Wednesday 9 November 2022

اقبال کی شخصیت کے تخلیقی عناصر ۔۔۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

اقبال پر جتنا علمی، تحقیقی اور تخلیقی کام  ہوا۔ اتنا  شاید ہی کسی اور شاعر اور ادیب پر ہوا ہو۔

اقبال کی شخصیت کے تخلیقی عناصر
سیّد ابو الحسن علی ندوی
ماخوذ: مطالعۂ اقبال کے سو سال
مرتبہ: رفیع الدین ہاشمی، سہیل عمر، وحید اختر عشرت

اقبال کی شخصیت کے وہ تخلیقی عناصر جس نے اقبال میں ایک مخصوص قسم کی گونا گونی رنگا رنگی پیدا کی، اور جنھوں نے اقبال کو اس کے ہم عصروں سے زیادہ دل آویز، باعث کشش اور جاذب نظر بنا دیا چند ایسے عناصر ہیں جن کا تعلق اقبال کی علمی و ادبی اور تعلیمی کوششوں سے بہت ہی کم ہے، اقبال کی شخصیت میں جو جامعیت ، بلندی فکر و خیال، سوز، درد کشش اور جاذبیت نظر آتی ہے، ان کا تعلق اقبال کی زندگی کے اس رخ سے ہے ، جسے ہم یقین و ایمان کہتے ہیں۔ دراصل اقبال کی شخصیت کے بنانے ، سنوارنے اور پروان چڑھانے میں عصر حاضر کے صرف ان تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کا ہاتھ نہیں ہے، جن میں اقبال نے داخل ہو کر علومِ عصر یہ اور مغربی تعلیم حاصل کی اگرچہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اقبال علومِ جدیدہ اور مغربی تعلیم کا حصول ہندوستان ، انگلستان اور جرمنی میں ماہر اساتذہ سے کرتے رہے، اور وہاں کے علم و فن کے چشموں سے سیراب ہوتے رہے، یہاں تک کہ وہ عالمِ اسلامی میں مغربی علوم و افکار اور تہذیب و تمدن کے ماہرین میں منفرد شخصیت کے مالک ہو گئے، مغربی فلسفہ و اجتماع ، اخلاق اور سیاست و معیشت میں یورپ کے ایک متنحصص کی حیثیت حاصل کی ، اور علومِ جدید و قدیم میں بڑی گہری نگاہ حاصل کی ، لیکن اگر اقبال اس مقام پر پہنچ کر ٹھہر جاتے اور موجودہ تعلیمی اداروں کے پھلوں سے استفادہ کے بعد مطمئن ہو کر صرف اس حلاوت و مزہ سے لطف اندوز ہوتے رہتے تو پھر آج وہ ہمارا موضوعِ گفتگو نہیں بن سکتے تھے، اور نہ ادبِ اسلامی اور تاریخ ادب اسلامی ان کے شعر و ادب کے نغموں سے گونجتی رہتیں ، اور نہ علمی صدارت فکری زعامت اور اسلامی ذہن ان کے لیے اپنا دامن وسیع کرتا، اور نہ انھیں اس بلند مقام پر بٹھا کر فخر محسوس کرتا، اس کے لیے بڑی باریک اور بلند شرطیں ہیں ، کوئی شخص محض درس و تدریس علوم میں تنّوع اور کثرت تالیف و تصنیف کی وجہ سے اس مقام بلند تک نہیں پہنچ سکتا ، بلکہ اقبال اگر ان تعلیمی اداروں سے استفادہ کے بعد مطمئن ہو جاتے اور انھیں علوم و فنون کی علمی موشگافیوں میں اپنی دلچسپیوں کو محدود رکھتے تو زیادہ سے زیادہ فلسفہ ، معاشیات ، ادب اور تاریخ میں ایک ماہر استاد اور پروفیسر کی جگہ پاتے یا ایک بڑے پایہ کے مصنف علومِ عصریہ کے ماہر فن، صاحب اسلوب ادیب یا ایک اچھے شاعر ہوتے ، اور بس !یا پھر ایک کامیاب بیرسٹر، ایک اچھے جج یا حکومت کے ایک اچھے وزیر بنائے جاتے، لیکن آپ یقین کیجئے اگر اقبال ان میں سے کچھ بھی ہوتے تو زمانہ انھیں ویسے ہی بھلا دیتا جس طرح دنیا کے بڑے بڑے علما ، ادبا شعرا مصنفین، اور حکومتوں کے وزرا کو آج زمانے نے گوشہ عزلت و گمنامی میں ڈال رکھا ہے، اور آج کوئی نہیں جانتا کہ وہ کون تھے’ اور کیا تھے لیکن اقبال کی ذہانت و عبقریت ،ان کا زندہ جاوید پیغام اور ان کی ذہنوں اور دلوں کی تسخیر کرنے کی طاقت و کشش……ان تمام فضائل اور بلندیوں کا سبب ان دنیاوی تعلیمی اداروں سے جدا ، ایک دوسرا تعلیمی ادارہ ہے جس میں کہ اقبال نے تعلیم و تربیت حاصل کی بڑھے اور پروان چڑھے۔ میرا خیال ہے کہ آپ میں سے اکثر کا ذہن اس مخصوص ’’ادارہ‘‘ کی تلاش و جستجو میں پریشان ہو گا، اور آپ اس کے جاننے کے لیے بے چین ہوں گے کہ آخر وہ کون سا ادارہ ہے، جس نے اس ’’عظیم شاعر ‘‘کو پیدا کیا؟ اور وہ کون سے علوم ہیں جو اس میں پڑھائے جاتے ہیں ؟ کس زبان میں وہاں تعلیم ہوتی ہے ؟اور کیسے معلم وہاں تعلیم دیتے ہیں ’ بلاشبہ اس میں اعلیٰ درجے کے نگراں اور مربی ہونگے، جو ایسی ہی عظیم شخصیتیں پیدا کرتے ہیں ، (جیسے کہ اقبال تھے)مجھے یقین ہے کہ اگر آپ اس کے وجود اور محل و مقام سے واقف ہو جائیں تو پھر ضرور اس میں داخلہ کی کوشش کریں گے، اور اپنی تعلیم وتربیت کے لیے اپنے آپ کو اس بے نظیر و بے مثال ادارہ کے سپرد کر دیں گے۔ وہ ایک ایسا ’’ادارہ‘‘ ہے کہ جس نے اس میں تعلیم و تربیت حاصل کی ، اس کی ناکامی کا کوئی سوال نہیں ، جو وہاں سے نکلا وہ ضائع نہیں ہو سکتا ،وہ ایک ایسا ادارہ ہے کہ جہاں سے صرف ائمۂ فن، مجتہدین فکر، واضعین علوم، قائدین فکرو اصلاح،اور مجددین امت ہی پیدا ہوتے ہیں ، وہ جو کچھ لکھتے ہیں ، اس کے سمجھنے میں عام مدارس و یونیورسٹیوں کے طلبا و اساتذہ مشغول رہتے ہیں ، ان کی لکھی ہوئی چیزیں درس کے طور پر پڑھی پڑھائی جاتی ہیں ، ان کی تصنیفوں کی شرحیں لکھی جاتی ہیں ، ان کے اجمال کی تفصیل کی جاتی ہے، ان کے ثابت شدہ نظریات کی تائید و تشریح ہوتی ہے ان کے ایک ایک لفظ پر کتابیں لکھی جاتی ہیں :اور ان کی ایک ایک کتاب سے پورا پورا کتاب خانہ تیار ہو جاتا ہے، وہ ایک ایسا ادارہ ہے جہا ں تاریخ پڑھائی نہیں جاتی بلکہ تاریخ بنائی جاتی ہے ، وہاں افکار نظریات کی تشریح و توضیح نہیں ہوتی ، بلکہ افکار و نظریات وضع کئے جاتے ہیں ، آثار و نشانات کے کھوج نہیں لگائے جاتے بلکہ وہاں سے آثار و نشانات پیدا ہوتے ہیں ، یہ ادارہ اور مدرسہ ہر جگہ اور ہر زمانے میں پایا جاتا ہے، یہ دراصل ایک داخلی مدرسہ ہے ، جو ہر انسان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور ہر انسان اسے اٹھائے ہر مقام پر لیے پھرتا ہے وہ دل کا مدرسہ اور ضمیر و وجدان کا دبستان ہے، وہ ایک ایسا مدرسہ ہے جہاں روحانی پرداخت اور الٰہی تربیت ہوتی ہے۔ اقبال نے اس ادارہ سے اسی طرح تکمیل کی جس طرح دوسرے بہت سے وہبی انسان اس عظیم ادارہ سے تعلیم و تربیت کے بعد نکلے، اقبال کی سیرت و شخصیت اس کا علم و فضل اور اخلاق ، یہ سب کا سب مرہونِ منت ہے، اِس قلبی دبستان کا جس میں کہ اقبال نے برسوں زانوئے تلمذ تہہ کیا ہے، اقبال کے کلام کا مطالعہ اس حقیقت کی اچھی نشاندہی کرتا ہے کہ خارجی مدرسہ کی بہ نسبت داخلی مدرسہ نے اس کی زندگی میں ایک دردو سوز، تب و تاب اور ایک نئی قوت و توانائی بخشی ، اگر وہ اپنے داخلی مدرسے میں تعلیم و تربیت حاصل نہ کرتا تو پھر نہ اُس کی یہ جاذب نظر شخصیت ہی ظاہر ہوتی ، اور نہ اس کا شعور و وجدان اس قدر شعلہ جانسوز نظر آتا، اور نہ اس کا آتشیں پیام قلب و نظر کے لیے سوزِ جاوداں ثابت ہوتا اقبال کے کلام میں اس ادارہ کے اساتذہ و معلمین اور مربین کا ذکر و اعتراف بہت ہی کثرت سے ملتا ہے وہ تخلیقی عناصر جنھوں نے اقبال کی شخصیت کو بنایا، بڑھایا اور پروان چڑھایا وہ دراصل اقبال کو اپنے داخلی مدرسہ میں حاصل ہوئے، یہ پانچ تخلیقی عناصر ہیں جنھوں نے اقبال کی شخصیت کو ’’زندۂ جاوید‘‘ بنا دیا۔ ان میں سے پہلا عنصر جو اقبال کو اپنے داخلی مدرسہ میں داخلہ کے بعد اول ہی دن حاصل ہوا وہ اس کا ’’ایمان و یقین ‘‘ ہے ،یہی یقین اقبال کا سب سے پہلا مربی اور مرشد ہے ، اور یہی اس کی طاقت و قوت اور حکمت و فراست کا منبع اور سرچشمہ ہے، لیکن اقبال کا وہ یقین و ایمان اس خشک جامد ایمان کی طرح نہیں ، جو بے جان تصدیق یا محض جامد عقیدہ ہے، بلکہ اقبال کا’’ یقین‘‘ عقیدہ و محبت کا ایک ایسا حسین امتزاج ہے جو اس کے قلب و وجدان، اس کی عقل وفکر ، اس کے ارادہ و تصرف اُس کی دوستی و دشمنی غرضکہ اس کی ساری زندگی پرچھایا ہوا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اقبال اسلام اور اس کے پیغام کے بارے میں نہایت راسخ الایمان تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ان کی محبت ، شغف اور ان کا اخلاص انتہا درجہ کا تھا، اس لیے ان کے نزدیک اسلام ہی ایک ایسا زندہ جاوید دین ہے کہ اس کے بغیر انسانیت فلاح و سعادت کے بامِ عروج تک پہنچ ہی نہیں سکتی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم رشد و ہدایت کے آخری مینار ،نبوت و رسالت کے خاتم اور مولائے کل ہیں :۔ وہ دانائے سبل ، ختم الرسل ،مولائے کل جس نے غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا اس دورِ مادیت اور مغربی تہذیب و تمدن کی ظاہری چمک و دمک سے اقبال کی آنکھیں خیرہ نہ ہو سکیں ، حالانکہ اقبال نے جلوہ دانش فرنگ میں زندگی کے طویل ایام گذارے اس کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اقبال کی وہی والہانہ محبت ، جذبہ عشق اور روحانی وابستگی تھی، اور بلاشبہ ایک حْبِّ صادق اور عشقِ حقیقی ہی قلب و نظر کے لیے ایک اچھا محافظ اور پاسبان بن سکتا ہے: خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانشِ فرنگ سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثلِ خلیلؐ رہے ہیں ،اور ہیں ،فرعون میری گھات میں اب تک مگر کیا غم کہ میری آستیں میں ہے ید بیضا عجب کیا گر مہ و پر ویں مرے نخچیر ہو جائیں کہ بر فتراک صاحب دولتے بستم سرِ خود را علامہ اقبال نے اپنی کتاب اسرار خودی میں ملتِ اسلامیہ کی زندگی کی بنیادوں اور ان ستونوں کے ذکر کے سلسلہ میں جس پر حیات ملتِ اسلامیہ موقوف ہے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ اپنے روحانی تعلق ، دائمی وابستگی اور اپنی فداکارانہ مُحبّت کا بھی ذکر کیا ہے ، جب وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کا شعری وجدان جوش مارنے لگتا ہے، اور نعتیہ اشعار ابلنے لگتے ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے ، جیسے محبت و عقیدت کے چشمے پھُوٹ پڑے ہیں ، اس سلسلہ میں چندا شعار پیشِ خدمت ہیں۔ جِن سے اقبال کے مُحبّت بھرے جذبات کا قدرے اندازہ ہو گا: درِ دل مسلم مقام مصطفیٰ است آبروئے ما ز نام مصطفیٰ است بوریا ممنون خوابِ راحتش تاج کسریٰ زیر پائے امّتش درشبستانِ حرِا خلوت گزید قوم و آئین وحکومت آفرید ماند شبہا چشمِ او محرومِ نوم تابہ تخت خسروی خوابید قوم وقت ہیجاتیغ اور آہن گداز دیدۂ او اشکبار اندر نماز در دعائے نصرت آمیں تیغ اُو قاطع نسلِ سلاطیں تیغ او در جہاں آئین نو آغاز کرد مسندِ اقوام پیشییں درنورد از کلید دیں درِ دنیا کشاد ہمچو او بطن اُمِ گیتی نزاد درنگاہِ او یکے بالا و پست با غلام خویش بریک خوا نشست در مصافے پیش آں گردوں سریر دختر سر دار طے آمد اسیر پائے در زنجیر و ہم بے پردہ بود گردن ازشرم و حیا خم کردہ بود دخترک راچوں نبیؐ بے پردہ دید چادر خود پیش روے او کشید آں کہ براعدا درِ رحمت کشاد مکہ راپیغام لا تثریب داد ماکہ از قیدِ وطن بیگانہ ایم چوں نگہ نوردوچشیم ویکیم از حجاز وچین و ایرانیم ما شبنم یک صبح خندا نیم ما مست چشم ساقی بطحا ستیم در جہاں مثل مے ومینا ستیم امتیازاتِ نسب را پاک سو خت آتش اوایں خس وخاشاک سوخت شورِ عشقش درنیٔ خاموش من می تپد صد نغمہ در آغوشِ من من چہ گوئم ازتولائش کہ چسیت خشک چوبے در فراقِ او گریست ہستیِ مسلم تجلی گاہِ او طور ہا بالدفاصلہ زگرد راہِ اُو جوں جوں زندگی کے دن گذرتے گئے، اقبال کی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ والہانہ محبت و الفت بڑھتی ہی گئے ، یہاں تک کہ آخری عمر میں جب بھی ان کی مجلس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر آتا یا مدینہ منورہ کا تذکرہ ہوتا، تو اقبال بے قرار ہو جاتے ،آنکھیں پُر آب ہو جاتیں یہاں تک کہ آنسو رواں ہو جاتے ، یہی وہ گہری محبت تھی ، جو ان کی زبان سے الہامی شعروں کو جاری کر دیتی تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :۔ مکن رسوا حضور خواجہؐ مارا حساب من زچشم اونہاں گیر یہ شعر محبت و عقیدت کا کتنا اچھا مظہر ہے۔ دراصل علامہ اقبال کا یہی وہ ایمانِ کامل اور حبِّ صادق تھی، جس نے اقبال کے کلام میں یہ جوش، یہ ولولہ ، یہ سوز و گداز پیدا کر دیا، اگر آپ تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی، کہ دراصل رقت انگیز شعر، عمیق فکر ، روشن حکمت ، بلند معنویت ، نمایاں شجاعت، نادر شخصیت اور عبقریت Genius کا حقیقی منبع و سر چشمہ محبت و یقین ہی ہے، اور تاریخ عالم میں جو کچھ بھی انسانی کمالات یا دائمی آثار و نشانات نظر آتے ہیں ، وہ سب کے سب اسی محبت و یقین کے مرہونِ منت ہیں ، اگر کوئی شخصیت یقین کے جذبہ سے خالی ہو تو پھر وہ صرف گوشت و پوست کی صورت ہے اور اگر پوری امت اس سے خالی ہے ، تو پھر اس کی وقعت بکریوں اور بھیڑوں کے گلے سے زیادہ نہیں ، اور اس طرح اگر کسی کلام میں یقین و محبت کی روح کار فرما نہیں ہے تو پھر وہ ایک مقفیٰ اور موزوں کلام تو ہو سکتا ہے، لیکن ایک زندہ جاوید کلام نہیں بن سکتا اور جب کوئی کتاب اس روح سے خالی ہو تو اس کتاب کی حیثیت مجموعہ اوراق سے زیادہ نہیں ہو گی اور اسی طرح اگر کسی عبادت میں محبت و یقین کا جذبہ شامل نہیں ہے تو پھر وہ ایک بے روح ڈھانچہ ہے، غرضکہ پوری زندگی اگر محبت و یقین کے جذبہ سے خالی ہے تو پھر وہ زندگی زندگی نہیں ، بلکہ موت ہے ،اور پھر ایسی زندگی کیا ؟ جس میں طبیعتیں مردہ و افسردہ ہوں ، نظم و نثر کے سر چشمے خشک ہوں ، اور زندگی کے شعلے بجھ چکے ہوں ، ایسی حالت میں یقین کامل اور حُبِّ صادق ہی حیاتِ انسانی میں جلا پیدا کرتی ہے، اور انسانی زندگی نور و رنگ سے معمور ہو جاتی ہے، پھر شکستہ،پُر سوز و پُر درد روح نواز اور جاں بخش کلام سننے میں آتے ہیں ، خارقِ شجاعت و قوت دیکھنے میں آتی ہے، اور علم و ادب کے نقوش بھی زندہ جاوید بن جاتے ہیں ، یہاں تک کہ یہی محبت اگر پانی ، مٹی اور اینٹ پتھر میں داخل ہو جائے تو اس کو بھی زندہ جاوید بنا دیتی ہے، ہمارے سامنے اس کی روشن مثال مسجد قرطبہ، قصرِ زہرا اور تاج محل ہیں ، سچ تویہ ہے کہ محبت و یقین کے بغیر ادب و فن مردہ و افسردہ و نا تمام ہیں :۔ نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر بڑی غلط فہمی میں وہ لوگ مبتلا ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اہل علم حضرات اپنی قوتِ علم،کثرتِ معلومات اور ذکاوت و ذہانت کی وجہ سے ایک دوسرے سے سبقت لے جاتے ہیں یا ایک دوسرے پر فضلیت رکھتے ہیں ، اور اسی طرح شعرا کو ان کی فطری قوت شاعری،لفظوں کا حسن انتخاب ، معانی کی بلاغت ، انھیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتی ہے اور مصلحین وقت اور قائدین ملت کی بلندی و پستی موقوف ہے ان کی ذہانت کی تیزی ، خطابت کی بلندی، سیاسی سوجھ بوجھ اور حکمت عملی پر !حالانکہ ایسا نہیں ہے،حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی فضلیت و بلندی کا دارومدار محبت و اخلاص پر ہے،ان کی سچی محبت اور مقصد سے اخلاص کامل ہی ان کی عظمت و بزرگی کا سبب ہے، کہ اس کا مقصد و موضوع اور غرض و غایت اس کی روح میں سرایت کر جاتی ہے قلب میں جاگزیں ہو جاتی ہے،اور فکر و عمل پرچھا جاتی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی ذاتی خواہش مغلوب اور شخصیت تحلیل ہو جاتی ہے ، اب وہ جب کوئی بات کرتا ہے تو مقصد کی زبان سے کرتا ہے،جب کچھ لکھتا ہے، تو مقصد کے قلم سے لکھتا ہے، غرضکہ اس کے فکرو خیال ،دل و دماغ اور اس کی پوری زندگی پر اس کا مقصد چھا جاتا ہے۔ ایک عظیم گناہ جو اس جدید تمدن کا پیدا کردہ ہے وہ ہے مادہ پرستی اور پھر اس سے نفع پسندی ، جنسی محبت اور نفسانی خواہش!جو درحقیقت جدید عصری مادی تعلیم کا ثمرہ ہے، جس نے ہماری نئی نسلوں کو تباہ کر رکھا ہے، اور آج حال یہ ہے کہ ان کے قلوب ، ایمان کی حرارت ، حُبِّ صادق کی تپش اور یقین کے سوز سے خالی ہیں ، اور یہ عالم نو ایک ایسی متحرک شے بن کر رہ گیا ہے کہ جس میں نہ کوئی زندگی ہے، اور نہ کوئی روح نہ شعور و وجدان ہے، نہ مسرت و غم کا احساس !اس کی مثال اس جامد شے کی طرح ہے، جو کسی جابر و قاہر شخص کے دستِ تصرف میں ہو، وہ جس طرح چاہے اسے حرکت دے اور استعمال کرے۔ جب آپ اقبال کے کلام کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اقبال کا کلام ہمارے جانے پہچانے شعرا سے بہت کچھ مختلف ہے ، اقبال کا کلام ہمارے شعور و احساس قلب و وجدان اور اعصاب میں حرکت و حرارت ، سوز و گداز، درد و تپش پیدا کرتا ہے، اور پھر ایک ایسا شعلۂ جوالہ بن کر بھڑک اٹھتا ہے جس کی گرمی سے مادیت کی زنجیریں پگھل جاتی ہیں ، فاسد معاشرہ اور باطل قدروں کے ڈھیر ،جل کر فنا ہو جاتے ہیں ، جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کس قدر طاقت ور ایمان، پر درد و پر سوز سینہ اور بے چین روح رکھتا ہے ، قابل صد ستائش ہے وہ دوسرا مدرسہ جس نے اتنی اچھی تربیت کی اور ایسی قابل قدر شخصیت تیار کی۔ اقبال کی شخصیت کو بنانے والا دوسرا عنصر وہ ہے جو آج ہر مسلمان گھر میں موجود ہے،مگر افسوس کہ آج خود مسلمان اس کی روشنی سے محروم،اس کے علم و حکمت سے بے بہرہ ہیں ،میری مراد اس سے قرآن مجید ہے، اقبال کی زندگی پر یہ عظیم کتاب جس قدر …..اثر انداز ہوئی ہے ،اقبال کا ایمان چونکہ ’’نو مسلم‘‘ کا سا ہے، خاندانی وراثت کے طور پر انھیں نہیں ملا ہے اس لیے ان کے اندر نسلی مسلمانوں کے مقابلے میں قرآن سے شغف،اور شعورو احساس کے ساتھ مطالعہ کا ذوق بہت ہی مختلف رہا ہے ، جیسا کہ خود اقبال نے اپنے قرآن مجید پڑھنے کے سلسلے میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ ان کا یہ ہمیشہ کا دستور تھا کہ روزانہ بعد نماز صبح قرآنِ مجید کی تلاوت کیا کرتے تھے، اقبال کے والد جب انھیں دیکھتے تو فرماتے کیا کر رہے ہو؟ اقبال جواب دیتے ابا جان !آپ مجھ سے روزانہ پوچھتے ہیں ، اور میں ایک ہی جواب دیتا ہوں اور پھر آپ خاموش چلے جاتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ میں تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ تم قرآن اس طرح پڑھا کرو کہ جیسے قرآن اسی وقت تم پر نازل ہو رہا ہے، اس کے بعد سے اقبال نے قرآن برابر سمجھ کر پڑھنا شروع کیا اور اس طرح کہ گویا وہ واقعی ان پر نازل ہو رہا ہے، اپنے ایک شعر میں بھی وہ اس کا اظہار یوں فرماتے ہیں :۔ ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف علامہ اقبال نے اپنی پوری زندگی قرآن مجید میں غور و فکر اور تدبر و تفکر کرتے گذاری ، قرآن مجید پڑھتے ، قرآن سوچتے ، قرآن بولتے، قرآن مجید ان کی وہ محبوب کتاب تھی جس سے انھیں نئے نئے علوم کا انکشاف ہوتا ، اس سے انھیں ایک نیا یقین ، ایک نئی روشنی ، اور ایک نئی قوت و توانائی حاصل ہوتی ، جوں جوں ان کا مطالعہ قرآن بڑھتا گیا ، ان کے فکر میں بلندی اور ایمان میں زیادتی ہوتی گئی ، اس لیے کہ قرآن ہی ایک ایسی زندہ جاوید کتاب ہے جو انسان کو لَدُنی علم اور ابدی سعادت سے بہرہ ور کرتی ہے وہ ایک ایسی شاہ کلید ہے کہ حیات انسانی کے شعبوں میں سے جس شعبہ پر بھی اسے لگائیے ، فوراً کھل جائے گا، وہ زندگی کا ایک واضح دستور اور ظلمتوں میں روشنی کا مینار ہے۔ تیسرا عنصر جس کا اقبال کی شخصیت کی تعمیر میں بڑا دخل ہے، وہ عرفان نفس اور خودی ہے ، علامہ اقبال نے عرفانِ ذات پر بہت زور دیا ہے، انسانی شخصیت کی حقیقی تعمیر ان کے نزدیک منت کشِ خودی ہے جب تک عرفانِ ذات نہ حاصل ہو ،اس وقت تک زندگی میں سوز و مستی ہے ،اور نہ جذب و شوق !اس سلسلہ میں اقبال کے یہ شعر ان کے فکر کی پوری ترجمانی کرتے ہیں : اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا ،نہ بن ، اپنا تو بن من کی دنیا؟ من کی دنیا ، سوز و مستی جذب و شوق تن کی دنیا ؟ تن کی دنیا ، سود و سودا،مکر و فن من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں تن کی دولت چھاؤں ہے ،آتا ہے دھن جاتا ہے دھن من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات تو جھکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا ، نہ تن ان کے کلام میں معنوی بلندی کے ساتھ ساتھ ، لفظوں کی بندش ہم آہنگی ، اتار چڑھاؤ روانی و تسلسل ، اور موسیقیت اس قدر زیادہ ہے کہ بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے۔ علامہ اقبال کو خودی کی تربیت اور عرفانِ نفس پر بڑا اعتماد تھا ، ان کے نزدیک خود شناسی و خود آگاہی انسان کو اسرار شہنشہی سکھلاتے ہیں ، عطا رہوں یا رومی رازی ہوں یا غزالی ، بغیر عرفانِ نفس کے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوتا اسی عرفانِ نفس کا نتیجہ تھا کہ اقبال نے اس رزق پر موت کو ترجیح دی جس رزق سے پرواز میں کوتا ہی آتی ہو اور دارا و سکندر سے وہ مردِ فقیر اقبال کے خیال میں زیادہ بہتر ہے جس کی فقیری میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خُو بُو اور ان کا اسوہ ہو اور حق تو یہ ہے کہ عرفانِ نفس اور عرفانِ ذات ہی کے حصول کے بعد انسان جرات سے اس بات کا اظہار کر سکتا ہے کہ:۔ آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی اقبال کا تصور خودی خود اقبال میں اس قدر رچ بس گیا کہ ان کی زندگی عرفانِ نفس کا زندہ نمونہ تھی ، ان کی زندگی کے اوراق میں ان کی خودی ،خود داری ،خود اعتمادی کے نقوش بہت ابھرے ہوئے نظر آتے ہیں ، عرفانِ نفس ہی کے لیے دوسروں کو مخاطب کر کے وہ اپنے آپ کو کہتے ہیں۔ اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاج ملوک اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم دل کی آزادی شہنشاہی ، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم بلاشبہ اقبال نے شکم کے مقابلے میں دل کو ترجیح دی ، اور دل ہی کو اختیار کیا۔ یہ عرفانِ نفس ہی کا کرشمہ تھا جس نے اقبال کو ہر قسم کی فکری اور ادبی بے راہ روی سے محفوظ رکھا، حالانکہ یہی دونوں چیزیں ہمارے عام ادبا و شعرا اور مصنفین کو ہر چراگاہ میں منھ مار لینے ،ہر وادی میں بھٹکنے اور ہر موضوع پر لکھنے کے لیے آمادہ کرتی ہیں ، خواہ وہ ان کے عقیدہ و خیال کے موافق ہو یا نہ ہو جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک نہ اپنی شخصیت کو پہچانتے ہیں ، اور نہ اپنے پیغام سے واقف ہوتے ہیں ،لیکن اقبال نے اول ہی دن سے اپنی ذات اور شخصیت کو اچھی طرح پہچانا ،اپنی وہبی صلاحیتوں کا صحیح صحیح اندازہ کیا، اور پھر صلاحیتوں ،شعری قوتوں کو مسلمانوں کی زندگی کے ابھارنے ان میں روح و زندگی پیدا کرنے ،اور یقین و ایمان کی دبی ہوئی چنگاریوں کو بھڑکانے میں صرف کیا ، اور ان میں قوت و حریت اور سیادت و قیادت کا احساس دلایا ،اقبال ایک فطری اور وہبی شاعر تھے، اگر وہ شاعر نہ بننے کی کوشش کرتے تو کامیاب نہ ہوتے، شعر کہنے پر وہ مجبور تھے، اُن کی شاعری رستے ہوئے قلب،پر جوش و پر سوز دل، معانی کی معنویت اور الفاظ کی شوکت کی آئینہ دار تھی، وہ ایک قادر الکلام ماہر فن شاعر تھے ، ان کے ہمعصر شعراء نہ صرف یہ کہ ان کی امامت اور کلام میں اعجاز کے قائل تھے ، بلکہ زبان تراکیب معانی افکار جدتِ تشبیہ ہر چیز سے متاثر تھے ، ان کی شاعری کو عظیم بنانے میں انگریزی اور جرمن شعرو ادب اور فارسی شاعری کا بھی بڑا دخل ہے لیکن ان سب باتوں کے عرض کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اقبال کے ہمعصروں میں کوئی اچھا اور اونچا شاعر ہی نہ تھا، بلکہ اچھے سے اچھے اور اونچے اونچے ادیب و شاعر موجود تھے جو اپنے الفاظ کی فصاحت معنی کی بلاغت ، استعارہ و تشبیہ کی جدت میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے لیکن جو چیز کہ اقبال کو اپنے ہمعصروں سے ممتاز کر دیتی ہے وہ ہے ان کی شاعرانہ عظمت ،ادبی قوت ، فنی ذہانت جبلی عبقریت اور ان سب کے ساتھ ساتھ اسلام کا پیغام !اقبال نہ قومی شاعر تھے،اور نہ وطنی اور نہ عام رومانی شاعروں کی طرح ان کی شاعری بھی شراب و شاہد کی مرہون منت تھی، اور نہ ان کی شاعری نری حکمت و فلسفہ کی شاعری تھی، ان کے پاس اسلام کی دعوت اور قرآن کا پیغام تھا، جس طرح ہوا کے جھونکے پھولوں کی خوشبو پھیلاتے ہیں ،اور جس طرح اس زمانے میں برقی لہروں سے پیغامات کے پہچانے کا کام لیا جاتا ہے اسی طرح اقبال بھی اپنے اس پیغام کو شعر کی زبان میں کہتے تھے تاکہ ان کے پیغام کے لیے شعر ،برقی لہروں کا کام دے ،بلاشبہ اقبال کی شاعری نے خواب غفلت میں پڑی ہوئی قوم کو بیدار کر دیا اور ان کے دلوں میں ایمان و یقین کی چنگاری پیدا کر دی ، تو یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا کہ اقبال نے اپنے آپ کو پہچانا اپنی وہبی شخصیت و قوت کا صحیح اندازہ کیا، اور ان کو اصل مقام پر استعمال کیا۔








علامہ اقبال کا نظریہ شعر و ادب
علامہ اقبال کے نظریہ شعر کا جائزہ لینے سے قبل اس بنیادی اور اصولی بحث سے اعراض ممکن نہیں کہ آخر شعر وادب کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ یہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر کسی فنی شاہکار اور فن پارے کی عظمت کا تعین کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بحث اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان۔ ۱ ؂ انسان کی ابتدائی اور قدیم ترین زندگی میں، جسے پتھروں کا زمانہ کہا جاتا ہے، فن برائے فن کی جھلک نظر آتی ہے۔ ۲ ؂ فن میں مقصدیت کا عمل دخل بھی کوئی نیا اور جدید نہیں ہے۔ یہ اپنی قدامت کے لحاظ سے قدیم یونان سے تعلق رکھتا ہے۔ اس نے اٹھارویں صدی عیسوی میں ’’فن برائے فن‘‘ ۳؂ یا ’’فن برائے زندگی‘‘ کے نام سے جمالیاتی تنقید میں معرکہ آرا مسئلے کی صورت اختیار کر لی اور آج تک متنازع فیہ ہے۔ ۴؂ فن برائے فن کے داعیوں ۵؂ کا کہنا یہ ہے کہ حسن فن کا خاصہ ہے، حسن بذاتہ ایک ایسی قدر ہے جو مطلق بھی ہے اور ہر قدر سے اعلیٰ اور برتر بھی۔ باقی تمام اقدار مثلاً صداقت اور خیر یا تو حسن کے ماتحت ہیں یا بالکل غیر متعلق۔ اس قدر اعلیٰ ہونے کی بنا پر فن کا وجود بذاتہ مقصود بن جاتا ہے۔ زندگی کی وسعتوں میں اس کی اپنی حدود ہیں اور یہ اپنے مقام پر آزاد اور مکمل ہے۔ نہ اس کی کوئی منزل مقصود ہے اور نہ یہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس کا کام صرف اس قدر ہے کہ فن کار کو حسن محض کے ادراک سے ہم کنار اور کیفیت اہتزاز سے دوچار کرے۔ یہ مقصد خود فن ہی میں داخل ہے اور اس وقت حاصل ہو جاتا ہے جب فن تخلیق پذیر ہو۔ فن کی اپنی قدر کے علاوہ کسی اور مقصد مثلاً اخلاق، تعلیم، روپیہ پیسہ یا شہرت وغیرہ کو اس کے متعلق گرداننا دراصل اس کی اپنی قدر کی نفی ہے۔ یہ مقاصد فن کی قدر وقیمت کو گرا دیتے ہیں، اس میں اضافہ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ 

گوتیر (Goutir) کا قول ہے کہ ہم فن کی آزادی کے قائل ہیں۔ ہمارے نزدیک فن بذات خود ایک مقصد ہے نہ کہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ۔ وہ فن کار جو فن کے بجائے کسی اور مقصد کی تلاش میں ہو، فن کار ہی نہیں۔ ایک اور جگہ اس نے کہا ہے کہ ’’جب کوئی شے مفید بن جاتی ہے تو حسین نہیں رہتی۔‘‘ آسکر وائلڈ کے نزدیک تخلیق کی اولین شرط یہ ہے کہ نقاد اس بات کو خوب جان لے کہ فن اور اخلاق کی حدود ایک دوسرے سے بالکل الگ تھلگ ہیں۔ ۶؂ ڈاکٹر عبد الحکیم خلیفہ نے اپنے مقالہ ’’فنون لطیفہ‘‘ میں فرائڈ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’فن لطیف کا کام دل کش نفسیاتی دھوکہ پیدا کرنا ہے۔ شاعری ہو یا مصوری، ڈراما نویسی ہو یا ناول نگاری، ان سب کا مقصد زندگی کے تلخ حقائق سے گریز ہے۔‘‘ ۷؂ سید انور شاہ کشمیریؒ نے اپنے مخصوص انداز میں یہی بات یوں کہی ہے: ’’شعر میں ایک تو شاعری ہوتی ہے، دوسرے جھوٹ اور تیسرے مبالغہ۔ شاعری میں تخیل اور خیال آفرینی ہوتی ہے یعنی حقیقت شے کے آس پاس آنا اور خود اس کو ظاہر نہ کرنا جس کا مقصد اچنبھے میں ڈالنا ہوتا ہے۔‘‘ ۸؂ پروفیسر حسن شاہ نواز زیدی نے لکھا ہے کہ فن کا اپنا ہی ایک معیار ہے جو اخلاقیات کی قید میں نہیں آ سکتا۔ وہ ایک مفکر کا قول نقل کرتے ہیں کہ ’’شاعری کے لیے حقیقت اور صداقت ضروری نہیں ہے بلکہ شاعری اور آرٹ مبالغے کے جتنا قریب ہوں گے، اتنا ہی پر اثر ہوں گے۔‘‘ ۹؂ 

’’فن برائے فن‘‘ سے ملتی جلتی ایک اور تحریک ’’ہیئت برائے ہیئت‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے حامیوں کے نزدیک فن کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ بات کہی کیسے جائے گی۔ باقی رہی یہ بات کہ کیا کہا گیا ہے تو ان کے نزدیک یہ کوئی اہم شے نہیں۔ جو بات آپ کہتے ہیں، وہ اچھی ہو یا بری، سچ ہو یا جھوٹ، صحیح ہو یا نادرست، فن کی قدر وقیمت پر کسی طرح اثر انداز نہیں ہوتی کیونکہ اس کا انحصار تو اس ہیئت پر ہے جس میں فن کو وجود ملا ہے اور تمام جمالیاتی خصائص اس سے وابستہ ہیں۔ اس صورت میں ’فن برائے فن‘ کا کلیہ ’ہیئت برائے ہیئت‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ۱۰؂ اس لحاظ سے ’فن برائے فن‘ اور ’ہیئت برائے ہیئت‘ ایک ہی تحریک کے دو نام ہیں۔ 

اس تحریک کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس میں فن کو زندگی سے بالا وبرتر مقام دیا گیا ہے اور اس کے داعیوں نے فن کے مافیہ (Content) کو بالکل نظر انداز کر دیا ہے۔ ۱۱؂ ظاہر ہے کہ اس حیثیت میں ادب کوئی مفید چیز نہیں ہو سکتا۔ اس کے بالمقابل ایک دوسرا نظریہ ’’فن برائے زندگی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ حضرات فن برائے فن کے مخالف اور فن کے مافیہ پر بہت زور دیتے ہیں۔ مولانا عبد السلام ندوی فرماتے ہیں کہ ’’فن برائے فن کوئی چیز نہیں ہے۔ اصل چیز فن برائے زندگی ہے۔‘‘ ۱۲؂ علامہ اقبال اسی نظریہ کے داعی اور مبلغ ہیں۔ ڈاکٹر خلیفہ فرماتے ہیں: ’’فن برائے فن ایک بے ہودہ نظریہ ہے۔ علامہ اقبال نہ علم برائے علم کے قائل تھے نہ فن برائے فن کے۔‘‘ ۱۳؂ آپ کے ہاں زندگی اور فن کا نہایت گہرا تعلق ہے۔ ان کے نظریہ فن کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ فن زندگی کا خادم ہے۔ ۱۴؂ 

ا س تحریک کا باوا آدم افلاطون کو بتایا جاتا ہے۔ ۱۵؂ اقبال مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر میں افلاطون کے سخت مخالف ہیں، ۱۵؂ لیکن فن کے سلسلے میں اسی کے پیروکار ہیں۔ دونوں کے نزدیک فن کا ایک ہی مقصد ہے۔ ۱۶؂ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقبال افلاطون سے زیادہ حالیؒ سے متاثر ہوئے ہیں۔ نقاد کہتا ہے: ’’حالی حیات انگیز شاعری میں اقبال کا پیش رو ہے اور اس کا بھی امکان ہے کہ اگر حالی نے شاعری کا رخ نہ بدل دیا ہوتا تو شاید اقبال کا بھی ظہور نہ ہوتا۔ اقبال میں حالی کا درد ملت موجود ہے اور اس کی حکیمانہ نظر حالی سے زیادہ وسیع اور گہری ہے۔‘‘ ۱۷؂ شیخ عبد القادر نے دیباچہ بانگ درا میں لکھا ہے کہ ’’ہندوستان کی علمی دنیا میں جتنے نامور اس زمانے میں موجود تھے، مثلاً مولانا شبلی مرحوم، مولانا حالی مرحوم، اکبر مرحوم، سب سے اقبال کی ملاقات اور خط وکتابت تھی ۱۸؂ اور ان کے اثرات اقبال کے کلام پر اور اقبال کا اثر ان کی طبائع پر پڑتا رہا۔‘‘ ۱۹؂ یہی بات شیخ عبد القادر نے غالب کے بارے میں فرمائی ہے بلکہ اس ضمن میں تو وہ یہاں تک لکھ گئے ہیں کہ ’’اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ غالب کی روح نے دوبارہ اقبال کا نام پایا۔‘‘ ۲۰؂ 

علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں غالب کی حکمت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ ۲۱؂ یہ سچ ہے کہ اقبال نے افلاطون، شبلی، حالی اور غالب سے استفادہ کیا ہے، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انھوں نے اپنے نظریہ ادب وشعر کی بنیاد قرآن وحدیث کی تعلیمات پر رکھی ہے، چنانچہ آپ نے ۱۹۱۷ء میں ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون تحریر کیا جس میں دو عربی شاعروں کے موازنہ وتقابل سے فنون لطیفہ اور خصوصاً شاعری کے بارے میں اپنا نظریہ بڑی وضاحت سے بیان کر دیا۔ اس تحریر سے ایک اقتباس ہم اس مضمون کے آخر میں نقل کریں گے۔

علامہ اقبال نے انجمن ادبی کابل کے سپاس نامہ ۲۲؂ کے جواب میں فرمایا تھا:

’’شاعر قوم کی زندگی کی بنیاد کو آباد بھی کر سکتا ہے اور برباد بھی۔ اس ملک کے شعرا پر لازم ہے کہ وہ نوجوان قوم کے سچے رہنما بنیں۔ زندگی کی عظمت اور بزرگی کے بجائے موت کو بڑھا چڑھا کر نہ دکھائیں کیونکہ جب آرٹ موت کا نقشہ کھینچتا ہے اور اس کو بڑھا چڑھا کر دکھاتا ہے، اس وقت وہ سخت خوفناک اور برباد کن ہو جاتا ہے۔‘‘۲۳؂

آپ نے اسی موقع پر فرمایا کہ :

’’شاعر اپنے تخیل سے قوموں کی زندگی میں نئی روح پھونکتا ہے۔ قومیں شعرا کی دست گیری سے پیدا ہوتی ہیں اور اہل سیاست کی پامردی سے نشوونما پاکر مر جاتی ہیں۔ پس مری خواہش یہ ہے کہ افغانستان کے شعرا اور انشا پرداز اپنے ہم عصروں میں ایسی روح پھونکیں جس سے وہ اپنے آپ کو پہچان سکیں۔‘‘ ۲۴؂

کسی قوم کے ادیب، شاعر اور فن کار اس کی زندگی میں جو مثبت یا منفی کردار ادا کرتے ہیں، اس کو جس شدت سے اقبال نے محسوس کیا، شاید ہی کسی اور نے کیا ہو۔ ایک موقع پر آپ نے فرمایا:

’’کسی قوم کی معنوی صحت زیادہ تر اس روح کی نوعیت پرمنحصر ہے جو اس کے اندر اس کے شعرا اور صاحبان فن پیدا کرتے ہیں ....... کسی اہل ہنر کا مائل بہ انحطاط ضمیر اور تصور ایک قوم کے لیے اٹیلا ۲۵؂ اور چنگیز کے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے۔‘‘ ۲۶؂

سرسری نظر میں یہ بات کچھ عجیب سی لگتی ہے کہ ادیب اور شاعر اپنی شکست خوردہ ذہنیت اور مردہ ضمیری کے ساتھ اپنی قوم کے لیے چنگیز خان اور اٹیلا سے زیادہ تباہ کن کیسے ثابت ہو تا ہے۔ اس کا جواب فکر اقبال ہی سے یوں دیا جا سکتا ہے کہ عمدہ اور لطیف شاعر کی مثال ساحر اور جادوگر کی سی ہے: ۲۷؂

جمیل تر ہیں گل ولالہ فیض سے اس کے
نگاہ شاعر رنگیں نوا میں ہے جادو

وہ اپنی شاعری سے قوم کو سحر زدہ کر دیتا ہے۔ اس کے دماغ سے سوچنے سمجھنے کی قوت مفقود اور اس کے اعضا وجوارح قوت عمل سے محروم ہو جاتے ہیں اور قوم بے یقینی کا شکار ہو جاتی ہے جو غلامی سے بھی بد تر بتائی جاتی ہے: ۲۸؂

یقیں مثل خلیل آتش نشینی
یقین اللہ مستی خود گزینی
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی

علامہ اقبال نے ’مثنوی اسرار خودی‘ لکھی تو اس میں افلاطون اور حافظ شیرازیؒ پر سخت تنقید کی۔ یہ دراصل اسی نقطہ نظر کی وضاحت تھی کہ شاعری کیسی ہونی چاہیے اور کیسی نہیں۔ اقبال کو حافظ کی شاعرانہ عظمت سے انکار نہیں تھا۔ وہ تو اسے بلند پایہ شاعر سمجھتے تھے۔ ۲۹؂ ان کو اختلاف اس کیفیت سے تھا جس کو وہ اپنے پڑھنے والے کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اقبال کی نگاہ میں حافظؒ اپنے شیریں فن کے ذریعے موت کی دعوت دیتے ہیں، ایسی موت جس کے لیے چنگیز خان اور اٹیلا کا مرہون منت بھی نہیں ہونا پڑتا۔ اقبال کے نزدیک شاعری کا ایک معیار ہے جو فنی اعتبار سے نہیں ہے۔ ضروری نہیں کہ شاعری صنائع بدائع کے محاسن سے مزین ہو، ۳۰؂ بلکہ اصل چیز یہ ہے کہ شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں کس قدر ممد ومعاون ہیں۔ اقبال اپنے مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’فردی اور ملی اعتبار سے کسی شاعر کی قدروقیمت کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک وہ معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں ممد ہیں تو وہ اچھا شاعر ہیں اور اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو کمزور اور پست کرنے کا میلان رکھتے ہیں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبارات سے مضرت رساں ہے۔ ہر شاعر کم وبیش گردوپیش کی اشیا، عقائد، خیالات ومقاصد کو حسین وجمیل بنا کر دکھانے کی قابلیت رکھتا ہے اور شاعری نام ہی اس کا ہے کہ اشیا ومقاصد کو اصلیت سے حسین تر بنا کر دکھایا جائے تاکہ اوروں کو ان اشیا ومقاصد کی طرف توجہ ہو اور قلوب ان کی طرف کھنچ آئیں۔ ان معنوں میں ہر شاعر جادوگر ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کا جادو کم چلتا ہے، کسی کا زیادہ۔ خواجہ حافظ اس اعتبار سے سب سے بڑے ساحر ہیں۔ مگر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ وہ کون سے مقصد یا حالت یا خیال کو محبوب بناتے ہیں۔ وہ ایسی کیفیت کو محبوب بناتے ہیں جو اغراض زندگی کے منافی ہے بلکہ زندگی کے لیے مضر ہے۔ جو حالت خواجہ صاحب اپنے پڑھنے والے کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں، وہ حالت افراد واقوام کے لیے جو اس زمان ومکان کی دنیا میں رہتے ہیں، نہایت ہی خطرناک ہے۔ حافظ کی دعوت موت کی طرف ہے جس کو وہ اپنے کمال فن سے شیریں کر دیتے ہیں تاکہ مرنے والے کو اپنے دکھ کا احساس نہ ہو۔‘‘ ۳۱؂

اورنگ زیب عالمگیر نے، جو بڑا متشرع بادشاہ تھا، حکم دیا کہ اتنی مدت تک تمام طوائفیں نکاح کر لیں ورنہ کشتی میں بھر کر تمام کو دریا برد کر دیا جائے۔ جب تعمیل حکم میں ایک دن باقی رہ گیا تو ایک طوائف جو شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی کے پاس آئی تھی، آخری سلام کے لیے حاضر ہوئی اور سارا ماجرا سنایا۔ شیخ نے کہا کہ تم حافظ شیرازی کا یہ شعر یاد کر لو: ۳۲؂

در کوئے نیک نامی ما را گزر نہ دادند
گر تو نمے پسندی تغییر کن قضا را

اور کل جب تمھیں دریا کی طرف لے چلیں تو بآواز بلند اس شعر کو پڑھتی جاؤ۔ ان طوائفوں نے اس کو یاد کر لیا اور جب روانہ ہوئیں تو یاس کی حالت میں نہایت خوش الحانی سے بڑے درد انگیز لہجے میں اس شعر کو پڑھنا شروع کر دیا۔ جس جس نے سنا، دل تھام کر رہ گیا۔ جب بادشاہ کے کانوں میں آواز پہنچی تو بے قرار ہو گیا۔ ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حکم دیا، سب کو چھوڑ دو۔ ۳۳؂ 

اس واقعے سے کلام حافظ کی تاثیر کا اندازہ فرمائیں۔ کیا ان معنوں میں حافظ کو ساحر کہنا کوئی بے جا بات تھی؟ یہ حافظ کا حسن کلام نہیں ہے بلکہ اقبال اس کو حافظ کا قبح قرار دیتے ہیں۔ ۳۴؂ اس لیے کہ اقبال کے خیال میں اس شعر میں حافظ نے مسئلہ تقدیر کی غلط اور حیات کش تعبیر کی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ:

’’مسئلہ تقدیر کی ایسی غلط مگر دل آویز تعبیر سے حافظ کی شاعرانہ جادوگری نے ایک متشرع اور نیک نیت بادشاہ کو، جو آئین حقہ شرعیہ اسلامیہ کی حکومت قائم کرنے اور زانیات کا خاتمہ کر کے اسلامی سوسائٹی کے دامن کو بدنما داغ سے پاک کرنے میں کوشاں تھا، قلبی اعتبار سے اس قدر ناتواں کر دیا کہ اسے قوانین اسلامیہ کی تعمیل کرانے کی ہمت نہ رہی۔‘‘ ۳۵؂

اقبال نے شعر عجم کی جو تنقید فرمائی ہے، اس کا پس منظر حافظ شیرازی کی شاعرانہ جادوگری ہے۔ اقبال نے بار بار اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بعض عجمی تصورات اور افکار نے اسلام کے چشمے کو گدلا کر کے رکھ دیا ہے۔ اقبال نے ایران کافرستان میں حرم کی بنیاد رکھی اور صرف ان ایرانی شعرا کے کلام کو اہمیت دی جو شعر وتصوف کی صحت مند تحریکات کے علمبردار تھے۔ ۳۶؂ اقبال نے رومی کو اپنا مرشد بنایا لیکن حافظ شیرازی کو ساحر اور جادوگر کہا اور اس سے بہرحال گریز کی تلقین کی: ۳۷؂

بے نیاز از محفل حافظ گزر
الحذر از گوسفنداں الحذر

ضرب کلیم میں ’’شاعر‘‘ اور ’’شعر العجم‘‘ کے عنوان سے دو نظموں میں انھی خیالات کا اعادہ کیا ہے۔ یہاں آپ نے ’’عجمی لے‘‘ ۳۸؂ اور ’’شعر العجم‘‘ کی باقاعدہ اصطلاحیں استعمال کی ہیں اور اس سے اجتناب کی وجہ بھی بیان کر دی ہے: ۳۹؂

تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھی نہیں اس قوم کے حق میں ’’عجمی لے‘‘ 

اسی طرح شعر العجم کی طرب ناکی اور دل آویزی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے افسردگی اور بے یقینی پیدا ہوتی ہے جس سے انسانی خودی کی موت واقع ہو جاتی ہے: ۴۰؂

ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک ودل آویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز
افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ سحر خیز

یہاں مختصراً یہ جان لینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ’خودی‘ سے کیا مراد ہے اور اس کا نظریہ فن سے کیا تعلق ہے؟ ’خودی‘ فکر اقبال کا مرکزی نکتہ ہے ۴۱؂ جس سے مراد نفس یا تعین ذات ہے۔ ۴۲؂ کبھی یہ راز درون حیات ہے اور کبھی بیدارئ کائنات۔ ۴۳؂ یہ ایک خاموش قوت ہے جو عمل کے لیے بے تاب رہتی ہے۔ زندگی کا نظم اور انسانی شخصیت کی پائیداری اس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اقبال خودی کو قوت، حرکت اور جہد مسلسل سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب یہ خودی اپنے ذوق وشوق کا اظہار کرتی ہے تو زمین وآسمان کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ۴۴؂ اقبال فرماتے ہیں، خودی وہ شراب ہے جس سے قوموں کا فہم تیز ہوتا ہے، جو تنکے کو چھو کر پہاڑ بنا دیتی ہے، جو لومڑی کو شیر، خاک کو ثریا اور قطرے کو سمندر بنا دیتی ہے۔ یہ وہ غیرت ہے جو ممولے اور چکور کو باز سے آمادۂ پیکار کرتی ہے۔ ۴۵؂ اقبال نے خودی کے مفہوم میں بے انتہا وسعت پیدا کر دی ہے لیکن تمام مباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ خودی سے اقبال کی خودی ذوق عمل اور قوت تسخیر ہے اور اس کامقصد فقط اتنا ہے کہ انسان اور خاص طور پر مسلمان غفلت اور تن آسانی کی روش کو چھوڑ کر سخت کوشی اور خطر پسندی کا راستہ اختیار کریں۔ فنون لطیفہ سے اقبال اسی خودی کی تعمیر کا کام لینا چاہتے ہیں۔ اسی خودی کا نام اسرار زندگی ہے۔ دیباچہ مرقع چغتائی میں فرماتے ہیں:

’’مجھے جو کچھ کہنا ہے، اس کا حاصل بس اس قدر ہے کہ میں سارے فنون لطیفہ کو زندگی اور خودی کے تابع سمجھتا ہوں۔‘‘ ۴۶؂

یہی بات اقبال نے ان اشعار میں بیان فرمائی ہے: ۴۷؂

سرود وشعر وسیاست، کتاب ودین وہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
نہ کر سکیں تو سراپا فسوں وافسانہ

ضرب کلیم میں ’’فنون لطیفہ‘‘ کے نام سے ایک نظم موجود ہے۔ اس کے ایک جملہ ’’مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے‘‘ ۴۸؂ میں تمام فنون لطیفہ کا مقصد بیان کر دیا ہے۔ ایک اور نظم میں شعر کا مقصد ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ۴۹؂

وہ شعر کہ پیغام حیات ابدی ہے
یا نغمہ جرس ہے یا بانگ اسرافیل

پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے اس شعر کی شرح میں لکھا ہے کہ ’’شاعری میں یا تو پاکیزہ خیالات بیان ہوتے ہیں جن کی بدولت قوم میں نیکی کی طرف میلان پیدا ہوتا ہے یا پھر اس میں عمل صالح کی ترغیب ہوتی ہے جس کی بدولت قوم میں جہاد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔‘‘ ۵۰؂

اقبال نے اپنے خطوط میں بھی اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی ہے کہ شاعری بذات خود کوئی مقصد نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد عالم اسلام اور خاص طور پر مسلمانان ہند میں بیداری پیدا کرنا ہے۔ آپ نے ۳ ستمبر ۱۹۱۷ کو مولانا گرامی کے نام ایک خط میں لکھا: 

’’میرا مقصد کچھ شاعری نہیں ہے بلکہ غایت یہ ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں میں وہ احساس ملیہ پیدا ہو جو قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا خاصہ تھا۔ اس قسم کے اشعار لکھنے کی غرض عبادت ہے نہ شہرت ہے۔ کیا عجب ہے کہ نبی کریم کو مری یہ کوشش پسند آجائے اور ان کا استحسان میرے لیے ذریعہ نجات ہو جائے۔‘‘ ۵۱؂

۱۰ اکتوبر ۱۹۱۹ء کو سید سلیمان ندویؒ کے نام ایک مکتوب میں ارقام فرماتے ہیں:

’’شاعری میں لٹریچر بحیثیت لٹریچر کے کبھی میرا مطمح نظر نہیں رہا کہ فن کی باریکیوں کی طرف توجہ کرنے کے لیے وقت نہیں۔ مقصود صرف یہ ہے کہ خیالات میں انقلاب پیدا ہو۔ بس اس بات کو مد نظر رکھ کر جن خیالات کو مفید سمجھتا ہوں، ان کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘ ۵۲؂

اقبال کے ان خطوط سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ شاعری بذات خود کوئی مقصد نہ تھی۔ یہ کسی مقصد کے حصول کا ذریعہ اور پردہ تھی: ۵۳؂

پردۂ تو از نوائے شاعری است
آنچہ گوئی ماورائے شاعری است

اس پردہ میں آپ نے ملت اسلامیہ کو بیداری اور جانبازی کا پیغام دیا ہے۔ ایک یورپی نقاد نے خوب کہا ہے کہ اقبال کا کلام ایک پیغام کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ۵۴؂ 

"Muhammad Iqbal's work is nothing but a message."

