اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
اور نہیں ایمان لاتے بہت لوگ اللہ پر مگر ساتھ ہی شریک بھی کرتے ہیں۔
اور نہیں ایمان لاتے بہت لوگ اللہ پر مگر ساتھ ہی شریک بھی کرتے ہیں۔
[سورۃ یوسف:106]
تفسیر الدر المنثور(از امام سیوطیؒ 849ھ -911ھ)
۲:۔ سعید بن منصورؒ وابن جریرؒ وابن منذرؒ وابوالشیخؒ رحمہم اللہ نے عطاءؒ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ’’ وما یؤمن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون ‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ بلاشبہ ان کا رب ہے وہی ان کا خالق اور رازق ہے لیکن اس کے باوجود وہ شرک بھی کرتے ہیں ۔
۳:۔ ابن جریرؒ وابن منذرؒ وابن ابی حاتمؒ نے مجاہد رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ’’ وما یؤمن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون ‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ اس سے مراد ہے کہ ان کا یہ ایمان ہے کہ وہ یہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو پیدا فرمایا اور وہی ہم کو رزق دیتا ہے ۔ اور وہی ہم کو موت دے گا تو یہ ایمان ہے لیکن وہ غیر اللہ کی عبادت کے ساتھ شرک بھی کرتے ہیں۔
۴:۔ ابن جریرؒ وابن منذرؒ نے ضحاک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ’’ وما یؤمن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون ‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ وہ اپنے تلبیہ میں شرک کرتے ہوئے کہتے تھے ۔
لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک الا شریکا ھو لک تملکہ وملک :
ترجمہ : اے اللہ میں حاضر ہو، حاضر ہوں ساتھ کوئی شریک نہیں وہ شریک جس کو تو نے شریک بنایا تو اس کا بھی مالک ہے اور جس کا وہ مالک ہے تو اس کا بھی مالک ہے ۔
۵:۔ ابوالشیخ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت حسنؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے (آیت) ’’ وما یؤمن اکثرھم باللہ الا وھم مشرکون ‘‘ کے بارے میں فرمایا کہ وہ منافق ہے جو ریاکاری سے عمل کرتا ہے اور شرک ہے اپنے عمل کی وجہ سے ۔
تفسیر امام ابن کثیر(701ھ - 774ھ)
بلکہ ان میں سے اکثریت کی ذہنیت تو یہاں تک بگڑ چکی ہے کہ اللہ پر ایمان ہے پھر شرک سے دست برداری نہیں ۔ آسمان و زمین پہاڑ اور درخت کا انسان اور دن کا خالق اللہ مانتے ہیں ۔ لیکن پھر بھی اس کے سوا دوسروں کو اس کے ساتھ اس کا شریک ٹھراتے ہیں ۔ یہ مشرکین حج کو آتے ہیں ، احرام باندھ کر لبیک پکارتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تیرا کوئی شریک ہیں ، جو بھی شریک ہیں ، ان کا خود کا مالک بھی تو ہے اور ان کی ملکیت کا مالک بھی تو ہی ہے ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ جب وہ اتنا کہتے ہیں کہ ہم حاضر ہیں الہٰی تیرا کوئی شریک نہیں تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے بس بس ، یعنی اب آگے کچھ نہ کہو ۔ فی الواقع شرک ظلم عظیم ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے کی بھی عبادت ۔ بخاری ومسلم میں ہے ابن مسعود (رض) نے رسالت پناہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا کہ تیرا اللہ کے ساتھ شریک ٹھرانا حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے ۔ اسی طرح اسی آیت کے تحت میں منافقین بھی داخل ہیں ۔ ان کے عمل اخلاص والے نہیں ہوتے بلکہ وہ ریا کار ہوتے ہیں اور ریا کاری بھی شرک ہے ۔ قرآن کا فرمان ہے آیت ( اِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَھُوَ خَادِعُھُمْ ۚ وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰى ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا ١٤٢ۡۙ) 4- النسآء :142) ، منافق اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ اللہ کی طرف سے خود دھوکے میں ہیں ۔ یہ نماز کو بڑے ہی سست ہو کر کھڑے ہوتے ہیں ، صرف لوگوں کو دکھانا مقصود ہوتا ہے ذکر اللہ تو برائے نام ہوتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ بعض شرک بہت ہلکے اور پوشیدہ ہوتے ہیں خود کرنے والے کو بھی پتہ نہیں چلتا ۔ چنانچہ حضرت حذیفہ (رض) ایک بیمار کے پاس گئے ، اس کے بازو پر ایک دھاگا بندھا ہوا دیکھ کر آپ نے اسے توڑ دیا اور یہی آیت پڑھی کہ ایماندار ہوتے ہوئے بھی مشرک بنتے ہو ؟ حدیث شریف میں ہے اللہ کے سوا دوسرے کے نام کی جس نے قسم کھائی وہ مشرک ہو گیا ۔ ملاحظہ ہو ترمذی شریف ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ جھاڑ پھونک ڈورے دھاگے اور جھوٹے تعویذ شرک ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو توکل کے باعث سب سختیوں سے دور کر دیتا ہے ۔ ( ابو داؤد وغیرہ ) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی بیوی صاحبہ فرماتی ہیں کہ حضرت عبداللہ کی عادت تھی ، جب کبھی باہر سے آتے زور سے کھنکھارتے ، تھوکتے کہ گھر والے سمجھ جائیں اور آپ انہیں کسی ایس حالت میں نہ دیکھ پائیں کہ برا لگے ۔ ایک دن اسی طرح آپ آئے اس وقت میرے پاس ایک بڑھیا تھی جو بوجہ بیماری کے مجھ پر دم جھاڑ کرنے کو آئی تھی میں نے آپ کی کھنکھار کی آواز سنتے ہی اسے چار پائی تلے چھپا دیا آپ آئے میرے پاس میری چار پائی پر بیٹھ گئے اور میرے گلے میں دھاگا دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا اس میں دم کرا کے میں نے باندھ لیا ہے . آپ نے اسے پکڑ کر توڑ دیا اور فرمایا عبداللہ کا گھر شرک سے بےنیاز ہے ۔ خود میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ جھاڑ پھونک تعویدات اور ڈورے دھاگے شرک ہیں ۔ میں نے کہا یہ آپ کیسے فرماتے ہیں میری آنکھ دکھ رہی تھی ، میں فلاں یہودی کے پاس جایا کرتی تھی ، وہ دم جھارا کر دیتا تھا تو سکون ہو جاتا تھا ، آپ نے فرمایا تیری آنکھ میں شیطان چوکا مارا کرتا تھا اور اس کی پھونک سے وہ رک جاتا تھا تجھے یہ کافی تھا کہ وہ کہتی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھایا ہے دعا (اذھب الباس رب الناس اشف وانت الشاف لا شفاء الا شفاوک شفاء لا یغدر سقما) ( مسند احمد) مسند احمد کی اور حدیث میں عیسیٰ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن حکیم بیمار پڑے ۔ ہم ان کی عیادت کے لئے گئے ، ان سے کہا گیا کہ آپ کوئی ڈورا دھاگا لٹکا لیں تو اچھا ہو آپ نے فرمایا میں ڈورا دھاگا لٹکاؤں ؟ حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے جو شخص جو چیز لٹکائے وہ اسی کے حوالہ کردیا جاتا ہے ۔ مسند میں ہے جو شخص کوئی ڈورا دھاگا لٹکائے اس نے شرک کیا ۔ ایک روایت میں ہے جو شخص ایسی کوئی چیز لٹکائے ، اللہ اس کا کام پورا نہ کرے اور جو شخص اسے لٹکائے اللہ اسے لٹکا ہوا ہی رکھے . ایک حدیث قدسی میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں تمام شریکوں سے زیادہ بےنیاز اور بےپرواہ ہوں جو شخص اپنے کسی کام میں میرا کوئی شریک ٹھرائے میں اسے اور اس کے شریک کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ ( مسلم ) مسنند میں ہے قیامت کے دن جب کہ اول آخر سب جمع ہوں گے ، اللہ کی طرف سے ایک منادی ندا کرے گا کہ جس نے اپنے عمل میں شرک کیا ہے ، وہ اس کا ثواب اپنے شریک سے طلب کر لے ، اللہ تعالیٰ تمام شرکاء سے بڑھ کر شرک سے بےنیاز ہے ۔ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں مجھے تم پر سب سے زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے ، لوگوں نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ فرمایا ریا کاری ، قیامت کے دن لوگوں کو جزائے اعمال دی جائے گی ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے ریا کرو تم جاؤ اور جن کے دکھانے سنانے کے لئے تم نے عمل کئے تھے ، انہیں سے اپنا اجر طلب کرو اور دیکھو کہ وہ دیتے ہیں یا نہیں ؟ مسند میں ہے آپ فرماتے ہیں جو شخص کوئی بد شگونی لے کر اپنے کام سے لوٹ جائے وہ مشرک ہو گیا ۔ صحابہ (علیہ السلام) نے دریافت کیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پھر اس کا کفارہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہنا دعا (اللہم لا خیر الا خیرک ولا طیر الا طیرک ولا الہ غیرک) یعنی اے اللہ سب بھلائیاں سب نیک شگون تیرے ہی ہاتھ میں ہیں ، تیرے سوا کوئی بھلائیوں اور نیک شگونیوں والا نہیں ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ لوگو شرک سے بچو وہ تو چیونٹی کی چال سے زیادہ پوشیدہ چیز ہے ، اس پر حضرت عبداللہ بن حرب اور حضرت قیس بن مصابب کھڑے ہو گئے اور کہا یا تو آپ اس کی دلیل پیش کیجئے یا ہم جائیں اور حضرت عمر (رض) سے آپ کی شکایت کریں ۔ آپ نے فرمایا لو دلیل لو ۔ ہمیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن خطبہ سنایا اور فرمایا لوگو ! شرک سے بچو وہ تو چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے پس کسی نے آپ سے پوچھا کہ پھر اس سے بچاؤ کیسے ہوسکتا ہے ؟ فرمایا یہ دعا پڑھا کرو
دعا (اللہم انا نعوذ بک ان نشرک بک شیئا تعلمہ ونستغفرک مما لا نعلم)
ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سوال کرنے والے حضرت ابو بکر صدیق (رض) تھے ۔ آپ نے پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ شرک تو یہی ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے کو پکارا جائے ۔ اس حدیث میں دعا کے الفاظ یہ ہیں آیت (اللہم انی اعوذ بک ان اشرک بک وانا اعلم واستغفرک مما لا اعلم ( مسند ابو یعلی ) ابو داؤد وغیرہ میں ہے کہ حضرت صدیق اکبر (رض) نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیے جسے میں صبح شام اور سوتے وقت پڑھا کروں تو آپ نے فرمایا یہ دعا پڑھ
دعا (اللہم فاطر السموت والارض عالم الغیب الشہادۃ رب کل شئی وملیکہ اشہد ان لا الہ الا انت اعوذ بک من شر نفسی ومن شر الشیطان وشر کہ )
ایک روایت میں ہے کہ مجھے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا پڑھنی سکھائی اس کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں دعا (وان اقترف علی نفسی سوا او اجرہ الی مسلم ۔ )
فرمان ہے کہ کیا ان مشرکوں کو اس بات کا خوف نہیں ہے کہ اگر اللہ کو منظور ہو تو چاروں طرف سے عذاب الہٰی انہیں اس طرح آ گھیرے کہ انہیں پتہ بھی نہ چلے ۔ جیسے ارشاد ہے آیت ( اَفَاَمِنَ الَّذِيْنَ مَكَرُوا السَّيِّاٰتِ اَنْ يَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ يَاْتِيَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُوْنَ 45ۙ) 16- النحل :45) یعنی مکاریاں اور برائیاں کرنے والے کیا اس بات سے نڈر ہو گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے یا ایسی جگہ سے عذاب لا دے کہ انہیں شعور بھی نہ ہو یا انہیں لیٹتے بیٹھتے ہی پکڑ لے یا ہوشیار کر کے تھام لے ۔ اللہ کسی بات میں عاجز نہیں ، یہ تو صرف اس کی رحمت و رافت ہے کہ گنا کریں اور پھلیں پھولیں ۔ فرمان اللہ ہے کہ بستیوں کے گنہگار اس بات سے بےخطرے ہو گئے ہیں کہ ان کے پاس راتوں کو ان کے سوتے ہوئے ہی عذاب آ جائیں یا دن دھاڑے بلکہ ہنستے کھیلتے ہوئے عذاب آ دھمکیں اللہ کے مکر سے بےخوف نہ ہونا چاہئے ایسے لوگ سخت نقصان اٹھاتے ہیں ۔
تفسیر امام قرطبیؒ (600ھ - 671ھ)
میں (قرطبی) نے کہا : اس قسم کی باتیں تو اکثر وام مسلمانوں سے بھی سرزد ہوجاتی ہے ۔ ولاحول ولاقوۃ الاباللہ العلی العظیم ۔ ایک قول کے مطابق یہ آیت واقعہ دخان کے متعلق نازل ہوئی ہے ۔ وہ واقعہ یوں ہے کہ قحط کے سالوں میں اہل مکہ کو دھویں نے ڈھانپ لیا تو انھوں نے کہا : ربنا اکشف عنا العذاب انا مؤمنون ۔ (الدخان) اے ہمارے پروردگار ! ہم سے عذاب کو دور فرماہم ایمان دار ہیں تو یہ ان کا ایمان تھا اور عذاب کے چھٹ جانے کے بعد ان کا شرک ، کفر کی طرف لوٹ گیا اس کا بیان اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے انکم عآبدون ۔ (الدخان) تم لوٹ کرجانے والے ہو ۔ لوٹ کر جانا ابتدا کے بعد ہی ہوتا ہے ۔ تو الا وھم مشرکون کا معنی ہوگا : الاوھم عائدون ۔ واللہ اعلم ۔
