر نہ ہوتو اس اونٹ کو ذبح کرکے اس کے گوشت کے اتنے ٹکڑے کیے جائیں جتنے گھر اس گھاٹ پر آباد ہیں، اور سب گھروں میں ایک ایک ٹکڑا اس گوشت کا پہنچا دیا جائے، اور میرا گھر بھی ان میں شمار کرلیا جائے، اور اس میں بھی اتنا ہی جائے جتنا جتنا اور گھروں میں جائے، زیادہ نہ جائے۔ ان دونوں نے قبول کرلیا اور تعمیلِ ارشاد کردی۔
جب اس سے فارغ ہو گئے تو مجھے بلایا اور فرمایا کہ مجھے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ تم میرے اس وعدہ کو جو شروع میں ہوا تھا بھول گئے تھے تب تو میں معذور سمجھتا ہوں، یا تم نے باوجود یاد ہونے کے اس کو پسِ پشت ڈال دیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ میں بھولا تو نہیں تھا مجھے وہ یاد تھا، لیکن جب میں نے تلاش کیا اور یہ اونٹ سب سے افضل ملا تومجھے آپ کی ضرورت کا خیال پیدا ہوا کہ آپ کو خود اس کی ضرورت ہے۔ فرمانے لگے کہ محض میری ضرورت کی وجہ سے چھوڑا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ محض اسی وجہ سے چھوڑا تھا۔ فرمانے لگے کہ میں اپنی ضرورت کا وقت بتائوں؟ میری ضرورت کا وقت وہ ہے جب میں قبر کے گڑھے میں ڈال دیا جائوں گا۔ وہ دن میری محتاجی کا دن ہوگا۔ تیرے ہر مال میں تین شریک ہیں۔ ایک تو مقدر شریک ہے، معلوم نہیں کہ تقدیر اچھے مال کو لے جائے یا برے کو، وہ کسی چیز کا انتظار نہیں کرتی۔ (یعنی جس مال کو میں عمدہ اور بہتر اور اپنے دوسرے وقت کے لیے کارآمد سمجھ کر چھوڑ دوں، معلوم نہیں کہ وہ دوسرے وقت میرے کام آسکے گا یا نہیں، تو پھر اسی وقت کیوں نہ اس کو آخرت کا ذخیرہ بنا کر اللہ کے بنک میں جمع کردوں) دوسرا شریک وارث ہے، جو ہر وقت اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب تو گڑھے میں جاوے تاکہ وہ سارا مال وصول کرے۔ تیسرا تو خود اس مال کا شریک ہے۔ (کہ اپنے کام میں لاسکتا ہے) پس اس کی کوشش کرکہ تو تینوں شریکوں میں کم حصہ پانے والا نہ ہو۔ (ایسا نہ ہو کہ مقدر اس کو لے اڑے کہ وہ ضائع ہو جائے یا وارث لے اڑے۔ اس سے بہتر یہی ہے کہ تو اس کو جلدی سے حق تعالیٰ شا نہٗ کے خزانہ میں جمع کردے) اس کے علاوہ حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے: { لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْن ط}اور یہ اونٹ جب مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے تو کیوں نہ اس کو اپنے لیے مخصوص کرکے محفوظ کرلوں اور آگے بھیج دوں۔
ایک اور حدیث میں آیا ہے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک جانورکا گوشت حضورِاَقدسﷺکی خدمت میں پیش کیا گیا۔ حضورﷺنے خود اس کو پسند نہیں کیا، مگر دوسروں کو کھانے سے منع بھی نہیں کیا۔ میں نے عرض کیا کہ اس کو فقیروں کو دے دوں؟ حضورﷺ نے فرمایا: ایسی چیزیں ان کو مت دو جس کو خود کھانا پسند نہیں کرتی ہو۔
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت ابنِ عمر? شَکر خرید کر غربا پر تقسیم کردیتے۔ حضرت کے خادم نے عرض کیا کہ اگر شَکر کی بجائے کھانا دیا جایا کرے تو غربا کو اس سے زیادہ نفع ہو۔ فرمایا: صحیح ہے، میرا بھی یہی خیال ہے، لیکن حق تعالیٰ شا نہٗ کا ارشاد ہے:
{ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّحَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَط}
اور مجھے شکر (میٹھا) زیادہ مرغوب ہے۔ (دُرِّمنثور) 
یہ حضرات کسی چیز کو افضل سمجھتے ہوئے بھی حق تعالیٰ شا نہٗ اور اس کے پاک رسولﷺ کے ظاہر الفاظ پر عمل کرنے کی اکثر کوشش کیا کرتے تھے۔ اس کی بہت سی مثالیں احادیث میں موجود ہیں۔ یہ محبت کی انتہا ہے کہ محبوب کی زبان سے نکلی ہوئی بات پر عمل کرنا ہے چاہے افضل دوسری چیز ہو۔




۱۲۔ وَسَارِعُوْآ اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُط اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَo الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَالضَّرَّآئِ وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاِسط وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ o
ترجمہ:
اور دوڑو اس بخشش کی طرف جو تمہارے ربّ کی طرف سے ہے، اور دوڑو اس جنت کی طرف جس کا پھیلائو سارے آسمان اور زمین ہیں، جو تیار کی گئی ہے ایسے متقی لوگوں کے لیے۔ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں فراخی میں بھی اور تنگی میں بھی، اور غصہ کو ضبط کرنے والے اور لوگوں کی خطائوں کو معاف کرنے والے ہیں، اور اللہ  محبوب رکھتے ہیں احسان کرنے والوں کو۔ 
[سورۃ آل عمران:133]
فائدہ:
علماء نے لکھا ہے کہ بعض لوگوں نے بنی اسرائیل کی اس بات پر رشک کیا تھا کہ جب کوئی شخص ان میں سے گناہ کرتا تو اس کے دروازہ پر وہ گناہ لکھا ہوا ہوتا اور اس کا کفارہ بھی کہ فلاں کام اس گناہ کے کفارہ میں کیا جائے، مثلاً: ناک کاٹ دی جائے، کان کاٹ دیا جائے وغیرہ وغیرہ۔ ان حضرات کو اس پر رشک تھا کہ کفارہ ادا کرنے سے اس گناہ کے زائل ہو جانے کا یقین تھا، اور گناہ کی اہمیت ان حضرات کی نگاہ میں اتنی سخت تھی کہ اس قسم کی سزائوں کو بھی اس کے مقابلہ میں ہلکا اور قابلِ رشک سمجھتے تھے۔ ان حضرات کے جو واقعات حدیث کی کتابوں میں آتے ہیں وہ واقعی ایسے ہی ہیں کہ بشریت سے کسی گناہ کے سرزد ہو جانے کے بعد اس کی ہیبت اور اہمیت ان پر بہت زیادہ مسلط ہو جاتی۔ مرد تو مرد تھے ہی، عورتوں میں بھی یہی جذبہ تھا۔ ایک عورت سے زنا صادر ہوگیا، خود حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئیں، خود اعتراف جرم کیا اور گناہ سے پاک ہونے کے شوق میں اپنے آپ کو سنگسار ہونے کے لیے پیش کیا، اور سنگسار ہوگئیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ گناہ کی ہیبت ان کے دل میں اس مرنے سے بہت زیادہ تھی۔
نماز پڑھتے ہوئے حضرت ابوطلحہؓکے دل میں اپنے باغ کا خیال گزر گیا۔ اس کو اللہ کے راستے میں صدقہ کرکے چین پڑی۔ محض اس غیرت میں کہ نماز میں دنیا کی چیز کا خیال آگیا، ایسی چیز جو نماز میں اپنی طرف متوجہ کرلے اپنے پاس نہیں رکھنی۔ ایک اور انصاری کے ساتھ بھی اس قسم کا قصہ گزرا کہ کھجوریں شباب پر آرہی تھیں نماز میں ان کا خیال آگیا۔ (کہ کیسی پک رہی ہیں) حضرتِ عثمان ؓ کی خلافت کا زمانہ تھا، ان کی خدمت میں حاضر ہو کر باغ کا قصہ ذکر کرکے ان کے حوالہ کردیا۔ جس کو انھوں نے پچاس ہزار میں فروخت کرکے اس کی قیمت دینی کاموں میں خرچ کردی۔ حضرتِ ابوبکر صدیقؓ نے ایک مشتبہ لقمہ ایک مرتبہ غلطی سے کھالیا۔ باربار پانی پی پی کر قے کی کہ وہ ناجائز لقمہ بدن کا جز نہ بن جائے۔ بہت سے واقعات ان حضرات کے اپنے رسالہ ’’حکایاتِ صحابہ‘‘ میں لکھ چکا ہوں۔ ایسی حالت میں ان حضرات کو اگر اس پر رشک ہو کہ بنو اسرائیل کے گناہوں کا کفارہ ان کو معلوم ہو جاتا تھا اور اس سے گناہ زائل ہو جاتا تھا بے محل نہیں۔ ہم نااہلوں کا ذہن بھی یہاں تک نہیں پہنچتا کہ گناہ اس قدر سخت چیز ہے۔ غرض ان حضرات کے اس رشک پر اللہ نے اپنے لطف و کرم اور اپنے محبوب سیدالمرسلینﷺ کی امت پر فضل و انعام کی وجہ سے یہ آیتِ شریفہ نازل فرمائی کہ ایسے نیک کاموں کی طرف دوڑو جن سے اللہ کی مغفرت میسر ہو جائے۔ 
حضرت سعیدبن جبیر ؒ اس آیتِ شریفہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ نیک اعمال کے ذریعہ سے اللہ کی مغفرت کی طرف سبقت کرو اور ایسی جنت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت اتنی ہے کہ ساتوں آسمان برابر برابر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیے جائیں جیسا کہ ایک کپڑا دوسرے کے برابر جوڑ دیا جاتا ہے۔ اور اسی طرح ساتوں زمینیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دی جائیں، تو جنت کی وسعت ان کے برابر ہوگی۔ حضرت ابنِ عباس? سے بھی یہی نقل کیا گیا کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک دوسرے کے برابر جوڑ دی جائیں تو جنت کی چوڑائی ان کے برابر ہوگی۔
حضرت ابنِ عباس?کے غلام حضرت کریب ؒفرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابنِ عباس? نے تورات کے ایک عالم کے پاس بھیجا اور ان کی کتابوں سے جنت کی وُسعت کا حال دریافت کیا۔ انھوں نے حضرت موسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ السلام کے صحیفے نکالے اور ان کو دیکھ کر بتایا کہ جنت کی چوڑائی اتنی ہے کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دی جائیں تو اس کے برابر ہوں۔ یہ تو چوڑائی ہے اور اس کی لمبائی کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے ۔
حضرت انس ؓفرماتے ہیں کہ جنگِ بدر میں حضورِ اقدسﷺنے فرمایا کہ لوگو! ایسی جنت کی طرف بڑھو جس کی چوڑائی سارے آسمان اور زمین ہیں۔ حضرت عمیر بن حمام انصاریؓ نے (تعجب سے) عرض کیا: یارسول اللہ! ایسی جنت جس کی چوڑائی اتنی زیادہ ہے؟ حضور ؓ نے فرمایا: بے شک۔حضرت عمیرؓنے عرض کیا: واہ واہ! یارسول اللہﷺ ! خدا کی قسم! میں اس میں داخل ہونے والوں میں ضرور ہوں گا۔ حضورﷺ نے فرمایا: ہاں ہاں، تم اس میں جانے والوں میں ہو۔ اس کے بعد حضرت عمیرؓنے چند کھجوریں اونٹ کے ہودج میں سے نکال کر کھانا شروع کیں، (کہ لڑنے کی طاقت پیدا ہو) پھر کہنے لگے کہ ان کھجوروں کے کھاچکنے کا انتظار تو بڑی لمبی زندگی ہے۔ یہ کہہ کر ان کو پھینک کر لڑائی کی جگہ چل دیے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ (دُرِّمنثور)
اس آیتِ شریفہ میں مؤمنین کی ایک خاص مدح اور تعریف یہ بھی ذکر کی گئی کہ غصہ کو پینے والے اور لوگوں کو معاف کرنے والے۔ یہ بڑی اونچی اور خاص صفت ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ جب تیرے بھائی سے لغزش ہو جائے تو اس کے لیے ستّر عذر پیدا کر، اور پھر اپنے دل کو سمجھا کہ اس کے پاس اتنے عذر ہیں، اور جب تیرا دل ان کو قبول نہ کرے تو بجائے اس شخص کے اپنے دل کو ملامت کر کہ تجھ میں کس قدر قساوت اور سختی ہے کہ تیرا بھائی ستّر عذر کر رہا ہے اور تو ان کو قبول نہیں کرتا۔ اور اگر تیرا بھائی کوئی عذر کرے تو اس کو قبول کر، اس لیے کہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی عذر کرے اور وہ قبول نہ کرے تو اس پر اتنا گناہ ہوتا ہے جتنا چنگی کے محرِّر کو۔ حضورﷺنے مؤمن کی یہ صفت بتائی ہے کہ جلدی غصہ آجائے اور جلدی ہی زائل ہو جائے۔ یہ نہیں فرمایا کہ غصہ نہ آتا ہو، بلکہ یہ فرمایا کہ جلدی زائل ہو جاتا ہو۔
امام شافعی  ؒ کا ارشاد ہے کہ جس کو غصہ کی بات پر غصہ نہ آئے وہ گدھا ہے اور جو راضی کرنے پر راضی نہ ہو وہ شیطان ہے۔ اسی لیے حق تعالیٰ شا نہٗ نے غصہ کو پینے والے فرمایا، یہ نہیں فرمایا کہ ان کو غصہ نہ آتا ہو۔ (اِحیاء العلوم) 
حضورِ اقدسﷺکا ارشاد ہے کہ جو شخص ایسی حالت میں غصہ کو پی لے کہ اس کو پورا کرنے پر قادر ہو، تو حق تعالیٰ شا نہٗ اس کو امن اور ایمان سے بھرپور کرتے ہیں۔ (دُرِّمنثور) یعنی مجبوری کا نام صبر تو ہر جگہ ہوتا ہے، کمال یہ ہے کہ قدرت کے باوجود صبر کرے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آدمی غصہ کا گھونٹ پی ڈالے، اس سے زیادہ پسندیدہ کوئی گھونٹ اللہ کے نزدیک نہیں ہے۔ جو اس گھونٹ کو پی لے حق تعالیٰ شا نہٗ اس کے باطن کو ایمان سے بھر دیتے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص قدرت کے باوجود غصہ پی جائے، اللہ تعالیٰ قیامت میں ساری مخلوق کے سامنے اس کو بلا کر فرمائیں گے کہ جس حور کو دل چاہے انتخاب کرے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ بہادر وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے، بہادر وہ ہے جو غصہ میں اپنے اوپر قابو پالے۔ 
حضرت علی بن امام حسین? کی ایک باندی ان کو وضوکرا رہی تھی کہ لوٹا ہاتھ سے گرا جس سے ان کا منہ زخمی ہوگیا۔ انھوں نے تیز نگاہ سے باندی کو دیکھا، وہ کہنے لگی: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: { وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَط}  حضرت علی ؒ نے فرمایا: میں نے اپنا غصہ پی لیا۔ اس نے پھرپڑھا: { وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِط} آپ نے فرمایا: تجھے اللہ تعالیٰ معاف کرلے۔ اس نے پھر پڑھا: { وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ط} آپ نے فرمایا: تو آزاد ہے۔ (دُرِّمنثور)
ایک مرتبہ ایک مہمان کے لیے ان کا غلام گرم گرم گوشت کا پیالہ بھرا ہوا لارہا تھا وہ ان کے چھوٹے بچے کے سر پر گر گیا، وہ مرگیا۔ آپ نے غلام سے فرمایا کہ تو آزاد ہے، اور خود بچے کی تجہیز و تکفین میں لگ گئے۔ (روض الریاحین)




۱۳۔ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰـتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ o اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ o اُولٰٓئِکَ  ھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا ط لَھُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌo
ترجمہ:
بس ایمان والے تو وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ  کا ذکر آجائے تو (اس کی عظمت کے خیال سے) ان کے دل ڈر جائیں اور جب اللہ  کی آیتیں ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ ان کے ایمان کو زیادہ مضبوط کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے ربّ ہی پر توکل کرتے ہیں۔ اور نماز کو قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے (اللہ کے واسطے) خرچ کرتے ہیں۔ بس یہی ہیں سچے ایمان والے، ان کے لیے بڑے بڑے درجے ہیں ان کے ربّ کے پاس اور ان کے لیے مغفرت ہے اور ان کے لیے عزت کی روزی ہے۔
[سورۃ الانفال:2]
فائدہ:
حضرت ابو الدرداء ؓفرماتے ہیں کہ دل کا ڈر جانا ایسا ہوتا ہے جیسا کہ کھجور کے خشک پتوں میں آگ لگ جانا۔ اس کے بعد اپنے شاگرد شَہْر بن حَوشب  ؒ کو خطاب کرکے فرماتے ہیں کہ اے شَہْر! تم بدن کی کپکپی نہیں جانتے؟ انھوں نے عر ض کیا: جانتا ہوں۔ فرمایا: اس وقت دعا کیا کرو، اس وقت کی دعا قبول ہوتی ہے۔ حضرت ثابت بنانی ؒ فرماتے ہیں کہ ایک بزرگ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہو جاتا ہے کہ میری کون سی دعا قبول ہوئی اور کون سی نہیں ہوئی۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یہ کس طرح معلوم ہو جاتا ہے؟ فرمایا کہ جس وقت میرے بدن پر کپکپی آجائے اور دل خوف زدہ ہو جائے اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگیں اس وقت کی دعا مقبول ہوتی ہے ۔حضرت سدی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’جب ان کے سامنے اللہ کا ذکرآجائے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص کسی پر ظلم کا ارادہ کرے یا کسی اور گناہ کا قصد کرے، اور اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر، تو اس کے دل میں اللہ کا خوف پیدا ہو جائے۔
حارث بن مالک انصاریؓ ایک صحابی ہیں۔ ایک مرتبہ حضورﷺکی خدمت میں حاضر تھے۔ حضورﷺ نے دریافت فرمایا: حارث کیا حال ہے؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! میں بے شک سچا مؤمن بن گیا۔ حضور ﷺنے فرمایا کہ سوچ کر کہو، کیا کہتے ہو؟ ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے تمہارے ایمان کی کیا حقیقت ہے؟ (یعنی تم نے کس بات کی وجہ سے یہ طے کرلیا کہ میں سچا مؤمن بن گیا) عرض کیا کہ میں نے اپنے نفس کو دنیا سے پھیر لیا، رات کو جاگتا ہوں دن کو پیاسا رہتا ہوں، (یعنی روزہ رکھتا ہوں) اور جنت والوں کی آپس کی ملاقاتوں کا منظر میری آنکھوں کے سامنے رہتا ہے، اور جہنم والوں کے شور و شغب اور واویلا کا نظارہ بھی آنکھوں کے سامنے ہے۔ (یعنی دوزخ جنت کا تصور ہر وقت رہتا ہے) حضور ﷺ نے فرمایا: حارث!    بے شک تم نے دنیا سے اپنے نفس کو پھیر لیا، اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ تین مرتبہ حضورﷺ نے یہی فرمایا۔ (دُرِّمثنور) اور ظاہر بات ہے کہ جس شخص کے سامنے ہر وقت دوزخ اور جنت کا منظر رہے گا وہ دنیا میں کہاں پھنس سکتا ہے۔



۱۴۔ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لاََتُظْلَمُوْنَ
ترجمہ:
اور جو کچھ تم اللہ کے راستہ میں خرچ کرو گے اس کا ثواب تم کو پورا پورا دیا جائے گا اور تم پر کسی قسم کا ظلم نہ کیا جائے گا۔
[سورۃ الانفال:60]
فائدہ:
جن آیات اور احادیث میں ثواب بڑھا کر ملنے کا بیان ہے وہ اس کے منافی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان اعمال میں کسی قسم کی کمی نہیں ہوگی۔ باقی ثواب کی مقدار کیا ہوگی، وہ موقع کی ضرورت ،خرچ کرنے والے کی نیت اور حالات کے اعتبار سے جتنی بھی بڑھ جائے۔ یہ تو آخرت کے اعتبار سے ہے، اور بسا اوقات دنیا میں بھی اس کا پورا بدل ملتا ہے جیسا کہ دوسری آیات اور احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے، جیسا کہ آیات کے ذیل میں نمبر(۲۰) پر اور احادیث کے ذیل میں نمبر(۸) پر آرہا ہے۔ اور اس لحاظ سے اگر اس آیتِ شریفہ میں اس طرف اشارہ ہو تو بعید نہیں۔




۱۵۔ قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَیُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ سِرًّا وَّعَلاََنِیَۃً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلاََ خِلٰلٌo
ترجمہ:
جو میرے خاص ایمان والے بندے ہیں ان سے کہہ دیجیے کہ وہ نماز کو قائم رکھیں اور ہمارے دیے ہوئے رزق سے خرچ کرتے رہیں پوشیدہ طور سے بھی اور اعلانیہ بھی، ایسے دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ خریدو فروخت ہوگی نہ دوستی ہوگی۔
[سورۃ ابراھیم:31]
فائدہ:
’’پوشیدہ طور سے بھی اور علانیہ بھی‘‘ یعنی جس وقت جس قسم کا صدقہ مناسب ہو کہ حالات کے اعتبار سے دونوں قسموں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ مطلب یہ ہو کہ فرض صدقات بھی جن کا علانیہ ادا کرنا اَولیٰ ہے اور نوافل بھی جن کا اِخفا اَولیٰ ہے جیسا کہ آیتِ شریفہ نمبر (۹) کے ذیل میں گزرا۔ اور’’ اس دن‘‘ سے مراد قیامت کا دن ہے جیسا کہ آیتِ شریفہ نمبر(۶) میں گزرا۔ اور’’ نماز کوقائم رکھنا‘‘ سب سے پہلی آیتِ شریفہ میں گزر چکا ہے۔
حضرت جابر ؓفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورِ اقدسﷺنے خطبہ پڑھا۔ اس میں فرمایا: لوگو! مرنے سے پہلے پہلے توبہ کرلو (ایسا نہ ہو کہ موت آجائے اور توبہ رہ جائے) اور مشاغل کی کثرت سے پہلے پہلے نیک اعمال کرلو (ایسا نہ ہو کہ پھر مشغلوں کی کثرت سے وقت نہ ملے)، اور اپنا اور اپنے ربّ کا تعلق مضبوط کرلو اس کی یاد کی کثرت کے ساتھ ،اور مخفی اور علانیہ صدقہ کی کثرت کے ذریعہ سے کہ اس کی وجہ سے تمہیں رزق بھی دیا جائے گا، تمہاری مدد بھی ہوگی، تمہاری شکستہ حالی بھی دور ہوگی۔ (الترغیب والترہیب)




۱۶۔ وَبَشِّرِالْمُخْبِتِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَالصّٰبِرِیْنَ عَلٰی مَا اَصَابَھُمْ وَالْمُقِیْمِی الصَّلٰوۃلا وَمِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ o
ترجمہ:
آپ خوش خبری دیجیے ان عاجزی کرنے والے مسلمانوں کو جو ایسے ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جو مصیبتیں ان پر پڑتی ہیں ان پر صبر کرتے ہیں اور نماز کو قائم رکھنے والے ہیں اور جو ہم نے ان کو دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔
[سورۃ الحج:35-36]
فائدہ:
’’مخبتین‘‘جس کا ترجمہ عاجزی کرنے والوں کا لکھا گیا ہے، اس کے ترجمہ میں علماء کے کئی قول ہیں۔ اس کا اصل ترجمہ پستی کی طرف جانے والوں کا ہے۔ بعض علماء نے اس کا ترجمہ احکامِ الٰہیہ کے سامنے گردن جھکا دینے والوں کا کیا ہے کہ وہ بھی گردن کو نیچے کی طرف لے جاتے ہیں۔ بعض نے تواضع کرنے والوں کا کیا ہے کہ وہ تو گردن جھکانے والے ہر وقت ہی ہیں۔ حضرت مجاہد ؒ نے اس کا ترجمہ مطمئن لوگوں سے کیا ہے۔ عمرو بن اوس ؒ فرماتے ہیں کہ مخبتین وہ لوگ ہیں جو کسی پر ظلم نہ کریں اور اگر ان پر ظلم کیا جائے تو وہ بدلہ نہ لیں۔ ضحاک ؒ کہتے ہیں کہ مخبتین متواضع لوگ ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے نقل کیا گیا کہ وہ جب حضرت ربیع بن خیثم ؒ کو دیکھتے تو فرماتے کہ میں تمہیں دیکھتا ہوں، مجھے مخبتین یاد آجاتے ہیں۔




۱۷۔ وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَـٓا اٰتَوْا وَّقُلُوْبُھُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ رٰجِعُوْنَo اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَo
ترجمہ:
اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں) دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں اور اس پر بھی ان کے دل اس سے ڈرتے رہتے ہیں کہ وہ اللہ کے پاس جانے والے ہیں، یہی لوگ ہیں جو نیکیوں میں دوڑنے والے ہیں اور یہی ہیں وہ لوگ جو نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔
[سورۃ المؤمنون:57]
فائدہ:
یعنی باوجود اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے اس سے ڈرتے رہتے ہیں کہ دیکھیے اللہ کے یہاں ان نیکیوں کا کیا حشر ہو، قبول ہوتی ہیں یا نہیں۔ یہ حق تعالیٰ شا نہٗ کی غایتِ عظمت اور علوِّ مرتبہ کی وجہ سے ہے۔ جو شخص جتنا اونچے مرتبہ کا ہوتا ہے اتنا اس کا خوف غالب ہوتا ہے، بالخصوص اس شخص کے لیے جس کے دل میں واقعی عظمت ہو۔ نیز وہ اس سے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ اس کے خرچ کرنے میں نیت بھی ہماری خالص ہے یا نہیں؟ بسا اوقات نفس اور شیطان کے مکر کی وجہ سے آدمی کسی چیز کو نیکی سمجھتا رہتا ہے اور وہ نیکی نہیں ہوتی، جیساکہ سورۂ کہف کے آخری رکوع میں ارشاد ہے:
قُلْ ھَلْ نُنَـبِّئُکُمْ بِالْاَخْسَرِیْنَ اَعْمَالًاo اَلَّذِیْنَ ضَلَّ سَعْیُھُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ یُحْسِنُوْنَ صُنْعًاo
ترجمہ:
آپ کہہ دیجیے کہ ہم تم کو ایسے آدمی بتائیں جو اعمال کے اعتبار سے سب سے زیادہ خسارے والے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوششیں دنیا میں گئی گزری ہوگئیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اچھے کام کر رہے ہیں۔
[سورۃ الکھف:103]

فائدہ:
حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ مؤمن نیکیاں کرکے ڈرتا ہے اور منافق برائیاں کرکے بے خوف ہوتا ہے۔ ’’فضائلِ حج‘‘ میں متعدد واقعات اس قسم کے ذکر ہوچکے ہیں کہ جن کے دلوں میں حق تعالیٰ شا نہٗ کی عظمت اور جلال کامل درجہ کا ہوتا ہے وہ زبان سے لبیک کہتے ہوئے اس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ مردود نہ ہو جائے۔
حضرت عائشہ ؓ کہتی ہیں: یارسول اللہ! {وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ} الآیۃ  یہ آیتِ شریفہ ان لوگوںکے بارہ میں ہے کہ ایک آدمی چوری کرتا ہے، زنا کرتا ہے، شراب پیتا ہے اور دوسرے گناہ کرتا ہے، اور اس بات سے ڈرتا ہے کہ اس کو اللہ کی طرف رجوع کرنا ہے۔ (یعنی اس کو اپنے گناہوں کی وجہ سے حق تعالیٰ شا نہٗ کے حضور میں پیش ہونے کا ڈر ہوتا ہے کہ وہاں جا کر کیا منہ دکھائے گا) حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں،بلکہ یہ وہ لوگ ہیں کہ ایک آدمی روزہ رکھتا ہے، صدقہ دیتا ہے، نماز پڑھتا ہے اور وہ اس کے باوجود اس سے ڈرتا ہے کہ وہ قبول نہ ہو۔
دوسری حدیث میں ہے حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ وہ لوگ ہیں جو خطائیں کرتے ہیں، گناہ کرتے ہیں اور وہ ڈرتے ہیں۔ حضورﷺنے ارشاد فرمایا: نہیں، بلکہ وہ لوگ ہیں جو نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، صدقے دیتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے رہتے ہیں۔ حضرت ابنِ عباس? سے نقل کیا گیا کہ وہ لوگ اعمال کرتے ہیں ڈرتے ہوئے۔ سعید بن جبیر ؒ فرماتے ہیں کہ وہ صدقات دیتے ہیں اور قیامت میں اللہ کے سامنے کھڑے ہونے سے اور حساب کی سختی سے ڈرتے ہیں۔ حضرت حسن بصری ؒ سے نقل کیا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نیک عمل کرتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں کہ کہیں ان اعمال کی وجہ سے بھی عذاب سے نجات نہ ملے۔ (دُرِّ منثور)
حضرت زین العابدین علی بن حسین? جب وضو کرتے تو چہرہ کا رنگ زرد ہو جاتا اور جب نماز کو کھڑے ہوتے تو بدن پر کپکپی آجاتی۔ کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو ارشاد فرمایا: جانتے بھی ہو کس کے سامنے کھڑا ہوتا ہوں۔ (روض الریاحین) ’’فضائلِ نماز‘‘ میں متعدد واقعات اس قسم کے ذکر کیے گئے اور ’’حکایاتِ صحابہ‘‘ کا ایک باب مستقل اللہ تعالیٰ شا نہٗ سے ڈرنے والوں کے بیان میں ہے۔



۱۸۔ وَلَا یَاْتَلِ اُولُوْا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُھٰجِرِیْنَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِص وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْط اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o
ترجمہ:
اور جو لوگ تم میں (دین کے اعتبار سے) بزرگی والے اور (دنیا کے اعتبار سے) وسعت والے ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ وہ اہلِ قرابت کو اورمساکین کو اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو نہ دیں گے، اور ان کو یہ چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر کر دیں۔ کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصوروں کومعاف کردے؟ (پس تم بھی اپنے قصور واروں کو معاف کر دو) بے شک اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہے۔
[سورۃ النور:22]

فائدہ:
۶ھ؁ میں غزوۂ بنی مصطلق کے نام سے ایک جہاد ہوا ہے، جس میں حضرت عائشہؓ بھی حضورِ اقدسﷺکے ہمراہ تھیں۔ ان کی سواری کا اونٹ علیحدہ تھا، اس پر ہودج تھا۔ یہ اپنے ہودج میں رہتی تھیں۔ جب چلنے کا وقت ہوتا ، چند آدمی ہودج کو اٹھا کر اونٹ پر باندھ دیتے۔ بہت ہلکا پھلکا بدن تھا، اٹھانے والوں کو اس کا احساس بھی نہ ہوتا تھا کہ اس میں کوئی ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ جب چار آدمی مل کر ہودج کو اٹھائیں، اس میں ایک کمسن ہلکی پھلکی عورت کے وزن کا کیا پتہ چل سکتا ہے؟ حسبِ معمول ایک منزل پر قافلہ اترا ہوا تھا، جب روانگی کا وقت ہوا تو لوگوں نے ان کے ہودج کو باندھ دیا۔ یہ اس وقت استنجے کے لیے تشریف لے گئیں تھیں۔ واپس آئیں تو دیکھا کہ ہار نہیں ہے جو پہن رہی تھیں۔ یہ اس کو تلاش کرنے چلی گئیں، پیچھے یہاں قافلہ روانہ ہوگیا، یہ تنہا اس جنگل میں کھڑی رہ گئیں۔
انھوں نے خیال فرمایا کہ جب راستہ میں حضور ﷺ کو میرے نہ ہونے کا علم ہوگا تو آدمی تلاش کرنے اسی جگہ آئے گا، وہیں بیٹھ گئیں اور جب نیند کا غلبہ ہوا تو سوگئیں۔ اپنے نیک اعمال کی وجہ سے طمانیتِ قلب تو حق تعالیٰ شا نہٗ نے ان سب حضرات کوکمال درجہ کی عطا فرما رکھی تھی، آج کل کی کوئی عورت ہوتی تو تنہا جنگل بیابان میں رات کونیند آنے کا توذکر ہی کیا خوف کی وجہ سے رو کر چلّا کر صبح کر دیتی۔
حضرت صفوان بن معطلؓ ایک بزرگ صحابی تھے، جو قافلے کے پیچھے اس لیے رہا کرتے کہ راستہ میں گری پڑی چیز کی خبر رکھا کریں۔ وہ صبح کے وقت جب اس جگہ پہنچے تو ایک آدمی کو پڑا دیکھا۔ اور چوںکہ پردہ کے نازل ہونے سے پہلے حضرت عائشہؓ کو دیکھا تھا اس لیے ان کو یہاں پڑا دیکھ کر پہچان لیا اور زور سے إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّآ إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا۔ ان کی آواز سے ان کی آنکھ کھلی اور منہ ڈھانک لیا۔ انھوں نے اپنا اونٹ بٹھایا یہ اس پر سوار ہوگئیں، اور وہ اونٹ کی نکیل پکڑ کر لے گئے اورقافلہ میں پہنچا دیا۔ عبداللہ بن اُبی جو منافقوں کا سردار  اور مسلمانوں کا سخت دشمن تھا ،اس کو تہمت لگانے کا موقع مل گیا اور خوب اس کی شہرت کی۔ اس کے ساتھ بعض بھَولے مسلمان بھی اس تذکرے میں شامل ہوگئے۔ اور اللہ کی قدرت اور شان کہ ایک ماہ تک یہ ذکر تذکرے ہوتے رہے، لوگوں میں کثرت سے اس واقعہ کا چرچا ہوتا رہا اور کوئی وحی وغیرہ حضرت عائشہؓ کی براء ت کی نازل نہ ہوئی۔ حضورِ اقدس ﷺ اور مسلمانوں کو اس حادثہ کا سخت صدمہ تھا اور جتنا بھی صدمہ ہونا چاہیے تھا وہ ظاہر ہے۔ حضورﷺ مردوں سے اور عورتوں سے اس بارے میں مشورہ فرماتے تھے، احوال کی تحقیق فرماتے تھے مگر یکسوئی کی کوئی صورت نہ ہوتی۔ ایک ماہ کے بعد سورۂ نور کا مستقل ایک رکوع قرآن پاک میں حضرت عائشہؓ کی براء ت میں نازل ہوا اور اللہ کی طرف سے ان لوگوں پر سخت عتاب ہوا جنہو ں نے بے دلیل، بے ثبوت اس تہمت کو شائع کیا تھا۔ اس واقعہ کو شہرت دینے والوں میں حضرت مسطح ؓ ایک صحابی بھی تھے جو حضرت ابوبکر صدیقؓکے رشتہ دار تھے اور حضرت ابوبکر ؓ ان کی خبر گیری اور اعانت فرمایا کرتے تھے۔
اس تہمت کے قصہ میں ان کی شرکت سے حضرت ابو بکر ؓ کو رنج ہوا اور ہونا بھی چاہیے تھا کہ انھوں نے اپنے ہو کر بے تحقیق اس بات کو پھیلایا۔ اس رنج میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے قسم کھالی کہ مسطح ؓ کی اعانت نہ کریں گے، اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی جو اوپر لکھی گئی۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صدیقِ اکبرؓ کے علاوہ بعض دوسرے صحابہ? نے بھی ایسے لوگوں کی اعانت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا جنہوں نے اس تہمت کے واقعہ میں زیادہ حصہ لیا تھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مسطح ؓ نے اس میں بہت زیادہ حصہ لیا اور حضرت ابوبکر ؓ کے رشتہ دار تھے، انھیں کی پرورش میں رہتے تھے۔ جب براء ت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکرؓنے قسم کھالی کہ ان پر خرچ نہ کریں گے، اس پر یہ آیت {وَلَا یَاْتَلِ} نازل ہوئی اور آیتِ شریفہ کے نازل ہونے کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے ان کو اپنی پرورش میں پھر لے لیا۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ اس آیتِ شریفہ کے بعد حضرت ابوبکرؓ نے جتنا پہلے سے خرچ کرتے تھے اس کا دوچند کر دیا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ دو یتیم تھے جو حضرت ابو بکر ؓ کی پرورش میں تھے، جن میں سے ایک مسطحؓ تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے دونوں کا نفقہ بند کرنے کی قسم کھالی تھی۔ حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ صحابہ?  میں کئی آدمی ایسے تھے جنہوں نے حضرت عائشہؓ کے اوپر بہتان میں حصہ لیا، جس کی وجہ سے بہت سے صحا بہ کرام? جن میں حضرت ابوبکرؓ بھی ہیں، ایسے تھے کہ جنہوں نے قسم کھالی تھی کہ جن لوگوں نے اس بہتان کی اشاعت میں حصہ لیا ان پر خرچ نہ کریں گے۔ اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی کہ بزرگی والے اور وسعت والے حضرات اس کی قسم نہ کھائیں کہ وہ صلہ رحمی نہ کریں گے اور جس طرح پہلے خرچ کرتے تھے اسی طرح خرچ نہ کریں گے۔ (دُرِّمنثور) کس قدر مجاہدۂ عظیم ہے کہ ایک شخص کسی کی بیٹی کی آبروریزی میں جھوٹی باتیں کہتا پھرے اور پھر وہ اس کی اعانت اسی طرح کرے جس طرح پہلے سے کرتا تھا، بلکہ اس سے  بھی دو چند کردے۔




۱۹۔ تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًاز وَّمِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ o  فلَاَ تَعْلَمُ نَفْسٌ  مَّا اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍط جَزَائً م بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o 
ترجمہ:
رات کو ان کے پہلوبستروں سے علیحدہ رہتے ہیں اس طرح کہ وہ لوگ اپنے ربّ کو  (عذاب کے) خوف سے اور (ثواب کی)  امید میں پکارتے رہتے ہیں، اور ہماری دی ہوئی چیزوں سے خرچ کرتے رہتے ہیں۔ پس کوئی نہیں جانتا کہ ایسے لوگوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیاسامان خزانۂ غیب میں موجود ہے۔ یہ بدلہ ہے ان کے نیک اعمال کا۔
[سورۃ السجدۃ:16]

فائدہ:
’’رات کو ان کے پہلو بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں‘‘ کے متعلق علمائے تفسیر کے دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ اس سے مغرب عشا کا درمیان مراد ہے۔ بہت سے آثار سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیتِ شریفہ ہمارے بارے میں نازل ہوئی۔ ہم انصار کی جماعت مغرب کی نماز پڑھ کر اپنے گھر واپس نہ ہوتے تھے اس وقت تک کہ حضورﷺ کے ساتھ عشا کی نماز نہ پڑھ لیں، اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔ ایک اور روایت میں حضرت انسؓ ہی سے نقل کیا گیا کہ مہاجرین صحابہ ? کی ایک جماعت کا معمول یہ تھا کہ وہ مغرب کے بعد سے عشا تک نوافل پڑھا کرتے، اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔ حضرت بلالؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ مغرب کے بعد بیٹھے رہتے اور صحابہ? کی ایک جماعت مغرب سے عشا تک نماز پڑھتی تھی، اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔عبداللہ بن عیسیٰؓ سے بھی یہی نقل کیا گیا کہ انصا ر کی ایک جماعت مغرب سے عشا تک نوافل پڑھتی تھی، اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔
دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے تہجد کی نماز مراد ہے۔ حضرت معاذؓ حضورِاقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اس سے رات کا قیام مراد ہے۔ ایک حدیث میں مجاہد ؒ سے نقل کیا گیا کہ حضورِ اقدسﷺ نے رات کے قیام کا ذکر فرمایا اور حضورﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور یہ آیتِ شریفہ تلاوت فرمائی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: تورات میں لکھا ہے کہ جن لوگوں کے پہلو رات کو بستروں سے دور رہتے ہیں، ان کے لیے حق تعالیٰ شا نہٗ نے ایسی چیزیں تیار کر رکھی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کان نے سنا اور نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا وسوسہ بھی پیدا ہوا۔ نہ ان کو کوئی مقرب فرشتہ جانتا ہے، نہ کوئی نبی رسول۔ اور اس کا ذکر قرآن پاک کی اس آیتِ شریفہ میں ہے۔
حضرت ابوہریرہؓبھی حضورِ اقدسﷺسے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کا ارشاد ہے کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ چیزیں تیار کر رکھی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کان نے سنا، نہ کسی کے دل پر ان کا وسوسہ گزرا۔ ’’روض الریاحین‘‘ وغیرہ میں سینکڑوں واقعات ایسے لوگوں کے مذکور ہیں جو ساری رات مولا کی یاد میں رو رو کر گزار دیتے تھے۔ حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کا چالیس سال تک عشا کے وضو سے صبح کی نماز پڑھنا ایسی معروف چیز ہے جس سے انکار کی گنجایش نہیں۔ اور ماہِ مبارک میں دوقرآن شریف روزانہ، ایک دن کا ایک رات کا ختم کرنا بھی معروف ہے۔
حضرت عثمانؓ کا ساری رات جاگنا اور ایک رکعت میں پورا قرآن شریف پڑھ لینا بھی مشہور واقعہ ہے۔ حضرت عمرؓ بسا اوقات عشا کی نماز پڑھ کر گھر میں تشریف لے جاتے اور گھر جا کرنماز شروع کر دیتے اور نماز پڑھتے پڑھتے صبح کر دیتے۔ حضرت تمیم داریؓ مشہور صحابی ہیں۔ ایک رکعت میں تمام قرآن شریف پڑھنا اور کبھی ایک ہی آیت کو صبح تک بار بار پڑھتے رہنا ان کامعمول تھا۔ حضرت شداد بن اوسؓ سونے کے لیے لیٹتے اور ادھر ادھر کروٹیں بدل کر یہ کہہ کر کھڑے ہوجاتے کہ یا اللہ! جہنم کے خوف نے میر ی نیند اڑا دی، اور صبح تک نماز پڑھتے رہتے۔ حضرت عمیرؓ ایک ہزار رکعت نفل اور ایک لاکھ مرتبہ تسبیح روزانہ پڑھتے۔ حضرت اویس قرنی  ؒ مشہور تابعی ہیں، حضورؓ نے بھی ان کی تعریف فرمائی اور ان سے دعا کرانے کی لوگوں کو ترغیب دی۔ کسی رات کو فرماتے کہ آج کی رات رکوع کرنے کی ہے اور ساری رکعت رکوع میں گزار دیتے۔ کسی رات فرماتے کہ آج کی رات سجدہ کی ہے اور ساری رات سجدہ میں گزار دیتے۔ (اِقامۃ الحجہ) غرض ان حضرات کے واقعات رات بھر مالک کی یاد میں، محبوب کی تڑپ میں گزار دینے کے اتنے کثیر ہیں کہ ان کا اِحاطہ ناممکن ہے۔ یہی حضرات حقیقتًا اس شعر کے مصداق تھے:
ہمارا کام ہے راتوں کو رونا یادِ دلبر میں
ہماری نیند ہے محوِ خیالِ یار ہو جانا
کاش حق تعالیٰ شا نہٗ ان حضرات کے جذبات کا ذرا سا سایہ اس ناپاک پر بھی ڈال دیتا۔




۲۰۔ قُلْ اِنَّ رَبِّیْ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَہٗط وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہٗج وَھُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ
ترجمہ:
آپ کہہ دیجیے کہ میرا ربّ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے روزی کی وسعت عطا کرتا ہے اور جس کو چاہے روزی کی تنگی دیتا ہے، اور جو کچھ تم (اللہ کے راستے میں) خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس کا بدل عطا کرے گا، اوروہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
[سورۃ سبا:36]

فائدہ:
یعنی تنگی اور فراخی اللہ تعالیٰ شا نہٗ کی طرف سے ہے۔ تمہارے خرچ کو روکنے سے فراخی نہیں ہوتی اور خرچ زیادہ کرنے سے تنگی نہیں ہوتی، بلکہ اللہ کے راستہ میں جو خرچ کیا جائے اس کا بدلہ آخرت میں تو ملتا ہی ہے دنیا میں بھی اکثر اس کابدل ملتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت جبرئیل  ؑ نے اللہ  کا یہ ارشاد نقل کیا: میرے بندو! میں نے تم کو اپنے فضل سے عطا کیا اور تم سے قرض مانگا۔ پس جو شخص مجھے اپنی خوشی اور رضا و رغبت سے دے گا میں اس کا بدل دنیا میں جلدی دوں گا اور آخرت میں اس کے لیے ذخیرہ بنا کر رکھوں گا ، اور جو خوشی سے نہ دے گا، بلکہ اس سے میں اپنی دی ہوئی چیز جبراً واپس لے لوں گا، اور وہ اس پر صبر کرے گا اور ثواب کی امید رکھے گا، اس کے لیے میں اپنی رحمت واجب کردوں گا اور اس کو ہدایت یافتہ لوگوں میں لکھوں گااور اس کے لیے اپنے دیدار کو مباح کر دوں گا۔(کنز العمال) کس قدر حق تعالیٰ شانہ کا احسان ہے کہ اپنی خوشی سے نہ دینے کی صورت میں بھی اگر بندہ جبر سے لیے جانے میں بھی صبر کرے تو اس کے لیے بھی اجر فرما دیا، حالاںکہ جب وہ حق تعالیٰ شانہٗ کی عطا کی ہوئی چیز خوشی سے واپس نہیں کرتاجبراً اس سے لی جاتی ہے، تو پھر اجر کا کیا مطلب؟ لیکن حق تعالیٰ شانہ‘ کے احسانات کا کوئی شمار ہوسکتا ہے؟
حضرت حسنؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺنے اس آیتِ شریفہ کے بارے میں فرمایا کہ تم جو کچھ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو بغیر اِسراف کے اور بغیر کنجوسی کے، وہ سب اللہ کے راستہ میں ہے۔ حضرت جابرؓ حضورِ اقدسﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ آدمی جو کچھ شرعی نفقہ میں خرچ کرے اللہ تعالیٰ کے ذمہ اس کا بدل ہے، بجز اس کے کہ جو تعمیر میں خرچ کیا ہو یا معصیت میں۔ حضرت جابرؓحضورِ اقدسﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ ہر احسان صدقہ ہے، اور جو کچھ آدمی اپنے نفس پر اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرے وہ صدقہ ہے، اور جو کچھ اپنی آبرو کی حفاظت میں خرچ کرے وہ صدقہ ہے، اور مسلمان جو کچھ (شریعت کے موافق) خرچ کرتا ہے اللہ اس کے بدل کے ذمہ دار ہیں، مگر وہ خرچہ جو گناہ میں ہو یا تعمیر میں۔
حکیم ترمذی ؒ نے حضرت زبیرؓ سے ایک مفصَّل قصہ نقل کیا جو احادیث کے ذیل میں نمبر (۱۲) پر مفصَّل آرہا ہے۔ علامہ سیوطی ؒنے ’’دُرِّمنثور‘‘ میں اس کو حکیم ترمذی ؒکی روایت سے مفصَّل نقل کیا ہے، لیکن خود انھوں نے ’’لُآلی المصنوعۃ‘‘ میں اس کو بہت مختصر طور پر ابن عدی کی روایت سے موضوعات میں نقل کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ حضورِ اقدسﷺ کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ روزانہ صبح کو دو فرشتے حق تعالیٰ شانہٗ سے دعا کرتے ہیں۔ ایک دعا کرتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کابدل عطا فرما۔ دوسرا عرض کرتا ہے: اے اللہ! روک کے رکھنے والے کے مال کو ہلاک کر۔ احادیث کے ذیل میں یہ حدیث نمبر( ۲) پر آرہی ہے۔ اور تجربہ میں بھی اکثر آیا ہے کہ جو حضرات سخاوت کرتے ہیں اللہ کے دربار سے فتوحات کا دروازہ ان کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے اور جو لوگ کنجوسی سے جوڑ جوڑ کر رکھتے ہیں، اکثر کوئی سماوی آفت، بیماری، مقدمہ، چوری وغیرہ ایسی چیز پیش آجاتی ہے جس سے برسوں کا اندوختہ دنوں میں ضائع ہو جاتا ہے۔ اور اگر کسی کے دوسرے نیک اعمال کی برکت سے اور اس کی نیک نیتی سے اس پر کوئی ایسا خرچ نہیں پڑتا، تو نالائق اولاد باپ کے اندوختہ کو جو اس کی عمر بھر کی کمائی تھی، مہینوں میں برابر کر دیتی ہے ۔ حضرت اسماء ؓ فرماتی ہیں کہ مجھ سے حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خوب خرچ کیا کر اور گِن گِن کر مت رکھ کہ اللہ تجھے بھی گِن گِن کر عطا کرے گا۔ اور جمع کرکے مت رکھ کہ اللہ تجھ سے بھی جمع کرکے رکھنے لگے گا۔ عطا کر جتنا تجھ سے ہوسکے۔ (مشکوٰۃ بروا یۃ الشیخین)
ایک مرتبہ حضورِ اقدسﷺ حضرت بلالؓ کے پاس تشریف لے گئے۔ ان کے پاس ایک ڈھیری کھجوروں کی رکھی تھی۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ انھوں نے عرض کیا کہ آیند ہ کی ضرورت کے لیے رکھ لیا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ تم اس سے نہیں ڈرتے کہ اس کا دھواں جہنم کی آگ میں دیکھو؟ بلال! خوب خرچ کرو اور عرش کے مالک سے کمی کا خوف نہ کرو۔ (مشکٰوۃ المصابیح) یہاں ضرورت کے درجہ میں بھی آیندہ کے لیے ذخیرہ رکھنے پر عتاب ہے اور جہنم کا دھواں دیکھنے کی وعید ہے۔
حضرت بلال ؓ کی شایانِ شان یہی چیز تھی۔ اس لیے کہ یہ ان عالی مرتبہ لوگوں میں ہیں جن کے لیے حضورﷺ اس کو گوارا نہ فرماسکتے تھے کہ ان کو کل کا فکر ہو اور ان کو اپنے مالک پر اس کا پورا وثوق نہ ہو کہ جس نے آج دیا وہ کل کو بھی دے گا۔ ہر شخص کی ایک شان اور اس کا ایک مرتبہ ہوا کرتا ہے۔ حَسَنَاتُ اْلأبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنِ مشہور مقولہ ہے کہ عامی نیک لوگوں کے لیے جو چیزیں نیکیاں ہیں مقَّرب لوگوں کی شان میں وہ بھی کوتاہیاں شمار ہو جاتی ہیں، بہت سے واقعات اس کی نظیریں ہیں۔ بہرحال مال رکھنے کے واسطے ہرگز نہیں، جمع کرنے کی چیز بالکل نہیں ہے۔ یہ صرف خرچ کرنے کے واسطے پیدا ہوا ہے۔ اپنی ذات پر کم سے کم اور دوسروں پر زیادہ سے زیادہ خرچ کرنا اس کا فائدہ ہے، لیکن یہ بات نہایت ہی اہم اور ضروری ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ کے یہاں سارا مدار نیت ہی پر ہے۔ إِنَّمَا الأعْمَالُ بِالنِّیَاتِ مشہور حدیث ہے کہ اعمال کا مدار نیت ہی پر ہے۔ جہاںنیک نیتی ہو، محض اللہ کے واسطے خرچ کرتا ہو، چاہے اپنے نفس پر ہو، چاہے اہل و عیال پر، چاہے اقربا پر، چاہے اغیار پر، وہ برکات اور ثمرات لائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ او ر جہاں بدنیتی ہو، شہرت اور عزت مقصود ہو، نیک نامی اور دوسری اَغراض مل گئی ہوں، وہاں نیکی برباد گناہ لازم ہو جاتا ہے، وہاں برکت کا سوال ہی نہیں رہتا۔




۲۱۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَاَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَاَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَo لِیُوَفِّیَھُمْ اُجُوْرَھُمْ وَیَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ ط اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ o
ترجمہ:
جو لوگ قرآن پاک کی تلاوت کرتے رہتے ہیں، اورنماز کو قائم رکھتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں، وہ ایسی تجارت کے امیدوار ہیں جس میں گھاٹا نہیں ہے۔ اور یہ اس لیے تاکہ حق تعالیٰ شا نہٗ ان کو ان کے اعمال کی اُجرتیں بھی پوری پوری عطا کرے اور اس کے علاوہ اپنے فضل سے (بطورِانعام کے) اور زیادہ عطا کرے۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا بڑا قدر دان ہے۔
[سورۃ فاطر:36]

فائدہ:
حضرت قتادہ ؒفرماتے ہیں کہ’’ ایسی تجارت سے جس میں گھاٹا نہیں‘‘ جنت مراد ہے، جو نہ کبھی برباد ہو گی نہ خراب ہوگی اور ’’اپنے فضل سے زیادتی‘‘ سے مراد وہ ہے جس کو (قرآن پاک میں){ وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ} سے تعبیر کیا ہے۔ (دُرِّمنثور) یہ آیت جس کی طرف حضرت قتادہ ؒ نے اشارہ کیا ہے سورۂ ق کی آیت ہے، جس میںاللہ کا ارشاد ہے: {لَھُمْ مَّایَشَآئُ وْنَ فِیْھَا وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌo} ان (جنت والوں) کے لیے جنت میں ہر وہ چیز موجود ہوگی جس کی یہ خواہش کریں گے، اور (ان کی چاہی ہوئی چیزوں کے علاوہ) ہمارے پاس ان کے لیے اور بھی زیادہ ہے۔ (جو ہم ان کو عطا کریں گے) اور اس کی تفسیر میں احادیث میں بہت ہی عجیب عجیب چیزیں ذکر کی گئیں جو بڑی تفصیل طلب ہیں، اور ان میں سب سے اونچی چیزحق تعالیٰ شا نہٗ کی رضا کا پروانہ ہے اور بار بار کی زیارت جو خوش قسمت لوگوں کو نصیب ہوگی۔ اور یہ اتنی بڑی دولت کیسی کم محنت چیزوں پر مرتب ہے جن میں کوئی مشقت اٹھانا نہیں پڑتی۔ اللہ کی راہ میں کثرت سے خرچ کرنا ،نماز کو قائم رکھنا اور قرآنِ پاک کی تلاوت کثرت سے کرنا جو خود دنیا میں بھی لذت کی چیز ہے۔ قرآنِ پاک کی کثرتِ تلاوت کے چند واقعات ابھی گزر چکے ہیں اور کچھ واقعات ’’فضائلِ قرآن‘‘ میں ذکر کیے گئے ان کو غور سے دیکھنا چاہیے۔



۲۲۔ وَالَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّھِمْ وَاَقَامُوْا الصَّلٰوۃَص وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ ص وَمِمَّا رَزَقْنٰـھُمْ یُنْفِقُوْنَ o 
ترجمہ:
اور جن لوگوں نے اپنے ربّ کا حکم مانا اور نماز کو قائم کیا اور ان کا ہر (مُہْتَم بالشان) کام مشورے سے ہوتا ہے اور جو ہم نے ان کو دیا ہے اس سے وہ  خرچ کرتے رہتے ہیں۔ (ایسے لوگوں کے لیے حق تعالیٰ شانہٗ کے یہاں جو عطایا ہیں وہ دنیا کے سازو سامان سے بدرجہا بہتر اور پائیدار ہیں)
[سورۃ الشوریٰ :36]

فائدہ:
ان آیات میں کامل لوگوں کی بہت سی صفات ذکر کی ہیں اور ان کے لیے حق تعالیٰ شا نہٗ نے اپنے پاس جو ہے اور وہ دنیا کی نعمتوں سے بدرجہا بہتر ہے اس کا وعدہ فرمایا ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ ان آیات میں { لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo} سے بالترتیب حضرات خلفائے راشدین ? کی خصوصی صفات اور وقتی حالات کی طرف اشارہ ہے۔ اور حضرت صدیق اکبر ؓ سے لے کر حضرت علیؓ، بلکہ حضرات حسنین ? کے زمانہ تک کے احوال سے خلافت کی ترتیب کی طرف اشارہ ہے۔ اور اُسی ترتیب سے صفات و احوال پر تنبیہ ہے جس ترتیب سے حضرات کی خلافت ہوئی۔ اور ان آیات میں اشارہ کے طور پر آخرت میں ان حضرات خلفائے راشدین ? کے لیے بہت کچھ عطایا کا وعدہ ہے۔ اور الفاظ کے عموم سے ان سب لوگوں کے لیے وعدہ ہے جو ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کااہتمام کریں۔ کاش! ہم مسلمانوں کو دین کا شوق ہوتا، اور قرآن اور حدیث کے بتائے ہوئے بہترین اخلاق کو تلاش کرکے اپنانے کا جذبہ ہوتا، مگر ہمارے اخلاق اس قدر گرتے جا رہے ہیں، بلکہ گر چکے ہیں کہ ان کو دیکھ کر غیر مسلموں کو اسلام سے نفرت ہوتی ہے۔ ان غریبوں کو یہ معلوم نہیں کہ اسلامی اخلاق پر آج کل مسلمان چل ہی نہیں رہے، وہ مسلمانوں کے جو اخلاق دیکھتے ہیں انہی کو اسلامی اخلاق سمجھتے ہیں۔  فَإِلٰی اللّٰہِ المُشْتَکیٰ۔




۲۳۔ وَفِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o
ترجمہ:
اور ان کے مالوں میں سوال کرنے والے کا اور (سوال نہ کرنے والے) نادار کا حق ہے۔
[سورۃ الذاریات:19]

فائدہ:
اوپر سے کامل ایمان والوں کی خاص صفتیں بیان ہو رہی ہیں، جن کے ذیل میں ان کی ایک خاص صفت یہ بھی ہے کہ وہ صدقات اتنے کثرت اورایسے اہتمام سے دیتے ہیں کہ گویا یہ ان کے ذمہ حق ہوگیا ہے۔ حضرت ابنِ عباس?  فرماتے ہیں کہ ان کے اموال میں حق ہے یعنی زکوٰۃ کے علاوہ، جس سے وہ صلہ رحمی کرتے ہیں اور مہمانوں کی دعوت کرتے ہیں اور محروم لوگوں کی اعانت کرتے ہیں۔ مجاہد  ؒ کہتے ہیں کہ اس سے زکوٰۃ کے علاوہ مراد ہے۔ ابراہیم  ؒ کہتے ہیں کہ وہ لوگ اپنے مالوں میں زکوٰۃ کے علاوہ اور بھی حق سمجھتے ہیں۔ ابنِ عباس? کہتے ہیں کہ محروم وہ پریشان حال ہے جو دنیا کا طالب ہو اور دنیا اس سے منہ پھیرتی ہو اور آدمیوں سے سوال نہ کرتا ہو۔ ایک اور حدیث میں ان سے نقل کیا گیا کہ محروم وہ ہے جس کا کوئی حصہ بیت المال میں نہ ہو۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ محروم وہ تنگی میں پڑا ہوا شخص ہے جس کی کمائی اس کو کافی نہ ہو۔ ابو قلابہ ؒکہتے ہیں کہ یمامہ میں ایک آدمی تھا۔ ایک مرتبہ سیلاب آیا اور اس کا سب کچھ مال و متاع بہا کرلے گیا۔ ایک صحابیؓ نے فرمایا کہ اس کو محروم کہتے ہیں، اس کی اعانت کی جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ مسکین وہ شخص نہیں ہے جس کو ایک ایک لقمہ دربدر پھراتا ہے، یعنی دروازوں سے بھیک مانگتا ہے۔ اصل مسکین وہ ہے جس کے پاس نہ خود اتنا مال ہو جو اس کی حاجت کو پورا کرے اور نہ لوگوں کو اس کا حال معلوم ہو کہ اس کی اعانت کی جائے، یہی شخص دراصل محروم ہے۔
حضرت فاطمہ بنت قیسؓ نے حضورِ اقدسﷺ سے اس آیتِ شریفہ کے متعلق سوال کیا تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ اور بھی حق ہے۔ (دُرِّمنثور) یہ حدیث اسی فصل کی احادیث میں نمبر (۱۶) پر آئے گی۔ اس کے بعد حضورِ اقدسﷺ نے یہ آیتِ شریفہ پڑھی { لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ} (البقرۃ : ع ۲۲)اس آیتِ شریفہ کا کچھ حصہ نمبر(۲) پر گزر چکا ہے۔ اس آیت میں مساکین وغیرہ کے دینے کا ذکر علیحدہ ہے اور زکوٰۃ دینے کا ذکر علیحدہ ہے۔ جس میںا س بات کی ترغیب دی گئی ہے کہ آدمی کو صرف زکوٰۃ ہی پر کفایت نہ کرنا چاہیے، بلکہ اس کے علاوہ بھی اپنے مال کو اللہ کے راستہ میں کثرت سے خرچ کرنا چاہیے، مگر آج ہم لوگوں کے لیے زکوٰۃ کا ہی ادا کرنا وبال ہورہا ہے۔ کتنے مسلمان ایسے ہیں جو زکوٰۃ بھی ادا نہیں کرتے، ہاں شادی اور تقریبات کی لغو رسموں میںگھر بھی گروی رکھ دیںگے، جہا ں دنیا میں مال برباد ہو اور آخرت میں گناہ کا وبال ہو۔




۲۴۔ اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَھُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌo
ترجمہ:
تم لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائو، اور جس مال میں اس نے تم کو دوسروں کا قائم مقام بنایا ہے اس میں سے (اس کی راہ میں) خرچ کرو۔جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور (انھوں نے اللہ کی راہ میں) خرچ کیا ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔
[سورۃ الحدید:7]

فائدہ:
’’قائم مقام‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہ مال پہلے کسی اور کے پاس تھا اب چند روز کو تمہارے پاس ہے۔ تمہاری آنکھ بند ہو جانے کے بعد کسی اور کے پاس چلا جائے گا۔ ایسی حالت میں اس کو جوڑ جوڑ کر رکھنا بے کار بات ہے۔ یہ بے مروت مال نہ سدا کسی کے پاس رہا نہ رہے گا۔ خوش نصیب ہے وہ جو اس کو اپنے پاس رکھنے کی تدبیر کرلے اور وہ صرف یہی ہے کہ اس کو اللہ  کے بنک میں جمع کرا دے، جس میں نہ ضائع ہونے کا اندیشہ ہے نہ چھوٹ جانے کا خطرہ ہے، اور دنیامیں رہتے ہوئے ہر وقت خطرہ ہی خطرہ ہے۔ اور آج کل تو قدرت نے آنکھوں سے دکھا دیا کہ بڑے بڑے محل، بڑ ی بڑی جاگیریں، سازو سامان، سب کا سب کھڑے کھڑے ہاتھ سے نکل کر دوسروں کے قبضہ میں آگیا۔ کل تک جن مکانات کے بلاشرکت ِغیرے خود مالک تھے، آج دوسروں کو اپنی آنکھوں سے اپنا جانشین ان میں دیکھتے ہیں پھر بھی عبرت حاصل نہیں ہوتی۔



۲۵۔ وَمَا لَکُمْ اَلَّا تُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط لَایَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَط اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقٰتَلُوْاط وَکلُاًّ وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰیط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo  
ترجمہ:
اور تمہیں کیا ہوگیا کیوں نہیں خرچ کرتے اللہ کے راستہ میں؟ حالاںکہ سب آسمان  زمین آخر میں اللہ ہی کی میراث ہے۔ جو لوگ مکہ مکرمہ کے فتح ہونے سے پہلے اللہ کے راستہ میں خرچ کر چکے ہیں اور جہاد کرچکے ہیں وہ برابر نہیں ہوسکتے (ان لوگوں کے جن کا ذکر آگے ہے، بلکہ) وہ بڑھے ہوئے ہیں درجہ میں ان لوگوں سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا اور جہاد کیا، اوراللہ تعالیٰ نے ثواب کا وعدہ تو سب ہی سے کر رکھا ہے، (چاہے فتح مکہ سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہو یا بعد میں) اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعما ل کی پوری خبر ہے۔
[سورۃ الحدید:10]

فائدہ:
اللہ تعالیٰ کی میراث ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب سب آدمی مر جائیں گے تو آخر میں آسمان زمین، مال و متاع سب اسی کا رہ جائے گا کہ اس پاک ذات کے سوا کوئی بھی باقی نہ رہے گا۔ تو جب سب کچھ سب کو چھوڑنا ہی ہے تو پھر اپنی خوشی سے اپنے ہاتھ سے کیوں نہ خرچ کرے کہ اس کا ثواب بھی ملے۔ اس کے بعد آیتِ شریفہ میں اس پر تنبیہ کی گئی کہ جن لوگوں نے فتح مکہ سے پہلے اللہ تعالیٰ کے کام پر خرچ کیا یا جہاد کیا، ان کا مرتبہ بڑھا ہوا ہے ان لوگوں سے جنہوں نے فتح مکہ کے بعد خرچ کیا یا جہاد کیا۔ اس لیے کہ فتح سے قبل اِحتیاج زیادہ تھی اور جو چیز جتنی زیادہ حاجت کے وقت خرچ کی جائے گی اتنا ہی زیادہ ثواب ہوگا، جیسا کہ سلسلۂ احادیث میں نمبر(۱۳) پر آرہا ہے۔ لوگوں کی ضرورت کے وقت بہت زیادہ خیال کرنا چاہیے اور ایسے وقت کو جس میں دوسروں کو ضرورت ہو، اپنے خرچ کرنے کے لیے بہت غنیمت سمجھنا چاہیے۔ حق تعالیٰ شا نہٗ نے صحابہ کرام? میں بھی یہ تفریق فرما دی کہ جن حضرات نے فتح مکہ سے پہلے خرچ کیا ان کے ثواب کو بہت زیادہ بڑھا دیا۔ اس طرح ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ کسی کی ضرورت کے وقت اس پر خرچ کرنا بہت اونچی چیز ہے۔




۲۶۔ مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗ وَلَہٗ اَجْرٌ کَرِیْمٌ o
ترجمہ:
کون شخص ہے جو اللہ  کو قرضِ حسنہ دے پھر اللہ تعالیٰ اس کے ثواب کو اس کے لیے بڑھاتا چلا جائے اوراس کے لیے بہترین بدلہ ہے۔
[سورۃ الحدید:11]

فائدہ:
نمبر (۵) پر ایک آیتِ شریفہ اس کے ہم معنی گزر چکی ہے۔ خاص اہتمام کی وجہ سے اس مضمون کو دوبارہ ارشاد فرمایا ہے۔ اور قرآن پاک میں بار بار اس پر تنبیہ کی جارہی ہے کہ آج اللہ کے راستہ میں خرچ کا دن ہے میں جو خرچ کرنا ہے کرلو، مرنے کے بعد حسرت کے سوا کچھ نہیں ہے۔



۲۷۔ اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَھُمْ وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ o
ترجمہ:
بے شک صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں، اور (یہ صدقہ دینے والے) اللہ کو قرضۂ حسنہ دے رہے ہیں، ان کا ثواب بڑھایا جائے گا اور ان کے لیے نفیس اجر ہے۔
[سورۃ الحدید:18]

فائدہ: یعنی جو لوگ صدقہ کرتے ہیں وہ حقیقت میں اللہ کو قرض دیتے ہیں، اس لیے کہ یہ بھی قرض کی طرح سے صدقہ دینے والوں کو واپس ملتا ہے۔ پس یہ بہت زیادہ معاوضہ اور بدلہ، لے کر ایسے وقت میں واپس ہوگا جو وقت صدقہ کرنے والے کی سخت حاجت اور سخت ضرورت اور سخت مجبوری کا ہوگا۔ لوگ شادیوں کے واسطے اور سفروں کے واسطے اور دوسری ضرورتوں کے واسطے تھوڑا تھوڑا جمع کرکے رکھتے ہیں کہ فلاں ضرورت کا وقت آرہا ہے ، اولاد کی شادی کرنا ہے، اس کے لیے ہر وقت فکر میں لگے رہتے ہیں اور جو گنجایش ملے کچھ نہ کچھ کپڑا زیور وغیرہ خرید کر ڈالتے رہتے ہیں کہ اُس وقت دِقت نہ ہو۔ آخرت کا وقت تو ایسی سخت حاجت اور ضرورت کا ہے کہ اس وقت نہ کسی سے خریدا جاسکتا ہے، نہ قرض لیا جاسکتا ہے، نہ بھیک مانگی جاسکتی ہے۔ ایسے اہم اور کٹھن وقت کے واسطے تو جتنا بھی زیادہ سے زیادہ ممکن ہو، جمع کرتے رہنا نہایت ہی دور اندیشی اور کارآمد بات ہے۔ تھوڑا تھوڑا جمع کرتے رہنا یہاں تو معلوم بھی نہ ہوگا اور وہاں وہ پہاڑوں کے برابر ملے گا۔



۲۸۔ وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ ط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
ترجمہ:
(اور اس میں ان لوگوں کابھی حق ہے) جو لوگ دار الاسلام میں (یعنی مدینہ منورہ میں پہلے سے رہتے تھے) اور ایمان میں ان (مہاجرین کے آنے) سے پہلے سے قرار پکڑے ہوئے ہیں (یعنی ان مہاجرین کے آنے سے پہلے ہی وہ ایمان لے آئے تھے  اور یہ ایسی خوبی کے لوگ ہیں کہ ) جو لوگ ان کے پاس ہجرت کرکے آتے ہیں ان سے یہ لوگ (یعنی انصار) محبت کرتے ہیں، اور مہاجرین کو جو کچھ ملتا ہے اس سے یہ اپنے دلوں میں کوئی غرض نہیں پاتے، (کہ اس کو  لینا چاہیں یا اس پر رشک کریں) اور ان مہاجرین کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں چاہے خود ان پر فاقہ ہی کیوں نہ ہو، اور (حق یہ ہے کہ) جو شخص اپنی طبیعت کے لالچ سے محفوظ رہے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔
[سورۃ الحشر:9]

فائدہ:
اوپر کی آیات میں بیت المال کے مستحقین کا ذکر ہو رہا ہے کہ کن کن لوگوں کا اس میں حق ہے۔ من جملہ ان کے اس آیتِ شریفہ میں انصار کا ذکر ہے اور ان کے خصوصی اوصاف کی طرف اشارہ ہے۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے اپنے گھر میں رہ کرایمان اور کمالات حاصل کیے ہیں اور اپنے گھر رہ کر کمالات کا حاصل کرنا عام طور سے مشکل ہوا کرتا ہے۔ دنیوی دھندے اور دوسرے امور اکثر آڑ بن جاتے ہیں۔ اور دوسری خاص صفت انصار کی یہ ہے کہ یہ لوگ مہاجرین سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کا جس کوعلم ہے وہ ان حضرات کے حالات اور ان کی محبت کے واقعات سے حیرت میں رہ جاتا ہے۔ چند واقعات ’’حکایاتِ صحابہ ‘‘ میں بھی گزر چکے ہیں۔ ایک واقعہ مثال کے طور پر یہاں لکھتا ہوں کہ جب حضورِ اقدسﷺ  ہجرت کرکے مدینہ طیّبہ تشریف لائے، تو مہاجرین اور انصار کے درمیان میں حضورﷺ نے بھائی چارہ اس طرح فرما دیا تھا کہ ہر مہاجر کا ایک انصاری کے ساتھ خصوصی جوڑ پیدا کر دیا تھااور ایک ایک مہاجر کوایک ایک انصاری کا بھائی بنا دیا تھا۔ اس لیے کہ حضرات مہاجرین پر دیسی حضرات ہیں، ان کو اجنبی جگہ ہر قسم کی مشکلات پیش آئیں گی۔ انصار مقامی حضرات ہیں، وہ اگر ان لوگوں کی خاص طور سے خبر گیری اور معاونت کریں گے تو ان کو سہولتیں پیدا ہو جائیں گی۔ کیسا بہترین انتظام تھا حضورِ اقدسﷺکا کہ اس میں مہاجرین کو بھی ہر قسم کی سہولت ہوگئی اورانصار کو بھی دِقّت نہ ہوئی کہ ایک شخص کی خبر گیری ہر شخص کو آسان ہے۔
اسی سلسلہ میں حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ خود اپنا قصہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم لوگ مدینہ طیّبہ آئے تو حضورِ اقدسﷺ نے میرے اور سعد بن ربیعؓ کے درمیان بھائی بندی کا رشتہ جوڑ دیا۔ سعد بن الربیعؓ نے مجھ سے کہا کہ میں انصار میں سب سے زیادہ مال دار ہوں،میرے مال میں سے آدھا تم لے لو۔ اور میری دو بیویاں ہیں، ان میں سے جونسی تمہیں پسند ہو میں اس کو طلاق دے دوں، جب اس کی عدت پوری ہو جائے تم اس سے نکاح کرلینا۔(بخاری)
یزید بن اصم ؒکہتے ہیں کہ انصار نے حضورِ اقدسﷺ سے درخواست کی کہ ہم سب کی زمینیں مہاجرین پر آدھی آدھی بانٹ دیجیے۔ حضورﷺ نے اس کو قبول نہیں فرمایا، بلکہ یہ ارشاد فرمایا کہ کھیتی وغیرہ میں یہ لوگ کام کریں گے اور پیداوار میں حصہ دار ہوں گے۔ (دُرِّمنثور) کہ ان کی محنت سے تم کو مدد ملے گی اور تمہاری زمین سے ان کو مدد ملے گی۔
اس قسم کے تعلقات اور آپس کی محبت محض دینی برادری پرآج عقل میں بھی مشکل سے آئے گی۔ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ آج وہ مسلمان جس کا خصوصی امتیاز اِیثار اور ہمدردی تھی محض خود غرضی اور نفس پروری میں مبتلا ہے۔ دوسروں کو جتنی بھی تکلیف پہنچ جائے اپنے کو راحت مل جائے۔ کبھی مسلمان کا شیوہ یہ تھا کہ خود تکلیف اٹھائے تاکہ دوسروں کو راحت پہنچ جائے۔ مسلمانوں کی تاریخ اس سے بھری ہوئی ہے۔ ایک بزرگ کی بیوی بہت زیادہ بدخُلق تھیں۔ ہر وقت تکلیف دیتی تھیں۔ کسی نے ان سے عرض کیا کہ آپ اس کو طلاق دے دیجیے۔ فرمایا کہ مجھے یہ خوف ہے کہ پھر یہ کسی دوسرے سے نکاح کرے گی اور اس کی بدخُلقی سے اس کو تکلیف پہنچے گی۔ (اِحیاء العلوم) کیسی باریک چیز ہے۔ آج ہم میں سے کوئی بھی اس لیے تکلیف اٹھانے کو تیار ہے کہ کسی دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے؟
تیسری صفت آیتِ شریفہ میں انصار کی یہ بیان کی کہ مہاجرین کو اگر کہیں سے غنیمت وغیرہ میں سے کچھ ملتا ہے تو اس سے انصار کو دل تنگی یا رشک نہیں ہوتا۔ اور حسن بصری ؒ کہتے ہیں کہ اس کامطلب یہ ہے کہ مہاجرین کو انصار پر جو عمومی فضیلت دی گئی اس سے انصار کو گرانی نہیں ہوئی ۔ (دُرِّمنثور)
چوتھی صفت یہ بیان کی گئی کہ وہ باوجود اپنی اِحتیاج اور فاقہ کے دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے واقعات بہت کثرت سے ان کی زندگی میں ملتے ہیں۔ جن میں سے چند واقعات میں اپنے رسالہ ’’حکایات ِصحابہ‘‘ کے باب اِیثار و ہمدردی میں لکھ چکا ہوں۔ من جملہ ان کے وہ مشہور واقعہ بھی ہے جو اس آیتِ شریفہ کی شانِ نزول میں ذکر کیا جاتا ہے  کہ ایک صاحب حضورِ اقدسﷺ کی خدت میں حاضر ہوئے، اور بھوک کی اور تنگی کی شکایت کی۔ حضورﷺ نے اپنی بیویوں کے گھروں میں آدمی بھیجا مگر کہیں بھی کچھ کھانے کو نہ ملا، تو حضورﷺ نے باہر مردوں سے ارشاد فرمایا کہ کوئی صاحب ایسے ہیں جو ان کی مہمانی قبول کریں۔ ایک انصاری جن کا اسم گرامی بعض روایات میں ابو طلحہؓ آیا ہے ان کو اپنے گھر لے گئے، اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ حضورﷺ کے مہمان ہیں ان کی خوب خاطر کرنا اور گھر میں کوئی چیز ان سے بچا کر نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا کہ گھر میں تو صرف بچوں کے لیے کچھ کھانے کو رکھا ہے اور کچھ بھی نہیں ہے۔حضرت ابوطلحہؓ نے فرمایا کہ بچوں کو بِہلا کر سُلادو اور جب ہم کھانا لے کر مہمان کے ساتھ بیٹھیں تو تم چراغ کو درست کرنے کے لیے اٹھ کر اس کو بجھا دینا تاکہ ہم نہ کھاویں اور مہمان کھالے۔ چناںچہ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ صبح کو جب حضورﷺ کی خدمت میں حاضری ہوئی تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کو ان میاں بیوی کا طرز بہت پسند آیا اور یہ آیتِ شریفہ ان کی شان میں نازل ہوئی۔ (دُرِّمنثور) احادیث کے سلسلہ میں نمبر(۱۳) پر ایک حدیث شریف اس آیتِ شریفہ کی تفسیر کے طور پر آرہی ہے۔
اس کے بعد اللہ کا پاک ارشاد ہے کہ جو شخص اپنی طبیعت کے شُحّ (لالچ) سے بچا دیا جائے وہی لوگ فلاح کو پہنچنے والے ہیں۔ ’’شُحّ‘‘کا ترجمہ طبعی حرص اور بخل ہے۔ یعنی طبعی تقاضا بخل کا ہو، چاہے عمل سے بخل نہ ہو۔ اسی لیے علماء سے اس کی تفسیر میں مختلف الفاظ نقل کیے گئے۔ حرص اور لالچ سے اس کی تعبیر کرنا صحیح ہے، جو اپنے مال میں بھی ہوتا ہے دوسرے کے مال میں بھی ہوتا ہے۔
ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں تو ہلاک ہوگیا۔ انھوں نے ارشاد فرمایا کہ کیوں؟ وہ کہنے لگے کہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ ’’شُحّ‘‘ سے بچائے جائیں وہی فلاح کو پہنچنے والے ہیں اور مجھ میں یہ مرض پایا جاتا ہے، میرا دل نہیں چاہتا کہ میرے پاس سے کوئی چیزبھی نکل جاوے۔ حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا کہ یہ شُحّ نہیں ہے یہ بخل ہے۔ اگرچہ بخل بھی اچھی چیز نہیں ہے، لیکن شُحّ یہ ہے کہ دوسرے کا مال ظلم سے کھاوے۔
حضرت ابنِ عمر ? سے بھی اس کے قریب ہی نقل کیا گیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ شُحّ یہ نہیں ہے کہ آدمی اپنے مال کو خرچ کرنے سے روک لے، یہ تو بخل ہوا اور یہ بھی بہت بری چیز ہے، لیکن شُحّ یہ ہے کہ دوسرے کی چیز پر نگاہ پڑنے لگے۔ حضرت طائوس ؒ کہتے ہیں کہ بخل یہ ہے کہ آدمی اپنے مال کو خرچ نہ کرے اور شُحّ یہ ہے کہ دوسرے کے مال میں بخل کرے۔ یعنی کوئی دوسرا خرچ کرے اس سے بھی دل تنگی ہوتی ہو۔ حضرت ابن عمر? سے نقل کیا گیا کہ شُحّ بخل سے زیادہ سخت ہے۔ اس لیے کہ بخیل تو اپنے مال کو روکتا ہے اور بس، اورشحیح اپنے مال کو بھی روکتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ دوسرں کے پاس جو کچھ ہے وہ بھی اس کے پاس آجائے۔
ایک حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا کہ جس شخص میں تین خصلتیں ہوں وہ شُحّ سے بری ہے۔ مال کی زکوٰۃ ادا کرتا ہو، مہمانوں کی مہمان داری کرتا ہو اور لوگوں کی مصائب میں مدد کرتا ہو۔ ایک اور حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد آیا ہے کہ اسلام کو کوئی چیز ایسا نہیں مٹاتی جیسا کہ شُحّ مٹاتا ہے۔ ایک اور حدیث میں حضورﷺکا ارشاد نقل کیا گیا کہ اللہ کے راستہ کا غبار اور جہنم کا دھواں یہ دونوں چیزیں کسی ایک شخص کے پیٹ میں جمع نہیں ہوسکتیں، اور ایمان اور شُحّ کسی ایک دل میں کبھی جمع نہیں ہوسکتے۔
ایک حدیث میں حضرت جابرؓ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ظلم سے بچو، اس لیے کہ ظلم قیامت میں تَوبتو اندھیرا ہوگا۔ (یعنی ایسا سخت اندھیرا پیدا کرے گا کہ اندھیرے کی تہہ پر تہہ جم جائے گی) اور اپنے آپ کو شُحّ سے بچائو کہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا کہ اسی کی وجہ سے ان لوگوں نے دوسرے لوگوں کے خون بہائے اور اسی کی وجہ سے اپنی محرم عورتوں سے زنا کیا۔
حضرت ابوہریرہؓ حضورِ اقدسﷺ کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو شُحّ اور بخل سے بچائو کہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو قطع رحمی پر ڈال دیا، اور ان کو اپنے محرموں سے زنا کرنے پر ڈال دیا، اور ان کو خون بہانے پر ڈال دیا۔ یعنی اگر آدمی اجنبی عورت سے زنا کرے تو اس کو کچھ دینا پڑے اور بیٹی سے زنا کرے تو مفت ہی میں کام چل جائے، اور مال کی وجہ سے لوٹ مار تو ظاہر ہے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کا انتقال ہوا۔ لوگ کہنے لگے کہ یہ جنتی آدمی تھا۔ حضورﷺنے فرمایا تمہیں اس کے سارے حالات کا کیا علم ہے۔ کیا بعید ہے کہ کبھی اس نے ایسی بات زبان سے نکالی ہو جو بے کار ہو؟ یا ایسی چیز میں بخل کیا ہو جو اس کو نفع نہ پہنچاتی ہو؟ دوسری حدیث میں یہ قصہ اس طرح نقل کیا گیا کہ اُحد کی لڑائی میں ایک صاحب شہید ہوگئے۔ ایک عورت ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ بیٹا! تجھے شہادت مبارک ہو۔ حضور ﷺ نے فرمایا: تمہیں اس کی کیا خبر ہے کہ اس نے کبھی کوئی بے کار بات زبان سے کہی ہو یا ایسی چیز میں بخل کیا ہو جو اس کی ضرورت کی نہ ہو۔ (دُرِّمنثور) کہ ایسی معمولی چیز میں بخل کرنا بھی حرص اور لالچ کی انتہا سے ہوتا ہے۔ ورنہ معمولی چیزیں جن میں اپنا نقصان نہ ہو بخل کے قابل نہیں ہوتیں۔



۲۹۔ یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَا اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِج وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰـکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَا اَخَّرْتَنِیْ اِلٰی اَجَلٍ قَرِیْبٍلا فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَo وَلَنْ یُّؤَخِّرَ  اللّٰہُ  نَفْسًا اِذَا  جَآئَ  اَجَلُھَا وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ o
ترجمہ:
اے ایمان والو! تم کو تمہارے مال اور تمہاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں، اور جو ایسا کرے گا ایسے ہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں۔ اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے، اس میں سے اس سے پہلے پہلے خرچ کرلو کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے اور وہ کہنے لگے: اے میرے ر بّ! مجھ کو تھوڑے دن کی مہلت کیوں نہ دے دی کہ میں خیرات کر دیتا اورنیک لوگوں میں ہوجاتا۔ اور اللہ  کسی شخص کو بھی جب اس کی موت کا وقت آجائے ہرگز مہلت نہیں دیتا اور اللہ تعالیٰ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے۔
[سورۃ المنافقون:9]

فائدہ:
مال و متاع کی مشغولی،اہل وعیال کی مشغولی، ایسی چیزیں ہیں جو اللہ  کے احکام کی تعمیل میں کوتاہی کا سبب بنتی ہیں، لیکن یہ بات یقینی اور طے ہے کہ موت کے وقت کا کسی کو حال معلوم نہیں کہ کب آجائے۔ اس وقت بجز حسرت اور افسوس کے کچھ بھی نہ ہوسکے گا اور دیکھتے آنکھوں اہل و عیال، مال ومتاع سب کچھ چھوڑ کر چل دینا ہوگا۔ آج مہلت ہے جو کرنا ہے کرلو۔
رنگالے نہ چُندیا، گُندھا لے نہ سی
تو کیا کیا کرے گی اَرِی دن کے دن
نہ جانے بُلالے پیا کس گھڑی
تو دیکھا کرے گی کھڑی دن کے دن
حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے پاس اتنا مال ہوکہ حج کرسکے، اس پر زکوٰۃ واجب ہو اور ادا نہ کرے، تو وہ مرنے کے وقت دنیا میں واپس لوٹنے کی تمنا کرے گا۔ کسی شخص نے ابنِ عباسؓ سے کہا کہ دنیا میں لوٹنے کی تمنا کافر کرتے ہیں مسلمان نہیں کرتے۔ تو حضرت ابنِ عباسؓ نے یہ آیتِ شریفہ تلاوت کی کہ اس میں مسلمانوں ہی کے متعلق اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے۔
ایک دوسری حدیث میں حضرت ابنِ عباس? سے نقل کیا گیا کہ اس آیتِ شریفہ میں مؤمن آدمی کا ذکر ہے۔ جب اس کی موت آجاتی ہے، اور اس کے پاس اتنا مال ہو جس پرزکوٰۃ واجب ہو اور زکوٰۃ ادا نہ کی ہو، یا اس پر حج فرض ہوگیا ہو اور حج ادا نہ کیا ہو، یا کوئی اور حق   اللہ تعالیٰ شا نہٗ کے حقوق میں سے ادا نہ کیا ہو، تو وہ مرتے وقت دنیا میں واپسی کی تمنا کرے گا تاکہ زکوٰۃ اور صدقات ادا کرے، لیکن اللہ  کا پاک ارشاد ہے کہ جس کا وقت آجائے وہ ہرگز مؤخر نہیں ہوتا۔ (دُرِّمنثور)
قرآنِ پاک میںبار بار اس پر تنبیہ کی گئی کہ موت کا وقت ہر شخص کے لیے ایک طے شدہ وقت ہے، اس میں ذرا سی بھی تقدیم یا تاخیر نہیں ہوسکتی۔ آدمی سوچتا رہتا ہے کہ فلاں چیز کو صدقہ کروں گا، فلاں چیز کو وقف کروں گا، فلاں فلاں کے نام وصیت لکھوں گا، مگر وہ اپنے سوچ اور فکر ہی میں رہتا ہے، ادھر سے ایک دم بجلی کے تار کا بٹن دبا دیا جاتا ہے اور یہ چلتے چلتے مرجاتا ہے، بیٹھے بیٹھے مرجاتا ہے، سوتے سوتے مرجاتا ہے۔ اس لیے تجویزوں اور مشوروں میںہرگز ایسے کاموں میں تاخیر نہ کرنا چاہیے۔ جتنا جلد ہوسکے اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے میں، اللہ کے یہاں جمع کر دینے میں جلدی کرنا چاہیے۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ۔



۳۰۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍج وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَo وََلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوْا اللّٰہَ  فَاَنْسٰھُمْ اَنْفُسَھُمْط  اُولٰٓئِکَ ھُم الْفٰسِقُوْنَo لَایَسْتَوِیٓ اَصْحٰبُ النَّارِ وَاَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ط اَصْحٰبُ الْجَنَّۃِ ھُمُ الْفَآئِزُوْنَ o
ترجمہ:
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہرشخص یہ غور کرلے کہ اس نے کل (قیامت) کے دن کے واسطے کیا چیز آگے بھیج دی ہے۔ اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی سب خبر ہے۔ اور ان لوگوں کی طرح سے مت بنو جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا، پس (اس کی سزامیں) اللہ تعالیٰ نے خود ان کو ان کی جان سے بھلا دیا یہی لوگ فاسق ہیں۔ (اور یاد رکھو کہ) جنت والے اور جہنم والے برابر نہیں ہوسکتے، جنت والے ہی کامیاب ہیں۔ (حقیقی کامیابی صرف جنت والوں ہی کی ہے)
[سورۃ الحشر:18]

فائدہ:
’’اللہ نے ا ن کو ان کی جان سے بھلا دیا‘‘ کا یہ مطلب ہے کہ ان کی ایسی عقل مار دی گئی کہ وہ اپنے نفع نقصان کو بھی نہیں سمجھتے اور جو چیزیں ان کو ہلاک کرنے والی ہیں ان کو اختیار کرتے ہیں۔
حضرت جریرؓ فرماتے ہیں کہ میں دوپہر کے وقت حضورِ اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر تھا کہ قبیلہ مُضَر کی ایک جماعت حاضر ہوئی جو ننگے پائوں، ننگے بدن، بھوکے تھے۔ حضورِ اقدسﷺنے جب ان پر فاقہ کی حالت دیکھی تو حضورﷺ کا چہرۂ انور متغیر ہوگیا۔ اٹھ کر اندر مکان میں تشریف لے گئے۔ (غالباً گھر میں کوئی چیز ان کے قابل تلاش کرنے کے لیے تشریف لے گئے ہوں گے) پھر باہر مسجد میں تشریف لائے، حضرت بلالؓ سے اذان کہنے کاحکم فرمایا اور ظہر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد منبر پر تشریف لے گے اور حمد و ثنا کے بعد قرآنِ پاک کی چند آیات تلاوت کیں، جن میں یہ آیات بھی تھیں جو اوپر لکھی گئیں۔ پھر حضورﷺ نے صدقہ کرنے کا حکم فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا کہ صدقہ کرو، اس سے پہلے کہ صدقہ نہ کر سکو۔ صدقہ کرو، اس سے پہلے کہ تم صدقہ کرنے سے عاجز ہو جائو۔ کوئی شخص جو بھی دے سکے، دینار دے سکے، دِرَم دے سکے، کپڑا دے سکے،گیہوں دے سکے، جَو دے سکے، کھجور دے سکے، حتیٰ کہ کھجور کا ٹکڑا ہی دے سکے، وہ دے دے۔
ایک انصاری اٹھے اور ایک تھیلہ بھرا ہوا لائے جو ان سے اٹھتا بھی نہ تھا۔ حضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ حضورﷺ کا چہر ۂ انور مسرت سے چمکنے لگا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جو شخص بہتر طریقہ جاری کرے اس کو اس کا بھی ثواب ہے اور جو اس پر عمل کریں گے ان کابھی ثواب اس کو ہوگا، اس طرح پر کہ عمل کرنے والوں کے ثواب میں کچھ کمی نہ ہوگی۔ اور اسی طرح اگر کوئی شخص کوئی برا طریقہ جاری کرتا ہے تو اس کا گناہ تو اس کو ہوگا ہی، جتنے آدمی اس پر عمل کریں گے ان سب کا گناہ بھی اس کو ہوگا، اس طرح سے کہ ان کے گناہوں کے وبال میں کچھ کمی نہ ہوگی۔
اس کے بعد سب لوگ متفرق ہوکرچلے گئے۔ کوئی دینار (اشرفی) لایا، کوئی دِرَم لایا، کوئی غلّہ لایا۔ غرض غلّہ اور کپڑے کے دو ڈھیر حضورﷺکے قریب جمع ہوگئے اور حضورﷺ نے وہ سب قبیلہ مُضَر کے آنے والوں پر تقسیم کر دیے۔ (نسائی ، دُرِّمنثور)
ایک حدیث میں آیا ہے: لوگو! اپنے لیے کچھ آگے بھیج دو۔ عن قریب وہ زمانہ آنے والا ہے جب کہ حق تعالیٰ شا نہٗ کا ارشاد ایسی حالت میں کہ نہ کوئی واسطہ درمیان میں ہوگا۔ نہ کوئی پردہ درمیان میں ہوگا، یہ ہوگا: کیا تیرے پاس رسول نہیں آئے جنہوں نے تجھے احکام پہنچا دیے ہوں؟ کیا میں نے تجھ کو مال عطا نہیں کیا تھا؟ کیا میں نے تجھے ضرورت سے زیادہ نہیں دیا تھا؟ تو نے اپنے لیے کیا چیز آگے بھیجی؟ وہ شخص ادھر ادھر دیکھے گا کچھ نظر نہ آئے گا، آنکھوں کے سامنے جہنم ہوگی۔ پس جو شخص اس سے بچ سکتا ہو بچنے کی کوشش کرے، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے ہی سے کیوں نہ ہو۔ (کنز العمال)
بڑا سخت منظر ہوگا، بڑا سخت مطالبہ ہوگا۔ دہکتی ہوئی دوزخ سامنے ہوگی اور ہر آن اس میں پھینک دیے جانے کا اندیشہ ہوگا۔ اس وقت قلق ہوگا کہ ہم نے دنیا میں سب کچھ کیوں نہ خرچ کر دیا۔ آج فرضی ضرورتوں سے ہم خرچ کرنے سے ہاتھ کھینچتے ہیں، لیکن اگر آج آنکھ بند ہو جائے تو ساری ضرورتیں ختم ہو جائیں گی اور ایک سخت ضرورت جہنم سے بچنے کی سرپر موجود رہے گی۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ نے ایک مرتبہ خطبہ میں فرمایا کہ یہ بات اچھی طرح جان لو کہ تم لوگ صبح و شام ایسی مدت میں چلتے ہو جس کا حال تم سے پوشیدہ ہے کہ وہ کب ختم ہو جائے۔ پس اگر تم سے ہوسکے تو ایسا کرو کہ یہ مدت احتیاط کے ساتھ ختم ہو جائے اور اللہ ہی کے ارادہ سے تم ایسا کرسکتے ہو۔ ایک قوم نے اپنے اوقات کو ایسے امور میں خرچ کر دیا جو ان کے لیے کارآمد نہ تھے۔ اللہ نے تمہیں ان جیسا ہونے سے منع کیا ہے اور ارشاد فرمایا ہے:  {وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰہَ فَاَنْسٰھُمْ اَنْفُسَھُمْ} کہاں ہیں تمہارے وہ بھائی جن کو تم جانتے تھے؟ وہ اپنا اپنا زمانہ ختم کرکے چلے گئے اور ان کے عمل ختم ہوگئے اور اب وہ اپنے اپنے عمل پر پہنچ گئے جیسے بھی کیے۔ (اچھے کیے ہوںگے تو مزے اڑا رہے ہوں گے، برے کیے ہوں گے تو ان کو بھگت رہے ہوں گے) کہاں ہیں وہ گزرے ہوئے زمانہ کے جابر لوگ جنہوںنے بڑ ے بڑے شہر بنائے، اونچی اونچی دیواروں سے اپنی محافظت کی؟ اب وہ پتھروں اور ٹیلوں کے نیچے پڑے ہیں۔ یہ کلام اللہ پاک کا ہے کہ نہ اس کے عجائب ختم ہوتے ہیں نہ اس کی روشنی ماند پڑتی ہے۔ اس سے آج روشنی حاصل کرلو اندھیرے کے دن کے واسطے، اور اس سے نصیحت پکڑلو۔

اللہ نے ایک قوم کی تعریف کی، پس فرمایا:
کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّرَھَبًا ط وَکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ o
ترجمہ:
وہ لوگ نیک کاموں میں دوڑتے تھے، اور ہم کو پکارتے تھے رغبت کرتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے، اور ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے۔
[سورۃ الأنبیاء:18]
فائدہ:
اس کلام میں کوئی خوبی نہیں جس سے اللہ کی رضا مقصود نہ ہو، او ر اس مال میں کوئی بھلائی نہیں جو اللہ کے راستہ میں خرچ نہ ہو، اور وہ آدمی اچھا نہیں جس کا حلم اس کے غصہ پر غالب نہ ہو، اور وہ آدمی بہتر نہیں جو اللہ کی رضا کے مقابلہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ کرے۔ (دُرِّمنثور)




۳۱۔ اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ ط وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ اَجْرٌ عَظِیْمٌo فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَ نْفُسِکُمْ ط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o
ترجمہ:
اس کے سوا دوسری بات نہیں کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے ایک آزمایش کی چیز ہے، (پس جو شخص ان میں پڑکر بھی اللہ کو یاد رکھے تو) اس کے لیے اللہ کے پاس بڑا اجر ہے۔ پس جہاں تک ہوسکے اللہ سے ڈرتے رہو، اور اس کی بات سنو اور مانو، اور (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے رہا کرو ، یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہوگا، اور جو شخص اپنے نفس کے شُحّ یعنی لالچ سے محفوظ رہا پس یہی لوگ فلاح کو پہنچنے والے ہیں۔
[سورۃ التغابن:18]
فائدہ:
شُحّ بخل کا اعلیٰ درجہ ہے جیسا کہ نمبر(۲۸) پر گزر چکا۔ ’’ مال اور اولاد کے امتحان کی چیز ہونے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات جانچنی ہے کہ کون شخص ان میں پھنس کر اللہ کے احکام کو اور اس کی یاد کو بھلا دیتا ہے؟ اور کو ن شخص ان کے باوجود اللہ  کی فرماں برداری کرتا ہے اور اس کی یاد میں مشغول رہتا ہے؟ اور نمونہ کے لیے حضورِ اقدسﷺکا اُسوہ سامنے ہے۔ یہاں کسی کے ایک دو بیویاں ہوں گی، حضورِ اقدسﷺکے نو بیویاں تھیں، اولاد بھی تھی۔ بیٹے،بیٹیاں، نواسے سب کچھ موجود تھا۔ حضورﷺکے علاوہ حضرات صحابہ کرام ? کے حالات دنیاکے سامنے ہیں او ر بہت تفصیل سے کتابوں میں موجود ہیں۔ حضرت انسؓکی اولاد کاشمار ہی مشکل ہے۔ ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ میری اولاد کی اولاد تو علیحد ہ رہی، خود بلا واسطہ اپنی اولاد میں سے ایک سو پچیس تو دفن کر چکا ہوں۔ (اِصابہ) اور جو زندہ رہے وہ ان کے علاوہ اور اولاد کی اولادیں مزید برآں۔ اس کے باوجود اُن حضرات صحابہ کرام? میں شمار ہے جن سے کثرت سے احادیث نقل کی گئیں۔ اور جہاد میں کثرت سے شرکت کرتے رہے ہیں۔ اولاد کی اتنی کثرت نہ تو علم کی مشغولی سے مانع ہوئی نہ جہاد سے۔
حضرت زبیرؓ جس وقت شہید ہوئے نو بیٹے، نو بیٹیاں اور چار بیویاں تھیں۔ اور بعض پوتے بعض بیٹوں سے بھی بڑے تھے۔ (بخاری ) او ر جن کا باپ کی زندگی میں انتقال ہوگیا وہ علیحدہ۔ اس کے باوجود نہ کبھی ملازمت کی نہ کوئی اور شغل، جہاد میں عمر گزاری۔ اسی طرح اور بہت سے حضرات کا حال ہے کہ نہ مال ان کو دِین سے مانع ہوتا تھا نہ اولاد کی کثرت۔ اور ان میں سے جو لوگ تجارت پیشہ تھے ان کے لیے تجارت بھی دِین کے کاموں سے مانع نہ ہوتی تھی۔ خود حق تعالیٰ شا نہٗ نے ان کی تعریف قرآن پاک میں فرمائی: 
{ رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ } الٓایۃ۔ (النور : ع ۵) 
وہ ایسے لوگ ہیں جن کو خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے اور نماز قائم کرنے سے اور زکوٰۃ ادا کرنے سے نہیں روکتی۔ وہ لوگ ایسے دن سے ڈرتے ہیں جس دن دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی، اور اس کا انجام یہ ہوگا کہ حق تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلہ دے گا، اور ان کو اپنے فضل سے بدلہ کے علاوہ انعام کے طور پر اور بھی زیادہ دے گا۔
 اس آیتِ شریفہ کی تفسیر میں بہت سے آثار میں یہ مضمون ذکر کیا گیا کہ جو لوگ تجارت کرتے تھے تجارت ان کو اللہ تعالیٰ کی یاد سے مانع نہ ہوتی تھی۔ جب اذان سنتے  فوراً اپنی اپنی دکانیں چھوڑ کر نماز کے لیے چل دیتے۔ (دُرِّمنثور)



۳۲۔ اِنْ تُقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ط وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ o عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o 
ترجمہ:
اگر تم اللہ کو اچھی طرح (یعنی اخلاص سے) قرض دو گے، تو وہ اس کو تمہارے لیے بڑھاتا چلا جائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا، اور اللہ بڑی قدر کرنے والا ہے (کہ تھوڑے سے عمل کو بھی قبول کرلیتا ہے) اور بڑا بُردبار ہے۔ (کہ بڑے سے بڑے گناہ پر بھی مُواخذہ میں جلدی نہیںکرتا) پوشیدہ اور ظاہر اعمال کا جاننے والا ہے، زبردست ہے، حکمت والا ہے۔
[سورۃ التغابن:17-18]
فائدہ:
آیات میں نمبر (۵) اور نمبر (۲۶) و نمبر (۲۷) پر اس قسم کے مضامین گزر چکے ہیں۔ یہ اللہ کا خاص لطف و کرم ہے کہ ہماری خیر خواہی اور بندوں پر کرم کی وجہ سے جو چیزیں ان کے لیے اہم اور ضروری ہیں ا ن کو بار بار تاکید کے ساتھ فرمایا جاتا ہے، اور ہم لوگ ان آیات کو بار بار پڑھتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں کہ بہت ثواب قرآنِ پاک کے پڑھنے کا مل گیا۔ یہ کریم کا احسان اور انعام ہے کہ وہ اپنے پاک کلام کے محض پڑھنے پر بھی ثواب عطا فرمائے، لیکن یہ پاک کلام محض پڑھنے کے لیے تو نازل نہیں ہوا،پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے پاک ارشادات پر عمل بھی تو ہونا چاہیے۔ ایک چیز کو مالکُ الملک، ا پنا آقا، اپنا محسن، اپنا مُرَبِّی، اپنا رازق، اپنا خالق بار بار ارشاد فرمائے اور ہم کہیں کہ ہم نے آپ کا ارشاد پڑھ لیا بس کافی ہے۔ یہ ہماری طرف سے کتنا سخت ظلم ہے۔




۳۳۔ وَاَقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکـٰوۃَ وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا ط وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَم  اَجْرًا ط وَاسْتَغْفِرُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ o
ترجمہ:
اور تم لوگ نماز کو قائم رکھو اور زکوٰۃ دیتے رہو اور اللہ کو قرضۂ حسنہ دیتے رہو، اور جو نیکی بھی تم اپنے لیے ذخیرہ بنا کر آگے بھیج دو گے اس کو اللہکے پاس جاکر اس سے بہت بہتر اور ثواب میں بڑھا ہوا پائو گے، اور اللہ تعالیٰ سے گناہ معاف کراتے رہو، بے شک اللہ  مغفرت کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔
[سورۃ المزمل:20]
فائدہ:
’’اس کو اللہ کے پاس جاکر اس سے بہتر پانے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ دنیا کی چیزیں خریدنے میں خرچ کیا جاتا ہے یا دنیوی ضرورتوں میں خرچ کیا جاتا ہے اور اس کا بدل دنیا میں ملتا ہے۔ مثلًا: ایک روپیہ کے دو سیر گندم دنیا میں ملتے ہیں، آخرت کے بدل کو اس پر قیاس نہیں کرنا چاہیے، بلکہ آخرت میں جو بدل اُن چیزوں کا ملتا ہے جو اللہ کے راستہ میں خرچ کی جائیں، وہ مقدار کے اعتبار سے بھی اور کیفیت کے لحاظ سے بھی بدرجہا زائد اس بدل سے ہوگا جو دنیا میں اس پر ملتا ہے۔ چناںچہ آیت نمبر (۷) کے ذیل میں گزر چکا ہے کہ اگر طیّب مال سے نیک نیتی کے ساتھ ایک کھجور بھی صدقہ کی جائے تو حق تعالیٰ شا نہٗ اس کے ثواب کو اُحد پہاڑ کے برابر فرما دیتے ہیں۔ کاش! اس قدر زیادہ معاوضہ دینے والے کریم کی ہم قدر کرتے اور زیادہ سے زیادہ قیمت اس کے یہاں جمع کرتے تاکہ زیادہ سے زیادہ مال بڑی سخت ضرورت کے وقت ہم کو ملتا۔ 
اور اس کے ساتھ ہی اس آیتِ شریفہ میں اللہ فرماتے ہیں کہ جس قسم کی نیکی بھی تم آگے بھیج دو گے اس کا معاوضہ ایسا ہی ملے گا۔ رسالہ ’’برکاتِ ذکر‘‘ میں بہت تفصیل سے ایسی روایتیں گزر چکی ہیں کہ ایک مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہِ یا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ یا لاَ إِلٰـہَ إِلَّا اللّٰہُ یا اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہنے کا ثواب اللہ تعالیٰ شا نہ ٗکے یہاں اُحد پہاڑ سے زیادہ مل جاتا ہے، بشرطے کہ اخلاص سے کہا جائے۔ اور اخلاص کی شرط تو آخرت کے ہر کام میں ہے اخلاص بغیر وہاں کسی چیز کی پوچھ نہیں۔ اوراسی چیز کے پیدا کرنے کے واسطے بزرگوں کی جوتیاں سیدھی کرنی پڑتی ہیں کہ یہ دولت ان کے قدموں میں پڑنے سے ملتی ہے۔




۳۴۔ اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا o عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوْنَھَا تَفْجِیْرًا o   یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًاo وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ  مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لَانُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلَا شُکُوْرًاo  اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًاo فَوَقٰھُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَقّٰھُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًا o وَجَزَاھُمْ بِمَا صَبَرُوْا جَنَّۃً وَّحَرِیْرًاo مُّتَّکِئِیْنَ فِیْھَا  عَلَی الْاَرَآئِکِ لَایَرَوْنَ فِیْھَا شَمْسًا وَّلَا زَمْھَرِیْرًا o وَدَانِیَۃً عَلَیْھِمْ ظِلٰلُھَا وَذُلِّلَتْ قُطُوْفُھَا تَذْلِیْلاًo وَیُطَافُ عَلَیْھِمْم بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَاْ o قَوَارِیْرَاْ مِنْ فِضَّۃٍ قَدَّرُوْھَا تَقْدِیْرًاo وَیُسْقَوْنَ فِیْھَا کَاسًا کَانَ مِزَاجُھَا زَنْجَبِیْلاًo عَیْنًا فِیْھَا تُسَمّٰی سَلْسَبِیْلاًo وَیَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُخَلَّدُوْنَoج  اِذَا رَاَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا o  وَاِذاَ رَاَیْتَ ثَمَّ رَاَیْتَ نَعِیْمًا وَّمُلْکًا کَبِیْرًاo عٰلِیَھُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّاِسْتَبْرَقٌ ز  وَّحُلُّوْآ اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّۃٍ ج وَسَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا o اِنَّ ھٰذَا کَانَ لَکُمْ جَزَآئً وَّکاَنَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا  o
ترجمہ:
بے شک نیک لوگ (جنت میں) ایسے جامِ شراب پیویں گے جن میں کافور کی آمیزش ہوگی۔ ایسے چشموںسے بھرے جاویں گے جن سے اللہ کے خاص بندے پیتے ہیں (ان چشموں میں یہ عجیب  بات ہوگی) کہ وہ جنتی لوگ ان چشموں کو جہاں چاہیں لے جائیں گے۔ (یعنی یہ چشمے ان کے اشاروں کے تابع ہوںگے۔) یہ ایسے لوگ ہیں جو مَنتوں کو پورا کرتے ہیں (اور اسی طرح دوسرے واجبات کو) اور ایسے دن سے ڈرتے ہیں جس دن کی سختی پھیلی ہوئی ہوگی۔ (یعنی عام ہوگی کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ اس دن پریشانی میں مبتلا ہوگا۔) یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین کو اور یتیم کو اور قیدی کو۔ (باوجود یہ کہ وہ قیدی کافر اور لڑائی میں برسرِپیکار ہوتے تھے۔) اور وہ لوگ (اپنے دل میں یا زبان سے) کہتے ہیں کہ ہم تم کو محض اللہ کے واسطے کھلاتے ہیں، نہ تو ہم اس کا تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ اس کا شکریہ چاہتے ہیں۔ (بلکہ اس وجہ سے کھلاتے ہیں) کہ ہم اپنے ربّ کی طرف  سے ایک سخت اور تلخ دن کا (یعنی قیامت کے دن کا) خوف رکھتے ہیں۔ پس اللہ ان کو اس دن کی سختی سے محفوظ رکھے گا، اور ان کو تازگی اور سرور عطا کرے گا۔ اور ان کو اس پختگی کے بدلہ میں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔ اس حالت میں کہ وہ جنت میں مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے ہوں گے، نہ وہاں گرمی کی تپش پاویں گے نہ سردی۔ (بلکہ معتدل موسم ہوگا) اور درختوں کے سائے ان لوگوں پر جھکے ہوئے ہوں گے اور ان کے خوشے ان کے مطیع ہونگے۔ (کہ جس وقت جس کو پسند کریں گے وہ قریب آجائے گا) اور ان کے پاس (کھانے پینے کے لیے) چاندی کے برتن! اور شیشے کے آب خورے لائے جائیں گے۔ ایسے شیشے جو چاندی کے ہوں گے۔ (یعنی وہ شیشے بجائے کانچ کے چاندی کے بنے ہوئے ہوں گے جو اُس عالم میں دشوار نہیں) اور ان کو بھرنے والوں نے صحیح اندازہ سے بھرا ہوگا۔ (کہ نہ ضرورت سے کم نہ زیادہ) اور وہاں (کا فوری شراب  کے علاوہ) ایسے جامِ شراب بھی پلائے جائیں گے جس میں سو نٹھ کی آمیزش ہوگی۔ (جیسا کہ جنجر کی بوتل میں ہوتا ہے) یہ ایسے چشمے سے بھرے جائیں گے جس کا نام سلسبیل ہے۔ (کافور ٹھنڈا ہوتا ہے اور سونٹھ گرم، مطلب یہ ہے کہ وہاں مختلف المزاج شرابیں ہیں) اور اس کو ایسے لڑکے  لے کر آتے جاتے رہیں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، اور ایسے (حسین) کہ اگر تو ان کو دیکھے تو یہ گمان کرے کہ یہ موتی ہیں جو بکھرے ہوئے ہیں۔ (اور جو چیزیں اوپر ذکر کی گئیں یہی فقط نہیں بلکہ ) جب تو اس جگہ کو دیکھے گا تو وہاں بڑی بڑی نعمتیں اور بہت بڑا ملک نظر آئے گا۔ اور ان لوگوں پر وہاں باریک ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے اور موٹے ریشم کے، (غرض مختلف انواع کے بہترین لباس ہوں گے) اورہاتھوں میں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے، اور حق تعالیٰ شا نہٗ ا ن کو ایسی شراب پلائیں گے جو نہایت پاکیزہ ہو گی۔ اور یہ کہا جائے گا کہ یہ تمہارے اعمال کا بدلہ ہے اور تم نے جو کوشش دنیا میں کی تھی وہ قابلِ قدر ہے۔
[سورۃ الدھر:5-22]
فائدہ:
اس کلامِ پاک میں شراب کا تین جگہ ذکر آیا ہے، اور تینوں جگہ نوعیت ِشراب اور طریقۂ استعمال جدا ہے۔ پہلی جگہ ان کا خود پینا مذکور ہے، دوسری جگہ خدام کے پلانے کا ذکر ہے اور تیسری جگہ خود ربُّ العالمین مالکُ الملک کی طرف پلانے کی نسبت ہے۔ کیا بعید ہے کہ یہ اَبرار کی تین قسموں: ادنیٰ، اوسط، اعلیٰ کے اعتبار سے ہو۔
ان آیات میں جتنے فضائل اِکرام اور اِعزاز نیک کام کرنے والوں کے بالخصوص اللہ کی رضا میں کھلانے والوں کے ذکر کیے گئے ہیں، اگر ہم میں ایمان کا کمال ہوا تو ان وعدوں کے بعد کون شخص ایسا ہوسکتا ہے جو حضرت صدیقِ اکبرؓ کی طرح کوئی چیز بھی گھر میں اللہ اور اس کے رسول پاک ﷺکے نام کے سوا چھوڑے۔ ان آیات میں چند اُمور قابلِ غور ہیں۔
۱۔ پہلے چشمہ کے بارے میں ذکر ہوا ہے کہ جنتی لوگ ان چشموں کو جہاں چاہیں لے جائیں گے۔ مجاہد ؒاس کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ وہ لوگ ان چشموں کو جہا ں چاہیں گے کھینچ لیںگے۔ قتادہ ؒ کہتے ہیں کہ ان کے لیے کافور کی آمیزش ہوگی اور مشک کی مہراُن پر لگی ہوئی ہوگی اور وہ اس چشمہ کو جدھر کو چاہیں گے ادھر کو اس کا پانی چلنے لگے گا۔ ابن ِشَوذب ؒ کہتے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس سونے کی چھڑیاں ہوں گی، وہ اپنی چھڑیوں سے جس طرف اشارہ کریں گے اسی طرف کو وہ نہریں چلنے لگیں گی۔
۲۔ منتوں کے پورا کرنے کے متعلق قتادہ  ؒ سے نقل کیا گیا کہ اللہ کے تمام اَحکام کو پورا کرنے والے لوگ ہیں۔ اسی وجہ سے شروع میں ان کو اَبرار سے تعبیر کیا گیا۔ مجاہد ؒکہتے ہیں کہ اس سے وہ مَنتیں مراد ہیں جو اللہ کے حق میں کی گئی ہوں۔ (یعنی کوئی شخص روزوں کی نذر کرلے، اِعتکاف کی نذرکرلے، اسی طرح عبادات کی نذر کرلے) عکرمہ ؒ کہتے ہیں کہ شکرانہ کی منتیں مراد ہیں۔ حضرت ابنِ عباس ? سے نقل کیا گیا کہ حضورﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے یہ مَنت مان رکھی تھی کہ میں اپنے آپ کو اللہ کے واسطے ذبح کر دوں گا۔ حضورِ اقدسﷺ کسی چیز میں مشغول تھے، اِلتفات نہیں فرمایا۔ یہ صاحب حضورﷺ کے سکوت سے اجازت سمجھے اور حضور ﷺ سے عرض کر دینے کے بعد دُور جاکر اپنے آپ کو ذبح کرنے لگے۔ حضورﷺکو اس کا علم ہوا، حضورﷺ نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میںایسے لوگ پیدا کیے جو منت کے پورا کرنے کا اس قدر اہتمام کریں۔ اس کے بعد ان کو اپنے ذبح کرنے سے منع فرمایا اور ان سے فرمایا کہ اپنی جان کے بدلہ سو اونٹ اللہ کے نام پر ذبح کریں۔ (اس لیے کہ اپنے آپ کو ذبح کرنا ناجائز ہے اور جان کا فدیہ دِیت میں سو اونٹ ہے)
۳۔ قیدیوں کے کھلانے سے آیتِ شریفہ میں مشرک قیدی مراد ہیں۔ اس لیے کہ اس زمانہ میں مشرک قیدی ہی ہوتے تھے، مسلمان قیدی اس وقت نہ تھے۔ اور جب کافروں کے کھلانے پر یہ ثواب ہے تو مسلمان قیدی اس میں بطریق اولیٰ آگئے۔ مجاہد  ؒ کہتے ہیں کہ جب حضورِ اقدسﷺ بدر کے قیدیوں کو (جو کافر تھے) پکڑکر لائے تو سات حضرات صحابۂ کرام: حضرت ابوبکر،عمر، علی، زبیر، عبدالرحمن، سعد، ابوعبیدہ? نے ان پر خاص طور سے خرچ کیا۔ جس پر انصار نے کہا کہ ہم نے تو اللہ کے واسطے ان سے قتال کیا تھا تم اتنا زیادہ خرچ کر رہے ہو۔ اس پر { اِنَّ الْابَرْاَرَ} سے اُنیس آیتیں ان حضرات کی تعریف میں نازل ہوئیں۔
حضرت حسن ؒکہتے ہیں کہ جب یہ آیتیں نازل ہوئیں اس وقت قیدی مشرکین تھے۔ قتادہ ؒ کہتے ہیں کہ جب اللہ   نے ان آیات میں قیدی کے ساتھ اِحسان کرنے کا حکم فرمایا ہے حالاںکہ اس وقت قیدی مشرک تھے، تو مسلمان قیدی کا حق تجھ پر اور بھی زیادہ ہوگیا۔
ابنِ جریج ؒ کہتے ہیں کہ اس زمانہ میں مسلمان قیدی نہ تھے، مشرک قیدیوں میں یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔ حضورِ اقدسﷺ ان کی خیر خواہی کا حکم فرماتے تھے۔ ابورزین ؒ کہتے ہیں کہ میں شقیق بن سلمہ ؒکے پاس تھا۔ چند مشرک قیدی وہاں کو گزرے تو شقیق ؒ نے مجھے ان پر صدقہ کرنے کا حکم دیا اور یہ آیتِ شریفہ تلاوت کی۔
۴۔ ’’نہ اس کا بدلہ چاہتے ہیں نہ اس کاشکریہ چاہتے ہیں‘‘کا مطلب یہ ہے کہ یہ حضرات اس کو بھی گوارا نہ کرتے تھے کہ ان کے احسان کا کوئی بدلہ ،چاہے شکر گزاری اور دعا ہی کے قبیل سے ہو، ان کو دنیا میں ملے۔ یہ اپنا سب کچھ آخرت ہی میں لینا چاہتے تھے۔
حضرت عائشہ اور حضرت امّ سَلَمہ?کا معمول نقل کیا گیا ہے کہ جب وہ کسی فقیر ضرورت مند کے پاس کچھ بھیجتیں توقاصد سے کہتیں کہ چپکے سے سننا کہ وہ اس پر کیا الفاظ کہتا ہے۔ اور جب قاصد وہ الفاظ دعا وغیرہ کے آکر نقل کرتا تو اسی نوع کی دعائیں وہ فقیر کو دیتیں اور یہ کہتیں کہ اس کی دعائوں کا بدلہ یہ ہے، تاکہ ہمارا صدقہ خالص آخرت کے واسطے رہ جائے۔ حضرت عمر ؓ اور ان کے صاحب زادہ حضرت عبداللہؓ کا بھی اسی نوع کا معمول نقل کیا گیا۔ (اِحیاء العلوم)
حضرت زین العابدین ؒ کا ارشاد ہے کہ جو شخص مال خرچ کرنے کے واسطے طلب کرنے والے کا انتظار کرے وہ سخی نہیں۔ سخی وہ ہے جو اللہ کے حقوق کو اَز خود اس کے نیک بندوں تک پہنچائے اور ان سے شکریہ کا امیدوار نہ رہے، اس لیے کہ اس کو اللہ کے ثواب پر کامل یقین ہو۔ (اِحیاء العلوم)
۵۔ ’’جنت کے خوشے ان کے مطیع ہوں گے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ان کی خواہش کے تابع ہوں گے۔ حضرت براء بن عازبؓکہتے ہیں کہ جنتی لوگ جنت کے پھلوں کو کھڑے، بیٹھے،لیٹے جس حال میں چاہیں گے کھا سکیں گے۔
مجاہد ؒکہتے ہیں کہ وہ لوگ اگرکھڑے ہو ںگے تو وہ پھل اوپر کو ہو جائیں گے، اور وہ لوگ اگر بیٹھے ہوں گے تو وہ جھک جائیں گے، اور اگر وہ لیٹیں گے تو وہ اور زیادہ جھک جائیں گے۔ دوسری روایت میں ان سے نقل کیا گیا کہ جنت کی زمین چاندی کی ہے، اور اس کی مٹی مشک ہے، اور اس کے درختوں کی جڑیں سونے کی ہیں، اور ان کی ٹہنیاں اور پتے موتیوں کے اور زبرجد کے ہیں، جن کے درمیان پھل لٹکے ہوئے ہیں۔ اگر وہ کھڑے ہوئے کھانا چاہیں گے تو کوئی دقت نہیں،بیٹھ کر یا لیٹ کر کھانا چاہیں گے تو وہ اس کی بقدرجھک جائیں گے۔
۶۔ ’’چاندی کے شیشوں‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ چاندی سے ایسے بنائے جائیں گے جیسا کہ شیشہ ہوتا ہے۔ حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ اگر دنیا میں تُو چاندی کو لے کر اس قدر باریک کر لے کہ مکھی کے پر کی برابر باریک کر دے جب بھی اس کے اندر کا پانی نظر نہ آئے گا، لیکن جنت کے آب خورے چاندی کے ہو کرشیشے کی طرح صاف ہوں گے۔ دوسری روایت میں ہے کہ جنت کی ہر چیز کا نمونہ دنیا میں ہے، لیکن چاندی کے ایسے آب خوروں کا نمونہ دنیا میں نہیں ہے۔ قتادہ ؒ کہتے ہیں کہ اگر ساری دنیا کے آدمی جمع ہو کر چاندی کا ایسا برتن بنا ویں جس میں شیشہ کی طرح سے اندر کی چیز نظر آئے تو نہیں بناسکتے۔ (دُرِّمنثور)
حضرت ابنِ عباس?کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کا شانِ نزول حضرت علیؓاور حضرت فاطمہؓکا ایک واقعہ ہے جو اسی رسالہ کے ختم پر حکایات میں نمبر(۴۳) پر آرہا ہے۔ اور متعدد واقعات کا کسی آیت کا شانِ نزول ہونا کوئی مستبعد بات نہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوا ہے کہ ایک زمانہ میں چند واقعات پیش آئے، اس زمانہ میں کوئی آیتِ شریفہ نازل ہوئی، تو وہ آیتِ شریفہ سب واقعات کے متعلق ہوسکتی ہے۔