اور یہ پیغام خودی اور زندگی کے نام ہے، لہٰذا شعر ہو یا آرٹ کا کوئی اور شعبہ، اقبال کے ہاں اس کی قبولیت کا معیار زندگی اور خودی ہی ہے۔ ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا:

’’آرٹ زندگی کے ماتحت ہے۔ ہر چیز کو انسانی زندگی کے لیے وقف ہونا چاہیے۔ اس لیے ہر وہ آرٹ جو زندگی کے لیے مفید ہو، اچھا اور جائز ہے اور جو زندگی کے خلاف ہو، جو انسانوں کی ہمتوں کو پست اور ان کے جذبات عالیہ کو مردہ کرنے والا ہے، قابل نفرت وپرہیز ہے۔ اس کی ترویج حکومت کی جانب سے ممنوع قرار دی جانی چاہیے۔‘‘ ۵۵؂

علامہ اقبال کی ان وضاحتوں کے بعد مزید کسی شرح کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ زندگی کا شاعر ہے، حرکت وجہد کا پیام بر ہے، طاقت وقوت کا مبلغ ہے، افکار وخیالات میں پاکیزگی کا طرف دار اور علم بردار ہے۔ لہٰذا جو ادب بھی، خواہ وہ شعر ہو، موسیقی ہو، مصوری ہو، سنگ تراشی ہو، کوئی ڈراما یا تمثیل ہو، الغرض فنون لطیفہ کی کوئی بھی قسم ہو، اس کا مقصد زندگی کی صحت مند قدروں کی آب یاری ہونا چاہیے۔ اس میں ہمت اور ذوق عمل کا پیغام ہونا ضروری ہے، ورنہ وہ قابل قبول نہیں ہے۔ اقبال اپنی نظموں ’’شعر عجم‘‘ اور ’’ہنر وران ہند‘‘ میں مصوری، تمثیل وموسیقی وغیرہ سے نفرت کا اظہار اسی وقت کرتے ہیں جب وہ منفی اقدار کے فروغ کا سبب بنتے ہیں۔ وہ فنون لطیفہ کی طاقت کا بھرپور ادراک رکھتے تھے، اسی لیے ان کے مثبت اور تعمیری کردار پر زور دیتے تھے۔ فرماتے ہیں، ’’میرا عقیدہ ہے کہ آرٹ یعنی ادبیات یا شاعری یا مصوری یا موسیقی یا معماری ہر ایک زندگی کی معاون اور خدمت گار ہے۔‘‘ ۵۶؂

اس بحث کو اقبال کے مضمون ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘ پر ختم کیا جاتا ہے جس سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال کس قسم کی شاعری کے حامی اور کس قسم کی شاعری کے مخالف ہیں:

’’یہ وہ عقدہ ہے جس کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے وجدان نے اس طرح حل کیا ہے۔ امرؤ القیس نے اسلام سے چالیس سال پہلے کا زمانہ پایا ہے۔ روایت ہمیں بتاتی ہے کہ جناب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نسبت ایک موقع پر حسب ذیل رائے ظاہر فرمائی ہے: اشعر الشعراء وقائدہم الی النار۔ یعنی وہ شاعروں کا سردار تو ہے ہی لیکن جہنم کے مرحلے میں ان سب کا سپہ سالار بھی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امرؤ القیس کی شاعری میں وہ کون سی باتیں ہیں جنھوں نے حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ رائے ظاہر کروائی۔ امرؤ القیس کے دیوان پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں شراب ارغوانی کے دور، عشق وحسن کی ہوش ربا داستانوں اور جاں گداز جذبوں، آندھیوں سے اڑی ہوئی بستیوں کے کھنڈروں کے مرثیوں، سنسان ریتلے ویرانوں کے دل ہلا دینے والے منظروں کی تصویریں نظر آتی ہیں اور یہی عرب کے دور جاہلیت کی کل تخلیقی کائنات ہے۔ امرؤ القیس قوت ارادی کو جنبش میں لانے کی بجائے اپنے سامعین کے تخیل پر جادو کے ڈورے ڈالتا ہے اور ان میں بجائے ہوشیاری کے بے خودی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنون لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ صنائع بدائع کے محاسن اور انسانی زندگی کے محاسن کچھ ضروری نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ہوں۔ ممکن ہے کہ شاعر بہت شعر کہے لیکن وہ شعر پڑھنے والے کو اعلیٰ علیین کی سیر کرانے کی بجائے اسفل السافلین کا تماشا دکھا دے۔ شاعری دراصل ساحری ہے اور اس شاعر پر حیف ہے جو قومی زندگی کی مشکلات وامتحانات میں دل فریبی کی شان پیدا کرنے کے بجائے وہ فرسودگی وانحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بنا کر دکھا دے اور اس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ اس کا تو فرض ہے کہ قدرت کی لازوال دولتوں میں سے زندگی اور قوت کا جو حصہ اسے دکھایا گیا ہے، اس میں اوروں کو بھی شریک کرے، نہ یہ کہ اٹھائی گیرہ بن کر جو رہی سہی پونجی ان کے پاس ہے، اس کو بھی ہتھیا لے۔‘‘ ۵۷؂




حوالہ جات

۱؂ پروفیسر حسن شاہ نواز زیدی، ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، مجلہ ’’اقبالیات‘‘ اردو، اقبال اکادمی لاہور، جلد ۳۱، شمارہ ۲۔۴، جولائی ۹۰ تا جنوری ۹۱، ص ۲۰۶

۲؂ ایضاً، ص ۲۰۵

۳؂ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، ’’اقبال اور جمالیات‘‘، اقبال اکادمی لاہور، طبع دوم ۱۹۸۱ء، حصہ دوم، باب ۱۱، ص ۲۹۹

۴؂ وکٹر پیوگو نے ’’آرٹ برائے آرٹ‘‘ کی اصطلاح کے متعلق لکھا ہے کہ سب سے پہلے اس نے اس کو استعمال کیا، لیکن یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ شاید اس کو یہ علم نہ تھا کہ اس سے قبل یہی الفاظ وکٹر کوزین نے اپنے ایک لیکچر میں استعمال کیے گئے۔ ’’آرٹ مذہب واخلاق کی خدمت کے لیے ہے اور نہ اس کا مقصد مسرت وافادہ ہے ...... مذہب، مذہب کی خاطر ہونا چاہیے، اخلاق، اخلاق کی خاطر اور آرٹ، آرٹ کی خاطر۔ نیکی اور پاک بازی کے راستے سے افادہ اور جمال تک پہنچ نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح جمال کا مقصد افادہ یا نیکی یا پاک بازی نہیں ہے۔ جمال کا راستہ جمال ہی کی طرف رہبری کر سکتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر یوسف حسین خان، ’’آرٹ اور اقبال‘‘، مشمولہ اقبال کا تنقیدی مطالعہ، مرتبہ پروفیسر اے جی نیازی، عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور، بار اول، مارچ ۱۹۶۵، ص ۱۲۷، ۱۲۸)

۵؂ فرانس میں فلوبیر (Flaubert)، گوئی اے (Gautier) اور بودلیئر (Baudelair)، امریکہ میں اڈگر ایلن پو (Edger Ellen Poe) اور انگلستان میں آسکر وائلڈ نے فن برائے فن کی تحریک کو پروان چڑھایا۔ انگلستان میں والٹر پیٹر (Walter Peter) کو فن برائے فن کا عظیم نمائندہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ (سید جابر علی، اقبال کا فنی ارتقا، بزم اقبال لاہور، طبع اول، جولائی ۱۹۷۸، ص ۱۹۲)

۶؂ میاں محمد شریف، ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، مشمولہ فلسفہ اقبال، مترجمہ سجاد رضوی، مرتبہ بزم اقبال لاہور، طبع دوم، مارچ ۱۹۸۴، باب ۲، ص ۴۴، ۴۵

۷؂ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، ’’فکر اقبال‘‘، بزم اقبال لاہور، طبع ہفتم جولائی ۱۹۹۰، باب ۱۶، ص ۴۳۱

۸؂ سید انور شاہ کشمیری، ’’ملفوظات‘‘، مرتبہ مولانا سید احمد رضا بجنوری، اشرف اکیڈمی لاہور، سن ندارد، ص ۵۱

۹؂ ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، اقبالیات، جلد ۳۱ شمارہ ۲ تا ۴، جولائی ۹۰ تا جنوری ۹۱، ص ۲۰۸

۱۰؂ ’’فلسفہ اقبال‘‘، ص ۴۶

۱۱؂ ایضاً، ص ۴۸

۱۲؂ مولانا عبد السلام ندوی، ’’اقبال کامل‘‘، عشرت پبلشنگ ہاؤس، لاہور، سن ندارد، ص ۳۷۲

۱۳؂ ’’فکر اقبال‘‘، ص ۴۲۲

۱۴؂ پروفیسر اشرف انصاری، ’’اقبال کا نظریہ فن‘‘، مشمولہ اقبالیات راوی، مرتبہ ڈاکٹر صدیق جاوید، الفیصل ناشران لاہور، جولائی ۱۹۸۹، ص ۲۵۸

۱۵؂ علامہ اقبال نے ’اسرار خودی‘ میں افلاطون پر سخت تنقید فرمائی ہے۔ اس کو قدیم زمانے کا راہب اور مسلک گوسفندی کا پیرو کہا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ اس کا جام خواب آور ہے، وہ زندگی کی نفی کرتا ہے، وہ انسان کے لباس میں گوسفند ہے، اس کا کام باسی تھا، اس کی مستی سے قومیں زہر آلود ہو گئیں، سو گئیں اور ذوق عمل سے محروم ہو گئیں۔ (علامہ محمد اقبال، کلیات اقبال (فارسی)، شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور، اشاعت پنجم مئی ۱۹۸۵، صفحات ۳۲ تا ۳۴)

۱۶؂ ’’فلسفہ اقبال‘‘، ص ۵۷

۱۷؂ ’’فکر اقبال‘‘، ص ۴۲۰

۱۸؂ علامہ اقبال نے فروری ۱۸۹۹ سے دسمبر ۱۹۳۴ تک جو خطوط مرقوم فرمائے، ان میں مولانا شبلی کے نام صرف ایک خط ہے جو ۱۲ جنوری ۱۹۱۲ کو لاہور سے لکھا گیا ہے۔ البتہ سید سلیمان ندوی کے نام خطوط میں مولانا شبلی کا ذکر خوب کرتے ہیں۔ لاہور سے ایک خط محررہ ۲۸ اپریل ۱۹۱۸ء میں لکھتے ہیں ’’مولانا شبلی رحمہ اللہ کے بعد آپ استاذ الکل ہیں‘‘۔ (کلیات مکاتیب اقبال، مرتبہ سید مظفر حسین برنی، اردو اکادمی دہلی، اشاعت چہارم ۱۹۹۳ء، ص ۷۰۵)

اسی طرح بعض دیگر ارباب علم کے نام اپنے خطوط میں شبلی کے علاوہ حالی اور اکبر وغیرہ کا نام نہایت عقیدت واحترام سے کیا ہے۔ مثلاً شاعر مدراس کے نام ایک خط میں حالی اور شبلی کو قادر الکلام بزرگوں میں شمار کیا ہے اور ان سے داد حاصل کرنے کو بڑے فخر کی بات بتایا ہے۔ (مکتوب بنام شاعر مدراس محررہ ۲۹ اگست ۱۹۰۸، کلیات مکاتیب اقبال، جلد اول، ص ۱۵۰)

مولانا الطاف حسین حالیؒ (۱۸۳۷۔۱۹۱۴) کے نام علامہ اقبال نے فروری ۱۸۹۹ سے حالی کی وفات تک کوئی خط نہیں لکھا۔ پھر ۱۹۱۴ میں حالی فوت ہی ہو گئے تھے، البتہ اپنے خطوط میں حالی کا تذکرہ ضرور کیا ہے۔

اکبر الٰہ آبادی کے نام آپ کے درجنوں خطوط ہیں۔ ان تمام کے مضامین ’اسرار ورموز‘ کی اشاعت، ترتیب اور مشمولات کے بارے میں ہیں۔ خواجہ حسن نظامی کے حافظ کے بارے میں فکری تنازعہ کا ذکر ان خطوط کا حصہ ہے۔ ان تمام مکتوبات کا عرصہ تحریر ۱۹۱۱ سے ۱۹۱۸ تک ہے۔ (دیکھیے کلیات مکاتیب اقبال،جلد اول)

۱۹؂ شیخ عبد القادر، دیباچہ بانگ درا، مشمولہ ’’نذر اقبال‘‘، (سر عبد القادر کے مضامین، مقالات، مقدمات اور مکاتیب کا مجموعہ) مرتبہ محمد حنیف شاہد، بزم اقبال لاہور، طبع اول اگست ۱۹۷۲، ص ۴۲، ۴۲

۲۰؂ ایضاً ص ۳۷، ۳۸

۲۱؂ دیکھیے کلیات اقبال (فارسی) ص ۷۱۵

۲۲؂ یہ اکتوبر، نومبر ۱۹۳۳ کا ذکر ہے جب نادر خان شاہ افغانستان نے علامہ اقبال، سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود (وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ) کو افغان یونیورسٹی کابل کے نصاب کے سلسلے میں دعوت دی۔ اس موقع پر انجمن ادبی کابل نے ان حضرات کو اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس موقع پر سید سلیمان ندوی اور سر راس مسعود کے علاوہ علامہ اقبال نے انجمن کے سپاس نامہ کا جواب دیتے ہوئے ایک تقریر فرمائی۔ یہ اقتباسات اسی تقریر کا حصہ ہیں۔ دیکھیے، ’’مقالات اقبال‘‘، میں کابل میں ایک تقریر، ص ۲۵۹۔ نیز دیکھیے حق نواز کا مرتبہ ’’سفرنامہ اقبال‘‘، اقبال صدی پبلی کیشنز، دہلی، اشاعت اول، ۱۹۷۷، سفر افغانستان ۱۹۳۳۔ مزید دیکھیے، ’’حیات اقبال کے چند مخفی گوشے‘‘، مرتبہ محمد حمزہ فاروقی، ادارۂ تحقیقات پاکستان، دانش گاہ پنجاب لاہور، طبع اول مارچ ۱۹۸۸، باب سیر افغان ۱۹۳۳، صفحات ۲۰۰ تا ۲۱۲

۲۳؂ کابل میں ایک تقریر، ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۵۹

۲۴؂ ایضاً، ص ۲۶۰

۲۵؂ Attila of Etzel ، ۴۰۶۔۴۵۳، ہن حملہ آوروں کا سردار تھا جو اپنے آپ کو خدائی قہر کہتا تھا اور اس بات پر فخر کرتا تھا کہ جدھر سے اس کا گزر ہو جائے، وہاں گھاس بھی نہیں اگتی۔ سلطنت روما کے دور انحطاط میں یورپ پر (۴۳۲۔۴۵۳) عفریت کی طرح مسلط رہا۔ مشرقی اور مغربی روم کی حکومتوں کو تاخت وتاراج اور جرمنی و اطالیہ وغیرہ کے علاقوں کو تباہ وبرباد کیا۔ (اردو انسائیکلو پیڈیا، ص ۱۶۱)

۲۶؂ دیباچہ مرقع چغتائی، در ’’مضامین اقبال‘‘، مرتبہ تصدق حسین تاج، حیدر آباد دکن، ۱۳۶۲، ص ۱۹۷

۲۷؂ کلیات اقبال ص ۳۰۵۔ نیز اقبال کا مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ مقالات اقبال، ص ۲۰۷

۲۸؂ کلیات اقبال اردو، ص ۳۷۳

۲۹؂ دیکھیے اقبال کا مضمون ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۰۶

۳۰؂ ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘، مشمولہ مقالات اقبال، ص ۲۳۰

۳۱؂ ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۰۷

۳۲؂ حافظ شیرازی کا یہ شعر دیوان حافظ میں ملاحظہ ہو۔ دیوان حافظ، مقبول اکیڈمی لاہور، سن ندارد، ص ۳۳

۳۳؂ ’’اسرار خودی اور تصوف‘‘، مشمولہ ’’مقالات اقبال‘‘، ص ۲۰۹، ۲۱۰

۳۴؂ و۳۵؂ ایضاً ص ۲۱۰

۳۶؂ سید عابد علی عابد، ’’شعر اقبال‘‘، بزم اقبال لاہور، ستمبر ۱۹۹۳، ص ۱۸۴

۳۷؂ اقبال کا یہ شعر ان اشعار کا تتمہ ہے جو آپ نے اسرار خودی کی اولین اشاعت ۱۹۱۵ میں حافظ پر لکھے تھے اور بعد ازاں یہ تمام اشعار حذف کر دیے تھے۔ مثنوی کا یہ اولین نسخہ ہے جو حکیم محمد صاحب چشتی نظامی نے یونین سٹیم پریس لاہور سے ۵۰۰ کی تعداد میں شائع کی تھی۔ یہ نسخہ اقبال اکادمی لاہور میں محفوظ ہے۔

۳۸؂ سید عابد علی عابد ’’عجمی لے‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’شعر کوئی کی ایک خاص روش ہے جسے اقبال ’’عجمی لے‘‘ کہتے ہیں۔ ’’لے‘‘ اس سلسلے میں بڑا ہی پر اسرار لفظ ہے اور جب تک اس کا صحیح مفہوم متعین نہ ہو، ’’عجمی لے‘‘ کی دلالتیں واضح نہیں ہو سکتیں۔ ’’عجمی لے‘‘ یا عجمی شعر گوئی سے کیسا اسلوب شعر گوئی ملحوظ ہے، اس کا جواب اقبال اسرار خودی میں دے چکے ہیں۔ انھوں نے حافظ کو ’’عجمی لے‘‘ کا نمائندہ شاعر سمجھا تھا کہ بڑے دل کش اور دل فریب پیرایے میں نرم ونازک الفاظ کو لوری دے کر پڑھنے والے کو موت کی نیند سلاتا ہے۔ یہ موت ذہنی ہے اور ذوق عمل کے فقدان سے عبارت ہے۔‘‘ (شعر اقبال، ص ۱۸۷)

۳۹؂ کلیات اقبال (اردو) ص ۵۸۹

۴۰؂ ایضاً ص ۵۹۰

۴۱؂ ڈاکٹر نصیر احمد ناصر، ’’اقبال اور جمالیات‘‘، اقبال اکادمی، پاکستان لاہور، طبع دوم ۱۹۸۱، ص ۱۵

۴۲؂ محمد اقبال، دیباچہ مثنوی اسرار خودی، اشاعت اول ۱۹۱۵، مشمولہ مقالات اقبال، ص ۱۹۹

۴۳؂ ’’کلیات اقبال‘‘ (اردو) ص ۴۱۹

۴۴؂ خودی کی ان تمام تعبیرات کے لیے دیکھیے مثنوی اسرار خودی کا باب ’’اصل نظام عالم از خودی است وتسلسل حیات‘‘

۴۵؂ تمہید اسرار خودی، کلیات اقبال (فارسی) ص ۸

۴۶؂ دیباچہ مرقع چغتائی، در مضامین اقبال، ص ۱۹۷

۴۷؂ کلیات اقبال (اردو) ص ۵۶۲

۴۸؂ ایضاً، ص ۵۸۰

۴۹؂ ایضاً، ص ۵۹۰

۵۰؂ یوسف سلیم چشتی، ’’شرح ضرب کلیم‘‘، عشرت پبلشنگ ہاؤس لاہور، سن ندارد، ص ۳۲۵

۵۱؂ سید مظفر حسین برنی (مرتب) کلیات مکاتیب اقبال، اردو اکادمی دہلی، اشاعت چہارم، جلد اول، ص ۶۵۷

۵۲؂ ایضاً، اشاعت دوم ۱۹۹۳، جلد دوم، ص ۱۳۷

۵۳؂ کلیات اقبال (فارسی) ص ۷۵۵

۵۴؂ ایڈورڈ میک کارتھی، ’’اقبال بحیثیت شاعر‘‘، اقبال ریویو (انگریزی) مجلہ اقبال اکادمی کراچی، جلد ۲، شمارہ ۳۰، اکتوبر ۱۹۶۱، ص ۱۸

۵۵؂ ملفوظات محمود نظامی، ص ۱۴۵

۵۶؂ دیکھیے اقبال کی ’’کابل میں ایک تقریر ۱۹۲۳‘‘ مشمولہ مقالات اقبال، ص ۲۵۹

۵۷؂ دیکھیے اقبال کا مضمون ’’جناب رسالت مآب کا ادبی تبصرہ‘‘، مشمولہ مقالات اقبال ص ۲۲۹، ۲۳۰










اقبالؒ — تہذیبِ مغرب کا بے باک نقاد

پروفیسر غلام رسول عدیم

مہینوں اور سالوں میں نہیں صدیوں اور قرنوں میں کسی قوم میں کوئی ایسی شخصیت جنم لیتی ہے جس کے لیے نسلِ انسانی عمروں منتظر رہتی ہے اور جب وہ شخصیت منقہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہے تو صدیوں اس کی یاد ذہنوں کو معنبر رکھتی، سوچوں کو اجالتی، فکر کی آبیاری کرتی اور دلوں کو گرماتی اور برماتی رہتی ہے ؎
عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تاز بزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں

یہاں پیغمبرانِ الٰہی خارج از بحث ہیں کہ وہ چیدہ اور برگزیدہ ہوتے اور منصبِ اصطفاء و اجتباء پر فائز ہوتے ہیں، وہ از خود دعوتِ فکر و عمل لے کر نہیں اٹھتے مگر ان کے پاس اپنے بھیجنے والے کی طرف سے ایک بنا بنایا پروگرام ہوتا ہے اور وہ خود بھی بنے بنائے آتے ہیں، اپنی ریاضت و اکتساب سے نہیں بنتے، بھیجنے والے کی مرضی ہے کہ وہ کس کو کس خطہ میں کن لوگوں کی طرف اور کس زمانے میں بھیجے، وہ ایک طرف مامور من اللہ ہوتے ہیں تو دوسری طرف آمر بامر اللہ، خالق کے مطیع، مخلوق کے مطاع، خلیق کے قائد، خالقِ کائنات کے منقاد۔ بات ان شخصیات کی ہو رہی ہے جو الٰہی پروگرام ان معنوں میں رکھتے جن معنوں میں فرستادگانِ الٰہی رکھتے ہیں بلکہ وہ جنہیں خالقِ کائنات دل و دماغ کی بہترین صلاحیتوں سے نوازتا ہے اور پھر ان سے خلق کی اصلاح و فلاح کا کام لیتا ہے۔ ان کا علمی بلوغ، ان کی فکری جولانیاں، ان کی مثبت اور توانا سوچ ایک عالم کو گمراہی اور عملی بے راہروی سے نکال کر جادۂ مستقیم پر لگا دیتی ہے۔

علامہ اقبالؒ کی عظیم شخصیت ایسے ہی اساطینِ عالم میں سے ایک ہے جو درماندہ پا بہ گل ہجوموں کو منظم گروہوں کی شکل دے کر جادہ پیمائی کا شعور بخشتے ہیں۔ اقبال نے بھی اس بلند آہنگی سے اور سوزِ دروں سے حدی خوانی کی۔ صدیوں کے مسافر لمحوں میں منزل شناس ہوتے نظر آئے۔ یہ وہ کارواں تھا جو بطحا کی وادی سے نکلا اور اطرافِ عالم میں ہر چہار جانب پھیل گیا۔ حدودِ برصغیر میں پہنچا تو آٹھویں صدی عیسوی کا آغاز ہو چکا تھا۔ آٹھویں صدی عیسوی سے لے کر انیسویں صدی عیسوی تک برصغیر کی سیادت و قیادت اس جاں سپارگروہ کے ہاتھ میں رہی۔ گردش ایام اور زندگی کے نشیب و فراز نے اسے کبھی فرمانروائی کی مسندِ بالا پر بٹھایا تو کبھی پستی و زوال کے عمیق غاروں میں دھکیل دیا۔

۷۱۳ء میں محمد بن قاسمؒ نے سندھ و ہند میں اسلام کا پھریرا لہرا کر عقائد باطلہ اور توہمات میں جکڑے ہوئے سماج کو فکر و نظر کی آزادی بخشی۔ بعد ازاں منصورہ اور ملتان میں اسلامی حکومت قائم ہوئی۔ اگرچہ اس کا اثر و نفوذ زیادہ دور تک نہ پھیل سکا اور وہ برصغیر کے شمال مغربی حدود و ثغور سے آگے نہ بڑھ سکی تاہم تین سو سال بعد روشنی کا ایسا سیلاب امڈا کہ شمالی دروں کی راہ آنے والے غزنیوں اور غوریوں نے اس کفرستانِ ہند میں غلغلۂ توحید سے دیومالائی اور اساطیری ضعیف الاعتقادی کا تاروپود بکھیر کر رکھ دیا۔

جب ۱۲۰۶ء میں برصغیر میں حکومتِ اسلامیہ کے اصل بانی سلطان قطب الدین ایبک نے دہلی کو مستقل مستقر بنا کر گجرات، کاٹھیاوار، کالنجر اور بنگال تک یلغار کی تو اس امر کا یقین ہو گیا کہ اب صدیوں تک برصغیر میں اسلام کا پرچم لہراتا رہے گا۔

۱۷۰۷ء میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد اگرچہ ۱۸۵۷ء تک کوئی ڈیڑھ سو برس تک اسلامی حکومت قائم رہی مگر فی الجملہ یہ دور برصغیر کے مسلمانوں کے لیے انحطاط اور تنزل کا دورِ نافرجام تھا۔ سیاسی افراتفری، معاشرتی ناہمواری اور اقتصادی بدحالی نے مسلمانوں کی عظمت کو گئے دن کا قصہ بنا کر رکھ دیا۔ سات سمندر پار سے آنے والے سفید فام مگر سیاہ دل فرنگی کی دسیسہ کاریوں نے مسلمان سے حمیت و غیرت چھین کر اسے تملق و مداہنت کا خوگر بنا دیا۔ اس دور میں بعض دھڑکتے دل والے مصلحین نے وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا، مسلمانوں کو ان کی اسلامی عصبیت سے آگاہ کیا، ان میں حضرت شاہ ولی اللہؒ، سید احمد بریلویؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ، سر سید احمد خانؒ، حاجی شریعت اللہؒ، اور تیتومیرؒ جیسے جہد آمادہ پیکرانِ حریت نے فضا میں ایمان و ایقان کی سرمستیاں بکھیر دیں اور مسلمانانِ برصغیر کو خودشناسی کا درس دیا۔

لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ مسلمان اس حد تک پستیوں میں اتر چکے تھے کہ اب ان کا تنزل کی اتھاہ گہرائیوں سے ابھرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آتا تھا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی نے مسلمانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ یوں بیسویں صدی کے آتے آتے مسلمان اس درکِ اسفل تک پہنچ چکے تھے کہ انہیں انگریزی استیلاء سے نجات دلانے کے لیے اعجازِ مسیحائی رکھنے والی ایسی سحر اثر شخصیت کی ضرورت تھی جو اسے اپنی شناخت کرا سکے۔ نہ صرف عرفانِ ذات بخشے بلکہ یہ باور کرائے کہ تم انہیں اسلاف کے وارث ہو جنہوں نے قیصر و کسرٰی کی عظیم سلطنتوں کو پامال کر کے رکھ دیا تھا۔ جن کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے کوہ و صحرا لرزتے تھے، جو ان بلاخیر طوفانوں سے بڑھ کر تھے جن سے دریاؤں کے دل ہل جاتے تھے، اور جن کی یلغاروں سے کوہ پائرنیز کے اس پار ایسا ارتعاش پیدا ہوا کہ مدتوں یورپی اقوام اس کے اثرات محسوس کرتی رہیں۔

اب وقت آن پہنچا تھا کہ وہ عیسٰی نفس غلاموں کے لہو کو گرمائے اور کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا کر دے۔ چنانچہ بیسیوں صدی نے بڑھ کر اس مسیحا نفس کا استقبال کیا۔ سچ ہے کہ جب تاریکیاں گہری ہو جائیں تو ٹمٹماتا ہوا دیا بھی قندیل بن کر جگمگاتا ہے لیکن اگر واقعی فانوس روشن کر دیا جائے تو اس کی امواجِ نور سے یقینًا تاریکیاں کافور ہو جائیں گی اور پورا ماحول نور میں نہا جائے گا۔ وہ فانوس فروزاں ہوا، تیرگی چھٹی، وہ رجلِ عظیم آیا، اس نے ناقۂ بے زمام کو سوئے قطار کھینچا۔ انبوہ خفتہ کو اپنی بانگِ درا سے جگایا، عروق مروۂ مشرق میں زندگی کا خون دوڑا دیا۔ اس شان سے صورِ اسرافیل پھونکا کہ صدیوں کی مردہ روحیں زندگی کی توانائیوں سے سرشار ہو کر انگڑائیاں لینے لگیں، کارواں کو پھر سے منزل کی طرف گامزن ہونے کا حوصلہ ملا۔

اس رجل رشید کی بوقلموں شخصیت میں یوں تو ایک بیدار مغز سیاستدان کا تدبر، ایک حلیم و بردبار انسان کا جگر، ایک عظیم و جلیل شاعر کا تنوع، اور ایک عظیم تر فلسفی کا ماورائی ادراک تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ اقبال کی حقیقی وجہ مجدد شرف اور اصلی اثاثہ وہ اندازِ نظر ہے جس نے اسے ذاتی حیثیت سے اٹھا کر کائناتی فکر کا مالک بنا دیا۔ اس نے ایک خوابِ غفلت میں سوئے ہوئے ہجوم کو جگایا اور منظم جماعت کی صورت دے دی۔ قوم کا وہ تصور دیا جس سے مغرب نابلد تھا ؏

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ

اقبال سے پہلے سرسید احمد خان کے عظیم رفقاء میں حالی نے قومی سوچ کی نیو اٹھائی مگر حالی کی آواز میں اس قدر دھیماپن تھا کہ اکثر لوگوں نے سنی اَن سنی کر دی۔ بلاشبہ اس آواز میں سوز تھا مگر گھن گرج نہ تھی، خلوص تھا مگر محدودیت کے ساتھ دردمندی تھی۔ مگر نوحہ و بکا کی لے میں یوں حالی کی قومی فکر مایوسیوں کی نذر ہو گئی۔ وہ ایک گہرے کنویں کی طرح تھی جو کبھی تہہ کے چشموں کے ابلنے سے جوش تو مارتا ہے مگر اس میں سمندر کی طغیانی اور تلاطم انگیز موجوں کی روانی نہیں آسکتی۔ نتیجہ یہ نکلا حالی کی گریہ و زاری یاس خیزیوں تک آ کر رہ گئی۔ تاہم یہ شیونِ قومی اکارت نہیں گیا۔ اقبال نے حالی کی رکھی ہوئی نیو پر ایک فلک بوس ایوان کھڑا کر دیا۔ حالی علومِ جدیدہ سے ناواقفیت کی بنا پر گہرائی کے باوجود گیرائی سے محروم رہے۔ آفاقی وسعت کے فقدان کے باوجود اقبال نے حالی کو بھرپور خراجِ تحسین پیش کیا ؎

طوافِ مرقد حالی سزد ارباب معنی را
نوائے او بجانہا افگند شورے کہ من دانم

حالی کے زمانے میں اس شور کو زیادہ نہیں سنا گیا مگر اقبال نے نوائے حالی سے تحریک پا کر فضا میں غلغلہ اندازی کا سامان پیدا کر دیا۔

اقبال کے مجدد شرف کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ اس نے مشرق و مغرب کو پڑھا، پڑھا ہی نہیں خوب کھنگالا، اس قدر جانچا اور آنکا کہ اپنی مشرقیت کو مغربیت کی زد میں نہ آنے دیا۔ پچھلی دو صدیوں سے عمومًا اور عصرِ حاضر میں خصوصًا مغرب نے اپنے مادی استیلاء اور ظاہری وسائلِ حیات سے پوری دنیا کو خیرہ کر دیا ہے۔ جدید سائنسی پیشرفت اور ٹیکنالوجی نے ہر سطح بیں کے دل میں مغربیت کے علمی بلوغ و نبوع کا نقش جما دیا۔ جو شخص ایک بار لندن کی ہوا کھا آیا فرنگی فکر کا پرستار پایا گیا۔ جس نے پیرس کی ہموار اور گداز سڑکوں پر گھوم پھر لیا اسے دلّی کے وہ کوچے اجنبی سے لگنے لگے جن کے بارے میں شاعر نے کہا ؎

دِلّی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصوّر تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی

جس شخص نے نیویارک کی ایوے نیوز میں مٹر گشت کر لیا اس نے جانا گویا وہ فردوسِ بریں کی سیر کر آیا۔ اب لاہور کی ٹھنڈی سڑک پر چلتے ہوئے اسے الجھن محسوس ہونے لگی۔ زبانِ حال ہی سے نہیں زبانِ قال سے پکار اٹھا  ؏

افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند

مگر زمانہ معترف ہے کہ اقبال ۱۹۰۵ء میں انگلستان گیا، کیمبرج کے محققینِ عصر اور نامورانِ دہر سے خوشہ چینی کی، ان عمائد علم و فضل سے استفادہ کیا جو علوم و فنون میں ماہرانہ دستگاہ ہی نہیں سند کا درجہ رکھتے تھے۔ جرمنی پہنچا، تحقیق و تدقیق اور علم و حکمت کی پرخار وادیوں میں آبلہ پا دیوانوں کی طرح قدم فرسائی کی۔ بلادِ فرنگ میں سہ سالہ قیام کے دوران میں بلا کی سردی میں بھی سحرخیزی کا التزام رکھا ؎

زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی
نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی

ایک طرف علم و آگاہی کے جواہر ریزے سمیٹے تو دوسری طرف مغرب کے تمدن کو محققانہ و ناقدانہ نگاہ سے دیکھا۔ سطح بینوں کی طرح نہیں، اندر جھانک کر ان کے آدابِ زیست کا بغور جائزہ لیا۔ ان کے آدابِ معاشرت کے محاسن و معائب پر نگاہ ڈالی، ان کی سیاسی فکر پر پہروں غور کیا، فرنگی اقوام کی مذہبی سطحیت اور دین بیزاری کو آنکا اور پرکھا۔ ان کے اقتصادی نظام کا بغور مطالعہ کیا، غرض ان کے تمدنی نظام کے ایک ایک جزئیے کا استیعابًا مطالعہ کیا۔

اب وہ موقع پرست اور بیرونِ در تک رہنے والا نہ تھا، درونِ در کے ہنگاموں سے بھی باخبر تھا۔ لہٰذا اس کے سینے میں اس تمدن کے خسارت اندوز پہلوؤں کے خلاف لاوا پکتا رہا۔ فرنگی حضارت اور مغربی تہذیب جس پر  مغرب کو خود بہت ناز تھا اور اوپری نظروں سے دیکھنے والے اہلِ مشرق بھی اس پر تحسین کے ڈونگرے برساتے تھے، اقبال کی نظر میں یہ ملمع کاری تھی۔ اس نے کئی موقعوں پر اس تہذیب کے خلاف گہرے معاندانہ جذبات کا اظہار بھی کیا۔

سیاسی فکر میں اقبال نے یورپی تصورِ قومیت کو نہایت ناپسندیدہ اور مکروہ پایا، اس نے اس تصور کو بنی آدم کے حق میں زہرناک خیال کیا۔ چنانچہ پانچ چھ سال بعد دنیا نے کھلی آنکھوں اس نظریے کی تباہ کاریاں بھی دیکھ لیں جبکہ ۱۹۱۴ء میں جنگِ عظیم اول چھڑ گئی اور وہ ۱۹۱۸ء تک جاری رہی جس میں نسلِ انسانی کا اس بڑے پیمانے پر وحشیانہ قتل ہوا کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی پہلے اتنی خوں ریزی نہ ہوئی تھی جس کے نتیجے میں آئندہ جنگ کو روکنے کے لیے ’’لیگ آف نیشنز‘‘ کا بے سود قیام عمل میں لایا گیا۔ اقبال نے My Country Right Or Wrong کے انسانیت انسانیت کش نظریے کا سختی سے نوٹس لیا۔ اس نے یورپ کے رنگ، نسل، وطن اور زبان کے عناصر چہارگانہ پر مبنی معیارِ قومیت کو ٹھکرا دیا۔

اقبال نے تہذیب مغرب کی قباحتوں کو بروقت محسوس کر کے ان کے خلاف اس وقت اظہارِ خیال کر دیا تھا جب سلطنتِ انگلشیہ کے حدود وثغور اس قدر پھیلے ہوئے تھے کہ آسٹریلیا، ایشیا، افریقہ اور امریکہ کے وسیع علاقے ان کے زیرفرمان تھے اور کہنے والے سچ کہتے تھے کہ حکومتِ برطانیہ کی قلمرو میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ اقبال نے ۱۹۰۷ء میں بڑی حوصلہ مندی سے سچی بات کر دی، فرمایا:

دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

ملاحظہ کیجیئے کہ کس حزم و تیقن سے اقبال سطوتِ رفتار دریا کے انجامِ نافرجام کی خبر دے رہے ہیں؎

دیکھ لو گے سطوتِ رفتارِ دریا کا مآل
موجِ مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی

یوں بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کے مجدد شرف کا راز اس کے اس عظیم کارنامے میں پوشیدہ ہے کہ اس نے مسلم قوم کی کو ملّی تعرف و توسم دیا، قومی شناخت دی، اسے وہ درد عطا کیا جس میں ان کی دو صدیوں کے مرضِ غلامی سے شفایاب ہونے اور پریشاں نظری سے نجات پانے کا مداوا تھا۔

دل توڑ گئی ان کا دو صدیوں کی غلامی
دارو کوئی سوچ ان کی پریشاں نظری کا

ایک طرف اس قوم کو اس کا تابناک و شاندار ماضی یاد دلایا تو دوسری طرف مغرب کی چکاچوند کو جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری  کہہ کر تہذیبِ نو کے منہ پر پورے زور سے تھپڑ رسید کیا۔

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے

علمی اور فکری سطح پر مغرب کے ڈھول کا پول کھولا، شخصی زندگی میں مغرب زدہ طبقے اور لندن پلٹ لوگوں کے برعکس درویشانہ انداز رکھا۔ تہذیبِ مغرب کا ذرا برابر اثر قبول نہیں کیا بلکہ ’’بانگِ درا‘‘ سے لے کر ’’ارمغانِ حجاز‘‘ تک ان کا سارا اردو اور فارسی کلام پڑھ جائیے، آپ کو معلوم ہو گا کہ ان کا دل دھڑکتا تھا تو اسلامی غیرت سے، ان کی آنکھ دیکھتی تھی تو دیارِ حجاز کا فردوس نظر نظارہ، اور ذہن سوچتا تھا تو قرآنی نقطۂ نگاہ سے۔ بلاشبہ علومِ شرق و غرب پڑھ لیے مگر بایں ہمہ اسے روح میں درد و کرب اترتا دکھائی دیتا ہے ؎

پڑھ لیے میں نے علومِ شرق و غرب
روح میں باقی ہے اب تک درد و کرب

آخر اس کا علاج وہ رومی کے جامِ آتشیں اور قرآن کے پیامِ انقلابِ آفریں کے سوا کہیں نہیں پاتا۔ یورپ سے واپسی پر بجائے مغرب زدگی کے اس نے اپنے افکار کے قرآنی ہونے کا دعوٰی کر دیا اور یہ دعوٰی اس بلند آہنگی سے کیا کہ معلوم ہونے لگا کہ عمر بھر اس نے قرآنی فکر کے پرچار کی ٹھان لی ہے۔ وقت نے ثابت کر دیا کہ ۱۹۱۴ء میں اس کا یہ دعوٰی ۱۹۳۷ء تک اس طرح سوزِ دروں میں ڈھل گیا کہ اس کے کلام کا حرف حرف سرزمین طیبہ کے لیے مچلتے ہوئے جذبات اور گداز عطوفتوں کی آماجگاہ بن گیا۔ آخری مجموعۂ کلام کا نام بھی اسی مناسبت سے ’’ارمغانِ حجاز‘‘ رکھا۔ اسرارِ خودی میں اس دعوٰی کا رنگ، ڈھنگ اور آہنگ ملاحظہ فرمائیے اور پھر سوچیئے کہ سوچ کا یہ دھارا آئندہ سالوں میں کن تلاطم خیزیوں اور گرداب انگریزیوں کا مظہر ہے۔

گر دلم آئنۂ بے جوہر است
گر بحرفم غیر قرآں مضمر است
پردۂ ناموس فکرم چاک کن
ایں خیاباں راز خارم پاک کن
تنگ کن رخت حیات اندر برم
اہل ملّت را نگہ دار از شرم

اور آخری شعر میں تو قیامت ہی ڈھا دی ہے ؎

روز محشر خوار و رسوا کن مرا
بے نصیب از بوسۂ پا کن مرا

اواخر عمر میں تو اس کی دردمندی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں رہتا۔ ذرا سی ٹھیس پر ابگینے کی طرح پھوٹ بہتا ہے۔ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے کلام میں حیات آفرینی کے وہ داعیے بھر دیے ہیں اور جذب و رقّت کے وہ طوفاں اٹھائے ہیں کہ ہر لمحہ وارفتگی و سرگشتگی کے بند ٹوٹ ٹوٹ پڑے ہیں۔ ذرا اس سیلاب بلاخیز کا انداز دیکھیئے:

شبے پیش خدا بگریستم زار
مسلماناں چرا زارند و خوارند
ندا آمد نمی دانی کہ ایں قوم
دلے دارند و محبوبے ندارند

تصور ہی تصور میں سفرِ حج درپیش ہے، مکہ سے مدینۃ الرسولؐ کو روانگی کے وقت صحرائے عرب کی مسافتوں کو

سحر با ناقه گفتم نرم تر رو
که راکب خسته و بیمار و پیر است
قدم مستانه زد چنداں که گوئی
بپایش ریگ ایں صحرا حریر است

 ملخصًا کہا جا سکتا ہے کہ اقبال کی کثیر الجہات شخصیت کو جس پہلو سے دیکھا جائے وہ ایک ترشا ہوا بوقلموں ہیرا ہے۔ وہ شاعر ہے، وہ سیاست دان ہے، وہ قانون دان ہے، وہ ماہر اقتصادایت ہے، وہ مفکر  ہے، وہ مصلح ہے، وہ ایک ایسا عالم ہے جس نے علم و ادب کے سرچشموں سے اپنی تشنہ لبی کا سامان کا ہے۔ اس کے کمالات علمی و اصلاحی کا ہر پہلو امتیازی شان کا حامل ہے مگر اس کا سب سے بڑا سرمایۂ حیات اور وجۂ فضیلت و عظمت یہ ہے کہ اس نے مغرب کی ظاہری چمک چمک کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ مسلمان قوم کو چودہ صدیوں کی دوری کے باوجود قرنِ اوّل کی دل کش اور دل گداز فضاؤں میں لے گیا۔ تہذیبِ جدید اور تمدنِ مغرب کے بودے کن کو ظاہر کیا۔ فلسفۂ خودی کا خوبصورت تصور دے کر اسلامی فکر کی توانائی اور اسلامی تمدن کے عملی مظاہر کا تفوق کھول کر بیان کیا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ بتایا کہ اسلامی فکر میں روح عمل اتر ہی نہیں سکتا جب تک سرکارِ دو جہاںؐ کی ذات والا کو محورِ حیات نہ مان لیا جائے اور اس پیغمبرِ اعظم و آخر سے رابطۂ محبت اس درجہ استوار نہ کر لیا جائے کہ دنیا جہاں کی نعمتیں ہیچ نظر آنے لگیں۔ کیوں نہ ہو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی تو فرمایا:

لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِن وَّالِدِہٖ وَ وَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ۔ (بخاری و مسلم)

’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اولاد اور سب لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘

دوسرے شعراء و مصلحین پر یہی وجۂ امتیاز اقبال کے مجدد شرف کی علت نمائی ہے ؎

بمصطفٰی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است


اقبال کے حوالے سے کچھ منفی رویے

حکیم الامت سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ بھی ایسے لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے ایک دنیا کو اپنے سحر میں گرفتار کیا، انہیں قلبی تسکین مہیا کی، اور جن کے پیغام کے تنوع نے انہیں عالمگیر قبولیت بخشی۔ بغور دیکھا جائے تو حضرت علامہ کے کلام(نظم ونثر) میں بنیادی حیثیت فلسفہ کی جان، تجسس کو حاصل ہے ،اور تحقیق جس کادستِ راست ہے اور حقیقت کبریٰ تک رسائی اور اس کابرسرِعام ابلاغ ہوپانا اس ساری تحقیق وجستجو کا مدعا معلوم ہوتا ہے۔ اب اس مقصد عظیم میں حضرت علامہ ؒ کہاں تک کامیاب ہوسکے، یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس پر اب تک بہت کچھ لکھا جاچکاہے۔ بہت سے ناقدین اور بہت سے پیروان فکرِ اقبال نے ان خطبات کا جائزہ پیش کیا ہے۔ کچھ نے مثبت رنگ اختیار کیا اور کچھ نے منفی۔ جہاں علامہ اقبالؒ کی شاعری اور نثر نے گفتگو کے کئی باب واکیے اور کئی عقدے کُشا کیے ،وہاں کئی ابواب میں تشنگی، تشکیک اور تضادات کو بھی جنم دیا۔

حضرت اقبالؒ چونکہ ایک بڑی شخصیت کے طورپر سامنے آئے ،لہٰذا انہیں فکری ،فنی ،ادبی اور نجی سطح پر بھی زیر بحث لایا گیا اور مختلف مفروضات ا ورخیالات نے جنم لیا۔حضرت اقبالؒ کے ایام جوانی اور ان میں ہونے والے مختلف واقعات کو کھنگالا گیا۔ (مے نوشی،رقص وسرود کی محافل میں شرکت، یہاں تک کہ ایک زنِ بازاری کا قتل ان سے منسوب کیاگیا)۔

ان کی نظموں ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ پر کہا گیاکہ’’شکوہ‘‘دراصل علامہؒ کی قلبی واردات اور اصل موقف ہے جب کہ ’’جواب شکوہ‘‘انہوں نے بیرونی دباؤ اور خوف کے باعث لکھی تھی اور یہ کہ ان کا پیشتر کلام دراصل مشاہیر کے کلام کی منظوم ترجمہ کردہ صورت ہے یا یہ کہ مغربی ودیگر کلاسیکی شعرا وفلاسفہ کے نظریات وخیالات سے ماخوذ ہے۔ مثال کے طور پر ’’خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے‘‘ اصل میں بھگت کبیر کے ایک دو ہے یا بیت کا صرف ترجمہ ہے ۔

یہ تو ایک سیدھی سی بات ہے کہ جب زبان غیر سے شرحِ آرزو ہوگی تو کچھ نہ کچھ اضافہ یا کمی لازم ہے۔ ایسا ہی کچھ حضرت اقبال ؒ کے ساتھ بھی ہواہے۔ چونکہ آپؒ کے خطبات انتہائی مشکل طرز کلام رکھتے ہیں، لہذا آپ کے شارحین کو یہاں چھوٹ مل جاتی ہے کہ وہ اپنی طرف سے تشریحات اور توجیہات پیش کرسکیں۔ مثال کے طور پر یہ کہ اقبال کے ہاں مذہب کا تصور، خدا کا تصور اور دیگر کئی ایک تصورات رائج تصورات سے مختلف ہیں اور تقدیر کے متعلق یہ کہ انسان کسی بھی وقت اپنا ارادہ بدلنے پر قادر ہے۔ البتہ خدا وقت کی تمام حرکات سے واقف ہے اور نگران کے طور پر ہے ۔اب یہ ایسے تصورات ہیں جن پر ہمارے اعتقادات اور یقین وایمان کی بلندوبالا عمارت ایستادہ ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ بعض اصحاب (جن میں غلام احمد پرویز بھی شامل ہیں) اپنے اپنے مقاصد کی حصول کی خاطر علامہ کے نام کو استعمال کرتے رہے ہیں ،اور تا حال ایسا ہورہاہے (اگر چہ اس کے رد میں کئی ایک فاضل علما وضاحت کر چکے ہیں) اوربعض اصحاب حضرت اقبالؒ کو مذہب بیزاری اور جدت طرازی کی دوڑ میں شامل کرنے کی خاطر انہیں سرسید احمد خان کے مکتب فکر سے منسلک کرنے میں برابر لگے ہوئے ہیں اور ’’معراج‘‘جیسے اہم مذہبی اہمیت اور تقدس کے حامل واقعہ کے منکر قراردیتے ہوئے جلد بازی سے کام لیتے ہیں، اور علامہ کے کچھ رشتہ داروں کی قادیانی ہونے کے تناظر میں علامہ کے ڈانڈے بھی قادیانیت سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے، حالانکہ یہ بات طے ہے کہ علامہ اقبالؒ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، صوم وصلوٰۃ اورتلاوت قرآن ان کے محبوب معمولات میں شامل تھے۔

اور تو اور، ایسے معاملات میں علامہ کے فرزند ارجمند ڈاکٹر جاوید اقبال بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور وہ موقع بہ موقع اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں یوم اقبال پر ان کے ایک اخباری بیان میں شراب کشید کرنے کے ذریعے ریونیو اکٹھا کرنے کی ترغیب پائی جاتی ہے اور وہ ایسے خیالات کا اظہار یوم اقبال کی مناسبت سے کرتے ہیں جس میں ڈھکے چھپے انداز میں اقبال کی فکر کو غلط انداز میں پیش کرنے کی جسارت پائی جاتی ہے ۔ڈاکٹر جاوید اقبال کی خود نوشت تو ایسے بے شمار واقعات اور خیالات سے پُر ہے جو حضرت علامہ کے کردار کو مسخ کرنے اور انہیں سست ،کاہل ،بد معاملہ ثابت کرنے کی مذموم کوشش ہیں۔ معروف بزرگ شاعر وادیب شریف کنجا ہی نے جاوید اقبال کی گوشمالی کرتے ہوئے ایک تازہ مضمون میں ان خیالات کو ایڈی پس کمپلیکس سے تعبیر کیاہے جو کافی حد تک درست ہے ۔حضرت علامہ ؒ بہرحال ایک بشر ہی تھے اور بشری تقاضوں کے مطابق ان میں ذاتی حوالوں سے کمیاں اور کجیاں ہونا کوئی غیر معمولی واقعہ بھی نہیں ہے، البتہ ان کو اس طرح سے بڑھا چڑھا کر شائع کرنا کہ ان کے اصل پیغام سے لوگوں کی نظریں ہٹ جائیں یا ملت اسلامیہ کے نام انہوں نے جو پیغام چھوڑا ہے، ا س سے ملت اسلامیہ صرف نظر کرنا شروع کردے، کوئی کار خیر نہیں۔ جاوید اقبال فرماتے ہیں کہ وہ والد کی طرف سے محبت اور پیار کے جذبات کو ترستے ہی رہے۔ وہ اپنے والد کی طرف سے کسی بھی قسم کے احسان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے آپ کو ایک سیلف میڈ شخصیت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی تناظر میں جناب شریف کُنجا ہی لکھتے ہیں کہ ’’۱۹۳۸ ء میں( علامہ کے) جانہار ہوجانے کے بعد وہ کون سے وسائل تھے جن کے سہارے جاوید عازمِ انگلستان ہوئے تھے کہ بظاہر آمدنی وہی تھی جسے والد چھوڑ گئے تھے اور مذکورہ گوشوارہ کے مطابق مالی سال (۴۵۔۱۹۴۴ء) میں جاوید صاحب کو کتابوں کی مد سے ۲۳۱۷۴ روپے کی بازیافت ہوئی تھی جسے ڈاکٹر صفدر محمود نے ۱۹۷۳ ء کے حوالہ سے ایک لاکھ کے برابر بتاتا تھا اور غالباً یہی کتابوں کی آمدنی سفرِ انگلستان کو آسان کرگئی تھی۔ ‘‘جناب شریف کُنجاہی اس قضیے پر ذرا نفسیاتی اندا ز میں بات کرتے ہیں او رجاوید اقبال کے باطن میں موجود ایک ناراض بیٹے کو دراصل حضرت علامہ کی طبع کی بیٹے میں جزوی منتقلی قرارد ینے پر بھی تیار نظر آتے ہیں جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے کہ’’جس طرح بعض بدنی کیفیات کے زیر اثر بیٹے میں باپ کا عکس موجودہوتاہے، اسی طرح بعض غیر مادی کیفیات بھی باپ سے بیٹے میں منتقل ہوجاتی ہیں۔‘‘ ’’علامہ اقبال کے والد نے بھی جب اپنے بیٹے کے اس اقدام (یعنی کثرت ازواج) کو نہیں سراہاتھا تو بیٹے (علامہ مرحومؒ ) نے اسے اپنی انا میں مداخلت جاناتھا اور یہ شگاف عمر اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلاگیاتھا جس سے ۱۹۳۸ ء میں والد کی وفات کسی مرثیہ کا باعث نہ بن سکی تھی، جب کہ اس کے بعد سرراس مسعود کی موت ایک اثر انگیز نظم کوتخلیق دے گئی تھی‘‘۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علامہ کے قریبی ساتھیوں (جو تحریک پاکستان میں پیش پیش تھے) کے ساتھ اختلافات اور محاذ آرائیاں منظر عام پر لائی جارہی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’ماہنامہ نیاز مانہ ‘‘لاہورمیں مسلسل چھپنے والے مضمون ’’یادیں یاد گاریں‘‘میں مضمون نگار معروف تاریخ دان اور شاعر سید نصیر شاہ،ڈاکٹر جاوید اقبال اور دوسرے لوگوں کے توسط سے اس رائے کا اظہار کرچکے ہیں کہ لفظ ’’پاکستان‘‘ کی تخلیق کے سلسلے میں اقبال اور چودھری رحمت علی میں اچھی خاصی نوک جھونک بالواسطہ اور بلاواسطہ ہوتی رہی ہے اور جاوید اقبال اس لفظ ’’پاکستان ‘‘ کو جناب علامہ اقبال ؒ کی تخلیق قراردیتے ہیں جبکہ یہ چودھری رحمت علی نے تجویز کیا تھا، البتہ فاضل مضمون نگارنے اسے علامہ اقبال کا براہِ راست موقف کم اور حاشیہ برداروں، پیرووں اور عقیدت مندوں کا شاخسانہ زیادہ قراردیاہے جسے انہوں نے کافی تفصیل کے ساتھ لکھاہے۔

