كِتٰبٌ أَنزَلنٰهُ إِلَيكَ مُبٰرَكٌ لِيَدَّبَّروا ءايٰتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُولُوا الأَلبٰبِ {38:29}
|
ایک کتاب ہے جو اتاری ہم نے تیری طرف برکت کی تا دھیان کریں لوگ اسکی باتیں اور تا سمجھیں عقل والے [۳۲]
|
یعنی جب نیک اور بد کا انجام ایک نہیں ہو سکتا تو ضرور تھا کہ کوئی کتاب ہدایت مآب حق تعالیٰ کی طرف سے آئے جو لوگوں کو خوب معقول طریقہ سے ان کے انجام پر آگاہ کر دے۔ چنانچہ اس وقت یہ کتاب آئی جس کو قرآن مبین کہتے ہیں۔ جس کے الفاظ، حروف، نقوش اور معانی و مضامین ہر چیز میں برکت ہے۔ اور جو اسی غرض سے اتاری گئ ہے کہ لوگ اس کی آیات میں غور کریں اور عقل رکھنے والے اسکی نصیحتوں سے منتفع ہوں چنانچہ اس آیت سے پہلے ہی آیت میں دیکھ لو کس قدر، صاف، فطری اور معقول طریقہ سے مسئلہ معاد کو حل کیا ہے کہ تھوڑی عقل والا بھی غور کرے تو صحیح نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔ (تنبیہ) شاید "تدبر" سے قوت علمیہ کی اور "تذکر" سے قوۃ عملیہ کی تکمیل کی طرف اشارہ ہو۔ یہ سب باتیں حضرت داؤدؑ کے تذکرہ کے ذیل میں آ گئ تھیں۔ آگے پھر ان کے قصہ کی تکمیل فرماتےہیں۔
|
یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
Wednesday, 10 June 2015
مقاصدِ نزولِ قرآنِ مجید
فضائل قرآن اور مقام قُراء
Sunday, 7 June 2015
وصیت اور تقسیمِ میراث کی اہمیت وفضیلت
ورثاء کی حق تلفی کا انجام»
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
(1)میراث اس کے حقدار تک پہنچادو۔
[صحیح بخاری:6732]
(2)جو شخص بھاگے گا وارث کو میراث دلانے سے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے جنت کی میراث نہ دے گا۔
[سنن ابن ماجہ:2703]
جو محروم کرے گا وارث کو اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصہ سے، تو محروم کرے گا اللہ اسے اس کے جنت کے حصہ سے۔
[سنن سعید بن منصور:285]
القرآن:
اور قریب بھی نہ جاؤ یتیم کے مال کے۔۔۔
[الانعام:152 الاسراء:34]
وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں
[النساء:10]