۳۵۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیo وَذَکَرَ اسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی o بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰیo
ترجمہ:
بامراد ہوگیا وہ شخص جوپاک ہوگیا۔ اور اپنے ربّ کا نام لیتا رہا اور نماز پڑھتا رہا۔بلکہ تم لوگ تو دنیا کی زندگی کو مقدّم رکھتے ہو۔ حالاںکہ آخرت دنیا سے بہت زیادہ بہتر اور ہمیشہ رہنے والی چیز ہے۔
[سورۃ الأعلٰی:14]
فائدہ:
’’پاک ہوگیا‘‘کی متعدد تفسیریں علماء سے نقل کی گئی ہیں۔ بہت سے علماء کا قول ہے کہ اس سے صدقۂ فطر ادا کرنامراد ہے جیسا کہ متعدد روایات میںآ یا ہے۔ اور بہت سے علماء نے اس کو عام قرار دیا ہے۔ سعید بن جبیر ؒکہتے ہیں کہ پاک ہوگیا کا مطلب یہ ہے کہ جو اپنے مال سے پاک ہوگیا۔ قتادہ  ؒکہتے ہیں کہ بامراد ہوگیا وہ شخص جس نے اپنے مال سے اپنے خالق کو راضی کرلیا۔
حضرت ابو الاحوص  ؒ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ شانہٗ اس شخص پر رحم فرماتا ہے جو صدقہ کرے پھر نماز پڑھے۔ پھر انھوں نے یہ آیت پڑھی۔ ایک روایت میں ان سے یہ نقل کیا گیا: جو شخص اس کی طاقت رکھتا ہو کہ نمازسے پہلے کچھ صدقہ کر دیا کرے وہ ایسا کیا کرے۔ حضرت ابنِ مسعود ؓفرماتے ہیں کہ جوشخص نماز پڑھنے کا ارادہ کرے، کیا حرج ہے کہ کچھ صدقہ اس سے پہلے کر دیا کرے؟ پھر یہ آیتِ شریفہ پڑھی۔
عَرفَجہ ؓکہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے {سَبِّحِ اسْمَ} پڑھنے کی درخواست کی۔ انھوں نے سنانا شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچے {بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا}تو پڑھنا چھوڑ کرلوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ ہم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی۔ لوگ چپ بیٹھے تھے۔ پھر فرمایا کہ ہم نے دنیا کو ترجیح دی اس لیے کہ ہم نے اِس کی زینت کو، اِس کی عورتوں کو، اِس کے کھانے پینے کو دیکھا اور آخرت کی چیزیں ہم سے پوشیدہ تھیں۔ پس اس موجود چیز میں لگ گئے اور اس وعدہ کی چیز کو چھوڑ دیا۔ قتادہ ؒکہتے ہیں کہ تمام لوگ حاضر (یعنی دنیا میں موجود چیز) میں لگ گئے اور اس کو اختیار کرلیا، بجز ان کے جن کو اللہ نے محفوظ رکھا۔ حالاںکہ آخرت بھلائی میں بڑھی ہوئی تھی اور دیرپا تھی۔
حضرت انس ؓحضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ لاَ إِلٰـہَ إِلاَّ اللّٰہُ بندوں کو اللہ کی ناراضی سے محفوظ رکھتا ہے جب تک کہ دنیا کو دین پر ترجیح نہ دیں۔ اور جب دنیا کو دین پر ترجیح دینے لگیں تو لاَ إِلٰـہَ إِلاَّ اللّٰہُبھی ان پر لوٹا دیا جائے گا اور یہ کہا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔
ایک دوسری حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد منقول ہے کہ جو شخص لاَ إِلٰـہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ کی شہادت لے کرآئے وہ جنت میں داخل ہوگا، جب تک کہ اس کے ساتھ دوسری چیز نہ ملا وے۔ (یعنی اپنے اس کلام میں کھوٹ اور میل پیدا نہ کر دے) حضورﷺ نے تین مرتبہ یہی بات ارشاد فرمائی۔ مجمع چپ چاپ تھا۔ (حضور ﷺ غالبًا اس کے منتظر تھے کہ کوئی پوچھے، اور مجمع ادب اور رعب کی وجہ سے چپ تھا) دور سے ایک شخص نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! دوسری چیز ملانے کا کیا مطلب ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور اس کو ترجیح دینا، اور اس کے لیے مال جمع کرکے رکھنا، اور ظالموں کا سا برتائو کرنا۔
ایک اور حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ جوشخص دنیا سے محبت رکھتا ہے وہ آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو آخرت سے محبت رکھتا ہے وہ دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے۔ پس ایسی چیز کی (یعنی آخرت کی) محبت کو ترجیح دو جو باقی رہنے والی ہے اس چیز (یعنی دنیا) پر جو فنا ہو جانے والی ہے۔ ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کا آخرت میں گھر نہیں اور اس شخص کا مال ہے جس کا آخرت میں مال نہیں اور اس کے لیے وہی شخص جمع کرتا ہے جس کو عقل نہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی مخلوقات میں سے کوئی چیز دنیا سے زیادہ مبغوض نہیں ہے اور اس نے جب سے اس کو پیدا کیا ہے کبھی بھی اس کی طرف نظرِ التفات نہیں فرمائی۔ ایک اور حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ دنیا کی محبت ہر خطا کی جڑ ہے۔ (دُرِّمنثور)
رسالہ کے ختم پر چھٹی فصل میں دنیا اور آخرت کے متعلق بہت سی آیات اور احادیث کا ذکر اِختصار کے ساتھ آرہا ہے۔ ان آیات کے علاوہ جو اب تک ذکر کی گئی ہیں اور بھی بہت سی آیات میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب وارد ہوئی ہے اور جس بات کو اللہ  نے اپنے کلام میں بار بار مختلف عنوان سے متعدد طرح کی ترغیبوں سے ذکر فرمایا ہو اس کی اہمیت کا کیا پوچھنا، بالخصوص جب کہ یہ سب کچھ اسی کا عطا کیا ہوا ہے۔ ایک شخص کسی اپنے نوکر کو کچھ روپیہ دے کر یہ کہتا ہے کہ اس کو اپنی ضروریات میں خرچ کرلو اور میری خوشی یہ ہے کہ اس میں سے کچھ پس انداز کرکے، فلاں جگہ پر بھی خرچ کر دینا، اگر تم ایسا کرو گے تو میں اس سے بہت زیادہ دوں گا، ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی حالت میں کون ایسا ہوگا جو اس میں سے پس انداز کرکے اس جگہ اس اُمید پر خرچ نہ کرے گا کہ اس سے بہت زیادہ ملے گا؟
٭٭٭٭
احادیث
اللہ کے اتنے ارشادات کے بعد پھر احادیث کے ذکر کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی، لیکن چوںکہ احادیث بھی اللہ کے پاک کلام کی توضیح اور تفسیر ہی ہیں اس لیے تکمیل کے طور پر چند احادیث کا ترجمہ بھی لکھا جاتا ہے۔

۱۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : لَوْ کَانَ لِيْ مِثْلُ أُحُدٍ ذَھَبًا؛ مَا یَسُرُّنِيْ أَنْ لاَّ تَمُرَّ عَلَيَّ ثَـلَاثَ لَیَالٍ وَعِنْدِيْ مِنْہُ شَيْئٌ إِلاَّ شَیْئًا أُرْصُدُہُ لِدَیْنٍ۔ 
ترجمہ:
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ اگر میرے پاس اُحد کے پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرے اوپر تین دن گزر جائیں اس حال میں کہ میرے پاس اس میں سے کچھ بھی ہو، بجز اس کے کہ کوئی چیز ادائے قرض کے لیے رکھ لی جائے۔
[صحيح البخاري:6445-7228-2389، صحيح مسلم:2302، سنن ابن ماجه:4132]
فائدہ:
اُحد پہاڑ مدینہ طیبہ کا مشہور پہاڑ ہے جو بہت بڑا پہاڑ ہے۔ حضورﷺکا ارشاد ہے کہ اگر اس کے برابر سونا میرے پاس ہو تو میری خواہش یہ ہے کہ تین دن کے اندر اندر اس سب کو تقسیم کر دوں، کچھ بھی اپنے پاس نہ رکھوں۔ تین دن کی قید نہیں ہے، اس لیے ذکر فرمایا کہ اتنی بڑی مقدار کے خرچ کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ وقت تو لگے ہی گا۔ البتہ اگر قرض ذمہ ہو اور جس کو دینا ہے وہ اس وقت موجود نہ ہو، تو اس کو ادا کرنا چوںکہ صدقہ سے مقدم ہے، اس لیے اس کے ادا کرنے کے لیے کچھ روکنا اور محفوظ رکھنا پڑے تو دوسری بات ہے۔
اس حدیث شریف میں جہاںایک جانب کثرت سے صدقہ کی ترغیب ہے، دوسری جانب اس سے زیادہ اہمیت قرضہ کے ادا کرنے کی ثابت ہوتی ہے۔ حضورِ اقدسﷺ کی یہ خصوصی عادتِ شریفہ تھی کہ ذخیرہ رکھنے کا وہاں گزر ہی نہ تھا۔ حضرت انس ؓ جو حضورﷺ کے مخصوص خادم، ہر وقت کے مشہور خدمت گزار ہیں، فرماتے ہیں کہ حضورﷺکل کے لیے کوئی چیز ذخیرہ بنا کر نہیں رکھتے تھے۔
حضرت انسؓ ہی سے دوسری حدیث میں ہے کہ حضورﷺکی خدمت میں ہدیہ میں کہیں سے تین پرند آئے۔ ان میں سے ایک حضورﷺنے اپنے خادم کو مرحمت فرمادیا۔ دوسرے دن وہ خادم اس پرند کو لے کر حاضر ہوئے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ میں نے تمہیں منع نہیںکر رکھا کہ کل کے واسطے کوئی چیز نہ رکھو، کل کی روزی اللہ خود مرحمت فرمائیں گے۔ حضرت سَمُرہؓ حضورﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ میں بعض مرتبہ دوباری کو محض اس لیے دیکھنے جاتا ہوں کہ کہیں اس میں کوئی چیز پڑی نہ رہ جائے اور میری موت اس حال میں  آجائے کہ وہ میرے پاس ہو۔ (الترغیب والترہیب)
حضرت ابو ذر غفاری ؓ مشہور صحابی ہیں۔ بڑے زاہد حضرات میں تھے۔ مال سے عداوت کے ان کے بہت سے عجیب واقعات ہیں۔ جن میں سے ایک عجیب قصہ آیات کے ذیل میں نمبر (۱۱) پر گزر چکا ہے۔ ان سے بھی یہ حدیث نقل کی گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضورﷺکے ساتھ تھا۔ حضورﷺنے اُحد کے پہاڑ کو دیکھ کر یہ فرمایا کہ اگر یہ پہاڑ سونے کا بن جائے تو مجھے یہ پسند نہیں کہ اس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس تین دن سے زیادہ ٹھہرے، مگر وہ دینار جس کو میں قرض کے ادا کرنے کے لیے محفوظ رکھوں۔ پھر حضورﷺنے فرمایا کہ بہت زیادہ مال والے ہی اکثر کم ثواب والے ہیں، مگر وہ شخص جو اس طرح اس طرح کرے۔ حدیث نقل کرنے والے نے ’’اس طرح اس طرح‘‘ کی صورت دونوں ہاتھ ملا کر دائیں بائیں جانب کرکے بتائی۔ یعنی دونوں ہاتھ بھر کر دائیں طرف والے کو دے دے اور بائیں طرف والے کو۔ یعنی ہر شخص کو خوب تقسیم کرے۔ (بخاری)
انھی حضرت کا ایک اور قصہ ’’مشکوٰۃ شریف‘‘ میں آیا ہے کہ یہ حضرت عثمانؓکے زمانۂ خلافت میں ان کی خدمت میں حاضر تھے۔ حضرت عثمانؓ نے حضرت کعب ؒ سے کہا کہ حضرت عبدالرحمنؓ کا انتقال ہوگیا اور انھوں نے ترکہ میں مال چھوڑا ہے، تمہارا کیا خیال ہے کہ کچھ نامناسب تو نہیں ہوا؟ کعب ؒ نے فرمایا کہ اگر وہ اس مال میں اللہ کے حقوق ادا کرتے رہے، تو پھر کیا مضائقہ ہے؟ حضرت ابوذرؓ کے ہاتھ میںایک لکڑی تھی، اس سے حضرت کعب  ؒکو مارنا شروع کر دیا کہ میں نے خود حضورِ اقدسﷺسے سنا ہے کہ اگر یہ پہاڑ سونے کا ہو جائے، اور میںاس کو سب کو خرچ کر دوں اور وہ قبول ہو جائے، تو مجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس میں سے چھ اُوقیہ بھی اپنے بعد چھوڑوں۔ اس کے بعد ابو ذرؓ نے حضرت عثمان ؓ سے کہا کہ میں تمہیں قسم دے کر پوچھتا ہوں، کیا حضورﷺسے تم نے یہ حدیث تین مرتبہ سنی ہے؟ حضرت عثمان ؓ نے کہا: بے شک سنی ہے۔
ان کاایک اور قصہ ’’بخاری شریف‘‘ وغیرہ میں آیا ہے۔ اَحنف بن قیس ؒکہتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ میں قریش کی ایک جماعت کے پاس بیٹھا تھا۔ ایک صاحب تشریف لائے جن کے بال سخت تھے، (یعنی تیل وغیرہ لگا ہوا نہیں تھا) کپڑے بھی موٹے تھے۔ ہیئت بھی ایسی ہی تھی، یعنی بہت معمولی سی۔ اُس مجمع کے پاس کھڑے ہوکر اوّل سلام کیا، پھر فرمایا کہ خزانہ جمع کرنے والوں کو خوش خبری دو اس پتھر کی جو جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر وہ ان کے پستان پر رکھ دیا جائے گا، جس کی گرمی سے اور شدت سے گوشت وغیرہ پک کر مونڈھے کے اوپر سے اُبلنے لگے گا، اور پھر وہ پتھر مونڈھے پر رکھا جائے گا تو وہ سب کچھ پستان سے بہنے لگے گا۔ یہ کہہ کر وہ مسجد کے ایک ستون کے پاس جاکر بیٹھ گئے۔ اَحنف ؒکہتے ہیں کہ میںان کو جانتا نہ تھا کہ یہ کون بزرگ ہیں۔ میں ان کی بات سن کر ان کے پیچھے پیچھے چل دیا اور اسی ستون کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے عرض کیا کہ اس مجمع والوں نے آپ کی بات کی طرف کچھ توجہ نہیں کی، بلکہ اس گفتگو کو ناپسند سمجھا۔ وہ فرمانے لگے: یہ بے وقوف ہیں، کچھ سمجھتے نہیں ہیں، مجھ سے میرے محبوب نے کہا ہے۔ احنف نے پوچھا کہ آپ کے محبوب کون؟ کہنے لگے: حضورِ اقدس ﷺ، ’’اے ابو ذر ! تم اُحد کا پہاڑ دیکھتے ہو؟‘‘ میں یہ سمجھا کہ کسی جگہ کام کو بھیجنا مقصود ہے، اس لیے یہ دکھلانا ہے کہ کتنا دن باقی ہے۔ میں نے کہا: جی ہاں دیکھ رہا ہوں۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میرے پاس اس پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میرا دل چاہتا ہے کہ اس سارے کو خرچ کر دوں مگر تین دینار۔ (جن کا بیان اور روایات میں ہے) اس کے بعد ابوذرؓنے کہا: لیکن یہ لوگ سمجھتے نہیں، دنیا کو جمع کرتے جاتے ہیں۔ اور مجھے خدا کی قسم! نہ تو ان سے دنیا کی طلب نہ دین کا استفتا کرنا ہے۔ پھر میں کیوں دبوں؟ مجھے تو صاف صاف کہنا ہے۔ (فتح الباری) حضرت ابوذرؓکا ایک واقعہ دوسری فصل کے سلسلۂ آیات میں نمبر (۵) پر بھی آرہا ہے۔




۲۔عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: مَا مِنْ یَوْمٍ یُصْبِحُ الْعِبَادُ فِیْہِ إِلَّا مَلَکَانِ یَنْزِلَانِ فَیَقُوْلُ أَحَدُھُمَا: اَللّٰھُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا۔ وَیَقُوْلُ الآخَرُ: اَللّٰھُمَّ أَعْطِ مُمْسِکًا تَلَفًا۔ 
ترجمہ:
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ روزانہ صبح کے وقت د و فرشتے (آسمان سے) اترتے ہیں۔ ایک دعا کرتا ہے: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما۔ دوسرا دعا کرتا ہے: اے اللہ! روک کر رکھنے والے کا مال برباد کر۔
[متفق علیہ، مشکاۃ المصابیح۔]
فائدہ:
قرآنِ پاک کی آیات میں بھی نمبر (۲۰) پر جو آیت گزری ہے اس سے اس کی تائید ہوتی ہے، جس کا مضمون یہ ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ تعالیٰ اس کابدل عطا کرے گا۔ اس جگہ اور بھی متعدد روایات اس کی تائید میں گزر چکی ہیں۔ حضرت ابو درداءؓ حضورِاقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جب بھی آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کی دونوں طرف دوفرشتے اعلان کرتے ہیں، جس کو جن وانس کے سوا سب سنتے ہیں، کہ اے لوگو! اپنے رب کی طرف چلو، تھوڑی چیز جوکفایت کا درجہ رکھتی ہو، اس زیادہ مقدار سے بہت بہتر ہے جو اللہ سے غافل کر دے۔ اور جب آفتاب غروب ہوتا ہے تو اس کے دونوں جانب دو فرشتے زور سے دعاکرتے ہیں: اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما اور روک کر رکھنے والے کے مال کو برباد کر۔ (عینی بروایۃ احمد)
ایک حدیث میں ہے کہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اس کے دونوں جانب دوفرشتے آواز دیتے ہیں کہ یا اللہ! خرچ کرنے والے کا بدل جلدی عطا فرمااور یا اللہ! روک کر رکھنے والے کے مال کو جلدی ہلاک فرما۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آسمان میں دوفرشتے ہیں جن کے متعلق صرف یہی کام ہے کوئی دوسرا کام نہیں۔ ایک کہتا رہتا ہے: یا اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا کر۔ دوسرا کہتا ہے: یا اللہ! روک کر رکھنے والے کو ہلاکت عطا فرما۔ (کنز العمال)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صبح و شام کی خصوصیت نہیں، ان کی ہر وقت یہی دعا ہے، لیکن پہلی روایات کی بنا پر معلوم ہوتا ہے یہ فرشتے آفتاب طلوع ہونے کے وقت اور غروب کے وقت خاص طور سے یہ دعا کرتے ہیں۔ اور مشاہدہ اور تجربہ بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ مال جمع کرکے رکھنے والوں پر اکثر ایسی چیزیں مسلّط ہو جاتی ہیں جن سے وہ سب ضائع ہو جاتا ہے۔ کسی پر مقدمہ مسلّط ہو جاتا ہے، کسی پرآوارگی سوار ہو جاتی ہے، کسی کے چور پیچھے لگ جاتے ہیں۔
حافظ ابنِ حجر ؒنے لکھا ہے کہ بربادی کبھی تو بعینہٖ اس مال کی ہوتی ہے اور کبھی صاحب ِمال کی۔ یعنی وہ خود ہی چل دیتا ہے۔ اور کبھی بربادی نیک اعمال کے ضائع ہونے سے ہوتی ہے کہ وہ اس میں پھنس کر نیک اعمال سے جاتا رہتا۔ اور اس کے بالمقابل جو خرچ کرتا ہے اس کے مال میں برکت ہوتی ہے، بلکہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص صدقہ اچھی طرح کرتا ہے حق تعالیٰ شا نہٗ اس کے ترکہ میں اچھی طرح نیابت کرتے ہیں۔ (اِحیاء العلوم) یعنی اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا مال وارث برباد نہیں کرتے، لغو چیزوں میں ضائع نہیں کرتے، ورنہ اکثر رؤسا کے لڑکے باپ کے مال کا جو حشر کرتے ہیں وہ معلوم ہی ہے۔ امام نووِی  ؒ نے لکھا ہے کہ جو خرچ پسندیدہ ہے وہ وہی خرچ ہے جو نیک کاموں میں ہو، اہل وعیال کے نفقہ میں ہو یا مہمانوں پر خرچ ہو یا دوسری عبادتوں میں ہو۔ قرطبی ؒ کہتے ہیں کہ یہ فرض عبادت اور نفل عبادت دونوں کو شامل ہے، لیکن نوافل سے رُکنے والا بددعا کا مستحق نہیں ہوتا، مگر یہ کہ اس کی طبیعت پر ایسا بخل مسلّط ہو جائے جو واجبات میں بھی خوشی سے خرچ نہ کرے۔ (فقط) لیکن آیندہ حدیث تعمیم کی طرف اشارہ کرتی ہے۔



۳۔ عَنْ أَبِيْ أُمَامَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: یَا ابْنَ آدَمَ أَنْ تَبْذُلَ الْفَضْلَ خَیْرٌ لَّکَ، وَأَنْ تُمْسِکَہٗ شَرٌّ لَّکَ، وَلَا تُلاَمُ عَلی کَفَافٍ، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ۔
ترجمہ:
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ اے آدم کے بیٹے! تو ضرورت سے زائد مال کو خرچ کر دے یہ تیرے لیے بہتر ہے۔ اور تو اس کو روک کر رکھے تو یہ تیرے لیے بُرا ہے۔ اور بقدر کفایت روکنے پر ملامت نہیں۔ اور خرچ کرنے میں جن کی روزی تیرے ذمہ ہے ان سے اِبتدا کر۔ (کہ ان پر خرچ کرنا دوسروں سے مقدم ہے)
[رواہ مسلم، مشکاۃ المصابیح]
فائدہ:
اس مضمون کی تائید بھی آیات نمبر(۴) پر گزر چکی ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ خود ہی فرما چکے ہیں کہ جتنا زائد ہو وہ خرچ کر دو۔ اس جگہ یہ حدیث شریف بھی گزر چکی ہے۔ اہتمام کی اور توضیح کی وجہ سے یہاں دوبارہ ذکر کی گئی۔ حقیقت یہی ہے کہ اپنے سے جو مال زائد ہو وہ جمع کرکے رکھنے کے واسطے ہے ہی نہیں۔ اس کے لیے بہترین بات یہی ہے کہ وہ اللہ کے بینک میں جمع کر دیا جائے، جس کو کوئی زوال نہیں، اس پر کوئی آفت نہیں آتی۔ اور ایسے سخت مصیبت کے وقت کام آنے والا ہے جس وقت کے مقابلہ میں یہاں کی ضرورتیں کچھ بھی نہیں ہیں۔ اور وہاں اس وقت کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے، اَثاثہ صرف وہی ہوگا جو اپنے ساتھ لے گیا ہے۔ دوسری چیز اس حدیث شریف میں یہ ہے کہ بقدرِ کفایت روکنے پر ملامت نہیں۔ یعنی جتنی کی واقعی ضرورت ہو کہ اس کے بغیر گزرمشکل ہو یا دستِ سوال دراز کرنا پڑے اس کو محفوظ رکھنے پر الزام نہیں ہے۔ اور جن کی روزی اپنے ذمہ ہے، اہل وعیال ہوں یا دوسرے لوگ ہوں، حتیٰ کہ جانو ر بھی اگر محبوس کررکھا ہے، تو اس کی خبر گیری اپنے ذمہ ہے، اس کو ضائع اور برباد کرنے کا گناہ اور وبال ہوتا ہے۔ حدیث پاک میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی کے گناہ کے لیے یہی بہت ہے کہ جس کی روزی اس کے ذمہ ہو اس کو ضائع کر دے۔ (مشکاۃ المصابیح)
عبداللہ بن صامت  ؒ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوذرؓ کے ساتھ تھا کہ ان کا وظیفہ جو بیت المال میں تھا وہ ان کو ملا۔ وہ اپنی ضروریات خریدنے کے لیے جا رہے تھے، ان کی باندی ساتھ تھی جو ان کی ضرورتیں مہیا کر رہی تھی۔ اس کے پاس ضروری چیزوں کے بعد سات اشرفیاں بچ گئیں۔ انھوں نے باندی سے فرمایا کہ ان کے پیسے لے کرآ۔ (تاکہ ان کو تقسیم کر دیں) میں نے کہا کہ اگر ان اشرفیوں کو آپ ابھی رہنے دیں کہ اور ضرورتیں پیش آئیں گی، مہمان بھی آتے رہتے ہیں۔ فرمایا کہ مجھ سے میرے دوست (ﷺ) نے یہ قرار داد کی تھی کہ جو سونا چاندی باندھ کر رکھا جائے گا وہ مالک پر آگ کی چنگاری ہے جب تک کہ اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کر دیا جائے۔ (الترغیب والترہیب)
حضورِ اقدسﷺ کی طرف سے اپنی ضرورت سے زیادہ چیز کو خرچ کر دینے کی اتنی ترغیبات واردہوئی ہیں کہ بعض صحابۂ کرام کو یہ خیال ہونے لگا کہ آدمی کو اپنی ضرورت سے زیادہ چیز رکھنے کا حق ہی نہیں۔ حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضورﷺ کے ساتھ ایک سفر میں جا رہے تھے کہ ایک شخص اپنی اونٹنی کو کبھی اِدھر کبھی اُدھر لے جاتے تھے۔ اس پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے پاس سواری زائد ہو وہ اُس کو دے دے جس کے پاس سواری نہیں اورجس کے پاس توشہ زائد ہو وہ اس کو دے دے جس کے پاس توشہ نہیں۔ حتیٰ کہ ہمیں گمان ہونے لگا کہ آدمی کا اپنی ضرورت سے زیادہ میں کوئی حق ہی نہیں۔ (ابوداؤد) ان صاحب کا اپنی اونٹنی کو ادھر ادھر پھرانا یا تو اس پر تفاخر اور بڑائی کی وجہ سے تھا، تب تو حضورﷺکے آیندہ کے ارشاد کے مخاطب یہی صاحب ہیںاور حاصل یہ ہے کہ ضرورت سے زائد چیز تفاخر کے لیے نہیں ہوتی، دوسروں کی اعانت کے لیے ہوتی ہے۔ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ یہ پھرانا اس کی ناگفتہ بہ حالت دکھانے کے واسطے صورتِ سوال تھا۔ اس صورت میں حضورﷺکے ارشاد کے مخاطب دوسرے حضرات ہیں۔



۴۔ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَصْرَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا سَلَّمَ قَامَ سَرِيعًا دَخَلَ عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ خَرَجَ وَرَأَى مَا فِي وُجُوهِ الْقَوْمِ مِنْ تَعَجُّبِهِمْ لِسُرْعَتِهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ ذَكَرْتُ وَأَنَا فِي الصَّلَاةِ تِبْرًا عِنْدَنَا فَكَرِهْتُ أَنْ يُمْسِيَ أَوْ يَبِيتَ عِنْدَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرْتُ بِقِسْمَتِهِ.
ترجمہ:
حضرت عقبہؓ کہتے ہیں کہ میں نے مدینہ طیبہ میں حضورِ اقدس ﷺ کے پیچھے عصر کی نماز پڑھی۔ حضور ﷺ نے نماز کا سلام پھیرا اور تھوڑی دیر بعد اٹھ کر نہایت عجلت کے ساتھ لوگوں کے مونڈھوں پر کو گزرتے ہوئے ازواجِ مطہرات کے گھروں میں سے ایک گھر میں تشریف لے گئے۔ لوگوں میں حضورﷺ کے اس طرح جلدی تشریف لے جانے سے تشویش پیدا ہوئی کہ نہ معلوم کیا بات پیش آگئی۔ حضور ﷺ مکان سے واپس تشریف لائے تو لوگوں کی حیرت کو محسوس فرمایا۔ اس پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے سونے کا ایک ٹکڑا یاد آگیا تھا جو گھر میں رہ گیا تھا۔ مجھے یہ بات گراں گزری کہ (کبھی موت آجائے اور وہ رہ جائے، اور میدانِ حشر میں اس کی جواب دہی اور اس کا حساب) مجھے روک لے، اس لیے اس کو جلدی بانٹ دینے کو کہہ کر آیا ہوں۔
فائدہ:
اسی قصّہ میں دوسری حدیث میں ہے کہ مجھے یہ بات ناپسند ہوئی کہ کہیں میں اس کوبھول جائوں اور وہ رات کو میرے پاس رہ جائے۔ اس سے بھی بڑھ کر ایک اور قصہ حدیث میں آیا ہے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورِ اقدسﷺکی بیماری میں حضورﷺ کے پاس چھ سات اشرفیاں تھیں۔ (اسی وقت کہیں سے آگئی ہوں گی) حضورﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ ان کو جلدی بانٹ دو۔ حضورﷺکی بیماری کی شدت کی وجہ سے مجھے ان کو تقسیم کرنے کی مہلت نہ ملی۔ حضورﷺنے دریافت فرمایا کہ وہ اشرفیاں تقسیم کر دیں؟ میں نے عرض کیا: آپ کی بیماری نے بالکل مہلت نہ دی۔ فرمایا: اٹھا کرلائو۔ ان کو لے کر ہاتھ پر رکھا اور فرمایا کہ اللہ کے نبی کا کیا گمان ہے (یعنی اس کو کس قدر ندامت ہوگی) اگر وہ اس حال میں اللہ سے ملے کہ یہ اس کے پاس ہوں۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
ایک اور حدیث میں حضرت عائشہؓ سے اسی قسم کا ایک اور قصہ نقل کیا گیا جس میں وارد ہے کہ ر ات ہی کو کہیں سے آگئی تھیں۔ حضورﷺکی نیند اڑ گئی۔ جب اَخیر شب میں میں نے ان کو خرچ کر دیا جب نیند آئی۔ (اِحیاء العلوم) حضرت سہلؓفرماتے ہیں کہ حضورﷺ کے پاس سات اشرفیاں تھیں جو حضرت عائشہؓ کے پاس رکھی تھیں۔ حضورﷺ نے حضرت عائشہؓسے فرمایا کہ وہ علی کے پاس بھیج دو۔ یہ فرمانے کے بعد حضورﷺ پر غشی طاری ہو گئی جس کی وجہ سے حضرت عائشہؓ اس میں مشغول ہوگئیں۔ تھوڑی دیر میں افاقہ ہوا تو پھر یہی فرمایا اور پھر غشی ہوگئی۔ باربار غشی ہو رہی تھی، آخر حضورﷺ کے بار بار فرمانے پر حضر ت عائشہؓ نے حضر ت علیؓ کے پاس وہ بھیج دیں۔ انھوں نے تقسیم فرما دیں۔
یہ قصہ تو دن میں گزرا۔ اور شام کو کہ دو شنبہ کی رات حضورﷺ کی زندگی کی آخری رات تھی، حضرت عائشہؓ کے گھر میںچراغ میں تیل بھی نہ تھا۔ ایک عورت کے پاس چراغ بھیجا کہ حضورﷺ کی طبیعت زیادہ خراب ہے، وصال کا وقت قریب ہے، اس میں گھی ڈال دو کہ اسی کو جلالیں۔ (الترغیب والترہیب)
حضرت ام سَلَمہؓ سے اس قسم کا اور قصہ نقل کیا گیا۔ وہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ تشریف لائے اور آپ کے چہرۂ مبارک پر تغیر (گرانی) کا اثر تھا۔ میںیہ سمجھی کہ طبیعت ناساز ہے۔ میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! آپ کے چہرۂ مبارک پر کچھ گرانی کا اثر ہے کیا بات ہوئی؟ فرمایا: سات دینار رات آگئے تھے، وہ بسترے کے کونے پر پڑے ہیں اب تک خرچ نہیں ہوئے۔ (عراقی، اِحیاء العلوم)
حضورﷺ کی خدمت میں ہدایا تو آتے ہی رہتے تھے، لیکن دن ہو، رات ہو، صحت ہو، بیماری ہو، اس وقت تک طبیعت مبارک پر بوجھ رہتا تھا جب تک وہ خرچ نہ ہو جائیں۔ او ر حد ہے کہ اپنے گھر میں بیماری کی شدت میں رات کو جلانے کو تیل بھی نہیں، لیکن سات اشرفیاں موجود ہونے پربھی گھر کی ضرورت کا نہ حضورِ اقدسﷺ کو خیال آیا نہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ ہی کو یادآیا کہ تھوڑا سا تیل بھی منگالیں۔
مجھے اپنے والد صاحب نور اللہ مرقدہ  کا یہ معمول دیکھنے کا بار ہا موقعہ ملا کہ رات کو وہ اپنے مِلک میں کوئی روپیہ پیسہ رکھنا نہیں چاہا کرتے تھے۔ قرضہ تو ہمیشہ ہی سر رہا، حتیٰ کہ وصال کے وقت بھی سات آٹھ ہزارروپیہ قرض تھا، اس لیے اگر رات کو روپوں کی کوئی مقدار ہوتی تو وہ کسی قرض خواہ کے حوالے کر دیتے اور پیسے ہوتے تو وہ بچوں میں سے کسی کو دے دیتے، اور فرمایا کرتے تھے میرا نہیں جی چاہتا کہ یہ گندگی رات کو میرے پاس رہے، موت کا اعتبار نہیں ہے۔ اس سے بڑھ کر میں نے حضرتِ اقدس قدوۃ الزاہدین شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری نور اللہ مرقدہٗ کے متعلق سنا ہے کہ حضرت کے پاس فتوحات کی کثرت تھی۔ اور جب کچھ جمع ہو جاتا تو بہت اہتمام سے اس کو خیر کے مواقع میں تقسیم فرما دیا کرتے۔ اس کے بعد پھر کہیں سے کچھ آجاتا تو چہرۂ مبارک پر گرانی کے آثار ہوتے اور ارشاد فرماتے کہ یہ اور آگیا۔ آخر میں حضرت نے اپنے پہننے کے کپڑے بھی تقسیم فرما دیے تھے۔ اور اپنے مخصوص خادم حضرت مولانا عبدالقادر صاحب زاد مجدہم سے فرمایا تھا کہ بس اب تو تم سے کپڑا مستعار لے کر پہن لیا کروں گا۔ اللہ کے اولیا کی شانیں اور انداز بھی عجیب ہوا کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک ولولہ ہے کہ جیسے آئے تھے ویسے ہی واپس جاویں، اس دنیا کے متاع کا ذخیرہ مِلک میں نہ ہو۔



۵۔ ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَيُّ الصَّدَقَةِ أَعْظَمُ أَجْرًا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏تَخْشَى الْفَقْرَ وَتَأْمُلُ الْغِنَى، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُمْهِلُ حَتَّى إِذَا بَلَغَتِ الْحُلْقُومَ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتَ لِفُلَانٍ كَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَلِفُلَانٍ كَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَانَ لِفُلَانٍ.
ترجمہ:
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون سا صدقہ ثواب کے اعتبار سے بڑھا ہوا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: یہ کہ تو صدقہ ایسی حالت میں کرے کہ تندرست ہو، مال کی حرص دل میں ہو، اپنے فقیر ہو جانے کاڈر ہو، اپنے مال دار ہونے کی تمنا ہو۔ اور صدقہ کرنے کو اس وقت تک مؤخر نہ کر کہ روح حلق تک پہنچ جائے۔ یعنی مرنے کا وقت قریب آجائے، تو تُو یوں کہے کہ اتنا مال فلاں (مسجد) کا اور اتنا مال فلاں (مدرسہ) کا۔ حالاںکہ اب مال فلاں (وارث) کا ہوگیا۔
[صحیح البخاري:1419، صحیح مسلم:2429]
فائدہ:
’’فلاں (وارث) کا ہوگیا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وارث کا حق اس میں شامل ہوگیا۔ اسی لیے وصیت صرف ایک تہائی میں ہوسکتی ہے اور مرض الموت کے صدقات بھی تہائی میں ہوسکتے ہیں، اس سے زیادہ کا حق مرنے والے کو نہیں ہے۔ اسی واسطے ایک اور حدیث میں حضورِاقدسﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ آدمی کہتا ہے: میرا مال میرا مال۔ حالاںکہ اس کا مال صرف تین چیزیں ہیں: جو کھالیا یا پہن لیا یا اللہ کے خزانہ میں صدقہ کرکے جمع کر دیا۔ اس کے علاوہ جو رہ گیا وہ جانے والا ہے۔ یعنی یہ شخص اس کو لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح) ایک اور حدیث میں ہے کہ آدمی اپنی زندگی میں ایک درہم صدقہ کردے، وہ اس سے بہتر ہے کہ مرتے وقت سودرہم صدقہ کرے۔ (مشکاۃ المصابیح) اس لیے کہ واقعی مرتے وقت تو وہ گویا دوسرے کے مال میں سے صدقہ کر رہا ہے کہ اب اس کا کیا رہا، اس کو تو بہرحال اس مال کو چھوڑ کر جانا ہے۔ ایک اور حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا کہ جو شخص مرتے وقت صدقہ کرتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی شخص جب خوب پیٹ بھرلے تو بچے ہوئے کھانے کا ہدیہ تحفہ کسی کے پاس لے کر جائے۔ (مشکاۃ المصابیح) 
حضور ِاقدسﷺ نے مختلف مثالوں سے اس پر تنبیہ فرمائی کہ اصل صدقہ کا وقت تندرستی اور صحت کا ہے کہ اپنے نفس سے اصل مقابلہ اسی وقت ہے، لیکن ان سب کا مطلب یہ نہیں کہ مرتے وقت کا صدقہ یا وصیت بے کار ہے۔ بہرحال ثواب اس کا بھی ہے، ذخیرئہ آخرت وہ بھی بنتا ہے۔ البتہ اتنا ثواب نہیں ہوتا جتنا اپنی ضرورتوں اور راحتوں کے مقابلے میں صدقہ کرنے کا ثواب ہے۔ حق تعالیٰ شا نہٗ کا ارشاد ہے: 
{کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیرَ نالْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ} ( البقرۃ : ع ۲۲) 
تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت آنے لگے، اگر وہ مال چھوڑے تو والدین اور دوسرے رشتہ داروں کے لیے کچھ وصیت کر جائے جو معروف طریقہ پر ہو۔ جن کو خداکا خوف ہے ان کے ذمہ یہ ضروری چیز ہے۔‘‘

یہ حکم جو اس آیتِ شریفہ میں ذکر کیا گیا ابتدائے اسلام کا ہے۔ اس وقت ماں باپ کے لیے بھی وصیت فرض تھی۔ اس کے بعد جب میراث کا حکم نازل ہوا تو والدین اور جن رشتہ داروں کا حق شریعت نے معین کر دیا، ان کے لیے وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا، لیکن جن رشتہ داروں کا حق شریعت نے مقرر نہیں کیا، ان کے لیے ایک تہائی مال میں وصیت کا حق اب بھی باقی ہے، لیکن میراث کے حکم سے پہلے یہ فرض تھا اب فرض نہیں ہے۔ حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ اس آیتِ شریفہ کے حکم سے ان کو وصیت منسوخ ہوگئی جو وارث بنتے ہیں اور جو وارث نہیں بنتے ان کو وصیت منسوخ نہیں ہوئی۔ قتادہ ؒ کہتے ہیں کہ اس آیتِ شریفہ میں وصیت اب ان کے لیے رہ گئی جو وارث نہیں ہوتے، خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں۔ (دُرِّمنثور)
ایک حدیث میں اللہ کا ارشاد آیا ہے: اے آدم کے بیٹے! تو زندگی میں بخیل تھا مرنے کے وقت اِسراف کرنے لگا! دو برائیاں اکھٹی نہ کر، ایک زندگی (میں بخل) کی دوسری مرنے کے وقت کی۔ تو اپنے ایسے رشتہ داروں کو دیکھ جو تیری میراث سے محروم ہیں اور ان کے لیے کچھ وصیت کر جا۔ (کنز العمال)
آیات میں نمبر(۲) پر خود حق تعالیٰ شا نہٗ کے پاک کلام میں بھی اس طرف اشارہ گزرچکا ہے کہ صدقہ اس وقت کا افضل ہے جب کہ آدمی کو مال کی محبت ستا رہی ہو، بمقابلہ اس کے کہ دل سرد ہوچکا ہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ اس شخص سے ناراض ہوتے ہیں جو اپنی زندگی میں تو بخیل ہو اور مرنے کے وقت سخی ہو۔ (کنز العمال)
اس لیے جو لوگ صدقات واَوقاف میں مرنے کے وقت کا انتظار کرتے ہیں یہ پسندیدہ چیز نہیں ہے۔ اوّل تو اس کاعلم کسی کو نہیں کہ کب اور کس طرح موت آجائے۔ متعدد واقعات اس قسم کے قابلِ عبرت دیکھنے میں آئے کہ مرنے کے وقت بہت کچھ صدقات اور اَوقاف کرنے کی اُمنگیں لوگوں میں تھیں، لیکن بیماری نے ایسا گھیرا کہ مہلت ہی نہ لینے دی۔ کسی پر فالج گرگیا، کسی کی زبان بند ہوگئی، کہیں ورثا تیماردار بیچ میں حائل ہوگئے۔ اور اگر ان سب عوارض سے بچ کر اس کی نوبت آبھی جائے، جو بہت کم آتی ہے، تب بھی وہ درجہ ثواب کا تو ہوتا نہیں جو اپنی خواہشات کو نقصان پہنچا کر صدقہ کرنے کا ہے۔ البتہ اگر اپنی زندگی میں کوتاہی سے نہ کرسکا ہو تو مرنے ہی کے وقت کو غنیمت سمجھے کہ مرنے کے بعد کوئی کسی کو نہیں پوچھتا، سب دوچار دن رو کر بھول جاتے ہیں، روزانہ کے یہ مشاہدے ہیں۔ جو کچھ لے جانا ہے خود ہی اپنے ساتھ لے جائو کام دے گا۔




۶۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃََ ؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَۃٍ۔ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِہٖ فَوَضَعَھَا فِيْ یَدِ سَارِقٍ، فَأَصْبَحُوْا یَتَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ اللَّیْلَۃَ عَلَٰی سَارِقٍ۔ فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ عَلَی سَارِقٍ، لأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَۃٍ۔ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِہٖ فَوَضَعَھَا فِيْ یَدِ زَانِیَۃٍ، فَأَصْبَحُوْا یَتَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ اللَّیْلَۃَ عَلی زَانِیَۃٍ۔ فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ عَلَی زَانِیَۃٍ، لأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَۃٍ۔ فَخَرَجَ بِصَدَقَتِہٖ فَوَضَعَھَا فِيْ یَدِ غَنِيٍّ، فَأَصْحَبُوْا یَتَحَدَّثُوْنَ: تُصُدِّقَ اللَّیْلَۃَ عَلَی غَنِيٍّ۔ فَقَالَ: اَللّٰھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ عَلٰی سَارِقٍ وَزَانِیَۃٍ وَغَنِيٍّ۔ فَأُتِيَ فَقِیْلَ لَہٗ: أَمَّا صَدَقَتُکَ عَلَی سَارِقٍ فَلَعَلَّہٗ أَنْ یَسْتَعِفَّ عَنْ سَرَقَتِہٖ، وَأَمَّا الزَّانِیَۃُ فَلَعَلَّھَاأَنْ تَسْتَعِفَّ عَنْ زِنَاھَا، وَأَمَّا الْغَنِيُّ فَلَعَلَّہٗ یَعْتَبِرُ فَیُنْفِقُ مِمَّا أَعْطَاہُ اللّٰہُ۔
ترجمہ:
حضرت ابوھریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ (بنی اسرائیل کے) ایک آدمی نے اپنے دل میں کہا کہ آج رات کو چپکے سے صدقہ کروں گا۔ چناںچہ رات کو چپکے سے ایک آدمی کے ہاتھ میں مال دے کر چلا آیا۔ صبح کو لوگوں میں آپس میں چرچا ہوا کہ رات کوئی شخص ایک چور کو صدقہ دے گیا۔ اس صدقہ کرنے والے نے کہا: یا اللہ! چور پر صدقہ کرنے میں بھی تیرے ہی لیے تعریف ہے۔ (کہ اس سے بھی زیادہ بدحال کو دیا جاتا، تو ہی بتا میں کیا کرسکتا تھا؟) پھر اس نے دوبارہ ٹھانی کہ آج رات کو پھرصدقہ کروں گا۔ (کہ پہلا تو ضائع گیا) چناںچہ رات کو صدقہ کا مال لے کر نکلا اور اس کو ایک عورت کو دے آیا۔ (یہ خیال کیا ہوگا کہ یہ تو چوری کیا کرے گی) صبح کو چرچا ہوا کہ رات کوئی شخص فلاں بدکار عورت کو صدقہ دے گیا۔ اس نے کہا: یا اللہ! تیرے ہی لیے تعریف ہے زنا کرنے والی عورت پر بھی۔ (کہ میرا مال تو اس سے بھی کم درجہ کے قابل تھا) پھر تیسری مرتبہ ارادہ کیا کہ آج رات کو ضرور صدقہ کروں گا۔ چناںچہ رات کو صدقہ لے کر گیا اور اس کو ایک شخص کو دے دیا جو مال دار تھا۔ صبح کو چرچا ہوا کہ رات ایک مال دار کو صدقہ دیا گیا۔ اس صدقہ دینے والے نے کہا: یا اللہ! تیرے ہی لیے تعریف ہے چور پر بھی، زنا کرنے والی عورت پر بھی اور غنی پر بھی۔ رات کو خواب میں دیکھا کہ (تیرا صدقہ قبول ہوگیا) تیرا صدقہ چور پر اس لیے کرایا گیا کہ شاید وہ اپنی چوری سے توبہ کرلے۔ اور زانیہ پر اس لیے کہ وہ شاید زنا سے توبہ کرلے۔ (جب وہ یہ دیکھے گی کہ بغیر منہ کالا کرائے بھی اللہ عطا فرماتے ہیں تو اس کو غیرت آئے گی) اور غنی پر اس لیے تاکہ اس کو عبرت حاصل ہو (کہ اللہ کے بندے کس طرح چھپ کر صدقہ کرتے ہیں، اس کی وجہ سے) شاید وہ بھی اس مال میں سے جو اس کو اللہ نے عطا فرمایا ہے صدقہ کرنے لگے۔
[صحيح البخاري:1421، صحیح مسلم:1022، سنن نسائی:2524]

فائدہ:
ایک حدیث میں یہ قصہ اور طرح سے ذکر کیا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ دوسرا قصہ ہو کہ اس قسم کے متعدد واقعات میں کوئی اشکال نہیں۔ اور اگر وہ یہی قصہ ہے تو اس سے اس قصہ کی کچھ وضاحت ہوتی ہے۔ طائوس ؒ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے منت مانی کہ جو شخص سب سے پہلے اس آبادی میںنظر پڑے گا اس پر صدقہ کروں گا۔ اتفاق سے سب سے پہلے ایک عورت ملی اس کو صدقہ کا مال دے دیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بڑی خبیث عورت ہے۔ اس صدقہ کرنے والے نے اس کے بعد جو شخص سب سے پہلے نظر پڑا اس کو مال دیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بدترین شخص ہے۔ اس شخص نے اس کے بعد جو سب سے پہلے نظر پڑا اس پر صدقہ کیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو بڑا مال دار شخص ہے۔ صدقہ کرنے والے کو بڑا رنج ہوا تو اس نے خواب میں دیکھا کہ اللہ نے تیرے تینوں صدقے قبول کرلیے۔ وہ عورت فاحشہ عورت تھی، لیکن محض ناداری کی وجہ سے اس نے یہ فعل اختیار کر رکھا تھا۔ جب سے تو نے اس کو مال دیا ہے اس نے یہ برا کام چھوڑ دیا۔ دوسرا شخص چور تھا اور وہ بھی تنگ دستی کی وجہ سے چوری کرتا تھا۔ تیرے مال دینے پر اس نے چوری سے علیحدگی اختیار کرلی۔ تیسرا شخص مال دار ہے اور کبھی صدقہ نہ کرتا تھا۔ تیرے صدقہ کرنے سے اس کو عبرت ہوئی کہ میں اس سے زیادہ مال دار ہوں اس لیے زیادہ صدقہ کرنے کا مستحق ہوں، اب اس کو صدقہ کی توفیق ہوگئی۔ (کنز العمال)
اس حدیث شریف سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اگر صدقہ کرنے والے کی نیت اخلاص کی ہو اور اس کے باوجود وہ بے محل پہنچ جائے تو اس میں بھی اللہ کی کوئی حکمت ہوتی ہے، اس سے رنجیدہ نہ ہونا چاہیے۔ آدمی کا اپنا کام یہ ہے کہ اپنی نیت اخلاص کی رکھے کہ اصل چیز اپنا ہی ارادہ اور فعل ہے۔ اور ان صدقہ کرنے والے بزرگ کی فضیلت بھی ظاہر ہوئی کہ باوجود اپنی کوشش کے جب صدقہ بے جگہ صرف ہوگیا، تو اس کی وجہ سے بددل ہو کر صدقہ کرنے کاارادہ ترک نہیں کیا، بلکہ دوبارہ سہ بارہ صدقہ کو اپنے مصرف پر خرچ کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہی وہ ان کا اخلاص اور نیک نیتی تھی جس کی برکت سے تینوں صدقے قبول بھی ہوگئے اور قبول کی بشارت بھی خواب میں ظاہر ہوگئی۔ حافظ ابنِ حجر ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر صدقہ ظاہر کے اعتبار سے اپنے محل پر خرچ نہ ہوا ہو تو اس کو دوبارہ ادا کرنا مستحب ہے اور دوبارہ ادا کرنے سے اُکتانا نہیں چاہیے جیسا کہ بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ خدمت کو قطع نہ کر اگرچہ عدمِ قبول کے آثار ظاہر ہوں۔
علاّمہ عینی ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ اللہ آدمی کی نیک نیتی کا بدلہ ضرور عطا فرماتے ہیں۔ اس لیے کہ ان صدقہ کرنے والوں نے خالص اللہ کے واسطے صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تھا (اسی لیے رات کو چھپا کر دیا تھا) تو حق تعالیٰ شا نہٗ نے اس کو قبول فرمایا اور بے محل خرچ ہو جانے کی وجہ سے مردود نہیں ہوا۔



۷۔ عَنْ عَلِيٍّ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : «بَادِرُوا بِالصَّدَقَةِ فَإِنَّ الْبَلَاءَ لَا يَتَخَطَّاهَا».
ترجمہ:
حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ صدقہ کرنے میں جلدی کیا کرو، اس لیے کہ بَلا صدقہ کو پھاند نہیں سکتی۔
فائدہ:
یعنی اگر کوئی بلا و مصیبت آنے والی ہوتی ہے تو وہ صدقہ کی وجہ سے پیچھے رہ جاتی ہے ۔ ایک ضعیف حدیث میں آیا ہے کہ صدقہ برائی کے ستّر دروازوں کو بند کرتا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے مالوں کو زکوٰۃ ادا کرکے پاک کرو اور اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو اور مصیبتوں کی موجوں کا دعا سے استقبال کرو۔ (الترغیب والترہیب)
’’کنز العمال‘‘ میں کئی احادیث کے ذیل میں یہ مضمون آیا ہے کہ اپنے بیماروں کی صدقہ سے دو ا کیا کرو۔ اور تجربہ بھی اس کا شاہد ہے کہ صدقہ کی کثرت بیماری سے شفا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ صدقہ سے بیماروں کا علاج کیا کرو کہ صدقہ آبرو ریزیوں کو بھی ہٹاتا ہے اور بیماریوں کو بھی ہٹاتا ہے، اور نیکیوں میں اضافہ کرتا ہے اور عمر بڑھاتا ہے۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں آیا ہے کہ صدقہ کرنا ستّر بلائوں کو روکتا ہے، جن میں کم سے کم درجہ جزام کی اور برص کی بیماری ہے۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں آیا ہے کہ اپنے تفکّرات اور غموں کی تلافی صدقہ سے کیا کرو، اس سے حق تعالیٰ شا نہٗ تمہاری مضرت کو بھی دفع کرے گا اور تمہاری دشمن پر مدد کرے گا۔ (کنز العمال) ایک اور صحیح حدیث میں آیا ہے کہ جب کوئی شخص کسی مسلمان کو کپڑا پہنائے، تو جب تک پہننے والے کے بدن پر ایک بھی ٹکڑا اس کپڑے کا رہے گا پہنانے والا اللہ کی حفاظت میں رہے گا۔
 ابنِ ابی الجعد ؒ کہتے ہیں کہ صدقہ برائیوں کے ستر دروازے بند کرتا ہے۔ (اِحیاء العلوم) ایک حدیث میں ہے کہ صبح کو سویرے سویرے صدقہ کیا کرو، اس لیے کہ بَلا صدقہ سے آگے نہیں بڑھتی۔ (الترغیب و الترہیب) آیات کے ذیل میں نمبر (۱۹) پر ابنِ ابی الجعد ؒکی نقل سے ایک واقعہ بھی بھیڑیے کا گزرچکا ہے اور متعدد ر وایات اس مضمون کی گزر چکی ہیں۔ 
حضرت انسؓ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ صدقہ اللہ کے غصہ کو دور کرتا ہے اور بری موت کو ہٹاتا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح) علماء نے لکھا ہے کہ صدقہ مرنے کے وقت شیطان کے وسوسہ سے محفوظ رکھتا ہے اور مرض کی شدت کی وجہ سے ناشکری کے الفاظ نکلنے سے حفاظت کرتا ہے اور ناگہانی موت کو روکتا ہے۔ غرض حسنِ خاتمہ کا معین ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ صدقہ قبر کی گرمی کو زائل کرتا ہے اور آدمی قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا۔ (کنز العمال ) یعنی جتنا زیادہ صدقہ کرے گا اتنا ہی زیادہ سایہ ہوگا۔
حضرت معاذؓ نے حضورِ اقدسﷺ سے عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتا دیجیے جو جنت میں داخل کر دے اور جہنم سے دور رکھے۔ حضورﷺنے فرمایا: تم نے بہت بڑی بات پوچھی اور وہ بہت آسان چیز ہے جس پر اللہ آسان کر دے۔ اور وہ یہ ہے کہ اللہ کی اخلاص سے عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ بنائو، نماز کو قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرتے رہو، رمضان المبارک کے روزے رکھو اور بیت اللہ شریف کا حج کرو۔ اس کے بعد حضورﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں خیر کے دروازے بتائوں؟ (یعنی جن دروازوں سے آدمی خیر تک پہنچتا ہے) اور وہ یہ ہیں: روزہ ڈھال ہے (یعنی جیسا ڈھال کی وجہ سے آدمی دشمن کے حملہ کو روکتا رہتا ہے اسی طرح روزہ کے ذریعہ شیطان کے حملوں کو روکتا ہے) اور صدقہ خطائوں کو ایسا بجھا دیتا ہے جیسا پانی آگ کو بجھا دیتا ہے او ر رات کے درمیانی حصہ میں نماز۔ (بھی ایسی ہی چیز ہے) اس کے بعد حضورﷺ نے یہ آیتِ شریفہ تلاوت فرمائی { تَتَجَا فی جُنُوْبُھُمْ } یہ آیتِ شریفہ آیات کے ذیل میں نمبر (۱۹) پر گزر چکی ہے۔ پھر حضورﷺنے فرمایا کہ میں تم کو سارے کام کا سر اور اس کاستون اور اس کی بلندی بتائوں؟ سب کا سر تو اسلام ہے (کہ اس کے بغیر تو کوئی چیز معتبر ہی نہیں) اور اس کا ستون نماز ہے (کہ جیسے بغیر ستون کے مکان کا باقی رہنا مشکل ہے، ایسے ہی بغیر نماز کے اسلام کا بقا مشکل ہے ) اور اس کی بلندی جہاد ہے۔ (یعنی جہاد سے اس کو بلندی ملتی ہے) پھر حضورﷺنے فرمایا کہ ان سب چیزوں کی جڑ بتائوں؟ (جس پر ساری بنیاد قائم ہوتی ہے) حضورﷺ نے اپنی زبان مبارک پکڑ کر ارشاد فرمایا کہ اس کو قابو میں رکھو۔ حضرت معاذؓکہتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم اس پر بھی پکڑے جائیںگے جو کچھ بات چیت زبان سے کرلیتے ہیں؟ حضورﷺنے فرمایا: تجھ کو تیری ماں روئے اے معاذ! کیا آدمیوں کو ناک کے بل اوندھے منہ جہنم میں زبان کے علاوہ اور کوئی چیز بھی ڈالتی ہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
’’تجھ کو تیری ماں روئے‘‘ عرب کے محاورہ میں تنبیہ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ ہم زبانوں کو جو قینچی کی طرح چلاتے رہتے ہیں وہ سب مجموعہ اَعمال نامہ میں تلے گا۔ اور اس میں لغو اور بے ہودہ ناجائز چیزیں جتنی بولتے ہیں وہ جہنم میں جانے کا سبب ہوتی ہیں۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ آدمی اللہ کی خوشنودی کا کوئی کلمہ زبان سے نکالتا ہے جس کو وہ بولنے والا کچھ اہم بھی نہیں سمجھتا، لیکن حق تعالیٰ شا نہٗ اس کلمہ کی وجہ سے اس کے درجے جنت میں بلند کر دیتے ہیں۔ اور آدمی اللہ کی ناراضی کا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جس کو وہ کہنے والا سرسری سمجھتا ہے، لیکن اس کلمہ کی وجہ سے جہنم میں پھینک دیا جاتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ جہنم میں اتنی دور پھینک دیا جاتا ہے جیسا کہ مشرق سے مغرب دور ہے۔ ایک اور حدیث میں حضورﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ جو شخص دو چیزوں کا ذمہ لے لے کہ بے محل استعمال نہیں کرے گا، ایک وہ چیز جو دو جبڑوں کے درمیان ہے (یعنی زبان) اوردوسری وہ جو دوٹانگوں کے درمیان ہے (یعنی شرم گاہ) تو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں۔ ایک حدیث میں ہے کہ جہنم میں آدمیوں کو کثرت سے یہی دو چیزیں ڈالتی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ ایک آدمی کوئی کلمہ زبان سے نکالتا ہے اور محض اتنی غرض ہوتی ہے کہ لوگ ذرا ہنس پڑیں گے تفریح ہوگی، لیکن اس کے وبال سے جہنم میں اتنی دور پھینک دیا جاتا ہے جتنی آسمان سے زمین دور ہے۔ حضرت سفیان ثقفیؓ نے حضورﷺ سے پوچھا کہ آپ کو اپنی امت پر سب سے زیادہ ڈر کس چیز کا ہے؟ حضورﷺ نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا کہ اس کا۔ (مشکاۃ المصابیح) ان کے علاوہ اور بہت سی روایات میں مختلف عنوانوں سے یہ چیز وارد ہوئی ہے۔ ہم لوگ اس سے بہت ہی غافل ہیں۔ یقینًا آدمی کو اس کا اکثر لحاظ رکھنا چاہیے کہ زبان سے جو کچھ کہہ رہا ہے اس سے اگر کوئی نفع نہ پہنچے تو کم از کم کسی آفت اور مصیبت میں تو گرفتار نہ ہو۔
حضرت سفیان ثوری ؒ مشہور امامِ حدیث اورفقہ ہیں۔ فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک گناہ صادر ہوگیا تھا جس کی وجہ سے پانچ مہینہ تک تہجد سے محروم رہا۔ کسی نے پوچھا: ایسا کیا گناہ ہوگیا تھا؟ فرمایا: ایک شخص رو رہا تھا میں نے اپنے دل میں یہ کہا تھا: یہ شخص ریاکار ہے۔ (اِحیاء العلوم) یہ دل میں کہنے کی نحوست ہے۔ ہم لوگ اس سے کہیں زیادہ سخت لفظ زبان سے لوگوں کے متعلق کہتے رہتے ہیں اور بے وجہ کہتے رہتے ہیں۔ اور اگر اس سے مخالفت بھی ہو پھر تو اس کے اوپربہتان باندھنے میں ذرا بھی کمی نہیں کرتے، اس کے ہر ہنر کو عیب اور ہر عیب کو زیادہ وقیع بنا کر شہرت دیتے ہیں۔



۸۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ قَالَ: « مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ، وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا، وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللهُ .»
ترجمہ:
حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ صدقہ کرنا مال کو کم نہیں کرتا، اور کسی خطا وار کے قصور کو معاف کردینا معاف کرنے والے کی عزت ہی کو بڑھاتا ہے، اور جو شخص اللہ  کی رضا کے خاطر تواضع اختیار کرتا ہے تو حق تعالیٰ شانہٗ اس کو رفعت اور بلندی عطا فرماتے ہیں۔
فائدہ:
اس حدیث پاک میں تین مضمون وارد ہوئے ہیں۔ نمبر(۱) یہ کہ صدقہ دینے سے ظاہر کے اعتبار سے اگرچہ مال میں کمی معلوم ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں مال میں اس سے کمی نہیں ہوتی، بلکہ اس کا بدل اور نعم البدل آخرت میں تو ملتا ہی ہے جیسا کہ اب تک کی سب آیات اور روایات سے بکثرت معلوم ہو چکا ہے، دنیا میں بھی اکثر اس کا بدل ملتا ہے، جیسا کہ آیات میں نمبر(۱۴ ) پر اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے۔ اور نمبر (۲۰) پر تو گویا اس کی تصریح گزر چکی ہے کہ جو کچھ تم (اللہ کے راستہ میں ) خرچ کرو گے اللہ اس کا بدل عطا کرے گا۔ اور اس آیت کے ذیل میں حضورِ اقدسﷺ کے متعدد ارشادات اس کی تائید میںگزر چکے ہیں۔ اور احادیث کے ذیل میں نمبر(۲) پر حضورﷺکا ارشاد گزر چکا ہے کہ روزانہ دو فرشتے یہ دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما اور روکنے والے کو بربادی عطاکر۔
حضرت ابو کبشہؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں میں قسم کھا کر بیان کرتا ہوں اور اس کے بعدایک بات خاص طور سے تمہیں بتائوں گا اس کو اچھی طرح محفوظ رکھنا۔ وہ تین باتیں جن پر میں قسم کھاتا ہوں، ان میں سے اوّل یہ ہے کہ کسی بندہ کا مال صدقہ کرنے سے کم نہیں ہوتا، اور دوسری یہ ہے کہ جس شخص پر ظلم کیاجائے اور وہ اس پر صبر کرے تو حق تعالیٰ شا نہٗ اس صبر کی وجہ سے اس کی عزت بڑھاتے ہیں، اور تیسری یہ ہے کہ جو شخص لوگوں سے مانگنے کا دروازہ کھولے گا حق تعالیٰ شا نہٗ اس پر فقر کا دروازہ کھولتے ہیں۔
ان تین کے بعد ایک بات تمہیں بتاتا ہوں اس کو محفوظ رکھو۔ وہ یہ ہے کہ دنیا میں چار قسم کے آدمی ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس کو حق تعالیٰ شا نہٗ نے علم بھی عطا فرمایا اور مال بھی عطا فرمایا۔ وہ (اپنے علم کی وجہ سے) اپنے مال میں اللہ سے ڈرتا ہے، (کہ اس کی خلافِ مرضی خرچ نہیں کرتا، بلکہ) صلہ رحمی کرتا ہے اور ا للہ کے لیے اس مال میں نیک عمل کرتا ہے، اس کے حقوق ادا کرتا ہے، یہ شخص سب سے اونچے درجوں میں ہے۔ دوسرا وہ شخص ہے جس کو اللہ نے علم عطا فرمایا او ر مال نہیں دیا۔ اس کی نیت سچی ہے۔ وہ تمنا کرتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں بھی فلاں کی طرح سے (نیک کاموں میں) خرچ کرتا۔ تو حق تعالیٰ شا نہٗ اس کی نیت کی وجہ سے اس کو بھی وہی ثواب دیتا ہے جو پہلے کاہے اور یہ دونوں ثواب میں برابر ہو جاتے ہیں۔ تیسرے وہ شخص ہے جس کو اللہ  نے مال عطا کیا مگر علم نہیںد یا۔ وہ اپنے مال میں گڑ بڑ کرتا ہے۔ (بے محل لہو و لعب اور شہوتوں میں خرچ کرتا ہے) نہ اس مال میں اللہ کا خوف کرتا ہے، نہ صلہ رحمی کرتا ہے، نہ حق کے موافق خرچ کرتا ہے۔ یہ شخص (قیامت میں) خبیث ترین درجہ میں ہوگا۔ چوتھا وہ شخص ہے جس کو اللہ  نے نہ مال عطا کیا نہ علم دیا۔ وہ تمنا کرتا ہے کہ اگر میرے پاس مال ہو تو میں فلاں (یعنی نمبر ۳) کی طرح خرچ کروں، تو اس کو اس نیت کا گناہ ہوگا، اور وبال میں یہ اور نمبر(۳) برابر ہو جائیں گے۔ (المشکوٰۃ بروایۃ الترمذي وقال: حدیث صحیح)
حضرت ابنِ عباس? حضورِ اقدسﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ صدقہ کرنا مال کو کم نہیں کرتا۔ اور جب کوئی شخص صدقہ کرنے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے تو وہ مال فقیر کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اللہ  کے پاک ہاتھ میں جاتا ہے۔ (یعنی قبول ہوتا ہے) اور جو شخص ایسی حالت میں دستِ سوال بڑھاتا ہے کہ بغیر سوال کے اس کا کام چل جاتا ہو، تو حق تعالیٰ شا نہٗ اس پر فقر کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب)
حضرت قیس بن سِلَع انصاریؓ فرماتے ہیں کہ میرے بھائیوں نے حضورِ اقدس ﷺ سے میری شکایت کی کہ یہ بہت اِسراف کرتا ہے اور اپنے مال کو بے جا خرچ کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں باغ میں سے اپنا حصہ لے لیتا ہوں اور اللہ کے راستہ میں بھی خرچ کرتا ہوں اور جو مجھ سے ملنے آتے ہیں ان کو بھی کھلاتا ہوں۔ حضورﷺ نے میرے سینہ پر ہاتھ مار کر تین بار فرمایا کہ خرچ کیا کر، اللہ  تجھ پر خرچ فرمائیں گے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد میں ایک سفرِ جہاد میں چلا تو میرے پاس سواری بھی اپنی تھی اور اپنے سب گھر والوں  سے زیادہ ثروت مجھے حاصل تھی۔ (الترغیب والترہیب) یعنی جو لوگ بڑی احتیاط کے ساتھ خرچ کرتے تھے ان کے پاس اتنا نہ تھا جتنا مجھ بے دریغ خرچ کرنے والے کے پاس تھا۔
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورِ اقدسﷺ نے خطبہ میں ارشاد فرمایا: اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو، قبل اس کے کہ تمہیں موت آجائے۔ اور نیک کاموں میں جلدی کرو، اس سے پہلے کہ تم ادھر ادھر مشغول ہو جائو۔ اور اپنے اور اللہ کے درمیان تعلقات کو جوڑ لو، اس کا ذکر کثرت سے کرکے، اور مخفی اور علانیہ صدقہ بہت کثرت سے دے کر کہ اس کی وجہ سے تمہیں رزق دیا جائے گا، تمہاری مدد کی جائے گی، تمہارے نقصان کی تلافی کی جائے گی۔ (الترغیب والترہیب) ایک حدیث میں آیا ہے کہ صدقہ کے ذریعہ رزق پر مدد چاہو۔ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ صدقہ کے ذریعہ سے رزق اتارو۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں آیا ہے کہ صدقہ سے مال میں زیادتی ہوتی ہے۔ (کنز العمال)
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓکہتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺنے ارشاد فرمایا کہ تین چیزیں ہیں، قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! کہ میں ان چیزوں پر قسم کھاتا ہوں۔ اوّل یہ کہ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا، اس لیے خوب صدقہ کیا کرو۔ دوسرے یہ کہ جس بندہ پر کوئی ظلم کیا جائے اور وہ اس کو معاف کر دے تو حق تعالیٰ شا نہٗ قیامت میںا س کی عزت بڑھاتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ نہیں کھولتا کوئی بندہ سوال کے دروازہ کو مگر حق تعالیٰ شا نہٗ اس پر فقر کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔ (الترغیب والترہیب)
حضرت ابوسلمہؓ سے بھی حضورِ اقدسﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا کہ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا، پس صدقہ کیا کرو۔ (دُرِّمنثور) کم نہ ہونے کا مطلب بظاہر یہی ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ اس کا نعم البدل بہت جلد عطا فرماتے ہیں۔ حضرت حبیب عجمی ؒ مشہوربزرگ ہیں۔ ان کی بیوی ایک مرتبہ آٹا گوندھ کر برابر کے گھر سے آگ لینے گئیں، پیچھے سے کوئی سائل آگیا۔ حضرت حبیب ؒ نے وہ آٹا اس سائل کو دے دیا۔ یہ جب آگ لے کر آئیں تو آٹاندارد۔ خاوند سے پوچھا: آٹا کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے کہ وہ روٹی پکنے گیا ہے۔ ان کو یقین نہ آیا، اِصرار کرنے لگیں۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ تو میں نے صدقہ کر دیا۔ کہنے لگیں: سبحان اللہ! تم نے اتنا بھی خیال نہ کیا کہ اتنا ہی آٹا تھا، اب سب کیا کھائیں گے؟ آخر ہمارے لیے بھی تو کچھ چاہیے تھا۔ وہ کہہ ہی رہی تھیں کہ ایک آدمی بڑے پیالہ میں گوشت او ر روٹیاں لے کر حاضر ہوا۔ کہنے لگیں: کیسے جلدی پکا لائے اور سالن اضافہ میں ساتھ لائے۔ (روض الریاحین)
اس قسم کے واقعات کثرت سے پیش آتے ہیں، مگر ہم چوںکہ حق تعالیٰ شا نہٗ کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے اس لیے غور بھی نہیں کرتے کہ یہ نعمت کس چیز کے بدلہ میں ملی۔ ایسی چیزوں کو سمجھتے ہیں کہ اتفاقًا فلاں چیز مل گئی ورنہ کیا ہوتا؟ حالاںکہ وہ چیز آئی ہی ہے خرچ کرنے کی وجہ سے۔



۹۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ؓ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: بَيْنَا رَجُلٌ بِفَلَاةٍ مِنْ الْأَرْضِ فَسَمِعَ صَوْتًا فِي سَحَابَةٍ اسْقِ حَدِيقَةَ فُلَانٍ فَتَنَحَّی ذَلِکَ السَّحَابُ فَأَفْرَغَ مَائَهُ فِي حَرَّةٍ فَإِذَا شَرْجَةٌ مِنْ تِلْکَ الشِّرَاجِ قَدْ اسْتَوْعَبَتْ ذَلِکَ الْمَائَ کُلَّهُ فَتَتَبَّعَ الْمَائَ فَإِذَا رَجُلٌ قَائِمٌ فِي حَدِيقَتِهِ يُحَوِّلُ الْمَائَ بِمِسْحَاتِهِ فَقَالَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُکَ قَالَ فُلَانٌ لِلِاسْمِ الَّذِي سَمِعَ فِي السَّحَابَةِ فَقَالَ لَهُ يَا عَبْدَ اللَّهِ لِمَ تَسْأَلُنِي عَنْ اسْمِي فَقَالَ إِنِّي سَمِعْتُ صَوْتًا فِي السَّحَابِ الَّذِي هَذَا مَاؤُهُ يَقُولُ اسْقِ حَدِيقَةَ فُلَانٍ لِاسْمِکَ فَمَا تَصْنَعُ فِيهَا قَالَ أَمَّا إِذْ قُلْتَ هَذَا فَإِنِّي أَنْظُرُ إِلَی مَا يَخْرُجُ مِنْهَا فَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثِهِ وَآکُلُ أَنَا وَعِيَالِي ثُلُثًا وَأَرُدُّ فِيهَا ثُلُثَهُ

ترجمہ:

حضورِ اقدس ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص ایک جنگل میں تھا۔ اس نے ایک بادل میں سے یہ آواز سنی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دے۔ اس آواز کے بعد فوراً وہ بادل ایک طرف چلا  اور ایک پتھریلی زمین میں خوب پانی برسا اور وہ سارا پانی ایک نالے میں جمع ہو کر چلنے لگا۔ یہ شخص جس نے آواز سنی تھی اس پانی کے پیچھے چل دیا۔ وہ پانی ایک جگہ پہنچا جہاں ایک شخص کھڑا ہوا بیلچہ سے اپنے باغ میں پانی پھیر رہا تھا۔ اس نے باغ والے سے پوچھا کہ تمہارا کیا نام ہے ؟ انھوں نے وہی نام بتایا جو اس نے بادل میں سے سنا تھا۔ پھر باغ والے نے اس سے پوچھا کہ تم نے میرا نام کیوں دریافت کیا؟ اس نے کہا: میں  نے اس بادل میں جس کا پانی یہ آ رہا ہے یہ آواز سنی تھی کہ فلاں شخص کے باغ کو پانی دے اور تمہارا نام بادل میں سنا تھا، تم اس باغ میں کیا کام ایسا کرتے ہو؟ (جس کی وجہ سے بادل کو یہ حکم ہوا کہ اس کے باغ کو پانی دو) باغ والے نے کہا کہ جب تم نے یہ سب کہا تو مجھے بھی کہنا پڑا۔ میں اس کے اندر جو کچھ پیدا ہوتا ہے اس کو دیکھتا ہوں اور( اس کے تین حصے کرتا ہوں) ایک حصہ یعنی تہائی تو فوراً اللہ کے راستہ میں صدقہ کر دیتا ہوں، اور ایک تہائی میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں، اور ایک تہائی اسی باغ کی ضروریات میں لگا دیتا ہوں۔
[صحیح مسلم:2984(7473)]

فائدہ:
کس قدر برکت ہے اللہ کے نام پر صرف ایک تہائی آمدنی کے خرچ کرنے کی کہ پردئہ غیب سے ان کے باغ کی پرورش کے سامان ہوتے ہیں، اور کھلی مثال ہے اس مضمون کی جو پہلی حدیث میں گزرا کہ’’ صدقہ کرنے سے مال کم نہیں ہوتا‘‘ کہ باغ کی ایک تہائی پیداوار صدقہ کی تھی اور تمام باغ کے دوبارہ پھل لانے کے انتظامات ہو رہے ہیں۔
اس حدیث شریف سے ایک بہترین سبق اور بھی حاصل ہوتا ہے، وہ یہ کہ آدمی کواپنی آمدنی کا کچھ حصہ اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کے لیے متعین کرلینا زیادہ مفید ہے۔ اور تجربہ بھی یہی ہے کہ اگر آدمی یہ طے کرلے کہ اتنی مقدار اللہ کے راستہ میں خرچ کرنی ہے تو پھر خیر کے مصارف اور خرچ کرنے کے مواقع بہت ملتے رہتے ہیں۔ اور اگر یہ خیال کرے کہ جب کوئی کارِخیر ہوگا اس وقت دیکھا جائے گا، تو اوّل تو کارِ خیر ایسی حالت میں بہت کم سمجھ میں آتے ہیں، اور ہر موقع پر نفس اور شیطان یہی خیال دل میں ڈالتے ہیں کہ یہ کوئی ضروری خرچ تو ہے نہیں۔ اور اگر کوئی بہت ہی اہم کام ایسا بھی ہو جس میں خرچ کرنا کھلی خیر ہے، تو اکثر موجو د نہیں ہوتا۔ اور موجودگی میں بھی اپنی ضروریات سامنے آکر کم سے کم خرچ کرنے کو دل چاہتا ہے۔ اور اگر مہینہ کے شروع ہی میں تنخواہ ملنے پر ایک حصہ علیحدہ کرکے رکھ دیا جائے یا روزانہ تجارت کی آمدنی میں سے صندوقچی کا ایک حصہ علیحدہ کرکے اس میں متعینہ مقدار ڈال دی جایا کرے کہ یہ صرف اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا ہے، تو پھر خرچ کے وقت دل تنگی نہیں ہوتی کہ اس کو تو بہرحال وہ مقدار خرچ کرنا ہی ہے۔ بڑا مجرب نسخہ ہے، جس کا دل چاہے کچھ روز تجربہ کرکے دیکھ لے۔
ابووائل  ؒ کہتے ہیں کہ مجھ کو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قریظہ کی طرف بھیجا اور یہ ارشاد فرمایا کہ میں وہاں جاکر وہی عمل اختیار کروں جو بنی اسرائیل کا ایک نیک مرد کرتا تھا کہ ایک تہائی صدقہ کر دوں اور ایک تہائی اس میں چھوڑ دوں اور ایک تہائی ان کے پاس لے آئوں۔ (کنز العمال) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام ? بھی اس نسخہ پر عمل فرماتے تھے۔




۱۰۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ  عَنْ رَسُولِ اللهِ  قَالَ «غُفِرَ لِامْرَأَةٍ مُومِسَةٍ مَرَّتْ بِكَلْبٍ عَلَى رَأْسِ رَكِيٍّ يَلْهَثُ قَالَ كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ فَنَزَعَتْ خُفَّهَا فَأَوْثَقَتْهُ بِخِمَارِهَا فَنَزَعَتْ لَهُ مِنَ الْمَاءِ فَغُفِرَ لَهَا بِذَلِكَ.»

ترجمہ:

حضورِ اقدسﷺ کاارشاد ہے کہ ایک فاحشہ عورت (رنڈی) کی اتنی بات پر بخشش کر دی گئی کہ وہ چلی جا رہی تھی، اس نے ایک کنویں پر دیکھا کہ ایک کتا کھڑا ہوا ہے جس کی زبان پیاس کی شدت کی وجہ سے باہر نکلی پڑی ہے اور وہ مرنے کو ہے۔ اس عورت نے اپنے پائوں کا (چمڑہ کا) موزہ نکالا اوراس کو اپنی اوڑھنی میں باندھ کر کنویں میں سے پانی نکالا او ر اس کتے کو پلایا۔ حضورِ اقدس ﷺ سے کسی نے پوچھا: کیا ہم لوگوں کو جانوروں کے صلہ میں بھی ثواب ملتا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: ہر جگر رکھنے والے (یعنی جاندار) پر احسان کرنے میں ثواب ہے۔ (مسلمان ہویا کافر، آدمی ہو یا جانور)
[صحيح البخاري:3321+3467، صحيح مسلم:(2245)5860+5861]

تشریح
ظاہر ہے کہ اس بدچلن عورت کے اس واقعہ کا ذکر کرنے سے رسول اللہ ﷺ کا مقصد صرف واقعہ سنا دینا نہ تھا، بلکہ یہ سبق دینا تھا کہ کتے جیسی مخلوق کے ساتھ بھی اگر ترحم کا برتاؤ کیا جائے تو وہ خدا وند قدوس کی رحمت و مغفرت کا باعث ہو گا اور بندہ اس کا اجر و ثواب پائے گا۔ قریب قریب اسی مضمون کی ایک حدیث جس میں عورت کے بجائے اس راستہ چلتے مسافر کا اسی طرح کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی کے حوالہ سے اسی سلسلہ معارف الحدیث میں اب سے بہت پہلے (کتاب الاخلاق میں رحم دلی کے زیر عنوان) درج ہو چکی ہے اور وہاں اس کی تشریح میں بہت تفصیل سے کلام کیا جا چکا ہے اور اس سوال کا جواب بھی دیا جا چکا ہے کہ صرف ایک کتے کو پانی پلا دینا کیونکر ایک گنہگار آدمی کی مغفرت کا سبب بن سکتا ہے، اور اس میں کیا راز (1) ہے۔ اس حدیث کی روح اور اس کا خاص پیغام یہی ہے کہ کتے جیسے جانوروں کے ساتھ بھی ہمارا برتاؤ ترحم کا ہونا چاہئے۔

فائدہ:
یہ قصہ بنی اسرائیل کی ایک رنڈی کا ہے جیسا کہ بعض روایات میں اس کی تصریح ہے۔ (کنز العمال) ’’بخاری شریف‘‘ وغیرہ میں ایک اور قصہ اسی قسم کا ایک مرد کا بھی آیا ہے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص جنگل میں چلا جا رہا تھا۔ اس کو پیاس کی شدت نے بہت پریشان کیا۔ وہ ایک کنوئیں میں اترا اور جب پانی پی کر باہر نکلا تو اس نے دیکھا کہ ایک کتاپیاس سے بے تاب ہے اور پیاس کی شدت سے گارے میں منہ مار رہا ہے۔ اس شخص کو خیال ہوا کہ اس کوبھی پیاس کی وہی تکلیف ہورہی ہے جو مجھے تھی۔ کوئی چیز پانی نکالنے کی تھی نہیں اس لیے اپنے پائوں کا موزہ نکالا اور دوبارہ کنویں میں اتر کر اس کو بھرا اور موزہ کو منہ سے پکڑ کر دونوں ہاتھوں کی مدد سے اوپر چڑھا اور وہ پانی اس کتے کو پلایا۔ حق تعالیٰ شا نہٗ نے اس کے اس کارنامہ کی قدر فرمائی اور اس شخص کی مغفرت فرما دی۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! جانوروں میں بھی اجر ہوتا ہے؟ حضورﷺنے فرمایا کہ ہر جگر رکھنے والے (یعنی جاندار) میں اجر ہے۔ (بخاری) ایک حدیث میں ہے ہرگرم جگر رکھنے والے میں اجر ہے۔ (کنز العمال)
’’موزہ میں پانی بھرنے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ عرب میں چمڑہ کے موزوں کا عام رواج ہے اور ان میں پانی بھرنے سے کم گرتا ہے۔ اور منہ سے پکڑے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جنگل کے کنوئوں میں عام طور سے کچھ اینٹیں وغیرہ اس طرح باہر کو نکال دیتے ہیں کہ جن کی مدد سے آدمی اگر اس کے پاس ڈول رسی نہ ہو تو نیچے اتر سکتا ہے، لیکن اترنے چڑھنے کے لیے ہاتھوں سے مدد لینے کی ضرورت ضرور پیش آیا کرتی ہے اس لیے موزہ کو منہ سے سنبھالنا پڑا۔ رسالہ کے ختم پر حکایات کے ذیل میں نمبر (۴۷) پر ایک ظالم کا قصہ بھی ایسا ہی ہے جس نے ایک خارشی کتے کو پناہ دی تھی، اس کی وہی بات پسند آگئی ۔ ان دونوں حدیثوں میں کتے جیسے ذلیل جانور پر احسان کرنے کا جب یہ بدلہ ہے تو آدمی جو اشرفُ المخلوقات ہے اس پر احسان کرنے کا کیا کچھ بدلہ ہوگا؟
بعض علماء نے لکھا ہے کہ ایسے جانور جن کو ما رنا مستحب ہے جیسے کہ سانپ بچھو وغیرہ، اس سے مستثنیٰ ہیں، لیکن دوسرے اہلِ علم حضرات فرماتے ہیں کہ ان کے مارنے کے حکم کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ان کا پیاسا ہونا معلوم ہو جائے تو ان کو پانی نہ پلایا جائے۔ اس لیے کہ ہم مسلمانوں کو یہ حکم ہے کہ جس کو کسی وجہ سے قتل کیا جائے اس میں بہتری کی رعایت رکھی جائے۔ اسی وجہ سے جس کو قتل کرنا ضروری ہے اس کے بھی ہاتھ پائوں وغیرہ کاٹنے کی ممانعت ہے۔ (فتح الباری)
ان دونوں حدیثوں سے اور ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث سے ایک لطیف چیز یہ بھی معلوم ہوئی کہ حق تعالیٰ شا نہٗ کو کسی شخص کا کوئی ایک عمل بھی اگر پسند آجائے تو اس کی برکت سے عمر بھر کے گناہ بخش دیتے ہیں۔ اس کے لطف و کرم کے مقابلہ میں یہ کوئی بھی چیز نہیں ہے۔ البتہ قبول ہو جانے اور پسند آجانے کی بات ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ ہرگناہ گار کے سارے گناہ پانی پلانے سے یا کسی ایک نیکی سے بخش دیے جائیں۔ ہاں کوئی چیز کسی کی قبول ہوجائے تو کوئی مانع نہیں۔ اس لیے آدمی کو نہایت اخلاص سے کوشش کرتے رہنا چاہیے اللہ جانے کو ن ساعمل وہاں پسند آجائے پھر بیڑا پار ہے۔
بڑی چیز اخلاص ہے۔ یعنی خالص اللہ کے لیے کوئی کام کرنا، جس میں دنیا کی کوئی غرض شامل نہ ہو۔ نہ اس سے دنیا کمانا مقصود ہو،نہ شہرت وجاہت مطلوب ہو۔ ان میں سے کوئی چیز شامل ہو جاتی ہے تو وہ سارا کیا کرایا برباد کر دیتی ہے۔ اور محض اس کے لیے کوئی کام ہو تو معمولی سے معمولی کام بھی پہاڑوں سے وزن میں بڑھ جاتا ہے۔ حضرت لقمان  ؑ نے اپنے صاحب زادہ کو نصیحت کی کہ جب تجھ سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو صدقہ کیا کر۔ (اِحیاء العلوم) اس لیے کہ یہ گناہ کو دھوتا ہے اور اللہ کے غصہ کو دور کرتا ہے۔



۱۱۔ عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ فِي الجَنَّةِ لَغُرَفًا تُرَى ظُهُورُهَا مِنْ بُطُونِهَا وَبُطُونُهَا مِنْ ظُهُورِهَا» فَقَامَ إِلَيْهِ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: لِمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «هِيَ لِمَنْ أَطَابَ الكَلَامَ، وَأَطْعَمَ الطَّعَامَ، وَأَدَامَ الصِّيَامَ، وَصَلَّى لِلَّهِ بِاللَّيْلِ وَالنَّاسُ نِيَامٌ»

ترجمہ:

حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جنت میں ایسے بالاخانے ہیں جو (گویا آئینوں کے بنے ہوئے ہیں) کہ ان کے اندر کی سب چیزیں باہر سے نظر آتی ہیں اور ان کے اندر سے باہر کی سب چیزیں نظر آتی ہیں۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کن لوگوں کے لیے ہیں؟ حضورﷺ نے فرمایا: جو اچھی طرح بات کریں (یعنی ترش روئی سے منہ چڑھا کر بات نہ کریں ) اور لوگوں کو کھانا کھلائیں اور ہمیشہ روزہ رکھیں اور ایسے وقت میں رات کو تہجد پڑھیں کہ لوگ سورہے ہوں۔

فائدہ:
حضرت عبداللہ بن سلام ؓ جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، کہتے ہیں کہ جب حضورِ اقدسﷺہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے میں خبر سنتے ہی فوراً گیا اور آپﷺ کا چہرۂ مبارک دیکھ کر میں نے کہا: یہ مبارک چہرہ جھوٹے شخص کا نہیں ہوسکتا۔ وہاں پہنچ کر جو سب سے پہلا ارشاد حضورﷺ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا: لوگو! سلام کا آپس میں رواج ڈالو اور کھانا کھلایا کرو صلہ رحمی کیا کرو اورر ات کے وقت جب سب لوگ سوتے ہوں نماز پڑھا کرو سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائو گے۔ (مشکاۃ المصابیح)
آیات کے ذیل میں بھی نمبر (۳۴ )کی طویل آیت میں یہ مضمون گزر چکا ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین کو اور یتیم کو اور قیدی کو، اور یہ کہتے ہیں کہ ہم تم کو محض اللہ کے واسطے کھانا کھلاتے ہیں، نہ تو ہم تم سے اس کا بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ چاہتے ہیں۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص اپنے بھائی کو روٹی کھلائے کہ اس کا پیٹ بھر جائے اور پانی پلائے کہ پیاس جاتی رہے حق تعالیٰ شا نہٗ اس کے اور جہنم کے درمیان سات خندقیں کردیتے ہیں۔ ہر خندق اتنی بڑی کہ سات سو سال میں طے ہو۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں ہے کہ مخلوق ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کی عیال ہے۔ (بمنزلۂ اولاد کے) پس اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کی عیال کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہے۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں آیا ہے کہ ہر بھلائی صدقہ ہے، اور اس میں یہ بھی داخل ہے کہ تو اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آئے اور اپنے ڈول میں سے پڑوسی کے برتن میںپانی ڈال دے۔ (کنزالعمال)
 اچھی طرح گفتگو کرنے کا اہم جزو یہ بھی ہے کہ اس سے خندہ پیشانی سے بات کرے، منہ چڑھا کر ترش روئی سے بات نہ کرے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ احسان کا کوئی حصہ بھی حقیر نہیں،چاہے اتنا ہی ہو کہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ ایک حدیث میں ہے کہ کوئی شخص احسان کے کسی درجہ کو بھی حقیر نہ سمجھے اور کچھ بھی نہ ہو تو کم از کم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی ہی سے پیش آئے۔ (کنز العمال) ایک حدیث میںآیا ہے تیرا اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بھی صدقہ ہے۔ کسی کو نیکی کا حکم کرنا یا برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔ کسی بھولے ہوئے کو راستہ بتانا بھی صدقہ ہے۔ راستہ سے کسی کانٹے وغیرہ تکلیف دینے والی چیز کا ہٹانا بھی صدقہ ہے۔ اپنے ڈول سے کسی کے برتن میں پانی ڈال دینا بھی صدقہ ہے۔ (کنز العمال)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن جہنمی آدمی ایک صف میں کھڑے کیے جائیںگے، ان پر ایک مسلم (کامل جنتی) گزرے گا۔ اس صف میں سے ایک شخص اس سے کہے گا: تو میرے لیے اللہ تعالیٰ کے یہاں سفارش کر دے۔ وہ پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ وہ جہنمی کہے گا کہ تُو مجھے نہیں پہچانتا؟ تُو نے دنیا میں ایک مرتبہ پانی مانگا تھا جس پر میں نے تجھے پانی پلایا تھا۔ اس پر وہ سفارش کرے گا۔ (اور وہ قبول ہو جائے گی) اسی طرح دوسرا شخص کہے گا کہ تو نے مجھ سے دنیا میں فلاں چیز مانگی تھی وہ میں نے تجھ کو دی تھی۔ (کنز العمال)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جہنمیوں کی صف پر ایک جنتی کا گزر ہوگا تو ان میں سے ایک شخص اس کو آواز دے کر کہے گا کہ تم مجھے نہیں پہچانتے؟ میںوہی تو ہوںجس نے فلاں دن تمہیں پانی پلایا تھا، فلاں وقت تمہیں وضو کا پانی دیا تھا۔ (مشکاۃ المصابیح) ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جنتی اور جہنمی لوگوں کی جب صفیں لگ جائیں گی تو جہنمی صفوں میں سے ایک شخص کی نظر جنتی صفوں میں سے کسی شخص پر پڑے گی اور وہ اس کو یاد دلائے گا کہ میں نے دنیا میں تیرے ساتھ فلاں احسان کیا تھا۔ اس پر وہ جنتی شخص اس کا ہاتھ پکڑ کر حق تعالیٰ شا نہٗ کی بارگاہ میں عرض کرے گا کہ یااللہ! اس کا مجھ پر فلاں احسان ہے۔ اللہ پاک کی طرف سے ارشاد ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طفیل اس کو جنت میں داخل کر دیا جائے۔ (کنز العمال)
ایک حدیث میں ہے کہ فقرا کی جان پہچان کثرت سے رکھا کرو اور ان کے اوپر احسانات کیاکرو، ان کے پاس بڑی دولت ہے۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ دولت کیا ہے؟ حضورﷺنے فرمایا کہ ان سے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ جس نے تمہیں کوئی ٹکڑا کھلایا ہو یا پانی پلایا ہو یا کپڑا دیا ہو، اس کاہاتھ پکڑ کرجنت میں پہنچا دو۔ ایک حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ فقیر سے قیامت کے دن ایسی طرح معذرت کریں گے جیسا کہ آدمی آدمی سے کیا کرتا ہے۔ اور فرمائیں گے کہ میری عزت اور جلال کی قسم! میں نے دنیا کو تجھ سے اس لیے نہیں ہٹایا تھا کہ تو میرے نزدیک ذلیل تھا، بلکہ اس لیے ہٹایا تھا کہ تیرے لیے آج بڑا اِعزاز ہے۔ میرے بندے! ان جہنمی لوگوں کی صفوں میں چلا جا، جس نے تجھے میرے لیے کھانا کھلایا ہو یا کپڑا دیا ہو وہ تیرا ہے۔ وہ اس حالت میں ان میں داخل ہو گا کہ یہ لوگ منہ تک پسینہ میں غرق ہوں گے۔ وہ پہچان کر ان کو جنت میں داخل کرے گا۔ (روض الریاحین) 
ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک اعلان ہوگا کہ امت ِمحمدیہ کے فقرا کہاں ہیں؟ اٹھو اور لوگوں کو میدانِ قیامت میں سے تلاش کرلو۔ جس شخص نے تم میں سے کسی کومیرے لیے ایک لقمہ دیا ہو، یا میرے لیے کوئی گھونٹ پانی کا دیا ہو، یا میرے لیے کوئی نیا یا پرانا کپڑا دیا ہو، ان کے ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کر دو۔ اس پر فقرائے امت اٹھیں گے اور کسی کا ہاتھ پکڑ کر کہیں گے کہ یا اللہ! اس نے مجھے کھانا کھلایا تھا، اس نے مجھے پانی پلایا تھا۔ کوئی بھی فقرائے امت میں سے چھوٹا یا بڑا شخص ایسا نہ ہوگا جو ان کو جنت میں داخل نہ کرائے۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص کسی جاندار کو جو بھوکا ہو کھانا کھلائے، حق تعالیٰ شا نہٗ اس کو جنت کے بہترین کھانوں میں سے کھانا کھلائیں گے۔(کنز العمال) ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس گھرسے لوگوں کو کھانا کھلایا جاتا ہو، خیر اس گھر کی طرف ایسی تیزی سے بڑھتی ہے جیسی تیزی سے چھری اونٹ کے کوہان میں چلتی ہے۔ (کنز العمال) حضرت عبداللہ بن مبارک  ؒ عمدہ کھجوریں دوسروں کو کھلاتے اور کہتے کہ جو شخص زیادہ کھائے گا اس کو فی کھجور ایک دِرَم دیا جائے گا۔ (اِحیاء العلوم)
ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے فقیروں اور مسکینوں کا اِکرام کیا؟ آج تم جنت میں ایسی طرح داخل ہو جائو کہ نہ تم پر کسی قسم کا خوف ہے نہ تم غمگین ہو۔ اور ایک اعلان کرنے والا اعلان کرے گا: کہاں ہیں وہ لوگ جنہوں نے بیمار، فقیروں اور غریبوں کی عیادت کی؟ آج وہ نور کے منبروں پر بیٹھیںاور اللہ  سے باتیں کریں۔ اور دوسرے لوگ حساب کی سختی میں مبتلا ہوں گے۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں ہے کتنی حوریں ایسی ہیں جن کا مہر ایک مٹھی بھر کھجور یا اتنی ہی مقدار کوئی اور چیز دینا ہے۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں آیا ہے کہ بھوکے کو کھانا کھلانے سے زیادہ افضل کوئی صدقہ نہیں۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں آیا ہے کہ مغفرت کے واجب کرنے والی چیزوں میں بھوکوں کو کھانا کھلانا ہے۔ (کنزالعمال)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ اللہ  کے نزدیک سب اعمال سے زیادہ محبوب کسی مسلمان کو خوش کرنا ہے یا اس پر سے غم کا ہٹانا ہے یا اس کا قرض ادا کر دینا ہے یا بھوک کی حالت میں اس کو کھانا کھلانا ہے۔ (کنز العمال) یعنی یہ سب اعمال زیادہ پسندیدہ ہیں جو بھی ہوسکے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ مغفرت کے واجب کرنے والی چیزوں میں کسی مسلمان کو خوشی پہنچانا ہے، اس کی بھوک کو زائل کرنا ہے، اس کی مصیبت کو ہٹانا ہے۔(کنز العمال)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی دنیاوی حاجت پوری کرتا ہے حق تعالیٰ شا نہٗ اس کی بہتّر حاجتیں پوری کرتے ہیں، جن میں سے سب سے ہلکی چیز اس کے گناہوں کی مغفرت ہے۔ (کنز العمال) یعنی اور حاجتیں مغفرت سے بھی بڑھ کر ہیں۔ نیز حدیث نمبر (۱۳ ) میں بھی اس کا بیان آ رہا ہے۔



۱۲۔ عَنْ أَسْمَاءَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَنَفِقِي وَلَا تُحْصِي فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَلَا تُوعِي فَيُوعِيَ اللَّهُ عَلَيْكِ ارْضَخِي مَا اسْتَطَعْتِ»۔

ترجمہ:

حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ (خوب) خرچ کیا کر اور شمار نہ کر (اگر ایسا کرے گی) تو اللہ  بھی تجھ پر شمار کرے گا۔ اور محفوظ کرکے نہ رکھ (اگر ایسا کرے گی) تو اللہ  تجھ پر محفوظ کرکے رکھے گا۔ (یعنی کم عطا کرے گا) عطا کر جتنا بھی تجھ سے ہوسکے۔
[صحيح البخاري:1434، صحيح مسلم:(1029)2378، سنن النسائى:2552]

فائدہ:
یہ حضرت اسماءؓ حضرت عائشہؓ کی ہمشیرہ ہیں۔ حضورﷺ نے اس پاک حدیث میں کئی نوع سے خرچ کے زیادہ کرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی۔ اوّل تو خوب خرچ کرنے کا صاف صاف حکم ہی فرمایا، لیکن یہ ظاہر ہے کہ خرچ وہی پسندیدہ ہے جو شریعتِ مطہرہ کے موافق اللہ کی رضا کی چیزوں میں کیا جائے۔ شریعت کے خلاف خرچ کرنا موجبِ ثواب ِنہیں وبال ہے۔
اس کے بعد حضورِ اقدسﷺ نے شمار کرنے کی ممانعت فرمائی جو پہلے ہی مضمون کی تاکید ہے۔ اس کے علماء نے دو مطلب ارشاد فرمائے ہیں۔ ایک یہ کہ گننے سے مراد گِن گِن کر رکھنا اور جمع کرنا ہے، اور مطلب یہ ہے کہ اگر تو گِن گِن کر رکھے گی تو اللہ کی طرف سے عطا میں بھی تنگی کی جائے گی۔ جیسا کرنا ویسا بھرنا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ فقرا کو دینے میں شمار نہ کر، تاکہ اللہ کی طرف سے بدلہ اور ثواب بھی بے حساب ملے۔ اس کے بعد پھر اس مضمون کو اور زیادہ مؤکد فرمایا کہ محفوظ کرکے نہ رکھ اگر تو اپنے مال کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی بجائے محفوظ کرکے رکھے گی، تو اللہ  بھی اپنی عطا اور احسان و کرم کی زیادتی کو تجھ سے روک لے گا۔ اس کے بعد اس کو اور زیادہ مؤکد کرنے کو ارشاد فرمایا کہ جتنا بھی تجھ سے ہوسکے خرچ کیا کر۔ یعنی کم و زیادہ کی پروا نہ کیا کر۔ نہ یہ خیال کر کہ اتنی بڑی مقدار مناسب نہیں، نہ یہ سوچاکر کہ اتنی ذراسی چیز کیا دوں، جو اپنی طاقت او ر قدرت میں ہو اس کے خرچ کرنے میں دریغ نہ کیا کر۔
دوسری احادیث میں کثرت سے یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ جہنم کی آگ سے صدقہ کے ساتھ اپنا بچائو اور اپنی حفاظت کرو چاہے کھجور کا ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو کہ وہ بھی جہنم کی آگ سے حفاظت کا سبب ہے۔ ’’بخاری شریف‘‘ کی ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت اسماءؓنے حضورِ اقدسﷺ سے دریافت کیا کہ حضور! میرے پاس اپنی تو کوئی چیز اب ہے نہیں، صرف وہی ہوتا ہے جو (میرے خاوند) حضرت زبیرؓ دے دیں۔ کیا اس میں سے صدقہ کر دیا کروں؟ حضورﷺنے فرمایا کہ صدقہ کیا کر اور برتن میں محفوظ کرکے نہ رکھا کر، (اگر ایسا کرے گی) تو اللہ بھی تجھ سے (اپنی عطا کو) محفوظ فرمالے گا۔ اس حدیث میں اگر حضرت زبیرؓ کے دینے سے مراد ان کاحضرت اسماءؓکو مالک بنا دینا ہے تب تو یہ مال حضرت اسماءؓ کا ہوگیا، وہ جس طرح چاہیں اپنے مال کو خرچ کریں ان کو اختیار ہے۔ اور اگر اس سے مراد گھر کے اخراجات کے واسطے دینا ہے تو پھر حضورﷺکے ارشاد مبارک کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کو حضرت زبیرؓکی طبیعت سے اس کا اندازہ ہوگیا ہوگا کہ ان کو صدقہ کرنے میں گرانی نہیں ہوتی۔ اور اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ نے حضرت زبیرؓکو خاص طور سے صدقہ کرنے کی ترغیب اور تاکید فرمائی تھی۔ یہ حضرات صحابہ کرام ? حضورِ اقدسﷺ کی عمومی ترغیبات پر جان و دل سے فدا ہوتے تھے اور اگر کسی شخص کو خصوصی ترغیب و نصیحت حضورﷺ فرما دیتے تو اس کی قدردانی کا تو پوچھنا ہی کیا۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں واقعات اس کے شاہد ہیں ’’حکایاتِ صحابہ‘‘ کے نویں باب میں مثال کے طور پرچند قصے اس کے لکھ چکا ہوں۔
علامہ سیوطی ؒ نے ’’دُرِّمنثور‘‘ میں خود حضرت زبیرؓ سے ایک قصہ نقل کیا ہے جس میں حضورﷺ نے ان کو خرچ کرنے کی خصوصی ترغیب دی ہے۔ حضرت زبیرؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضورِ اقدسﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور حضورﷺ کے سامنے بیٹھا تھا کہ حضور ﷺ نے (اہتمام اور تنبیہ کے طور پر) میرے عمامہ کا پچھلا کنارہ پکڑ کر فرمایا کہ اے زبیر! میں اللہ کا قاصد ہوں تمہاری طرف خاص طور سے اور سب لوگوں کی طرف عام طور سے۔ (یعنی یہ بات تمہیں اللہ  کی طرف سے خاص طور سے پہنچاتا ہوں) تمہیں معلوم ہے کہ اللہ  نے کیا فرمایاہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ  جب اپنے عرش پر جلوہ فرما تھا تو اللہ  نے اپنے بندوں کی طرف (کرم کی) نظر فرمائی اور یہ ارشاد فرمایا کہ میرے بندو! تم میری مخلوق ہو، میں تمہارا پروردگار ہوں۔ تمہاری روزیاں میرے قبضہ میں ہیں۔ تم اپنے آپ کو ایسی چیز کے اندر مشقت میں نہ ڈالو جس کا ذمہ میں نے لے رکھا ہے۔ اپنی روزیاں مجھ سے مانگو۔
 اس کے بعد حضور ﷺ نے پھر فرمایا کہ اور بتائوں تمہارے ربّ نے کیا کہا؟ یہ کہا: اے بندے! تو لوگوں پر خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ تو لوگوں پر فراخی کر میں تجھ پر فراخی کروں گا۔ تو لوگوں پر خرچ میں تنگی نہ کر تاکہ میں تجھ پرتنگی نہ کروں۔ تو لوگوں سے (بچا کر) باندھ کر نہ رکھ تاکہ میں تجھ سے باندھ کر نہ رکھوں۔ تو خزانہ جمع کرکے نہ رکھ تاکہ میں تیرے (نہ دینے) پر جمع کرکے نہ رکھ لوں۔ رزق کا دروازہ سات آسمانوں کے اوپر سے کھلا ہوا ہے جو عرش سے ملا ہوا ہے۔ و ہ نہ رات کو بند ہوتا ہے نہ دن میں۔ اللہ  اس دروازہ سے ہر شخص پر روزی اتارتا رہتا ہے۔ اس شخص کی نیت کے بقدر، اس کی عطا کے بقدر، اس کے صدقہ کے بقدر، اس کے اخراجات کے بقدر اس کو عطا فرماتا ہے۔ جو شخص زیادہ خرچ کرتا ہے اس کے لیے زیادہ اتارا جاتا ہے، جو کم خرچ کرتا ہے اس کے لیے کمی کر دی جاتی ہے اور جو روک کر رکھتا ہے اس سے روک دیا جاتا ہے۔
 اے زبیر ! خود بھی کھائو، دوسروں کو بھی کھلائو اور باندھ کر نہ رکھو کہ تم پر باندھ کر رکھ دیا جائے، اور شمار نہ کرو کہ تم پربھی شمار کیا جائے، تنگی نہ کرو کہ تم پربھی تنگی کر دی جائے، مشقت میں (لوگوں کو) نہ ڈالو کہ تم پر مشقت ڈال دی جائے۔ اے زبیر! اللہ خرچ کرنے کو پسند کرتا ہے اور تنگی کو ناپسند کرتا ہے۔ سخاوت (اللہ کے ساتھ) یقین سے ہوتی ہے اور بخل شک سے پیدا ہوتا ہے۔ جو شخص (اللہ کے ساتھ کامل) یقین رکھتا ہے وہ جہنم میں داخل نہ ہوگا اور جو شک کرتا ہے وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ زبیر! اللہ  سخاوت کو پسند کرتا ہے چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو، اور اللہ تعالیٰ بہادری کو پسند کرتا ہے چاہے سانپ اور بچھو ہی کے مارنے میں کیوں نہ ہو۔ اے زبیر! اللہ زلزلوں (اور حوادث) کے وقت صبر کو محبوب رکھتا ہے، اور شہوتوں کے غلبہ کے وقت ایسے یقین کو پسند کرتا ہے جو سب جگہ سرایت کر جائے (اور شہوت کے پورا کرنے سے روک دے)، اور (دین میں) شبہات پیدا ہونے کے وقت عقلِ کامل کومحبوب رکھتا ہے، اور حرام اور گندی چیزوں کے سامنے آنے پر تقویٰ کو پسند کرتا ہے۔ اے زبیر! بھائیوں کی تعظیم کرو اور نیک لوگوں کی عظمت بڑھائو اور اچھے آدمیوں کا اِعزاز کرو۔ پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو اور فاسق لوگوں کے ساتھ راستہ بھی نہ چلو۔ جو ان چیزوں کا اہتمام کرے گا جنت میں بغیر عذاب کے اور بغیر حساب کے داخل ہوگا۔ یہ اللہ کی نصیحت ہے مجھ کو اور میری نصیحت ہے تم کو۔
آیات کے ذیل میں نمبر (۲۰) پر بھی اس قصہ کی طرف مختصر اشارہ گزر چکا ہے اور اس کے متعلق کلام بھی۔ حضورﷺ کے اس تفصیلی ارشاد کے بعد حضرت زبیرؓ کی طبیعت کا جو اندازہوگا وہ ظاہر ہے۔ ایسی حالت میں حضرت اسماءؓ کو ان کے مال میں سے بے دریغ خرچ کرنے کو اگر فرمایا ہو تو بے محل نہیں ہے۔ حضرت زبیرؓ حضورِ اقدسﷺ کے پھوپھی زاد بھائی بھی ہیں۔ اگر قرابت والوں سے تعلقات قوی ہوں تو اس قسم کے تصرفات تعلقات کی قوت اور زیادتی کا سبب ہوا کرتے ہیں، جن کا مشاہدہ اور تجربہ اس گئے گزرے زمانہ میں بھی ہوتا رہتا ہے۔ اس سب کے علاوہ خود حضرت زبیرؓکی فیاضی کا کیا پوچھنا۔ صاحب ’’اِصابہ‘‘ نے لکھا ہے کہ ان کے ایک ہزار غلام تھے جو ان کو خِراج ادا کرتے تھے، لیکن اس میں سے ذرا سا بھی گھر میں نہ جاتا تھا۔ یعنی سب کا سب صدقہ ہی ہوتا تھا۔ اسی فیاضی کا یہ ثمرہ تھا کہ انتقال کے وقت بائیس لاکھ دِرَم قرضہ تھا جس کا مفصل قصہ ’’بخاری شریف‘‘ میں مذکور ہے۔ اور قرضہ کی صورت کیا تھی؟ یہ کہ امانت دار بہت تھے، محتاط بہت تھے۔ لوگ اپنی امانتیں رکھواتے اور وہ یہ اِرشاد فرماتے کہ: امانت رکھنے کی جگہ تو میرے پاس ہے نہیں مجھے قرض دے دو، جب ضرورت ہولے لینا۔ اس کو بجائے امانت کے قرض لیتے اور خرچ کر دیتے۔
اور ایک حضرت زبیرؓہی کیا ان سب حضرات کا ایک ہی سا حال تھا۔ ان حضرات کے یہاں مال رکھنے کی چیز تھی ہی نہیں۔ حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ ایک تھیلی میں چار سو دینار (اشرفیاں) بھریں اور غلام سے فرمایا کہ یہ ابو عبیدہ ؓ کو دے آئو کہ اپنی ضروریات میں خرچ کرلیں۔ اور غلام سے یہ بھی فرما دیا کہ ان کو دینے کے بعد وہیں کسی کام میں مشغول ہو جانا تاکہ دیکھو وہ ان کو کیا کرتے ہیں۔ وہ غلا م لے گئے اور جاکر ان کی خدمت میں پیش کردیے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے حضر ت عمرؓکو بڑی دعائیںدیں، اور اپنی باندی کو بلایا، اور اس کے ہاتھ سے سات فلاں کو اور پانچ فلاں کو، اتنے اِس کو اتنے اُس کو، اسی مجلس میں سب ختم کردیے۔ غلام نے واپس آکر حضرت عمرؓکو قصہ سنایا۔ پھر حضرت عمرؓ نے اتنی ہی مقدار ان کے ہاتھ حضرت معاذؓکو بھیجی اور اس وقت بھی یہی کہا کہ وہاں کسی کام میں لگ جانا تاکہ یہ دیکھو کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ انھوں نے بھی باندی کے ہاتھ اسی وقت فلاں گھر اتنے فلاں گھر اتنے، بھیجنے شروع کر دیے۔ اتنے میںحضرت معاذؓکی بیوی آئیں کہ ہم بھی تو مسکین اور ضرورت مند ہیں کچھ ہمیں بھی دے دو۔ حضرت معاذؓ نے وہ تھیلی ان کے پاس پھینک دی۔ اس میں دو باقی رہ گئی تھیں، باقی سب تقسیم ہوچکی تھیں۔ غلام نے آکر حضرت عمر ؓ کو قصہ سنایا۔ حضرت عمرؓ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ سب بھائی بھائی ہیں۔ یعنی سب ایک ہی نمونہ کے ہیں ۔(الترغیب والترہیب)



۱۳۔ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَيُّمَا مُسْلِمٍ كَسَا مُسْلِمًا ثَوْبًا عَلَى عُرْيٍ، كَسَاهُ اللَّهُ مِنْ خُضْرِ الْجَنَّةِ، وَأَيُّمَا مُسْلِمٍ أَطْعَمَ مُسْلِمًا عَلَى جُوعٍ، أَطْعَمَهُ اللَّهُ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ، وَأَيُّمَا مُسْلِمٍ سَقَى مُسْلِمًا عَلَى ظَمَإٍ، سَقَاهُ اللَّهُ مِنَ الرَّحِيقِ الْمَخْتُومِ»

ترجمہ:

حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ننگے پن کی حالت میں کپڑا پہنائے گا حق تعالیٰ شا نہٗ اس کو جنت کے سبز لباس پہنائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا حق تعالیٰ شا نہٗ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا اللہ  اس کوایسی شرابِ جنت پلائے گا جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی۔

فائدہ:
’’مہر لگی ہوئی شراب سے‘‘ اس پاک شراب کی طرف اشارہ ہے جو قرآنِ پاک میں نیک لوگوں کے لیے تجویز کی گئی ہے۔ چناںچہ اللہ کا پاک ارشاد سورۂ تطفیف میں ہے:
{اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِی نَعِیْمٍo عَلٰی الْاَرَآئِکِ یَنْظُرُوْنَ o تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِھِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِ o یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ o خِتٰمُہٗ مِسْکٌط وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ o}
ترجمہ:
نیک لوگ بڑی آسایش میں ہوں گے۔ مسہریوں پر بیٹھے ہوئے (بہشت کے عجائب) دیکھتے ہوں گے۔ اے مخاطب! تو ان کے چہروں میں آسایش کی بشاشت اور تراوٹ پہچانے گا۔ ان کو پینے کے لیے 
خالص شراب سربہ مہر جس پر مشک کی مہر گی ملے گی۔ حرص کرنے والوں کو اس چیز میں حرص کرنا چاہیے۔ یعنی حرص کرنے کی چیزیں یہ ہیں۔
مجاہد  ؒ کہتے ہیں کہ’’ رحیق‘‘ جنت کے شرابوں میں سے ایک شراب ہے جو مشک سے بنائی گئی ہے اوراس میں تسنیم کی آمیزش ہے۔ تسنیم کا ذکر اسی سورت میں اس آیت سے آگے ہے۔ قتادہ  ؒ کہتے ہیں کہ تسنیم جنت کی شرابوں میں سے افضل ترین شراب ہے۔ مقربین اس کو خالص پییں گے اور دوسرے درجہ کے لوگوں کی شرابوں میں اس کی آمیزش ہوگی۔ حضرت حسن بصری  ؒ سے بھی نقل کیا گیا کہ رحیق ایک شراب ہے جس میں تسنیم کی آمیزش ہے۔
حدیثِ بالا میں جو فضیلت ارشاد فرمائی ہے وہ ننگے پن کی حالت، بھوک اور پیاس کی حالت میں کپڑا پہنانے اور کھلانے پلانے کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ یہ حالت خرچ کرنے والے کی ہے یا جس پر خرچ کیا گیا ہے اس کی ہے، دونوں احتمال ہیں۔
پہلی صورت میں حدیثِ پاک کا مطلب یہ ہے کہ خود ننگا ہے، یعنی کپڑے کا ضرورت مند ہے، اور دوسرے کو اس حالت میں کپڑا پہنائے۔ خود بھوکا ہے اور کھانا کچھ میسر ہوگیا تو دوسرے کو ترجیح دیتا ہے۔ خود پیاس ہے، لیکن پانی اگر مل گیا ہے تو بجائے خود پینے کے دوسرے پر اِیثار کرتا ہے۔ اس مطلب کے موافق یہ حدیثِ پاک قرآن پاک کی اس آیتِ شریفہ کی تفسیر ہوگی جو آیات کے سلسلہ میں نمبر(۲۸) پر گزری ہے : 
{ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ } 
کہ یہ لوگ اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود کو احتیاج ہو۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ سب حالات ان لوگوں کے ہیں جن پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ اس مطلب کے موافق حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز جتنی زیادہ ضرورت کے موقع پر خرچ کی جائے گی اتنے ہی زیادہ ثواب کی بات ہوگی۔ ایک غریب کو کپڑا دیا جائے اس کا بہرحال ثواب ہے، لیکن ایسے شخص کو کپڑا پہنایا جائے جو ننگا پھر رہا ہے، پھٹے ہوئے کپڑے پہن رہا ہے، اس کا ثواب عام غربا سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک فقیر کو کھانا دیا جاتا ہے، ہر حال میں اس کاثواب ہے، لیکن ایسے شخص کو کھانا کھلایا جائے جس پر فاقہ مسلّط ہو، اس کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح ہر شخص کو پانی پلانے کا ثواب ہے، لیکن ایک شخص کو پیاس ستا رہی ہے، اس کو پانی پلانے کا ثواب اتنا زیادہ ہے کہ عمر بھر کے گناہوں کا کفارہ بھی کبھی بن جاتا ہے۔ حدیث نمبر(۱۰) پر ابھی گزرچکا ہے کہ ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے سے رنڈی کے عمر بھر کے گناہ معاف ہوگئے۔ سلسلۂ آیات نمبر (۲۳ ) کے ذیل میں حضو رِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد گزر چکا ہے کہ مسکین وہ نہیں ہے جس کو ایک ایک دو دو لقمہ دربدر پھراتا ہو، اصل مسکین وہ ہے جس کے پاس نہ خود اتنا مال ہو کہ جو اس کی حاجت کو کافی ہو، نہ لوگوں کو اس کا حال معلوم ہو کہ اس کی اعانت کریں، یہی شخص اصل محروم ہے۔ حدیث نمبر (۱۱) کے ذیل میں حضورِاقدسﷺکے بہت سے ارشادات بھوکے کو کھانا کھلانے کی فضیلت میں گزر چکے ہیں۔
حضرت ابنِ عمر ? حضورِاقدسﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اپنے کسی بھائی کی حاجت روائی میں مشغول ہو حق تعالیٰ شا نہٗ اس کی حاجت روائی میں توجہ فرماتے ہیں۔ اور جو شخص کسی مسلمان سے کسی مصیبت کو زائل کرے حق تعالیٰ شا نہٗ قیامت کے مصائب میں سے اس کی کوئی مصیبت زائل فرماتے ہیں۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے (عیب سے ہو یا لباس سے) حق تعالیٰ شا نہٗ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی (اسی نوع کی) فرماتے ہیں۔ (مشکاۃ المصابیح)
اس قسم کے مضامین بہت سے صحابہ? سے مختلف روایات میں ذکر کیے گئے۔ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی پردہ کے قابل چیز کو (بدن ہو یا عیب) دیکھے اور اس کی پردہ پوشی کرے، اس کااجر ایسا ہے جیسا کہ کسی ایسے شخص کو قبر سے نکالا ہو جس کو زندہ قبر میں گاڑ دیا گیا ہو۔ (مشکاۃ المصابیح) حق تعالیٰ شا نہٗ کا ارشاد ہے {لَایَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ} (الآیۃ) جوسلسلۂ آیات میں نمبر (۲۵) پر گزر چکا ہے۔ اس کی وجہ علماء نے یہی لکھی ہے کہ فتح مکہ سے قبل چوں کہ ضرورت زیادہ تھی، اس لیے اس وقت خرچ کرنے کا درجہ بڑھا ہوا ہے فتح مکہ کے بعد میں خرچ کرنے سے۔ صاحب ’’ِجمل‘‘ کہتے ہیں: یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اسلام اور مسلمانوں کی عزت کے زمانہ سے پہلے خرچ کیا ہے۔ اس وقت مسلمان جان ومال کی مدد کے زیادہ محتاج تھے۔ یہی وہ حضرات سابقین اولین ہیں مہاجرین اور انصار میں سے جن کے بارے میں حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تم لوگ اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرو تو ان کے ایک مُد بلکہ آدھے مُد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔ (حاشیۃ الجمل)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات میں مختلف عنوانات سے حضورِ اقدسﷺ نے ضرورت مند کو ترجیح دینے پرترغیب اور تنبیہ فرمائی۔ ولیمہ کی دعوت قبول کرنے کی ترغیب بہت سی روایات میں وارد ہے، لیکن ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ ولیمہ کا کھانا بدترین کھانا ہے کہ اُمرا کو اس کے لیے دعوت دی جاتی ہے اور فقرا کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح بروایۃ الشیخین) یعنی جو ولیمہ کی دعوت اس قُماش کی ہو کہ اس میں اُمرا کو مدعو کیا جائے غربا کی دعوت نہ کی جائے وہ بدترین کھانا ہے اور یہ بات نہ ہو تو ولیمہ کا کھانا مسنون ہے۔
ایک حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد آیا ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کو ایسی جگہ پانی پلائے جہاں پانی ملتا ہو اس نے ثواب کے اعتبار سے گویا ایک غلام آزاد کیا۔ اور جو شخص کسی کو ایسی جگہ پانی پلائے جس جگہ پانی نہ ملتا ہو اس نے گویا اس کو زندگی بخشی۔ یعنی مرتے ہوئے کو گویا ہلاکت سے بچایا۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں ہے کہ افضل ترین صدقہ یہ ہے کہ کسی بھوکے کو (آدمی ہو یا جانور) کھانا کھلائے۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کو سب سے زیادہ یہ عمل پسند ہے کہ کسی مسکین کو بھوک کی حالت میں روٹی کھلائے یا اس کا قرض ادا کرے یا اس کی مصیبت کو زائل کرے۔ (کنز العمال)
عبید بن عمیرؓکہتے ہیں کہ قیامت کے دن آدمیوں کا حشر ایسی حالت میں ہوگا کہ وہ انتہائی بھوک اور پیاس کی حالت میں بالکل ننگے ہوں گے۔ پس جس شخص نے دنیا میں کسی کو اللہ کے واسطے کھانا کھلایا ہوگا اللہ اس دن اس کو شکم سیر فرمائیں گے۔ اور جس نے کسی کو اللہ کے واسطے پانی پلایا ہوگا حق تعالیٰ شا نہٗ اس کو سیراب فرمائیں گے۔ اور جس نے کسی کو کپڑا پہنایا ہوگا حق تعالیٰ شا نہٗ اس کو لباس عطا فرمائیں گے۔ (اِحیاء العلوم)



۱۴۔ عَنْ ‌أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ». وَأَحْسِبُهُ قَالَ: وَكَالْقَائِمِ لَا يَفْتُرُ، وَكَالصَّائِمِ لَا يُفْطِرُ .»