اپنے ایک حالیہ مضمون ’’غالب کا ہے انداز بیاں اور ‘‘ میں غالب کی مدحِ شاہ کا ذکر کرتے ہوئے معروف شاعر وادیب جناب ظفر اقبال لکھتے ہیں کہ ’’میر کے علاوہ بھی کئی ایسے اساتذہ کے نام گنوائے جاسکتے ہیں جو درباری اور چاپلوس نہیں تھے۔حتیٰ کہ یہ علت پچھلی صدی میں علامہ اقبال تک میں بھی موجود رہی جو والئ بھوپال وغیرہ کے وظیفہ خوار رہے جس کی چند اور دلچسپ مثالیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً انہوں نے اپنا مجموعہ کلام’’پیام مشرق‘‘والئ افغانستان غازی امان اللہ خان کے نام معنون کیا ،اور جب نادر شاہ غازی نے امان اللہ کے تخت پر قبضہ کرلیا تو علامہ نے اپنی اگلی کتاب نادر شاہ کے حضور پیش کی، جبکہ ’’ضرب کلیم‘‘ نواب آف بھوپال سے منسوب ہوئی، حالانکہ وہ بے روز گار نہیں تھے اور پیشہ وکالت کو باقاعدہ اختیار کررکھا تھا‘‘۔

جیسا کہ آغاز میں کہا گیاہے کہ چونکہ حضرت علامہ برصغیر کے منظر نامے پر ایک واضح اور نمایاں شخصیت کے طور پر سامنے آئے، اس لیے ان کے بارے میں اختلاف رائے بھی ظاہر ہے، بڑی سطح پر ہی ہونا تھا۔ ویسے علامہ اقبال کوبڑی شخصیت کے طورپر ماننے سے بھی کچھ لوگ گریزاں ہیں، جیسا کہ معروف کلام نگار حسن نثار نے گوجرانوالہ میں اپنی ایک گفتگو میں علامہ کے بارے میں کہا کہ ’’ وہ کوئی بڑی شخصیت وغیرہ نہیں تھا، بس جیسے اندھوں میں کانا راجہ ہوتاہے، کچھ ایسا ضرور تھا، اور یہ جو شاہین کا تصور ہے، یہ انہوں نے معروف پشتو شاعر خوش حال خان خٹک سے مستعارلیا ہے ‘‘۔

علامہ محمد اقبال ایک عظیم مفکر تھے جن کی فکر کسی مخصوص علاقے یا قوم تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے خودی کا جو پیغام دیاہے، وہ ایک ابدی اور عالمگیر پیغام ہے۔ ضرورت ہے تو اسے سمجھنے اور مثبت انداز میں سمجھنے کی۔ یہاں ان کے عقیدت مندوں اور شارحین کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ ایسے خیالات اور رویوں کی جانچ پرکھ نہایت احتیاط اور دیانت داری سے کریں اور اصل حقائق کو مثبت انداز میں سامنے لائیں تاکہ اقبالؒ کا فلسفہ اور ان کی فکر اور شاعری منفی انداز میں کی گئی تنقید کانشانہ نہ بنے۔












سیرت النبی ﷺ کے خلاقی پہلو اور فکر اقبالؒ

پروفیسر میاں انعام الرحمن

غلطیاں بانجھ نہیں ہوتیں‘ یہ بچے دیتی ہیں۔ اگر ہم مسلم تاریخ اور مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی کا مطالعہ اس تناظر میں کریں تو نہ صرف اس فقرے کی صداقت کو تسلیم کر لیں گے بلکہ معروضی انداز سے تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی غلطی تک پہنچنے کے قابل بھی ہو سکیں گے۔ جو بنیادی غلطی ہم سے سرزد ہوئی‘ جس نے ہمیں راہ حق سے بھٹکا دیا اور بوجوہ قدروں کے بگاڑ کا سبب بنتے ہوئے دین کی حقیقی صورت ہماری نظروں سے اوجھل کر دی‘ وہ ’’عمل‘‘ سے فرار ہے:

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

پہلے سے طے شدہ اور خود ساختہ موقف کو اپنانے کے بجائے اگر کوئی سلیم الفطرت شخص دین اسلام کا مطالعہ کرے تو اس پر نہایت سہولت سے واضح ہو جائے گا کہ دین اسلام کا مخاطب انسان ہے اور اس کا غالب رجحان نظری کے بجائے عملی ہے۔ اس طرح پورے دین کی تصویر ’’عملی انسان‘‘ کے الفاظ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ دین اسلام کا امتیازی وصف یہ ہے کہ ’’عملی انسان‘‘ کا تصور بھی محض نظری طور پر پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس کی نظری تصویر کے متوازی ایک عملی شخصیت بطور ’’نمونہ کامل‘‘ موجود ہے۔ یہ نمونہ کامل وقت کے دھارے میں گم نہیں ہوا بلکہ دین اسلام کے ’’عملی انسان‘‘ کے اظہار اور تسلسل کے لیے نظری پہلو کا حصہ بن چکا ہے۔ بقول اقبال:

وہی قرآں‘ وہی فرقاں‘ وہی یاسیں‘ وہی طٰہٰ

رسول کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی مبارک زندگی قرآن مجسم تھی۔ آپ کے اقوال واعمال حق وباطل کے درمیان فرقان تھے۔ چونکہ قرآن مجید کی روش اختیاری ہے اور رسول پاک ﷺ کی حیات مبارکہ مجسم قرآن ہے‘ لہذا نبی کی زندگی لازماً عملی اور اختباری روش کی حامل ہوگی۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ اپنی کتاب ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کے پہلے خطبے میں رقم طراز ہیں:

’’صحیح بخاری اور دوسری کتب حدیث میں حضور کے اس مشاہدے کی پوری تفصیل درج ہے جس کا تعلق ابن صیاد ایسے وارفتہ نفس یہودی نوجوان سے تھا اور جس کی وجدانی کیفیتوں نے حضور رسالت مآب ﷺ کی توجہ اپنی طرف منعطف کر لی تھی۔ حضور نے اس کی آزمائش کی‘ طرح طرح کے سوالات پوچھے اور مختلف حالتوں میں اس کا معائنہ کیا۔ ایک مرتبہ آپ ایک درخت کے پیچھے کھڑے ہو گئے تاکہ وہ الفاظ سن سکیں جو ابن صیاد آپ ہی آپ بڑبڑا رہا تھا لیکن اس کی ماں نے اسے حضور کی موجودگی سے متنبہ کر دیا جس پر اس کی وہ حالت کافور ہو گئی اور حضور نے فرمایا کہ اگر اس کی ماں اسے متنبہ نہ کر دیتی تو ساری حقیقت کھل جاتی۔‘‘

ڈاکٹر اقبال سلسلہ گفتگو کو بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’بہرحال یہ ابن خلدون تھا جس نے عالم اسلام میں سب سے پہلے یہ سمجھا کہ حضور کے اس طرز عمل کے معنی فی الحقیقت کیا ہیں اور پھر اس کی قدروقیمت کا اندازہ کرتے ہوئے بڑی حد تک وہ مفروضہ قائم کر لیا جس کو آج کل نفوس تحت الشعور سے منسوب کیا جاتا ہے۔‘‘

ابن خلدون کی اس توصیف سے پہلے اقبال لکھتے ہیں کہ:

’’بایں ہمہ اصحاب رسول ﷺ جو اس واقعہ پر‘ جسے گویا تاریخ اسلام میں نفسیاتی تحقیقات کا پہلا واقعہ تصور کرنا چاہیے‘ موجود تھے، علی ٰ ہذا حضرات محدثین بھی‘ جنہوں نے آگے چل کر یہ ساری روایت باحتیاط نقل کی‘ حضور ﷺ کے اس طرز عمل کی صحیح اہمیت سمجھنے سے قاصر رہے اور اس کی تشریح اپنے معصومانہ انداز میں کی۔‘‘

ڈاکٹر اقبال نے محدثین کے طرز عمل کی بابت یہاں بہت محتاط الفاظ (’’معصومانہ انداز‘‘) استعمال کیے ہیں لیکن ضرب کلیم میں کہتے ہیں:

حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں

آہ محکومی وتقلید وزوال تحقیق

علماء کرام اور حضرات محدثین کا طرز عمل اس امر کا غماز ہے کہ انہوں نے اپنے مخصوص ذہنی سانچے سے باہر نکل کر ماحول اور حالات پر واقعیت پسندانہ نظر نہیں دوڑائی۔ اس کے برعکس رسالت مآب ﷺ کی حیات مبارکہ میں ماحول اور حالات کو بھانپ لینے کی قوت اور واقعیت پسندی بدرجہ اتم موجود ہے۔ دعوت اسلام کا آغاز‘ کوہ صفا کا واقعہ‘ ہجرت مدینہ‘ میثاق مدینہ‘ صلح حدیبیہ‘ غزوات میں ٹھوس حکمت عملی‘ فتح مکہ پر مخصوص طرز عمل‘ بین الاقوامی سفارت کاری وغیرہ اس سلسلے میں چند مثالیں ہیں۔ جیسا کہ ذکر ہوا‘ رسول اکرم ﷺ کی زندگی مجسم قرآن تھی لہذا یہ واقعیت پسندی قرآنی آئیڈیلز کی متشکل صورت تھی۔

پاکستان میں سیرت النبی ﷺ پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ بازار میں بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ وزارت مذہبی امور ہر سال سیرت کانفرنس کا انعقاد کرتی ہے لیکن افسوس کامقام ہے کہ مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو رہے۔ معاشرے کی صورت پذیری قرآنی آئیڈیلز اور نبی ﷺ کی سنت کے مطابق نہیں ہو رہی۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ بنیادی وجہ وہی ہے: بے عملی۔ چونکہ ہمارا عمومی رویہ بے عملی کا بن چکا ہے‘ اس لیے نظری مباحث‘ مثلاً کانفرنسوں میں تقاریر‘ مقالے‘ کتابیں وغیرہ‘ مخصوص‘ متعین اور لگی بندھی نوعیت کی چیزیں ہیں۔ سیرت کانفرنس کے مقالہ جات کے عنوانات دیکھیے۔ اگر اتفاق سے عنوانات میں کہیں واقعیت پسندی نظر آئے گی تو مواد‘ اسلوب اور صاحب مقالہ کی اپروچ عنوان کا ستیاناس کر دے گی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اگر قومی سطح کی کانفرنسوں کے مقالہ جات کا جب یہ معیار ہے تو صورت حال کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دین سے رغبت رکھنے والے طبقے کی اکثریت اس مخصوص بے عملی کے سبب سے گرفتار خرافات ہے۔ بقول اقبال ایک باعمل مرد حر‘ جو واقعیت پسندی سے محترز نہیں ہوتا‘ وقت کی لگام ہاتھ میں لے لیتا ہے:

آزاد کا اندیشہ حقیقت سے منور

محکوم کا اندیشہ گرفتار خرافات

لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں کتنے باعمل مرد حر موجود ہیں؟ کیونکہ ایسے افراد کی کاوشوں سے ہی ’’حقیقت‘‘ منور ہو کر سب کو اپنی طرف کھینچے گی۔ نبی ﷺ کو حقیقت کی کتنی جستجو رہتی تھی‘ یہ ان دعائیہ کلمات سے واضح ہے جو اکثر وبیشتر آپ کی زبان پر جاری ہوتے تھے: اے اللہ‘ مجھ کو اشیا کی اصل حقیقت سے آگاہ فرما۔‘‘ ڈاکٹر اقبال کی رائے میں اشیا کی اصل حقیقت تک رسائی‘ قرآن مجید کی رو سے‘ انسان کی اختباری روش میں پنہاں ہے۔ اقبال کے مطابق قرآن مجید نے انسان کے ایسے طرز عمل کو اس کی روحانی زندگی کا ایک ناگزیر مرحلہ ٹھہرایا ہے۔ چنانچہ تعلیمات قرآن کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے حقیقت کے اس پہلو کو جس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے‘ بے حد اہمیت دی۔ ڈاکٹر اقبال رقم طراز ہیں کہ:

’’یہ فطرت ہی کے پیہم انقلابات ہیں جن کے پیش نظر ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ اپنے آپ کو نئے نئے سانچوں میں ڈھال دیں۔ پھر جوں جوں ہم اپنی ذہنی کاوشوں سے علائق فطرت پر غلبہ حاصل کرنے کی سعی کرتے ہیں‘ ہماری زندگی میں وسعت اور تنوع پیدا ہوتا اور ہماری بصیرت تیز تر ہو جاتی ہے۔ یونہی ہم اس قابل ہو جاتے ہیں کہ محسوسات ومدرکات کے زیادہ نازک پہلو اپنی گرفت میں لے آئیں اور یونہی اشیا کے مرور زمانی پر غور وفکر کرتے کرتے ہم اپنے اندر یہ استعداد پیدا کر لیتے ہیں کہ لازمانی کا تعقل کر سکیں۔‘‘

قارئین کرام! اس اقتباس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی زندگی میں وسعت اور تنوع پیدا نہیں ہونے دیا۔ بوجوہ ہماری بصیرت کہنگی کا طواف کر رہی ہے۔ قرآن مجید کی اختباری روش اور سیرت النبی ﷺ کے خلاقی پہلو سے محترز ہونے کے باعث ہم فطری انقلابات کا سامنا کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ اسی گھبراہٹ سے وہ بے عملی پھوٹ رہی ہے جس کا اوپر کی سطروں میں ذکر ہوا حالانکہ انسان تو انسان بنتا ہی باعمل اور تخلیق کار ہونے سے ہے۔ اقبالؒ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’جب انسان کے گرد وپیش کی قوتیں اسے اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں تو وہ ان کے جیسی چاہے شکل دے سکتا اور جس طرف چاہے موڑ سکتا ہے لیکن اگر اس کا راستہ روک لیں تو اسے یہ قدرت حاصل ہے کہ اپنے اعماق وجود میں اس سے بھی ایک وسیع تر عالم تیار کر لے جہاں اس کو لا انتہا مسرت اور فیضان خاطر کے نئے نئے سرچشمے مل جاتے ہیں۔ اس کی زندگی میں آلام ہی آلام ہیں اور اس کا وجود برگ گل سے بھی نازک۔ بایں ہمہ حقیقت کی کوئی شکل ایسی طاقت ور‘ ایسی ولولہ خیز اور حسین وجمیل نہیں جیسی روح انسانی۔ لہذا باعتبار اپنی کنہ کے‘ جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے‘ انسان ایک تخلیقی فعالیت ہے‘ ایک صعودی روح جو اپنے عروج وارتقا میں ایک مرتبہ وجود سے دوسرے میں قدم رکھتا ہے ...... انسان ہی کے حصے میں یہ سعادت آئی ہے کہ اس عالم کی گہری سے گہری آرزوؤں میں شریک ہو جو اس کے گرد وپیش میں موجود ہے اورعلیٰ ہذا اپنی کائنات کی تقدیر خود متشکل کرے‘ کبھی اس کی قوتوں سے توافق پیدا کرتے ہوئے اور کبھی پوری طاقت سے کام لیتے ہوئے اسے اپنی غرض وغایت کے مطابق ڈھال کر۔‘‘

اس پیرا گراف کا آخری فقرہ توجہ طلب ہے۔ اقبال لکھتے ہیں کہ:

’’اس لحظہ بلحظہ پیش رس اور تغیر زا عمل میں خدا بھی اس کا ساتھ دیتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پہل انسان کی طرف سے ہو۔‘‘

قارئین کرام! تسخیر فطرت‘ واقعیت پسندی اور تخلیقی اپج کے اعتبار سے ہماری عصری تاریخ سے مترشح ہوتا ہے کہ ہم یہ شرط پوری کرنے پر تیار نہیں۔ حکومتی بے حسی پر بات کرنے کا فائدہ ہی نہیں کہ حکومتوں کے اپنے ایجنڈے ہوتے ہیں۔ ملال کی بات تو یہ ہے کہ دینی مدارس جمود کی انتہاؤں کو چھو چکے ہیں۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کا جو حشر ہو رہا ہے اور پاکستان میں خود ان مدارس کی جو درگت بنتی نظر آرہی ہے‘ ا س سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان مدارس کے کرتا دھرتا لوگ ’’تخلیقی فعالیت‘‘ کے منصب پر، غالباً، کبھی فائز نہیں ہو سکتے۔ اپنی طرف سے پہلے کرنے کے بجائے وہ معاملہ خدا کے سپرد کیے ہوئے ہیں‘ حالانکہ:خدائے زندہ‘ زندوں کا خدا ہے۔

قرآن مجید اور سیرت خاتم النبیین ﷺ ہماری زندگیوں میں تبھی انقلاب لا سکتے ہیں اگر ہم سب سے پہلے اپنے گرد وپیش کے حالات اور ماحول پر شعوری گرفت قائم کر لیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ عصر حاضر اور اس کے تقاضوں کو سمجھنا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دین اسلام کی حقیقی روح کو بھی تحقیق وجستجو کے زور پر خرافات‘ توہمات اور وہم وگمان کے چنگل سے چھڑانا ہے:

شیر مردوں سے ہوا بیشہ تحقیق تہی

رہ گئے صوفی وملا کے غلام اے ساقی

ہمیں تقلید محض کے بجائے بیشہ تحقیق سے ’’جدت کردار‘‘ بھی تراشنا ہے:

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

لفظ گری اور اصطلاحوں کی طوطا مینا میں الجھنے کے بجائے عصری تفہیم کی جیکٹ پہن کر‘ قرآن میں غوطہ زن ہو کر‘ چن چن کر ایسے قرآنی آئیڈیلز معاشرتی سطح پر لانے ہیں جو جدت کردار کی تشکیل میں رہنمائی کر سکیں:

عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف

ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں

گویا اقبال عصر حاضر کے تقاضاؤں سے پر امید ہیں کہ انہی کے بطن سے جدت کردار کی راہیں ہویدا ہوں گی لیکن ’’ابلیسی خوف‘‘ بنیادی رکاوٹ ہے لہذا دین اسلام کو معاشرتی سطح پر زندگی میں سمونے کے لیے ضروری ہے کہ:

۱۔ عصر حاضر کو سمجھا جائے اور ابلیسی خوف کو دور کیا جائے۔

۲۔ عصر حاضر کے تقاضوں اور مسائل کی بابت بھی کماحقہ آگاہی حاصل کی جائے۔

ان دو تقاضوں کو پورا کیے بغیر عصر حاضر کے چیلنج کا سامنا نہیں کیا جا سکتا:

جب تک نہ زندگی کے حقائق پہ ہو نظر

تیرا زجاج ہو نہ سکے گا حریف سنگ

مثلاً ہم سب جانتے ہیں کہ آج کا دور تخصیص (Specialization) کا دور ہے۔ فرد کی زندگی کے نظری اور عملی پہلوؤں میں یک رخی اپروچ ہے۔ تخصیص کی بربریت جلد ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے چنانچہ اب مغربی ممالک میں Working Father (کمائی میں مصروف باپ) جیسے معاشرتی موضوعات پر کام ہو رہا ہے۔ زندگی کی تیز رفتاری اور تخصیص نے دو آتشی تلوار کا روپ دھار لیا ہے۔ ایک آدمی اپنی زندگی کی مختلف حیثیتوں میں توازن ملحوظ نہیں رکھ پاتا جس سے بے پناہ معاشرتی‘ نفسیاتی اور جذباتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اہل مغرب اپنے انداز سے ان مسائل کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ نبی ﷺ کی حیات طیبہ ہماری بہتر راہنمائی کر سکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ آج کے عہد کے تناظر میں رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کریں اور یہ دکھائیں کہ آپ باپ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرتی زندگی میں بہت فعال تھے۔ آپ نے معاشرتی فعالیت اور پدرانہ ذمہ داریوں میں بہترین توازن کا مظاہرہ کیا اور تخصیص کے بجائے شخصی جامعیت کی راہ اختیار کی۔ شخصی جامعیت کے فوائد وثمرات اور اہمیت کے ضمن میں‘ اہل مغرب کا تخصیص کی بربریت پر کیا ہوا تحقیقی کام نہایت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے:

’’...... جب ۱۸۹۰ء میں تیسری نسل نے یورپ کے عقلی افق پر خود کو نمایاں کیا تو ایسے سائنس دان سامنے آئے جن کا موازنہ تاریخ میں کسی اور سے نہیں کیا جا سکتا۔ اور یہ وہی شخص ہے جس کو تمام لوگوں میں سے صائب الرائے قرار دیا جاتا ہے لیکن وہ تو صرف ایک سائنس سے آشنائی رکھتا ہے بلکہ اس سائنس کے بھی کسی ایک کونے کھدرے کو جانتا ہے جس کا وہ ایک فعال تفتیش کار ہے۔ وہ تو اس کو بھی ایک خوبی قرار دیتا ہے اور اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ اس چھوٹے سے دائرۂ کار کے باہر کیا موجود ہے جس کی اس نے خاص طور پر آب یاری کی ہے اور وہ علم کے عمومی شعبوں کے تجسس کو Dilettantism قرار دیتا ہے۔‘‘

’’...... سوال یہ ہے کہ ہر آئندہ نسل کا سائنس دان جو اپنی کارکردگی کے دائرہ عمل کو سکیڑتا چلا گیا ہے‘ سائنس کے دوسرے شعبوں کے ساتھ اس کا رشتہ بھی کمزور پڑ رہا ہے کیونکہ اس کی کائنات کی یہی روابطی توجیہ ہو سکتی ہے اور شاید اسی کا نام سائنس‘ کلچر اور یورپی تہذیب ہے۔‘‘

’’اور پھر انسان خود کو ان شعبوں میں سے کسی کے اندر مقید کر لیتا ہے اور باقی سب کچھ فراموش کر دیتا ہے۔ اس طریق کار کا ٹھوس اور درست ہونا عارضی طور پر اس کے حق میں چلا جاتا ہے مگر حقیقی طور پر یہ علم کا بکھراؤ (Disarticulation) ہے۔‘‘

’’تخصیص کار عالم نہیں ہے کیونکہ وہ ہر اس شے سے لاعلم ہے جو اس کے مخصوص دائرہ کار میں نہیں آتی۔ مگر وہ لاعلم بھی نہیں کیونکہ وہ بہرحال ایک سائنس دان تو ہے اور وہ اپنے حصے کی کائنات کو تو اچھی طرح جانتا ہے۔ چنانچہ ہمیں کہنا پڑے گا کہ وہ علم رکھنے والا لا علم ہے اور یہ بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے کیونکہ اس بیان میں یہ بات مضمر ہے کہ وہ لاعلم آدمی ہے۔ ...... اور حقیقت میں تخصیص کار کا رویہ یہی کچھ ہے‘ سیاست میں‘ آرٹ میں‘ سماجی اعتبار سے اور دوسرے علوم کے متعلق بھی‘ کیونکہ وہ ان معاملات میں ایک قدیم اور لاعلم انسان کا رویہ اپناتا ہے۔‘‘

’’اس غیر متوازن تخصیص کاری کا‘ جو آج کل مروج ہے‘ یہ نتیجہ فکر نکلا ہے کہ اب دنیا میں جس قدر سائنس دان موجود ہیں‘ اتنے کبھی نہیں تھے مگر جہاں تک ثقہ (Cultured)لوگوں کا تعلق ہے‘ وہ تو اتنے بھی نہیں ہیں جتنے مثال کے طور پر ۱۷۵۰ء میں تھے۔‘‘ (بحوالہ ’’سائنس کے عظیم مضامین‘‘، ترجمہ : شہزاد احمد)

قارئین محترم! ان اقتباسات سے میرے موقف کی تصویر پوری طرح آپ پر واضح ہو گئی ہوگی۔ سیرت النبی ﷺ کے ضمن میں جامعیت اور توازن کے موضوعات پر اگرچہ کافی لکھا جا چکا ہے لیکن اس زاویے اور عصر حاضر کے تناظر میں نہیں لکھا گیا۔ اگر ہم عصر حاضر اور اس کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نبی ﷺ کی حیات مبارکہ کے خلاقی پہلو منظر عام پر لا سکیں تو نہ صرف اپنی بے عملیت کا خاتمہ کر سکیں گے بلکہ مغرب کو درپیش معاشرتی مسائل کا حل بھی فراہم کر سکیں گے اور یہی آدمیت ہے جس کا تقاضا دین اسلام ہم سے کرتا ہے۔ جامعیت اور توازن سے ہی آدمیت اپنائی جا سکتی ہے۔ آج بھی انہی کے فقدان سے ایک معاشرتی بحران منہ کھولے کھڑا ہے:

آدمیت زاحترام آدمی 

باخبر شو از مقام آدمی

کسی معاشرے کے اندر اور اقوام کے مابین احترام ومقام آدمی کا نفوذ صرف شخصی جامعیت کا متقاضی ہے۔













علامہ اقبال کے تصورات تاریخ

پروفیسر شیخ عبد الرشید

عصر حاضر کے عالم اسلام میں حکیم الامت علامہ اقبال اپنی بصیرت حکیمانہ، تبحر علمی، وسعتِ فکر، لطافت خیال اور فلسفیانہ ژرف نگاہی کی بنا پر ایک منفرد مقام اور مسند امتیاز وافتخار کے حامل ہیں۔ ملت اسلامی کی فکری وادبی تاریخ میں کوئی ایسا شاعر اور مفکر دکھائی نہیں دیتا جس کی فکر اقبال کی طرح جامع اور ہمہ گیر ہو۔ اپنے ہمہ جہت افکار کی وجہ سے ان کے بارے میں اتنا کچھ کہا اور لکھا گیاہے کہ وہ ایک پورے کتب خانے کا سرمایہ ہوسکتاہے۔ ان کا فلسفہ اور شاعری لاتعدار ارباب قلم کا موضوع نگارش بنا، لیکن تاحال ان کے تصور تاریخ پر کوئی جامع کام سامنے نہیں آیا۔ علامہ اقبال کا کلام انسانی تاریخ کا آئینہ دار ہے اور ان کی تالیفات بڑی حد تک انسان کے فکر وعمل کا درست تجزیہ ہیں۔ ’’فکر انسانی کی تشکیل نو‘‘ میں پروفیسر محمد عثمان رقمطراز ہیں کہ:

’’علامہ اقبال کی زندگی کے آخری سالوں میں جہاں علمی دنیا پر پروفیسر وائٹ ہیڈ اور آئن سٹائن کی تحریروں کے باعث زمان ومکان کی حقیقت وماہیت میں غیر معمولی دلچسپی لے رہی تھی وہاں کارل مارکس اور بعض نامور پورپی تاریخ دانوں کی بدولت نظریہ تاریخ کا موضوع بھی خاص اہمیت کرگیا تھا ۔۔۔چنانچہ علامہ کے تاریخ کے اسلامی تصور پر بھی گراں قدر خیالات کا اظہار کیا‘‘(۱)

اس مضمون میں ہم علامہ اقبال کے تصور تاریخ کو اختصار سے بیان کرنے کی ناچیز سعی کریں گے۔

سادہ الفاظ میں انسانی معاشرے میں پیش آنے والے واقعات اور حوادث ،اور انسان کے اعمال وافعال کے سلسلے کو انسانی تاریخ کہتے ہیں اور جب ہم لفظ تاریخ مجر د استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد انسانی تاریخ ہوتی ہے۔ تاریخ کا لغوی معنی تحریرکرنا، قلم بند کرنا، رجسٹر میں اندراج کرنا وغیرہ ہے، او ر اصطلاحی معنوں میں یہ عہد گزشتہ کی داستان ہے جس کا تعلق انسان سے ہے۔ آرنلڈ ٹائن بی زیادہ تخصیص سے کہتاہے What we call histroy is the histroy of man in civilized society.(2) یعنی تاریخ کا نقطہ آغاز وہ دور ہے جب انسان نے ایک مہذب معاشرے کے فرد کی حیثیت اختیار کی۔ تاریخ منبع علوم ہے۔ عمرانی علوم کی ایسی کوئی شاخ نہیں جس کا سلسلہ نسب تاریخ سے نہ ملتاہو۔ یہ تاریخ ہی ہے جس نے انسانوں کے اجتماعی تجربات کو اپنے سینے میں محفوظ رکھا۔

ممتاز دانشور ومورخ البدر حسین الاہدل علم تاریخ کے حوالے سے کہتاہے کہ 

’’یہ بڑا مفید علم ہے۔ اس کے ذریعے سے خلف کو سلف کے حالات معلوم ہوتے ہیں اور راست باز لوگ ظالموں سے ممتاز ہوجاتے ہیں،مطالعہ کرنے والے کو یہ فائدہ ہوتاہے کہ وہ عبرت حاصل کرتاہے اور گزشتہ لوگوں کی عقل ودانش کی قدر پہچانتاہے اور بہت سے دلائل کا پتہ لگالیتاہے۔ اگر یہ علم نہ ہوتاتو تمام حالات، مختلف حکومتیں، حسب ونسب اور سبھی علل واسباب نامعلوم رہتے اور جاہلوں اور عقل مندوں کے مابین تمیز ہی باقی نہ رہتی۔‘‘ (۳) 

یہی نہیں کہ مطالعہ تاریخ اسلاف کے بارے میں معلومات فراہم کرتاہے بلکہ انسان کا مرقوم ماضی تحقیق ودانش کے لیے ایک چیلنج ہوتاہے۔ سیسرو نے کہا تھا کہ تاریخ زمانہ کی مشاہد، صداقت کی روشنی اور زندگی کی ملکہ ہے لہٰذا اس کا مطالعہ غوروفکر کا متقاضی ہے۔ جرمن مفکر ہیگل کا کہنا ہے کہ ’’فلسفہ تاریخ یہی ہے کہ تاریخ کا مطالعہ غوروفکر کے ساتھ کیا جائے۔‘‘ (۴) فلسفہ تاریخ کا بانی ابن خلدون بھی یہی بات زور دے کر کہتاہے۔

علم تاریخ کی اس اہمیت وافادیت کے پیش نظر قرآن مجید نے اس پر خاص زور دیاہے اور بار بار ہمیں دعوت دی ہے کہ ہم اپنے سے پہلی قوموں کے حالات اور ان کے عروج وزوال کے اسباب پر غور کریں اور ان سے سبق وعبرت حاصل کریں، کیونکہ ہمارا حال ہمار ے ماضی کا مجموعہ برائے عمل ہے اورہمارا ماضی سمجھنے کے لیے پھیلا ہواہے۔ اسی حوالے سے ابن خلدون لکھتاہے کہ ’فالماضی اشبہ بالاتی من الماء بالماء‘ (۵) یعنی عہد گزشتہ، عہد آئندہ سے اس قدر مشابہ ہے کہ پانی بھی اس قدر پانی سے مشابہ نہیں ہوتا ‘‘۔

قرآن مجید میں تاریخ کو ’عبرۃ لاولی الالباب‘ اور ’موعظۃ للمتقین‘ کے گراں پایہ اور موزون ترین خطابات سے سرفراز کیاگیاہے۔ ایک آفاقی الہامی کتاب ہونے کے ناتے قرآن مجید کا ایک اپنا نظریہ تاریخ ہے۔ قرآن کریم کا تصور تاریخ ہی تھا جس کے زیر اثر ابن اسحاق، طبری اورمسعودی جیسے شہرۂ آفاق مورخ پیداہوئے اور جس کی بدولت مسلمانوں نے اپنے آخری دور میں ابن خلدون جیسے فلسفی مورخ کو جنم دیا۔ علامہ اقبال کو بھی قرآن حکیم سے گہرا شغف تھا۔ ان کی فکر کا منبع ومرکز بھی قرآن حکیم ہی ہے۔ اس کتاب مقدس نے اپنے پیروکاروں کے خیالات وافکار پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں، جیسا کہ فقیر سید وحید الدین لکھتے ہیں:

’’ڈاکٹر صاحب (علامہ اقبال) اپنی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں قیام فرماتھے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ پر ایک نئے ملاقائی آئے۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اتنے میں انہو ں نے ڈاکٹر صاحب سے ایک سوال کردیا۔ کہنے لگے: آپ نے مذہب، اقتصادیات، سیاسیات، تاریخ اور فلسفہ وغیرہ علوم پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں، ان میں سب سے بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب آپ کی نظر میں کون سی گزری ہے؟ ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جواب میں کرسی میں سے اٹھے اور نووارد ملاقاتی کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا کہ تم ٹھہرو، میں ابھی آتاہوں۔ یہ کہہ کر وہ اندر چلے گئے۔ دو تین منٹ بعد واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ اس کتاب کو انہوں نے اس شخص کے ہاتھوں پر رکھتے ہوئے فرمایا ’’ قرآن مجید‘‘۔ (۶) 

یہ بات بلا تامل لکھی جاسکتی ہے کہ فکر اقبال کا سب سے بڑا ماخذ قرآن حکیم ہی ہے۔ قرآن پاک سے بڑا صحیفہ دانش وفکر اور رہنمائے صراط مستقیم اور کوئی نہیں۔ اس کتا ب الٰہی کا ورق ورق الٹیے تو یہ ماضی کی گم کردہ راہ قوموں، جابر وقاہر بادشاہوں، فرعونوں، ہامانوں، عاد وثمود، آل شعیب، اہل مدین، قوم لوط، بنی اسرائیل اور ان کی گمراہیوں کے قصے بار بار دہراتی ہے اور اس لیے دہراتی ہے کہ محمد ﷺ کو ہادی ورہبر ماننے والی قوم گزشتہ قوموں کی غلطیوں سے عبرت پکڑے اور سیدھی راہ پر چلنے کا سلیقہ سیکھے۔ مسلم مفکرین قرآنی تصور تاریخ سے بہت متاثر ہوئے۔ علامہ اقبال ان مسلم مفکرین میں سے ہیں جو فلسفہ تاریخ کے بانی علامہ ابن خلدون کے تاریخی شعور کے حوالے سے اپنے خطبات میں یہ کہہ گئے کہ ’’بہ نگاہ حقیقت دیکھا جائے تو ابن خلدون کا مقدمہ سرتاسر اس روح سے معمور ہے جو قرآن کی بدولت اس میں پیدا ہوئی۔ وہ اقوام وامم کے عادات وخصائل پر حکم لگاتاہے تو اس میں بھی زیادہ تر قرآن کریم سے ہی استفادہ کرتاہے‘‘۔ اقبال کی اپنی فکر خود قرآن مجید ہی سے متاثر تھی، چنانچہ انہوں نے قومی زندگی کے لیے تاریخ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مستقبل کی صحت مند تعمیر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک تعمیر کرنے والے اپنی تاریخ، اپنے ماضی سے پوری طرح باخبر نہ ہوں اور اس کی صحت مند روایات کو تعمیر نو کے ڈھانچے میں اچھی طرح محفوظ نہ کرلیں۔

اقبال کے تصور تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ خیال رہے کہ وہ کوئی پروفیشنل مورخ یا فلسفئ تاریخ نہ تھے۔ بنگالی دانشور ڈی ایم اظرف اپنے ایک مضمون "Iqbal and the process of history" کی ابتدا میں لکھتے ہیں:

Iqbal is not a philosopher of history in the technical sense of the term. For he has not attempted an explanation of the process of history as had been done by Ibne khuldun, Kant, Herder, Hegel, Comte, Karl Marks and Spengler. Yet his writings in prose and poetry make it abundantly clear that he has a single principle which is the key to unlock the door of the mystery of historical process."(7)

بلا شبہ اقبال تکنیکی معنی میں فلاسفر آف ہسٹری نہیں تھے مگر ان کی تاریخ فہمی سے انکار ممکن نہیں۔ تصور تاریخ کے حوالے سے ان کا کوئی کام جامع صورت میں موجود نہیں، مگر اقبال کی نثرو نظم میں جابجا اس تصور کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ وہ کچھ عرصہ تاریخ پڑھاتے بھی رہے۔ ایم اے کرنے کے بعد علامہ اقبال بی او ایل کے سال اول اور سال دوم کی جماعتوں کو J .R. Seeleyکی کتاب Expantion of England  پڑھانے کے علاوہ ہندوستان اور انگلستان کی تاریخ کے متعلق نوٹس لکھواتے تھے اور انھوں نے Stults W.کی کتاب کا اردو ترجمہ کیا اور اس کا خلاصہ بھی لکھا۔ (۸) علامہ اقبال نہ صرف معلم تاریخ رہے بلکہ ممتحن تاریخ بھی رہے۔ خود لکھتے ہیں کہ ’’ایف اے کے امتحان کے پرچے مضمون تاریخ یونان وروم کے دیکھ رہاہوں۔ سامنے بنڈل رکھا ہواہے ‘‘(۹) علم تاریخ سے علامہ اقبال کی دلچسپی تاریخ کا معلم اور ممتحن ہونے کے علاوہ مورخ کی حیثیت سے بھی ظاہر ہوئی۔ فقیر وحید الدین لکھتے ہیں کہ علامہ نے اردو زبان میں تاریخ ہند لکھی تھی جو ۱۴؍۱۹۱۳ء میں مڈل کی جماعتوں کو پڑھائی جاتی تھی۔ اس کتاب کا خلاصہ امرتسر کے ایک پبلشرنے ۱۹۱۴ء میں شائع کیا تھا۔ رسمی صورت میں تاریخ پڑھانے سے ۱۹۰۵ء میں قطع تعلق ہوا، جب وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے، لیکن غیر رسمی صورت میں وہ تمام عمر تاریخ کے فلسفے، کسی قوم یا ملک کی تاریخ کے مختلف ادوار اور پہلوؤں سے متعلق اظہار خیال کرتے رہے۔ ماحول اور محرکات مختلف ہونے کی وجہ سے اظہار خیال کی صورتوں میں تبدیلی رونما ہوتی رہی اور اقبال اپنے کلام اور کام میں تاریخ کے معلم، مورخ اور فلسفی ہونے کی جھلکیاں دکھاتے رہے۔ فلسفہ تاریخ اور اس کے فنی تقاضوں کے حوالے سے علامہ کی وہ تحریر یں خاص طورپر قابل ذکر ہیں جو ان کی ذاتی ڈائری میں ملتی ہیں۔ علامہ نے اپنی ذاتی ڈائری ۱۹۱۰ء میں لکھی تھی او ر ’’شذرات فکر اقبال‘‘ کے نام سے اردو میں بھی چھپ چکی ہے ۔

علامہ نے اپنی ڈائری میں تاریخ کی تعریف ان خوبصورت الفاظ میں کی ہے کہ ’’تاریخ ایک طرح کا ضخیم گرامو فون ہے جس میں قوموں کی صدائیں محفوظ ہیں۔‘‘ (۱۰) اقبال کا خیال ہے کہ ماضی کے واقعات وحوادث کو محض تاریخ واردیکھنے یا ترتیب وار لکھنے کا نام تاریخ نہیں ہے بلکہ واقعات وحوادث کے اسباب وعلل کو سمجھنے اور ان کے ربط باہمی کو جاننے اور ان کی روشنی میں قوموں کے عروج وزوال کے اصول اخذ کرنے کا مفہوم بھی شامل ہے، اسی لیے وہ لکھتے ہیں: 

’’تاریخ محض انسانی محرکات کی توجیہ وتفسیر ہے، لیکن جب ہم اپنے معاصرین بلکہ روز مرہ زندگی میں گہرے دوستوں اور رفیقوں کے محرکات کی بھی غلط توجیہیں کر بیٹھتے ہیں تو جو لو گ ہم سے صدیوں پہلے گزرے ہیں، ان کے محرکات کی صحیح تعبیر وتوجیہ اس سے کہیں زیادہ دشوار ہے، لہٰذا تاریخ کی روداد کو بڑے احتیاط سے تسلیم کرنا چاہیے۔‘‘ (۱۱)

انفرادی نقطہ نظر سے تاریخ کی اہمیت زیادہ ترعلمی ونظری ہے، لیکن قومی زاویے سے تاریخ بقاکی ضامن اور استحکام وتسلسل کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ کے چوتھے لیکچر ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں اقبال نے تاریخ کی اہمیت عیاں کرنے کے لیے اس حقیقت کا بڑے موثر انداز میں اظہار کیاہے کہ قرآن کریم نے جو علم کے تین ذرائع بتائے ہیں، ان میں سے ایک تاریخ ہے۔ قرآن مجید جب باربار یہ فرماتاہے کہ ’سیرو فی الارض ثم انظرو کیف کان عاقبۃ المکذبین‘ تو اس بات کا اعلان کررہا ہوتاہے کہ گزرے ہوئے واقعات اور بیتی ہوئی سرگزشتیں علم وبصیرت کا منبع ہیں۔ علامہ کے خیال میں تاریخ وہ آئینہ ہے جس میں دیکھنے سے انسان اپنے آپ کو جانتا پہچانتاہے اور اس کے ربط سے اعلیٰ مقاصد ونصب العین حاصل کرتاہے اور ان تک پہنچنے کا راستہ پاسکتاہے۔ مورخ ابو بکر شبلی (متوفیٰ ۹۴۶ھ) کا قول تھا کہ ’’عام لوگ کہانی سن کر اپنا دل بہلاتے ہیں، اس کے برعکس خواص ان کہانیوں سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (۱۲) اسی پس منظر میں اقبال نے اپنے خطبات میں تاریخ کے اسلامی تصور پر گراں قدر خیالات کا اظہار کیا ہے۔قرآن حکیم نے تاریخ کو ’’ایام اللہ‘‘ سے تعبیر کیاہے۔ اس کی بنیادی تعلیم یہی ہے کہ اقوام کا محاسبہ انفرادی اور اجتماعی دونوں لحاظ سے کیاجاتاہے۔ مزیدیہ کہ انہیں بداعمالیوں کی سزا دنیا میں بھی ملتی ہے اور اس کے لیے قرآن بار بار تاریخ کا حوالہ دیتاہے۔ اقبال کہتے ہیں :

’’عالم اسلام میں تاریخ کی پرورش جس طرح ہوئی، وہ بجائے خود ایک بڑا دلچسپ موضوع ہے۔ یہ قرآن کا بار بار حقائق پر زور دینا اور اس کے ساتھ ساتھ پھر اس امر کی ضرورت کہ آنحضرت ﷺ کے ارشادات صحت کے ساتھ متعین ہوں، علیٰ ہذا مسلمانوں کی آرزو کہ اس طرح ان کی آئندہ نسلوں کو اکتساب فیض کے دوامی سرچشمے مل جائیں، یہ عوامل تھے جن کے زیر اثر ابن اسحاق، طبری، مسعودی ایسی ہستیاں پیدا ہوئیں‘‘(۱۳) 

یعنی نہ صرف یہ کہ قرآن تاریخی واقعات بیان کرتاہے بلکہ وہ ہمیں تاریخی انتقاد کے بنیادی اصول بھی عطا کرتاہے جن پر عمل پیرا ہوکر مسلمانوں نے نہ صرف تاریخ نویسی میں عظیم سرمایہ جمع کیا بلکہ اس سے کا م لے کر جمع حدیث اور اسماء الرجال کے وہ علوم پیدا کیے جو صدیوں سے ان کے لیے ہدایت اور فیضان کا سرچشمہ ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ’’اے مسلمانو! جب کوئی جھوٹا شخص تمھارے پاس کوئی خبر لائے تو تم اس کی خوب چھان بین کر لیا کرو‘‘۔ (۴۹:۶)

اس ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے علامہ اقبال کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تاریخ فہمی کے غیر جانبدار مطالعے سے دو تصورات نمایاں نظر آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ تمام زندگی کا مبدا ومنبع ایک ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے: ’’ اور ہم نے تمھیں نفس واحد سے پیدا کیا ‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ اسلام سے قبل عیسائیت نے دنیا کو پیغام مساوات دیاتھا، لیکن اہل کلیسا وحدت انسانی کے تصور کو پوری طرح محسوس نہ کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ مساوات ان کے ہاں مجرد فکر کی شکل میں رہی۔ اس اصول کو اگر کسی ثقافت نے عملاً سچ کردکھایا تو وہ مسلمان ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس امر کا نہایت گہرا احساس کہ زمانہ ایک حقیقت ہے لہٰذا زندگی مسلسل اور مستقل حرکت سے عبارت ہے، زمانے کا یہی تصور ابن خلدون کے نظریہ تاریخ میں خصوصی دلچسپی کا سبب ہے۔ ابن خلدون کے نظریہ تاریخ میں مندرجہ بالااسلامی نظریات تاریخ پوری طرح جلوہ گرہیں۔ وہ بھی قرآنی تصور کے زیر اثر اقوام عالم کی اجتماعی زندگی کاجائزہ لیتے ہوئے واقعات نقل کرنے والوں کے شخصی خصائل وعادات کو نظر انداز نہیں کرتا۔ وہ بھی ملتوں کی حیات وممات کا قائل ہے۔ قرآن کی طرح ابن خلدون بھی کائنات کو متحرک، متغیر اور ارتقا پذیر سمجھتاہے۔ وہ افلاطون اور زینو کی طرح وقت کو بے حقیقت قرار نہیں دیتا اور نہ ہی وہ بعض یونانی فلاسفروں کی طرح یہ مانتاہے کہ وقت ایک ہی دائرے میں حرکت کرتارہتاہے۔ اس حوالے سے اقبال کہتے ہیں کہ یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ ہمیں ابن خلدون کی فکری اپج سے انکار ہے۔ اسلامی تہذیب وتمدن نے اپنے اظہار کے لیے جو راستہ اختیار کیا، اس پر نظر رکھیے تو یہ کسی مسلمان ہی کا کام ہوسکتاتھا کہ تاریخ کا تصور بطور ایک مسلسل اور مجموعی حرکت کے کرتا۔ گویا ہمیں ابن خلدون کے نظریہ تاریخ سے دلچسپی ہے تو اس کی وجہ بھی ابن خلدون کا وہ تصور ہے جو اس نے تغیر کے باب میں قائم کیاہے اور یہ تصور بڑا اہم ہے کیونکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ تاریخ چونکہ، زمانے کے اندر، ایک مسلسل حرکت ہے، لہٰذا یہ ماننا ضروری ہے کہ اس کی نوعیت فی الواقع تخلیقی ہے۔ بالفاظ دیگر یہ وہ حرکت نہیں جس کا راستہ پہلے سے متعین ہو۔ اب اگر چہ ابن خلدون کو مابعد الطبیعیات سے چنداں دلچسپی نہ تھی بلکہ ایک طرح سے وہ اس کا مخالف تھا، بایں ہمہ اس نے زمانے کا تصور جس رنگ میں پیش کیا، اس کے پیش نظر ہم اس کا شمار برگساں کے پیشروؤں میں کریں گے۔ (۱۴) عزیز احمد رقمطراز ہیں:

’’تاریخ میں حرکت واقعتا آگے بڑھنے کی حرکت ہے۔ اقبال، نطشے کے نظریہ تواتر تاریخی کو باطل قراردیتے ہیں، اگرچہ وہ جرمن فلسفی کی فکر کے بعض عناصر سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔ اقبال کے نزدیک تاریخ ترقی پذیر زندگی کے نمونے پر تیار ہوتی ہے اور زندگی میں تواتر کے عمل کے لیے نہ کوئی جگہ ہے او رنہ وہ کوئی معنی رکھتاہے۔‘‘ (۱۵) 

رموز بے خودی کے ایک باب میں اقبال نے اس کی بڑی وضاحت کی ہے اور اس کو ذہن نشین کرانے کے لیے ایک پرزور اورروشن تمثیل سے کام لیا ہے۔ فرماتے ہیں، جو مقام ایک فرد کی زندگی میں حافظے کا ہے، وہی قوم کی زندگی میں تاریخ کو حاصل ہے۔ اگر حافظے میں خلل واقع ہو جائے تو فرد اپنا دماغی توازن قائم نہیں رکھ سکتا۔ وہ پگلا اور دیوانہ کہلاتاہے۔ اسی طرح جو قوم اپنی تاریخ سے ناآشنا ہوتی ہے، جس نے ماضی سے اپنا رشتہ توڑ لیا، جو اپنی روایات سے بیگانہ ہوگئی، وہ بحیثیت قوم کبھی ترقی نہیں کرسکتی، اسے کبھی عظمت ورفعت نہیں حاصل ہوتی۔ عزیز احمد لکھتے ہیں کہ تاریخ بھی ایک قوم کی اجتماعی یادداشت ہوتی ہے جو اسے محفوظ وزندہ رکھتی ہے اور شناخت کرنے کی حس کا تسلسل برقرار رکھتی ہے۔ (۱۶) لیکن بقول برگساں ’’حافظہ محض ماضی بعید کی یادوں کو تازہ کرنے کا عمل نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حافظے سے مراد ماضی کا ہمارے ساتھ شامل ’’حال ‘‘ہونا اور ہمارے حال کو متاثر کرنا ہے۔ (۱۷) اقبال بھی یہی کہتے ہیں :

سرزند از ماضئِ تو حالِ تو
خیزد از حالِ تو استقبالِ تو 
مشکن از خواہی حیاتِ لازوال
رشتہءِ ماضی از استقبال وحال 

یعنی تیرا حال تیرے ماضی سے پھوٹتاہے اور حال سے استقبال سر نکالتاہے، اگر تو حیات لاوزال کا خواہاں ہے تو پھر اپنے ماضی کا رشتہ اپنے حال واستقبال سے قطع نہ کر۔ اس طرح تاریخ، اولاد آدم کا اجتماعی حافظہ بن جاتی ہے۔ یعقوبی نے نویں صدی عیسوی میں اپنی تاریخ کا منفرد نام رکھ کر تمام ہم عصروں پر سبقت لے لی۔ اس کی تاریخ کا نام تھا: ’’مشاقت الناس لزمانہم‘‘ یعنی انسان نے اپنے آپ کو زمانے کے سانچے میں کس طرح ڈھالا؟ تاریخ دراصل یہی بتاتی ہے کہ زمانہ کس طرح بدلتارہا۔ جو لوگ تقاضائے زمانہ کے مطابق اپنے آپ کو نہ بدل سکے، ان کوزمانے نے مٹادیا۔ علم تاریخ کی اس اہمیت کے پیش نظر امام شافعی ؒ نے کہاتھا کہ علم تاریخ ذہن انسانی کو جلا دیتاہے۔ (۱۸) ابن جوزی کے نزدیک تاریخ اور سوانح حیات دل ودماغ کے لیے مفرح اور روحانی غذا ہیں ۔ (۱۹) رموز بیخودی میں اقبال بتاتے ہیں کہ تاریخ کوئی فرضی داستان یا افسانہ نہیں ہے، یہ خود آگاہی اور کار کشائی کی ضمانت دیتی ہے۔ وہ یوں بیان کرتے ہیں:

چیست تاریخ اے از خود بیگانہ 
داستانے؟ قصہ؟ افسانہ؟
ایں ترا از خویشتن آگہ کند
آشنائے کارو مرد رہ شو 
ضبط کن تاریخ را پائندہ شو 
از نفسہائے رمیدہ زندہ شو 

یا پھر یوں فرماتے ہیں :

زندہ فرد از ارتباطِ جان وتن 
زندہ قوم از حفظِ ناموسِ کہن
مرگِ فرد از خشکئ رودِ حیات 
مرگِ قوم از ترکِ مقصودِ حیات 
قوم روشن از سوادِ سرگزشت
خود شناس آمد ز یادِ سرگزشت 
سرگزشتِ او گر از یارش دود 
باز اندر نیستی گم می شود

یعنی اقبال اپنے ذہن ووجدان کے ذریعے سے ماضی کو حاضر میں پیوست کردینا چاہتے تھے تاکہ زندگی کی وحدت میں قوت وتاثیر پیدا ہو اور اس کی جڑیں زیادہ گہری اور مضبوط ہوجائیں۔ اقبال اپنی کاوش کو کھوئے ہووؤں کی جستجو سے تعبیر کرتے ہیں، اس لیے کہ ہم ایک سے زیادہ زمانوں کی مخلوق ہیں، جن میں ماضی کی بیسیوں صدیاں سوئی ہوئی ہیں :

میں کہ میری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ 
میری تمام سرگزشت کھوئے ہووؤں کی جستجو

ڈاکٹر یوسف حسین کے خیال میں زندگی کے لق ود ق بیابان میں مسافر حیات جن منزلوں سے گزرچکاہے، ان کی یاد کبھی کبھی اس کے دل کو گدگداتی ہے او رغم منزل کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس طرح ماضی او ر مستقبل کا رشتہ ایک دوسرے سے جڑ جاتاہے :

کبھی چھوڑی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو 
کھٹک سی تھی جو سینے میں ،غم منزل نہ بن جائے

یوسف حسین کا کہناہے کہ ’’تاریخ عالم سب سے زیادہ محسوس شکل ہے جس میں زندگی کی حقیقت ہمارے شعور پر بے نقاب ہوتی ہے۔ یہ فطرت اور زمانے کا قطعی فیصلہ ہے۔ ہمارے لیے یہ ممکن نہیں کہ ہم قوموں کی زندگی کا تصور ان کی تاریخ سے الگ رہ کر صحیح طور پر کرسکیں۔‘‘ (۲۰)

نومبر ۱۹۲۹ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے سپاس نامے کا جواب دیتے ہوئے اقبال نے اپنے تصورتاریخ کو یوں بھی بیان کیا کہ:

’’ایک دوسری بات جس پر میں زور دینا چاہتاہوں، ہمارا انکشاف ماضی ہے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف اپنے ماضی سے محبت کرتے ہیں۔ میں تو اپنے مستقبل کا معتقد ہوں۔ ماضی کی ضرورت مجھے اس لیے ہے کہ میں حال میں ہوں۔ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ سرچشمہ تہذیب وشائستگی کو سمجھا جائے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ آج دنیائے اسلام میں کیا ہورہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں چاہتاہوں کہ آپ ماضی کو سمجھیں۔ چونکہ ہم جدید تہذیب وشائستگی کے اصولوں سے ناواقف ہیں، اس لیے ہم علوم جدیدہ کو حاصل کرنے میں دیگر اقوام سے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ میں چاہتاہوں کہ آپ ان گم گشتہ رشتوں پر نظر ڈالیں جن کے ذریعے ہم ماضی ومستقبل سے وابستہ ہیں۔‘‘ (۲۱)

علامہ اقبال کے مذکورہ بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر منور مرزا نے درست کہاہے کہ :

’’تاریخ کی حیثیت اہل نظر افراد کے لیے ایک لائحہ عمل،ایک جولانگاہ امکان، ایک تازیانہ عبرت اور ایک جرات آموز درس ہے تاکہ آدمی ہر لحظہ اپنے کردار اور اپنے رویے کا جائزہ لیتارہے،، دم بدم دیکھتارہے کہ وہ ترقی ہے ،ٹھہراؤ کا شکار ہے، یا زوال کے رخ رواں ہے۔ اگر اس طرح آدم خود آگاہ رہے تو یقیناًپھر وہ خو ب سے خوب تر کی خواہش سے محروم نہیں رہ سکتا۔ زندہ تمنا حرکت پر آمادہ کیے رکھتی ہے۔ اگر زمان کو ایک زندہ حقیقت کے طورپر تسلیم اور قبول نہ کیا جائے تو حضرت علامہ کا فلسفہ خودی سرتاسر بے مدار ہوکر رہ جاتاہے۔‘‘ (۲۲) 

یقیناًتکمیل خودی کسی بے نمو وبے حرکت آفاق میں بے معنی بات ہے۔ انسانی خودی اپنے وجود کو استقلال بخشنے کے لیے تاریخ کی کشمکش میں سے گزرتی ہے۔ انسانی خودی کا زمانے سے جو تعلق ہے، اس کا اظہار تاریخ میں ہوتاہے ۔علامہ اقبال نے اپنے فارسی کلام میں یہ ’’اسرار ورموز‘‘بڑی چابک دستی سے سمجھائے ہیں کہ تاریخ تجھے خود آگاہ کرتی ہے اور تیرے خنجر خودی کے لیے فساں کاکام دیتی ہے۔ وہ ایسی شمع ہے جو امتوں کے لیے ستارے کاکام دیتی ہے، ماضی کو سامنے لابٹھاتی ہے اور اس طرح ماضی کا رشتہ حال سے اور پھر حال کے واسطے سے استقبال سے جوڑ دیتی ہے۔

’’اسلام کا فلسفہ تاریخ‘‘ نامی کتاب کے مصنف عبدالحمید صدیقی نے جنوری ۱۹۴۹ء میں ایک رسالہ ’’سلسبیل ‘‘کی اشاعت خاص میں علامہ اقبال سے یہ تصور منسوب کیا کہ ’’تاریخ خود کو دہراتی ہے۔‘‘ یہ بیان درست نہیں کیونکہ علامہ اقبال کے نزدیک عمل تاریخ ایک خاص منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ ایک نقاد محمد عثمان رمز، اقبال کے فلسفہ تاریخ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ :

’’اقبال کے فلسفہ تاریخ کی صحیح روح یہ تعلیم دیتی ہے کہ تاریخ کسی قوم کے اجتماعی ذہن کا اظہار ہے۔ یہ ایک مسلسل تخلیقی قوت ہے جس کی مدد سے ہم زندگی، قوانین اور اقدار کی قدروقیمت کا تعین کرتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک یہ قوت جامد نہیں۔ عزیز احمد کے خیال میں اقبال کے فلسفہ تاریخ میں ’’تاریخ اپنے عمل حرکت میں، زندگی کی طرح، ایک ایسے مستقبل کی سمت بڑھنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہے جس کی تعمیر میں وہ سخت جدوجہد کرتی ہے ۔.....اس عمل میں وہ ان اقدار کا تحفظ کرتی ہے جنہوں نے ثقافت کی بنیادی شکل متعین کی ہے ۔..... ثقافت کے سفر دراز میں ان اقدار کو تازہ اور زند رکھنا چاہیے‘‘۔(۲۳)

ڈاکٹر محمد شمس الدین صدیقی کا خیال ہے کہ گویا اقبال کے خیال میں تاریخ کی حرکت اس سمت میں ہے کہ صفات حسنہ سے متصف افراد سے عبارت ایک وسیع معاشرہ وجود میں آئے جو سارے عالم انسانیت کے لیے ایک ایسی مثال قائم کردے کہ اس کی تقلید ہر قوم کرنے لگے۔ عالم انسانیت کی تعمیر بالآخر ایک ایسے نظریے کی بنیاد پر عمل میں آئے گی جو انسان کو محض حیوان ناطق نہیں قراردیتا بلکہ اشر ف المخلوقات مان کر اسے خلیفۃ الارض کے منصب پر فائز دیکھنا چاہتاہے۔ (۲۴) اقبال انسان کو مجبور نہیں بلکہ مختار مانتے ہیں، اس لیے تاریخ کے مطالعے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ تقدیر کے روایتی مفہوم میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ جو کچھ ہونے والا ہے، وہ پہلے سے طے شدہ ہے۔ اپنے خطبات میں اقبال کہتے ہیں کہ ’’دراصل تقدیر عبارت ہے اس زمانے سے جس کے امکانات کے انکشافات ابھی باقی ہیں۔‘‘ اقبال پوری تاریخ کو حق وباطل کی آویزش کے پس منظر میں دیکھتے ہیں:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز 
چراغ مصطفوی سے شرارِ بولہبی

یعنی انسانی تاریخ خیروشر کی کشمکش ہے، تاہم ان کے نزدیک انسان کی اجتماعی زندگی امن وسلامتی سے ہم کنار ہوسکتی ہے، جب وہ شر کی قوتوں پر غالب آکر حق وخیر کی بنیاد پر اپنی تعمیر کرے۔ شمس الدین صدیقی کہتے ہیں کہ ’’اقبال نے تاریخ کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیاہے کہ جو قوم یاجو معاشرہ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نیابت کرنے کی نیت یااہلیت نہیں رکھتا، وہ فنا ہوجاتاہے۔‘‘ (۲۵) علامہ اقبال کو اعتماد کامل ہے کہ تاریخ کا عمل آخر انسان کو راہ راست پر ضرور لے آئے گا۔ تاریخ کی حرکت بے مقصد، بے منزل اور اٹکل پچو نہیں ہے۔ ازروئے قرآن اللہ تعالیٰ نے کائنات اور انسانوں کو تفریحاً کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا جیسا کہ سورۃ انبیا میں ہے : ’وما خلقنا السماء والارض وما بینھما لٰعبین‘۔

علامہ کا خیال ہے کہ عمل تاریخ ایک خاص منزل کی جانب رواں ہے۔ علامہ اقبال کا تصور تاریخ اخلاقی اطلاقیت کا حامل ہے۔ اقبال کے تصور تاریخ کا مطالعہ واضح کرتاہے کہ جس طرح کارل مارکس کے نظریہ تاریخ کو تاریخ انسانی کی مادی تعبیرکا نام دیاگیاہے، اسی طرح علامہ اقبال کے نظریہ تاریخ کو بآسانی تاریخ انسانی کی اخلاقی تعبیر کا نام دیا جا سکتا ہے۔ مشہور مفکر ڈایونی سیوس نے کہاتھا کہ تاریخ حکمت ہے جو مثال سے سکھاتی ہے۔ اقبال نے بھی اخلاقی تعبیر کے لیے تاریخ سے ا ستفادہ کیا۔ ان کا کلام تاریخی تلمیحات، استعارات اور اشارات سے پرُہے۔ اسکندرو چنگیز، خسرو پرویز اور محمود وایاز ایسے نام اس کا ثبوت ہیں۔ کئی شخصیات، مقامات اور واقعات براہ راست ان کی شاعری کی بنیاد بنے۔ انھوں نے فاطمہ بنت عبداللہ، عبدالرحمن اول، بلال حبشی، سلطان ٹیپو، ہارون الرشید، طارق بن زیاد کو موضوع بنایا۔ مولائے یثرب، صدیق اکبر، مجدد الف ثانی کو موضوع بناکر حکیمانہ شاعری کی، نیز کئی مقامات، ساحل، نیل، کنارہ دریائے کبیر، خاک کا شغر، خاک بخارا، خاک نجف، سر زمین حجاز، سرزمین سمر قند وبدخشاں، مسجد قرطبہ، مسجد قوت الاسلام، قسطنطنیہ، صقلیہ، بغداد اور دہلی ایسے حوالے ان کے کلام میں عام ہیں۔ ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ میں تاریخی حالات وواقعات سے ہی استدلال پیش کیاگیاہے۔

تاریخ اسلام سے ان کو خاص دلچسپی تھی۔ اس کا واضح ثبوت علامہ اقبال کا وہ خطبہ صدارت ہے جو ۱۳؍جون ۱۹۳۲ء کو ’’انقلاب‘‘ میں شائع ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ کا مضمون ۱۹۲۳ء میں شروع ہوا لیکن یونیورسٹی میں ہندو عنصر غالب ہونے کی وجہ سے یہ توجہ سے محروم رہا۔ ۱۹۲۹ء میں جب پروفیسر جے، ایف، بروس تاریخ کے پروفیسر کی حیثیت سے یونیورسٹی میں آئے تو انہوں نے ہندووں کے زیر اثر سینٹ میں یہ تجویز پیش کی کہ اسلامی تاریخ کو بی اے کے کورس سے خارج کردیاجائے۔ یہ تجویز کثرت رائے سے منظور ہوگئی تو مسلمانان پنجاب نے احتجاج کیا۔ اسی سلسلے میں ۱۱؍جون ۱۹۳۲ء کو ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام ایک جلسہ باغ بیرون موچی دروازہ لاہور منعقد ہواجس کی صدارت سر محمد اقبال نے کی اور خطبہ صدارت میں بی اے پاس کورس سے اخراج کے حوالے سے گفتگو کے بعد تاریخ کے مضمون کے حوالے سے کہا کہ :

’’مسٹر بروس کا استدلال یہ ہے کہ ہندوستان کے لوگوں کو ہندوستان کی تاریخ پڑھنی چاہیے۔ میرے نزدیک یہ دعویٰ غلط ہے کہ کسی قوم کی تاریخ کو اس قوم کی تاریخ نہ سمجھا جائے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ اجتماعی حیثیت سے انسانی روح کی ایک حرکت ہے۔ روح انسانی کا کوئی ماحول نہیں بلکہ تمام عالم اس کا ماحول ہے۔ اگر اسے کسی قوم کی ملکیت سمجھا جائے تویہ تنگ نظری کا ثبوت ہے۔ ....جب میں اٹلی گیا تو مجھے ایک شخص پرنس کتانی ملا۔ وہ اسلامی تاریخ کا بہت دلدادہ ہے۔ اس نے تاریخ پر اتنی کتابیں لکھی ہیں اور اس قدر روپیہ خرچ کیا ہے کہ کوئی اسلامی سلطنت اس کے ترجمے کا بندوبست بھی نہیں کرسکتی۔ اس نے لاکھوں روپے صرف کرکے تاریخی مواد جمع کیاہے۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو اسلامی تاریخ سے دلچسپی کیوں ہے تو انہوں نے کہا کہ اسلامی تاریخ عورتوں کو مرد بنادیتی ہے۔ ‘‘(۲۶) 

اقبال تاریخ کی اہمیت کے اس حد تک قائل ہیں کہ وہ تاریخ کو فلسفہ پر ترجیح دیتے ہیں۔ سید نذیر نیازی ’’مکتوبات اقبال‘‘ میں رقمطراز ہیں کہ جب علامہ نے ۴؍جون ۱۹۲۹ء کو خط میں انہیں یہ مشورہ دیا کہ ’’بہتر ہو کہ آپ کسی اچھے ہنر کی تلاش میں ولایت جائیں‘‘تو نذیر نیازی نے جواب میں عرض کیا ’’کسی سائنس یا صنعت کی تحصیل تو اب میری استطاعت سے باہر ہے، فلسفہ تاریخ کا موضوع کیا تصوف اسلام سے بہتر نہیں رہے گا؟‘‘ اس کے جواب میں علامہ اقبال نے تحریر فرمایا کہ ’’میں تصوف پر تاریخ کو ترجیح دیتاہوں ‘‘۔ غلام قادر فصیح نے جب اپنا تاریخی نوعیت کا رسالہ شائع کرنا شروع کیا تو اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے یہ تک لکھا کہ ’’ میرے نزدیک یہ رسالہ نہایت مفید ہے اور ہر مسلمان کو اس کا پڑھنا ضروری ہے۔ عام مسلمانوں میں اخلاق حسنہ پیدا کرنے کے لیے اس سے اچھا ذریعہ اور کوئی نہیں کہ اس قسم کے تاریخی رسالے شائع کیے جائیں جن سے ان کو اسلاف کے حالات معلوم ہوں اور ان کے طرز عمل کا ان پر اثر پڑے۔ قوموں کی بیداری کا اندازہ اس سے ہوسکتاہے کہ ان کو اپنی تاریخ سے کہاں تک دلچسپی ہے۔ (۲۷) کلام اقبال میں وہ خود تاریخی واقعات کو بیان کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سید محمد اکرم اکرام کہتے ہیں کہ تاریخی حوادث سے نتائج اخذ کرنے میں ان کی بصیرت اتنی عمیق اور مستحکم ہے کہ انہوں نے مستقبل کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ بہت جلد اہل نظر کے سامنے مجسم ہوگیا۔ (۲۸) طویل تاریخی واقعات کو ایک یا چند اشعار میں پیش کرنے میں بھی علامہ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ انیسویں صدی کے وسط میں برطانوی سامراج نے جب کشمیر کو گلاب سنگھ ڈوگرہ کے ہاتھ فروخت کردیا تو علامہ نے فرمایا:

باد صبا اگر بہ جنیوا گزر کنی 
حرفے زما بہ مجلس اقوام باز گوی
دہقاں وکشت وجوی وخیاباں فروختند
قومے فرو ختند وچہ ارزاں فروختند 

برصغیر پاک وہند میں آج کون ایسا ہے جو میر جعفر اور میر صادق کے نام سے واقف نہ ہو۔ علامہ نے ’’جاوید نامہ‘‘ میں ان کے متعلق جو یہ ایک شعر کہاہے، وہ تاریخ کے سینکڑوں صفحات پر بھاری ہے:

جعفر از بنگال وصادق از دکن
ننگِ آدم ،ننگ دین، ننگِ وطن

غلام قادر روہیلہ کی فتح اور تیمور یوں کی شکست کا بیان کسی تاریخ میں پڑھ کر ممکن ہے قاری بھول جائے، لیکن بانگ درا میں شامل نظم بعنوان ’’غلام قادر روہیلہ ‘‘کو شاید فراموش کرنا ناممکن ہے۔ واقعہ کربلا کو علامہ اقبال نے ’’رموز بے خودی ‘‘ میں جس طرح تاریخی حقیقت کو برقرار رکھتے ہوئے انتہائی دلنشیں اور موثر صورت میں پیش کیاہے، وہ تاریخ اور شاعری کے حسین امتزاج کی ایک لاجواب کوشش ہے۔ یہ معنوی اعتبار سے قصیدہ کے شعر ہیں لیکن ان میں مبالغہ بالکل نہیں ہے، تاریخی حقائق بیان کیے گئے ہیں۔

علامہ اقبال کے نظریہ تاریخ، فلسفہ تاریخ، تاریخ نویسی اور معلم تاریخ کے کردار کے مذکورہ پہلوؤں کے مختصر جائزے کے بعد کہاجاسکتاہے کہ ڈی ایم اظرف کایہ خیال کہ اقبال فنی مفہوم میں فلسفئ تاریخ نہیں ہیں کیونکہ یہ تسلیم شدہ ہے کہ اقبال نے فلسفہ تاریخ کے حوالے سے وسیع یا جامع کام نہیں کیا اور تصور تاریخ کے حوالے سے محض ایک خاکہ پیش کیاہے، تاہم کئی دانشور اقبال کے تصور تاریخ کے حوالے سے دوسری رائے رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین نے اس حوالے سے ایک پمفلٹ کی صورت میں شائع شدہ مضمون میں لکھاہے کہ ’’عمل تاریخ کی سمت اور غرض وغایہ کے بارے میں اقبال کے خیالات نہایت واضح ہیں۔‘‘ قطع نظر اس بحث سے کہ حقیقی تکنیکی اور صحیح فنی مفہوم میں علامہ اقبال فلسفئ تاریخ ہیں یا نہیں، یہ بات بغیر کسی تردد کے کہی جاسکتی ہے کہ وہ گہرے تاریخی شعور کے مالک فلسفی تھے۔ جرمن فلسفی کارلائل نے کہا تھا کہ ہمیں ماضی کوزیادہ سے زیادہ تلاش کرنا چاہیے۔ تما م انسانوں کو لازم ہے کہ وہ ماضی کو علم کا ایک حقیقی سرچشمہ تصور کریں جس کی روشنی میں دانستہ یا نا دانستہ حال ومستقبل کی تعبیر وتعمیر ہوسکتی ہے۔ اقبال نے یہی بات سمجھانے کے لیے نظم ونثر میں بنی اسرائیل کی پختہ خیالی اور اپنی تاریخ سے محکم وابستگی کی داد دی ہے اور مثال کے طور پر بیان کیاہے کہ بنی اسرائیل کے ابتدائی زمانے کی تمام معاصر قومیں اور تہذیبیں مٹ گئی ہیں، مگر یہودی ہیں کہ بے پنا ہ آلام ومصائب برداشت کرنے کے باوجود چارہزار سال سے زندہ وسلامت ہیں اور وقت کا فنا آفریں ہاتھ ان کو مٹا نہیں سکا۔ اقبال کے نزدیک ان کا استقرار اور بقا کا راز اپنی تاریخ کے ساتھ بے پناہ شیفتگی اور وابستگی میں مضمر ہے۔ ’’رموز بے خودی‘‘ میں یہ باتیں نظم میں بیان کی ہیں اور اپنے ایک مضمون ’’قومی زندگی‘‘ میں جو ۱۹۰۶ء کے ’’مخزن ‘‘ میں شائع ہوا، انہوں نے اس تاثر کو بہ طرز نثر بیان کیا اور دونوں مقامات پر مقصود مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ دیکھنا، کہیں اپنی تاریخ نہ بھول جانا ،کہیں اپنے ماضی سے غافل نہ ہوجانا، کیونکہ جو قومیں تاریخ کو فراموش کردیتی ہیں، تاریخ انہیں فراموش کردیتی ہے: 

صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم 
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب


حوالہ جات

(۱) فکر اسلامی کی تشکیل نو ،پروفیسر محمد عثمان ،سنگ میل لاہور ،ص ۱۴۴۔۱۴۳

(۲) A Study of History (abridged edition), vol .1, USA, p.6

(۳) الاعلان بالتوبیخ،اردو ترجمہ ،مرکزی اردو بورڈ ،لاہور ،ص ۸۹

(۴) Philosophy of History, Dower Publications, N.Y., p.8

(۵) مقدمہ ،المکتبہ التجاریہ ،شارع محمد علی ،مصر ،ص ۱۰

(۶) رو ز گار فقیر ،فقیر وحیدا لدین ،کراچی ،۱۹۹۶ء

(۷) اقبال ریویو ،جلد ۳،شمارہ ۳،اکتوبر ۱۹۶۲ء ،ص ۲۶

(۸) مطالعہ اقبال ،گوہر شاہی بزم اقبال لاہور ،ص ۵۷۔۴۷

(۹) اقبال نامہ ،مرتبہ شیخ عطاء اللہ ،شیخ محمد اشرف ،لاہور ،ص ۹،۸

(۱۰) شذرات فکر اقبال ،مترجم ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ،مجلس ترقی ادب ،لاہور ،ص ۱۴۰

(۱۱) ایضا ،ص ۱۳۰

(۱۲) سرگزشت تاریخ ،امتیاز محمد خان،کراچی،ص،۲۲۱

(۱۳) تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ،مترجم سید نذیر نیازی ،بزم اقبال ،لاہور ،ص ۲۱۴۔۲۱۳

(۱۴) فکر اسلامی کی تشکیل نو ،ایضا ،ص ۱۴۷

(۱۵) برصغیر میں اسلامی جدیدیت ،عزیز احمد ،سنگ میل ،لاہور ،ص ۲۰۸

(۱۶) ایضاً

(۱۷) Masterpieces of the World Philosophy, N.Y., p. 768

(۱۸) سرگزشت تاریخ ،ایضا ،ص ۲۳۲

(۱۹) ایضاً 

(۲۰) روح اقبال ،یوسف حسین خان ،اعظم پریس ،حیدر اباد ،دکن ،ص ۔

(۲۱) گفتار اقبال ،محمد رفیق افضل ،دانش گاہ پنجاب ،لاہور ،ص ۱۰۵۔۱۰۴

(۲۲) برہان اقبال ،منور مرزا ،اقبال اکادمی ،لاہو ر،ص ۱۷

(۲۳) برصغیر میں اسلامی جدیدیت ،ایضاً 

(۲۴) نقوش،اقبال نمبر ،شمارہ ،۱۲۱،ستمبر ۱۹۷۷ء ،لاہور ،ص ۲۳۰

(۲۵) ایضاً ،ص ۲۲۷

(۲۶) روزنامہ انقلاب ،لاہور ،۱۳؍جون ۱۹۳۲ء

(۲۷) اقبال نامہ ،ایضاً، جلد دوم ،ص ۲۶۴

(۲۸) سہ ماہی ،اقبال ،جلد ۵۱،شمارہ ،۴،اکتوبر ،دسمبر ۲۰۰۴ء ،ص ،۵






علامہ اقبال اور شدت پسندی کا بیانیہ: ان کی جہادی اور سیاسی فکر کی روشنی میں

مولانا سید متین احمد شاہ

جس طرح اردو کے مایہ ناز شاعر مولانا الطاف حسین حالی پر ’’ابتر ہمارے حملوں سے حالی کا حال ہے‘‘ کی مشق کی گئی، اسی طرح علامہ اقبال پر بھی اعتراضات کا سلسلہ دراز ہوا جو ان کی زندگی ہی میں شروع ہو گیا تھا۔ یہ اعتراضات شخصی بھی ہیں، ان کے کلام کے شعری، لسانی اور عروضی پہلوؤں سے متعلق بھی، فکر کی تشکیل اور اس کے اجزا سے متعلق بھی اور دیگر مختلف جہات پر بھی۔ ان اعتراضات میں بہت سے وقیع اور صائب ہیں، جب کہ بعض اعتراضات سوے فہم، بعض قلت فہم، بعض مخصوص ذہنی سانچوں اور بعض حسد اور عناد کے سبب ہیں۔ 1910ء میں اقبال کے سفرِ حیدرآباد میں اردو کے نامور محقق اور غالب شناس سید علی حیدر نظم طباطبائی نے ان کی اردو زبان کی ’’عجمیت‘‘ پر بعض تحفظات کا اظہار کیا۔ 1913ء میں ’’زمانہ‘‘ (کانپور) اور دیگر جرائد میں نقاد لکھنوی کے اعتراضات سامنے آئے، 1935ء میں اقبال کی زندگی ہی میں حافظ آباد کے برکت علی گوشہ نشین نامی ایک شیعہ مصنف نے ’’مکائدِ اقبال‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اسی طرح سیماب اکبر آبادی، نواب جعفر علی خان اثر لکھنوی اور دیگر لوگوں کے سوالات کا سلسلہ چل نکلا اور جہات بدل کر ہنوز جاری ہے۔

جہاں تک زبان وبیاں کا تعلق ہے، یہ ایک ایسا میدان ہے جس میں فاضل سے فاضل شخص کی زبان پر بھی اعتراضات ہوئے ہیں، کیوں کہ کلام میں بہتری کی گنجائش کا کوئی کنارہ شاید نہیں ہے، یہاں تک کہ اس کا وہ اکمل ترین درجہ آ جاتا ہے،جسے کلامِ خداوندی کہا جاتا ہے اور جس کے ساتھ تصورِا عجاز متعلق ہے۔مرزا غالب کو شہنشاہِ سخن کہا جاتا ہے، لیکن استاد سید اولاد حسین شاداں بلگرامی اور دیگر لوگوں نے ان کے کلام میں عروض وقوافی اور زبان کے کئی عیوب شمار کیے ہیں۔یہی معاملہ اقبال کا بھی ہے کہ ان کے کلام پر مختلف پہلوؤں سے اعتراضات کیے گئے ہیں، جن میں بہت سے درست بھی ہیں اور بہت سے غلط بھی۔ زیر نظر تحریر میں موجودہ فضا کے اعتبار سے ایک اعتراض ، اس کے حوالے سے خود اقبال کی اپنی تصریحات اور نامور شارحین اقبال کی وضاحت کا ایک جائزہ پیش کرنا مقصود ہے۔

موجودہ دور کی بڑی شخصیات میں ہندوستان کے مولانا وحید الدین خان کا نام معروف ہے۔ دین کی تعبیر کے حوالے سے ان کا مخصوص نقطہ نظر ہے جو ’’اسلام کے انقلابی تصور‘‘ یا ’’دین کی سیاسی تعبیر‘‘ کے ردعمل اور نقد کی صورت میں وجود میں آیا ہے۔مولانا وحید الدین خان عام طور پر مسلم دنیا کی بڑی بڑی شخصیات (بشمول ’’سیاسی اسلام‘‘ اور ماضی سے متعلق) پر یہ اعتراض مختلف جگہوں پر قلم بند کرتے ہیں کہ انھوں نے مسلمانوں کو بے فائدہ ٹکراؤ پر لگایا اور اس طرح جہاد کی تعبیر کو وہ تعذیبِ مذہبی (Persecution Religious ) کی علت کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں کہ یہ ماضی کا جبر تھا جس کے استیصال کے لیے جہاد مشروع ہوا اور چونکہ بعد کے ادوار میں یہ مسئلہ نہیں رہا، اس لیے مسلم رہ نما اس بدلتی صورتِ حال کو نہ سمجھ سکے اور مسلمانوں کو بے فائدہ ٹکراؤ پر لگائے رکھا۔ مولانا کی فکر میں پائے جانے والے کئی قابل قدر اجزا کے باوجود ان کا یہ تصور (دیگر اور تصورات کی طرح)درست نہیں ہے اور اس سے تاریخ اسلام کی بھی ایک عجیب تصویر سامنے آتی ہے؛ بلکہ مولانا کے اس تصورِ جہاد اور فکر کے مجموعی نتیجے کے بارے میں راقم کا تاثر یہ ہے کہ اپنے مزاج اور مقاصد میں سے یہ تقریباً وہی چیز ہے جس پر علامہ اقبال نے ’’اسرارِ خودی‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں حافظِ شیراز کی شاعری کے حوالے سے ’’ہوشیار از حافظِ صہبا گسار‘‘ کہ کر تنقید کی تھی جس پر خواجہ حسن نظامی نے اخبارات میں ایک شور برپا کر دیا تھا۔اقبال کا مقصود صرف اتنا تھا کہ زوال کے دور کے لٹریچر نے مسلمانوں کے قواے عملیہ کو جس طرح سرد کیا ہے، حافظ کا پیغام اس حوالے سے ایک افیون کی حیثیت رکھتا ہے۔

مولانا وحید الدین خان اس سلسلے میں اقبال پر کافی سخت نقد کرتے ہیں کہ اقبال مسلمانوں کو ٹکراؤاور شدت پسندی کی راہ دکھانے والے آدمی ہیں اور اس وقت مسلمانوں میں جو جگہ جگہ عسکری کارروائیاں جاری ہیں، اس کے پیچھے فکر اقبال کا بڑا ہاتھ ہے۔ یہی اعتراض کہیں دبے لفظوں میں اور کہیں صراحتاً ہمارے لبرل دانش ور( جیسے ڈاکٹر مبارک علی) دہراتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض Neo-Religious Liberals حلقوں میں بھی اس اعتراض کی صداے بازگشت سننے کو ملتی رہتی ہے۔

ماضی میں اقبال پر یہ اعتراض دو حلقوں کی طرف سے سامنے آیا: ایک مستشرقین اور دوسرے اردو ادب میں ترقی پسند ادب کی تحریک کے افراد کی طرف سے۔مستشرقین یا مغربی مصنفین تین طرح کے ہیں جنھوں نے کلام وفکر اقبال سے اعتنا کیا ہے: شعری یا نثری تحریروں کے مترجمین، شعر وفکر کے ناقدین اور کتابوں کے مبصرین اور وہ جنھوں نے اقبال کے کلام کے اجزا کو اپنے انتخابی مجموعوں میں شامل کیا۔پروفیسر اے آر نکلسن نے 1919ء میں ’’اسرارِ خودی‘‘ (1915ء ) کو انگریزی میں ڈھالااور اس پر مقدمہ بھی تحریر کیا جو اقبال کے انگریزی دنیا اور یورپ میں تعارف کا سبب بنا۔ ’’اسرارِ خودی‘‘ کی اشاعت پر ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول پہلے اپنے ملک میں خواجہ حسن نظامی، محمد دین فوق کشمیری اور رسالہ ’’صوفی‘‘ منڈی بہاؤالدین کے مقالہ نگاروں نے اور پھر یورپ کے علمی حلقوں نے بحث ونظر کا بازار گرم کیا۔ ڈاکٹر سید عبداللہ کہتے ہیں :

’’جہاں اقبال کے مقامی نقادوں کا مرکزی نکتہ بحث ،تصوف کی حمایت و مخالفت، وحدت الوجود والشہود کی تردید وتائید اور خودی وبیخودی کی تحقیق تھی، وہاں مغرب کے ان نقادوں نے مغربی ماحول اور مغربی ذہن کے مطابق اقبال کے فلسفہ خودی پر جرح کرتے ہوئے اسے احیائے اسلام کی ایک سعی قرار دیتے ہوئے یورپ کو آنے والے خطرے سے ڈرایا جو اسرارِ خودی کی حکمت سے (ان کی راے میں) پیدا ہو سکتا ہے۔‘‘ (ڈاکٹر سید عبداللہ، ’’اقبال کے غیر مسلم مداح اور نقاد‘‘ مشمولہ ’’اقبالیات کی مختلف جہتیں‘‘، مرتبہ یونس جاوید، ص 2)

مغربی نقادوں میں دو نے اقبال کے افکار پر ’’اسرارِ خودی‘‘ کا ترجمہ سامنے آنے کے بعد تنقید کی:پروفیسر ڈکنسن اور ایم فارسٹر؛ اقبال نے مترجم پروفیسر نکلسن کو خط لکھا جس میں ان تینوں کے نکات پر تنقید کی۔ (ان تنقیدوں اور اقبال کے خط کے اردو تراجم دارالمصنفین اعظم گڑھ کے معروف جریدے" معارف" کے شماروں جون، ستمبر اور اکتوبر 1921ء میں شائع ہوئے۔)ن کلسن نے لکھا:

’’اقبال مذہب کے بارے میں بہت پرجوش ہے۔وہ ایک نئے حرم کی تعمیر میں مصروف ہے۔اس نئی بستی سے مراد ایک عالم گیر مذہبی ریاست ہے جس میں دنیا بھر کے مسلمان نسل ووطن کی قید سے بے نیازایک ہو جائیں گے۔وہ جس ریاست کی بات کرتا ہے، اس میں دین کی بادشاہت ہو گی۔میکیاولی کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘

ڈکنسن کے اعتراضات میں یہ بنیادی بات تھی کہ اقبال جہاد کی بات کرتا ہے، اس لیے اسے اس تصورِ پیکارسے خوف محسوس ہوتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ اقبال مسلمانوں کو اسلحہ کے زور سے متحد کرنا چاہتا ہے، وہ ایک خونیں ستارہ ہے، امن کا ستارہ نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ :

’’مشرق اگر مسلح ہو گیا تو ممکن ہے کہ مغرب کو تسخیر کر ڈالے، لیکن کیا اس سے وہ فساد وہلاکت کی قوت کو بھی مسخر کر لے گا؟نہیں؛ بلکہ قدیم خون ریزیاں رہ رہ کر برابر ابھرتی رہیں گی اور ساری دنیا کو مبتلائے مصائب رکھیں گی۔ بس اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نہیں، کیا اقبال کا یہی اختتامی پیغام ہے۔؟‘‘ (مرجع مذکور، ص 5)

دوسرے جس حلقے کی طرف سے اقبال پر شدت پسندی کے پرچارک کا اعتراض ہوا، وہ ترقی پسند ادیبوں کا حلقہ ہے۔ ترقی پسند تحریک میں ڈاکٹر اخترحسین راے پوری کا مقالہ ’’ادب اور زندگی‘‘ اکتوبر 1934ء میں ہندی میں اور جولائی 1935ء میں اردو میں شائع ہوا(ڈاکٹرا نور سدید، اردو ادب کی تحریکیں، ص 436) اور یہ وہ مقالہ ہے جواس تحریک کی ’بائبل‘ ثابت ہوا۔پروفیسر آل احمد سرور اس مقالے کا ایک اقتباس نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اقبال فاشسطیت کا ترجمان ہے اور یہ حقیقت زمانہ حال کی جدید سرمایہ داری کے سوائے کچھ نہیں۔ تاریخ اسلام کا ماضی اقبال کو بہت شاندار معلوم ہوتا ہے، اس کا خیال ہے کہ مسلمانوں کا دورِ فتوحات اسلام کے عروج کی دلیل ہے اور ان کا زوال یہ بتاتا ہے کہ مسلمان اسلام سے منحرف ہو رہے ہیں، حالانکہ یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ اسلام کی ابتدائی فتوحات عرب ملوکیت کی فتوحات نہیں تھیں اور تاریخ کے کسی دور میں بھی اسلامی تصورِ زندگی پر عمل بھی ہوا تھا۔بہرحال وطنیت کا مخالف ہوتے ہوئے بھی اقبال قومیت کا اسی طرح قائل ہے جس طرح مسولینی۔اگر فرق ہے تو اتنا کہ ایک کے نزدیک قوم کا مفہوم نسلی ہے اور دوسرے کے نزدیک مذہبی۔ فاشسٹوں کی طرح وہ بھی جمہور کوحقیر سمجھتا ہے۔فاشزم کا ہمنوا ہو کر وہ اشتراکیت اور ملوکیت دونوں کی مخالفت کرتا ہے۔ ملوکیت وسرمایہ داری کا وہ اس حد تک دشمن ہے جس تک متوسط طبقہ کا آدمی ہو سکتا ہے۔ اقبال مزدوروں کی حکومت کو چنداں پسند نہیں کرتا۔ وہ اسلامی فاشسٹ ہے۔‘‘ (آل احمد سرور، اقبال اور ان کا فلسفہ ، ص 91، 92)

کچھ اسی قسم کے اعتراضات مجنوں گورکھ پوری کی طرف سے سامنے آئے۔ (اے ایم خالد، "اقبال کا خصوصی مطالعہ"(ایم اے اردو ادب سیریز)، ص310 )

مذکورہ سطور سے یہ واضح ہوا کہ مستشرقین، ترقی پسند ادیبوں اور ہمارے ہاں کے Liberals اور Neo-Religious Liberals کے نزدیک اقبال دہشت پسندی کی تعلیم دیتا ہے، اس کے ہاں مرنا مارنا اور ٹکراؤ اصل فلسفہ ہے، وہ صرف "برہم زن" کے اصول کو جانتا ہے، وغیرہ؛ تاہم جب علامہ اقبال کی جملہ نثری تحریروں کی طرف رجوع کیا جائے تو اس اعتراض کا بڑی حد تک ازالہ ہو جاتا ہے اور فکر اقبال سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ اقبال نے اسلام کو ایک پرامن مذہب کے طور پر پیش کیا ہے اور ان پر یہ اعتراض ان کی فکر کی جملہ جہات سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ اس اعتراض کا ایک بڑا منشا علامہ اقبال کی سیاسی فکرکی جملہ جہات کو نظر انداز کرنا بھی ہے جو ان کی نثری تحریروں میں جگہ جگہ پھیلی ہوئی ہے۔اقبال کو بحیثیت کل دیکھنے کا مسئلہ آج تک کے اقبال شناسوں میں ایک کافی مشکل علمی مسئلے کے حیثیت سے موجود ہے اور خود اقبال کے الفاظ میں اس "مجموعہ اضداد" کی کڑیوں میں ایک "نظم"تلاش کرنا اقبال کی صحیح تفہیم کا ایک بنیادی پتھر ہے۔ اقبال کی سیاسی فکر کے بارے میں غلط فہمیوں کے حوالے سے ماضی قریب کے معروف دانش ور اور مصنف جناب مظہر الدین صدیقی نے بجا طور پر لکھا ہے:

Iqbal's political philosophy has been grossly misinterpreted. By some, he has been held us as the champion of Fascist dictatorship, others have tried to discover in his writings leanings towards Communism. Very few have tried to view as a whole the political ideas of Iqbal which lie scattered in his writings and therefrom to build up a consistent political theory which might fit in with the general framework of his philosophical ideas. It is often overlooked by the critics as well as the admirers of Iqbal that a man's political ideas cannot be isolated from the general system of his thought, because both spring from the depth of his personality, which is a unified whole. (Mazheruddin Siddiqi, Concept of Muslim Culture in Iqbal, 69)

’’اقبال کی سیاسی فکر کی بری طرح غلط انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔بعض نے اسے فاشزم کی ڈکٹیٹرشپ کے رہ نماکے طور پر پیش کیا، جب کہ بعض نے اس کی تحریروں میں کمیونزم کی طرف جھکاؤ رکھنے والا باور کیا۔ بہت تھوڑے لوگوں نے اقبال کے سیاسی تصورات کو ان کی منتشر تحریروں کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی ہے، تاکہ ایک ایسا مربوط سیاسی نظریہ کشید کیا جا سکے جو اقبال کے فلسفیانہ افکار کے عمومی فریم سے لگا کھاتا ہو۔ اقبال کے مادحین اور ناقدین ، دونوں ہی سے یہ بات عام طور پر نظر انداز ہوئی ہے کہ انسان کے سیاسی افکار اس کی فکر کے عمومی نظام سے جدا نہیں کیے جا سکتے، کیوں کہ دونوں ہی اس کی شخصیت کے مربوط کل کی گہرائیوں سے پھوٹتے ہیں۔ ‘‘

یہاں اقبال کی اپنی تحریروں اور اقبالیات کے ماہرین کی آرا کی روشنی میں اقبال کی مذکورہ بالا شناخت کا تنقیدی جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔ 

ڈکنسن کے مذکورہ بالا اعتراض کا جائزہ لیتے ہوئے اقبال نے لکھا:

’’میں جس شے کا قائل ہوں، وہ روحانی قوت ہے نہ کہ جسمانی طاقت۔بے شبہہ جب کسی قوم کو جہاد کی دعوت دی جائے تو اس صدا پر لبیک کہنا میرے عقیدے میں اس کا فرض ہونا چاہیے، لیکن جوع الارض (تسخیر ممالک) کے لیے جنگ وجدل کرنا میں نے حرام قرار دیا ہے۔‘‘

چناں چہ "اسرارِ خودی" میں ایک جگہ عنوان اسی طرح باندھا ہے: ’’دربیان ایں کہ مقصد حیاِ ت مسلم اعلاے کلمۃ اللہ است وجہاد اگر محرکِ او جوع الارض باشد، درمذہب اسلام حرام است‘‘؛اقبال کے عربی ترجمان شیخ عبدالوہاب عزام نے اس کا عربی ترجمہ خوب صورت الفاظ میں کیا ہے جو مقصودکو عمدہ طور پر واضح کرتا ہے یعنی: "مقصد حیاۃ المسلم اعلاء کلمۃ اللہ، والجھاد للاستیلاء علی الارض حرام"(عبدالوہاب عزام، محمد اقبال سیرتہ وفلسفتہ وشعرہ، 86) یعنی مسلمان کی زندگی کا مقصد اللہ کا کلمہ بلند کرنا ہے اور زمین پر محض غلبہ پانے کی خاطر جہاد کرنا حرام ہے۔اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے توواضح ہے کہ اہل مغرب نے آج تک دنیا میں جو فساد مچایا ہے، وہ" جوع الارض"کے مرض کی وجہ سے برپا کیا ہے۔کہیں اقوام کے وسائل کی لوٹ، کہیں توسیعی عزائم ، کہیں حقیقی یا مفروضہ دشمن کو پامال کرنا، لیکن ان کا اعتراض صرف اسلام اور مسلم شخصیات پر ہے :

اپنے عیبوں کی کہاں آپ کو کچھ پروا ہے

غلط الزام بھی اوروں پہ لگا رکھا ہے

یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام

یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے!

اسی طرح اقبال نے کشمکش کے تصور پر لکھا: ’’میں کش مکش کا جو مفہوم لیتا ہوں، وہ اصلاً اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی، درآں حالیکہ نطشے کے پیش نظر غالباً اس کا صرف سیاسی مفہوم تھا۔۔۔ میں نے جنگ وتنازع کی صورت جس مفہوم میں تسلیم کی ہے، وہ اصلاً اخلاقی ہی ہے۔ ڈکنسن نے افسوس کہ میری تعلیم مردانگی وسختی کے اس پہلو کو نظر انداز کر دیا ہے۔‘‘

اسی طرح اقبال نے ڈکنسن کے مخصوص استشراقی پس منظر پر نقد کرتے ہوئے لکھا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کو ایک خون ریز مذہب سمجھنے کا جو متعصبانہ خیال یورپ میں قدیم سے چلا آتا ہے، وہ ڈکنسن صاحب کے سر پر بھی سوار ہے۔ حالاں کہ واقعہ یہ ہے کہ یہ صرف مسلمان، بلکہ کافہ انام اسلامی عقیدے کی رو سے آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے کے لائق ہے، بشرطیکہ نسل وقوم کے اصنام کو توڑ دیا جائے اور ایک دوسرے کی خودی یا انا کو تسلیم کیا جائے۔‘‘ (ڈاکٹر سید عبداللہ، حوالہ سابق، ص 8، 9)

ڈاکٹر سید عبداللہ نے اقبال کے بارے میں مغربی مصنفین میں سے پروفیسر آربری کی آرا نقل کی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال کے پیغام کو جن مستشرقین نے سنجیدگی سے دیکھا، ان کی رائے کس طرح ڈکنسن کی رائے سے مختلف ہے۔آربری نے لکھا:

’’یورپ صدیوں سے اسلام کے ساتھ نا انصافی کر رہا ہے،ان معنوں میں کہ اسلامی تہذیب وتمدن کے واضح کارناموں کو نظرانداز کرتارہا، کیوں کہ یورپ کے فضلا علمی طریقہ کار اپنانے کے بجائے مذہبی عصبیتوں میں پھنسے رہے۔۔۔اس لیے اگر اقبال نے اپنی نظم ونثر میں یہ دعویٰ کیا کہ یورپ انسانی ترقی کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے تو حقیقت یہ ہے کہ یہ یورپ کے فضلاے سابق کے تعصبات کا قدرتی ردعمل ہے۔۔۔اب جب کہ تعصبات کے بادل آہستہ آہستہ چھٹتے جا رہے ہیں، یورپ کو واقعی یہ سوچنا چاہیے کہ اس نے مشرق سے کیا کیا لیا اور اب بھی تہذیب کی ترقی کے لیے مشرق سے کیا کچھ لے سکتا ہے۔ اسی صورت میں تعمیرِ انسانیت کے مقصد میں وسیع تر اشتراکِ عمل ہو سکتا ہے۔‘‘

علامہ اقبال کے کلام کی علامات میں "شاہین" کی علامت بہت اہم ہے۔ اقبال کا شاہین غیرت و خودداری ، فقر واستغنا، خدامستی، بلند پروازی، خلوت پسندی، تیز نگاہی، سخت کوشی، آزادی، تجسس اور قوت وتوانائی کا سمبل ہے۔ اقبال کی علامتوں کے حوالے سے ڈاکٹر سجاد باقر رضوی کا یہ کہنا بہت برمحل ہے کہ "اقبال کے کلام کی روشنی میں جب ہم ان علامتوں کو سمجھتے ہیں تو ایک طرف تو اپنے شعور میں اضافہ کرتے ہیں اور روحانی زندگی کی تنظیم کرتے ہیں اور یہی علامتیں جن کے ساتھ ہماری جذباتی وابستگی ہے اور جو ہمارے لاشعور کا خارجی انعکاس ہیں، ہمارے طرزِ احساس کی تشکیل کرتی ہیں۔"(خالد اقبال یاسر، جدید تحریکات اور اقبال، ص 332، بحوالہ سجاد باقر رضوی، علامہ اقبال اور عرضِ حال ص 13) 

اقبال نے شاہین کی علامت مردِ کامل کی ترجمانی کے لیے پیش کی ہے جس سے مراد انبیاء علیہم السلام، حضراتِ صحابہ اور اولیاے امت ہیں۔اس کے مقابلے میں اقبال نے کرگس کی علامت لائی ہے جو گھٹیا درجے کی نفسانی خواہشات ، فروتر مقاصد ، فطرت کی پستی اور دوں نہاد مزاج کا استعارہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں اقبال کا شاہین ،قرآن کا "نفس مطمئنہ" اور کرگس، "نفسِ امارہ" ہے۔ تاہم اقبال کے بارے میں شدت پسندی کا بیانیہ کشید کرنے میں سب سے زیادہ اس اصطلاح سے غلط فائدہ اٹھایا گیا ہے۔اسے مسولینی کی فکر اور نیٹشے کے سپر مین کی علامت قرار دیا گیا، جہاں جبر وقہر اور تسلط ہے۔جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، اس طرح کے اعتراضات زیادہ تر ترقی پسند ادیبوں نے کیے۔ فکر اقبال کے سلسلے میں ایک معتبر نام عزیز احمد(مصنف ، "اقبال ۔ نئی تشکیل") کا ہے۔انھوں نے ان امور پر نقد کرتے ہوئے لکھا: ’’[اقبال کا شاہین] بلند پروازی اور خیر کی طاقت کا رمز ہے، جبر کا نہیں۔طاقت اس لیے ضروری ہے کہ اس سے انسان مظلوم نہیں بن سکتا۔‘‘ عزیز احمد مزید کہتے ہیں کہ اقبال نے دوسرے مذاہب کے حقوق پامال کرنے کی ہدایت کبھی نہیں کی، صرف اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے طاقت جمع کرنے کی تلقین ضرور کی ہے۔

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے بعض دیگر مقالات کے براہِ راست اقتباسات بھی درج کیے جائیں جو ان کی سیاسی فکر پر روشنی ڈالتے ہیں؛ کیوں کہ علامہ کے کلام میں ’’خلافت‘‘ کا لفظ دیکھتے ہی غلط فہمیوں کا ایک سلسلہ جنم لے لیتا ہے اور اس اصطلاح کو اقبال کے پورے فکری نظام میں رکھ کر دیکھنے کے بجائے جزوی تفہیم کے نتیجے میں غیرصحیح نتائج اخذ کرلیے جاتے ہیں۔

اقبالیات میں ایک مستقل ذیلی صنف "اقبال دشمنی" کو اقبالیات کے نامور محقق جناب ڈاکٹر ایوب صابر نے ایک پورے پراجیکٹ کے طور پر پانچ کتابوں میں مکمل کیا ہے۔ ’’اقبال کی فکری تشکیل ۔ اعتراضات اور تاویلات کا جائزہ‘‘ نامی کتاب میں انھوں نے ’’کیا اقبال جارحیت پسند ہیں؟‘‘ کے عنوان کے تحت زیر نظر تحریر کے مقصد پر گفت گو کی ہے، تاہم انھوں نے اقبال کی نثری تحریروں کا بھرپور جائزہ نہیں لیا جو کہ ضروری تھا، کیوں کہ اقبال کے تصورِ سیاست کی ناقص تفہیم کے ساتھ لوگ تصورِ جارجیت کو جوڑتے ہیں۔یہاں اقبال کی نثری تحریروں کے مختلف اقتباسات دیے جا رہے ہیں۔ راقم کے پیش نظر سید عبدالواحد معینی کے مرتب کردہ ’’مقالاتِ اقبال‘‘ ،پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض کے مرتب کردہ ’’افکارِ اقبال‘‘ اور لطیف احمد شیروانی کی مرتب کردہ Speeches, Writings & Statements of Iqbal ہیں جن میں اقبال کی Original تحریریں درج ہیں۔ ’’افکارِ اقبال‘‘ میں ایک مقالہ ہے ’’اسلام کا اخلاقی اور سیاسی نقطہ نظر‘‘؛ یہ اصل میں ترجمہ ہے اقبال کے ایک مقالے "Islam as a Moral and Political Ideal" کا جو شیروانی کی مذکورہ بالا کتاب کا حصہ ہے؛اس میں ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’قرآن مجید نے دفاعی جنگ لڑنے کی اجازت دی ہے، لیکن منکروں اور کافروں کے خلاف جارحانہ جنگ لڑنے کا عقیدہ اسلام کی مقدس کتاب کی رو سے بالکل ناجائز ہے۔۔تمام جنگیں جو پیغمبر اسلام کے زمانہ حیات میں لڑی گئیں، دفاعی تھیں۔۔دفاعی جنگوں میں بھی پیغمبر اسلام نے مفتوح پر وحشیانہ ظلم کرنے سے منع کیا ہے۔میں ذیل میں آپ کے وہ رقت انگیز کلمات درج کرتا ہوں جو آپ نے مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے اس وقت ادا کیے جب وہ جنگ کے لیے جا رہے تھے۔ ‘‘

نبی پاک کے اس فرمان کے اقتباس میں بچوں، عورتوں ، غیر مقاتلین (Non-Combatants) وغیرہ سے جنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ آگے اقبال لکھتے ہیں :

’’تاریخ اسلام ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام کی توسیع واشاعت بطور مذہب کسی صورت میں بھی اس کے پیرؤوں کے سیاسی اقتدار سے مربوط نہیں۔ اسلام کی سب سے بڑی روحانی فتوحات ہمارے سیاسی زوال اورانحطاط کے زمانے میں عمل میں آئیں۔‘‘

مزید لکھتے ہیں:

’’صداقت تو یہ ہے کہ اسلام لازمی طور پر امن کا مذہب ہے۔سیاسی، اجتماعی اور معاشرتی خلل کی تمام صورتوں کو قرآنِ مجید نے غیرمصالحت پسندانہ اصطلاحات میں مسترد کیا ہے۔‘‘

آیاتِ قرآنی نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’ان آیات سے پتا چلتا ہے کہ قرآنِ مجید نے کتنی سختی کے ساتھ کھلے انداز میں سیاسی ، اجتماعی اور معاشرتی بدنظمیوں کی تمام صورتوں کی مذمت کی ہے۔ ‘‘

نیز لکھتے ہیں:

’’اسلام کا مطمح نظر ہر قیمت پر اجتماعی اور معاشرتی امن وامان کوحاصل کرنا ہے۔معاشرے میں سخت اور شدید قسم کے تمام طریقوں کی بڑی روشن اور واضح زبان میں مذمت کی گئی ہے۔‘‘

اس کے بعد انھوں نے وہ احادیث نقل کی ہیں جن میں امیر اگر ایک حبشی غلام بھی ہے توا س کی اطاعت کا حکم ہے، ان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہم میں سے وہ لوگ جو اس بات کو اپنا شعار بناتے ہیں کہ سیاسی عقائد میں مسلمانوں کی ہیئت عمومی سے اختلاف کریں تو ان کو چاہیے کہ اس حدیث کو بڑے غور اور بڑی احتیاط سے پڑھیں اور اگر ان کے دل میں پیغمبر اسلام کے الفاظ کے لیے کوئی احترام ہے تو یہ ان کا فرض ہے کہ سیاسی رائے کے اظہار میں خود کو اس گھٹیا روش سے باز رکھیں۔‘‘

آگے لکھتے ہیں :

’’قومیت ہی اسلامی اصول کی خارجی علامت ہے۔یہی وہ اصول ہے جو اسلام میں انفرادی آزادی کو محدود کرتا ہے، ورنہ اسلام کے آئین کی رو سے ہرفرد مطلقاً آزاد ہے۔ ایسی قوم کے لیے حکومت کی بہترین صورت جمہوریت ہے جس کا نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان کو قابل عمل حد تک آزادی دی جائے تاکہ وہ اپنی فطرت کے تمام امکانات کی نشوونما کر سکے۔‘‘

آگے اقبال نے اسلام کے سیاسی ڈھانچے پر گفتگو کی ہے جس میں اقتدارِ اعلیٰ میں اللہ کے قانون کی حاکمیت، قوم کے تمام افراد میں مساوات ، فرقہ پرستی کی مذمت، مسلکی جھگڑوں پر تنقید اور وحدت کی دعوت دی گئی ہے۔ (ملاحظہ ہو، علامہ اقبال، "افکارِ اقبال"، مرتبہ پروفیسر ڈاکٹر محمد ریاض، ص 27 150 52) 

اقبال کے اس مضمون میں اسلام کے تصورِ جہاد میں دفاعی جہاد کا موقف اپنایا گیاہے جو ایک خاص فضا میں برصغیر میں بعض افراد کے ہاں سامنے آیا جیسے سید امیر علی، چراغ علی،علامہ شبلی نعمانی وغیرہ؛ تاہم یہ موقف محل نظر ہے جس پر نقد کا یہاں موقع نہیں، لیکن اس کے علی الرغم اقبال کا یہ مضمون نہایت واضح طور پر ایسے خطوط دیتا ہے جن کی رو سے آج کی شدت پسند تحریکوں کے لیے اقبال کے ہاں کوئی جگہ نہیں۔ یہاں یہ دلچسپ تقابل پیش نظر رکھنا مناسب ہے کہ مولانا وحید الدین خان بھی صدرِ اول کے غزوات وسرایا کے بارے میں اقدامی کے بجائے دفاعی ہونے کے نقطہ نظر کے قائل ہیں اور اقبال بھی؛ لیکن وہ اقبال کے بارے میں موجودہ حالات کے لحاظ سے ایک بالکل دوسرے اور غیردرست نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ اس طرح کے امور ہراس شخص کو پیش آئے ہیں، جنھوں نے اقبال کی فکر کے کسی ایک جز کو سامنے رکھ کر کوئی نتیجہ اخذ کیا ہے۔ ممکن ہے مولانا کے پیش نظر یہ بات ہو کہ چوں کہ تقسیم برصغیر کے معاملے میں اقبال تقسیم کی پالیسی پر عمل پیرا تھے، اس لیے ضرور ہے کہ ان کی فکر بس "تقسیم" ہی سکھاتی ہے، حالاں کہ وہ اس وقت کے تناظر میں ایک خاص فیصلہ تھا جسے مسلمانانِ برصغیر نے اختیار کیا جس کے پس منظر، وجوہ اور جواز میں ان حضرات کا تصور کچھ کم زور اساسات پر استوار نہیں تھا۔ یہاں اس بحث میں جانے کا موقع نہیں۔ 

اسلام میں خلیفہ کے تصور کے ذیل میں اسلام کے شورائی مزاج کے روح کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے:

"The Caliph is not necessary the high-priest of Islam; he is not the representative of God on earth. He is fallible like other men and is subject like every Muslim to impersonal authority of the same law... In fact the idea of personal authority is quite contrary to the spirit of Islam." (Sherwani, Speeches, Writings & Statements of Iqbal, 142.)