قولہ تعالیٰ : افامنوٓا ان تاتیھم غاشیۃ من عذاب اللہ ، غاشیۃ کا معنی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجللۃ کیا ہے یعنی ڈھانپا ہوا ۔ مجاہد نے کہا : اس سے مراد ایسا عذاب ہے کو ان کو ڈھانپ لیتا ہو ، اس کی مثال اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے : یوم یغشھم العذاب من فوقھم ومن ارجلھم (العنکبوت :55) جس دن ان کو ڈھانپ لے گا عذاب ان کے اوپر سے اور ان کے پاؤں کے نیچے سے ۔ قتادہ نے کہا : اس سے مراد وہ لڑائی ہے جو ان کے لیے بپا ہوگی ۔ ضحاک نے کہا : اس سے مراد کڑک اور پھڑ پھڑانے والی ہے ۔ اوتاتیھم الساعۃ یعنی قیامت بغتۃً حال ہونے کی وجہ سے منصوب ہے ، اس کی اصل مصدر ہے ۔ مبرد نے کہا : عربوں سے نکرہ کے بعد حال کے جملے آئے ہیں جیسا کہ ان کا یہ قول : وقع امرھم بغتۃ وفجأۃ نحاس نے کہا : بغتۃ کا معنی مصیبت کا ایسی جگہ سے آنا ہے جہاں سے توقع نہ ہو ۔ وھم لایشرون یہ تاکید ہے بغتۃ کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ چیخنے والی لوگوں پر چیخے گی اس حال میں کہ وہ اپنے بازاروں اور اپنے مقامات پر ہوں گے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا تاخذھم وھم یخصمون ۔ (یٰسین ) وہ ان کو پکڑے گی در آنحالیکہ کردہ جھگڑرہے ہوں گے ۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْعَسْقَلَانِيُّ ، عَنْ أَبِي جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ رُكَانَةَ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّ رُكَانَةَ صَارَعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَرَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ رُكَانَةُ : وَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " فَرْقُ مَا بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ الْعَمَائِمُ عَلَى الْقَلَانِسِ " .
[سنن أبي داود » كِتَاب اللِّبَاسِ » بَاب فِي الْعَمَائِمِ ... رقم الحديث: 3558(4078)]
[سنن أبي داود » كِتَاب اللِّبَاسِ » بَاب فِي الْعَمَائِمِ ... رقم الحديث: 3558(4078)]
قتیبہ بن سعید، محمد بن ربیعہ، ابوحسن، ابوجعفر بن محمد بن علی بن رکانہ کہتے ہیں کہ حضرت رکانہؓ نے حضور ﷺ سے مقابلہ کیا پچھاڑنے کا ۔ تو حضور ﷺ نے حضرت رکانہؓ کو پچھاڑ دیا۔ حضرت رکانہؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارے اوپر مشرکین کے درمیان فرق ٹوپیوں پر عمامہ کا ہے، وہ ٹوپی پر عمامہ نہیں پہنتے جبکہ ہم پہنتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ عمامہ بغیر ٹوپی کے نہیں پہننا چاہیے۔
[أخرجه أبو داود:4078 ، والترمذى:1784 وقال: حسن غريب وإسناده ليس بالقائم. والطبرانى:4614 . وأخرجه أيضًا: ابن سعد (1/374) ، والبخارى فى التاريخ الكبير (1/82) وقال: إسناده مجهول لا يعرف سماع بعضه من بعض. والحاكم :5903 ، والبيهقى فى شعب الإيمان:6258 ، وعزاه الحافظ فى الإصابة (6/336، ترجمة 8524 محمد بن ركانة) لابن شاهين من طريق البغوى وقال قال ابن منده: ذكره البغوى فى الصحابة وهو تابعى.]
Narrated Ali ibn Rukanah:
Ali quoting his father said: Rukanah wrestled with the Prophet (peace_be_upon_him) and the Prophet (peace_be_upon_him) threw him on the ground. Rukanah said: I heard the Prophet (peace_be_upon_him) say: The difference between us and the polytheists is that we wear turbans over caps.
No comments:
Post a Comment