ترجمہ:

حضورِاقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ بے خاوند والی عورت اور مسکین کی ضرورت میں کوشش کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ جہاد میں کوشش  کرنے والا۔ اور غالبًا یہ بھی فرمایا کہ ایسا ہے جیسا رات بھر نماز پڑھنے والا کہ ذرا بھی سستی نہ کرے اور دن بھر روزہ رکھنے والا کہ ہمیشہ روزہ دار رہے۔

فائدہ:
بے خاوند والی عورت سے عام مراد ہے کہ رانڈ ہوگئی ہو یا اس کو خاوند میسر ہی نہ ہوا ہو۔ اس حدیثِ پاک میں ان دونوں کے لیے کوشش کرنے والے کے لیے یہ اجر و ثواب اور فضیلت ہے خواہ اس کی کوشش سے کوئی ثمرہ پیدا ہوا ہو یا نہ ہوا ہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے یا اس کونفع پہنچانے کے لیے چلے تو اس کو اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والوں کا ثواب ملتا ہے۔ (کنز العمال)
ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے مُضطَر بھائی کی مدد کرے حق تعالیٰ شا نہٗ اس کو اس دن ثابت قدم رکھیں گے جس دن پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہٹ جائیں گے۔ (کنز العمال) یعنی قیامت کے سخت دن جس دن پہاڑ بھی اپنی جگہ نہ جم سکیں گے یہ ثابت قدم رہے گا۔ اور اس حدیثِ پاک سے ایک لطیف چیز یہ بھی پیدا ہوتی ہے کہ فتنوں اور حوادث کے زمانوں میں جب لوگوں کے قدم اکھڑ جائیں، جیسا کہ آج کل کا زمانہ گزر رہا ہے، ایسے لوگ ثابت قدم رہتے ہیں جو لوگوں کی اعانت اور مدد کرتے رہتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی دنیاوی حاجتوں میں سے کسی حاجت کو پورا کرے حق تعالیٰ شا نہٗ اس کی ستّر حاجتیں پوری فرماتے ہیں، جن میں سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت کو حکومت تک پہنچا دینے کا ذریعہ بن جائے، جس سے اس کو کوئی نفع پہنچ جائے یا اس کی کوئی مشکل دو ر ہو جائے تو حق تعالیٰ شا نہٗ اس شخص کی جو ذریعہ بنا ہے قیامت کے دن پلِ صراط پر چلنے میں مدد فرمائیں گے جس وقت کہ وہاں لوگوں کے قدم پھسل رہے ہوں گے۔ (کنز العمال)
اس لیے جو لوگ حکّام رَس ہیں یا ملازموں کے آقائوں تک ان کی رسائی ہے ان کو خاص طور سے اس حدیث پاک سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ نوکروں اور محکوموں کی ضروریات کی تفتیش کرکے ان کو آقائوں او ر حاکموں تک پہنچانا چاہیے۔ یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ ہم کیوں خواہ مخواہ دوسروں کی پھٹن میں پائوں اڑائیں۔ پلِ صراط پر سے گزرنا بڑی سخت مشکل ترین چیز ہے۔ اس معمولی کوشش سے ان کے لیے خود کتنی بڑی سہولت میسر ہوتی ہے، لیکن اللہ کے واسطے ہونا تو ہر جگہ شرط ہے۔ اپنی وجاہت، اپنی شہرت اور لوگوں کے دلوں میں اپنی عزت قائم کرنے کی نیت سے نہ ہو۔ اگرچہ اللہ کے لیے کرنے سے یہ سب چیزیں خود بخود حاصل ہوں گی اور اُس سے زیادہ بڑھ کر ہوں گی جتنی اپنے ارادہ سے ہوتیں، لیکن اپنی طرف سے ان چیزوں کا ارادہ کرنا اس محنت کو آقا کے لیے ہونے سے نکال دے گا۔




۱۵۔ عَنْ أَبِيْ ذَرٍّؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: " ثَلَاثَةٌ يُحِبُّهُمُ اللَّهُ، وَثَلَاثَةٌ يُبْغِضُهُمُ اللَّهُ، أَمَّا الَّذِينَ يُحِبُّهُمْ، فَرَجُلٌ أَتَى قَوْمًا فَسَأَلَهُمْ بِاللَّهِ وَلَمْ يَسْأَلْهُمْ بِقَرَابَةٍ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَهُ فَتَخَلَّفَ رَجُلٌ بِأَعْقَابِهِمْ فَأَعْطَاهُ سِرًّا لَا يَعْلَمُ بِعَطِيَّتِهِ إِلَّا اللَّهُ وَالَّذِي أَعْطَاهُ، وَقَوْمٌ سَارُوا لَيْلَتَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ النَّوْمُ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِمَّا يَعْدِلُ بِهِ نَزَلُوا فَوَضَعُوا رُءُوسَهُمْ، فَقَامَ يَتَمَلَّقُنِي، وَيَتْلُو آيَاتِي، وَرَجُلٌ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ، فَلَقِيَ الْعَدُوَّ فَهُزِمُوا، فَأَقْبَلَ بِصَدْرِهِ حَتَّى يُقْتَلَ أَوْ يُفْتَحَ لَهُ، وَالثَّلَاثَةُ الَّذِينَ يُبْغِضُهُمُ اللَّهُ: الشَّيْخُ الزَّانِي وَالْفَقِيرُ الْمُخْتَالُ، وَالْغَنِيُّ الظَّلُومُ "۔

ترجمہ:

حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ محبوب رکھتے ہیں اور تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ کو بغض ہے۔ جن تین آدمیوں کو اللہ محبوب رکھتا ہے ان میںایک تو وہ شخص ہے کہ کسی مجمع کے پاس کوئی سائل آیا اور محض اللہ کے واسطہ سے ان سے کچھ سوال کرنے لگا، کوئی قرابت رشتہ داری (وغیرہ) اس سائل کو ان سے نہ تھی۔ اس مجمع نے اس سائل کو کچھ نہ دیا۔ اس مجمع میں سے ایک شخص اٹھا اور چپکے سے اس سائل کو کچھ دے   دیا جس کی خبر بجز اللہ کے یا اس سائل کے اور کسی کو نہ ہوئی۔ (تویہ دینے والا شخص اللہ  کو بہت محبوب ہے۔ دوسرا) وہ شخص کہ ایک مجمع کہیں سفر میں جا رہا ہے، ساری رات چلنے کے بعد جب نیند کا ان پر اتنا غلبہ ہو جائے کہ وہ ہرچیز سے زیادہ محبوب بن گئی ہو، تو وہ مجمع تھوڑی دیر کے لیے سونے کے لیے لیٹ گیا، لیکن ایک شخص ان میں سے کھڑا ہو کر اللہ کے سامنے گڑ گڑانے لگے اور قرآن پاک کی تلاوت شروع کر دے۔ تیسرا وہ شخص کہ کسی جماعت میں جہاد میں شریک تھا، وہ جماعت شکست کھاگئی۔ ان میں سے ایک شخص سینہ سَپر ہوکر آگے بڑھا اور شہید ہوگیا یا غالب ہوگیا۔ اور وہ تین شخص جن سے اللہ بغض رکھتے ہیں: ایک وہ جو بوڑھا ہو کربھی زنا میں مبتلا ہو۔ دوسرا وہ شخص جو فقیر ہو کر بھی تکبر کرے۔ تیسرا وہ شخص جو مال دار ہو کر ظلم کرے۔


فائدہ:
ان چھ شخصوں کے متعلق اس قسم کے مضامین بہت سی مختلف روایات میں وارد ہوئے ہیں اور یہ حدیث آیات کے سلسلہ میں نمبر (۹) کے ذیل میں بھی گزر چکی ہے۔ بعض روایات میں ان میں سے ایک شخص کو ذکر کیا ہے اور بعض میں ایک سے زائد کو ذکر کیا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ تین موقع ایسے ہیں جن میں بندہ کی دعا ردّ نہیں کی جاتی، یعنی ضرور قبول ہوتی ہے۔ ایک وہ شخص جو کسی جنگل میں ہو جہاں کوئی اس کو نہ دیکھتا ہو اور وہاں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ (اس وقت اس کی دعا ضرور قبول ہوگی) ایک وہ شخص جو کسی مجمع کے ساتھ جہاد میں ہو اور ساتھی بھاگ جائیں وہ اکیلا جما رہے۔ تیسرا وہ شخص جو آخر رات میں اللہ کے سامنے کھڑا ہو جائے۔ (الجامع الصغیر)
ایک حدیث میں ہے: تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ قیامت میں نہ کلام کریں گے، نہ ان کا تزکیہ کریں گے اور نہ ان کی طرف (رحمت کی) نظر فرمائیں گے، اور ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہوگا۔ ایک زانی بوڑھا، دوسرا جھوٹا بادشاہ، تیسرا متکبر فقیر۔  (الجامع الصغیر عن مسلم) تزکیہ نہ کرنے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کو گناہوں سے پاک نہ کریں گے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی تعریف نہ کریں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن کی طرف حق تعالیٰ شا نہٗ قیامت میں (رحمت کی) نظر نہ کریں گے اور ان کے لیے دکھ دینے والا سخت عذاب ہوگا۔ ایک ادھیڑ عمرکا شخص زنا کار، دوسرا متکبر فقیر، تیسرا وہ شخص جو خرید و فروخت میں ہر وقت قسم کھاتا رہے، جو خریدے قسمیں کھا کر خریدے اور جب فروخت کرے تو بھی قسمیں کھا کر فروخت کرے۔ (یعنی بات بے بات، ضرورت بے ضرورت بار بارقسمیں کھاتا ہو کہ یہ اللہ پاک کی عالی شان کی بے ادبی ہے) ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں کہ تین شخصوں کی طرف کل کو (قیامت کے دن) حق تعالیٰ شا نہٗ نظر نہ کریں گے۔ بوڑھا زانی، دوسرے وہ شخص جو قسموں کو اپنی پونجی بنائے کہ ہر حق ناحق پر قسم کھاتا ہو، تیسرے متکبر فقیر جو اکڑتا ہو۔ (الجامع الصغیر)
ایک حدیث میں ہے کہ تین شخصوں کو حق تعالیٰ شا نہٗ محبوب رکھتے ہیں اور تین شخصوں کو مبغوض رکھتے ہیں۔ جن کو محبوب رکھتے ہیں ان میں ایک وہ شخص ہے جو کسی جماعت کے ساتھ جہاد میں شریک ہو اور دشمن کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو جائے یہاں تک کہ فتح ہو یا شہید ہو جائے۔ دوسرا وہ شخص جو کسی جماعت کے ساتھ سفر کر رہا ہو اور جب رات کا بہت سا حصہ گزر جائے اور وہ جماعت تھوڑی دیر آرام لینے کے لیے لیٹ جائے، تو یہ کھڑا ہوکر نماز پڑھنے لگے یہاں تک کہ تھوڑی دیر میں ساتھیوں کو آگے چلنے کے لیے جگاوے۔ ( خود ذرا بھی نہ سوئے) تیسرا وہ شخص جس کا پڑوسی اس کو ستاتا ہو اور وہ اس کی اذیت پرصبر کرے یہاں تک کہ موت سے یاسفر وغیرہ سے اس میں اور اس کے پڑوسی میں جدائی ہو جائے۔ (یعنی یہ کہ جب تک اس کا پڑوسی باقی رہے مسلسل صبر کرتا رہے) او ر وہ تین شخص جن کو اللہ  مبغوض رکھتے ہیں ایک قسمیں کھانے والا تاجر، دوسرا متکبر فقیر، تیسرا وہ بخیل جو صدقہ کرکے احسان جتاتا ہو۔ (الجامع الصغیر)



۱۶۔ عن فاطِمةَ ابنة قَيْسٍ، قالت: سَألْتُ أوْ سُئِلَ النبيُّ  عن الزَّكَاةِ، فقال: "إنّ في المَالِ لَحَقًّا سِوَى الزَّكَاةِ" ثُمَّ تَلا هذِهِ الآيةَ الَّتي في البقرة: ﴿لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ﴾ الآية [البقرة:١٧٧].

ترجمہ:

حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ اور بھی حق ہیں۔ پھر (اپنے اس ارشاد کی تائید میں سورۂ بقرہ کی آیت 177) {نیکی یہ نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے پھیر لو} آخر تک تلاوت فرمائی۔
[سنن ترمذي:659، سنن ابن ماجہ:1789، سنن الدارمی:1677]

فائدہ:
اس آیتِ شریفہ کا بیان سلسلۂ آیات میں نمبر (۲) پر گزر چکا ہے۔ حضورِاقدسﷺ نے اس آیتِ شریفہ سے یہ تجویز فرمایا کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ اور بھی حق ہے۔ اور یہ تجویز اس وجہ سے ظاہر ہے کہ آیت ِشریفہ میںا پنے مال کو رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی، یتیموں پر، غریبوں پر، مسافروں پر اور سوال کرنے والوں پر خرچ کرنے کی، قیدیوں اور غلاموں وغیرہ کی گردن چھڑانے میں خرچ کرنے کی مستقل علیحدہ ترغیب دی ہے، اور اس سب کے بعد زکوٰۃ ادا کرنے کو علیحدہ ذکر فرمایا۔
مسلم بن یسار ؒ کہتے ہیں کہ نمازیں دو ہیں، (ایک فرض، ایک نفل ) اسی طرح زکوٰتیں بھی دو ہیں (ایک نفل، دوسری فرض) اور قرآن پاک میں دونوں مذکور ہیں۔ میں تم کو بتائوں؟ لوگوں کے دریافت کرنے پر انھوں نے یہ آیت ِشریفہ پڑھی اور ابتدائی حصہ پڑھ کر جس میں مال کا مواقعِ مذکور پر خرچ کرنا مذکور ہے فرمایا کہ یہ تو سب کا سب نفل ہے۔ اس کے بعد زکوٰۃ کا ذکر پڑھ کر فرمایا کہ یہ فرض ہے۔ (دُرِّمنثور)
علامہ طیبی ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف میں حق سے مراد یہ ہے کہ سوال کرنے والے کو محروم نہ رکھے، قرض مانگنے والے کو محروم نہ کرے، اپنے گھر کا معمولی سامان مستعار مانگنے والوں کو انکار نہ کرے۔ مثلًا: ہانڈی پیالہ وغیرہ کوئی عاریتاً مانگے تو اس کو نہ روکے۔ پانی اور نمک اور آگ کو لوگوں کو اِنکار نہ کرے۔
علامہ قاری ؒ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے اس حدیثِ پاک میں جو آیتِ شریفہ پڑھی ہے اس میں زکوٰۃ کے علاوہ جو اُمور ذکر کیے ہیں وہ مراد ہیں۔ جیساکہ صلہ رحمی، یتیموں پر احسان کرنا، مسکین، مسافر اور سوالی کو دینا، لوگوں کی گردنوں کو آزادی وغیرہ کے ذریعہ سے خلاص کرنا۔ (مرقاۃ المفاتیح)
صاحب ’’ِمظاہرِ حق‘‘ نے لکھا ہے کہ زکوٰۃ تو فرض ہے ضرور دینی چاہیے، سوائے زکوٰۃ کے صدقۂ نفل بھی مستحب ہے وہ بھی دیا کرے، اور وہ یہ ہے۔ اس کے بعد علامہ طیبی اور علامہ قاری  ؒ کے کلام کا ترجمہ تحریر فرما کر لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت ﷺ نے سند کے لیے پڑھی ہے۔ اس واسطے کہ اس میں اوّل تو اللہ تعالیٰ نے تعریف کی مؤمنوں کی ساتھ دینے مال کے اپنوں اور یتیموں وغیرہ کو، بعد اَزاں تعریف کی ساتھ قائم کرنے نماز کے اور دینے زکوٰۃ کے۔ پس معلوم ہوا کہ دینا مال کا سوائے دینے زکوٰۃ کے ہے اور وہ صدقۂ نفل ہے۔ اور حاصل یہ ہے کہ حضرت ﷺ نے جو فرمایا تھا کہ مال میں حق ہے سوائے زکوٰۃ کے وہ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اول صدقۂ نفل ذکر کیا گیا پھر صدقۂ واجب۔
علامہ جصاص رازی ؒ نے لکھا ہے کہ بعض علماء نے اس آیتِ شریفہ سے حقوقِ واجبہ مراد لیے ہیں جیسا کہ صلہ رحمی جب کہ کسی ذی رحم کو سخت مشقت میں پائے، یا کسی مضطَر پر خرچ کرنا جب کہ اس کو اِضطِرار نے ہلاکت کے اندیشہ تک پہنچا دیا ہو، تو اس پر اتنی مقدار خرچ کرنا لازم ہے جس سے اس کی بھوک جاتی رہے۔ اس کے بعد علامہ نے حضورﷺ کاارشاد کہ ’’مال میں زکوٰۃ کے علاوہ حق ہے‘‘ نقل کرکے فرمایا کہ اس سے نادار رشتہ داروں پر خرچ کرنا بھی مراد ہوسکتاہے کہ حاکم نے ان کا نفقہ ذمہ کر دیا ہو اور مضطَر پر خرچ کرنا بھی ہوسکتا ہے اور نفلی حقوق بھی ہوسکتے ہیں، اس لیے کہ حق کا لفظ واجب اور نفل دونوں پر اِطلاق کیا جاتا ہے۔
’’فتاویٰ عالمگیر‘‘ یہ میں ہے کہ لوگوں کے ذمہ محتاج کا کھلانا فرض ہے جب کہ وہ (کمانے کے لیے)نکلنے سے اور مانگنے سے عاجز ہو۔ اور اس میں تین باتیں ہیں۔ اول یہ کہ جب محتاج نکلنے سے عاجز ہو تو ہر شخص پر جس کو اس کا حال معلوم ہو، اس کا کھلانا فرض ہے۔ اور اتنی مقدارکھلانا ضروری ہے جس سے وہ نکلنے پر اور فرض ادا کرنے پر قادر ہو جائے، بشرط یہ کہ جس کو اس کا حال معلوم ہو وہ کھلانے پر قادر ہو۔ اور اگر اس میں خود کھلانے کی قدرت نہ ہو تو اس کے ذمہ ضروری ہے کہ دوسروں کو اس کے حال کی اطلاع کرے۔ اور اگر نہ خود کھلا سکے نہ دوسروں کو اطلاع کرے اور وہ محتاج مر جائے تو وہ سب گناہ گار ہوں گے جن کو اس کا حال معلوم ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر محتاج نکلنے پر قادر ہے لیکن کمانے پر قادر نہیں، تو لوگوں کے ذمہ جن کواس کا حال معلوم ہے ضروری ہے کہ وہ اپنے صدقاتِ واجبہ سے اس کی مدد کریں۔ اور اگر وہ کمانے پر بھی قادر ہے تو پھر اس کو جائز نہیں کہ سوال کرے۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر وہ محتاج نکلنے پر قادر ہے لیکن کمانے پر قادر نہیں، تو اس کے ذمہ ضروری ہے کہ نکل کر لوگوں سے سوال کرے اگر وہ سوال نہیں کر لے گا تو گناہ گار ہوگا۔ (فتاویٰ عالمگیریہ)




۱۷۔ بُهَيْسَةُ،‏‏‏‏عَنْ أَبِيهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ اسْتَأْذَنَ أَبِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ قَمِيصِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَجَعَلَ يُقَبِّلُ وَيَلْتَزِمُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْمَاءُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْمِلْحُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏مَا الشَّيْءُ الَّذِي لَا يَحِلُّ مَنْعُهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ أَنْ تَفْعَلَ الْخَيْرَ خَيْرٌ لَكَ.

ترجمہ:

حضرت بُہیسہؓ فرماتی ہیں کہ میرے والد صاحب نے حضورِاقدسﷺ سے دریافت کیا کہ وہ کیا چیز ہے جس کا (کسی مانگنے والے کو دینے سے) روکنا جائز نہیں؟ حضور ﷺ نے فرمایا: پانی۔ میرے والد نے پھر یہی سوال کیا تو حضورِاقدس ﷺ نے فرمایا: نمک۔ میرے والد نے پھر یہی سوال کیا تو حضور ﷺ نے فرمایا: جو بھلائی تُو (کسی کے ساتھ) کرسکے وہ تیرے لیے بہتر ہے۔

فائدہ:
اگر پانی سے مراد کنوئیں سے پانی لینا ہو اور نمک سے مراد اس کے معدن سے نمک لینا ہو تب تو شرعی حیثیت سے بھی کسی کو ان چیزوں سے روکنے کا حق نہیں ہے، لیکن اگر اپنا مملوک پانی اور مملوک نمک ہے تو حضورِ اقدسﷺ کی غرض اس پر تنبیہ فرمانا ہے کہ ایسی معمولی چیزوں کو سائل کو اِنکار کرنا ہرگزنہ چاہیے جس میں دینے والے کو زیادہ نقصان نہیں اور مانگنے والے کی بڑی اِحتیاج پوری ہوتی ہے، بشرطے کہ دینے والے کی اپنی حاجت بھی اسی درجہ کی نہ ہو، لیکن عام طور پر چوںکہ گھروں میں یہ چیزیں اکثر موجود ہوتی ہیں اور اپنی کوئی وقتی ضرورت ان سے ایسی وابستہ نہیں ہوتی۔ اگر کسی شخص کی ہانڈی پھیکی ہے، ذرا سے نمک میں اس کا سارا کھانا درست ہو جاتا ہے اور تمہارا کوئی ایسا نقصان اس میں نہیں ہوتا۔ ایسے ہی پانی کا حال ہے۔ حضرت عائشہؓفرماتی ہیں: حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تین چیزوں کا روکنا جائز نہیں: پانی، نمک، آگ۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! پانی کو توہم سمجھ گئے، (کہ واقعی بہت مجبوری کی چیز ہے) لیکن نمک اور آگ میں کیا بات ہے؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے حُمیرا! جب کوئی شخص کسی کو آگ دیتا ہے تو گویا اس نے وہ ساری چیز صدقہ کی جو آگ پر پکی اور جس نے نمک دیا اس نے گویا وہ ساری چیز صدقہ کی جو نمک کی وجہ سے لذیذ ہوگئی۔ (مشکاۃ المصابیح) گویا ان دونوں میں معمولی خرچ سے دوسرے کا بہت زیادہ نفع ہے۔
حضورِ اقدسﷺ نے حدیث ِبالا میں مثال کے طور پر دو چیزوں کا ذکر فرما کر پھر ایک ضابطہ ارشاد فرما دیا کہ جو بھلائی کسی کے ساتھ کرسکتے ہو وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔  ع
بھلا کر جو اپنا بھلا چاہتا ہے
حقیقت یہی ہے کہ آدمی جو احسان کسی قسم کا بھی کسی کے ساتھ کرتا ہے، وہ صورت میں دوسرے کے ساتھ احسان ہے حقیقت میں وہ اپنے ہی ساتھ احسان ہے۔ اللہ کے پاک ارشاد میں بسلسلۂ آیات نمبر (۲۰) پرگزر چکا ہے کہ جو کچھ تم اللہ کے راستے میں خرچ کروگے اللہ اس کا بدل عطا فرمائے گا۔ اور بسلسلۂ احادیث نمبر (۲ ) پر گزر چکا ہے کہ دو فرشتے روزانہ اس کی دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما اور روکنے والے کو بربادی عطا کر۔ ایسی حالت میں جو احسان بھی کوئی شخص کسی کے ساتھ کرتا ہے وہ اپنے مال کو بربادی سے بچا کر اس کے بدل کا اللہ کے خزانہ سے اپنے لیے استحقاق قائم کرتا ہے۔ اور غور کی نگاہ اگر میسر ہو تو حقیقت میں دوسروں پر ذرا بھی احسان نہیں، بلکہ ایسا ہے جیسا کہ تمہارے مکان کو لوٹ سے بچادیا ہو۔ اس لحاظ سے اس کا تم پر احسان ہے نہ کہ تمہارا اس پر۔



۱۸۔ عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْمَاءُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَحَفَرَ بِئْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ هَذِهِ لِأُمِّ سَعْدٍ.

ترجمہ:

حضرت سعدؓ نے عرض کیا: یا رسول  اللہ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا (ان کے ایصالِ ثواب کے لیے) کون سا صدقہ زیادہ افضل ہے؟ حضورِ اقدس ﷺ نے فرمایا کہ پانی سب سے افضل ہے۔ اس پر حضرت سعدؓ نے اپنی والدہ کے ثواب کے لیے ایک کنواں کھدوا دیا۔

تشریح:
یوں تو اللہ نے جو بھی چیز پیدا کی ہے وہ بندہ کے حق میں اللہ کی نعمت ہے لیکن انسانی زندگی میں پانی کو جو اہمیت ہے اس کے پیش نظر بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ اللہ کی ان بڑی نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے جن کے بغیر انسانی زندگی کی بقاء ممکن نہیں پھر مخلوق اللہ کے لئے اس کی ضرورت اتنی ہی وسیع اور ہمہ گیر ہے کہ قدم قدم پر انسانی زندگی اس کے وجود اور اس کی فراہمی کی محتاج ہوتی ہے، چناچہ کیا دنیا اور کیا آخرت سب ہی امور کے لئے اس کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے خاص طور پر ان شہروں اور علاقوں میں پانی کی اہمیت کی اہمیت کہیں زیادہ محسوس ہوتی ہے جو گرم ہوتے ہیں جہاں پانی کی فراہمی آسانی سے نہیں ہوتی، اسی لئے آنحضرت ﷺ نے پانی کو بہترین صدقہ ارشاد فرما کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ پانی کے حصول کا ہر ذریعہ خواہ کنواں ہو یا نل والا تالاب بہترین صدقہ جاریہ ہے کہ جب تک وہ ذریعہ موجود رہتا ہے اس کو قائم کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے نوازا جاتا ہے۔

تشریح
اس واقعہ کی بعض روایات میں یہ تفصیل ذکر کی گئی ہے کہ حضرت سعد بن عبادہ کی والدہ کا جب انتقال ہوا تو وہ سفر تو وہ سفر میں تھے، سفر سے واپسی پر وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری دعدم موجودگی میں میری والدہ کا انتقال ہو گیا، میرا خیال ہے کہ اگر میں موجود ہوتا تو وہ اپنی آخرت کے لئے صدقہ وغیرہ کی وصیت کریں۔ اب میں ان کے ایصال ثواب کے لئے صدقہ کرنا چاہتا ہوں تو کس طرح کا صدقہ بہتر اور ان کے حق میں زیادہ ثواب کا باعث ہو گا؟ آپ ﷺ نے ان کو کنواں بنوا دینے کا مشورہ دیا، چنانچہ انہوں نے ایسی جگہ پر جہاں اس کی ضرورت تھی، کنواں بنوایا اور اپنی والدہ کے نام پر یعنی ان کے ایصال ثواب کے لئے اس کو وقف کر دیا۔ بعض روایات میں باغ وقف کرنے کا بھی ذکر ہے، ہو سکتا ہے کہ سی باغ میں کنواں بنوایا ہو۔ حضور ﷺ کے زمانہ میں اور آپ ﷺ کی ہدایت پر وقف کی یہ دوسری مثال ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ کسی مرنے والے کو ثواب پہنچانے کی نیت سے کوئی نیک کام کرنا صحیح ہے اور ایصالِ ثواب کا نظریہ برحق ہے اور اصولی درجہ میں اس پر ائمہ اہل سنت کا اتفاق ہے۔





فائدہ:
حضور ﷺ نے پانی کو زیادہ افضل اس لیے فرمایا کہ مدینہ طیبہ میں اس کی ضرورت زیادہ تھی۔ اوّل تو گرم ملکوںمیں سب ہی جگہ پانی کی ضرورت خاص طور سے ہوتی ہے اور مدینہ منورہ میں اس وقت پانی کی قلت بھی تھی۔ اس کے علاوہ پانی کا نفع بھی عام ہے اور ضرورت بھی عمومی ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص پانی کا سلسلہ جاری کر جائے تو جو انسان یا جن یا پرندہ بھی اس سے پانی پیئے گا تو مرنے والے کوقیامت تک اس کا ثواب ہوتا رہے گا۔
حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ کے پاس ایک شخص حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرے گھٹنے میں ایک زخم ہے۔ سات برس ہوگئے ہر قسم کی دوا اور علاج کرچکا ہوں کسی سے فائدہ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے طبیبو ں سے بھی رجوع کر چکا ہوں۔ حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ نے فرمایا کہ جس جگہ پانی کی قلت ہو وہاں ایک کنواں بنوا دو، مجھے اللہ کی ذات سے یہ امید ہے کہ جب اس میں پانی نکل آئے گا تمہارے گھٹنے کا خون بند ہو جائے گا۔ چناںچہ انھوں نے ایسا ہی کیا اور گھٹنے کا زخم اچھا ہوگیا۔
مشہور محدث ابوعبداللہ حاکم ؒکے چہرہ پر ایک زخم ہوگیا تھا، ہر قسم کے علاج کیے کوئی بھی کارگر نہ ہوا۔ ایک سال اسی حال میںگزر گیا۔ ایک مرتبہ استاذ ابو عثمان صابونی ؒسے دعاکی درخواست کی۔ جمعہ کا دن تھا۔ انھوںنے بڑی دیر تک دعا کی، مجمع نے آمین کہی۔ دوسرے جمعہ کو ایک عورت حاضر ہوئیں اور ایک پرچہ مجلس میں پیش کیا جس میں یہ لکھا تھا کہ میں گزشتہ جمعہ کو جب گھر واپس گئی تو حاکم ؒ کے لیے بہت اہتمام سے دعا کرتی ۔ میں نے خواب میں حضورِاقدسﷺکی زیارت کی۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حاکم ؒسے کہہ دو کہ مسلمانوں پر پانی کی وسعت کرے۔ حاکم ؒنے یہ سن کر اپنے گھر کے دروازہ پر ایک سبیل قائم کر دی جس میں پانی کے بھرنے کا اور اس میں برف ڈالنے کا اہتمام کیا۔ ایک ہفتہ گزرا تھا کہ چہرہ کے سب زخم بالکل اچھے ہوگئے اور پہلے سے زیادہ خوش نما چہرہ ہوگیا۔ (الترغیب والترہیب)
ایک حدیث میں ہے کہ حضرت سعدؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری والدہ اپنی زندگی میں میرے مال سے حج کرتی تھیں، میرے ہی مال سے صدقہ دیتی تھیں، صلہ رحمی کرتی تھیں، لوگوں کی اِمداد کرتی تھیں، اب ان کا انتقال ہوگیا۔ یہ سب کام اگر ہم ان کی طرف سے کریں تو اُن کو اِن کا ثواب پہنچے گا؟ حضورﷺ نے فرمایا: پہنچے گا۔ (کنز العمال)
ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت نے حضورﷺ سے سوال کیا کہ میری والدہ کا دفعتاً انتقال ہوگیا۔ اگر دفعتاً نہ ہوتا تو وہ کچھ صدقہ وغیرہ کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو ان کی طرف سے ہو جائے گا؟ حضورﷺ نے فرمایا: ہاں ان کی طرف سے صدقہ کردو۔ (ابوداود) اپنے ماں باپ، خاوند، بیوی، بہن، بھائی، اولاد اور دوسرے رشتہ دار، خصوصاً وہ لوگ جن کے مرنے کے بعد ان کا کوئی مال اپنے پاس پہنچا ہو یا ان کے خصوصی احسانات اپنے اوپر ہوں، جیسے اساتذہ اور مشایخ، ان کے لیے ایصالِ ثواب کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ بڑی بے غیرتی ہے کہ ان کے مال سے آدمی منتفع ہوتا رہے، ان کی زندگی میں ان کے احسانات سے فائدہ اٹھاتا رہے، اور جب وہ اپنے عطایا اور اپنے ہدایا کے ضرورت مند ہوں ا ن کو فراموش کر دے۔ آدمی جب مر جاتا ہے تو اس کے اپنے اعمال ختم ہو جاتے ہیں، بجز اس صورت کے کہ وہ کوئی صدقۂ جاریہ چھوڑ گیا ہو یا کوئی اور ایسا عمل کر گیا ہو جو صدقۂ جاریہ کے حکم میں ہو، جیسا کہ آیندہ آرہا ہے،اس وقت وہ دوسروں کے ایصالِ ثواب اور ان کی دعا وغیرہ سے اِمداد کا محتاج اور منتظر رہتا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ مردہ اپنی قبر میں اس شخص کی طرح سے ہوتا ہے جو پانی میں ڈوب رہا ہو اور ہر طرف سے کسی مددگار کا خواہش مند ہو۔ اور وہ اس کامنتظر رہتا ہے کہ باپ بھائی وغیرہ، کسی دوست کی طرف سے کوئی مدد دعا کی (کم از کم) اس کو پہنچ جائے۔ اور جب اس کو کوئی مدد پہنچتی ہے تو وہ اس کے لیے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہوتی ہے۔ (اِحیاء العلوم)
بِشر بن منصور ؒکہتے ہیں کہ طاعون کے زمانہ میں ایک آدمی تھے جو کثرت سے جنازوں کی نمازوں میں شریک ہوتے او ر شام کے وقت قبرستان کے دروازہ پر کھڑے ہو کر یہ دعا کرتے:
 آنَسَ اللّٰہُ وَحْشَتَکُمْ وَرَحِمَ غُرْبَتَکُمْ وَتَجَاوَزَ عَنْ سَیِّئَاتِکُمْ وَقَبِلَ اللّٰہُ حَسَنَاتِکُمْ ۔


اللہ تمہاری وحشت کو دل بستگی سے بدل دے اورتمہاری غربت پر رحم فرمائے۔ تمہاری لغزشوں سے درگزر فرمائے اور تمہاری نیکیوں کو قبول فرمائے۔
اس دعا کے بعد اپنے گھر واپس چلے جاتے۔ ایک دن اتفاق سے اس دعا کو پڑھنے کی نوبت نہیں آئی ویسے ہی گھر آگئے، تو رات کو خواب میںایک بڑا مجمع دیکھا جو ان کے پاس گیا۔ اس نے پوچھا: تم کون لوگ ہو ؟ کیسے آئے ہو؟ انھوں نے کہا کہ ہم قبرستان کے رہنے والے ہیں، تم نے ہم کواس کا عادی بنا دیا تھا کہ روزانہ شام کو تمہاری طرف سے ہمارے پاس ہدیہ آیا کرتا تھا۔اس نے پوچھا: کیسا ہدیہ ؟ وہ لوگ کہنے لگے کہ تم جو دعا روزانہ شام کو کیا کرتے تھے وہ ہمارے پاس ہدیہ بن کر پہنچتی تھی۔ وہ شخص کہتے ہیں کہ پھر میں نے کبھی اس دعا کو ترک نہیں کیا۔
بشّار بن غالب نجرانی ؒکہتے ہیں کہ میں حضرت رابعہ بصریہ ؒ کے لیے بہت کثرت سے دعا کیا کرتا تھا۔ میںنے ایک مرتبہ ان کو خواب میں دیکھا وہ کہتی ہیں کہ بشّار! تمہارے تحفے ہمارے پاس نور کے خِوانوں میں رکھے ہوئے پہنچتے ہیں جن پر ریشم کے غلاف ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں۔ میں نے پوچھا: یہ کیا بات ہے ؟ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کی جو دعا مُردہ کے حق میں قبول ہو جاتی ہے، تو وہ دعا نور کے ِخوان پر ریشم کے غلاف سے ڈھکی ہوئی میّت کے پاس پیش ہوتی ہے کہ یہ فلاں شخص نے تمہارے پاس ہدیہ بھیجا ہے۔ (اِحیاء العلوم)
آیندہ حدیث کے ذیل میںبھی اس قسم کے کئی واقعات آرہے ہیں۔ امام نووی ؒ نے’’ مسلم شریف‘‘ کی شرح میں لکھا ہے کہ صدقہ کا ثواب میّت کوپہنچنے میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہی مذہب حق ہے۔ اور بعض لوگوں نے جو یہ لکھ دیا کہ میّت کو اس کے مرنے کے بعد ثواب نہیں پہنچتا، یہ قطعاً باطل ہے اور کھلی ہوئی خطا ہے۔ یہ قرآنِ پاک کے خلاف ہے، یہ حضورِ اقدسﷺ کی احادیث کے خلاف ہے، یہ اجماعِ امت کے خلاف ہے۔ اس لیے یہ قول ہر گز قابلِ اِلتفات نہیں ۔ (بذل المجہود)
شیخ تقی الدین ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص یہ خیال کرے کہ آدمی کو صرف اپنے ہی کیے کا ثواب ملتا ہے وہ اجماعِ امت کے خلاف کر رہا ہے۔ اس لیے کہ امت کااس پر اجماع ہے کہ آدمی کو دوسروں کی دعا سے فائدہ پہنچتا ہے۔ یہ دوسرے کے عمل سے نفع ہوا۔ نیز حضورِ اقدس ﷺ میدانِ حشر میں شفاعت فرما ویں گے۔ نیز دوسرے انبیا اورصُلَحا سفارش فرمائیں گے۔ یہ سب دوسروں کے عمل سے فائدہ ہوا۔ نیز فرشتے مؤمنوں کے لیے دعا اور اِستِغفار کرتے ہیں  (جیسا کہ سورۂ مؤمن کے پہلے رکوع میں ہے) یہ دوسرے کے عمل سے فائدہ ہوا۔ نیز حق تعالیٰ شانہٗ محض اپنی رحمت سے بہت سے لوگوں کے گناہ معاف فرما ویں گے، یہ اپنی کوشش اور عمل کے علاوہ سے فائدہ ہوا۔ نیز مؤمنوں کی اولاد اپنے والدین کے ساتھ جنت میں داخل کی جائے گی (جیسا کہ وَالطُّوْر کے پہلے رکوع میں ہے) یہ دوسرے کے عمل سے فائدہ ہوا۔ نیز حجِ بدل کرنے سے میّت کے ذمہ سے حج فرض ادا ہو جاتا ہے یہ دوسرے کے عمل سے نفع ہوا۔ غرض بہت سی چیزیں اس کے لیے دلیل اور حجت ہیں جن کا شمار بھی دشوار ہے۔ (بذل المجہود)
ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میرے بھائی کا انتقال ہوگیا میں نے ان کو خواب میں دیکھا اور ان سے پوچھا کہ قبر میں رکھنے کے بعد تم پر کیا گزری؟ وہ کہنے لگے کہ اس وقت میرے پاس ایک آگ کا شعلہ آیا مگر ساتھ ہی ایک شخص کی دعا مجھ تک پہنچی، اگر وہ نہ ہوتی تو وہ شعلہ مجھ کو لگ جاتا۔
علی بن موسیٰ حدّاد ؒکہتے ہیں کہ میں احمد بن حنبل ؒ کے ساتھ ایک جنازہ میں شریک تھا۔ محمد بن قُدامہ جوہری ؒبھی ہمارے ساتھ تھے۔ جب اس نعش کو دفن کر چکے تو ایک نابینا شخص آئے اوروہ قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن شریف پڑھنے لگے۔ حضرت امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا کہ قبر کے پاس بیٹھ کر قرآن شریف پڑھنا بدعت ہے۔ جب ہم وہاں سے واپس ہونے لگے تو راستہ میں محمد بن قدامہ ؒ نے حضرت امام احمد ؒ سے پوچھا کہ آپ کے نزدیک مبشر بن اسمٰعیل حلبی ؒ کیسے آدمی ہیں؟ امام نے فرمایا کہ وہ معتبر آدمی ہیں۔ ابنِ قدامہ ؒ  نے پوچھا کہ آپ نے بھی ان سے کچھ علم حاصل کیاہے؟ فرمایا: ہاں میں نے بھی ان سے حدیثیں لی ہیں۔ ابنِ قدامہ ؒ نے کہا کہ مبشر نے مجھ سے بیان کیا کہ عبدالرحمٰن بن علاء بن لجلاج ؒنے اپنے والد سے یہ نقل کیا کہ جب ان کا انتقال ہونے لگا تو انھوں نے یہ وصیت فرمائی تھی کہ ان کی قبر کے سرہانے سورۂ بقرہ کا اول و آخر پڑھا جائے اور یہ کہہ کر فرمایا تھا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر? کو یہ وصیت کرتے ہوئے سنا تھا۔ حضرت امام نے یہ قصہ سن کر ابنِ قدامہ ؒسے کہا کہ قبرستان میں واپس جائو اور ان نابینا سے کہو کہ وہ قرآن شریف پڑھ لیں۔ محمد بن احمد مروزی ؒکہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام احمد بن حنبل ؒ سے سنا، وہ فرماتے تھے کہ جب تم قبرستان میں جایا کرو تو اَلْحَمْدُ شریف، قُلْ ہُوَ اللّٰہُ، قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلْقِ، قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھ کر قبرستان والوں کو بخشاکرو۔ اس کا ثواب ان کوپہنچ جاتا ہے۔ (اِحیاء العلوم)
صاحبِ ’’مغنی‘‘ نے جو فقۂ حنبلی کی بہت معتبر کتاب ہے اس قصہ کو نقل کیا ہے اور اس مضمون کی اور روایات بھی نقل کی ہیں ’’بذل المجہود‘‘ میں ’’بحر‘‘ سے نقل کیا ہے کہ جو شخص روزہ رکھے یا نماز پڑھے یا صدقہ کرے اور اس کا ثواب دوسرے شخص کو بخش دے، خواہ وہ شخص جس کو بخشتا ہے زندہ ہو یا مردہ، اس کا ثواب اس کو پہنچتا ہے۔ اس میں کوئی فرق نہیں کہ جس کو ثواب بخشا ہے وہ زندہ ہو یا مردہ۔
’’ابوداود شریف‘‘ میں حضرت ابوہریرہؓ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا کہ کوئی شخص ایسا ہے جو اس کا ذمہ لے کہ مسجدِ عَشَّار (بصرہ کے قریب ہے) میں جاکر دو رکعت یا چار رکعت نماز پڑھ کر یہ کہے کہ یہ نماز (یعنی اس کا ثواب) ابو ہریرہ ؓ کی ہے۔ (ابوداود)
اپنے عزیز مُردوں کو ثواب پہنچانے کا بہت زیادہ اہتمام چاہیے۔ ان کے حقوق کے علاوہ عن قریب مرنے کے بعد ان سے ملنا ہوگا۔ کیسی شرم آئے گی جب ان کے حقوق، ان کے احسانات اور ان کے مالوں میں جو آدمی اپنے کام میں خرچ کرتا رہتا ہے ان کو یاد نہ رکھے۔



۱۹۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ  ﷺ: إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہ إِلاَّ مِنْ ثَلَاثَۃٍ إِلاَّ مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْعِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِہٖ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہ۔
رواہ مسلم، کذا في مشکاۃ المصابیح۔ قلت: وأبو داود والنسائي وغیرھما۔

ترجمہ:

حضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا ثواب ختم ہو جاتا ہے، مگر تین چیزیں ایسی ہیں جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے۔ ایک صدقۂ جاریہ، دوسرے وہ علم جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا رہے، تیسرے صالح اولاد جو اس کے لیے مرنے کے بعد دعا کرتی رہے۔
فائدہ:
اللہ  کا کس قدر زیادہ اِنعام و اِحسان ہے، لطف و کرم ہے کہ آدمی اگر یہ چاہے کہ مرجانے کے بعد جب کہ اس کے اعمال کا وقت ختم ہو جائے، وہ عمل کرنے سے بے کار ہو جائے، وہ قبر میں میٹھی نیند پڑا سوتا رہے اور اس کے اعمالِ حسنہ میں اضافہ ہوتا رہے، تو اس کا ذریعہ بھی اللہ نے اپنے فضل سے پیدا فرما دیا۔
حضورِ اقدسﷺ نے ان میں سے تین چیزیں اس حدیثِ پاک میں ذکر فرمائی ہیں۔ ایک صدقۂ جاریہ، یعنی کوئی ایسی چیز صدقہ کرگیا جس کا نفع باقی رہنے والا ہو۔ مثلًا: کوئی مسجد بنوا گیا جس میں لوگ نماز پڑھتے ہیں، تو جب تک اس میں نماز ہوتی رہے گی اس کو ثواب خود بخود ملتا رہے گا۔ اسی طرح سے کوئی مسافر خانہ، کوئی مکان کسی دینی کام کے لیے بنوا کر وقف کر گیا جس سے مسلمانوں کو یا دینی کاموں کو نفع پہنچتا رہا، تو اس کو اس نفع کا ثواب ملتا رہے گا۔ کوئی کنواں رفاہ ِعام کے لیے بنوا گیا، تو جب تک لوگ اس سے پانی پیتے رہیں گے، وضو وغیرہ کرتے رہیں گے، اس کو مرنے کے بعد بھی اس کا ثواب پہنچتا رہے گا۔
ایک اور حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ آدمی کے مرنے کے بعد جن چیزوں کا ثواب اس کو ملتا ہے، ایک تو وہ علم ہے جوکسی کو سکھایا ہواور اِشاعت کی ہو، اور وہ صالح اولاد ہے جس کو چھوڑ گیا ہو، اور وہ قرآن شریف جو میراث میں چھوڑ گیا ہو، اور وہ مسجد ہے اور مسافر خانہ ہے جن کو بنایا ہو، اور نہر ہے جو جاری کر گیا ہو، اور وہ صدقہ ہے جس کو اپنی زندگی اور صحت میں اس طرح دے گیا ہو کہ مرنے کے بعد اس کا ثواب ملتا رہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
’’ثواب ملتا رہے ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ صدقۂ جاریہ کے طور پر دے گیا۔ مثلًا: وقف کر گیا ہو۔ اور ’’علم کی اِشاعت‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کسی مدرسہ میں چندہ دیا ہو، یا کوئی دینی کتاب تالیف کی ہو، یا پڑھنے والوں کو تقسیم کی ہو، یا مسجدوں اور مدرسوں میں قرآنِ پاک یا کتابیں وقف کی ہوں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ آدمی کے مرنے کے بعد سات چیزوں کا ثواب اس کو ملتا رہتا ہے۔ کسی کو علم پڑھایا ہو، کوئی نہر جاری کر دی ہو، کوئی کنواں بنوا دیا ہو، کوئی درخت لگا دیا ہو، کوئی مسجد بنادی ہو، قرآنِ پاک میرا ث میں چھوڑا ہو، یا ایسی اولاد چھوڑی ہو جو اس کے لیے دعائے مغفرت کرتی رہے۔ (الترغیب والترہیب)
اور ان سب چیزوں میںیہ بھی ضروری نہیں کہ ساری تنہا خود ہی کی ہوں، بلکہ اگر کسی چیز میں تھوڑی بہت شرکت بھی اپنی ہوگئی تو بقدر اپنے حصہ کے اس کے ثواب میں سے حصہ ملتا رہے گا۔ دوسری چیزاوپر کی حدیث میں وہ علمِ دین ہے جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا رہے۔ مثلاً: کسی مدرسہ میں کوئی کتاب وقف کر گیا۔ جب تک وہ کتاب باقی ہے اس سے لوگ نفع اٹھاتے رہیں گے، اس کا ثواب خود بخود ملتا رہے گا۔ کسی طالبِ علم کو اپنے خرچ سے حافظ قرآن یا عالم بناگیا۔ جب تک اس کے علم و حفظ سے نفع پہنچتا رہے گا، چاہے و ہ حافظ اور عالم خود زندہ رہے یا نہ رہے، اس شخص کو اس کا ثواب ملتا رہے گا۔ مثلاً: کسی شخص کو حافظ بنایا تھا، اس نے دس بیس لڑکوں کو قرآنِ پاک پڑھا دیا او وہ حافظ اس کے بعد مر گیا۔ تو جب تک یہ لڑکے قرآنِ پاک پڑھتے پڑھاتے رہیں گے اس حافظ کو مستقل ثواب ملتارہے گا اور اس حافظ بنانے والے کو علیحدہ ثواب ہوتا رہے گا۔ اور اسی طرح سے جب تک ان پڑھنے والے لڑکوں کا سلسلہ پڑھنے پڑھانے کا قیامت تک چلتا رہے گا اس اصل حافظ بنانے والے کو ثواب خود بخود ملتا رہے گا، چاہے یہ لوگ ثوا ب پہنچائیں یا نہ پہنچائیں۔
یہی صورت بعینہٖ کسی شخص کو عالم بنانے کی ہے کہ جب تک بلا واسطہ یا بواسطہ اس کے علم سے لوگوں کو نفع کا سلسلہ چلتا رہے گا اس اوّل عالم بنانے والے کو ان سب کا ثواب ملتا رہے گا اور یہاں بھی وہی پہلی بات ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ پورا حافظ یا پورا عالم خود تنِ تنہا بنائے۔ اگر کسی حافظ کے حفظ میں اپنی طرف سے مدد ہوگئی،کسی عالم کے علم حاصل کرنے میں اپنی طرف سے کوئی اِعانت ہوگئی تو اس اِعانت کی بقدر ثواب کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
خوش نصیب ہیں وہ لو گ جن کی کسی قسم کی جانی یا مالی کوشش علم کے پھیلانے میں، دین کے بقا اور حفظ میں لگ جائے کہ دنیا کی زندگی خواب سے زیادہ نہیں۔ نہ معلوم کب اس عالم سے ایک دَم جانا ہو جائے۔ جتنا ذخیرہ اپنے لیے چھوڑ جائے گا وہی دیرپا اور کارآمد ہے۔ عزیز، قریب، اَحباب، رشتہ دار، نسب دو چار دن رو کر یاد کرکے اپنے اپنے مشاغل میں لگ کر بھول جائیں گے۔ کام آنے والی چیزیں یہی ہیں جن کو آدمی اپنی زندگی میں اپنے لیے کبھی فنا نہ ہونے والے بنک میں جمع کر جائے کہ سرمایہ محفوظ رہے اور نفع قیامت تک ملتا رہے۔
تیسری چیز جو اس حدیثِ پاک میں ذکر کی گئی ہے وہ ’’اولادِ صالح ہے جو مرنے کے بعد دعائے خیر بھی کرتی رہے‘‘۔ اوّل تو اولاد کا صالح بنا جانا بھی مستقل صدقۂ جاریہ ہے کہ جب تک وہ کوئی بھی نیک کام کرتی رہے گی اپنے آپ اس کا ثواب ملتا رہے گا۔ پھر اگر وہ نیک اولاد والدین کے لیے دعا بھی کرتی رہے اور جب وہ صالح ہے تو دعائیں کرتی ہی رہے گی، یہ مستقل ذخیرہ والدین کے لیے ہے۔
ایک نیک عورت کا قصہ ’’روض‘‘ میں لکھا ہے جس کو بابیہ کہتے تھے۔ بڑی کثرت سے عبادت کرنے والی تھی، جب اس کا انتقال ہونے لگا تو اس نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور کہا: اے وہ ذات جو میرا توشہ اور میرا ذخیرہ ہے، اور اسی پر میرا زندگی اور موت میں بھروسہ ہے! مجھے مرتے وقت رسوا نہ کی جیو اور قبر میں مجھے وحشت میں نہ رکھیو۔ جب وہ انتقال کر گئی تو اس کے لڑکے نے یہ اہتمام شروع کر دیاکہ ہر جمعہ کو وہ ماں کی قبر پر جاتا، اور قرآن شریف پڑھ کر اس کو ثواب بخشتا، اور اس کے لیے اور سب قبرستان والوں کے لیے دعا کرتا۔ ایک دن اس لڑکے نے اپنی ماں کو خواب میں دیکھا اور پوچھا: اماں! تمہارا کیا حال ہے ؟ ماں نے جواب دیا: موت کی سختی بڑی سخت چیز ہے۔ میں اللہ کی رحمت سے قبر میں بڑی راحت سے ہوں۔ ریحان میرے نیچے بچھی ہوئی ہے، ریشم کے تکیے لگے ہوئے ہیں، قیامت تک یہی برتائو میرے ساتھ رہے گا۔ بیٹے نے پوچھا کہ کوئی خدمت میرے لائق ہو توکہو۔ اس نے کہا کہ تو ہر جمعہ کو میرے پاس آکر قرآنِ پاک پڑھتا ہے اس کونہ چھوڑنا۔ جب تو آتا ہے سارے قبرستان والے خوش ہو کر مجھے خوش خبری دینے آتے ہیں کہ تیرا بیٹا آگیا۔ مجھے بھی تیرے آنے کی بڑی خوشی ہوتی ہے اور ان سب کو بھی بہت خوشی ہوتی ہے۔ وہ لڑکا کہتا ہے کہ میں اسی طرح ہر جمعہ کو اِہتمام سے جاتا تھا۔ ایک دن میں نے خواب میں دیکھا کہ بہت بڑا مجمع مردوں اور عورتوں کا میرے پاس آیا۔ میں نے پوچھا: تم کون لوگ ہو؟ کیوں آئے ہو؟ وہ کہنے لگے کہ ہم فلاں قبرستان کے آدمی ہیں۔ ہم تمہارا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں۔ تم جو ہر جمعہ کو ہمارے پاس آتے ہو اور ہمارے لیے دعائے مغفرت کرتے ہو، اس سے ہم کو بڑی خوشی ہوتی ہے، اس کو جاری رکھنا۔ اس کے بعد سے میں نے اور بھی زیادہ اِہتمام اس کا شروع کر دیا۔
ایک اور عالم فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ ایک قبرستان کی سب قبریں ایک دم شق ہوگئیں اور مردے ان میں سے باہر نکل کر زمین پر سے کوئی چیز جلدی جلدی چن رہے ہیں، لیکن ایک شخص فارغ بیٹھا ہے وہ کچھ نہیں چنتا۔ میں نے اس کے پاس جا کر سلام کیا اور اس سے پوچھا کہ یہ لوگ کیا چن رہے ہیں؟ ا س نے کہا کہ جو لوگ کچھ صدقہ، دعا، درود وغیرہ کرکے اس قبرستان والوں کو بھیجتے ہیںاس کی برکات سمیٹ رہے ہیں۔ میں نے کہا: تم کیوں نہیں چنتے؟ اس نے کہا: مجھے اس وجہ سے استغنا ہے کہ میرا ایک لڑکا ہے جو فلاں بازار میں زَلابیہ (حلوے کی ایک قسم ہے جو منہ کو چپک جاتی ہے) بیچاکرتا ہے۔ وہ روزانہ مجھے ایک قرآن پڑھ کر بخشتا ہے۔ میں صبح کو اٹھ کر اس بازار میں گیا۔ میں نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ وہ زَلابیہ فروخت کر رہا ہے اور اس کے ہونٹ ہل رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ تم کیا پڑھ رہے ہو؟ اس نے کہا: میں روزانہ ایک قرآنِ پاک ختم کرکے اپنے والد کو ہدیہ پیش کیا کرتا ہوں۔ اس قصہ کے عرصہ کے بعد میں نے پھر ایک مرتبہ اس قبرستان کے آدمیوں کو اسی طرح چنتے دیکھا اور اس مرتبہ اس شخص کو بھی چنتے دیکھا جس سے پہلی مرتبہ بات ہوئی تھی۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔ مجھے اس پر تعجب تھا۔ صبح اٹھ کر پھر میں اسی بازار میں گیا، تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس لڑکے کا انتقال ہوگیا۔ (روض الریاحین) 
حضرت صالح مری ؒ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ جمعہ کی شب میں اَخیررات میں جامع مسجد جا رہا تھا تاکہ صبح کی نماز وہاں پڑھوں۔ صبح میں دیر تھی۔ راستہ میں ایک قبرستان تھا، میں وہاں ایک قبر کے قریب بیٹھ گیا۔ بیٹھتے ہی میر ی آنکھ لگ گئی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ سب قبریں شق ہوگئیں اور اس میں سے مُردے نکل کر آپس میں ہنسی خوشی باتیں کر رہے ہیں۔ ان میں ایک نوجوان بھی قبرسے نکلا جس کے کپڑے میلے اور وہ مغموم سا ایک طرف بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر میں آسمان سے بہت سے فرشتے اُترے جن کے ہاتھوں میں خوان تھے، جن پر نور کے رومال ڈھکے ہوئے تھے۔ وہ ہر شخص کو ایک خوان دیتے تھے اور جو خوان لے لیتا تھا وہ اپنی قبر میں چلا جاتا تھا۔ جب سب لے چکے تو یہ نوجوان بھی خالی ہاتھ اپنی قبر میں جانے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا بات ہے تم اس قدر غمگین کیوں ہو اور یہ خوان کیسے تھے؟ اس نے کہا کہ یہ خوان ان ہدایا کے تھے جو زندہ لوگ اپنے اپنے مُردوں کو بھیجتے ہیں۔ میرے کوئی اور تو ہے نہیں جو بھیجے۔ ایک والدہ ہے مگر وہ دنیا میں پھنس رہی ہے۔ اس نے دوسری شادی کرلی، وہ اپنے خاوند میں مشغول رہتی ہے، مجھے کبھی بھی یاد نہیں کرتی۔ میں نے اس سے اس کی والدہ کا پتہ پوچھا اور صبح کو اس پتہ پر جاکر اس کی والدہ کو پردہ کے پیچھے بلایا اور اس سے اس کے لڑکے کو پوچھا اور یہ خواب سنایا۔ اس عورت نے کہا: بے شک وہ میرا لڑکا تھا، میرے جگر کا ٹکڑا تھا، میری گود اس کا بستر تھا۔ اس کے بعد اس عورت نے مجھے ایک ہزار دِرَم دیے کہ میرے لڑکے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے اس کو صدقہ کر دینا اور میں آیندہ ہمیشہ اس کو دعا اور صدقہ سے یاد رکھو گی کبھی نہ بھولوں گی۔ حضرت صالح ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے پھر خواب میں اس مجمع کو اسی طرح دیکھا اور اس نوجوان کو بھی بڑی اچھی پوشاک میں بہت خوش دیکھا۔ وہ میری طرف دوڑا ہوا آیا اور کہنے لگا کہ صالح! حق تعالیٰ شا نہٗ تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے تمہارا ہدیہ میرے پاس پہنچ گیا۔ (روض الریاحین)
اس قسم کے ہزاروں واقعات کتب میں موجود ہیں۔ بعض اس سے پہلی حدیث میں بھی گزر چکے ہیں۔ پس اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ میری اولاد مرنے کے بعد بھی میرے کام آئے، تو اپنے مقدور کے موافق اس کو نیک اور صالح بنانے کی کوشش کرنا چاہیے کہ یہ حقیقت میں اولاد کے لیے بھی خیر خواہی ہے اور اپنے لیے بھی کارآمد ہے۔ اللہ کا پاک ارشاد ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا}             (التحریم)
ترجمہ:
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو (جہنم کی) آگ سے بچائو۔
زید بن اسلم ؒ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے یہ آیتِ شریفہ تلاوت فرمائی تو صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اپنے اہل و عیال کو کس طرح آگ سے بچائیں؟ حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان کو ایسے کاموں کا حکم کرتے رہو جن سے اللہ راضی ہوں اور ایسی چیزوں سے روکتے رہو جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہوں۔
حضرت علی کَرَّمَ اللہ ُ وَجْہَہٗ سے اس آیتِ شریفہ کی تفسیر میں نقل کیا گیا کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل کو خیر کی باتوں کی تعلیم اور تنبیہ کرتے رہو۔ (دُرِّمنثور) حضورِاقدسﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا کہ اللہ اُس باپ پر رحم کرے جو اولاد کی اس بات میں مدد کرے کہ وہ باپ کے ساتھ نیکی کا برتائو کرے۔ یعنی ایسا برتائو اس سے نہ کرے جس سے وہ نافرمانی کرنے لگے۔ (اِحیاء العلوم) اولاد کو نیک بنانا بھی اس میں داخل ہے۔ اگر وہ نیک نہ ہو گی تو پھر والدین کے ساتھ جو کرے وہ بر محل ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ بچہ کا ساتویں دن عقیقہ کیا جائے اور اس کا نام رکھا جائے، اور جب چھ برس کا ہو اس کو آداب سکھائے جائیں، اور جب نو برس کا ہو جائے تو اس کا بسترہ علیحدہ کر دیا جائے (یعنی دوسروں کے پاس نہ سوئے) اور جب تیرہ برس کا ہوجائے تو نماز نہ پڑھنے پر مارا جائے اور جب سولہ برس کا ہوجائے تو نکاح کر دیاجائے، پھر اس کا باپ اس کا ہاتھ پکڑ کر کہے کہ میں نے تجھے آداب سکھا دیے، تعلیم دے دی، نکاح کر دیا، اب میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں دنیا میں تیرے فتنہ سے اور آخرت میں تیری وجہ سے عذاب سے۔ (اِحیاء العلوم)
’’تیری وجہ سے عذاب‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ بہت سی احادیث میں مختلف عنوانات سے یہ ارشاد ِنبوی وارد ہوا ہے کہ جو شخص کوئی برا طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کو اپنے فعل کا گناہ بھی ہوتا ہے اور جتنے لوگ اس کی وجہ سے اس پر عمل کریں گے ان سب کا گناہ بھی اس کو ہوگا، اس طرح پر کہ کرنے والوں کے اپنے گناہ میں کوئی کمی نہ ہوگی،ان کو اپنے فعل کا مستقل گناہ ہوگا، اور اس کو ذریعہ اور سبب بننے کا مستقل گناہ ہوگا۔ اس بنا پر جو اولاد اپنے بڑوں کی بری حرکات ان کے عمل کی وجہ سے اختیار کرتی ہے، ان سب کا گناہ بڑوں کو بھی ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے چھوٹوں کے سامنے بری حرکات کرنے سے خصوصیت سے احتراز کرنا چاہیے۔
اس حدیث شریف میں تیرہ برس کی عمر میں نماز پر مارنے کا حکم ہے، اور بہت سی احادیث میں ہے کہ بچہ کو جب سات برس کا ہو جائے نماز کا حکم کرو اور جب دس برس کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر مارو۔ یہ روایات اپنی صحت اور کثرت کے لحاظ سے مقدم ہیں۔ بہرحال بچہ کے نماز نہ پڑھنے پر باپ کو مارنے کا حکم ہے اوراس پر نماز میں تنبیہ نہ کرنا اپنا جرم ہے، اور اس کے بالمقابل اگر اس کو نماز روزہ اور دینی اَحکام کا پابند اور عادی بنا دیا، تو اس کے اعمالِ حسنہ کا ثواب اپنے آپ کو بھی ملے گا، اور اس کے ساتھ جب وہ صالح بن کر والدین کے لیے دعا بھی کرے گا تو اس سے بھی زیادہ اجر و ثواب ملتا رہے گا۔
ابنِ مَلِک  ؒ کہتے ہیں کہ حدیثِ بالا میں اولاد کو صالح کے ساتھ اس لیے مقیَّد رکھا ہے کہ ثواب غیر صالح اولاد کا نہیں پہنچتا اور اس کی دعا کا ذکر اولاد کو دعا کی ترغیب دینے کے لیے ہے۔ چناںچہ یہ کہا گیا ہے کہ والد کو صالح اولاد کے عمل کا ثواب خود پہنچتا رہتا ہے چاہے وہ دعا کرے یا نہ کرے۔ جیسا کہ کوئی شخص رفاہِ عام کے لیے کوئی درخت لگا وے اور لوگ اس کا پھل کھاتے رہیں، تو ان کھانے والوں کے کھانے کا ثواب اس کو ملتا رہے گا چاہے یہ لوگ درخت لگانے والے کے لیے دعا کریں یا نہ کریں۔
علامہ مُناوِی ؒکہتے ہیں کہ والد کو دعا کے ساتھ تنبیہ اور تحریض کے طور پر ذکر فرمایا کہ وہ دعا کرے، ورنہ دعا ہر شخص کی نافع ہے چاہے وہ اولاد ہو یا نہ ہو۔ اس حدیث شریف میں تین چیزوں کا ذکر اہتمام کی وجہ سے کیا ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بعض چیزیں احادیث میں ایسی آئی ہیں جن کے متعلق یہ وارد ہوا ہے کہ ان کادائمی ثواب ملتا رہتا ہے۔ متعدد احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ جو شخص کوئی نیک طریقہ جاری کر دے اس کو اپنے عمل کاثواب بھی ملے گا اور جتنے آدمی اس پر عمل کریں گے ان سب کے عمل کا ثواب اس کو ملتا رہے گا اور کرنے والوں کے اپنے اپنے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ اور جو شخص برا طریقہ جاری کردے اس پر اپنے کیے کا بھی گناہ ہے اور جتنے آدمی اس پر عمل کریں گے ان سب کے عمل کا گناہ بھی اس کو ہوگا، اور اس کی وجہ سے ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہ ہوگی۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ ہر شخص کے عمل کاثواب مرنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے، مگر جو شخص اللہ کے راستہ میں سرحدوں کی حفاظت کرنے والا ہے اس کا ثواب قیامت تک بڑھتا رہتا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح)
ان کے علاوہ احادیث میں اور بھی بعض اعمال کاذکر آیا ہے جیسا کہ کوئی درخت لگادینا یا نہر جاری کر دینا، جن کو علامہ سُیُوطی ؒ نے جمع کرکے گیارہ چیزیں بتائی ہیں، اور ابنِ عِماد  ؒ نے تیرہ چیزیں گنوائی ہیں، لیکن ان میں سے اکثر انھی تین کی طرف راجع ہو جاتی ہیں، جیسا کہ درخت لگانا یا نہر جاری کرنا صدقۂ جاریہ میں داخل ہے۔ (عون المعبود)



۲۰۔ عَنْ عَائِشَۃَ ؓ: أَنَّھُمْ ذَبَحُوْا شَاۃً فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مَا بَقِيَ مِنْھَا؟ قَالَتْ: مَا بَقِيَ مِنْھَا إِلاَّ کَتِفُھَا۔ قَالَ: بَقِيَ کُلُّھَا إِلاَّ کَتِفُھَا۔ 
رواہ الترمذي وصحَّحہ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔

ترجمہ:

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ گھر کے آدمیوں نے یا صحابۂ کرام ? نے ایک بکری ذبح کی۔ (اور اس میں سے تقسیم کر دیا) حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتنا باقی رہا؟ حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ صرف ایک شانہ باقی رہ گیا۔ 
(باقی سب تقسیم ہوگیا) حضور ﷺ نے فرمایا: وہ سب باقی ہے اس شا نہٗ کے سوا۔
فائدہ:
مقصد یہ ہے کہ جو اللہ کے لیے خرچ کر دیا گیا وہ حقیقت میں باقی ہے کہ اس کا دائمی ثواب باقی ہے۔ اور جو رہ گیا وہ فانی ہے، نہ معلوم باقی رہنے والی جگہ خرچ ہو یا نہ ہو۔ صاحبِ ’’مظاہر‘‘ کہتے ہیں کہ اس میں اشارہ ہے اللہ  کے اس پاک ارشاد کی طرف  
{ مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ} ( النحل: ع  ۱۳)  
جو کچھ تمہارے پاس دنیا میں ہے وہ ایک دن ختم ہو جائے گا (چاہے اس کے زوال سے ہو یا تمہاری موت سے) اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔
ایک حدیث میں حضورِ اقدسﷺکا پاک ارشاد وارد ہوا ہے کہ بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال۔ اس کے سوا دوسری بات نہیں ہے کہ اس کامال وہ ہے جو کھا کر ختم کر دیا، یا پہن کر پرانا کر دیا، یا اللہ کے راستے میں خرچ کرکے اپنے لیے ذخیرہ بنا لیا، اور اس کے علاوہ جو رہ گیا وہ جانے والی چیز ہے جس کو وہ لوگوں کے لیے چھوڑ کر چلا جائے گا۔ (مسلم)
ایک اور حدیث میں ہے حضورِ اقدسﷺ نے ایک مرتبہ صحابۂ کرام?سے دریافت فرمایا کہ تم میں سے کون شخص ایسا ہے جس کو اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! ایسا تو کوئی بھی نہیں ہے، ہر شخص کو اپنا مال زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ آدمی کا اپنامال وہ ہے جس کو (ذخیرہ بنا کر) آگے بھیج دیا اور جو مال چھوڑ گیا وہ وارث کامال ہے۔ (مشکاۃ المصابیح عن البخاری)
ایک صحابی کہتے ہیں کہ میں حضورِ اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سور ۂ اَلْھٰکُمُ التَّکَاثُرُتلاوت فرمائی پھر ارشاد فرمایا: آدمی کہتا ہے میرا مال میرا مال۔ او آدمی! تیرے لیے اس کے سوا کچھ نہیں جو کچھ کھا کر ختم کر دے یا پہن کر پرانا کردے یا صدقہ کرکے آگے چلتا کر دے تاکہ اللہ کے خزانہ میں محفوظ رہے۔ (مشکاۃ المصابیح عن مسلم)
متعدد صحابۂ کرام? سے اس قسم کے مضامین کی روایتیں نقل کی گئیں۔ لوگوں کو دنیا کے بینک میں روپیہ جمع کرانے کا بڑا اہتمام ہوتا ہے، لیکن وہی کیا ساتھ رہنے والا ہے۔ اگر اپنی زندگی ہی میں اس پر کوئی آفت نہ بھی آئے تو مرنے کے بعد بہرحال وہ اپنے کام آنے والا نہیں ہے، لیکن اللہ کے بینک میں جمع کیا ہوا روپیہ ہمیشہ کام آنے والا ہے۔ نہ اس پر کوئی آفت ہے نہ زوال۔ اور مزید برآں کہ کبھی ختم ہونے والا نہیں۔
حضرت سہل بن عبداللہ تُستَری  ؒ اپنے مال کو اللہ کے راستہ میں بڑی کثرت سے خرچ کرتے تھے۔ ان کی والدہ اور بھائیوں نے حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ سے اس کی شکایت کی کہ یہ سب کچھ خرچ کرنا چاہتے ہیں ہمیں ڈر ہے کہ یہ چند روز میں فقیر ہو جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ نے حضرت سہل ؒ سے دریافت کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ آپ ہی بتائیں کہ اگر کوئی مدینہ طیبہ کا رہنے والا رُستاق میں (جو ملکِ فارس کا ایک شہر ہے) زمین خرید لے اور وہاں منتقل ہوناچاہے، وہ مدینہ طیبہ میں اپنی کوئی چیز چھوڑے گا؟ انھوں نے فرمایا کہ نہیں۔ کہنے لگے: بس یہی بات ہے۔ لوگوں کو ان کے جواب سے یہ خیال ہوگیا کہ وہ دوسری جگہ انتقالِ آبادی کرنے کا ارادہ کر رہے ہیں۔ (تنبیہ الغافلین)
اوران کی غرض دوسرے عالم کو انتقال تھی، اور آج کل تو ہرشخص کو اس کا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ جو لوگ ہند سے پاکستان یا پاکستان سے ہند میں مستقل قیام کی نیت سے انتقالِ آبادی اپنے اختیار سے کرنا چاہتے ہیں وہ اپنے جانے سے پہلے ہی اپنی جائداد مکانات وغیرہ سب چیزوں کے تبادلہ کی کتنی کوشش کرتے ہیں۔ اور اتنے تبادلہ مکمل نہیں ہوجاتا ساری تکالیف برداشت کرنے کے باوجود انتقالِ آبادی کا ارادہ نہیں کرتے۔ اور جو بلا اختیار جبری طور پر ایک جگہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر دوسری جگہ منتقل ہوگئے ہیں ان کی حسرت و افسوس کی نہ کوئی انتہا ہے نہ خاتمہ۔ یہی صورت بعینہٖ ہر شخص کی اس عالم سے انتقال کی ہے۔ ابھی تک ہر شخص کواپنے سامان جائداد وغیرہ سب چیز کے انتقال کا اختیار ہے، لیکن جب موت سے جبری انتقال ہوجائے گا سب کچھ اس عالم میں رہ جائے گا اور گویا بحقِ سرکار ضبط ہو جائے گا۔ ابھی وقت ہے کہ سمجھ رکھنے والے اپنے سامان کو دوسرے عالم میں منتقل کرلیں۔



۲۱۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلَا َیُوْذِ جَارَہُ، وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَقُلْ خَیْرًا أَوْ لِیَصْمُتْ۔ وَفِيْ رِوَایَۃٍ بَدْلَ الْجَارِ: وَمَنْ کَانَ یُؤْمِنُ
ترجمہ:
حضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے اور اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور زبان سے کوئی  بات نکالے توبھلائی کی بات نکالے ورنہ چپ رہے۔ اور دوسری روایت میںہے کہ صلہ رحمی کرے۔
بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیَصِلْ رَحِمَہُ۔متفق علیہ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔
فائدہ:
اس حدیثِ پاک میں حضورِ اقدسﷺ نے کئی امور پر تنبیہ فرمائی اور ہر مضمون کو حضورﷺ نے اس ارشاد کے ساتھ ذکر فرمایا کہ ’’جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے ‘‘۔ ترجمہ میں اختصار کی وجہ سے شروع ہی میں ذکر پر اِکتفا کیا گیا۔ ہر ہرجملہ کے ساتھ اس کو ذکر فرمانے سے مقصود ان اُمور کی اہمیت اور تاکید ہے۔ جیسا کوئی شخص اپنی اولاد میں سے کسی کو کہے کہ اگر تو میرا بیٹا ہے تو فلاں کام کر دے۔ مقصد اس تنبیہ سے یہ ہے کہ یہ چیزیں کامل ایمان کے افراد ہیں جو ان کا اہتمام نہ کرے اس کا ایمان بھی کامل نہیں۔ (مظاہرِ حق)
اور اللہ پر ایمان اور آخرت پر ایمان کے ذکر میں خصوصیت غالبًا اس وجہ سے ہے کہ اللہ  پر ایمان بغیر تو آخرت میں کسی نیکی کا کوئی ثواب ہی نہیں، اور اللہ پر ایمان میں آخرت پر ایمان خود آگیا تھا، پھر اس کو خصوصیت سے غالبًا اس لیے ذکر فرمایا کہ یہ تنبیہ اور ثواب کی نیت پر شوق دلانا ہے کہ ان اُمور کا حقیقی بدلہ اور ثواب آخرت کے دن ملے گا، جس دن یہ معلوم ہوگا کہ دنیا کی ذرا ذرا سی چیز اور عمل پر اللہ کے یہاں کتنا کتنا اجر و ثواب ہے۔
اس کے بعد حضورﷺ نے اس حدیثِ پاک میں چارچیزوں پر تنبیہ فرمائی۔ پہلی چیز مہمان کا اِکرام ہے، وہی اس جگہ بندہ کا اس روایت کے ذکر کرنے سے مقصود ہے۔ اس کی توضیح آیندہ حدیث میں آئے گی۔ دوسرا مضمون پڑوسی کو ایذا نہ دینے کے متعلق ہے۔ اس حدیث شریف میں ادنیٰ درجہ کا حکم کیا گیا کہ پڑوسی کو ایذا نہ پہنچائے۔ یہ بہت ہی ادنیٰ درجہ ہے۔ ور نہ روایات میں پڑوسی کے حق کے متعلق بہت زیادہ تاکیدیں وارد ہوئی ہیں۔ شیخین کی بعض روایات میں فَلْیُکْرِمْ جَارَہ وارد ہوا ہے۔ یعنی پڑوسی کا اکرام کرے۔ اور شیخین کی بعض روایات میں فَلْیُحْسِنْ إِلَی جَارِہٖ آیا ہے کہ اس کے ساتھ احسان کا معاملہ کرے۔ یعنی جس چیز کا وہ محتاج ہو اس میں اس کی اِعانت کرے ،اس سے برائی کو دفع کرے۔
ایک حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد وارد ہوا ہے:جانتے ہو کہ پڑوسی کا کیا حق ہے ؟ اگر وہ تجھ سے مدد چاہے تو اس کی مدد کر، اگر قرض مانگے تو اس کو قرض دے، اگر محتاج ہو تو اس کی اِعانت کر، اگر بیمار ہو تو عیادت کر، اگر وہ مرجائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ جا، اگر اس کو خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دے، اگر مصیبت پہنچے تو تعزیت کر، بغیر اس کی اجازت کے اس کے مکان کے پاس اپنا مکان اونچا نہ کر جس سے اس کی ہوا رُک جائے، اگر تو کوئی پھل خریدے تو اس کو بھی ہدیہ دے، اور اگر یہ نہ ہوسکے تو اس پھل کو ایسی طرح پوشیدہ گھر میں لاکہ وہ نہ دیکھے اور اس کو تیری اولاد باہر لے کر نہ نکلے تاکہ پڑوسی کے بچے اس کو دیکھ کررنجیدہ نہ ہوں، اور اپنے گھر کے دھوئیں سے اس کو تکلیف نہ پہنچا مگر اس صورت میں کہ جو پکائے اس میں سے اس کا بھی حصہ لگالے۔ تم جانتے ہو کہ پڑوسی کا کتنا حق ہے؟ قسم ہے اس پاک ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! کہ اس کے حق کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا جس پر اللہ رحم کرے۔ روایت کیا اس کو غزالی ؒ نے ’’اربعین‘‘ میں۔ (مظاہرِ حق بتغیُّر) حافظ ابنِ حجر ؒنے ’’فتح الباری‘‘ میں بھی اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ حضورِ اقدسﷺ نے (تین مرتبہ) فرمایا: خدا کی قسم! مؤمن نہیں ہے۔ خدا کی قسم! مؤمن نہیں ہے۔ خدا کی قسم! مؤمن نہیں ہے۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کون شخص؟ حضورﷺ نے فرمایا: جس کا پڑوسی اس کی مصیبتوں (اور بدیوں) سے مامون نہ ہو۔ (مشکاۃ المصابیح عن الشیخین)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جنت میں وہ شخص داخل نہ ہوگا جس کا پڑوسی اس کی مصیبتوں سے مامون نہ ہو۔ حضرت ابنِ عمر اور حضرت عائشہ ? دونوں حضرات حضورِاقدسﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ حضرت جبرئیل ؑ مجھے پڑوسی کے بارہ میں اس قدر تاکید کرتے رہے کہ مجھے ان کی تاکیدوں سے یہ گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا کررہیں گے۔ (مشکاۃ المصابیح) حق تعالیٰ سبحانہ ٗوتقدس کا پاک ارشاد ہے:
{وَاعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی  وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ  بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ}
( النساء :ع ۶)
ترجمہ:
تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اختیار کرو، اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو، اور اپنے والدین کے ساتھ اچھا معاملہ کرو، اور دوسرے اہلِ قرابت کے ساتھ بھی، اور  یتیموں کے ساتھ اور غربا کے ساتھ اور پاس والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور دور والے پڑوسی کے ساتھ بھی اور ہم مجلس کے ساتھ بھی اور مسافر کے ساتھ بھی۔
فائدہ:
’’پاس والے پڑوسی‘‘ سے مراد یہ ہے کہ اس کامکان قریب ہو۔ اور ’’دُور کے پڑوسی‘‘ سے مراد یہ ہے اس کا مکان دُور ہو۔ حسن بصری ؒ سے کسی نے پوچھا کہ پڑوس کہاں تک ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ چالیس مکان آگے کی جانب اور چالیس پیچھے کی جانب، چالیس دائیں اور چالیس بائیں جانب۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے نقل کیا گیا کہ دور کے پڑوسی سے اِبتدا نہ کی جائے بلکہ پاس کے پڑوسی سے ابتدا کی جائے۔ حضرت عائشہؓ نے حضو رِ اقدسﷺ سے دریافت کیا کہ میرے دو پڑوسی ہیں کس سے ابتدا کرو ں؟ حضورﷺ نے فرمایا: جس کا دروازہ تیرے دروازہ سے قریب ہو۔حضرت ابنِ عباس? سے مختلف طریق سے نقل کیا گیا کہ پاس کاپڑوسی وہ ہے جس سے قرابت ہو اوردور کا پڑوسی وہ ہے جس سے قرابت نہ ہو۔ نوف شامی ؒسے نقل کیا گیا کہ پاس کا پڑوسی مسلمان پڑوسی ہے اور دُور کا پڑوسی یہود و نصاریٰ، یعنی غیر مسلم۔ (دُرِّمنثور)
’’مُسند ِبزّار‘‘ وغیرہ میں حضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد نقل کیا گیا کہ پڑوسی تین طرح کے ہیں۔ ایک وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوں۔ پڑوس کا حق، رشتہ داری کا حق اور اسلام کا حق۔ دوسری قسم وہ ہے جس کے دو حق ہوں۔ پڑوس کا حق اور اسلام کا حق۔ تیسری قسم وہ ہے جس کا ایک ہی حق ہو، وہ غیر مسلم پڑوسی ہے۔ (حاشیۃ الجمل) گویا پڑوس کے تین درجے ترتیب وار ہوگئے۔ امام غزالی  ؒ نے بھی اس حدیث شریف کو نقل فرمایا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ دیکھو اس حدیث شریف میں محض پڑوسی ہونے کی وجہ سے مشرک کا حق بھی مسلمان پر قائم فرمایا ہے۔
ایک اور حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے دو پڑوسیوں میں فیصلہ کیا جائے گا۔ ایک شخص حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے پاس آئے اور اپنے پڑوسی کی کثرت سے شکایت کرنے لگے۔ حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا جائو (اپنا کام کرو) اگر اس نے تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ شا نہٗ کی نافرمانی کی (کہ تم کو ستایا) تو تم تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ شا نہٗ کی نافرمانی نہ کرو۔
ایک صحیح حدیث میں آیا ہے کہ حضورِ اقدسﷺکی خدمت میں ایک عورت کا حال بیان کیا گیا کہ وہ روزے بھی کثرت سے رکھتی ہے، تہجد بھی پڑھتی ہے، لیکن اپنے پڑوسیوں کو ستاتی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: وہ جہنم میں داخل ہوگی۔ (چاہے پھر سزا بھگت کر نکل آئے) امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ پڑوسی کا حق صرف یہی نہیں کہ اس کو تکلیف نہ دی جائے، بلکہ اس کاحق یہ ہے کہ اس کی تکلیف کو برداشت کیا جائے۔ حضرت ابنِ المقُفَّع  ؒ اپنے پڑوسی کی دیوار کے سایہ میں اکثر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ ان کو معلوم ہوا کہ اس کے ذمہ قرض ہوگیا جس کی وجہ سے وہ اپنا گھر فروخت کرنا چاہتا ہے، فرمانے لگے کہ ہم اس کے گھر کے سایہ میں ہمیشہ بیٹھے، اس کے سایہ کا حق ہم نے کچھ ادا نہ کیا۔ یہ کہہ کر اس کے گھر کی قیمت اس کو نذر کر دی اور فرمایا کہ تمہیں قیمت وصول ہوگئی، اب اس کو فروخت کرنے کا ارادہ نہ کرنا۔ حضرت ابنِ عمر? کے غلام نے ایک بکری ذبح کی۔ حضرت ابنِ عمر? نے فرمایا کہ جب اس کی کھال نکال چُکو تو سب سے پہلے اس کے گوشت میں سے میرے یہودی پڑوسی کو دینا۔ کئی دفعہ یہی لفظ فرمایا۔ غلام نے عرض کیا کہ آپ کتنی مرتبہ اس کو فرمائیں گے؟ حضرت ابنِ عمر ? نے فرمایا کہ میں نے حضورِ اقدسﷺ سے سنا وہ فرماتے تھے کہ مجھے حضرت جبرئیل ؑ بار بار پڑوسی کے متعلق تاکید فرماتے رہے۔ (اس لیے میں بار بار کہہ رہا ہوں)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ مکارمِ اخلاق دس چیزیں ہیں۔ بسا اوقات یہ چیزیں بیٹے میں ہو جاتی ہیں باپ میں نہیں ہوتیں، غلام میں ہو جاتی ہیں آقا میں نہیں ہوتیں، حق تعالیٰ شا نہٗ کی عطا ہے جس کو چاہے عطا کر دیں۔ ۱۔ سچ بولنا  ۲۔ لوگوں کے ساتھ سچائی کا معاملہ کرنا(دھوکہ نہ دینا )  ۳۔ سائل کو عطا کرنا  ۴۔ احسان کا بدلہ دینا  ۵۔ صلہ رحمی کرنا  ۶۔امانت کی حفاظت کرنا  ۷۔ پڑوسی کا حق ادا کرنا  ۸۔ ساتھی کا حق ادا کرنا  ۹۔ مہمان کا حق ادا کرنا  ۱۰۔ ان سب کی جڑ اور اصلِ اُصول حیا ہے۔ (اِحیاء العلوم)
تیسرا مضمون حدیثِ بالا میں یہ ہے کہ جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ خیر کی بات زبان سے نکالے یا چپ رہے۔ حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کا یہ پاک ارشاد جامع کلمہ ہے۔ اس لیے کہ جو بات کہی جائے وہ یا خیر ہوگی یا شر۔ اور خیر میں ہر وہ چیز داخل ہے جس کا کہنا مطلوب ہے فرض ہو یا مستحب۔ اس کے علاوہ جو رہ گیا وہ شر ہے۔ (فتح الباری) یعنی اگر کوئی ایسی بات ہو جو بظاہر نہ خیر معلوم ہوتی ہو نہ شر، وہ حافظ ؒ کے کلام کے موافق شر میں داخل ہو جائے گی۔ اس لیے کہ جب کوئی فائدہ اس سے مقصود نہیں تو لغوہوئی، وہ خود شر ہے۔
حضرت اُمِ حبیبہؓ نے حضورِ اقدسﷺ کاارشاد نقل کیا کہ آدمی کا ہر کلام اس پر وبال ہے کوئی نفع دینے والی چیز نہیں، بجز اس کے کہ بھلائی کا حکم کرے یا برائی سے روکے یا اللہ کاذکر کرے۔ اس حدیث کو سن کر ایک شخص کہنے لگے: یہ حدیث تو بڑی سخت ہے۔ حضرت سفیان ثوری ؒ نے فرمایا کہ اس میں حدیث کی سختی کی کیا بات ہے یہ تو خود اللہ نے قرآن شریف میں فرمایا:
{لاَ خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰھُمْ الاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍ م  بَیْنَ النَّاسِط وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًا عَظِیْمًا o}
( النساء : ع ۱۷)
ترجمہ:
لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں خیر نہیں ہوتی، ہاں مگر جو لوگ ایسے ہیں کہ خیرات یا کسی نیک کام کی یا لوگوں میں باہم اصلاح کر دینے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے واسطے یہ کام کرے گا ہم اس کو عن قریب بہت زیادہ اجر عطا کریں گے۔
حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں: میں نے حضورﷺ سے عرض کیا: مجھے کچھ وصیت فرما دیجیے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہیں اللہ کے خوف کی وصیت کرتا ہوں کہ یہ تمہارے ہر کام کے لیے زینت ہے۔ میں نے عرض کیا: کچھ اور۔ ارشاد فرمایا کہ قرآن شریف کی تلاوت اور اللہ کے ذکر کا اہتمام کہ جو آسمانوں میں تمہارے ذکر کا سبب ہے اور زمین میں تمہارے لیے نور ہے۔ میں نے اور زیادتی چاہی توارشاد فرمایا کہ سکوت بہت کثرت سے رکھاکرو، یہ شیطان کے دُور رہنے کا ذریعہ ہے اور دینی کاموں میں مددکا سبب ہے۔ میں نے اور زیادتی چاہی تو فرمایا کہ ہنسنے کی زیادتی سے اِحتراز کرو، اس سے دل مر جاتا ہے اور منہ کی رونق کم ہو جاتی ہے۔ میں نے عرض کیا: اور کچھ۔ فرمایا: حق بات کہو چاہے کڑوی ہی کیوں نہ ہو۔ میں نے عرض کیا: اور کچھ۔ فرمایا: اللہ کے معاملہ میں کسی کا خوف نہ کرو۔ میں نے عرض کیا: اور کچھ۔ فرمایا کہ تمہیں اپنے عیوب (کا فکر) لوگوں کے عیوب کو دیکھنے سے روک دے۔ (دُرِّمنثور)
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ زبان اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک نعمت اور اس کی غریب و لطیف صنعتوں میں سے ایک صنعت ہے۔اس کا جُثَّہ چھوٹا ہے، لیکن اس کی اِطاعت اور گناہ بہت بڑے ہیں، حتیٰ کہ کفر و اسلام جو گناہ اور اِطاعت میں دو آخری کناروں پر ہیں اسی سے ظاہر ہوتے ہیں۔ اس کے بعد اس کی بہت سی آفتیں شمار کی ہیں۔ بے کار گفتگو، بے ہودہ باتیں، جنگ و جدل، منہ پھیلا کر باتیں کرنا، مقفّٰی عبارتوں اور فصاحت میں تکلف کرنا، فحش بات کرنا، گالی دینا، لعنت کرنا، شعر و شاعری میں اِنہماک، کسی کے ساتھ تمسخر کرنا، کسی کا راز ظاہر کرنا، جھوٹا وعدہ کرنا، جھوٹ بولنا، جھوٹی قسم کھانا، کسی پر تعریض کرنا، تعریض کے طورپرجھوٹ بولنا، غیبت کرنا، چغل خوری کرنا، دو رنگی باتیں کرنا، بے محل کسی کی تعریف کرنا، بے محل سوال کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اتنی کثیر آفتیں اس چھوٹی سی چیز کے ساتھ وابستہ ہیں کہ ان کا مسئلہ نہایت خطرناک ہے۔ اسی وجہ سے حضورِ اقدسﷺ نے چپ رہنے کی بہت ترغیب فرمائی ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جوشخص چپ رہا وہ نجات پاگیا۔
ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اسلام کے بارہ میں ایسی چیز بتا دیجیے کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے پو چھنا نہ پڑے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ پر ایمان لائو اور اس پر استقامت رکھو۔ انھوں نے عرض کیا: حضور! میں کس چیز سے بچوں؟ حضورﷺ نے فرمایا: اپنی زبان سے۔ ایک اور صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! نجات کی کیا صورت ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ اپنی زبان کو روکے رکھو، اپنے گھر میں رہو، (فضول باہر نہ پھرو )اور اپنی خطائوں پر روتے رہو۔ ایک حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد نقل کیا گیا کہ جو شخص دو چیزوں کا ذمہ لے لے میں اس کے لیے جنت کا ذمہ دار ہوں۔ ایک زبان دوسری شرم گاہ۔ ایک حدیث میں ہے: حضورِ اقدسﷺ سے سوال کیا گیا کہ جو چیزیں جنت میں داخل کرنے والی ہیں ان میں سب سے اہم کیا چیز ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: اللہ کا خوف اور اچھی عادتیں۔ پھر عرض کیا گیا کہ جہنم میں جو چیزیں داخل کرنے والی ہیں ان میںا ہم چیز کیا ہے؟ حضورﷺنے فرمایا: منہ اور شرم گاہ۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ صفا و مروہ کی سعی کر رہے تھے اور اپنی زبان کو خطاب کرکے فرماتے تھے: اے زبان! اچھی بات کہہ نفع کمائے گی اور شر سے سکوت کر سلامت رہے گی اس سے پہلے کہ شرمندہ ہو۔ کسی نے پوچھا کہ یہ جو کچھ آپ فرما رہے ہیں اپنی طرف سے فرما رہے ہیں یا آپ نے اس بارہ میں کچھ حضورِ اقدسﷺ سے سنا ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضو ر ﷺ سے سنا ہے کہ آدمی کی خطائوں کا اکثر حصہ اس کی زبان میں ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر? حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اپنی زبان کو روکے رہے اللہ  اس کی عیب پوشی کرتے ہیں۔ اور جو شخص اپنے غصہ پر قابو رکھے اللہ اس کو اپنے عذاب سے محفوظ فرماتے ہیں۔ اور جو شخص اللہ کی بارگاہ میں معذرت کرتا ہے حق تعالیٰ شا نہٗ اس سے عذر کو قبول فرماتے ہیں۔
حضرت معاذؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کچھ وصیت فرمائیں۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا کہ اس کو دیکھ رہے ہو اور اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کرو اور اگر تم کہو تو میں وہ چیز بتائوں جس سے ان چیزوں پر سب سے زیادہ قدرت حاصل ہو جائے؟ اور یہ فرما کر اپنی زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔ (اِحیاء العلوم)
حضرت سلیمان علی نبینا و علیہ السلام سے نقل کیا گیا کہ اگر کلام چاندی ہے تو سکوت سونا ہے۔ حضرت لقمان حکیم  ؑ جو اپنی حکمت اور دانائی کی وجہ سے دنیا میں مشہور ہیں ایک حبشی غلام نہایت بدصورت تھے، مگر اپنی حکمتوں کی وجہ سے مقتدائے عالم تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ تُو فلاں شخص کا غلام نہیںہے؟ انھوں نے فرمایا: بیشک ہوں۔ پھر اس نے کہا کہ تُو فلاں پہاڑ کے نیچے بکریاں نہ چراتا تھا؟ انھوں نے فرمایا: صحیح ہے۔ پھر اس نے کہا کہ پھر یہ مرتبہ کس بات سے ملا؟ انھوں نے فرمایا: (چار چیزوں سے) اللہ کا خوف، بات میں سچائی، امانت کا پورا پورا ادا کرنا اور بے فائدہ بات سے سکوت۔ اور بھی متعدد روایات میں ان کی خصوصی عادت کثرتِ سکوت ذکر کی گئی۔ (دُرِّمنثور)
حضرت براءؓ فرماتے ہیں کہ ایک بَدّو نے آکر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ایسا عمل بتا دیجیے جو جنت میں لے جانے والا ہو۔ حضورﷺ نے فرمایا: بھوکے کو کھانا کھلائو، پیاسے کو پانی پلائو، اچھی باتوں کا لوگوں کو حکم کرو اور بری باتوں سے روکو۔ اور یہ نہ ہو سکے تو اپنی زبان کو بھلی بات کے علاوہ بولنے سے روکے رکھو۔ حضورِ اقدسﷺ کاپاک ارشاد ہے کہ اپنی زبان کو خیر کے علاوہ سے محفوظ رکھو کہ اس کے ذریعہ سے تم شیطان پر غالب رہو گے۔
یہ چند روایات مختصراً ذکر کی ہیں۔ ان کے علاوہ بہت سی روایات اور آثار ہیں جن کو امام غزالی ؒ نے ذکر کیا اور علامہ زَبیدی ؒ اور حافظ عراقی ؒ نے ان کی تخریج کی ہے۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ زبان کا مسئلہ اہم مسئلہ ہے جس سے ہم لوگ بالکل غافل ہیں، جو چاہا زبان سے کہہ دیا، حالاںکہ اللہ کے دو نگہبان ہر وقت دن اور رات، دائیں اور بائیں مونڈھوں پر موجود رہتے ہیں، جو ہر بھلائی اور برائی کو لکھتے ہیں۔
 اس سب کے بعد اللہ اور اس کے پاک رسولﷺ کا کیا کیا احسان ذکر کیا جائے، آدمی سے بے اِلتفاتی میں فضول بات نکل ہی جاتی ہے، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: کفارہ مجلس کا یہ ہے کہ اٹھنے سے قبل تین مرتبہ یہ دعا پڑھ لے: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰـہَ إِلاَّ أَنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْک۔ (حصن حصین) ایک حدیث میں ہے کہ حضورِاقدسﷺ اَخیر میں ان کلمات کو پڑھا کرتے تھے، کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ پہلے تو ان کلمات کو نہیں پڑھتے تھے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ کلمات مجلس کا کفارہ ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے حضورﷺ نے فرمایا: چند کلمے ایسے ہیں کہ جو شخص مجلس سے اٹھنے کے وقت تین مرتبہ ان کوپڑھے تووہ مجلس کی گفتگو کے لیے کفارہ ہو جاتے ہیں، اور اگر مجلسِ خیر میں پڑھے جائیں تو اس مجلس (کے خیر ہونے) پر ان سے مہر لگ جاتی ہے جیسا کہ خط کے ختم پر مہر لگائی جاتی ہے۔ وہ کلمات یہ ہیں: سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَآ إِلٰـہَ إِلاَّ أَنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْکَ۔ (ابوداود)
چوتھا مضمون حدیثِ بالا میں صلہ رحمی کے متعلق ہے، اس کا مفصل بیان آیندہ فصلوں میں آرہا ہے۔



۲۲۔ عَنْ أَبِيْ شُرَیْحٍ الْکَعْبِيِّ ؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ، جَائِزَتُہُ یَوْمٌ وَلَیْلَۃٌ وَالضِّیَافَۃُ ثَلَاثَۃُ أَیَّامٍ، فَمَا بَعْدَ ذٰلِکَ فَھُوَ صَدَقَۃٌ، وَلاََ یَحِلُّ لَہُ أَنْ یَّثْوِيَ عِنْدَہُ حَتَّی یُحْرِجَہُ۔ 
متفق علیہ کذا في مشکاۃ المصابیح۔
ترجمہ:

حضورِ اقدس ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ جوشخص اللہ  پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مہمان کا اِکرام کرے۔ مہمان کا جائزہ ایک دن رات ہے اور مہمانی تین دن رات۔ اور مہمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ اتنا طویل قیام کرے جس سے میزبان مشقت میں پڑجائے۔
فائدہ:
اس حدیث شریف میں حضورِ اقدسﷺ نے دو ادب ارشاد فرمائے۔ ایک میزبان کے متعلق اور دوسرا مہمان کے متعلق۔ میزبان کا ادب یہ ہے کہ اگر وہ اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، جیسا کہ پہلی حدیث میں گزر چکا ہے، تو اس کو چاہیے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔ اور مہمان کا اکرام یہ ہے کہ کشادہ روئی اور خوش خُلُقی سے پیش آئے، نرمی سے گفتگو کرے۔ (مظاہرِ حق) ایک حدیث میں ہے کہ سنت یہ ہے کہ آدمی مہمان کے ساتھ گھر کے دروازہ تک مشایعت کے لیے جائے۔ (مشکاۃ المصابیح)
حضرت عقبہؓحضورِ اقدسﷺ کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص مہمانی نہ کرے اس میں کوئی خیر نہیں۔ حضرت سمرہؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ مہمان کی ضیافت کا حکم فرمایا کرتے تھے۔(مجمع الزوائد) ایک شخص نے دیکھا کہ حضرت علیؓ رو رہے ہیں، اس نے سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ سات دن سے کوئی مہمان نہیں آیا، مجھے اس کا ڈر ہے کہ کہیں حق تعالیٰ شا نہٗ نے میری اِہانت کا ارادہ تو نہیں کرلیا۔ (اِحیاء العلوم)
حضورِ اقدسﷺ نے حدیثِ بالا میں مہمان کے اِکرام کا حکم فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا ہے کہ اس کا جائزہ ایک دن رات ہے۔ اس کی تفسیر میں علماء کے چند قول ہیں۔ حضرت امام مالک  ؒ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ اس سے مراد اِکرام و اِعزاز اور خصوصی تحفے ہیں۔ یعنی ایک دن رات تو اس کے اِعزاز میں اچھا کھانا تیار کرے اور باقی اَیّام میں معمولی مہمانی۔ اس کے بعد پھر علماء کے اس میں دو قول ہیں کہ تین دن کی مہمانی جو حضورﷺ کے پاک ارشاد میں وارد ہوئی ہے وہ اس ایک دن کے بعد ہے، یعنی مہمان کا حق کل چار دن ہوگئے، یا وہ ایک دن خصوصی اِعزاز کا بھی انھی تین دن میں داخل ہے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ جائزہ سے مراد ناشتہ ہے راستہ کا۔ اور حاصل یہ ہے کہ اگر مہمان قیام کرے تو تین دن کی مہمانی ہے اور قیام نہ کرسکے تو ایک دن کا ناشتہ۔ (فتح الباری)
تیسرا مطلب یہ ہے کہ جائزہ سے مراد تو ناشتہ ہی ہے، لیکن اس کا مطلب علماء نے یہ لکھا ہے کہ تین دن کی مہمانی اور چوتھے دن رخصت کے وقت ایک دن کا ناشتہ ۔
چوتھا مطلب یہ ہے کہ جائزہ سے مراد گزر ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ جو شخص مستقل ملاقات کے لیے آئے اس کا حق تین دن قیام کا ہے اور جو راستہ میں گزرتے ہوئے ٹھہر جائے کہ اصل مقصود آگے جانا تھا یہ جگہ راستہ میں پڑگئی، اس لیے یہاں بھی قیام کرلیا، تو اس کے قیام کا حق صرف ایک دن ہے۔ (الترغیب والترہیب)
اور ان سب اقوال کا خلاصہ مختلف حیثیت سے مہمان کے اِکرام کا اہتمام ہی ہے کہ ایک دن کا اس کا خصوصی اہتمام کھانے کا کرے اور روانگی کے وقت ناشتہ کا بھی بالخصوص ایسے راستوں میں جہاں راستہ میں کھانا نہ مل سکتا ہو۔
دوسرا اَدب حدیثِ بالا میں مہمان کے لیے ہے کہ کہیں جاکر اتنا طویل قیام نہ کرے جس سے میزبان کو تنگی اور دِقّت پیش آئے۔ ایک اور حدیث میں اس لفظ کی جگہ یہ اِرشاد ہے کہ اتنا نہ ٹھہرے کہ میزبان کو گناہ گار بنا دے۔ یعنی یہ کہ اس کے طویل قیام کی وجہ سے میزبان اس کی غیبت کرنے لگے یا کوئی ایسی حرکت کرے جس سے مہمان کو اَذیت ہو یا مہمان کے ساتھ کسی قسم کی بدگمانی کرنے لگے کہ یہ سب اُمور میزبان کو گناہ گار بنانے والے ہیں، لیکن یہ سب کچھ اس صورت میں ہے کہ میزبان کی طرف سے مہمان کے قیام پر اِصرار اور تقاضا نہ ہو یا اس کے اندازسے غالب گمان یہ ہو کہ زیادہ قیام اس پر گراں نہیں ہے۔
ایک حدیث میں ہے: کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا چیز ہے جو اس کو گناہ میں ڈالے؟ حضورﷺ نے فرمایا: اس کے پاس اتنا قیام کرے کہ میزبان کے پاس اس کے کھلانے کو کچھ نہ ہو۔ حافظ ؒ کہتے ہیں کہ اس میں حضرت سلمانؓ کا اپنے مہمان کے ساتھ ایک قصہ پیش آیا۔ (فتح الباری) جس قصہ کی طرف حافظ ؒ نے اشارہ کیا ہے امام غزالی ؒ نے اس کو نقل کیا ہے۔ حضر ت ابووائل ؒکہتے ہیں کہ میں اور میرا ایک ساتھی حضرت سلمانؓ کی زیارت کے لیے گئے۔ انھوں نے جو کی روٹی اور نیم کو فتہ نمک ہمارے سامنے رکھا۔ میرا ساتھی کہنے لگا کہ اگر اس کے ساتھ سَعْتَر (پودینہ کی ایک قسم ہے) ہوتا تو بڑا لذیذ ہوتا۔ حضرت سلمانؓ تشریف لے گئے اور وضو کا لوٹا رہن رکھ کر سعتر خرید کر لائے۔ جب ہم کھاچکے تومیرے ساتھی نے کہا : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ قَنَّعَنَا بِمَا رَزَقَنَا۔ (سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں ماحضر پر قناعت کی توفیق عطا فرمائی) حضرت سلمانؓ نے فرمایا اگر تمہیں ماحضر پر قناعت ہوتی تو میرا لوٹا گروی نہ رکھا جاتا۔ (اِحیاء العلوم) 
حاصل یہ ہے کہ میزبان سے ایسی فرمایشیں کرنا جس سے اس کو دِقّت ہو یہ بھی یُحْرِجُہُ (میزبان کو تنگی میں ڈالنے) میں داخل ہے۔ دوسرے کے گھر جا کر چُناں چُنیں کرنا، یہ چاہیے وہ چاہیے، ہرگز مناسب نہیں ہے۔ جو وہ حاضر کر رہا ہے اس کو صبر و شکر سے بشاشت کے ساتھ کھا لینا چاہیے۔ فرمایشیں کرنا بسا اوقات میزبان کی دِقّت اور تنگی کا سبب ہوتا ہے۔ البتہ اگر میزبان کے حال سے یہ اندازہ ہو کہ وہ فرمایش سے خوش ہوتا ہے۔ مثلاً: فرمایش کرنے والا کوئی محبوب ہو اور جس سے فرمایش کی جائے وہ جان نثار ہو، تو چاہے وہ فرمایش کرے۔
حضرت امام شافعی ؒ بغداد میں زعفرانی( ؒ) کے مہمان تھے اور وہ حضرت امام  ؒ کی خاطر میں روزانہ اپنی باندی کو ایک پرچہ لکھا کرتا تھا جس میںاس وقت کے کھانے کی تفصیل ہوتی تھی۔ حضرت امام شافعی ؒ نے ایک وقت باندی سے پرچہ لے کر دیکھا اور اس میں اپنے قلم سے ایک چیز کا اضافہ فرما دیا۔ دستر خوان پر جب زعفرانی( ؒ) نے وہ چیز دیکھی تو باندی پر اعتراض کیا کہ میں نے اس کے پکانے کو نہیں لکھا تھا۔ وہ پرچہ  لے کر آقا کے پاس آئی اور پرچہ دکھا کر کہا کہ یہ چیز حضرتِ امام ؒ نے خود اپنے قلم سے اضافہ کی تھی۔ زعفرانی( ؒ) نے جب اس کو دیکھا اور حضرت کے قلم سے اس میں اضافہ پر نظر پڑی تو خوشی سے باغ باغ ہوگیا اور اس خوشی میں اس باندی کو آزاد کر دیا۔ (اِحیاء العلوم) اگر ایسا کوئی مہمان ہو اور ایسا میزبان ہو تو یقینًا فرمایش بھی لطف کی چیز ہے۔



۲۳۔ عَنْ أَبِيْ سَعِیْدٍ ؓ أَنَّہ سَمِعَ النَّبِيَّ  ﷺیَقُوْلُ: لَا تُصَاحِبْ إِلاَّ مُؤْمِنًا وَلاََ یَاْکُلْ طَعَامَکَ إِلَّا تَقِيٌّ۔
رواہ الترمذي وأبو داود والدارمي، کذا
ترجمہ:
حضورِ اقدس ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ مسلمان کے علاوہ کسی کے ساتھ مُصاحبت اور ہم نشنیی نہ رکھ، اور تیرا کھانا غیرِ متقی نہ کھائے۔
في مشکاۃ المصابیح، وبسط في تخریجہ صاحب الاتحاف۔
فائدہ:
اس حدیثِ پاک میں حضو رِ اقدسﷺ نے دو آداب ارشاد فرمائے۔ اول یہ کہ ہم نشینی اور نشست و برخاست غیر مسلم کے ساتھ نہ رکھ۔ اگر اس سے کامل مسلمان مراد ہے تب تو مطلب یہ ہے کہ فاسق فاجر لوگوں کے ساتھ مجالست اختیار نہ کر۔ دوسرے جملہ میں چوںکہ متقی کا ذکر ہے اس سے اس مفہوم کی تائید ہوتی ہے، نیز اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ نہ داخل ہوں تیرے گھر میں مگر متقی لوگ۔ (کنزالعمال)اور اگر اس سے مطلقًا مسلمان مراد ہے تو مطلب یہ ہے کہ کافروں کے ساتھ بے ضرورت مجالست اختیار نہ کی جائے۔
 اور ہر صورت میں تنبیہ مقصود ہے اچھی صحبت اختیار کرنے پر۔ اس لیے کہ آدمی جس قسم کے لوگوں میں کثرت سے نشست و برخاست رکھا کرتا ہے اسی قسم کے آثار آدمی میں پیدا ہوا کرتے ہیں۔ اسی بنا پر حضورﷺکا وہ ارشاد ہے جو ابھی گزرا کہ تیرے گھر میں متقیوں کے علاوہ داخل نہ ہوں۔ یعنی ان سے میل جول ہوگا تو ان کے اثرات پیدا ہوں گے۔ حضورﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ صالح ہم نشین کی مثال مشک بیچنے والے کی ہے کہ اگر اس کے پاس بیٹھا جائے تو وہ تجھے تھوڑا سا مشک کا ہدیہ بھی دے دے گا، تُو اس سے خرید بھی لے گا اور دونوں باتیں نہ ہوں تو پاس بیٹھنے کی وجہ سے مشک کی خوشبو سے دماغ معّطر رہے گا۔ (اور فرحت پہنچتی رہے گی) اور برے ساتھی کی مثال لوہار کی بھٹی کے پاس بیٹھنے والے کی ہے کہ اگر اس کی بھٹی سے کوئی چنگاری اڑ کر لگ گئی تو کپڑے جلا دے گی، اور یہ بھی نہ ہو تو بدبو اور دھواں تو کہیں گیا ہی نہیں۔ (مشکاۃ المصابیح)
ایک اور حدیث میں ہے کہ آدمی اپنے دوست کے مذہب پر ہوا کرتا ہے، پس اچھی طرح غورکرلے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح) مطلب یہ ہے کہ پاس بیٹھنے کا اور صحبت کا اثر بے ارادہ رفتہ رفتہ آدمی میں سرایت کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ آدمی اس کا مذہب بھی اختیار کرلیا کرتا ہے۔ اس لیے پاس بیٹھنے والوں کی دینی حالت میں اچھی طرح سے غور کرلینا چاہیے۔ بددینوں کے پاس کثرت سے بیٹھنے سے بددینی آدمی میں پیدا ہوا کرتی ہے۔ روز مرہ کاتجربہ ہے کہ شراب پینے والوں کے، شطرنج کھیلنے والوں کے پاس تھوڑے دن کثرت سے اٹھنا بیٹھنا ہو تو یہ مرض آدمی میں لگ جاتے ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورِ اقدسﷺ نے حضرت ابورَزِینؓ سے فرمایا کہ میں تجھے ایسی چیز بتائوں جس سے اس چیز پر قدرت ہوجائے جو دارَین کی خیر کا سبب ہو؟ اللہ کاذکر کرنے والوں کی مجلس اختیار کر،اور جب تو تنہا ہوا کرے تو جس قدر بھی تو کرسکے اللہ کے ذکر سے اپنی زبان کو حرکت دیتا رہا کر، اور اللہ کے واسطے دوستی کر اور اسی کے لیے دشمنی کر۔ (مشکاۃ المصابیح) یعنی جس سے دوستی یا دشمنی ہو وہ اللہ ہی کی رضا کے واسطے ہو ، اپنے نفس کے واسطے نہ ہو۔
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ جس شخص کی مصاحبت اختیار کرے اس میں پانچ چیزیں ہونا چاہییں۔ اول صاحب عقل ہو۔ اس لیے کہ عقل اصل راس ُالمال ہے، بے وقوف کی مصاحبت میں کوئی فائدہ نہیں ہے، اس کا مآلِ کار وحشت اور قطع رحمی ہے۔ حضرت سفیان ثوری ؒ سے تو یہ بھی نقل کیا گیا کہ احمق کی صورت کو دیکھنا بھی خطا ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ اس کے اخلاق اچھے ہوں کہ جب آدمی کے اخلاق خراب ہوں تو وہ عقل پر بسا اوقات غالب آجاتے ہیں۔ ایک آدمی سمجھ دار ہے، با ت کو خوب سمجھتا ہے، لیکن غصہ، شہوت ،بخل وغیرہ اس کو اکثر عقل کا کام نہیں کرنے دیتے۔ تیسری چیز یہ ہے کہ وہ فاسق نہ ہو۔اس لیے کہ جو شخص اللہ سے بھی نہ ڈرتا ہو اس کی دوستی کا کوئی اعتبار نہیں، نہ معلوم کس جگہ کس مصیبت میں پھنسا دے۔ چوتھی چیز یہ ہے کہ وہ بدعتی نہ ہو کہ اس کے تعلقات سے بدعت کے ساتھ متاثر ہو جانے کا اندیشہ ہے اور اس کی نحوست کے متعدی ہونے کا خوف ہے۔ بدعتی اس کا مستحق ہے کہ اس سے تعلقات اگر ہوں تو منقطع کرلیے جائیں، نہ یہ کہ تعلقات پیدا کیے جائیں۔ پانچویں چیز یہ ہے کہ وہ دنیا کمانے پر حریص نہ ہوکہ اس کی صحبت سمِ قاتل ہے۔ اس لیے کہ طبیعت تشبُّہ اور اِقتدا پر مجبور ہوا کرتی ہے اور مخفی طور پر دوسرے کے اثرات لیا کرتی ہے۔ (اِحیاء العلوم)
 حضرت امام باقر ؒ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد حضرت زین العابدین ؒ نے وصیت فرمائی ہے کہ پانچ آدمیوں کے ساتھ نہ رہنا، ان سے بات بھی نہ کرنا، حتیٰ کہ راستہ چلتے ہوئے ان کے ساتھ راستہ بھی نہ چلنا۔ 
۱۔ فاسق شخص کہ وہ تجھے ایک لقمہ بلکہ ایک لقمہ سے کم میں بھی فروخت کر دے گا۔ میں نے پوچھا کہ ایک لقمہ سے کم میں فروخت کرنے کا کیا مطلب؟ فرمایا کہ ایک لقمہ کی امید پر وہ تجھے فروخت کر دے پھر اس کو وہ لقمہ بھی جس کی امید تھی نہ ملے۔ (محض امید پر فروخت کردے) ۲۔ بخیل کے پاس نہ جائیو کہ وہ تجھ سے ایسے وقت میں تعلق توڑ دے گا جب تو اس کا سخت محتاج ہو۔ ۳۔ جھوٹے کے پاس نہ جائیو کہ وہ بالُو (دھوکہ) کی طرح سے قریب کو دُور اور دُور کو قریب ظاہر کرے گا۔ ۴۔ احمق کے پاس کو نہ گزرنا کہ وہ تجھے نفع پہنچانا چاہے گا اور نقصان پہنچا دے گا۔ ۵۔ قطع رحمی کرنے والے کے پاس کونہ گزریو کہ میں نے اس پر قرآنِ پاک میں تین جگہ لعنت پائی ہے۔ (روض الریاحین)
اثرات کا لینا آدمیوں ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ جس چیز کے ساتھ آدمی کا تلبُّس زیادہ ہوا کرتا ہے اس کے اثرات مخفی طور پر آدمی کے ا ندر آجایا کرتے ہیں۔ حضورِاقدسﷺ سے نقل کیا گیا کہ بکریوں والوں میں مسکنت ہوتی ہے اور فخر و تکبر گھوڑے والوں میں ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ ان دونوں جانوروں میں یہ صفات پائی جاتی ہے۔ اونٹ اور بیل والوں میں شدت او ر سخت دلی بھی وارد ہوئی ہے۔ متعدد روایات میں چیتے کی کھال پر سواری کی ممانعت آئی ہے۔ علماء نے من جملہ دوسری وجوہ کے اس کی ایک وجہ یہ بھی فرمائی ہے کہ مجالست کی وجہ سے اس میں درندگی کی خصلت پیدا ہوتی ہے۔ (کوکب)
دوسرا ادب حدیثِ بالا میں یہ ہے کہ تیرا کھانا متقی لوگ ہی کھائیں۔ یہ مضمون بھی متعدد روایات میں آیا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اپنا کھانا متقی لوگوں کو کھلائو اور اپنے احسان کا مؤمنوں کو مورِد بنائو۔ (اتحاف) علماء نے لکھا ہے کہ اس سے مراد دعوت کا کھانا ہے حاجت کا کھانا نہیں۔ چناںچہ ایک حدیث میں ہے کہ اپنے کھانے سے اس شخص کی ضیافت کرو جس سے اللہ کی وجہ سے محبت ہو۔ (اتحاف) دفعِ حاجت کے کھانے میں حق تعالیٰ شا نہٗ نے قیدیوں کے کھلانے کی بھی مدح فرمائی ہے اور قیدی اس زمانہ کے کافر تھے۔ (مظاہرِ حق) جیسا کہ آیات کے سلسلہ میں نمبر (۳۴) پر یہ مضمون گزرچکا ہے اور احادیث کے سلسلہ میں نمبر(۱۰) پر گزر چکا ہے کہ ایک فاحشہ عورت کی محض اس وجہ سے مغفرت ہوئی کہ اس نے ایک پیاسے کتے کو پانی پلایا تھا۔
اور بھی متعدد روایات میں مختلف مضامین سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ حضورِاقدسﷺ نے توقاعدہ اور ضابطہ فرما دیا کہ ہر جاندار میں اجر ہے۔ اس میں متقی غیر متقی، مسلم کافر، آدمی حیوان،سب ہی داخل ہیں۔ لہٰذا اِحتیاج اور ضرورت کے کھانے میں یہ چیزیں نہیں دیکھی جاتیں، وہاں تواِحتیاج کی شدت اور قلت دیکھی جاتی ہے۔ جتنی زیادہ اِحتیاج ہو اتنا ہی زیادہ ثواب ہوگا۔ یہ کھانا دعوت اور تعلقات کا ہے۔ اس میں بھی اگر کوئی دینی مصلحت ہو، خیر کی نیت ہو توجس درجہ کی خیر اور مصلحت ہوگی اسی درجہ کا اجر ہوگا۔ البتہ اگر کوئی دینی مصلحت نہ ہو تو کھانے والا جتنا زیادہ متقی ہوگا اتنا ہی زیادہ اجر کا سبب ہوگا۔
صاحب ’’ِمظاہر‘‘ اور امام غزالی ؒنے لکھا ہے کہ متقیوں کو کھلانا اطاعت اور نیکیوں پر اِعانت ہے، اور فاسقوں کو کھلانا فسق و فجور پر اعانت ہے، اور ظاہر چیز ہے کہ متقی اور نیک آدمی میں جتنی زیادہ طاقت اور قوت آئے گی عبادت میں زیادہ مصروف ہوگا، اور فاسق فاجر میں اچھے کھانوں سے جتنی زیادہ قوت ہوگی لہو و لعب فسق و فجور میں پڑے گا، جس میں اس کی اِعانت ہوئی۔
ایک بزرگ اپنے کھانے کو فقرا صوفیہ ہی کو کھلاتے تھے۔ کسی نے عرض کیا کہ اگر آپ عام فقرا کو بھی کھلائیں تو بہتر ہو۔ انھوں نے فرمایا کہ ان لوگوں کی ساری توجہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ جب ان کو فاقہ ہوتا ہے تو اس سے توجہ میںا ِنتشار ہوتا ہے۔ میں ایک شخص کی توجہ کو اللہ  تک لگائے رکھوں یہ اس سے بہتر ہے کہ ایسے ہزار آدمیوں کی اِعانت کروں جن کی ساری توجہ دنیا کی طرف ہے ۔ حضرت جنید بغدادی  ؒنے جب یہ بات سنی تو بہت پسند فرمایا۔ (اِحیاء العلوم، اتحاف)
حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ سے ایک درزی نے دریافت کیا کہ میں ظالم بادشاہوں کے کپڑے سیتا ہوں کیا آپ کا خیال ہے کہ میں بھی ظالموں کی اِعانت کر رہا ہوں؟ انھوں نے ارشاد فرمایا نہیں! تُو اِعانت کرنے والوں میں نہیں ہے تُوتو خود ظالم ہے۔ ظالم کی اِعانت کرنے والے وہ لوگ ہیں جو تیرے ہاتھ سوئی دھاگہ فروخت کریں۔ (اِحیاء العلوم)
ایک حدیث میں حضورﷺکا ارشاد وارد ہوا ہے کہ جو شخص کریم پر احسان کرتا ہے اس کو غلام بنا لیتا ہے اور جو ذلیل (لئیم) شخص پراحسان کرتا ہے اس کی دشمنی اپنی طرف کھینچتا ہے۔ (کنز العمال)ایک اور حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا ا رشاد وارد ہوا ہے کہ اپنا کھانا متقی لوگوں کو کھلائواور اپنا احسان مؤمنین پر کرو۔ (مشکاۃ المصابیح)
اور اس میں علاوہ بالائی مصالح کے متقی اور مؤمنین کا اِعزاز و اِکرام بھی ہے، اور یہ خود مستقل طور پر مندوب اور مامور بہٖ ہے۔ اسی وجہ سے علماء نے حضورِ اقدسﷺ کے پاک ارشاد کی جس میں آپ نے فاسقوں کی دعوت قبول کرنے سے منع فرمایا ہے (مشکاۃ المصابیح) من جملہ دوسری وجوہ کے ایک وجہ یہ بھی لکھی ہے کہ فاسق کی دعوت قبول کرنے میں اس کا اِعزاز واِکرام ہے۔



۲۴۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَؓ، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَيُّ الصَّدَقَۃِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: جُھْدُ الْمُقِلِّ وَأبْدَأْ بِمَنْ تَعُوْلُ۔
رواہ أبو داود وغیرہ، مشکاۃ المصابیح۔


ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ نے حضورِ اقدسﷺ سے سوال کیا کہ سب سے افضل صدقہ کیا ہے؟ حضورﷺنے ارشاد فرمایا کہ نادار کی انتہائی کوشش۔ اور ابتدا اُس سے کرو جس کی پرورش تمہارے ذمہ ہے۔
فائدہ:
یعنی جو شخص خود ضرورت مند ہو، فقیر ہو، نادار ہو، وہ اپنی کوشش سے اپنے کو مشقت میں ڈال کر جو صدقہ کرے وہ افضل ہے۔ حضرت بِشر ؒ فرماتے ہیں کہ تین عمل بہت سخت ہیں، یعنی ان میں ہمت کا کام ہے۔ ایک تنگدستی کی حالت میں سخاوت، دوسرے تنہائی میں تقویٰ اور اللہ کا خوف، تیسرے ایسے شخص کے سامنے حق بات کا کہنا جس سے خوف ہو یا امید ہو۔ (اتحاف) یعنی اس سے اَغراض وابستہ ہیں اور یہ اندیشہ ہے کہ وہ حق بات کہنے سے میری اَغراض پوری نہ کرے گا یا کسی قسم کی مَضرت پہنچائے گا۔ حق تعالیٰ شا نہٗ کے کلامِ پاک میں بھی اس کی طرف اشارہ گزر چکا ہے۔ جیسا کہ آیات کے سلسلہ میں نمبر (۲۸) پر گزرا کہ وہ حضرات باوجود اپنی حاجت اور فقر کے دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اور اس کے ذیل میں اس کی کچھ تفصیل بھی گزر چکی ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ ارشاد فرماتے ہیں: تین شخص حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان میں سے ایک نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے پاس سو دینار (اشرفیاں) تھے۔ میں نے ان میں سے دس دینار اللہ کے واسطے صدقہ کر دیے۔ دوسرے صاحب نے عرض کیا کہ میرے پاس دس دینار تھے میں نے ایک دینار صدقہ کر دیا۔ تیسرے صاحب نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک ہی دینار تھا میں نے اس کا دسواں حصہ صدقہ کیا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ تم تینوں کا ثواب برابر ہے۔ اس لیے کہ ہر شخص نے اپنے مال کا دسواں حصہ صدقہ کیا ہے۔
ایک اور حدیث میں اسی قسم کا ایک اور قصہ وارد ہوا ہے اس میں بھی حضورِاقدسﷺ کا یہی ارشاد جواب میں ہے کہ تم سب ثواب میں برابر ہو کہ ہر شخص نے اپنے مال کا دسواں حصہ صدقہ کر دیا۔ اس حدیث میں یہ بھی وارد ہے کہ اس کے بعد حضورِ اقدسﷺ نے یہ آیتِ شریفہ پڑھی  {لِیُنْفِقْ ذُوْ سَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ} (کنز العمال) یہ آیتِ شریفہ سورئہ طلاق کے پہلے رکوع کے ختم پر ہے۔ پوری آیتِ شریفہ کا ترجمہ یہ ہے کہ وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق خرچ کرنا چاہیے۔ جس کی آمدنی کم ہو اس کو چاہیے کہ اللہ نے جتنا اس کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرے۔ (یعنی امیر آدمی اپنی حیثیت کے موافق خرچ کرے اور غریب آدمی اپنی حیثیت کے موافق، کیوںکہ) خدا تعالیٰ کسی شخص کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جتنا اس کو دیا ہے۔ (اور غریب آدمی خرچ کرتا ہوا اس سے نہ ڈرے کہ پھر بالکل ہی نہیں رہے گا) خدا تعالیٰ تنگی کے بعد جلد ہی فراغت بھی دے دے گا۔
علامہ سیوطی ؒ نے ’’دُرِّمنثور‘‘ میں اس آیتِ شریفہ کے ذیل میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت کے ہم معنی دوسرے بعض صحابہ سے بھی روایات نقل کی ہیں اور ان سے بڑھ کر ایک صحیح حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد نقل کیا گیا کہ ایک دِرَم ایک لاکھ دِرَم سے بھی ثواب میں بڑھ جاتا ہے۔ ا س طرح کہ ایک آدمی کے پاس دو ہی دِرَم فقط ہیں، اس نے ان میں سے ایک صدقہ کر دیا۔ دوسرا شخص ایسا ہے کہ اس کے پاس بہت بڑی مقدار میں مال ہے اس نے اپنے کثیر مال میں سے ایک لاکھ دِرَم صدقہ کیے تو یہ ایک دِرَم ثوا ب میں بڑھ جائے گا۔
علامہ سیوطی ؒ نے ’’جامع صغیر‘‘ میں حضرت ابو ذر اور حضرت ابو ہریرہ ? کی روایات سے اس کو نقل کیا ہے اور صحیح کی علامت لکھی ،یہی نادار کی کوشش ہے کہ ایک شخص کے پاس صرف دو دِرَم ہیں۔ یعنی ۷؍کہ ایک دِرَم تقریبًا ۳؍ کا ہوتا ہے۔ 1 ان میں سے ایک صدقہ کر دیا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے جس کو امام بخاری ؒ نے روایت کیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ جب ہم لوگوں کو صدقہ کا حکم فرمایا کرتے تھے تو ہم میں سے بعض آدمی بازار جاتے اور اپنے اوپر بوجھ لاد کر مزدوری میں ایک مُدّ (جو حنفیہ کے نزدیک ایک سیر وزن ہے اور دوسرے حضرات کے نزدیک تین پائو سے بھی کچھ کم ہے) کماتے اور اس کو صدقہ کر دیتے۔ (فتح الباری)
بعض روایات میں ہے کہ ہم میں سے بعض آدمی جن کے پاس ایک دِرَم بھی نہ ہوتا تھا بازار جاتے اور لوگوں سے اس کی خواہش کرتے کہ کوئی مزدوری پر کام کرالے اور اپنی کمر پر بوجھ لاد کر ایک مُدّمزدوری حاصل کرتے۔ راوی یہ کہتے ہیں کہ ہمیں جہاں تک خیال ہے خود حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے یہ اپنا ہی حال بتایا ہے۔
حضرت امام بخاری  ؒ نے ا س پر یہ باب ذکر کیا ہے: بیان اس شخص کا جو اس لیے مزدوری کرے کہ اپنی کمر پر بوجھ لادلے اور پھر اس مزدوری کو صدقہ کر دے۔(فتح الباری)
آج ہم میں سے بھی کوئی اس امنگ کا آدمی ہے کہ اسٹیشن پر جاکر صرف اس لیے بوجھ اٹھائے کہ دو چار آنے جو مل جائیں گے وہ ان کو صدقہ کر دے گا؟ ان حضرات کو آخر ت کے کھانے کا ہر وقت اتنا ہی فکر رہتا تھا جتنا ہمیں دنیا کے کھانے کا ۔ ہم اس لیے مزدوری کرتے ہیں کہ آج کھانے کو کچھ نہیں، لیکن یہ اس لیے مزدوری کرتے تھے کہ آج آخرت میں جمع کرنے کو کچھ نہیں ہے۔ ابتدائے اسلام میں بعض منافق ایسے لوگوں پر طعن کرتے تھے جو مشقت اٹھا کر تھوڑا تھوڑا صدقہ کرتے تھے، حق تعالیٰ شا نہٗ نے ان پر عتاب فرمایا۔ چناںچہ ارشاد ہے:
{ اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقٰتِ وَالَّذِیْنَ لَایَجِدُوْنَ اِلاَّ جُھْدَھُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْھُمْ ط سَخِرَ اللّٰہُ مِنْھُمْ ز وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ o} ( التوبۃ : ع ۱۰)
ترجمہ:
یہ (منافق) ایسے لوگ ہیں کہ نفل صدقہ کرنے والے مسلمانوں پر صدقات کے بارہ میں طعن کرتے ہیں، اور (بالخصوص )ان لوگوں پر (اور بھی زیادہ )طعن کرتے ہیں جن کو بجز محنت اور مزدوری کے کچھ میسر نہیں ہوتا، یہ (منافق) ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ  ان کے مذاق اڑانے کا بدلہ (اسی نوع سے ) دے گا (کہ آخرت میں ان احمقوں کا بھی اول مذاق اڑایا جائے گا) اور دکھ دینے والا عذاب تو ان کے لیے ہے ہی۔ (وہ تو ٹلتا نہیں)
مفسرین نے اس آیتِ شریفہ کے ذیل میں بہت سی روایات اس قسم کی ذکر کی ہیں کہ یہ حضرات رات بھر حمّالی کرکے مزدوری کماتے اور صدقہ کرتے، اور جو کچھ تھوڑا بہت گھر میں ہوتا وہ تو ان کی نگاہ میں صدقہ ہی کے واسطے ہوتا تھا، مجبوری کے درجہ میں کچھ خود بھی استعمال کرلیا۔
ایک مرتبہ حضرت علی ؓ کی خدمت میں ایک سائل حاضر ہوا۔ آپ نے اپنے صاحب زادہ حضرت حسن یا حضرت حسین ? سے فرمایا کہ اپنی والدہ ( حضرت فاطمہؓ) سے کہو کہ میں نے جو چھ دِرَم ہم تمہارے پاس رکھے ہیں ان میں سے ایک دے دو۔ صاحب زادے گئے اور یہ جواب لائے کہ وہ آپ نے آٹے کے لیے رکھوائے تھے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ آدمی اپنے ایمان میںا س وقت تک سچا نہیں ہوتا جب تک کہ اپنے پاس کی موجود چیز سے اس چیز پر زیادہ اعتماد نہ ہو جو اللہ  کے پاس ہے۔ اپنی والدہ سے کہو کہ وہ چھ دِرَم سب کے سب دے دو۔ حضرت فاطمہؓ نے تو یاد دہانی کے طور پر فرمایا تھا ان کو اس میں کیا تامّل ہو سکتا تھا، اس لیے حضرت فاطمہؓ نے دے دیے۔ حضرت علیؓ نے وہ سب سائل کو دے دیے۔ حضرت علیؓ اپنی اس جگہ سے اٹھے بھی نہیں تھے کہ ایک شخص اونٹ فروخت کرتا ہوا آیا۔ آپ نے اس کی قیمت پوچھی۔ اس نے ایک سو چالیس دِرَم بتائے۔ آپ نے وہ قرض خرید لیا اور قیمت کی ادائیگی کا بعد کا وعدہ کرلیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور شخص آیا اور اونٹ کو دیکھ کر پوچھنے لگا کہ یہ کس کا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ میرا ہے۔ اس نے دریافت کیا کہ فروخت کرتے ہو؟ حضرت علیؓ نے فرمایا: ہاں۔ اس نے قیمت دریافت کی، حضرت علی ؓنے دو سو دِرَم بتائے وہ خرید کر لے گیا۔ حضرت علیؓ نے ایک سو چالیس دِرَم اپنے قرض خواہ یعنی پہلے مالک کو دے کر ساٹھ دِرَم حضرت فاطمہؓ کو لا کر دے دیے۔ حضرت فاطمہؓ نے پوچھا کہ یہ کہاں سے آئے؟ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے نبی کے واسطے سے وعدہ فرمایا ہے کہ جو شخص نیکی کرتا ہے اس کو دس گناہ بدلہ ملتا ہے۔ (کنز العمال)
یہ بھی جُہد والے کی مشقت تھی کہ کُل صرف چھ دِرَم1 کل موجود تھے جو آٹے کے لیے رکھے ہوئے تھے ۔اللہ  پر کامل اعتماد کرکے ان کو خرچ فرما دیا اور دَہ دَر دنیا کا بدلہ وصول کرلیا۔ اور بھی بہت سے واقعات ان حضرات کے اللہ  پر اعتمادِ کامل کرکے سب کچھ خرچ کر ڈالنے کے وارد ہوئے ہیں۔
حضرت ابوبکر صدیقؓکا قصہ غزوئہ تبوک کا مشہور معروف ہے کہ جب حضورﷺ نے صدقہ کا حکم فرمایا تو جو کچھ گھر میں تھا سب کچھ لاکر پیش کر دیا اور حضورﷺ کے دریافت فرمانے پر کہ گھر میں کیا چھوڑا عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول کو۔ یعنی ا ن کو رضا کو۔ علماء نے لکھا ہے کہ جب حضر ت ابوبکر صدیقؓ ایمان لائے تو ان کے پاس چالیس ہزار اشرفیاں تھیں۔ (تاریخ الخلفاء)
محمد بن عبّاد مہلّبی ؒ کہتے ہیں کہ میرے والد مامون رشید بادشاہ کے پاس گئے۔ بادشاہ نے ایک لاکھ دِرَم ہدیہ دیا۔ والد صاحب جب وہاں سے اٹھ کر آئے تو سب کے سب صدقہ کردیے۔ مامون کو اس کی اطلاع ہوگئی۔ جب دوبارہ والد صاحب کی ملاقات ہوئی تومامون نے ناراضی کا اظہار کیا۔ والد صاحب نے کہا: اے امیر المؤمنین! موجود کا روکنا معبود کے ساتھ بدگمانی ہے۔ (اِحیاء العلوم) یعنی جوچیز موجود ہے اس کو خرچ نہ کرنا اسی خوف سے تو ہوتا ہے کہ یہ نہ رہے گی تو کہاں سے آئے گی؟ تو گویا جس مالک نے اس وقت دیا ہے اس کو دوبارہ دینا مشکل پڑ جائے گا۔
بہت سے واقعات اَسلاف واَکابر کے ایسے گزرے ہیں کہ ناداری کی حالت میں بھی جو کچھ تھا سب دے دیا، لیکن ان سب روایات اور واقعات کے خلاف احادیث میں ایک مضمون اور بھی آیا ہے، اور وہ حضورِ اقدسﷺ کا پاک اور مشہور ارشاد: خَیْرُ الصَّدَقَۃِ مَا کَانَ عَنْ ظَھْرِ غِنیًہے۔ بہترین صدقہ وہی ہے جو غنا سے ہو۔ یہ مضمون بھی متعدد روایات میں وارد ہوا ہے۔
’’ابو داؤد شریف‘‘ میں ایک قصہ وارد ہوا ہے۔ حضر ت جابرؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ حضورِ اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر تھے۔ ایک شخص حاضر ہوئے اور ایک بَیضہ (انڈہ) کے بقدر سونا پیش کرکے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ مجھے ایک معدن سے مل گیا ہے اس کے علاوہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ حضورﷺ نے اس جانب سے اِعراض فرما لیا۔ وہ صاحب دوسری جانب سے حاضر ہوئے اور یہی درخواست مکرَّر پیش کی۔ حضورﷺ نے اس طرف سے بھی منہ پھیر لیا۔ اسی طرح متعدد مرتبہ ہوا۔ حضورﷺ نے اس ڈلی کو لے کر ایسے زور سے پھینکا کہ اگر وہ ان کے لگ جاتی تو زخمی کر دیتی۔ اس کے بعد حضورﷺ نے فرمایا: بعض لوگ اپنا سارا مال صدقہ میں پیش کر دیتے ہیں پھر وہ لوگوں کے سامنے سوال کا ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو غنیٰ سے ہو۔
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں حاضر ہوئے۔ حضورِاقدسﷺ نے (ان کی بدحالی دیکھ کر) لوگوں سے کپڑا صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ لوگوں نے کچھ کپڑے پیش کیے جن میں سے دو کپڑے حضورﷺ نے ان کو بھی مرحمت فرمائے جو اس وقت مسجد میں داخل ہوئے تھے۔ اس کے بعد دوسرے موقعہ پر حضورﷺ نے پھر لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دی تو انھوں نے بھی اپنے دو کپڑوں میں سے ایک کپڑا صدقہ کر دیا۔ حضورﷺ نے ان کو تنبیہ فرمائی اور ان کا کپڑا واپس فرما دیا۔ (ابوداود)
ایک اور حدیث میں اس قصہ میں حضورﷺ کا یہ ارشاد وارد ہوا ہے کہ یہ صاحب نہایت بری ہیئت سے مسجد میں آئے تھے، مجھے یہ امید تھی کہ تم ان کی حالت دیکھ کر خود ہی خیال کرو گے، مگرتم نے خیال نہ کیا تو مجھے کہنا پڑا کہ صدقہ لائو۔ تم صدقہ لائے اور ان کو دو کپڑے دے دیے۔ پھر میں نے دوسری مرتبہ جب صدقہ کی ترغیب دی تو یہ بھی اپنے دو کپڑوں میں سے ایک صدقہ کرنے لگے، لو اپنا کپڑا واپس لو۔ (کنز العمال)
ایک اور حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کاارشاد وارد ہوا ہے کہ بعض آدمی اپنا سارا مال صدقہ کر دیتے ہیں پھر بیٹھ کر لوگوں کے ہاتھوں کو دیکھتے ہیں۔ بہترین صدقہ وہ ہے جو غنیٰ سے ہو۔ ایک اور حدیث میں ارشاد ہے کہ بغیر غنیٰ کے صدقہ ہے ہی نہیں۔ (کنز العمال)
یہ روایات بظاہر پہلی روایات کے خلاف ہیں گو حقیقت میں کچھ خلاف نہیں ہے۔ اس لیے کہ ان روایات میں ممانعت کی وجہ کی طرف حضورﷺ نے خود ہی اشارہ فرما دیا کہ سارا مال صدقہ کرکے پھر لوگوں کے ہاتھوں کو تکتے ہیں۔ ایسے آدمیوں کے لیے یقینًا تمام مال صدقہ کرنا مناسب نہیں بلکہ نہایت بے جاہے، لیکن جو حضرات ایسے ہیں کہ ان کو اپنے پاس جو مال موجود ہو، اس سے زیادہ اعتماد اس مال پر ہو جو اللہ کے قبضہ میں ہے جیسا کہ حضرت علی ؓ کے قصہ میں ابھی گزرا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے احوال تو اس سے بھی بالاتر ہیں، ایسے حضرات کو سارا مال صدقہ کر دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ اس کی کوشش ضرور کرتے رہنا چاہیے کہ اپنا حال بھی ان حضرات جیسا بن جائے، اور دنیا سے ایسی بے رغبتی اور حق تعالیٰ شا نہٗ پر ایسا ہی اعتماد پیدا ہو جائے جیسا ان حضرات کو تھا۔ اور جب آدمی کسی کام کی کوشش کرتا ہے تو حق تعالیٰ شا نہٗ وہ چیز عطا فرماتے ہی ہیں۔ مَنْ جَدَّ وَجَدَ  ضرب المثل ہے کہ جو کوشش کرتا ہے وہ پالیتا ہے۔
ایک بزرگ سے کسی نے دریافت کیا کہ کتنے مال میں کتنی زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ عوام کے لیے دو سو دِرَم میں پانچ دِرَم یعنی چالیسواں حصہ شریعت کا حکم ہے، لیکن ہم لوگوں پر سارا مال صدقہ کر دینا واجب ہے۔ (اِحیاء العلوم: ج ) اسی ذیل میں حضورﷺ کے وہ ارشادات ہیں جو احادیث کے سلسلہ میں نمبر (۱) پر گزرے کہ اگر اُحد کا پہاڑ سارے کا سارا سونا بن جائے تو مجھے یہ گوارا نہیں کہ اس میں سے ایک دِرَم بھی باقی رکھوں، بجز اس کے جو قرض کی ادائیگی کے لیے ہو۔ اسی بنا پرحضورِ اقدس ﷺ عصر کی نماز کے بعد نہایت عجلت سے مکان تشریف لے گئے اور سونے کا ٹکڑا جو گھر میں اتفاق سے رہ گیا تھا اس کو صدقہ کا حکم فرما کر واپس تشریف لائے، اور چند داموں کی موجودگی کی وجہ سے اپنی علالت میں بے چین ہوگئے جیسا کہ سلسلۂ احادیث میں نمبر (۴ )پر گزرا۔ حضرت امام بخاری ؒ نے اپنی ’’صحیح بخاری شریف‘‘ میںفرمایا کہ صدقہ بغیر غنیٰ کے نہیں ہے اور جو شخص ایسی حالت میں صدقہ کرے کہ وہ خود محتاج ہو یا اس کے اہل و عیال محتاج ہوں یا اس پر قرض ہو تو قرض کا ادا کرنا مقدم ہے، ایسے شخص کا صدقہ اس پر لوٹا دیاجائے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص صبرکرنے میں معروف ہو اور اپنے نفس پر باوجود اپنی اِحتیاج کے ترجیح دے جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا فعل تھا یا انصار نے مہاجرین کو اپنے اوپر ترجیح دی۔ (تو اس میں مضائقہ نہیں)
علامہ طبری ؒکہتے ہیں: جمہور علماء کا یہ مذہب ہے کہ جو شخص اپنا سارا مال صدقہ کر دے بشرطے کہ اس پر قرض نہ ہو اور تنگی کی اس میں برداشت ہو اور اس کے عیال نہ ہوں یا اگر ہوں تو وہ بھی اس کی طرح سے صابر ہوں، توسارا مال صدقہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، اور ان میں سے کوئی شرط نہ پائی جائے تو سارا مال صدقہ کرنا مکروہ ہے۔ (فتح الباری)
ہمارے حضرت حکیم الامت شاہ ولی اللہ صاحب نوّر اللہ مرقدہٗ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کے پاک ارشاد ’’بہترین صدقہ وہ ہے جو غنیٰ سے ہو‘‘ میںغنیٰ سے مراد دل کا غنیٰ ہے۔ (حجۃ اللہ البالغۃ) اس صورت میں یہ احادیث پہلی احادیث کے خلاف بھی نہیں ہیں۔ خودحضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد بھی احادیث میں آیا ہے کہ غنیٰ مال کی کثرت سے نہیں ہوتا بلکہ اصل غنیٰ دل کا ہوتا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
اوپر جو قصہ سونے کی ڈلی کا گزرا اس میں بھی اشارۃً یہ مضمون ملتا ہے کہ ان صاحب کا بار بار یہ عرض کرنا کہ یہ سارا صدقہ ہے اور میرے پاس اس کے سوا کچھ نہیں ہے، اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ دل کو اس سے وابستگی ہے۔
صاحبِ ’’مظاہر‘‘ فرماتے ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ صدقہ غنا سے دیا جائے چاہے غنائے نفس ہو۔ یعنی اللہ پر اعتمادِ کامل ہو جیسا کہ ابوبکر صدیقؓ نے جب تمام مال اللہ کے لیے دے دیا اور حضورﷺ کے اس ارشاد پر کہ اپنے عیال کے لیے کیا چھوڑا؟ انھوں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسولﷺ، تو حضور ﷺنے ان کی تعریف فرمائی۔ اور یہ درجہ حاصل نہ ہو تو پھر مال کا غنیٰ باقی رہے۔
حاصل یہ ہے کہ توکُّلِ کامل ہو تو جو چاہے خرچ کر دے اور یہ کامل نہ ہو تو اہل و عیال کی رعایت کو مقدم کرے۔ (مظاہرِ حق) مگر اپنے دل کو اپنی اس کوتاہی پر تنبیہ کرتا رہے اور غیرت دلاتا رہے کہ تجھے اس ناپاک دنیا پر جتنا اعتماد ہے اللہ  پر اس کا آدھا تہائی بھی نہیں ہے، ان شاء اللہ اس کے باربار تنبیہ سے ضروراثر ہوگا۔ کاش! حق تعالیٰ شا نہٗ ان اَکابر کے توکُّل اور اعتماد کا کچھ حصہ اس کمینہ کو بھی عطا فرما دیتا ۔



۲۵۔ عَنْ عَائِشَۃَؓ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: إِذَا أَنْفَقَتِ الْمَرْأَۃُ مِنْ طَعَامِ بَیْتِھَا غَیْرَ مُفْسِدَۃٍ کَانَ لَھَا أَجْرُھَا بِمَا أَنْفَقَتْ، وَلِزَوْجِھَا أَجْرُہُ    
ترجمہ:
حضورِاقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ جب عورت اپنے گھر کے کھانے میں سے ایسی طرح صدقہ کرے کہ (اِسراف وغیرہ سے) اس کو خراب نہ کرے ، تو اس کو خرچ کرنے کا 
بِمَا کَسَبَ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذٰلِکَ، لَایَنْقُصُ بَعْضُھُمْ أَجَْرَ بَعْضٍ شَیْئًا ۔  
متفق علیہ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔ثواب ہے اور خداوند کو اس لیے ثواب ہے کہ اس نے کمایا تھا اور کھانے کا انتظام کرنے والے کو (مرد ہو یا عورت) ایسا ہی 
ثواب ہے، اور ان تینوں میں سے ایک کے ثواب کی وجہ سے دوسرے کے ثواب میں کمی نہ ہوگی۔
فائدہ:
اس حدیث شریف میں دو مضمون وارد ہوئے ہیں، ایک بیوی کے خرچ کرنے کے متعلق ہے، دوسرا سامان کے محافظ خزانچی اور منتظم کے متعلق ہے، اور دونوں مضامین میں روایات بہ کثرت وارد ہوئی ہیں۔ شیخین کی ایک اور روایت میں حضور ﷺکا ارشاد ہوا ہے کہ جب عورت خاوند کی کمائی میں سے اس کے بغیر حکم کے خرچ کرے تو اس عورت کو آدھا ثواب ہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
حضرت سعدؓ فرماتے ہیں کہ جب حضورِ اقدسﷺ نے عورتوں کی جماعت کو بیعت کیا توایک عورت کھڑی ہوئیں جو بڑے قد کی تھیں ایسا معلوم ہوتا تھا جیسا کہ قبیلۂ مُضَر کی ہوں کہ ان کے قد لانبے ہوتے ہوں گے او ر عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم عورتیں اپنے والدوں پر بھی بوجھ ہیں، اپنی اولاد پر بھی اور اپنے خاوندوں پربھی بوجھ ہیں، ہمیں ان کے مال سے کیا چیز لینے کا حق ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: تروتازہ چیزیں (جن کے روکنے میں خراب ہونے کا اندیشہ ہو) کھا بھی سکتی ہو اور دوسروں کو دے بھی سکتی ہو۔ (مشکاۃ المصابیح) ایک اور حدیث میںحضورِاقدسﷺ کا پاک ارشاد وارد ہوا ہے کہ اللہ  روٹی کے ایک لقمہ اور کھجور کی ایک مٹھی کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتے ہیں۔ ایک گھر کے مالک کو یعنی خاوند کو، دوسرے بیوی کو جس نے یہ کھانا پکایا، تیسرے اس خادم کو جو دروازہ تک مسکین کو دے کر آیا۔ (کنز العمال)
حضرت عائشہؓ کی ہمشیرہ حضرت اسماءؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے، بجز اس کے جو (میرے خاوند) حضرت زبیر مجھے دے دیں۔ کیا میں اس میں سے خرچ کرلیا کروں؟ حضورِ ﷺ نے فرمایا: خوب خرچ کیا کرو، باندھ کر نہ رکھو کہ تم پر بھی بندش کر دی جائے گی۔ (کنز العمال) یہ روایت اور اس کے ہم معنی کئی روایتیں ابھی گزری ہیں۔
ایک اور روایت میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جب عورت خاوند کی کمائی میں سے اس کے بغیر حکم کے خرچ کرے تو خاوند کو آدھا ثواب ہے۔ (عینی عن مسلم) ابھی ایک روایت میں اس کا عکس گزر چکا کہ ایسی صورت میں عورت کے لیے آدھا ثواب ہے، لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ خاوند کی کمائی سے خرچ کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ خاوند نے کما کر مال کا کچھ حصہ عورت کو بالکل دے دیا اس کو مالک بنا دیا۔ ایسے مال میں سے اگر عورت خرچ کرے تو اس کو پورا ثواب اورخاوند کو نصف ثواب۔ ظاہر ہے کہ خاوند تو بہرحال عورت کو دے چکا ہے، اب اگر وہ خرچ کرتی ہے تو حقیقت میں خاوند کے مال میں سے خرچ نہیں کرتی بلکہ اپنے مال میں سے خرچ کرتی ہے، لیکن کمائی چوںکہ خاوند کی ہے، اس لیے اس کوبھی اللہ کے لطف و کرم سے اس کی کمائی کی وجہ سے اس کے صدقہ کرنے کا آدھا ثواب ہے اور بیوی کو دے دینے کا مستقل ثواب پہلے علیحدہ ہو چکا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ خاوند نے کمانے کے بعد عورت کو مالک نہیں بنایا، بلکہ گھرکے اخراجات کے لیے اس کو دیا ہے۔ اس مال میں سے صدقہ کرنے کا خاوند کو پورا ثواب ہو کہ وہ اصل مالک ہے اور عورت کو آدھا کہ اخراجات میں تنگی تو اس کو بھی پیش آئے گی۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد روایات میں مختلف عنوانات سے عورتوں کو ترغیب دی گئی کہ وہ کھانے کی چیزوں میں سے اللہ کے راستہ میں خرچ کیا کریں ذرا ذرا سی چیزوں میں یہ بہانہ تلاش نہ کیا کریں کہ خاوند کی اجازت تو لی نہیں، لیکن ان سب روایات کے خلاف بعض روایات میں اس کی ممانعت بھی وارد ہوئی ہے۔
حضرت ابوامامہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں من جملہ اور ارشادات کے یہ بھی فرمایا کہ کوئی عورت خاوند کے گھر سے (یعنی اس کے مال میں سے) بغیر اس کی اجازت کے خرچ نہ کرے۔ کسی نے دریافت کیا: حضور(ﷺ)! کھانا بھی بغیر اجازت خرچ نہ کرے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ کھانا توبہترین مال ہے۔ (الترغیب والترہیب عن الترمذي) یعنی اس کو بھی بغیر اجازت خرچ نہ کرے۔
اس روایت کو پہلی روا یت سے کوئی حقیقت میں مخالفت نہیں ہے۔ پہلی سب روایات عام حالات اور معروف عادات کی بنا پر ہیں۔ گھروں کا عام عرف سب جگہ یہی ہے اور یہی ہوتا ہے کہ جو چیزیں سامان یا روپیہ پیسہ گھر میں اخراجات کے واسطے دے دیا جاتا ہے، اس میں خاوندوں کو اس سے خلاف نہیں ہوتا کہ عورتیں اس میں سے کچھ صدقہ کر دیں یا غربا کو کچھ کھانے کودے دیں، بلکہ خاوندوں کا ایسی چیزوں میں کُنج کائو اور پوچھنا، تحقیق کرنا، کنجوسی اور چھچورپن شمار ہوتا ہے، لیکن اس عرفِ عام کے باوجود اگر کوئی بخیل اس کی اجازت نہ دے کہ اس میں سے کسی کو دیا جائے تو پھر عورت کو جائز نہیں کہ اس کے مال میں سے کچھ صدقہ کرے یا ہدیہ دے۔ البتہ اپنے مال میں سے جو چاہے خرچ کرے۔
ایک شخص نے حضورﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری بیوی میرے مال میں سے میری بغیر اجازت خرچ کرتی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: تم دونوں کو اس کاثواب ہوگا۔ انھوں نے عرض کیا کہ میں اس کو منع کر دیتا ہوں۔ حضور ﷺ نے فرمایا تجھے تیرے بخل کا بدلہ ملے گا، اس کو اس کے احسان کا اجر ہوگا۔ (کنز العمال)
معلوم ہوا کہ خاوندوں کا ایسی معمولی چیز سے روکنا بخل ہے او ر اس کے روکنے کے بعد اس کے مال میں سے عورت کو خرچ کرنا جائز نہیں۔ البتہ عورت کا اگر دل خرچ کرنے کوچاہتا ہے اور خاوند کی مجبوری سے رُکی ہوئی ہے تو اس کو اس کی نیت کی وجہ سے صدقہ کاثواب ملتا ہی رہے گا۔
علامہ عینی ؒ فرماتے ہیں حقیقت میں ان چیزوں میں ہر شہر کا عرف اور عادت مختلف ہوتی ہے، اور خاوندوں کے احوال بھی مختلف ہوتے ہیں۔ بعض پسند کرتے ہیں اور بعض پسند نہیں کرتے۔ اسی طرح جو چیز خرچ کی جائے اس کے اعتبار سے بھی مختلف احوال ہوتے ہیں۔ ایک تو معمولی چیز قابلِ تسامح ہوتی ہے اور کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جس کی خاوند کو اہمیت ہو۔ اسی طرح سے کوئی تو ایسی چیز ہوتی ہے جس کے رکھنے میں اس کے خراب ہو جانے کااندیشہ ہو اور کوئی ایسی چیز ہوتی ہے جس کے روکنے میں کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ حافظ ابنِ حجر ؒ نے نقل کیا ہے کہ یہ شرط تو متفق علیہ ہے کہ وہ عورت خرچ کرنے میں فساد کرنے والی نہ ہو۔
بعض علماء نے کہا ہے کہ خرچ کرنے کی ترغیبیں حجاز کے عرف کے موافق وارد ہوئی ہیں کہ وہاں بیویوں کو اس قسم کے تصرفات کی عام اجازت ہوتی تھی کہ وہ مساکین کو، مہمانوں کو، پڑوس کی عورتوں کو، سوال کر نے والوں کو کھانے وغیرہ کی چیزیں دے دیں۔ حضورِاقدسﷺ کا مقصد ان روایات سے اپنی امت کو ترغیب دینا ہے کہ عرب کی یہ نیک خصلت اختیار کریں۔ (مظاہرِ حق)
چناںچہ ہمارے دیار میں بھی بہت سے گھروں میں یہ عرف ہے کہ اگر سائل یا کسی عزیز یا ضروت مند کو، بھوکے کو، کھانے پینے کی چیزیں دے دی جائیں تو خاوندوں کے نزدیک یہ چیز نہ ان سے قابلِ اجازت ہے، نہ یہ ان کے لیے موجب ِتکدُّر ہوتا ہے۔
دوسرا مضمون حدیثِ بالا میں محافظ اور خزانچی کے متعلق وارد ہوا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اصل مالک کسی شخص کو ہدیہ دینے کی ، صدقہ کرنے کی خواہش رکھتا ہے، مگر یہ خزانچی اور محافظ کارکن اس میں رخنہ پیدا کیا کرتے ہیں۔ بالخصوص امرا اور سلاطین کے یہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مالک کی طرف سے صدقات کے پروانے جاری ہوتے ہیں اور یہ میر منشی ہمیشہ عدمِ گنجایش کا عذر کھڑا کرتے ہیں۔ اس لیے حضورِ اقدسﷺ نے متعدد روایات میں اس کی ترغیب دی ہے کہ یہ کارکن حضرات اگر نہایت طیب ِخاطر اور خندہ پیشانی سے مالک کے حکم کی تعمیل کریں، تو ان کو محض ذریعہ اور واسطہ ہونے کی وجہ سے اللہ کے فضل و انعام سے مستقل ثواب ملے، جیسا کہ اوپر کے مضمون میں متعدد روایات اس کی گزر چکی ہیں۔
ایک حدیث میں ہے کہ اگر مسلمان خزانچی امانت دار مالک کے حکم کی تعمیل پوری پوری خندہ پیشانی اور خوش دلی کے ساتھ کرے، اور جتنا دینے کا اس کو حکم ہے اتنا ہی دے دے تو وہ بھی صدقہ کرنے والوں میں ہے ۔ (مشکاۃ المصابیح)
ایک حدیث میں ہے کہ اگر صدقہ (بالفرض) سات کروڑ آدمیوں کے ہاتھ میں سے نکل کر آئے تو آخر والے کو بھی ایسا ہی ثواب ہوگا جیسا کہ اوّل والے کو۔ (کنز العمال) یعنی مثلاً: کسی بادشاہ نے صدقہ کا حکم دیا اور اس کے عملہ کے اتنے آدمیوں کو اس میں واسطہ بننا پڑا تو سب کو ثواب ہوگا۔ یعنی اجر و ثواب کے اعتبار سے وہ بھی سب ایسے ہی ہیں جیسا کہ صدقہ کرنے والا ثواب کا مستحق ہے،گو دونوں کے ثواب میں فرقِ مراتب ہو۔ اور فرقِ مراتب کے لیے یہ ضروری نہیں کہ مالک ہی کا ثواب زیادہ ہو۔ کہیں مالک کا ثواب زیادہ ہوگا، مثلًا: سو روپیہ ملازم کو یا خزانچی کو حکم کرے کہ فلاں شخص کو جو دروازہ پر یا اپنے پاس موجود ہے دے دے، اس صورت میں یقینًا مالک کو ثواب زیادہ ہوگا۔ اور ایک انار کسی کو دے کہ فلاں محلہ میں جو بیمار ہے اس کو دے آئو کہ اتنی دور جانا انار کی قیمت سے بھی مشقت کے اعتبار سے بڑھ جائے، تو اس صورت میں اس واسطہ کا ثواب اصل مالک سے بھی بڑھ جائے گا۔ (عینی)
اسی طرح سے اس خازن کو مال کی تحصیل میں مشقت زیادہ اٹھانی پڑتی ہواور مالک کو بے محنت مفت میں مل جائے، تو ایسے مال کے صدقہ کرنے میں یقینًا خازن کا ثواب زیادہ ہو جائے گا کہ اَلْأَجْرُ عَلَی قَدْرِ النَّصَبِ۔ ’’ثواب مشقت کی بقدر ہوا کرتا ہے۔ ‘‘ یہ شریعتِ مطہرہ کا مستقل ضابطہ ہے، لیکن جیساکہ بیوی کے لیے بغیر اِذنِ خاوند کے تصر ف کرنے کا فی الجملہ حق ہے، خازن کے لیے یہ جائز نہیں کہ بغیر اِذنِ مالک کے کوئی تصرف اس کے مال میں کرے۔ البتہ اگر مالک کی طرف سے تصرف کی اجازت ہو تو مضائقہ نہیں۔




۲۶۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ  ?مَرْفُوْعًا فِيْ حَدِیْثٍ لَفْظُہُ: کُلُّ مَعْرُوْفٍ صَدَقَۃٌ، وَالدَّالُ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ، وَاللّٰہُ یُحِبُّ إِغَاثَۃَ اللَّھْفَانِ۔ 
ترجمہ:
حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ ہر بھلائی صدقہ ہے اورکسی کارِ خیر پر دوسرے کو ترغیب دینے کا ثواب ایسا ہی ہے جیسا کہ خود کرنے کا ثواب ہے اور اللہ مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کو محبوب رکھتا ہے۔
کذا في المقاصد الحسنۃ وبسط في تخریجہ وطرقہ، وذکر السیوطي في الجامع الصغیر حدیث ’’الدال علی الخیرکفاعلہ‘‘ من روایۃ ابن مسعود وأبي مسعود وسھل بن سعد وبریدۃ وأنس۔
فائدہ:
اس حدیث پاک میں تین مضمون ہیں۔ اول یہ کہ ہر بھلائی صدقہ ہے۔ یعنی صدقہ کے لیے مال ہی دینا ضروری نہیں ہے اور صدقہ اسی میں منحصر نہیں، بلکہ جو بھلائی کسی کے ساتھ کی جائے وہ ثواب کے اعتبار سے صدقہ ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آدمی کے اندر تین سو ساٹھ جوڑ ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر جوڑ کی طرف سے روزانہ ایک صدقہ کیا کرے۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! اس کی طاقت کس کو ہے؟ (کہ تین سو ساٹھ صدقہ روزانہ کیا کرے) حضورﷺ نے فرمایا: مسجد میں تھوک پڑا ہو اس کو ہٹا دو، یہ بھی صدقہ ہے۔ راستہ میں کوئی تکلیف دینے والی چیز پڑی ہو اس کو ہٹا دو، یہ بھی صدقہ ہے۔ اور کچھ نہ ملے تو چاشت کی دو رکعت نفل سب کے قائم مقام ہوجاتی ہیں۔ (مشکاۃ المصابیح) اس لیے کہ نماز میںہر جوڑ کو اللہ کی عبادت میں حرکت کرنا پڑتی ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ روزانہ جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو آدمی پر ہر جوڑ کے بدلہ میں ایک صدقہ ہے۔ دو آدمیوں کے درمیان انصاف کردو یہ بھی صدقہ ہے، کسی شخص کی سواری پر سوار ہونے میں مدد کر دو یہ بھی صدقہ ہے، اس کا سامان اٹھاکر دے دو یہ بھی صدقہ ہے، کلمۂ طیبہ (یعنی لاَإِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ پڑھنا) بھی صدقہ ہے، ہر وہ قدم جو نماز کے لیے چلے صدقہ ہے، کسی کو راستہ بتا دو یہ بھی صدقہ ہے، راستہ سے تکلیف دینے والی چیز ہٹا دو یہ بھی صدقہ ہے۔ (الجامع الصغیر)
ایک حدیث میں ہے کہ روزانہ آدمی کے ہر جوڑ کے بدلہ میں اس پر صدقہ ضروری ہے۔ ہر نماز صدقہ ہے، روزہ صدقہ ہے، حج صدقہ ہے، سبحان اللہ کہنا صدقہ ہے، الحمد للہ کہنا صدقہ ہے، اللہ اکبر کہنا صدقہ ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو کوئی راستہ میں مل جائے اس کو سلام کرنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم کرنا صدقہ ہے، برائی سے منع کرنا صدقہ ہے۔ (ابوداود) اور بھی اس قسم کی متعدد روایات وارد ہوئی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر بھلائی، ہر نیکی، ہر احسان صدقہ ہے بشرطے کہ اللہ کے واسطے ہو۔
دوسری چیز حدیث ِبالا میں یہ ذکر کی گئی کہ جو شخص کسی کارِخیر پر کسی کو ترغیب دے اس کو بھی ایسا ہی ثواب ہے جیسا کرنے والے کو۔ یہ حدیث مشہور ہے۔ بہت سے صحابۂ کرام? سے حضور ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا کہ بھلائی کا راستہ بتانے والا ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کو کرنے والا ہو۔ حق تعالیٰ شا نہٗ عم نوالہٗ کی عطا اور احسان، بخشش اور انعام کا کیا ٹھکانا ہے۔ اس کی عطائیں اس کے الطاف بے محنت ملتے ہیں، مگر ہم لینا ہی نہ چاہیں تو اس کا کیا علاج ہے؟ ایک شخص خود نفلیں کثرت سے نہیں پڑھ سکتا، وہ دوسروں کو ترغیب دے کر نفلیں پڑھوائے اس کوبھی ان کا ثواب ہو۔ خو د نادار ہونے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ما ل کثرت سے خرچ نہیں کرسکتا، دوسروں کو ترغیب دے کر خرچ کرائے اور خرچ کرنے والوں کے ساتھ خود بھی ثواب کا شریک بنے۔ ایک شخص خود روزے نہیں رکھ سکتا، حج نہیں کرسکتا، جہاد نہیں کرسکتا، اور کوئی عبادت نہیں کرسکتا، لیکن ان چیزوں کی دوسروں کو ترغیب دیتا ہے اور خود ان سب کاشریک بنتا ہے۔ بہت غور سے سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ اگر آدمی اپنے آپ ہی ان سب عبادتوں کو کرنے والا ہو تو ایک ہی کے کرنے کا ثواب تو ملے گا، لیکن ان چیزوں پر سو آدمیوں کو ترغیب دے کر کھڑا کر دے تو سو کا ثواب ملے گا۔ اور ہزار دو ہزار کو اور ان سے زیادہ کو لگا دے، تو جتنے لوگوں کو آمادہ کر دے گا سب کا ثواب ملتا رہے گا۔ اور لطف یہ ہے کہ خود اگر مر بھی جائے گا تو ان اعمال کے کرنے والوں کے اعمال کا ثواب بعد میں بھی پہنچتا رہے گا۔ کیا اللہ  کے احسانات کی کوئی حد ہے؟ اور کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو لاکھوں کو اپنی زندگی میں دینی کاموں پر لگا گئے اور اب مرنے کے بعد وہ ان اعمال کے کرنے والوں کے ثواب میں شریک ہیں۔
میرے چچا جان مولانا مولوی محمد الیاس صاحب نوّر اللہ مرقدہٗ فرمایا کرتے تھے اور مسرت سے فرمایا کرتے تھے کہ لوگ اپنے بعد آدمیوں کو چھوڑ کر جاتے ہیںمیں ملک کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ مطلب یہ تھا کہ میوات کا خطہ جہاں لاکھوں آدمی ان کی کوشش سے نمازی بنے، ہزاروں تہجد گزار بنے، ہزاروں حافظِ قرآن، ان سب کا ثواب ان شاء اللہ ان کو ملتا رہے گا۔ اور اب یہ خوش قسمت جماعت عرب اور عجم میں تبلیغ کر رہی ہے۔ ان کی کوشش سے جتنے آدمی کسی دینی کام میں لگ جائیں گے، نماز و قرآن پڑھنے لگیں گے، اس سب کا ثواب ان کوشش کرنے والوں کو بھی ہوگا اور ان کو بھی ہوگا جن کو یہ مسرت تھی کہ میں ملک چھوڑ کر جا رہا ہوں۔
زندگی بہرحال ختم ہونے والی چیز ہے اور مرنے کے بعد وہی کام آتا ہے جو اپنی زندگی میں آدمی کرلے۔ زندگی کے ان لمحات کو بہت غنیمت سمجھنا چاہیے اور جو چیز ذخیرہ بنائی جاسکتی ہو اس میں کسر نہ چھوڑنی چاہیے اور بہترین چیزیں وہ ہیں جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہے۔
میرے بزرگو اور دوستو! وقت کو بہت غنیمت سمجھو اور جو ساتھ لے جانا ہے لے جائو، بعد میں نہ کوئی باپ پوچھتا ہے نہ بیٹا، سب چند روز روکر چپ ہو جائیں گے، اور بہترین چیز صدقۂ جاریہ ہے۔
تیسری چیز حدیثِ بالا میں یہ ذکر فرمائی ہے کہ اللہ مصیبت زدہ لوگوں کی فریاد رسی کو پسند کرتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ اس پر رحم نہیں فرماتے جو آدمیوں پر رحم نہیں کرتا۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص مصیبت زدہ عورتوں کی مدد کرتا ہے یا غریب کی مدد کرتا ہے وہ ایسا ہے جیسا کہ جہاد میں کوشش کرنے والا ہو۔ اور غالباً یہ بھی فرمایا کہ وہ ایسا ہے جیسا کہ تمام رات نفلیں پڑھنے والا ہو کہ ذرا بھی سستی نہیں کرتا۔ اور وہ ایسا ہے جیسا کہ ہمیشہ روزہ رکھتا ہو کبھی افطار نہ کرتا ہو۔ (مشکاۃ المصابیح)
ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی مؤمن سے دنیا کی کسی مصیبت کو زائل کرتا ہے اللہ  اس سے قیامت کے دن کی مصیبت کو زائل کرتا ہے۔ اور جو شخص کسی مشکل میں پھنسے ہوئے کو سہولت پہنچاتا ہے اللہ  اس کو دنیا اور آخرت کی سہولت عطا فرماتا ہے۔ جو شخص کسی مسلمان کی دنیا میں پردہ پوشی کرتا ہے اللہ  دنیا اور آخرت میںاس کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرے اس کوایسا ثواب ہے جیسا کہ حق تعالیٰ شا نہٗ کی تمام عمر خدمت (عبادت) کی ہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت کو حاکم تک پہنچائے تو اس کی پلِ صراط پر چلنے میںمددکی جائیگی جس دن کہ اس پر پائوں پھسل رہے ہوں گے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کو حق تعالیٰ شا نہٗ نے اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ لوگوں کی حاجتیں پوری کیا کریں، ان کے کاموں میںمدد دیا کریں، یہ لوگ قیامت کے سخت دن میں بے فکر ہوںگے، ان کو کوئی خوف نہ ہوگا۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے مضطَر بھائی کی مددکرے حق تعالیٰ شا نہٗ اس کو اس دن ثابت قدم رکھیں گے جس دن پہاڑ بھی اپنی جگہ نہ ٹھہر سکیں گے۔ (یعنی قیامت کے دن) ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی کسی کلمہ سے اعانت کرے یا اس کی مدد میں قدم چلائے حق تعالیٰ شا نہٗ اس پر تہتر رحمتیں نازل فرماتے ہیں، جن میں سے ایک میں اس کی دنیا اور آخرت کی درستگی ہے ، اور بہتّر  آخرت میں رفعِ درجات کے لیے ذخیرہ ہیں۔
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث اس قسم کے مضامین کی صاحب ’’ِکنز العمال‘‘ نے نقل کی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرنے میں،ایک دوسرے کے ساتھ تعلق میں، ایک دوسرے پر مہربانی کرنے میں، ایک جسم کی طرح ہیں کہ جب بدن کا کوئی عضو مائوف ہو جاتا ہے تو سارے اَعضا جاگنے میں،بخار میں، اس کاساتھ دیتے ہیں۔ (مشکاۃ المصابیح) یعنی جیسا کہ ایک عضو کی تکلیف سے سارے اَعضا بے چین ہو جاتے ہیں، مثلًا: ہاتھ میں زخم ہو جاتا ہے تو پھر کسی عضو کو بھی نیند نہیں آتی، سب کو جاگنا پڑتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ اس کی اَکڑاہٹ سے سارے بدن کو بخار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ایک مسلمان کی تکلیف سے سب کو بے چین ہو جانا چاہیے۔
ایک اور حدیث میںہے کہ رحم کرنے والے آدمیوں پررحمن بھی رحم فرماتا ہے۔ تم ان لوگوں پررحم کرو جو دنیا میں ہیں، تم پر وہ رحم کریں گے جو آسمان میں ہیں۔ اس سے حق تعالیٰ شانہٗ بھی مراد ہوسکتے ہیں اور فرشتے بھی۔ ایک حدیث میں ہے کہ مسلمانوں کا بہترین گھر وہ ہے جس میںکوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا برتائو کیا جاتا ہو۔ اوربدترین گھروہ ہے جس میںکوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ برُا برتائو کیا جاتا ہو۔ (مشکاۃ المصابیح)
ایک حدیث میں ہے جو شخص میری امت میں سے کسی شخص کی حاجت پوری کرے تاکہ اس کو خوشی ہو، اس نے مجھ کو خوش کیا۔ اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ  کو خوش کیا۔ اور جو شخص حق تعالیٰ شا نہٗ کو خوش کرتا ہے وہ اس کو جنت میں داخل فرما دیتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص کسی مصیبت زدہ آدمی کی مددکرتا ہے اس کے لیے تہتر درجے مغفرت کے لکھے جاتے ہیں، جن میں سے ایک درجہ سے تو اس کی درستگی ہوتی ہے، (یعنی لغزشوں کا بدلہ ہو جاتا ہے) باقی بہتّر درجے رفعِ درجات کا سبب ہوتے ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ مخلوق ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کی عیال ہے۔ آدمیوں میں سب سے زیادہ محبوب اللہ  کے نزدیک وہ ہے جو اس کے عیال کے ساتھ اچھا برتائو کرے۔ (مشکاۃ المصابیح)
’’مخلوق ساری کی ساری اللہ کی عیال ہے ‘‘ مشہور حدیث ہے، متعدد صحابہ کرام? سے نقل کی گئی۔ علماء نے لکھا ہے کہ جیسا آدمی اپنے عیال کی روزی کا اہتمام کرنے والا ہوتا ہے، اسی طرح حق تعالیٰ شا نہٗ بھی اپنی ساری مخلوق کے روزی رَساں ہیں۔ اسی لحاظ سے ان کواللہ کے عیال بتایا گیا۔ (مقاصدِحسنہ) اوراس صفت میں مسلمانوں کی بھی خصوصیت نہیں ہے، مسلمان کافر سب ہی شریک ہیں، بلکہ سارے حیوانات اس میںداخل ہیں کہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے عیال ہیں۔ جو سب کے ساتھ حسنِ سلوک اور اچھا برتائو کرنے والا ہوگا وہ حق تعالیٰ شا نہٗ کو سب سے زیادہ محبوب ہوگا۔



۲۷۔ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ ؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ  یَقُوْلُ: مَنْ صَلَّی یُرَائِيْ فَقَدْ أَشْرَکَ،  وَمَنْ صَامَ یُرَائِيْ فَقَدْ أَشْرَکَ، وَمَنْ تَصَدَّقَ یُرَائِيْ فَقَدْ أَشْرَکَ۔
رواہ أحمد کذا في مشکاۃ المصابیح۔
ترجمہ:
حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ جس نے ریا کی نیت سے نماز پڑھی اس نے شرک کیا۔ جس نے ریا کے ارادہ سے روزہ رکھا اس نے شرک کیا۔ جس نے ریا کی نیت سے صدقہ دیااس نے شرک کیا۔
فائدہ:
یعنی جس نے ان عبادتوں میںاللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک بنالیا اور وہ وہ لوگ ہیں جن کو دکھانا مقصود ہے، اس نے اپنی عبادت کو خالص حق تعالیٰ شا نہٗ کے لیے نہیں رکھا، بلکہ اس کی عبادت ساجھے کی عبادت بن گئی اور اس عبادت کی غرض میں ان کا حصہ بھی ہوگیا جن کو دکھانا مقصود ہے۔
یہ بہت ہی اہم چیز ہے۔ اس پر اس فصل کو ختم کرتا ہوں۔ مقصد یہ ہے کہ جو عبادت بھی ہو خالص اللہ کی رضا کے واسطے ہو۔ اس میں کوئی فاسد غرض ریا، شہرت، وجاہت وغیرہ ہرگز نہ ہونا چاہیے کہ اس میں نیکی برباد گناہ لازم ہو جاتا ہے۔ احادیث میں بہت کثرت سے اس پروعیدیں اور تنبیہیں وارد ہوئی ہیں۔
ایک حدیثِ قدسی میں حق سبحانہ و تقدّس کاارشاد وارد ہوا ہے کہ میں سب شریکوں میں سب سے زیادہ بے پرواہ ہوں۔ جو شخص کسی عبادت میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کردیتا ہے میںاس عبادت کرنے والے کواس کے (بنائے ہوئے) شریک کے ساتھ چھوڑ دیتا ہوں۔ (مشکاۃ المصابیح) یعنی وہ اپنا بدلہ اور ثواب اس شریک سے جاکر لے لے، مجھ سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن ایک منادی اعلان کرے گا کہ جس شخص نے اپنے کسی عمل میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کیا ہے، وہ اس شریک سے اپناثواب مانگ لے، اللہ  شرکت سے بے نیاز ہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو ہم لوگ دجّال کا تذکرہ کررہے تھے۔ حضورِ اقدسﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایسی چیز بتائوں جس کا میں تم پر دجّال سے بھی زیادہ خوف کرتا ہوں؟ ہم نے عرض کیا کہ ضرور بتائیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ وہ شرکِ خفی ہے۔ مثلاً: ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے، (اخلاص سے شروع کی ہے ، کوئی شخص اس کی نماز کو دیکھنے لگے) وہ آدمی کے دیکھنے کی وجہ سے اپنی نماز لمبی کر دے۔
ایک دوسرے صحابی حضورﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ مجھے تم پر سب سے زیادہ خوف چھوٹے شرک کا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: چھوٹا شرک کیا ہے؟ حضور ﷺنے فرمایا: ریا ہے۔ ایک حدیث میں اس کے بعد یہ بھی ہے کہ جس دن حق تعالیٰ شا نہٗ بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ عطافرمائیں گے، ان لوگوں سے یہ ارشاد ہوگا کہ جن کو دکھانے کے لیے کیے تھے: دیکھو ان کے پاس تمہارے اعمال کا بدلہ ہے یا نہیں۔ (مشکاۃ المصابیح)
قرآن پاک میں بھی حق تعالیٰ شا نہٗ کا پاک ارشاد ہے:
{ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلاََ یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖ اَحَدًا o}  (الکہف : ع ۱۲)
ترجمہ:
جو شخص اپنے ربّ سے ملنے کی آرزو رکھے (اور ان کا محبوب و مقرب بننا چاہے) تو نیک کام کرتا رہے اور اپنے ربّ کی عبادت میں کسی کوشریک نہ کرے۔
حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ میں بعضے (دینی) مواقع میں اللہ کی رضا کے واسطے کھڑاہوتا ہوں، مگر میرا دل چاہتا ہے کہ میری اس کوشش کولوگ دیکھیں۔ حضورﷺنے اس کا کوئی جواب مرحمت نہیں فرمایا، حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوگئی۔
حضرت مجاہد ؒکہتے ہیں کہ ایک صاحب نے حضورِ اقدسﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں صدقہ کرتا ہوں اور صرف اللہ کی رضا مقصود ہوتی ہے، مگر دل یہ چاہتا ہے کہ لوگ مجھے اچھا کہیں۔ اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔
ایک حدیثِ قدسی میں ہے حق تعالیٰ شا نہٗ کاارشاد ہے کہ جو شخص اپنے عمل میں میرے ساتھ کسی دوسرے شخص کو شریک کرتا ہے تو میں اس عمل کو سارے ہی کو چھوڑ دیتا ہوں۔ میں صرف اسی عمل کو قبول کرتا ہوں جو خالص میرے لیے ہو۔ اس کے بعد حضور ﷺ نے یہ آیتِ شریفہ تلاوت فرمائی۔ ایک اور حدیث میں ہے: اللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے ساتھی کے ساتھ بہترین تقسیم کرنے والا ہوں۔ جو شخص اپنی عبادت میں میرے ساتھ کسی دوسرے کو ساجھی کر دے میں اپنا حصہ بھی اس ساجھی کو دے دیتا ہوں۔ ایک حدیث میں ہے کہ جہنم میںایک وادی ایسی ہے جس سے جہنم خودبھی چار سو مرتبہ روزانہ پناہ مانگتی ہے، وہ ریاکار قاریوں کے واسطے ہے۔
ایک اور حدیث میںحضورِ اقدسﷺ کا ارشاد آیا ہے کہ جُبُّ الْحُزْن سے پناہ مانگا کرو۔ (یعنی غم کے کنوئیں سے جو جہنم میں ہے) صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! اس میں کون لوگ رہیں گے؟ حضورﷺنے فرمایا کہ جو اپنے اعمال میں ریاکاری کرتے ہیں۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ یہ آیتِ شریفہ قرآنِ پاک میں سب سے آخر میں نازل ہوئی۔ (دُرِّمنثور) قرآن پاک میں دوسری جگہ ارشاد ہے:
{یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتُبْطِلُوْا صَدَقٰـتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالْاَذٰی لا کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِئَآئَ النَّاسِ (الآیۃ)}
 ( البقرۃ : ع ۳۶)
ترجمہ:
اے ایمان والو! تم احسان جتاکر یا اِیذا پہنچا کر اپنی خیرات کو برباد مت کرو، جس طرح وہ شخص (برباد) کرتا ہے جو اپنا مال لوگوں کو دکھلانے کی غرض سے خرچ کرتا ہے، اور ایمان نہیں رکھتا اللہ پر اور قیامت کے دن پر، اس شخص کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ایک چکنا پتھر ہو جس پرکچھ مٹی آگئی ہو (اور اس مٹی میں کچھ سبزہ وغیرہ جم گیا ہو)، پھر اس پتھر پرزور کی بارش پڑ جائے سو وہ اس کو بالکل صاف کر دے گی، (اسی طرح ان احسان رکھنے والوں، اِیذا دینے والوں اور ریاکاروں کا خرچ کرنا بھی بالکل صاف اُڑ جائے گا اور قیامت کے دن) ایسے لوگوں کو اپنی کمائی ذرا بھی ہاتھ نہ لگے گی۔ (یعنی یہ جو نیکیاں کی تھیں صدقات دیے تھے یہ سب ضائع جائیںگے)
اس کے علاوہ اور بھی کئی جگہ قرآنِ پاک میں ریا کی مذمت فرمائی ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جن لوگوں کا فیصلہ ہوگا ان میںایک تو شہید ہوگا، اس کو بلایا جائے گا اور بلانے کے بعددنیا میں جو اللہ کے انعامات اس پرہوئے تھے وہ اس کو یاد دلائے جائیں گے۔ اس کے بعد اس سے مطالبہ ہوگا کہ اللہ کی ان نعمتوں میں رہ کر تو نے کیا نیک عمل کیا؟ وہ عرض کرے گا کہ میں نے تیری رضا جُوئی میں جہاد کیا حتیٰ کہ شہید ہوگیااور تجھ پر قربان ہوگیا۔ ارشاد ہوگاکہ یہ جھوٹ ہے، تُو نے جہاد اس لیے کیا تھا کہ لوگ بڑا بہادر بتائیں گے، وہ تجھے بہت بڑا بہادر بتا چکے۔ (جو غرض عمل کی تھی وہ پوری ہو گئی ہے) اس کے بعد اس کوجہنم میں پھینک دینے کاحکم کیا جائے گا اورتعمیلِ حکم میں اس کومنہ کے بل کھینچ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
دوسرا شخص ایک عالم ہوگا جس کو بلا کر اللہ کے انعامات اور احسانات جتا کر اس سے بھی دریافت کیا جائے گا کہ اللہ کی ان نعمتوں میں تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے علم سیکھا اور لوگوں کو سکھایا، تیری رضا جوئی میں قرآن پاک پڑھتا رہا۔ ارشاد ہوگا: یہ سب جھوٹ ہے، یہ سب کچھ اس لیے کیاگیا تھاکہ لوگ کہیں گے کہ فلاں شخص بڑا عالم، بڑا قاری ہے، سو لوگوں نے کہہ دیا ہے۔ (اور جو مقصد اس محنت سے تھا وہ حاصل ہوچکا ہے) اس کے بعد اس کوبھی جہنم میں پھینکنے کا حکم کیاجائے گا اور تعمیلِ حکم میں منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔ تیسرا شخص ایک سخی ہوگا جس پراللہ نے دنیا میں بڑی وسعت فرما رکھی تھی، ہر قسم کے مال سے اس کو نوازا تھا، اس کو بلایا جائے گا اور جوا نعامات اللہ نے اس پر دنیا میں فرمائے تھے وہ جتا کرسوال کیا جائے گا کہ ان انعامات میں تیری کیاکارگزاری ہے؟ وہ عرض کرے گا کہ میں نے خیر کا کوئی موقع جس میں خرچ کرنا آپ کوپسند ہو ایسا نہیں چھوڑا جس میں آپ کی خوشنودی کے لیے خرچ نہ کیا ہو۔ ارشاد ہوگا: یہ جھوٹ ہے، تو نے محض اس لیے خرچ کیا کہ لوگ کہیںگے بڑا سخی شخص ہے، سو کہا جاچکا ہے ۔ اس کے بعداس کوبھی جہنم میں پھینکنے کا حکم ہوگا اور تعمیلِ حکم میں منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مشکاۃ المصابیح بروایۃ مسلم) 
اس حدیث میں، اور اسی طرح اور احادیث میںجہاں ایک شخص کا ذکرآتا ہے اس سے ایک قسم آدمیوںکی مراد ہوتی ہے۔ یہ مطلب نہیں کہ یہ معاملہ صرف تین آدمیوں کے ساتھ کیا جائے گا، بلکہ مطلب یہ ہے کہ تینوں قسم کے آدمیوں سے یہ مطالبہ ہوگا اورمثال کے طور پر ہر قسم میں سے ایک ایک آدمی کا ذکر کر دیا۔
ان کے علاوہ اور بھی احادیث میں کثرت سے اس پر تنبیہ کی گئی ہے اور بہت زیادہ اہمیت سے حضورِ اقدسﷺ نے اپنی امت کو اس پر متنبّہ کیا ہے کہ جو کام بھی کیاجائے وہ خالص اللہ  کے لیے کیا جائے، اور جتنا بھی اہتمام ہوسکے اس کاکیا جائے کہ اس میں ریااور نمود وشہرت اور دکھاوے کا شائبہ بھی نہ آنے پائے، مگراس جگہ شیطان کے ایک بڑے مکر سے بے فکر نہ ہونا چاہیے۔ دشمن جب قوی ہوتا ہے وہ مختلف انواع سے اپنی دشمنی نکالا کرتا ہے۔ یہ بہت مرتبہ آدمی کو اس وسوسہ کی بدولت کہ اخلاص تو ہے ہی نہیں، اہم ترین عبادتوں سے روک دیاکرتا ہے۔
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ شیطان اوّل تو نیک کام سے روکا کرتا ہے اور ایسے خیالات دل میں ڈالا کرتا ہے جس سے اس کام کے کرنے کا ارادہ ہی پیدا نہ ہو، لیکن جب آدمی اپنی ہمت سے اس کامقابلہ کرتا ہے اور اس کے روکنے پر عمل نہیں کرتا تو وہ کہاکرتا ہے تجھ میں اخلاص توہے ہی نہیں، یہ تیری عبادت محنت بے کار ہے، جب اخلاص ہی نہیں پھر ایسی عبادت کرنے سے کیا فائدہ؟ اور اس قسم کے وسوسے پیدا کرکے نیک کام سے روک دیا کرتا ہے۔ اور جب آدمی رک جاتا ہے تو اس کی غرض پوری ہو جاتی ہے۔ (اِحیاء العلوم) اس لیے اس خیال سے نیک کام کرنے سے رکنا نہیں چاہے کہ اخلاص تو ہے ہی نہیں، بلکہ نیک کام کرنے میں اخلاص کی کوشش کرتے رہنا چاہیے اور اس کی دعاکرتا رہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ محض اپنے لطف سے دستگیری فرمائے تاکہ نہ تو دین کا مشغلہ ضائع ہو، نہ برباد ہو۔
وَمَا ذٰلِکَ  عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ






دوسری فصل
بخل کی مذمت میں
پہلی فصل میں جتنی آیات اور احادیث اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کی گزر چکی ہیں ان سے خود ہی یہ بات ظاہر ہوگئی کہ جب اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کے اتنے فضائل وفوائد اور خوبیاں ہیں تو جتنی اس میں کمی ہوگی یہ منافع حاصل نہ ہوں گے۔ یہ خود ہی کافی مذمت اِنتہائی نقصان ہے، لیکن اللہ  اور اس کے پاک رسولﷺ نے تنبیہ اور اہتمام کی وجہ سے بخل اور مال کو روک کر رکھنے پرخصوصی وعیدیں بھی ارشاد فرمائی ہیں، جو اللہ کا انعام اور اس کے پاک رسول کی امت پر اتنہائی شفقت ہے کہ اس نے اس مہلک مرض پر خاص طور سے بہت سی تنبیہیں فرما دیں۔ قرآن و حدیث میں ہر مضمون نہایت ہی کثرت سے ذکر کیا گیا اور مختلف عنوانوں سے ہرخیر کے کرنے پر ترغیب اور ہر برائی سے رکنے پر تنبیہیں کی گئیں۔ کسی ایک مضمون کا اِحاطہ بھی دشوار ہے۔ نمونہ کے طور پر اس کے متعلق بھی چند آیات اور چند احادیث لکھی جاتی ہیں۔

آیات:
۱۔ وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاََ تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی الْتَّھْلُکَۃِ ج
(البقرۃ : ع  ۲۴)
تم لوگ اللہ کے راستہ میں خرچ کیاکرو اوراپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو۔

فائدہ:
یہ آیتِ شریفہ پہلی فصل کے سلسلۂ آیات میں نمبر (۳) پرگزر چکی ہے۔ اس آیتِ شریفہ میں اللہ کے راستہ میں خر چ نہ کرنے کواپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت اور تباہی میں ڈالنا قرار دیا ہے جیساکہ پہلے مفصل صحابہ کرام ? سے نقل کیا جاچکا ہے۔ کون شخص ہے جو اپنی تباہی اوربربادی چاہتا ہو؟ مگر کتنے آدمی ہیں جو یہ معلوم ہو جانے کے باوجود کہ یہ تباہی اور بربادی کا ذریعہ ہے اس سے بچتے ہیں اور مال کو جوڑ جوڑ کر نہیں رکھتے۔ اس کے سوا کیا ہے کہ غفلت کا پردہ ہم لوگوں کے دلوں پر پڑا ہوا ہے اور اپنے ہاتھوں ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتے جا رہے ہیں۔
۲۔ اَلشَّیْطَانُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئِ ج وَاللّٰہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَ فَضْلاً  ط وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ o  (البقرۃ : ع ۳۷)  


شیطان تم کو محتاجی (اور فقر) سے ڈراتا ہے اور تم کو بری بات (بخل) کا مشورہ دیتا ہے، اوراللہ تعالیٰ تم سے (خرچ کرنے پراپنی طرف سے) گناہ معاف کر دینے کا اور زیادہ دینے کا  
وعدہ کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ وسعت والے ہیں، (وہ سب کچھ دے سکتے ہیں) خوب جاننے والے ہیں۔ (نیت کے موافق ثمرہ دیتے ہیں)
فائدہ: حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں: حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ آدمی کے اندر ایک تو شیطان تصرُّف کرتا ہے اور ایک فرشتہ تصرُّف کرتا ہے۔ شیطان کا تصرُّف تو برائی کے ساتھ ڈرانا ہے (مثلاً صدقہ کرے گا تو فقیرہو جائے گا وغیرہ وغیرہ) اور حق بات کا جھٹلانا ہے، اور فرشتہ کا تصرُّف بھلائی کاوعدہ کرنا ہے اور حق بات کی تصدیق کرنا ہے۔ جو اس کوپاوے (یعنی بھلائی کی بات کا خیال دل میںآوے تو اس کو) اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھے اور اس کا شکر ادا کرے، اور جو دوسری بات کو پاوے (یعنی براخیال دل میں آوے) تو شیطان سے پناہ مانگے۔ اس کے بعد حضورِ اقدسﷺ نے یہ آیتِ شریفہ پڑھی۔ (مشکاۃ المصابیح)
یعنی حضورِ اقدسﷺ نے اپنے ارشاد کی تائید میں یہ آیتِ شریفہ پڑھی جس میں حق تعالیٰ شا نہٗ کا ارشاد ہے کہ شیطان فقر کا خوف اور فحش باتوں کی ترغیب دیتا ہے اوریہی حق کا جھٹلانا ہے۔
حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ اس آیتِ شریفہ میں دو چیزیں اللہ کی طرف سے ہیں اور دو چیزیں شیطان کی طرف سے ہیں۔ شیطان فقر کا وعدہ کرتا ہے اوربری بات کا حکم کرتا ہے۔ یہ کہتا ہے کہ مال خرچ نہ کر، احتیاط سے رکھ تجھے اس کی ضرورت پڑے گی، اور اللہ ان گناہوں پر مغفرت کا وعدہ فرماتا ہے اوررزق میں زیادتی کا وعدہ فرماتا ہے۔ (دُرِّمنثور)
امام غزالی ؒفرماتے ہیں کہ آدمی کو آیندہ کے فکر میں زیادہ مبتلا نہیں رہنا چاہیے کہ کیا ہوگا، بلکہ جب حق تعالیٰ شا نہٗ نے رزق کا وعدہ فرما رکھا ہے تو اس پر اعتماد کرنا چاہیے اور یہ سمجھتے رہنا چاہیے کہ آیندہ کی اِحتیاج کا خوف شیطانی اثر ہے، جیسا کہ اس آیتِ شریفہ میں بتایا گیا۔ وہ آدمی کے دل میں یہ خیال پکاتا رہتا ہے کہ اگر تو مال جمع کرکے نہیں رکھے گاتو جس وقت تو بیمار ہو جائے گا یا کمانے کے قابل نہیںرہے گا یا کوئی اور وقتی ضرورت پیش آجائے گی تواس وقت تو مشکل میں پھنس جائے گا، اور تجھے بڑی دِقّت اور تکلیف ہوگی۔ اور ان خیالات کی وجہ سے اس کو اس وقت مشقت اور کوفت اور تکلیف میں پھانس دیتا ہے، اورہمیشہ اسی تکلیف میں مبتلا رکھتا ہے، اور پھر اس کا مذاق اڑاتا ہے کہ یہ احمق آیندہ کی موہوم تکلیف کے ڈر سے اس وقت کی یقینی تکلیف میں پھنس رہا ہے۔ (اِحیاء العلوم) کہ جمع کی فکر میںہر وقت پریشان رہتا ہے اور آیندہ کا فکر سوار رہتا ہے۔
۳۔ وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ  یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰـھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْط بَلْ ھُوَشَرٌّ لَّھُمْط سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط وَلِلّٰہِ مِیْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌo                                
(آل عمران: ع ۱۸)


ہرگز خیال نہ کریں ایسے لوگ جو ایسی چیز کے خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں جو ان کو اللہ نے محض اپنے فضل سے عطا کی ہے کہ یہ بات (یعنی بخل کرنا) ان کے لیے کچھ اچھی ہوگی، (ہرگز نہیں) بلکہ یہ بات اُن کے لیے بہت بری ہوگی، ا س لیے کہ وہ لوگ قیامت کے دن طوق پہنائے جائیں گے 
اس مال کا جس کے ساتھ بخل کیا تھا، (یعنی سانپ بناکر ان کی گردنوں میں ڈال دیا جائے گا) اور اَخیر میں آسمان و زمین (اور جو کچھ ا ن کے اندر ہے، لوگوں کے مرجانے کے بعد) اللہ ہی کا رہ جائے گا (تم اپنے ارادہ سے اس کو دے دو تو ثواب بھی ہو ورنہ ہے تو اسی کا) اورا للہ تمہارے سارے اعمال سے خبردار ہیں۔
فائدہ: ’’بخاری شریف‘‘ میں حضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد وارد ہوا ہے کہ جس شخص کو اللہ نے مال عطاکیا ہو اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو تو وہ مال قیامت کے دن ایک گنجا سانپ (جس کے زہر کی کثرت اور شدت کی وجہ سے اس کے سرکے بال بھی جاتے رہے ہوں) بنایا جائے گا، جس کے منہ کے نیچے دو نقطے ہوں گے (یہ بھی زہر کی زیادتی کی علامت ہے) اور وہ سانپ اس کے گلے میں ڈال دیاجائے گا، جو اس شخص کے دونوں جبڑے پکڑ لے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں،میں تیرا خزانہ ہوں۔ اس کے بعد حضورِ اقدسﷺ نے یہ آیتِ شریفہ تلاوت فرمائی۔ (مشکاۃ المصابیح)
یہ حدیث شریف زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وعیدوں میں پانچویں فصل کی احادیث میں نمبر(۲)  پر آرہی ہے۔ حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیںکہ یہ آیتِ شریفہ کافروں کے بارے میں اور اس مؤمن کے بارے میں جو اپنے مال کو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے سے بخل کرتا ہو نازل ہوئی ہے۔ عِکرمہ  ؒ کہتے ہیں کہ مال میں سے جب اللہ کے حقوق ادا نہ ہوتے ہوں تو وہ مال گنجا سانپ بن کر قیامت میں اس کے پیچھے لگ جائے گا اور وہ آدمی اس سانپ سے پناہ مانگتا ہوا ہوگا۔
حجر بن بیانؓحضور ﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیںکہ جو ذی رحم اپنے قریبی رشتہ دار سے اس کی ضرورت سے بچے ہوئے مال سے مدد مانگے، اور وہ مدد نہ کرے اور بخل کرے، تو وہ مال قیامت کے دن سانپ بنا کر اس کو طوق پہنا دیا جائے گا، اور پھر حضورِ اقدسﷺ نے یہ آیتِ شریفہ تلاوت فرمائی۔ اور متعدد صحابہ کرام? سے بھی یہ مضمون نقل کیا گیا۔
مسروق ؒکہتے ہیں کہ یہ آیتِ شریفہ اس شخص کے بارے میں ہے جس کو اللہ نے مال عطا کیا اور وہ اپنے رشتہ داروں کے ان حقوق کو جو اللہ نے اس پر رکھے ہیں، ادا نہ کرے ، تو اس کا مال سانپ بنا کر اس کو طوق پہنا دیا جائے گا۔ وہ شخص اس سانپ سے کہے گا کہ تو نے میرا پیچھا کیوں کیا؟ وہ کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں۔ (دُرِّمنثور)
اما م رازی ؒ ’’تفسیرِ کبیر ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں کہ اوپر کی آیات میں جہاد میں اپنی جانوں کی شرکت پر تاکید و ترغیب تھی۔ اس کے بعد اس آیت میں جہاد میں مال خرچ کرنے کی تاکید ہے۔ او رتنبیہ ہے کہ جو لوگ جہاد میں مال خرچ نہیں کرتے تو وہ مال سانپ بن کر ان کے گلے کا ہار بن جائے گا۔ اور اس کے بعد امام رازی ؒ طویل بحث اس پر کرتے ہیں کہ جو شدید و عید اس آیتِ شریفہ میں ہے وہ تطوُّعات کے ترک پر تو مشکل ہے، ترکِ واجب پر ہی ہو سکتی ہے۔ البتہ واجبات کئی قسم کے ہیں۔ اوّل اپنے اوپر اور اپنے ان اقارب پر خرچ کرنا جن کا نفقہ اپنے ذمہ واجب ہے۔ دوسرے زکوٰۃ۔ تیسرے جس وقت مسلمانوں پر کفار کا ہجوم ہو کہ وہ ان کے جان و مال کو ہلاک کرنا چاہتے ہوں، تو اس وقت سب مال داروں پر حسبِ ضرورت خرچ کرنا واجب ہے، جس سے مدافعت کرنے والوں کی مدد ہو کہ یہ دراصل اپنی ہی جان و مال کی حفاظت میں خرچ ہے۔ چوتھے مضطَر پر خرچ کرنا ہے جس سے اس کی جان کا خطرہ زائل ہو جائے۔ یہ سب اخراجات واجب ہیں۔
۴۔ اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالاً فَخُوْرَانِ o الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالبُخْلِ وَیَکْتُمُوْنَ مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖط وَاَعْتَدْنَا لِلْکَفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا o (النساء : ع ۴)


بے شک اللہ ایسے آدمیوں کو پسند نہیں کرتا جو (دل میں) اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوں۔ (زبان سے شیخی کی باتیں کرتے ہوں۔) جو خود بھی بخل کرتے ہوں اور دوسروں کو بخل کی تعلیم دیتے ہوں۔ 
اور جو چیز اللہ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے اس کو چھپاتے ہوں، اورہم نے ایسے ناشکروں کے لیے اِہانت والا عذاب تیار کررکھا ہے۔
فائدہ: ’’دوسروں کو بخل کی تعلیم دیتے ہوں‘‘ عام ہے کہ زبان سے ان کوترغیب دیتے ہوں یا اپنے عمل سے تعلیم دیتے ہوں کہ ان کے عمل کو دیکھ کر دوسروں کو بخل کی ترغیب ہوتی ہو۔ بہت سی احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ جو شخص برا طریقہ اختیار کرتا ہے اس کو اپنے کیے کا وبال بھی ہوتا ہے اور جتنے آدمی اس کی وجہ سے اس پر عمل کریں ان سب کا گناہ بھی اس کوہوتا ہے، اس طرح پر کہ ان کو اپنی اپنی سزائوں میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ یہ مضمون قریب ہی مفصل گزر چکا ہے۔
حضرت مجاہد ؒ سے ’’مُخْتَالاً  فَخُوْرًا‘‘کی تفسیر میں نقل کیا گیا کہ یہ ہر وہ متکبر ہے جو اللہ کی عطا کی ہوئی چیزوں کو گن گن کررکھتا ہے اور اللہ  کا شکر ادا نہیں کرتا۔ حضرت ابو سعید خدریؓ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ قیامت کے دن جب حق تعالیٰ شا نہٗ ساری مخلوق کو ایک جگہ جمع فرما دیں گے توجہنم کی آگ تَوبتَو چڑھتی ہوئی ان کی طرف شدت سے بڑھے گی۔ جو فرشتے اس پر متعین ہیں وہ اس کو روکنا چاہیں گے تووہ کہے گی کہ میرے ربّ کی عزت کی قسم! یا تو مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنے جوڑی داروں (یاروں) کو لے لوں، ورنہ میں سب پر چھا جائوں گی۔ وہ پوچھیں گے: تیرے جوڑی دارکون ہیں؟ وہ کہے گی: ہر متکبر ظالم۔ اس کے بعد جہنم اپنی زبان نکالے گی اور ہر ظالم متکبر کو چن چن کر اپنے پیٹ میں ڈال لے گی (جیسا کہ جانور زبان کے ذریعہ سے گھاس کھاتا ہے) ان سب کو چن کر پیچھے ہٹ جائے گی۔ اس کے بعد اسی طرح دوبارہ زورکرکے آئے گی اور یہ کہے گی کہ مجھے اپنے جوڑی داروں کو لینے دو۔ اور جب اس سے پوچھاجائے گا کہ تیرے جوڑی دارکون ہیں؟ تو وہ کہے گی: ہر اَکڑنے والا، ناشکری کرنے والا۔ اور پہلے کی طرح ان کو بھی چن کر اپنی زبان کے ذریعہ سے اپنے پیٹ میں ڈال لے گی۔ پھر اسی طرح جوش کرکے چلے گی اور اپنے جوڑی داروں کامطالبہ کرے گی اور جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تیرے جوڑی دارکون لوگ ہیں؟ تو وہ اس مرتبہ کہے گی: ہر اَکڑنے والا، فخر کرنے والا۔ اور ان کو بھی چن کر اپنے پیٹ میں ڈال لے گی۔ اس کے بعد لوگوں کا حساب کتاب ہوتا رہے گا۔
حضرت جابر بن سُلیم ہجیمیؓفرماتے ہیں کہ میں حضورِ اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ مدینہ منورہ کی ایک گلی میں چلتے ہوئے حضورﷺسے ملاقات ہوگئی۔ میں نے سلام کیا اور لنگی کے متعلق مسئلہ دریافت کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ پنڈلی کے موٹے حصے تک ہونی چاہیے، اور اگر تجھے اتنی اونچی پسند نہ ہو تو تھوڑی اور نیچے تک سہی، اور یہ بھی پسند نہ ہو تو ٹخنوں کے اوپر تک، اور یہ بھی پسند نہ ہو تو (آگے گنجایش نہیں اس لیے کہ ) اللہ  متکبر فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔ (اور ٹخنوں سے نیچے لنگی یا پاجامہ کو لٹکانا تکبر میں داخل ہے) پھر میں نے کسی کے ساتھ احسان اوربھلائی کرنے کے متعلق دریافت کیا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ بھلائی کو حقیر نہ سمجھو (کہ اس وجہ سے ملتوی کر دو) چاہے رسی کاٹکڑا ہی کیوں نہ ہو، جوتے کاتسمہ ہی کیوں نہ ہو۔ کسی پانی مانگنے والے کے برتن میں پانی کا ڈول ہی ڈال دو۔ راستہ میں کوئی اَذیت پہنچانے والے چیز ہو اس کو ہٹا دو۔ حتیٰ کہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے بات ہی سہی، راستہ چلنے والے سے سلام ہی سہی، کوئی گھبرا رہا ہو اس کی دل بستگی ہی سہی۔ (کہ یہ سب چیزیں احسان اور نیکی میں داخل ہیں) اور اگر کوئی شخص تمہارے عیب کو ظاہر کرے اور تمہیں اس کے اندر کوئی دوسرا عیب معلوم ہے تو تم اس کو ظاہر نہ کرو۔ تمہیں اس اِخفا کاثواب ملے گا، اس کو اس اِظہار کا گناہ ہوگا۔اور جس کام کو تم یہ سمجھو کہ کسی کو اس کی خبر ہوگئی تو مضائقہ نہیں، اس کو کرو۔ اور جس کو تم یہ سمجھو کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو، اس کو نہ کرو۔ (یہ علامت اس کے برا ہونے کی ہے)
حضرت عبداللہ بن عباس? فرماتے ہیں کہ کَرْدم بن یزید وغیرہ بہت سے آدمی انصار کے پاس آتے اور ان کو نصیحت کرتے کہ اتنا خرچ نہ کیاکرو، ہمیں ڈر ہے کہ یہ سب خرچ ہو جائے گا تم فقیر بن جائوگے، ہاتھ روک کر خرچ کیا کرو، نہ معلوم کہ کل کو کیا ضرورت پیش آجائے۔ ان لوگوں کی مذمت میں یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔ (دُرِّمنثور)
۵۔ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ  الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ o یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِجَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْ ط ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ  لِاَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ o (التوبۃ : ع ۵)


 جو لوگ سونا چاندی جمع کرکے خزانہ کے طور پر رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی را ہ میں خرچ نہیں کرتے، آپ ان کو بڑے دردناک  عذاب کی خوش خبری سنا دیجیے۔ وہ اس دن ہوگا جس دن ان کو (سونے چاندی کو) اوّل جہنم کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر ان سے ان لوگوںکی پیشانیوں اور پسلیوں اور 
پشتوں کو داغ دیا جائے گا، اور کہا جائے گا کہ یہ و ہ ہے جس کو تم نے اپنے واسطے جمع کرکے رکھا تھا، اب اس کامزہ چکھو جس کو جمع کرکے رکھا تھا۔
فائدہ:
علماء نے لکھا ہے کہ پیشانیوں وغیرہ کے ذکر سے آدمی کی چاروں طرف مراد ہیں۔ پیشانی سے اگلا حصہ، پسلیوں سے دایاں اوربایاں، اور پشت سے پچھلا حصہ مراد ہے۔ اور مطلب یہ ہے کہ سارے بدن کو داغ دیا جائے گا۔ ایک حدیث سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے جس میںمنہ سے قدم تک داغ دیا جانا وارد ہوا ہے۔
اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ ان تینوں اَعضا کی خصوصیت اس لیے ہے کہ ان میں ذرا سی تکلیف بھی زیادہ محسو س ہوتی ہے۔ اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ ان تین کو اس وجہ سے ذکر کیا کہ آدمی جب چہرہ سے فقیر کو دیکھتا ہے تو پہلو بچا کر اس طرف پشت کرکے چل دیتا ہے، اس لیے ان تینوں اَعضا کو خصوصیت سے عذاب ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی وجو ہ ذکر کی گئیں۔  (تفسیرِ کبیر)
اس آیتِ شریفہ میں اس مال کو تپا کر داغ دینا وارد ہے اور آیت نمبر(۳ ) پر اس کا سانپ بن کر پیچھے لگنا وارد ہوا ہے، ان دونوں میں کچھ اِشکال نہیں، یہ دونوں عذاب علیحدہ علیحدہ ہیں، جیسا کہ زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے بیان میں پانچویں فصل کی حدیث نمبر (۲) پر آرہاہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس? اور متعدد صحابہ کرام? سے نقل کیا گیا کہ اس آیتِ شریفہ میں خزانہ سے مراد وہ مال ہے جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو اور جس کی زکوٰۃ اداکر دی گئی ہو وہ خزانہ نہیں ہے۔ حضرت ابنِ عمر? سے نقل کیا گیا کہ یہ حکم زکوٰۃ کا حکم نازل ہونے سے پہلے تھا۔ جب زکوٰۃ کا حکم نازل ہوگیا تو حق تعالیٰ شا نہٗ نے زکوٰۃ اداکر دینے کو بقیہ مال کے پاک ہو جانے کا سبب قرار دیا۔
حضرت ثوبانؓ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی تو ہم حضورِاقدسﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے، تو بعض صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! سونا چاندی جمع کرنے کا تویہ حشر ہے۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ بہترین مال کیا ہے جس کو خزانہ کے طور پر جمع کرکے رکھیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: اللہ کا ذکر کرنے والی زبان، اللہ کا شکر ادا کرنے والا دل اور نیک بیوی جو آخرت کے کاموں میں مدد دیتی رہے۔
حضرت عمرؓ سے نقل کیا گیا کہ جب یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی تو وہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یہ آیتِ شریفہ تولوگوں پربہت بار ہو رہی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے زکوٰۃ اسی لیے مشروع فرمائی ہے کہ بقیہ مال پاک ہو جائے اور میراث تو اسی مال میںجاری ہوگی جو بعد میں باقی رہے، اور بہترین چیز جس کو آدمی خزانہ کی طرح محفوظ رکھے وہ نیک بیوی ہے جس کو دیکھ کر جی راضی ہو جائے، جب اس کو کوئی حکم کیا جائے فوراً اطاعت کرے اور جب خاوند غائب ہو (سفر وغیرہ میں) تواپنی (اور اس کے مال کی) حفاظت کرے۔
حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں: جب یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی تو صحابہ ? میں اس کا چرچا ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ نے حضورﷺ سے دریافت کیا: یارسول اللہ! خزانہ بنانے کے لیے کیا چیز بہتر ہے؟ حضورﷺنے فرمایا: ذکر کرنے والی زبان ، شکر کرنے والا دل اور وہ نیک بیوی جو ایمانی چیزوں پر مدد کرے۔
حضرت ابوذرؓ حضورِ اقدسﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ جو شخص دینار (سونے کاسکہ) دِرَم (چاندی کا سکہ) یا سونے چاندی کا ٹکڑا رکھے گا اور اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کرے گا بشرطے کہ قرض کے ادا کرنے کے واسطے نہ رکھا ہو، وہ خزانہ میں داخل ہے، جس کا قیامت کے دن داغ دیا جائے گا۔ حضرت ابوامامہؓ حضورِ اقدسﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ جو شخص سونا یا چاندی چھوڑ کر مر جائے اس کاقیامت کے دن داغ دیا جائے گا، بعد میں چاہے جہنم میں جائے یامغفرت ہو جائے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ  حضورِاقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے کہ اللہ نے مسلمانوں کے اَغنیا کے مالوں میں وہ مقدار فر ض کر دی ہے جوان کے فقرا کو کافی ہے۔ فقرا کو بھوکے یا ننگے ہونے کی مشقت صرف اسی وجہ سے پڑتی ہے کہ اَغنیا ان کو دیتے نہیں۔ خبردار رہو کہ حق تعالیٰ شا نہٗ قیامت کے دن ان اَغنیا سے سخت مطالبہ کریں گے یا سخت عذاب دیں گے۔ (دُرِّمنثور) ’’کنز العمال‘‘ میں اس حدیث پر کلام بھی کیا ہے اور حضرت ابوہریرہؓکی حدیث سے نقل کیا کہ اگر اللہ کے علم میںیہ بات ہوتی کہ اَغنیا کی زکوٰۃ فقرا کو کافی نہ ہوگی، تو زکوٰۃ کے علاوہ اور کوئی چیز ان کے لیے تجویز فرماتے جو ان کو کافی ہو جاتی۔ پس اب جوفقرا بھوکے ہیں وہ اَغنیا کے ظلم کی وجہ سے ہیں۔ (کنز العمال) کہ وہ پوری زکوٰۃ نہیں نکالتے۔
حضرت بلالؓ سے نقل کیاگیا کہ حضورﷺ نے اُن سے ارشاد فرما: اللہ تعالیٰ سے فقر کی حالت میں ملو، تونگری کی حالت میں نہ ملو۔ انھوںنے عرض کیا: اس کی کیا صورت ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ جب کہیں سے کچھ میسر ہو اس کو چھپا کر نہ رکھو، مانگنے والے سے انکار نہ کرو۔ انھوں نے عرض کیا: حضور! یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: یہی ہے، او ر یہ نہ ہو تو جہنم ہے۔ (دُرِّمنثور) حضر ت ابوذر غفاریؓ بھی انہی حضرات میں ہیں جن کامسلک یہ ہے کہ روپیہ پیسہ بالکل رکھنے کی چیز نہیں ہے۔ ایک دِرَم جہنم کا ایک داغ ہے اور دو دِرَم دو داغ ہیں۔ ان کے مختلف واقعات پہلے گزر چکے ہیں جن میں سے بعض پہلی فصل کے سلسلۂ احادیث میں نمبر (۱) پر گزرے۔
ایک مرتبہ حبیب بن سلمہ ؒ نے جو شام کے امیر تھے حضرت ابوذرؓ کے پاس تین سو دینار (اشرفیاں) بھیجے اور عرض کیا کہ ان کو اپنی ضروریات میں صرف کرلیں۔ حضرت ابو ذرؓ نے واپس فرما دیے اور یہ فرما دیا کہ دنیا میں اللہ کے ساتھ دھوکہ کھانے والا میرے سوا کوئی نہ ملا؟ (یعنی دنیا کی اتنی بڑی مقدار اپنے پاس رکھنا اللہ تعالیٰ شا نہٗ سے غافل ہوناہے) اور یہی اللہ کے ساتھ دھوکہ ہے کہ اس کے  عذاب سے آدمی بے فکر ہو جائے جس کو حق تعالیٰ شا نہٗ نے متعدد جگہ قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا کہ تم کو دھوکہ باز شیطان اللہ تعالیٰ کے ساتھ دھوکہ میںنہ ڈال دے، جیسا کہ چھٹی فصل میں دنیا اور آخرت کی آیات میں نمبر (۳۸) پر آرہا ہے۔ اس کے بعد حضرت ابوذرؓ نے فرمایا کہ مجھے صرف تھوڑا سا سایہ چاہیے جس میں اپنے کو چھپالوں اور تین بکریاں جن کے دودھ پر ہم سب گزر کرلیں اور ایک باندی جو اپنی خدمت کا احسان ہم پر کردے۔ اس سے زائدجو ہو مجھے ان کے اندر اللہ سے ڈرلگتا ہے۔ ان کا یہ بھی ارشاد ہے کہ قیامت کے دن دو دِرَم والا ایک دِرَم والے کی بہ نسبت زیادہ قید میں ہوگا۔ (دُرِّمنثور)
حضرت عبداللہ بن صامتؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت ابوذر غفاری ؓ کے پاس تھا کہ ا ن کا روزینہ بیت المال سے آیا۔ ایک باندی ان کے پاس تھی جو ان میں سے ضروری چیزیں خرید کرلائی۔ اس کے بعد سات دِرَم ا ن کے پاس بچے۔ فرمانے لگے کہ اس کے پیسے کر لائو۔ (تاکہ تقسیم کر دیں) میں نے کہا: ان کوا پنے پاس رہنے دو کوئی ضرورت پیش آجائے، کوئی مہمان آجائے۔ فرمایا: مجھ سے میرے محبوب (ﷺ) نے یہ طے شدہ بات فرمائی تھی کہ جس سونے یا چاندی کو باندھ کر رکھاجائے گا وہ اپنے مالک پر آگ کی چنگاری ہے جب تک کہ اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کر دیا جائے۔ (الترغیب و الترہیب)
حضرت شداد ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوذرؓ حضورِ اقدسﷺ سے کوئی سخت حکم سنتے تھے پھر جنگل چلے جاتے تھے۔ (کہ اکثر جنگل میں قیام رہتا تھا) ان کے تشریف لے جانے کے بعد اس حکم میں کچھ سہولت پیدا ہو جاتی، جس کا ان کو علم نہ ہوتا۔ اس لیے وہ سخت ہی حکم پر قائم رہتے۔ (دُرِّمنثور) 
یہ صحیح ہے کہ حضرت ابوذرؓ کا مسلک اس بارے میں بہت ہی سخت اور شدت کا ہے۔ باقی اس میں تو شک نہیں کہ زُہد کا کمال یہی ہے کہ جو ان کامسلک تھا اور بہت سے اکابر کا یہی پسندیدہ معمول رہا، مگرا س پر نہ تو کسی کو مجبور کیا جاسکتا ہے ، نہ اس پر عمل نہ کرنے میں جہنمی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اپنی خوشی اور رضا و رغبت سے اختیار کرنے کی چیز یہی ہے۔ جس خوش نصیب کوبھی اللہ اپنے لطف و کرم سے نصیب فرمادے۔ کاش! اس دنیا کے کتّے کو بھی اللہ  ان حضرات زاہدین کے اوصاف ِجمیلہ کا کچھ حصہ عطا فرما دیتا۔ فَإِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔
۶۔ وَمَا مَنَعَھُمْ اَنْ  تُقْبَلَ مِنْھُمْ نَفَقٰـتُھُمْ اِلاَّ اَنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ


اور ان منافقوں کی خیر خیرات قبول ہونے سے اس کے سوا کوئی چیز مانع نہیں ہے کہ انھوں نے
 وَبِرَسُوْلِہٖ وَلَا یَاْتُوْنَ الصَّلٰوۃَ اِلاَّ وَھُمْ کُسَالٰی وَلَا یُنْفِقُوْنَ اِلاَّ وَھُمْ کرِھُوْنَ o فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُھُمْ وَلَا اَوْلاَدُھُمْ ط اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَھُمْ بِھَا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیاَ  وَ تَزْھََقَ اَنْفُسُھُمْ وَھُمْ کفِرُوْنَ o 
(التوبۃ :ع ۷)


 اللہ کے ساتھ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا (نفاق سے، اپنے کومؤمن بتاتے ہیں) یہ لوگ نماز نہیں پڑھتے مگر بہت کاہلی سے (ہارے دل سے) اور نیک کاموں میں خرچ نہیں کرتے مگر ناگواری کے ساتھ۔ (بدنامی سے بچنے کی وجہ سے) ان (مردودوں) کا مال اور اولاد آپ کو تعجب میں نہ ڈالے، (کہ ایسے مردودوں پر 
اتنے انعامات کیوں ہیں)اللہ  کا ارادہ یہ ہے کہ ان چیزوں کی وجہ سے ان کو دُنیوی عذاب میں مبتلا رکھے (کہ ہر وقت ان کے فکروں میں مبتلا رہیں) اور کفر ہی کی حالت میں ان کی جان نکل جائے۔
فائدہ: ابتدا میں خیرات کے قبول ہونے میں کفر کے علاوہ کاہلی سے نماز پڑھنے کو اور بددلی سے صدقہ دینے کو بھی دخل بتایا ہے۔ نماز کے متعلق مضامین اس ناکارہ کے رسالہ ’’فضائلِ نماز‘‘ میں گزرچکے ہیں۔ اس میں حضورِ اقدسﷺ کایہ ارشاد گزرا ہے کہ اسلام میں اس کا کوئی حصہ نہیں جس کی نماز نہیں۔ اس کے لیے دین نہیں جس کی نماز نہیں۔ نماز دین کے لیے ایسی ضروری چیز ہے جیسا کہ آدمی کے لیے اس کا سر ضروری ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جو نماز کو خشوع و خضوع سے اچھی طرح پڑھے وہ نما ز نہایت روشن چمک دار بن کر دعائے خیر دیتی ہوئی جاتی ہے اور جوبری طرح پڑھے وہ بری صورت میں سیاہ رنگ میں بددعا دیتی ہوئی جاتی ہے کہ اللہ تجھے بھی ایسا ہی برباد کرے جیسا تونے مجھے برباد کیا، اور ایسی نماز پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر نمازی کے منہ پر ماردی جاتی ہے۔ ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد واردہوا ہے کہ قیامت کے دن سب سے اوّل نماز کا حساب ہوگا، اگر وہ اچھی ہوئی تو باقی اعمال بھی اچھے ہوں گے، وہ بری ہوئی تو باقی اعمال بھی برے ہوں گے۔ دوسری حدیث میں ہے اگر وہ قبول ہوئی تو باقی اعمال بھی قبول ہوں گے، وہ مردود ہوگئی تو باقی اعمال بھی مردود ہوں گے۔ (فضائلِ نماز)
اس کے بعد آیتِ شریفہ میں بددلی سے صدقہ کا ذکر فرمایا ہے۔ اور بددلی سے صدقہ دینا ظاہر ہے کہ کیا قابل قبول ہوسکتا ہے؟ لیکن اگر وہ صدقہ فرض ہے جیسا کہ زکوٰۃ، تو وجوب ساقط ہو ہی جائے گا۔ اسی واسطے حضورِ اقدس ﷺ نے زکوٰۃ ادا کرنے کی روایات میں متعدد جگہ طَیِّبَۃً بِھَا نَفْسُہُ۔  (الترغیب والترہیب)  رَافِدَۃً عَلَیْہِ کُلَّ عَامٍ۔ (ابوداؤد) وغیرہ الفاظ ذکر فرمائے جن کا مطلب یہی ہے کہ نہایت خوش دلی سے ادا کرے، تاکہ فرض ادا ہونے کے علاوہ اس کااجر و ثواب بھی ہو اور اس پر اِنعام واِکرام بھی ہو۔ ’’ابوداود شریف‘‘ کی ایک روایت میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص ثواب کی نیت سے ادا کرے گا اس کو اس کا اجر ملے گا اور جو ادا نہ کرے گا ہم اس کو لے کر رہیں گے۔ اور بعض روایات میںاس کے ساتھ تاوان بھی وارد ہے کہ ادا نہ کرنے کی صورت میں جرمانہ بھی کریںگے۔
حضرت جعفر بن محمد ؒ کہتے ہیں کہ وہ امیر المؤمنین ابوجعفر منصور ؒ کے پاس گئے تو وہاں حضرت زبیرؓ کی اولاد میں سے کوئی شخص تھے جنہوں نے منصور سے اپنی کوئی حاجت پیش کی تھی اور منصور نے ان کی درخواست پرکچھ ان کودینے کا حکم بھی کر دیاتھا، مگر وہ مقدار زبیری کے نزدیک کم تھی، جس کی شکایت انھوںنے کی اور منصور کو اس پر غصہ آگیا۔ حضرت جعفر ؒ نے فرمایا کہ مجھے اپنے باپ دادوں کے واسطے سے حضورﷺ کایہ ارشاد پہنچا ہے کہ جو عطا خوش دلی سے دی جائے اس میں دینے والے کے لیے بھی برکت ہوتی ہے  اور لینے والے کے لیے بھی۔ منصور نے یہ حدیث سنتے ہی کہا: خدا کی قسم! دیتے وقت تو مجھے خوش دلی نہ تھی مگر تمہاری حدیث سن کر مجھ میں طیبِ نفس پیدا ہوگیا۔ اس کے بعد حضرت جعفر  ؒ ان زبیری کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے فرمایا کہ مجھے اپنے باپ دادوں کے ذریعہ سے حضورﷺ کا یہ ارشاد پہنچا ہے کہ جو شخص قلیل رزق کو کم سمجھے اللہ اس کو کثیر سے محروم فرما دیتے ہیں۔ زبیری کہنے لگے کہ خدا کی قسم! پہلے سے تو یہ عطیہ میری نگاہ میں کم تھا، تمہاری حدیث سننے کے بعد بہت معلوم ہونے لگا۔ سفیان بن عیینہ ؒ جو اس قصہ کو نقل کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے زبیری سے پوچھا کہ وہ کیا مقدار تھی جو تمہیں منصور نے دی تھی؟ وہ کہنے لگے کہ اس وقت تو بہت تھوڑی سی تھی، لیکن میرے پاس پہنچنے کے بعد اللہ نے اس میں ایسی برکت اور نفع عطا فرمایا کہ وہ پچاس ہزار کی مقدار تک پہنچ گئی۔ سفیان ؒ کہتے ہیں کہ یہ لوگ (اہلِ بیت حضرت جعفر ؒ اور ان کے اَکابر کی طرف اشارہ ہے) بھی بارش کی طرح جہاں پہنچ جاتے ہیں نفع ہی پہنچاتے ہیں۔ (کنز العمال)
مطلب یہ ہے کہ اس جگہ دو حدیثیں سنا کر دونوں کوخوش اور مطمئن کر دیا۔ اس طرح سے یہ حضرات جہاں بھی پہنچتے ہیں روحانی یا مادّی نفع پہنائے بغیر نہیں رہتے۔ اس کے ساتھ ہی اُس زمانہ کے اُمرا کی یہ چیز بھی قابلِ رشک ہے کہ بادشاہت کے باوجود حضورﷺ کے ارشادات سن کر ان کے سامنے گردن رکھ دینا اس زمانہ کی عام فضا تھی۔
آیتِ شریفہ میں اس کے بعد آل، اولاد اور مال کو دنیا میں عذاب کا ذریعہ فرمایا۔ ان چیزوں کا دنیا میں موجبِ دِقّت اور کلفت ہونا ظاہر ہے۔ کہیں اولاد کی بیماری ہے، کہیں ان پر مصائب ہیں، کہیں ان کے مرنے کا رنج و حسرت ہے۔ اور یہ سب چیزیں مسلمانوں پر بھی پیش آتی ہیں، لیکن مسلمان کے لیے چوںکہ ہر تکلیف جو دنیا میں پیش آئے وہ آخرت میں اجرو ثواب کا ذریعہ ہے، اس لیے وہ تکلیف نہیں رہتی، کیوںکہ وہ تکلیف تکلیف نہیں بلکہ راحت ہے جس کے بدلہ میں کہیں اس سے زیادہ مل جائے۔ اور جن کے لیے آخرت میں ان مصائب کا بدلہ نہیں ہے ان کے لیے یہ دنیا کا عذاب ہی عذاب رہ گیا۔ ابنِ زید ؒ کہتے ہیں کہ ان چیزوں کے دنیا میں عذاب ہونے سے مصائب مراد ہیں کہ ان کے لیے یہ عذاب ہیں اور مؤمنین کے لیے ثواب کی چیزیں ہیں۔
۷۔ وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ  مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا o اِنَّ رَبَّکَ  یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیَقْدِرْط اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرًا م بَصِیْرًا o
(بني إسرائیل : ع ۳)


 اور نہ تو (بخل کی وجہ سے) اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے باندھ لینا چاہیے اور نہ بہت زیادہ کھول دینا چاہیے (کہ اِسراف کی حد تک پہنچ جائے کہ اس صورت میں) ملامت زدہ اور (فقر کی وجہ سے) تھکے ہوئے بیٹھے رہو۔ (اور محض کسی کے فقر کی وجہ سے 
اپنے کو پریشانی میںمبتلا کرنا مناسب نہیں) بے شک تیرا ربّ جس کو چاہتا ہے زیادہ رزق دیتا ہے اور جس پرچاہتا ہے تنگی کرتا ہے۔ بے شک وہ اپنے بندوں (کی مصالح اور ان کے اَحوال) سے باخبر ہے (کہ کس کے لیے کتنا مناسب ہے اور ان کے اَحوال کو) دیکھنے والا ہے۔
فائدہ: قرآنِ پاک میں اس جگہ معاشرت کے بہت سے آداب پر بڑی تفصیلی تنبیہات فرمائی ہیں۔ من جملہ ان کے اس آیتِ شریفہ میں بخل اور اِسراف پر تنبیہ فرماکر اعتدال اور میانہ روی کی گویا ترغیب دی۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ سے کسی نے کچھ سوال کیا، حضورﷺ نے ارشاد فرمایاکہ اس وقت تو کچھ نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ اپناکرتہ جو آپ پہن رہے ہیں یہ دے دیجیے۔ حضورﷺ نے کرتہ نکال کر مرحمت فرما دیا۔ اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔ حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ یہ آیتِ شریفہ خانگی اِخراجات کے بارہ میں ہے کہ نہ ان میں زیادہ بخل کیا جائے اور نہ بہت وسعت اِختیار کی جائے، میانہ روی اِختیار کی جائے۔ حضورِ اقدسﷺ سے بھی متعدد روایات میں یہ مضمون ذکرکیا گیا کہ جو شخص میانہ روی اِختیار کرے وہ فقیر نہیں ہوتا۔ اور آیتِ شریفہ کے ختم پر اس اَحمقانہ خیال کی تردید فرمائی کہ سب کے سب مالی حیثیت سے برابری کا درجہ رکھتے ہیں، یہ صرف اللہ کے قبضۂ قدرت میں ہے کہ وہ جس پر چاہے فراخی فرمائے جس پر چاہے تنگی کرے۔ وہی بندوں کے اَحوال سے واقف ہے، وہی ان کی مصالح کوخوب جانتا ہے۔
حضرت حسن ؒ فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ شا نہٗ بندوں کے اَحوال سے باخبر ہیں۔ جس کے لیے ثروت بہتر سمجھتے ہیں اس کو ثروت عطا فرماتے ہیں اور جس کے لیے تنگی مفید سمجھتے ہیں اس پر تنگی فرماتے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
{وَلَوْ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزْقَ  لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ وَلٰکِنْ یُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّایَشَآئُ ط اِنَّہٗ بِعِبَادِہٖ خَبِیْرٌ م بَصِیْرٌ o}
(الشوری : ع ۳)


اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کے لیے روزی میں وسعت کر دیتا تو وہ دنیا میں شرارت (اور فساد) کرنے لگتے، لیکن حق تعالیٰ شانہٗ (جس کے لیے) جتنا رزق 
مناسب سمجھتا ہے اُتارتا ہے۔ وہ اپنے بندوں (کی مصالح) سے باخبر، (اور ان کے اَحوال کو) دیکھنے والا ہے۔
فائدہ: اس آیتِ شریفہ میںاس طرف اشارہ ہے کہ سب پر وسعت کاہونا دنیا میں سرکشی اور فساد کاسبب ہے۔ اور قرینِ قیاس اور تجربہ کی بات بھی ہے کہ اگر حق تعالیٰ شا نہٗ اپنے لطف سے سب ہی کو مال دار بنا دیں تو پھر دنیا کا نظام چلنا ناممکن ہو جائے کہ سب تو آقا بن جائیں مزدوری کون کرے۔ ابنِ زید ؒ کہتے ہیں کہ عرب میںجس سال پیداوار کی کثرت ہوتی ایک دوسرے کو قید کرنا اور قتل کرنا شروع کر دیتے، اور جب قحط پڑجاتا تو اس کو چھوڑ دیتے۔ (دُرِّمنثور)
حضرت علی ؓ اور متعدد حضرات صحابہ کرامcسے نقل کیا گیا کہ اَصحابِ صُفَّہ نے دنیا کی تمناکی تھی جس پر آیتِ شریفہ {وَلَوْ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزْقَ }  نازل ہوئی۔ حضرت قتادہ ؒ اس آیتِ شریفہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ بہترین رزق وہ ہے جو نہ تجھ میں سرکشی پیدا کرے، نہ اپنے اندر تجھے مشغول کرلے ہمیں یہ بتایا گیا کہ ایک مرتبہ حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی امت پر جس چیز کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ دنیا کی چمک دمک ہے۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا خیر (مال)بھی برائی کا سبب بن جاتا ہے؟ اس پر یہ آیتِ شریفہ   {وَلَوْ بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزْقَ} نازل ہوئی۔
حضورِاقدسﷺ سے حدیثِ قدسی میں اللہ کا پاک ارشاد نقل کیا گیا کہ جو شخص میرے کسی ولی کی اِہانت کرتا ہے وہ میرے ساتھ لڑائی کے لیے مقابلہ میںآتا ہے۔ میںاپنے دوستوں کی حمایت میں ایسا غصہ میں آتا ہوں جیسا کہ غضب ناک شیر۔ اور کوئی بندہ میرے ساتھ تقرب ان چیزوں سے زیادہ کسی چیز سے حاصل نہیں کرسکتا جو میں نے ان پر فرض کی ہیں۔ (یعنی حق تعالیٰ شا نہٗ نے جو چیزیں فرض کر دیں ان کی بجا آوری سے جتنا تقرب حاصل ہوتا ہے کسی چیز سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس کے بعد دوسرے درجہ میں نوافل کے ذریعہ تقرب حاصل ہوتا ہے) اور نوافل کے ذریعہ سے بندہ میرے ساتھ قرب حاصل کرتا رہتا ہے (اور جتنا نوافل میںاِضافہ ہوتا رہے گااتنا ہی قرب میںاِضافہ ہوتا رہے گا) یہاں تک کہ وہ میرا محبوب بن جاتا ہے تو میںاس کی آنکھ ،کان ، ہاتھ اور مددگار بن جاتا ہوں۔ اگر وہ مجھے پکارتاہے تو میںاس کی پکار کو قبول کرتا ہوں اور مجھ سے کچھ مانگتا ہے تو اس کا سوال پورا کرتاہوں، اور مجھے کسی چیز میں جس کے کرنے کا میں ارادہ کرتا ہوں اتنا تردّد نہیں ہوتا جتنا اپنے مؤمن بندہ کی روح قبض کرنے میں تردّد ہوتا ہے کہ وہ (کسی وجہ سے) موت کو پسند نہیں کرتا اور میںاس کا جی برا کرنا نہیں چاہتا، لیکن موت ضروری چیز ہے۔ میرے بعض بندے ایسے ہیں کہ وہ کسی خاص نوع کی عبادت کے خواہش مند ہوتے ہیں، لیکن میں اس لیے وہ نوع عبادت کی ان کو میسر نہیں کرتا کہ اس سے اُن میں عُجب پیدا نہ ہو جائے۔ میرے بعض بندے ایسے ہیں جن کے ایمان کو ان کی تندرستی ہی درست رکھ سکتی ہے۔ اگر میں ان کوبیمار کر دوں تو ان کی حالت خراب ہو جائے۔ اور بعض بندے ایسے ہیں جن کے ایمان کو ان کی بیماری ہی درست رکھ سکتی ہے۔ اگر میں ان کو تندرستی دے دوں تو وہ بگڑ جائیں۔ میںاپنے بندوں کے حال کے موافق عمل درآمد کرتاہوں، اس لیے کہ میں ان کے دلوں کے اَحوال سے واقف ہوں اور باخبر ہوں ۔(دُرِّمنثور)
یہ حدیث شریف بڑی قابلِ غور ہے، اس کا تعلق تکوینی اُمور سے ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کوئی غریب ہے تو اس کی اِمداد کی ہمیں ضرورت نہیں، کوئی بیمار ہے تو اس کے علاج کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ ہوتا تو پھر صدقات کی سب روایات اور آیات بے محل ہو جاتیں۔ دوا کرنے کا حکم جن روایات میں ہے وہ بے محل ہوتیں۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ تکوینی طور پر یہ سلسلہ تو اسی طرح رہے گا، کوئی ماہر ڈاکٹر یا محکمۂ حفظانِ صحت یہ چاہے کہ کوئی بیمار نہ ہو، ناممکن کوئی حکومت یہ کوشش کرے کہ کوئی غریب نہ رہے، کبھی نہیں ہوسکتا۔ البتہ ہم لوگ اپنی وسعت کے موافق ان کی اِعانت کے، ہمدردی کے ، علاج کے، اِمداد کے مامور ہیں۔ اور جتنی کوئی شخص اس میں کوشش کرے گا اس کا اجر ، اس کا ثواب ، اس کا دین اور دنیا میں اس کو بدلہ ملے گا۔
لیکن اپنی سعی کے باوجود کوئی بیمار اچھا نہیں ہوتا، اپنی کوشش کے باوجود کسی کی مالی حالت درست نہیں ہوتی، تو اس کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اسی میں میرے لیے خیر ہے۔ اس سے پریشان اورگھبرانا نہیں چاہیے۔ اور چوںکہ غیب کی خبر نہیں اور تکوینی چیزوں پر عمل کے ہم مامور نہیں، اس لیے اپنی کوشش علاج اوراِعانت و ہمدردی اور مدد زیادہ سے زیادہ رکھنی چاہیے۔ 
وَاللّٰہُ الْمُوَفِّق لِمَا یُحِبُّ وَیَرْضَی
۸۔ وَابْتَغ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ  الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَا اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِط اِنَّ اللّٰہَ لاَ یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ o (القصص: ع ۸)


اور تجھے جو کچھ اللہ نے دے رکھا ہے   اس میں عالمِ آخرت کی بھی جستجو کر اور دنیا سے اپنا حصہ (آخرت میں لے جانا) فراموش نہ کر، جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا تو بھی (بندوں پر) 
احسان کر، (اور خدا کی نافرمانی اور حقوق کو ضائع کرکے) دنیا میں فساد نہ کر۔ بے شک اللہ تعالیٰ فساد کرنے والوں کو پسندنہیں کرتا۔
فائدہ: یہ قرآنِ پاک میں مسلمانوںکی طرف سے قارون کو نصیحت کا بیان ہے۔ اس کا پورا قصہ زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے بیان میں پانچویں فصل کی آیات کے سلسلہ میں نمبر(۳) پر آرہا ہے۔ سدی ؒ کہتے ہیں کہ ’’آخرت کی جستجو کرنے‘‘ کامطلب یہ ہے کہ اللہ کاتقرب حاصل کر اور صلہ رحمی کر۔ حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ’’ دنیا سے اپنا حصہ مت بھول‘‘ کامطلب یہ ہے کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے لیے عمل کرنا نہ چھوڑ۔ مجاہد ؒکہتے ہیں کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا یہ دنیا سے اپنا حصہ ہے جس کا ثواب آخرت میں ملتا ہے۔ حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ بقدرِ ضرورت اپنے لیے روک کر باقی زائد کا خرچ کر دینا اور آگے چلتا کر دینا یہ دنیا میں سے اپنا حصہ ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ایک سال کا خرچ روک کر باقی کا صدقہ کر د ے۔ (دُرِّمنثور)
آدمی کا اپنی دنیا میں سے اپنی آخرت کا حصہ بھلا دینا اپنے نفس پراِنتہائی ظلم ہے۔ حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن آدمی ایسی حالت میں اللہ کے سامنے لایا جائے گا جیسا کہ (ضعف اور ذلت کے اعتبار سے) بھیڑکا بچہ ہو۔ حق تعالیٰ شا نہٗ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔ وہاں سے مطالبہ ہوگا کہ میں نے تجھے مال دیا، دولت عطا کی، تجھ پر بڑے بڑے احسانات کیے، تو نے میرے انعامات میںکیا کارگزاری کی؟ وہ عرض کرے گا: یااللہ! میں نے مال خوب جمع کیا،اس کو خوب بڑھایا، اور جتنا مال تھا اس سے بہت زیادہ ا س کو کرکے دنیا میں چھوڑ آیا، آپ مجھے دنیا میں واپس کر دیں تو میں وہ سب کچھ اپنے ساتھ لے آئوں۔ارشاد ہوگا: وہ دکھاؤ جس کو ذخیرہ بنا کر آگے بھیج رکھا ہو۔ وہ پھوپھی عرض کرے گا کہ یا اللہ! میں نے اس کو بہت ہی جمع کیا اور بڑھایا، اور جتنا تھا اس سے بہت زیادہ کرکے چھوڑ آیا۔ مجھے آپ واپس بھیج دیں میں وہ سارا ہی ساتھ لے آؤں بالآخر جب اس کے پاس ذخیرہ ایسانہ ہوگا جس کو آگے بھیج رکھا ہو تو اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (مشکاۃ المصابیح) یہ اللہ اور اس کے پاک رسولﷺ کے ارشادات بڑے غور اوربہت اہتمام سے عمل کرنے کی چیزیں ہیں۔ سرسری پڑھ کر چھوڑ دینے کے واسطے نہیں ہیں۔ دنیاکی زندگی کو جو بالکل خواب کی مثال ہے بہت اہتمام سے آخرت کی تیاری کے لیے غنیمت سمجھو اور جوکمایا جاسکے کمالو۔ حق تعالیٰ شا نہٗ مجھے بھی توفیق عطافرمائے۔
۹۔ ھٰٓاَنْتُمْ ھٰؤُلَآئِ  تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ج فَمِنْکُمْ مَنْ یَّبْخَلُ ج وَمَنْ یَبْخَلْ فَاِنَّمَا یَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِہٖ ج  وَاللّٰہُ الْغَنِیُّ وَاَنْتُمْ الْفُقَرَآئُ ج وَاِنْ تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ثُمَّ لَایَکُوْنُوْا اَمْثَالَکُمْ o (محمد:ع ۴)


تم لوگ ایسے ہو کہ تم کو اللہ کی راہ میں (تھوڑا سا) خرچ کرنے کوبلایا جاتا ہے سو اس پربھی تم میں سے بعض آدمی بخل کرنے لگتے ہیں۔ (اگر زیادہ مانگا جاتاتو کیا کرتے؟) اور جو شخص بخل کرتا ہے وہ خود اپنے ہی سے بخل کرتا ہے۔ (اس لیے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کا 
نفع اسی کو ملتا) اللہ تعالیٰ تو غنی ہے (اس کو تمہارے مال کی پرواہ نہیں) اورتم محتاج ہو (دنیا میں بھی اور آخرت میںبھی، اور اسی لیے تمہیں صدقہ کا حکم دیاجاتا ہے کہ اس کا نفع تم ہی کو پہنچتا ہے) اور اگر تم (اللہ تعالیٰ کے اَحکام سے) روگردانی کرو گے، تو خدا تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوم پیداکر دے گا اور پھر وہ تم جیسے (روگردانی کرنے والے) نہ ہوں گے۔ (بلکہ نہایت فرماں بردار ہوں گے)
فائدہ: یہ ظاہر بات ہے کہ اللہ کی کوئی غرض ہماری خیرات اور صدقات کے ساتھ وابستہ نہیں ہے۔ اس نے جس قدر زیادہ ترغیبیں اپنے پاک کلام اوراپنے پاک رسولﷺ کے ذریعہ سے فرمائی ہیں وہ ہمارے ہی نفع کے واسطے ہیں۔ چناںچہ پہلی فصل میں بہت سے دینی اور دنیوی فوائد صدقہ کے گزرچکے ہیں۔ اور جب ایک حاکم، مالک، خالق کسی شخص کو ایسے کام کا حکم کرے جس سے حکم کرنے والے کا کوئی نفع نہ ہو، بلکہ جس کو حکم دیا ہے اسی کا نفع ہو اور پھر بھی وہ حکم عدولی کرے، تو یقیناً اس کا جتنا خمیازہ بھی بھگتے وہ ظاہر ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ بہت سے لوگوں کو نعمتیں اس لیے دیتا ہے کہ لوگوں کو نفع پہنچائیں۔ جب تک وہ لوگ ایسا کرتے ہیں وہ نعمتیں ان کے پاس رہتی ہیں۔ جب وہ اس سے روگردانی کرنے لگتے ہیںوہ نعمتیں ان سے چھین کرحق تعالیٰ شا نہٗ دوسروں کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔ (کنز العمال) اور یہ نعمتیں مال ہی کے ساتھ مخصوص نہیں۔ عزت، وجاہت، اثر وغیرہ سب ہی چیزیں اس میںداخل ہیں اور سب کا یہی حال ہے۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ جب یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی کہ اگر تم روگردانی کرو گے تو اللہ دوسری قوم کو پیدا کر دے گا تو بعض صحابہ ? نے پوچھا: حضور ! یہ لوگ کِن میں سے ہوں گے جو ہماری روگردانی کی صورت میں ہمارے بدل ہوں گے؟ تو حضورﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ  کے مونڈھے پر ہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا کہ یہ اور ان کی قوم۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے! کہ اگر دین ثریا (جو چند ستاروں کے مجموعہ کا نام ہے) پر ہوتا تو فارس کے کچھ لوگ وہیں سے دین کو پکڑتے۔ متعدد روایات میں یہ مضمون آیا ہے۔ (دُرِّمنثور)
یعنی حق تعالیٰ شا نہٗ نے ان کو دین کی اتنی پرواز عطا فرمائی ہے کہ دین اور علم کو اگر و ہ ثریا پرہوتا، وہاں سے بھی حاصل کرتے۔ ’’مشکوٰۃ شریف‘‘ میں یہ روایت ’’ترمذی شریف‘‘ سے نقل کی ہے۔ اور اسی طرح ایک اور روایت میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا کہ حضورﷺ کے سامنے عجمی لوگوں کا ذکر کیاگیا تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پر یا ان میں سے بعض پر تم سے یاتم میں سے بعض سے زیادہ اعتماد ہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
اور یہ ظاہر ہے کہ عجم میں بعض بعض اَکابر ایسے اونچے درجے اور حالات کے پیداہوئے ہیں کہ صحابی ہونے کی فضیلت کوچھوڑ کر دوسرے اِعتبارات سے ان کے کمالات بہت اونچے ہیں۔ حضرت سلمان فارسی ؓ کے بہت سے فضائل حدیث میں آئے ہیں اور آنے بھی چاہئیں کہ دینِ حق کی تلاش میں انھوں نے بہت سی تکلیفیں اٹھائیں، بہت سے ملکوں کی خاک چھانی۔ ان کی عمر بہت زیادہ ہوئی۔ ڈھائی سو سال میں تو کسی معتمد کا اختلاف ہی نہیں ہے۔ بعض نے ساڑھے تین سوسال بتائی ہے اور بعض نے اس سے بھی زیادہ۔ حتیٰ کہ بعض نے کہا ہے کہ انھوں نے حضر ت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ و السلام کا زمانہ پایا۔ اور حضورﷺ کے اور حضرت عیسیٰ  ؑ کے زمانہ میں چھ سو سال کا فرق ہے۔ ان کو پہلی کتابوں سے حضورِ اقدسﷺ نبی ٔ آخر الزمان کے مبعوث ہونے کی خبر معلوم ہوئی۔ یہ حضورﷺ کی تلاش میں نکل پڑے، اور راہبوں سے اور اس زمانہ کے عالموں سے تحقیق کرتے رہے، اور وہ لوگ حضورﷺ کے عن قریب پیدا ہونے کی بشارت اور حضورﷺ کی علامات بتاتے رہے۔ یہ فارس کے شہزادوں میں تھے۔ اسی تلاش میں ملک در ملک تلاش کرتے پھرتے تھے۔ کسی نے ان کو قید کرکے اپنا غلام بناکر فروخت کر دیا۔ پھر یہ اسی طرح بکتے رہے۔
خود فرماتے ہیں ’’بخاری شریف‘‘ میں روایت ہے کہ مجھے دس آقائوں سے زیادہ نے خریدا اورفروخت کیا۔ آخر میں مدینہ منورہ کے ایک یہودی نے ان کو خریدا۔ اس وقت حضورﷺ ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے گئے۔ ان کو اس کی خبر ہوئی۔ یہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اورجو علامات ان کو بتائی گئی تھیں ان علامات کو جانچا اور امتحان کیا۔ اس کے بعد مسلمان ہوئے اور اپنے یہودی آقا سے فدیہ دے کر (جس کو مکاتب بننا کہتے ہیں)آزاد ہوئے۔
ایک حدیث میںہے حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حق تعالیٰ شا نہٗ چار آدمیوں کو محبوب رکھتے ہیں جن میں سلمان ؓ بھی ہیں۔ (اِصابہ) اس کا یہ مطلب نہیں کہ اور کسی سے محبت نہیں، بلکہ یہ ہے کہ یہ چار محبوبوں میں ہیں۔ ایک اور حدیث میںہے حضورِ اقدسﷺ کاارشاد ہے کہ ہر نبی کے لیے حق تعالیٰ شا نہٗ نے سات نُجبا بنائے ہیں، (یعنی مخصوص جماعت برگزیدہ لوگوں کی جو اس نبی کے کام کی ظاہری اورباطنی نگرانی کرنے والے، اور مدد کرنے والے ہوں) لیکن میرے لیے حق تعالیٰ شا نہٗ نے چودہ نُجبا مقررفرمائے ہیں۔ کسی نے عرض کیا: وہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں1 (یعنی حضرت علی) اور میرے دونوںبیٹے (حضرت حسن، حضرت حسین) اور حضرت جعفر اور حضرت حمزہ، ابوبکر، عمر، مصعب بن عمیر، بلال، سلمان، عمار، عبد اللہ بن مسعود، ابوذر غفاری، مقدادc۔ (مشکاۃ المصابیح) 
حالات کی تفصیل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دین کے کسی اہم امر میں ان حضرات کی خصوصیات ہیں۔ ’’بخاری شریف‘‘ میں ہے کہ جب سورۂ جمعہ کی آیت { وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ} نازل ہوئی تو صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کون لوگ ہیں؟ حضورﷺ نے سکوت فرمایا۔ صحابہ ?نے مکرر دریافت کیا، حتیٰ کہ تین دفعہ سوال کیا، تو حضور ﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ کے اوپر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر ہوتا تو ان میں سے بعض آدمی وہاں سے بھی لے آتے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اگر علم ثریا پرہوتا۔ دوسری حدیث میں ہے: اگر دین ثریا پر ہوتا تو فارس کے کچھ لوگ وہاں سے بھی لے آتے۔ (فتح الباری)
علامہ سُیُوطی ؒ جو خود محققین شافعیہ میں ہیں، فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حضرت امام ابو حنیفہ  ؒ کے فضائل میں پیشین گوئی کے طور پر ایسی صحیح چیز ہے جس پر اعتماد کیاجاتا ہے۔ (مقدمۂ اَوجز المسالک)
۱۰۔ مَآاَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِلاَّ فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَھَاط اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌo لِّکَیْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَ لَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰـکُمْ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِِo 