’’خلیفہ اسلام میں کوئی پوپ نہیں ہوتا، وہ زمین پر خدائی ترجمان نہیں ہوتا۔ وہ ویسا ہی غیرمعصوم ہوتا ہے جیسے دیگر لوگ اسی قانون کے غیرشخصی اقتدار کے تابع ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شخصی اختیار کا تصور مکمل طور پر اسلام کی روح کے منافی ہے۔‘‘

’’مقالاتِ اقبال‘‘ (مرتبہ عبدالواحد معینی) میں ایک مضمون ’’خلافت اسلامیہ 150 عرب جاہلیت اور طریق انتخابِ رئیس‘‘ ہے جواس باب میں اقبال کی فکر کی توضیح میں بہت اہم ہے؛ اقبال کہتے ہیں:

’’اسلام ابتدا ہی سے اس اصول کو تسلیم کر چکا تھا کہ فی الواقع اور عملاً سیاسی حکومت کی کفیل وامین ملت اسلامیہ ہے کہ کوئی فردِ واحد؛ ہاں جو عمل انتخاب کنندگان اس معاملہ میں کرتے ہیں، اس کے معنی صرف یہی ہیں کہ وہ اپنے متحدانہ وآزادانہ عملِ انتخاب سے اس سیاسی حکومت کو ایک ایسی مختصر ومعتبر شخصیت میں ودیعت کر دیتے ہیں جس کو وہ اس امانت کا اہل تصور کرتے ہیں۔ یوں کہو کہ تمام ملت کا ضمیر اجتماعی اس ایک فرد یا شخصیت منفردہ کے وجود میں عمل پیرا ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حقیقتاً اور صحیح معنوں میں فرد تمام کی تمام قوم کا نمائندہ کہلا سکتا ہے، لیکن ایسے فرد کا مسند حکومت پر متمکن ہونا شریعت کے نزدیک اسے کسی برتری یا ترجیح کا مستحق ہرگز نہیں بناتا۔شریعتِ حقہ کی نگاہ میں اس کی شخصی وذاتی حیثیت بالکل وہی رہے گی جو ایک عام دوسرے مسلمان کی ہے۔اس کوان افراد پر ، جن کا وہ نمائندہ ہے، سوائے اس حکومت کے جو شرعاً آئین کے نافذ کرنے کی غرض سے اسے حاصل ہے اور کوئی اختیار و اقتدار نہ ہوگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مذہب اسلام میں مسئلہ "قانون سازی" کی بنیاد شریعت کے تصریحی احکام کے بعد تمام تر اتحاد و اتفاق و آرائے جمہور ملت کے بنیادی اصول پر قائم ہے۔ ‘‘ 

مزید لکھتے ہیں:

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خود اپنے فرزند کو خلافت کی امیدواری سے مستثنیٰ رکھنا کس قدر روشن اور جلی ثبوت ہے اس الم نشرح حقیقت کا کہ اس زمانے تک عرب کے سیاسی دل ودماغ کو روایتی بادشاہت کے خیال سے قطعاً بعد اور مغائرت تھی۔‘‘

’’جمہوریہ اسلامیہ کی بنا شریعت حقہ کے نزدیک ایک مطلق اور آزاد مساوات پر قائم ہے۔شریعت کے نزدیک کوئی گروہ، کوئی ملک، کوئی زمین فائق ومرجح نہیں۔ اسلام میں کوئی مذہبی پیشوائی یا مشیخت نہیں۔ ذات پات یا نسل ووطن کا امتیاز نہیں۔۔۔اسلام کا سیاسی منتہا یہ ہے کہ تمام نسلوں اور قوموں کے آزادانہ اتحاد واختلاط سے ایک نئی جامع فضائل وکمالات قوم پیدا کی جائے۔ ‘‘

اسی مضمون میں اقبال نے خلیفہ اسلام کے اوصاف شمار کرنے کے بعد عالم اسلام میں، ابن خلدون کے تصورِتعددِ خلفا کے نظریے کی حمایت کی ہے اور نظیر کے طور پر حضرت معاویہ اور حضرت علی کی خلافتوں کو پیش کیا ہے۔ اقبال کے تصورِ خلافت کو سمجھنے کے لیے یہ مضمون نہایت اہم ہے جو لبرل ازم اور معاصر شدت پسندانہ رویوں کے مابین منہجِ اعتدال کا حامل ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: علامہ محمد اقبال، "مقالاتِ اقبال"، مرتب سید عبدالواحد معینی، ص 123۔ 153)

فکر اقبال کے اس نثری پہلو کا نقش اولین راقم نے سب سے پہلے جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل کی کتاب ’’اقبال اور جدید دنیائے اسلام: مسائل ، افکار اور تحریکات‘‘ میں پڑھا تو احساس ہوا کہ اقبال کی فکر اس پہلو سے ہمارے یہاں بہت سی غلط فہمیوں کا شکار ہے۔پھر براہ راست ان کی نثری تحریروں کو دیکھا تو یہ تصورِ مزید مستحکم ہوا۔ اس کے بعد ایک دوست کی وساطت سے معاصر ماہر اقبالیات جناب خرم علی شفیق نے اپنی مختصر کتاب ’’اسلامی سیاسی نظریہ علامہ اقبال کی فکر کی روشنی میں ‘‘ حاصل ہوئی تو اس کے نقوش مکمل طور پر نکھر کر سامنے آئے جس سے واضح ہوا کہ اقبال اسلامی حکومت سے کوئی جبر اور تسلط پر مبنی کسی سیاسی نظریے کا تصور پیش نہیں کرتے ہیں، بلکہ اس میں شریعت کے قانون کی بالادستی کے ساتھ جدید جمہوری تصورات کے صالح اجزا کو بھی پورے طور پر پیش نظر رکھا گیا ہے؛ یوں یہ تصور ایک خوب صورت اور متوازن تصورِ سیاسی کی شکل میں سامنے آتا ہے جس میں دینی روح اور تمدنی ارتقا دونوں کی پاس داری ملتی ہے جو اس وقت ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔

اقبال ایک طرف اگر اقتدار اعلیٰ میں شریعت کی بالادستی کے قائل ہیں تو دوسری طرف پارلیمنٹ کو حق اجتہاد تفویض کرنے کے قائل ہیں، لیکن ساتھ وہ خلیفہ کے اوصاف بھی تفصیل سے ذکر کرتے ہیں جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حکم ران کو دینی لحاظ سے کن اوصاف سے متصف ہونا ضروری ہے۔ 

ہمارے یہاں ایک طرف اسلا م کے نام پر پرتشدد تحریکوں کا بیانیہ ہے جو بزورِ شمشیر اسلام کو لوگوں کے لیے قابل قبول بنانا چاہتی ہیں، تو دوسری طرف سیکولر اور لبرل ذہن کا جو مغرب سے مرعوب، کسی مجاہدہ نفسانی سے گریزاں اور ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست‘‘ کےHedonistic فلسفے پر عمل پیرا ہے۔محترم جاوید احمد غامدی صاحب کے بیانیے میں اگرچہ اربابِ حکومت کی کچھ دینی ذمے داریاں بھی شمار کی گئی ہیں، لیکن عملی طور پر قانون سازی کے عمل میں قرآن وسنت کی بالادستی کو ختم کر دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں یہ بڑی حد تک دوسری قسم کے بیانیے کے لیے سازگار ہو گیا ہے۔ اس میں آج تک کی علما اور مخلصین ملت کی پرامن دینی جمہوری مساعی پر پانی پھر جاتا ہے۔ اس لیے جدید جمہوری اداروں کو ایک وجودی حقیقت کے طور پر باقی رکھتے ہوئے اسلام کے تصورِ خلافت کی Values کی جو آئیڈیالوجی اقبال کے ہاں ہے، اس کو اپنانا اور اپنے پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ 

اقبال کا یہ تصور منہجِ اعتدال معلوم ہوتا ہے جس میں اسلام کے تصورِ سیاست اور جدید تمدنی ارتقا کے تقاضوں کی پاس داری موجود ہے، نیز پاکستان کے تناظر میں یہ اوپر مذکورہ علما اور مخلصینِ ملت کی مساعی کے بھی موافق ہے۔مذکورہ بالا توضیحات سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال جہاں ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ جیسی باتیں اپنی شاعری میں کرتے ہیں تو ان کا حقیقی محل اور مفہوم کیا ہوتا ہے اور یہ کہ کس طرح یہ بات شدت پسندی بیانیے کی حمایت نہیں کرتی۔ یہ بات ظاہر ہے فکر اقبال کو بحیثیت مجموعی پیشِ نظر رکھنے سے سامنے آتی ہے، ورنہ جزوی امور پر توجہ مرکوز رکھنا بہت غلط نتائج اخذ کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ واللہ اعلم!






ڈاکٹر اقبالؒ کے نام سے ایک مکتبِ فکر کی نئی دریافت

علامہ ڈاکٹر خالد محمود

پاکستان کے علمی اور اسلامی حلقوں میں اب تک جو مکاتبِ فکر معروف اور موجود رہے ہیں ان میں ڈاکٹر علامہ اقبال مرحوم کے نام سے اب تک کوئی مستقل مکتبِ فکر سنا اور پایا نہیں گیا۔ ہمارے معلومات کے مطابق پاکستان میں کوئی مکتبِ فکر یا فرقہ ڈاکٹر اقبال کے نام سے موجود نہیں، نہ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے کبھی کسی مستقل دینی قیادت کا دعوٰی کیا، نہ انہوں نے اس پر دانشوروں کی کوئی جماعت بنائی۔ اب جبکہ انہیں ہم سے جدا ہوئے نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہو رہا ہے ان کے نام سے ایک مستقل مکتبِ فکر کی دریافت یا ڈاکٹر صاحب مرحوم کا بطور مجتہد مطلق کے تعارف واقعی اس دور کے اہلِ علم کے لیے ایک نیا باب ہو گا۔

پاکستان میں جب کبھی نفاذِ اسلام یا شریعت بل کی بات اٹھتی ہے بعض طبقے اس کی روک تھام میں کوئی نہ کوئی نئی بات سامنے لے آتے ہیں تاکہ قارئین اور دانشوروں کا ذہن خود قانون میں ہی الجھ کر رہ جائے اور قوم کسی وقت کسی واضح لائحہ عمل پر کھڑی نظر نہ آ سکے۔ پاکستان کو وجود میں آئے ایک طویل مدت ہو چکی ہے اور ہم ابھی تک یہ طے نہیں کر سکے کہ اسلام ہے کیا اور اس کی قانونی تشکیل کس طرح ہو سکے گی۔ جو قوم ہر وقت نظریات میں ہی الجھی رہی اس پر عمل کا وقت کب آئے گا اس کی عملی صورت بہرحال آپ سب کے سامنے ہے۔ 

روزنامہ جنگ کی ۲۶، ۲۷ اور ۲۹ جولائی کی اشاعتوں میں جناب ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ کا ایک مضمون علامہ اقبال کا مکتب فکر کے نام سے تین قسطوں میں شائع ہوا ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ گورایہ صاحب بھی انہی دانشوروں میں ہیں جن کا ذہن اسلام کی قانونی تشکیل میں ابھی تک الجھا ہوا ہے لیکن یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بات یا تشکیک پیدا کرنے میں ڈاکٹر اقبال مرحوم کا سہارا ضرور لیا ہے۔ بات کچھ بھی نہ ہو لیکن کسی بڑے آدمی کا نام لینے سے بات لائقِ سماعت ضرور ہو جاتی ہے اور لوگ اس پر غور کرنے لگتے ہیں۔ 

سوال یہ نہیں کہ ڈاکٹر اقبال مرحوم نے اپنا کوئی مستقل مکتبِ فکر قائم کیا ہے یا نہیں، اس پر ہم کچھ بعد میں عرض کریں گے۔ ہمارا پہلا سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر گورایہ صاحب اس وقت کیا کہنا چاہتے ہیں؟ وہ قوم کا ذہن کدھر لے جانا چاہتے ہیں؟ اسلام کی قانونی تشکیل میں مزید الجھاؤ کی طرف یا ان کے ذہن میں اس کی کوئی عملی صورت موجود ہے جسے وہ سمجھتے ہوں کہ جمہور مسلمان اسے قبول کر لیں گے اور اپنے مکاتب فکر کو یکسر چھوڑ دیں گے اور پھر پاکستان ایک مضبوط اسلامی مملکت بن جائے گا۔ ڈاکٹر گورایہ صاحب کے ذہن میں پاکستان کے لیے اگر کوئی ایسا خاکۂ عمل ہو اور اس پر قوم کے اتفاق کے امکانات بھی برابر روشن ہوں تو گورایہ صاحب کی یہ پیشکش واقعی امت کے لیے ایک احسانِ عظیم ہو گا۔ اور اس کی یہی صورت ہونی چاہیے کہ پہلے آپ وہ راہِ عمل بتائیں اور اس کے بعد اس کی تائید میں دلائل و نظریات پیش کریں۔ دعوٰی اور دلیل میں کچھ تو فاصلہ چاہیے، دعوٰی کو دلائل کے ساتھ ملا کر بیان کرنا نتیجہ نکالنے میں آسانی پیدا نہیں کرتا۔ 

اب دوسرے سوال کی طرف آئیے کہ ڈاکٹر اقبال نے کبھی اپنے آپ کو کسی خاص مکتبِ فکر کے قائد کے طور پر متعارف کرایا ہے؟ یا ان کے پیشِ نظر صرف بات کہہ دینا ہی رہا ہے اور عملی طور پر انہوں نے نہ کوئی جماعت بنائی، نہ اپنے آپ کو کبھی مجتہد مطلق کے منصب پر بٹھایا اور نہ وقت کی کسی دیگر دینی قیادت سے ٹکر لی؟ ہاں آپ نے کبھی اسے جھنجھوڑا اور اسلامی قومیت کے لیے ابھارا ضرور ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ واقعی کسی مستقل مکتبِ فکر کے بانی تھے۔ آپ نے اگر کہا

اے گفتار ابوبکر و علی ہشیار باش

تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ سنی مسلمان نہ تھے، یا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کو خلافتِ راشدہ نہ سمجھتے تھے۔ اسی طرح آپ نے جب کہا 

سازِ عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں سے سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ

تو اس کا مطلب بھی یہ نہ لینا چاہیے کہ آپ مسلمانوں کی موجودہ پریشانیوں اور نکبتوں کا سبب صرف شیعہ کے ماتمی جلوسوں کو ہی سمجھتے ہیں اور مغرب آج اگر عروج پر ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیوں میں شیعہ کی طرح کوئی مستقل عزادار گروہ نہیں ہے جو ہر سال حضرت مسیحؑ کے صلیب پر چڑھنے کی عزاداری میں جلوس نکالتا ہو۔ حاشا و کلّا ڈاکٹر صاحب کی یہ مراد ہرگز نہیں۔ آپ ایک قومی رہنما کی حیثیت سے قوم کو ایک اعتدال پر لانا چاہتے ہیں اور کہنا چاہتے ہیں کہ اپنی اپنی راہ پر رہتے ہوئے ہمیں متوازی حالات اور نظریات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے اور اختلافِ مسلک ہمارے قومی استحکام میں رکاوٹ نہ بننا چاہیے۔ ایک قومی مفکر ہونے کی حیثیت سے آپ کو یہی کچھ کہنا چاہیے تھا۔ 

بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے نام کے ساتھ ڈاکٹر اقبال کا نام بطور نقاشِ پاکستان آتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے مسلمانوں کی ایک اسلامی قومیت کا راگ جس دلآویز رنگ میں گایا ہے وہ پورے عالمِ اسلام کا مشترکہ فکری سرمایہ ہے لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنے آپ کو کسی داعی کے طور پر پیش نہیں کیا۔ آپ اپنے آپ کو ہمیشہ دوسرے مسلمانوں کا ہی ایک حصہ سمجھتے رہے ہیں، آپ نے اپنے ہاں کبھی اور کہیں اصلی اور نسلی اسلام کی سرحدیں قائم نہیں کیں۔ 

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ آپ بڑے شاعر شاعر نہ تھے، شعر و ادب تو آپ کا صرف پیمانۂ ادا تھا۔ آپ مسلمان بھی تھے اور بڑے دردمند اور حساس مسلمان تھے۔ آپ مفکر بھی تھے اور قوموں کے عروج و زوال پر آپ کی نظر بہت گہری تھی۔ قیامِ انگلستان کے دوران آپ نے مغربی تہذیب کو معرضِ زوال میں دیکھا تو آپ نے چاہا کہ جس طرح بھی بن پڑے اب اسلام ان کے سامنے پیش کیا جائے۔ یہ لوگ اپنی تہذیب سے تنگ آئے ہوئے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اب یہ فطرت کو پہچانیں اور اسلام ان مغربی قوموں کے لیے کسی طرح لائق قبول ہو جائے۔ آپ نے ان کے مفکرین اور پھر نفسِ مذہب کے منکرین پر کاری ضرب لگائی۔ وکیل اپنا مقدمہ جیتنے کے لیے ہر طرح کے دلائل پیش کرتا ہے، اس کے پیشِ نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ عدالت کو کس طرح متاثر کر سکتا ہے، قانون کا محض علمی اور فکری پھیلاؤ اس وقت اس کا موضوع نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے ایک فلسفی اور مفکر کی حیثیت سے مغربی قوموں کی سوچ پر کڑی تنقید کی ہے اور انہیں بہت حد تک اسلامی فکر سے متاثر کیا ہے۔ 

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
تو اقبال اس کو سمجھاتا رموزِ کبریا کیا ہے

اگر اقبال کسی مستقل مکتبِ فکر کا بانی ہوتا تو قائد اعظم محمد علی جناح پاکستان کی اساس اس کی فکر پر رکھتے۔ آپ سے جب کبھی پوچھا گیا کہ پاکستان کا دستورِ ریاست کیا ہو گا آپ نے قرآن بتلایا اور تحریک کا مذہبی رخ واضح کرنے کے لیے شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کو ساتھ لیا۔ ڈاکٹر اقبال اور قائد اعظم میں قومی فکری مسائل پر طویل خط و کتابت بھی رہی لیکن ہم اس میں کہیں دیکھ نہیں پاتے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے آپ کو کسی مستقل مکتب فکر کا بانی کہا ہو۔ آپ نے اپنے خطبات میں جن اصولِ شریعت اور فقہی امور پر بحث کی ہے وہ مغربی اور مشرقی سوچ میں ہم آہنگی پیدا کرنے اور انہیں اپنے قریب کرنے کی ایک فکری سوچ ہے۔ ان کی روشنی میں ڈاکٹر اقبال کے اپنے مسلک کی تعیین ایک سطحی فکر ہو گی۔ ڈاکٹر اقبال اگر یہاں (برصغیر پاک و ہند) کے مسلمانوں کو کوئی راہ دکھانا چاہتے یا یہاں کی دینی قیادت پر تنقید کرتے تو ظاہر ہے اردو آپ کی اپنی زبان تھی، کیا ضرورت پڑی تھی کہ آپ اپنے خطبات انگریزی میں لکھتے۔ علامہ مشرقی ایک اپنی فکر کے بانی تھے، انہوں نے برصغیر کی دینی قوت کو للکارا تو باوجودیکہ آپ انگریزی میں بات بہتر کہہ سکتے تھے آپ نے اپنے مضمون اردو زبان میں لکھے اور یہی مقتضائے حال تھا۔ ڈاکٹر اقبال بھی اگر اسی پوزیشن میں ہوتے تو برصغیر کی دینی قیادت کا اس درجہ احترام کبھی نہ کرتے جیسا کہ ان کے حالات میں ملتا ہے، اور آپ اپنے فکری اور فقہی خطبات پہلے اردو میں پیش کرتے۔

دیوبند کے شہرۂ آفاق محدّث مولانا انور شاہ صاحب جب لاہور آئے تو ڈاکٹر صاحب نے انہیں اپنے ہاں ٹھہرایا تھا اور کئی دنوں تک ان سے اسلام کے فکری اور قانونی مسائل پر استفادہ کرتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کسی مرحلے پر اپنے آپ کو کسی مستقل مکتبِ فکر کا نمائندہ نہیں کہا۔ انجمن خدام الدین لاہور کے سالانہ جلسہ میں شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی تقریر آپ بڑے اہتمام سے سنتے۔ اور جب انہیں پتہ چلا کہ شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ کی طرف ملّت کے وطن سے بننے کی بات غلط منسوب ہوئی ہے تو آپ نے کہا کہ اب میں آپ کے معتقدین سے عقیدت میں کسی سے پیچھے نہیں ہوں۔ کیا ایسی بات وہ شخص کہہ سکتا ہے جو خود ایک مستقل دینی قیادت کا داعی ہو؟ کیا اس سے وقت کی دیگر دینی قیادتوں کا احترام اس درجہ میں پایا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ 

اگر آپ اس پس منظر میں ڈاکٹر صاحب کے اس خطبہ کو لیں جس سے ڈاکٹر گورایہ صاحب نے اپنے مضمون میں استناد کیا ہے تو یہ بات کھل کر آپ کے سامنے آ جائے گی کہ آپ اس علمی پیشکش میں اقوامِ مغرب اور فلسفہ زدہ طبقے کو روایتی اسلام کے قریب کر رہے ہیں، نہ کہ خود مفسر اور محدث بننے اور قوم کو وقت کی دیگر دینی قیادتوں سے دور ہٹانے کے لیے میدانِ عمل میں آئے ہوئے ہیں۔





’’سر اقبال‘‘ بنام ’’حسین احمد‘‘ ۔ ماضی کی ایک کہانی کا معما ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب کی روشنی میں

مولانا عتیق الرحمن سنبھلی

کتابیں لکھے اور چھاپے جانے کی موجودہ گرم بازاری میں اگر کوئی واقعی ’’کتاب‘‘ ہاتھ آ جائے تو کچھ زیاہ ہی اچھی معلوم ہونا قدرتی بات ہے۔ علامہ اقبال کے سوانح حیات میں علامہ کے فرزند ارجمند جسٹس (ریٹائرڈ) ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کے قلم سے نکلی ہوئی ’’زندہ رود‘‘ ایک ایسی ہی کتاب کہی جانے کی مستحق ہے۔ کتاب گو تازہ بتازہ نہیں، مگر راقم سطور کے ہاتھ میں وہ گزشتہ دنوں ہی آئی۔ تین جلدوں میں ہونے کے باوجود دلچسپی کو آخر تک قائم رکھنے والی۔

برصغیر کے پڑھے لکھے لوگوں میں کم ہی ہوں گے جنھیں علامہ کی شاعری سے دلچسپی نہ رہی ہو۔ تھوڑی بہت راقم سطور کے حصہ میں بھی آئی، اور ظاہر ہے کہ یہ کچھ سمجھ لینے کی ہی بنا پر ہو سکتا تھا۔ مگر ’’زندہ رود‘‘ پڑھ لینے کے بعد جب کسی ضرورت سے ’کلیات اقبال‘ کھولی تو اندازہ ہوا کہ اب بہت سے اشعار کی وہ تہیں کھل کر سامنے آئیں گی جو شاعر کی زندگی اور شخصیت سے واقفیت ہی کے نتیجے میں کھل سکتی ہیں۔ خاص کر ان کی شاعری کا جو ایک اہم موضوع ان کی اپنی ذات ہے، اس سلسلہ کے اشعار کے بارے میں تو یہ کتاب بہت صاف صاف بتائے دیتی ہے کہ اپنی کسی کمزوری کی طرف علامہ نے اشارہ کیا ہے تو اس میں کس حد تک حقیقت ہے اور کس حد تک شاعری۔ اور کہیں جو کوئی خوبی جتائی ہے تو اس کی واقعی حقیقت کیا ہے۔ اسی طرح اگر علامہ کے کلام میں کہیں ایسے اشعار کسی کو نظر آتے ہیں جو ان کی شاعری کے عمومی مزاج سے جوڑ نہ کھاتے ہوں، ایسے اشعار کا مسئلہ حل کرنے میں بھی یہ کتاب مددگار ہونی چاہیے۔ ایسے اشعار کی ایک بہت نمایاں مثال ’’حسین احمد‘‘ کے عنوان سے کلیات کی تقریباً آخری نظم ہے جو علامہ کی وفات سے کوئی دو ماہ قبل (فروری ۱۹۳۸ میں) کہی گئی اور اس کی تلخی سے ملی فضا کچھ ایسی مکدر ہوئی کہ آج تک صاف نہ ہو پائی۔ ان اشعار کا کوئی جوڑ علامہ کی شاعری کے عمومی مزاج اور ایک صاحب علم وفضل کی حیثیت سے ان کے مسلمہ مقام ومرتبہ کے ساتھ کبھی سمجھ میں نہ آ سکا تھا۔ اس کتاب کے ذریعہ پہلی بار ہوا ہے کہ یہ ’’عقدۂ مشکل‘‘ حل ہوتا نظر آیا۔ اس تحریر کا اصل مقصد اسی یافت کا اظہار وبیان ہے۔

علامہ کے یہ اشعار ہمارے مخدوم ومحترم استاذ حدیث حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی علیہ الرحمہ (م ۱۹۵۷ء) کے اس نظریہ کی تردید میں سپرد قلم ہوئے تھے کہ ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان وطنی رشتہ اتحاد کی بنا پر سیاسی نوعیت کی متحدہ قومیت کا رشتہ نہ صرف قائم ہو سکتا ہے بلکہ ملک میں تحریک آزادی کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ یہ رشتہ قائم ہو۔ وہ موقع جس پر یہ اشعار سر ہوئے، اس نظریے کے سلسلہ میں حضرت مولانا کے کسی تفصیلی اظہار وبیان کا نہ تھا۔ بس ایک تقریر کی اخباری رپورٹ تھی جو علامہ کے لیے اس طرح کے سخت ترین الفاظ میں رد عمل کو کافی ہو گئی کہ

عجم ہنوز نہ داند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بو العجبیست
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر زمقام محمد عربیست
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر باو نہ رسیدی تمام بو لہبیست

تین شعرو ں کے الفاظ میں جتنی سخت باتیں سما سکتی تھیں، اس کے لحاظ سے کوئی کسر یہاں نہیں رہ گئی ہے۔ تقریر اگرچہ دہلی کے ایک سیاسی جلسہ میں تھی، مگر اسے ’’بر سر منبر‘‘ ٹھیرایا گیا ہے اور وعظ یا تقریر نہیں، ’’سرود‘‘ (بہ معنی راگ) کا نام اسے دیا گیا ہے۔ پھر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ تعلق دیوبند جیسے دینی مرکز سے مسند نشینی کا ہے، مگر مرکز دین حضرت محمد عربی ﷺ کے مقام سے واقفیت کی گویا ہوا بھی نہیں لگی۔ اور پھر آخر میں نصیحت ہے کہ دین تو تمام تر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچاننے کا نام ہے، تم اگر ان کی ذات گرامی تک نہیں پہنچ پاتے تو پھر تمھارے حصے میں جو چیز رہ جاتی ہے، وہ ’’بو لہبیت‘‘ (یعنی معاذ اللہ، مصطفی دشمنی) ہے۔

علامہ کے کلام میں یہ حقیقت یقیناًبے نقاب ہے کہ وہ یورپ کے پیدا کردہ وطنی قومیت کے سیاسی تخیل کو انسانیت کے لیے ایک لعنت اور خاص دین ومذہب کے حق میں تو ’’کفن‘‘ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ’’زندہ رود‘‘ میں آپ کے اس فکر کی پوری تفصیلات سامنے آ جاتی ہیں، ا س لیے یہ تو سمجھ میں آنے والی بات تھی کہ علامہ جس چیز کو مذہب کا کفن جان رہے ہیں، اس کی دعوت کسی قابل لحاظ اسلامی شخصیت کی طرف سے آئے تو وہ اس کی تردید میں ’’ضبط سخن‘‘ نہ کر سکیں، لیکن یہ فرض کرتے ہوئے بھی کہ حضرت مولانا مدنی کا جو کہنا تھا، وہ وہی تھا جس کی حضرت علامہ کے فکر اور فہم اسلام میں گنجایش نہ تھی، تب بھی اس آخری درجہ کے جارحانہ انداز تردید کی توقع، جس سے ان کے اظہار مدعا سے زیادہ فریق ثانی کی معلوم ومعروف حیثیت عرفی کو خاطر میں نہ لانے کا اظہار ہوتا ہے، ان کے جیسے مرتبہ کی شخصیت سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ اشعار میں ’’دیوبند‘‘ کا حوالہ دلیل ہے کہ علامہ پر ’’حسین احمد‘‘ کی نہایت قابل لحاظ حیثیت عرفی مخفی نہ تھی، بلکہ یہی چیز گویا باعث ہوئی کہ وہ ان کی مبینہ تقریر پر نکتہ چیں ہوں۔ پھر آخر کیونکر یہ ممکن ہوا کہ اس تقریر کا حوالہ ’’سرود بر سر منبر‘‘ کے توہین آمیز الفاظ میں آئے؟ اور اس سے بھی بڑھ کر ’’چہ بے خبر ز مقام محمد عربیست‘‘ فرماتے ہوئے علامہ یہ بھی نہ سوچیں کہ یہ وہ کس کے بارے میں فرما رہے ہیں؟ اور پھر کسے ’’بہ مصطفی برساں خویش‘‘ کا سبق دے رہے ہیں؟ وہ کہ جس نے مدتیں در مصطفی پہ فقیرانہ گزاری ہیں اور جس کا دیوبند میں شغل ہی درس حدیث مصطفی ہے؟

کیا یہ کہا جائے کہ عشق مصطفی (ﷺ) کی جو دولت علامہ کو نصیب سے مل گئی تھی، اس کے حوالے سے وہ خود بھی معاذ اللہ اسی خامی کا شکار ہوئے جس کا گلہ واعظ زاہد کے بارے میں کرتے ہوئے فرما گئے ہیں کہ

غرور زہد نے سکھلا دیا ہے واعظ کو
کہ بندگان خدا پر زباں دراز کرے

یہ علامہ کی شدت بے پناہ کے مقابلے میں محض ایک ہلکے سے شکوے کا پیرایہ ہوگا، مگر ایسا کہنا وہی پسند کرے گا جسے اندازہ نہیں یا وہ بھول گیا ہے کہ علامہ کے عشق مصطفی سے قدرت نے کیا کام ان کی شاعری کے حق میں لیا ہے۔ اور اس سے بھی بڑھ کر خود حضرت مولانا علیہ الرحمۃ نے علامہ کی اس سراپا آتش تنقید کے جواب میں جس پاس ولحاظ سے کام لیا ہے، اس کے ہوتے ہوئے آپ کے ایک کفش بردار کو کہاں زیبا کہ وہ کوئی الگ راہ چلے؟ علامہ کی اٹھائی ہوئی اس بحث کے سلسلہ میں ’’متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ کے عنوان سے جو ایک مقالہ حضرت والا نے اس موقع پر تحریر فرمایا، وہ مکمل ہونے نہ پایا تھا کہ علامہ نے وفات پائی۔ اس ناگہانی خبر کے حوالے سے اس مقالہ کی تمہید میں رقم طراز ہوئے ہیں:

’’جب کہ میں قومیت کی لفظی بحث کے اختتام پر پہنچ کر مقصد اصلی سے نقاب اٹھانا چاہتا تھا، ناگاہ جناب ڈاکٹر صاحب مرحوم ومغفور کے وصال کی خبر شائع ہوئی۔ اس ناسزا ودل گداز خبر نے خیالات وعزائم وافکار پر صاعقہ کا کام کیا۔ طبیعت بالکل بجھ گئی اور عزائم فسخ ہو گئے۔‘‘

پھر آئندہ صفحہ پر یہ کہنے کے لیے کہ ڈاکٹر اقبال صاحب اگرچہ مجھ سے اس درجہ فائق وبرتر تھے کہ میں گویا ان کے سامنے طفل ابجد خواں، مگر ہندوستانی سیاست کے مسئلہ میں ساحران فرنگ کے سحر کا شکار ہو گئے تھے، اور ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بڑے غلطی کر جاتے جبکہ چھوٹے محفوظ رہتے ہیں، فرمایا کہ:

’’یہ امر یقینی اور غیر قابل انکار ہے کہ جناب ڈاکٹر صاحب کی ہستی کوئی معمولی ہستی نہ تھی اور ان کے کمالات بھی غیر معمولی تھے۔ وہ آسمان حکمت وفلسفہ، شعر وسخن، تحریر وتقریر، دل ودماغ اور دیگر کمالات علمیہ اور عملیہ کے درخشندہ آفتاب تھے۔ مگر باوجود کمالات گونا گوں ساحرین برطانیہ کے سحر میں مبتلا ہو جانا یا بعض غلطیوں میں پڑ جانا اور کسی ابجد خواں طالب علم کا اس سے محفوظ رہنا کوئی تعجب خیز بات نہیں:
گاہ باشد کہ کودک ناداں
بر ہدف بر زند تیرے 
(کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک نادان بچہ کا تیر نشانہ پر بیٹھ جائے)‘‘۔

اے کاش علامہ اپنے ہدف کے اس رد عمل کو دیکھنے کے لیے زندہ رہے ہوتے! یہ راقم نہیں سمجھتا کہ مرحوم علامہ نے یہ تحریر پڑھی ہوتی تو اس بے نفسی اور خاک ساری کے لیے اپنی زندگی کا کوئی ایسا دوسرا تجربہ وہ یاد کر پاتے۔ اور یقین کیا جا سکتا ہے کہ علامہ کے ساتھ ’’سر‘‘ کا برطانوی خطاب اگر نہ لگا ہوتا تو متحدہ قومیت کی بابت آپ کی رائے میں برطانوی سحر کا دخل سمجھنے کی بات بھی ہمیں حضرت والا کی اس عبارت میں نہ ملتی۔

الغرض، اگر حضرت مولانا قومیت کا وہ نظریہ پیش کر رہے ہوتے جو حضرت علامہ کے فہم اسلام سے سیدھا ٹکراتا تھا، تب بھی اس پر رد عمل کا یہ پیرایہ اظہار کہ مسند نشین دیوبند کو بیک جنبش قلم ’’بو لہبی‘‘ تک پہنچا دیا جائے، یہ علامہ سے کسی قدر کم درجہ کی فہمیدہ وسنجیدہ شخصیت سے بھی بآسانی سمجھ میں آنے والی بات نہ تھی، لیکن مولانا کی تقریر کو تو فی الواقع دور کا تعلق بھی اس بات سے نہ تھا جو حضرت علامہ کو اس قدر ناگوار گزری۔ علامہ جس وطنی قومیت کو ’’مذہب کا کفن‘‘ سمجھتے تھے، مولانا بھی اسے ایسا سمجھنے میں علامہ سے اگر آگے نہیں تو پیچھے بہرحال نہیں تھے۔ مگر لگتا ہے کہ معاملے کے ایک خاص پس منظر کی بنا پر علامہ کو اپنا ہی بیان کردہ یہ نکتہ فراموش ہو گیا تھا کہ:

الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

وہ تحریک خلافت جس سے ’’زندہ رود‘‘ کے بیان کے مطابق علامہ دور اور نفور رہے اور جس میں حسین احمد کا مولانا محمد علی جوہر وغیرہ کے ساتھ وہ جانبازانہ حصہ تھا جس کی تفصیل کے لیے ان لوگوں پر چلائے گئے مقدمہ کراچی (۱۹۲۱) کی روداد پڑھنی چاہیے، یہ اس اسلامی خلافت کو بچانے کے لیے ہی اٹھائی گئی تحریک تو تھی جس کا ازروئے وطن ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ہاں وہ اسلامی رشتہ ان کا اس کے ساتھ تھا جو جغرافیائی حدود وقیود سے بالاتر ہے، اور یہ خلافتی جدوجہد اسی متحدہ قومیت کے ساتھ تھی جس کا حوالہ مولانا مدنی کی زیر بحث تقریر میں آیا۔ کون نہیں جانتا کہ اس تحریک نے مہاتما گاندھی کو اپنی سربراہی کے لیے قبول کر لیا تھا اور ایسا ہونے میں ’’حسین احمد‘‘ سے کہیں زیادہ حصہ مولانا محمد علی جوہر کا تھا جن سے برتر اسلامیت کا دعویٰ شاید علامہ اقبال کو کبھی نہ ہوا ہو۔ یہی وہ ’’متحدہ قومیت‘‘ تھی جس کا حوالہ مولانا اپنی تقریر میں دے رہے تھے، نہ کہ وہ جو علامہ کے تصور میں تھی جس میں مسلمان، مسلمان نہیں رہ سکتا۔

حضرت حسین احمد کے جاننے والے جانتے ہیں کہ آپ کی سیاسی زندگی ۱۹۱۷ء سے شروع ہوتی ہے جبکہ خلافت عثمانیہ کے باغی شریف حسین نے مکہ میں ان کو ان کے محترم استاد شیخ الہند مولانا محمود حسن کے ساتھ گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالے کیا اور پھر انگریزوں نے ان کو اپنی حکومت کے خلاف باغیانہ عزائم کے حوالے سے جزیرۂ مالٹا میں چار سال قید رکھا۔ چار سال بعد ۱۹۲۰ کے شروع میں ان حضرات کی رہائی عمل میں آئی۔ شیخ الہند کی یہ گرفتاری بے وجہ نہ تھی۔ یہ جنگ عظیم اول کا زمانہ تھا کہ آپ برطانوی حکومت کے خلاف ایک مکمل باغیانہ اسکیم لے کر ہندوستان کے باہر نکلے تھے۔ حجاز مقدس کو اولین منزل بنایا، اس لیے کہ وہاں حج کے زمانے میں ان میں سے بیشتر لوگوں سے رابطہ آسان ہو سکتا تھا جن سے اپنی اسکیم کے سلسلے میں رابطہ مطلوب تھا اور اس فہرست میں سب سے پہلے ترکی حکام تھے جن سے رابطہ ہوا بھی، مگر قسمت سے اسی زمانہ میں شریف مکہ حسین پر انگریزوں کے ڈورے کام کر گئے اور حجاز مقدس عثمانی خلافت کے اقتدار سے نکل گیا۔

مارچ ۲۰ء میں شیخ الہند رہا ہوئے تو بڑھاپے اور قید کے شدائد نے زار ونزار کر دیا تھا۔ نومبر ہی میں آپ کی شمع حیات گل ہو گئی اور پھر برطانوی حکومت کے خلاف آپ کے مشن کی علم برداری ’’حسین احمد‘‘ کے حصہ میں آئی۔ اسیران مالٹا نے جب رہائی پائی تو اس سے پہلے خلافت تحریک شروع ہو چکی تھی اور یہ صرف مسلمانوں کی نہیں، تمام ہندوستانیوں کی تحریک بن گئی تھی جس میں ہندو اکثریت کے سب سے بڑے نمائندہ مہاتما گاندھی پیش پیش تھے۔ شیخ الہند جن کا تحریک خلافت کی پوری مسلم قیادت نے مع گاندھی جی کے بمبئی پہنچ کر نہایت پرجوش استقبال کیا تھا، اس تحریک کے لیے سب سے بڑی اسلامی اتھارٹی کے حامل مانے گئے اور آپ نے اس متحدہ تحریک اور اس کے پروگرام عدم موالات (نان کو اپریشن) پر مہر تصویب ثبت فرمائی۔ اسی پر عمل درآمد کے نتیجے میں حسین احمد پر مولانا محمد علی وغیرہ کے ساتھ بغاوت کا مشہور مقدمہ کراچی چلا اور دو دو سال کی جیل ہوئی۔

یہ ہے حسین احمد کے اس نظریہ متحدہ قومیت کا پس منظر جس کا آپ کی ۳۸ء کی اس تقریر میں حوالہ ایک طوفان اٹھا گیا۔ یعنی یہ وہی متحدہ قومیت تھی جس کے جھنڈے کے نیچے تحریک خلافت کے دور میں علامہ اقبال اور مسٹر محمد علی جناح جیسے خال خال افراد کو چھوڑ کر مسلم ہندوستان کی وہ تمام ہستیاں سرگرم رہی تھیں جن کی طرف ملی مسائل کے لیے لوگوں کی نظریں اٹھتی تھیں۔ علامہ اقبال، حسین احمد سے کچھ زیادہ واقف ہوں یا نہ ہوں، متحدہ قومیت والی بات کے اس پس منظر سے ناواقف نہیں ہو سکتے تھے۔ تحریک خلافت سے ان کے بے تعلق رہنے کی تو ایک اہم وجہ یہی تھی، مگر یہ دینی حوالے سے نہیں، بلکہ مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے تھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں:

’’قیام انگلستان کے دوران جب وہ (ذہنی) انقلاب سے گزرے اور انھی ایام میں برصغیر میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخاب کا اصول تسلیم کر لیا گیا تو اقبال، سرسید احمد خان کے سیاسی مکتبہ فکر کو درست خیال کرتے ہوئے ذہنی وقلبی طور پر اس سے وابستہ ہو گئے۔ سرسید کے سیاسی مکتبہ فکر کی منطق یہ تھی کہ ....... جمہوریت کے ذریعہ قومیت متحدہ کی بنیاد تبھی رکھی جا سکتی تھی جب ہندو اور مسلمان مرکزی حکومت میں برابر کے حصہ دار ہوں، لیکن فرقہ وارانہ منافرت کے سبب ہندو ایسی صورت کو قبول کرنے کے لیے کبھی آمادہ نہیں ہو سکتے تھے۔ پس برصغیر میں قومیت متحدہ کا تخیل خیال خام تھا۔‘‘ (زندہ رود، جلد سوم، صفحہ ۲۹۱، ۹۲)

اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انھیں اصولاً متحدہ قومیت سے انکار نہ تھا۔ نمائندگی میں برابری کی شرط کے ساتھ وہ منظور تھی۔ پس علامہ کے اس سیاسی فکر وعقیدہ کا بے شک یہ حق تھا کہ کوئی آواز اس شرط کے بغیر متحدہ قومیت کے حق میں بلند کی جا رہی ہو تو اسے چیلنج کریں، مگر اس کے لیے سیاسی زبان کے بجائے یہ دینیات کی زبان کا سوال کیونکر پیدا ہو گیا؟ اور وہ بھی ایک اعلیٰ درجہ کے مستند ومسلم عالم دین کے مقابلے میں! جبکہ علامہ اسلامی دینیات پر کتنا بھی عبور اپنے مطالعہ کی بنیاد پر رکھتے ہوں، مگر ان جیسے ذی فہم کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس عبور کو باضابطہ تحصیل کا ہم سر سمجھتے ہوں گے، اور اگر سمجھتے بھی ہوں، تب بھی جو زعم وپندار آمیز لہجہ انھوں نے اس چیلنج میں اختیار فرمایا، وہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ضرور اس کے پس منظر میں کچھ خاص حالات ومعاملات ہونے چاہییں، ورنہ یہ علامہ کے مقام سے فروتر بات تھی اور قطعاً غیر متوقع بات تھی۔ ’’زندہ رود‘‘ نے انھیں خاص حالات سے پردہ اٹھانے کا کام انجام دیا ہے۔

کم سے کم راقم سطور کے علم میں اس سے پہلے نہ تھا کہ حضرت علامہ نے برصغیر کی سیاست میں کوئی سرگرم عملی حصہ بھی لیا۔ کل ہند مسلم لیگ کی سیاست سے ان کا عملی تعلق صرف ۱۹۳۰ء کے خطبہ صدارت الٰہ آباد کی حد تک معلوم تھا۔ اس کتاب سے معلوم ہوا کہ ۱۹۲۶ء میں جب علامہ نے لاہور سے پنجاب صوبائی کونسل کا انتخاب لڑا، تب سے مسلم لیگ سے ان کی وابستگی جو پہلے بس فکری درجہ کی تھی، سرگرم عملی وابستگی میں تبدیل ہو گئی تھی اور اس رشتہ کی یہ سرگرمی ٹھیٹھ سرسید مکتب فکر والی لائن پر تھی۔ چنانچہ ۱۹۲۷ء میں جب برطانوی حکومت نے سائمن کمیشن کے تقرر کا اعلان کیا جس کو ہندوستان کے لیے آئندہ دستوری اصلاحات کے بارے میں سفارشات پیش کرنا تھیں اور اس کمیشن میں تمام کے تمام انگریز تھے، ایک بھی ہندوستانی کونہیں لیا گیا تھا، تو اس پر کانگریس نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ مسلم قائدین میں خود مسٹر جناح صدر مسلم لیگ کا یہی فیصلہ تھا، مگر اقبال اس کے برعکس اپنے صوبائی صدر سر محمد شفیع کے ساتھ اس کمیشن کے تعاون کے لیے اس حد تک گئے کہ مسلم لیگ، جناح لیگ اور شفیع لیگ کے دو ٹکڑوں میں بٹ گئی اور یہ دونوں لیگیں پبلک سطح پر ایک دوسرے سے متصادم ہوئیں۔ چنانچہ جب مسٹر جناح نے دوسرے مسلم لیڈروں کے ساتھ مل کر ایک بیان کمیشن کے مقاطعہ کے لیے شائع کیا تو ا س کے رد عمل میں علامہ اقبال نے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ ایک بیان دیا جس کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے کہ:

’’ہم نہایت جرات اور زور سے کہتے ہیں کہ ہم کرایہ کے ٹٹو بننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسٹر جناح اور دیگر حضرات نے یہ فقرہ اڑا لیا ہے کہ ہماری خود داری ہمیں رائل کمیشن کی تائید کی اجازت نہیں دیتی۔ ہم اس کے برعکس یہ کہتے ہیں کہ فرقہ وارانہ جنگ اور خود داری یکجا قائم نہیں رکھی جا سکتیں......‘‘ (صفحہ ۳۳، ۳۴)

پنجاب مسلم لیگ، جس کے علامہ صاحب سیکرٹری تھے اور سر محمد شفیع صدر، اس کی اس روش پر مولانا محمد علی نے اپنے اخبار ہمدرد میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:

’’سر محمد شفیع سے بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ کسی وائسرائے کی رائے سے ہم رائے نہ ہوں۔ انھوں نے اپنی وفاداری کا راگ گانا شروع کر دیا ہے۔ پنجاب کی بد قسمتی ہے کہ سر محمد اقبال جیسے لیڈرسر محمد شفیع جیسے وفادار کو اپنی آزاد خیالی کی سطح تک ابھار کر نہ لا سکے بلکہ برخلاف اس کے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی سر محمد شفیع کی وفاداری کی پست سطح پر اتر آئے ہیں۔ چنانچہ کمیشن کے متعلق پنجاب مسلم لیگ کے سیکرٹری کا بیان اس کے صدر کے بیان سے کہیں زیادہ چاپلوسی کا ہے۔‘‘ (ص ۳۳)

علامہ صاحب اس درجہ کامل ’’سرسیدی‘‘ تو ڈاکٹر جاوید اقبال کے صریح بیان کے مطابق تھے ہی، اس پرمزید یہ کتاب یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ برصغیر کے معاملات کو ایک حد تک پنجابی صوبائیت (یا کہیے علاقائیت) کی سطح سے دیکھنے والوں میں بھی شامل ہو گئے تھے۔ سائمن کمیشن کے بارے میں ان کے جس بیان کے آخری فقرے اوپر نقل کیے گئے ہیں، اسی بیان میں ہے کہ:

’’جن مسلمانوں نے مسٹر جناح کے اعلان پر دستخط کیے ہیں، ان میں سے بعض تو ایسے صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں جن میں مسلمان آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ ان کی روش پنجاب اور بنگال ایسے صوبوں کے مسلمانوں کی حکمت عملی کو تبدیل یا وضع نہیں کر سکتی۔‘‘ (ص ۳۴)

اسی طرز فکر کا اظہار ان کے مسٹر محمد علی جناح کے نام ایک خط سے بھی ہوتا ہے جو ۲۱ جون ۱۹۳۷ء کو لکھا بتایا گیا ہے۔ اس خط میں تحریر فرماتے ہیں:

’’.... میرے خیال میں نیا آئین ہندوستان کو ایک ہی وفاق میں مربوط کر لینے کی تجویز کی بنا پر حد درجہ یاس انگیز ہے۔ ہندوستان میں قیام امن اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے غلبہ وتسلط سے بچانے کی واحد ترکیب وہی ہے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا۔ یعنی مسلم صوبوں پر مشتمل ایک جداگانہ وفاق کا قیام ...... میری ذاتی رائے تو یہ ہے کہ شمال مغربی ہند اور بنگال کے مسلمانوں کو فی الحال مسلم اقلیت کے صوبوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔‘‘ (ص ۳۲۸) (نوٹ: آخری جملہ کو انڈر لائن کیا جانا، یہ راقم کی طرف سے ہے)

کیا یہ طرز کلام انھیں علامہ اقبال کا ہو سکتا ہے جنھیں ہم ’’عشق کے دردمند‘‘ کے طور پر جانتے آئے تھے؟ اور جن کی آفاقیت نے کہا تھا:

درویش خدا مست، نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دلی نہ صفاہاں نہ سمرقند

نیز ارشاد ہوا تھا:

تو ابھی رہ گزر میں ہے، قید مقام سے گزر
مصر وحجاز سے گزر، پارس وشام سے گزر

نہیں، یہ دراصل ان کے اندر ۱۹۲۷ء سے پروان چڑھنے والی ایک نئی شخصیت کا ظہور تھا جو ۳۷ء کے اس معرکہ انگیز سال میں اپنے کمال کو پہنچ گئی نظر آتی ہے جس میں انڈیا ایکٹ ۳۵ء کے ماتحت ہونے والے الیکشن کے بعد یوپی کی وزارت سازی کے مسئلہ پر لیگ اور کانگریس کے درمیان کبھی نہ پٹنے والی خلیج پیدا ہوئی اور محمد علی جناح بھی سرسید والے دو قومی نظریے کو اپنانے کی طرف چل پڑے۔ اور یہ ۳۷ء وہ سال تھا کہ علامہ کی ۳۴ء سے شروع ہونے والی علالت اپنی آخری حدیں چھونے لگی تھی اور بالآخر اپریل ۳۸ء میں شمع حیات ہی گل کر گئی۔ زندگی کے اس مرحلے میں علامہ کے لیے یہ صورت حال کس قدر تسکین بخش رہی ہوگی کہ وہ اپنے جیتے جی مسٹر محمد علی جناح کو فکری طور پر وہیں پہنچتا ہوا دیکھ رہے ہیں جہاں ان کو پہنچانے کے لیے وہ ۱۹۲۷ء سے کوشاں ہوئے تھے۔ ایسے میں ناگاہ ان کے کان میں آواز آتی ہے کہ مسند آرائے دیوبند مولانا حسین احمد مدنی اس دو قومی نظریہ کی راہ میں حائل ہونا چاہتے ہیں۔ تب ---- اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے ---- ان کا اس پر یہ بھڑک اٹھنے والا انداز کچھ غیر متوقع نہیں رہتا۔ آخر کو انسان تھے۔

صحت کے اعتبار سے علامہ کے ضعف کا یہ عالم بھی یہاں ملحوظ رہے کہ فروری میں کہے گئے ان اشعار کے سلسلہ میں چھڑ جانے والی بحث پر جب علامہ نے اپنی بات مدلل کرنے کے لیے ایک مفصل بیان کی ضرورت سمجھی تو خود اس قابل نہ تھے کہ اس کو لکھ سکیں، بلکہ ڈاکٹر جاوید اقبال کے بیان کے مطابق یہ کام ان کے خاص معاونین، چودھری محمد حسین وغیرہ نے انجام دیا۔ (ص ۳۶۸) اور خود اشعار بھی اپنے معنوی پہلو سے اس گواہی کے لیے کم نہیں کہ علالت کے اثرات ایسے ہی غیر معمولی درجہ پر پہنچ چکے تھے، ورنہ اگر کسی نے ’’ملت از وطن است‘‘ کا سرود ’’بر سر منبر‘‘ الاپنے کا ارتکاب کیا بھی تھا تو ’’مقام محمد‘‘ کی معرفت تو بہت آگے کی چیز، یہ تو اس شخص کے دین محمد کی الف با تا سے بھی بے خبری کی دلیل ہے۔ پھر یہاں کیا محل کہ مقام محمد سے بے خبری کی طعن کی جائے؟ اور وہ کہ جو دین مصطفی کی الف با تا سے بھی بے خبر پایا جا رہا ہو، اسے کیا سمجھ آئے گی کہ ’’بہ مصطفی برساں خویش را‘‘ میں علامہ نے کیا فرمایا؟ مگر چونکہ علامہ کے یہاں اصل دین اور دینداری حضرت محمد مصطفی ﷺ سے جذباتی تعلق ہے، جیسا کہ ان کی شاعری سے عیاں ہے اور اسی کو جناب رشید احمد صدیقی مرحوم نے ان الفاظ میں ادا کیا ہے کہ ’’اقبال پر دنیا کے بڑے مذہب کی گرفت اتنی نہیں جتنی ایک بڑی شخصیت کی ہے‘‘ (اور اسی سے ان کی ان عملی دینی کمزوریوں کا عقدہ حل ہو جاتا ہے جو کچھ ایسی راز بھی نہ تھیں اور ڈاکٹر جاوید نے تو ان کو اس درجہ کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اچھا تھا اگر وہ یہ نہ کرتے) پس ان اشعار کے معنوی پہلو کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ انحطاط قویٰ کے اس عالم میں جب علامہ نے ’’ملت از وطن است‘‘ کے ’’سرود‘‘ پر گرفت کے ارادہ سے قلم اٹھایا تو وہ موقع ومحل کی رعایت کرنے کے بجائے بے ساختہ اسی راہ پر رواں ہوا جس کا وہ عادی تھا۔

الغرض علامہ ان اشعار کی تسوید کے وقت جن خاص حالات کے ماحول میں اور صحت کی جس منزل میں تھے، اس کے پیش نظر ان کا یہ غیر متوقع کلام کچھ ایسا ناقابل فہم نہیں رہتا۔ صد شکر کہ علامہ کو انتقال سے پہلے اس کا موقع میسر آ گیا کہ اس قضیہ نامرضیہ کی وراثت چھوڑ کر نہ جائیں۔ حضرت مولانا کی طرف سے کی گئی ایک وضاحت آپ تک پہنچی، جس کے حوالے سے یہ اعلان اخبارات میں چھپوایا کہ اس کے بعد مولانا پر اعتراض کا کوئی حق انھیں نہیں رہتا، مگر افسوس آپ کے لوگوں نے آپ کے بعد آپ کا جو مجموعہ کلام ’’ارمغان حجاز‘‘ چھپوایا تو اس میں ان اشعار کو شامل کیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ ’زندہ رود‘ میں اس سوال کا جواب بھی آیا ہے اور اس سے ان ’’خاص حالات‘‘ کے غیر معمولی اثرات کی مزید توثیق ہوتی ہے جن کے حوالہ سے علامہ کے بالکل غیر متوقع طرز کلام کی توجیہ ممکن ہوئی۔ علامہ کے رجوع کے بعد ان اشعار کو ان کے نامہ اعمال میں برقرار رکھنے کا جواز بتاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مولانا نے بعد میں ’’متحدہ قومیت اور اسلام‘‘ کے نام سے جو رسالہ چھاپا، وہ وضاحت کے برعکس تھا۔ پھر اس میں علامہ کی توہین کرتے ہوئے انھیں ساحران برطانیہ کے سحر میں مبتلا قرار دیا گیا اور ’’کودک ناداں‘‘ کے لقب سے نوازا گیا۔ (ص ۳۷۰) اس بیان جواز میں صرف یہی نہیں ہے کہ ساحرین برطانیہ کے سحر میں آ جانے کی جو بات حضرت مولانا نے محض ایک بشری کمزوری کے طور پر کہی تھی جو کسی بھی شخص کو لاحق ہو سکتی ہے، اسے طنز وملامت پر محمول کر لیا گیا، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ ’’کودک ناداں‘‘ والا شعر جو صاف طور پر حضرت مولانا نے ازراہِ عجز وانکسار اپنے حق میں لکھا ہے، اسے علامہ کے حق میں پڑھ لیا گیا۔ حالانکہ ’’زندہ رود‘‘ کو پڑھ کر کسی ایسے شبہ کی ادنیٰ گنجایش نہیں رہتی کہ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی اردو فارسی اتنی کمزور ہو۔ تو پھر اس برعکس فہم کی ذمہ داری کے لیے نظر سوائے مسلم لیگ اور کانگریس کی ہوش ربا کشمکش والے ان حالات کے اور کس طرف جائے جو مسٹر جناح سے مولانا آزاد کو ’’شو بوائے‘‘ کہلوا دیں اور علامہ کی زبان پر شیخ دیوبند کے لیے ’’بو لہبی‘‘ کی وعید جاری کرا دیں؟

اس تحریر کا اصل مدعا تو پورا ہو گیا۔ یوں اور کافی باتیں اس میں ایسی ہیں کہ نقل کر دینے کی گنجایش ہو تو سب کام کی، تاہم ان میں ایک دو جو موجودہ مادیت اور زر پرستی کے دور میں ’’قندیل رہبانی‘‘ کا سا منظر پیش کرتی ہیں، ان کی گنجایش تو نکالنی ہی چاہیے۔ شاید ہم میں سے کچھ لوگوں کے دل ان میں پوشیدہ نصیحت سے جاگ پڑیں کہ بہت اندھیری چھائی ہے، اور یہ نصیحت علامہ کی شاعری کے خاص موضوعات میں سے بھی ہے۔

علامہ کے سفر افغانستان کے حوالہ سے وہاں کی معروف شخصیت ملا شور بازار کے یہاں حاضری کا جو ذکر آیا ہے تو بے تاج بادشاہی کا درجہ رکھنے والی اس شخصیت کے مکان کی کیفیت بھی قابل ذکر پائی گئی۔ لکھا ہے کہ

’’وہ ایک تنگ گلی کے اندر تھا اور ہر قسم کے تزک واحتشام اور ظاہری آراستگی سے خالی۔ باقاعدہ نشست گاہ بھی نہ تھی۔ زنانہ مکان تھا جہاں پردہ کرا کر ان لوگوں کو اندر جانے کی اجازت ملی۔ انھیں ایک لمبے کمرہ میں لے جایا گیا جس میں ایک طرف ایک پلنگ بچھا تھا اور باقی زمین پر سادہ فرش بچھا تھا۔‘‘ (ص ۲۳۶)

علامہ کو ان کی زندگی کے آخری سالوں میں علالت کے ساتھ ساتھ معاشی پریشانی نے بھی گھیر لیا تھا۔ آپ کے دوست اور قدر داں سر راس مسعود (وزیر تعلیم ریاست بھوپال) کی کوشش سے ریاست سے آپ کے لیے پانسو روپے ماہوار تا حیات کا وظیفہ منظور ہوا۔ سر راس مسعود نے اس کی اطلاع کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ وہ کوشاں ہیں کہ بھوپال کے علاوہ حیدر آباد، بہاول پور وغیرہ بھی ان کے لیے وظیفے جاری کریں۔ اس کے جواب میں علامہ کا خط نقل کیا گیا ہے:

’’آپ کو معلوم ہے کہ اعلیٰ حضرت نواب صاحب بھوپال نے جو رقم میرے لیے مقرر فرمائی ہے، وہ میرے لیے کافی ہے۔ اور اگر کافی نہ بھی ہو تو میں کوئی امیرانہ زندگی کا عادی نہیں۔ بہترین مسلمانوں نے سادہ اور درویشانہ زندگی بسر کی ہے۔ ضرورت سے زیادہ کی ہوس کرنا روپیہ کا لالچ ہے جو کسی طرح بھی مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ آپ کو میرے اس خط سے یقیناًکوئی تعجب نہ ہوگا کیونکہ جن بزرگوں کی آپ اولاد ہیں اور جو ہم سب کے لیے زندگی کا نمونہ ہیں، ان کا شیوہ ہمیشہ سادگی اور قناعت رہا ہے۔‘‘ (ص ۳۶۸)