کوئی مصیبت نہ دنیا میں آتی ہے اور نہ خاص تمہاری جانوں میں مگر وہ (سب) ایک کتاب میں (یعنی لوحِ محفوظ میں) ان جانوں کے پیدا ہونے سے پہلے لکھی ہوئی ہے اور یہ بات (کہ وقوع سے اتنا پہلے لکھ دینا) اللہ تعالیٰ کے نزدیک آسان کام ہے۔  
الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ط وَمَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیدُ o (الحدید : ع۳)


(اور یہ اس لیے بتلادیا) تاکہ جو چیز (عافیت، مال یا اولاد وغیرہ) تم سے جاتی رہے اس پر (زیادہ) رنج نہ کرو اور جو تم کو ملے اس پر 
اِترائو نہیں (اس لیے کہ اتِراوے وہ جس کو اپنے اِستحقاق سے ملے اور جو دوسرے کے حکم سے ایک چیز ملے اس پرکیا اِترانا؟) اوراللہ تعالیٰ کسی اترانے والے شیخی باز کوپسند نہیں کرتا۔ (بالخصوص) جولوگ ایسے ہیں کہ خود بھی بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخل کی تعلیم کرتے ہیں، اور جو (اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے سے) یا دینی کاموں سے اِعراض کرے گا تو اللہ تعالیٰ (کا کیا نقصان کرے گا؟ وہ تو) بے نیاز ہے حمد کے لائق۔
فائدہ:  مصائب پر رنج تو طبعی چیز ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اتنا زیادہ رنج نہ ہو کہ دین اور دنیا کے سب ہی کاموں سے روک دے۔ اور یہ بھی طبعی چیز ہے کہ جب کسی بات کے متعلق یہ پختہ یقین پہلے سے ہو جائے کہ فلاں بات ہو کر رہے گی، کسی سعی اور کوشش سے وہ ملتوی نہیں ہوسکتی، تو پھر اس پر رنج و غم ہلکا ہو جایا کرتاہے۔ برخلاف اس کے کہ کوئی بات خلافِ توقع پیش آئے، تو اس پر رنج زیادہ ہوا کرتا ہے۔ اس لیے اس آیتِ شریفہ میں اس پر متنبہ کر دیا کہ موت و حیات، رنج و خوشی، راحت و آفت، یہ سب چیزیں ہم نے پہلے سے طے کر رکھی ہیں، وہ اسی طرح ہو کر رہیں گی۔ پھر اس میں اِترانے یا غم سے ہلاکت کے قریب ہو جانے کی کیا بات ہے؟
آیتِ شریفہ میں دولفظ وارد ہوئے ہیں مُخْتَالٍ، فَخُوْرٍ۔ جس کا ترجمہ اِترانے والے شیخی باز کاکیا ہے۔ اِترانا اپنے آپ ہوتا ہے، یعنی دوسرے کے بغیر بھی ہوتا ہے۔ اور شیخی دوسرے کے سامنے اور دوسرے کے مقابلہ میں ہواکرتی ہے۔ اور بعض علماء نے لکھا ہے کہ اِختیال تو ایسی چیزوں پر اِترانا ہوتا ہے جو آدمی کے اندر ذاتی کمال ہوں اور فخر ایسی چیزوں پر ہوتا ہے جو خارجی ہوں جیسا مال جاہ وغیرہ۔ (بیان القرآن)
حضرت قَزعہ ؒکہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر? کو موٹے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا۔ میں نے عرض کیا کہ میں خراسان کے بنے ہوئے نرم کپڑے یہ لایا ہوں، اگر آپ ان کو پہن لیں تو آپ کے بدن پریہ کپڑے دیکھ کر میری آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچے گی۔ انھوںنے فرمایا: مجھے یہ ڈر ہے کہ یہ کپڑے پہن کر کہیں میں ’’مختال فخور‘‘ نہ بن جائوں۔ (دُرِّمنثور) یعنی ان کے پہننے سے کہیں مجھ میں عُجب اورتفاخُر پیدا نہ ہونے لگے۔
۱۱۔ ھُمُ الَّذِیْنَ  یَقُوْلُوْنَ لَا تُنْفِقُوْا عَلٰی مَنْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّٰی یَنْفَضُّوْاط وَلِلّٰہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَایَفْقَھُوْنَ o
               (المنافقون : ع۲)


یہی (منافقین) وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ یہ جو لوگ رسول اللہ(ﷺ) کے پاس جمع ہیں ان پرکچھ خرچ نہ کرو یہاں تک کہ یہ آپ ہی (خرچ نہ ملنے کی وجہ سے حضورِ اقدس ﷺ کے پاس سے) منتشر 
ہو جائیں گے۔ اور (بے وقوف یہ نہیں جانتے کہ) اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہیں سب خزانے آسمانوں کے اور زمینوں کے، لیکن یہ منافق (اَحمق ہیں) سمجھتے نہیں ہیں۔
فائدہ: متعدد روایات میں یہ مضمون واردہوا ہے کہ عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین اور اس کی ذُرِّیات نے یہ کہا کہ یہ لوگ جو حضورِ اقدسﷺ کے پاس جمع ہیں ان کی اِعانت کرناچھوڑ دی جائے۔ یہ بھوک سے پریشان ہو کر خود بخودمنتشر ہو جائیںگے۔ اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔ اور بالکل حق ہے، روز مرہ کا مشاہدہ ہے۔ سینکڑوں مرتبہ اس کا تجربہ ہوا کہ جب بھی کسی دینی کام کرنے والوں کے متعلق عناد اور بدباطنیت سے لوگوں نے یا کسی خاص فرد نے اِعانت روکی اللہ  نے اپنے لطف وکرم سے دوسرا دروازہ کھول دیا۔ یہ ہر شخص کو یقین کے ساتھ سمجھ لینا چاہیے کہ روزی اللہ  نے اپنے اور صرف اپنے ہی قبضہ میں رکھی ہے۔ وہ کسی کے باپ کے بند کرنے سے بھی بند نہیں ہوتی۔ البتہ بند کرنے والے دین کی اِعانت سے ہاتھ روک کر آخرت میں اللہ کے یہاں جواب دینے کے لیے تیارہو جائیں۔ جہاں نہ تو جھوٹ چل سکتا ہے کہ ہماری یہ غرض تھی نہ کوئی بیرسٹر یا وکیل کام دے سکتا ہے۔ فرضی حیلے تراش کرکے اللہ کے اور دین کے کاموں سے پہلوتہی کرنے سے بجزاس کے کہ اپنی ہی عاقبت خراب کی جائے اور کوئی فائدہ نہیں۔ ذاتی عناد اور دنیوی اَغراضِ فاسدہ کی وجہ سے کسی دینی کام میں روڑے اٹکانا یاکسی دین کاکا م کرنے والے کی اِعانت سے ہاتھ روکنا یا دوسروں کوروکنا، اپنا ہی نقصان کرنا ہے کسی دوسرے کا نقصان نہیں۔
حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی مسلمان کی مدد سے ایسے وقت پہلوتہی کرے جب کہ اس کی آبرو گرائی جا رہی ہو، اس کا اِحترام توڑا جا رہا ہو، تو حق تعالیٰ شا نہٗ اس شخص کی مدد کرنے سے ایسے وقت میں بے اِلتفاتی فرماتے ہیں جب کہ یہ کسی مدد کرنے والے کی مدد کا خواہش مند ہو۔(مشکاۃ المصابیح)
حضورِ اقدسﷺ کاعمل امت کے لیے شاہراہ ہے۔ ہر چیز میںاس کی کوشش ہر امتی کا فرض ہے کہ حضورﷺ کا طریقہ کیا تھا۔ اور اس راہ پر چلنے کی حتیٰ الوسع کوشش کرنا چاہیے۔ حضور ﷺ کا معمول تھا کہ دشمنوں کی اِعانت سے بھی دریغ نہ تھا۔ سیکڑوں واقعات کتبِ احادیث و تاریخ میں اس پر شاہد ہیں۔ خود یہی عبداللہ بن اُبی منافقوں کاسردار جس قدر تکالیف اورا ذیتیں پہنچاسکتا تھا اس نے کبھی دریغ نہیں کیا۔ اسی شخص کا مقولہ اسی سفر کا جس میں آیت بالا نازل ہوئی یہ ہے کہ جب ہم لوگ مدینہ واپس پہنچ جائیں گے توعزت دارلوگ یعنی ہم لوگ ان ذلیلوں کو (یعنی مسلمانوں کو) مدینہ سے نکال دیںگے، لیکن ان سب حالات کے باوجو اسی سفر سے واپسی کے چند روزبعد یہ بیمار ہوا تو اپنے بیٹے سے جو بہت بڑے پکّے مسلمان تھے کہا کہ تم جاکر حضور ﷺ کو میرے پاس بلا لائو، تمہارے بلانے سے وہ ضرور آجائیں گے۔
یہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورباپ کی درخواست نقل کی، حضور ﷺ اسی وقت جوتے پہن کر ساتھ ہولیے۔ جب حضورﷺ  کو اس نے دیکھا تورونے لگا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اے اللہ کے دشمن! کیاگھبرا گیا؟ اس نے کہا: میں نے اس وقت آپ کو تنبیہ کے واسطے نہیں بلایا، بلکہ اس واسطے بلایا کہ اس وقت مجھ پر رحم کریں۔ یہ کلمہ سن کر حضورِاقدسﷺ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور ارشاد فرمایا: کیا چاہتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ میری موت کاوقت قریب ہے۔ جب میں مرجائوں تو میرے غسل دینے میں آپ موجود ہوںاور اپنے ملبوس میں مجھے کفن دیں اور میرے جنازہ کے ساتھ قبرتک جائیں اور میری نماز جنازِہ پڑھیں۔ حضور ﷺ نے ساری درخواستیں اس کی قبول فرمائیں، جس پر آیتِ شریفہ { وَلاََ تُصَلِّ عَلٰی اَحَدٍ مِّنْھُم }  (البراء ۃ : ع ۱۱) نازل ہوئی۔ (دُرِّمنثور) جس میں حق تعالیٰ شانہٗ نے منافقین کے جنازہ کی نماز پڑھانے کی ممانعت فرمائی۔
یہ تھا حضورﷺ کا برتائو اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ، اور یہ کرم تھا ان کمینوں کے ساتھ جو کسی وقت بھی سب و شتم اور عیب تراشی میں کمی نہ کرتے تھے۔ کیا ہم لوگ بھی اپنے دشمنوں کے ساتھ اس قسم کا کوئی معاملہ کرسکتے ہیں کہ اس جانی دشمن کی تکلیف کو دیکھ کر رحمۃللعالمین کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے؟ اور جتنی فرمایشیں اس نے اپنے کفر کے باوجود کیں حضورﷺ نے اپنے کرم سے سب پوری کیں؟ اپنا کرتہ مبارک اتارکر اس کوکفن کے لیے مرحمت فرمایا اور بقیہ سب درخواستیں بھی پوری کیں، گو کفر کی وجہ سے اس کو کارآمد نہ ہوسکیں، بلکہ آیندہ کے لیے حق تعالیٰ شا نہٗ کی طرف سے اس انتہائی کرم کی ممانعت اتر آئی۔
۱۲۔ اِنَّا بَلَوْنٰھُمْ کَمَا  بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ ج اِذْ اَقْسَمُوْا لَیَصْرِمُنَّھَا مُصْبِحِیْنَ o وَلَا یَسْتَثْنُوْنَ o فَطَافَ عَلَیْھَا طَائِفٌ مِّنْ رَّبِّکَ وَھُمْ نَآئِمُوْنَ o فَاَصْبَحَتْ کَالصَّرِیْمِ o فَتَنَادَوْا مُصْبِحِیْنَ o اَنِ اغْدُوْا عَلٰی حَرْثِکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صَارِمِیْنَ o فَانْطَلَقُوْا وَھُمْ یَتَخَافَتُوْنَo اَنْ لاَّیَدْخُلَنَّھَا الْیَوْمَ عَلَیْکُمْ مِّسْکِیْنٌo وَّغَدَوْا عَلٰی حَرْد قَادِرِیْنَ o فَلَمَّا رَاَوْھَا قَالُوْا اِنَّا لَضَالُّوْنَ o بَلْ نَحْنُ مَحْرُوْمُوْنَ o  قَالَ اَوْسَطُھُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَّکُمْ لَوْلاٍَ


ہم نے (ان مکہ والوں کو سامانِ عیش دے کر) ان کی آزمایش کر رکھی ہے (کہ یہ ان نعمتوں میں کیا عمل کرتے ہیں؟) جیسا کہ (ان سے پہلے) ہم نے باغ والوں کی آزمایش کی تھی جب کہ ان باغ والوں نے آپس میں قسم کھائی اور عہد کیا کہ اس باغ کا پھل ضرور صبح کو جاکر توڑ لیں گے۔ اور (ان کو ایسا پختہ یقین تھا کہ) ان شاء اللہ بھی نہ کہا۔ پس اس باغ پر آپ کے ربّ کی  طرف سے ایک عذاب پھر گیا (جوایک آگ تھی یا لُو) اور وہ لوگ سو رہے تھے۔ پس صبح کو وہ باغ ایسا رہ گیا جیسا کٹا ہوا
 تُسَبِّحُوْنَ o قَالُوْا سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیْنَ o فَاَقْبَلَ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَلاَوَمُوْنَ o قَالُوْا یٰوَیْلَنَآ اِنَّا کُنَّا طٰغِیْنَ o عَسٰی رَبُّنَا اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْھَا اِنَّا اِلٰی رَبِّنَا رَاغِبُوْنَ o کَذٰلِکَ الْعَذَابُط وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُم لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ o 
(القلم : ع ۱)


 کھیت۔ (کہ خالی زمین رہ جاتی ہے اور بعض جگہ اس کو کاٹ کر اس جگہ آگ بھی لگا د ی جاتی ہے) پس صبح کو سویرے وہ باغ والے ایک دوسرے کو آوازیںدینے لگے کہ اگرپھل توڑنا ہے تو سویرے چلو۔ پس چلتے ہوئے آپس میں چپکے چپکے باتیں کرتے جا رہے تھے کہ آج کوئی محتاج تم تک نہ آنے پائے۔ وہ اپنے خیال میںاس  
کے روک لینے پر اپنے آپ کو قادر سمجھ کر چلے۔ (کہ سب کچھ خود ہی لے آئیں گے) جب وہاں پہنچ کر اس کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم راستہ بھول گئے۔ (کہیں اور پہنچ گئے یہ تو وہ باغ نہیں ہے، لیکن جب قرائن سے معلوم ہوا کہ یہ وہی جگہ ہے تو کہنے لگے) کہ ہماری قسمت ہی پھوٹ گئی۔ ان میں  جوایک آدمی (کسی قدر) نیک تھا (لیکن عمل میں ان کا شریکِ حال تھا) کہنے لگا کہ میں نے تم سے کہا نہ تھا (کہ ایسی بدنیتی نہ کرو غریبوں کو دینے سے برکت ہوتی ہے۔اب) اللہ کی پاکی کیوں نہیں بیان کرتے؟ (یعنی توبہ اِستغفار کرو) وہ باغ والے کہنے لگے: ہمارا پروردگار پاک ہے، بے شک ہم قصوروار ہیں۔ پھر ایک دوسرے کو اِلزام دینے لگے۔ (جیسا کہ عام طور سے عادت ہے کہ جب کوئی کام بگڑ جائے تو ہرایک دوسرے کو قصور وار بتایا کرتا ہے) پھر سب کے سب کہنے لگے کہ بے شک ہم سب ہی حد سے تجاوز کرنے والے تھے۔ (کسی ایک پر اِلزام نہیں ہے، سب کی یہی صَلاح تھی۔ سب مل کر توبہ کرو اس کی برکت سے) شاید ہمارا پروردگار ہم کو اس سے اچھا باغ دے دے، اب ہم توبہ کرتے ہیں۔ (اس کے بعد اللہ  تنبیہ کے طور پر فرماتے ہیں کہ ) اسی طرح (دنیا کا) عذاب ہوا کرتا ہے (کہ ہم بدنیتی سے چیز ہی کو فناکر دیتے ہیں) اور آخر ت کا عذاب اس سے بھی بڑھ کر ہے، کیا اچھا ہوتا کہ یہ لوگ اس بات کو جان لیتے۔ (کہ غریبوں سے بخل کا نتیجہ اچھا نہیں)
فائدہ: یہ بڑی عبرت کا قصہ ہے جو ان آیات میںذ کرفرمایا ہے۔ جو لو گ غربا، مساکین، اہلِ ضرورت کو نہ دینے کے عہد پیمان کرتے ہیں، قسمیں کھاکھاکر وعدے کرتے ہیں کہ ان ضرورت مندوں کو ایک پیسہ بھی نہیں دیاجائے گا، ایک وقت روٹی بھی نہ دی جائے گی، یہ نالائق ہرگز اِعانت کے مستحق نہیں، ان کو دینا بے کار ہے، وہ اپنے سارے مال سے یوں بہ یک وقت ہاتھ دھو لیتے ہیں۔ اور جو نیک دل اس طرز کوپسند نہیں کرتے لیکن عملاً لحاظ ملاحظہ میں ان کے شریکِ حال ہو جاتے ہیں، وہ بھی عذاب کی بلا سے نجات نہیں پاتے۔
حضرت عبداللہ بن عباس? فرماتے ہیں کہ ان آیات میں جو واقعہ گزرا ہے وہ حبشہ کے رہنے والے آدمیو ں کا ہے۔ ان کے باپ کا ایک بہت بڑا باغ تھا۔ وہ اس میں سے مانگنے والوںکو بھی دیا کرتا تھا۔ جب اس کا انتقال ہوگیا تو اس کی اولاد کہنے لگی کہ ابا جان تو بے وقوف تھے، سب کچھ ان لوگوں پر بانٹ دیتے تھے۔ پھر قسمیں کھا کر کہنے لگے کہ ہم صبح ہی سارا باغ کاٹ لائیں گے اور کسی فقیر کو اس میں سے کچھ نہیں دیں گے۔ حضرت قتادہ  ؒ کہتے ہیں کہ اس باغ کے مالک بڑ ے میاں کایہ دستور تھا کہ اس کی پیداوار میں سے اپنا ایک سال کا خرچ رکھ کہ باقی سب کاسب اللہ کے راستہ میں خرچ کر دیتے تھے۔ ان کی اولاد ان کو اس طرز سے روکتی رہتی تھی مگر وہ نہ مانتے تھے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی اولاد نے یہ کوشش کی جو اوپر ذکرکی گئی کہ ساراکا سارا روک لیں اور کسی غریب کو کچھ نہ دیں۔ سعید بن جبیر ؒکہتے ہیں کہ یہ باغ یمن میںتھا۔ اس جگہ کا نام ضروان تھا جو (یمن کے مشہور شہر) صنعا سے چھ میل تھا۔ ابنِ جریج ؒ کہتے ہیں کہ وہ عذاب جو اس باغ پر مسلط ہوا جہنم کی گھاٹی سے ایک آگ نکلی جو اس پر پھر گئی۔ مجاہد ؒکہتے ہیں کہ یہ باغ انگور کا تھا۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتے رہا کرو۔ آدمی بعض گناہ ایسے کرتا ہے کہ ا س کی نحوست سے علم کا ایک حصہ بھول جاتا ہے۔ (یعنی حافظہ خراب ہو جاتا ہے اور پڑھا ہوا بھول جاتا ہے) اوربعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے تہجد کو آنکھ نہیں کھلتی۔ اوربعض گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے اس کی آمدنی جوبالکل اس کے لیے آنے کو تیارہوتی ہے، جاتی رہتی ہے۔ اس کے بعد حضورِ اقدسﷺ نے یہ آیتِ شریفہ تلاوت فرمائی { فَطَافَ عَلَیْھَا طَائِفٌ مِّنْ رَّبِّکَ} (الٓایۃ) اور فرمایا کہ یہ لوگ گناہ کی وجہ سے اپنے باغ کی پیداوار سے محروم ہوگئے۔ (دُرِّمنثور) خود حق تعالیٰ سبحانہ و تقدَّس کاقرآنِ پاک میں دوسری جگہ ارشاد ہے 
{ وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْرٍط} (الشوری : ع ۱)  
ا ور جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی اعمال کی بدولت پہنچتی ہے اور (ہرگناہ پر نہیں پہنچتی، بلکہ) بہت سے گناہ تو حق تعالیٰ شا نہٗ معاف فرما دیتے ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے حضورﷺ نے فرمایا کہ اس آیت کی تفسیر تمہیں بتائوں؟ اے علی! جوکچھ بھی تمہیں پہنچے، مرض ہو یا کسی قسم کا عذاب یا دنیا کی اورکوئی مصیبت ہو، وہ اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی ہے۔ اس مضمون کو بندہ اپنے رسالہ ’’اِعتدال‘‘میں تفصیل سے لکھ چکا ہے وہاں دیکھاجائے۔
۱۳۔ وَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ کِتَابَہٗ بِشِمَالِہٖ  فَیَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ لَمْ اُوْتَ کِتٰبِیَہْ o وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیَہْ o یٰلَیْتَھَا کَانَتِ الْقَاضِیَۃْ o مَا اَغْنٰی  عَنِّیْ  مَالِیَہْ o ھَلَکَ عَنِّی سُلْطَانِیَہْo خُذُوْہُ فَغُلُّوْہُo ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوْہُ o ثُمَّ  فِیْ سِلْسِلَۃٍ ذَرْعُھَا سَبْعُوْنَ ذِرَاعًا فَاسْلُکُوْہُ o اِنَّہٗ کَانَ لَایُؤْمِنُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ o وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o فَلَیْسَ لَہُ الْیَوْمَ ھٰھُنَا حَمِیْمٌ o وَّلَا طَعَامٌ 


اور جس شخص کا نامۂ اعمال اس کے بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ (نہایت ہی حسرت سے) کہے گا: کیا اچھا ہوتا کہ مجھ کو میرا نامۂ اعمال ہی نہ ملتا۔ اور مجھ کو خبر ہی نہ ہوتی کہ میرا حساب کیا ہے۔ کیا اچھا ہوتا کہ موت ہی سب قصہ ختم کر دیتی۔ (قیامت ہی نہ آتی جو حساب کتاب ہوتا ) میرا مال بھی میرے کچھ کام نہ آیا۔ میری جاہ (آبرو)بھی جاتی رہی۔ (اس کے لیے فرشتوں کو حکم ہوگا) اس کو پکڑو اورا س کوطوق 
اِلاَّ مِنْ غِسْلِیْنٍ o لاَّیَاْکُلُہٗ اِلاَّ الْخَاطِئُوْنَ o  (الحاقۃ : ع۱)


پہنا دو۔ پھر جہنم میں اس کو داخل کر دو۔ پھرایک ستّر گز لمبی زنجیر میںاس کو جکڑ دو۔ 
اس لیے کہ یہ شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان نہ رکھتا تھا۔ (اور خود تو کیا کھلاتا) دوسرے آدمیوں کو بھی غریب کے کھلانے کی ترغیب نہ دیتا تھا۔ پس نہ تو آج اس کا کوئی یہاں دوست ہے۔ اور نہ اس کے لیے کوئی چیز کھانے کو ہے بجز غسلین کے۔ جس کو بجز بڑے گناہ گار وں کے اور کوئی نہ کھائے گا۔
فائدہ: ’’غسلین‘‘ کا مشہور ترجمہ دَھووَن کا ہے۔ یعنی زخموں وغیرہ کے دھونے سے جو پانی جمع ہو جائے وہ غسلین کہلاتا ہے۔ حضرت ابنِ عباس? سے نقل کیاگیا کہ زخموں کے اندر سے جو لہو پیپ وغیرہ نکلتی ہے وہ غسلین ہے۔ حضرت ابو سعید خدریؓ حضورِاقدسﷺ کا ارشادنقل کرتے ہیں کہ غسلین کا ایک ڈول اگر دنیا میں ڈال دیا جائے تو اس کی بدبو سے ساری دنیا سٹر جائے۔ نوف شامی ؒ سے نقل کیا گیا کہ وہ زنجیر جو سترگز لمبی ہے اس کا ہر گز سترباع ہے اور ہر باع اتنا لمبا ہے کہ مکہ مکرمہ سے کوفہ تک پہنچے۔ حضرت ابنِ عباس? سے اور دوسرے مفسرین سے نقل کیا گیا کہ یہ زنجیر پاخانہ کی جگہ کو داخل کرکے ناک میں کونکالی جائے گی اور پھر اس پر لپیٹ دی جائے گی جس سے وہ بالکل جکڑا جائے گا۔ (دُرِّمنثور)
اس آیتِ شریفہ میں مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہ دینے پر بھی عتاب ہے۔ اس لیے آپس میں اپنے عزیزوں کو، اپنے اَحباب کو، ملنے والوں کو غربا پروری پر، مساکین کوکھلانے پلانے پر خاص طور سے ترغیب دیتے رہنا چاہیے کہ دوسروں کوترغیب دینے سے اپنے اندر سے بھی بخل کا مادہ کم ہوگا۔
۱۴۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ  الرَّحِیْمِ
وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِ o نِالَّذِیْ جَمَعَ مَالاً وَّعَدَّدَہٗ o یَحْسَبُ اَنَّ مَالَہٗ اَخْلَدَہٗ o کَلَّا لَیُنْبَذَنَّ فِی الْحُطَمَۃِ o وَمَا اَدْرٰکَ مَا الْحُطَمَۃُ o 


بڑی خرابی ہے ایسے شخص کے لیے جو پسِ پشت عیب نکالنے والا ہو ، منہ در منہ طعنہ دینے والا ہو۔ ما ل جمع کرکے رکھتا ہے اور (غایتِ محبت سے) اس کو بار بار گنتا ہے۔ وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کا یہ مال اس کے 
نَارُ اللّٰہِ الْمُوْقَدَۃُ الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ o اِنَّھَا عَلَیْھِمْ مُّؤْصَدَۃٌ o فِیْ عَمَدٍ مُمَدَّدَۃٍ o      ( الہُمزۃ )


پاس ہمیشہ رہے گا۔ ہر گز نہیں، (یہ مال ہمیشہ نہیں رہے گا) خدا کی قسم! یہ شخص ایسی آگ میں ڈال دیا جائے گا کہ اس میں جو 
چیز پڑجائے وہ آگ اس کو توڑ پھوڑ کر ڈال دے۔ آپ کو خبر بھی ہے وہ کیسی توڑ دینے والی آگ ہے؟ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی آگ ہے جو دلوں تک پہنچ جائے گی۔ (یعنی دنیا کی آگ تو جہاں بدن میںلگی آدمی مر گیا، اور وہاں چوںکہ موت نہیں ہے اس لیے بدن میں لگتے ہی دل تک پہنچ جائے گی اور دل کی ذرا سی ٹھیس بھی آدمی کو بہت محسوس ہوتی ہے) اور وہ آگ ان لوگوں پر بند کر دی جائے گی اس طرح پرکہ وہ لوگ لمبے لمبے ستونوں میں گھرے ہوئے ہوں گے۔

فائدہ:

’’ ہُمَزَۃ لُمَزَۃ‘‘ کی تفسیر میں مختلف اقوال علماء کے ہیں۔ ایک تفسیر یہ بھی ہے جو اوپر نقل کی گئی ہے۔ حضرت ابنِ عباس ? او رمجاہد ؒ سے ہُمزہ کی تفسیر طعن دینے والا اورلُمزہ کی تفسیر غیبت کرنے والا نقل کی گئی ہے۔ ابنِ جریج ؒکہتے ہیں کہ ہُمزہ اشارہ سے ہوتا ہے آنکھ کے، منہ کے، ہاتھ کے، جس کے بھی اشارہ سے ہو، اور لُمزہ زبان سے ہوتا ہے۔

ایک مرتبہ حضورِ اقدسﷺ نے اپنی معراج کا حال بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے مردوں کی ایک جماعت دیکھی جن کے بدن قینچیوںسے کُترے جا رہے تھے۔ میں نے جبرئیل ؑ سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو زینت اختیار کرتے تھے۔ (یعنی حرام کاری کے لیے بن سنور کر نکلتے تھے) پھر میں نے ایک کنواں دیکھا جس میں نہایت سخت بدبو آرہی تھی اور اس سے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ میں نے جبرئیل ؑ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انھوںنے بتایا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو (حرام کاری کے لیے) بنتی سنورتی تھیں اور ناجائز کام کرتی تھیں۔ پھر میں نے کچھ مرد اور عورتیں معلَّق دیکھیں جو پستانوں کے ذریعہ سے لٹک رہے تھے۔ میں پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو جبرئیل ؑ نے بتایا کہ یہ طعن دینے، والے چغل خوری کرنے والے ہیں۔ (دُرِّمنثور)

اللہ اپنے فضل سے ان چیزوں سے محفوظ رکھے۔ بڑی سخت وعیدیں ہیں۔ اس سورتِ شریفہ میں بخل اور حرص کی خاص طور سے مذمت ارشاد فرمائی ہے کہ بخل کی وجہ سے مال جمع کرکے رکھتا ہے اور حرص کی وجہ سے بار بار گنتا ہے کہ کہیں کم نہ ہو جائے۔ اور اتنی محبت اس سے ہے کہ اس کے باربار گننے میں بھی مزہ آتاہے۔ اور یہ بری عادت تکبر اور تعلِّی کا سبب بنتی ہے، جس کی وجہ سے دوسروں کی عیب جوئی اور ان پر طعن و تشنیع پیداہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس سورت کے شروع میں ان عیوب پر تنبیہ فرمانے کے بعد اس بری خصلت کی مذمت ذکر کی ہے۔ اور ہر شخص اس خَبْط میں مبتلا ہے کہ مال کی اَفزایش اس کو آفات اورحوادث سے بچا سکتی ہے، گویا مال دارکو موت آتی ہی نہیں، اس لیے اس پر تنبیہ فرمائی گئی ہے۔ واقعات بھی کثرت سے اس کی تائیدکرتے ہیںکہ جب کوئی آفت اور مصیبت مسلط ہوتی ہے یہ مال و متاع سب رکھا رہ جاتا ہے، بلکہ مال کی کثرت بسا اوقات خود آفات کو کھینچتی ہے۔ کوئی زہر دینے کی فکر میں ہوتا ہے کوئی قتل کرنے کی۔ اور لوٹ مار، چوری ڈاکہ سینکڑوں آفات اس مال کی بدولت آدمی پر مسلط رہتی ہیں۔ اور جب مال زیادہ ہو جاتا ہے پھر تو عزیزو اَقارب، بیوی بیٹا سب ہی دل سے ا س کی خواہش کرنے لگتے ہیں کہ بڈھا کہیں مرے تویہ ہمارے ہاتھ آئے۔

۱۵۔ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَرَاَیْتَ الَّذِیْ ُیکَذِّبُ بِالدِّیْنِ o فَذٰلِکَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ o وَلَا یَحُضُّ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَا تِھِمْ سَاھُوْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ یُرَآئُ وْنَ وَیَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ o (الماعون)



ًٔکیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جو قیامت کے دن کو جھٹلاتا ہے؟ پس (اس شخص کا حال یہ ہے کہ) یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور غریب کو (خود توکیا دیتا دوسروں کو بھی ان کے) کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ پس ہلاکت ہے ایسے نمازیوں کے لیے جو اپنی نمازوں کو بھلا بیٹھتے ہیں (یعنی

نہیں پڑھتے اوراگر کبھی پڑھتے بھی ہیں تو) وہ لوگ دکھاوا کرتے ہیں اور ماعون کو روکتے ہیں۔ (بالکل دیتے ہی نہیں)

فائدہ: حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ یتیم کو دھکے دینا یہ ہے کہ اس کا حق روکتے ہیں۔ قتادہ ؒکہتے ہیں کہ اس کے دھکے دینے سے اس پر ظلم کرنا مراد ہے اور یہ چیز قیامت کے دن کو غلط سمجھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ جس کو آخرت کے دن کا یقین ہوگا، وہاں کی جزا اورسزا کا پورا وثوق ہوگا، وہ کسی پر ظلم نہیں کرے گا، اور اپنے مال کو جمع کرکے نہیں رکھے گا، بلکہ خوب خرچ کرے گا۔ اس لیے کہ جس کو اس کاکامل یقین ہوجائے کہ آج اگر میں اس تجارت میں دس روپے لگا دوں کل کو ضرور مجھے ایک ہزار جائز طریقے سے ملیں گے، وہ کبھی بھی اس میں تامُّل نہ کرے گا۔

اور جن نمازیوں کا اس میں ذکر ہے ان کے متعلق حضر ت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ وہ منافق لوگ مراد ہیں جو لوگوں کے سامنے تو دکھلاوے کے واسطے نماز پڑھتے ہیں اور جہاں کہیں اکیلے ہوں اس کو چھوڑ دیں۔ حضرت سعدؓ وغیرہ متعدد حضرات سے نقل کیاگیاکہ نماز کو چھوڑنے سے مراد تاخیر سے پڑھنا ہے کہ بے وقت پڑھتے ہیں۔

’’ماعون‘‘ کی تفسیر میں علماء کے کئی قول ہیں۔ اس کی تفسیر بعض علماء سے زکوٰۃ نقل کی گئی ہے، لیکن اکثر علماء سے جو تفسیریں منقول ہیں ان کے موافق معمولی روز مرہ کے برتنے کی چیزیں ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضورﷺ کے زمانہ میں ماعون کا مصداق یہ چیزیں قرار دیتے تھے: ڈول مانگا دے دینا، ہانڈی، کلہاڑی، ترازو اور اس قسم کی جو چیزیں ایک دوسرے کو مانگی دے دی جاتی ہیں کہ اپنا کام پورا کرکے و اپس کر دیں۔ حضرت ابوہریرہؓ حضورِ اقدسﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ ماعون سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے لوگ آپس میں ایک دوسرے کی مدد کر دیتے ہیں، جیسا کہ کلہاڑی، دیگچی، ڈول وغیرہ۔ اور بھی متعدد روایات میں یہ مضمون کثرت سے ذکر کیاگیا۔ عکرمہ ؒ سے کسی نے ماعون کا مطلب پوچھا تو انہو ں نے فرمایا کہ اس کی جڑ تو زکوٰۃ ہے اور ادنیٰ درجہ چھلنی، ڈول، سوئی کا دینا ہے۔ (دُرِّمنثور)

اس سورتِ شریفہ میں کئی چیزوں پر تنبیہ کی گئی ہے۔ من جملہ ان کے یتیموں کے بارے میں خاص تنبیہ ہے کہ ہلاکت کے اَسباب میں سے یتیم کو دھکے دے کر نکال دینا بھی ہے۔ بہت سے لوگ یتیموں کے والی وارث بن کر ان کا مال اپنے تصرُّف میں لاتے ہیں اور جب وہ یا اس کی طرف سے کوئی مطالبہ کرے تو اس کو ڈانٹتے ہیں۔ ان پر ہلاکت اور عذابِ شدید میں تو کوئی شبہ ہی نہیں ہے۔ یہی نوع اس سورتِ شریفہ کا شانِ نزول بتایا جاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں بہت کثرت سے یتیموں کے بارے میں تنبیہات اور آیات نازل ہوئی ہیں۔ چند آیات کی طرف اشارہ کرتا ہوں جس سے اندازہ ہوگا کہ اللہ جَلَّ جَلاَلَہُ عَمَّ نَوَالُہ نے کس اہتمام سے اس پرتنبیہ بارہا فرمائی ہے:

۱۔ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّذِی الْقُرْبٰٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسَاکِیْنِ (البقرۃ:ع۱۰)

۲۔ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَالیَتٰمٰی وَالْمَسَاکِیْنَ (البقرۃ:ع۲۲)

۳۔ قُلْ مَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَلْاَقْرَبِیْنَ وَالْیَتٰمٰی (البقرۃ:ع۲۶)

۴۔ وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلاََحٌ لَّھُمْ خَیْرٌط (البقرۃ:ع ۲۷)

۵۔ وَاٰتُوْا الْیَتٰمٰی اَمْوَالَھُم (النساء: ع۱)

۶۔ وَاِنْ خِفْتُمْ اَلاَّ تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی (النساء : ع۱)

۷۔ وَابْتَلُوْا الْیَتٰمٰی (اِلیٰ قولہٖ) وَلَا تَاْکُلُوْھَا اِسْرًافًا وَّبِدَارً اَنْ یَّکْبَرُوْا ط (النساء:ع۱)

۸۔ وَاِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی َوالْیَتٰمٰی الٓایۃ۔ (النساء:ع۱)

۹۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا الآیۃ۔ (النساء:ع۱)

۱۰۔ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی الآیۃ۔ (النساء:ع۶)

۱۱۔ وَمَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ فِیْ الْکِتٰبِ فِیْ یَتٰمَی النِّسَائِ الآیۃ۔(النساء:ع۱۹)

۱۲۔ وَاَنْ تَقُوْمُوْا لِلْیَتٰمٰی بِالْقِسْطِ ط (النساء :ع ۱۹)

۱۳،۱۴۔ وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلاَّ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ

(الأنعام :ع ۱۹، بني إسرائیل:ع۴)

۱۵۔ مَا اَفَآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ الآیۃ۔ (الحشر :ع۱)

۱۶۔ وَیُطْمِعُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا الآیۃ۔ (الدہر:ع۱)

۱۷۔ کَلاَّ بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ الَیْتِیْمُ الآیۃ۔ (الفجر : ع۱)

۱۸۔ اَوْ اِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِی مَسْغَبَۃٍ یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ o (البلد:ع۱)

۱۹۔ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا (الضحی)۲۰۔ فَاَمَّا اَلْیَتِیْمَ فَلاَ تَقْھَرْ (الضحی)

یہ بیس آیات نمونہ کے طور پر ذکر کی گئی ہیں اور آیات کی سورت اور رکوع بھی لکھ دیے ہیں۔ اگر کسی مترجَم قرآن شریف میں ان کو نکال کرترجمہ دیکھا جائے تومعلوم ہوگا کہ اللہ نے بار بار مختلف عنوانوں سے اس پر تنبیہ فرمائی ہے کہ یتیموں کے بارے میں ان کی اِصلاح، ان کی خیر خواہی، ان کے مال میں اِحتیاط، ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ، ان کی اِصلاح اورفلاح کی کوشش، حتیٰ کہ اگر کسی یتیم لڑکی سے نکاح کرے تو اس کے مہر کو کم نہ کرنے پربھی تنبیہ کی گئی کہ کَس مپرسی کی وجہ سے اس کے مہر میں بھی کمی نہ کی جائے۔ حضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد کئی حدیثوں میں وارد ہوا ہے کہ میں اور وہ شخص جو کسی یتیم کی کفالت کرتا ہو جنت میںایسے قریب ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔ اس ارشاد پر حضورﷺ نے اپنی دو انگلیاں، شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی ملا کرا ن کی طرف اشارہ فرمایا کہ جیسے یہ دو قریب ہیں، ملی ہوئی ہیں، ایسے ہی میں اورو ہ شخص جنت میں قریب ہوں گے۔ اور بعض علماء نے فرمایا کہ بیچ کی انگلی شہادت کی انگلی سے تھوڑی سی آگے نکلی ہوئی ہوتی ہے توا س صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ میرا درجہ نبوت کی وجہ سے تھوڑا ساآگے بڑھا ہوا ہوگا اور اس کے قریب ہی اس شخص کا درجہ ہوگا۔

ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص کسی یتیم کے سر پر (شفقت سے) ہاتھ پھیرے اور صرف اللہ کی رضاکے واسطے ایسا کرے تواس کا ہاتھ یتیم کے سر کے جتنے بالوں پر پھرے گا ہر بال کے بدلہ میں اس کو نیکیاں ملیںگی۔ اور جو شخص کسی یتیم لڑکے یا لڑکی پر احسان کرے تو میں اورو ہ شخص جنت میں اس طرح ہوںگے۔ وہی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا جیسا اوپر گزرا۔ اور بھی کئی حدیثوں میں مختلف عنوان سے یہی مضمون وارد ہواہے۔ (دُرِّمنثور)

ایک حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن کچھ لوگ قبروں سے ایسے اٹھیں گے کہ ان کے منہ میں آگ بھڑک رہی ہوگی۔ کسی نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! یہ کون لوگ ہوںگے؟ تو حضورﷺ نے آیاتِ گزشتہ میں سے نویں آیت تلاوت فرمائی { اِنَّ الَّذِیْنَ یَاکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی} جس کاترجمہ یہ ہے کہ جو لوگ یتیموں کامال ظلم سے کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں۔ شبِ معراج میں حضورﷺ نے ایک قوم کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کی طرح سے بڑے بڑے ہیں، اور فرشتے ان پر مسلط ہیں کہ وہ ان کے ہونٹوں کو چیر کر ان میں آگ کے بڑے بڑے پتھر ٹھونس رہے ہیں کہ وہ آگ منہ سے داخل ہو کر پاخانہ کی جگہ سے نکلتی ہے اور وہ لوگ نہایت آہ و زاری سے چلا رہے ہیں۔ حضور ﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال ظلم سے کھاتے تھے، ان کو آگ کھلائی جا رہی ہے۔

ایک حدیث میں ہے کہ چار قسم کے آدمی ایسے ہیں جن کو اللہ نہ تو جنت میں داخل فرمائیں گے، نہ جنت کی نعمتیں ان کو چکھنا نصیب ہوں گی۔ ایک وہ شخص جو ہمیشہ شراب پیتا ہو، دوسرے سود خور، تیسرے وہ شخص جو ناحق یتیم کا مال کھائے، چوتھے وہ شخص جو والدین کی نافرمانی کرے۔ (دُرِّمنثور) حضرت اقدس شاہ عبدا لعزیز صاحب ؒ نے تفسیر میں تحریر فرمایا ہے کہ یتیموں پر احسان دو قسم کا ہے۔ ایک تو وہ ہے جو وارثوں پر واجب ہے، مثلاً: اس کے مال کی حفاظت کہ اس میں زراعت یاتجارت وغیرہ سے ترقی ہو تاکہ اس کا نفقہ اورضروریات پوری ہوسکیں، اور اس کی خوراک پوشاک وغیرہ کی خبر گیری، نیزاس کے لکھنے پڑھنے اور تعلیمِ آداب وغیرہ کی خبر گیری۔ دوسری قسم وہ ہے جو عام آدمیوں پر واجب ہے۔ اور وہ اس کی اِیذا کو ترک کرنا ہے، اور نرمی اورمہربانی سے اس سے پیش آنا ہے، محفلوں اور مجالس میں اپنے پاس بٹھانا، اس کے سر پر ہاتھ پھیرنا، اپنی اولاد کی طرح اس کوگود میں لینا اور اس سے محبت ظاہر کرنا۔ اس لیے کہ جب وہ یتیم ہوگیا اس کاباپ نہ رہا تو حق تعالیٰ شا نہٗ نے سب بندوں کو حکم کیا کہ اس کے ساتھ باپ جیسا برتائو کریں اور اس کو اپنی اولاد کی طرح سمجھیں، تاکہ باپ کے مرنے کی وجہ سے جوعِجزِ حکمی اس کو لاحق ہوگیا اس قوتِ حقیقی کے ساتھ کہ ہزاروں آدمی اس کے باپ کی جگہ ہوجائیں، دور ہو جائے۔ پس یتیم بھی قرابتِ شرعی رکھتا ہے جیسا کہ دوسرے اَقارب قرابتِ عرفی رکھتے ہیں۔ (تفسیرِ عزیزی سورئہ بقرہ)

دوسرا مضمون جو آیتِ بالا میں خصوصی مذکور ہے وہ مسکین کے کھانے پر ترغیب نہ دینے پر تنبیہ ہے اور گویا بخل کے انتہائی درجہ کی طرف اشارہ ہے کہ خود تو وہ اپنا مال کیا خر چ کرتا وہ یہ بھی گوارہ نہیں کرتا کہ دوسرا بھی کوئی فقیروں پر خرچ کرے۔ قرآن پاک میں مسکینوں کے کھانا کھلانے پر بہت سی آیات میں ترغیب دی گئی جن میںسے بعض پہلے مذکور ہو چکی ہیں۔ سورئہ فجر میں ہے {کَلاَّ بَلْ لاَّ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ وَلَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِo} اس میں اس پر بھی تنبیہ کی گئی کہ تم لوگ نہ تویتیموں کا اِکرام کرتے ہو نہ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو۔

تیسری چیز جو آیتِ بالا میں ذکر کی گئی وہ ماعون کاروکنا ہے جس کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔ حضرتِ اقدس شاہ عبدالعزیز صاحب ؒ نے تحریر فرمایا کہ اس سورت کا نام ماعون اس وجہ سے ہے کہ یہ احسان کا ادنیٰ درجہ ہے۔ اور جب کہ احسان نہ کرنے کا ادنیٰ درجہ بھی موجبِ حجاب وعتاب ہے تو اعلیٰ درجہ یعنی حقوق اللہ اور حقوق الناس کے ضائع کرنے سے بطریقِ اولیٰ ڈرنا چاہیے۔

یہاں تک اس مضمون کے متعلق چند آیات ذکر کی گئی ہیں۔ آگے چند احادیث اس مضمون کے متعلق لکھی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوگا کہ بخل اور مال کو جمع کرکے رکھنا کس قدر سخت چیز ہے۔

احادیث

۱۔ عَنْ أَبِيْ سَعِیْدٍ  ؓقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: خَصْلَتَانِ لَا تَجْتَمِعَانِ فِيْ مُؤْمِنٍ، اَلْبُخْلُ وَسُوْئُ الْخُلْقِ۔

رواہ الترمذي، کذا في مشکاۃ المصابیح۔



حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ دو خصلتیں ایسی ہیں کہ وہ مؤمن میں جمع نہیں ہوسکتیں۔ ایک تو بخل، دوسری بدخلقی۔

فائدہ: یعنی کوئی شخص مؤمن ہو کر بخیل بھی ہو اور بدخلق بھی یہ مؤمن کی شان ہرگز نہیں۔ ایسے شخص کو اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ اسی سے ہاتھ دھو بیٹھیں کہ جیسا ہر خوبی دوسری خوبی کو کھینچتی ہے ایسے ہی ہر عیب دوسرے عیب کو کھینچتا ہے۔ دوسری حدیث میں اس سے بھی بڑھ کر حضورﷺ کاارشاد ہے کہ شُحّ (یعنی بخل کی اعلیٰ قسم) ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی۔ (مشکاۃ المصابیح) کہ ان دونوں چیزوں کا اجتماع گویا ضدَّین کااجتماع ہے، جیسا کہ آگ اور پانی کا جمع ہونا کہ جونسی چیز غالب ہوگی وہ دوسرے کو فنا کردے گی۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ کوئی ولی ایسا نہیں ہوا جس میں اللہ نے دو عادتیں پیدا نہ کر دی ہوں۔ ایک سخاوت، دوسرے خوش خلقی۔ (کنز العمال) دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کا کوئی ولی ایسا نہیں ہے جو سخاوت کا عادی نہ بنایا گیا ہو۔ (کنز العمال) اور بہت ظاہر بات ہے کہ اگر اللہ سے تعلق اور محبت ہے تو اس کی مخلوق پر خرچ کرنے کو بے اختیار دل چاہے گا کہ محبوب کے عزیز و اَقارب کی خاطر محبت کے لوازمات سے ہے۔ ا ور جب مخلوق اللہ کی عیال ہے تو ان پر خرچ کرنے کو ولی کا دل ضرور چاہے گا۔ اور اس کے عیال میں بھی جس کا تعلق اس کے ساتھ جتنا زیادہ قوی ہوگا اتنا ہی اس پر خرچ کرنے کو زیادہ چاہے گا۔ اور اگر نہ چاہے تو معلوم ہوا کہ مال کی محبت اللہ کی محبت سے زیادہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کادعویٰ جھوٹ ہے۔

۲۔ عَنْ أَبِيْ بَکْرٍِ الصِّدِّیْقِ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ 

حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد نقل کیا کہ جنت میں نہ تو 

خَبٌّ وَلَا بَخِیْلٌ وَلَا مَنَّانٌ۔

رواہ الترمذي، کذا في مشکاۃ المصابیح۔  



چال باز (دھوکہ باز) داخل ہوگا، نہ بخیل، نہ صدقہ کرکے احسان رکھنے والا۔

فائدہ:

علماء نے ارشاد فرمایا ہے کہ ان صفات کے ساتھ کوئی شخص بھی جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔ اگر کسی مؤمن میں یہ بری صفات خدانخواستہ پائی جاتی ہوں گی تو اوّل تو حق تعالیٰ شا نہٗ اس کو دنیا ہی میں ان سے توبہ کی توفیق عطا فرما ویں گے اور اگر یہ نہ ہوا تو اوّل جہنم میںداخل ہو کر ان صفات کا تنقیہ ہونے کے بعد جنت میں داخل ہوسکے گا، لیکن جہنم میںداخل ہونا چاہے تھوڑی ہی دیر کے لیے ہو، کیا کوئی معمولی اور آسان کام ہے؟ دنیاکی آگ میں تھوڑی دیر کے لیے ڈالاجانا کیا اثرات پیدا کرتا ہے؟ حالاںکہ یہ آگ جہنم کی آگ کے مقابلہ میں کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتی۔

حضورِ اقدسﷺ  کا ارشاد ہے کہ دنیا کی آگ جہنم کی آگ کا ستّرواں حصہ ہے۔ صحابہ? نے عرض کیا کہ حضور! یہ آگ کیا کچھ کم ہے؟ یہ تو خود ہی بہت کافی اذیت پہنچانے والی ہے۔ حضورﷺنے فرمایا کہ وہ اس سے انہتّردرجہ بڑھی ہوئی ہے۔ مشکاۃ المصابیح

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جہنم میں سب سے کم عذاب والا شخص وہ ہوگا جس کو جہنم کی آگ کی صرف دو جوتیاں پہنائی جائیں گی اور ان کی وجہ سے اس کا دماغ ایسا جوش مارے گا جیساکہ ہنڈیا آگ پر جوش مارتی ہے۔ (مشکاۃ المصابیح) ایک حدیث میں آیا کہ اللہ  نے جنتِ عدن کو اپنے دست ِمبارک سے بنایا۔ پھر اس کو آراستہ اور مزین کیا۔ پھر فرشتوں کو حکم فرمایا کہ اس میں نہریں جاری کریں اور پھل اس میں لٹکائیں۔ جب حق تعالیٰ شا نہٗ نے اس کی زیب وزینت کو ملاحظہ فرمایا تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت کی قسم، میرے جلال کی قسم، میرے عرش پر بلندی کی قسم! تجھ میں بخیل نہیں آسکتا۔ (کنز العمال)

۳۔ عَنْ أَبِيْ ذَرٍّؓ قَالَ: انْتَھَیْتُ إِلَی النَّبِيِّ  ﷺوَھُوَ جَالِسٌ فِی  ظِلِّ الْکَعْبَۃِ، فَلَمَّا  رَآنِيْ قَالَ: ھُمُ الأَخْسَرُوْنَ 



حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں: میں ایک مرتبہ حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوا ۔ حضورﷺ کعبہ شریف کی دیوار کے سایہ

وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ! فَقُلْتُ: فِدَاکَ أَبِيْ وَأُمِّيْ مَنْ ھُمْ؟ قَالَ: ھُمُ الأکْثَرُوْنَ مَالاً إِلاَّ مَنْ قَالَ ھٰکَذَا وَھٰکَذَا وَھٰکَذَا مِنْ بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ وَعَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ وَقَلِیْلٌ مَّا ھُمْ۔

متفق علیہ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔



میں تشریف رکھتے تھے۔ مجھے دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا کہ کعبہ کے رب کی قسم! وہ لوگ بڑے خسارہ میں ہیں۔ میں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، کون لوگ؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جن کے پاس مال زیادہ ہو، مگر وہ لوگ جو اس طرح، 

اس طرح، اس طرح (خرچ) کریں، اپنے دائیں سے بائیں سے آگے سے پیچھے سے، لیکن ایسے آدمی بہت کم ہیں۔

فائدہ: حضرت ابوذرؓ زاہدین صحابہ میں ہیں جیسا کہ پہلے بھی گزر چکا۔ ان کو دیکھ کر یہ ارشاد حقیقتاً ان کی تسلی تھی کہ اپنے فقر و زہد پر کسی وقت بھی خیال نہ کریں۔ یہ مال ومتاع کی کثرت فی ذاتہٖ کوئی محبوب چیز نہیں، بلکہ بڑے خسارے اور نقصان کی چیز ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ اللہ سے غفلت کا سبب بنتی ہے۔ روز مرّہ کا مشاہدہ ہے کہ بغیر تنگدستی کے اللہ کی طرف رجوع بہت ہی کم ہوتا ہے۔ البتہ جن لوگوں کو اللہ نے توفیق عطا فرمائی ہے، اور وہ ضرورت کے مواقع میں جہاں اور جس طرف ضرورت ہو چاروں طرف بخشش کا ہاتھ پھیلاتے ہوں، ان کے لیے مال مضر نہیں ہے۔

لیکن حضورﷺ نے خود ہی ارشاد فرمایا کہ ایسے آدمی کم ہیں۔ عام طور سے یہی ہوتاہے کہ مال کی کثرت ہوتی ہے، فسق وفجور، آوارگی، عیاشی اپنے ساتھ لاتی ہے۔ اور بے محل خرچ کرنا ، نام و نمود پر صَرف کرنا تو دولت کے ادنیٰ کرشموں میں سے ہے۔ بیاہ شادیوں اور دوسری تقریبات پر بے جا اور بے محل ہزاروں روپیہ خرچ کر دیا جائے گا، لیکن اللہ کے نام پرضرورت مندوں اور بھوکوں پرخرچ کرنے کی گنجایش ہی نہ نکلے گی۔

ایک حدیث میں ہے کہ جو لوگ دنیا میں مال دار زیادہ ہیں وہی لوگ آخرت میں کم سرمایہ والے ہیں، مگر وہ شخص جو حلال ذریعہ سے کمائے اور یوں یوں خرچ کر دے۔ (کنزالعمال) پہلی حدیث کی طرح یوں یوں کا اشارہ ادھر ادھر خرچ کرنے کی طرف ہے۔ حقیقت میں مال اُس کے لیے زینت اور عزت ہے جو اِس کو ادھر ادھر خرچ کردے۔ اور جوگن گن کر باندھ باندھ کررکھے، اس کے لیے یہ ہر قسم کی آفات کاپیش خیمہ ہے۔ اس کو بھی ہلاک کرتا ہے اور خود بھی اس کے پاس سے ضائع ہوتا ہے۔ یہ بے مروّت کسی شخص کو دین یا دنیا کا فائدہ اس وقت تک نہیں پہنچاتا جب تک اس کے پاس سے جدا نہ ہو۔

۴۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ اَلسَّخِيُّ قَرِیْبٌ مِّنَ اللّٰہِ، قَرِیْبٌ مِّنَ الْجَنَّۃِ، قَرِیْبٌ مِّنَ النَّاسِ، بَعِیْدٌ مِنَ النَّارِ۔ وَالْبَخِیْلُ بَعِیْدٌ مِّنَ اللّٰہِ، بَعِیْدٌ مِّنَ الْجَنَّۃِ، بَعِیْدٌ مِّنَ النَّاسِ، قَرِیْبٌ مِنَ النَّارِ، وَلَجَاھِلٌ سَخِيٌّ أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنْ عَابِدٍ بَخِیْلٍ۔

رواہ الترمذي، کذا في مشکاۃ المصابیح۔



حضورِاقدسﷺکا ارشاد ہے کہ سخی آدمی اللہ سے قریب ہے، جنت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب ہے، جہنم سے دور ہے۔ اور بخیل آدمی اللہ سے دور ہے، جنت سے دور ہے، آدمیوں سے دور ہے اور جہنم سے قریب ہے۔ بے شک جاہل سخی اللہ کے نزدیک عابد بخیل سے زیادہ محبوب ہے۔

فائدہ: یعنی جو شخص عبادت بہت کثرت سے کرتا ہو، نوافل بہت لمبی لمبی پڑھتا ہو، اس سے وہ شخص اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے جو نوافل بہت کم پڑھتا ہو لیکن سخی ہو۔ عابد سے مراد نوافل کثرت سے پڑھنے والا ہے۔ فرائض کا پڑھنا تو ہر شخص کے لیے ضروری ہے چاہے سخی ہو یا نہ ہو۔

امام غزالی ؒ نے نقل کیا ہے کہ حضرت یحییٰ بن زکریاعلی نبینا و علیہما الصلوۃ والسلام نے ایک مرتبہ شیطان سے دریافت فرمایا کہ تجھے سب سے زیادہ کو ن شخص محبوب ہے اور سب سے زیادہ نفرت کس سے ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے سب سے زیادہ محبت مؤمن بخیل سے ہے اور سب سے زیادہ نفرت  فاسق سخی سے ہے۔ انھوں نے فرمایا: یہ کیا بات ہے؟ اس نے عرض کیا کہ بخیل اپنے بخل کی وجہ سے مجھے بے فکر رکھتا ہے۔ یعنی اس کا بخل ہی جہنم میں لے جانے کے لیے کافی ہے، لیکن فاسق سخی پرمجھے ہر وقت فکرسوار رہتا ہے کہ کہیں حق تعالیٰ شا نہٗ اس کی سخاوت کی وجہ سے اس سے درگزر نہ فرما ویں۔ (اِحیاء العلوم)

یعنی حق تعالیٰ شا نہٗ اس کی سخاوت کی وجہ سے کسی وقت اس سے راضی ہوگئے تو اس کے دریائے مغفرت و رحمت میں عمر بھر کے فسق و فجور کی کیا حقیقت ہے۔ وہ سب کچھ معاف فرما سکتا ہے۔ ایسی صورت میں میری عمر بھر کی محنت جو اس سے گناہ صادر کرانے میں کی تھی، ساری ضائع ہوگئی۔

ایک حدیث میںہے کہ جو شخص سخاوت کرتا ہے وہ اللہ کے ساتھ حسنِ ظن کی وجہ سے کرتا ہے۔ اور جو بخل کرتا ہے وہ حق تعالیٰ شا نہٗ کے ساتھ بدظنی سے کرتا ہے۔ (کنزالعمال) حسنِ ظن کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ جس مالک نے یہ عطا فرمایا وہ پھر بھی عطا فرماسکتا ہے، اور ایسے شخص کے اللہ سے قریب ہونے میں کیا تردد ہے؟ اور بدظنی کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ ختم ہوگئے تو پھر کہاں سے آئیں گے۔ ایسے شخص کا اللہ سے دور ہونا ظاہر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے خزانہ کو بھی محدود سمجھتا ہے۔ حالاںکہ آمدنی کے اسباب اسی کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور ان اسباب سے پیداوار کا ہونا اسی کے قبضۂ قدرت میں ہے ۔ وہ نہ چاہے تو دکان دار ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہے۔ کاشت کار بوئے اور پیداوار نہ ہو۔ اور جب کہ یہ سب اسی کی عطا کی وجہ سے ہے پھر اس کا کیا مطلب کہ ’’پھر کہاں سے آئے گا؟‘‘ مگر ہم لوگ زبان سے اس کا اِقرار کرنے کے بعد دل سے یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ یہ صرف اللہ تعالیٰ شا نہٗ ہی کی عطا ہے، ہمارا اس میں کوئی عمل دخل نہیں۔ اور صحابہ کرام دل سے یہ سمجھتے تھے کہ یہ سب اسی کی عطاء ہے، جس نے آج دیا وہ کل بھی دے گا۔ اس لیے ان کو سب کچھ خرچ کر دینے میں ذرا بھی تامُّل نہ ہوتا تھا۔

۵۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ   ؓقَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: السَّخَآئُ شَجَرَۃٌ فِيْ الْجَنَّۃِ، فَمَنْ کَانَ سَخِیًّا اَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْھَا، فَلَمْ یَتْرُکْہُ الْغُصْنُ حَتّی یُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ۔ وَالشُّحُّ شَجَرَۃٌ فِيْ النَّارِ فَمَنْ 



 حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ سخاوت جنت میں ایک درخت ہے۔ پس جو شخص سخی ہوگا وہ اس کی ایک ٹہنی پکڑلے گا جس کے ذریعہ سے وہ جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اور بخل جہنم کاایک درخت ہے۔ جو شخص 

کَانَ شَحِیْحًا أَخَذَ بِغُصْنٍ مِنْھَا، فَلَمْ یَتْرُکْہُ الْغُصْنُ حَتَّی یُدْخِلَہُ النَّارَ۔

رواہ البیھقي في شعب الإیمان، کذا في مشکاۃ المصابیح۔



شحیح (بخیل) ہوگا وہ اس کی ایک ٹہنی پکڑلے گا، یہاںتک کہ وہ ٹہنی اس کو جہنم میں داخل کرکے رہے گی۔

فائدہ: شُحّ بخل کا اعلیٰ درجہ ہے جیسا کہ پہلی فصل کی آیات میں نمبر (۲۸) پرگزر چکا ہے۔ مطلب ظاہر ہے کہ جب بخل جہنم کا درخت ہے تواس کی ٹہنی پکڑ کر جو شخص چڑھے گا وہ جہنم ہی میں پہنچے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ جنت میں ایک درخت ہے جس کا نام سخا ہے، سخاوت اسی سے پیدا ہوئی ہے۔ اور جہنم میںایک درخت ہے جس کا نام شُحّ ہے، شُحّ اسی سے پیدا ہوا ہے۔ جنت میںشحیح داخل نہ ہوگا۔ (کنز العمال) یہ پہلے متعدد مرتبہ معلوم ہوچکا کہ شُحّ بخل کا اعلیٰ درجہ ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ سخاوت جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے جس کی ٹہنیاں دنیا میں جھک رہی ہیں۔ جو شخص اس کی کسی ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے وہ ٹہنی اس کو جنت تک پہنچا دیتی ہے۔ اور بخل جہنم کے درختوں میں سے ایک درخت ہے جس کی ٹہنیاں دنیا میں جھک رہی ہیں۔ جو شخص اس کی کسی ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے وہ ٹہنی اس کو جہنم تک پہنچا دیتی ہے۔ (کنز العمال) یہ ظاہر چیز ہے کہ جو سڑک اسٹیشن پر جاتی ہے جب آدمی اس سڑک پر چلتا رہے گا تولا محالہ کسی وقت اسٹیشن پر پہنچے گا۔ اسی طرح سے یہ ٹہنیاں جن درختوں کی ہیں جب ان کو کوئی پکڑ کر چڑھے گا تو جہاں وہ درخت کھڑا ہے وہاں پہنچ کر رہے گا۔

۶۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: شَرُّ مَا فِيْ الرَّجُلِ شُحٌّ ھَالِعٌ وَجُبْنٌ خَالِعٌ۔

رواہ أبو داود  وکذا في مشکاۃ المصابیح۔



حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ بدترین عادتیں جو آدمی میں ہوں (دو ہیں)۔ ایک وہ بخل ہے جو بے صبر کر دینے والا ہو، دوسرے وہ نامردی اور خوف جو جان نکال دینے والا ہو۔

فائدہ: ان دو عیبوں کی طرف اللہ نے اپنے کلام میں بھی تنبیہ فرمائی ہے۔ چناںچہ ارشاد ہے:

اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا o اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا o وَّاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا o اِلاَّ الْمُصَلِّیْنَ o الَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلاََتِھِمْ دَائِمُوْنَ o وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ o لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ o وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنَ o وَالَّذِیْنَ ھُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ o اِنَّ عَذَابَ رَبِّھِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ o وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ o اِلاَّ عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکْتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ o فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْعٰدُوْنَ o وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ o وَالَّذِیْنَ  ھُمْ بِشَھٰدٰتِھِمْ قَآئِمُوْنَ o وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلٰوتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ o اُولٰئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ o (المعارج : ع۱)

’’بے شک انسان کم ہمت (تھوڑے اورکچے دل کا) پیدا ہوا ہے۔ جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے توجزع فزع کرنے لگتا ہے۔ اور جب اس کو خیر (مال) پہنچتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔ مگر وہ نمازی جو اپنی نماز پر پابندی کرنے والے ہیں۔ اورجن کے مالوں میں سوال کرنے والوںکے لیے اور سوال نہ کرنے والوںکے لیے مقررہ حق ہے۔ اور وہ لوگ جو قیامت کے دن کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنے پروردگار کے عذاب سے ڈرنے والے ہیں۔ بے شک ان کے ربّ کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں۔ (یقینًا اس سے ہر شخص کو ہر وقت ڈرتے رہنا چاہیے) اور وہ لوگ جواپنی شرم گاہوں کو (حرام جگہ سے) محفوظ رکھتے ہیں۔ لیکن اپنی بیبیوں اور باندیوں سے (حفاظت کی ضرورت نہیں) کیوں کہ ان پر ان میں کوئی الزام نہیں۔(یعنی ان لوگوں پر بیویوں اور باندیوں سے صحبت کرنے میں کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے) ہاں جو لوگ ان کے علاوہ (اور جگہ شہوت پوری کرنے) کے طلب گارہوں وہ حدود سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنے (سپرد کی ہوئی) امانتوں اور اپنے عہد (قول و قرار)کا خیال رکھنے والے ہیں۔ اور اپنی گواہیوں کو ٹھیک ٹھیک ادا کرتے ہوں۔ اور جو اپنی فرض نماز کی پابندی کرنے والے ہوں۔ یہی لوگ ہیں جو جنتوں میں عزت سے داخل ہوںگے ۔

فقط یہ ان آیات کا ترجمہ ہے اور اس قسم کا پورا مضمون اس کے قریب قریب دوسری جگہ سورئہ مؤمنون کے شروع میں بھی گزر چکا ہے۔

حضرت عمران بن حصینؓفرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے میرے عمامہ کا سِرا پکڑ کر ارشاد فرمایا کہ عمران! حق تعالیٰ شا نہٗ کو خرچ کرنا بہت پسند ہے اور روک کررکھنا ناپسند ہے۔ تُو خرچ کیا کر اور لوگوں کو کھلایا کر۔ کسی کو مضرت نہ پہنچا کہ تجھ پر تیری طلب میں مضرت ہونے لگے گی۔ غور سے سن! حق تعالیٰ شا نہٗ شبہات کے وقت تیز نظر کو پسند کرتے ہیں۔ (یعنی جس نظر میں جائز ناجائز کا شبہ ہو اس میں باریک نظر سے کام لیناچاہیے، ویسے ہی سرسری طور پر جو چاہے کرگزرنا نہ ہو) اور شہوتوں کے وقت کامل عقل کو پسند کرتے ہیں (کہ شہوت کے غلبہ میں عقل نہ کھو دے)۔ اور سخاوت کو پسند کرتے ہیں چاہے چندکھجوریں ہی خرچ کرے۔ (یعنی اپنی حیثیت کے موافق زیادہ نہ ہوسکے تو کم میں شرم نہ کرے، جو ہوسکے خرچ کرتا رہے) اوربہادری کو پسند کرتے ہیں چاہے سانپ اور بچھو ہی کے قتل میںکیوں نہ ہو۔ (کنز العمال) لہٰذا ذرا سی خوف کی چیز سے ڈرجانا اللہ کو پسند نہیں ہے۔ اگر دل میں خوف پیدا بھی ہو تو اس کا اظہار نہ کرنا چاہیے، بلکہ قوت کے ساتھ اس کو دفع کر نا چاہیے۔ حضورِ اقدسﷺ سے جو دعائیں امت کی تعلیم کے لیے منقول ہیں ان میں نامردی سے پناہ مانگنا بھی نقل کیا گیا ہے اور متعدد دعائوں میں اس سے پناہ مانگنا نقل کیا گیا۔ (بخاری)

۷۔ عَنِ ابْنِ  عَبَّاسٍ  ?قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ: لَیْسَ الْمُؤْمِنُ بِالَّذِيْ یَشْبَعُ وَجَارُہٗ جَائِعٌ إِلَی جَنْبِہٖ۔



حضورﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ وہ شخص مؤمن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھالے اور پاس ہی اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔

رواہ البیھقي في الشعب، کذا في مشکاۃ المصابیح۔

فائدہ: یقینا جس شخص کے پاس اتناہے کہ وہ پیٹ بھر کر کھا سکتا ہے اور پاس ہی بھوکا پڑوسی ہے، تواس کے لیے ہرگز ہرگز زیبا نہیں کہ خود پیٹ بھر کر کھائے اور وہ غریب بھوک میں تلملاتا رہے۔ ضروری ہے کہ اپنے پیٹ کو کچھ کم پہنچائے اور پڑوسی کی بھی مدد کرے۔ ایک حدیث میں ہے: حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ شخص مجھ پر ایمان نہیں لایا جو خود پیٹ بھرکر رات گزارے اور اس کو یہ بات معلوم ہے کہ اس کا پڑوسی اس کے برابر میں بھوکا ہے۔ (الترغیب والترہیب) ایک اور حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت میں کتنے آدمی ایسے ہوںگے جو اپنے پڑوسی کا دامن پکڑے اللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے: یااللہ! اس سے پوچھیں کہ اس نے اپنا دروازہ بند کرلیا تھا اور مجھے اپنی ضرورت سے زائد جو چیز ہوتی تھی وہ بھی نہ دیتا تھا۔ (الترغیب والترہیب) ایک اور حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد وارد ہوا ہے: لوگو! صدقہ کرو، میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا۔ شاید تم میں سے بعض لوگ ایسے بھی ہوں گے جن کے پاس رات کو سیر ہونے کے بعد بچ رہے اور اس کا چچا زاد بھائی بھوک کی حالت میں رات گزارے۔ تم میں شاید کچھ ایسے بھی لوگ ہوںگے جو خود تو اپنے مال کو بڑھاتے رہیں اور ان کامسکین پڑوسی کچھ نہ کما سکے۔ (کنز العمال)

ایک اور حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ آدمی کے بخل کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ یوں کہے کہ میںا پنا حق پورا کاپورا لوں گا، اس میں سے ذرا سا بھی نہیں چھوڑوں گا۔ (کنز العمال) یعنی تقسیم وغیرہ میں رشتہ داروں سے ہو یا پڑوسیوں سے اپنا پورا حق وصول کرنے کی فکر میں لگا رہے، ذرا ذرا سی چیز پر کُنج و کائو کرے، یہ بھی بخل کی علامت ہے۔ اگر تھوڑا بہت دوسرے کے پاس چلاہی جائے گا تو اس میں کیا مرجائے گا۔

۸۔ عَنِ ابْنِ  عُمَرَ  وَأَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ? قَالَا: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ: عُذِّبَتْ امْرَأَ ۃٌ فِيْ ھِرَّۃٍ أَمْسَکَتْھَا حَتَّی مَاتَتْ مِنَ الْجُوْعِ فَلَمْ تَکُنْ تُطْعِمُھَا وَلاَ تُرْسِلُھَا فَتَاکُلَ مِنْ خُشَاشِ الأَرْضِ۔

متفق علیہ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔



حضرت ابنِ عمر اور حضرت ابوہریرہ ? دونوں نے حضورﷺ کایہ ارشاد نقل کیا کہ ایک عورت کو اس پر عذاب کیاگیا کہ اس نے ایک بلی کو باندھ رکھا تھا جو بھوک کی وجہ سے مر گئی۔ نہ تو اس نے اس کو کھانے کو دیا، نہ ا س کو چھوڑا کہ وہ زمین کے جانوروں (چوہے وغیرہ) سے اپنا پیٹ بھرلیتی۔

فائدہ: جو لوگ جانورںکو پالتے ہیں ان کی ذمہ داری بہت سخت ہے کہ وہ بے زبان جانور اپنی ضروریات کو ظاہر بھی نہیں کرسکتے، ایسی حالت میں ان کے کھانے پینے کی خبر گیری بہت اہم اور ضروری ہے۔ اس میں بخل سے کام لینا اپنے آپ کو عذاب میں مبتلا کرنے کے لیے تیار کرناہے۔ بہت سے آدمی جانوروں کے پالنے کا تو بڑا شوق رکھتے ہیں، لیکن ان کے گھاس دانہ پر خرچ کرتے ہوئے جان نکلتی ہے۔ حضورِ اقدسﷺ سے مختلف احادیث میں مختلف عنوانات سے یہ مضمون نقل کیاگیا کہ ان جانورں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو۔

ایک مرتبہ حضورِ اقدسﷺ تشریف لے جا رہے تھے راستہ میں ایک اونٹ نظرِاقدس سے گزرا جس کا پیٹ کمر سے لگ رہا تھا (بھوک کی وجہ سے یا دُبلے پن کی وجہ سے)۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان بے زبان جانوروں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہا کرو، ان کی اچھی حالت میں ان پر سوار ہوا کرو اور اچھی حالت میں ان کو کھایا کرو۔

حضورﷺکی عادتِ شریفہ یہ تھی کہ استنجے کے لیے جنگل میں تشریف لے جایا کرتے۔ کسی باغ میں یا کسی ٹیلہ وغیرہ کی آڑ میں ضرورت سے فراغت حاصل کرتے۔ ایک مرتبہ اس ضرورت سے ایک باغ میں تشریف لے گئے تو وہاں ایک اونٹ تھا، جو حضورﷺکو دیکھ کر بِڑانے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے (ایک معرو ف چیز ہے کہ ہر مصیبت زدہ کا کسی غم خوار کو دیکھ کر دل بھر آیاکرتا ہے)۔ حضورﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے، اس کے کانوں کی جڑ پر شفقت کا ہاتھ پھیرا جس سے وہ چپکا ہوا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ ایک انصاری تشریف لائے اور عرض کیا کہ میرا ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: تم اس اللہ سے جس نے تمہیں اس کا مالک بنایا، ڈرتے نہیں ہو؟ اونٹ تمہاری شکایت کرتا ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو اور کام زیادہ لیتے ہو۔ ایک اور حدیث میںہے کہ ایک مرتبہ حضورﷺ نے ایک گدھے کو دیکھا کہ اس کے منہ پر داغ دیاگیا۔ حضورﷺنے فرمایا کہ تم کو اب تک یہ معلوم نہیں کہ میں نے اس شخص پر لعنت کی ہے جو جانور کے منہ کو داغ دے یا منہ پر مارے۔
’’ابوداود شریف‘‘ میں یہ روایات ذکر کی گئیں۔ ان کے علاوہ اور بھی مختلف روایات میں اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ جانوروں کی خبر گیری میں کوتاہی نہ کی جائے۔ اور جب جانوروں کا یہ حال ہے اور ان کے بارے میں یہ تنبیہات ہیں تو آدمی جو اشرف المخلوقات ہے،اس کا حال اَظہر ہے اور زیادہ اہم ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی کے گناہ کے لیے یہ کافی ہے کہ جس کی روزی اپنے ذمہ ہے اس کو ضائع کرے۔ اس کے لیے اگر کسی جانور کو اپنی کسی ضرورت سے روک رکھا ہے تواس کے کھانے میں کنجوسی کرنااور یہ سمجھنا کہ کون جانے کس کو خبر ہوگی، اپنے اوپر سخت ظلم ہے۔ جاننے والا سب کچھ جانتا ہے اور لکھنے والے ہر چیز کی رپورٹ لکھتے ہیں، چاہے کتنی ہی مخفی کی جائے۔ اور یہ آفت بخل سے آتی ہے کہ جانوروں کو اپنی ضرورت سے، سواری کی ہو یا کھیتی کی، دُودھ کی ہو یا کوئی اور کام لینے کی ہو پالتے ہیں، لیکن کنجوسی سے ان پر پیسہ خرچ کرتے ہوئے دَم نکلتا ہے۔
۹۔ عَنْ أَنَسٍؓ عَنِ النَّبِيّ ﷺ قَالَ: یُجَاؤُ بِابْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَأنَّہٗ  بَذْجٌ، فَیُوْقَفُ بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہِ فَیَقُوْلُ لَہُ: أَعْطَیْتُکَ وَخَوَّلْتُکَ وَأَنْعَمْتُ عَلَیْکَ فَمَا صَنَعْتَ؟ فَیَقَُوْلُ: یَا رَبِّ! جَمَعْتُہُ وَ ثَمَّرْتُہُ وَتَرَکْتُہُ أَکْثَرَ مَاکَانَ، فَأَرْجِعْنِيْ آتِکَ بِہٖ کُلِّہٖ۔ فَیَقُوْلُ: أَرِنِيْ مَا قَدَّمْتَ؟ فَیَقُوْلُ: رَبِّ! جَمَعْتُہُ وََثَمَّرْتُہُ وَ تَرَکْتُہُ أَکْثَرَ مَا کَانَ، فَأَرْجِعْنِيْ آتِکَ بِہٖ کُلِّہٖ۔ فَاِذَا عَبْدٌ لَّمْ یُقَدِّمْ خَیْرًا، فَیُمْضَی بِہٖ إِلَی النَّارِ۔
رواہ الترمذي وضعفہ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


حضورِ اقدسﷺ کاارشاد نقل کیاگیا کہ قیامت کے دن آدمی ایسا (ذلیل وضعیف) لایا جائے گا جیسا کہ بھیڑ کا بچہ ہوتا ہے اور اللہ  کے سامنے کھڑا کیا جائے گا۔ ارشاد ہوگا کہ میں نے تجھے مال عطا کیا، حشم و خدم دیے، تجھ پر نعمتیں برسائیں، تو نے ان سب انعامات میں کیا کارگزاری کی؟ وہ عرض کرے گا کہ میں نے خوب مال جمع کیا، اس کو (اپنی کوشش سے) بہت بڑھایا، اور جتنا شروع میں میرے پاس تھا اس سے خدمت میں حاضر کر دوں۔ ارشاد ہوگا: مجھے تُو وہ بتا جو تُو نے زندگی میں (ذخیرہ کے طور پر آخرت کے لیے)  آگے بھیجا ہو۔ 
وہ پھر اپنا پہلا کلام دہرائے گا کہ میرے پروردگار! میں نے اس کو خوب جمع کیا اور خوب بڑھایا اور جتنا شروع میں تھا اس سے بہت زیادہ کرکے چھوڑ آیا۔ آپ مجھے دنیا میں واپس کر دیں میں وہ سب لے کر حاضر ہوں (یعنی خوب صدقہ کروں تاکہ وہ سب یہاںمیرے پاس آجائے)۔ چوںکہ اس کے پاس کوئی ذخیرہ ایسا نہ نکلے گا جو اس نے اپنے لیے آگے بھیج دیا ہو، اس لیے اس کو جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔
فائدہ: ہم لوگ تجارت میں، زراعت میں اور دوسرے ذرائع سے روپیہ کمانے میں جتنی محنت اور درد سری کرکے جمع کرتے ہیں، وہ سب اسی لیے ہوتا ہے کہ کچھ ذخیرہ اپنے پاس موجود رہے جو ضرورت کے وقت کام آئے، نہ معلوم کس وقت کیا ضرورت پیش آجائے، لیکن جو اصل ضرورت کا وقت ہے، اور اس کا پیش آنا بھی ضروری اور اس میں اپنی سخت اِحتیاج بھی ضروری ہے،اور یہ بھی یقینی کہ اس وقت صرف وہی کام آئے گا جو اپنی زندگی میں خدائی بنک میں جمع کر دیا گیاہو کہ وہ تو جمع شدہ ذخیرہ بھی پوراکا پورا ملے گا اور اس میں اللہ  کی طرف سے اضافہ بھی ہوتا رہے گا، لیکن اس کی طرف بہت ہی کم اِلتفات کرتے ہیں۔ حالاںکہ دنیا کی یہ زندگی چاہے کتنی ہی زیادہ ہو جائے، بہرحال ایک دن ختم ہوجانے والی ہے اورآخرت کی زندگی کبھی بھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ دنیا کی زندگی میںاگر اپنے پاس سرمایہ نہ رہے تو اس وقت محنت اور مزدوری بھی کی جاسکتی ہے،بھیک مانگ کر بھی زندگی کے دن پورے کیے جاسکتے ہیں، لیکن آخرت کی زندگی میں کوئی صورت کمائی کی نہیں ہے، وہاں صرف وہی کام آئے گا جو ذخیرہ کے طور پر آگے بھیج دیا گیا۔
ایک اور حدیث میں حضورﷺکا ارشاد وارد ہے کہ میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے اس کی دونوںجانب تین سطریں سونے کے پانی سے لکھی ہوئی دیکھیں۔ پہلی سطر میں لَا إِلٰـہَ إِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِلکھا تھا، دوسری سطر میں مَا قَدَّمْنَا وَجَدْنَا، وَمَا أَکَلْنَا رَبِحْنَا، وَمَاخَلَّفْنَا خَسِرْنَا لکھا تھا (جو ہم نے آگے بھیج دیا وہ پالیا اور جو دنیامیں کھایا وہ نفع میں رہا اورجو کچھ چھوڑآئے وہ نقصان میں رہا) اور تیسری سطر میں لکھاتھا  أُمَّۃٌ مُذْنِبَۃٌ وَرَبٌّ غَفُوْرٌ۔ (امت گناہ گار اور ربّ بخشنے والا ہے) (برکاتِ ذکر)
پہلی فصل کی آیات میں نمبر (۲) پر گزر چکا ہے کہ اس دن نہ تجارت ہے، نہ دوستی، نہ سفارش۔ اسی فصل میں نمبر (۳ ) پر اللہ کاارشاد گزرا ہے کہ ہر شخص یہ دیکھ لے کہ اس نے کل کے لیے کیا بھیجا ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو فرشتے تویہ پوچھتے ہیں کہ کیا ذخیرہ اپنے حساب میں جمع کرایا؟ کیا چیز کل کے لیے بھیجی؟ اور آدمی یہ پوچھتے ہیں: کیامال چھوڑا؟ (مشکاۃ المصابیح)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ تم میں کون شخص ایسا ہے جس کو اپنے وارث کا مال اپنے سے زیادہ محبوب ہو؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جس کو ا پنا مال اپنے وارث سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ حضورﷺنے فرمایا: آدمی کا اپنا مال وہ ہے جو اس نے آگے بھیج دیا۔ اور جو چھوڑ گیا وہ اس کا مال نہیں اس کے وارث کا مال ہے۔  (مشکاۃ المصابیح عن البخاري)
ایک اور حدیث میں حضورﷺکا ارشاد وارد ہے کہ آدمی کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال۔ اس کے مال میں سے اس کے لیے صرف تین چیزیں ہیں: ۱۔ جو کھا کر ختم کر دیا  ۲۔ یا پہن کر پرانا کردیا  ۳۔ یا اللہ کے یہاں اپنے حساب میں جمع کرا دیا۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ اس کامال نہیں ہے، لوگوں کے لیے چھوڑ جائے گا۔ (مشکاۃ المصابیح)
اور بڑالطف یہ ہے کہ آدمی اکثر ایسے لوگوں کے لیے جمع کرتا ہے، محنت اٹھاتا ہے، مصیبت جھیلتا ہے، تنگی برداشت کرتا ہے، جن کو وہ اپنی خواہش سے ایک پیسہ دینے کا روادار نہیں ہے، لیکن جمع کرکے چھوڑ جاتا ہے اور مقدرات اُنہی کو سارے کا وارث بنا دیتے ہیں جن کوو ہ ذرا سا بھی دینا نہ چاہتا تھا۔ اَرطاۃ بن سہیۃ ؒ کا جب انتقال ہونے لگا تو انھوں نے چندشعر پڑھے جن کاترجمہ یہ ہے کہ
آدمی کہتا ہے کہ میں نے بہت مال جمع کیا، لیکن اکثر کمانے والا دوسروں کے یعنی وارثوں کے لیے جمع کرتا ہے۔ وہ خود تو اپنی زندگی میں اپنا بھی حساب لیتا رہتا ہے کہ کتنا کہاں خرچ ہوا،کتنا کہاں ہوا؟ لیکن بعد میں ایسے لوگوں کی لوٹ کے لیے چھوڑا جاتا ہے جن سے حساب بھی نہیں لے سکتا کہ سارا کہاں اڑا دیا؟ پس اپنی زندگی میں کھالے اورکھلا دے، اور بخیل وارث سے چھین لے۔ آدمی خود تو مرنے کے بعد نامراد رہتا ہے (کوئی اس کو اس مال میں یاد نہیں رکھتا) دوسرے لوگ اس کو کھاتے اڑاتے ہیں۔ آدمی خود اس مال سے محروم ہو جاتا ہے اور دوسرے لوگ اس سے اپنی خواہشات پوری کرتے ہیں۔  (اِتحاف)
ایک حدیث میں یہ قصہ جو اوپر کی حدیث میں ذکر کیا گیا دوسرے عنوان سے وارد ہوا ہے کہ حضورﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ? سے دریافت فرمایا: تم میں کوئی ایسا ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہو؟ صحابہ نے عر ض کیا: یارسول اللہ! ہم میںہر شخص ایسا ہی ہے جس کو اپنا مال زیادہ محبوب ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: سوچ کر کہو، دیکھو کیاکہہ رہے ہو؟ صحابہ? نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہم تو ایسا ہی سمجھتے ہیں کہ ہم میں ہر شخص کو اپنا مال زیادہ محبوب ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: تم میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کو اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ صحابہ نے عرض کیا: حضور! یہ کس طرح؟ حضورﷺ نے فرمایا: تمہارا مال و ہ ہے جو آگے بھیج دیا اوروارث کا مال و ہ ہے جوپیچھے چھوڑ گیا۔ (کنز العمال) 
یہاں ایک بات یہ بھی قابلِ لحاظ ہے کہ ان روایات کا مقصد وارثوں کو محروم کرنا نہیں ہے۔ حضورِ اقدسﷺ نے خود اس پر تنبیہ فرمائی ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ فتح مکہ کے زمانہ میں ایسے سخت بیمارہوئے کہ زِیست کی امید نہ رہی۔ حضورﷺ عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو انھوں نے عرض کیا کہ حضور! میرے پاس مال زیادہ ہے اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اپنے سارے مال کی وصیت کروں (کہ اس وقت ان کی اولاد صرف ایک بیٹی ہی تھی اور اس کاتکفُّل اس کے خاوند کے ذمہ)۔ حضورﷺ نے منع فرما دیا۔ انھوں نے دو تہائی کی اجازت چاہی، حضورﷺ نے اس کا بھی انکار کر دیا۔ پھرنصف کی درخواست بھی قبول نہ فرمائی تو انھوں نے ایک تہائی وصیت کی اجازت چاہی۔ حضورﷺ نے اس کی اجازت فرما دی اور ارشاد فرمایا کہ ایک تہائی بھی بہت ہے۔ تم اپنے وارثوں کو (یعنی مرنے کے وقت جو بھی ہوں، چناںچہ اس واقعہ کے بعد اور بھی اولاد ہوگئی تھی) غنی چھوڑو یہ اس سے بہتر ہے کہ ان کو فقیر چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ جو خرچ اللہ کے واسطے کیا جائے وہ ثواب کا موجِب ہے، حتیٰ کہ اللہ کے لیے اگر ایک لقمہ بیوی کو دیا جائے تواس پر بھی اجر ہے۔ (مشکوۃ المصابیح عن الصحیحین)
حافظ ابنِ حجر ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت سعدؓ کا یہ قصہ پہلی حدیث یعنی ’’تم میںسے کون ایسا ہے کہ اس کو وارث کا مال محبوب ہو‘‘ کے منافی نہیں، اس لیے کہ اس حدیث کا مقصد اپنی صحت اور ضرورت کے وقت میں صدقہ کرنے کی ترغیب ہے۔ اور حضرت سعد ؓ کے قصہ میں مرض الموت میںسارا یا اکثر حصہ مال کا وصیت کرنا مقصود ہے۔ (فتح الباری) بندۂ ناکارہ کے نزدیک صرف یہی نہیں، بلکہ وارثوں کو نقصان پہنچانے کے ارادہ سے وصیت کرنا موجِبِ عتاب و عقاب ہے۔ حضور ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ بعض مرد اور عورت اللہ کی فرماںبرداری میں ساٹھ سال گزارتے ہیں اور جب مرنے کا وقت آتا ہے تو وصیت میں نقصان پہنچاتے ہیں، جس کی وجہ سے جہنم کی آگ ان کے لیے ضروری ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کی تائید میں حضرت ابوہریرہؓ نے قرآنِ پاک کی آیت {مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَا اَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَارٍّ} (النساء :ع ۲) پڑھی، جس کا ترجمہ اور مطلب یہ ہے کہ اوپرکی آیت میں جو ورثہ کو تقسیمِ مال کی تفصیل بیان ہوئی ہے وہ وصیت کے بقدر مال نکالنے کے بعد ہے۔ اور اگر اس کے ذمہ قر ض ہے تو قرض کی مقدار بھی وضع کرنے کے بعد، اس حال میں کہ وصیت کرنے والا کسی وارث کو ضرر نہ پہنچائے۔
ایک حدیث میں ہے کہ جو کسی وارث کی میراث کوقطع کرے اللہ اس کی میراث کو جنت سے قطع کرے گا۔ (مشکاۃ المصابیح) لہٰذا ا س کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ وصیت اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے میں یہ ارادہ اور نیت ہرگز نہ ہو کہ کہیں فلاں وارث نہ بن جائے، بلکہ ارادہ اور نیت اپنی ضرورت کا پورا کرنا، اپنے لیے ذخیرہ بنانا ہو۔ آدمی کے ارادہ اور نیت کو عبادات میں بہت زیادہ دخل ہے۔ حضورﷺ کا پاک ارشاد جو بہت زیادہ مشہور ہے: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِکہ اعمال کامدار نیت اور ارادہ پرہے۔ نماز جیسی اہم عبادت اللہ کے واسطے پڑھی جائے تو کتنی زیادہ موجب ِاجر، موجب ِثواب، موجب ِقُربت کہ کوئی دوسری عبادت اس کے برابر نہیں۔ یہی چیز ریاکاری اور دکھاوے کے واسطے پڑھی جائے توشرکِ اصغر اور وبال بن جائے۔ اس لیے خالص نیت اللہ کی رضا اور اپنی ضروت میں کام آناہونا چاہیے جس کی بہترین صورت یہ ہے کہ اپنی زندگی میں، اپنی تندرستی میں، اس حالت میں جب کہ یہ بھی معلوم نہ ہو کہ میں پہلے مروںگا یا و ارث پہلے مرجائے گا،اور کون وارث ہوگا اورکون نہ ہوگا، ایسے وقت میں خرچ کرے اور خوب خرچ کرے، جتنا زیادہ سے زیادہ صدقہ کرسکتا ہے کرے۔ وصیت کرے، وقف کرے اور جن مواقعِ خیر میں زیادہ ثواب کی امید ہو ان کی فکرو جستجو میں رہے۔ یہ نہیں کہ اپنے وقت میں تو بخل کرے اور جب مرنے لگے تو سخی بن جائے، جیسا کہ حضورﷺ کا پاک ارشاد پہلی فصل کی احادیث میں نمبر(۵) پرگزر چکا کہ افضل صدقہ وہ ہے جو حالتِ صحت میں کیا جائے، نہ یہ کہ جب جان نکلنے لگے تو کہے کہ اتنا فلاں کا،اتنا فلاں کا، حالاںکہ مال فلاں کا (یعنی وارث کا) ہوگیا۔
خوب سمجھ لو! میں سب سے پہلے اپنے نفس کو نصیحت کرتا ہوں، اس کے بعد اپنے دوستوں کو کہ ساتھ جانے والا صرف وہی مال ہے جس کو اللہ کے بینک میں جمع کر دیا۔ اور جس کو جمع کرکے اور خوب زیادہ بڑھا کر چھوڑ دیا وہ اپنے کام میں نہیں آتا۔ بعد میں نہ کوئی ماں باپ یاد رکھتا ہے، نہ بیوی اولاد پوچھتے ہیں  إِلاَّ مَا شَائَ اللّٰہُ۔ اپنا ہی کیا اپنے کام آتا ہے۔ ان سب کی ساری محبتوں کا خلاصہ دو چار دن ہائے ہائے کرنا ہے اور پانچ سات مفت کے آنسو بہانا ہے۔ اگر ان آنسوئوں میں بھی پیسے خرچ کرنا پڑیں تو یہ بھی نہ رہیں۔
یہ خیال کہ اولاد کی خیرخواہی سے مال کو جمع کرکے چھوڑنا ہے، نفس کا محض دھوکا ہے۔ صرف مال جمع کرکے ان کے لیے چھوڑ جانا، ان کے ساتھ خیر خواہی نہیں ہے، بلکہ شاید بدخواہی بن جائے۔ اگر واقعی اولاد کی خیر خواہی مقصود ہے، اگر واقعی یہ دل چاہتا ہے کہ وہ اپنے مرنے کے بعد پریشان حال، ذلیل و خوار نہ پھریں، تو ان کو مال دار چھوڑنے سے زیادہ ضروری ان کو دین دار چھوڑنا ہے کہ بددینی کے ساتھ مال بھی اوّلاً ان کے پاس باقی نہ رہے گا، چند یوم کی لذات و شہوات میں اڑ جائے گا اور اگر رہا بھی تو اپنے کسی کام کا نہیں ہے۔ اور دین داری کے ساتھ اگر مال نہ بھی ہو تو ان کی دین داری ان کے لیے بھی کام آنے والی چیز ہے اور اپنے لیے بھی کام آنے والی چیز ہے، اور مال میں سے تو اپنے کام آنے والا صرف وہی ہے جو ساتھ لے گیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ نے دو غنی اور دو فقیروں کو وفات دی۔ اس کے بعد ایک غنی سے مطالبہ فرمایا کہ اپنے واسطے آگے کیا بھیجا اور اپنے عیال کے واسطے کیا چھوڑ کر آیا؟ اس نے عرض کیا: یا اللہ! تُو نے مجھے بھی پیدا کیا اور ان کو بھی تُو نے ہی پیدا کیا، اور ہر شخص کی روزی کا تُو نے ہی ذمہ لیا اور تُو نے قرآنِ پاک میں فرمایا: {مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا} (پہلی فصل کی آیات میں نمبر ۵ پرگزر چکی ہے) اس بنا پر میں نے اپنا مال آگے بھیج دیا اور مجھے یہ بات محقَّق تھی کہ آپ ان کوروزی دیں ہی گے۔ ارشاد ہوا: اچھا جائو، اگر تمہیں (دنیا میں) معلوم ہو جاتا کہ تمہارے لیے میرے پاس کیاکیا (انعام و اکرام ) ہے تو دنیا میں بہت خوش ہوتے اور بہت کم رنجیدہ ہوتے۔
اس کے بعد دوسرے غنی سے مطالبہ ہوا کہ تُو نے کیا اپنے لیے بھیجا اورکیا عیال کے لیے چھوڑا؟ اس نے عرض کیاـ: یا اللہ! میری اولاد تھی مجھے ان کی تکلیف اور فقرکا ڈر ہوا۔ ارشادہوا کہ کیا میں نے ہی تجھ کو اور ان کوسب کو پیدا نہ کیا تھا؟کیا میں نے سب کی روزی کا ذمہ نہیں اٹھایاتھا؟ اس نے عرض کیا: یا اللہ! بے شک ایسا ہی تھا، لیکن مجھے ان کے فقر کا خوف ہی بہت ہوا۔ ارشاد ہوا کہ فقرتو ان کوپہنچا، کیا تُونے اس کو ان سے روک دیا؟ اچھا جا، اگر تجھے (دنیا میں) معلوم ہو جاتا کہ تیرے لیے میرے پاس کیا کیا (عذاب) ہے تو بہت کم ہنستا اور بہت زیادہ روتا۔
پھر ایک فقیر سے مطالبہ ہوا کہ تُو نے کیا اپنے لیے جمع کیا اور کیا عیال کے لیے چھوڑا؟ اس نے عرض کیا: یا اللہ! آپ نے مجھے صحیح سالم تندرست پیدا کیا اور گویائی بخشی۔ اپنے پاک نام مجھے سکھائے۔ اپنے سے دعا کرنا سکھایا۔ اگر آپ مجھے مال دے دیتے تُو مجھے یہ اندیشہ تھا کہ میں اس میں مشغول ہوجاتا۔ میں اپنی اس حالت پر جو تھی بہت راضی ہوں۔ ارشاد ہوا کہ اچھا جاؤ، میں بھی تم سے راضی ہوں۔ اگر تمہیں (دنیا میں) معلوم ہوجاتا کہ تمہارے لیے میرے پاس کیا ہے تو بہت زیادہ ہنستے اور بہت کم روتے۔
پھردوسرے فقیر سے مطالبہ ہوا کہ تُو نے اپنے لیے کیابھیجا اور عیال کے لیے کیاچھوڑا؟ اس نے عرض کیا: یااللہ! آپ نے مجھے دیا ہی کیا تھا جس کا اب سوال ہے؟ ارشاد ہوا کیا ہم نے تجھے صحت نہ دی تھی، گویائی نہ دی تھی، کان، آنکھ نہ دیے تھے؟ اورقرآنِ پاک میں یہ نہ کہا تھا: 
{اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ}
مجھ سے دعائیں مانگو میں قبول کروں گا اس نے عرض کیا: یا اللہ! یہ تو بے شک سب صحیح ہے، مگر مجھ سے بھول ہوئی۔ ارشاد ہوا کہ اچھا آج ہم نے بھی تجھے بھلا دیا۔ جاچلا جا، اگر تجھے خبر ہوتی کہ تیرے لیے ہمارے یہاں کیا کیا عذاب ہے تو بہت کم ہنستا اور بہت زیادہ روتا۔ (کنز العمال)
۱۰۔ عَنْ عُمَرَؓ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: الْجَالِبُ مَرْزُوْقٌ وَالْمُحْتَکِرُ مَلْعُوْنٌَ۔
رواہ ابن ماجۃ والدارمي، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


حضرت عمرؓ حضورِ اقدسﷺ کاارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص رزق (غلہ وغیرہ) باہر سے لائے (تاکہ لوگوں کو اَرزاں دے ) اس کو روزی دی جاتی ہے اور جو شخص روک کر رکھے وہ ملعون ہے۔
فائدہ: فقیہ ابو اللیث سمر قندی ؒ فرماتے ہیں کہ باہر سے لانے والے سے وہ شخص مراد ہے جو تجارت کی غرض سے دوسرے شہروں سے غلہ خریدکرلائے تاکہ لوگوں کے ہاتھ اَرزاں فروخت کرے، تو اس کو (اللہ کی طرف سے) روزی دے جاتی ہے، کیوںکہ لوگ اس سے منتفع ہوتے ہیں، ان کی دعائیں اس کو لگتی ہیں۔ اور روکنے والے سے وہ شخص مرادہے جو روکنے کی نیت سے خریدکر رکھے اورلوگوں کو اس سے نقصان پہنچے۔ (تنبیہ الغافلین)
یعنی گرانی کے انتظار میںروکے رکھے اور باوجود لوگوں کی حاجت کے فروخت نہ کرے اس پرلعنت ہے۔ یعنی بخل اورلالچ اور نفع کمانے کی غرض سے غلہ وغیرہ جن چیزوں کی لوگوں کو اپنی زندگی کے لیے اِحتیاج ہے، خرید کر روکے رکھے اورگرانی کی زیادتی کا دن بہ دن انتظار کرتا رہے، اس پر حضورﷺ کی طرف سے لعنت کی گئی۔
ایک اور حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیاگیا کہ جو شخص مسلمانوں پر ان کے کھانے کو چالیس دن تک (باوجود سخت اِحتیاج کے) روکے ر کھے (فروخت نہ کرے) حق تعالیٰ شانہٗ اس کو کوڑھ کے مرض میں اور اِفلاس میں مبتلا کرتے ہیں۔ (مشکاۃ المصابیح) اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص مسلمانوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور فقر میں مبتلا کرتا ہے، اس پر بدنی عذاب (کوڑھ) بھی مسلط ہوتا ہے اور مالی عذاب اِفلاس و فقر بھی۔ اور اس کے بالمقابل پہلی حدیث میں گزر چکا ہے کہ جو دوسری جگہ سے لاکر اَرزانی سے فروخت کرتا ہے اللہ خود اس کو روزی (اور نفع) پہنچاتے ہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ غلہ روکنے والا بھی کیسا برا آدمی ہے کہ اگر نرخ اَرزاں ہوتا ہے تو اس کو ر نج ہوتا ہے اور اگر گراں ہوتا ہے توخوش ہوتا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو چالیس دن اِحتیاج کے باوجود غلہ روکے رکھے (فروخت نہ کرے) پھر اس کو لوگوں پر صدقہ کر دے، تو یہ صدقہ کرنا بھی اس روکنے کا کفارہ نہ ہوگا۔ (مشکاۃ المصابیح) ایک حدیث میں آیا کہ پہلی اُمتوںمیں ایک بزرگ ریت کے ایک ٹیلہ پرکو گزرے۔ گرانی کا زمانہ تھا۔ وہ اپنے دل میں یہ تمنا کرنے لگے کہ اگر یہ ریت کا ٹیلہ غلہ کا ڈھیرہوتا تو میں اس سے بنی اسرائیل کو خوب کھلاتا۔ حق تعالیٰ شا نہٗ نے اس زمانہ کے نبی علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام پر وحی اِرسال کی کہ فلاں بزرگ کو بشارت سنا دو کہ ہم نے تمہارے لیے اتنا ہی اجرو ثواب لکھ دیا جتنا کہ یہ ٹیلہ غلہ کا  ہوتا اور تم اس کو لوگوں میں تقسیم کر دیتے۔ (تنبیہ الغافلین)
حق تعالیٰ شا نہٗ کے یہاں ثواب کی کمی نہیںہے، اس کو اجر و ثواب دینے کے لیے نہ ذخیرہ کی ضرورت ہے، نہ آمدنی اورکمائی کی۔ اس کے ایک اشارہ میںساری دنیا کی پیداوار ہے۔ وہاں لوگوں کا عمل و اخلاص دیکھا جاتا ہے اور جو اس کی مخلوق پر رحمت و شفقت کرتا ہے، اس پر رحمت و شفقت میں وہاں کوئی کمی نہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس?کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھے کچھ نصیحت فرما دیں۔ آپ نے فرمایا کہ تمہیں چھ چیزوں کی نصیحت کرتا ہوں۔ سب سے پہلی چیز اللہ پر بھروسہ اور یقین ان چیزوں کاجن کا اللہ نے خود ذمہ لے رکھاہے۔ (مثلًا روزی وغیرہ) دوسرے اللہ کے فرائض کو اپنے اپنے وقت پر ادا کرنا۔ تیسرے زبان ہر وقت اللہ کے ذکر سے ترو تازہ رہے۔ چوتھے شیطان کا کہا نہ ماننا، وہ ساری مخلوق سے حسد رکھتا ہے۔ پانچویں دنیا کے آباد کرنے میں مشغول نہ ہونا کہ وہ آخرت کو برباد کرے گی۔ چھٹے مسلمانوں کی خیر خواہی کا ہر وقت خیال رکھنا۔
فقیہ ابواللیث ؒ فرماتے ہیں کہ آدمی کی سعادت کی گیارہ علامتیں ہیں اور اس کی بدبختی کی بھی گیارہ علامات ہیں۔ سعادت کی گیارہ علامات یہ ہیں: 
۱۔ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف رغبت کرنا۔  ۲۔ عبادت اور تلاوتِ قرآن کی کثرت۔  ۳۔ فضول بات سے اِحتراز۔  ۴۔ نمازکا اپنے اوقات پر خصوصی اہتمام۔  ۵۔ حرام چیز سے، چاہے ادنیٰ درجہ کی حرام ہو بچنا۔  ۶۔ صلحا کی صحبت اختیار کرنا۔  ۷۔ متواضع رہنا،تکبر نہ کرنا۔  ۸۔ سخی اور کریم ہونا۔  ۹۔ اللہ کی مخلوق پر شفقت کرنا۔  ۱۰۔ مخلوق کو نفع پہنچانا۔  ۱۱۔ موت کو کثرت سے یاد کرنا۔
اور بدبختی کی علامات یہ ہیں:  
۱۔ مال کے جمع کرنے کی حرص۔  ۲۔ دنیوی لذتوں اور شہوتوں میں مشغولی۔  ۳۔ بے حیائی کی گفتگو اور بہت بولنا۔  ۴۔ نماز میں سستی کرنا۔  ۵۔حرام اور مشتبہ چیزوں کا کھانا اور فاسق فاجرلوگوں سے میل جول۔ ۶۔ بدخلق ہونا۔  ۷۔متکبر اور فخر کرنے والا ہونا۔  ۸۔ لوگوں کے نفع پہنچانے سے یکسو رہنا۔  ۹۔ مسلمانوں پر رحم نہ کرنا۔  ۱۰۔ بخیل ہونا۔  ۱۱۔ موت سے غافل ہونا ۔ (تنبیہ الغافلین)
بندۂ ناکارہ کے نزدیک ان سب کی جڑ موت کو کثرت سے یاد رکھنا ہے۔ جب وہ ہر وقت یاد آتی رہے گی تو پہلی گیارہ علامات ان شاء اللہ پیدا ہو جائیں گے اور دوسری گیارہ سے بچائو حاصل ہوجائے گا۔ حضورِ اقدسﷺ کا حکم ہے کہ لذتوں کی توڑنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔ (مشکاۃ المصابیح)
۱۱۔ عَنْ أَنَسٍؓ قَالَ: تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِّنَ الصَّحَابَۃِ فَقَالَ رَجُلٌ: أَبْشِرْ بِالْجَنَّۃِ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: أَوَ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّہُ تَکَلَّمَ فِیْمَا لَا یَعْنِیْہٖ، أَوْ بَخِلَ بِمَا لَا یَنْقُصُہُ۔
رواہ الترمذي، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی کا انتقال ہوا تو مجمع میں سے کسی نے ان کو بظاہر حالات کے اعتبار سے جنتی بتایا۔ حضورﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا خبر ہے، ممکن ہے کبھی انھوں نے بے کار بات زبان سے نکال دی ہو یا کبھی ایسی چیز میں بخل کیاہو جس سے ان کوکوئی نقصان نہیں پہنچتا تھا۔
فائدہ: یعنی یہ چیزیں بھی ابتداء ًاجنت میں جانے سے مانع بن جاتی ہیں۔ حالاںکہ بے کار باتوں میں منہمک رہنا اور فضول گفتگو میںاوقات ضائع کرنا ہم لوگوں کا ایسا دلچسپ مشغلہ ہے کہ شاید ہی کسی کی کوئی مجلس اس سے خالی ہوتی ہو، لیکن حضورِ اقدسﷺ کی شفقت اور رحمت علی الامت کے قربان کہ حضورﷺ نے ہر مشکل کا حل بتایا اور تیئس برس کے قلیل زمانہ میں ساری دنیا کی ہر قسم کی ضرورتوں کا حل تجویز فرمایا۔ حضورﷺ کا پاک ارشادہے کہ مجلس کا کفارہ یہ دعا ہے، مجلس ختم ہونے کے بعد اٹھنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لیا کرے: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ، سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ  وَبِحَمْدِکَ، أَشْھَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلاَّ اَنْتَ، أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیک۔(حصن حصین)
دوسری چیز حدیثِ بالا میں وہی بخل ہے کہ شاید ایسی چیز میں بخل کرلیا ہو جس سے کوئی نقصان نہیں تھا۔ ایک اور حدیث میں یہ قصہ ذرا تفصیل سے آیا ہے۔ اس میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ شاید کسی لایعنی چیز میں گفتگو کرلی ہو یا کسی لایعنی چیز میں بخل کرلیا ہو۔ (کنز العمال) ہم لوگ بہت سی چیزوں کو بہت سرسری سمجھتے ہیں، لیکن اللہ کے یہاں ثواب کے اعتبار سے بھی اور عذاب کے اعتبار سے بھی ان کا بہت اونچا درجہ ہوتا ہے۔ ’’بخاری شریف‘‘ کی ایک حدیث میں ہے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی رضا کی کوئی بات زبان سے نکالتا ہے جس کو وہ کچھ اہم بھی نہیں سمجھتا، لیکن اس کی وجہ سے اس کے درجات بہت بلند ہو جاتے ہیں۔ اور کوئی کلمہ اللہ کی ناراضی کا کہہ دیتا ہے جس کی پرواہ بھی نہیں کرتا، لیکن اس کی وجہ سے جہنم میں پھینک دیا جاتا ہے۔ او ر ایک حدیث میںہے کہ اتنا نیچے پھینک دیا جاتا ہے جتنی مشرق سے مغرب دور ہے۔ (مشکوۃالمصابیح)
۱۲۔ عَنْ مَوْلًی لِّعُثْمَانَ قَالَ: أُھْدِيَ لِأُمِّ سَلَمَۃَ ؓ بِضْعَۃٌ مِّنْ لَحْمٍ وَکَانَ النَّبِيُّ ﷺ یُعْجِبُہُ اللَّحْمُّ، فَقَالَتْ لِلْخَادِمِ: ضَعِیْہِ فِيْ الْبَیْتِ لَعَلَّ النَّبِيَّ ﷺ یَاْکُلُہُ، فَوَضَعَتْہُ فِيْ کُوَّۃِ الْبَیْتِ وَجَائَ سَائِلٌ فَقَامَ عَلَی الْبَابِ فَقَالَ: تَصَدَّقُوْا بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکُمْ! فَقَالُوْا: بَارَکَ اللّٰہُ فِیْکَ۔ فَذَھَبَ السَّائِلُ۔ فَدَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ فَقَالَ: یَا أُمَّ سَلَمَۃَ! ھَلْ عِنْدَکُمْ شيئٌ أَطْعَمُہُ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ۔ قَالَتْ: لِلْخَادِمِ اِذْھَبِيْ فَأْتِيْ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ بِذٰلِکَ اللَّحْمِ۔ فَذَھْبَتْ فَلَمْ تَجِدْ فِيْالْکُوَّۃِ إِلاَّ قِطْعَۃَ مَرْوَۃٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: فَإِنَّ ذٰلِکَ اللَّحْمَ عَادَ مَرْوَۃً لِمَا لَمْ تُعْطُوْہُ السَّائِلَ۔ 
رواہ البیھقي في دلائل النبوۃ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ کی خدمت میں کسی شخص نے گوشت کا ایک ٹکڑا (پکا ہوا) ہدیہ کے طور پر پیش کیا۔ چوںکہ حضورِاقدسﷺکو گوشت کا بہت شوق تھا اس لیے حضرت ام سلمہؓ نے خادمہ سے فرمایا کہ اس کو اندر رکھ دے شایدکسی وقت حضورﷺ نوش فرمالیں۔ خادمہ نے اس کو اندر طاق میں رکھ دیا۔ اس کے بعد ایک سائل آیا اور دروازے پر کھڑے ہو کر سوال کیا کہ کچھ اللہ کے واسطے دے دو، اللہ تمہارے یہاں برکت فرمائے۔ گھر میں سے جواب ملا کہ اللہ تعالیٰ تجھے برکت دے۔ (یہ اشارہ تھا کہ کوئی چیز دینے کے لیے موجود نہیں) وہ سائل تو چلاگیا اتنے میں حضورِاقدسﷺ تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ ام سلمہ! میں کچھ کھانا چاہتا ہوں، کوئی چیز تمہارے یہاں ہے؟ 
حضرت ام سلمہؓ نے خادمہ سے فرمایا کہ جائووہ گوشت حضورﷺکی خدمت میں پیش کرو۔ وہ اندر گئیں اور جاکر دیکھا کہ طاق میں گوشت تو ہے نہیں، سفیدپتھر کا ایک ٹکڑا رکھا ہوا ہے۔ (حضورِ اقدسﷺکو واقعہ معلوم ہوا تو) حضورﷺ نے فرمایا: تم نے وہ گوشت چوںکہ سائل (فقیر) کو نہ دیا اس لیے وہ گوشت پتھر کا ٹکڑا بن گیا۔
فائدہ: بڑی عبرت کامقام ہے۔ ازواجِ مطہرّات کی سخاوت اور فیاضی کا کوئی کیامقابلہ کرسکتا ہے۔ ایک ٹکڑا گوشت کا اگر انھوں نے ضرورت سے روک لیا اور وہ بھی اپنی ضرورت سے نہیں بلکہ حضورِاقدسﷺ کی ضرورت سے روکا، تواس کا یہ حشر ہوا۔ اور یہ بھی حقیقتاً اللہ کا خاص لطف وکرم حضورﷺ کے گھر والوں کے ساتھ تھا کہ اس گوشت کا جو اثر فقیر کو نہ دینے سے ہوا، وہ حضورﷺ کی برکت سے اپنی اصلی حالت میںگھروالوں پر ظاہرہوگیا،جس کا مطلب یہ ہوا کہ ضرورت مند سے بچاکر اور انکار کرکے جو شخص کھاتا ہے وہ اثر اور ثمرہ کے اعتبار سے ایسا ہے جیسا کہ پتھر کھالیا ہو کہ اس سے اس چیز کا اصل فائدہ حاصل نہ ہوگا، بلکہ سخت دلی اور منافع سے محرومی حاصل ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم لوگ بہت سی اللہ تعالیٰ شا نہٗ کی نعمتیں کھاتے ہیں، لیکن ان سے وہ فوائد بہت کم حاصل ہوتے ہیں جو ہونے چاہئیں اورکہتے ہیں کہ چیزوں میں اثر نہیں رہا۔ حالاںکہ حقیقت میں اپنی نیتیں خرا ب ہیں اس لیے بدنیتی سے فوائد میں کمی ہوتی ہے۔
۱۳۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ أَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ اَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَوَّلُ صَلَاحِ ھٰذِہِ الْأُمَّۃِ الْیَقِیْنُ وَالزُّھْدُ، وَأَوَّلُ فَسَادِھَا الْبُخْلُ وَالْأَمَلُ۔ 
رواہ البیھقي في الشعب، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


حضورِ اقد سﷺ کاپاک ارشاد ہے کہ اس امت کی صلاح کی ابتدا (اللہ تعالیٰ کے ساتھ) یقین اور دنیا سے بے رغبتی سے ہوئی اور اس کے فساد کی ابتدا بخل اور لمبی لمبی امیدوں سے (ہوگی)۔
فائدہ: حقیقت میں بخل بھی لمبی لمبی امیدوں سے ہی پیدا ہوتا ہے کہ آدمی دور دور کے منصوبے سوچتا ہے پھر اس کے لیے جمع کرنے کی فکر ہوتی ہے۔ اگر آدمی کو اپنی موت یاد آتی رہے اور یہ سوچتا رہے کہ نہ معلوم کے دن کی زندگی ہے، تو پھر نہ تو زیادہ دور کی سوچ و فکر ہو، نہ زیادہ جمع کرنے کی ضرورت ہو، بلکہ اگر موت یاد آتی رہے تو پھر اُس گھرکے لیے زیادہ سے زیادہ جمع کرنے کی فکر ہر وقت سوار رہے۔
۱۴۔  عَنْ اَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ؓ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ دَخَلَ عَلَی بِلَالٍ وَ عِنْدَہُ صُبْرَۃٌ مِّنْ تَمَرٍ، فَقَالَ: مَا ھٰذَا یَا بِلَالُ؟ قَالَ: شَيْئٌ اِدَّخَرْتُہُ لِغَدٍ۔ فَقَالَ: أَمَا تَخْشَی أَنْ تَرَی لَہُ غَدًا بُخَارًا فِيْ نَارِجَھَنَّمَ؟ أَنْفِقْ یَا بَلَالُ! وَلَا تَخْشَ مِنْ ذِي الْعَرْشِ إِقْلاَلاً۔
رواہ البیھقي في الشعب، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