وہ کام جو اقبال ادھورے چھوڑ گئے

ڈاکٹر جاوید اقبال

بعض اہم موضوعات پر علامہ اقبال نے شعر یا نثر میں کچھ نہ کچھ تحریر کرنے کے منصوبے تو بنائے مگر زندگی نے وفا نہ کی، اس لیے اُن کی تکمیل نہ ہو سکی۔ مثلاً مہاراجہ کشن پرشاد کو خط میں ’’بھگوت گیتا‘‘ کا اردو اشعار میں ترجمہ کرنے کے ارادے کا ذکر کرتے ہیں۔صوفی غلام مصطفی تبسم کو خط میں انگریزی میں ایسی کتاب لکھنے کا ذکر کرتے ہیں جس کا عنوان ہوگا ’’اسلام میرے نقطۂ نگاہ سے‘‘ نذیر نیازی فرماتے ہیں کہ حادثہ کربلا پر ہومرکے ’’اوڈیسے‘‘کی طرز پر ایک طویل نظم لکھنا چاہتے تھے۔ جاوید نامہ میں اضافی ارواح سے ملاقاتوں کے بارے میں لکھنے کا سوچتے تھے۔ انگریزی میں ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب تحریر کرنے کا منصوبہ تھا۔

آخری ایام میں نواب بھوپال سے وعدہ کیا کہ ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھیں گے۔ اس سلسلے میں میاں محمدشفیع(م ۔ش) سے انگریزی میں کچھ ابتدائی نوٹس بھی لکھوائے گئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے نام خط محررہ ۲۸؍مئی ۱۹۳۷ء میں فلاحی ریاست کے قرآنی تصور کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اصل سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی غریت کا مسئلہ کیسے حل کیا جائے؟
خوش قسمتی سے اسلامی قانون کے نفاذ اور جدید نظریات کی روشنی میں اُس کی آئندہ ارتقاء میں حل موجود ہے۔ اسلامی قانون کے طویل اور محتاط مطالعہ سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر یہ ضابطۂ قانون صحیح طور پر سمجھ کر نافذ کر دیا جائے تو ہر ایک کے لیے کم از کم زندہ رہنے کا حق محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن قانونِ شریعت کا نفاذ اور ارتقاء اس سر زمین میں ناممکن ہے جب تک کہ آزاد مسلم ریاست یا ریاستیں وجود میں نہ لائی جائیں۔ اسلام کے لیے ’’سوشل ڈیماکریسی‘‘ کو کسی مناسب شکل میں جو اسلامی قانون کے اصولوں کے مطابق ہو، قبول کر لینا’’ انقلاب‘‘ نہیں بلکہ اسلام کی اصل پاکیزگی کی طرف واپس جانا ہے۔‘‘

ان منصوبوں میں بعض تو ادبی نوعیت کے ہیں، بعض کا تعلق فلسفہ، مابعد الطبیعیات یا دینیات سے ہے اور بعض خالصتاً عنقریب وجود میں آنے والی مسلم ریاست(پاکستان) کی عملی ، سیاسی اور معاشی ضروریات سے متعلق ہیں۔ مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ بھگوت گیتا کا اردو ترجمہ، حادثہ کربلا پر ہومر کے اوڈیسے کی طرز پر نظم لکھنا یا جاوید نامہ میں اضافی ارواح شامل کرنا، ایسے ادبی منصوبے تھے جو شاعر کے تخیلی سمندر میں مضطرب لہروں کی طرح ابھرے اور ڈوب گئے، لیکن باقی منصوبوں کے بارے میں ایسا گمان کرنا درست نہ ہوگا ۔ ’’اسلام میرے نقطہ نگاہ سے‘‘ یا ’’ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب‘‘ جیسی کتب تحریر کرنے کا اگر اُنھیں موقع مل جاتا تو تخلیقی سوچ کے اعتبار سے وہ خطبات اسلامی فکر کی تشکیل نو کی توسیع ہوتیں۔ اسی طرح ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ اور ’’فلاحی ریاست کا قرآنی تصور‘‘ کے موضوعات پر اگر وہ کتب تحریر کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو اُن کے افکار مسلمانان پاکستان کی مزید فکری رہبری کا باعث بن سکتے تھے۔

خطبات تشکیل نو کن کے لیے تحریر کیے گئے؟ علامہ اقبال فرماتے ہیں:

’’ان لیکچروں کے مخاطب زیادہ تر وہ مسلمان ہیں جو مغربی فلسفہ سے متاثر ہیں اور اس بات کے خواہش مند ہیں کہ فلسفہ اسلام کو فلسفہ جدید کے الفاظ میں بیان کیا جائے اور اگر پرانے خیالات میں خامیاں ہیں تو اُن کو رفع کیا جائے۔‘‘

جب یہ لیکچر علی گڑھ یونی ورسٹی کے طلبہ نے سنے تو صدر شعبۂ فلسفہ ڈاکٹر سید ظفر الحسن نے علامہ اقبال سے کہا:

’’جناب والا! آپ نے اسلام میں فلسفہ دین کی تشکیل نو کی بنیاد رکھ دی۔ مسلمانوں کی موجودہ اور آئندہ نسلیں اس کے لیے آپ کی ممنونِ احسان ہیں۔ آپ کی فکر افزا مثال اور لوگوں کی بھی ہمت بندھائے گی۔‘‘

خطبات کے ایک مبصر سلیم احمد تحریر کرتے ہیں:

’’اقبال کے نزدیک مغربی تہذیب کا چیلنج ایک نئی الٰہیات کی تشکیل کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اقبال کی نئی الٰہیات کی کوشش کا حقیقی مقصد مغربی اور اسلامی تہذیب کے درمیان مشترکہ عناصر کی جستجو ہے۔ اگر ہمیں مغربی تہذیب کو قبول کرنا ہے یا اسے اپنے اندر جذب کرکے فائدہ اٹھانا ہے تو ہمیں مغربی اور اسلامی تہذیب کی روح میں اتر کر اُن کی ہم آہنگی کو الٰہیاتی بنیادوں پر ثابت کرنا پڑے گا۔تشکیل جدید ان ہی معنوں میں ایک زبر دست کارنامہ ہے جسے جدید اسلام کی بائبل کہنا چاہیے۔‘‘

یہ سب اپنی جگہ درست۔ حقیقت یہی ہے کہ خطبات علامہ اقبال کی ایسی تصنیف ہے جسے علماء نے اگر پڑھنے کی کوشش کی تو اُسے ناپسند فرمایا۔ مولانا سید سلیمان ندوی نے تو صاف کہہ دیا کہ یہ کتاب اگر نہ لکھی جاتی تو بہترہوتا۔ جہاں تک مسلمانوں کی ’’مغرب زدہ‘‘ نئی نسل کا تعلق ہے ، انھوں نے خطبات کو ، جس توجہ کے وہ مستحق تھے، نہیں دی۔ پس علامہ اقبال کی ’’فکر افزائی‘‘ اوروں کی ہمت نہ بندھا سکی۔

خطبات کے مطالعہ سے ظاہر ہے کہ اُنھیں تحریر کرنے کی کئی وجوہ تھیں۔پہلی یہ کہ علامہ اقبال کو احساس تھا کہ دنیائے اسلام ہر طور پر مغرب کی طرف جھکتی چلی جا رہی ہے۔ وہ اس تحریک کے مخالف نہ تھے کیونکہ یورپی تہذیب عقل و دانش کے اعتبار سے اُنھی نظریات کی ترقی یافتہ صورت پیش کرتی ہے جن پر اسلام کی تمدنی تاریخ کے مختلف ادوار میں غور و فکر کیا گیا۔ دوسرے الفاظ میں وہ یورپی تہذیب کو ایک طرح سے اسلامی تہذیب ہی کی توسیع خیال کرتے تھے۔ اور مسلمانوں کی نئی نسل کے اس مطالبے کو جائز سمجھتے تھے کہ اسلامی عقائد اور نظریۂ حیات کا ایک بار پھر جائزہ لے کر ایسی نئی تعبیر یا تشریح کی ضرورت ہے جو وقت کے جدید تقاضوں سے مطابقت رکھتی ہو۔ اُنھیں خدشہ صرف اس بات کا تھا کہ مادہ پرست یورپی کلچر کی ظاہری چمک دمک ہمیں اتنا متاثر نہ کر دے کہ ہم اس کلچر کے حقیقی باطن تک پہنچ سکنے کے قابل نہ رہیں۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ بقول اقبال انسان مختلف قسم کے رشتوں کے ذریعے خدا اور کائنات سے جڑا ہوا ہے۔ لہٰذا مطالعۂ فطرت یا سائنسی تحقیق بھی اپنی طرح کی عبادت ہے۔ وہ مسلمانوں کی نئی نسل کی توجہ سائنسی علوم کی طرف مبذول کرنے کی خاطر اُن پر واضح کرنا چاہتے تھے کہ اسلام روحانی دنیا کے ساتھ مادی دنیا کو بطور حقیقت تسلیم کرتا ہے اور انسان کو مشاہداتی یا تجربی علوم کی تحصیل سے تسخیر کائنات کی دعوت دیتا ہے۔

تیسری وجہ یہ تھی کہ علامہ اقبال کے نزدیک روحانی (یا مذہبی) تجربہ بھی ایک نوع کا علم ہے جسے دیگر علوم کی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے خطبات میں فکری نقطۂ نگاہ سے اسلام کو بطور ارفع مذہب پیش کیا اور بعض آیات کی تعبیر سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ مابعد الطبیعیات ، طبیعیات یا مادے اور زمان و مکاں سے متعلق فکری یا تجربی علوم کے نئے انکشافات کی تصدیق قرآن سے کی جا سکتی ہے۔

خطبات کا مطالعہ مختلف جہتوں سے کیا جا سکتا ہے اور اُنھیں تحریر کرنے کی اور وجوہ بھی بیان کی جا سکتی ہیں۔ جس طرح پہلے کہا جا چکا ہے ، اگر علامہ اقبال ’’ اسلام میرے نقطہ نگاہ سے‘‘ یا ’’ایک غیر معروف پیغمبر کی کتاب ‘‘ لکھنے میں کامیاب ہو جاتے تو یقیناًوہ خطبات تشکیل نو کی توسیع ہوتیں۔ لیکن اس حقیقت سے انکار کرنا مشکل ہے کہ یہ کام صرف علامہ اقبال خود ہی انجام دے سکتے تھے۔ اس میدان میں اُن کی ’’فکر افزا‘‘ مثال نے پہلے کسی کی ہمت نہ بندھائی تو اب کیا بندھائے گی۔

اب علامہ اقبال کے ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ کے موضوع پر کتاب لکھنے کے ارادے کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ’’اجتہاد‘‘ کے مطالبے میں علامہ اقبال نے پہل نہیں کی ۔ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی و تمدنی زوال و انتشار کے عالم میں دراصل شاہ ولی اللہ نے اس مسئلے کو اٹھایا اور اپنے وضع کردہ فقہی اصول’’ تلفیق‘‘ کے تحت اہل سنت والجماعت فرقے کو اُن کے چار مدرسہ ہائے فقہ (حنفی ، شافعی، مالکی، حنبلی) میں سے ہر کسی معاملے میں سب سے سہل راہ اختیار کرنے کی تلقین کی ۔ یہ صحیح معنوں میں اجتہاد تو نہ تھا، مگر اس کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ سنیوں کے چاروں فقہی مذاہب کے علماء ایک دوسرے پر کفرکے فتوے صادر کرتے رہے۔ شاید اسی بنا پر بعد میں سر سید احمد خان نے ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں نے اگر’’تقلید‘‘ کو نہ چھوڑا تو برصغیر میں اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ علامہ اقبال نے ۱۹۲۴ء میں جب ’’اجتہاد‘‘ کے موضوع پر اپنا پہلا خطبہ دیا تو اُن پر کفر کے فتوے لگے تھے۔ بعد ازاں اسی خطبے کو بہتر صورت میں خطباتِ تشکیل نو میں شامل کیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کے ’’اجتہادِ مطلق‘‘ پر اصرار کے اسباب کیا تھے؟

علامہ اقبال نے مسلمانوں کے عالمی دینی ، سیاسی ، تہذیبی، معاشرتی زوال کی جو وجوہ بیان کی ہیں اُن میں نمایاں تین ہیں: ملوکیت، ملائیت اور خانقاہیت۔ اُن کے خیال میں اسلام کا ’’نزول‘‘ اس وقت ہوا جب انسان کی عقلِ استقرائی بالغ ہو چکی تھی اور اُسے نبیوں، مذہبی پیشواؤں اور بادشاہوں جیسے سہاروں کی ضرورت نہ رہی تھی۔ اسلام نے اعلان کیا کہ نبوت ختم ہو گئی۔ اسلام میں پرانے مذاہب کی مانند کسی قسم کی پاپائیت یا مذہبی پیشوائیت کا وجود نہیں۔ مسلمانوں نے ابتدا ہی میں ساسانی اور رومن سلطنتوں کا خاتمہ کرکے ثابت کر دیا کہ ملوکیت کا تعلق عہدِ جاہلیت سے تھا۔ پس بقول علامہ اقبال اسلام کا پیغام سلطانیِ جمہور کا قیام ہے اور یہ کہ اب شعور کی بلوغت کے سبب انسان وحی اور اُس کے احکام کی تعبیر و تشریح خود کر سکتا ہے اور اُس کی بقا اسی میں ہے کہ کرتارہے۔

علامہ اقبال ’’اجتہاد مطلق‘‘ پر اس لیے بھی زور دیتے ہیں کہ اُن کے مطابق اسلام مسلمانوں کو ’’ثبات فی التغیر‘‘کے اصول پر زندگی گزارنے کی تلقین کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ قرآنی احکام جو عبادات سے متعلق ہیں اُن میں کسی ردو بدل کی گنجائش نہیں، انھیں ثبات حاصل ہے۔ لیکن جن احکام کا تعلق ’’معاملات‘‘ سے ہے وہ اصولِ تغیر کے تحت ہیں اور وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق اُن میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ اسی سبب علامہ اقبال کی رائے میں ’’اجتہاد‘‘ بطور عمل اسلام کی ابتدا ہی کے ساتھ جاری ہو گیا تھا۔ علامہ اقبال ’’اجتہاد‘‘ کی تعریف ’’اصولِ حرکت‘‘کے طور پر کرتے ہیں۔ اس بنا پر فرماتے ہیں کہ جو اجتہادات ماضی میں کیے گئے وہ اپنے اپنے زمانوں کے مطابق درست تھے۔ مگر وہ حال کی ضروریات کے مطابق صحیح قرار نہیں دیے جا سکتے۔ جو کوئی بھی اجتہاد کی تاریخ اور ارتقا کے موضوع پر مستند کتاب لکھنے کا اہل ہو گا، وہ اپنے وقت کا مجدد قرار پائے گا۔ یہ بھی فرماتے ہیں کہ شاید یہ ایک شخص کاکام نہ ہو بلکہ اسے انجام دینے کے لیے فقہاء کا ایک بورڈ قائم کرنا پڑے۔ اور اُس کی تکمیل کے لیے خاصی مدت لگے۔

اگر سوال کیا جائے کہ علامہ اقبال کی سوچ کا ’’عطر ‘‘ کیا ہے؟ تو اس کا جواب اُن کے جاوید نامہ کے اُن چند اشعار سے دیا جا سکتا ہے، جب وہ خدائے اسلام کے حضور میں کھڑے ہیں اور خدا وند تعالیٰ کے منہ ہی سے کہلواتے ہیں:

ہر کہ او را قوتِ تخلیق نیست
پیش ما جز کافر و زندیق نیست
از جمالِ ما نصیبِ خود نبرد
از نخیلِ زندگانی بر نخورد
(ہر وہ جو تخلیقی سوچ کی قوت نہیں رکھتا، ہمارے نزدیک اصل کا فر اور منافق ہے۔ اُس نے ہمارے جمال میں سے اپنا نصیب حاصل نہیں کیا اور وہ زندگانی کے درخت کا پھل کھانے سے محروم رہا۔)

علامہ اقبال کو اس المیے کا بخوبی احساس تھا کہ تحریکِ پاکستان سے پیشتر برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی تحریکیں، یعنی تحریک (وہابی) مجاہدین اور اُس کے بعد تحریک خلافت، جو اسلام کے نام پر چلیں، اس لیے نا کام ہوئیں کہ اُن کے پیچھے سوچ ’’تقلیدی ‘‘تھی۔ تحریکِ پاکستان بھی اسلام ہی کے نام پر چلی، لیکن اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی، اس لیے کہ اُس کے پیچھے سوچ ’’اجتہادی ‘‘ تھی۔علامہ اقبال نے ’’علاقائی قومیت‘‘ کے مغربی تصور کو ’’اسلامی یا مسلم قومیت‘‘ کے تصور کے طور پر پیش کیا۔ یعنی اگر مشترک علاقہ، زبان یا نسل کی بنیاد پر انسانوں کا گروہ ایک قوم بن سکتا ہے تو مشترک روحانی مطمحِ نظر کی بنیاد پر مسلمان ایک قوم کیوں نہیں کہلا سکتے؟۱۹۳۰ء میں خطبہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے’’ مسلم قومیت‘‘کے اسی اصول کی بنیاد پر علیحدہ ’’ریاست‘‘کا مطالبہ کیا۔ اُس سے پیشتر ۱۹۳۰ء میں وہ اپنا خطبہ ’’اجتہاد بطور اصولِ حرکت ‘‘ دے چکے تھے۔ وفات سے چند روز قبل اسی موضوع پر علامہ اقبال کا مناظرہ دیوبند کے مولانا حسین احمد مدنی کے ساتھ ہوا۔ مولانا کا موقف تھا کہ برصغیر کے مسلمان قوم کے اعتبار سے ہندوستانی ہیں مگر ملت کے اعتبار سے مسلمان۔ علامہ اقبال نے اختلاف کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ مسلمانوں کے نزدیک ’’قوم و ملت‘‘ میں کوئی امتیاز نہیں، دونوں کے ایک ہی معانی ہیں۔ پس بالآخر اسی اجتہادی سوچ کے نتیجے میں برصغیر کے مسلم اکثریتی صوبوں نے پاکستان کو وجود میں لا کر سیاسی و تہذیبی آزادی حاصل کی۔

اگر پاکستان اجتہادی سوچ کا نتیجہ ہے تو اسلامی قانون سازی کے معاملے میں اجتہاد ہی کے ذریعے زندہ رہ سکتا ہے۔ اسی بنا پر علامہ اقبال آئین کے تحت جمہوری طور پر منتخب پارلیمنٹ(اجماع یا شوریٰ) کو اجتہاد کا حق دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک آئندہ کے مجتہد وہ قانونی ماہرین یا وکلاء ہونے چاہییں جنھوں نے ’’اسلامی فقہ‘‘ اور ’’جدید جو رسپروڈنس‘‘ کے تقابلی مطالعہ کے موضوع پر اعلیٰ تربیت حاصل کی ہو۔ ایسے قانونی ماہرین کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہو کر قانون ساز ادارے یعنی پارلیمنٹ کے رکن بن سکتے ہیں اور اسلامی قانون سازی میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ برصغیرمیں مسلمانوں نے تقریباً آٹھ سو سال حکومت کی ۔ اس دوران بادشاہوں نے قلعے بنائے تو اپنی حفاظت کے لیے، محل بنائے تو اپنی عیش و عشرت کے لیے ، مقبرے بنائے تو اس لیے کہ یاد رکھے جائیں اور مساجد تعمیر کرائیں تاکہ اللہ تعالیٰ اُن کے گناہ معاف کر دے۔ لیکن نہ کوئی دار العدل کی عمارت نظر آئے گی نہ دارالعلم کی۔ بادشاہوں کی تاریخ کتب سے ہم اتنا جانتے ہیں کہ فیروز تغلق کے زمانے میں آئین فیروز شاہی لاگو ہوا یا اورنگ زیب کے عہد میں فتاویٰ عالمگیری کی روشنی میں انصاف کیا جاتا تھا۔ ایسی کتب جن سے معلوم ہو سکے کہ اس دوران عدل گستری کے لیے نافذ قوانین کی نوعیت کیا تھی؟ اسی طرح ایسی کتب موجود نہیں جو اس دوران ہمیں اپنی تہذیبی ارتقا کے بارے میں معلومات فراہم کر سکیں۔ یعنی کیا اس مسلم دور کے ہندوستانی مدرسوں نے علم الکلام، فلسفہ یا تجربی علوم میں کوئی اہم یا قابلِ ذکر ہستیاں پیدا کیں؟ اگر علامہ اقبال قیام پاکستان کے بعد زندہ رہتے تو ایسے سب میدانوں میں تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے۔

اب قائد اعظم کے نام علامہ اقبال کے خط میں ’’فلاحی ریاست کے قرآنی تصور‘‘ کے بارے میں غور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے اس موضوع پر کوئی مستند مقالہ یا خطبہ تو تحریر نہیں کیا۔ شعر و نثر میں چند اشارے موجود ہیں۔ البتہ وہ مارکسنرم، کمیونزم یا اشتراکیت کے اتنے ہی خلاف تھے جتنے کیپیٹلزم، سرمایہ داری یا جاگیرداری کے۔ اُن کے خیال میں انسانی بہبود یا فلاح کا ہر وہ نظام جو روحانیت سے عاری ہو، انسان کے لیے صحیح سکون و اطمینان کا باعث نہیں بن سکتا۔ شاید اسی بنا پر انھوں نے خطبات میں شامل اپنے خطبہ ’’اجتہاد‘‘ میں فرمایا کہ اسلام کا اصل مقصد ’’روحانی‘‘ جمہوریت کا قیام ہے۔ علاوہ اس کے پیش گوئی کی تھی کہ سویٹ روس میں کمیونزم بطور نظام ختم ہو جائے گا، جو بالآخر درست ثابت ہوئی۔ مغربی تہذیب کے روحانیت سے عاری سرمایہ دارانہ نظام کے استبداد کے بارے میں بھی وہ سمجھتے تھے کہ شاخِ نارک پر بنا یہ آشیانہ نا پائیدار ہو گا۔ علامہ اقبال کی تحریروں سے ظاہر ہے کہ وہ سرمایہ اور محنت کے درمیان توازن کو اسلامی نظامِ معیشت قرار دیتے ہوئے اُسے ’’اقتصاد‘‘ کا نام دیتے ہیں یعنی درمیانے طبقے کی فلاحی ریاست ۔بہرحال یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ اگرچہ علامہ اقبال نے ابتدائی زمانہ میں ’’پولیٹکل اکانومی‘‘ پر کتابچہ تحریر کیا اور قیام انگلستان کے دوران ’’اکانومکس‘‘ کی کلاسوں میں بھی شریک ہوتے رہے، وہ صحیح معنوں میں تربیت یافتہ اکانومسٹ یا اقتصادیات کے ماہر نہ تھے۔

۱۹۲۶ء میں علامہ اقبال پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ اُس زمانہ میں ’’انڈسٹری‘‘ کے میدان میں تو مسلمانوں کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ البتہ ’’جاگیرداری‘‘ کا مسئلہ تھا۔ لہٰذا اس موضوع پر کونسل میں اُن کی تقریروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ خدا کو زمین کا مالک سمجھتے تھے۔ یعنی اُن کے نزدیک چار بنیادی عنصر جن سے کائنات تشکیل کی گئی۔ آگ ، پانی، ہوا اور زمین، سب خدا کی ملکیت ہیں۔ لہٰذا انسان اصولی طور پر زمین کا مالک نہیں، محض ’’ٹرسٹی‘‘ہے تاکہ اُس کے ذریعے روزی کما سکے۔ اس اصول کا اطلاق وہ ’’کراؤن ‘‘ یا ’’سٹیٹ‘‘ پر بھی کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ ’’کراؤن‘‘ (اسٹیٹ) کے تصرف میں جو اراضی ہے وہ آسان قسطوں پر بے زمین کاشتکاروں میں بانٹ دی جائے۔ نیز جاگیردار کے پاس اتنی اراضی رہنے دی جائے جو وہ خود کاشت کرتا ہو۔ گویاعلامہ اقبال جاگیردار کے ’’ٹیننٹ‘‘ سے ’’بٹائی‘‘ (مخابرہ )لینے کے بھی خلاف تھے۔ اسی طرح اُس زمانہ میں بڑے زمینداروں پر ’’ایگریکلچرل‘‘ ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی جو ٹیکس عشر اور زکاۃ کی وصولی کے علاوہ تھا ۔ علامہ اقبال مسلم جاگیرداروں پر اسلامی قانونِ وراثت کے سختی کے ساتھ اطلاق سے بھی سمجھتے تھے کہ یوں چند نسلیں گزرنے کے بعد جاگیرداری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ ان باتوں سے ظاہر ہے کہ علامہ اقبال ’’لینڈ ریفارم‘‘ کے بارے میں مخصوص نظریہ رکھتے تھے۔ 

تاریخی نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے تو مسلم معاشرہ کی معیشت کی بنیادیں دراصل ابتدا ہی سے ’’فیوڈل‘‘ (جاگیرداری) نظام پر قائم ہونے کی بجائے ’’مرکنٹائیل‘‘ (تجارتی) نظام پر قائم تھیں۔ اسی لیے اسلامی فقہ میں ’’مال ‘‘ سے مراد ’’سرمایہ‘‘ (ولتھ) بھی ہے اور ’’اراضی‘‘ (اسٹیٹ)بھی ۔ نیز تجارت کے ذریعے پیداوار بڑھانا یا منافع کمانا اخلاقی طور پر عمدہ اسلامی خصائل سمجھے جاتے تھے۔ ’’تجارتی معیشت’’ (مارکیٹ اکانومی)کے لیے ’’سرمایہ‘‘ کی فراہمی کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ اس لیے اگرچہ اسلامی قانون کے مطابق ربوٰ حرام ہے ، لیکن ایسے لین دین کو مختلف ’’حیلوں‘‘ کے ذریعے جاری رکھا گیا ۔ بقول ناصر خسرو گیارھویں صدی اصفہان میں’’تبادلہ سرمایہ‘‘ (منی ایکسچینج) کی خاطر دوسو کے قریب کاروباری ادارے موجود تھے یہی کاروبار کرتے تھے ۔ علامہ اقبال معاشرہ میں ’’سرمایہ‘‘ (کیپٹل) کی قوت کو بالکل ختم کرنا نہیں چاہتے بلکہ ’’مارکیٹ اکانومی‘‘ کے فروغ کے لیے اس کی موجودگی کو اہم خیال کرتے ہیں۔ اسی سبب مولانا شبلی کی طرح بنک کے سود کو ’’منافع‘‘ قرار دیتے ہیں کیوں کہ اس میں استحصال کا ویسا امکان نہیں جو ربوٰ کی وصولی میں ہے۔ 

پرانے زمانے کی اسلامی ریاست کی آمدنی کے ذرائع مختصراً یہ تھے : ذمیوں سے ’’جزیہ‘‘ اور اگر اراضی کے مالک ہوں تو ’’خراج‘‘ کی وصولی ۔ غینمہ۔ مسلمانوں سے ، اگر اراضی کے مالک ہوں تو ’’عشر‘‘ اور اُس کے علاوہ ’’ زکاۃ‘‘ کی وصولی (اگر رضاکارانہ طور پر ادا نہ کی گئی ہو تو)۔ ریاست کو ’’تجارتی معیشت‘‘ کے ذریعے منافع پر مختلف نوعیت کے ٹکسوں کی آمدنی بھی ہوتی تھی۔ معاشیات کے بارے میں تحریر کرنے والوں میں امام ابو یوسف کی کتاب الخراج معروف ہے۔مگر ابن خلدون ، البیرونی ، ابن تیمیہ، ناصر طوسی، ابن مسکویہ اور اخوان الصفا نے بھی اپنی کتاب میں ایسے مسائل پر بحث کی ہے۔ 

جہاں تک انسان کے بنیادی حقوق کا تعلق ہے، قرآن کی سورۃ طٰہٰ آیات ۱۱۸،۱۱۹ میں اللہ تعالیٰ آدم سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں: اے آدم، تمہارے لیے یہاں انتظام ہے۔ نہ بھوکے ننگے رہو گے، نہ گرمی تمھیں ستائے گی۔‘‘ ان آیات کے ساتھ اگر ترمذی کی بیان کردہ حدیث پڑھی جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد کیا: آدم کے بیٹے کے تین حقوق ہیں، رہنے کو مکان، ننگاپن چھپانے کو کپڑا اور کھانے پینے کو روٹی اور پانی‘‘ تو اسلامی فلاحی ریاست کے ارباب بست و کشاد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ہر شہری کو یہ سہولتیں فراہم کریں۔ اور اب تو اُن میں دو مزید حقوق، یعنی بلا معاوضہ تعلیم اور مفت طبی امداد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ یہاں یہ بتا دینا مناسب ہے کہ علامہ اقبال خاندانی منصوبہ بندی کے اس طرح قائل تھے کہ اگر بیوی اولاد پیدا نہ کرنا چاہے تو خاوند اُسے مجبور نہیں کر سکتا۔

علامہ اقبال جب قائد اعظم کو اپنے خط میں لکھتے ہیں کہ اسلامی قانون کے طویل مطالعے سے وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کی ’’جدید نظریات‘‘ کی روشنی میں ارتقا کے ذریعے قابل قبول’’سوشل ڈیماکریسی‘‘ قائم کی جا سکتی ہے، تو سوال پیدا ہوتا ہے: وہ اپنے اس دعویٰ کی بنیاد کن قرآنی آیات پر استوار کرتے ہیں، عین ممکن ہے انھوں نے فلاحی ریاست کے قرآنی تصور کی بنیاد سورۃ البقرہ آیت ۲۱۹ اور سورۃ الذاریات آیت ۱۹ پر رکھی ہو۔ سورۃ البقرہ آیت ۲۱۹ میں حکم ہے : ’’پوچھتے ہیں اللہ کی راہ میں کیا خرچ کیا جائے ؟ قل العفو  (کہو جو ضرورت سے زاید ہے)!!‘‘اس ضمن میں علامہ اقبال کے اشعار قابل غور ہیں:

قرآں میں ہو غوطہ زن اے مردِ مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّت کردار
جو حرف ’’قل العفو‘‘ میں پوشیدہ ہے اب تک
اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

’’قل العفو‘‘کے بارے میں ’’تقلیدی‘‘ سوچ تو یہی ہے کہ انسان رضا کارانہ طور پر جو اپنی ضرورت سے زاید یا فالتو سمجھے خدا کی راہ میں دے دے۔ مگر ’’جدت کردار‘‘ سے علامہ اقبال کی کیا مراد ہے؟ کیا یہ طے کرنے کے لیے کہ ضرورت سے زاید یا فالتو کیا ہے، ریاست کی مداخلت ضروری ہے؟ سورۃ الذاریات آیت ۱۹ میں ارشادہوتا ہے ’’دولت مندوں کے مال میں ناداروں اور محروموں کا حصہ ہے۔‘‘ کیا علامہ اقبال کے نزدیک اس حصے کا تعین کرنے کی خاطر بھی ریاست کی مداخلت ضروری ہے؟ علامہ اقبال کے ارشادات سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کے قرآنی تصور اور دولت مندوں کی ذمہ داری سے متعلق قرآنی احکام کے تحت ’’روحانی‘‘ بنیادوں پر قائم ’’سوشل ڈیماکریسی‘‘ یا ’’اسلامی فلاحی ریاست ‘‘ وجود میں لائی جا سکتی ہے۔

بہر حال خصوصی طور پر ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ اور ’’فلاحی ریاست کا قرآنی تصور‘‘ کے موضوعات پر کتب تحریر کرنا ایسے کام تھے جو علامہ اقبال تو ادھورے چھوڑ گئے مگر علامہ اقبال کے نام پر قائم سرکاری یا غیر سرکاری ادارے انجام دے سکتے ہیں۔ یہی امید ہمیں اس ادارے سے رکھنی چاہیے جو میاں اقبال صلاح الدین اور اُن کے رفقاء نے علامہ اقبال کے نام پر قائم کیا ہے۔ شاید ’’اجتہاد کی تاریخ و ارتقا‘‘ پر کوئی مستند کتاب تحریر کرنے کی خاطر علماء و فقہاء کا بورڈ قائم کرنے کی ضرورت پڑے ۔ اسی طرح ’’فلاحی ریاست کا قرآنی تصور‘‘کے موضوع پر کچھ تحریر کرنے کی خاطر ماہرین اقتصادیات کی خدمات حاصل کرنی پڑیں۔ علامہ اقبال احیائے اسلام کے شاعر ہیں۔ انھوں نے فرما رکھا ہے کہ وہ ’’حرف آخر ‘‘ نہیں ۔ اگر اُن کا شروع کردہ عملِ احیا واقعی جاری ہے تو بقول اُن کے، اُن کے پیش کردہ نظریات سے بہتر نظریات سامنے آ سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اُن کے اس شعر کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ہے:

ہر کہ او را قوّت تخلیق نیست
پیشِ ما جز کافر و زندیق نیست




علامہ اقبال کا تصور اجتہاد اور علمائے کرام

یوسف خان جذاب

اقبال بیسویں صدی کے بہت بڑ ے مفکر، فلسفی، شاعر اور مجتہد تھے۔ بیسویں صدی کے ذکر سے یہ مقصد نہیں ہے کہ اُن کی فکر اسی ایک صدی میں مقید تھی۔ یہ بات اُ ن کی ذات کے متعلق تو کہی جا سکتی ہے، لیکن جہا ں تک اُ ن کی فکر کا تعلق ہے تو شا ید جمو د کے اس دور میں بھی اُ ن کی پرو از میں کو تا ہی نہیں آ ئی ہے۔ اجتہاد کے حو الے سے اقبا ل کی فکر کی حکمر انی ان کے دور تک محدود نہیں ہے، یہ الگ بات ہے کہ ابھی تک ان کی فکر کو صحیح معنوں میں سمجھا نہیں گیا جو بلاشبہ مسلم امہ کے لیے ایک المیہ ہے ۔ 

ماہنامہ ’الشریعہ‘ نو مبر ۲۰۰۶کے شمار ے میں، اقبا ل کی فکر کے حو الے سے کئی مضا مین سا منے آ ئے ہیں۔ مذکور ہ شمارے کے نصف سے زیاد ہ صفحا ت میں فکر اقبا ل سے متعلق عمو ماً اور اُن کے اجتہاد ی نقطہ نظر سے متعلق خصو صاً لکھا گیا ۔ رئیس التحر یر جنا ب زا ہد الر اشد ی صا حب نے بھی ’کلمہ حق‘ کو اقبا ل کے تصور اجتہا د کے حوالے سے ’’چند ضروری گذارشات‘‘ کے لیے مختص کیا ہے اور نہا یت خو بصورتی سے علامہ اقبا ل کی فکر ی، فلسفیا نہ، دانشورانہ اور شا عرانہ حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انگریز ی استعمار کے دور میں اس فکر ی خلا کی نشا ند ہی کی ہے جو مسلما نو ں کے جمود کی وجہ سے پید ا ہو گیا تھا۔ یہ مو لا نا صا حب کی و سیع النظری ہے کہ وہ اس خلا کے وجود کے معتر ف ہیں، ور نہ ایسے لو گو ں کی کمی نہیں ہے جو کسی فکر ی خلا کے وجود کے ہی سر ے سے انکار ی ہیں۔ تا ہم مو لا نا صاحب کا کہنا ہے کہ چونکہ اقبال خود مجتہداور فقیہ نہ تھے اور نہ ہی اجتہاد اور فقہ سے ان کا عملی علاقہ رہا تھا، اس لیے وہ اجتہاد کے عملی پہلوؤں کے حوالے سے اقبال کی آرا پر اپنے تحفظا ت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں مولانا صاحب نے چند امور کی نشان د ہی کی ہے جو بحث طلب ہیں۔ ذیل میں ہم جنا ب زاہد الراشد ی صا حب کے پیش کردہ ان نکا ت پر ایک نظر ڈالیں گے۔

۱۔ اجتہاد مطلق کا دروازہ بند کیے جانے سے متعلق اقبال کے اعتراض کے جواب میں مو لا نا صا حب کا ارشاد ہے کہ اس کا تعلق اہلیت و صلا حیت کے فقدان سے نہیں بلکہ ضرورت مکمل ہو جا نے سے ہے اور دیگر علو م و فنو ن کی طر ح اجتہاد کے اصول و ضو ابط بھی، جو اسا سی نو عیت کے ہو تے ہیں، طے ہو چکے ہیں اور غیر متبد ل ہیں۔ اس کے خلاف یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ دین میں جو چیز بھی ابدی اور اٹل نو عیت کی ہو تی ہے، اس کے لیے قر آن پا ک یا سنت نبو ی سے صراحت پیش کر نا ہوگی۔ کیا مو لا نا صا حب اجتہاد مطلق کے متعلق ایسی کوئی تصریح پیش کر سکتے ہیں؟ ظاہر بات ہے کہ اجتہا دی فیصلے چونکہ قیاسی اور استنبا طی ہو تے ہیں، اس لیے ان کی حتمیت پر اصرار نہیں کیا جا سکتا ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک مسئلے کے حل کے با ر ے میں اربا ب علم متفق ہو جا ئیں، لیکن ہر حال میں یہ اتفا ق ضروری نہیں۔ دوسر ے لفظو ں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جن اصو ل و ضوابط کو مو لا نا صا حب نے ’’اساسی قوانین‘‘ کہا ہے، انہیں یہ بنیا دی حیثیت کس نے دی ہے ؟ اگر وہ فرمائیں کہ تا ریخ نے ثابت کر دیاہے تو اس ضمن میں یہ پو چھا جا ئے گا کہ ان پا نچ چھ فقہی مذاہب کے علا وہ دیگر بیسیوں فقہی مذ اہب کے پیر و کاروں کے سا تھ، جو اُ ن کے بقول تار یخ کی نذر ہو گئے، اللہ تعا لی کیا معا ملہ فر ما ئیں گے؟ انہوں نے بھی تو ان اجتہادات سے انحر اف کیا تھا۔ یہ سو ال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ان اجتہا دات کا اقرار یا انکار صرف تا ریخ کا معاملہ نہیں کہ فلا ں فقہی مذہب عملی لحا ظ سے دوام حا صل کر گیا اور فلا ں نا کا م ہو گیا، بلکہ یہ ہمار ی اُ خروی زند گی سے بھی متعلق ہے۔ ممکن ہے مو لا نا صا حب اس دور کو فقہی قو انین کی تشکیل کا عبو ری دور قرار دے کر دیگر مذ اہب کے پیروکاروں کے لیے نجات کی راہ نکا ل لیں مگر میری ا لجھن یہ ہے کہ یہی دور حتمی کیو ں ہے؟ اسلا م میں اجتہاد کا وجود اسے ایک متحر ک (Dynamic) مذہب ثا بت کرتا ہے اور اس تحرک کی بنا پر ہی اسلام تمام زمانوں کے لیے ہے۔ اجتہا د کو فقط ایک دور تک محدود کرنا، اس کی حر کت کو جمود میں تبدیل کرنے کے مترادف ہے ۔ شا ید الطا ف احمد اعظمی صا حب نے اس لیے لکھا ہے کہ :

’’ قیا سی احکا م حا لات اور ظروف ز ما نہ کے تا بع ہیں اور ان کی تبدیلی سے وہ بھی تبدیل ہو جائیں گے یا یو ں کہہ لیں کہ اُن کی اطلا قی صور تیں بدل جا ئیں گی۔ اس سلسلے میں حنفی فقہا کا رویہ ما ضی کی طر ح آ ج بھی قابل اعترا ض ہے۔ انہو ں نے حنفی فقہ کو، جو زیا دہ تر قیا سی اور استد لا لی احکام پر مشتمل ہے، نا قابل تغیرسمجھ لیا ہے۔‘‘ (۱) 

اگر بقول مو لانا صا حب ان اسا سی قو انین کی حیثیت اب نا قا بل تغیرہے اور ان کی تشکیل کا فقط ایک ہی دور تھا تو خود حضور نبی کریم ؐ اور صحا بہ کرامؓ کے دور ہی میں ان اصو ل اور ضو ابط کو طے کیوں نہیں کر دیا گیا، کیو نکہ وہ بہر طور دین کو بہتر طر یقے سے سمجھ سکتے تھے۔ 

۲۔ رئیس التحر یر نے لکھا ہے کہ اقبا ل نے اجتہا د کا خطبہ دیتے وقت ترکی کی جد ید یت کو سامنے رکھا تھا۔ گزارش یہ ہے کہ کو ئی بڑے سے بڑا لکھا ری بھی اپنے ما حو ل سے اوپر اُ ٹھ کر نہیں لکھتا۔ بیسو یں صدی کے ربع اول میں تر کی اند ھی تقلید سے اپنے آ پ کو آ زاد کر نے کے لیے تگ ودو کر رہا تھا۔ اقبال نے تر کی کی اس کاو ش کو بنظر تحسین دیکھا کیو نکہ اقبا ل کے مطابق مرد مو من اپنی خود ی کو اسی وقت مستحکم کر سکتا ہے جب اس میں حر یت اور آ زادی کاجذبہ بد رجہ اتم مو جو د ہو اور وہ روایا ت کے شکنجوں کو توڑ سکتا ہو۔ ترکی اس وقت بلا شبہ اس اند ھی تقلید کے بت کدو ں کو پا ش پا ش کر رہا تھا۔ تر کو ں کے اس اقدام کو اقبال نے یو ں سر اہا ہے: 

’’دراصل یہ صر ف تر ک ہیں جو امم اسلا میہ میں قد امت پر ستی کے خو اب سے بیدار ہو کر شعور ذات کی نعمت حا صل کر چکے ہیں۔ یہ صرف ترک ہیں جنہو ں نے ذہنی آ زادی کا حق طلب کیاہے اور جو ایک خیالی دنیا سے نکل کر اب عا لم حقیقت میں آ گئے ہیں۔‘‘ (۲)

اقبا ل مسلما نو ں کی نشاۃ ثانیہ کے خواہاں تھے اور نشاۃ ثانیہ کے لیے اند ھی تقلید سے آزاد ہو نا نا گزیر ہے۔ تر کی اس وقت قدامت پسند ی کے خلاف لڑرہا تھا اور اقبال کے مطابق قدامت پسندی اور روایت پر ستی ہی مسلم امہ کے زوال کاسبب تھی، چنا نچہ تر کو ں کی، فر سو دہ ر وایات سے بغا وت اور ان کی عقلی پیش رفت ان کے خیا لی دنیا سے نکل کر عا لم حقیقت میں ٓآنے کے متر ادف تھی۔ اقبال کا خطبہ اجتہا د محض ترکی کی جد یدیت کی نقالی نہیں ہے۔ انہو ں نے تر کی کے مشہور شا عر ضیا سے، جس کا حو الہ بار بار خطبہ اجتہاد میں آیا ہے، جہا ں ضرو ری تھا اختلا ف بھی کیا ہے۔ اقبال ترکی کی جد ید یت کے کہاں کہاں خلا ف تھے، طوالت کے خو ف سے اس بحث سے صرف نظر کیا جا تا ہے۔ اقبال اس اجتہا د کے حق میں تھے جس میں اسلا می روح سر ایت کر چکی ہو۔ تر کی اس وقت لا کے صنم کدو ں کو تو ڑ چکا تھا، تا ہم الا کے معبد تعمیر نہیں کر سکا تھا ۔ اس لیے اقبال نے اس خد شے کا اظہار کیا :

’’آ زاد خیا لی کی یہی تحر یک اسلام کا نا ز ک تر ین لمحہ بھی ہے۔ آ زاد خیا لی کا رجحان با لعمو م تفر قہ اور انتشار کی طر ف ہو تا ہے، لہٰذا نسلیت اور قو میت کے یہی تصورات جو اس وقت دنیا ئے اسلام میں کارفرما ہیں، اس وسیع مطمح نظر کی نفی بھی کر سکتے ہیں جس کی اسلا م نے مسلما نو ں کو تلقین کی ہے ۔ ‘‘ (۳) 

تر کی کی جس لا د ینیت کو مو لا نا صا حب اور الطا ف احمد اعظمی صا حب (۴) اقبا لی فکر کے شجر ۂ طو بیٰ کے بر گ و بار قرار دیتے ہیں، اقبا ل نے پیشگی طور پر اس کی اطلاع دے کر ان کے اس خیا ل با طل کی بسا ط الٹ دی تھی ۔ چنا نچہ لکھتے ہیں :

’’پھر اس کے علا وہ یہ بھی خطر ہ ہے کہ تمہا ر ے مذ ہبی اور سیا سی رہنما حر یت اور آ زاد ی کے جو ش میں، بشر طیکہ اس پر کو ئی روک عا ید نہ کی گئی، اصلا ح کی جا ئز حدود سے تجاوز کر جا ئیں۔‘‘ (۵) 

اقبا ل تر کی کی ایسی کسی پیش رفت کو قبول کر نے کے حق میں نہ تھے جس سے وہ اسلا می روحانیت سے محروم ہو جائیں۔ جا وید نا مہ کے مند رجہ ذیل اشعار ملا حظہ ہو ں جن میں ترکی کی اس بے مہار آزادی کو ہد ف تنقید بنا یا گیا ہے : 

مصطفی کو از تجدد می سرود
گفت نقشِ کہنہ را باید زدود 
نو نگر دد کعبہ را رخت حیات 
گر زافر نگ آ یدش لات ومنات 
تُر ک را آہنگ نو در چنگ نیست
تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست 
سینہ او را دمے دیگر نبود
در ضمیرش عالمے دیگر نبود 
لاجرم باعالم موجود ساخت 
مثل مو م از سو ز ایں عا لم گداخت 
طرفگی ہا در نہاد کائنات
نیست از تقلید تقویم حیات 
زندہ دل خلاق اعصار ودہور 
جانش از تقلید گردد بے حضور
چوں مسلماناں اگر داری جگر 
در ضمیر خویش ودر قرآں نگر 
صد جہانِ تازہ در آیات او ست 
عصرہا پیچیدہ در آنات او ست 
یک جہانش عصر حاضر را بس است 
گیر اگر در سینہ دل معنی رس است 
بندۂ مومن زآیات خدا ست 
ہر جہاں اندر بر او چوں قبا ست 
چو ں کہن گردد جہانے در برش
می دہد قرآں جہانے دیگرش (۶)

یہ با ت ذہن میں رہنی چاہیے کہ کما ل اتا ترک کے نا م کے سا تھ اقبا ل نے ’’ایدہُ اللہ بنصرہ العز یز‘‘ لکھا تھا (۷) مگر جب اس کی جد ید یت دا ئرہ اسلا م سے متجا وز ہو نے لگی تو اسے آ ڑے ہا تھو ں لیا۔ چنا نچہ اگر اقبا ل تر کو ں کی آ ج کی لا دینیت کا مشا ہد ہ فر ما تے تو ان کو بھی ویسے ہی ہد ف تنقید بناتے جیسا کہ انہوں نے مصطفی کو بنا یا۔ اقبا ل کے سامنے اس وقت فقط ترکو ں کی قد امت پسند ی اور روایت پسند ی کے خلاف بغا وت تھی اور انہو ں نے اُ ن کے اسی پہلو کو خر اج تحسین پیش کیا ہے ۔ 

۳۔ مو لا نا صا حب نے تیسرا نکتہ یہ اٹھایا ہے کہ اقبال کے خطبہ اجتہا د پر پو ن صدی گز ر چکی ہے اور اب دنیا نئے حالات سے گزر رہی ہے، اس لیے ہمیں اپنے مسائل کو نئے حالات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ 

اس ضمن میں ہماری گزارش یہ ہے کہ جو طبقہ ما ضی کے اجتہا دات کو حتمی تصور کر تا ہے، وہ جدید عا لمی تنا ظر اور بین الاقوامی ماحو ل میں اپنی ضر ور یا ت اور تر جیحات کا از سر نو جا ئز ہ کیسے لے سکتا ہے ؟ عباسی دور میں مر تب شدہ فقہی اصو لوں اور جزئیات میں محصور رہ کر جو ’’اجتہاد‘‘ بھی کیا جائے گا، اس کا حشر اس کا نفر نس سے مختلف نہیں ہو گا جو گز شتہ سال بھا رت میں ایک مذ ہبی ادارے نے منعقد کی تھی ۔ اس میں ٹیلی ویژن اور تصویر سے متعلق علما کی ’’اجتہا دی‘‘ آ را کی ایک جھلک ’الشریعہ‘ کے گز شتہ شما روں میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ 

ہم سمجھتے ہیں کہ علما ابھی تک اجتہاد کے متعلق اقبال کے مو قف کو نہیں سمجھ سکے۔ تا ریخ کو ئی سیلاب نہیں ہے جو ہنگا می طور پر غا ر ت گر ی کر کے گزر گیا اور بس۔ اس کی کڑ یا ں حا ل اور مستقبل میں پیو ست ہیں ۔ اس سلسلے میں ہم ما ضی سے چشم پوشی نہیں کر سکتے۔ خصو صاً اس صور ت میں جب کہ ہم نے حال تو در کنار، ما ضی کے مسا ئل کا حل بھی نہ ڈھو نڈا ہو ۔ اگر ہم حال کے مسا ئل پر واقعی غور و فکر کر نا چا ہتے ہیں تو اس کے لیے ہمیں اقبال کے اس خطبے کا از سر نو جا ئز ہ لینا ہو گا اور اس کے متعلق اپنے مو قف پر نظر ثا نی کر نا ہو گی۔ الطا ف احمدا عظمی صا حب نے اقبال کے دوسر ے خطبو ں کا بہت سخت تنقیدی جا ئز ہ لیا ہے ، تا ہم اس خطبے میں وہ ا قبا ل سے بڑ ی حد تک متفق دکھا ئی دیتے ہیں۔ میر ی نظر میں عصرحا ضر کا سب سے بڑا تقا ضا یہ ہے کہ علما اجتہاد کا بند دروازہ دوبارہ کھو لنے کے لیے تگ دود کر یں۔ اسی صورت میں وہ اس فکر ی خلا کو پُر کر نے میں کا میا ب ہو سکیں گے جو مسلسل بڑ ھتا جا رہا ہے۔ جب تک یہ قدم نہیں اُ ٹھا یا جاتا، ہم کولہو کے بیل کی طر ح اقبا ل کے خطبہ اجتہاد ہی کا طو اف کرتے رہیں گے ۔ 


حوالہ جا ت

۱۔ اعظمی ، الطا ف احمد، ’’خطبا ت اقبال ۔ایک مطا لعہ‘‘ ( دارالتذکیر لا ہور،۲۰۰۵ ؁ء ) ص:۲۳۸

۲ ۔ نذ یر نیا زی ، سید ( متر جم )، ’’تشکیل جد ید الٰہیات اسلا میہ‘‘ ، طبع دو م ( بزم اقبا ل ، لا ہور ، ۱۹۸۳) ص : ۲۵۰

۳۔ ایضاً ، ص ص :۲۵۱، ۲۵۲

۴۔ اعظمی ، الطا ف احمد، ’’خطبا ت اقبال۔ ایک مطا لعہ‘‘ ، ص :۲۱۷

۵ ۔ نذ یر نیا زی ، سید ( متر جم)، ’’تشکیل جد ید الٰہیا ت اسلا میہ‘‘ ، ص :۲۵۲

۶۔ محمد اقبال، ’’جا وید نا مہ‘‘ ، طبع ہفتم ، ( شیخ غلا م علی اینڈ سنز ، لا ہور، ۱۹۷۸ ء ) ص:۶۶

۷۔ سلیم چشتی ، پر و فیسر، ’’شر ح جا وید نا مہ‘‘، طبع اول ( عشرت پبلشنگ ہا وس ، لا ہور ،۱۹۵۶ ء ) ص ۶۰۱




اقبالؒ کا تصورِ اجتہاد

ڈاکٹر محمد آصف اعوان

 

(۹ نومبر ۱۹۹۳ء کو گوجرانوالہ بار ایسوسی ایشن کے ہال میں علامہ اقبالؒ کی یاد میں منعقد ہونے والی تقریب میں یہ مقالہ پڑھا گیا۔)


علامہ محمد اقبالؒ کو بلاشبہ بیسویں صدی کا ایک عظیم مفکر اور اسلام کا ممتاز ترین ترجمان کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا طویل عرصہ اسلامی تاریخ، اسلامی تہذیب و ثقافت اور اصول و قوانین کے مطالعہ میں گزارا، جس سے انہیں اسلام کی اصل روح کو سمجھنے اور جاننے کے لیے گہری بصیرت حاصل ہوئی۔ اقبال اسلام کی حقانیت اور ابدیت پر کامل یقین اور پختہ ایمان رکھتے تھے، لیکن اس کے ساتھ انہیں اس بات کا  بھی احساس تھا کہ زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے ساتھ اسلامی اصول و قوانین کی نئی تشریح و تعبیر کی بھی سخت ضرورت ہے تاکہ اسلام جدید دنیا کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے اور دنیا پر یہ حقیقت واضح ہو کہ اسلام کسی ایک عہد اور زمانے کے لیے ہی نہیں تھا بلکہ اس کے اصول و قوانین میں اتنی لچک اور پھیلاؤ ہے کہ یہ ہر دور کا ساتھ دے سکے اور ہر مسئلے کا  حل پیش کر سکے۔

اقبال حرکت و حرارت کا پیامبر ہے، جمود اس کے نزدیک شر اور حرکت سب سے بڑی خیر ہے۔ بقول خلیفہ عبد الحکیم ’’اقبال کے لیے ہر وہ تحریک خوش آئند تھی جو زندگی کے جمود کو توڑ دے‘‘1 چنانچہ اقبال نے اپنے دور میں ترکی اور ایران میں اٹھنے والی نئی سیاسی اور معاشرتی تحریکوں کا  بھرپور ساتھ دیا اور ان کی تعریف کی۔ اقبال کا خیال یہ ہے کہ

’’تہذیب و ثقافت کی نظر سے دیکھا جائے تو بحیثیت ایک تحریک، اسلام نے دنیائے قدیم کا یہ نظریہ تسلیم نہیں کیا کہ کائنات ایک ساکن و جامد وجود ہے، برعکس اس کے وہ اسے متحرک قرار دیتا ہے۔‘‘2

اقبال چاہتے تھے کہ اسلام کے اصول و قوانین کا ازسرنو جائزہ لے کر زمانۂ حال کے سیاسی، معاشرتی اور معاشی مسائل کا حل پیش کیا جائے۔ کیونکہ اسی طریقے سے اسلامی اصول و قوانین کی ابدیت کو ثابت کیا جا سکتا ہے۔ اقبال کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ اگر موجودہ دور کے تقاضوں کا احساس نہ کیا گیا اور اسلامی اصول و قوانین کی تدوینِ نو کر کے موجودہ مسائل کا حل پیش نہ کیا گیا تو ہو سکتا ہے کہ لوگوں کا اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے سے ایمان اٹھ جائے، اور وہ جدید مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے اسلام کی رائے سنے یا اس کا انتظار کیے بغیر مغربی طریقوں اور اصولوں کو اپنا لیں۔ پروفیسر محمد عثمان اپنی کتاب ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’جو لوگ صدی، نصف صدی زندہ رہنے کی خواہش رکھتے ہوں، ان کی بات اور ہے، مگر جو قومیں اور تہذیبیں صدیوں تک یا تا قیامت صفحۂ ہستی پر اپنے آپ کو قائم دائم دیکھنے کی آرزومند اور دعویدار ہوں، ان کے لیے اور باتوں کے علاوہ ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ وہ ثبات اور تغیر کے باہمی ربط اور ان کی حقیقت کو واضح طور پر جانیں۔ زندگی نہ محض ثبات ہے اور نہ محض تغیر ہے ۔۔۔۔ مستقل اقدار کی مسلسل حفاظت کرنا اور بدلنے والے پہلوؤں میں تبدیلی قبول کرنا بقا و دوام کی شرطِ اول ہے۔‘‘3