حضورِاقدسﷺ ایک مرتبہ حضرت بلالؓ کے پاس داخل ہوئے توان کے سامنے کھجوروں کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ بلال! یہ کیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا: حضور آیندہ کی ضروریات کے لیے ذخیرہ کے طور پر رکھ لیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ بلال! تم اس سے نہیں ڈرتے کہ اس کی وجہ سے کل کو قیامت کے دن جہنم کی آگ کا دھواں تم 
دیکھو؟ بلال! خرچ کر ڈالو اور عرش والے () سے کمی کا خوف نہ کرو۔
فائدہ: ہرشخص کی ایک شان اور ایک حالت ہوا کرتی ہے۔ ہم جیسے کمزور، ضعفا، ضعیف الایمان، ضعیف الیقین لوگوں کے لیے شرعا اس کی گنجایش ہو بھی کہ وہ ذخیرہ کے طور پر آیندہ کی ضروریات کے لیے کچھ رکھ لیں، لیکن حضرت بلال ؓ جیسے جلیل القدر، کامل الایمان، کامل الیقین کی یہی شان تھی کہ ان کو اللہ  سے کمی کا ذرا بھی خوف یا واہمہ نہ ہو۔ جہنم کا دھواںدیکھنے سے اس میں جانا لازم نہیں آتا، لیکن ان لوگوں کے اعتبار سے کمی تو ضرور ہوگئی جن کو یہ بھی نظر نہ آئے اورکم سے کم حساب کاقصہ تو لمبا ہو ہی جائے گا۔ بعض احادیث میں معمولی معمولی رقم ایک دو دینار کسی شخص کے پاس نکلنے پر بھی حضورِاقدسﷺ کی طرف سے جہنم کی آگ کی وعید وارد ہوئی ہے، جیسا کہ چھٹی فصل کی احادیث کے سلسلہ میں نمبر(۲) کے ذیل میں آرہا ہے۔ اور حساب کا معاملہ توہر شخص کے لیے ہے کہ جتنا مال زیادہ ہوگا اتنا ہی حساب طویل ہوگا۔ حضورﷺ کا پاک ارشادہے کہ میں جنت کے دروازہ پر کھڑا ہوا۔ میں نے دیکھا کہ اس میں کثرت سے داخل ہونے والے فقرا ہیں اور وسعت والے ابھی روکے ہوئے ہیں اور جہنمی لوگوں کو جہنم میں پھینک دیا گیا۔ اور میں جہنم کے دروازہ پر کھڑاہوا تو میں نے اس میں کثرت سے داخل ہونے والی عورتیں دیکھیں۔ (مشکاۃ المصابیح)
عورتوں کے جہنم میں کثرت سے داخل ہونے کی وجہ ایک اور حدیث میں آئی ہے۔ حضرت ابوسعیدؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ عید کے دن عیدگاہ میں تشریف لے گئے۔ جب عورتوں کے مجمع پر گزر ہوا تو حضورﷺ نے عورتوں سے خطاب فرماکر ارشاد فرمایا کہ تم صدقہ بہت کثرت سے کیا کرو۔ میں نے عورتوں کو بہت کثرت سے جہنم میں دیکھا ہے۔ انھوں نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! یہ کیا بات ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ عورتیں لعنت (بد دعائیں) بہت کرتی ہیں اور خاوند کی ناشکری بہت کرتی ہیں۔ (مشکاۃ المصابیح)
اور یہ دونوں باتیں عورتوں میں ایسی کثرت سے شائع ہیں کہ حد نہیں۔ جس اولاد پر دَم دیتی ہیں، ہر وقت اس کی راحت اور آرام کی فکر میںرہتی ہیں، ذرا ذرا سی بات پر اس کو ہر وقت بددعائیں، تُو مرجا، تُوگڑجا، تیرا ناس ہو جائے وغیرہ وغیرہ الفاظ ان کاتکیہ کلام ہوتا ہے۔ اور خاوند کی ناشکری کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ وہ غریب جتنی بھی ناز برداری کرتا رہے ان کی نگاہ میں وہ لاپرواہ ہی رہتا ہے۔ ہر وقت اس غم میں مری رہتی ہیں کہ اس نے ماں کو کوئی چیز کیوں دے دی، باپ کو تنخواہ میں سے کچھ کیوں دے دیا، بہن بھائی سے سلوک کیوں کر دیا؟
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورﷺ نے صلوٰۃ الکسوف میں دوزخ جنت کا مشاہدہ فرمایا تو دوزخ میں کثرت سے عورتوں کو دیکھا۔ صحابہ? نے جب اس کی وجہ دریافت کی تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ احسان فراموشی کرتی ہیں، خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تُو تمام عمر ان میں سے کسی پر احسان کرتا رہے پھر کوئی ذرا سی بات پیش آجائے، توکہنے لگتی ہیں کہ میں نے تجھ سے کبھی کوئی بھلائی نہ دیکھی۔ (مشکاۃ المصابیح عن المتفق علیہ)
حضورﷺ کایہ ارشاد بھی عورتوں کی عام عادت ہے۔ جتنا بھی ان کے ساتھ اچھا برتائو کیا جائے، اگر کسی وقت کوئی بات ان کے خلافِ طبع پیش آجائے تو خاوند کے عمر بھر کے احسان سب ضائع ہو کر ’’اس گھروے میں مجھے کبھی چین نہ ملا ‘‘ ان کا خاص تکیہ کلام ہے۔ ان روایات سے عورتوں کے کثرت سے جہنم میں داخل ہونے کی وجہ معلوم ہونے کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ اس سے بچائو اور حفاظت کی چیز بھی صدقہ کی کثرت ہے۔ چناںچہ اس وعید والی حدیث میں ہے کہ حضورﷺ جب یہ ارشاد فرما رہے تھے تو حضرت بلالؓ حضورﷺ کے ساتھ تھے اور صحابی عورتیں کثرت سے حضورﷺ کا پاک ارشاد سننے کے بعد اپنے کانوں کا زیور اور گلے کا زیور نکال نکال کر حضرت بلالؓ کے کپڑ ے میں جس میں وہ چند ہ جمع کررہے تھے ڈال رہی تھیں۔
ہمارے زمانہ میں اوّل توعورتوں کو اس قسم کی سخت حدیثیں سن کر خیال بھی نہیں ہوتا، اور اگر کسی کو ہوتا بھی ہے توپھر اس کا نزلہ بھی خاوند ہی پرگرتا ہے کہ وہ ہی ان کی زکوٰۃ ادا کرے، ان کی طرف سے صدقے کرے ۔ اگر وہ خود بھی کریں گی تو خاوند ہی سے وصول کرکے۔ مجال ہے کہ ان کے زیوروں کو کوئی آنچ آجاوے۔ ویسے چاہے سارا ہی چوری ہو جاوے، کھویا جائے، یا بیاہ شادیوں اور لغو تقریبات میں گرو ی رکھ کر ہاتھ سے جاتارہے، مگر اس کو اپنی خوشی سے اللہ کے یہاںجمع کرنا، اس کا کہیں ذکر نہیں۔ اسی حال میںاس کو چھوڑکر مر جاتی ہیں، پھر وہ وارثوں میں تقسیم ہو کر کم داموں میں فروخت ہوتا ہے۔ بنتے وقت نہایت گِراں بنتا ہے، بِکتے وقت نہایت اَرزاں جاتا ہے، لیکن ان کو اس سے کچھ غرض نہیں کہ یہ گھڑائی کے دام بالکل ضائع جارہے ہیں۔ ان کو بنواتے رہنے سے غرض۔ یہ تُڑوا کر وہ بنوالیا، وہ تُڑوا کر یہ بنوالیا، اور اپنے کام آنے والا نہ وہ ہے نہ یہ ہے۔ اور بار بار تڑوانے میںمال کی اِضاعت کے علاوہ گھڑائی کی اجرت ضائع ہوتی رہتی ہے۔
یہ مضمون درمیان میں عورتوں کی کثرت سے جہنم میں جانے کی وجہ میں آگیا تھا، اصل مضمون تو یہ تھا کہ مال کی کثرت کچھ نہ کچھ رنگ تو لاتی ہی ہے حتیٰ کہ حضرات مہاجرین ? کے بارے میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے دن فقرا مہاجرین اَغنیا سے چالیس سال قبل جنت کی طرف بڑھ جائیںگے۔ (مشکاۃ المصابیح) حالاںکہ ان حضرات کے اِیثار اور صدقات کی کثرت اور اخلاص کا نہ تو اندازہ کیا جاسکتا ہے نہ مقابلہ ہوسکتا ہے۔ ایک مرتبہ حضورﷺ نے یہ دعا کی: 
اَللّٰھُمَّ أَحْیِِنِيْ مِسْکِیْنًا وَّأَمِتْنِيْ مِسْکِیْنًا وَّاحْشُرْنِيْ فِيْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ۔
اے اللہ! زندگی میں بھی مجھے مسکین رکھ اورمسکینی کی حالت میں مجھے موت عطا کر اور میرا حشر بھی مسکینوں کی جماعت میں فرما  
حضرت عائشہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کیوں؟ یعنی آپ مسکینی کی دعاکیوں فرماتے ہیں؟ حضورﷺنے فرمایا کہ مساکین اپنے اَغنیا سے چالیس سال قبل جنت میں جائیں گے۔ عائشہ! مسکین کو نامراد واپس نہ کرو، چاہے کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ عائشہ !مساکین سے محبت رکھا کرو، ان کو اپنا مقرب بنایا کرو، اللہ قیامت کے دن تمہیں اپنا مقرب بنائیں گے۔ (مشکاۃ المصابیح)
بعض علماء کو اس حدیث پر یہ اِشکال ہوگیا کہ اس سے عام فقرا کا اَنبیا سے مقدم ہونا لازم آتا ہے۔ بندہ کے ناقص خیال میں یہ اِشکال نہیں ہے۔ اس حدیث پاک میں اپنے اَغنیا کا لفظ موجود ہے ہر جماعت کے فقرا کا اس جماعت کے اَغنیا سے مقابلہ ہے۔ اَنبیا کا اَنبیا سے، صحابہ کا صحابہ سے اوراسی طرح اور جماعتیں۔
۱۵۔ عَنْ کَعْبِ  بْنِ عِیَاضٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یَقُوْلُ: إِنَّ لِکُلِّ اُمَّۃٍ فِتْنَۃً، وَفِتْنَۃُ اُمَّتِيْ الْمَالُ۔
رواہ الترمذي، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


 حضرت کعبؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورِاقدسﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر امت کے لیے ایک فتنہ ہوتا ہے (جس میں مبتلا ہو کر وہ فتنہ میں پڑجاتی ہے) میری امت کا فتنہ مال ہے۔
فائدہ: حضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد بالکل ہی حق ہے، کوئی اِعتقادی چیز نہیں ہے۔ روز مرّہ کے مشاہدہ کی چیز ہے کہ مال کی کثرت سے جتنی آوارگی، عیاشی، سود خواری، زنا کاری، سینما بینی، جوا بازی، ظلم وستم، لوگوں کو حقیر سمجھنا، اللہ کے دین سے غافل ہونا، عبادات میں تساہُل، دین کے کاموں کے لیے وقت نہ ملنا وغیرہ وغیرہ ہوتے ہیں، ناداری میں ان کا تہائی چوتھائی بلکہ دسواں حصہ بھی نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے ایک مثل مشہور ہے ’’زَر نیست عشق ٹیں ٹیں‘‘ پیسہ پاس نہ ہو تو پھربازاری عشق بھی زبانی جمع خرچ ہی رہ جاتا ہے۔ اور یہ چیزیں نہ بھی ہوں تو کم سے کم درجہ مال کی بڑھوتری کا ہر وقت فکر تو کہیں گیا ہی نہیں۔ صرف تین ہزار روپیہ کسی کو دے دیجیے، پھر جو ہر وقت اس کو کسی کام میں لگا کر بڑھانے کا فکر دامن گیرہو گا تو کہاں کا سونا، کہاں کا راحت آرام، کیسا نماز روزہ، کیسا حج زکوٰۃ؟ اب دن بھر، رات بھر دکان کے بڑھانے کی فکر ہے۔ دکان کی مشغولی نہ کسی دینی کام میں شرکت کی اجازت دیتی ہے، نہ دین کے لیے کہیں باہر جانے کا وقت ملتا ہے کہ دکان کا حرج ہو جائے گا۔ ہر وقت یہ فکر سوار کہ کون سا کاروبار ایسا ہے جس میں نفع زیادہ ہو کام چلتا ہوا ہو۔ اسی لیے حضورﷺ کا پاک ارشاد جو کئی حدیثوں میں آیا ہے کہ اگر کسی آدمی کے لیے دو وادیاں (دو جنگل) مال کے حاصل ہو جائیں تو وہ تیسری کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔ آدمی کاپیٹ (قبرکی ) مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ (مشکاۃ المصابیح) 
ایک حدیث میں ہے کہ اگر آدمی کے لیے ایک وادی مال کی ہو تو دوسری کوتلاش کرتا ہے اور دوہوں تو تیسری کو تلاش کرتا ہے۔ آدمی کاپیٹ مٹی کے سواکوئی اور چیز نہیں بھرتی۔ ایک حدیث میں ہے کہ آدمی کے لیے ایک جنگل کھجوروں کاہو تو دوسرے کی تمنا کرتاہے۔ اور دو ہوں تو تیسرے کی۔ اور اسی طرح تمنائیں کرتا رہتا ہے۔ اس کا پیٹ مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھرتی۔ (کنز العمال) ایک حدیث میں ہے کہ اگر آدمی کو ایک وادی سونے کی دے دی جائے تووہ دوسری کوتلاش کرتا ہے۔ اور دو ہوں تو تیسری کو تلاش کرتا ہے۔ آدمی کاپیٹ مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھرسکتی۔ (بخاری)
مٹی سے بھرنے کا مطلب یہ ہے کہ قبر کی مٹی میں جاکر ہی وہ اپنی اس ھَلْ مِنْ مَّزِیْدکی خواہش سے رک سکتا ہے۔ دنیا میں رہتے رہتے تو ہر وقت اس پر اِضافہ اورزیادتی کی فکر رہتی ہے۔ ایک کارخانہ اچھی طرح چل رہا ہے، اس میں بقدرِضر ورت آمدنی ہو رہی ہے، کہیں کوئی دوسری چیز سامنے آگئی اس میںبھی اپنی ٹانگ اڑا دی۔ ایک سے دو ہو گئیں، دو سے تین ہوگئیں، غرض جتنی آمدنی بڑھتی جائے گی، اس کو مزید کاروبار میں لگانے کی فکر رہے گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ اس پر قناعت کرکے کچھ وقت اللہ کی یاد میں مشغولی کا نکل آئے۔ اسی لیے حضورِاقدسﷺ نے دعا فرمائی ہے: 
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا۔ 
(اے اللہ! میری اولاد کا رزق قُوت ہو) یعنی بقدرِ کفایت ہو، زائد ہو ہی نہیں جس کے چکر میں میری اولاد پھنس جائے۔
ایک حدیث میں حضورﷺ کاارشاد ہے کہ بہتری اور خوبی اس شخص کے لیے ہے جو اسلام عطا کیا گیا ہو اور اس کا رزق بقدرِ کفایت ہو اور اس پر قانع ہو۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ کوئی فقیر یا غنی قیامت میں ایسا نہ ہوگا جواس کی تمنا کرتا ہو کہ دنیا میںاس کی روزی صرف قُوت (یعنی بقدرِکفایت) ہوتی۔ (اِحیاء العلوم)
’’بخاری شریف‘‘ کی حدیث میں ہے حضورِاقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ خدا کی قسم! مجھے تمہارے اوپر تمہارے فقرو فاقہ کا خوف نہیں ہے، بلکہ اس کا خوف ہے کہ تم پر دنیا کی وسعت ہوجائے جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پر ہو چکی ہے، پھر تمہارا اس میں دل لگنے لگے جیسا کہ ان کا لگنے لگا تھا، پس یہ چیز تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ پہلی امتوں کو کرچکی ہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی روایات میں مختلف عنوانات سے مختلف قسم کی تنبیہات سے مال کی کثرت اور اس کے فتنہ پرمتنبہ فرمایا۔ اس لیے نہیںکہ مال في حدّ ذاتہٖ کوئی ناپاک یا عیب کی چیز ہے، بلکہ اس وجہ سے کہ ہم لوگو ں کے قلوب کے فساد کی وجہ سے بہت جلد ہمارے دلوںمیں مال کی وجہ سے تعفّن اور بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اگر کوئی شخص اس کی مضرتوں سے بچتے ہوئے، اس کی زیادتی سے اِحتراز کرتے ہوئے، شرائط کے ساتھ اس کو استعمال کرے تو مضر نہیں بلکہ مفید ہو جاتا ہے، لیکن چوںکہ عام طور سے نہ شرائط کی رعایت ہوتی ہے نہ اصلاح کی فکرہوتی ہے، اس بنا پر یہ اپنا زہریلا اثر بہت جلد پیدا کر دیتا ہے۔
اس کی بہترین مثال ہیضہ کے زمانہ میں امرود کا کھانا ہے کہ في حدّ ذاتہٖ امرود کے اندر کوئی عیب نہیں، اس کے جو فوائد ہیں وہ اب بھی اس میں موجود ہیں، لیکن ہوا کے فساد کی وجہ سے اس کے استعمال سے، بالخصوص کثرتِ استعمال سے بہت جلد اس میں تغیر پیدا ہوکر مضرت اور ہلاکت کا سبب بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے علی العموم ڈاکٹر ہیضہ کے زمانہ میں امرودوں کی سختی سے ممانعت کر دیتے ہیں۔ ٹوکرے کے ٹوکرے ضائع کرا دیتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ اگر معمولی حکیم یا ڈاکٹرکسی چیز کو مضر بتاتا ہے توطبعاً ہمارے قلوب اس سے ڈرنے لگتے ہیں۔ چناںچہ ڈاکٹروں کے ان اعلانات کے بعد اچھے اچھے سورمائوں کی ہمت امرود کھانے کی نہیں رہتی، لیکن وہ ہستی جس کے جوتوںکی خاک تک بھی کوئی حکیم یا ڈاکٹر نہیں پہنچ سکتا، جس کی تجویزات نورِ نبوت سے مستفاد ہیں، اس کے اعلان پر، اس کی تجویز پر ذرا بھی خوف پیدا نہ ہو۔ حضورِ اقدسﷺ جب بار بار اس کے فتنوں اور اس کی مضرتوں پر تنبیہ فرمارہے ہیں تو یقینا ہر شخص کو بہت زیادہ اس کی مضرتوں سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اس کے استعمال کے لیے شرعی قوانین کے ماتحت جو اس کے لیے ایسے ہیں جیسا کہ امرود کے لیے نمک، مرچ، لیموں وغیرہ مُصلِحات ہیں، ان کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ اللہ کے حقوق کی ادائیگی کابہت زیادہ اس میں فکر کرتے رہنا چاہیے۔ خود حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ غنیٰ میں اس شخص کے لیے نقصان نہیں جو اللہ سے ڈرتا رہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
میرے نسبی بزرگوں میں مفتی الٰہی بخش کاندھلوی، مشہور فقیہ حضرتِ اقدس مرجع الکل شاہ عبدالعزیز دہلوی نور اللہ مرقدہ کے خاص شاگردہیں۔ ان کی بیا ض میں اُن کے شیخ کی بیاض سے نقل کیا ہے کہ دنیا (یعنی مال) آدمی کے لیے حق تعالیٰ شا نہٗ کی مرضیات پر عمل کرنے کے لیے بہترین مدد ہے۔حضورِاقدسﷺ نے جب لوگوں کوحق تعالیٰ شا نہٗ کی طرف بلایا تو ان چیزوں کے چھوڑ دینے کا حکم نہیں فرمایا، بلکہ اسبابِ معیشت اوراہل و عیال کی خدمت کی ترغیب دی۔ لہٰذا مال کا اور اپنے اہل و عیال میںرہنے کا انکار ناواقف شخص ہی کرسکتا ہے۔ حضرت عثمانؓ کے وصال کے وقت ان کے خزانچی کے پاس ایک لاکھ پچاس اشرفیاں او ر دس لاکھ درہم تھے، اور جائیداد خیبر، وادیٔ قریٰ وغیرہ کی تھی، جس کی قیمت دو لاکھ دینار تھے۔ اور حضرت عبداللہ بن زبیر? کے مال کی قیمت پچاس ہزار دینار تھی اور ایک ہزار گھوڑے اور ایک ہزار غلام چھوڑے تھے۔ اور عمرو بن العاصؓ نے تین لاکھ دینار چھوڑے تھے۔ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے مال کا توشمار ہی مشکل ہے۔ اس کے باوجود حق تعالیٰ شا نہٗ نے ان کی تعریف قرآن پاک میں فرمائی:
{ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗ }(الکہف:ع ۴)
’’اپنے رب کی عبادت صبح و شام (یعنی ہمیشہ) محض اس کی ر ضا جوئی کے واسطے کرتے ہیں۔‘‘
اور ارشاد ہے۔
{رِجَالٌ لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَابَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ} (النور:ع ۵)
’’یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کو تجارت وغیرہ اللہ کے ذکر سے نہیںروکتی۔‘‘ فقطبیاض کی عبارت عربی ہے یہ اس کاترجمہ ہے۔ اور صحیح ہے کہ اس زمانہ میں فتوحات کی کثرت سے عام طور پر ان حضرات کی مالی حالت ایسی ہی تھی۔ دنیا اور ثروت ان کے جوتوں سے لپٹتی تھی یہ اس کو پھینکتے تھے اور وہ ان کو چمٹتی تھی، لیکن ان سب کے باوجود اس کے ساتھ اس کی دل بستگی اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغولی کیا تھی۔ ’’ فضائل نماز ‘‘ اور ’’حکایاتِ صحابہ‘‘ میں ان حضرات کے کچھ واقعات ذکر کیے گئے ہیں، ان کو عبرت اور غور سے دیکھو۔ یہی عبداللہ بن زبیر? اپنی اس دولت کے ساتھ جب نماز کو کھڑے ہوتے تو جیسے ایک کیل کہیں گاڑ دی ہو۔ سجدہ اتنا لمبا ہوتا کہ چڑیاں کمر پر آکر بیٹھ جاتیں اور حرکت کا ذکر نہیں۔ جس زمانہ میں ان پر چڑھائی ہو رہی ہوتی اور ان پرگولہ باری ہو رہی تھی، نماز پڑھ رہے تھے۔ ایک گولہ مسجد کی دیوار پرلگا جس سے اس کاایک حصہ گرا۔ ان کی داڑھی کے پاس سے گزرا، مگر ان کو اس کا پتہ بھی نہ چلا۔
ایک صحابی کاباغ کھجوروں کا خوب پک رہا تھا۔ یہ اس باغ میںنماز پڑھ رہے تھے۔ نماز میں باغ کا خیال آگیا اس کا رنج اور صدمہ اس قدر ہوا کہ نماز کے بعد فوراً باغ کو حضرت عثمان ؓ کی خدمت میں، جو اس وقت امیر المؤمنین تھے، پیش کر دیا۔ انھوں نے پچاس ہزار میںا س کو فروخت کرکے اس کی قیمت دینی کاموں میں خرچ کر دی۔ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں دوبوریاں دِرَم کی نذرانہ میں آئیں جن میں ایک لاکھ سے زیادہ دِرَم تھے۔ طباق منگا کر اور بھر بھر کر سب تقسیم کر دیں۔ اپنا روزہ تھا یہ بھی خیال نہ آیاکہ اپنے افطار کے لیے کچھ رکھ لیں یا کوئی چیز منگا لیں۔ افطار کے وقت جب باندی نے افسوس کیا کہ اگر ایک دِرَم کا گوشت منگا لیتیں تو آج ہم بھی گوشت سے کھانا کھالیتے، تو فرمایا: اب افسوس سے کیا ہوتا ہے؟ جب یاد دلا دیتی تو میں منگا دیتی۔
’’حکایاتِ صحابہ‘‘ میں یہ اور اس قسم کے چند واقعات ذکر کیے گئے۔ ان کے علاوہ ہزاروں واقعات ان حضرات کی تاریخ میں موجود ہیں۔ اُن کو مال کیا نقصان دے سکتا ہے جن کے نزدیک اس میں اور گھر کے کوڑے میں کوئی فرق ہی نہ ہو۔ کاش! اللہ اس صفت کا کوئی شمّہ اس ناپاک کو بھی عطا کر دیتا۔
یہاں ایک بات خاص طور سے قابلِ لحاظ ہے۔ وہ یہ کہ ان حضرات متمول صحابہ کرام? کے ان احوال سے مال کی کثرت کے جواز پر استدلال تو ہوسکتا ہے کہ خیرالقرون اور خلفائے راشدین?کے دور میںیہ مثالیں بھی ملتی ہیں، لیکن ہم لوگوں کو اس زہر کے اپنے پاس رکھنے میں ان کے اِتباع کو آڑ بنانا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی تپِ دق کابیمار کسی جوان، قوی، تندرست کے اِتباع میںروزانہ صحبت کیا کرے کہ وہ تین چار دن میں قبر کا گڑھا ہی دیکھے گا۔ رسالہ کے ختم پر حکایات کے سلسلہ میں نمبر (۵۴) پر ایک عارف کا ارشاد غور سے دیکھنا چاہیے۔ امام غزالی  ؒ فرماتے ہیں کہ مال بہ منزلہ ایک سانپ کے ہے جس میں زہر بھی ہے اور تریاق بھی ہے۔ اور اس کے فوائدبہ منزلہ تریاق کے ہیں اور اس کے نقصانات بہ منزلہ زہر کے۔جو اس کے فوائد اور نقصانات سے واقف ہو جائے وہ اس پر قادر ہوسکتا ہے کہ اس کے فوائد حاصل کرے اور نقصانات سے محفوظ رہے۔ اس میں فوائد تو دو قسم کے ہیں دنیوی اور دینی۔ دنیوی فوائد توہر شخص جانتا ہے، انہی کی وجہ سے سارا جہان اس کے کمانے میں مرمٹ رہا ہے، دینی فوائد تین ہیں۔
اول یہ کہ بواسطہ یا بلاواسطہ عبادت کا سبب ہے۔ بلاواسطہ تو جیسے حج جہاد وغیرہ کہ یہ روپیہ ہی سے ہوسکتے ہیں، اور بواسطہ یہ کہ اپنے کھانے پینے اور ضروریات میں خرچ کرے کہ یہ ضرورتیں اگر پوری نہ ہوں تو آدمی کا دل ادھر مشغول رہتا ہے جس کی وجہ سے دینی مشاغل میں اِشتغال کاوقت نہیں ملتا۔ اور جب یہ بواسطہ عبادت کا ذریعہ ہے تو خود بھی عبادت ہوا، لیکن صرف اتنی ہی مقدار جس سے دینی مشاغل میں اِعانت ملے۔ اس سے زیادہ مقدار اس میں داخل نہیں۔
دوسرا دینی فائدہ اس سے کسی دوسرے پر خرچ کرنے کے متعلق ہے اور یہ چار قسم پر ہے۔ (الف) صدقہ جو غربا پر کیا جائے۔ اس کے فضائل بے شمار ہیں جیسا کہ پہلے کچھ گزر چکے۔ (ب) مروّت جو اَغنیا پر دعوت ہدیہ وغیرہ میں خرچ کیا جائے کہ وہ صدقہ نہیںہے، اس لیے کہ صدقہ فقرا پر ہوتا ہے۔ یہ قسم بھی دینی فوائد لیے ہوئے ہے کہ اس سے آپس کے تعلقات قوی ہوتے ہیں، سخاوت کی بہترین عبادت پیدا ہوتی ہے۔ بہت سی احادیث ہدایا اور کھانا کھلانے کے فضائل میں وارد ہوئی ہیں۔ اس قسم میںان لوگوں کے فقر کی قید نہیں ہے جن پر خرچ کیا جائے۔ (بندہ کے ناقص خیال میں یہ فائدہ بسا اوقات پہلے نمبر سے بھی بڑھ جاتا ہے، مگر جب ہی تو جب اس میں خرچ بھی کیا جائے، لیکن جو شخص ننانوے کے پھیر میں پڑ جائے اس کے لیے نہ یہ فضائل کارآمد ہیں، نہ وہ سب احادیث جو ان کے فضائل میں آئی ہیں اس پراثر کرتی ہیں۔ (ج) اپنی آبرو کاتحفظ۔ یعنی مال کا ایسی جگہ خرچ کرنا، جس میں اگر خرچ نہ کیا جائے تو کمینہ لوگوں کی طرف سے بدگوئی، فحش وغیرہ مضرتوں کا اندیشہ ہے۔ یہ بھی صدقہ کے حکم میں آتا ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی اپنی آبرو کی حفاظت کے لیے جو خرچ کرتا ہے وہ بھی صدقہ ہے۔ (بندۂ ناکارہ کے نزدیک دفعِ ظلم کے لیے رشوت دینا بھی اس میں داخل ہے۔ رشوت کا دینا کسی نفع کے حاصل کرنے کے واسطے حرام ہے ناجائز ہے۔ دینے والا بھی ایسا ہی گناہ گار ہے جیسا کہ لینے والا، لیکن ظالم کے ظلم کو ہٹانے کے واسطے دینے والے کوجائز ہے، لینے والے کو حرام ہے۔ (د) مزدوروں کی اجرت دینا کہ آدمی بہت سے کام خود اپنے ہاتھ سے نہیں کرسکتا۔ اور بعض کام ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو آدمی خود تو کرسکتا ہے، لیکن ان میں بہت سا عزیز وقت صرف ہوتا ہے۔ اگر ان کاموں کو اجرت پر کرالے تو اپنا یہ وقت علم و عمل، ذکر و فکر وغیرہ ایسے اُمور میں خرچ ہوسکتا ہے جن میں دوسرانائب نہیں ہوسکتا۔تیسرا دینی فائدہ عمومی اخراجاتِ خیر ہیں جن میں کسی دوسرے معیّن شخص پر توخرچ نہیں کیا جاتا کہ یہ دوسرے نمبر میںگزر چکے ہیں۔ البتہ عمومی فوائد اس سے حاصل ہوتے ہیں جیسا مساجد کا بنانا، مسافر خانے، پل وغیرہ بنانا، مدارس، شفا خانے وغیرہ ایسی چیزیں بنانا جواپنے مرنے کے بعد بھی ان کے اجر و ثواب اور ان سے فوائد حاصل کرنے والے صلحا کی دعائیں پہنچتی رہیں۔
یہ تو اِجمال ہے اس کے فوائد کا اور سارے فوائد جواس سے حاصل ہوسکتے ہیں وہ ان میںآگئے۔ حضرتِ اقدس شاہ عبدالعزیز صاحب قُدّس سرہٗ فرماتے ہیں کہ مال کا خرچ کرنا سات طرح سے عبادت ہے: ۱۔ زکوٰۃ جس میں عشر بھی داخل ہے۔  ۲۔ صدقۂ فطر۔  ۳۔ نفل خیرات جس میں مہمانی بھی داخل ہے اور قرض داروں کی اعانت بھی۔  ۴۔ وقف، مساجد، سرائے، پل وغیرہ بنانا۔  ۵۔ حج ،فرض ہو یا نفل، یا کسی دوسرے کی حج میںمدد ہو، توشہ سے یا سواری سے۔  ۶۔ جہاد میں خرچ کرنا کہ ایک دِرَم اس میں سا ت سو دِرَم کے برابر ہے۔ ۷۔جن کے اخراجات اپنے ذمہ ہیںان کو ادا کرنا، جیساکہ بیوی کااور چھوٹی اولاد کا خرچ ہے، اوراپنی وسعت کے بعد محتاج رشتہ داروں کا خرچ وغیرہ۔ (تفسیرِ عزیزی)
امام غزالی ؒفرماتے ہیں کہ مال کے نقصانات بھی دو قسم کے ہیں، دینی اور دنیوی۔ دینی نقصانات تین قسم پر ہیں: 
(ا) معاصی کی کثرت کا سبب ہوتا ہے کہ آدمی اکثر و بیشتر اسی کی وجہ سے شہوتوں میںمبتلا ہوتا ہے، اور ناداری اور عجز ان کی طرف متوجہ بھی نہیں ہونے دیتا۔ جب آدمی کو کسی معصیت کے حصول سے ناامیدی ہوتی ہے تو دل اس طرف زیادہ متوجہ بھی نہیں ہوتا۔ اور جب اپنے کو اس پر قادر سمجھتا ہے تو کثرت سے ادھر توجہ رہتی ہے۔ اور مال قدرت کے بڑے اسباب میںسے ہے۔ اسی وجہ سے مال کا فتنہ فقر کے فتنے سے بڑھا ہوا ہے۔
(ب) جائز چیزوں میں تنعُّم کی کثرت کا سبب ہے۔ اچھے سے اچھا کھانا، اچھے سے اچھا لباس وغیرہ وغیرہ۔ بھلا مال دار سے یہ کب ہوسکتا ہے کہ جو کی روٹی کھائے اور موٹا کپڑا پہنے؟ اور ان تنعمات کا حال یہ ہے کہ ایک چیز دوسرے کو کھینچتی ہے اور شدہ شدہ اخراجات میںاضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اور آمدنی جب ان کو کافی نہیں ہوتی تو ناجائز طریقوں سے مال حاصل کرنے کی فکر یں پیدا ہونے لگتی ہیں۔ اور جھوٹ نفاق وغیرہ بری عادات کی بنیاد اسی سے پڑتی ہے کہ ما ل کی کثرت کی وجہ سے ملاقاتی بھی کثیر ہوںگے، اور ان کے تعلقات کی بقا اور حفاظت کے واسطے اس قسم کے امور کثرت سے پیدا ہوں گے، اور تعلقات کی کثرت میں بغض وعداوت، حسد کینہ وغیرہ امور طرفین میںکثرت سے پیدا ہوںگے اور ایسے بے انتہا عوارض آدمی کیساتھ لگ جائیں گے جن سے مال کے ہوتے ہوئے خلاصی دشوار ہے۔ اور غور کرنے سے یہ مضرتیں وسیع پیمانے پر پہنچ جاتی ہیں اور ان سب کا پیدا ہونا مال ہی کے سبب سے ہوتا ہے۔
(ج) اور کم سے کم اس بات سے تو کوئی بھی مال دار خالی نہیں ہوسکتا کہ اس کا دل مال کی صلاح و فلاح کے خیال میںاللہ کے ذکر و فکر سے غافل رہے گا۔ اور جو چیز اللہ سے غافل کر دے وہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔ اسی واسطے حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ مال میں تین آفتیں ہیں۔ اول یہ کہ ناجائز طریقہ سے کمایا جاتا ہے۔ کسی نے عرض کیا کہ اگر جائز طریقہ سے حاصل ہو؟ تو آپ نے فرمایا کہ بے جگہ خرچ ہوتا ہے۔ کسی نے عرض کیا:  اگر اپنے محل ہی پر خرچ کیا جائے؟ تو آپ نے فرمایا کہ اس کی اصلاح کافکر اللہ سے تو مشغول کرہی دے گا، اور یہ لاعلاج بیماری ہے کہ ساری عبادات کا لُبِ لباب اور مغز اللہ کا ذکر وفکر ہے اور اس کے لیے فارغ دل کی ضرورت ہے اور صاحب ِجائیداد شخص دن بھر، رات بھر کاشت کاروں کے جھگڑوں کے سوچ میں رہتا ہے، ان سے وصولی کے حساب کتاب میںرہتا ہے، شریکوں کے معاملات کی فکر میںرہتا ہے۔ کہیں ان کے حصول کا جھگڑا ہے، ان سے پانی کی بانٹ پر جھگڑا ہے،کہیں ڈول بندیوں پر لڑائی ہے، اور حکّام اور ان کے ایلچیوں کا قصہ علیحدہ ہر وقت کا ہے، نوکروں مزدوروں کی خبرگیری، ان کے کام کی نگرانی ایک مستقل مشغلہ ہے ۔ اسی طرح تاجر کا حال ہے کہ اگر شرکت میں تجارت ہو تو شرکا کی حرکتیں ہر وقت کی ایک مستقل مصیبت اور مستقل مشغلہ ہے۔ اور تنہا تجارت ہو تو نفع کے بڑھنے کا فکر، ہر وقت اپنی محنت میں کوتاہی کا خیال، تجارت میں نقصان کا فکر، ایسے امور ہیں جو ہر وقت مسلط رہتے ہیں۔ مشاغل کے اعتبار سے سب سے کم وہ خزانہ ہے جو نقد کی صورت میں اپنے پاس ہو، لیکن اس کی حفاظت اور اِضاعت کا اندیشہ، چوروں کا فکر اور اس کے خرچ کرنے کے مصارف کا فکر اور جن لوگوں کی نگاہیں اس کی طرف لگی رہتی ہیں ان کاخیال، ایسے تفکّرات ہیں کہ جن کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ اور یہی وہ سب دنیوی مضرات ہیں جومال کے ساتھ لگی رہتی ہیں اور جس کے پاس بقدرِ ضرورت ہو وہ ان سب افکار سے فارغ۔
لنگکے زیر  لنگکے بالا 


نے غم دُزد ، نے غم کالا
ایک لنگی نیچے ایک لنگی اوپر، نہ چور کا ڈر نہ پونجی کا۔ 
(کہ اس کی کس طرح حفاظت کروں، روز اَفزوں اخراجات کس طرح پورے کروں؟)
پس مال کا تریاق اس میں سے بقدرِ ضرورت اپنے ذاتی مصارف میں خرچ کرنے کے بعد جو کچھ بچے اس کو خیر کے مصارف میں خرچ کر دینا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ زہر ہی زہر ہے،آفت ہی آفت ہے۔ حق تعالیٰ شا نہٗ اپنے لطف و کرم سے اس زہر سے اس ناکارہ کو بھی محفوظ رکھے اور نیک مصرف پر خرچ کی توفیق عطا فرمائے۔ (اِحیاء العلوم) اس کی مثال بالکل سانپ کی سی ہے کہ جو لوگ اس کے پکڑنے کے ماہر ہیں، اس کے طریقوں سے واقف ہیں، ان کے لیے اس کے پکڑنے میں کوئی نقصان نہیں،بلکہ وہ اس سے تریاق بنا سکتے ہیں اور دوسرے فوائد حاصل کرسکتے ہیں، لیکن کوئی ناواقف ان ماہروں کی حرص کرکے سانپ کو پکڑے گا تو ہلاک ہوگا۔ اسی طرح متمول صحابہ کرام ? کی حرص کرکے ہم لوگ اگر اس زہر کا استعمال کثرت سے کریں تو ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اور ان حضراتِ کرام? کے متعلق محض اعتقادی بات نہیں، ان کی زندگی کا ایک ایک واقعہ اس کی کھلی شہادت دیتا ہے کہ ان کے یہاں اس کی وقعت ایندھن سے زیادہ نہ تھی۔ ان کے لیے اس کا وجود حق تعالیٰ شا نہٗ سے ذرا سی توجہ بھی ہٹانے والا نہ تھا اور اس کے باوجود اس سے ڈرتے تھے، جیسا کہ ان کی پوری تاریخ اس پر شاہد ہے۔
وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ لِمَا یُحِبُّ وَیَرْضَی
تیسری فصل
صلۂ رِحمی کے بیان میں
یہ فصل درحقیقت پہلی ہی فصلوں کا تتمہ ہے، لیکن اللہ نے اپنے پاک کلام میں اور حضورﷺنے اپنے پاک ارشادات میں اس پر خصوصیت سے تاکیدیں فرمائی ہیں، اور تعلقات کے توڑنے پر خصوصی وعیدیں فرمائی ہیں۔ اس لیے اس مضمون کو اہتمام کی وجہ سے مستقل فصل میں ذکر کیا گیا۔ حضورِ اقدسﷺکا پاک ارشاد ہے کہ اہلِ قرابت پر صدقہ کا ثواب دوگنا ہے۔ (کنز العمال)
امّ المؤمنین حضرت میمونہؓ نے ایک باندی آزاد کی تو حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اس کو اپنے ماموئوں کو دے دیتیں تووہ افضل تھا۔ (کنز العمال) لہٰذا صدقات کے اندر اگرکوئی دوسری دینی ضرورت اہم نہ ہو تو عام صدقہ سے اہلِ قرابت پر صدقہ کرناا فضل ہے۔ البتہ اگر کوئی دینی ضرورت درپیش ہو تو اللہ کے راستہ میں خرچ کرنے کا ثواب سات سو گنا تک ہو جاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں اور احادیث میں بہت کثرت سے صلۂ رحمی کی ترغیبات اور قطع رحمی پر وعیدیں آئی ہیں، مگر خوف ہے اس رسالہ کے بڑھ جانے کا۔ اس لیے صرف تین آیات ترغیب کی اور تین آیات وعید کی ذکر کرکے چند احادیث اس مضمون کی ذکر کرتا ہوں کہ ذرا بھی طول ہوگیا توہم لوگوں کو ان کے پڑھنے کی بھی فرصت نہ ملے گی، مگر یہ سارے مضامین اس قدر اہم ہیں کہ باوجود اختصار کے بھی یہ رسالہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور ایک حصہ کے بجائے شاید دو حصے کرنے پڑ جائیں۔ 
۱۔ اِنَّ اللَّہَ یَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِج یَعِظُکُمْ بے شک اللہ  اعتدال کا اور احسان کا اور اہلِ قرابت کو دینے کا حکم فرماتے ہیں، اور منع کرتے ہیں بے حیائی سے اوربری 
لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ o (النحل :ع ۱۳)


بات سے اور کسی پر ظلم کرنے سے، اور تم کو 
(ان امور کی) نصیحت فرماتے ہیں تاکہ تم نصیحت قبول کرلو۔
فائدہ: حق تعالیٰ شا نہٗ نے قرآنِ پاک میں بہت سی جگہ اہلِ قرابت کی خیر خواہی ، ان کو دینے کا حکم اور اس کی ترغیب فرمائی ہے۔ چند آیات کی طرف یہاں اشارہ کیا جاتا ہے ، جس کا دل چاہے کسی مترجم قرآن شریف کو لے کر دیکھ لے:
۱۔ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّذِی الْقُرْبٰی (البقرۃ :ع ۱۰)  
۲۔ قُلْ مَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ (البقرۃ : ع ۲۶) 
۳۔ سورہ ٔنساء کا پہلا رکوع تمام ۔ 
۴۔ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِی الْقُرْبٰی (النساء:ع ۶) 
۵۔ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاج (الأنعام: ع ۱۹) 
۶۔ وَاُوْلُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِط (الأنفال: ع ۱۰) 
۷۔ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْز (یوسف: ع ۱۰) 
۸۔ وَالَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَا اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ (الرعد:ع ۳) 
۹۔ رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ (إبراھیم: ع ۶) 
۱۰۔ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (بني إسرائیل: ع ۳) 
۱۱۔ وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ (بني إسرائیل: ع ۳) 
۱۲۔ وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ (بني إسرائیل: ع ۳) 
۱۳۔ وَکَانَ تَقِیًّاo وَّبَرًّا بِوَالِدَیْہِ (مریم: ع۱) 
۱۴۔ وَبَرًّا بِوَالِدَتِیْ (مریم:ع۲) 
۱۵۔ اِذْ قَالَ لِاَبِیْہِ یٰٓـاَبَتِ الآیۃ (مریم: ع۳) 
۱۶۔ وَکَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکوٰۃِ (مریم: ع۴) 
۱۷۔ وَاْمُرْ اَھْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ (طٰہٰ: ع ۸) 
۱۸۔ وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا (الفرقان: ع ۶) 
۱۹۔ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ (الأحقاف: ع ۲) 
۲۰۔ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَالِوَالِدَیَّ (نوح: ع ۲)
یہ چند آیات نمونہ کے طور پر ذکر کی گئیں کہ سب کے لکھنے میںاورترجمہ میں طول کا ڈر تھا۔ یہ ان تین آیات کے علاوہ ہیں جو مفصل یہاں ذکر کی گئیں۔ ان کے علاوہ اوربھی آیات ملیںگی۔ جس چیز کو اللہ نے اپنے پاک کلام میں بار بار ارشاد فرمایا ہو اس کی اہمیت کاکیاپوچھنا۔ حضرت کعب احبار ؒ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس پاک ذات کی جس نے سمندر کو حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کے لیے دو ٹکڑے کر دیا تھا! تورات میں لکھا ہے کہ اللہ سے ڈرتا رہ اور صلۂ رحمی کرتا رہ، میں تیری عمر بڑھا دوں گا، سہولت کی چیزوں میں تیرے لیے سہولت پیدا کر دوں گا، مشکلات کو دور کر دوں گا۔
حق تعالیٰ شا نہٗ نے قرآن پاک میں کئی جگہ صلۂ رحمی کا حکم کیا ہے۔ چناں چہ ارشاد ہے: { وَاتَّقُوْا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ} (النساء : ع ۱)’’ یعنی اللہ تعالیٰ شا نہٗ   سے ڈرتے رہو جس سے کہ اپنی حاجت طلب کرتے ہو اور رِشتوں سے ڈرتے رہو۔‘‘ یعنی ان کو جوڑتے رہو توڑو نہیں۔ دوسری آیت میں ارشاد ہے: { وَاٰتِ ذَاالْقُرْبٰی حَقَّہٗ } ’’یعنی رشتہ دار کا جو حق نیکی اور صلۂ رحمی کا ہے وہ ادا کرتے رہو۔‘‘ تیسری جگہ ارشاد ہے: { اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ} ’’یعنی اللہ توحید کا اور لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کی شہادت کا حکم فرماتے ہیں، اور لوگوں کے ساتھ احسان کرنے کا اور ان سے درگزر کرنے کا حکم فرماتے ہیں، اور رشتہ داروں کو دینے کا یعنی صلۂ رحمی کا حکم فرماتے ہیں۔‘‘ تین چیزوں کا حکم فرمانے کے بعد تین چیزوں سے منع کیا ہے۔ فحش سے یعنی گناہ سے، اور منکر سے یعنی ایسی بات سے جس کی شریعت میں اورسنت میں اصل نہ ہو، اور ظلم سے یعنی لوگوں پر تعلّی سے۔ پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ان چیزوں کی تم کو نصیحت فرماتے ہیں تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔
حضرت عثمان بن مظعونؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺسے مجھے بہت محبت تھی اور اسی کی شرم میں مسلمان ہوا تھا کہ حضورﷺمجھ سے مسلمان ہونے کو فرماتے تھے۔ اس وجہ سے میں مسلمان ہوگیا، لیکن اسلام میرے دل میں نہ جما تھا۔ ایک مرتبہ میں حضورﷺ کے پاس بیٹھا ہوا کچھ باتیں کر رہا تھا کہ مجھ سے باتیں کرتے کرتے حضورﷺکسی دوسری طرف ایسے متوجہ ہوگئے جیسے کسی اور سے باتیں کر رہے ہوں۔ تھوڑی دیر میں پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا کہ حضرت جبرئیل ؑ آئے تھے اور یہ آیتِ شریفہ: { اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ} آخرتک نازل ہوئی۔ مجھے اس مضمون سے بہت مسرت ہوئی اور اسلام میرے دل میں جم گیا۔ میں وہاں سے اٹھ کر حضورﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس گیا (جومسلمان نہ تھے) ا ن سے جاکر میں نے کہا کہ میں تمہارے بھتیجے کے پاس تھا، ان پر اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ وہ کہنے لگے کہ محمد (ﷺ) کا اِتباع کرو فلاح کوپہنچو گے۔ خدا کی قسم! وہ اپنی نبوت کے دعویٰ میں سچے ہوں یا جھوٹے، لیکن تمہیں تو اچھی عادتوں کی ہی تعلیم اور کریمانہ اخلاق سکھاتے ہیں۔ (تنبیہ الغافلین) یہ ایسے شخص کی نصیحت ہے جو خود مسلمان بھی نہیں ہیں  کہ وہ بھی اس کا اقرار کرتے ہیں کہ نبوت کا دعویٰ سچا ہو یا جھوٹا لیکن اسلام کی تعلیم بہترین تعلیم ہے، وہ کریمانہ اخلاق سکھاتی ہے، مگر افسوس کہ آج ہم مسلمانوں ہی کے اخلاق سب سے زیادہ گرے ہوئے ہیں۔
۲۔ وَلَا یَاْتَلِ اُولُوْا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْآ اُولِیْ الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُھٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ص وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا ط اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo      (النور : ع۳)        
یہ آیتِ شریفہ اور اس کاترجمہ پہلی فصل کے نمبر (۱۸) پر گزر چکا ہے ۔ مجھے اس کے اِعادہ سے اس پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ ہم لوگ اپنے ان اَسلاف کے معمولات پربھی غور کریں اور حق تعالیٰ شا نہٗ کی اس ترغیب پر بھی۔ کتنا سخت اور اہم واقعہ ہے کہ حضور ﷺکی بیوی، سارے مسلمانوں کی ماں، ان پر اولاد کی طرف سے بے بنیاد تہمت لگائی جائے اور اس کو پھیلاتے وہ قریبی رشتہ دار ہوں جن کا گزر اوقات بھی ان کے باپ ہی کی اِعانت پر ہو، اس پر باپ یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓکو جس قدر بھی رنج اور صدمہ ہو وہ ظاہر ہے، اس پر اللہ کی طرف سے یہ ترغیب کہ معاف کریں اور درگزر کریں، اور حضرت صدیقًؓؐ کی طرف سے یہ عمل کہ جتنا پہلے خرچ کرتے تھے اس میں اضافہ فرمایا، جیسا کہ پہلے گزر چکا،کیا ہم بھی اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ایسا معاملہ کرسکتے ہیں کہ کوئی ہم پر الزام رکھے، ہمارے گھر والوں کو ایسی سخت چیز کے ساتھ متہم کرے، اور پھر ہم قرآنِ پاک کی اس آیتِ شریفہ کو تلاوت کریں اور اس رشتہ دار کی قرابت پر نگاہ رکھتے ہوئے کسی قسم کی اِعانت اس کی گوارہ کرلیں؟ حاشا وکلَّا! عمر بھر کی اسی سے نہیں اس کی اولاد سے بھی دشمنی بندھ جائے گی، بلکہ جو دوسرے رشتہ دار اس سے تعلق رکھیں گے ان کا بھی بائیکاٹ کر دیں گے اور جس کسی تقریب میں وہ شریک ہوں گے مجال ہے کہ ہم اس میں شرکت کرلیں۔ کیوں؟ فقط اس لیے کہ یہ لوگ ایسے شخص کی تقریب میںیا دعوت میں شریک ہوگئے جس نے ہمیں گالی دے دی، ہماری آبرو گرادی، ہماری بہو بیٹی پر تہمت لگا دی، چاہے لوگ اس گالی دینے والے کے فعل سے کتنے ہی ناراض ہوں، مگر اس کی تقریب میں شرکت کے جرم میں ان سے بھی ہمارا قطع تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا پاک ارشاد یہ ہے کہ ہم خود بھی اس کی اِعانت سے ہاتھ نہ روکیں اورہمارا عمل یہ ہے کہ کوئی دوسرا بھی اس کی دعوت کر دے تو ہم اس دوسرے سے بھی تعلقات منقطع کر دیں، لیکن جن کے دل میں حقیقی ایمان ہے، اللہ کی عظمت ان میں راسخ ہے، اس کے پاک ارشاد کی ان کو وقعت ہے، انھوںنے اس پرعمل کر کے دکھا دیا کہ اطاعت کرنا اس کو کہتے ہیں، مطیع ایسے ہوتے ہیں۔ اللہ اپنے عالی شان کے موافق ان پر رحمتیں نازل فرمائے اور ان کے شان کے موافق ان کے درجات بلند فرمائے۔ آخر یہ بھی جذبات رکھتے تھے، غیرت حمیّت رکھتے تھے، ان کے سینوں میں دل اور اس میں جذبات بھی تھے،لیکن اللہ کی رضا کے سامنے کیسا دل اورکہاں کے جذبات؟ کیسی غیرت اورکہاں کی بدنامی؟ اللہ کی رضا کے مقابلہ میں سب چیز فنا تھی۔
۳۔ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَانًاط حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ 


اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا۔ (بالخصوص 
کُرْھًا ط وَحَمْلُہٗ وَ فِصَالُہٗ ثَلٰـثُوْنَ شَھْرًاط حَتّٰی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً  قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِیْ ٓ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ ط اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ o اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ نَتَقَبَّلُ عَنْھُمْ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَ نَتَجَاوَزُ عَنْ سَیِّاٰتِھِمْ فِیٓ اَصْحَابِ الْجَنَّۃِ ط وَعْدَ الصِّدْقِ الَّذِیْ کَانُوْا یُوْعَدُوْنَ o (الأحقاف: ع ۲)


ماں کے ساتھ احسان کا اور بھی زیادہ، کیوںکہ) اس کی ماںنے بڑی مشقت کے ساتھ اس کوپیٹ میںرکھا اور بڑی مشقت سے اس کو جنا، اور اس کو پیٹ میں رکھنے اور دودھ چھڑانے میں (اکثر کم سے کم) تیس مہینے ہو جاتے ہیں، (کتنی طویل مشقت ہے) یہاںتک کہ جب وہ بچہ جوان ہوتا ہے، (اور دانائی کے زمانہ) چالیس برس کو پہنچتا ہے تو (جو سعید ہوتا ہے وہ) کہتاہے: اے میرے پروردگار! مجھے اس پر مداومت دیجیے کہ میں ان نعمتوں کا 
شکر ادا کروں جو آپ نے مجھ کو اور میرے والدین کو  عطا فرمائیں، اور( اس کی توفیق دیجیے کہ) میںا یسے نیک کام کیا کروں جن سے آپ راضی ہوجائیں اور میری اولاد میں بھی میرے (نفع کے) لیے صلاحیت پیدا فرما دیں۔ میں (اپنے سارے گناہوں سے) توبہ کرتا ہوں اور میں آپ کے فرماںبرداروں سے ہوں۔ (آگے حق تعالیٰ شا نہٗ ان لوگوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ) یہی لوگ ہیں جن کے نیک کاموں کو ہم قبول کرلیں گے اور ان کی برائیوں سے درگزر کریں گے اس طرح پر کہ یہ جنت والوں میں سے ہوں گے، یہ اس وعدہ کی وجہ سے ہے جس کاان سے دنیا میں وعدہ کیا جاتا تھا (کہ نیک اعمال کا صلہ جنت ہے)۔
فائدہ: حق تعالیٰ شا نہٗ نے اہلِ قرابت اور والدین کے بارے میں بار بار تاکید فرمائی جیسا کہ پہلی آیتِ شریفہ کے ذیل میں گزر چکا۔ اس آیتِ شریفہ میں خاص طور سے والدین کے بارے میں احسان کی خصوصی تاکید فرمائی کہ ہم نے والدین کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا ہے۔ یہ مضمون اسی عنوان سے کہ ہم نے والدین کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا، تین جگہ قرآنِ پاک میں وارد ہے۔ پہلی جگہ سورئہ عنکبوت رکوع ( ۱ ) میں، پھر سورۂ لقمان رکوع (۲)میں، تیسری جگہ یہاں جس سے بہت زیادہ تاکید معلوم ہوتی ہے۔
صاحب ’’ِخازن‘‘ نے لکھا ہے کہ یہ آیتِ شریفہ حضرت ابوبکر صدیقؓکی شان میں نازل ہوئی کہ اِبتداء ًا ان کی رفاقت حضورِ اقدسﷺ کے ساتھ شام کے سفر میں ہوئی تھی جب کہ ان کی عمر اٹھارہ سال کی تھی اور حضورﷺکی عمر شریف بیس سال کی تھی۔ اس سفر میں راستہ میں ایک بیری کے درخت کے پاس ان دونوں کا قیام ہوا۔ حضرت ابوبکرؓ وہاں ایک راہب تھا اس سے ملنے تشریف لے گئے اور حضورﷺ درخت کے سایہ میں تشریف فرما رہے۔ اس راہب نے حضرت ابوبکرؓ سے پوچھا کہ یہ شخص جو درخت کے نیچے ہے کون ہے؟ آپ نے فرمایا: محمد بن عبداللہ بن عبدالمطّلب۔ راہب نے کہا: خدا کی قسم! یہ نبی ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے بعد سے اس درخت کے نیچے کوئی نہیں بیٹھا، یہی نبی ٔ آخر الزماںہیں۔ جب حضورﷺکی عمر شریف چالیس سال کی ہوئی اور آپ کو نبوت ملی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ مسلمان ہوئے اور دو برس بعد جب آپ کی عمر چالیس سال کی ہوئی تو یہ دعا کی: رَبِّ اَوْزِعْنِیْ کہ مجھے توفیق دیجیے کہ میںاس نعمت کا شکر ادا کروں جو مجھ پر اور میرے والدین پرہوئی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ یہ فضیلت مہاجرین میں کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی کہ اس کے ماں باپ دونوں مسلمان ہوئے ہوں۔ اور دوسری دعا اولاد کے متعلق صلاحیت کی فرمائی جس کا ثمرہ یہ ہے کہ آپ کی اولاد بھی مسلمان ہوئی۔ (تفسیرِخازن)
 سب سے پہلی آیت سورئہ عنکبوت والی اور بھی زیادہ سخت ہے کہ اس میں ان والدین کے ساتھ بھلائی کا حکم ہے جو کافر ہوں۔ اور جب کافر والدین کے ساتھ بھی حق تعالیٰ شا نہٗ کی طرف سے اچھا برتائو اور بھلائی کرنے کا حکم ہے تو مسلمان والدین کے ساتھ بھلائی اور احسان کی تاکید بطریقِ اولیٰ ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقّاصؓ فرماتے ہیں کہ جب میں مسلمان ہوا تو میری ماں نے یہ عہد کرلیا کہ میں نہ کھانا کھائوں گی نہ پانی پیئوں گی، جب تک کہ تُو محمد(ﷺ) کے دین سے نہ پھرے گا۔ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا،حتیٰ کہ زبردستی اس کے منہ میں ڈالا جاتا تھا۔ اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی۔ (دُرِّمنثور) عبرت کامقام ہے کہ ایسی سخت حالت میں بھی اللہ پاک کاارشاد ہے کہ ہم نے آدمی کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کا حکم دیا ہے۔ البتہ اگر وہ مشرک بنانے کی کوشش کریں تو اس میں اطاعت نہیں ہے۔ حضرت حسن ؒ سے کسی نے پوچھا کہ والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی کیا مقدار ہے؟ انھوںنے فرمایا کہ جو کچھ تیری مِلک میں ہے ان پرخرچ کرے اورجو وہ حکم کریں اس کی اطاعت کرے، بجز اس کے کہ وہ کسی گناہ کا حکم کریں کہ اس میں اطاعت نہیں ہے۔ 
یہ تھی اسلام کی تعلیم، مسلمانوں کا عمل، کہ مشرک والدین اگر اولاد کو مشرک بنانے کی کوشش بھی کریں تب بھی ان کے ساتھ بھلائی کاحکم ہے۔ البتہ شرک کرنے میں ان کی اطاعت اور فرماںبرداری نہیں، اس لیے کہ یہ خالق کا حق ہے۔ والدین کا حق خواہ کتنا ہی کیوں نہ ہو جائے مالک کے حق کے مقابلہ میں کسی کا حق نہیں ہے۔ لَا طَاعَۃَ لِلْمَخْلُوْقِ فِيْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ۔ ’’خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں‘‘۔
 لیکن ان کے اس حکم اور اولاد کو مشرک بنانے کی کوشش پر بھی ان کے ساتھ احسان کا، بھلائی کا حکم ہے۔ ایک اور حدیث میںسورئہ لقمان والی آیت کے متعلق وارد ہوا ہے کہ یہ حضرت سعد ؓ کے واقعہ میں نازل ہوئی۔ اس حدیث میں ہے حضرت سعدؓ فرماتے ہیں کہ میں اپنی والدہ کے ساتھ بہت سلوک کیاکرتا تھا۔ جب میں مسلمان ہوگیا تومیری والدہ نے کہا: سعد! یہ کیا کیا؟ یا تواس دین کو چھوڑ دے ورنہ میں کھانا چھوڑ دوںگی یہاں تک کہ مرجائوں گی، ہمیشہ تیرے لیے یہ طعن کی چیز رہے گی، لوگ تجھے اپنی ماں کا قاتل کہیں گے۔ میں نے اس سے کہا کہ ایسا نہ کر، میں اپنا دین توچھوڑ نہیں سکتا۔ اُس نے ایک دن بالکل نہ کھایا نہ پیا۔ دوسرا دن بھی اسی حال میں گزرگیا، تو میں نے اس سے کہا کہ اگر تمہاری سو جانیں ہوں اور ایک ایک کرکے سب ختم ہو جائیں، تب بھی دین تو نہیں چھوڑ سکتا۔ جب اس نے یہ پختگی دیکھی تو کھانا پینا شروع کر دیا۔ (دُرِّمنثور)
اس آیتِ شریفہ میں والدین کے ساتھ نیک سلوک کا حکم ہے۔ فقیہ ابوللیث ؒ فرماتے ہیں کہ اگر حق تعالیٰ شا نہٗ والدین کے حق کا حکم نہ بھی فرماتے تب بھی عقل سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کا حق بہت ضروری اور اہم ہے، چہ جائے کہ اللہ نے اپنی سب کتابوں تورات، انجیل، زبور، قرآنِ شریف میں ان کے حق کا حکم فرمایا۔ تمام انبیائے کرام ؑ کو ان کے حق کے بارے میں وحی بھیجی اور تاکید فرمائی۔ اپنی رضا کو والدین کی رضا کے ساتھ وابستہ کیا اور ان کی ناراضی پر اپنی ناراضی مرتب فرمائی۔ (تنبیہ الغافلین)
یہ تین آیات حسنِ سلوک کے متعلق تھیں، اس کے بعد صرف تین آیات بدسلوکی پر تنبیہ کے متعلق بھی ذکر کرتا ہوں۔
۱۔ وَمَا یُضِلُّ بِہٖٓ اِلاَّ الْفٰسِقِیْنَ o الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھَدَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَیَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہِ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِط اُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ o (البقرۃ:ع۳)


اور نہیں گمراہ کرتے اللہ تعالیٰ شا نہٗ اس مثال سے (جس کا پہلی آیت میں ذکر ہوا)، مگر ایسے فاسق لوگوں کو جو توڑتے رہتے ہیں اس معاہدہ کو جو اللہ تعالیٰ سے کرچکے تھے اس معاہدہ کی پختگی کے بعد۔ اورقطع کرتے 
رہتے ہیں ان تعلقات کو جن کے وابستہ رکھنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا۔ اور فساد کرتے رہتے ہیں زمین میں۔ یہی لوگ ہیں پورے خسارہ والے۔
فائدہ: جیسا کہ اللہ نے قرآنِ پاک میںکئی جگہ صلۂ رحمی بالخصوص والدین کے حقوق کی رعایت کا حکم اور ترغیب فرمائی، جیساکہ اوپرگزرا، اسی طرح سے بہت سی جگہ اپنے پاک کلام میں قطعِ رحمی بالخصوص والدین کے ساتھ بدسلوکی پر بھی تنبیہ فرمائی۔ پہلے کی طرح ان میں سے بھی چند آیات کا حوالہ لکھتا ہوں۔ دوستو! غور کرو، اللہ کے پاک کلا م میں جب بار بار اس پر تنبیہ ہے تو اس کو سوچو اور عبرت حاصل کرو۔ اللہ کاپاک ارشاد ہے: 
۱۔ وَاتَّقُوْا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ (النساء : ع۱) 
۲۔ وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ (الأنعام :ع ۱۹) 
۳۔ وَلَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلاَقٍ (بني إسرائیل : ع ۴) 
۴۔ وَالَّذِیْ قَالَ لِوَالِدَیْہِ الآیۃ (الأحقاف : ع ۲) 
۵۔ اَنْ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا اَرْحَامَکَمْ (محمد : ع۳)
حضرت محمد باقر ؒکو ان کے والد نے جو خاص طور سے اہتمام سے وصیت فرمائی ہے، جو پہلی فصل کی احادیث کے سلسلہ میں نمبر (۲۳) پر بھی گزر چکی ہے، وہ بہت تجربہ کی بات ہے۔ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے میرے والد (حضرت امام زین العابدین ؒ) نے وصیت فرمائی ہے کہ پانچ قسم کے آدمیوں کے پاس نہ پھٹکیو، ا ن سے بات نہ کی جیو، حتیٰ کہ راستہ چلتے ہوئے اتفاقًا بھی ان کے ساتھ نہ چلنا۔ 
اول: فاسق شخص کہ وہ ایک لقمہ کے بدلہ میں تجھ کو بیچ دے گا، بلکہ ایک لقمہ سے کم میں بھی۔ میں نے پوچھا کہ ایک لقمہ سے کم میں کس طرح بیچے گا؟ فرمانے لگے کہ محض لقمہ کی امیدپر تجھ کو بیچ دے گا اور وہ لقمہ اس کو میسر بھی نہ ہوگا۔ نمبر ۲: بخیل کہ وہ تیری سخت احتیاج کے وقت بھی تیرے سے کنارہ کش ہو جائے گا۔ نمبر۳: جھوٹا شخص کہ وہ بالُو (دھوکہ) کی طرح سے تجھے دھوکا میں رکھے گا۔ جو چیز دور ہوگی اس کو قریب بتائے گا، جو قریب ہوگی اس کو دور ظاہر کرے گا۔ نمبر ۴: بے وقوف کے پاس نہ لگنا کہ وہ تجھے نفع پہنچانے کا ارادہ کرے گا تب بھی اپنی حماقت سے نقصان پہنچا دے گا۔ مثل مشہور ہے کہ دانا دشمن نادان دوست سے بہتر ہے۔ نمبر۵: قطع رحمی کرنے والے کے پاس نہ جائیو کہ میں نے قرآنِ پاک میں تین جگہ اس پر اللہ کی لعنت پائی ہے۔ (روض الریاحین)
۲۔ وَالَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْ بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوَْنَ مَآ اَمَر َاللّٰہُ بِہٖ اَنْ یُّوْصَلَ وَیُفْسِدُوْنَ فِیْ الْاَرْضِط اُولٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَھُمْ سُوٓئُ الدَّارِo (الرعد : ع ۳)


اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کے معاہدہ کو اس کی پختگی کے بعد توڑتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے  جن تعلقات کے جوڑنے کا حکم فرمایا ان کو توڑتے ہیں، اور دنیا میں فساد کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر لعنت ہے اور ان کے لیے اس جہان میں خرابی ہے۔
فائدہ: حضرت قتادہ  ؒ سے نقل کیا گیا کہ اس سے بہت احتراز کرو کہ عہد کرکے توڑ دو۔ اللہ  نے اس کو بہت ناپسند کیا ہے اور بیس آیتوں سے زائد میں اس پر وعید فرمائی ہے، جو نصیحت کے طور پر اور خیر خواہی کے طور پر اور حجت قائم کرنے کے لیے وارد ہوئی ہیں۔ مجھے معلوم نہیں کہ اللہ نے عہدکے توڑنے پر جتنی وعیدیں فرمائی ہیں اس سے زائد کسی اور چیز پرفرمائی ہوں۔ پس جو شخص اللہ کے واسطہ سے عہد کرلے اس کو ضرور پورا کرے۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے خطبہ میں فرمایا کہ جو شخص امانت کو واپس نہ کرے اس کاایمان ہی نہیں اور جو عہد کو پورا نہ کرے اس کا دین نہیں۔ حضرت ابو امامہ اور حضرت عبادہ ? سے بھی یہ مضمون نقل کیا گیا۔ (دُرِّمنثور)
حضرت میمون بن مہران ؒ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ ان میں کافر مسلمان کی کوئی تفریق نہیں، سب کا حکم برابر ہے۔ اوّل جس سے معاہدہ کیا جائے اس کو پورا کیا جائے، چاہے وہ معاہدہ کافر سے کیا ہو یا مسلمان سے۔ اس لیے کہ عہد حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے ہے۔ دوسرے جس سے رشتہ کا تعلق ہو اس کی صلۂ رحمی کی جائے، چاہے وہ رشتہ دار مسلمان ہو یا کافر۔ تیسرے جو شخص امانت رکھوائے اس کی امانت واپس کی جائے، امانت رکھوانے والا مسلمان ہو یا کافر ہو۔ (تنبیہ الغافلین)
قرآن پاک میں بہت سی آیات کے علاوہ ایک جگہ خاص طور سے اسی کا حکم ہے:
{وَاَوْفُوْا بِالْعَھْدِج اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاًo}     (بني إسرائیل: ع۴)
عہد کو پورا کیا کرو، بے شک عہد کی باز پُرس ہوگی۔
حضرت قتادہ ؒ فرماتے ہیں کہ جن تعلقات کو جوڑنے کا حکم فرمایا، اس سے رشتہ داریاں قریب کی اور دور کی مراد ہیں۔ (دُرِّمنثور) دوسری چیز تعلقات کے توڑنے کے متعلق ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒفرماتے ہیں کہ جو شخص قرابت کے تعلقات کو توڑنے والا ہو اس سے میل جول پیدا نہ کی جیو کہ میں نے قرآنِ پاک میں دو جگہ ان لوگوں پر لعنت پائی ہے، ایک اس آیتِ شریفہ میں دوسری سورئہ محمد میں۔ (دُرِّمنثور)
سورئہ محمد کی آیتِ شریفہ کا حوالہ قریب گزر چکا ہے، جس میں قطع رحمی کے بعد ارشاد فرمایا ہے: یہی لوگ ہیں جن پراللہ نے لعنت کی ہے، پھر (ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اَحکام سننے سے) بہرہ کر دیا اور (راہِ حق) دیکھنے سے اندھا کر دیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے دو جگہ لعنت کا لفظ فرمایا اور حضرت زین العابدین ؒنے، جیسا کہ ابھی گزرا، تین جگہ فرمایا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ دو جگہ تو لعنت ہی کا لفظ ہے سورئہ رعد اور سورئہ محمد میں، اور تیسری جگہ ان کو گمراہ اور خسارہ والا فرمایا ہے جو لعنت ہی کے قریب ہے، جیسا کہ اس سے پہلے نمبر پر سورئہ بقرہ کی آیت میں ابھی گزرا ہے۔
حضرت سلمانؓ حضورِاقدسﷺ کا پاک ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جس وقت کہ قول ظاہر ہوجائے اور عمل خزانہ میں چلا جائے، یعنی تقریریں تو بہت ہونے لگیں، مضامین بہت کثرت سے لکھے جائیں، لیکن عمل ندارد ہو جائے گویا مقفَّل رکھا ہوا ہے، اور زبانی اتفاق تو آپس میں ہو جائے لیکن قلوب مختلف ہوں، اور رشتہ دار آپس کے تعلقات توڑنے لگیں، تو اس وقت میں اللہ ان کواپنی رحمت سے دورکر دیتے ہیں اور اندھا بہرہ کر دیتے ہیں۔
حضرت حسنؓ سے بھی حضورِ اقدسﷺ کا یہ ارشاد نقل کیاگیا کہ جب لوگ علوم کو ظاہر کریں اور عمل کو ضائع کر دیں، اورزبانوں سے محبت ظاہر کریں اور دلوں میں بغض رکھیں، اور قطع رحمی کرنے لگیں، تو اللہ اس وقت ان کو اپنی رحمت سے دور کر دیتے ہیں اور اندھا بہرہ کر دیتے ہیں۔ (دُرِّمنثور) کہ پھر نہ سیدھا راستہ ان کو نظر آتا ہے نہ حق بات ان کے کانوں میں پہنچتی ہے۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ جنت کی خوشبو اتنی دور تک جاتی ہے کہ وہ راستہ پانچ سو برس میں طے ہو۔ والدین کی نافرمانی کرنے والا اور قطع رحمی کرنے والا جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا۔ (اِحیاء العلوم) 
حضرت عبداللہ بن ابی اَوفیؓ فرماتے ہیں کہ ہم عرفہ کی شام کو حضورِاقدسﷺ کی خدمت میں حلقہ کے طور پر چاروں طرف بیٹھے تھے، حضورﷺ نے فرمایا کہ مجمع میں کوئی شخص قطع رحمی کرنے والا ہو تو وہ اٹھ جائے پاس نہ بیٹھے۔ سارے مجمع میںسے صرف ایک صاحب اٹھے، جو دور بیٹھے ہوئے تھے اور پھر تھوڑی دیر میں واپس آکر بیٹھ گئے۔ حضورﷺ نے ان سے دریافت فرمایاکہ میرے کہنے پر مجمع میں سے صرف تم اٹھے تھے اور پھر آکر بیٹھ گئے، یہ کیا بات ہے؟ انھوںنے عرض کیا کہ حضور کا ارشاد سن کر میں اپنی خالہ کے پاس گیا تھا، اس نے مجھ سے قطع تعلق کر رکھا تھا۔ میرے جانے پر اس نے کہا کہ تُو خلافِ عادت کیسے آگیا؟ میں نے آپ کا ارشاد مبارک سنایا، اس نے میرے لیے دعائے مغفرت کی، میں نے اس کے لیے دعائے مغفرت کی ( اور آپس میں صلح کرکے واپس حاضر ہوگیا )۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم نے بہت اچھا کیا، بیٹھ جائو۔ اس قوم پر اللہ کی رحمت نازل نہیں ہوتی جس میں کوئی قطع رحمی کرنے والا ہو۔
فقیہ ابواللیث ؒ نے اس کو نقل کیا ہے، لیکن صاحب ’’ِکنز‘‘ نے اس کے ایک راوی کے متعلق ابنِ مَعین سے کِذب کی نسبت نقل کی ہے۔ (کنز العمال) فقیہ ابو للیث  ؒ فرماتے ہیں: اس قصہ سے معلوم ہوا کہ قطع رحمی اتنا سخت گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے اس کے پاس بیٹھنے والے بھی اللہ کی رحمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ جو شخص اس میں مبتلا ہو وہ اس سے توبہ کرے اور صلۂ رحمی کا اہتمام کرے۔ حضورﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ کوئی نیکی جس کا ثواب بہت جلد ملتا ہو صلۂ رحمی سے بڑھ کر نہیں۔ اور کوئی گناہ جس کا وبال دنیا میں اس کے علاوہ ملے جو آخرت میں ملے گا قطع رحمی اور ظلم سے بڑھ کر نہیں ہے۔ (تنبیہ الغافلین)
متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ قطع رحمی کاوبال آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی پہنچتا ہے اور آخرت میںبرے ٹھکانہ کا تو خود اس آیتِ شریفہ ہی میں ذکر ہے۔ فقیہ ابوللیث ؒ نے ایک عجیب قصہ لکھا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک نیک شخص امانت دار خراسان کے رہنے والے تھے۔ لوگ ان کے پاس اپنی امانتیں رکھوایا کرتے تھے۔ ایک شخص ان کے پاس دس ہزار اشرفیاں امانت رکھوا کر اپنی کسی ضرورت سے سفر میں چلا گیا۔ جب وہ سفر سے واپس آیا تو اس خراسانی کا انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے اہل و عیال سے اپنی امانت کاحال پوچھا، انھوںنے لاعلمی ظاہر کی۔ ان کو بڑافکر ہوا کہ بہت بڑی رقم تھی۔ علمائے مکہ مکرمہ سے کہ اتفاق سے اس وقت ایک مجمع ان کاموجود تھا، مسئلہ پوچھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ انھوںنے کہا کہ وہ آدمی تو بہت نیک تھا، ہمارے خیال میں جنتی آدمی تھا۔ تُو ایک ترکیب کر۔ جب آدھی یاتہائی رات گزر جائے توزمزم کے کنویں پرجا کر اس کانام لے کر پکار کے اس سے دریافت کر۔ اس نے تین دن تک ایسا ہی کیا۔ وہاں سے کوئی جواب نہ ملا۔ اس نے پھر جاکر ان علماء سے تذکرہ کیا، انھوںنے إِنَّا لِلّٰہِ پڑھا اور کہا کہ ہمیں تو یہ ڈر ہوگیا کہ وہ شاید جنتی نہ ہو، تو فلاں جگہ جا وہاں ایک وادی ہے جس کا نام برہوت ہے۔ اس میں ایک کنواں ہے،اس کنویں پر آواز دے اس نے ایسا ہی کیا۔ وہاںسے پہلی ہی آواز میں جواب ملا کہ تیرا مال ویسا ہی محفوظ رکھا ہے۔ مجھے اپنی اولاد پراطمینان نہ ہوا، اس لیے میں نے فلاں جگہ مکان کے اندر اس کوگاڑ دیا ہے۔ میرے لڑکے سے کہہ کہ تجھے اس جگہ پہنچا دے، وہاں سے زمین کھود کر اس کو نکال لے۔ چناں چہ اس نے ایسا ہی کیا اور مال مل گیا۔ اس شخص نے وہاں بہت تعجب سے اس سے یہ بھی دریافت کیا کہ تُو تو بہت نیک آدمی تھا تو یہاں کیوں پہنچ گیا۔ کنویں سے آواز آئی کہ خراسان میں میرے کچھ رشتہ دار تھے جن سے میں نے قطع تعلق کررکھا تھا۔ اسی حال میں میری موت آگئی، اس کی گرفت میں میں یہاں پکڑا ہوا ہوں۔ (تنبیہ الغافلین)
حضرت علی ؓ سے نقل کیا گیا کہ سب سے بہترین وادی تمام وادیوں میں مکہ مکرمہ کی وادی ہے اور ہندوستان کی وہ وادی جہاں حضرت آدم ؑ جنت سے اترے تھے، اسی جگہ ان خوشبوئوں کی کثرت ہے جن کو لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اور بدترین وادی اَحقاف ہے اور وادیٔ حضر موت جس کوبرہوت کہتے ہیں۔ اور سب سے بہترین کنواں دنیا میںزمزم کا ہے اور بدترین کنواںبرہوت کا ہے، جس میں کفار کی روحیں جمع ہوتی ہیں۔ (دُرِّمنثور) ان روحوں کا کسی وقت ان مواقع میںہونا شرعی حجت نہیں ہے، کشفی امور سے تعلق رکھتا ہے، جو حق تعالیٰ شانہٗ جس پر چاہے کسی وقت منکشف فرما دیتے ہیں، لیکن کشف شرعی حجت نہیں ہے۔
۳۔ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَا اَوْ کِلاَھُمَآ فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّلاَ 


اگر وہ (یعنی ماں باپ) تیرے سامنے (یعنی تیری زندگی میں) بڑھاپے کو پہنچ 
تَنْھَرْھُمَا وَقُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًاo وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰبِنیْ صَغِیْرًاo رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِکُمْ ط اِنْ تَکُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّہٗ کَانَ  لِلاَ وَّابِیْنَ غَفُوْرًاo
(بني إسرائیل : ع۳)


جائیں، چاہے ایک ان میں سے پہنچے یا دونوں، (اور بڑھاپے کی بعض باتیں جوانوں کو گراں ہونے لگتی ہیں اور اس وجہ سے ان کی کوئی بات تجھے گراںہونے لگے) تب بھی ان سے کبھی ’’ہوں‘‘ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا، ان سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے 
سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کرتے رہنا کہ اے ہمارے پروردگار! تُو ان پر رحمت کر جیسا کہ انھوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے۔ (اور صرف ظاہر داری ہی نہیں بلکہ دل سے ان کا احترام کرنا) تمہارا ربّ تمہارے دل کی بات کو خوب جانتا ہے، اگر تم سعادت مند ہو۔ (اور غلطی سے کوئی بات خلافِ ادب سرزد ہو جائے اور تم توبہ کرلو) تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بڑی کثرت سے معاف کرنے والا ہے۔
فائدہ: حضرت مجاہد ؒ سے اس کی تفسیر میں نقل کیا گیا کہ اگر وہ بوڑھے ہو جائیں اور تمہیں ان کا پیشاب پاخانہ دھونا پڑ جائے تو کبھی ’’اُف‘‘ بھی نہ کرو، جیسا کہ وہ بچپن میں تمہارا پیشاب پاخانہ دھوتے رہے ہیں۔
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ اگر بے ادبی میں ’’اُف‘‘ کہنے سے کوئی ادنیٰ درجہ ہوتا تو اللہ اس کوبھی حرام فرما دیتے۔ حضرت حسنؓسے کسی نے پوچھا کہ نافرمانی کی مقدار کیا ہے؟ انھوںنے فرمایا کہ اپنے مال سے ان کو محروم رکھے اور ملنا چھوڑ دے اور ان کی طرف تیزنگاہ سے دیکھے۔ حضرت حسنؓسے کسی نے پوچھا کہ ان سے ’’قولِ کریم‘‘ کاکیا مطلب ہے؟ انھوںنے فرمایا کہ ان کو ’’اماں، ابّا‘‘ کر کے خطاب کرے، ان کانام نہ لے۔ حضرت زبیر بن محمد ؒ سے اس کی تفسیر میں نقل کیا گیا کہ جب وہ پکاریں تو حاضر ہوں، حاضر ہوں سے جواب دے ۔ حضرت قتادہ ؒ سے نقل کیا گیا کہ نرمی سے بات کرے۔ حضرت سعید بن المسیب ؒسے کسی نے عرض کیا کہ قرآنِ پاک میں حسنِ سلوک کا حکم تو بہت جگہ ہے اور میں اس کو سمجھ گیا، لیکن ’’قولِ کریم‘‘ کامطلب سمجھ میںنہیں آیا۔ تو انھوںنے فرمایا: جیساکہ بہت سخت مجرم غلام سخت مزاج آقا سے بات کرتا ہے۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺکی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے۔ ان کے ساتھ ایک بڑے میاںبھی تھے۔ حضورﷺ نے اُن سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ انھوںنے عرض کیا کہ یہ میرے والد ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ ان سے آگے نہ چلنا، ان سے پہلے نہ بیٹھنا، ان کا نام لے کر نہ پکارنا اور ان کو برا نہ کہنا۔
حضرت عُروہ ؒ سے کسی نے پوچھا کہ قرآنِ پاک میںان کے سامنے جھکنے کا حکم فرمایا ہے، اس کا کیامطلب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ اگر وہ کوئی بات تیری ناگواری کی کہیں تو ترچھی نگاہ سے ان کو مت دیکھ کہ آدمی کی ناگواری اوّل اس کی آنکھ سے ہی پہچانی جاتی ہے۔
حضرت عائشہؓ حضورِاقدسﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ جس نے باپ کی طرف تیز نگاہ کرکے دیکھا وہ فرماں بردار نہیں ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورﷺ سے دریافت کیا  کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کیا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ نماز کا اپنے وقت پر پڑھنا۔ میں نے عرض کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ میں نے عرض کیا: اس کے بعد؟ حضورﷺ نے فرمایا: جہاد۔ ایک اور حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد وارد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا والد کی رضا میں ہے اور اللہ کی ناراضی والد کی ناراضی میں ہے۔ (دُرِّمنثور)

صاحبِ ’’مظاہر‘‘ نے لکھا ہے کہ ماں باپ کے حقوق میں ہے کہ ایسی تواضع اور تملُّق کرے اور ادائے خدمت کرے کہ وہ راضی ہو جائیں۔ جائز کاموں میں ان کی اطاعت کرے، بے ادبی نہ کرے، تکبر سے پیش نہ آئے اگرچہ وہ کافر ہی ہوں۔ اپنی آواز کو ان کی آواز سے بلند نہ کرے، ان کو نام لے کر نہ پکارے،کسی کام میں ان سے پہل نہ کرے، امر بالمعروف نہی عن المنکرمیں نرمی کرے۔ ایک بار کہے، اگر وہ قبول نہ کریں تو خود سلوک کرتا رہے اور ان کے لیے دعا و اِستغفار کرتا رہے، اور یہ بات قرآنِ پاک سے نکالی ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم علیٰ نبینا وﷺ کی اپنے باپ کو نصیحت کرنے سے۔ (مظاہر بتغیر) یعنی حضرت ابراہیمﷺ نے ایک مرتبہ نصیحت کرنے کے بعد کہہ دیا تھا کہ اچھا اب میںا للہ سے تمہارے لیے دعا کرتا ہوں جیساکہ سورۂ مریم کے تیسرے رکوع میں آیا ہے۔ حتیٰ کہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ ان کی اطاعت حرام میں تو ناجائز ہے، لیکن مشتبہ امور میں واجب ہے۔ اس لیے کہ مشتبہ امور سے اِحتیاطِ تقویٰ اورا ن کی رضا جوئی واجب ہے۔ پس اگر ان کامال مشتبہ ہو  اور وہ تیرے علیحدہ کھانے سے مکدر ہوں تو ان کے ساتھ کھانا چاہیے۔
حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں جس کے والدین حیات ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہو، اس کے لیے جنت کے دو دروازے نہ کھل جاتے ہوں۔ اور اگر ان کو ناراض کر دے تو اللہ اس وقت تک راضی نہیں ہوتے جب تک ان کو راضی نہ کرلے۔ کسی نے عرض کیاکہ اگر وہ ظلم کرتے ہوں؟ ابنِ عباس? نے فرمایا: اگرچہ وہ ظلم کرتے ہوں۔
حضرت طلحہؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوئے اور جہاد میں شرکت کی درخواست کی۔ حضورﷺنے فرمایا: تمہاری والدہ زندہ ہیں؟ انھوںنے عرض کیا: زندہ ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ ان کی خدمت کو مضبوط پکڑ لو جنت ان کے پائوں کے نیچے ہے۔ پھر دوبارہ اور سہ بارہ حضورﷺ نے یہی ارشاد فرمایا۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص حضورﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یارسول اللہ! میرا جہاد کو بہت دل چاہتا ہے لیکن مجھ میں قدرت نہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ انھوںنے عرض کیا: والدہ زندہ ہیں۔ حضورﷺنے فرمایا کہ ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ (یعنی ان کے حقوق کی ادائیگی میںفتویٰ سے آگے بڑھ کر تقویٰ پر عمل کرتے رہو) جب تم ایسا کرو گے تو تم حج کرنے والے بھی ہو، عمرہ کرنے والے بھی، جہاد کرنے والے بھی ہو۔ یعنی جتنا ثواب ان چیزوں میں ملتا اتنا ہی تمہیں ملے گا۔
حضرت محمد بن المنکدر ؒکہتے ہیں کہ میرا بھائی عمر تو نماز پڑھنے میں رات گزارتا تھا اور میں والدہ کے پائوں دبانے میں رات گزارتا تھا، مجھے اس کی کبھی تمنا نہ ہوئی کہ ان کی رات (کا ثواب) میری رات کے بدلہ میں مجھے مل جائے۔
حضرت عائشہؓکہتی ہیں میں نے حضورِ اقدسﷺ سے دریافت کیا کہ عورت پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: خاوند کا۔ میں نے پھر پوچھا کہ مرد پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ حضورﷺنے فرمایا: ماں کا۔ ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ تم لوگوں کی عورتوں کے ساتھ عفیف رہو تمہاری عورتیں بھی عفیف رہیں گی۔ تم اپنے والدین کے ساتھ نیکی کا برتائو کرو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ نیکی کا برتائو کرے گی۔ (دُرِّمنثور)
حضرت طائوس ؒکہتے ہیں کہ ایک شخص کے چار بیٹے تھے۔ وہ بیمار ہوا، ان بیٹوں میں سے ایک نے اپنے تین بھائیوں سے کہا کہ اگر تم باپ کی تیمارداری اس شرط پر کرو کہ تم کو باپ کی میراث میں سے کچھ نہیں ملے گا تو تم کرو، ورنہ میں اس شرط پر تیمارداری کرتا ہوں کہ میراث میں سے کچھ نہ لوں گا۔ وہ اس پرراضی ہو گئے کہ تو ہی اس شرط پر تیماردای کر ہم نہیں کرتے۔ اس نے خوب خدمت کی لیکن باپ کا انتقال ہی ہوگیا اور شرط کے موافق اس نے کچھ نہ لیا۔ رات کو خواب میں دیکھا، کوئی شخص کہتا ہے: فلاں جگہ سو دینار (اشرفیاں) گڑی ہوئی ہیں، وہ تو لے لے۔ اس نے خواب میں ہی دریافت کیا کہ ان میں برکت بھی ہوگی۔ اس نے کہا کہ برکت ان میں نہیں ہے۔ صبح کو بیوی سے خواب کاذکر کیا، اس نے ان کے نکالنے پر اصرار کیا اس نے نہ مانا۔ دوسرے دن پھر خواب دیکھا جس میں کسی دوسری جگہ دس دینار بتائے۔ اس نے پھر وہی برکت کا سوال کیا، اس نے کہا کہ برکت ان میں نہیں ہے۔ اس نے صبح کو بیوی سے اس کا بھی ذکر کیا، اس نے پھر اصرار کیا مگر اس نے نہ مانا۔ تیسرے دن اس نے پھر خواب دیکھا، کوئی شخص کہتا ہے: فلاں جگہ جا، وہاں تجھے ایک دینار (اشرفی) ملے گا وہ لے لے۔ اس نے پھر وہی برکت کا سوال کیا، اس شخص نے کہا: ہاں اس میں برکت ہے۔ یہ جاکر وہ دینار لے آیا اور بازار جاکر اس سے دو مچھلیاں خریدیں جن میں سے ہر ایک کے اندرسے ایک ایسا موتی نکلا جس قسم کا عمر بھر کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ بادشاہِ وقت نے ان دونوں کو بہت اصرا ر سے نوّے خچروں کے بوجھ کے بقدر سونے سے خریدا۔
احادیث
۱۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِيْ؟ قَالَ: أُمُّکَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: أُمُّکَ۔ قَالَ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: أُمُّکَ۔ قَالَ: ثُمَّ  مَنْ؟ قَالَ: أَبُوْکَ۔  وَ فِيْ رِوَایَۃٍ قَالَ: أُمَّکَ، ثُمَّ أُمَّکَ، ثُمَّ أُمَّکَ، ثُمَّ أَبَاکَ، ثُمَّ أَدْنَاکَ فَأَدْنَاکَ ۔
متفق علیہ، کذا في المشکاۃ۔
حضورِ اقدس ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے رزق میں وسعت کی جائے اور اس کے نشاناتِ قدم میں تاخیر کی جائے اس کو چاہیے کہ صلۂ رحمی کرے۔
فائدہ: ’’نشاناتِ قدم میں تاخیر کیے جانے‘‘ سے عمر کی درازی مراد لی جاتی ہے۔ اس لیے کہ جس شخص کی جتنی عمر زیادہ ہوگی اتنے ہی زمانہ تک اس کے چلنے سے نشاناتِ قدم زمین پر پڑیں گے اور جو مرگیا اس کے پائوں کانشان زمین سے مٹ گیا۔
اس پر یہ اِشکال کیاجاتا ہے کہ عمر ہر شخص کی متعین ہے، قرآنِ پاک میںکئی جگہ یہ مضمون صراحت سے مذکور ہے کہ ہر شخص کا ایک مقررہ وقت ہے جس میںایک ساعت کی نہ تو تقدیم ہوسکتی ہے نہ تاخیر ہوسکتی ہے۔ اس وجہ سے درازیٔ عمر کو بعض علماء نے وسعتِ رزق کی طرح سے برکت پر محمول فرمایا ہے کہ اس کے اوقات میں اس قدر برکت ہوتی ہے کہ جو کام دوسرے لوگ دنوں میں کرتے ہیں وہ گھنٹوں میں کرلیتا ہے اور جس کام کو دوسرے لوگ مہینوں میں کرتے ہیںوہ دنوں میں کرتاہے۔ اور بعض علماء نے درازیٔ عمر سے اس کا ذکرِ خیر مراد لیا ہے کہ بہت دنوں تک اس کے کارناموںکے نشانات اور ذکرِ خیر اس کاجاری رہتا ہے۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ اس کی اولاد میں زیادتی ہوتی ہے جس کاسلسلہ اس کے مرنے کے بعد دیر تک رہتا ہے، اور یہی وجوہ اس کی ہوسکتی ہیں۔
جب نبی کریمﷺ نے جن کا قول سچا ہے ارشادِبرحق ہے، اس کی اطلاع دی ہے توصورت اس کی جو بھی ہو اس کا حاصل ہونا یقینی ہے۔ اوراللہ کی پاک ذات قادرِ مطلق اور مسبب الاسباب ہے۔ اس کو اسباب پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔ وہ ہر چیز کا جس کو وہ کرنا چاہے ایسا سبب پیداکر دیتا ہے کہ عُقَلا کی عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں۔ اس لیے اس میں نہ کوئی اِشکال ہے نہ کوئی مانع ہے۔ (مظاہر بتغیر)
مقدرات کا مسئلہ اپنی جگہ پر اٹل ہے، لیکن اس دنیاکو اللہ نے دارُالاسباب بنایا ہے اورہر چیز کے لیے ظاہری یا باطنی سبب پیدا کیا ہے۔ اگر ہیضہ کے بیمار کے لیے حکیم ڈاکٹر وغیرہ کے لیے ایک منٹ میں آدمی دوڑ سکتا ہے کہ شاید اس دوا سے فائدہ ہو، اس دوا سے فائدہ ہو، کیوں؟ تاکہ عمر باقی رہے، حالاںکہ وہ ایک مقررہ متعینہ چیزہے، پھر کوئی وجہ نہیں کہ بقائے عمر کے لیے اس سے زیادہ جدوجہد صلۂ رحمی میں نہ کی جائے۔ اس لیے کہ اس کا بقا اورطو لِ عمر کے لیے سبب ہونا یقینی ہے اور ایسے حکیم کا ارشاد ہے جس کے نسخہ میں کبھی غلطی نہ ہوئی ہو، اور ان معمولی حکیم ڈاکٹروں کے نسخوں اور تشخیص میں غلطی کے سینکڑوں احتمالات ہیں۔ حضورِاقدسﷺ کا یہ پاک ارشاد جو اوپر گزرا مختلف احادیث میں مختلف عنوانات سے وارد ہوا ہے، اس لیے اس میں تردّد نہیں۔ ایک حدیث میں حضرت علیؓ سے نقل کیا گیا کہ جو شخص ایک بات کا ذمہ لے لے میںاس کے لیے چارباتوں کا ذمہ لیتا ہوں۔ جو شخص صلۂ رحمی کرے اس کی عمر دراز ہوتی ہے، اَعِزَّہ اس سے محبت کرتے ہیں، رزق میں اس کے وسعت ہوتی ہے اور جنت میںداخل ہوتا ہے۔ (کنز العمال) حضورِاقدسﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے فرمایا کہ تین باتیں بالکل حق (اورپکی) ہیں۔
۱۔ جس شخص پر ظلم کیا جائے اور وہ چشم پوشی کرے اس کی عزت بڑھتی ہے۔
۲۔ جوشخص مال کی زیادتی کے لیے سوال کرے اس کے مال میں کمی ہوتی ہے۔ 
۳۔ جو شخص عطااور صلۂ رحمی کا دروازہ کھول دے اس کے مال میں کثرت ہوتی ہے۔ 
       (دُرِّمنثور)
فقیہ ابواللیث ؒ فرماتے ہیں کہ صلۂ رحمی میں دس چیزیں قابلِ مدح ہیں۔ اول یہ ہے کہ اس میں اللہ جل شا نہٗ عم نوالہٗ کی رضا و خوشنودی ہے کہ اللہ پاک کا حکم صلۂ رحمی کا ہے۔ دوسرے رشتہ داروں پر مسرت پیدا کرنا ہے اور حضورﷺکا پاک ارشاد ہے کہ افضل ترین عمل مؤمن کو خو ش کرنا ہے۔ تیسرے اس سے فرشتوں کو بھی بہت مسرت ہوتی ہے۔چوتھے مسلمانوں کی طرف سے اس شخص کی مدح اور تعریف ہوتی ہے۔ پانچویں شیطان علیہ اللعنۃ کو اس سے بڑا رنج ہوتا ہے۔ چھٹے اس کی وجہ سے عمر میںزیادتی ہوتی ہے۔ ساتویں رزق میں برکت ہوتی ہے۔ آٹھویں مُردوں کو اس سے مسرت ہوتی ہے کہ باپ دادا جن کا انتقال ہوگیا ان کو جب اس کی خبر ہوتی ہے تو ان کو بڑی خوشی اس سے ہوتی ہے۔ نویں آپس کے تعلقات میں اس سے قوت ہوتی ہے۔ جب تم کسی کی مدد کروگے، اس پراحسان کروگے، تمہاری ضرورت اور مشقت کے وقت میں وہ دل سے تمہاری اعانت کرنے کا خواہش مند ہوگا۔ دسویں مرنے کے بعد تمہیں ثواب ملتا رہے گا کہ جس کی بھی تم مدد کرو گے تمہارے مرنے کے بعد وہ ہمیشہ تمہیں یاد کرکے دعائے خیر کرتارہے گا۔
حضرت انسؓفرماتے ہیں کہ قیامت کے دن رحمن کے عرش کے سایہ میں تین قسم کے آدمی ہوںگے۔ ایک صلۂ رحمی کرنے والا کہ اس کے لیے دنیا میں بھی اس کی عمر بڑھائی جاتی ہے، رزق میں بھی وسعت دی جاتی ہے اور اس کی قبرمیں بھی وسعت کر دی جاتی ہے۔ دوسرے وہ عورت جس کا خاوند مرگیا ہو اوروہ چھوٹی اولاد کی پرورش کی خاطر ان کے جوان ہونے تک نکاح نہ کرے تاکہ ان کی پرورش میں مشکلات پیدا نہ ہوں۔ تیسرے وہ شخص جو کھانا تیار کرے اور یتامیٰ مساکین کی دعوت کرے۔
حضرت حسنؓ حضورِ اقدسﷺ سے نقل کرتے ہیں کہ دو قدم اللہ کے یہاں بہت محبوب ہیں۔ ایک وہ قدم جو فرض نماز ادا کرنے کے لیے اٹھا ہو، دوسر ا وہ قدم جو کسی محرم کی ملاقات کے لیے اٹھا ہو۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ پانچ چیزیںایسی ہیں کہ جن پر دوام اور اِستقلال سے اللہ کے یہاں ایسی نیکیاں ملتی ہیں جیسے کہ اونچے اونچے پہاڑ اور ان کی وجہ سے رزق میں بھی وسعت ہوتی ہے۔ ایک صدقہ کی مداومت تھوڑا ہو یا زیادہ، دوسرے صلۂ رحمی پر مداومت چاہے قلیل ہو یا کثیر، تیسرے اللہ کے راستہ میں جہاد کرنا، چوتھے ہمیشہ باوضو رہنا، پانچویں والدین کی فرماںبرداری پر مداومت کرنا۔ 
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جس عمل کا ثواب اور بدلہ سب سے جلدی ملتا ہے وہ صلۂ رحمی ہے۔ بعض آدمی گناہ گارہوتے ہیں لیکن صلۂ رحمی کی وجہ سے ان کے مالوں میں بھی برکت ہوتی ہے اور ان کی اولاد میں بھی۔ (اِحیاء العلوم) ایک حدیث میں ہے کہ صدقہ طریقہ کے موافق کرنا اورمعروف (بھلائی)کا اختیار کرنا، والدین کے ساتھ احسان کرنااور صلۂ رحمی آدمی کو بدبختی سے نیک بدبختی کی طرف پھیر دیتا ہے، عمر میں زیادتی کا سبب ہے اور بری موت سے حفاظت ہے ۔ (کنز العمال)
عمر میں اور رزق میں زیادتی جتنی کثرت سے روایات میں ذکر کی گئی ہے اس کا نمونہ معلو م ہوگیا۔ اور یہ دونوں چیزیںایسی جن ان پرہر شخص مرتاہے اور دنیا کی ساری کوششیں انہی دو چیزوںکی خاطر ہیں۔ حضورﷺ نے ان دونوں کے لیے بہت سہل تدبیر بتا دی کہ صلۂ رحمی کیاکرے دونوں تمنائیں حاصل ہوںگی۔ اگر حضورﷺ کے ارشاد کے حق ہونے پر یقین ہے تو پھر عمر اور رزق کی زیادتی کے خواہش مندوں کو اس نسخہ پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنا چاہیے اور جو میسر ہو اَقربا پر خرچ کرنا چاہیے کہ رزق میںزیادتی کے وعدہ سے اس کا بدل بھی ملے گا اور عمر میں اضافہ مفت میں ہے۔
۳۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ? قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: إِنَّ مِنْ أَبَرِّ الْبِرِّ صِلَۃُ الرَّجُلِ أَھْلَ وُدِّ أَبِیْہِ بَعْدَ أَنْ یُّوَلِّيَ۔ 
رواہ مسلم، کذا في المشکاۃ۔


حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ اس کے چلے جانے کے بعد اس کے ساتھ تعلقات رکھنے والوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔
فائدہ: چلے جانے سے مراد عارضی چلا جانا بھی ہوسکتا ہے اور مستقل چلا جانا یعنی مرجانا بھی ہوسکتا ہے۔ اور یہ درجہ بڑھا ہوا اس لیے ہے کہ زندگی میں تو اس کے دوستوں کے ساتھ حسنِ سلوک میںاپنی ذاتی اَغراض کا شائبہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے ساتھ تعلق کی قوت اوراچھا سلوک ان اَغراض کے پورا ہونے میں معین ہوگا جو والد سے وابستہ ہیں، لیکن باپ کے مرنے کے بعد ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنا اپنے ذاتی اَغراض سے بالاتر ہوتا ہے، اس میں باپ ہی کا احترام خالص رہ جاتا ہے۔
ایک حدیث میں ہے ابنِ دینار ؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عمر? مکہ کے راستہ میں تشریف لے جا رہے تھے، راستہ میںایک بدّو جاتا ہوا نظر پڑگیا۔ حضرت ابنِ عمر? نے اس کو اپنی سواری دے دی اور اپنے سرمبارک سے عمامہ اتار کر اس کی نذر کر دیا۔ ابنِ دینار  ؒ نے عرض کیا کہ حضرت یہ شخص تو اس سے کم درجہ احسان پربھی بہت خوش ہو جاتا! (آ پ نے عمامہ بھی دیا اور سواری بھی) حضرت ابنِ عمر? نے فرمایا کہ اس کا باپ میرے باپ کے دوستوں میں تھا اور میں نے حضورﷺ سے یہ سنا کہ بہترین صلہ آدمی کا اپنے باپ کے دوستوں پر احسان کرنا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓفرماتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ میںحاضر ہوا تو ابنِ عمرؓ مجھ سے ملنے تشریف لائے اور یہ فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے میں کیوں آیا؟ میں نے حضورﷺ سے سنا ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ اپنے باپ کے ساتھ اس کی قبر میںصلۂ رحمی کرے اس کو چاہیے کہ اپنے باپ کے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کر ے، اور میرے باپ عمر میں اور تمہارے والد میں دوستی تھی اس لیے آیا ہوں۔ (الترغیب و الترہیب) کہ دوست کی اولاد بھی دوست ہوتی ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے۔ حضرت ابواُسید مالک بن ربیعہؓ فرماتے ہیں کہ ہم حضورﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، قبیلہ بنو سلمہ کے ایک صاحب حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے والدین کے انتقال کے بعد ان کے حسنِ ِسلوک کا کوئی درجہ باقی ہے؟ حضورﷺنے فرمایا: ہاں ہاں ان کے لیے دعائیں کرنا، ان کی مغفرت کی دعا مانگنا، ان کے عہد کو جو کسی سے کر رکھا ہو پورا کرنا اور ان کے رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا، ان کے دوستوں کااِکرام کرنا۔ (مشکوٰۃ بروایۃ ابو داؤد) ایک اور حدیث میں اس قصہ کے بعد ہے اس شخص نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ کیسی بہترین اور بڑھیا بات ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: تو پھر اس پر عمل کرو۔ (الترغیب و الترہیب)
۴۔ عَنْ أَنَسٍؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : إِنَّ الْعَبْدَ لَیَمُوْتُ وَالِدَاہُ أَوْ أَحَدُھُمَا وَأَنَّہٗ لَھُمَا لَعَاقٌّ فَلاَ یَزَالُ یَدْعُوْ لَھُمَا وَ یَسْتَغْفِرُ لَھُمَا حَتّٰی یَکْتُبَہُ اللّٰہُ بَارًّا۔
رواہ البیھقي في الشعب، کذا في المشکاۃ۔


حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کے ماں باپ دونوں یا ان میںسے کوئی ایک مرجائے اور وہ شخص ان کی نافرمانی کرنے والا ہو تو اگر وہ ان کے لیے ہمیشہ دعائے مغفرت کرتا رہے، اس کے علاوہ ان کے لیے اور دعائیں کرتا رہے، تو وہ شخص فرماںبردار وں میں شمار ہو جائے گا۔
فائدہ: یہ اللہ تعالیٰ کا کس قدرانعام و احسان اور لطف وکرم ہے کہ والدین کی زندگی میں بسا اوقات ناگوار امور پیش آجانے سے دلوں میں میل آجاتا ہے، لیکن جتنا بھی رنج ہو جائے والدین ایسی چیز نہیں جن کے مرنے کے بعد بھی دلوں میں رنج رہے، ان کے احسانات یاد آکرآدمی بے تاب نہ ہو جائے، لیکن اب وہ گئے، اب کیا تلافی ہوسکتی ہے؟ اللہ  نے اپنے فضل سے اس کا دروازہ بھی کھول دیا کہ ان کے مرنے کے بعد ان کے لیے دعا کرے ان کی مغفرت کو اللہ سے مانگتا رہے ان کے لیے ایصالِ ثواب جانی اورمالی کرتا رہے کہ یہ ان کی زندگی کے زمانہ میں جو ان کے حقوق ضائع ہوئے ہیں اس کی تلافی کر دے گا اور بجائے نافرمانوں میں شمار ہونے کے فرماں برداروں میں شمار ہوجائے گا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ ہاتھ سے وقت نکل جانے کے بعد بھی اس کا راستہ کھول دیا۔ کس قدر بے غیرتی اور دلی قساوت ہوگی اگر اس موقعہ کو بھی ہاتھ سے کھو دیا جائے۔ ایسا کون ہوگا جس سے ہمیشہ والدین کی رضا ہی کے کام ہوتے رہے ہوں؟اور ادائے حقو ق میں کوتاہی توکچھ نہ کچھ ہوتی ہی ہے۔ اگر اپنا معمول اورکوئی ضابطہ ایسا مقرر کر لیا جائے جس سے ان کو ثواب پہنچتا رہے تو کس قدر اعلیٰ چیز حاصل ہوسکتی ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے والدین کی طرف سے حج کرے تو یہ ان کے لیے حجِ بدل ہوسکتا ہے ، ان کی روح کو آسمان میںاس کی خوش خبری دی جاتی ہے اور یہ شخص اللہ کے نزدیک فرماں برداروں میں شمار ہوتا ہے، اگرچہ پہلے سے نافرمان ہو۔ ایک اور روایت میںہے کہ جو شخص اپنے والدین میںسے کسی کی طرف سے حج کرے تو ان کے لیے ایک حج کا ثواب ہوتا ہے اور حج کرنے والے کے لیے نو حجوں کا ثواب ہوتا ہے۔
علامہ عینی ؒ نے ’’شرحِ بخاری‘‘ میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ یہ دعا پڑھے:
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، وَلَہُ الْکِبْرِیَآئُ فِيْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ۔ لِلّٰہِ الْحَمْدُ رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَرَبِّ الْأَرْضِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَلَہُ الْعَظْمَۃُ فِيْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔ ھُوَ الْمَلِکُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ وَرَبُّ الْعَالَمِیْنَ۔ وَلَہُ النُّوْرُ فِيْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔
اور اس کے بعد یہ دعا کرے کہ یاا للہ! اس کا ثواب میرے والدین کو پہنچا دے، اس نے والدین کا حق ادا کر دیا۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ آدمی اگر کوئی نفلی صدقہ کرے، تو اس میںکیا حرج ہے کہ اس کا ثواب اپنے والدین کو بخش دیا کرے، بشرطے کہ وہ مسلمان ہوں کہ اس صورت میں ان کوثواب پہنچ جائے گا اور صدقہ کرنے والے کے ثواب میں کوئی کمی نہ ہوگی۔ (کنز العمال) اس حدیث شریف کے موافق کچھ کرنا بھی نہیں پڑتا۔ جو کچھ بھی کسی موقع پرخرچ کیا جائے اس کا ثواب اپنے والدین کو پہنچا دیا کرے۔ 
حضرت عبداللہ بن سلامؓ فرماتے ہیں: اس پاک ذات کی قسم جس نے حضورِ اقدسﷺکو حق بات کے ساتھ بھیجا ہے! یہ اللہ کے پاک کلام میںہے کہ جو شخص تیرے باپ کے ساتھ صلۂ رحمی کرتا ہو تُو اس کے ساتھ قطع رحمی نہ کر، اس سے تیرا نور جاتا رہے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو اپنے والدین کی یا ان میں سے ایک کی قبر کی ہر جمعہ کو زیارت کرے اس کی مغفرت کی جائے گی اور وہ فرماںبرداروں میں شمار ہوگا۔
اوزاعی ؒکہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جو شخص اپنے والدین کی زندگی میں نافرمان ہو، پھر ان کے انتقال کے بعد ان کے لیے استغفار کرے، اگر ان کے ذمہ قرض ہو تواس کو ادا کرے اور ان کو برا نہ کہے، تو وہ فرماںبرداروں میں شمار ہو جاتاہے۔ اورجو شخص والدین کی زندگی میں فرماںبردار تھا، لیکن ان کے مرنے کے بعدان کو برابھلا کہتا ہے، ان کاقرض بھی ادا نہیں کرتا، ان کے لیے اِستغفار بھی نہیں کرتا، وہ نافرمان شمار ہوجاتا ہے۔ (دُرِّمنثور)
۵۔ عَنْ سُرَاقَۃَ بْنِ مَالِکٍؓ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلَی  أَفْضَلِ الصَّدَقَۃِ؟ ابْنَتُکَ مَرْدُوْدَۃٌ إِلَیْکَ لَیْسَ لَھَا کَاسِبٌ غَیْرُکَ۔
رواہ ابن ماجہ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔ 


حضورِ اقدسﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں بہترین صدقہ بتاتا ہوں۔ تیری وہ لڑکی (اس کا محل) ہے جو لَوٹ کر تیرے ہی پاس آگئی ہو اور اس کے لیے تیرے سوا کوئی کمانے والانہ ہو۔ (کہ ایسی لڑکی پر جو بھی خرچ کیاجائے گا وہ بہترین صدقہ ہے)
فائدہ: لَوٹ کر آجانے سے مراد یہ ہے کہ لڑکی کانکاح کردیاتھا، اس کے خاوند کا انتقال ہوگیا یا خاوند نے طلاق دے دی یا کوئی اور عارضہ ایساپیش آگیا جس کی وجہ سے وہ لڑکی پھر باپ کے ذمہ ہوگئی، تو اس کی خبر گیری اس پر خرچ کرناافضل ترین صدقہ ہے۔ اور اس کاافضل ہونا صاف ظاہر ہے کہ اس میںایک صدقہ ہے، دوسرے مصیبت زدہ کی امداد ہے، تیسرے صلۂ رحمی ہے، چوتھے اولاد کی خبرگیری ہے، پانچویں غم زدہ کی دل داری ہے کہ اولاد کا ابتدا میں والدین کے ذمہ ہونا رنج کی بجائے خوشی کاسبب ہوتا ہے، لیکن اس کا اپناگھر ہوجانے کے بعد، اپناٹھکانا بن جانے کے بعد پھر والدین کے ذمہ ہو جانا، زیادہ رنج کا سبب ہوا کرتاہے۔ نبی ٔاکرم ﷺ  کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی مصیبت زدہ کی فریاد رسی کرے، اس کے لیے تہتّر درجے مغفرت کے لکھے جاتے ہیں، جن میں سے ایک میں اس کے تمام امور کی اصلاح اور درستی ہے، اور بہتّر درجہ اس کے لیے قیامت میں ترقیات کا سبب ہیں۔اس مضمون کی بہت سی روایات پہلی فصل کی احادیث میںنمبر (۲۶) کے ذیل میں گزر چکیں۔
اُم المؤمنین حضرت اُم سلمہؓ نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ میرے پہلے خاوند ابو سلمہؓ کی جو اولاد میرے پاس ہے، ان پر خرچ کرنے کا بھی مجھے ثواب ملے گا، وہ تو میری ہی اولاد ہیں؟ حضورﷺ نے فرمایا: ان پر خرچ کیا کر اس کا تجھے ثوا ب ملے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح) اور اولاد پر رحمت اور شفقت تو بغیر اس کی اِحتیاج اورضرورت کے بھی مستقل مندوب اورمطلوب ہے۔ ایک مرتبہ حضورِ اقدس ﷺ  کے پاس دونوں نواسے حضرت حسن، حضرت حسین ? میں سے ایک موجود تھے، حضورﷺ  نے ان کوپیار کیا۔ اَقرع بن حابس قبیلۂ تمیم کا سردار بھی وہاںموجود تھا۔ کہنے لگا کہ میرے دس بیٹے ہیں میں نے ان میں سے کبھی کسی کوپیار نہیں کیا۔ حضورﷺ  نے اس کی طرف تیز نگاہ سے دیکھا اور فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم کیا بھی نہیں جاتا۔ ایک اور حدیث میں ہے ایک بدو نے عرض کیا کہ تم بچوں کو پیار کرتے ہو ہم تو نہیں کرتے۔ حضورﷺ نے فرمایا: میں اس کاکیا علاج کروں کہ اللہ تعالیٰ نے تیرے دل سے رحمت کا مادّہ نکال دیا۔ (الترغیب والترہیب) اولاد ہونے کے علاوہ اس کامصیبت زدہ ہونا مستقل اجر کا سبب ہے۔
۶۔ عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍؓ قَالَ: قَالَ  رَسُوْلُ  اللّٰہِ ﷺ : اَلصَّدَقَۃُ  عَلَی الْمِسْکِیْنِ صَدَقَۃٌ، وَھِيَ عَلَی ذِيْ الرَّحِمِ ثِنْتَانِ، صَدَقَۃٌ وَصِلَۃٌ۔ 


حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ غریب پر صدقہ کرنا صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار پر صدقہ کرنا صدقہ بھی اور صلۂ رحمی بھی دو چیزیں ہوگئیں۔
رواہ أحمد والترمذي وغیرھما، کذا في المشکاۃ 
فائدہ: جہاں تک اہلِ قرابت او ررشتہ داروں کا تعلق ہے ان پر صدقہ عام غربا پر صدقہ سے مقدم ہے اور افضل ہے۔ نبی کریمﷺ سے بہت مختلف روایات میں مختلف عنوانات سے یہ مضمون بھی بہت کثرت سے نقل کیاگیا۔ 
حضور ﷺ  کاارشا د ہے کہ ایک اشرفی تُو اللہ کے راستہ میں خرچ کرے، ایک اشرفی تُو غلام کے آزاد کرنے میں خرچ کرے، ایک اشرفی تُوکسی فقیر کو دے، ایک اشرفی تواپنے اہل وعیال پر خرچ کرے، ان سب سے افضل یہی ہے جو توا پنے اہل و عیال پر خرچ کرے۔ (بشرطے کہ محض اللہ کے واسطے خرچ کیا جائے اوروہ ضرورت مند بھی ہوں جیسا کہ آگے آرہا ہے) ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت میمونہؓ نے ایک باندی آزاد کی۔ حضورﷺ  نے فرمایا کہ اگر اس کو اپنے ماموئوں کو دے دیتیں تو زیادہ ثواب ہوتا۔
ایک مرتبہ حضورِ اقدسﷺ  نے عورتوں کو خاص طور سے صدقہ کرنے کی ترغیب دی۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓمشہور صحابہ اور فقہا میں ہیں، ان کی اہلیہ حضرت زینبؓ نے ان سے کہا کہ آج حضورﷺ  نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا ہے تمہاری مالی حالت کمزور ہے، اگر تم حضورسے جاکر یہ دریافت کرلو (کہ میں صدقہ کا مال تمہیں دے دوں تو یہ کافی ہے یا نہیں؟ انھوںنے فرمایا: تم خود ہی جاکر دریافت کرلو کہ ان کو اپنی ذات کے لیے دریافت کرنے میں غالبًا حجاب اور خود غرضی کاخیال ہوا ہوگا)۔ حضرت زینبؓ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ وہاں دروازہ پر دیکھا کہ ایک اور عورت بھی کھڑی ہیں اور وہ بھی یہی مسئلہ دریافت کرنا چاہتی ہیں، لیکن حضورﷺ کے رعب کی وجہ سے دریافت کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اتنے میں حضرت بلالؓ آگئے، ا ن دونوں نے ان سے درخواست کی کہ حضورﷺ سے عرض کر دیں کہ دو عورتیں کھڑی ہیں اور یہ دریافت کرتی ہیں کہ اگر وہ اپنے خاوندوں پر اور جو یتیم بچے پہلے خاوندوں سے ان کے پاس ہیں، ان پر صدقہ کر دیں تو یہ کافی ہے؟ حضرت بلالؓ نے حضورﷺ کو پیام پہنچایا حضورﷺ نے دریافت فرمایا: کون عورتیں ہیں؟ حضرت بلالؓ نے عرض کیا کہ ایک فلاں عورت انصاریہ ہیں اور ایک عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینبؓ ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ ہاںان کے لیے دوگنا ثواب ہے، صدقہ کا بھی اور قرابت کا بھی۔ (مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے کسی بھائی کی ایک دِرَم سے مدد کروں، یہ مجھے زیادہ پسند ہے دوسرے پر بیس دِرَم خرچ کرنے سے۔ اور میں اس پر سو دِرَم خرچ کردوں یہ زیادہ محبوب ہے ایک غلام آزاد کرنے سے۔ (اِحیاء العلوم، اِتحاف)
ایک حدیث میں ہے کہ جب آدمی خود ضرورت مند ہو تو وہ مقدم ہے۔ جب اپنے سے زائد ہو تو عیال مقدم ہے۔ اس سے زائد ہو تو دوسرے رشتہ دار مقدم ہیں۔ ان سے زائد ہو تو پھر ادھر ادھر خرچ کرے۔ (کنز العمال) یہ مضمون ’’کنز العمال‘‘ وغیرہ میں کئی روایات میں ذکر کیاگیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ دوسروں کو مؤخر کرنا جب ہی ہے جب کہ اپنے کو اور اپنے اہل و عیال کو اِحتیاج زیادہ ہو۔ اور اگر اپنے سے زیادہ محتاج دوسرے ہوں یا خود باوجود اِحتیاج کے صبر پر قادر ہے اور اللہ پر اعتماد کامل ہے، تو دوسروں کو مقدم کر دیناکمال کا درجہ ہے۔ پہلی فصل کی آیات میں نمبر(۲۸) پر { وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِھِْم} کے ذیل میں یہ مضمون مفصل گزر چکا ہے۔
حضر ت علیؓارشاد فرماتے ہیں کہ میں تمہیں اپنا اور (اپنی بیوی حضرت) فاطمہؓ کا جو حضورﷺکی سب سے زیادہ لاڈلی اولاد تھیں قصہ سنائوں؟ وہ میرے گھر رہتی تھیں۔ خود چکی پیستیں جس کی وجہ سے ہاتھوں میں گِٹے پڑ گئے۔ خود پانی بھر کرلاتیں جس کی وجہ سے مشکیزہ کی رگڑ سے بدن پررسی کے نشان پڑ گئے۔ خود گھر میں جھاڑو وغیرہ دیتیں جس سے کپڑے میلے رہتے۔ خود کھانا پکاتیں جس سے دھویں کے اثر سے کپڑے کالے رہتے۔ غرض ہر قسم کی مشقتیں اٹھائی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ حضورﷺ کے پاس کچھ باندی غلام وغیرہ آئے تو میں نے کہا کہ تم بھی جاکر ایک خادم مانگ لو کہ اس مشقت سے کچھ امن ملے۔ وہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ وہاںکچھ مجمع تھا، شرم کی وجہ سے کچھ عرض نہ کرسکیں واپس چلی آئیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہؓ سے عرض کرکے چلی آئیں۔ دوسرے دن حضورﷺ تشریف لائے اور ارشاد فرمایا کہ فاطمہ! تم کل کیا کہنے گئی تھیں۔ وہ تو شرم کی وجہ سے چپکی ہوگئیں۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کی ساری حالت پانی وغیرہ بھرنے کی بیان کرکے عرض کیا کہ میں نے ان کو بھیجا تھا کہ ایک خادم آپ سے مانگ لیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں خادم سے بہتر چیز بتائوں؟ جب سونے لیٹاکرو تو سبحان اللہ ۳۳ مرتبہ، الحمد للہ ۳۳ مرتبہ، اللہ اکبر ۳۴ مرتبہ پڑھا کرو، یہ خادم سے بڑھ کر ہے۔ (ابوداؤد) ایک اور حدیث میں اس قصہ میں حضورﷺ کا یہ ارشاد بھی نقل کیا گیا کہ میں تمہیں ایسی حالت میں ہرگز نہیں دے سکتا کہ اہلِ صفّہ کے پیٹ بھوک کی وجہ سے لپٹ رہے ہیں۔ میںان غلاموں کو بیچ کر ان کی قیمت اہلِ صفّہ پر خرچ کروں گا۔ (فتح الباری)
۷۔ عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِيْ بَکْرٍ? قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ اُمِّيْ وَھِيَ مُشْرِکَۃٌ فِيْ عَھْدِ قُرَیْشٍ، فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنَّ أُمِّيْ قَدِمَتْ عَلَيَّ وَھِيَ رَاغِبَۃٌ، أَفَأَصِلُھَا؟ قَالَ: نَعَمْ، صِلِیْھَا۔
متفق علیہ، کذا في مشکاۃ المصابیح۔


حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ جس زمانہ میں حضورﷺکا قریش سے معاہدہ ہو رہا تھا اس وقت میری کافر والدہ (مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ) آئیں۔ میں نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ میری والدہ (میری اعانت کی) طالب بن کر آئی ہیں، 
ان کی اعانت کر دوں؟ حضور ﷺ نے فرمایا: ہاں، ان کی اعانت کر دو۔
فائدہ: ابتدائے زمانہ میں کفارکی طرف سے مسلمانوں پر جس قدر مظالم ہوئے وہ بیان سے باہر ہیں۔ تواریخ کی کتب ان سے پُر ہیں۔ حتیٰ کہ مسلمانوں کو مجبور ہو کر مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنی پڑی۔ مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد بھی مشرکین کی طرف سے ہر طریقہ سے لڑائی اور اِیذا رسانی کاسلسلہ رہا۔ حضورِ اقدسﷺ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ محض عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ مکرمہ تشریف لائے، توکافروں نے مکہ میں داخل بھی نہ ہونے دیا باہر ہی سے واپس ہونا پڑا، لیکن اس وقت آپس میںایک معاہدہ چند سال کے لیے ہو گیا تھا، جس میں چند سال کے لیے کچھ شرائط پر آپس میں لڑائی نہ ہونے کا فیصلہ ہوا تھا، مشہور قصہ ہے۔ اسی معاہدہ کی طرف حضرت اسماءؓ نے اس حدیث میںاشارہ فرمایا کہ جس زمانہ میں قریش سے معاہدہ ہو رہا تھا اس معاہدہ کے زمانہ میں حضرت ابوبکرؓکی ایک بیوی جو حضرت اسماءؓ کی والدہ تھیں اور مسلمان نہیں ہوئیں تھیں، اپنی بیٹی حضرت اسماءؓ کے پاس کچھ اعانت کی خواہش لے کرگئیں۔ چوںکہ وہ مشرک تھیں اس لیے حضرت اسماءؓکو اِشکال پیش آیاکہ ان کی اعانت کی جائے یانہیں؟ اس لیے حضورﷺ سے دریافت کیا۔حضورﷺ نے اعانت کا حکم فرمایا۔
امام خطابی  ؒ فرماتے ہیں کہ اس قصہ سے معلوم ہوا کہ کافر رشتہ داروں کی صلۂ رحمی بھی مال سے ضروری ہے جیسا کہ عام رشتہ داروں کی ہے۔ ایک روایت میںہے کہ اسی قصہ میں قرآن پاک کی آیت: 
{ لَایَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَ تُقْسِطُوْا اِلَیْھِمْط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o } (الممتحنۃ :ع۲) 
نازل ہوئی۔ (فتح الباری) جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں کے ساتھ احسان اور انصاف کا برتائو کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارہ میں نہیں لڑتے اورتم کو تمہارے گھروں سے انھوںنے نہیں نکالا، اللہ تعالیٰ انصاف کابرتائو کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں۔
حضرتِ اقدس حکیم الامت مولانا تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ مراد وہ کافر ہیں جو ذمی یا مصالح ہوں۔ یعنی محسنانہ برتائو ان سے جائز ہے اور اسی کو منصفانہ برتائو فرمایا۔ پس انصاف سے مراد خاص انصاف ہے۔ یعنی ان کی ذمیت یامصالحت کے اعتبار سے انصاف اسی کو متقاضی ہے کہ ان کے ساتھ احسان سے دریغ نہ کیا جائے، ورنہ مطلق انصاف تو ہر کافر بلکہ جانور کے ساتھ بھی واجب ہے۔ (بیان القرآن)
حضرت اسماءؓ کی یہ والدہ جن کا نام قیلہ یا قُتیلہ بنت عبدالعزیٰ ہے،چوںکہ مسلمان نہ ہوئی تھیں اس لیے حضرت ابوبکرؓ نے ان کو طلاق دے دی تھی۔ بعض روایات میں ہے کہ یہ کچھ گھی پنیر وغیرہ ہدیہ کے طور پر لے کر اپنی بیٹی حضرت اسماءؓ کے پاس گئیں۔ انھوںنے ان کو اپنے گھر میںداخل نہ ہونے دیا اور اپنی علاّتی ہمشیرہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس مسئلہ دریافت کرنے کے لیے آدمی بھیجا کہ حضورﷺ سے دریافت کرکے اطلاع دیں۔ حضورﷺ نے اجازت فرما دی اور یہ آیتِ شریفہ اسی قصہ میں نازل ہوئی۔ (فتح الباری، دُرِّمنثور)
یہ ان حضرات کی دین پر پختگی اورقابلِ رشک جذبہ تھا کہ ماں گھر پر آئی ہے، محض بیٹی سے ملنے کے واسطے آئی ہے کہ اس وقت تک اعانت کی طلب کا تو وقت ہی نہ آیاتھا، لیکن حضرت اسماءؓ نے مسئلہ کی تحقیق کرنے کے لیے آدمی دوڑا دیا کہ میںاپنی ماں کو گھر میںداخل ہونے کی اجازت دے سکتی ہوں یا نہیں؟
متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ صحابہ کرام? غیر مسلموں پر صدقہ کرنا ابتدا میں پسند نہیں کرتے تھے جس پر حق تعالیٰ شا نہٗ نے آیتِ شریفہ: 
{ لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدٰھُمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَ نْفُسِکُمْ} الآیۃ (البقرۃ :ع ۳۷)
نازل فرمائی کہ آپ کے ذمہ ان کی ہدایت نہیںہے، یہ تو خدا تعالیٰ کاکام ہے جس کو چاہے ہدایت پر لاویں۔ اور جو کچھ (تم خیرات وغیرہ )خرچ کرتے ہو، اپنے نفع کے واسطے کرتے ہو، اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے علاوہ کسی اور فائدہ کی غر ض سے نہیںکرتے۔ یعنی تم تو صدقہ وغیرہ اللہ تعالیٰ شانہٗ کی رضاکے واسطے کرتے ہو، اس میں ہر حاجت مند داخل ہے کافر ہو یا مسلمان ہو۔
حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ لوگ اپنے کافر رشتہ داروں پر احسان کرنا پسند نہیںکرتے تھے تاکہ وہ بھی مسلمان ہو جائیں۔ انھوںنے اس بارہ میں حضورِ اقدسﷺ سے اِستفسار کیا، اس پر یہ آیتِ شریفہ { لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدٰھُمْ} نازل ہوئی۔ اور بھی متعدد روایات میں یہ مضمون وارد ہوا ہے۔ (دُرِّمنثور)
امام غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ ایک مجوسی حضرت ابراہیم علیٰ نبینا وعلیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت میں حاضرہوا اور آپ کامہمان بننے کی درخواست کی۔ آپ نے فرما دیا کہ اگر تو مسلمان ہو جائے تو میں تیری مہمانی قبول کرتا ہوں۔ وہ مجوسی چلا گیا۔ اللہ  کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ ابراہیم تم ایک رات کا کھانا تبدیلی ٔ مذہب بغیر نہ کھلا سکے، ہم ستّر برس سے اس کے کفر کے باوجود اس کو کھانا دے رہے ہیں۔ ایک وقت کا کھانا کھلا دیتے تو کیامضائقہ تھا؟ حضرت ابراہیمﷺ فوراً اس کی تلاش میں دوڑنے لگے۔ وہ مل گیا، اس کو اپنے ساتھ واپس لائے اور اس کو کھانا کھلایا۔ اس مجوسی نے پوچھا کہ کیا بات پیش آئی کہ تم خود مجھے تلاش کرنے نکلے؟ حضرت ابراہیم ؑ نے وحی کا قصہ سنایا۔ وہ مجوسی کہنے لگا: اس کا میرے ساتھ یہ معاملہ ہے تو مجھے اسلام کی تعلیم دیجیے اور اسی وقت مسلمان ہوگیا۔ (اِحیاء العلوم)
ایک حدیث میں ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں جن میں کسی شخص کو کوئی گنجایش نہیں۔ نمبر۱: والدین کے ساتھ احسان کرنا، چاہے والدین مسلمان ہوں یا کافر۔ نمبر۲: جس سے عہد کرلیا جائے اس کو پورا کرنا چاہے مسلمان سے عہد کیاہو یا کافر سے۔ نمبر ۳: امانت کو واپس کرنا، چاہے مسلمان کی امانت ہو یا کافر کی۔(الجامع الصغیر)
محمد بن الحنفیہ، عطا اورقتادہ  ؒ تینوں حضرات سے یہ نقل کیا گیا کہ حق تعالیٰ شانہٗ کے پاک ارشاد:
{اِلاَّ اَنْ تَفْعَلُوْا اِلٰی اَوْلِیَائِ کُمْ مَعْرُوْفًاط} (الأحزاب :ع ۱)
مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے بھلائی کرو۔
میں مسلمان کی یہود و نصاریٰ غیر مسلم رشتہ داروں کے لیے وصیت مراد ہے۔ (المغنی)
۸۔ عَنْ أَنَسٍ  وَعَبْدِ اللّٰہِ ? قَالاَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : اَلْخَلْقُ عَیَالُ اللّٰہِ، فَأَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَی اللّٰہِ مَنْ أَحْسَنَ إِلَی عَیَالِہٖ۔
رواہ البیھقي في الشعب، کذا في المشکاۃ۔


حضورِاقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ مخلوق ساری کی ساری اللہ تعالیٰ کی عیال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو وہ شخص بہت محبوب ہے جو اس کی عیال کے ساتھ احسان کرے۔
فائدہ: مخلوق کے اندر مسلمان، کافر، انسان، حیوان سب ہی داخل ہیں۔ ہر مخلوق کے ساتھ احسان کا برتائوکرنا اسلام کی تعلیم ہے اور اللہ کو محبوب ہے۔ پہلی فصل کے نمبر(۱۰) پر یہ حدیث گزر چکی کہ ایک فاحشہ عورت کی اس پر بخشش ہوگئی کہ اس نے پیاسے کتے کو پانی پلایا۔ دوسری فصل کی نمبر (۸) پر یہ حدیث گزری ہے کہ ایک عورت کو ا س بنا پر عذاب ہوا کہ اس نے ایک بلی پال رکھی تھی اور اس کو کھانے کو نہ دیا۔
جب جانوروں کا یہ حال ہے تو آدمی تو اشرف المخلوقات ہے، اس پر احسان اور اچھے برتائو کا کیا کچھ اجر ہوگا۔ حضورِ اقدسﷺ کا مشہور ارشاد ہے : 
اِرْحَمُوْا مَنْ فِيْ الأرْضِ یَرْحَمُکُمْ مَنْ فِي السَّمَآئِ 
تم زمین پر رہنے والوں پر رحم کرو، تم پر آسمان والے رحم کریں گے۔
دوسری حدیث میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص آدمیوں پر رحم نہیں کرتا اللہ اس پر ر حم نہیں فرماتا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ رحم اس شخص کے دل سے نکالا جاتا ہے جو بدبخت ہو۔ (مشکاۃ المصابیح)
خود حضورِ اقدسﷺکی ساری زندگی دنیا کے لیے رحمت تھی۔ آپ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ اس کی شہادت دیتا ہے۔ امت کے لیے ضروری ہے کہ حضورﷺ کی زندگی کے واقعات کی تحقیق کرے اور اس کااتباع کرے۔ حق تعالیٰ شا نہٗ کا پاک ارشاد ہے: 
{ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ط} (الأنبیاء: ع ۷) 
اور ہم نے آپ کو اور کسی بات کے لیے نہیں بھیجا، مگر دنیا جہاں کے لوگوں پر مہربانی کرنے کے لیے۔
حضرت ابنِ عباس? اس آیتِ شریفہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ جو لوگ حضورﷺ پر ایمان لے آئے ان کے لیے تو آپ  کا وجود دنیا اور آخرت کی رحمت ہے ہی، لیکن جو لوگ ایمان نہیں لائے ان کے لیے بھی آپ کا وجود اس لحاظ سے رحمت ہے کہ وہ پہلی امتوں کی طرح دنیا کے عذاب مسخ ہوجانے سے، زمین میں دھنس جانے سے، آسمانوں سے پتھر برسنے سے محفوظ ہوگئے۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے حضورﷺ سے درخواست کی کہ قریش نے مسلمانوں کو بہت اَذیت پہنچائی، بہت نقصانات دیے، آپ ان لوگوں پر بددعا فرمائیں۔ حضورﷺنے فرمایا کہ میں بددعائیں دینے کے لیے نہیں بھیجا گیا، میں لوگوںکے لیے رحمت بنا کربھیجا گیا ہوں۔ اور بھی متعدد روایات میں یہ مضمون واردہوا ہے۔ (دُرِّمنثور) 
حضورِ اقدسﷺ کے طائف کے سفر کا جاں گداز واقعہ ’’حکایات ِصحابہ‘‘ کے شروع میں لکھ چکا ہوں کہ ان بدنصیبوں نے کتنی سخت سخت تکلیفیں پہنچائیں کہ حضورِ اقدسﷺ کے بدن مبارک سے خون جاری ہوگیا اور اس پر جب اس فرشتہ نے جو پہاڑوں پرمتعین تھا، آکر درخواست کی کہ اگر آپ فرما ویں تو دونوںجانب کے پہاڑوں کوملا دوں جس سے یہ سب بیچ میں کچل جائیں گے۔ تو حضورﷺ نے فرمایا کہ مجھے اللہ کی ذات سے یہ امید ہے کہ اگر یہ لوگ مسلمان نہ بھی ہوں توان کی اولاد میں سے کچھ لوگ اللہ کا نام لینے والے پیدا ہوجائیں گے۔
اُحد کی لڑائی میں جب حضورﷺ پر سخت حملہ کیا گیا، حضورﷺ کا دندانِ مبارک شہید ہوگیا، لوگوں نے کفار پر بددعا کی درخواست کی۔ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا: یااللہ! میری قوم کو ہدایت فرما کہ یہ لوگ ناواقف ہیں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ بھی حضرت نوح  ؑ کی طرح بددعا فرما دیتے تو ہم سب کے سب ہلاک ہو جاتے کہ آپ کو ہر قسم کی تکلیفیں پہنچائی گئیں،لیکن آپ ہر وقت یہی فرماتے رہے کہ یا اللہ! میری قوم کی مغفرت فرماکہ وہ جانتے نہیں۔
قاضی عِیاض  ؒ فرماتے ہیں کہ ان حالات کو بڑے غور سے دیکھنا چاہیے کہ کس قدر حضور ﷺ کا حلم اور اخلاق کا اعلیٰ نمونہ اور جود و کرم کی انتہا ہے کہ ان سخت سخت تکلیفوں پر حضورﷺ کبھی مغفرت کی کبھی ہدایت کی دعائیں ہی کرتے رہے۔
غواث بن حارث کا واقعہ مشہو ر ہے کہ جب ایک سفر میں حضورِ اقدسﷺ تنہا سورہے تھے وہ تلوار ہاتھ میں لے کر حضورِ اقدس ﷺ کے پاس پہنچ گیا اور حضورﷺ کی آنکھ اس وقت کھلی جب کہ وہ تلوار سونتے ہوئے پاس کھڑا تھا۔ اس نے للکار کر کہا کہ بتا اب تجھے بچانے والا کون ہے؟ حضورﷺنے فرمایا: اللہ ۔ حضورﷺ کا یہ ارشاد فرماناتھا کہ اس کے ہاتھ کو کپکپی ہوئی اور تلوار ہاتھ سے گر گئی۔ حضورﷺ نے وہ تلوار اپنے دستِ مبارک میں لے کر فرمایا کہ اب تو بتا کہ تجھے بچانے والا کون ہے؟ وہ کہنے لگا کہ آپ بہترین تلوار لینے والے ہیں (یعنی معاف فرمائیں)۔ حضورﷺ نے معاف فرمایا۔
یہودی عورت کا حضورِ اقدسﷺکو زہر دینے کاواقعہ بھی مشہور ہے اور اس عورت نے اس کا اقرار بھی کرلیا کہ میں نے حضورﷺکو زہر دیا، لیکن حضورﷺ نے اپنا انتقام نہیں لیا۔ لبید بن اَعصم نے حضورﷺ پر جادو کیا۔ حضورﷺکو اس کاعلم بھی ہوگیا، مگر حضورﷺ نے اس واقعہ کا چرچا بھی گوارا نہیں کیا۔ غرض دوچار واقعات نہیں ہزاروں واقعات حضورﷺ کے دشمنوں پر رحم و کرم کے ہیں۔ (الشفاء)
حضورِ اقدسﷺکا پاک ارشاد ہے کہ تم اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک ایک دوسرے کے ساتھ رحم کابرتائو نہ کرو۔ صحابہc نے عرض کیا: یارسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص رحم تو کرتا ہی ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا: یہ رحم نہیں ہے جو اپنے ہی کے ساتھ ہو، بلکہ رحم وہ ہے جو عام ہو۔
حضورِ اقدسﷺ ایک مکان میں تشریف لے گئے۔ وہاں چند قریش کے حضرات بیٹھے ہوئے تھے۔ حضور ﷺنے فرمایا کہ یہ سلطنت اور حکومت کا سلسلہ قریش میںرہے گا جب تک کہ وہ یہ معمول رکھیں جو ان سے رحم کی درخواست کرے اس پر رحم کریں، جب کوئی حکم لگائیں تو عدل کالحاظ رکھیں،جب کوئی چیز تقسیم کریں توانصاف کو اختیار کریں۔ اور جو شخص ان امور کا خیال نہ کرے اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت، سارے آدمیوں کی لعنت۔
ایک مرتبہ حضورﷺ ایک مکان میں تشریف لے گئے جہاں مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت تشریف رکھتی تھی۔ حضورﷺکو تشریف لاتا دیکھ کر ہر شخص اپنی جگہ سے ہٹ گیا اس امید پر کہ حضورﷺ وہاں تشریف رکھیں۔ حضورﷺ دروازہ پر تشریف فرما رہے اور دروازہ کی دونوں جانبوںپرہاتھ رکھ کر ارشاد فرمایا کہ میرا تم پر بہت حق ہے۔ یہ امر سلطنت کا قریش میںرہے گا جب تک وہ تین باتوں کا اہتمام رکھیں۔ نمبر۱: جو شخص ان سے رحم کی درخواست کرے اس پر رحم کریں۔ نمبر ۲: جو فیصلہ کریں انصاف سے کریں۔ نمبر۳: جو معاہدہ کسی سے کرلیں اس کو پورا کریں۔ اور جوشخص ایسا نہ کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے، فرشتوں کی لعنت ہے، تمام آدمیوں کی لعنت ہے۔
حضورﷺکا پاک ارشاد ہے کہ جو شخص ایک چڑیا کو بھی بغیر حق کے ذبح کرے گا قیامت کے دن اس سے مطالبہ ہوگا۔ صحابہ? نے عرض کیا کہ اس کاکیا حق ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ذبح کرکے اس کو کھایا جائے، یہ نہیں کہ ویسے ہی ذبح کرکے پھینک دی جائے۔ بہت سی احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے کہ غلام جو تمہارے ماتحت ہیں ان کو اس چیز سے کھلائو جس سے خود کھاتے ہو، اس چیز سے پہنائو جس سے خودپہنتے ہو اور جس سے موافقت نہ آئے اس کو فروخت کر دو۔ اس کو عذاب میں مبتلا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ (الترغیب والترہیب)
حضورﷺ کاارشاد ہے کہ جب تمہارا کوئی خادم تمہارے لیے کوئی چیز پکا کر لائے کہ اس کی گرمی اور دھوئیں کی مشقت اس نے اٹھائی ہے، تو تمہیں چاہیے کہ اس کو کھانے میں اپنے ساتھ شریک کرو۔ اگراتنی مقدار نہ ہو کہ اس کو شریک کرسکو تو اس میں سے تھوڑا سا اسے بھی دے دو۔ (مشکاۃ المصابیح) حضورﷺکا ارشاد ہے کہ ماتحتوں کے ساتھ اچھا برتائو کرنا مبارک ہے اور ان کے ساتھ بدخلقی برتنا بدبختی ہے۔ (مشکاۃ المصابیح)
غرض ہر نوع سے حضورﷺ نے مخلوق پر رحم کی تاکید فرمائی، مختلف نوع سے ان پر اکرام کی ترغیب دی۔
۹۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ ? قَالَ:: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِيْ، وَلٰـکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِيْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُہٗ وَصَلَھَا۔
رواہ البخاري، کذا في مشکاۃ المصابیح۔حضورِ اقدس ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ وہ شخص صلۂ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو برابر سرابر کا معاملہ کرنے والا ہو۔ صلۂ رحمی کرنے والا تو وہ ہے جو دوسرے کے توڑنے پر صلۂ رحمی کرے۔
فائدہ: بالکل ظاہر اور بدیہی بات ہے۔ جب آپ ہر بات میں یہ دیکھ رہے ہیںکہ جیسا برتائو دوسرا کرے گا ویسا ہی میں بھی کروںگا تو آپ نے کیا صلۂ رحمی کی؟ یہ بات تو ہر اجنبی کے ساتھ بھی ہوتی ہے کہ جب دوسرا شخص آپ پر احسان کرے گا تو آپ خود اس پر احسان کرنے پر مجبور ہیں۔ صلۂ رحمی تو درحقیقت یہی ہے کہ اگر دوسرے کی طرف سے بے اِلتفاتی، بے نیازی، قطع تعلق ہو تو تم اس کے جوڑنے کی فکر میں رہو، اس کو مت دیکھو کہ وہ کیا برتائو کرتا ہے۔ اس کو ہر وقت سوچو کہ میرے ذمہ کیا حق ہے، مجھے کیا کرنا چاہیے۔ دوسرے کے حقوق ادا کرتے رہو، ایسا نہ ہو کہ اس کا کوئی حق اپنے ذمہ رہ جائے جس کا قیامت میں اپنے سے مطالبہ ہو جائے۔ اور اپنے حقوق کے پورا ہونے کا واہمہ بھی دل میں نہ لو، بلکہ اگر وہ پورے نہیں ہوتے تو اور بھی زیادہ مسرور ہو کہ دوسرے عالم میں جو اجر و ثواب اس کاملے گا، وہ اس سے بہت زیادہ ہوگا جو یہاں دوسرے کے ادا کرنے سے وصول ہوتا۔
ایک صحابی نے حضورِ اقدسﷺ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے رشتہ دار ہیں، میں ان کے ساتھ صلۂ رحمی کرتا ہوں وہ قطع رحمی کرتے ہیں، میں ان پر احسان کرتا ہوں وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں، میں ہر معاملہ میں تحمل سے کام لیتا ہوں وہ جہالت پر اُترے رہتے ہیں۔ حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر یہ سب کچھ صحیح ہے توتُو ان کے منہ میں خاک ڈال رہا ہے (یعنی خود ذلیل ہوں گے)۔ اور تیرے ساتھ اللہ تعالیٰ شا نہٗ کی مدد شاملِ حال رہے گی جب تک تو اپنی اس عادت پر جمار ہے گا۔ (مشکاۃ المصابیح) اور جب تک اللہ کی مدد کسی کے شاملِ حال رہے نہ کسی کی برائی سے نقصان پہنچ سکتا ہے نہ کسی کا قطع تعلق نفع پہنچنے سے مانع ہوسکتا ہے۔
تُو نہ چُھوٹے مجھ سے یاربّ! تیرا چھٹنا ہے غضب
یوںمیں راضی ہوں مجھے چاہے زمانہ چھوڑ دے
یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ شا نہٗ کسی کا مددگار ہو جائے تو اس کو کب کسی دوسرے کی کسی مددکی اِحتیاج باقی رہ سکتی ہے۔ پھر ساری دنیا اس کی مجبوراً معین ہے اور ساری دنیا مل کر اس کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو نقصان نہیں پہنچا سکتی۔
ایک حدیث میں حضورِاقدسﷺ کاا رشاد ہے کہ مجھے میرے ربّ نے نو باتوں کاحکم فرمایا ہے۔ نمبر۱: حق تعالیٰ شا نہٗ کا خوف ظاہر میں بھی اورباطن میں بھی۔ (یعنی دل سے اور ظاہر سے یا خلوت میں اور جلوت میں) نمبر۲: انصاف کی بات خوشی میں بھی اور غصہ میں بھی۔ (آدمی جب کسی سے خوش ہواکرتا ہے تو عیوب چھپا کر تعریفوں کے پل باندھا کرتا ہے، جب خفا ہوتا ہے تو جھوٹے الزام تراشا کرتا ہے، مجھے حکم ہے کہ ہر حالت میں انصاف کی بات کہوں) نمبر۳: میانہ روی فقر کی حالت میں بھی اور وسعت کی حالت میں بھی۔ (نہ تنگی میں کنجوسی کروں نہ وسعت میں اِسراف کروں، یا نہ فقرمیں جزع فزع کروں نہ غنا میںعجب اور فخر کروں) نمبر۴: نیز یہ کہ جو شخص مجھ سے قطع تعلق کرے میںاس کے ساتھ بھی تعلقات وابستہ کروں۔ نمبر۵: اور جوشخص مجھے اپنی عطا سے محروم کرے میں اس کے ساتھ حسنِ سلوک کروں۔ نمبر۶: جو شخص مجھ پرظلم کرے اس کو معاف کر دوں۔ (انتقام لینے کی فکر میں نہ پڑوں) نمبر۷: یہ کہ میرا سکوت (آخرت کا یا اللہ تعالیٰ کی آیات کا) فکر ہو۔ نمبر۸: میری گویائی اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو۔ (تسبیح وغیرہ یا اللہ کے اَحکام کابیان) نمبر۹: میری نظر عبرت ہو۔ (یعنی جس چیز کو دیکھوں عبرت کی نگاہ سے دیکھوں) نمبر۱۰: اور میں نیک کام کا حکم کرتا رہوں۔ (مشکاۃ المصابیح)
شروع میں نو چیزیں فرمائیں تھیں تفصیل میںدس ہوگئیں، مگر یہ دسویں چیز سابقہ نو چیزوں کا اِجمال بھی ہوسکتا ہے اور نمبر(۷ ، ۸) دو مقابل ہونے کی وجہ سے ایک بھی شمار ہوسکتے ہیں، جیسا کہ شروع میں ظاہر باطن ایک شمار ہوئے، خوشی اور غصہ ایک شمار ہوئے۔ حضرت حکیم بن حزام ؓ فرماتے ہیں: ایک شخص نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ افضل ترین صدقہ کیا ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا: کاشح رشتہ دار کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔ (الترغیب و الترہیب) ’’کاشح‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو دل میں کسی سے بغض وکینہ رکھے۔
ایک حدیث میں حضورﷺکا ارشاد وارد ہوا ہے کہ جو شخص یہ پسند کرے کہ قیامت میں اس کو بلند مکانات ملیں، اس کو اونچے درجے ملیں، اس کو چاہیے کہ جو شخص اس پر ظلم کرے اس سے درگزر کرے، جو اس کو اپنی عطا سے محروم رکھے اس پر احسان کرے اور جو اس سے تعلقات توڑے اس سے تعلقات جوڑے۔ (دُرِّمنثور)
ایک حدیث میں ہے کہ جب آیتِ شریفہ 
{ خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ} (الأعراف : ع ۳۴) 
معافی کو اختیار کرو، نیکی کا حکم کرو اور جاہلوں سے اعراض کرو 
نازل ہوئی تو حضورِاقدسﷺ نے حضرت جبرئیل ؑ سے اس کی تفسیر دریافت کی۔ تو انھوں نے عرض کیا کہ جاننے والے (تعالیٰ شا نہٗ) سے دریافت کرکے عرض کروں گا۔ وہ واپس تشریف لے گئے اور پھر آکر عرض کیا: اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ جو آپ پر ظلم کرے اس کومعاف کریں اور جو آپ کو اپنی عطاسے محروم رکھے اس کو عطا فرمائیں اور جو آپ سے تعلقات توڑے اس سے تعلقات جوڑیں۔ایک اور حدیث میںاس واقعہ کے بعد یہ بھی ہے کہ اس کے بعد حضورِ اقدسﷺ نے لوگوں سے خطاب کرکے فرمایا کہ میں تم کو دنیا اورآخرت کے بہترین اخلاق بتائوں؟ صحابہc نے عرض کیا: ضرور ارشاد فرمائیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: جو تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو، جو تمہیں اپنی عطا سے محروم رکھے اس کو عطا کرو، جو تم سے تعلقات توڑے اس سے صلۂ رحمی کرو۔
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اوّلین وآخرین کے بہترین اخلاق بتائوں؟ میں نے عرض کیا: ضرور ارشاد فرمائیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جو تمہیں اپنی عطا سے محروم رکھے اس کو عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اس کومعاف کرو اور جو تم سے قرابت کے تعلقات توڑے اس کے ساتھ تعلقات جوڑو۔ حضرت عقبہؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ میں تمہیں دنیا اور آخرت کے بہترین اخلا ق بتائوں؟ پھر یہی تین چیزیں ارشاد فرمائیں۔ اور بھی متعدد صحابہ کرامc سے یہ مضمون ذکر کیاگیا۔
حضرت ابوہریرہؓ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آدمی خالص ایمان تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ یہ کام نہ کرے کہ اپنے سے تعلق توڑنے والوں کے ساتھ تعلقات جوڑا کرے، اپنے اوپر ظلم کرنے والوں کو معاف کیاکرے، اپنے کو گالیاں دینے والے کو بخش دیا کرے اور جو اپنے ساتھ برائی کرے اس کے ساتھ بھلائی کرے۔ (دُرِّمنثور)
۱۰۔ عَنْ أَبِيْ بَکْرَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَا مِنْ ذَنْبٍ أَحْرَی أَنْ یُّعَجِّلَ اللّٰہُ لِصَاحِبِہِ الْعُقُوْبَۃَ فِيْ الدُّنْیَا مَعَ مَا یَدَّخِرُ لَہٗ فِيْ الْآخِرَۃِ مِنَ الْبَغْي وَقَطِیْعَۃِ الرَّحِمِ۔ 


حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ نہیں ہے کوئی گناہ جو زیادہ مستحق اس بات کا ہو کہ اس کا وبال آخرت میں ذخیرہ رہنے کے باوجود دنیا میں اس کی سزا بہت جلد نہ بھگتنی پڑے ان دو کے علاوہ، ایک ظلم دوسرا قطع رحمی۔
رواہ الترمذي وأبو داود، کذا في مشکاۃ المصابیح۔
فائدہ: یعنی یہ دو گناہ ظلم اور قطع رحمی ایسے ہیں کہ آخرت میں تو ان پر جو کچھ وبال ہوگا وہ ہو ہی گا، آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی اس کی سزا بہت جلد ملتی ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ ہر گناہ کی جب چاہے مغفرت فرمادیتے ہیں، مگر والدین کی قطع رحمی کی سزا مرنے سے پہلے پہلے دے دیتے ہیں۔ (مشکاۃ المصابیح)
ایک حدیث میں ہے کہ ہر گناہ کی سزا اللہ آخرت پر مؤخر فرما دیتے ہیں، لیکن والدین کی نافرمانی کی سزا کو بہت جلد دنیا میں دے دیتے ہیں۔ (الجامع الصغیر) بہت سی احادیث میں یہ مضمون بھی ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ قیامت کے دن رحم (قرابت) کو زبان عطا فرما ویں گے، وہ عرشِ معلی کو پکڑ کر درخواست کرتا رہے گا کہ یااللہ! جس نے مجھے ملایا اس کو ملا اور جس نے مجھے قطع کیاتو اس کو قطع کر۔ بہت سی احادیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ فرماتے ہیں کہ رحم کا لفظ اللہ تعالیٰ کے پاک نام رحمن سے نکالا گیا ہے، جو اس کو ملائے گا رحمن اس کو ملائے گا، جو اس کو قطع کرے گار حمن اس کو قطع کرے گا۔ ایک حدیث میں ہے کہ اس قوم پر رحمت نازل نہیں ہوتی جس میں کوئی قطع رحمی کرنے والا ہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ ہر پنجشنبہ کو اللہ کے یہاں  اعمال پیش ہوتے ہیں، قطع رحمی کرنے والے کا کوئی عمل قبول نہیں ہوتا۔ (دُرِّمنثور)
فقیہ ابو اللیث ؒ فرماتے ہیں کہ قطع رحمی اس قدر بدترین گناہ ہے کہ پاس بیٹھنے والوں کو بھی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر شخص اس سے بہت جلد توبہ کرے اور صلۂ رحمی کا اہتمام کرے۔
حضورﷺ کاارشاد ہے کہ صلۂ رحمی کے علاوہ کوئی نیکی ایسی نہیں جس کا بدلہ بہت جلد ملتا ہو، اور قطع رحمی اور ظلم کے علاوہ کوئی گناہ ایسا نہیں جس کا وبال آخرت میں باقی رہنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں جلدی نہ مل جاتا ہو۔ (تنبیہ الغافلین)
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ایک مرتبہ صبح کی نماز کے بعد ایک مجمع میں تشریف فرماتھے، فرمانے لگے: میں تم لوگوں کو قسم دیتا ہوں کہ اگر اس مجمع میں کوئی شخص قطع رحمی کرنے والا ہو تو وہ چلا جائے، ہم لوگ اللہ تعالیٰ شا نہٗ سے ایک دعا کرنا چاہتے ہیںاور آسمان کے دروازے قطع رحمی کرنے والے کے لیے بند ہو جاتے ہیں۔ (الترغیب و الترہیب) یعنی اس کی دعا آسمان پر نہیں جاتی، اس سے پہلے ہی دروزہ بند کر دیا جاتا ہے، اور جب اس کے ساتھ ہماری دعا ہوگی تو وہ دروازہ بند ہو جانے کی وجہ سے رہ جائے گی۔
ان کے علاوہ بہت سی روایات سے یہ مضمون معلوم ہوتا ہے۔ اور دنیا کے واقعات بہت کثرت سے اس کی شہادت دیتے ہیں کہ قطع رحمی کرنے والا دنیا میں بھی ایسے مصائب میں پھنستا ہے کہ پھرروتا ہی پھرتا ہے، اور اپنی حماقت اور جہالت سے اس کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ اتنے  اس گناہ سے توبہ نہ کرے، اس کی تلافی نہ کرے، اس کا بدل نہ کرے، اتنے اس آفت اور اس عذاب سے جس میں مبتلا ہے خلاصی نہ ہوگی،چاہے لاکھ تدبیریں کرلے۔ اور اگر کسی دنیوی آفت میں مبتلا ہو جائے تو وہ اس سے بہت ہلکی ہے کہ کسی بددینی میں خدا نہ کرے مبتلا ہوجائے کہ اس صورت میں اس کو پتہ بھی نہ چلے گا کہ توبہ ہی کرلے۔ حق تعالیٰ شا نہٗ ہی اپنے فضل سے محفوظ فرمائے۔


٭  ٭  ٭ 


چوتھی فصل
زکوٰۃ کی تاکید اور فضائل میں
زکوٰۃ کا ادا کرنا اسلام کے ارکان میں سے اہم ترین رکن ہے۔ حق تعالیٰ شا نہٗ نے اپنے پاک کلام میں مشہور قول کے موافق بیاسی جگہ نماز کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا حکم فرمایا اور جہاں جہاں صرف زکوٰۃ کا حکم ہے وہ ان کے علاوہ ہیں۔ حضورِ اقدسﷺکا مشہور ارشاد ہے کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:
۱۔ کلمۂ طیبہ کا اقرار   ۲۔ نماز   ۳۔ زکوٰۃ   ۴۔ روزہ   ۵۔ حج
ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی نماز قبول نہیں کرتے جو زکوٰۃ ادا نہ کرے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے (قرآنِ پاک میں) ا س کو نماز کے ساتھ جمع کیا ہے، پس ان دونوں میں فرق نہ کرو۔ (کنز العمال)
علما کا اس پر اتفاق ہے کہ ان میں سے کسی چیز کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ یہی پانچ چیزیںاسلام کی بنیاد ہیں۔ یہی اہم العبادات ہیں۔ یہی وہ چیزیں ہیں جن پر اسلام کاگویا مدار ہے، لیکن اگر غور کی نگاہ سے دیکھاجائے تو ان کا خلاصہ کیا ہے؟ اقرارِ عبدیت کے بعد صرف دو حاضریاں ہیں، آقا کے دربار کی محبوب کی۔ بارگاہ کی۔ پہلی حاضری روحانی ہے جو نماز کے ذریعہ سے ہے۔ اسی لیے حضورﷺکا ارشاد ہے کہ نمازی اللہ تعالیٰ سے باتیں کرتا ہے۔ اسی لیے اس کو معراج المؤمنین کہا جاتا ہے۔ یہ حاضری اپنی ہر وقت کی حاجات اورضرورتیں مالک کے حضور میں پیش کرنے کا وقت ہے۔ اسی لیے بار بار حاضری کی ضرورت پیش آتی ہے کہ آدمی کی ضرورتیں ہر وقت پیش آتی رہتی ہیں۔ 
اسی وجہ سے احادیث میںکثرت سے یہ مضمون آیا ہے کہ حضورِاقدسﷺ اور سارے انبیائے کرام ؑ کو جب کوئی حاجت پیش آتی نماز کی طرف رجوع کرتے۔ اس حاضری میںبندہ کی طرف سے حمدو ثنا کے بعد اعانت کی درخواست ہے اور اللہ تعالیٰ شا نہٗ کی طرف سے اِجابت کا وعدہ ہے، جیساکہ احادیث میں سورئہ فاتحہ کی تفسیر میںاس کی تصریح ہے۔ اسی لیے جب نماز کے لیے پکاراجاتاہے تو نمازکے لیے آئو کے ساتھ ہی اعلان کیاجاتا ہے کہ فلاح کے لیے آئو۔ یعنی دونوں جہان کی کامیابی کے لیے آئو۔ اس کی تائید میں کثرت سے احادیث کا ذخیرہ موجود ہے۔ اور نماز پر چوںکہ دونوں جہان کی فلاح اورکامیابی ہی مولیٰ اور آقا کے دربار سے ملتی ہے، دین اور دنیا دونوں ہی عطا ہوتی ہیں، اس لیے زکوٰۃ گویا اس کا تکملہ اورتتمہ ہے کہ ہمارے دربار سے جو عطا ہو اس میں سے نہایت قلیل مقدار ڈھائی روپیہ سینکڑا ہمارے نام لیوا فقیروں کو بھی دے دیا کرو۔ یہ گویا شکرانہ ہے دربار کی عطا کا، جو عقلی بھی ہے فطری بھی ہے اور معتاد بھی ہے کہ دربار کی عطائوں میں سے دربار کے نوکروں کو بھی دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنِ پاک میں کثرت سے جہاںجہاں نماز کا حکم آتا ہے اس کے ساتھ ہی اس کے بعداکثر زکوٰۃ کا حکم ہوتا ہے کہ نماز کے ذریعہ ہم سے مانگو اور لو، پھر جو ملے اس میں سے تھوڑا سا ہمارے نام لیوائوں کو دیتے جائو۔ پھر لطف پر لطف یہ ہے کہ اس قلیل مقدار کی ادائیگی پر مستقل اجر ہے،مستقل ثواب ہے اور انعاماتِ کثیرہ کا وعدہ ہے۔
دوسری حاضری جسمانی محبوب کے گھر کی ہے جس کو حج کہتے ہیں۔ اس میں چوںکہ فی الجملہ مشقت ہے جانی بھی مالی بھی، اس لیے استطاعت پر عمر بھر میں صرف ایک مرتبہ کی حاضری ضروری قرار دی۔ اوروہاں کی حاضری کے لیے اپنے آپ کو گندگیوں سے پاک کرنے کے لیے چند یوم کا روزہ ضروری قرار دیا کہ ساری گندگیوں کی جڑ پیٹ اور شرم گاہ ہے۔ ان کی چند یوم اہتمام سے حفاظت کی جائے تاکہ وہاں کی حاضری کی قابلیت پیدا ہوجائے۔ اسی لیے روزہ کا مہینہ ختم ہوتے ہی حج کازمانہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی مصلحت سے غالباً فقہائے کرام اسی ترتیب سے ان عبادات کو اپنی کتابوں میں ذکر فرماتے ہیں۔
اس کے علاوہ روزہ میں دوسری مصالح کا ملحوظ ہونا اس کے منافی نہیں۔ مال خرچ نہ کرنے پر آیات میں جو وعیدیں آئی ہیں جن میں سے بعض دوسری فصل میں گزر چکی ہیں، وہ اکثر علما کے نزدیک زکوٰۃ ادا نہ کرنے ہی پر نازل ہوئی ہیں۔ ان سب آیات یا احادیث کا ذکر کرنا تو ظاہر ہے کہ دشوار ہے، نمونہ کے طور پر چند آیات اور چند احادیث اس بارہ میں ذکر کی جاتی ہیں۔ مسلمان کے لیے تو ایک آیت یا حضورِاقدسﷺکا ایک ارشاد بھی کافی ہے۔ اورجو محض نام کا مسلمان ہے اس کے لیے تمام قرآنِ پاک اوراحادیث کا سارا دفتر بھی بے کار ہے۔ فرماںبردار کے لیے تو اس کا ایک مرتبہ معلوم ہو جانا بھی کافی ہے کہ آقا کا یہ حکم ہے اور نافرمان کے لیے ہزار تنبیہیں بھی بے کار ہیں، اتنے عذاب کا جُوت نہ پڑے اتنے کب سمجھ میںآسکتا ہے۔



آیات:

۱۔ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکـٰوۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ o 
(البقرۃ : ع ۵)
اور قائم کرو تم لوگ نماز کو اور دو زکوٰۃ کو اور عاجزی کرو عاجزی کرنے والوں کے ساتھ۔ (یا رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ)

فائدہ:
حضرت مولانا تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں: فروعِ اسلامیہ میں اعمال دو قسم کے ہیں۔ اعمالِ ظاہری اور اعمالِ باطنی۔ پھر اعمالِ ظاہری دوقسم کے ہیں عبادتِ بدنی اور عبادتِ مالی۔ تو یہ تین کلیات ہوئیں۔ ان تینوں کلیات میں سے ایک ایک جزئی کو ذکر کردیا۔ نماز عبادتِ بدنی ہے اور زکوٰۃ عبادتِ مالی ہے اور خشوع و خضوع عبادتِ باطنی ہے۔ چوںکہ تواضعِ باطنی میں اہلِ تواضع کی معیت کو بڑا دخل اور تاثیرِ عظیم ہے، اس لیے مَعَ الرَّاکِعِیْنَ کا لفظ بڑھانا نہایت برمحل ہوا۔ (بیانُ القرآن)
اس قول کے موافق رکوع سے خشوع خضوع مراد ہے۔ اور بڑے لطیف امور آیتِ شریفہ سے ظاہر ہوتے ہیں۔ نمبر۱: یہ کہ ساری عبادات میں اہم العبادات نماز ہے، اسی لیے اس کو سب سے مقدم کیا۔ نمبر۲: دوسرے درجہ میںزکوٰۃ ہے، اسی لیے اس کو دوسرے نمبرپر ذکر کیا۔ نمبر۳: زکوٰۃ اس عطاکا شکرانہ ہے، جیسا کہ ابھی مفصل گزرا۔ نمبر۴: یہ کہ عبادات میں بدنی عبادات، مالی عبادات پرمقدم ہیں، اس لیے بدنی عبادت کو اوّل اور مالی کو دوسرے نمبر پر ذکر فرمایا۔ نمبر۵: یہ کہ عبادات میں ان کی ظاہری صورت باطنی حقیقت پر مقدم ہے، اسی لیے خشوع و خصوع کو تیسرے نمبر پر ذکر فرمایا۔ نمبر۶: یہ کہ خشوع خضوع پیدا کرنے میں اس جماعت کے ساتھ شرکت کو بڑا دخل ہے، اسی وجہ سے مشایخ خانقاہوں کے قیام کو اہمیت دیتے ہیں کہ ان حضرات کی خدمت میں رہنے سے یہ صفت جلدی پیدا ہوتی ہے۔ نمبر۷: تینوں قسم کی عبادات میں مسلمانوں کے عمومی افراد کے عمل کو بہت اہمیت ہے، اسی لیے سب جگہ جمع کے صیغے ارشاد ہوئے۔ غور سے اور بھی لطائف پیدا ہوتے ہیں۔
دوسرا قول یہ ہے کہ رکوع سے مراد نماز کا رکوع ہے۔ ہمارے حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب G نے ’’تفسیرِ عزیزی‘‘ میں جو لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز پڑھو نماز پڑھنے والوں کے ساتھ، یعنی جماعت سے نماز ادا کرو۔ اس لفظ میںگویا جماعت کی تاکید ہے اور جماعت کی نماز اسی مذہب کا خاصہ ہے اور دینوں میں نہیں ہے۔ اور اس کو رکوع کے لفظ سے اس لیے تعبیرکیاکہ یہود کا اوپر سے بیان ہو رہا ہے اور ان کی نماز میںرکوع نہیں ہوتا۔ پس گویا اشارہ ہے اس طرف کہ نماز مسلمانوں کی طرح پڑھو۔ (تفسیرِ عزیزی)
نماز کے ذیل میں جماعت کو بہت خصوصی دخل ہے جیساکہ رسالہ ’’فضائلِ نماز‘‘ میںاس کا بیان تفصیل سے گزر چکا ہے، حتیٰ کہ فقہا نے بغیر جماعت کی نماز کو ناقص ادا بتایا ہے۔
۲۔ وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْ ئٍط فَسَاَکْتُبُھَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ وَیُؤْتُوْنَ الزَّکـٰوۃَ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِنَا یُؤْمِنُوْنَ o
(الأعراف: ع ۱۹)
اور میری رحمت (ایسی عام ہے کہ) تمام چیزوں کو محیط ہے۔ پس اس کو ان لوگوں کے لیے (کامل طور پر خاص طور سے) لکھوں گا جو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اورزکوٰۃ دیتے ہیں اور ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں۔
فائدہ: حضرت حسن اور قتادہ  ؒسے منقول ہے کہ اللہ  کی رحمت دنیا میںہر شخص کو شامل ہے نیک ہو یا بد ہو، لیکن آخرت میں خاص طورسے متقی لوگوں ہی کے لیے ہے۔ ایک اَعرابی مسجد میںآئے اور نماز پڑھ کر انھوں نے دعا کی: یا اللہ! مجھ پر اورمحمد ﷺ پر رحمت فرما، اور ہمارے ساتھ رحمت میں کسی اور کو شریک نہ کر۔ حضورِاقدسﷺ نے ان کو دعا کرتے ہوئے سن لیا تو فرمایا کہ تم نے اللہ کی وسیع رحمت کو تنگ کیا۔ اللہ نے رحمت کے سو حصے فرماکر ایک حصہ دنیا میں اتارا جس کو ساری دنیا میں تقسیم فرما دیا۔ اسی کی وجہ سے مخلوق ساری کی ساری جنات ہوں یا انسان یا چوپائے، ایک دوسرے پر (آل اولاد پر، اپنے پر، بیگانے پر) رحم کرتے ہیں اور ننانوے حصہ اپنے پاس رکھ لی۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سو حصے ہیں جن میں سے ایک کی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کھاتی ہے، اسی کی وجہ سے جانور اپنی اولاد پر رحم کرتے ہیں اور ننانوے حصے قیامت کے دن کے لیے مؤخر کر دیے۔ اور بھی متعدد احادیث میں یہ مضمون آیا ہے۔ (دُرِّمنثور)
کس قدرمسرت کی بات ہے، کس قدر لطف کی چیز ہے کہ مائیں اپنی اولاد پر جتنی شفقت کرتی ہیں کہ اس کی ذرا سی تکلیف سے بے چین ہو جاتی ہیں، باپ اپنی اولاد کو کسی مصیبت میں دیکھتے ہیںپریشان ہو جاتے ہیں، عزیز اَقربا، میاں بیوی، اپنے اور اجنبی کسی پرمصیبت دیکھ کر تلملانے لگتے ہیں، یہ ساری چیزیںاس رحمت ہی کاتو اثر ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قلوب میں رکھی ہے۔ ساری دنیاکی ساری رحمتیں ملاکر ایک بٹہ سو حصہ ہے اس رحمت کا جس کے ننانوے حصے اللہ  نے اپنے لیے اختیار فرمائے۔ اتنے بڑے رحیم، اتنے بڑے شفیق کے اَحکام کی پرواہ نہ کرنا کس قدر بے غیرتی ہے، کس قدر ظلم ہے۔ کوئی ماںاپنے لڑکے پر انتہائی کرم کرتی ہو اور پھر وہ لڑکا اس کے کہنے کی پرواہ نہ کرے تو ماں کوکس قدر رنج ہو؟ حالاںکہ ماںکا لطف و کرم اللہ کے لطف وکرم کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اسی سے حق تعالیٰ شانہٗ کے احکام کی پرواہ نہ کرنے کا اندازہ کر لیا جائے۔
۳۔ وَمَا اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَا فِیْ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ اللّٰہِج وَمَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکـٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ o
(الروم :ع ۴)
اور جو چیز تم اس غرض سے دو گے کہ سود بن کر لوگوں کے مال میں بڑھوتری کا سبب بنے، یہ توا للہ کے نزدیک نہیں بڑھتا۔ اور جو کچھ زکوٰۃ (وغیرہ) دو گے جس سے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو تو ایسے لوگ اپنے 
دیے ہوئے مال کو اللہ تعالیٰ کے پاس بڑھاتے رہتے ہیں۔
فائدہ: مجاہد ؒکہتے ہیں کہ بڑھوتری کی غرض سے مال دینے میں وہ سب مال داخل ہیں جو اس نیت سے دیے جائیں کہ اس سے افضل ملے۔ یعنی چاہے دنیا میں اس سے افضل ملنے کی زیادہ ملنے کی امید پر خرچ کرے، یا آخرت میں زیادہ ملنے کی امید پر خرچ کرے وہ سب بڑھوتری کی امید میں داخل ہے۔ اسی لیے ربا اورزکوٰۃ کو ساتھ ذکر کیا۔ ایک اور حدیث میں حضرت مجاہد ؒسے نقل کیاگیاکہ اس سے ہدایا مراد ہیں۔ (دُرِّمنثور)
یعنی جو ہدیہ وغیرہ کسی کو اس غرض سے دیا جائے کہ وہ اس کے بدلہ میں بڑھ کر دے گا، مثلاً:کسی کی دعوت اس غرض سے کی جائے کہ پھروہ نذرانہ دے گا جو اس سے زیادہ دے گا جتنا دعوت میں خرچ کیا گیا۔ اسی میں نوتہ وغیرہ بھی داخل ہے کہ سب کے سب بڑھوتری کی نیت سے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ان سب کا ایک ہی ضابطہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اضافہ اسی چیزکا ہوتاہے جو اس کی رضا کے لیے خرچ کیا جائے۔
حضرت سعید بن جبیر ؒ فرماتے ہیں کہ جو کوئی ہدیہ اس نیت سے دیا جائے کہ اس کا بدلہ دنیامیںملے، اس کا کوئی ثواب آخرت میں نہیں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب آخرت کی نیت سے دیا ہی نہیں تووہاں کیوں ملے۔
حضرت کعب قرظی ؒ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کسی کو اس نیت سے دے کہ وہ بدلہ میںاس سے زیادہ دے گا، وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی اضافہ کا سبب نہیں۔ اورجو شخص محض اللہ کے واسطے دے کہ جس شخص کو دیا ہے اس سے کسی قسم کی مکافات اور بدلہ کا امیدوار نہ ہو، یہی وہ مال ہے جواللہ کے نزدیک بڑھتا رہتا ہے۔ (دُرِّمنثور)
لہٰذا جو لوگ کسی کو زکوٰۃ وغیرہ کا مال دے کر اس کے امیدوار رہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ احسان مند رہیں گے، وہ اپنے ثواب میںاس بدنیتی سے خودکمی کر دیتے ہیں۔ سب سے پہلی فصل کی آیات میں نمبر (۳۴ ) پر گزرا ہے:
{اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ  لِوَجْہِ اللّٰہِ لَا نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا o}
ہم تم کو محض اللہ کے واسطے کھلاتے ہیں۔ نہ تو ہم اس کاتم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ اس  کا شکریہ چاہتے ہیں۔
 اور حق تعالیٰ شانہٗ نے زیادہ بدلہ چاہنے کی نیت سے خرچ کرنے کو حضورِ اقدس ﷺ کو تو خاص طور سے منع فرمایا ہے۔ چناں چہ دوسری جگہ خصوصیت سے حضورﷺکو ارشاد ہے: {وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ o} (المدثر: ع۱)  ’’اور آپ کسی کو اس غرض سے نہ دیں کہ اس کا زیادہ معاوضہ چاہیں‘‘۔
اوراللہ کے لیے خرچ کرنے کا ثواب، اور اس کی زیادتی دین اور دنیا میں متعدد آیات اور روایات سے پہلی فصل میںگزر چکی ہے۔ اس لیے خرچ کرنے والوں کو بہت اہتمام سے اس کا لحاظ رکھنا چاہیے کہ کسی پر خرچ کرنے کی صورت میں ہرگز ان سے کسی قسم کا بدلہ یا شکریہ کا امیدوار نہ رہنا چاہیے۔ یہ دوسری بات ہے کہ لینے والے کا فرض ہے کہ وہ احسان مند ہو اور اس کا شکر ادا کرے، لیکن دینے والا اگر اس کی نیت کرے گا تو وہ اللہ کے واسطے سے نکل کر دنیا کے واسطے میںداخل ہو جائے گا۔ بالخصوص زکوٰۃ میں تو اس کا واہمہ بھی نہ ہونا چاہیے کہ اس میں وہ خود اپنا فرض ادا کر رہاہے، اس میں کسی پر کیا احسان ہے۔ اسی لیے آیتِ شریفہ میں زکوٰۃ کواللہ کی رضا کے لیے دینے کے ساتھ مقیدکیا ہے۔
احادیث
۱۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ?  قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ {وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ} کَبُرَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُسْلِمِیْنَ، فَقَالَ عُمَرُؓ : أَنَا أُفَرِّجُ عَنْکُمْ۔ فَانْطَلَقَ فَقَالَ: یَا نَبِيَّ اللّٰہِ! إِنَّہٗ کَبُرَ عَلَی أَصْحَابِکَ ھٰذِہِ الْآیَۃُ۔ فَقَالَ: إِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَفْرِضِ الزَّکَاۃَ اِلاَّ لِیُطَیِّبَ مَا بَقِيَ مِنْ أَمْوَالِکُمْ، وَإِنَّمَا فَرَضَ الْمَوَارِیْثَ  وَذَکَرَ کَلِمَۃً لِتَکُوْنَ لِمَنْ بَعْدَکُمْ۔ 


حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ جب قرآنِ پاک میں آیتِ شریفہ { وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ } نازل ہوئی  تو صحابہ کرام? پر یہ آیت بہت شاق ہوئی۔ حضرت عمرؓنے فرمایا کہ اس مشکل کو میں حل کروں گا۔حضرت عمرؓ یہ فرماکر حضورﷺ  کی خدمت میں تشریف لے گئے اور وہاں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آیت تو لوگوں کو  
فَقَالَ: فَکَبَّرَ عُمَرُ ؓ ثُمَّ قَالَ لَہٗ: أَلَا أُخْبِرُکَ بِخَیْرِ مَا یَکْنِزُ الْمَرئُ؟ الْمَرْأَۃُ الصَّالِحَۃُ، إِذَا نَظَرَ إِلَیْھَا سَرَّتْہُ، وَإِذَا أَمَرَھَا أَطَاعَتْہُ، وَإِذَا غَابَ عَنْھَا حَفِظَتْہُ۔
رواہ أبو داود وکذا في مشکاۃ المصابیح۔


بڑی شاق ہورہی ہے۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لیے فرض کی ہے تاکہ بقیہ مال کو عمدہ اور طیب بنا دے، اورمیراث تو آخر اسی وجہ سے فرض ہوئی کہ مال بعد میں باقی رہے۔ حضرت عمر ؓ 
نے خوشی میں اللہ اکبر فرمایا۔  پھر حضورﷺنے ارشادفرمایا کہ میں بہترین چیز خزانہ کے طور پر رکھنے کی بتائوں؟ وہ عورت ہے جو نیک ہو کہ جب خاوند اس کو دیکھے تو اس کی طبیعت خوش ہو جائے اور جب اس کو کوئی حکم کرے تو وہ اطاعت کرے اور جب وہ کہیں چلا جائے تو وہ عورت (خاوند کی متروکہ چیزوںکی) حفاظت کرے۔ (جس میں عفت بھی داخل ہے)
فائدہ: دوسری فصل کی آیات میں نمبر (۵) پر یہ آیتِ شریفہ اور اس کاترجمہ گزر چکا ہے۔ اس آیتِ شریفہ کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کا ذخیرہ چاہے کیسی ہی ضرورت سے جمع کیا جائے وہ سخت عذاب کا سبب ہے۔ اسی لیے صحابہ کرام?کو بڑا شاق گزرا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک رسولﷺ کے ارشادات پر عمل تو صحابہ کرام c کی جان تھی، اور ضرورتیں بسا اوقات روپیہ وغیرہ رکھنے پرمجبور کرتی تھیں، اس لیے بڑی گرانی ہورہی تھی جس کو حضرت عمرؓ نے حضورِاقدسﷺ سے دریافت کرکے حل کیا۔ حضورﷺ نے تسلی فرما دی کہ زکوٰۃ اسی لیے فرض ہوئی کہ اس کے ادا کرنے کے بعد باقی مال طیّب ہو جائے اور اس سے مال کے جمع رکھنے پردلیل ہوگئی کہ زکوٰۃ تو جب ہی واجب ہوگی جب سال بھرمال موجود رہے۔ اگرمال کا رکھناجائز نہ ہوتا تو زکوٰۃ کیوں واجب ہوتی۔ نیز اس سے زکوٰۃکی کتنی بڑی فضیلت معلوم ہوئی کہ اس کے ادا کرنے کا ثواب تو مستقل اور علیحدہ رہا، اس کی وجہ سے باقی مال بھی پاک صاف اور طیّب بن جاتا ہے۔ خود قرآنِ پاک میں بھی اس طرف اشارہ ہے، حق تعالیٰ شانہٗ ارشاد فرماتے ہیں: 
{خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَتُزَکِّیْھِمْ بِھَا} الآیۃ (التوبۃ :ع ۱۳) 
آپ ان کے مالوں سے صدقہ لے لیجیے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو (گناہ کے آثار سے) پاک صاف کر دیں گے۔
ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کیاکرو کہ یہ تمہارے پاک ہونے کا ذریعہ ہے۔ (کنز العمال) ایک اور حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ ادا کیاکرو کہ وہ پاک کرنے والی ہے، اللہ تعالیٰ تم کو (اس کے ذریعہ سے) پاک کر دے گا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ اپنے مالوں کو زکوٰۃ کے ذریعہ سے (گندگی سے یا اِضاعت سے) محفوظ بنائو اور اپنے بیماروں کی صدقہ سے دوا کرو اور بلائوں کے لیے دعائوں کو تیارکرو۔ (کنز العمال) ایک اور حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ کے ذریعہ سے اپنے مال کو محفوظ بنائو، اپنے بیماروں کی صدقہ سے دوا کرو، اوربلائوں کے زوال کے لیے دعا اور عاجزی سے مدد چاہو۔ (کنزالعمال)
اس کے بعد حضورِ اقدسﷺ نے حدیث ِبالا میں مال جمع رکھنے کے جواز کی دوسری دلیل ارشاد فرمائی کہ میراث کا حکم تواسی وجہ سے ہے کہ مال کا رکھنا جائز ہے۔ اگر مال کا رکھناجائز نہ ہو تو پھر تقسیمِ میراث کس چیز کی ہوگی۔ اس کے بعد حضورﷺ نے اس پر تنبیہ فرمائی کہ جائز ہونا امر آخر ہے لیکن خزانوں میں رکھنے کی چیز نہیں ہے، بلکہ اس کو تو خرچ ہی کردینا چاہیے۔محفوظ رکھنے کی چیز نیک بیوی ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ نے اس جگہ سوال فرمایا تھا جس پر حضورﷺ کا یہ ارشاد ہے۔ حضرت ثوبانؓفرماتے ہیں کہ جب یہ آیتِ شریفہ {وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ} الآیۃ نازل ہوئی تو ہم حضورﷺ کے ساتھ سفر میں تھے۔ بعض صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر یہ معلوم ہوجاتا کہ خزانہ کے طور کیا چیز حفاظت سے رکھنے کی ہے؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا: بہترین چیز وہ زبان ہے جو ذکر کرنے والی ہو، وہ دل ہے جو شکرگزار ہو اور وہ نیک بیوی ہے جو دین کے کاموں میں مدد کرنے والی ہو۔ (دُرِّمنثور)
ایک حدیث میں ہے کہ جب یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی تو حضورﷺنے فرمایا کہ سونے چاندی کا ناس ہو کیسی بری چیز ہے۔ تین مرتبہ حضورﷺنے یہی فرمایا۔ اس پر صحابہ نے دریافت کیا کہ خزانہ کے طور پر قابلِ حفاظت کیا چیز بہتر ہے؟ حضورﷺنے فرمایا: زبان ذکرکرنے والی، دل اللہ سے ڈرنے والا اور وہ نیک بیوی جو دین کے کاموں میں معین ومددگار ہو۔ (تفسیرِ کبیر)
کیسی پاک اور جامع تعلیم ہے حضورِ اقدسﷺ کی کہ مال رکھنے کا جواز بھی بتا دیا اور جمع رکھنے کا پسندیدہ نہ ہونا بھی بتا دیا اور دنیا میںراحت کی ایسی زندگی جو آخرت میں کام دے وہ بھی بتا دی کہ ذکر کرنے والی زبان، شکر کرنے والا دل اور دنیا کی لذت کی وہ چیز بھی بتادی جو راحت سے زندگی گزرنے کا سبب ہو اور وہ فتنے اس میں نہ ہوں جومال میں ہیں، ہر قسم کی راحت اس سے میسر ہو، اوروہ بیوی ہے بشرطے کہ نیک ہو، دین دار ہو، فرماںبردار ہو اور سمجھ دار ہو کہ خاوند کے مال ومتاع کی حفاظت کرنے والی ہو۔
۲۔ عَنْ أَبِيْ الدَّرْدَائِؓ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ قَالَ: الزَّکَاۃُ قَنْطَرَۃُ الإِسْلَامِ۔


حضورِاقدسﷺ کا ارشادہے کہ زکوٰۃ اسلام کا (بہت بڑا مضبوط) پُل ہے۔
رواہ الطبراني في الأوسط والکبیر، کذا في الترغیب۔
فائدہ: جیسا کہ مضبوط پُل ذریعہ اور سہولت کاسبب ہوتا ہے کسی جگہ جانے کا، اسی طرح زکوٰۃ ذریعہ ہے اور راستہ ہے اسلام کی حقیقت تک سہولت سے پہنچنے کا یا اللہ کے عالی دربار تک پہنچنے کا۔
عبدالعزیز بن عمیر ؒ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے پوتے فرماتے ہیں کہ نماز تجھے آدھے راستہ تک پہنچا دے گی اورروزہ بادشاہ کے دروازہ تک پہنچادے گا اور صدقہ تجھے بادشاہ کے پاس پہنچادے گا۔ (اِتحاف)
پُل کے ساتھ ایک لطیف مناسبت حضرت شقیق بلخی ؒ جو مشہور بزرگ اور صوفی ہیں کے کلام سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے پانچ چیزیں تلاش کیں، ان کو پانچ جگہ پایا۔ روزی کی برکت کو چاشت کی نماز میں پایا، اور قبر کی روشنی تہجد کی نماز میں ملی، منکر نکیر کے جواب کو تلاوتِ قرآن میں پایا، اور پُلِ صراط پر سہولت سے گزرنا روزہ اور صدقہ میں پایا، اور عرش کا سایہ خلوت میں پایا۔ (فضائلِ نماز)



۳۔ عَنْ جَابِرٍؓ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَرَأَیْتَ إِنْ أَدَّی الرَّجَلُ زَکَاۃَ مَالِہٖ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: مَنْ 


حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص مال کی زکوٰۃ ادا کر دے تو اس مال کی شر اس سے جاتی رہتی ہے۔
أَدَّی زَکَاۃَ مَالِہٖ فَقَدْ ذَھَبَ عَنْہُ شَرُّہٗ۔ رواہ الطبراني في الأوسط، وابن خزیمۃ في صحیحہ، والحاکم مختصراً وقال: صحیح علی شرط مسلم، کذا في الترغیب۔
فائدہ: بعض روایات میں یہ مضمون اس طرح آیا ہے کہ جب تُو مال کی زکوٰۃ ادا کر دے تو تُو نے اس مال کے شر کو زائل کر دیا۔ (کنز العمال) یعنی مال بہت سے شرور کا سبب ہوتا ہے، لیکن اس کی زکوٰۃ اگر اہتمام سے ادا ہوتی رہے تو اس کے شرسے حفاظت رہتی ہے۔ آخرت کے اعتبار سے تو ظاہر ہے کہ پھر اس مال پر عذاب نہیں ہوتا، دنیا کے اعتبار سے اس لحاظ سے کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا مال کے محفوظ رہنے کا ذریعہ ہے، جیسا کہ اس سے اگلی حدیث میں آرہا ہے۔ اور اگر زکوٰۃ ادا نہ کی جائے تو وہ مال ضائع ہو جاتا ہے، جیسا کہ آیندہ فصل کے نمبر (۶)  پر آرہا ہے۔


۴۔ عَنِ الْحَسَنِ  ؒ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: حَصِّنُوْا أَمْوَالَکُمْ بِالزَّکَاۃِ، وَدَاوُوْا مَرْضَاکُمْ بِالصَّدَقَۃِ، وَاسْتَقْبَلُوْا أَمْوَاجَ الْبَلَائِ بِالدُّعَائِ وَالتَّضَرُّعِ۔


حضورِاقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنے مالوں کو زکوٰۃ کے ذریعہ محفوظ بنائو، اور اپنے بیماروں کا صدقہ سے علاج کرو، اور بلا اور مصیبت کی موجوں کا دعا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی سے استقبال کرو۔
رواہ أبو داود في المراسیل، ورواہ الطبراني والبیھقي وغیرھما عن جماعۃ من الصحابۃ مرفوعاً متصلاً والمرسل أشبہ، کذا في الترغیب۔
فائدہ: تحصین کے معنی اپنے چاروں طرف قلعہ بنا لینے کے ہیں۔ یعنی جیسا کہ آدمی قلعہ میں بیٹھ جانے سے ہر طرف سے محفوظ ہو جاتا ہے، ایسا ہی زکوٰۃ کا ادا کر دینا اس مال کو ایسا محفوظ کر دیتا ہے جیسا کہ وہ مال قلعہ میں محفوظ ہوگیا ہو۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضورِاقدسﷺ مسجد ِکعبہ میں حطیم میں تشریف رکھتے تھے۔ کسی شخص نے تذکرہ کیا کہ فلاں آدمیوں کو بڑا نقصان ہوگیا۔ سمندر کی موج نے ان کے مال کو ضائع کر دیا۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جنگل ہو یا سمندر، کسی جگہ بھی جو مال ضائع ہوتا ہے وہ زکوٰۃ نہ دینے سے ضائع ہوتا ہے۔ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کے ذریعہ حفاظت کیا کرو اور اپنے بیماروں کی صدقہ سے دواکیا کرو اور بلائوں کے نزول کو دعائوں سے دور کیا کرو۔ دعا اس بلا کو بھی زائل کر دیتی ہے جو نازل ہوگئی ہو اور اس بلا کو روک دیتی ہے جو ابھی تک نازل نہ ہوئی۔ جب اللہکسی قوم کا بقا چاہتے ہیں یا ان کی بڑھوتری چاہتے ہیں تو اس قوم میں گناہوں سے عفت اور جواںمردی یعنی (جود و بخشش) عطا فرماتے ہیں۔ اور جب کسی قوم کو ختم کرناچاہتے ہیں تواس میں خیانت پیدا کر دیتے ہیں۔ (کنز العمال)



۵۔ رُوِيَ عَنْ عَلْقَمَۃَ ؓ: أَنَّھُمْ أَتَوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ ، قَالَ: فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ ﷺ: إِنَّ تَمَامَ إِسْلَامِکُمْ أَنْ تُؤَدُّوْا زَکَاۃَ أَمْوَالِکُمْ۔ 
رواہ البزار کذا في الترغیب۔


حضرت علقمہؓ فرماتے ہیں کہ جب ہماری جماعت حضورﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوئی تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اسلام کی تکمیل اس میں ہے کہ مالوں کی زکوٰۃ اداکرو۔
فائدہ: اسلام کی تکمیل کا زکوٰۃ پر موقوف ہونا ظاہر ہے کہ جب زکوٰۃ اسلام کے پانچ مشہور ارکان: کلمۂ طیبہ کا اقرار، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کا ایک رکن ہے، تو جب تک ایک رکن بھی باقی رہے گا اسلام کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔
حضرت ابو ایوبؓ فرماتے ہیں کہ ایک صاحب حضورِ اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: مجھے ایسا عمل بتا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ حضورﷺ نے فرمایا: اللہ کی عبادت کرو، کسی کو اس کا شریک نہ کرو، نماز کو قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرتے رہو اور صلۂ رحمی کرتے رہو۔
ایک اور حدیث میں ہے: ایک اَعرابی نے سوال کیا کہ مجھے ایسا عمل بتا دیجیے جس پرعمل کرکے جنت میں داخل ہو جائوں۔ حضورﷺ نے فرمایا: اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، فرض نماز کو اہتمام سے ادا کرتے رہو، فرض زکوٰۃ ادا کرتے رہو، رمضان کے روزے رکھتے رہو۔ ان صاحب نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اس میں ذرا بھی کمی زیادتی نہ ہوگی۔ جب وہ چلے گئے تو حضورﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کاکسی جنتی آدمی کو دیکھ کر دل خوش ہو وہ اس شخص کو دیکھے۔ (الترغیب و الترہیب)



۶۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ ابْنِ مُعَاوِیَۃَ الْغَاضِرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ:  ثَلَاثٌ مَنْ فَعَلَھُنَّ فَقَدْ طَعِمَ طَعْمَ الْإِیْمَانِ۔ مَنْ عَبَدَ اللّٰہَ وَحْدَہٗ وَعَلِمَ أَنْ لاَّ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَعَطْیَ زَکَاۃَ مَالِہٖ طَیِّبَۃً بِھَا نَفْسُہٗ، رَافِدَۃً عَلَیْہِ کُلَّ عَامٍ، وَلَمْ یُعْطِ الْھَرِمَۃَ وَلَا الدَّرِنَۃَ وَلَا الْمَرِیْضَۃَ وَلَا الشَّرَطَ اللَّئِیْمَۃَ، وَلٰکِنْ مِّنْ وَسَطِ أَمْوَالِکُمْ، فَإِنَّ اللّٰہَ لَمْ یَسْأَلْکُمْ خَیْرَہٗ وَلَمْ یَأْمُرْکُمْ بِشَرِّہٖ۔
رواہ أبو داود، کذا في الترغیب۔

حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ جو شخص تین کام کرلے اس کو ایمان کا مزہ آجائے۔ صرف اللہ کی عبادت کرے اور اس کو اچھی طرح جان لے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور زکوٰۃ کو ہر سال خوش دلی سے ادا کرے (بوجھ نہ سمجھے)۔ اس میں (جانوروں کی زکوٰۃ میں) بوڑھا جانور یا خارشی جانور یا مریض یا گھٹیا قسم کاجانور نہ دے، بلکہ متوسط جانور دے۔ اللہ  زکوٰۃ میں تمہارے بہترین مال نہیں چاہتے، لیکن گھٹیا مال کا بھی حکم نہیں فرماتے۔
فائدہ: اس حدیث میں تذکرہ اگرچہ جانوروں کی زکوٰۃ کا ہے، لیکن ضابطہ ہر زکوٰۃ کا یہی ہے کہ نہ تو بہترین مال واجب ہے نہ گھٹیا مال جائز ہے، بلکہ درمیانی مال ادا کرنا اصل ہے۔ البتہ کوئی اپنی خوشی سے ثواب حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے عمدہ مال ادا کرے تو اس کی سعادت ہے، اس کی خوش قسمتی ہے۔ اس سلسلہ میں صحابہ کرام ? کے احوال کو غور سے دیکھے، ان کے طرزِ عمل کی تحقیقات کرے۔ دو واقعے نمونے کے طور پر اس جگہ نقل کرتا ہوں۔
مسلم بن شعبہ ؒکہتے ہیں کہ نافع بن علقمہ ؒ نے میرے والد کو ہماری قوم کا چودھری بنادیا تھا۔ ایک مرتبہ انھوں نے میرے والد کو حکم دیاکہ ساری قوم کی زکوٰۃ جمع کرکے لے جائیں۔ میرے والد نے مجھے سب سے زکوٰۃ کا مال وصول کرنے اور جمع کرنے کوبھیج دیا۔ میں ایک بڑے میاں کے پاس جس کا نام سعر تھاان کی زکوٰۃ لینے کے لیے گیا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا: بھتیجے! کس طرح کا مال لوگے؟ میں نے کہا: اچھے سے اچھا لوںگا، حتیٰ کہ بکری کے تھن تک بھی دیکھوں گا کہ بڑے ہیں یا چھوٹے۔ یعنی ایک ایک چیز دیکھ کر ہر اعتبار سے عمدہ سے عمدہ چھانٹ کرلوںگا۔ انھوں نے فرمایا کہ پہلے میں تمہیں ایک حدیث سنادوں (تاکہ مسئلہ تم کو معلوم ہو جائے، اس کے بعد جیسا دل چاہے لے لینا)؟ میں حضورﷺ کے زمانہ میں اسی جگہ رہتا تھا۔ میرے پاس حضورِ اقدسﷺ  کے پاس سے دو آدمی قاصد بن کر آئے اور یہ کہا کہ ہمیں حضورﷺ نے تمہاری زکوٰۃ لینے کے لیے بھیجا ہے۔ میں نے ان کو اپنی بکریاں دکھا کر دریافت کیا کہ ان میں کیا چیز واجب ہے۔ انھوںنے شمار کرکے بتایا کہ ایک بکری واجب ہے۔ میں نے ایک نہایت عمدہ بکری جو چربی اور دودھ سے لبریز تھی نکالی کہ زکوٰۃ میں دوں۔ ان صاحبوں نے اس کو دیکھ کر کہا کہ یہ بچہ والی بکری ہے، ہمیں ایسی بکری لینے کی حضورﷺ کی طرف سے اجازت نہیں ہے۔ میںنے پوچھا کہ پھر کیسی لوگے؟ ان دونوں نے کہا کہ چھ مہینہ کا مینڈھا یا ایک سال کی بکری۔ میںنے ایک ششماہا بچہ نکال کر ان کو دے دیا، وہ لے گئے۔ (ابوداؤد)
اس واقعہ میں حضرت سعرؓ کی خواہش ابتداء ًایہی تھی کہ تمام بکریوں میں جو بہتر سے بہتر ہو اداکی جائے اورا بنِ نافع کو غالبًا یہ واقعہ اس لیے سنایا کہ ان کو مسئلہ معلوم ہو جائے، اور اس کے بعد ان کا انداز تواس واقعہ سے خود ہی معلوم ہوگیا کہ یہ زکوٰۃ میںاپنا بہترین مال دینا چاہتے ہیں۔
دوسرا واقعہ حضرت اُبی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حضورﷺ نے ایک مرتبہ زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ میں ایک صاحب کے پاس گیا۔ جب انھوںنے اپنے اونٹ میرے سامنے کیے تو میں نے دیکھا کہ ان میں ایک سال کی اونٹنی واجب ہے۔ میں نے ان سے کہاکہ ایک سالہ اونٹنی دے دو۔ وہ کہنے لگے کہ ایک سالہ اونٹنی کس کام آئے گی، نہ تو وہ سواری کا کام دے سکتی ہے نہ دودھ کا؟ یہ کہنے کے بعد انھوں نے ایک نہایت عمدہ بہت موٹی تازی بڑی اونٹنی نکالی اور کہا کہ یہ لے جائو۔ میںنے کہا: میں تو اس کو قبول نہیں کرسکتا۔ البتہ حضورﷺ  خود سفر ہی میں تشریف فرما ہیں اور تمہارے قریب ہی آج منزل ہے۔ اگر تمہارا دل چاہے توبراہِ راست حضورﷺ کی خدمت میں جاکر پیش کردو۔ اگر حضورﷺ نے اجازت دے دی تو میں لے لوںگا۔ وہ صاحب اس اونٹنی کو لے کر میرے ساتھ چل دیے۔ جب ہم حضورﷺ کی خدمت میں پہنچے تو انھوںنے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کے قاصد میرے پاس آئے تھے کہ میری زکوٰۃ لیں اور خدا کی قسم! یہ سعادت مجھے اب سے پہلے کبھی نصیب نہیںہوئی کہ حضورﷺ نے یا حضورﷺ کے قاصد نے کبھی مجھ سے مال طلب کیا ہو۔ میںنے آپ کے قاصد کے سامنے اپنے اونٹ کر دیے، انھوںنے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ ان میںایک سالہ اونٹنی واجب ہے۔ حضورﷺ ایک سالہ اونٹنی نہ تو دودھ کا کام دے سکتی ہے نہ سواری کا، اس لیے میں نے ایک بہترین اونٹنی ان کی خدمت میں پیش کی تھی جو یہ میرے ساتھ حاضر ہے۔ انھوںنے اس کے قبول کرنے سے انکار کر دیا، اس لیے میں آپ کی خدمت میں لایا ہوں۔ یارسول اللہ! اس کو قبول ہی فرما لیجیے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ تم پر واجب تو وہی ہے جو انھوںنے بتایا۔ اگر تم نفل کے طور پر زیادہ عمر کی عمدہ اونٹنی دیتے ہو تو اللہ  تمہیں اس کا اجر دے گا۔ انھوںنے عرض کیا: یا رسول اللہ! میںاسی لیے ساتھ لایا ہوں اس کوقبول فرمالیں۔ حضورﷺ نے اس کے لینے کی اجازت فرما دی۔ (ابوداود)
ان حضرات کے دلوں میں زکوٰۃ کامال ادا کرنے کے یہ ولولے تھے۔ وہ اس پر فخر کرتے تھے، اس کو عزت سمجھتے تھے کہ اللہ کا اور اس کے رسول کا قاصد آج میرے پاس آیا اور میں اس قابل ہوا۔ وہ اس کو تاوان اور بیگار نہیں سمجھتے تھے۔ وہ اس کو اپنی ضرورت، اپنی غرض اور اپنا کا م سمجھتے تھے۔ ہم لوگ عمدہ مال کویہ سوچتے ہیں کہ اس کو رکھ لیں کہ اپنے کام آئے گا اور یہ حضرات اپنے کام آنا اُسی کو سمجھتے تھے جو اللہ کے راستے میں خرچ کر دیا ہو۔ حضرت ابو ذر ؓ  کا واقعہ پہلی فصل کی آیات کے ذیل میں نمبر (۱۱) پرگزر چکا کہ جب قبیلہ بنی سُلَیم کے ایک شخص نے آپ کی خدمت میں رہنے کی درخواست کی، تو آپ نے ان سے یہ فرمایا کہ اس شرط پر میرے پاس قیام کی اجازت ہے کہ جب میں کسی کو کوئی چیز دینے کو کہوں تو جو چیز میرے مال میں سب سے عمدہ اور بہتر ہو اس کو چھانٹ کر دینا ہوگا۔ یہ مفصل قصہ گزر چکا ہے  اور آیندہ فصل کی احادیث میں نمبر (۱۰) پر یہ مضمون تفصیل سے آرہا ہے کہ زکوٰۃ صدقات میں بالخصوص زکوٰۃ میں خراب مال ہرگز نہ دینا چاہیے۔
۷۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ  قَالَ: إِذَا أَدَّیْتَ الزَّکَاۃَ فَقَدْ قَضَیْتَ مَا عَلَیْکَ، وَمَنْ جَمَعَ مَالاً حَرَامًا ثُمَّ تَصَدَّقَ بِہٖ لَمْ یَکُنْ لَہٗ فِیْہِ أَجْرٌ وَکاَنَ إِصْرُہٗ عَلَیْہِ۔
رواہ ابن حبان وابن خزیمۃ في صحیحیھما والحاکم وقال: صحیح الإسناد، کذا في الترغیب۔


حضورِ اقدسﷺکا پاک ارشاد ہے کہ جب تو مال کی زکوٰۃ ادا کردے تو جو حق (واجب) تجھ پر تھا وہ تو ادا ہوگیا۔ (آگے صرف نوافل کا درجہ ہے) اور جو شخص حرام طریقہ (سود، رشوت وغیرہ) سے مال جمع کرکے صدقہ کرے اس کو اس صدقہ کا کوئی ثواب نہیں ہے،بلکہ اس حرام کمائی کا وبال اس پر ہے۔
فائدہ: اس حدیث میں دو مضمون وارد ہوئے ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ واجب کا درجہ زکوٰۃ کا ہے، اس کے علاوہ جو درجات ہیں وہ صدقات اور نوافل کے ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص زکوٰۃ کو اداکر دے اس نے اس حق کو تو ادا کر دیا جو اس پرواجب تھا، اس سے زیادہ جو ادا کرے وہ افضل ہے۔ (کنز العمال)
حضرت ضِمام بن ثعلبہؓ کی مشہور حدیث ہے جو ’’بخاری شریف‘‘، ’’مسلم شریف‘‘ وغیرہ سب کُتب میں بہت طریقوں سے ذکر کی گئی، جس میں انھوںنے حضورﷺ سے اسلام اور اس کے ارکان کے متعلق سوالات کیے اورحضورﷺ نے سب کو تفصیل سے بتایا، اس میں من جملہ دوسرے ارکان کے حضورﷺ نے زکوٰۃ کابھی ذکر فرمایا۔ حضرت ضمام ؓ نے پوچھا کہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی چیز مجھ پر واجب ہے؟ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا کہ نہیں۔ البتہ اگر نفل کے طور پر تم ادا کرو تو اختیار ہے۔
حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں ایک شخص نے مکان فروخت کیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اس کی قیمت کو احتیاط سے اپنے گھر میں گڑھا کھود کر اس میںرکھ دینا۔ اس نے عرض کیا کہ اس طرح کنز میں داخل نہ ہو جائے گا؟ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ جس کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے وہ کنز میں داخل نہیں ہوتا۔ حضرت ابنِ عمر? کا ارشاد ہے کہ مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ میرے پاس اُحد کے پہاڑ کے برابر سونا ہو میں اس کی زکوٰۃ ادا کرتا رہوں اور اس میں اللہ کی اطاعت کرتا رہوں۔ (دُرِّمنثور)
اس نوع کی بہت سی روایات کتب احادیث میں موجود ہیں، جن کی بنا پر جمہور علما اور ائمہ اربعہ کا یہی مذہب ہے کہ مال میں بحیثیت مال کے تو زکوٰۃ کے علاوہ کسی دوسری چیز کا وجوب نہیں۔ البتہ دوسری حیثیات سے اگر وجوب ہو تو وہ ا مرِ آخر ہے، جیسا کہ بیوی کا، چھوٹی اولاد کا نفقہ ہے اور اسی طرح سے دوسرے نفقات ہیں، یا اسی طرح سے مضطر کی ضرورت کا پوراکرنا ہے کہ جو شخص بھوک یاپیاس کی وجہ سے مررہا ہے اس کو موت سے بچانا فرضِ کفایہ ہے۔ امام غزالی  ؒ  ’’اِحیاء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں کہ بعض تابعین کا مذہب یہ ہے کہ مال میںزکوٰۃ کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں، جیسا کہ نخعی، شعبی، عطا اور مجاہد  ؒ  کا مذہب ہے۔ امام شعبی  ؒ سے کسی نے پوچھا کہ مال میںزکوٰۃ کے علاوہ بھی کوئی حق ہے؟ انھوں نے فرمایا: ہے اور قرآن پاک کی آیت { وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ}تلاوت فرمائی جو سب سے پہلی فصل کی آیات میںنمبر (۲) پرگزری چکی ہے۔ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ یہ حقوقِ مسلم میں داخل ہے کہ مال داروں کے ذمہ یہ ضروری ہے کہ جب وہ کسی ضرورت مند کو دیکھیں تو اس کی ضرورت کاازالہ کریں، لیکن جو چیز فقہ کے اعتبار سے صحیح ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کو اضطرار کا درجہ حاصل ہو جائے تو اس کا ازالہ فرضِ کفایہ ہے، لیکن اس کا ازالہ بطور قرض کے کیا جائے یا اعانت کے طور پر، یہ فقہا کے یہاں مختلف فیہ ہے۔ (اِحیاء العلوم)
مضطر کی اعانت اپنی جگہ پر مستقل واجب ہے جب کہ وہ بھوک سے یا پیاس سے یا کسی اور وجہ سے ہلاکت کے قریب ہو، لیکن مال دار پر مالی حیثیت سے زکوٰۃ سے زیادہ واجب نہیں ہے۔ یہاں دو امر قابلِ لحاظ ہیں۔ اول اِفراط۔ ہم لوگوں کی عادت یہ ہے کہ جب بھی کسی چیز کی طرف بڑھتے ہیں تو ایسا زور سے دوڑتے ہیں کہ پھر حدود کی ذرا بھی پرواہ نہیں رہتی۔ اس لیے اس کی رعایت ضروری ہے کہ کسی دوسرے شخص کا مال بغیر اس کی طیبِ خاطر کے لینا جائز نہیں ہے۔ فقہا نے مضطر کے لیے دوسرے کامال کھانے کی ضرور اجازت دی ہے، لیکن اس میں خود حنفیہ کے یہاں بھی دوقول ہیں کہ اس کو مردار کا کھانا دوسرے کا مال کھانے پر مقدم ہے یا دوسرے کا مال مردار کھانے پر مقدم ہے، جیسا کہ کُتب فقہ میں مذکور ہے؟ لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ اس حالت پر پہنچ جائے کہ اس کو مردار کھانے کی اجازت ہو جائے، جب وہ دوسرے کامال کھا سکتا ہے، حق تعالیٰ شا نہٗ کا ارشاد ہے:
{وَلَا تَاْکُلُوْا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُوْا بِھَا اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ o} 
(البقرۃ : ع ۲۳)


اور آپس میںایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھائو، اور ان کو حکام کے یہاں اس غرض سے نہ لے جائو کہ لوگوں کے مال کا ایک حصہ بطریقِئ گناہ کے کھاجائو اور تم اس کو جانتے ہو۔
 حضورِ اقدس ﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ کسی پر ظلم نہ کرو، کسی شخص کا مال اس کی طیبِ خاطر بغیر لینا حلال نہیں ہے۔ (مشکاۃ المصابیح، زیلعی) حضورِ اقدس ﷺ  کامشہور ارشاد ہے کہ جو شخص ایک بالشت زمین کسی کی ظلم سے لے گا، قیامت کے دن ساتویں زمینوں کا وہ حصہ جو اس ایک بالشت کے مقابل ہے، طوق بناکر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ (مشکاۃ المصابیح)
وفدِ ہوازِن کا قصہ نہایت مشہور ہے کہ جب وہ شکست کھانے کے بعد مسلمان ہو کر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور یہ درخواست کی غنیمت میں جو قیدی اور مال ان کا لیا گیا ہے وہ ان کو واپس مل جائے، تو حضورﷺ نے بعض مصالح کی بنا پر یہ وعدہ فرمالیا کہ دونوںچیزیں تو واپس نہیں ہوسکتیں، ان میں سے ایک واپس ہوسکتی ہے۔ انھوںنے قیدیوں کے واپس مل جانے کی درخواست کی، تو حضورﷺ نے سب مسلمانوں سے جن کا ان میں حق تھا یہ اعلان فرمایا کہ میں نے ان کے قیدی واپس کرنے کا وعدہ کرلیا ہے۔ تم میں سے جو شخص طیبِ خاطر سے اپنا حصہ مفت دے وہ دے دے اور جو اس کو پسند نہ کرے ہم اس کا بدل اس کو دے دیں گے۔ بھلا حضورﷺ کے اِیما کے بعد صحابہ c میں کون انکار کرنے والا تھا۔ مجمع نے عرض کیا: ہم طیبِ خاطر سے پیش کرتے ہیں۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجمع کے درمیان میں یہ صحیح طور پر پتہ نہیں چل سکتا کہ کس کی خوشی سے اجازت ہے کسی کی نہیں، اس لیے تمہارے چودھری تم سے علیحدہ علیحدہ بات کرکے تمہاری رضاکی مجھے اطلاع کر دیں۔ (بخاری)
دوسرے کے مال میں احتیاط کا یہ اُسوہ حضورﷺ کا ہے اور اس مضمون کی تائید میں احادیث کا بڑا ذخیر ہ ہے کہ جبر واِکراہ سے بلا رضا مندی کسی دوسرے کا مال لینا ہرگز جائز نہیں ہے۔ علمائے حق نے اس میں اتنی احتیاط برتی ہے کہ جو مجمع کی شرم میں کسی کارِخیر میں چندہ دیا جائے اس کو بھی پسند نہیں کیا۔ اس لیے ایک جانب تواس میں اِفراط سے بچنا ضروری ہے کہ بہ جبر و اِکراہ کسی دوسرے کا مال نہ لیا جائے۔ کسی وقتی تحریک سے مرعوب ہو کر ہرگز قول و فعل سے، تحریر و تقریر سے، جمہور اَسلاف کا خلاف نہ کرنا چاہیے۔ غریب پروری کا جذبہ بہت مبارک ہے، مگر اس میں حدود سے تجاوز ہرگز نہ کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ  کا پاک ارشاد ہے کہ بدترین لوگوں میں سے ہے وہ شخص جو دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت کو نقصان پہنچائے۔ (مشکاۃ المصابیح) اس لیے اس میںایک جانب اِفراط سے بچنا ضروری ہے اور دوسری جانب اس میں تفریط سے بچنا بھی اہم اور نہایت ضروری ہے۔ یہ صحیح ہے کہ مال میں زکوٰۃ ہی واجب ہے، لیکن محض واجب کی ادائیگی پر کفایت کرنا ہرگز مناسب نہیں۔
ا ب تک جو مضامین اورروایات رسالہ میں گزر چکی ہیں، وہ سب کی سب ببانگِ دُہل اس کا اعلان کررہی ہیں کہ اپنے کام آنے والا صرف وہی مال ہے جو اپنی زندگی میں دے دیاگیا اور اللہ کے یہاں جمع کر دیا گیا۔ بعد میں نہ کوئی ماں باپ یاد رکھتا ہے، نہ بیوی یا اولاد پوچھتی ہے۔ سب چند روز کے فرضی آنسو مفت کے بہاکر اپنے اپنے مشغلہ میں لگ جائیں گے۔ کسی کو مہینوںاور برسوں بھی مرنے والے کاخیال نہیں آئے گا۔ اس سب سے قطعِ نظر حدیث ِبالا کے سلسلہ میں ایک اور اہم اور کلی بات بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ دین کے متعلق ایک مہمل اور بے ہودہ لفظ ہماری زبانوں پر ہوتا ہے: اجی! ہم دنیا داروں سے فرائض ہی ادا ہوجائیں تو غنیمت ہے، نوافل تو بڑے لوگوں کاکام ہے۔ یہ شیطانی دھوکہ ہے۔ نوافل اور تطوُّعات فرائض ہی کی تکمیل کے واسطے ہوتے ہیں۔ کون شخص یہ یقین کرسکتا ہے کہ میں نے اللہ کے کسی فرض کو بھی پورا کا پورا کر دیا؟ اور جب اس میں کوتاہی رہتی ہی ہے تواس کے پورا کرنے کے لیے نوافل ہوتے ہیں۔
حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ آدمی نمازسے ایسی حالت میں فارغ ہوتا ہے کہ اس کے لیے اس نماز کا دسواں حصہ لکھاجاتا ہے، نواں حصہ، آٹھواں حصہ، ساتواں حصہ، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تہائی، آدھا حصہ لکھا جاتا ہے۔ (ابوداود) یہ مثال کے طور پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ہم لوگ جیسی نمازیں پڑھتے ہیں اس کا تو ہزارواں، بلکہ لاکھواں حصہ بھی لکھ لیا جائے تو محض اس کا لطف و کرم ہے۔ ورنہ وہ توا پنی بداعمالیوں اور بے اخلاصی کی وجہ سے ایسی ہوتی ہیں جیسا کہ دوسری احادیث میں ہے کہ بعض نمازیں پرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کر منہ پر مار دی جائیں گی کہ ان میں قبول کا کوئی درجہ بھی نہ ہوگا۔ ایسے احوال میں نہیں کہا جاسکتا کہ ہمارے فرائض کا کتنا حصہ لکھا گیا۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت میں سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا۔ اللہ  کاپاک ارشاد فرشتوں کوہوگا کہ میرے بندے کی نماز کو دیکھو کہ ناقص ہے یا پوری۔ اگر پوری ہوتی ہے تو وہ پوری لکھ لی جاتی ہے اور اگر ناقص ہوتی ہے تو جتنا نقصان ہوتا ہے وہ درج ہو جاتا ہے۔ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ دیکھو اس کے پاس کچھ نوافل ہیں یا نہیں؟ اگر نوافل اس کے پاس ہوتے ہیں توان سے فرائض کی تکمیل کر دی جاتی ہے۔ اس کے بعد پھر اس طرح زکوٰۃ کا حساب کتاب شروع ہوتا ہے۔ یعنی اول فرائض کا حساب ہوتا ہے، پھر نوافل سے اس کی تکمیل ہوتی ہے، اس کے بعد پھر اسی طرح بقیہ اعمال کا حساب کتاب ہوتا ہے۔ (ابوداود)
ایسی صورت میں اس گھمنڈ میں کسی شخص کوہرگز نہ رہنا چاہیے کہ میں زکوٰۃ حساب کے موافق دیتا رہتا ہوں۔ نہ معلوم کتنی کوتاہیاں اس میں ہوجاتی ہوں گی۔ ان کی تلافی کے لیے زیادہ سے زیادہ مقدار صدقاتِ نافلہ کا ذخیرہ ہونا چاہیے۔ عدالت میں جب مقدمہ کے لیے آدمی جاتا ہے، ہمیشہ خرچ سے زیادہ روپیہ جیب میں ڈال کر جاتا ہے کہ نہ معلوم کیا خرچ پیش آئے۔ وہ عدالت توسب عدالتوںسے اونچی ہے، جہاںنہ جھوٹ چلتا ہے نہ زبان زوری نہ سفارش۔ ہاں اللہ کی رحمت ہر چیز سے بالاتر ہے۔ وہ صاحبِ حق ہے، بالکل ہی معاف کر دے تو کسی کا کیا اِجارہ ہے؟ لیکن یہ ضابطہ کی چیز نہیں ہے۔ اور مراحمِ خسر وانہ کی امیدپر جرم نہیںکیے جاتے۔ اس لیے فرض کی مقدار کو بہت اہتمام سے اس کے شرائط اور آداب کی رعایت رکھتے ہوئے ادا کرتے رہنا چاہیے، اور محض فرائض کی ادائیگی پرہرگز ہرگز قناعت نہ کرنا چاہیے، بلکہ ان کی کوتاہی کے خوف سے تکمیل کے لیے زیادہ حصہ نوافل کے ذخیرہ کا اپنے پاس رہنا چاہیے۔
علامہ سیوطی  ؒ نے ’’مرقاۃُ الصُّعود‘‘ میں نقل کیا ہے کہ ستّر نوافل ایک فریضہ کی برابری کرتے ہیں۔ اس لیے فرض کو بہت اہتمام سے ادا کرنا چاہیے کہ اس کی تھوڑی سی کوتاہی سے نوافل کا بہت بڑا ذخیرہ اس میں وضع ہو جاتا ہے اورفرائض میںاہتمام کے باوجود احتیاط کے طورپر نوافل کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے نامۂ اعمال میں محفوظ رکھنا چاہیے۔
دوسرا مضمون حدیث ِ بالا میں یہ تھا کہ جو شخص حرام مال جمع کرکے اس میں سے صدقہ کرے اس کو صدقہ کاثواب نہیں ہے۔ بہت سی روایات میں یہ مضمون ذکر کیاگیا کہ حق تعالیٰ شانہٗ حلال مال سے صدقہ قبول کرتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ غلول کے مال کا صدقہ قبول نہیں کرتے۔ غلول مالِ غنیمت میں خیانت کو کہتے ہیں۔ علما نے لکھا ہے کہ غلول کا تذکرہ اس وجہ سے فرمایا کہ غنیمت کے مال میں سب کا حصہ ہوتا ہے، تو جب ایسے مال کا صدقہ جس میں خود اپنا بھی حصہ ہے قبول نہیں ہوتا، تو جس مال میں اپنا کوئی حصہ نہ ہو اس میں سے صدقہ بطریق اولیٰ قبول نہ ہوگا۔
ایک حدیث میں حضورِ اقدسﷺ  کا ارشاد واردہواہے کہ جو شخص حرام مال کماتا ہے وہ اگر خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوتی، صدقہ کرے تو قبول نہیں ہوتا، پیچھے میراث کے طور پر چھوڑ جائے توگویا جہنم کا توشہ چھوڑ گیا۔
حضرت ابنِ مسعودؓ  فرماتے ہیں کہ جو شخص حلال مال کما وے اس کا زکوٰۃ کا ادا نہ کرنا، اس مال کو خبیث بنا دیتا ہے۔ اور جو شخص حرام مال کماوے اس کا زکوٰۃادا کرنااس مال کو طیب نہیں بناتا۔
(دُرِّمنثور)




پانچویں فصل
زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی وعید میں
قرآنِ پاک میں بہت سی آیات نازل ہوئی ہیں جن میں سے متعدد آیات دوسری فصل میں یعنی مال خرچ نہ کرنے کی وعیدمیں گزر چکی ہیں، جن کے متعلق علما نے تصریح کی ہے کہ یہ زکوٰۃ ادا نہ کرنے میں ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جتنی وعیدیں گزری ہیں وہ زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر جب کہ زکوٰۃ بالاجماع فرض ہے، بطریقِ اولیٰ شامل ہوں گی۔ چناںچہ:



۱۔ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ (الآیۃ)
جو دوسری فصل کے نمبر(۵) پر مع ترجمہ گزر چکی ہے۔ جمہور صحابہ کرام? اور جمہور علما کے نزدیک زکوٰۃ کے بارہ میں نازل ہوئی ہے۔ اور جو سخت عذاب اس آیتِ شریفہ میں ذکر کیا گیا، وہ زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کے لیے ہے، جیسا کہ اس کے ذیل میں بھی گزر چکا۔ اور متعدد احادیث میں حضورِ اقدسﷺ  کے پاک ارشاد سے بھی اس کی تائیدہوتی ہے کہ جو عذاب اس آیتِ شریفہ میں ذکر کیا گیا کہ اس کے مال کو تپاکر اس شخص کی پیشانی کو اور پہلو وغیرہ کو اس سے داغ دیے جائیںگے، یہ زکوٰۃ ادا نہ کرنے کا عذاب ہے۔ اللہ ہی اپنے فضل سے محفوظ رکھے کہ پکتے ہوئے دھات کا ذرا سا داغ بھی سخت اَذیت پہنچانے والا ہوتا ہے،  چہ جائے کہ جتنا زیادہ مال ہو اتنے ہی زیادہ داغ آدمی کو دیے جائیں گے۔ چند روز ان سونے چاندی کے ٹھیکروں کو اپنے پاس رکھ کر کتنی سخت مصیبت کا سامنا ہے۔



۲۔ وَلاَ یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ (الٓایۃ)
یہ آیتِ شریفہ بھی مع ترجمہ دوسری فصل کے نمبر(۳) پر گزر چکی ہے اور اس کی تائید میں ’’بخاری شریف‘‘ کی حدیث سے حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد بھی گزر چکا ہے کہ جس شخص کو اللہ  نے مال عطا کیا ہو اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو، وہ مال سانپ بن کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گااور وہ کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں۔ سانپ جس گھر میںبھی نکل آتاہے دہشت کی وجہ سے اندھیرے میں اس گھر میں بھی جانا مشکل ہو جاتا ہے کہ کہیں لپٹ نہ جائے، لیکن اللہ کا پاک رسول(ﷺ) فرماتا ہے کہ یہی مال جس کو آج محفوظ خزانوں اور لوہے کی الماریوں میںرکھا جاتا ہے، زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر کل کو سانپ بن کر تمہیں لپٹا دیاجائے گا۔ گھر کے سانپ کا لپٹنا ضروری نہیں محض احتمال ہے کہ شاید وہ لپٹ جائے، اور اس شاید اور احتمال پر بار بار فکر و خوف ہوتا ہے کہ کہیں ادھر سے نہ نکل آئے اُدھر سے نہ نکل آئے، اورزکوٰۃ ادا نہ کرنے پر اس کا عذاب یقینی ہے، مگر پھر بھی اس کا خوف ہم کو نہیں ہوتا۔



۳۔ اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْھِمْ ص وَاٰتَیْنٰـہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُوْاُ بِالْعُصْبَۃِ اُوْلِی الْقُوَّۃِ ق اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَo وَابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰـکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ  مِنَ الدُّنْیَا وَاَحْسِنْ کَمَا اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِیْ الْاَرْضِط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَo قَالَ اِنَّمَا اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْط اَوَ لَمْ یَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ قَدْ اَھْلَکَ مِنْ قَبْلِہٖ مِنَ الْقُرُوْنِ مَنْ ھُوَ اَشَدُّ مِنْہُ قُوَّۃً وَّاَکْثَرُ جَمْعًاط وَلَا یُسْئَلُ عَنْ ذُنُوْبِھِمُ المُجْرِمُوْنَo فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ فِی زِیْنَتِہٖط قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یٰـلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُ لا اِنَّہٗ لَذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ o وَقَالَ  الَّذِیْنَ اُوْتُوْ الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللّٰہِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًاج وَلَا یُلَقّٰھَآ اِلاَّ الصّٰبِرُوْنَo فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ قف فَمَا کَانَ لَہٗ مِنْ فِئَۃٍ یَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ ق وَمَا کَانَ مِنَ ا لْمُنْتَصِرِیْنَo وَاَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَکَانَہٗ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ وَیْکَاَنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ ج لَوْلآ اَنْ مَّنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا ط وَیْکَاَنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ o (القصص: ع ۸)
قارون حضرت موسیٰ ؑکا چچا زاد بھائی تھا، جس کا قصہ مشہور و معروف ہے۔ قرآنِ پاک میں سورئہ قصص کا آٹھواں رکوع سارا کاسارا اسی قصہ میں ہے جس کا ترجمہ مع توضیح یہ ہے کہ قارون(حضرت) موسیٰ (علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام) کی برادری میں سے (ان کا چچا زاد بھائی) تھا۔ سو وہ (کثرتِ مال کی وجہ سے) اِن لوگوں کے مقابلہ میں تکبرکرنے لگا۔ اور ہم نے اس کو اس قدر خزانے دیے تھے کہ ان کی کنجیاں کئی کئی زور آور شخصوں کو گراں بار کر دیتی تھیں۔ (یعنی ان سے بمشکل اٹھتی تھیں اور جب خزانوں کی کنجیاں اتنی تھیں تو ظاہر ہے کہ خزانے تو بہت ہی ہوںگے۔ اورا س نے یہ تکبر اس وقت کیا تھا) جب کہ اس کو اس کی برادری نے (حضرت موسیٰ ؑ  وغیرہ نے سمجھانے کے طور پر) کہا کہ تُو (اس مال و دولت پر) اِترا مت، واقعی اللہ تعالیٰ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ اور تجھ کو خدا تعالیٰ نے جتنا دے رکھا ہے اس میںعالمِ آخرت کی بھی جستجوکیا کر اور دنیا سے اپنا حصہ (آخرت میں لے جانا) فراموش نہ کر اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے تجھ پر احسان کیا ہے تو بھی (اس کے بندوں پر) احسان کیا کر (اور خدا کی نافرمانی اور حقوقِ واجبہ ضائع کرکے) دنیا میں فساد کا خواہاں مت ہو، بے شک اللہ تعالیٰ فسادی لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ قارون نے (ان کی نصیحتیں سن کر یہ) کہا کہ مجھ کو تو یہ سب کچھ میری ذاتی ہنر مندی سے ملا (کہ میری حسنِ تدبیر سے یہ جمع ہوا، نہ اس میں کچھ غیبی احسان ہے نہ کسی دوسرے کا اس میں کوئی حق ہے۔ حق تعالیٰ شا نہٗ اس کے قول پر عتاب فرماتے ہیں کہ) کیا اس (قارون) نے یہ نہ جاناکہ اللہ تعالیٰ اس سے پہلے گزشتہ امتوں میں ایسے لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے جو مالی قوت میں بھی اس سے کہیں بڑھے ہوئے تھے اور (جماعتی حیثیت سے) مجمع بھی ان کازیادہ تھا، (یہ تو دنیا میں ہوا اور آخرت میں جہنم کا عذاب الگ رہا) اور مجرموں سے ان کے گناہوں کا (معلوم کرنے کی غرض سے) سوال بھی نہ ہوگا (کہ ہر شخص کا پورا حال اللہ تعالیٰ شا نہٗ کو معلوم ہے، مطالبہ کی وجہ سے سوال علیٰحدہ رہا)۔ پھر (وہ قارون ایک مرتبہ) اپنی آرایش و شان کے ساتھ اپنی برادری کے سامنے نکلا تو جو لوگ (اس کی برادری میں) دنیا کے طالب تھے،وہ کہنے لگے: کیا اچھا ہوتا کہ ہم کو بھی یہ سازو سامان ملاہوتا جو قارون کو ملا ہے، واقعی یہ قارون بڑا صاحبِ نصیب ہے۔ (یہ تمنا اور حرص مال کی تھی، اس سے ان لوگوں کا کافر ہونا لازم نہیں ہے، جیساکہ اب بھی بہت سے مسلمان دوسری قوموں کی دنیاوی ترقیات دیکھ کر ہر وقت للچاتے ہیں اوراس کی فکر و سعی میں لگے رہتے ہیں کہ دنیاوی فروغ ہمیں بھی نصیب ہو) اورجن لوگوں کو علمِ دین (اوراس کا فہم) عطاکیاگیا تھا وہ (ان حریصوں سے) کہنے لگے: ارے تمہارا ناس ہو! (تم اس دنیا پر کیا للچاتے ہو) اللہ تعالیٰ کے گھر کا ثواب (اس چند روزہ مال و دولت سے لاکھ لاکھ درجے) بہتر ہے۔ جو ایسے شخص کو ملتا ہے جو ایمان لائے اور اچھے عمل کرے اور( ان میں سے بھی کامل درجہ کاثواب )انہی لوگوں کو دیا جاتا ہے جو صبر کرنے والے ہوں۔ اور پھر (جب ہم نے قارون کی سرکشی اورفساد کی وجہ سے) اس کو اور اس کے محل سرائے کو زمین میں دھنسا دیا، سو کوئی جماعت ایسی نہ ہوئی کہ اس کو اللہ کے عذاب سے بچا لیتی اور نہ وہ خود ہی کسی تدبیر سے بچ سکا۔ (بے شک اللہ تعالیٰ کے عذاب سے کون بچا سکتا ہے اور کون بچ سکتا ہے۔ قارون پر یہ عذاب کی حالت دیکھ کر) کل جو لوگ اس جیسا ہونے کی تمنا کر رہے تھے وہ کہنے لگے: بس جی یوں معلوم ہوتا ہے کہ (رزق کی فراخی کا اور تنگی کا مدار خوش نصیبی یا بدنصیبی پر نہیں ہے، بلکہ) اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے روزی کی فراخی دیتا ہے اور جس کوچاہتا ہے تنگی دیتا ہے۔ (یہ ہماری غلطی تھی کہ اس کی فراخی کو خوش نصیبی سمجھ رہے تھے، واقعی) اگر ہم پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی نہ ہوتی تو ہم کو بھی دھنسا دیتا (کہ گناہ گار تو آخر ہم بھی ہیں ہی) بس جی معلوم ہوگیا کہ کافروں کو فلاح نہیں ہے۔ (گو یہ چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ لیں) (بیان القرآن بتغیر)
فائدہ: حضرت ابنِ عباس ? فرماتے ہیں قارون حضرت موسیٰ ؑ کی برادری سے تھا۔ ان کا چچا زاد بھائی تھا۔ (دنیاوی) علو م میں بہت ترقی کی تھی اور حضرت موسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام پر حسد کرتا تھا۔ حضرت موسیٰﷺ  نے اس سے فرمایا کہ اللہ   نے مجھے تم سے زکوٰۃ وصو ل کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا اورلوگوں سے کہنے لگا کہ موسیٰ اس نام سے تمہارے مالوں کوکھاناچاہتا ہے۔ اس نے نماز کا حکم کیاتم نے برداشت کیا، اس نے اور احکام جاری کیے جن کو تم برداشت کرتے رہے، اب وہ تمہیںزکوٰۃ کا حکم دیتا ہے اس کوبھی برداشت کرو۔ لوگوں نے کہا: یہ ہم سے برداشت نہیں ہوتا، تم ہی کوئی ترکیب بتائو۔ اس نے کہا: میں نے یہ سوچا ہے کہ کسی فاحشہ عورت کواس پر راضی کیاجائے جو حضرت موسیٰ ؑ  پر اس کی تہمت لگائے کہ وہ مجھ سے زنا کرنا چاہتے ہیں۔ لوگوں نے ایک فاحشہ عورت کو بہت کچھ انعام کا وعدہ کرکے اس پر راضی کرلیا کہ وہ حضرت موسیٰ پر یہ الزام لگائے۔ اس کے راضی ہونے پر قارون حضرت موسیٰ ؑ کے پاس گیا اورا ن سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جو اَحکام آپ کو دیے ہیں وہ بنی اسرائیل کو سب کو جمع کرکے سنا دیجیے۔ حضرت موسیٰ ؑ  نے اس کوپسند فرمایا اور سارے بنی اسرائیل کو جمع کیا اور جب سب جمع ہوگے تو حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ کے اَحکام بتانے شروع کیے کہ مجھے یہ اَحکام دیے ہیں کہ اس کی عبادت کرو،کسی کو اس کاشریک نہ کرو، صلہ رحمی کرو اور دوسرے اَحکام گنوائے جن میں یہ بھی فرمایا کہ اگرکوئی بیوی والا زنا کرے تو اس کو سنگسار کیا جائے۔ لوگوں نے کہا: اگر آپ خود زناکریں؟ حضرت موسیٰ ؑ  نے فرمایا: اگر میںزناکروں تو مجھے بھی سنگسار کیا جائے۔ لوگوں نے کہا: آپ نے زنا کیا ہے۔ حضرت موسیٰ  ؑ  نے (تعجب سے) فرمایا کہ میں نے ؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں آپ نے۔ اور یہ کہہ کر اس عورت کو بلاکراس سے پوچھا کہ تُو حضرت موسیٰ ؑ کے متعلق کیا کہتی ہے؟ حضرت موسیٰ ؑ نے بھی اس کو قسم دے کر فرمایا کہ تُو کیاکہتی ہے؟ اس عورت نے کہا کہ جب آپ قسم دیتے ہیں تو بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے مجھ سے اتنے اتنے انعام کا وعدہ کیا ہے کہ میںآ پ پرالزام لگائوں۔ آپ الزام سے بالکل بری ہیں۔ یہ سن کر حضرت موسیٰﷺ  روتے ہوئے سجدہ میں گر گئے۔ اللہ کی طرف سے سجدہ ہی میں وحی آئی کہ رونے کی کیا بات ہے؟ تمہیں ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے ہم نے زمین پر تسلط دے دیا، تم جو چاہو ان کے متعلق زمین کو حکم فرمائو۔ حضرت موسیٰﷺ  نے سجدہ سے سر اٹھایااور زمین کو حکم فرمایا کہ ان کو نگل جا۔ اس نے ایڑیوں تک نگلا تھا کہ وہ عاجزی سے حضرت موسیٰﷺکو پکارنے لگے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے پھر حکم فرمایا کہ ان کو دھنسا دے، حتیٰ کہ وہ لوگ گردن تک دھنس گئے۔ پھربہت زور سے وہ حضرت موسیٰﷺ کوپکارتے رہے۔ حضرت موسیٰ ؑ  نے پھرزمین کو یہی فرمایا کہ ان کو لے لے۔ وہ سب کو نگل گئی۔ اس پراللہ  کی طرف سے حضرت موسیٰ ؑ پر وحی آئی کہ وہ تمہیں پکارتے رہے اور تم سے عاجزی کرتے رہے، میری عزت کی قسم! اگر وہ مجھے پکارتے اور مجھ سے دعا کرتے تو میںان کی دعا کو قبول کرلیتا۔
ایک اور حدیث میں حضرت ابنِ عباس? سے نقل کیا گیا کہ آیتِ شریفہ میں ’’دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اس میںآخرت کے لیے عمل کر۔ حضرت مجاہد ؒ سے نقل کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا دنیا کا وہ حصہ ہے جس میںآخرت کاثواب ملتا ہے۔ حضرت حسن ؒ سے نقل کیاگیا کہ ’’دنیا سے اپنا حصہ نہ بھول ‘‘ یعنی جتنے کی دنیا میں ضرورت ہے اس کو باقی رکھ اورجو زائد ہے اس کو آگے بھیج دے۔ ایک اور حدیث میں ان سے نقل کیا گیا کہ ایک سال کی روزی باقی رکھ لے اور جو اس سے زائد ہے وہ صدقہ کر دے۔ (دُرِّمنثور) اس کا کچھ حصہ بخل کے بیان میں دوسری فصل کی آیات کے سلسلہ میں نمبر(۸) پربھی گزر چکا ہے۔
احادیث
۱۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: مَا مِنْ صَاحِبِ ذَھَبٍ وَلَا فِضَّۃٍ لَایُؤَدِّيْ مِنْھَا حَقَّھَا إِلاَّ إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیامَۃِ صُفِّحَتْ لَہٗ صَفَائِحُ مِنْ نَّارٍ، فَأُحْمِيَ عَلَیْھَا فِيْ نَارِجَھَنَّمَ، فَیُکْوَی بِھَا جَنْبُہٗ وَجَبِیْنُہٗ وَظَھْرُہٗ، کُلَّمَا رُدَّتْ أُعِیْدَتْ  لَہٗ فِيْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ أَلْفَ سَنَۃٍ، حَتَّی یُقْضَی بَیْنَ الْعِبَادِ، فَیَرَی سَبِیْلَہٗ إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ۔ 
الحدیث بطولہ في المشکاۃ عن مسلم۔


حضورِاقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی شخص سونے کا مالک ہو یا چاندی کا، اور اس کا حق (یعنی زکوٰۃ) ادا نہ کرے تو قیامت کے دن اس سونے چاندی کے پَترے بنائے جائیں گے اور ان کو جہنم کی آگ میں ایساتپایا جائے گاگویا کہ وہ خود آگ کے پَترے ہیں، پھر ان سے اس شخص کا پہلو اور پیشانی اور کمر داغ دی جائے گی، اور بار بار اسی طرح تپا تپا کر داغ دیے جاتے رہیںگے قیامت کے پورے دن میں جس کی مقدار دنیا کے حساب 
سے پچاس ہزار برس ہوگی، ا س کے بعد اس کو جہاں جانا ہوگا جنت میں یا جہنم میں چلا جائے گا۔
فائدہ: یہ بڑی لمبی حدیث ہے جس میں اونٹ والوں پر اونٹ کی زکوٰۃ نہ دینے کا، گائے بکری والوں پران کی زکوٰۃ نہ دینے کا عذاب اور اس کی کیفیت بتائی گئی ہے۔ یہاں عام طور سے جانوروں کی اتنی مقداریں جن پرزکوٰۃ واجب ہو، نہیں ہوتیں۔ عرب میں انہیں کی کثرت تھی۔ البتہ سوناچاندی اور اس کے متعلقات ایسی چیزیں ہیں جو یہاں عام طور سے ہوتی ہیں۔ اس لیے اتنی ہی حدیث پر قناعت کی اور اس سے بھی سب چیزوں کا اندازہ معلوم ہوسکتا ہے کہ زکوٰۃ نہ دینے کا کیا حشر ہے کہ یہ وبال اور عذاب جو ا س حدیث میں ذکر کیاگیا کہ سونا چاندی جہنم کی آگ کے ٹکڑے بن کر داغ دیے جائیں گے، یہ توصرف قیامت کے ایک دن کا عذاب ہے جو پیشی کا دن ہے، لیکن اس دن کی مقدار بھی پچاس ہزار برس کی ہوگی، اور اتنے دن زکوٰۃ نہ دینے کا عذاب بھگت کر یہ معلوم ہوگا کہ اپنے دوسرے اعمال اس قابل ہیں کہ ان کی وجہ سے معافی ہو کر جنت کی اجازت ہو جائے، یا وہ اگر اس قابل نہیں اور معافی کی کوئی صورت نہیں، یا زکوٰۃ دینے ہی کا کچھ اور عذاب بھگتنا باقی ہے، تو جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ وہاں جو کچھ گزرے گی وہ تو تحریر و تقریر میں آہی نہیں سکتی۔
اس حدیث میں قیامت کا دن پچاس ہزار برس کا ہے۔ اور قرآنِ پاک کی آیتِ شریفہ سورئہ معارج کے شروع میں بھی قیامت کے دن کو اسی مقدار کا بتایا ہے، لیکن بعض احادیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرماںبردار بندوں پر یہ دن ایسا ہلکا گزر جائے گا جیسا ایک فرض نماز پڑھ لی ہو اور بعض لوگوں پران کے اعمال کے لحاظ سے ایسا ہوگا جیسے ظہر سے عصر تک کا وقت۔ (دُرِّمنثور) اور اتنی جلدی گزر جانے کامطلب یہ ہے کہ وہ اس دن سیرو تفریح میں ہوں گے اور سیرو تفریح کے شوقین سب ہی اس سے واقف ہیں کہ لذت کے اوقات منٹوں میں ختم ہو جایاکرتے ہیں۔ ایک حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ نہ ہوگا کہ روپیہ پر روپیہ اور اشرفی پر اشرفی رکھ دی جائے، بلکہ اس کے بدن کو اتنا وسیع کر دیا جائے گا جس پر یہ سب برابررکھے جاسکیں اوران لوگوں سے کہا جائے گا کہ اپنے خزانوںکامزہ چکھو۔
حضرت ثوبانؓ  سے نقل کیا گیا کہ جتناسونا چاندی اس کے پاس ہوگا اس کے ہر قیراط کا (جو تقریباً تین رتی کا ہوتا ہے، پھیلا کر) آگ کا ٹکڑا بنایا جائے گا،پھر اس سے اس کے سارے بدن کو منہ سے پائوں تک داغ دیا جائے گا، اس کے بعد چاہے اس کی بخشش ہو جائے یا جہنم میں ڈال دیا جائے۔ (دُرِّمنثور) آگ میں تپا کر داغ دیے جانے کا جو عذاب اس حدیث شریف میں گزرا ہے یہ قرآنِ پاک میں بھی آیا ہے، جیساکہ دوسری فصل کی آیات میں نمبر (۵) پر گزرا۔ بعض احادیث میں اس کے مال کا سانپ بن کر طوق پہنانا بھی آیا ہے، جیسا کہ آیندہ آرہا ہے۔
۲۔ عَنْ أَبِْي ھُرَیْرَۃَ ?  قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَنْ آتَاہُ اللّٰہُ مَالاً فَلَمْ یُؤَدِّ زَکَاتَہٗ مُثِّلَ لَہٗ مَالُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ شُجَاعًا أَقْرَ عَ، لَہٗ زَبِیْبَتَانِ یُطَوَّقُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ، ثُمَّ یَاْخُذُ بِلِھْزِمَتَیْہِ - یَعْنِْي شِدْقَیْہِ - ثُمَّ یَقُوْلُ: أَنَا مَالُکَ، أَنَاکَنْزُکَ، ثُمَّ تَلاَ {وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ} (الآیۃ)
رواہ البخاري، کذا في المشکاۃ، وقد روي من مسند ثوبان وابن مسعود وابن عمر بمعناہ في الترغیب۔


حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ جس شخص کواللہ نے مال دیا ہو اور وہ اس کی زکوۃ ادا نہ کرتا ہو تو وہ مال قیامت کے دن ایک ایسا سانپ بنادیاجائے گا جو گنجا ہو اور اس کی آنکھوں پر دوسیاہ نقطے ہوں، پھر وہ سانپ اس کی گردن میں طوق کی طرح ڈال دیا جائے گا، جو اس کے دونوں جبڑوں کو پکڑلے گا اور کہے گا: میں تیرا مال ہوں، تیرا خزانہ ہوں۔ اس کے بعد حضورِ اقدسﷺ نے (اس کی تائید میں) قرآنِ پاک کی آیت { وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ} (الآیۃ) پڑھی۔
فائدہ: یہ آیتِ شریفہ مع اس کے ترجمہ کے دوسری فصل کے نمبر (۳ ) پر گزر چکی ہے۔ اس سانپ کی ایک صفت تو یہ بیان کی کہ وہ شجاع ہو،جس سے بعض علما نے نرسانپ مراد لیا ہے۔ اور بعض نے کہا ہے کہ شجاع وہ سانپ کہلاتا ہے جو دم کے اوپر سیدھا کھڑا ہوکر مقابلہ کرے۔ (فتح الباری) اور دوسری صفت اس سانپ کی یہ فرمائی کہ وہ گنجا ہوگا۔ اور گنجا اس واسطے کہا کہ سانپ جب بہت زیادہ زہریلا ہوتا ہے تو اس کے زہر کی شدت سے اس کے سر پر سے بال اُڑ جایا کرتے ہیں۔ اور تیسری صفت اس سانپ کی یہ بیان فرمائی کہ اس پر دو نقطے سیاہ ہوں گے۔ اس پر دو نقطے سیاہ ہونا بھی سانپ کے زیادہ زہریلے ہونے کی علامت ہے، ایسے سانپ کی عمر بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اور بعض علما نے دو نقطوں کی بجائے سانپ کے منہ پر زہر کی کثرت سے دونوں جانب زہر کا جھاگ ترجمہ کیا ہے۔ اور بعض نے دو دانت جو اس کے منہ سے باہر دونوں جانب نکلے ہوں۔ اور بعض نے دو زہر کی تھیلیاں جو دونوں جانب لٹکی ہوئی ہوں، ترجمہ کیا ہے۔ (فتح الباری)
اس حدیثِ پاک میںزکوٰۃ نہ دینے پراس مال کا سانپ بن کر طوق پہنانا ذکر کیا ہے اور پہلی حدیث میں آگ پر تپاکر داغ دینا گزرا ہے، اور دونوں قسم کے عذاب قرآنِ پاک کی دو آیتوں میں بھی گزر چکے ہیں اور دونوں آیتیں دوسری فصل کی آیات کے ذیل میںگزری ہیں۔ دونوں عذابوں میں کوئی اشکال نہیں، مختلف اوقات کے اعتبار سے بھی فرق ہوسکتا ہے اور مختلف انواعِ مال کے اعتبار سے بھی اور مختلف آدمیوں کے اعتبار سے بھی، اور دونوں عذاب جمع بھی ہوسکتے ہیں۔
حضرتِ اقدس شاہ ولی اللہ صاحب ؒ  ’’حجۃ اللہ البالغـۃ‘‘ میں فرماتے ہیں کہ سانپ بن کر پیچھے لگنے میں اور پترے بن کر داغ دینے میں فرق اس وجہ سے ہے کہ آدمی کو اگر مجملاً مال سے محبت ہو، اس کی تفاصیل سے خصوصی تعلقِ نہ ہو، اس کامال تو ایک شے واحد سانپ بن کر اس کے پیچھے لگ جائے گا۔ اور جس کو مال کی تفاصیل سے تعلقِ خاطر ہو، وہ روپیہ اوراشرفی کو گن گن کر رکھتا ہو، اور جو مل جائے اس کے روپے بنا کر رکھتا ہو، تو اس کا مال پَترے بناکر داغ دیا جائے گا۔
ایک حدیث میں ہے کہ جو شخص اپنے پیچھے خزانہ چھوڑ جائے تو وہ خزانہ ایک گنجا دو نقطوں والا سانپ بن کر قیامت کے دن اس شخص کے پیچھے لگ جائے گا۔ وہ شخص گھبرا کر کہے گا: تو کیا بلا ہے؟ وہ کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں جس کو چھوڑکر آیا تھا۔ وہ سانپ اوّل اس کے ہاتھ کو کھائے گا، پھر سارے بدن کو۔ (الترغیب والترہیب)
قیامت کے عذابوں میں کثرت سے یہ بات ہے کہ جو شخص کسی عذاب کی وجہ سے ریزہ ریزہ، ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا، پھر عذاب کے مسلط ہونے کے واسطے اپنی اصلی حالت پر عود کرکے دوبارہ عذاب کا محل بنے گا۔
۳۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍؓ قَالَ: أُمِرْنَا بِإِقَامِ الصَّلَاۃَ وَإِیْتَائِ الزَّکَاۃِ، وَمَنْ لَّمْ یُزَکِّ فَلاَ صَلَاۃَ لَہٗ۔
رواہ الطبراني في الکبیر بأسانید إحداھا صحیح، کذا في الترغیب۔


حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہمیں نماز قائم کرنے کا اور زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم ہے۔ اور جو شخص زکوٰۃ ادا نہ کرے اس کی نماز بھی (قبول) نہیں۔
فائدہ: یعنی نماز پر جو ثواب اللہ کے یہاں سے ملتا ہے وہ بھی نہیں ملے گا، اگرچہ فرض ادا ہو جائے گا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص زکوٰۃ ادا نہ کرے وہ (کامل) مسلمان نہیں، اس کو اس کے نیک عمل فائدہ نہ دیںگے۔ (الترغیب والترہیب) یعنی دوسرے نیک اعمال سے زکوٰۃ نہ دینے کا وبال نہیں ٹَلے گا، ا س کا مطالبہ بدستور رہے گا۔ ایک اور حدیث میںہے کہ بغیرزکوٰۃ اداکرنے کے دین (کامل) نہیں ہے۔ (کنز العمال)
ایک اور حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ اس شخص کی نماز کو قبول نہیں فرماتے جو زکوٰۃ نہ دیتا ہو۔ جب اللہ نے (بیسوں جگہ قرآنِ پاک میں) نماز اور زکوٰۃ کو جمع فرمایا ہے تو اس کو علیحدہ نہ کرو۔ (کنز العمال) علیحدہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھی جائے اورزکوٰۃ ادا نہ کی جائے۔
۴۔ عَنْ عَلِيٍّؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ: إِنَّ اللّٰہَ فَرَضَ عَلَی أَغْنِیَآئِ الْمُسْلِمِیْنَ فِيْ أَمْوَالِھِمُ الْقَدْرَ الَّذِيْ یَسَعُ فُقَرَائَھُمْ،  وَلَنْ یُّجْھِدَ الْفُقَرَائَ إِذَا جَاعُوْا أَوْ عَرُوْا إِلاَّ بِمَا یَمْنَعُ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ نے دولت مندوں پر ان کے مالوں میںاتنی مقدار کو فرض کر دیا ہے جو ان کے فقرا کو  کافی ہے۔ اور نہیں مشقت میں ڈالتی فقرا کو جب کہ وہ بھوکے یا ننگے ہوں، مگرصرف 
أَغْنِیَائُ ھُمْ، أَلاَ وَإِنَّ اللّٰہَ یُحَاسِبُھُمْ حِسَابًا شَدِیْدًا أَوْ یُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا أَلِیْمًا۔
کذا في الدر وقال: أخرجہ الطبراني في الأوسط وأبو بکر الشافعي في الغیلانیات، قلت: ولفظ المنذري في الترغیب ’’ویعذبھم‘‘


یہ بات کہ ان کے غنی اپنے فریضہ کو روکتے ہیں۔ (یعنی پورا ادا نہیں کرتے) غورسے سن لو کہ حق تعالیٰ شا نہٗ ان دولت مندوں سے سخت محاسبہ فرمائیںگے اور (فرض کی کوتاہی پر) سخت عذاب دیںگے۔
 بالواو، وقال: رواہ الطبراني في الأوسط والصغیر۔ وقال: تفرد بہ ثابت بن محمد الزاھد، قال الحافظ: ثابت ثقۃ صدوق روی عنہ البخاري وغیرہ، وبقیۃ رواتہ لا بأس بھم، وروي موقوفاً علی عليّ وھو أشبہ، کذا في الترغیب۔ وعزاہ صاحب کنز العمال إلی الخطیب في تاریخہ وابن النجار وقال: فیہ محمد بن سعید البورقي، کذاب یضع۔
فائدہ: حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ نے اپنے علام الغیوب ہونے کی وجہ سے زکوٰۃ کی جو مقدار فرض فرما دی ہے وہ یقینا اتنی کافی مقدارہے کہ اگر لوگ اس کوپورا پورا ادا کرتے رہیں اور اصول سے ادا کرتے رہیں توکوئی شخص بھوکا یا ننگا نہیں رہ سکتا۔ اور یہ بالکل ظاہری اور یقینی چیز ہے۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کی حدیث میںیہ مقصود زیادہ واضح الفاظ میں ذکرکیا گیا۔ یہ طویل حدیث ہے جس کو فقیہ ابواللیث سمرقندی ؒنے ’’تنبیہ الغافلین‘‘ میں مفصل ذکرکیا ہے۔ اس میں من جملہ اور سوالات کے ایک یہ بھی ہے: میں نے عرض کیا: یا نبی اللہ! آپ نے زکوٰۃ کا حکم فرمایا، زکوٰۃ کیا ہے؟ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ابو ذر! جو شخص امانت دار نہیں اس کا ایمان نہیں اور جو شخص زکوٰۃ ادا نہیںکرتا اس کی نماز (مقبول) نہیں۔ حق تعالیٰ شا نہٗ نے غنی لوگوں پر ان کے مالوں کی زکوٰۃ اتنی مقدار میں واجب کر دی ہے جو ان کے فقرا کو کافی ہو جائے۔ حق تعالیٰ شا نہٗ قیامت کے دن ان کے مال کی زکوٰۃ کا مطالبہ کرے گا اور اس پر ان کو عذاب فرمائے گا۔ یہ حدیث صاف طورسے اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضورﷺ کا یہ ارشاد زکوٰۃ ہی کے متعلق ہے۔
امام غزالی ؒ ’’اِحیاء العلوم‘‘ میں فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ شا نہٗ نے زکوٰۃ میں کوتاہی کرنے والوں کے لیے سخت وعید ارشاد فرمائی ہے۔ چناںچہ ارشاد ہے { وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ} الٓایۃ اور اللہ کے راستہ میں خر چ کرنے سے مراد زکوٰۃ کا ادا کرنا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں کہ زکوٰۃ اپنے متعلقات کے اعتبار سے چھ قسم پر ہے۔ جانوروں کی زکوٰۃ، سونے چاندی کی زکوٰۃ، تجارتی مال کی زکوٰۃ، رِکاز و معدِن کی زکوٰۃ، پیداوار کی زکوٰۃ اورصدقۂ فطر۔ (اِحیاء العلوم)
یہ سب چیزیں ائمہ اربعہ ؒ کے نزدیک متفق علیہ ہیں بجز معدن کے۔ اس میں حنفیہ کے نزدیک بجائے زکوٰۃ خمس، یعنی پانچواں حصہ واجب ہے، جو وجوب کے اعتبا ر سے زکوٰۃ ہی جیسا ہے۔ اوریقینا اگر مسلمان ان سب انواع کو اہتمام اور پابندی سے نکالتے رہیں تو کسی غریب کو اِضطرار سے مرنے کی نوبت نہ آئے۔
بعض علما کو حضرت علیؓکی ا س روایت سے یہ اشتباہ پیدا ہوگیا کہ اس سے زکوٰۃ سے زائد مقدار کا ایجاب مقصود ہے۔ یہ صحیح نہیں۔ اس لیے کہ اگر یہ مراد ہو تو وہ خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی دوسری روایت کے خلاف ہو جائے گا۔ حضرت علیؓ سے حضورﷺ کا پاک ارشاد نقل کیاگیا کہ زکوٰۃ کے واجب ہونے نے اس کے علاوہ صدقات کو منسوخ کر دیا۔ یہ حدیث مرفوعاً بھی نقل کی گئی ہے۔ اور امام رازی جصاص  ؒنے ’’اَحکام القرآن‘‘ میںلکھا ہے کہ حضرت علیؓ کا قول ہونا بہتر سند سے نقل کیا گیا۔
صاحبِ’’ کنز العمال‘‘ نے متعدد کتب سے اس روایت کو نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ زکوٰۃ نے ہر اس صدقہ کو منسوخ کر دیا جو قرآنِ پاک میںہے، اور غسلِ جنابت نے اس کے علاوہ اور غسلوں کو منسوخ کر دیا، اور رمضان کے روزہ نے ہر روزہ کو منسوخ کر دیا، اورقربانی نے ہر ذبیحہ کو منسوخ کر دیا۔ خود حضرت علیؓکا ارشاد ہے کہ جوشخص ساری دنیا کا مال لے لے اور اس کی نیت محض رضائے الٰہی ہو، وہ زاہد ہے، جیسا کہ آیندہ فصل کے شروع میں آرہا ہے۔ بعض علما نے فرمایا ہے کہ زکوٰۃ کی فرضیت سے پہلے اپنی ضرورت کے بقدررکھ کر باقی کا خرچ کرنا ضروری تھا، جس کو زکوٰۃ کی فرضیت نے منسوخ کر دیا، جیساکہ علامہ سیوطی ؒ نے {خُذِ  العفوَ وَاْمرْ باِلعرْفِ} (الأعراف: ع ۲۴) کی تفسیر میں سُدی  ؒ سے نقل کیا۔ لہٰذا اگر اس سے اِیجاب مراد ہو بھی تو وہ منسوخ ہے۔
نیز حدیثِ بالا سے زکوٰۃ سے زائد کامراد لینا حضورﷺ کے اس ارشاد کے بھی خلاف ہوگا، جس میںوارد ہوا ہے کہ جس شخص نے زکوٰۃ ادا کر دی، اس نے اس حق کو ادا کردیا جو اس پر ہے اور جو زائد ہے وہ فضل ہے۔ (کنز العمال)
اس مضمون کی متعدد روایات پہلے بھی گزر چکی ہیں، اور اس سے واضح وہ روایت ہے جو حضرت ابوہریرہؓ کے واسطے سے نقل کی گئی اور وہ حضرت علیؓ کی حدیث کے ہم معنی ہے، جس میں ارشاد ہے کہ اگر حق تعالیٰ شا نہٗ یہ جانتے کہ اَغنیا کی زکوٰۃ فقرا کے لیے کافی نہ ہوگی تو زکوٰۃ کے علاوہ اور چیز ان پر فرض کرتے۔ پس اگر اب فقرا بھوکے ہوتے ہیں تو اَغنیا کے ظلم کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ (کنز العمال) یعنی اَغنیا زکوٰۃ کو پورا ادا نہیں کرتے اس وجہ سے فقرا پر فاقوں کی نوبت آتی ہے۔ اسی وجہ سے محدث ہیثمی ؒ نے ’’مجمع الزوائد‘‘ میں حضرت علیؓ کی اس حدیث پر فرضیتِ زکوٰۃ کا ترجمہ باندھا، بلکہ اس باب کو اسی حدیث سے شروع کیاجس سے اس کا محمل زکوٰۃ ہونا ظاہرہے۔ اور صاحبِ’’کنز العمال‘‘ نے بھی اسی وجہ سے کتاب الزکوٰۃ ہی میں اس کو ذکر کیا۔
حافظ ابنِ عبدالبرفرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ شا نہٗ کا ارشاد { وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ} اور اس قسم کے دوسرے ارشادات اس حالت پر محمول ہیںجب کہ زکوٰۃ ادا نہ کی جائے۔ جمہور فقہائے اَمصار کا یہی مذہب ہے اور یہی قول ہے حضرت عمر، حضرت ابنِ عمر، حضرت جابر ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس? کا۔ اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ جس کو ابوداود وغیرہ نے ذکر کیا کہ حضرت اُمِ سلمہؓ فرماتی ہیں: میں سونے کا ایک زیور پہن رہی تھی، میں نے حضورﷺ سے دریافت کیا کہ یہ بھی کنز میں داخل ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ جو چیز مقدارِ زکوٰۃ کو پہنچ جائے اس کی زکوۃ ادا کردی جائے، وہ کنز میں داخل نہیں ہے۔ نیز اس کی تائید ابوہریرہؓکی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کو ترمذی نے اور حاکم نے ذکر کیا، جس میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیاگیا کہ جب تو نے زکوٰۃ اداکر دی تو اس حق کو پورا کر دیا جو تجھ پرواجب تھا۔ نیز حضرت جابرؓکی حدیث میں حضورﷺ کا ارشاد نقل کیا گیا کہ جب تو نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی تو اس کی برائی کو زائل کر دیا۔ حاکم نے اس حدیث کو مرفوعاً مسلم کی شرط پر نقل کیاہے اور بیہقی نے اس کو حضرت جابرؓپر موقوف بتایا ہے۔ اور ابوزُرعہ نے بھی حضرت جابرؓسے موقوفاً ان الفاظ کے ساتھ صحیح بتایا ہے کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا کر دی جائے وہ کنز نہیں۔ اور یہی مضمون حضرت ابنِ عمر? اور حضرت ابنِ عباس? سے بھی نقل کیاگیا۔ 
عطاء اور مجاہد ؒ سے نقل کیا گیا کہ جس مال کی زکوٰۃ ادا کر دی گئی ہو وہ کنزنہیںہے اگرچہ زمین کے اندر گاڑ رکھا ہو اور جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو وہ کنز ہے اگرچہ زمین کے اوپر رکھا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ شرعی اصطلاح لغوی اصطلاح پر مقدم ہے (یعنی لغت میںاگرچہ کنز اس کوکہتے ہیں جو زمین کے اندرگڑا ہوا ہو، لیکن شریعت میں وہ مال ہے جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو)۔ اور میں نے چند حضرات کے سوا کسی کو اس کا مخالف نہیں پایا کہ کنز وہی ہے جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو۔ البتہ چند حضرات حضرت علی، حضرت ابوذراور حضرت ضحاک? اور بعض دوسرے زاہد اس طرف گئے ہیں کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی کچھ حقوق ہیں۔ ان میں سے حضرت ابوذرؓ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ جو مال روزی اور زندگی سے زائد ہو، وہ سارا ہی کنز ہے۔ اور حضرت علیؓ سے نقل کیا گیا کہ چار ہزار کی مقدار سے زائد کنز ہے۔ اور ضحاک ؒکہتے ہیں کہ دس ہزار درہم کی مقدار مالِ کثیر ہے۔ نیز ابراہیم نخعی، مجاہد،شعبی اور حسن بصری ؒ بھی اس کے قائل ہیں کہ مال میںزکوٰۃ کے علاوہ کچھ حقوق ہیں۔ ابنِ عبدالبر ؒکہتے ہیں: ان کے علاوہ بقیہ سب علما متقدمین اور متاخرین کا مذہب کنز کے بارہ میں وہی ہے جو پہلے گزرا (کہ کنز وہ ہے جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو)، اور جن آیات اور احادیث سے یہ دوسرا فریق استدلال کرتا ہے، وہ جمہور کے نزدیک استحباب پر محمول ہیں یا زکوٰۃ کے واجب ہونے سے پہلے کاحکم ہے جو زکوٰۃ کے واجب ہونے سے منسوخ ہو گیا، جیسا کہ عاشورہ کا روزہ رمضان کے روزے سے منسوخ ہوگیا۔ البتہ فضیلت کا درجہ اب بھی باقی ہے۔ (اِتحاف)
اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جب فقرا مہاجرین بے مال و زر ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور حضورِ اقدسﷺ نے مواسات کے طور پر مقامی انصار سے جو مال دار تھے ان کا بھائی چارہ کیا، تو انصار نے یہ درخواست کی کہ ہمارے اموال کو بھی ان پرآدھا تقسیم کر دیجیے۔ حضور ﷺ نے اس کا انکارفرما دیا، بلکہ یہ طے فرمایا کہ مہاجرین ان کے باغات میں کام کریںگے اور بٹائی کے طور پر پھلوںمیں شرکت ہوگی۔ اسی ذیل میں حضورﷺ نے حضرت عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن ربیع? کے درمیان مواخات (بھائی چارہ) فرمائی تو حضرت سعدؓ نے حضرت عبدالرحمنؓسے کہا کہ سب کو یہ بات معلوم ہے کہ انصار میں سب سے زیادہ مال دار میں ہوں، میںاپنا آدھا مال تمہیں دیتا ہوں۔ حضرت عبد الرحمن ؓ نے اس کو قبول فرمانے سے انکار کر دیا اور فرمایا: مجھے بازار کا راستہ بتا دو۔ وہاں جاکر خرید و فروخت کا کام شروع کر دیا۔ اگر مال داروں کے زائد اموال میں فقرا کا بلا اضطرار حق تھا تو پھر کیوں حضورﷺ نے انکار فرمایا؟ اور کیوں حضرت عبدالرحمنؓ نے اپنا حق لینے سے انکار کر دیا؟
اَصحابِ صُفّہ کے واقعات اتنی کثرت سے کُتبِ احادیث و سیر میں موجود ہیں کہ ان کا اِحاطہ بھی مشکل ہے۔ ان حضرات پرکئی کئی دن کے فاقے گزر جاتے تھے۔ بھوک کی وجہ سے گرجاتے تھے۔ اور انصارمیں بہت سے حضرات مال دار بھی تھے، لیکن حضورِ اقدسﷺ نے کسی پر جبر نہیں فرمایا کہ اپنے مال کا زائد از ضرورت حصہ ان لوگوں پر تقسیم کر دو۔ ترغیبات البتہ کثرت سے فرماتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ  فرماتے ہیں کہ اَصحابِ صُفّہ ستّر آدمی تھے، جن میں سے کسی ایک کے پاس بھی چادر نہ تھی۔ (دُرِّ منثور)
حضرت ابوہریرہؓ نے خود اپنے واقعات اس حال کے کثرت سے بیان کیے ہیں جو کُتبِ احادیث میں موجود ہیں۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! کہ میں اپنے جگر کے بل بھوک کی شدت سے پڑا رہتا تھا اور کبھی اپنے پیٹ پر پتھر باندھ لیا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ میں راستہ میں اس امید پر بیٹھ گیا کہ شاید کوئی مجھے اپنے ساتھ لے جائے۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لائے۔ میں نے ایک آیت ان سے محض اس لیے دریافت کی کہ شاید وہ مجھے اپنے ساتھ لے جائیں، مگر وہ ویسے ہی چلے گئے۔ ان کے بعد حضورِ اقدسﷺ تشریف لائے اور میری حالت دیکھ کرتبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میرے ساتھ آ جائو۔ میں ہمراہ چل دیا۔ حضورﷺ مکان میں تشریف لے گئے، وہاںایک پیالہ دودھ کا رکھا ہوا تھا۔ حضورﷺ نے دریافت فرمایا: یہ کہاں سے آیا؟ گھروالوں نے عرض کیا: فلاں نے ہدیہ بھیجا ہے۔ حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ ابوہریرہ! سب اَصحابِ صُفّہ کو بلالائو۔ ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ اَصحابِ صُفّہ اسلامی مہمان تھے۔ نہ ان کے اہل وعیال تھے، نہ ان کے پاس مال و زر تھا، نہ کسی کے ذمہ ان کاکھانا مقرر تھا، نہ کسی کے ذمہ ان کا بار تھا۔ جب حضورﷺ کے پاس کہیں سے صدقہ کی کوئی چیز آتی تو ان کو مرحمت فرما دیتے، خود اس میں سے نوش نہ فرماتے۔ اور جب ہدیہ کی کوئی چیز آتی تو خود بھی اس کو حضورﷺ تناول فرماتے اور ان لوگوں کو بھی شریک فرمالیتے۔ حضورﷺ نے اس وقت جب یہ فرمایاکہ اَ صحابِ صُفّہ کو بلالائو تو مجھے بہت گرانی ہوئی کہ یہ ایک پیالہ دودھ، اَصحابِ صُفّہ کا کیا بنائے گا؟ حضورﷺ مجھے مرحمت فرما دیتے، مجھ میں پی کر کچھ جان آجاتی۔ اب میں ان سب کو لے کر آئوں گا تو حضورﷺ مجھ ہی کو حکم فرمائیںگے کہ سب کو دے دو۔ میں جب ان کو تقسیم کروں گا تو میرا نمبر آخر میں آئے گا۔ نہ معلوم کچھ بچے گا بھی یا نہیں، مگر تعمیلِ حکم کے بغیر چارئہ کار کیا تھا؟ میں ان سب کو بلالایا۔ جب وہ سب آکر حضورﷺکی خدمت میں بیٹھ گئے، تو حضور ﷺ نے وہ پیالہ مجھے مرحمت فرمایا کہ ان سب کو پلا دو۔ میں نے سب کو پلایا اور ہر ایک سیر ہوگیا۔ آخر میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ اے ابوہریرہ! اب تو تم اور میں ہی باقی رہ گئے۔ میں نے عرض کیا: بے شک! حضورﷺ نے فرمایا: لو، بیٹھ کر پی لو۔ میں نے خوب سیر ہوکر پیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: اور پیو۔ میں نے پھر اور پی لیا، حتیٰ کہ میں نے عرض کیا کہ حضور! اب مجھ میں اور پینے کی گنجایش نہیں، تو پھر بقیہ حضورﷺ نے پیا۔
ایک اور مرتبہ کا اپنا ہی قصہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ پر تین دن کا فاقہ تھا۔ مجھے کچھ کھانے کونہ ملا۔ میں صُفّہ پر جارہا تھا کہ راستہ میں گرگیا۔ بچے کہنے لگے کہ ابوہریرہ کو جنون ہوگیا۔ میں نے کہا کہ جنون تو تمہیں ہو رہا ہے۔ بالآخر میں صُفّہ تک پہنچ گیا۔ وہاں حضورﷺ کے پاس دو پیالے ثرید کے کہیں سے آئے ہوئے تھے اور حضورﷺ اَصحابِ صُفّہ کو کھلارہے تھے۔ میں بھی سر اوپر کو اٹھا رہا تھا کہ حضورﷺکی نظر مجھ پر پڑ جائے اور حضورﷺ مجھ کو بھی بلالیں، حتیٰ کہ سب فارغ ہوگئے اور پیالوں میں کچھ بھی نہ بچا۔ حضورﷺ نے ان پیالوں کو اپنے دست مبارک سے چاروں طرف سے پَونچھا تو ایک لقمہ بن گیا۔ حضورﷺ نے اپنی انگلیوں پر رکھ کر مجھ سے فرمایا کہ اللہ کا نام لے کر اس کو کھائو۔ میں نے اس کو کھایا تو پیٹ بھرگیا۔ حضرت فضالہ بن عبیدؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ جب صبح کی نماز پڑھ کر تشریف فرما ہوتے تو اَصحابِ صُفّہ میں سے بعض لوگ بھوک کی شدت سے کھڑے کھڑے گر جاتے۔ حضورِ اقدسﷺ ان کی طرف اِلتفات فرماکر ارشاد فرماتے کہ اگر تمہیں یہ معلوم ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں تمہارے لیے کیا درجہ ہے تو اس سے زیادہ فقرو فاقہ کو پسندکرنے لگو۔ (الترغیب والترہیب)
پہلی فصل کی آیات میں نمبر(۳۰) پر قبیلۂ مضر کی ایک جماعت کا مفصل قصہ گزر چکا، جو حضورِ اقدسﷺ کی خدمت میں بھوکے اور ننگے حاضر ہوئے کہ ان کے پاس پہننے کے لیے کپڑا نہ تھا، کھانے کو کوئی چیز نہ تھی، فاقہ کی وجہ سے مشقت میں پڑے ہوئے تھے۔ حضورﷺ نے اپنے گھروں میں ان کے لیے تلاش کیا۔ کچھ نہ ملا تو مجمع اکھٹا کیا اور صدقہ کی ترغیب دی اور بہت زور سے ترغیب دی، جس پر دو ڈھیر سامان کے جمع ہوگئے اور وہ ان لوگوں پر تقسیم فرما دیے۔ نہ کسی پر جبر فرمایا نہ کسی سے اس کے پاس زائد از ضرورت کا محاسبہ فرمایا۔
حضرت انسؓفرماتے ہیں کہ ایک انصاری نے آکر حضورﷺسے سوال کیا۔ حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟ انھوں نے عرض کیا: ایک ٹاٹ ہے جس کو آدھے کو بچھا لیتے ہیں اور آدھا اوڑھ لیتے ہیں، اور ایک پیالہ ہے پانی پینے کو۔ حضورﷺ نے دونوں چیزیں منگائیں اور دو دِرَم میں نیلام کر دیں، اور وہ ان کو دیے کہ ایک دِرَم کا غلہ خرید کر گھر دے ویں اور دوسرے دِرَم کا کلہاڑی کا پھلڑا خریدکر لائیں۔ وہ لے کر آئے تو حضورﷺ نے اپنے دستِ مبارک سے اس میں لکڑی یعنی دستہ لگایا اورفرمایا کہ جائو لکڑیاںکاٹ کربیچو پندرہ دن تک تمہیں یہاں نہ دیکھوں۔ انھوںنے ارشاد کی تعمیل کی اور پندرھویں دن دس دِرَم کما کرلائے جن میں سے کچھ کا غلہ خریدا، کچھ کا کپڑا خریدا، حضورﷺ نے فرمایا: یہ اچھا ہے سوال کرنے سے کہ بھیک مانگنے سے قیامت کے دن تمہارے چہرہ پر داغ ہوتا۔ اس کے بعد حضورﷺ نے فرمایا کہ سوال کی صرف تین آدمیوں کے لیے گنجایش ہے۔  
لِذِيْ فَقْرٍ مُدْقِعٍ أَوْ لِذِيْ غُرْمٍ مُفْظِعٍ أَوْ لِذِيْ دَمٍ مُوْجِعٍ۔ 
ایک اس شخص کے لیے جس کا فقر ہلاک کرنے والا ہو۔ دوسرے اس کے لیے جس پرکوئی تاوان سخت پڑ گیا ہو۔ تیسرے جو درد ناک خون کے معاملہ میں پھنس گیا ہو۔ 
ان تین حالتوں میں بھی حضورﷺ نے سوال ہی کی اجازت دی۔ اور خود یہ صاحب ِواقعہ جس فقر میں مبتلا تھے ان کو نہ توسوال کی اجازت دی، نہ کسی پران کا نفقہ واجب فرمایا۔ غرض ہزاروں واقعات کتبِ احادیث میں اس کے شاہد ہیں کہ جہاں تک وجوب کاتعلق ہے وہ صرف زکوٰۃ ہے۔ اس پر اضافہ حضورِ اقدسﷺ کے مشہور قول: 
اَلْمُعْتَدِّيْ فِي الصَّدَقَۃِ کَمَانِعِھَا  
صدقہ میں تعدی اوراِفراط کرنے والا ایسا ہی ہے جیساکہ اس کو نہ دینے والا 
کا مصداق ہے۔
حضورِ اقدسﷺ نے حضرت ضحاک بن قیسؓکو صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ وہ اس مال میںبہترین اونٹ چھانٹ لائے۔ حضورﷺ نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ تم ان لوگوں کا عمدہ مال لے آئے۔ انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس وقت آپ جہاد میں تشریف لے جانے کا ارادہ فرمارہے ہیں، میں اس لیے ایسے اونٹ لایا جن پرسواری ہوسکے اور سامان لادا جاسکے۔ حضورﷺ نے فرمایا: ان کو و اپس کرکے آئو اور معمولی مال لے کر آئو۔ (مجمع الزوائد) حالاںکہ جہادکی ضرورت بھی ظاہر اور اس موقع پر حضورﷺ نے ایسی ایسی ترغیبات ارشا د فرمائی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے گھر کا سارا اثاثہ لے آئے اور حضرت عمر ؓ نے ہر چیز کا آدھا حصہ پیش کر دیا۔
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے ایک مرتبہ عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے پاس چار ہزار ہیں۔ دو ہزار گھر کے اخراجات کے واسطے رکھتا ہوں، دو ہزار اللہ کے واسطے پیش کرتا ہوں۔ اور ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ!میں نے رات بھر مزدوری کرکے دو صاع (سات سیر) کھجوریں مزدوری میں کمائی ہیں۔ آدھی گھر کے خرچ کے واسطے چھوڑ دیں آدھی حاضر ہیں۔ (دُرِّمنثور)
حضرت ابو مسعودؓفرماتے ہیں کہ حضورﷺ صدقہ کا حکم فرماتے اورہم میں سے بعض کے پاس کچھ بھی نہ ہوتا، تو وہ صرف اس کے لیے بازارجاتا، مزدوری کرتا اور مزدوری میں ایک مدّ (ڈیڑھ پائو) کھجور کماتا اور صدقہ کر دیتا۔ (بخاری)
پہلی فصل کی احادیث میں نمبر(۲۴) پر یہ مضمون تفصیل سے گزر چکا، لیکن اس سب کے باوجود ضابطہ کے طور پر یہاں معمولی اونٹ کی جگہ عمد ہ اونٹ بھی قبول نہیں فرمایا۔ اس لیے جہاں تک وجوب کا تعلق ہے وہ مالی حیثیت سے صرف زکوٰۃ ہے۔ اور جہاں تک خرچ کرنے کا تعلق ہے مسلمان اس لیے پیدا ہی نہیں ہوا کہ وہ مال جمع کرکے رکھے۔ قرآنِ پاک کی آیات اور حضورﷺ کے ارشادات جو پہلی فصل میںگزر چکے ہیں، وہ بڑے زور سے اس کی ترغیب و تاکید کررہے ہیں کہ مال صرف اس لیے ہے کہ اس کو اللہ کی رضا کے کاموں میں خرچ کر دیا جائے۔ خود اپنی طاقت کے موافق تنگی اٹھائی جائے، دوسروں پر خرچ کیا جائے۔ اپنے کام صرف وہی آئے گا جو اللہ تعالیٰ کے خزانہ میں جمع کر دیا جائے گا کہ اس کے بینک میں جمع کر دینے سے نہ اس کے ضائع ہوجانے کااندیشہ ہے نہ بینک کے فیل ہو جانے کا احتمال ہے۔ اورا یسی ضرورت کے وقت کا م آئے گا جس وقت کہ آدمی انتہائی محتاج ہوگا۔ خود حق سبحانہٗ وتقدس کا ارشاد حضورﷺ نقل فرماتے ہیںکہ اے آدمی! تُو اپنا خزانہ میرے پاس بہا دے، نہ تو اس کو آگ لگ جانے کا خوف رہے گا، نہ چوری کا، نہ دریا بُرد ہونے کا، اور میں ایسے وقت تجھ کو پورا پورا دے دوں گا جب تو بے حد محتاج ہوگا۔ (الترغیب والترہیب)
حق تعالیٰ شا نہٗ کا پاک ارشاد پہلی فصل کے نمبر (۳۰) پر گزر چکا کہ ہر شخص یہ غور کرلے کہ اس نے کل قیامت کے دن کے لیے کیا چیز آگے بھیجی ہے؟ ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو بھلا دیا، اللہ تعالیٰ نے ان کو خود ان کی جانیں بھلا دیں۔

دوسری آیت میں نمبر(۳۱) پرگزرا کہ تمہارے مال و متاع، آل و اولاد تمہارے لیے امتحان کی چیزیںہیں۔ اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے رہو یہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ حضورﷺ کا پاک ارشاد اسی فصل کی احادیث میں نمبر( ۱ ) پر گزر چکا کہ اگر میرے پاس اُحد کے پہاڑ کے برابر سونا ہو تو میر ا دل نہیں چاہتا کہ اس میں سے کچھ بھی اپنے پاس رکھوں بجز اس کے کہ قرض کی ادائیگی کے واسطے رکھا ہو۔ نمبر(۳ ) پر حضورﷺ کا ارشاد گزرا کہ جو چیز ضرورت سے زائد ہو اس کو اللہ کے راستہ میں خرچ کر دینا تمہارے لیے بہتر ہے، بچا کر رکھنا براہے۔ نمبر(۱۲) پر حضورﷺ کا پاک ارشاد گزرا کہ گن گن کر خرچ نہ کر، جتنابھی ہوسکے خرچ کر ڈال۔ نمبر (۲۰) پر یہ واقعہ گزر چکا کہ ایک بکری ذبح کی گئی اور بجز ایک شانہ کے ٹکڑے کے ساری تقسیم کر دی گئی۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتنی تقیسم ہوگئی تو عرض کیا گیاکہ ایک شانہ باقی رہ گیا اورباقی سب خرچ ہوچکی۔ حضورﷺ نے فرمایا وہ ساری باقی ہے اس شانہ کے علاوہ۔ اس قسم کے بہت سے ارشادات فصلِ اول میںگزر چکے ہیں۔ اس لیے اس سے قطعِ نظر کہ واجب کیا ہے، مندوب و مستحب کیا ہے؟ اپنے کام آنے والا صرف وہی مال ہے جو اپنی زندگی میں آدمی آگے بھیج دے۔ اگراس محنت و مشقت سے کمائی ہوئی چیز کو اپنی ضرورت کے وقت کام آنے کے لیے کہیں محفوظ کرنا ہے تو وہ صرف اللہ کے راستہ میں خرچ کرنا ہے،  جس کا نفع آخرت میں تو ہے ہی دنیا میں بھی زیادہ سے زیادہ ہے کہ بلائوں کے دور ہونے میں، اَمراض سے صحت ہونے میں صدقہ کو زیادہ سے زیادہ دخل ہے۔ برے خاتمہ سے اس کی وجہ سے حفاظت ہوتی ہے۔ حضورﷺ کا مشہور ارشاد ہے کہ قابلِ رشک دو آدمی ہیں۔ ایک وہ جس کوا للہ نے قرآنِ پاک عطا فرمایا ہو کہ رات دن اس کی تلاوت میں، اس پرعمل کرنے میں منہمک رہے۔ دوسراوہ شخص جس کو اللہ  نے بہت مال عطا کیاہو اور وہ ہر وقت اس کو اللہ کے راستہ میں لٹانے پر تلا ہوا ہو۔ (مجمع الزوائد) 
حضورﷺ کا پاک ارشاد دوسری فصل کے نمبر (۳ ) پر گزر چکا کہ سرمایہ دار بڑے خسارہ میں ہیں بجز اس شخص کے جو دونوں ہاتھوں سے ادھر ادھر، دائیں بائیں، آگے پیچھے اللہ کے راستہ میں خرچ کرتا رہے۔ اور نمبر(۷) پر حضورﷺکاپاک ارشاد گزرچکا کہ وہ حقیقت میں مؤمن ہی نہیں جو خود پیٹ بھر کرکھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا پڑا رہے۔ غرض اس رسالہ میں پہلی فصلوں میں تفصیل سے یہ مضمون گزر چکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کی ہرگز یہ شان نہیںہے کہ مال کو جمع کرکے رکھے۔ اس کی صحیح مثال بالکل پاخانہ کی سی ہے کہ وہ ضروری تو اتناکہ ایک دو دن نہ ہو تو حکیم اور ڈاکٹر دوائیں وغیرہ سب ہی کچھ آدمی کرنے پر مجبور ہے، لیکن اگر مناسب مقدار سے زائد آنے لگے تو اس کو بند کرنے کے واسطے بھی حکیم اور ڈاکٹر کی ضرورت ہے۔ اور اگر کوئی شخص پاخانہ کو اس وجہ سے کہ وہ اتنی اہم اور ضروری چیز ہے اپنے گھر میں محفوظ رکھے کہ بڑی مشقت سے حاصل ہوئی ہے، تو مکان بھی سڑ جائے گا اَمراض بھی بکثرت پیدا ہوجائیںگے۔ بعینہٖ یہی صورت اس مال کی ہے کہ ضروری توا تنا کہ اگر چندروز کچھ نہ ملے توسارے جتن اس کے لیے بھی کرنا پڑیں، لیکن اس کے باوجود اتنا ہی گندہ ہے کہ اس کو فوراً مجبوری سے زائد مقدار کو پاخانہ کی طرح سے گھر سے نہ نکالا جائے تو تکبر اس سے پیداہوتا ہے، غرور اس سے پیدا ہوتا ہے، تفاخر اس سے ہوتا ہے، دوسروں کو ذلیل و حقیر سمجھنا اس سے ہوتا ہے، آوارگی، عیاشی اس کا ثمرہ ہے، غرض ہر قسم کی آفات اس پر مسلط ہیں۔ اسی لیے حضورِ اقدسﷺ کی دعا اپنی اولاد کے لیے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوْتًا۔ ’’یااللہ! محمد (ﷺ) کی اولاد کا رزق بقدرِکفایت عطا فرما۔ ‘‘ یعنی زیادہ ہو ہی نہیں جس پر فسادات مرتب ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ سید عام طور سے متمول نہیںہوتے۔ ایک دو کا متمول ہوجانا اس کے منافی نہیں۔ اکثریت ایسی ہی ملے گی۔ حق تعالیٰ شا نہٗ اپنے لطف و کرم سے اس کی ناپاک حقیقت کو اس ناپاک پربھی واضح کر دے تو کیسے لطف کی زندگی میسر ہو۔
۵۔ عَنْ بُرَیْدَۃَ ؓ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَا مَنَعَ قَوْمٌ الزَّکَاۃَ إِلاَّ 


حضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ جو قوم بھی زکوٰۃ کو روک لیتی ہے حق تعالیٰ شانہٗ 
ابْتَلَاھُمُ اللّٰہُ بِالسِّنِیْنَ۔


اس کو قحط میں مبتلا فرماتے ہیں۔
رواہ الطبراني في الأوسط ورواتہ ثقات، کذا في الترغیب، وفي الباب روایات کثیرۃ في الترغیب والکنز وغیرھما۔
فائدہ: قحط کی وبا ہم لوگوں پرایسی مسلط ہو رہی ہے کہ اس کی حد نہیں۔ ہزاروں تدبیریں اس کے زائل کرنے کے واسطے کی جاتی ہیں، لیکن کوئی بھی کارگر نہیں ہورہی ہے۔ اور جب حق تعالیٰ شا نہٗ کوئی وبال کسی گناہ پر اتاردیں دنیا میں کسی کی طاقت ہے کہ اس کو ہٹا سکے؟ لاکھ تدبیریں کیجیے، ہزاروں طرح کے قانون بنایے، جو چیز مالک الملک کی طرف سے مسلط ہے وہ تو اسی کے ہٹانے سے ہٹ سکتی ہے۔ اس نے مرض بتا دیا، اس کاصحیح علاج بتا دیا، اگر مرض کو زائل کرنا مقصود ہے تو صحیح علاج اختیار کیجیے۔ ہم لوگ امرض کے اسباب خود پیدا کرتے رہیں اور اس پرروتے رہیں کہ امراض بڑھ رہے ہیں، یہ کہاں کی عقل مندی ہے؟ حضورِ اقدسﷺ نے اس عالم میں جو حوادث اور مصائب آتے ہیں ان پر اور ان کے اسباب پر خاص طور سے متنبہ فرما دیا، جس کو بندہ مختصر طور پر اپنے رسالہ ’’اعتدال‘‘ میں لکھ چکا ہے۔ یہاں ان کا اِعادہ تطویل کا سبب ہے۔ کسی کا دل چاہے تو اس میں دیکھ لے کہ اس میں حضورِ اقدسﷺ نے کیسے اہتمام سے اس پر متنبہ فرمایا کہ جب میری امت یہ حرکتیں کرنے لگے تو آفات اوربلائوں میں پھنس جائے گی۔ اس وقت سرخ آندھیاں، زمینوں میں دھنس جانا، صورتوں کا مسخ ہوجانا، اور زلزلوںکا آنا، آسمان سے پتھر برسنا، دشمنوں کا غلبہ اور مسلمان پراس کامسلط ہو جانا، طاعون اور قتل و غارت کا مسلط ہو جانا، بارش کا رک جانا، طوفان کا آجانا، دلوں کا مرعوب ہو جانا اور دلوں پر خوف کا مسلط ہو جانا، نیک لوگ دعائیں بھی کریں تو ان کی دعائوںکا بھی قبول نہ ہونا، یہ سب آفات حضورﷺ نے بتائیں۔ اور جس جس حرکت پر جو آفت مسلط ہوتی ہے اس کو حضورﷺ نے تقریباً چودہ سو برس پہلے سے بتا دیا، متنبہ کر دیا، اور ہم لوگ ان کے تجربے بھی کر رہے ہیں اور ایسے حرف بہ حرف یہ اشارات سامنے آرہے ہیں کہ ذرا بھی فرق نہیں ہو رہا ہے، کاش! ہم لوگ حضورﷺ جیسے شفیق کے ارشادات کی قدر کرتے، جو صرف مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ ساری مخلوق کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے تھے۔ ان اصولوں پرعمل کرنا ساری ہی مخلوق کے لیے انتہائی فائدہ کی چیز ہے، مگر جب خود مسلمان اپنے اسلامی دعووں کے باوجود ان کی قدر نہ کریں تو دوسروں پر کیا الزام ہے اور دوسروں کو کیا خبر کہ اللہ کی مجسم رحمت نے دنیوی آفات سے بچنے کے بھی کیسے کیسے زریں اصول پر متنبہ فرمایا ہے؟ اب بھی اگر ان اصولوں کو اہتمام سے پکڑ لیا جائے تو دنیا کومصائب سے نجات مل جائے۔ مسلم حکیم ڈاکٹروں کا علاج غیر مسلم بھی کرتے ہیںاور غیر مسلموں کا علاج مسلم بھی کرتے ہیں۔ اگر اس حاذق حکیم کے نسخہ پر لوگ عمل کریں توکیسی راحت آرام سب کو مل جائے۔ 
اس جگہ مجھے زکوٰۃ کے متعلق دو ایک احادیث پرمتنبہ کرنا ہے کہ وہی اس جگہ مقصود ہے۔  حضرت ابنِ عمر? فرماتے ہیں: حضورﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اے مہاجرین کی جماعت! پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ اگر تم ان میں مبتلا ہو جائو، اور میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ تم ان میںمبتلا ہو (تو بڑی آفات میں پھنس جائو)، ایک تو یہ ہے کہ فحش بدکاری جس قوم میں بھی کھلم کھلا علی الاعلان ہونے لگے توان میں ایسی نئی نئی بیماریاں پیدا ہوںگی جو پہلے کبھی سننے میں نہ آئی ہوں اور جو لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگیں گے ان پر قحط اور مشقت اور بادشاہ کا ظلم مسلط ہو جائے گا۔ اور جو قوم زکوٰۃ کو روک لے گی اس پر بارش روک دی جائے گی، اگر جانور نہ ہوں تو ایک قطرہ بھی بارش کا نہ ہو (جانور چوںکہ اللہ کی مخلوق ہیں اور بے قصور ہیں، ان کی وجہ سے تھوڑی بہت بارش ہوگی )۔ اورجو لوگ معاہدوں کی خلاف ورزی کریںگے، ان پر دوسری قوموں کا تسلط ہو جائے گا اور ان کے مال ومتاع کو لوٹ لیں گے۔ اور جو لوگ اللہ کے قانون کے خلاف حکم جاری کریںگے ان میں خانہ جنگی ہو جائے گی۔ (الترغیب والترہیب)
آج ہم لوگوں کو بڑے غور سے ان عیوب کو دیکھنا چاہیے کہ ان میں سے کون سا عیب ایسا ہے جس میں ہم مبتلا نہیں ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی غور کرلیں کہ جو آفات ان پر بتائی گئی ہیں کون سی آفت ایسی ہے جو ہم پر مسلط نہیں ہے۔
حضرت ابنِ عباس? فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ پانچ چیزیں پانچ چیزوں کے بدلہ میں ہیں۔ کسی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کاکیامطلب ہے؟ حضورﷺ نے فرمایا کہ جو قوم معاہدہ کی خلاف ورزی کرتی ہے اس پر دشمن غالب آجاتا ہے، اور جو لوگ اللہ کے قانون کے خلاف حکم کریںگے ان میں اموات کی کثرت ہوگی، اور جو لوگ زکوٰۃکو روک لیں گے ان پر بارش بند کر دی جائے گی، اورجو لوگ ناپ تول میں کمی کریں گے ان کی پیداوار کم ہو جائے گی اور قحط مسلط ہو جائے گا۔ (الترغیب والترہیب) اس حدیث شریف میں غالباً اختصار ہواکہ تفصیل میں چار ہی چیزیں ذکر کی گئیں۔ اس حدیثِ پاک میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی پر اموات کی کثرت اورپہلی میں خانہ جنگی ارشاد ہوا ہے۔ دونوں چیزیں علیحدہ بھی ہو سکتی ہیں اور خانہ جنگی سے اموات کی کثرت کا نمونہ آج کل تو آنکھوں کے سامنے ہے۔
حضرت علی اور حضرت ابوہریرہ ? دونوں حضرات سے یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ جب میری امت ان پندرہ عیوب میں مبتلا ہو جائے،من جملہ ان کے یہ بھی دونوں حدیثوں میں ہے کہ زکوٰۃ کا ادا کرنا تاوان بن جائے (یعنی ان کو ادا کرنا ایسا مصیبت ہو جائے جیسے تاوان ہوتا ہے یا وہ تاوان کی طرح سے وصول کی جانے لگے)، تو اس وقت سرخ آندھیاں، زلزلے، زمینوں میں دھنس جانا، صورتوں کا مسخ ہو جانا، آسمانوں سے پتھر برسنا ایسے لگاتار مصائب یکے بعد دیگرے نازل ہونے لگیںگے، جیساکہ تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے ایک ایک ہو کرگرنا شروع کر دیں۔
’’اعتدال‘‘ میں یہ روایتیں پوری ذکر کی گئی ہیں اور اس میں ان پندرہ عیوب کی تفصیل بھی ہے جس پر یہ سخت عذاب ذکر فرمائے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی روایات اس قسم کے مضامین کی ذکر کی گئیں، یہاں صرف زکوٰۃ کی وجہ سے ان روایات کی طرف اشارہ کر دیا۔
۶۔ عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ ؓ: قَالَ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِؓ حَدِیْثًا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ مَا سَمِعْتُہٗ مِنْہُ وَکُنْتُ 


حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد ہے کہ جو مال کسی جنگل میں یا دریا میں کہیں بھی ضائع ہوتا ہے، وہ زکوٰۃ کے روکنے سے ضائع ہوتا ہے۔
أَکْثَرَھُمْ لُزُوْمًا لِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ، قَالَ عُمَرُ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَا تَلَفَ مَالٌ فِيْ بَرٍّ وَّلَا بَحْرٍ إِلاَّ بِحَبْسِ الزَّکَاۃِ۔ رواہ الطبراني في الأوسط وھو غریب، کذا في الترغیب، ولہ شاھد من حدیث عبادۃ بن الصامت في الکنز بروایۃ ابن عساکر۔
فائدہ: یعنی زکوٰۃ ادا نہ کرنے کے جو وبال و عذاب آخرت کے ہیں وہ تو علیحدہ رہے، دنیا میں بھی اس کا وبال یہ ہوتا ہے کہ وہ مال کے ضائع ہو جانے کاسبب بنتاہے۔ ایک اور حدیث میں اس حدیث شریف کے متعلق ایک قصہ بھی نقل کیا ہے۔ حضرت عبادۃ بن الصامتؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدسﷺ مکہ مکرمہ میں حطیم کے سایہ میں تشریف فرماتھے، کسی نے آکر عرض کیا: یارسول اللہ! فلاںگھرانہ کا سامان سمندر کے کنارہ پر پڑا ہوا تھا وہ ہلاک ہوگیا (سمندر کی موج سے بظاہر ضائع ہوا)۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ کوئی مال بر و بحر میں (یعنی خشکی میںہو یا سمندر میں، مطلب یہ ہے کہ ساری دنیا میں) اس کے بغیر ضائع نہیں ہوتا کہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ ہوئی ہو۔ اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرنے کے ذریعے حفاظت کیاکرو، اور اپنے بیماروںکا صدقہ کے ذریعہ سے علاج کیا کرو، اور ناگہانی مصیبتوںکو دعا کے ذریعہ سے ہٹایا کرو کہ دعا اس مصیبت کو زائل کر دیتی ہے جو آن پڑی ہو اوراس کو روک دیتی ہے جو ابھی تک نہ آئی ہو۔ اور حضورﷺ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اللہ جس قوم کی بڑھوتری اور بقا کا ارادہ فرماتے ہیں اس میں عفت (پاک بازی) اور سماحت یعنی نرمی اور جود عطا فرماتے ہیں۔ اور جس قوم کے خاتمہ اور فنا کا ارادہ فرماتے ہیں اس میں خیانت پیدا فرما دیتے ہیں۔ اس کے بعد حضورﷺ نے یہ آیتِ شریفہ تلاوت فرمائی: {حَتَّی اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوْتُوْا اَخَذْنٰـھُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ھُمْ مُّبْلِسُوْنَ} (کنز العمال) یہ آیتِ شریفہ سورئہ انعام کے پانچویں رکوع کی ہے جس کا شروع { فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ} سے ہے، اور اوپر کی دو آیات سے عبر ت اور نصیحت حاصل کرنے کے لیے پہلی امتوں کی ہلاکت کا ایک دستور ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے پہلی امتوں کی طرف بھی جو کہ آپ سے پہلے تھیںپیغمبر بھیجے تھے۔ (جب انھوں نے پیغمبروں کاکہنا نہ مانا تو )پھر ہم نے ان کو مصیبتوں اور بیماریوں سے پکڑا (یعنی مصائب اور بیماریوں میں مبتلاکیا) تاکہ وہ عاجزی کریں۔ پس جب ان کو ہماری (طرف سے مصائب کی) سزا پہنچی تھی تو انھوںنے عاجزی کیوںنہ کی (کہ ان پرر حم کیا جاتا اوران کا قصور معاف کر دیا جاتا)؟ لیکن ان کے د ل تو سخت ہوگئے تھے (وہ نصیحت کیا قبول کرتے؟) اور شیطان ان کے اعمال کو (جن کو وہ پہلے سے کر رہے تھے، ان کی نگاہ میں ) آراستہ کرکے دکھلاتا رہا (جس کی وجہ سے وہ اپنے برے اعمال میں جن کو وہ اچھا سمجھتے رہے، پھنسے رہے)۔ پھر جب وہ لوگ ان چیزوں کو بھولے رہے (اور ان کی طرف التفات بھی نہ کیا) جن کی ان کو پیغمبروں کی طرف سے نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر (عیش و عشرت، راحت وآرام کے) ہر قسم کے دروازے کھول دیے، یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر ( جو ان کو عیش وعشرت کی ملی تھیں) اِترانے لگے (جس سے ان کی گمراہی اور بھی بڑھ گئی) تو ہم نے ان کو (عذاب میں ایسا) دفعتاً پکڑ لیا (کہ ان کواس کاگمان بھی نہ تھا)۔ پھر ظالم لوگوں کی جڑیں تک کٹ گئیں۔ فقط
یہ آیاتِ شریفہ بڑی عبرت کی آیات ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کے باوجود اگر کسی قسم کی سختی کے بجائے عیش وعشرت اور راحت کے سامان ہوتے رہیں تو زیادہ خطرہ کی چیز ہے۔ ایک حدیث میںآ یا ہے: حضورِ اقدسﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ جب تو یہ دیکھے کہ کوئی شخص اپنے گناہوں پرمُصر ہے اور اس پر دنیا کی وسعت ہو رہی ہے تو یہ اللہ کی طرف سے ڈھیل ہے۔ پھر حضورﷺ نے یہی آیت { فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ} تلاوت فرمائی۔
حضرت ابوحازم  ؒسے نقل کیا گیا کہ جب تو یہ دیکھے کہ تواللہ کی نافرمانی کر رہا ہے اور اس کی نعمتیں تجھ پر لگاتار ہو رہی ہیں تواس سے ڈرتا رہ، اور ہر وہ نعمت جو اللہ تعالیٰ شا نہٗ سے قرب پیدا نہ کرے وہ مصیبت ہے۔ (دُرِّمنثور) چھٹی فصل کی احادیث میں نمبر (۱۷) پر یہ مضمون تفصیل سے آرہا ہے۔ اور چوںکہ مال بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میںسے ایک بڑی نعمت ہے اس کو زیادہ سے زیادہ حق تعالیٰ شا نہٗ کی پاک بارگاہ میں تقرب پیدا کرنے کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ او ر کوئی شخص بجائے اس کے کہ اس کو اللہ کی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرکے تقرب پیدا کرے، اس کی زکوٰۃ بھی ادا نہ کرے جو اللہ تعالیٰ شا نہٗ کا اہم فریضہ ہے، تو اس کی نافرمانی میں کیا شک ہے؟ اور ایسے شخص کو اپنے مال کے باقی رہنے کی زیادہ امید نہ رکھنی چاہیے، وہ خوداس کے ضائع ہو جانے کی تدبیر کررہا ہے۔ اور اگر اس حال میںبھی خدانخواستہ ضائع نہ ہو تو یہ اوربھی سخت خطرناک ہے کہ اس صورت میں یہ کسی بڑی مصیبت کا پیش خیمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ شا نہٗ ہی اپنے فضل سے محفوظ رکھے۔
 ۷۔ عَنْ عَائِشَۃَ ؓ قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ : مَا خَالَطَتِ الزَّکَاۃُ مَالاً  قَطُّ إِلاَّ  أَھْلَکَتْہُ۔


حضورِاقدسﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ جس مال کے ساتھ زکوٰۃ کا مال مل جاتا ہے وہ اس مال کو ہلاک کیے بغیر نہیںرہتا۔
رواہ الشافعي والبخاري في تاریخہ، کذا في المشکاۃ، وعزاہ المنذري إلی البزار والبیھقي۔
فائدہ:  اس حدیث پاک کے مطلب میں علما کی دو تفسریںہیں اور دونوں صحیح ہیں۔ حضورﷺ کا یہ پاک ارشاد دونوں پر صادق آتا ہے۔ ایک یہ کہ جس مال میں زکوٰۃ واجب ہوگئی ہو اور اس میں سے زکوٰۃ نہ نکالی گئی ہو تو یہ سارا مال زکوٰۃ کے ساتھ مخلوط ہے، اور یہ زکوٰۃ کا مال سب کو ہی ہلاک کر دے گا۔ اس مطلب کے موافق یہ حدیثِ پاک اس سے پہلی حدیث شریف کے ہم معنی ہوئی کہ یہی مضمون بعینہٖ پہلی حدیث شریف کا ہے۔
حافظ ابنِ تیمیہ ؒ نے’’مننتقیٰ‘‘ میں انہی معنی کو اختیارکیا ہے، اس لیے اس پر زکوٰۃ نکالنے میں جلدی کرنے کا باب لکھا ہے۔ اور حمیدی ؒ سے اس حدیث کے بعد یہ نقل کیا ہے کہ اگر تجھ پرزکوٰۃ واجب ہو جائے اور تو اس کو نہ نکالے توحرام مال حلال کو بھی ہلاک کر دے گا۔ یعنی زکوٰۃ کا مال جس کاروکنا حرام ہے، باقی مال کو جس کا روکناحلال ہے، ضائع کر دے گا۔ دوسری تفسیر جو حضرت امام احمد بن حنبل ؒ سے نقل کی گئی یہ ہے کہ جو شخص خود صاحبِ نصاب ہو، یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی قیمت کی کوئی چیز اصلی ضرورت سے زائد اس کے پاس ہو، اور پھروہ اپنے کو غریب ظاہر کرکے کسی سے زکوٰۃ کا مال لے لے، تو یہ مال اس کے پاس جو اپنا اصلی مال پہلے سے تھا اس کو بھی ضائع کر دے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح) اس حدیثِ پاک سے ان لوگوں کو بہت ڈرتے رہنا چاہیے جو صاحبِ نصاب ہونے کے باوجود  لوگوں کی زکوٰتیں لیتے رہتے ہیں کہ یہ زکوٰۃ کا مال ان کے اصلی مال کو بھی فنا کر دے گا اور تھوڑے سے نفع کی خاطر بہت سا نقصان برداشت کرنا پڑ جائے گا۔ پھر چاہے چوروں کو گالیاں دیتے رہیں یا ظالموںکو بددعائیں دیتے رہیں، اپنی حرکت کی بدولت مال چلا ہی جائے گا اور ایسی حالت میں کہ وہ مستحق نہ تھا لینے کا گناہ سر پر رہے گا۔
۸۔ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ؓ قَالَ: مَنْ کَسَبَ طَیِّبًا خَبَّثَہٗ مَنْعُ الزَّکَاۃِ، وَمَنْ کَسَبَ خَبِیْثًا لَمْ تُطَیِّبْہُ الزَّکَاۃُ۔
رواہ الطبراني في الکبیر موقوفاً بإسناد منقطع، کذا في الترغیب۔


حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ جو شخص طیب مال (حلال مال) کماوے، زکوٰۃ کا ادا نہ کرنا اس کو خبیث بنا دیتا ہے۔ اور جو شخص حرام کا مال کمائے، زکوٰۃ کا ادا کرنا اس کو پاک نہیں بناتا۔
فائدہ:  کتنی سخت وعید ہے کہ جس مال کو بڑی محنت جانفشانی سے جائز ناجائز کا اہتمام رکھتے ہوئے کمایا تھا، وہ ذرا سے بخل سے کہ اس کی زکوٰۃ کا اہتمام نہیں رکھا، سارا کا سارا اللہ تعالیٰ شانہٗ کے نزدیک خبیث بن گیا۔
ایک حدیث میں حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد وارد ہوا ہے کہ جو شخص حرام طریقہ سے مال کمائے اور پھر اس کو صدقہ کرے، اس کے لیے اس میں کوئی اجر نہیں ہے اور اس کا وبال اس پر ہے۔ (الترغیب والترہیب) یعنی حرام مال کمانے کا وبال سرپررہا اور اس صدقہ کا کوئی ثواب اس کو نہیں ہے۔



۹۔ عَنْ أَسمَائَ بِنْتِ یَزِیْدَ ؓ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ : قَالَ أَیُّمَا امْرَأَۃٍ تَقَلَّدَتْ قِلَادَۃً مِنْ ذَھَبٍ قُلِّدَتْ فِيْ عُنُقِھَا مِثْلَھَا مِنَ النَّارِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَأَیُّمَا امْرَأَۃٍ جَعَلَتْ فِيْ أُذُنِھَا خُرْصًا مِنْ ذَھَبٍ جُعِلَ فِيْ أُذُنِھَا مِثْلُہٗ مِنَ النَّارِ۔
رواہ أبو داود والنسائي بإسناد جید،کذا في الترغیب۔

حضرت اسماء ؓ فرماتی ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو عورت اپنے گلے میں سونے کا ہار ڈالے گی، اس کے گلے میں اسی طر ح کا آگ کا ہار قیامت کے دن ڈالا جائے گا۔ اور جو عورت اپنے کان میں سونے کی بالی ڈالے گی، اس کے کان میںاسی جیسی آگ کی بالی قیامت کے دن ڈالی جائے گی۔

فائدہ:  اس حدیث شریف سے عورتوں کے لیے بھی سونے کا پہننا ناجائز اور حرام معلوم ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے بعض علما نے اس کو ابتدائے اسلام پر محمول کیا ہے۔ اس لیے کہ سب علما کے نزدیک دوسری احادیث کی بناء پر عورتوں کے لیے سونے چاندی کا زیور جائز ہے، لیکن بعض علما نے اس حدیث کو اور اس جیسی دوسری احادیث کو زکوٰۃ ادا نہ کرنے پر محمول فرمایا ہے، اور بعض روایات سے اس کی تائید فرمائی ہے۔ چناںچہ خود حضرت اسماءؓ ہی کی روایت ہے کہ میں اور میری خالہ حضورِ اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور ہمارے ہاتھوں میں سونے کے کنگن تھے۔ حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ ان کی زکوٰۃ اداکرتی ہو ؟ ہم نے عرض کر دیا کہ نہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: تم اس سے نہیں ڈرتیں کہ اللہ تمہیں آگ کے کنگن پہنائیں؟ ان کی زکوٰۃ ادا کیا کرو۔ (الترغیب والترہیب) یہ روایت اس مضمون میں صاف اور واضح ہے کہ جہنم کی آگ اس کے بدلہ میں پہننا اسی صورت میں ہے کہ ان کی زکوٰۃ ادا نہ کی جائے۔ عورتوں کو اس کا بہت خیال رکھنا چاہیے کہ جو زیور آج بدن کی زینت بن رہا ہے، وہ زکوٰۃ ادا نہ کرنے کی صورت میں کل کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ بن کر بدن کا عذاب بنے گا۔
حضرت اسماءؓ کا یہ فرمانا کہ زکوٰۃ ادا نہیں کرتی، ممکن ہے اس وجہ سے ہو کہ ان کو اس وقت تک یہ مسئلہ معلوم نہ تھا۔ چناںچہ دوسری حدیث میں ان کا سوال کرنا اس کی دلیل ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس وقت تک وہ زیور کو عورت کی اصلی ضرورت میں سمجھتی ہوں، حالاںکہ زیور اصلی ضرورت میں نہیں ہے ایک زائد چیز ہے۔ اس مطلب کے موافق سونے کی کوئی تخصیص نہ ہوگی چاندی کا بھی یہی حکم ہے۔ چناںچہ ایک اور حدیث میں ہے: حضرت عائشہؓ  فرماتی ہیں کہ حضورﷺ تشریف لائے تو میرے ہاتھوں میںچاندی کے چھلے ملاحظہ فرمائے۔ ارشاد فرمایا کہ یہ کیا ہے؟ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ میں نے اس لیے بنوائے کہ آپ کے لیے اپنی زینت کروں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ اس کی زکوٰۃ بھی دیتی ہو ؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: تجھ کو تو جہنم کی آگ کے لیے یہی کافی ہیں۔ (الترغیب والترہیب)
یہاں انکار کی ان دو وجہوں کے علاوہ جو پہلی حدیث میںگزریں، تیسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ چاندی کے چھلوں کا وزن عام طور سے اتناز یادہ نہیں ہوتا کہ وہ نصاب تک پہنچ جائے۔ اور حضورﷺ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ایک زیور کی مقدار اگرچہ اتنی نہ ہو، لیکن دوسرے زیور کے ساتھ ملا کر بھی نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ حضورِاقدسﷺکی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئیں۔ ان کے ساتھ ان کی بیٹی تھیں جن کے ہاتھ میں دو وزنی کنگن سونے کے تھے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو ؟ انھوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ تمہیں اس بات سے خوشی ہے کہ حق تعالیٰ شا نہٗ ان کے بدلہ میں آگ کے دو کنگن تمہیں قیامت میں پہنا دیں؟ انھوں نے یہ سنتے ہی دونوں کنگن حضورﷺ کی خدمت میں پیش کر دیے کہ یہ اللہ کے واسطے دیتی ہوں۔ (الترغیب والترہیب)
یہی وہ خاص ادا صحابۂ کرام?  کے مرد و عورت میں تھی کہ اللہ تعالیٰ شا نہٗ یا اس کے رسول ﷺ  کا ارشاد سننے کے بعد پھرتعمیل میں کوئی حیل وحجت، لیت و لعل ہوتی ہی نہ تھی۔ اب ان سب روایات کے موافق سونے چاندی کے سب زیوروں کا ایک ہی حکم ہے۔ زکوٰۃ نہ دینے پر جہنم کی آگ مسلط ہو جانے میں دونوں برابر ہیں۔ خواہ کسی روایت میں سونے کے زیور ہوںیا چاندی کے زیور۔ اور بعض علما نے ان روایات کی وجہ سے جن میں زکوٰۃ کا ذکر نہیںہے اور سونے چاندی میں فرق کیاگیا ہے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس سے تکبر، تفاخراور اظہار مراد ہے۔
ایک روایت سے اس مفہوم کی تائید بھی ہوتی ہے۔ چناںچہ ’’ابوداود شریف‘‘ اور ’’نسائی شریف‘‘ کی ایک روایت میں ہے کہ اے عورتوں کی جماعت! کیا تمہیں زیور بنانے کے لیے چاندی کافی نہیں ہے؟ یاد رکھو کہ جو عورت سونے کازیور بنائے اور اس کو ظاہر کرے، وہ اس کی وجہ سے عذاب دی جائے گی۔ (الترغیب والترہیب) اوریہ بات عام طور سے مشاہد ہ میں آتی ہے کہ عورتوں کے یہاں چاندی کا زیور بالخصوص جو عورتیں اپنی جہالت سے اپنے کو اونچے خاندان کی سمجھتی ہیں،کچھ وقعت اور اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ چاندی کے زیور کو کوئی اظہار یا تفاخرکی چیز نہیں سمجھتیں۔ ان کے ہاتھوں میں چاندی کے کنگن ہوں تو ذرا بھی ان کو اس کے اظہار کا داعیہ پیدا نہ ہو، لیکن سونے کے کنگن ہوں تو بے وجہ پچاس مرتبہ مکھی اڑانے کے بہانے سے ہاتھ ہلائیں گی، بیس مرتبہ دوپٹہ درست کرنے کے واسطے ہاتھ کو پھیریں گی۔ بالخصوص کوئی نئی عورت گھر میں آجائے یا وہ کسی دوسرے کے گھر جائیں، پھرتو نہ مکھی ان کے بدن سے اڑ کر دیتی ہے نہ ان کا دوپٹہ درست ہوکر دیتا ہے۔ بار بار ہاتھوںکو حرکت دیتی رہتی ہیں اور اس حرکت سے محض دوسرے پر تفاخر مقصود ہوتا ہے، اپنے زیور کو دکھانا ہوتا ہے۔ لہٰذا دونوں باتوں کا اہتمام بہت ضروری ہے کہ زیور سے تفاخر اورتکبر اور اس کا اظہار ہرگز نہ ہوناچا ہیے، اور اس کی زکوٰۃ بہت اہتمام سے اداکرنا چاہیے۔ اور دونوں میں سے اگر کوئی سی ایک بات کا بھی لحاظ نہ رکھا جائے تو اپنے آپ کو عذاب کے لیے تیار رکھنا چاہیے۔



۱۰۔ عَنِ الضَّحَّاکِ  ؒ قَالَ: کَانَ أُنَاسٌ مِنَ الْمُنَافِقِیْنَ حِیْنَ أَمَرَ اللّٰہُ أَنْ تُؤَدَّی الزَّکَاۃُ یَجِیْئُوْنَ بِصَدَقَاتِھِمْ بِأَرْدَیٍٔ مَا عِنْدَھُمْ مِنَ الثَّمَرَۃِ، فَأَنْزَلَ اللّٰہُ {وَلَا تَیَمَّمُوْا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ} 
أخرجہ ابن جریر وغیرہ، کذا في الدر المنثور۔
حضرت ضحاک ؒ فرماتے ہیں کہ جب حق تعالیٰ شا نہٗ نے زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم فرمایا تو منافق آدمی بدترین پھل، جو ان کے پاس ہوتے تھے، وہ دیا کرتے تھے۔ اس پر حق تعالیٰ شانہٗ نے قرآنِ پاک میں آیتِ شریفہ { وَلَا تَیَمَّمُوْا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ} نازل فرمائی۔
فائدہ:  یہ آیتِ شریفہ سورۂ بقرہ کے سینتیسویں رکوع کی پہلی آیت کا جزو ہے۔ یہ آیتِ شریفہ { یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِِّبَاتِ مَاکَسَبْتُمْ}سے شروع ہے، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے عمدہ مال کو خرچ کیا کرو (نیک کاموں میں) اور (خرچ کیا کرو عمدہ مال کو) اس چیز میں سے جس کو ہم نے تمہارے لیے زمین سے پیدا کیا (یعنی پھل وغیرہ)۔ اورردی مال کا ارادہ نہ کیا کرو کہ اس میں سے خرچ کرنے لگو۔ حالاںکہ (اگر تم کو ویسی خراب چیز کوئی تمہارے حقِ واجب میں یا سوغات میںدینے لگے تو) تم کبھی بھی اس کو لینے والے نہ ہو مگر یہ کہ چشم پوشی کرکے (شرمے شرمائے) لے لو۔ اور یہ سمجھ لو کہ حق تعالیٰ شا نہٗ کسی کے محتاج نہیں ہیں (کہ ایسے ردی مال سے خوش ہو جائیں، وہ) تعریف کے لائق ہیں۔
بہت سی احادیث ان آیات کے بارہ میں وارد ہوئی ہیں، مآل سب کا ایک ہی ہے۔ حضرت براء ؓ فرماتے ہیں کہ یہ آیات ہم انصاریوں کے بارہ میں نازل ہوئی ہیں۔ ہم باغات کے مالک تھے۔ ہر شخص اپنے باغ کی حیثیت کے موافق کم و بیش لایا کرتا تھا۔ بعض آدمی ایک دو خوشے مسجد میںٹانگ دیتے۔ اہلِ صُفّہ فقرا کی جماعت تھی، جن کے کھانے کا کوئی خاص انتظام نہ تھا۔ ان میں سے جس کو بھوک لگتی، وہ ان خوشوں میں لکڑی مارتا اور جو پکی کچی کھجوریںگرتیں کھالیتا۔ بعض لوگ جنہیں خیر کے کاموں میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی، وہ بعض ردّی قسم کی کھجوروں کا خوشہ یا خراب شدہ خوشہ ٹانگ دیتے۔ اس پر یہ آیتِ شریفہ نازل ہوئی، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کو ہدیہ میںایسی چیز دی جائے تو شرمے شرمائے تو لے لو، ویسے نہ لو۔ اس کے بعد سے اچھے اچھے خوشے آنے لگے۔
اس مضمون کی متعدد روایات وارد ہوئی ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ بعض لوگ بازار سے سستا مال خریدتے اور وہ صدقہ میں دیتے، جس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ یہ آیتِ شریفہ فرض زکوٰۃ کے بارہ میں نازل ہوئی۔ جب لوگ کھجوریںکاٹتے تو اچھا اچھا مال چھانٹ کر علیحدہ کرلیتے۔ جب زکوٰۃ لینے آدمی آجاتا تو ردّی مال اس کے سامنے کر دیتے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضورِ اقدسﷺ  ایک مرتبہ مسجد میں تشریف لے گئے۔ حضورﷺ کے دست مبارک میں ایک لکڑی تھی اور مسجد میں کسی نے ردّی کھجوروں کا خوشہ لٹکا رکھا تھا۔ حضورﷺ نے اس خوشہ میں لکڑی ماری اور فرمایا کہ جس نے یہ لٹکایا ہے اگر اس سے بہتر لٹکاتا تو کیا نقصان ہو جاتا؟ یہ شخص جنت میں ایسی ہی ردّی کھجوریں پائے گا۔ (دُرِّمنثور) حضرت عائشہؓ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد نقل کرتی ہیں کہ مساکین کو اس مال کو نہ کھلائوں جس کو تم خود نہ کھا سکو۔ (کنز العمال) ایک اور حدیث میں ہے کہ گوشت میں بُو ہوگئی تھی۔ حضرت عائشہؓ نے ارادہ فرمایا کہ کسی کو اللہ کے واسطے دے دیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: کیا ایسی چیز کا صدقہ کرتی ہو جس کو خود نہیں کھاتیں۔ (جمع الفوائد) مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کے نام پر جب دیا جا رہا ہے تواچھا مال جہاں تک ممکن ہو دینا چاہیے، لیکن یہ مطلب نہیں ہے کہ اچھا دیا نہ جائے اور خراب اس وجہ سے نہ دے، بس حذف ہی ہو جائے۔ اگر عمدہ کی توفیق نہ ہو تو نہ دینے سے گھٹیا دینا بہتر ہے۔ زکوٰۃ میں ردّی مال دینا بھی زکوٰۃ نہ دینے ہی کی ایک قسم ہے۔ حضورِ اقدسﷺ کا ارشاد فرمایا ہوا زکوٰۃ ادا کرنے کا ضابطہ چوتھی فصل کی احادیث میں نمبر (۶) پر گزر چکا ہے کہ نہ تو اللہ  بہترین مال کا مطالبہ فرماتے ہیں نہ گھٹیا مال کی اجازت دیتے ہیں، بلکہ متوسط مال کامطالبہ ہے۔ یہی اصل ضابطہ زکوٰۃ کے اداکرنے کا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جو اَحکامات اپنے ماتحتوں کو زکوٰۃ وصول کرنے کے تحریر فرمائے، ان میںزکوٰۃ کی تفصیل تحریرفرمائی اور تمہید میں تحریر فرمایا کہ جو اس تفصیل کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرے اس کو دی جائے، اور جو اس سے زیادہ لینا چاہے اس کو نہ دی جائے۔ حضورِ اقدسﷺ  نے جب حضرت معاذؓکو یمن کا حاکم بناکر بھیجا تو نماز کے حکم کے بعد زکوٰۃ ادا کرنے کے حکم کی تلقین فرمائی، اور یہ ارشاد فرمایا کہ جب وہ زکوٰۃ ادا کریں تو ان کے بہترین مال کو لینے کی کوشش نہ کرنا۔ مظلوم کی بددعا سے بچنا کہ مظلوم کی بددعا کے قبول ہونے میں کوئی آڑ نہیں ہوتی۔
امام زہری ؒ فرماتے ہیں کہ جب حکومت کا آدمی زکوٰۃ لینے آئے تو بکریوں کے تین حصے کر دیے جائیں۔ عمدہ عمدہ ایک جگہ اور ردّی ردّی ایک جگہ۔ تیسرا حصہ جو درمیانی ہے ان میں سے لے لے۔ (ابوداود) یہی اصل ضابطہ ہے زکوٰۃ لینے والے کے حق میں، لیکن دینے والا اگر اپنی خوشی سے اچھے سے اچھامال دے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، جیساکہ اسی حدیث نمبر (۶) کے ذیل میں صحابہ?  کے بعض واقعات اور حضورﷺ کا پاک ارشاد گزر چکا کہ تم اگر اپنی خوشی سے عمدہ مال ضابطہ سے زائد دینا چاہو تو اللہ تعالیٰ تم کو اس کا ا جر دے گا۔ اس لیے دینے والے کو یہ سمجھ کر کہ اپنے کام آنے والا صرف یہی مال ہے جو دیا جارہا ہے، بہتر سے بہتر مال چھانٹ کر دینا چاہیے۔
امام غزالی ؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص زکوٰۃ کو آخرت کے واسطے اداکرناچاہے اس کے لیے کچھ آداب ہیں، کچھ قواعد ہیں، ان کی رعایت کرنا چاہیے۔ امام غزالی ؒ نے اس مضمون کو بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ بندہ اس کو نہایت اختصار سے اور کہیں کہیں معمولی توضیح سے ذکر کرتا ہے۔ یہ اس کا ترجمہ نہیں ہے۔ امام غزالی  ؒ نے آٹھ ادب ذکر فرمائے ہیں۔

 نمبر۱ :
سب سے پہلی چیز تو یہ سمجھنے کی ہے کہ آخر زکوٰۃ کیوں واجب ہوئی؟ کیوں اس کو اسلام کا رکن قرار دیا گیا؟ اس کی تین وجہیں ہیں ۔
الف :اس وجہ سے کہ زبان سے کلمہ کا اقرار کرلینا وہ اللہ تعالیٰ کو تنے تنہا معبود ماننے کا اقرار ہے۔ یعنی یہ کہ اس کے ساتھ کوئی دوسری چیز شریک نہیں ہے۔ اور اس کی تکمیل اور تمامی جب ہی ہوسکتی ہے جب کہ اس ایک پاک ذات کے سوا محبت کے دعوے دار کے دل میں اختیاری طور پر کسی دوسری چیز کی گنجایش نہ رہے۔ اس لیے کہ محبت شرکت کی ہرگز متحمل نہیں ہے۔ اور محض زبانی دعویٔ محبت بے کار ہے۔ محبت کا امتحان جب ہی ہوسکتا ہے جب دوسر ی محبوب چیزوں سے مقابلہ پڑ جائے۔ اور مال ہر شخص کو بالطبع محبوب ہوتا ہے۔ اس لیے اللہ سے محبت اور اس کی تنہا معبودیت کے اقرار میں امتحان کی کسوٹی کے طور پر مال کا خرچ کرنا فرض کیاگیا ہے، جس سے لوگوں کی حق تعالیٰ شا نہٗ کے ساتھ محبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی لیے حق تعالیٰ شا نہٗ کا ارشاد ہے : 
{ اِنَّ اللّٰہَ اشْتَریٰ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ } (التوبۃ : ع ۱۴) 
بلاشبہ حق تعالیٰ شا نہٗ نے مسلمانوں سے ان کی جانوں کو ا ور مالوں کو اس بات کے بدلہ میں خرید لیا ہے کہ ان کو جنت ملے گی۔ 
او ر جانوں کا خرید لینا جہاد کے ذریعہ سے ہے اور مالوں کا خرچ کرنا جان کے خرچ کرنے سے ہلکا ہے۔ اور جب مال کے خرچ کرنے کا یہ مفہوم ہوا کہ وہ محبت کے امتحان کی کسوٹی ہے تو آدمی اس امتحان میں تین قسم کے ہوئے۔
پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی یکتائی کا سچا اقرار کیا کہ اس کی محبت میں ذرا سی بھی شرکت کسی چیز کی نہیں آنے دی اور اپنے عہد کو پورا پورا ادا کر دیا کہ اپنے مالوں کو سب کو اس کے نام پر قربان کر دیا، نہ اپنے لیے کوئی دینار رکھا نہ دِرَم، وہاںزکوٰۃ کے واجب ہونے کا سوال ہی نہیں آتا۔ اسی وجہ سے بعض بزرگوں سے منقول ہے کہ ان سے کسی نے دریافت کیا کہ دو سو دِرَم میںکتنی مقدار واجب ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا کہ عام لوگوں پرشریعتِ مطہرہ کے ضابطہ کے موافق پانچ دِرَم ہیں، لیکن ہم لوگوں کو سب کا خرچ کر دینا ضروری ہے۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنا سارا مال خدمت میں پیش کر دیا اور محبت کے دعویٰ کو ایسا پورا کیا کہ محبوب کے سوا کچھ بھی نہ چھوڑا۔
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو درمیانی درجہ کے ہیں کہ وہ بقدرِ حاجت و ضرورت باقی رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نعمتوں اور لذتوں میں تو مشغول نہیں ہوتے۔ البتہ بقدرِ ضرورت ذخیرہ رکھتے ہیں اور ضرورت سے زائد کو صَرف کر دیتے ہیں۔ یہ حضرات بھی خرچ کرنے میںمقدارِ زکوٰۃ پر اِکتفا نہیں کرتے، بلکہ فاضل مال جو کچھ ہوتا ہے وہ سب خرچ کر دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے بعض تابعین جیسا کہ امام نخعی، شعبی وغیرہ ؒ حضرات اس طرف گئے ہیں کہ مال میں زکوٰۃ کے علاوہ بھی حقوق واجب ہیں۔ ان حضرات کے نزدیک مال دار کے ذمہ واجب ہے کہ جہاں کہیں ضرورت مند کو دیکھے تو زکوٰۃ سے زائد بھی اس کی حاجت کو پورا کرے، لیکن فقہ کے اعتبار سے صحیح یہ ہے کہ اگر کہیں کوئی شخص اضطرار کے درجہ کو پہنچ گیا ہو تو اس کی ضرورت کا پورا کرنا فرضِ کفایہ ہے۔ اور اس میں علما کا اختلاف ہے کہ مضطر پر اتنی مقدار خرچ کرنا بھی جس سے وہ ہلاکت سے بچ جائے، مفت ضروری ہے یا قرض دینا بھی کافی ہے۔ اور جو قرض دیناکہتے ہیں وہ گویا تیسری قسم میںداخل ہیں۔ اور تیسری قسم ادنیٰ درجہ کے لوگوں کی ہے جو صرف واجب یعنی مقدارِزکوٰۃ ہی ادا کرتے ہیں، نہ اس سے کم کرتے ہیں نہ زیادہ۔ عام لوگ بیشتر اسی قسم میں داخل ہیں۔ اس لیے کہ ان کو مال سے محبت ہے، وہ اس کے خرچ کرنے میں بخل کرتے ہیں، انہیں آخرت کی رغبت کم ہے۔
امام غزالی ؒ نے تین ہی قسمیں آدمیوںکی لکھی ہیں۔ چوتھی قسم کو ذکر نہیں کیا جو مقدارِ واجب کو بھی پوری ادا نہیں کرتے یا بالکل ہی ادا نہیں کرتے۔ اس لیے کہ یہ لوگ توا پنے دعویٔ محبت میں بالکل ہی جھوٹے ہیں۔ ایسوں کا کیا ذکر کرنا جو جھوٹی محبت کے دعوے دار ہوں۔

ب :
اس وجہ سے بھی کہ زکوٰۃ سے آدمی کو صفتِ بخل سے پاک کرنا مقصود ہے، جو بڑی مہلک چیزہے۔ حضورﷺ  کا ارشاد ہے کہ تین چیزیں مہلک ہیں۔ ایک وہ حرص و بخل جس کی اطاعت کی جائے۔ (یعنی اگرطبعاً کوئی شخص بخیل ہو، مگر عمل اپنی طبیعت کے خلاف کرتا ہے اور طبیعت پر جبر کرتا ہے تو یہ تو مہلک نہیں۔ مہلک وہ بخل ہے کہ عمل بھی اس کے موافق ہو) دوسری و ہ خواہشِ نفس جس کا اتباع کیا جائے (اس کابھی وہی مطلب ہے کہ مثلاً شہوت کسی شخص کو ہو اور وہ اس کو بجبر روکے تو وہ مہلک نہیں۔ مہلک وہ ہے کہ اس کے موافق عمل بھی کرے)۔ تیسری چیز ہر شخص کا اپنی رائے کو سب سے بہتر سمجھنا ہے۔
اس کے علاوہ قرآنِ پاک کی متعدد آیات اور بہت سی احادیث میں بخل کی مذمت وارد ہوئی ہے، جیساکہ دوسری فصل میں ان میں سے چندگزر چکیں۔ اور آدمی سے صفتِ بخل اسی طرح زائل ہوسکتی ہے کہ زبردستی اس کو مال خرچ کرنے کا عادی بنائے کہ جب کسی سے محبت، تعلق چھڑانا مقصود ہوتا ہے تو اس کی صورت یہی ہوتی ہے کہ اپنے کو اس سے دور رکھنے پر مجبور کیاجائے تاکہ اس کی محبت جاتی رہے۔ اسی لحاظ سے زکوٰۃ کو پاکی کا ذریعہ کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی کو بخل کی گندگی سے پاک کرتی ہے۔ اور جس قدر زیادہ مال خرچ کرے گا، اور جتنی زیادہ مسرت او رخوشی سے خرچ کرے گا، اور جتنی بھی اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرنے سے بشاشت ہوگی، اتنی ہی بخل کی گندگی سے نظافت حاصل ہوگی۔

ج:
اس وجہ سے بھی کہ یہ اللہ تعالیٰ شا نہٗ کی نعمتِ مال کا شکرانہ ہے کہ اللہ  کے ہر شخص کے جان و مال میں اس قدر انعامات احسانات ہیں کہ حد نہیں۔ پس طاعاتِ بدنیہ بدنی انعامات کا شکرانہ ہیں اور طاعاتِ مالیہ مالی انعامات کا شکرانہ ہیں۔ اور کس قدر کمینہ اور ذلیل ہے وہ شخص جو کسی فقیر کو دیکھے، اس کی تنگ دستی اور بدحالی کو، اس پررزق کی کمی کی مصیبت کو دیکھے، پھر بھی ا س کے دل میں اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کے شکرانہ کا خیال نہ آئے جو اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر کی کہ اس کو بھیک مانگنے سے مستغنی کیااور اس فقیرکی طرح اپنی حاجت کو دوسرے کے سامنے لے جانے سے بے نیاز کیا، بلکہ اس قابل کیا کہ دوسرا شخص اس کے سامنے اپنی ضرورت پیش کرے۔ کیااس کاشکرانہ یہ نہیں ہے کہ اپنے مال کا دسواں یا چالیسواں حصہ اللہ تعالیٰ کے نام پر خرچ کر دے؟ (دسویں سے پیداوار کا عشر اور چالیسویں سے زکوٰۃ مراد ہے)

نمبر ۲ :
دوسرا ادب زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت کے اعتبار سے ہے۔ ا ور وہ یہ ہے کہ اس کی ادائیگی میں بہت عجلت کرے کہ اس کے واجب ہونے کے وقت سے پہلے ہی ادا کردے کہ اس میں حق تعالیٰ شا نہٗ کے امتثالِ حکم میںرغبت کا اظہار ہے ا ور فقرا کے دلوں میں مسرت کا پیدا کرنا ہے، اور دیر کرنے میں اپنے اوپر اور مال پر کسی قسم کی بیماری اور آفت آجانے کا بھی احتمال ہے۔ اور جن کے نزدیک زکوٰۃ کا فوراً ادا کرنا ضروری ہے ان کے نزدیک تو تاخیر کاگناہ مستقل ہے۔ لہٰذا جس وقت بھی دل میں خرچ کرنے کا خیال پیدا ہو اس کو فرشتہ کی تحریک سمجھے۔ اس لیے کہ حدیث میں آیا ہے کہ آدمی کے ساتھ ایک تحریک فرشتہ کی ہوتی ہے اور ایک شیطان کی۔ فرشتہ کی تحریک تو خیر کی طرف متوجہ کرنا اور حق کی تصدیق ہے۔ جب آدمی اس کو پاوے تواللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے۔ اورشیطان کی تحریک برائی کی طرف متوجہ کرنااور حق بات کو جھٹلانا ہے۔ جب آدمی اس کو پاوے تو أَعُوْذُ بِاللّٰہِپڑھے۔ (سادۃ) 
ایک اور حدیث میں ہے کہ آدمی کا دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں میں ہے، جس طرح چاہے پلٹ دیتا ہے۔ اس لیے دل میں جو خیال خرچ کرنے کا آیا ہے اس کے بدل جانے کا بھی خطرہ ہے۔ اس کے علاوہ شیطان آدمی کو اپنی اِحتیاج کا خیال دلاتا رہتا ہے، جیساکہ دوسری فصل کی آیات  میں نمبر(۲) پرگزرا اور فرشتہ کی تحریک کے بعد شیطان کی تحریک بھی ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی تحریک کے پیدا ہونے سے پہلے پہلے ادا کرلے۔ اور اگر ساری زکوٰۃ ایک ہی وقت ادا کرنا مقصود ہو، تو اس کی اچھی صورت یہ ہے کہ کوئی سا ایک مہینہ زکوٰۃ ادا کرنے کا معین کرلے۔ اور بہتر یہ ہے کہ افضل مہینوں میں سے مقرر کرے تاکہ اس میں خرچ کرنے سے ثواب میں زیادتی ہو، جیسا کہ مثلاً: محرم کا مہینہ ہے، وہ سال کا شروع مہینہ ہونے کے علاوہ اشہرِ حُرم میں سے ہے۔ اور اس میںایک دن یعنی عاشورہ کا ایسا ہے کہ اس میں صدقہ کرنے کی اور اہل و عیال پر خرچ میں وسعت کی فضیلت آئی ہے۔ لہٰذا اس مہینہ میں اگر ادا کرے تو بہتر یہ ہے کہ دسویں تاریخ کو اداکرے۔(سادۃ) 
یا مثلًا: رمضان المبار ک کامہینہ ہے کہ احادیث میں آیا ہے کہ حضورِ اقدس ﷺ جودو بخشش میں تمام آدمیوں سے بڑھ کر تھے اور ماہِ رمضان میں تو آپ کی بخشش اور جود ایسی تیزی سے چلتی تھی جیسا کہ تیز ہوا۔ نیز اس مہینہ میں لیلتہ القدرہے جو ہزار راتوں سے افضل ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بھی اس مہینہ میں اپنے بندوں پر روز اَفزوں ہوتی ہیں۔ اسی طرح ذوالحجہ کا مہینہ بھی بڑی فضیلت والے مہینوں میں ہے۔اس میں حج ہوتا ہے، اس میں ایامِ معلومات ہیں یعنی عشرئہ ذو الحجہ، اور ایام معدودات ہیںیعنی ایام تشریق، اور ان دونوں میں اللہ تعالیٰ کی یاد کی ترغیب قرآنِ پاک میں آتی ہے۔ پس اگر کوئی رمضان کو متعین کرے تو اس کا عشرئہ آخر مناسب ہے اور ذی الحجہ کو مقرر کرے تواس کا عشرۂ اول بہترہے۔ بندۂ ناکارہ زکریاکا مشورہ یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنی زکوٰۃ کا تقریبی اندازہ توہوتا ہی ہے۔ اس لیے سال کے شروع ہی سے ضرورت کے مواقع پر اس انداز کی رعایت رکھتے ہوئے تھوڑا تھوڑا دیتا رہے، اور جب سال وجوب کا ختم ہو اس وقت اپنے مال کا اور اپنی زکوٰۃ کا پورا حساب لگالے۔ اگر کچھ کمی رہ گئی ہو توا س وقت پوری کر دے اوراگر کچھ زیادہ ادا ہوگیا ہو تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے کہ اسی کی توفیق تھی کہ واجب سے زیادہ ادا ہوگیا۔ اس میں تین مصلحتیں ہیں۔ 
اول تویہ کہ پوری رقم اگر مقدار میں زیادہ ہوئی توبڑی رقم کا بہ یک وقت خرچ کرنا اکثر طبیعت پر بار ہو جاتا ہے اور زکوٰۃ کے ادا کرنے میں طیبِ نفس سے خرچ کرنے کو بہت زیا دہ اہمیت ہے۔ دوسری مصلحت یہ ہے کہ ضرورت کے مواقع ہر وقت میسر نہیں ہوتے۔ اس طرح ادا کرنے میں ضرورت کے مواقع پر خرچ ہوتا رہے گا۔ اور اگر سال کے ختم پر حساب کرکے اس خیال سے اس کو علیحدہ رکھے گا کہ وقتاً فوقتاً خرچ کرتا رہوں گا، تواس میں ایک تو ہر دن تاخیر ہوتی رہے گی، دوسرے اس کا اطمینان نہیں کہ ادائیگی سے پہلے کوئی حادثہ جانی یا مالی پیش نہ آجائے اور زکوٰۃ واجب ہو جانے کے بعد ادا نہ ہونے میں سب کے نزدیک گناہ ہے۔ تیسری مصلحت یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً ادا کرتے رہنے میں اگر آدمی کے بخل نے زیادہ زور نہ کیا تو امید یہ ہے کہ مقدارِ واجب سے کچھ زیادہ اکثر ادا ہو جایا کرے گا جو مرغوب چیز ہے۔ اور بہ یک وقت حساب لگا کر اس پر اضافہ کرنا بہت سے لوگوں کو دشوار ہوگا۔
یہاںایک بات اہتمام سے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ زکوٰۃ کا مدار قمری سال پر ہے، شمسی سال پر نہیں ہے۔ بعض لوگ انگریزی مہینہ سے زکوٰۃ کا حساب رکھتے ہیں۔ اس میں دس یوم کی تاخیر تو ہر سال ہو ہی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ چھتیس سال میں ایک سال کی زکوٰۃ کم ہو جائے گی جواپنے ذمہ پر رہ گئی۔

نمبر ۳:
تیسرا ادب زکوٰۃ کا مخفی طریقہ سے ادا کرنا ہے۔ اس لیے کہ اس میںا ظہارِ شہرت سے امن ہے اور لینے والے کی پردہ پوشی ہے، اس کو ذلت سے بچانا ہے۔ اور افضل یہی ہے کہ اگر کوئی مجبوری اظہار کی نہ ہو تو مخفی طورپر ادا کرے۔ اس لیے کہ صدقہ کی مصلحت بخل کی گندگی کو دور کرناہے اور مال کی محبت کو زائل کرنا ہے۔ اور زیادہ شہرت میں حبِ جاہ کو دخل ہوتا ہے اور یہ مرض یعنی حبِ جاہ کا، حبِ مال سے بھی زیادہ سخت ہے اورلوگوں پر حبِ مال سے بھی زیادہ مسلط ہے۔ اور صفتِ بخل قبر میں بچھو بن کر آدمی کو کاٹتی ہے اور صفتِ ریا و شہرت اژدہا بن کر ڈستی ہے۔ تو صفتِ بخل کو زائل کرکے صفتِ ریا کو تقویت دینے کی مثال ایسی ہے جیساکہ کوئی شخص بچھو کو مار کرسانپ کو کھلائے کہ اس میں بچھو تویقینا مرگیا اور اس کی مضرت جاتی رہی، لیکن سانپ قوی ہوگیا، اور مقصود دونوں کو مارنا ہے اور سانپ کا مارنا زیادہ ضروری ہے۔

نمبر۴:
چوتھا ادب یہ ہے کہ اگر کوئی دینی مصلحت اظہار کی ہو، مثلاً: دوسروں کو ترغیب مقصود ہو یا دوسرے لوگ اس کے فعل کااتباع کرتے ہوں یا اور کوئی دینی مصلحت ہو تو اس وقت اظہار افضل ہوگا۔ ان دونوں نمبروں کا بیان پہلی فصل کی آیات میں نمبر (۹) پر مفصل گزر چکا ۔

نمبر ۵:
پانچواں ادب یہ ہے کہ اپنے صدقہ کومَن واذیٰ سے برباد نہ کرے۔ مَن کے معنی احسان رکھنے کے ہیں۔ یعنی جس پر صدقہ کیا ہے اس پر اپنے صدقہ کا احسان جتائے۔ اور اذیٰ کے معنی تکلیف کے ہیں۔ یعنی اس کو کسی اور طرح کی اذیت اس گھمنڈ پر پہنچائے کہ یہ اپنا دستِ نگر ہے، محتاج ہے، اس کی ضرورت اپنے سے وابستہ ہے، یا میں نے زکوٰۃ دے کر اس پر احسان کیا ہے۔ یہ مضمون بھی پہلی فصل کی آیات میں نمبر(۸) پر تفصیل سے گزرچکا ہے۔

نمبر ۶:
چھٹا ادب یہ ہے کہ اپنے صدقہ کو حقیر سمجھے۔ اس کو بڑی چیز سمجھنے سے عُجب پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جو بڑی ہلاکت کی چیز ہے اور نیک اعمال کو برباد کرنے والی ہے۔ حق تعالیٰ شا نہٗ نے بھی قرآنِ پاک میں طعن کے طور پراس کا ذکر فرمایا ہے: چناں چہ ارشاد ہے: 
{وَیَوْمَ حُنَیْنٍ اِذْ  اَعْجَبَتْکُمْ کَثْرَتُکُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنْکُمْ شَیْئًا} الآیۃ۔ (البراء ۃ :ع ۴) 
اورحنین کے دن (بھی تم کو غلبہ دیا تھا) جب کہ (یہ قصہ پیش آیا تھا کہ) تم کو اپنے مجمع کی کثرت سے گھمنڈ پیداہوگیاتھا، پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور (کفار کے تیر برسانے سے تمہیں اس قدر پریشانی ہوئی کہ) زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہوگئی، پھرتم (میدانِ جنگ سے) منہ پھیر کر بھاگ گئے۔ اس کے بعد اللہنے اپنے رسول اور مؤمنین پرتسلی نازل فرمائی اور ایسے لشکر (فرشتوں کے) تمہاری مدد کے لیے بھیجے جن کو تم نے نہیں دیکھا۔
اس کا قصہ کُتبِ احادیث میں مشہور ہے۔کثرت سے روایات اس قصہ کے بارہ میں وارد ہوئی ہیں۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان المبارک ۸ھ میں جب کہ حضورِ اقدس ﷺ  نے مکہ مکرمہ کو فتح فرما لیا توقبیلۂ ہوازن اور ثقیف پر حملہ کے لیے رمضان ہی میں تشریف لے گئے۔ چوںکہ مسلمانوںکی جمعیّت اس وقت پہلے غزوات کے لحاظ سے بہت زیادہ ہوگئی تھی تو ان میں اپنی کثرت پر عُجب پیداہوا کہ ہم اتنے زیادہ ہیں کہ مغلوب نہیں ہوسکتے۔ اسی بنا پر کہ حق تعالیٰ شا نہٗ کو گھمنڈ اورعُجب بہت ناپسند ہے ابتدا میں مسلمانوں کوشکست ہوئی جس کی طرف آیت ِبالا میںا شارہ ہے کہ تم کو اپنے مجمع کی کثرت پر گھمنڈپیدا ہوا، لیکن مجمع کی کثرت تمہارے کچھ بھی کام نہ آئی۔ حضرت عروہ ؒ  فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے پاک رسولﷺ نے مکہ مکرمہ فتح کرلیا تو قبیلۂ ہوازن اور ثقیف کے لوگ چڑھائی کرکے آئے اور موضعِ حنین میںوہ لوگ جمع ہوگئے۔ حضرت حسن ؒ سے نقل کیا گیا کہ جب مکہ والے بھی فتح کے بعد مدینہ والوں کے ساتھ مجتمع ہوگئے تو وہ لوگ کہنے لگے کہ واللہ! اب ہم اکھٹے ہوکر حنین والوں سے مقابلہ کریںگے۔ حضورِ اقدسﷺ کو ا ن لوگوں کی یہ گھمنڈ کی بات گراں گزری اور ناپسند ہوئی۔ (دُرِّمنثور) غرض عُجب کی وجہ سے یہ پریشانی پیش آئی۔
علماء نے لکھا ہے کہ نیکی جتنی بھی اپنی نگاہ میں کم سمجھی جائے گی اتنی ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑی سمجھی جائے گی۔ اورگناہ جتنابھی اپنی نگاہ میں بڑا سمجھا جائے گا اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں ہلکااور کم سمجھاجائے گا۔ یعنی ہلکے سے گناہ کو بھی یہی سمجھے کہ میں نے بہت بڑی حماقت کی، ہرگز ہرگز نہ کرناچاہیے تھا۔ کسی گناہ کو بھی یہ نہ سمجھے کہ چلو اس میں کیا ہوگیا۔
بعض علما سے نقل کیا گیا کہ نیکی تین چیزوں سے کامل ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ اس کو بہت کم سمجھے کہ کچھ بھی نہ کیا۔ دوسرے جب کرنے کا خیال آجائے تو اس کو کرنے میں جلدی کرے، مبادا یہ مبارک خیال، یعنی نیکی کرنے کا نکل جائے یاکسی وجہ سے نہ ہوسکے۔ تیسرے یہ کہ اس کو مخفی طور سے کرے۔
اور جو کچھ خر چ کیا ہے، اس کو حقیر سمجھنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھے کہ جو کچھ خرچ کیا ہے، اس کا موازنہ اس سے کرے جواپنے اوپر خرچ کیا جاچکا اور اپنے پاس باقی رہنے دیا۔ پھر سوچے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کی راہ میںکتناخرچ کیا اور اپنے لیے کتنا رکھا؟ مثلاً: اگر جو کچھ اس کے پاس موجود تھا اس میں سے ایک تہائی خرچ کر دیا تو گویا مالک الملک آقا اور محبوب کی رضا میں تو ایک تہائی ہوا اور محبت کے دعوے دار کے حصہ میں دوتہائی۔ اور اگر کوئی شخص اس کا عکس یا سارا بھی خرچ کر دے، جس کی مثال اس زمانہ میں تو ملنا بھی مشکل ہے، تب بھی یہ سوچنا چاہیے کہ آخر مال تو اللہ ہی کا تھا، اسی کی عطا فرمائی ہوئی چیز اپنے پاس تھی، جس میں اس نے اپنے لطف وکرم، احسان سے خرچ کی اور اپنی ضرورت میں کام لانے کی اجازت دے رکھی تھی۔ اگر کسی ایسے شخص کی امانت اپنے پاس ہو جس نے امانت رکھواتے وقت یہ بھی کہہ دیا ہو کہ اگر آپ کو کوئی ضرورت پیش آئے تواس کو اپنا ہی مال تصور کرکے خرچ کرلیں۔ پھرتم کسی وقت اس کی امانت کم و بیش واپس کر دو تو اس میں کون سا احسان تمہاراہوا جس کو تم یہ سمجھو کہ ہم نے بڑا کارنامہ کیا؟ اور پھرمزید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شا نہٗ کو اس کی عطا کی ہوئی چیز واپس کرنے میں، یعنی اس کے نام پر خرچ کرنے میں، اس کی طرف سے اجر و ثواب اور بدلہ کا ایسا ایسا وعدہ ہے کہ اس کے لحاظ سے تو یہ کہا بھی نہیںجاسکتا کہ ہم نے اس کی امانت واپس کر دی، بلکہ یوں کہا جائے گا کہ ایک شخص نے مثلاً سو روپے امانت رکھوائے تھے اور اس میں سے اس نے پچاس ساٹھ واپس لے لیے اس وعدہ پر کہ عن قریب ہی اتنی گِنّیاں اس کے بدلہ میں تمہیں دے دوںگا، یا یوں سمجھو کہ پچاس واپس لیے اور پانچ سو کا چیک بینک کا کاٹ کر تمہارے حوالہ کر دیا تو ایسی حالت میں کیا گھمنڈ کا موقع ہے اس بات کا کہ میں نے امانت رکھنے والے کو کچھ واپس کیا؟ 
اسی وجہ سے اس ادب کے ماتحت یہ چیز بھی ہے کہ جب صدقہ کرے تو بجائے فخر اور گھمنڈ کے شرمندگی کی سی صورت سے خرچ کرے، جیساکہ کسی کی امانت کوئی شخص اس طرح واپس کرے کہ اس میں سے کم یا زیادہ رکھ بھی لے، مثلاً: کسی کے سو روپے امانت رکھے ہوں، اور امانت کی واپسی کے وقت اس میں سے پچاس ہی واپس کرے اور یہ کہہ کر واپس کرے کہ تم نے چوںکہ مجھے خرچ کی اجازت دے دی تھی اس لیے پچاس میں نے خرچ کرلیے یا اپنی کسی ضرورت کے لیے رکھ لیے۔ یہ کہتے وقت جیساکہ آدمی پر ایک حجاب، ایک شرم، ایک غیرت، ایک عاجزی، ایک ذلت ٹپکتی ہے اور اس کو یہ بات خود کو محسوس ہوتی ہے کہ میں نے اس کریم النفس آدمی کے مال میں تصرف کیا، اس کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے باقی کامطالبہ نہیںکیا، یہی ہیئت بعینہٖ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے وقت ہونی چاہیے کہ اسی کی عطا کا کچھ حصہ اسی کو ایسی طرح واپس کیا جا رہا ہے کہ اس میں سے ہم نے کچھ کھا بھی لیا اور کچھ رکھ بھی لیا۔ اوریہ اس وجہ سے کہ صدقہ جو کسی فقیر کو دیا جا رہا ہے یاضرورت کے موقع پر خرچ کیا جارہا ہے تو وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ شا نہٗ کو ہی واپس کیا جارہا ہے، فقیر تو محض ایک ایلچی ہے جو گویا اس نے اپنا آدمی اپنی امانت واپس لینے کے لیے بھیجا ہے۔ ایسے مواقع میں آدمی ایلچی کی کیسی خوشامد کیا کرتا ہے کہ تو آقا سے، حاکم سے ذرا سفارش کر دیجیو، کہہ دیجیو کہ اس کے پاس سارا مطالبہ ادا کرنے کو اس وقت تھا، نہیں میری ضرورتو ںاور اَحوال پر نظر کرکے اتنے ہی کو قبول کرلیں وغیرہ وغیرہ۔ غرض جتنی چاپلوسی قاصدوں کی،اَہلکاروں کی ایسے وقت میں ہوتی ہے جب کہ پورا حق ادا نہ کیا جارہا ہو، اس سے زیادہ عملی صورت سے فقرا اور صدقہ کا مال لینے والوں کی ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ اللہ کے ایلچی ہیں، مالک الملک کے قاصد ہیں، اس مالک الملک، قادرِمطلق اور بے نیاز کے بھیجے ہوئے ہیں جس نے سب کچھ عطا کیا اور وہ جب چاہے آن کی آن میں سب کچھ چھین کر تمہیں بھی ایسا ہی محتاج کر دے جیسا کہ تمہارے سامنے ہے۔ اور یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ مال سارا کاسارا اللہ تعالیٰ ہی کا ہے،اور اس کی راہ میں سارا خرچ کردینا مرغوب اور پسندیدہ ہے۔ اس نے اپنے لطف وکرم سے سب کے خرچ کرنے کا ایجاب ہم پر نہیں فرمایا۔ اس لیے کہ اگر وہ سب کچھ خرچ کرنا واجب فرما دیتا توہمیں اپنے طبعی بخل و کنجوسی سے بہت بار ہو جاتا۔

نمبر۷:
ساتواں ادب یہ ہے کہ اللہ کے راہ میں صدقہ کرنے کے لیے، بالخصوص زکوٰۃ کے ادا کرنے میں جو اس کا ایک اہم حکم اور فریضہ ہے، بہتر سے بہتر مال خرچ کرے۔ اس لیے کہ حق تعالیٰ شانہٗ خود طیّب ہیں، ہر قسم کے عیب سے پاک ہیں، اس لیے طیّب ہی مال قبول فرماتے ہیں۔ اگر آدمی یہ خیال کرے کہ یہ مال جو صدقہ کیا جارہا ہے حق تعالیٰ شا نہٗ کو دیا جا رہا ہے توکس قدر گستاخی اور بے ا دبی ہے کہ جس پاک ذات کا ما ل ہے، جس کا عطا کیا ہوا ہے، اس کی خدمت میں تو گھٹیا قسم کا مال پیش کرے، اور خود اپنے لیے عمدہ اور بہتر رکھے۔ اس کی مثال اس نوکر یا خانساماں کی سی ہے جو آقا کے لیے تو باسی روٹی اور دال بُودار رکھے، اور اپنے لیے قورمہ پکائے۔ خود ہی غور کرلو کہ ایسے نوکر کے ساتھ آقا کاکیا معاملہ ہونا چاہیے۔ پھر دنیا کے آقائوں کو تو ہرہر چیز کی خبر بھی نہیں ہوتی اور اس علیم و خبیر کے سامنے ہر ہر بات رہتی ہے، بلکہ دل کے خیالات بھی ہروقت سامنے ہیں۔ ایسی حالت میں اسی کے مال میں سے اسی کے لیے گھٹیا اور خراب چیز بھیجنا کس قدر نمک حرامی ہے؟ اور اگر آدمی یہ خیال کرے کہ یہ جوکچھ خرچ کر رہا ہے وہ اپنے ہی نفع کے لیے ہے، اس کا بدلہ نہایت سخت اِحتیاج کے وقت اپنے ہی کو ملنا ہے تو کس قدر حماقت کی بات ہے کہ آدمی اپنے لیے تو سڑیل گھٹیا چیزیں رکھے اور اچھا اچھا مال دوسروں کے واسطے چھوڑ جائے۔ حدیث میں آیا ہے کہ آدمی کہتا ہے: میرا مال، میرا مال۔ حالاںکہ اس کا مال صرف وہ ہے جو صدقہ کرکے آگے بھیج دیا یا کھاکر ختم کر دیا، باقی جو رہ گیا وہ دوسروں کامال ہے (یعنی وارثوں کا)۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک دِرَم کبھی لاکھ دِرَم سے بڑھ جاتا ہے اور وہ اسی طرح سے ہے کہ آدمی حلال کمائی سے عمدہ مال طیبِ خاطر اور سرور سے خرچ کرے، بجائے اس کے کہ مکروہ مال سے ایک لاکھ دِرَم خرچ کرے۔ 

نمبر۸:
آٹھواں ادب یہ ہے کہ اپنے صدقہ کو ایسے موقع میں خرچ کرے جس سے اس کاثواب بڑھ جائے۔ اور چھ صفات ایسی ہیں کہ جس کے اندر ان میں سے ایک بھی صفت ہو اس کو دینے سے صدقہ کاثواب بہت بڑھ جاتا ہے۔ اور جس میں ان میں سے جتنی صفات زیادہ ہوں گی اتنا ہی اجر بھی زیادہ ہوگا اور ثواب کے اعتبار سے اتناہی صدقہ بڑھ جائے گا۔
الف :
متقی پرہیزگار ہو، دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے کاموں میں مشغول ہو۔  حضورﷺ کا پاک ارشاد ہے کہ تیرا کھانا متقیوں کے سوا کوئی نہ کھاوے۔ یہ حدیث پہلی فصل کی احادیث میں نمبر (۲۳) پرگزر چکی ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ متقی آدمی تیرے اس صدقہ سے اپنے تقویٰ اور اطاعت میں اعانت حاصل کرے گا، اور توگویا اس کے اس تقویٰ میں معین ہوا اور اس کی عبادت میں ثواب کا شریک ہوا۔
ب :
اہلِ علم ہو۔ اس لیے کہ اس سے تیری اعانت اس کے علوم حاصل کرنے میں اور پھیلانے میں شامل ہو جائے گی۔ اور علم تمام عبادتوں میںاشرف اور اعلیٰ عبادت ہے، اور جتنی بھی علمی مشغلہ میںنیت اچھی ہوگی اتنی ہی یہ عبادت اعلیٰ سے اعلیٰ ہوتی جائے گی۔ حضرت عبداللہ بن مبارک ؒ مشہور محدث اوربزرگ ہیں، وہ اپنی عطائوں کو علما کے ساتھ مخصوص رکھتے تھے۔ کسی نے عرض کیا کہ اگر غیر عالموں پربھی آپ کرم فرمائیں تو کیسا اچھا ہو۔ انھوں نے فرمایا کہ میں نبوت کے درجہ کے بعد علم کے برابر کسی کا درجہ بھی نہیں پاتا۔ جب کوئی اہلِ علم میں سے کسی دوسری طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کے علمی مشغلہ میں نقصان ہوتا ہے۔ اس لیے ان کو علمی مشاغل کے لیے فارغ رکھنا سب سے افضل ہے۔
ج :
وہ شخص اپنے تقویٰ او ر اپنے علم میں حقیقی موحِّد ہو۔اور حقیقی موحِّد ہونے کی علامت یہ ہے کہ جب اس پرکوئی احسان کرے تو وہ اللہ تعالیٰ شا نہٗ کا شکرکرے اور دل سے یہ بات سمجھے کہ حقیقی احسان اسی پاک ذات کا ہے، وہی اصل عطا کرنے والا ہے۔ اور جو دینے والا ظاہر میں دے رہا ہے وہ صرف واسطہ اور ایلچی ہے۔ حضرت لقمان  ؑ کی اپنے بیٹے کو وصیت ہے کہ اپنے اور حق تعالیٰ شا نہٗ کے درمیان کسی دوسرے کو احسان کرنے والا مت بنا، کسی دوسرے کے احسان کو اپنے اوپر تاوان سمجھ۔ جو شخص واسطہ کا حقیقی احسان سمجھتا ہے اس نے حقیقی احسان کرنے والے کو پہچانا ہی نہیں۔ اس نے یہ نہ سمجھا کہ یہ واسطہ ہے، اللہ تعالیٰ ہی نے اس کے دل میں یہ بات ڈالی تھی کہ فلاں شخص پر احسان کیا جائے، اس لیے وہ اپنے اس احسان کرنے میں مجبور تھا۔ اور جب آدمی کے دل میں یہ بات جم جائے تو پھر اس کی نگاہ اسباب پر نہیں رہتی، بلکہ مسبب الاسباب پر ہو جاتی ہے۔ اور ایسے شخص پر احسان کرنا، احسان کرنے والے کے لیے زیادہ نافع ہوتا ہے۔ اور دوسروں کے بہت لمبے چوڑے ثنا و شکر کے الفاظ سے اس پر احسان کرناکہیں زیادہ بڑھا ہوا ہے۔ اس لیے کہ جو آج احسان پرلمبی چوڑی تعریف کررہا ہے وہ کل کو اعانت روکنے پر اسی طرح برائیاں شروع کر دے گا۔ اور جو حقیقی موحِّد ہوگا وہ کل کو مذمت بھی نہ کرے گا کہ وہ واسطہ کو و اسطہ ہی سمجھتا ہے۔

د:
جس پر صدقہ کیا جائے وہ اپنی حاجات اورضرورتوں کا اِخفا کرنے والا ہو، لوگوں سے اپنی قلتِ معاش کا اورآمدنی کی کمی کااِظہار نہ کرتا ہو، بالخصوص وہ شخص جو مروت والوں میں سے ہو اور اس کی آمدنی پہلے سے کم رہ گئی ہو، لیکن اس کی مروت کی عادت جو آمدنی کی زیادتی کے زمانہ میں تھی وہ بدستور باقی ہو۔ وہ درحقیقت ایسا ضرورت مند ہو،جو ظاہر میں غنی ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی تعریف میں اللہ تعالیٰ شا نہٗ نے فرمایا ہے: { یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ} یہ آیتِ شریفہ سورۂ بقرہ کے سینتیسویں رکوع کی ہے، پوری آیتِ شریفہ یہ ہے :
{لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآئَ مِنَ التَّعَفُّفِ ط تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَاھُمْ لَایَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا ط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ o}
(صدقات) اصل حق ان حاجب مندو ں کا ہے جو مقیدہوگئے ہوں اللہ کی راہ  (یعنی دین کی خدمت) میں (اور اسی خدمتِ دین میں مقید اور مشغول رہنے سے) وہ لوگ (طلبِ معاش کے لیے) کہیں ملک میں چلنے پھرنے کا (عادتاً) امکا ن نہیں رکھتے اور ناواقف شخص ان کو تونگر خیال کرتا ہے ان کے سوال سے بچنے کے سبب سے، (البتہ) تم ان لوگوں کو ان کے طرز سے پہچان سکتے ہو، وہ لوگوں سے لپٹ کر مانگتے نہیں پھرتے، (جس سے کوئی ان کو حاجت مند سمجھے، یعنی مانگتے ہی نہیں کیوںکہ اکثر جو لوگ مانگنے کے عادی ہیں وہ لپٹ کر ہی مانگتے ہیں) اور (ان لوگوں کی خدمت کرنے کو) جو مال خرچ کرو گے، بے شک حق تعالیٰ شا نہٗ کو اس کی خوب اطلاع ہے۔ (دوسرے لوگوں کو دینے سے ان کی خدمت کا فی نفسہٖ ثواب زیادہ دیں گے)
فائدہ:
’’فی نفسہٖ ‘‘کی قید اس لیے لگائی کہ اصل میں تو زیادہ ثواب اسی میں ہے، لیکن کسی عارض کی وجہ سے اس کے غیر میں بھی ثواب کازیاد ہ ہونا ممکن ہے۔ مثلاً: ان لوگوں کی حاجت سے زیادہ دوسروں کو حاجت ہو یا یہ توقع ہو کہ ان کی خدمت کوئی اور بھی کر دے گا دوسرے بالکل محروم رہ جائیںگے۔ اور جہاں یہ عوارض نہ ہوں وہاں یہ لوگ خدمت کے لیے افضل ہیں۔اورعارض کی وجہ سے غیر متقی، بلکہ غیر مؤمن کے ساتھ احسان کرنے میں بھی افضلیت ممکن ہے۔ اور جاننا چاہیے کہ ہمارے ملک میںاس آیت کے مصداق سب سے زیادہ وہ حضرات ہیں جو علومِ دینیہ کی اشاعت میں مشغول ہیں۔ پس اس بنا پر سب سے اچھا مصرف طالبِ علم ٹھہرے۔ اور ان پر جو بعض ناتجربہ کار یہ طعن کرتے ہیں کہ ان سے کمایا نہیںجاتا، اس کاجواب قرآن میں دے دیا گیا۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک شخص ایسے دو کام نہیں کرسکتا جن میں سے ایک میں یا دونوں میں پوری مشغولی کی ضرورت ہو، اور جس کا علمِ دین کا کچھ مذاق ہوگا وہ مشاہدہ سے سمجھ سکتا ہے کہ اس میں غایتِ مشغولی اور انہماک کی حاجت ہے۔ اس کے ساتھ اِکتسابِ مال کا شغل جمع نہیں ہوسکتا اور اس کے کرنے سے علمِ دین کی خدمت ناتمام رہ جاتی ہے۔ چناںچہ ہزاروں نظائر پیشِ نظر ہیں۔ (بیان القرآن بتغیر)
حضرت ابنِ عباس?  فرماتے ہیں کہ اس آیتِ شریفہ میں فقرا سے اَصحابِ صُفّہ مراد ہیں۔ اَصحابِ صُفّہ کی جماعت بھی حقیقت میں طلبہ ہی کی جماعت تھی جو حضورِ اقدسﷺ  کی خدمت میں ظاہری اور باطنی علوم حاصل کرنے کے لیے پڑے ہوئے تھے۔ محمد بن کعب قرظی ؒکہتے ہیں کہ اس سے اَصحابِ صُفّہ مراد ہیں جن کے نہ گھر تھے نہ کنبہ۔ حق تعالیٰ شا نہٗ نے ان پر صدقات کی ترغیب دی ہے۔ قتادہ ؒکہتے ہیں: وہ فقرا مراد ہیں جنہوںنے اپنے آپ کو اللہ کے راستہ میں جہاد میں روک رکھا ہے، (یعنی مشغول کر رکھا ہے) تجارت وغیرہ نہیں کرسکتے۔ (دُرِّمنثور) امام غزالی ؒ  فرماتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو سوال میں نہیں لپٹتے۔ ان کے دل اپنے یقین کی وجہ سے غنی ہیں۔ مجاہدئہ نفس پر غالب ہیں۔ ایسے لوگوں کو خاص طور سے تلاش کرکے دیا جائے اور دین داروں کے اندرونی اَحوال کی خاص طور سے جستجو کی جائے کہ ان کے گزران کی کیا صورت ہے کہ ان پر خرچ کرنے کا ثواب بھیک مانگنے والوں پر خرچ سے کہیں زیادہ ہے، لیکن ایسے لوگوں کی جستجو بھی مشکل ہے کہ یہ اپنا حال دوسروں پر کم ظاہر کرتے ہیں اور اسی وجہ سے لوگ ان کو غنی سمجھتے ہیں۔

ہ :
یہ کہ آدمی عیال دار ہو یا کسی بیماری میں مبتلا ہو یا کسی اور ایسے سبب میں گرفتار ہو کہ کما نہیں سکتا تو وہ بھی قرآن پاک کی آیتِ بالا {اُحْصِرُوْا  فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ} میں داخل ہے کہ وہ بھی گھرا ہوا ہے خواہ اپنے فقر میںگھراہوا ہو یا معاش کی تنگی میں گھرا ہوا ہو یا اپنی اِصلاحِ قلب کے مشغلہ میںگھرا ہوا ہو کہ یہ لوگ اپنی ان مجبوریوں کی و جہ سے بقدر ِضرورت کمانے پرقادر نہیںہیں۔ اسی وجہ سے حضرت عمرؓ بعض گھر والوں کو دس دس بکریاں یا اس سے بھی زائد دیتے تھے۔ اور حضورﷺ کے پاس جب فے کا مال آتا تو بیوی والے کو دوہرا حصہ دیتے اور مجرد آدمی کو اکہرا حصہ مرحمت فرماتے۔ فے کا مال وہ ما ل کہلاتا ہے جو کفار سے بغیر لڑائی کے حاصل ہوا ہو۔

و:
یہ کہ رشتہ دار ہو کہ اس میںصدقہ کا ثواب علیحدہ ہے اور صلۂ رحمی کا علیحدہ ہے۔ تیسری فصل کی احادیث میں نمبر (۶) پریہ مضمون گزر چکا ہے۔ ان چھ اوصاف کو ذکر کرنے کے بعدامام غزالی ؒ  فرماتے ہیں کہ یہ صفات اس شخص میں مطلوب ہیںجس پر خرچ کیا جائے اورہر صفت میں کمی بیشی کے اعتبار سے درجات کا بہت تفاوت ہے۔ یعنی مثلاً: تقویٰ کی اعلیٰ قسم اور ادنیٰ قسم میں زمین آسمان کافرق ہے۔ قرابت ایک بہت قریب کی ہے اور ایک بہت دور کی۔ اسی طرح دوسرے اوصاف بھی ہیں۔ لہٰذا ہر صفت میںاعلیٰ درجہ کی تلاش اہم ہے، اور کسی شخص میں یہ ساری ہی صفات موجود ہوں تو وہ شخص بڑی غنیمت چیز ہے اور بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ اس پر اپنی کوئی چیز خرچ ہو جانے میں بڑی کوشش کرنی چاہیے، اور ان اوصاف کے ساتھ متصف ہونے والے کی کوشش اور تلاش کرنا چاہیے۔ اگر اپنی کوشش کے بعدحقیقت میںایسا شخص مل گیا تب تو نورٌ علیٰ نور ہے او ر دوہرا اجر ہے۔ ایک کوشش کا، دوسرا حقیقی مصرف کا۔ اور اگر کوشش کے بعد اپنی تحقیق کے موافق تو ان اوصاف کے متصف ہی پر خرچ کیا تھا اور وہ درحقیقت ایسا نہ تھا، بلکہ اس کو معلومات میں غلطی ہوگئی، تب بھی اس کو اپنی کوشش کا ایک اجر تومل ہی گیا کہ اس ایک اجر میں بھی ایک تو اس کے نفس کا بخل سے پاک ہونا ہے، دوسرے اللہ تعالیٰ کی محبت کا اس کے دل میں زور سے جگہ پکڑنا ہے اور اس کی اطاعت میں اپنی کوشش کا ہونا ہے۔ اور یہ تینوں صفات ایسی ہیں جو اس کے دل کو قوی کرتی ہیں اور دل میںاللہ تعالیٰ کے ملنے کا شوق پیدا کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ منافع تو بہرحال حاصل ہیں اور اگر دوسرا اجر بھی حاصل ہوگیا، یعنی صحیح مصرف پر خرچ ہوگیا، تو اس میں اور مزید فوائد حاصل ہوں گے کہ لینے والے کی دعا اور توجہ اس کوشامل ہوگی کہ اللہ کے نیک بندوں کے دلوں کی بڑی تاثیرات اور برکات دنیا اور آخرت دونوںکے اعتبار سے حاصل ہوتی ہیں۔ ان کی توجہ اور دعا میں اللہ تعالیٰ شا نہٗ نے بڑی تاثیر رکھی ہے۔ (اِحیاء العلوم باختصار و زیادۃ)
(تمت بالخیر)


No comments:

Post a Comment