حضرت علامہ اقبالؒ اسلام کی بقا اور استحکام کے پرجوش مبلغ اور علمبردار تھے۔ انہوں نے سب سے پہلے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ جب تک مسلمانوں میں فکری سطح پر تعطل اور جمود کو دور نہ کیا جائے گا ان کا دنیا میں تری کرنا اور آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ علامہ اقبال کا مشہور و معروف انگریزی خطبہ

The Principle of Movement in the Structure of Islam

فقہ اسلامی کی تدوینِ نو کے ضمن میں عالمِ اسلام کی بہترین رہنمائی کرتا ہے۔ سید نذیر نیازی نے اس انگریزی لیکچر کا ترجمہ ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ اقبال اپنے خطبے میں فرماتے ہیں کہ اسلام میں ثبات اور تغیر دونوں پہلو موجود ہیں، لیکن ابدی اصول و قوانین سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ تغیر کے ہر امکان کو رد کرتا ہے بلکہ حرکت اور تغیر ہی خدا کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:

’’اسلام کے نزدیک حیات کی یہ روحانی اساس ایک قائم و دائم وجود ہے، جسے ہم اختلاف اور تغیر میں جلوہ گر دیکھتے ہیں۔ اب اگر کوئی معاشرہ حقیقت مطلقہ کے اس تصور پر مبنی ہے تو پھر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ثبات اور تغیر دونوں خصوصیات کا لحاظ رکھے۔ اس کے پاس کچھ تو اس قسم کے دوامی اصول ہونے چاہئیں جو حیاتِ اجتماعیہ میں نظم و انضباط قائم رکھیں، کیونکہ مسلسل تغیر کی اس بدلتی ہوئی دنیا میں ہم اپنا قدم مضبوطی سے جما سکتے ہیں تو دوامی اصولوں ہی کی بدولت۔ لیکن دوامی اصولوں کا یہ مطلب تو ہے نہیں کہ اس سے تغیر اور تبدیلی کے جملہ امکانات کی نفی ہو جائے، اس لیے کہ تغیر وہ حقیقت ہے جسے قرآن پاک نے اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی آیت ٹھہرایا ہے۔ اس صورت میں تو ہم اس شی کو، جس کی فطرت ہی حرکت ہے، حرکت سے عاری کر دیں گے۔‘‘4

پھر اقبال خود ہی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ

’’سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام کی ہیئتِ ترکیبی میں وہ کون سا عنصر ہے جو اس کے اندر حرکت اور تغیر قائم رکھتا ہے؟‘‘5

اور ساتھ ہی اس کا جواب دیتے ہیں کہ

’’اس کا جواب ہے، اجتہاد‘‘6

اقبال اجتہاد پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’فقہ اسلامی کی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے وہ کوشش جو کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کے لیے کی جائے۔‘‘7

گویا روزمرہ زندگی کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے لیے قوانین وضع کرنے، اور ایسے مسائل جن میں شک و شبہ کا امکان ہو، قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے لیے قوانین مرتب کرنے کا نام اجتہاد ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:

’’جو لوگ ہمارے بارے میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنے راستے دکھائیں گے۔‘‘

اقبال اجتہاد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک حدیث کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ حضرت معاذؓ کو جب یمن کا حاکم مقرر کیا گیا تو ان کی روانگی کے وقت نبی کریمؐ نے ان سے دریافت کیا کہ اے معاذ! معاملات کا فیصلہ کیسے کرو گے؟ تو حضرت معاذؓ نے عرض کیا کہ اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے کروں گا۔ آپؐ نے فرمایا، اگر کتاب اللہ سے تمہاری رہنمائی نہ ہو تو پھر کیا کرو گے؟ معاذؓ نے جواب دیا، تو رسول اللہ کی سنت کے مطابق۔ آپؐ نے فرمایا، اگر سنتِ رسول سے بھی رہنمائی میسر نہ ہو تو پھر؟ حضرت معاذؓ نے جواب دیا، تو پھر میں خود ہی کوئی رائے قائم کرنے کی کوشش کروں گا۔8

گویا نئے ماحول اور حالات میں نئی ضروریات اور تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے قرآن و حدیث کے مطابق فیصلے کرنا ضروری ہے، لیکن اگر قرآن و حدیث کسی خاص معاملے میں خاموش ہوں تو پھر قرآن و سنت اور اجتماعی اسلامی مزاج کا لحاظ رکھنا قانون سازی کرتے ہوئے لازمی ہے۔

اگر اقبال کے خطبے ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ کا دقتِ نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اقبال اس خطبے میں خاص طور پر اسلامی ممالک اور ان میں پیش آنے والے مسائل سے گفتگو کر رہے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا یہ خطبہ مختلف اسلامی ممالک میں اجتہادی کوششوں کے ضمن میں ایک Guideline کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ علامہ نے ترکوں کی اجتہادی کوششوں کی ہمیشہ تعریف کی ہے۔ اقبال ترکوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ

’’دراصل یہ صرف ترک ہیں جو اممِ اسلامیہ میں قدامت پرستی کے خواب سے بیدار ہو کر شعورِ ذات کی نعمت حاصل کر چکے ہیں۔ یہ صرف ترک ہیں جنہوں نے ذہنی آزادی کا حق طلب کیا ہے اور جو ایک خیالی دنیا سے نکل کر اب عالمِ حقیقت میں آ گئے ہیں۔ لیکن یہ وہ تغیر ہے جس کے لیے انسان کو ایک زبردست دماغی اور اخلاقی کشاکش سے گزرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا یہ ایک طبعی امر تھا کہ ایک ہر لحظہ حرکت اور وسعت پذیر زندگی کی روز افزوں پیچیدگیوں سے انہیں نئے نئے حالات اور نئے نئے نقطہ ہائے نظر سے سابقہ پڑتا اور وہ ان اصولوں کی ازسرنو تعبیر پر مجبور ہو جاتے، جو ایک ایسی قوم کے لیے جو روحانی وسعتوں کی لذت سے محروم ہے، خشک بحثوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔‘‘9

علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ ترکوں نے ایک نہایت جرأتمندانہ اقدام کر کے اپنی سیاسی اور تہذیبی زندگی میں اپنی اجتہاد پسندی کا ثبوت دیا ہے اور زندگی کے نئے تقاضوں اور ضروریات کا ساتھ دیا  ہے۔ اگر ہم یعنی ہندوستان کے لوگ بھی اسلامی اصول و قوانین کو موجودہ دور میں مؤثر بنانا چاہتے ہیں تو یہ ضروری ہے کہ اپنے ذہنی اور فکری ورثے کا ازسرنو جائزہ لے کر اسے موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق بنایا جائے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ

’’اگر اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ناگزیر ہے، جیسا کہ میرے نزدیک قطعی طور پر ہے، تو ہمیں بھی ترکوں کی طرح ایک نہ ایک دن اپنے عقلی اور ذہنی ورثے کی قدر و قیمت کا جائزہ لینا پڑے گا۔‘‘10

اقبالؒ کی نظر میں اجتہاد ہی اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کا ضامن ہے اور اسی کی مدد سے ہر دور میں اسلام اپنے پیروکاروں کو اپنے فیوض و برکات سے مستفید کر سکتا ہے۔ تاہم جہاں اقبال اجتہاد کی ضرورت و اہمیت سے پوری طرح آگاہ ہیں اور عالمِ اسلام کو اجتہاد کی دعوت دیتے ہیں، وہاں انہیں اس بات کا بھی مکمل احساس ہے کہ اس معاملے میں ذرا سی زیادتی بھی مسلمانوں کو دین و ایمان سے دور پھینک سکتی ہے۔ آزادیٔ افکار کی گو اپنی اہمیت ہے، تاہم فکر و تدبر کا سلیقہ اس سے بھی اہم تر اور ضروری ہے کیونکہ ؎

ہو فکر اگر خام تو آزادیٔ افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

بقول ڈاکٹر سید عبد اللہ:

’’علامہ اقبال کو فقہ اسلام کی تاریخ و تدوین کی اہمیت کا پورا احساس رہا۔ انہیں آج کے علمی و فکری ماحول میں اسلام کے اصولوں کی صداقت و افادیت ثابت کرنے پر اصرار رہا۔ بلاشبہ اس تدوینِ نو میں اجتہاد کی ضرورت اور بحث بھی آجاتی ہے، لیکن وہ اجتہاد کی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ تھے، کیونکہ اس کے لیے وافر اور فراواں اہلیت، تقوٰی اور تبحرِ علمی درکار ہے۔ اس کے علاوہ وہ اس خدشے سے بھی غافل نہ تھے کہ بلا قید اور بلا شرط اجتہاد سے انتشار پیدا ہو کر ملت کا شیرازہ بکھر بھی سکتا ہے۔‘‘12

علامہ اقبال اپنے انگریزی خطبے میں رقمطراز ہیں:

’’ہم اس تحریک کا، جو حریت اور آزادی کے نام پر عالمِ اسلام میں پھیل رہی ہے، دل سے خیرمقدم کرتے ہیں۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے، آزاد خیالی کی یہی تحریک اسلام کا نازک ترین لمحہ بھی ہے۔ آزاد خیالی کا رجحان بالعموم تفرقہ اور انتشار کی طرف ہوتا ہے۔ لہذا نسلیت اور قومیت کے یہی تصورات جو اس وقت دنیائے اسلام میں کارفرما ہیں، اس وسیع مطمح نظر کی نفی بھی کر سکتے ہیں جس کی اسلام نے مسلمانوں کو تلقین کی ہے۔ پھر اس کے علاوہ یہ بھی خطرہ ہے کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنما حریت اور آزادی کے جوش میں، بشرطیکہ اس پر کوئی روک عائد نہ کی گئی، اصلاح کی جائز حدود سے تجاوز کر جائیں۔‘‘13

علامہ اقبال اگرچہ نئے فقہی فیصلوں کے حق میں تھے اور چاہتے تھے کہ زمانہ جدید کی مخصوص ضرورتوں کے تحت بنیادی ماخذ کی روشنی میں اسلامی اصول و قوانین کی تدوینِ نو کی جائے، تاہم ان کی اعتدال پسند طبیعت اس بات کو قطعاً گوارا نہیں کرتی تھی کہ اجتہاد اور تجدد کے نام پر ایسے تجاوزات عمل میں لائے جائیں جو اسلامی تعلیمات کی روح سے عاری ہوں۔ حضرت علامہ سید سلیمان ندویؒ کے نام ایک خط میں البانیہ کے مسلمانوں سے متعلق وہ اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’میں نے سنا ہے کہ البانیہ کے مسلمانوں نے وضو اڑا دیا اور ممکن ہے نماز میں بھی کوئی ترمیم کی ہو۔‘‘14

اگرچہ اقبالؒ نے ترکوں کے اجتہاد کی ہر جگہ تعریف کی ہے مگر وہ اس اجتہاد کے ان پہلوؤں کا احتساب بھی کرتے ہیں جن سے اسلام کے بنیادی اصول و قوانین کے خلاف بغاوت کی بو آتی ہے۔ مثال کے طور پر اقبال کہتے ہیں کہ ترکی کی نیشنلسٹ پارٹی کا موقف یہ ہے کہ

’’ریاست ہی حیاتِ قومی کا بنیادی جزو ہے اور اس لیے باقی سب اجزا کی نوعیت اور وظائف بھی ریاست ہی سے متعین ہوں گے۔‘‘15

لیکن اقبال فرماتے ہیں کہ

’’ذاتی طور پر مجھے اس سے اختلاف ہے کہ اسلام کی توجہ تمام تر ریاست پر ہے اور ریاست ہی کا خیال اس کے باقی تمام تصورات پر حاوی۔‘‘16

اقبال واضح طور پر کہتے ہیں کہ

’’دراصل ترک وطن پرستوں نے ریاست اور کلیسا کی تفریق کا اصول مغربی سیاست کی تاریخ افکار سے اخذ کیا  ہے۔‘‘17

اقبال ایک ترک شاعر ضیا کی ان نظموں کا بھی سختی سے محاسبہ کرتے ہیں جن میں اس نے نماز، اذان اور تلاوتِ قرآن کو عربی کے بجائے ترکی زبان میں ادا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اقبال، ضیا کی نظم کے ایک بند کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

’’وہ سرزمین جہاں ترکی میں اذان دی جاتی ہے، جہاں نمازی اپنے مذہب کو جانتے اور سمجھتے ہیں، جہاں قرآن پاک کی تلاوت ترکی زبان میں کی جاتی ہے، جہاں پر چھوٹا بڑا احکامِ الٰہیہ سے واقف ہے، اے فرزندِ ترکی! وہ ہے تیرا آبائی وطن۔‘‘18

حضرت علامہ، ترک شاعر ضیا کے اس اجتہاد کو، کہ نماز ترکی زبان میں ادا کی جائے، اذان ترکی زبان میں دی جائے، اور قرآن پاک کی ترکی زبان میں تلاوت کی جائے، مناسب خیال نہیں کرتے اور فرماتے ہیں کہ

’’عربی کو ترکی سے بدلنے کا یہ خیال مسلمانانِ ہند کی غالب اکثریت کو ناگوار گزرے گا اور وہ اس کی مذمت کریں گے۔‘‘19

اپنی نظم کے ایک بند میں ضیا نے مساواتِ مرد و زن کے خیال کو بڑے پرجوش انداز میں بیان کیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اسلام کے عائلی نظام میں بنیادی تبدیلیاں لائی جائیں تاکہ عورت کے ساتھ عدل و انصاف ہو سکے۔ اس کے خیال میں جب تک عورت کو جائیداد میں آدھا حصہ ملے گا، اسے گواہی دینے کے  معاملے میں بھی آدھا انسان ہی تصور کیا جائے گا، ترک شاعر ضیا کہتا ہے کہ

’’جب تک عورتوں کی صحیح قدر و قیمت کا احساس نہیں ہو گا، حیاتِ ملی نامکمل رہے گی۔ اہل و عیال کی پرورش میں عدل و انصاف پر عمل کرنا چاہیے اور اس کے لیے تین چیزیں ہیں جن میں مساوات ناگزیر ہے: طلاق میں، علیحدگی میں، وراثت میں۔‘‘20

اقبال، ترک شاعر کے ان خیالات کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’رہا ترکی شاعر کا مطالبہ، سو میں سمجھتا ہوں وہ اسلام کے قانونِ عائلہ سے کچھ بہت زیادہ واقف نہیں۔ وہ نہیں سمجھتا کہ قرآن پاک نے وراثت کے بارے میں جو قاعدہ نافذ کیا ہے اس کی معاشی قدر و قیمت کیا ہے۔ شریعتِ اسلامی میں نکاح کی حیثیت ایک عقد اجتماعی کی ہے۔ اور بیوی کو یہ حق حاصل ہے کہ بوقتِ نکاح شوہر کا حقِ طلاق بعض شرائط کی بنا پر خود اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یوں امرِ طلاق میں تو مرد و زن کے درمیان مساوات قائم ہو جاتی ہے۔ رہی وہ اصلاح جو شاعر نے قانونِ وراثت میں تجویز کی ہے، سو اس کی بنا غلط فہمی پر ہے۔ اگر قانون کے کچھ حصوں میں مساوات نہیں کی گئی تو اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے، اس لیے کہ یہ خیال تعلیماتِ قرآن کے منافی ہے۔ قرآن مجید کا صاف و صریح ارشاد ہے ’’ولھن مثل الذی علیھن (بقرہ ۲۲۸) لہٰذا لڑکی کا حصہ متعین ہوا تو کسی کمتری کی بنا پر نہیں بلکہ ان فوائد کے پیشِ نظر جو معاشی اعتبار سے اسے حاصل ہیں۔‘‘21

اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ اگرچہ اقبال عصری تقاضوں کے پیشِ نظر قوانینِ اسلامی کی تدوینِ نو کے قائل ہیں اور اسے وقت کی ضرورت خیال کرتے ہیں، تاہم وہ بے اعتدالی اور کسی بھی معاملے میں کسی کی بھی کورانہ تقلید کے ہرگز قائل نہیں۔ اقبال اسلام کے بنیادی اور ابدی ماخذ میں کسی قسم کی بھی تبدیلی کے حق میں نہیں۔ ان کے نزدیک بنیادی ماخذ ہمارے ماضی کا شاندار علمی ورثہ ہیں، جن سے منہ موڑ کر اور انہیں پسِ پشت ڈال کر ہم کبھی بھی صحیح نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اسلامی قوانین کے لیے چار بنیادی ماخذ ہیں: (۱) قرآن (۲) حدیث (۳) قیاس (۴) اجماع۔

(۱) قرآن مجید

قرآن کو اسلامی قوانین کا اولین ماخذ قرار دیا جاتا ہے لیکن قرآن قانونی ضابطوں کی کتاب نہیں ہے بلکہ معاملاتِ زندگی سے متعلق عام لیکن بنیادی اصولوں کی طرف ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ

’’قرآن کوئی قانونی ضابطہ نہیں، اس کا حقیقی منشا، جیسا کہ ہم اس سے پہلے عرض کر آئے ہیں، یہ ہے کہ ذہنِ انسانی میں اس تعلق کا، جو اسے کائنات اور خالقِ کائنات سے ہے، اعلیٰ اور بہترین شعور پیدا کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن پاک میں قانونی نوعیت کے کچھ عام اصول اور قواعد و ضوابط موجود ہیں ۔۔۔‘‘22

اقبالؒ ملتِ اسلامیہ کی توجہ قرآن پاک کے اس خاص انداز اور اسلوب کی طرف دلا رہے ہیں کہ قرآن پاک کی جامعیت اور ابدیت اسی میں ہے کہ اس نے انسان کی رہنمائی کے لیے بنیادی اصول فراہم کر دیے ہیں جن کے اندر رہتے ہوئے ہم ہر زمانے اور ہر دور میں نئی ضروریات اور بدلتے ہوئے تقاضوں کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ گویا اس طرح اگر ہم غور کریں تو قرآن اپنے اندر ایک حرکی تصورِ حیات رکھتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:

’’ظاہر ہے کہ جس کتاب کا مطمح نظر ایسا ہو گا اس کی روش ارتقا کے خلاف کیسے ہو سکتی ہے؟‘‘23

حرکی تصورِ حیات کا یہ مطلب ہیں کہ اس میں ثبات کا کوئی بھی پہلو نہیں، بلکہ اقبال کے تصورِ حیات میں ایک Element of Permanence بھی ہے جس کا دمن کبھی بھی ہاتھ سے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ اقبال فرماتے ہیں:

’’ہمیں نہیں بھولنا چاہیے تو یہ کہ زندگی محض تغیر ہی نہیں، اس میں حفظ و ثبات کا ایک عنصر بھی موجود ہے۔‘‘24

اور پھر اقبال بڑے واضح انداز میں فرماتے ہیں کہ

’’تعلیماتِ قرآن کی یہی وہ جامعیت ہے جس کا لحاظ رکھتے ہوئے جدید عقلیت کو اپنے ادارات کا جائزہ لینا ہو گا۔ دنیا کی کوئی قوم اپنے ماضی سے قطع نظر نہیں کر سکتی، اس لیے کہ یہ ان کا ماضی ہی تھا جس سے ان کی موجودہ شخصیت متعین ہوئی۔‘‘25

(۲) حدیث

قرآن پاک کے بعد اسلامی قوانین کا سب سے بڑا ماخذ احادیثِ رسولؐ ہیں۔ ہمیں قانونی حیثیت کی حامل احادیث اور دوسری احادیث میں امتیاز کرنا ہو گا۔ بقول علامہ اقبال:

’’جہاں تک مسئلہ اجتہاد کا تعلق ہے، ہمیں چاہیے کہ ان احادیث کو، جن کی حیثیت سراسر قانونی ہے، ان احادیث سے الگ رکھیں جن کا قانون سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘26

احادیث کی قانونی حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے علامہ اقبال، حضرت شاہ ولی اللہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے بہت سے احکام عربوں کی مقامی روایات اور ان کے قومی مزاج کو سامنے رکھ کر دیے تھے، جن کی اطاعت دوسری قوموں کے افراد کے لیے ضروری نہیں، کیونکہ آئندہ نسلوں کا مزاج، روایات اور ماحول عربوں سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ حضرت علامہ اپنے انگریزی خطبے میں شاہ ولی اللہ کے حوالے سے رقمطراز ہیں:

’’انبیاء کا عام طریقِ تعلیم تو یہی ہے کہ وہ جس قوم میں مبعوث ہوتے ہیں ان پر اسی قوم کے رسم و رواج اور عادات و خصائص کے مطابق شریعت نازل کی جاتی ہے۔ لیکن جس نبی کے سامنے ہمہ گیر اصول ہیں، اس پر نہ تو مختلف قوموں کے لیے مختلف اصول نازل کیے جائیں گے، نہ یہ ممکن ہے کہ وہ ہر قوم کو اپنی اپنی ضروریات کے لیے الگ الگ اصولِ عمل متعین کرنے کی اجازت دے۔ وہ کسی ایک قوم کی تربیت کرتا اور پھر ایک عالمگیر شریعت کی تشکیل میں اس سے تمہید کا کام لیتا ہے۔ لیکن ایسا کرنے میں وہ اگرچہ انہی اصولوں کو حرکت دیتا ہے جو ساری نوعِ انسانی کی حیاتِ اجتماعیہ میں کارفرما ہیں۔ پھر بھی ہر معاملے اور ہر موقع پر عملاً ان کا اطلاق اپنی قوم کی مخصوص عادات کے مطابق ہی کرتا ہے۔ لہٰذا اس طرح جو احکام وضع ہوتے ہیں (مثلاً تعزیرات) ایک لحاظ سے اسی قوم کے لیے مخصوص ہوں گے۔ پھر چونکہ احکام مقصود بالذات نہیں، اس لیے یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو آئندہ نسلوں کے لیے بھی واجب ٹھہرایا جائے۔‘‘27

علامہ اقبالؒ امام ابوحنیفہؒ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام صاحب نے اپنی فقہ میں ایسی احادیث کا خاص طور پر استعمال ہیں کیا جن کا ایک خاص زمانے سے اور لوگوں کے مزاج سے تعلق تھا۔ علامہ فرماتے ہیں:

’’شاید یہی وجہ تھی کہ امام ابوحنیفہؒ نے، جو اسلام کی عالمگیر نوعیت کو خوب سمجھ گئے تھے، ان احادیث سے اعتنا نہیں کیا۔‘‘28

یہاں ’’ان احادیث‘‘ سے مراد ایسی احادیث ہیں جن کا (تعلق) مخصوص زمانے سے اور اس زمانے کے لوگوں کے مخصوص عادات و کردار اور مزاج سے تھا۔ چنانچہ اقبال فرماتے ہیں:

’’اگر آزادیٔ اجتہاد کی وہ تحریک جو اس وقت دنیائے اسلام میں پھیل رہی ہے، احادیث کو بلا جرح و تنقید قانون کا ماخذ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تو اس سے اہل سنت والجماعت کے ایک امام الائمہ ہی کی پیروی مقصود ہے۔‘‘29

یہاں بعض لوگوں کو یہ احتمال گزر سکتا ہے کہ اقبال، خدانخواستہ، احادیث کو کم اہمیت دیتے تھے یا یہ کہ وہ منکرِ حدیث تھے، لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ اگر اقبال کا ایسا خیال ہوتا تو وہ قانون سازی کے عمل میں احادیث کا قرآن کے بعد ذکر ہی نہ کرتے۔ اقبالؒ تو محض Indiscriminate use of Traditions کے خلاف ہیں، ورنہ تو حضرت علامہ رقمطراز ہیں:

’’سب سے بڑی خدمت جو محدثین نے شریعتِ اسلامیہ کی سرانجام دی ہے، یہ ہے کہ انہوں نے مجرد غور و فکر کے رجحان کو روکا اور اس کی بجائے ہر مسئلے کی الگ تھلگ شکل اور انفرادی حیثیت پر زور دیا۔‘‘30

اقبالؒ قانون سازی کے عمل میں احادیث کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’’احادیث کا مطالعہ اگر اور زیادہ گہری نظر سے کیا جائے اور ہم ان کا استعمال یہ سمجھتے ہوئے کریں کہ وہ کیا روح تھی جس کے تحت آنحضرتؐ نے احکامِ قرآن کی تعبیر فرمائی، تو اس سے ان قوانین کی حیاتی قدر و قیمت کے فہم میں اور بھی آسانی ہو گی جو قرآن پاک نے قانون کے متعلق قائم کیے ہیں۔ پھر یہ ان اصولوں کی حیاتی قدر و قیمت ہی کا پورا پورا علم ہے جس کی بدولت ہم اپنی فقہ کے بنیادی ماخذ کی ازسرنو تعبیر اور ترجمانی کر سکتے ہیں۔‘‘31

(۳) اجماع

فقہ اسلامی کا تیسرا بڑا ماخذ اجماع ہے۔ مولانا محمد حنیف ندوی اپنی کتاب ’’مسئلہ اجتہاد‘‘ میں اجماع کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ

’’اصطلاح کی رو سے اجماع اس سے تعبیر ہے کہ مجتہدین اور اربابِ حل و عقد آنحضرتؐ کے بعد کسی عصر و زمانہ میں کسی امرِ دینی پر متفق ہو جائیں ۔۔۔۔ جب کوئی مسئلہ مخصوص اسباب کی بنا پر ابھرے اور ائمہ و مجتہدین کے سامنے آئے تو اس کے فیصلہ میں اس دور کے مجتہدین و اربابِ اختیار میں اختلافِ رائے نہ پایا جاتا ہو۔‘‘32

علامہ کو اس بات پر افسوس ہے کہ ’’اجماع‘‘ باوجود اسلامی قانون سازی کا ایک بہت بڑا اور اہم ماخذ ہونے کے، علمی صورت اختیار نہ کر سکا۔ اقبال کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ شروع اسلام میں مطلق العنان سلطنتیں قانون سازی کی مجالس کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے خطرہ تصور کرتی تھیں۔ اقبال لکھتے ہیں کہ

’’اموی اور عباسی خلفاء کا فائدہ اسی میں تھا کہ اجتہاد کا حق بحیثیت افراد مجتہدین ہی کے ہاتھ میں رہے، اس کی بجائے کہ اس کے لیے ایک مستقل مجلس قائم ہو، جو بہت ممکن ہے انجام کار ان سے بھی زیادہ طاقت حاصل کر لیتی۔‘‘33

حضرت علامہؒ اس بات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ اب اسلامی ممالک میں مجالس قانون ساز اور جمہوریت   کا فروغ ہو رہا ہے اور اجماع کے لیے بہتر صورت پیدا ہو رہی ہے۔ اقبال موجودہ زمانہ میں اجماع کی ممکنہ صورت پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’مذاہبِ اربعہ کے نمائندے جو سردست فردًا فردًا اجتہاد کا حق رکھتے ہیں، اپنا یہ حق مجالسِ تشریعی کو منتقل کر دیں گے۔ یوں بھی مسلمان چونکہ متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، اس لیے ممکن بھی ہے تو اس وقت اجماع کی یہی شکل۔ مزید برآں غیر علماء بھی، جو ان امور میں بڑی گہری نظر رکھتے ہیں، اس میں حصہ لے سکیں گے۔ میرے نزدیک یہی ایک طریقہ ہے جس سے کام لے کر ہم زندگی کی اس روح کو، جو ہمارے نظاماتِ فقہ میں خوابیدہ ہے، ازسرنو بیدار کر سکتے ہیں۔ یونہی اس کے اندر ایک ارتقائی مطمح نظر پیدا ہو گا۔‘‘34

اقبالؒ دورِ جدید میں ترکوں کی مثال دیتے ہیں جنہوں نے منصبِ اجتہاد کو افراد کی ایک جماعت بلکہ منتخب شدہ مجلسِ قانون ساز کے سپرد کر دیا۔ اقبال کے نزدیک ترکوں کا یہ اقدام قابلِ استحسان ہے، لیکن یہاں ایک خدشہ اقبال کے ذہن میں جنم لیتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ جو افراد منتخب ہو کر اسمبلی میں آئیں اور قانون سازی کریں، وہ اسلامی اصول و قوانین سے نابلد  ہوں۔ چنانچہ اقبال کی نظر میں:

’’اس قسم کی مجالس شریعت کی تعبیر میں بڑی بڑی شدید غلطیاں کر سکتی ہیں۔ ان غلطیوں کے ازالے یا کم سے کم امکان کی صورت کیا ہو گی؟‘‘35

اقبال کے نزدیک اس قسم کی غلط تعبیرات کی روک تھام کا واحد طریقہ یہ ہے کہ علماء کا ایک مشاورتی بورڈ قائم کیا جائے جو اسمبلی کی معاونت اور رہنمائی کر سکے۔ اقبال لکھتے ہیں:

’’انہیں چاہیے، مجالسِ قانون ساز میں علماء کو بطور ایک مؤثر جزو شامل تو کر لیں، لیکن علماء بھی ہر امرِ قانون میں آزادانہ بحث و تمحیص اور اظہارِ رائے کی اجازت دیتے ہوئے اس کی رہنمائی کریں۔ بایں ہمہ شریعتِ اسلامی کی غلط تعبیرات کا سدباب ہو سکتا ہے تو صرف اس طرح کہ بحالتِ موجودہ بلادِ اسلامیہ میں فقہ کی تعلیم جس نہج پر ہو رہی ہے، اس کی اصلاح کی جائے۔ فقہ کا نصاب مزید توسیع کا محتاج ہے، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ جدید فقہ کا مطالعہ بھی باحتیاط اور سوچ سمجھ کر کیا جائے۔‘‘36

(۴) قیاس

اقبالؒ کے نزدیک اجتہاد کا چوتھا اور آخری ماخذ قیاس ہے۔ قانون سازی میں مماثلتوں کی بنا پر استدلال سے کام لینا قیاس کہلاتا ہے۔ اقبال فرماتے ہیں:

’’چوتھا ماخذ قیاس ہے، یعنی قانون سازی میں مماثلتوں کی بنا پر استدلال سے کام لینا۔‘‘37

قیاس کرتے ہوئے اسلام کے بنیادی تقاضوں اور روح کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے اور ان کی روشنی میں نئے احکام اور اصول و قوانین مرتب کیے جاتے ہیں۔ قیاس کی تین صورتیں ہیں:

(۱) کوئی ایسا حکم جو قرآن مجید میں ہو، اس پر کسی دوسرے غیر مذکور حکم کو قیاس کرنا۔

(۲) کوئی ایسا حکم جو حدیث میں ہو، اس پر کسی غیر مذکور حکم کو قیاس کرنا۔

(۳) کوئی ایسا حکم جو اجماع سے ثابت ہو، اس پر قیاس کرنا۔

اقبال کا واضح نقطہ نظر یہ ہے کہ قیاس صرف اسی موقع پر عمل میں آئے گا جہاں قرآن، سنتِ رسولؐ اور اجماع رہنمائی نہ کرے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ

’’قیاس کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر کام میں لایا جائے تو، جیسا کہ امام شافعی کا ارشاد ہے، وہ اجتہاد ہی کا دوسرا نام ہے۔ اور اس لیے نصوصِ قرآنی کی حدود کے اندر ہمیں اس کے استعمال کی پوری پوری آزادی ہونی چاہیے۔ پھر بحیثیت ایک اصولِ قانون اس کی اہمیت کا اندازہ صرف اس بات سے ہو جاتا ہے کہ بقول قاضی شوکانی زیادہ تر فقہاء اس امر کے قائل تھے کہ حضور رسالتمابؐ کی حیاتِ طیبہ میں بھی قیاس سے کام لینے کی اجازت تھی۔‘‘38

علامہؒ زندگی کو ایک مسلسل تخلیقی بہاؤ قرار دیتے ہیں۔ اس میں جمود، سکونت اور ٹھہراؤ نہیں بلکہ روانی، حرکت اور ارتقا اس کی فطرت ہے۔ اس لیے ہر زماں اپنے قانونی نظام کا ازسرنو جائزہ لینا اور اسے Reconstruct کرنا لازمی ہے۔ زندگی کے اندر بڑھنے اور پھلنے پھولنے کی وہی طاقت ہے جو بیج میں درخت بننے کی قوت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود اپنی کتاب ’’اقبال کا تصورِ اجتہاد‘‘ میں اجتہاد کے تصور کے حوالے سے رقمطراز ہیں:

’’یہ بحرِ حیات کی موجوں کا اضطراب ہے۔ رمِ زندگی ہے، ولولۂ شوق ہے۔ لذتِ پرواز ہے۔ جراتِ نمو ہے۔ یہ طوفانِ زندگی سے نبرد آزمائی کا عزم ہے۔ یہ تندیٔ باد مخالف کے تھپڑوں کا مقابلہ کرنے کا شاہینی شکوہ ہے۔ عزیمت کی راہ ہے۔ نغمۂ تارِ حیات ہے اور کشمکشِ انقلاب ہے۔‘‘39

گویا زندگی ہر دم منزلِ نو کی طرف گامزن ہے۔ جمود اور سکون اس کی سرشت میں نہیں۔ تغیر و ارتقا اس کے لیے وجۂ ثبات ہے۔ تو ضرورت ہے کہ رمِ آہو کی مانند ہر دم نئے راستوں اور راہوں پر گامزن حیاتِ مسلسل کے لیے کچھ ایسے ابدی اصول و قوانین ہوں جو زندگی کے تغیرات کی رہنمائی کر سکیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ نے اپنے خطبہ ’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں اسی امر کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر ہم جدید دور میں نئے حالات اور ماحول کی روشنی میں زندگی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر اجتہادی فکر کا پیدا کرنا ازبس ضروری ہے۔ حضرت علامہ کا خطبہ ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ ممالک اسلامیہ کے لیے ایک Guideline ہے جس سے استفادہ کر کے مسلمان نہ صرف اپنے آپ کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں بلکہ ترقی یافتہ قوموں کی صف میں اپنا ایک منفرد مقام بھی بنا سکتے ہیں۔


حوالہ جات

  1. ’’فکرِ اقبال‘‘ ص ۱۴۹ ۔ خلیفہ عبد الحکیم ۔ بزمِ اقبال، لاہور ( ۱۹۶۸ء) ۔
  2. ’’تشکیلِ جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ ص ۲۲۳ ۔ ترجمہ: سید نذیر نیازی ۔ بزمِ اقبال، لاہور (۱۹۸۶ء) ۔
  3. ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘‘ ص ۱۵۱، ۱۵۲ ۔ پروفیسر محمد عثمان ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور (۱۹۸۷ء) ۔
  4. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۲۷، ۲۲۸۔
  5. ایضاً ص ۲۲۸
  6. ایضاً۔
  7. ایضاً۔
  8. ’’فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘‘ ص ۱۵۳، ۱۵۴۔
  9. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۵۰۔
  10. ایضاً ص ۲۳۶۔
  11. ’’کلیاتِ اقبال‘‘ ۔ اقبالؒ ۔ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور (۱۹۸۲ء)۔
  12. ’’مطالعۂ اقبال کے چند نئے رخ‘‘ ص ۱۲۱، ۱۲۲ ۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ ۔ بزمِ اقبال لاہور (۱۹۸۲ء)۔
  13. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۵۱، ۲۵۲۔
  14. ’’اقبال نامہ‘‘ (حصہ اول) ص ۱۴۴ ۔ محمد اقبال ۔ مرتبہ: شیخ عطاء اللہ ۔ ناشر: شیخ محمد اشرف، لاہور۔
  15. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۳۶۔
  16. ایضاً ص ۲۳۷۔
  17. ایضاً ص ۲۳۹۔
  18. ایضاً ص ۲۴۸۔
  19. ایضاً۔
  20. ایضا۔ ص ۲۴۹۔
  21. ایضاً ص ۲۶۱، ۲۶۲۔
  22. ایضاً ص ۲۵۵، ۲۵۶۔
  23. ایضاً ص ۲۵۷۔
  24. ایضاً۔
  25. ایضاً ص ۲۵۷، ۲۵۸۔
  26. ایضاً ص ۲۶۴۔
  27. ایضاً ص ۲۶۵، ۲۶۶۔
  28. ایضاً۔
  29. ایضاً۔ ص ۲۶۶، ۲۶۷۔
  30. ایضاً۔
  31. ایضاً۔
  32. ’’مسئلہ اجتہاد‘‘ ص ۱۰۱، ۱۰۲ ۔ مولانا محمد حنیف ندوی ۔ ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، لاہور (۱۹۸۳ء)۔
  33. ’’تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ‘‘ ص ۲۶۷، ۲۶۸۔
  34. ایضاً ص ۲۶۸۔
  35. ایضاً ص ۲۷۰۔
  36. ایضاً ص ۲۷۱۔
  37. ایضاً۔
  38. ایضاً ص ۲۷۴۔
  39. ’’اقبال کا تصورِ اجتہاد‘‘ ص ۲۳۶ ۔ ڈاکٹر خالد مسعود ۔ مطبوعاتِ حرمت، راولپنڈی (۱۹۸۵ء)۔



اقبال کا خطبہ اجتہاد: ایک تنقیدی جائزہ

الطاف احمد اعظمی

(’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ میں) اقبال نے اسلامی قانون کے بنیادی مآخذکا بھی جائزہ لیا ہے۔ اسلامی مآخذ کاپہلا ماخذ قرآن حکیم ہے۔ اس میں تفصیلی قوانین کی جگہ اصول وکلیات زیادہ ہیں۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس نے انسانی فکر کے لیے پوری گنجائش رکھی ہے۔ چنانچہ مسلم فقہا نے ان اصولوں کی بنیادپر ایک نظام قانون وضع کیا جو قدرقیمت کے لحاظ سے کسی طرح بھی رومی قانون سے کم نہیں بلکہ فائق ہے، لیکن یہ بہر حال انسانی تشریحات ہیں، اس لیے ہم اس کو حرف آخر نہیں کہہ سکتے ہیں۔اگر عہد حاضر کے مسلمان قرآن مجید کے اصولوں کی روشنی میں اسلامی نظام کی نئی تشریح کریں تو وہ کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے، اور اس عمل پر متقدمین کے کام اور ان کی آرا کو حائل نہیں ہونا چاہیے۔ (۱)

اسلامی قانون کا دوسرا ماخذ حدیث ہے۔ حدیث کے بارے میں ہر دور کے علما میں اختلاف رہاہے، اس لیے اقبال نے اس نزاع سے بچتے ہوئے صرف ان احادیث تک اپنی بات محدود رکھی ہے جن کی حیثیت قانونی ہے یعنی جن کاتعلق معاملات زندگی سے ہے۔اس سلسلے میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ نبی ﷺنے قانون سازی کے عمل میں عربوں کے کن عادات ورسوم کو باقی رکھا اور کن عادات ورسوم میں جزئی ترمیمات کے بعد ان کو اسلامی قانون کا درجہ دیا۔ اس سلسلے میں اقبال نے شاہ ولی اللہ کے حوالے سے لکھاہے کہ جو پیغمبر بھی آتاہے، وہ کار رسالت کی انجام دہی میں مخاطب قوم کی عادات، طریقے اور نفسیات کا پورا لحاظ رکھتاہے۔ اس اعتبار سے وہ جو قوانین بناتاہے، وہ دائمی نہیں ہوتے بلکہ اسی قوم کے ساتھ مختص ہوتے ہیں۔ ان کو جوں کاتوں دوسری قوموں پر نافذ نہیں کیا جاسکتاہے، مثلاً جرائم کی سزا وغیرہ۔یہی وجہ ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے فقہ اسلامی کی تدوین میں اس نوع کی حدیثوں سے بہت کم تعرض کیاہے۔ انہوں نے استحسان (۲) کا جو اصول وضع کیا، اس سے صاف ظاہر ہے کہ احادیث کی طرف ان کی توجہ زیادہ کیوں نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ قانون سازی کے عمل میں حالات زمانہ پر غور وفکر نہایت ضروری ہے۔ مخصوص قسم کے حالات میں بنائے گئے قانون کو اس سے مختلف حالات میں نافذ کرنا قانون کے مقصد وغایت کو نظر انداز کرنا ہے۔(۳)

بعض علما کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ کے عہد میں حدیث کے مجموعے مرتب نہیں ہوئے تھے اورمعاملات کی بہت سی حدیثیں ان تک نہیں پہنچی تھیں، اس لیے انہوں نے احادیث سے بہت کم تعرض کیاہے۔یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ امام مالکؒ اورزہری ؒ کے قانونی مجموعے موجود تھے۔ امام ابو حنیفہؒ خود بھی حدیث کے جید عالم تھے۔ اگر وہ چاہتے تو حدیث کا ایک مجموعہ تیار کر سکتے تھے۔ اقبال کاخیال ہے کہ حدیث کے باب میں امام ابوحنیفہؒ کاطرز عمل بالکل درست تھا۔ احادیث دراصل نبی ﷺ کے اجتہادا ت ہیں۔ ہم ان کی مدد سے یہ جان سکتے ہیں کہ آپﷺ نے وحی کی تشریح کس طرح کی۔ (۴)

اسلامی قانون کاتیسرا ماخذ اجماع ہے۔ اقبال نے لکھا ہے کہ علما نے اس سلسلے میں نظری بحثیں تو بہت کیں لیکن اس خیال کو ایک مستقل ادارے کی شکل میں تبدیل نہ کرسکے۔ اجماع کے سلسلے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا صحابہؓ کا اجماع ہر دور میں قابل اتباع ہے؟ اقبال کا خیال ہے کہ جن امور کا تعلق واقعات (facts) سے ہو مثلاً معوذتین جزو قرآن ہیں یا نہیں، ان میں صحابہؓ کی اتباع واجب ہے کیونکہ صحیح حالات سے وہی لوگ واقف ہو سکتے ہیں، لیکن جن امور کاتعلق قانون سے ہے، ان میں صحابہؓ کا فیصلہ ہر دور کے مسلمانوں کے لیے واجب الاطاعت نہیں ہے کیونکہ اس کا تعلق کسی حکمی آیت کی تشریح سے ہے اور یہ تشریح اپنے عہد کے حالات اور تقاضوں کے لحاظ سے ہوگی۔ اقبال نے تائید میں کرخی ؒ کا حوالہ دیا ہے۔ انہوں نے لکھاہے کہ جن امور کا تعلق قیاس سے نہیں ہے، ان میں صحابہؓ کی سنت واجب العمل ہے لیکن قیاسی امور میں یہ واجب نہیں ہے۔ (۵)

اقبال نے اس خیال کی تردید کی ہے کہ اجماع قرآن کا ناسخ ہے۔ اجماع تو درکنار، حدیث رسول ﷺ کو بھی یہ حیثیت حاصل نہیں ہے۔(۶) اجماع سے مراد علما کے ایک بڑے گروہ کاکسی شرعی معاملے میں اتحاد رائے ہے۔اقبال کے نزدیک عہد حاضر میں اجماع کی صحیح ترین صورت عوامی نمائندوں کی مجلس ہے، لیکن اس کے ساتھ قانون دان علما کی ایک جماعت بھی ہو جو وضع قانون میں مجلس کی مدد کرے اور اس کے ذریعے بنائے گئے قوانین کی نگران بھی ہو۔ (۷)

اسلامی قانون کا چوتھا ماخذ قیاس (Reason) ہے یعنی مماثلت علت کی بنیاد پر قانون سازی۔اصول قیاس کا سب سے زیادہ استعمال امام ابوحنیفہؒ نے کیاہے۔ اقبال نے لکھاہے کہ اس کی وجہ اس عہد کے سیاسی اور سماجی حالات تھے۔ انہوں نے شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ اسلام کے مفتوحہ ممالک میں جو سماجی اور معاشی حالات ہیں، ان کے بارے میں حدیث سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ چنانچہ انہوں نے قیاس سے کام لیا اور حالات زمانہ کے لحاظ سے نئے احکام نکالے۔ یہ طرز عمل ایک لحاظ سے درست تھا اور ایک لحاظ سے غلط۔ انہوں نے اصول قیاس پر ارسطو کی منطق کی مدد سے اسلام کاایک مکمل نظام قانون بنا ڈالا۔ جو معاملات ابھی تک پیش نہیں آئے تھے، ان کے لیے بھی قوانین بنا ڈالے ۔اس بے روح میکانکی عمل نے اسلامی قانون کے ارتقا کو متاثر کیا اور بعد کے فقہا کی تخلیقی آزادی کاراستہ بالکل مسدود ہو گیا۔ (۸)

امام مالک ؒ اور امام شافعی ؒ دونوں نے امام ابو حنیفہؒ کے اصول قیاس پر تنقیدکی ہے جو ان کے قومی مزاج کاخاصہ تھا۔ انہوں نے تصور کے بجائے عملی واقعات کواہمیت دی۔اس کے برخلاف ایرانی مزاج تجریدی تھا، وہ واقعہ سے زیادہ تصور کو اہمیت دیتاتھا۔ فقہاے حجاز نے عملی واقعات کو دائمی حیثیت دی اور قیاس سے اجتناب کیا۔ ان کا یہ طرز عمل درست نہ تھا،کیونکہ قیاس کی بنیاد عملی واقعات (concrete)کے مطالعے پر ہے اور یہ ایک درست طریقہ ہے یعنی استقرائی طریقہ۔ اس میں حالات سے ہم آہنگی اور فکری آزادی دونوں چیزیں موجود ہیں جب کہ استخراجی طریقہ میں یہ دونوں عناصر ناپید ہیں، لیکن جس طرح علماے حجاز نے عملی واقعات پر مشتمل احادیث کو دائمی حیثیت دی اور بایں طور اسلامی قانون کو ترقی اور حرکت سے محروم کر دیا، اسی طرح فقہاے عراق نے امام ابو حنیفہؒ کے اجتہادات کو ہر پہلو سے مکمل قرار دے کر مزید قیاس کا دروازہ بند کر دیا۔ (۹)

اقبال کا خیال ہے کہ متن وحی کے اندر رہتے ہوئے قیاس کا حق جس طرح متقدمین علما کو حاصل تھا، اسی طرح عہد حاضر کے علما وفضلا کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ علما کا یہ کہنا کہ اجتہاد کا دور ختم ہو چکا ہے، محض افسانہ ہے ۔اس خیال کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسلامی قانون ایک مدون شکل (crystalized legal thoughts) میں موجو د ہے ،اور اس کی دوسری وجہ علما کی کاہلی ہے جو روحانی انحطاط کا لازمی نتیجہ ہے۔ اسی کاہلی کی وجہ سے انہوں نے متقدمین فقہا کو بت کادرجہ دے رکھا ہے اور ان کی تشریحات وآرا سے بال برابر ہٹنا خلاف عقیدت ٹھہرایا ہے، لیکن عہد جدید کے دانشور اپنی عقلی آزادی کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دسویں صدی ہجری کے نامور فقیہ سرخسی نے لکھا ہے کہ اگر اس افسانہ (یعنی یہ کہ اب اجتہاد کی ضرورت نہیں ہے)کے قائلین کاخیال ہے کہ متقدمین علما کو اجتہاد کے زیادہ مواقع اور آسانیاں دستیاب تھیں تو یہ ایک لغو خیال ہے۔ ہر شخص معمولی غورفکر سے دیکھ سکتاہے کہ متقدمین کے مقابلے میں اس عہد کے علما کے لیے اجتہاد زیادہ آسان ہے۔ قرآن وسنت پر مشتمل جو عظیم تفسیری اور خبری ذخیرہ اس وقت موجو دہے، وہ پہلے کے لوگوں کو حاصل نہ تھا۔اس دور کا مجتہد اس وسیع علمی ذخیرے کی مدد سے کہیں زیادہ آسانی کے ساتھ اجتہاد کے فریضے سے سبکدوش ہو سکتاہے۔ (۱۰)


اقبال کی آرا پر تبصرہ

اسلامی قانون کے چاروں مآخذ کے بارے میں اقبال نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے، وہ کلی طور پر صحیح نہیں ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قرآن مجید کتاب اصول ہے اور اس میں معاملات زندگی کے متعلق احکام کی تفصیلی صورتیں کم ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں، جیسا کہ اقبال نے سمجھاہے کہ قرآن مجید کی اصلی غایت خدا اور کائنات کا ادراک وعرفان ہے، اس لیے مسائل حیات سے اس میں زیادہ تعرض نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسانی ذہن اور اس کے مختلف سماجی ادارات دونوں ارتقا پذیر ہیں، اس لیے کوئی ایسا مجموعہ قوانین نہیں بنایا جاسکتاتھا جو ہر دور کے مختلف النوع تقاضوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔ اسی لیے زیادہ تر اصولی احکام دیے گئے ہیں ۔مفصل قوانین کی تعداد نہایت قلیل ہے۔

یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ قر آن میں بعض اصولی احکام کی تفصیل کیوں کی گئی ہے؟ جس طرح نصوص قرآن کی مدد سے نبیﷺ نے بہت سے تفصیلی احکام وقوانین بنائے، اسی طرح ان اصولی احکام کی تفصیلی صورت بھی آپؑ بنا سکتے تھے۔ دوسرے بہت سے علما کی طرح اقبال بھی اس کی حقیقی وجہ سمجھنے سے قاصر رہے۔

قرآنی احکام کی دو قسمیں ہیں ۔ ایک قسم ان احکام کی ہے جن کاتعلق عقائد اور عبادات سے ہے ،اور دوسری قسم میں وہ احکام آتے ہیں جن کاتعلق اجتماعی معاملات سے ہے۔ عقائد کے متعلق جو احکام قرآن مجید میں مذکور ہیں، وہ مفصل بھی ہیں اور ناقابل تغیر بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا تعلق ناقابل تغیر کائناتی حقائق سے ہے ،لیکن عبادات کا معاملہ اس سے قدرے مختلف ہے۔ یہاں کلی اور جزئی دونوں طرح کے احکام ملتے ہیں اور ان میں بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ مثلاً عبادات میں نما ز کو لیں۔ قرآن مجید میں نماز کی تفصیلی صورت مذکور نہیں ہے، لیکن وضو کی تفصیل دی گئی ہے۔ یہ بات بظاہر بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے۔ یہ کام تو نبی ﷺ بھی کرسکتے تھے اور احادیث میں وضو کی تفصیل موجود ہے ۔ قرآن میں حکم وضو کی تفصیل سے دراصل روح عبادت کی طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ وہ ایک عمل تطہیر ہے جس سے جسم اور نفس دونوں کی پاکی حاصل ہوتی ہے۔قرآن مجید میں فرمایا گیاہے:

إِنَّ الصَّلَاۃَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنکَرِ (سورۃ عنکبوت: ۴۵)
’’ بے شک نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔

روح عبادت کو قرآن مجید کی اصطلاح میں تقویٰ کہا گیاہے ۔روزے کے ذکر میں ہے: ’’ اے ایمان والو، تم پر اسی طرح روزہ فرض کیاگیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر یہ فرض تھا تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو‘‘(سورۃ بقرۃ: ۱۸۳) حج کے ذکر میں ہے: ’’ اللہ تک نہ تو ان کا گوشت پہنچتاہے اور نہ ان کا خون بلکہ اس تک جو چیز پہنچتی ہے وہ تمھارا تقویٰ ہے۔‘‘ (سورۃ حج:۳۷) 

نماز کے بعد زکوٰۃ کو لیں۔ زکوٰۃ کانصاب قرآن مجید میں غیر متعین ہے، لیکن مصارف زکوٰۃ متعین کر دیے گئے ہیں۔ نصاب زکوٰۃ کے عدم تعین کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق انسان کی اقتصادی حالت سے ہے اور اقتصادی حالت ہر دور میں بدلتی رہتی ہے۔ اس کا کوئی ایسا نصا ب متعین نہیں کیاجاسکتاتھا جو ہر دور کے انسانوں کی معاشی حالت کے مطابق ہو ۔ مصارف زکوۃ کے تعین کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ حالات و ظروف زمانہ کی تبدیلی کابرائے نام ہی اثر ان پر پڑ سکتاہے، پھر بھی تعین میں وسیع الاطلاق الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ مثلاً مصارف زکوٰۃ کی ایک مد ’’فی سبیل اللہ‘‘ ہے جس میں بے حد وسعت اور گنجائش ہے۔ مصارف زکوٰۃ کے تعین کی دوسری وجہ سماج کے کمزور طبقات یعنی غرباو مساکین وغیرہ کے حقوق کاتحفظ ہے۔ اس معاملے کو اللہ نے وحی کاجز اسی لیے بنایا تاکہ آئندہ اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہو سکے ۔

اب غیر تعبدی احکام وقوانین کی طرف آئیں۔ عائلی قوانین کی تفصیل ہم کو سورۃ بقرۃ اور دوسری سورتوں میں ملتی ہے۔ اس تفصیل کی وجہ بھی بالکل واضح ہے۔ یہاں عورتوں کے حقوق کا تحفظ مقصود ہے جو مردوں کے مقابلے میں بہر حال سماج کا ایک کمزور طبقہ ہے ۔ قرآن مجید میں عائلی زندگی سے متعلق جو احکام مذکور ہیں، وہ ہر اعتبارسے تفصیلی نہیں ہیں اور یہ بھی خالی از علت نہیں۔جن عائلی معاملا ت کاتعلق حالات کی تبدیلی سے تھا، ان کو غیر متعین حالت میں رکھا گیا ہے ،مثلاً مہر اور متاع کا تعین۔ معلوم ہے کہ مہر کاتعلق شوہر کی مالی استطاعت سے ہے اور یہ استطاعت ہر مرد میں یکساں نہیں ہوسکتی ہے اور نہ ہی ہر دور کے لیے اس کی کوئی متعین صورت ممکن ہے۔ مثال کے طور پر اگر آج کے معاشی حالات کے لحاظ سے مہر کی رقم دس ہزار یا اس سے کچھ زیادہ مقرر کی جائے توچند ہی سال کے بعد یہ رقم نہایت قلیل معلو م ہوگی۔یہی معاملہ متاع کا ہے۔ طلاق کے بعد عورت کی دل بستگی اور آیندہ کی زندگی میں اس کو پیش آنے والے معاشی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے مرد پر لازم کیا گیاہے کہ وہ اس کو مالی مدد دے۔کسی دورمیں علما نے فتویٰ دیا تھا کہ مطلقہ عورت کا متاع ایک جوڑا کپڑا ہے۔ ممکن ہے کہ اس دور کے اقتصادی حالت کے لحاظ سے متاع کی یہ شکل مناسب رہی ہو، لیکن موجودہ دور میں اس کو مناسب کون کہہ سکتاہے ؟عائلی زندگی سے متعلق دوسرے احکام کی بھی یہی نوعیت ہے۔

اس گفتگو سے ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ قرآن مجید میں جن معاملات زندگی سے متعلق تفصیلی احکام دیے گئے ہیں، وہ ناقابل تغیر ہیں اور جہاں یہ تفصیل نہیں ہے، وہاں بالقصد تفصیل سے گریز کیا گیا ہے تاکہ ان امور میں حالات ومقتضیات زمانہ کے لحاظ سے تفصیلی احکام بنائے جائیں۔ اسی کانام اجتہاد ہے۔ اس سلسلے میں نبی ﷺ کے اجتہادات کی حیثیت نظائر کی ہے۔ نصوص قرآن اور نبی ﷺ کے اجتہادات کو سامنے رکھ کر مماثلت علت کی بنیاد پر نئے مسائل کا حل نکال لینا آسان ہے۔ اس پر مزیدگفتگو ہم آگے کریں گے ۔

اسلامی قانون کے دوسرے ماخذ یعنی حدیث پر اقبال نے جو بحث کی ہے، وہ مفید ہے لیکن جامع نہیں ہے ۔یہاں حدیث کے سلسلے میں چند اصولی باتوں کاتذکرہ مناسب ہو گا۔ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قرآن وسنت دو علیحدہ چیزیں ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔قرآن مجید اصل اور سنت اس کی فرع ہے، دوسرے لفظوں میں سنت قرآن مجید کے اصول وکلیات کی شرح وتفسیر ہے۔

یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ اس شرح وتفسیر کاتعلق معاملات سے متعلق احکام سے ہے ۔عقائد کے معاملے میں قرآن مجید کسی شرح ووضاحت کا محتاج نہیں ہے، وہ بالکل واضح اور مفصل ہیں ۔عقائد سے متعلق جب بھی کوئی اختلاف واقع ہو گا تو صرف قرآن مجید کی طرف رجوع کیا جائے گااور اس کا فیصلہ واجب العمل ہو گا ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیْہِ مِن شَیْْءٍ فَحُکْمُہُ إِلَی اللَّہِ (سورۃ شوریٰ :۱۰)
’’ اور جس بات میں بھی تمھارا اختلاف ہو، اس کا فیصلہ اللہ کے سپرد ہے‘‘۔

دوسری جگہ فرمایا ہے:

وَمَا أَنزَلْنَا عَلَیْْکَ الْکِتَابَ إِلاَّ لِتُبَیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ اخْتَلَفُواْ فِیْہِ (سورۃ نحل:۶۴) 
’’ اور ہم نے تم پر کتاب اس لیے نازل کی ہے کہ جن امور میں وہ اختلاف کرتے ہیں، ان کی اصل حقیقت ان پر واضح کردو۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید صرف مسلمانوں کے ہی اختلافات میں حکم نہیں ہے بلکہ عقائد سے متعلق دوسرے فرقوں کے مذہبی اختلافات کے تصفیہ کابھی واحد ذریعہ یہی کتاب ہے۔ عقائد کی تشریح وتوضیح میں احادیث کو صرف تائید کے طور پر لایا جاسکتاہے۔ جہاں قرآن وحدیث کے بیان میں تعارض واقع ہوگا، وہاں اصل یعنی قرآن مجید کا حکم ہی قابل حجت ہوگا اور حدیث کے بارے میں سکوت اختیار کرنا ہوگا۔ اس وقت عقائد کے متعلق مسلمانوں کے سارے مذہبی اختلافات اصل وفرع کے اس تعلق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ اس میں علماء سو کی غلط تاویل وتشریح کا بھی دخل ہے۔

یہ بات کہ سنت کی حیثیت قرآن کے مجمل احکام یا نصوص قرآن کی شرح وتفصیل کی ہے، کچھ ہماری ذہنی اختراع نہیں ہے۔ تمام صالح علما وفقہا نے یہی بات لکھی ہے ۔اس سلسلے میں علامہ شاطبی ؒ لکھتے ہیں:

’’سنت اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے قرآن حکیم ہی کی طر ف رجوع ہونے والی ہے۔وہ یعنی سنت قرآن حکیم کے مجمل کی تفسیر یامشکل کا بیان یا مختصر کی تشریح ہے ۔اس پر اللہ تعالی کا یہ قول دلیل ہے : ’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم‘ (ہم نے تمہاری طرف ذکر نازل کیا ہے تاکہ جو ان کی طرف بھیجا گیا ہے، اس کو ان لوگوں پر واضح کردو) پس سنت میں کوئی ایسی بات نہیں ملے گی جس کی اجمالی یا تفصیلی بنیاد قرآن حکیم میں موجود نہ ہو ....... قرآن مجید میں ہے : ’وانک لعلی خلق عظیم‘ ( تم عظیم خلق کے مالک ہو ) حضرت عائشہؓ نے خلق کی وضاحت میں فرمایا کہ رسول ﷺ کا خلق قرآن مجید ہے۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کے تمام اقوال وافعال اور اقرار سب قرآن مجید کی طرف رجوع ہونے والے ہیں، کیونکہ خلق کاتعلق انہی امور سے ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کو ’تبیانا لکل شئی‘ (سورۃ نحل:۸۹) فرمایا ہے، اس سے بھی سنت کا فی الجملہ قرآن میں ہونا لازم آتاہے ........اگر ایسا نہ ہو تو پھر اس کو قبول کرنے میں توقف ضروری ہے۔‘‘(۱۱)

سنت کے اس مفہوم کی روشنی میں دیکھیں کہ قرآن مجید میں حکم ہے کہ زکوٰۃ دو (واتو االزکوۃ ) لیکن کس مقدار میں اور کب دی جائے؟ اس کی تعیین نبی ﷺ کے قول وفعل نے کی۔ اسی طرح قرآن میں ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹ دو، لیکن مال مسروقہ کی کس نوع میں اور کس مقدار پر ہاتھ کاٹا جائے اور یہ ہاتھ کہاں تک کٹے،اور کن حالات میں یہ حکم نافذالعمل ہے؟ ان امور کی تفصیل وتعیین نبیﷺ نے کی۔

یہاں ایک اہم سوال اٹھتاہے کہ نبی ﷺ کی تشریحات نصوص یعنی اجتہادات کی حیثیت دائمی ہے یعنی ناقابل تغیر اور ہر دور کے حالات میں خواہ وہ عہد نبویﷺ کے حالات سے یکسر مختلف ہوں،کسی ردوبدل کے بغیر واجب التعمیل ہیں؟ کم نظر علما کا خیال ہے کہ اجتہادات نبوی ﷺ دائمی ہیں اور ان میں کوئی ترمیم واضافہ جائز نہیں ہے۔اس سلسلے میں قول حق یہ ہے کہ نبی ﷺ کے وہ اعمال جو عبادات اور اخلاق سے تعلق رکھتے ہیں، ناقابل تغیر ہیں، لیکن معاملات سے متعلق احکام کی حیثیت دائمی نہیں ہے۔ حالات اور ظروف زمانہ کے لحاظ سے اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا نبی ﷺ کے اجتہادات میں مقامی حالات اور عربوں کی عادات ونفسیات کاکوئی لحاظ رکھا گیاہے؟ اس موضوع پر شاہ ولی اللہ نے نہایت عمدہ بحث کی ہے اور اس کا کچھ حصہ اقبال نے بھی نقل کیاہے جیسا کہ بیان ہوا۔شاہ صاحب لکھتے ہیں:

’’ اگر تم رسول اللہ ﷺ کی شریعت کی گہرائیوں کو سمجھنا چاہو تو پہلے عرب امیّوں کے حالات کی تحقیق کرو جن میں آپ ﷺ مبعوث ہوئے تھے۔ وہی لوگ دراصل آپ کی شریعت کا تشریعی مادہ ہیں۔ اس کے بعد اپ کی اصلاح کی کیفیت پر نظر ڈالو جو ان مقاصد کے تحت تشریعی، تیسیر احکام ملت کے باب میں آپ نے انجام دی‘‘۔ (۱۲)

حجۃ اللہ البالغہ میں ہی وہ مزید لکھتے ہیں :

’’ ان احکام ومراسم میں جو باتیں صحیح اور سیاست ملیہ کے اصول وقواعد کے موافق ہوتیں، ان میں یہ حضرات انبیا کوئی تبدیلی نہیں کرتے بلکہ اس کی طرف دعوت دیتے اور ان کی اتباع پر قوم کو ابھارتے ہیں، اور جو باتیں بری ہوتی ہیں یا ان میں تحریف داخل ہو چکی ہوتی ہے، ان میں وہ بقدر ضرورت ترمیم کرتے ہیں او رجن امور میں اضافہ کی ضرورت سمجھتے ہیں، ان میں اضافہ کرتے ہیں ‘‘ ۔( ۱۳)

ان اقتباسات سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اللہ کے بہت سے اجتہادات مقامی نوعیت کے تھے اور ایک خاص قوم (عربوں) کی عادات ورسوم کی رعایت پر مبنی تھے۔ اس کے علاوہ بعض اجتہادات میں وقتی مصالح کا لحاظ بھی شامل تھا ۔جب صورت واقعہ یہ ہے تو پھر یہ قول کہ نبی ﷺ کے تمام اجتہادات دائمی ہیں، کیوں کر صحیح ہو سکتاہے۔

علما جب ناسخ ومنسوخ کے مسئلے پر بحث کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اسلامی شریعت نے شریعت موسوی کو منسوخ کردیاہے۔ جب سوال ہوتاہے کہ آخر اللہ نے خود اپنی بنائی ہوئی شریعت کو منسوخ کیوں کیا؟ تو اس کا جواب دیا جاتاہے کہ بنی اسرائیل کو جو احکام دیے گئے تھے، وہ ان کے تمدنی حالات اور ان کی مخصوص عادات و نفسیات کے مطابق تھے ۔چونکہ عربوں کے تمدنی کوائف اور ان کی عادات ورسوم قوم یہود سے مختلف تھے، اس لیے قانون موسوی میں ترمیم واضافہ ناگزیر تھا۔ یہ بالکل صحیح جواب ہے اور حقائق پر مبنی ہے۔پھر علما کس طرح کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کے جملہ اجتہادات میں ادنیٰ تغیر بھی ممکن نہیں ہے؟ کیا وہ کہہ سکتے ہیں کہ جو سماجی ومعاشی اور تہذیبی احوال عہد نبوی ﷺ میں تھے، وہی احوال وکوائف آج بھی ہیں اور جو قومی عادات ورسوم اور نفسیات عربوں کے تھے، وہی ہندوستان اور دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے بھی ہیں ؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقیناًنفی میں ہوگا تو پھر یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ معاملات کے متعلق نبی ﷺ کے کل اجتہادات دائمی نہیں ہوسکتے ہیں۔ ان میں ہر ملک کے حالات ومقتضیات کے لحاظ سے ضروری حد تک ترمیم و اضافہ نہ صرف جائز ہے بلکہ یہ عین سنت نبی ﷺ کی پیروی ہو گی۔ اس سلسلے میں قرآن مجید کی درج ذیل آیت واضح رہنمائی کرتی ہے:

وَأَنزَلْنَا إِلَیْْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَیْْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ (سورۃنحل:۴۴)
’’اور ہم نے تمھاری طرف ذکر (قرآن حکیم) نازل کیا ہے تاکہ جو چیز لوگوں کی طرف نازل کی گئی ہے، تم ان کو ان کے سامنے کھول کر بیان کردو ،اور توقع ہے کہ وہ غور کریں گے ‘‘۔

علماے اسلام نے سنت کے اثبا ت میں اس آیت کو کثرت سے نقل کیاہے لیکن اکثر نے ’ولعلھم یتفکرون‘ کے جملے کو نظر انداز کردیا ہے۔ انہوں نے یا تو اس جملے کا صحیح مطلب نہیں سمجھا اور یا اپنے نقطہ نظر کے خلاف پاکر اس سے چشم پوشی کی ہے۔مذکورہ آیت سے بالکل واضح ہے کہ کار رسالت میںیہ بات داخل تھی کہ آپﷺ اپنے عہد کے تمدنی حالات اورمخاطب قوم کی نفسیات وعادات کا لحاظ کرتے ہوئے آیات کی قولی اور عملی تشریح کریں اور بعد کے لوگ ان تشریحات رسول ﷺ (اجتہادات) کی روشنی میں اپنے عہد کے حالات اور تقاضوں کی رعایت کرتے ہوئے جہاں ضروری ہو، وہاں اجتہاد کریں ۔یہی مطلب ہے ’ولعلھم یتفکرون‘ کا ۔

صحابہ رضی اللہ عنھم نے ’ولعلھم یتفکرون‘ کاصحیح مطلب سمجھا تھا۔ چنانچہ انہوں نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد متعدد نئے اجتہادات کیے۔ مثلاً نبوی عہدمیں عورتوں کو اجازت تھی کہ وہ مسجد وں میں جاکر عبادت کریں، لیکن حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عہد میںیہ اجازت منسوخ کردی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ اگر رسول اللہ ﷺ اس حالت کو دیکھتے جو عورتوں نے ا ب پیدا کردی ہے توان کو مسجدوں میں جانے سے روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔ (۱۴) اسی طرح نبی ﷺ کے عہد میں نص قرآنی کے مطابق کتابیہ عورتوں سے نکاح کی اجازت تھی، لیکن خلیفہ ثانی نے اس اجازت کومعطل کردیا۔ معلوم ہے کہ نبی ﷺ کے دور میں ایک نشست میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق خیال کیا جاتا تھا، لیکن عہد فاروقی میں ان کو طلاق بائنہ قرار دے کر نافذ کر دیا جاتا تھا۔ عہد نبویﷺ اور عہد صدیقیؓ میں یہ معمول تھا کہ مفتوحہ زمین مجاہدین میں تقسیم کردی جاتی تھی، لیکن عہد فاروقی میں جب عراق فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے مفتوحہ اراضی کو مجاہدین میں تقسیم کرنے سے انکار کردیا۔

یہ چند مثالیں میں نے دکھانے کے لیے نقل کی ہیں کہ عہد صحابہؓ میں رسول اللہﷺ کے اجتہادات میں بقدر ضرورت تغیر کو جائز سمجھا جاتاتھا اور اس کی وجہ بدلے ہوئے حالات تھے۔ تاریخی طورپر ثابت ہے کہ خلیفہ ثانی کے اجتہادات کو جماعت صحابہؓ کی تائید حاصل تھی۔ اگر احکام نبوی میں تبدیلی خلاف ایمان ہوتی تو صحابہؓ کرام اس پر خاموش نہیں رہ سکتے تھے۔

خلیفہ ثانی کے ان اجتہادات کے پیش نظر علماے حق نے اسلامی قانون سازی میں اس بات کو ایک مسلمہ اصول کی حیثیت سے تسلیم کیاہے کہ معاملات سے متعلق شریعت کے جزئی احکام حالات اور ظروف زمانہ کی تبدیلی سے بدل جاتے ہیں، اور یہ ایک بالکل فطری بات ہے ۔قاضی بیضاوی نے لکھاہے:

وذلک لان الاحکام والا یات نزلت لمصا لح العباد وتکمیل نفوسھم فضلا من اللہ ورحمتہ وذلک یختلف باختلاف الاعصار والاشخاص کاسباب المعاش فان النافع فی عصر واحد یضر فی غیرہ (۱۵)
’’ جوا ز نسخ یہ ہے کہ اللہ کے فضل وکرم سے بندوں کے مصالح اور ان کے نفوس کی تکمیل کے لیے احکام مقرر ہوئے اور آیتیں نازل ہوئیں۔ یہ مصالح اشخاص اور ازمنہ کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں، جیسے اسباب معاش وغیرہ ۔پس ہم دیکھتے ہیں کہ ایک زمانہ میں جو چیز نافع ہوتی ہے، دوسرے زمانہ میں وہی چیز مضر بن جاتی ہے‘‘۔

اس سلسلے میں عہد حاضر کے معروف ہندی عالم مولانا قاری محمد طیب صاحب مرحوؒ م کے خیالات بھی ملاحظہ ہوں: 

’’ان قواعد کلیہ میں جو ضوابط عبادات اور عقائد کے بارے میں ہیں، ان کی عملی جزئیات بھی شریعت نے خود متعین کر دی ہیں، اس لیے ان میں تغیر وتبدیل یا کسی تشکیل جدید کاسوال پید انہیں ہوتا، البتہ معاملاتی ،معاشرتی اور سیاسی واجتماعی امور میں چونکہ زمانے کے تغیرات سے نقشے ادلتے بدلتے رہتے ہیں، اس لیے شریعت نے ان کے بار ے میں کلیات زیادہ بیان کی ہیں اور ان کی جزئیات کی تشخیص کو وقت کے تقاضوں پر چھوڑ دیا ہے جن میں اصول وقواعد کلیہ کے تحت توسعات ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے‘‘۔(۱۶)

چوتھی صدی ہجری تک مذکورہ تشریعی اصول کے مطابق اجتماعی امور سے متعلق احکام شریعت میں، خواہ ان کا تعلق نبی ﷺ کے اجتہادات سے ہو اور خواہ صحابہؓ کے اجتہادات سے، حالات زمانہ کے لحاظ سے برابر تغیر وتبدل کا عمل جاری رہا اور قیاس کے اصول پر نئے احکام وضع کیے گئے۔موجودہ مکاتب فقہ کاوجود اس تغیر کا ایک ناقابل تردید ثبوت ہے۔ لیکن چوتھی صدی ہجری کے بعد علما اور فقہا کے رویے میں واضح تبدیلی ملتی ہے۔ انہوں نے نہ صرف نبی ﷺ اور صحابہؓ کے اجتہادات کو دائمی حیثیت دی بلکہ فقہا (ائمہ اربعہ) کے اجتہادات یعنی قیاسی احکام میں بھی کسی تبدیلی کو خارج از بحث قرار دیا۔

ایک زمانہ تھا کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے معاملات سے متعلق مستند احادیث کی موجودگی میں قیاس سے کام لیا اور حدیث سے صرف نظر کر گئے۔ مثال کے طورپر نبی ﷺ کے فرمان کے مطابق پانچ وسق سے کم غلے اور پھلوں پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے (بخاری) لیکن امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ہر قسم کی زمینی پیداوار میں خواہ پانچ وسق سے کم ہو، زکوٰۃ واجب ہے ۔اگر آج کوئی عالم دین یہ کہنے کی جرات کرے کہ نبی ﷺ نے زکوٰۃ کا جو نصاب مقرر کیاتھا، اس میں معاشی حالات کے بدل جانے کی وجہ سے تبدیلی کی ضرورت ہے تو سب سے پہلے فقہ حنفی کے پیرو ہی تکفیر کی تلوار لیے اس غریب عالم کے پیچھے دوڑ پڑیں گے۔

اصحاب علم جانتے ہیں کہ نبی ﷺ نے زکوٰۃ کاجو نصاب بنایا تھا، وہ اس عہدکے معاشی حالات کے مطابق تھا اور اسی کو پیش نظر رکھ کر آپ ﷺ نے حد غنا کا تعین کیا تھا۔ مثلاً یہ کہ اگر کسی مسلمان کے پاس ۲۰ مثقال سونا/ ۲۰۰ درہم چاندی ہو تو وہ غنی سمجھا جائے گا اور اس پر زکوٰۃ عائد ہو گی۔ چاندی کو بنیاد بناکر غلے، پھلوں اور جانوروں وغیرہ کانصاب مقرر کیا گیا تھا۔ اس سے بالکل ظاہر ہے کہ تمام اجناس زکوٰۃ میں قدر وقیمت کے لحاظ سے مساوات تھی۔ پانچ وسق غلہ یا پھل باعتبار قیمت ۲۰۰ درہم چاندی کے مساوی تھے، لیکن بعد کے ادوار میں نہ صرف سونے اور چاندی کی قیمتوں میں فرق پیدا ہوا بلکہ دوسری اجناس زکوٰۃ کی قدرو قیمت میں بھی نمایاں تبدیلی ہوئی اور بایں طور چاندی اور دیگر اجناس زکوٰۃ میں باعتبار قدر (value) جو توازن عہد نبویﷺ میں تھا، وہ باقی نہیں رہا۔

مثال کے طورپر نبی ﷺ کے عہد میں پانچ وسق غلہ یا پھل رکھنے والے شخص کوغنی سمجھا جاتاتھا اور اس پر زکوٰۃ واجب ہو جاتی تھی، لیکن آج کے دور میں پانچ وسق کو حد غنا قرار نہیں دیا جاسکتاہے۔ اس مقدار میں غلہ یا پھل رکھنے والا شخص غنی کے بجائے مفلس سمجھا جاتا ہے۔ حد غنا میں اس فرق کی وجہ غلے کی قیمت میں کمی اور دوسری اشیاے صرف کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہے۔

اسلامی قانون کا تیسراماخذ اجماع ہے، یعنی اتفاق رائے سے کوئی فیصلہ کرنا۔ یہ دراصل اجتماعی اجتہاد ہے جو قرآن وسنت کی نصوص کی روشنی میں انجام پاتاہے ۔ اس کے متعلق اقبال نے جن خیالات کا اظہارکیاہے، وہ فکر انگیز ہیں ۔سنت کی طرح اجماع بھی زمانی ہے، یعنی آیندہ حالات کے لحاظ سے اس میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن یہ تبدیلی ایک دوسرے اجماع ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ کوئی انفرادی اجتہاد کسی اجماع کو منسوخ نہیں کرسکتا ہے ۔اقبال نے ان امور سے کوئی تعرض نہیں کیا ہے۔

اس دور میں اجماع کی مختلف صورتیں ممکن ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ امیر المسلمین کی نگرانی میں علما کی ایک مجلس یہ کام کرے جس میں شریعت کے ماہرین کے ساتھ جدید فلسفہ قانون کے علما بھی شامل ہوں۔ اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ مسلم عوام کے ذریعے منتخب مجلس یہ فریضہ انجام دے ، لیکن یہ اطمینان بخش صورت نہیں ہے کیونکہ عوامی نمائندوں کی اکثریت اسلامی قانون اور اس کے اصول استخراج سے ناواقف ہوتی ہے۔ مناسب تر صورت یہ ہے کہ اسلامی قانون کے ماہر علما کی مجلس اس کام کو انجام دے اور عوامی نمائندوں کی مجلس ضروری بحث ومباحثہ کے بعد اس کی منظوری دے ۔اگر مباحثہ کے درمیان میں کوئی مفید قانونی نکتہ ابھر کر سامنے آئے تو اس کو مجلس قانون کے پاس مزید غور وفکر کے لیے بھیجا جا سکتاہے۔ اقبال نے موخر الذکر صورت کو ترجیح دی ہے۔ 

اسلامی قانون کاچوتھا ماخذ قیاس (۱۷) ہے جو مماثلت کے اصول پر مبنی ہے۔یہ اجتہاد ہی کا دوسرا نام ہے اور کثیر الوقوع ہے۔ معلوم ہے کہ فقہ حنفی کی بنیاد اصول قیاس پر ہے۔ دوسرے مکاتب قانون کے علما، حدیث کی موجودگی میں قیاس کے قائل نہیں ہیں۔وہ ہر حال میں سنت کی پیروی کو ضروری خیال کرتے ہیں۔اس سلسلے میں اقبال نے فقہا ے حجا ز اور فقہاے عراق کے طرز فکر پر جو تنقید کی ہے، وہ بالکل صحیح ہے ۔

عام حالات میں نصوص قرآ ن وسنت کی پیروی لازمی ہے۔ پچھلے اجتہادات میں خواہ ان کا تعلق نبیﷺ کے اجتہاد سے ہو اور خواہ صحابہؓ اور تابعین کے اجتہادات سے،حذف واضافہ صرف اسی صورت میں جائز ہے جب حالات زمانہ شدت کے ساتھ اس کے متقاضی ہوں۔ البتہ نئے مسائل میں جن کے بارے میں اسلامی شریعت خاموش ہو، اصول قیاس پر عمل کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ ان مسائل میں اجتہاد نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہو جاتاہے۔

فقہا نے اصول قیاس سے جو تجاوزکیا (یعنی استدلال) وہ راقم کے خیال میں صحیح نہیں ہے ۔استحسان کے بارے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے لکھاہے کہ وہ تحریف فی الدین ہے۔ (۱۸) حقیقت یہ ہے کہ استصلاح جیسے اصول کااستعمال کرکے کسی بھی حرام کو بلطائف الحیل حلال بنایا جاسکتاہے۔ شرعی احکام کو ہر حال میں منصوصات پر مبنی ہونا چاہیے۔نصوص قرآن سے باہر کوئی قانون سازی جائز نہیں ہے۔

یہاں یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ قیاسی احکام حالات اورظروف زمانہ کے تابع ہیں اور ان کی تبدیلی سے وہ بھی تبدیل ہوجائیں گے یا یوں کہہ لیں کہ ان کی اطلاقی صورتیں بدل جائیں گی۔ اس سلسلے میں حنفی فقہا کارویہ ماضی کی طرح آج بھی قابل اعتراض ہے۔ انہوں نے حنفی فقہ کو، جو زیادہ تر قیاسی اور استدلالی احکام پر مشتمل ہے،ناقابل تغیر سمجھ لیاہے۔یہاں یہ بات بھی واضح کردوں کہ دین کے مہمات امور میں انفرادی قیاس جائز نہیں ہے۔ضروری ہے کہ اسلامی قانون کے ماہر علما کی ایک بڑی جماعت یہ کام انجام دے۔یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ قیاس کوئی مستقل ماخذ قانون نہیں ہے۔وہ دراصل اجتماعی اجتہاد (اجماع) کی قانونی اساس ہے جس پر نئے احکام متفر ع ہوتے ہیں۔

اقبال نے اسلامی قانون کے فروعی مآخذ مثلاً استحسان، استصلاح (۱۹) یا مصالح مرسلہ اور عرف ورواج وغیرہ کاذکر نہیں کیا ہے۔ممکن ہے کہ وہ ان فروعی ماخذ کے قائل نہ رہے ہوں۔

اسلامی قانون کے ماخذ کی نسبت اس تفصیلی گفتگو سے یہ بات واضح ہو گئی کہ مستقل بالذات ماخذ قانون کی حیثیت صرف قرآن مجید کو حاصل ہے اور وہ دائمی یعنی ناقابل تغیر ہے ۔دیگر مآخذ قانون کی یہ حیثیت نہیں ہے ۔وہ احوال ظروف زمانہ کے تابع ہیں یعنی قابل تغیر جیسا کہ بیان ہوا۔ جب صورت واقعہ یہ ہے تو پھر علما کا یہ کہنا کہ عہد حاضر میں اجتہاد مطلق ممکن نہیں ہے، کیونکر صحیح ہو سکتاہے؟ اجتہاد ہر دور میں فرض کفایہ ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کی بحث پوری طرح مدلل ہے۔ یہ با ت صحیح ہے کہ اس دور میں ایسے علما اگر نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہیں جو ائمہ اربعہ کی سی نظر اور علم رکھتے ہوں۔ اس کی تلافی اس طرح ممکن ہے کہ کسی ایک عالم کے بجائے اسلامی قانون کے فاضل علما کی ایک جماعت یہ کام کرے، بالکل اسی طرح جیسے امام ابوحنیفہؒ نے اپنے عہد میں یہ کام کیا تھا۔ یوں بھی اجتہاد مطلق کے لیے ضروری ہے کہ وہ انفرادی کے بجائے اجتماعی ہو کیونکہ اس میں خطا کا امکان بہت بعید ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ علماے سلف نے اجتہاد مطلق کے لیے کڑی شرطیں محض اس لیے رکھی ہیں تاکہ موجودہ فقہی دبستانوں کا تسلط باقی رہے اور ائمہ اربعہ کے اجتہادات سے ہٹ کر کسی نئے اجتہاد کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔یہ بھی اسلاف پرستی کی ایک شکل ہے جس میں اس وقت مسلمانوں کا سواد اعظم مبتلا ہے۔ اسی کو رانہ تقلید نے ان کے قوائے فکریہ کو مفلوج بنایا اور اسلامی قانون کی ترقی رک گئی۔

گزشتہ صفحات میں ہم نے اسلامی قانون کے مآخذ کے بارے میں اقبال کے خیالات کاجو تنقیدی جائزہ لیا ہے، اس سے بالکل واضح ہو گیا کہ وہ ان مآخذ کے بارے میں ایک واضح تصور رکھتے ہیں، لیکن اسلامی قانون کے اولین ماخذ یعنی قرآن مجید کے متعلق ان کے خیالات بہت واضح نہیں تھے۔ مثلاً ان کا خیال ہے کہ قرآن مجید کے بعض احکام مقامی نوعیت کے ہیں اور ان کا اطلاق بعد کے زمانوں پر نہیں ہوتا۔اس سلسلے میں انہوں نے جرائم کی ان سزاؤں کا ذکر کیا ہے جو قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں۔ انہوں نے لکھاہے کہ یہ سزائیں عربوں کے مزاج اور ان کے مخصوص تمدنی حالات کے تحت مقرر کی گئی تھیں، اس لیے مستقبل کی مسلم اقوام پر ان کو جوں کاتوں نافذ کرنا صحیح نہ ہوگا۔ ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

Shari'at values (ahkam) resulting from this application (e.g., rules relating to penalties for crimes) are in a sense specific to that people, and, since their observance is not an end in itself, they can not be strictly enforced in the case of future generations. (20)

اقبال کا یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ قرآن مجید میں، جیسا کہ ہم اس سے پہلے لکھ چکے ہیں، جن معاملات زندگی کے متعلق کوئی قانون واضح لفظوں میں دے دیا گیا ہے، اس کی حیثیت مقامی نہیں ہے۔ اس کا اطلاق مستقبل کی جملہ اقوام عالم پر بھی ہوگا، البتہ اس کے نفاذ میں اصول تدریج (۲۱) کالحاظ رکھا جائے گا۔ ہلکی سزاؤں کے بعد سخت سزائیں ۔مثال کے طور پر قرآن مجید میں زنا کی ایک سزا قید وبند ہے۔ (۲۲) اس سے زیادہ سخت سزا کوڑوں کی ہے۔ (سورۃنور:۲) اور اس فعل شنیع کے مکرر ارتکاب کی صورت میں سخت ترین سزا رجم کی ہے، یعنی سنگ ساری ہے اوریہ اجتہاد رسول ﷺ ہے۔

اس نوع کی بعض فکری لغزشوں کے باوجود میں کہوں گا کہ اقبال قابل تعریف ہیں کہ انہوں نے اس عہد میں اجتہاد کی طرف مسلمانوں کے ارباب علم وفکر کو متوجہ کیا جب قوم کے اکثر علما وفقہا نے اس اہم ضرورت کی طرف سے مکمل طور پر چشم پوشی اختیار کررکھی تھی۔ وہ اس لحاظ سے بھی قابل ستائش ہے کہ انہوں نے اس معاملے میں جرات فکر کا مظاہرہ کیا اور کسی خوف طعن وتشنیع کے بغیر اپنے خیالات پیش کیے۔ اس جرات اظہار کی وجہ سے ان سے بعض فکری خطائیں سرزد ہوئیں جیسا کہ اوپر بیان ہوا، لیکن اس سے مسلمانوں کے فکری جمود کو توڑنے میں بہت مدد ملی۔ سر سید علیہ الرحمہ نے مسلمانوں کی تقلیدی روش کے خلاف جو اعلان جہاد کیا تھا، اقبال کی کوشش اسی کی صدائے باز گشت ہے۔ (۲۳)

اقبال زندگی کاحر کی تصور رکھتے تھے اور یہ تصور قرآن مجید سے ماخوذ ہے۔ انہوں نے اپنی نظم ونثر دونوں میں مسلمانوں کو حرکت وعمل کی دعوت دی ہے۔ اجتہاد بھی ایک فکر ی حرکت ہے۔یہی وجہ ہے کہ اقبال تقلید کے مخالف تھے جیسا کہ زیر بحث خطبے سے بالکل واضح ہے۔ اپنی مشہور نظم ’’ جاوید نامہ‘‘ میں انہوں نے لکھا ہے:

زندہ دل خلاق اعصار ودہور
جانش از تقلید گردد بے حضور
اے بہ تقلیدش اسیر، آزاد شو
دامن قرآں بگیر آزاد شو

لیکن اقبال یہ بھی کہتے ہیں کہ زمانہ انحطاط میں تقلید ہی بہتر ہے اور اسی ذریعے سے ملت کی شیرازہ بندی ممکن ہے۔ اس کی دلیل انہوں نے یہ دی ہے کہ عہد زوال میں بالغ نظر علما تقریباً ناپید ہوتے ہیں، اس لیے عالمان کم نظر کا اجتہاد دین وایمان کی تباہی کا موجب ہوگا۔ان حالات میں محفوظ تر طریقہ یہی ہے کہ اسلاف کی مکمل اقتداکی جائے۔جاوید نامہ کے اشعار ذیل ملاحظہ ہوں:

مضمحل گردد چو تقویم حیات 
ملت از تقلید می گیرد ثبات
راہ آبا رو کہ ایں جمعیت است
معنئ تقلید ضبط ملت است
در خزاں اے بے نصیب از برگ وبار 
از شجر مگسل بامید بہار
پیکرت دارد اگر جان بصیر 
عبرت از احوال اسرائیل گیر
زانکہ چوں جمعیتش از ہم شکست 
جز براہ رفتگاں محمل نہ بست
نقش بر دل معنئ توحید کن
چارۂ کارِ خود از تقلید کن
اجتہاد اندر زمانِ انحطاط 
قوم را برہم ہمی پیچد بساط
ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر
اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر

لیکن یہ وہی دلیل ہے جو اجتہاد کے منکرین ہر دور میں دیتے آئے ہیں۔ اقبال نے اسی خطبے میں اس دلیل کی تردید کی ہے ۔ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

For fear of further disintegration, which is only natural in such a period of political decay, the conservative thinkers of Islam focused all their efforts on the one point of preserving a uniform social life for the people by a jealous exclusion of all innovations in the law of shariat as expounded by the early doctors of Islam ........ but they did not see, and our modern ulama do not see that the ultimate fate of a people does not depend so much on organisation as on the worth and power of individual men. (24)
’’مزید سماجی انتشار کے خوف سے، جو سیاسی زوال کے زمانے میں ایک فطری امر ہے، اسلام کے تقلید پرست علما نے اپنی ساری توجہ صرف اس بات پر مرکوز کر دی کہ کس طرح مسلمانوں کی سماجی زندگی کی وحدت کو انتشار سے محفوظ رکھا جائے۔اس غرض کے لیے انہوں نے ضروری سمجھا کہ فقہا ے سلف نے اسلامی شریعت کی جو تشریح کردی ہے، اس سے سر مو انحراف نہ کیا جائے اور نئے خیالات سے پرہیز کیا جائے، لیکن وہ یہ بات نہ سمجھ سکے اور عہد حاضر کے ہمارے علما بھی اس کو نہیں سمجھتے کہ کسی قوم کی تقدیر کافیصلہ سماج کی تنظیم سے کہیں زیادہ افراد کی لیاقت اور ان کی فکری قوت پر منحصرہے۔‘‘

زمانہ انحطاط میں اجتہاد کے جس خطرے کا ذکر اقبال نے ’’جاوید نامہ‘‘ کے اشعار میں کیا ہے، اس کا تعلق ا نفرادی طریقہ اجتہاد سے ہے۔ اجتماعی اجتہاد کی صورت میں عالمانِ کم نظر کے اجتہاد کے نقصانات سے بچا جاسکتاہے۔

کسی زوال پذیر قوم کی تجدیدواحیا کے لیے نہایت ضروری ہے کہ اس میں ایک ایسی جماعت ہو جس کی قوت فکریہ نہ صرف بیدار ہو بلکہ وہ نئے حالات ومسائل کافکر کی سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہو جیسا کہ اقبال کا بھی خیال ہے۔ آج دنیا میں مسلمان نہ تعداد کے اعتبارسے کم ہیں اور نہ مادی اسباب ووسائل کے لحاظ سے کسی قوم سے ہیچ وپوچ ہیں۔ لیکن ذہنی وفکری اور اخلاقی قوت کے اعتبارسے وہ بہت سی قوموں سے بلاشبہ فروتر اور کم مایہ ہیں، اور یہ دونوں چیزیں بڑی حد تک تقلید اعمیٰ کے ہی برگ وبار ہیں۔ اس لیے دور انحطاط میں تقلید کی حمایت کامطلب عمل انحطاط کو مزید مستحکم اور مستمر بنانا ہوگا۔ تقلید عوام کے لیے بے شک جائز ہے، لیکن قوم کے اصحاب علم کے لیے کسی حال میں بھی جائز نہیں ہے۔

(مصنف کی کتاب ’’خطبات اقبال: ایک مطالعہ‘‘ سے ماخوذ)


حوالہ جات


(۱)

 The Reconstruction of Religious Thought In Islam: The Principle of Movement in the Structure of Islam, p.169

(۲) فقہا نے اس کی تعریف یوں کی ہے کہ مسئلہ کے نظائر میں جو حکم موجود ہے، اس کو کسی قوی وجہ سے چھوڑ کراس کے خلاف حکم لگانا۔ (منہاج الاصول ) اس کا مقصد مشکل کو چھوڑ کر آسان صورت اختیار کرناہے۔اس میں ظاہری قیاس کو ترک کرکے اس چیز کو اختیار کیا جاتاہے جو لوگوں کی ضرورتوں کے زیادہ موافق ہوتی ہے۔ (المبسوط ج ۱۰، فی الاستحسان)

(۳)

 The Principle of Movement In the Structure of Islam, p.172

(۴) ایضاً ص ۱۷۳ 

(۵) ایضاً ص ۱۷۵

(۶) ایضاً ص ۱۷۴

(۷) ایضاً ص ۱۷۵

( ۸) ایضاً ص ۱۷۷

(۹)ایضاً ص ۱۷۷،۱۷۶

(۱۰) ایضاً، ص ۱۷۸

(۱۱) الموافقات، علامہ شاطبی، ج۴، المسئلۃ الثالثۃ

(۱۲) حجۃ اللہ البالغۃ، ج۱، باب ماکان علیہ حال اہل الجاہلیۃ

(۱۳) ایضاً ج۱ ،باب اسباب نزول الشرائع الخاصۃ

(۱۴)دیکھیں ،بخاری ج۱، باب خروج النساء الی المسجد

(۱۵) تفسیر بیضاوی ص ۹۸

(۱۶) فکر اسلامی کی تشکیل جدید (مقالات سیمینار، منعقدہ ۱۹۷۶ء جامعہ اسلامیہ دہلی) خطبہ مولانا قاری محمد طیبؒ ،ص ۴۴

(۱۷) فقہا نے لکھا ہے کہ دو مسئلوں میں اتحاد علت کی وجہ سے جو حکم اس مسئلے کا ہے، وہی حکم دوسرے مسئلے کا قرار دینا قیاس ہے ۔ اس کی تعریف یوں بھی کی گئی ہے کہ جب فقہا فرع (نیا مسئلہ) کا حکم اصل (سابقہ فیصلہ) سے نکالتے ہیں تو ا س کو قیاس کہتے ہیں۔ (دیکھیں حسامی ص ۹۱)

(۱۸) حجۃ اللہ البالغۃ ج ۱، ص ۱۲۰

(۱۹) فقہا کی اصطلاح میں صرف ضرورت او رمصلحت کو بنیاد بنا کر مسائل استنباط کرنے کا نام ہے، خواہ شریعت کی کوئی اصل اس کی شہادت نہ دے اور نہ ہی وہ اس کو لغو کہے، لیکن وہ حکم مصالح پر مبنی ہو اور عقل ا س کو قبول کرتی ہو۔

(۲۰)

 The Principle of Movement in the Structure of Islam, p.172

(۲۱) اسلامی شریعت میں اصول تدریج کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ پہلے مفصل کی وہ سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت اور دوزخ کا ذکر ہے۔ پھر جب لوگ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوگئے تو اس وقت حلال وحرام کے احکام نازل ہوئے۔اگر اول دن ہی یہ حکم نازل ہوتا کہ لوگو، شراب نہ پیو تو لوگ کہتے کہ ہم کبھی شراب نہ چھوڑیں گے ۔اسی طرح اگر ابتدا میں زنا سے اجتناب کاحکم نازل ہوتا تو لوگ کہہ اٹھتے کہ ہم اس سے ہر گز باز نہ آئیں گے۔ (دیکھیں ،بخاری ،باب تالیف القرآن)

(۲۲)دیکھیں،سورۃ نساء :۱۵ ۔ اس قید وبند کی کوئی مدت متعین نہیں ہے۔ اس کا تعین حالات اور جرم کی نوعیت کے اعتبار سے ہوگا۔ بہت سے علما نے لکھا ہے کہ سور ہ نور میں بیان کردہ سزا نے سورۃ نسا کی سزا ئے زنا کو منسوخ کردیاہے، لیکن راقم سمجھتاہے کہ یہ حکم منسوخ نہیں ہواہے۔قرآن مجید میں بیان کردہ کوئی حکم منسوخ نہیں ہوسکتا ہے۔ مخصوص حالات کی وجہ سے وہ صرف معطل ہوجاتاہے، اور جوں ہی حالات اس کے موافق ہوتے ہیں، وہ حکم دوبارہ نافذ ہوجاتاہے ۔ایک ناموافق اور ناپختہ مسلم سماج میں اسلامی قانون کے معطل احکا م کی طرف مراجعت کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اصول تدریج کے مطابق پہلے اسلام کے ابتدائی دور کے احکام، جو بعد میں معطل ہوگئے تھے ،نافذ ہوں گے اور پھر آہستہ آہستہ دور آخر کے قوانین کی تنفیذ ہوگی۔ اصول تدریج کی عدم رعایت ہی کی وجہ سے آج اکثر مسلم ملکوں میں اسلامی شریعت کا بڑا حصہ غیر نافذ العمل ہے۔

(۲۳) بلاشبہ اسلامی عقاید کی تفہیم میں سرسید سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، لیکن اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ان کی اجتہادی مساعی نے مسلمانوں کے فکری جمود کو توڑ نے میں نمایاں رول ادا کیا ہے، اور اس کے اثرات ان کے بعد کے اہل علم کی تحریروں میں صاف طور پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔

(۲۴)

 The Principle of Movement in the Structure of Islam, p.151





اقبالؒ کا تصور اجتہاد: چند ضروری گزارشات

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

علامہ محمد اقبالؒ جنوبی ایشیا میں امت مسلمہ کے وہ عظیم فکری راہ نما تھے جنھوں نے اس خطے پر برطانوی استعمار کے تسلط اور مغربی فکر وثقافت کی یلغار کے دور میں علمی، فکری اور سیاسی شعبوں میں ملت اسلامیہ کی راہ نمائی کی اور ان کی ملی جدوجہد کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کی نئی نسل اور جدید تعلیم یافتہ طبقے کو مغرب کے فکر وفلسفہ اور تمدن وثقافت سے مرعوب ہونے اور اس کے سامنے فکری طور پر سپر انداز ہونے سے محفوظ رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ انھوں نے تہذیب مغرب کو چیلنج کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ بے لچک وفاداری، اپنے ماضی کے ساتھ وابستگی اور اپنی اسلامی شناخت کو باقی رکھنے کا سبق دیا اور پھر اس اسلامی شناخت کے جداگانہ وجود کے لیے ایک الگ مسلم ریاست کے قیام کی طرف جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کی عملی راہ نمائی کی جس کے نتیجے میں ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک مستقل ملک دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔

یہ اسلام کے اعجاز کا اظہار تھا کہ جب یورپ کو مذہب کے ساتھ ریاست کا تعلق ختم کیے ڈیڑھ صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا، صدیوں سے چلی آنے والی اسلامی خلافت کے مرکز ترکی نے ریاست اور مذہب کی علیحدگی کے اس تصور کو قبول کر کے سیکولر ہونے کا اعلان کر دیا تھا اور کم وبیش ساری دنیا میں مذہب کو ریاستی معاملات سے بے دخل کر نے کا عمل تیزی سے جاری تھا۔ اس طوفانی دور میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اس آندھی کے مخالف سمت سفر کا آغاز کیا اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے صرف دو عشروں کے بعد اسلام کے نام پر اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ایک نیا ملک قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے جسے بلاشبہ علامہ محمد اقبالؒ کی فکری راہ نمائی کا کرشمہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

علامہ محمد اقبال ایک عظیم فلسفی، مفکر، دانش ور اور شاعر تھے جنھوں نے اپنے دور کی معروضی صورت حال کے کم وبیش ہر پہلو پر نظر ڈالی اور مسلمانوں کو ان کے مستقبل کی صورت گری کے لیے اپنی سوچ اور فکر کے مطابق راہ نمائی مہیا کی۔ وہ پیغمبر اور معصوم نہیں تھے کہ ان کی ہر بات کو الہام اور وحی کے طور پر آنکھیں بند کر کے قبول کر لیا جائے اور نہ ہی اس دور کے معروضی حالات جامد وساکت تھے کہ ان کی بنیاد پر قائم کی جانے والی کسی رائے اور موقف کوحتمی قرار دے دیا جائے، البتہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی دانست اور علمی بساط کی حد تک امت مسلمہ کو ملی معاملات میں بھرپور راہ نمائی مہیا کرنے کی کوشش کی اور بہت سے امور میں امت کے مختلف طبقات نے اس راہ نمائی سے عملی فائدہ اٹھایا۔

علامہ محمد اقبالؒ نے اجتماعی زندگی کے جن میدانوں کو اپنی فکری تگ وتاز کی جولان گاہ بنایا، ان میں ملت اسلامیہ کی تہذیبی، معاشرتی اور ثقافتی زندگی کا وہ فکری خلا بھی تھا جو مسلمانوں کے علمی وسیاسی زوال اور اس کے پہلو بہ پہلو مغرب کے سائنسی وصنعتی عروج اور دنیا پر اس کی سیاسی وعسکری بالادستی کے پس منظر میں بہت زیادہ نمایاں دکھائی دینے لگا تھا۔ مسلمانوں کے دور عروج میں جہاں وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات یعنی قرآن وسنت کے علوم کی تحقیقات وتشریحات اور انسانی معاشرت کے مختلف پہلوؤں کے ساتھ ان کے انطباق کا علمی سفر مسلسل جاری تھا، وہاں سائنسی وعمرانی علوم میں ارتقا اور پیش رفت بھی گاڑی کے دوسرے پہیے کا کردار ادا کر رہی تھے لیکن بدقسمتی سے اندلس کے مغرب کے سامنے سپر انداز ہو جانے کے بعد قائم ہونے والی دو بڑی مسلم سلطنتوں خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت کو عمرانیا ت اور سائنس وٹیکنالوجی کے ساتھ وہ دل چسپی نہیں تھی جو معاصر اقوام کے ساتھ زندگی کے سفر میں برابری اور توازن قائم رکھنے کے لیے ضروری تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم ’’ون ویلنگ‘‘ کرتے ہوئے جتنی دیر چل سکے، چلتے رہے اور جب اس مسابقت کا دوسرا فریق بہت زیادہ آگے نکل گیا تو ہم آہستہ آہستہ لڑھکتے ہوئے غلامی کے کھڈے میں جا گرے۔

یہ بھی اسی المیہ کا ایک حصہ ہے کہ وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات کے انسانی زندگی اور معاشرت کے ساتھ انطباق کے حوالے سے بھی ہم نے اس وقت تک ہو جانے والے علمی کام پر قناعت کر لی اور مزید پیش رفت کی رفتار اس قدر کم کر دی کہ اس کے مقابل دوسری طرف نظر آنے والی تیز رفتاری کے سامنے وہ بالکل جمود اور سکتہ کا منظر پیش کرنے لگی۔ علامہ محمد اقبالؒ نے اجتہاد کے بند ہونے کے حوالے سے اپنے خطبے میں جو کچھ کہا ہے، وہ اسی خلا کی نشان دہی ہے لیکن وہ خود مجتہد اور فقیہ نہیں تھے اور نہ ہی اجتہاد اور فقہ سے ان کا کبھی عملی واسطہ رہا ہے، اس لیے ایک مفکر اور فلسفی کے طور پر خلا کی نشان دہی اور اسے پر کرنے کی ضرورت کا احساس دلانے کی حد تک ان کی بات بالکل درست ہے، مگر اس کے عملی پہلووں، ترجیحات اور دائرۂ کار کا تعین چونکہ ان کے شعبہ کا کام نہیں تھا، اس لیے اس باب میں ان کے ارشادات پر گفتگو کی خاصی گنجایش موجود ہے اور یہ گفتگو اس موضوع کا تقاضا بھی ہے۔

بعض روایات کے مطابق علامہ محمد اقبالؒ نے اس حوالے سے علامہ سید محمد انور شاہ کاشمیریؒ ، علامہ سید سلیمان ندویؒ ، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ اور دیگر اہل علم سے جو توقعات وابستہ کر لی تھیں اور ا س سلسلے میں بعض رابطوں کا تذکرہ بھی ملتا ہے، میرے خیال میں اس کا پس منظر یہی تھا اور اس ضمن میں ایک روایت مجھ تک پہنچی ہے جس کا اس مرحلہ پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ صاحب ۱۹۴۴ سے ۱۹۸۲ تک خطیب رہے اور اس کے بعد سے یہ ذمہ داری میرے سپرد ہے۔ وہ حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ تعالیٰ کے شاگرد تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کا دار العلوم دیوبند کی انتظامیہ سے اختلاف ہوا اور شاہ صاحبؒ نے دار العلوم سے الگ ہو جانے کا فیصلہ کیا تو علامہ محمد اقبال نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ شاہ صاحب لاہور آ جائیں کیونکہ فقہ اسلامی کی تجدید کا جو کام ان کے ذہن میں ہے، وہ ان کے خیال میں علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ اور وہ یعنی علامہ اقبالؒ مل کر کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے کہنے پر لاہور ریلوے اسٹیشن کے سامنے اس مقصد کے لیے مسجد اور اس کے ساتھ ایک علمی مرکز تعمیر کرایا گیا جو لاہور کے ایک تاجر خواجہ محمد بخش مرحوم نے، جو آسٹریلیا میں تجارت کرتے تھے، علامہ اقبال کے کہنے پر تعمیر کیے۔ اسی حوالے یہ آسٹریلیا مسجد اور اس کے ساتھ ’’آسٹریلیا وقف بلڈنگ‘‘ کہلاتا ہے ، مگر علامہ انور شاہ کاشمیری اس کے لیے تیار نہ ہوئے او رمولانا مفتی عبد الواحدؒ کے بقول اس کی وجہ یہ تھی کہ شاہ صاحبؒ کے لاہور میں ڈیرہ لگانے کی صورت میں دار العلوم دیوبند کو نقصان پہنچنے کا خدشہ تھا جو وہ کسی حالت میں نہیں چاہتے تھے۔ اس لیے انھوں نے لاہور آنے سے انکار کر دیا اور پھر ان کے کہنے پر انھی کے ایک شاگرد حضرت مولانا عبد الحنان ہزارویؒ کو آسٹریلیا مسجد کا خطیب مقرر کیا گیا۔ یہ حالات کے جبر کا ایک پہلو تھا کہ علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ لاہور آنے پر آمادہ نہ ہوئے، ورنہ اپنے وقت کی یہ دو عبقری شخصیات مل کر اس کام کے لیے بیٹھ جاتیں تو آج کی علمی اور فقہی دنیا کا منظر بالکل مختلف ہوتا۔

میرا یہ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علامہ محمد اقبال فکری اور نظری طور پر اجتہاد کی ضرورت کا ضرور احساس دلا رہے تھے اور ان کی یہ بات وقت کا ناگزیر تقاضا تھی، لیکن اس کے عملی پہلوؤں کی تکمیل کے لیے ان کی نظر ان علماے کرام پر تھی جو قرآن وسنت کے علوم سے گہری واقفیت رکھتے تھے اور اجتہاد کی اہلیت سے بہرہ ور تھے، چنانچہ اجتہاد کے بارے میں اپنے خطبہ میں پارلیمنٹ کو اجتہاد کا حق دینے کی بات کرتے ہوئے علامہ اقبالؒ ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ کسی جدید مسلم مجلس آئین کی قانون سازی کے بارے میں جس کی ترکیب کم از کم موجودہ حالات میں ایسے ہی اشخاص سے ہو سکتی ہے جنھیں زیادہ تر قانون اسلام کی باریکیوں کا علم نہیں ہے۔ ایسی مجلس آئین ساز قانون کی تشریح کرتے وقت بڑی سخت غلطیوں کی مرتکب ہو سکتی ہے۔ ہم کسی طرح ایسی تشریحی غلطیوں کے امکانات کی مکمل پیش بندی یا کم از کم انھیں گھٹانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ۱۹۰۶ء کے ایرانی دستور میں دنیاوی امور سے واقف علماے مذہب کی ایک علیحدہ کمیٹی بنا دی گئی ہے جسے مجلس کے عمل قانون سازی کی نگرانی اور دیکھ بھال کا اختیار ہوگا۔ میری رائے میں یہ خطرناک التزام شاید ایرانی نظریہ قانون کی رو سے ضروری سمجھ کر کیا گیا ہے۔ ا س نظریہ قانون کی رو سے بادشاہ ملک وسلطنت کا محض امین ہے جو درحقیقت امام غائب کی ملک ہے۔ علما، امام غائب کے نمائندوں کی حیثیت سے پوری زندگی کی نگرانی اور دیکھ بھال اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اگرچہ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ امام غائب کے اس سلسلہ جانشینی کی غیر موجودگی میں وہ کس طرح نیابت امام کا حق ثابت کر سکتے ہیں، بہرحال ایران کا دستوری نظریہ چاہے کچھ ہی ہو، یہ التزام خطرے سے خالی نہیں۔ اگر حنفی ممالک میں اس تجربہ کو دہرایا بھی جائے تو وہ محض عارضی اور وقتی ہونا چاہیے۔ ۔ علما کو خود مجلس آئین ساز کا نہایت اہم اور مرکزی عنصر ہونا چاہیے تاکہ قانون سے متعلقہ مسائل پر آزادانہ مباحث کی معاونت وراہ نمائی کر سکیں۔ غلط تشریحات کو روکنے کا موثر علاج صرف یہی ہے کہ اسلامی ممالک میں قانون کے رائج الوقت نظام تعلیم کی اصلاح کی جائے، اس کا دائرہ وسیع کیا جائے اور اس کی تحصیل کے ساتھ جدید اصول قانون کا گہرا مطالعہ بھی شامل کر دیا جائے۔‘‘

خطبہ اجتہاد کے اس اقتباس کے دیگر بہت سے پہلوؤں سے قطع نظر یہاں صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک عملی اجتہا دکا تعلق ہے اور قرآن وسنت کی جدید تعبیر وتشریح کا سوال ہے، وہاں علامہ اقبالؒ علماے کرام ہی کو اس کا بنیادی کردار سمجھتے ہیں اور اسلامی علوم سے بے بہرہ افراد پر مشتمل پارلیمنٹ سے قرآن وسنت کی تشریح میں بڑی سخت غلطیوں کے ارتکاب کے خطرہ سے وہ نہ صرف پوری طرح آگاہ ہیں بلکہ اس کے علاج کے طور پر علماء کرام کو مجلس آئین ساز کے ’’نہایت اہم اور مرکزی عنصر‘‘ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔

جہاں تک ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا تعلق ہے کہ اجتہاد کے لیے اصول وضوابط ازسرنو وضع کیے جائیں، اس ضمن میں علامہ محمد اقبالؒ اپنے مذکورہ خطبہ میں فرماتے ہیں:

’’اس مقالے میں مجھے اجتہاد کے پہلے درجے یعنی اجتہاد مطلق کے متعلق کچھ کہنا ہے۔ اہل سنت اس درجہ اجتہاد کے نظری امکانات کے تو قائل ہیں لیکن جب سے مذاہب فقہ کی ابتدا ہوئی ہے، عملی طور پر اسے اس لیے نہیں مانتے کہ مکمل اجتہاد کے لیے جن قیود وشرائط کی حصار بندی کر دی گئی ہے، ان کا کسی ایک فرد واحد میں مجتمع ہونا قریب قریب ناممکن ہے۔‘‘

میرے خیال میں اگر اس مسئلے کا ایک اور پہلو سے جائزہ لے لیا جائے تو شاید اہل سنت کے موقف پر اس اعتراض کی ضرورت باقی نہ رہے۔ وہ یہ کہ ’’اجتہاد مطلق‘‘ کا دروازہ بند ہو جانے کا تعلق اہلیت وصلاحیت کے فقدان یا شرائط کے مجتمع نہ ہونے سے نہیں بلکہ ضرورت مکمل ہو جانے سے ہے، اس طور پر کہ جس طرح ہر علم اور فن میں بنیادی اصول وضوابط طے ہونے کا تاریخ میں ایک بار ہی موقع آتا ہے اور جب وہ ایک بار طے ہو جاتے ہیں تو پھر وہ علم ہمیشہ کے لیے انھی بنیادی ضوابط کے حصار کا پابند ہو جاتا ہے اور اس کے لیے بنیادی اصول بار بار وضع نہیں کیے جاتے۔ کسی بھی علم وفن کو دیکھ لیجیے، اس کے چند اساسی قوانین ایسے ہوتے ہیں جو متبدل نہیں ہوتے اور اس علم اور فن کا تمام تر ارتقا انھی اساسی قوانین کی روشنی میں ہوتا رہتا ہے۔ ان اساسی قوانین کی دوبارہ تشکیل کا دروازہ اس لیے بند نہیں ہوتا کہ کسی نے اسے بند کر دیا ہے یا اب کسی میں اس کی صلاحیت نہیں رہی، بلکہ اس دروازے کے بند ہونے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ اسی طرح قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح اور اجتہاد کے اصول وضع ہونے کا ایک دور تھا جب دو چار نہیں بلکہ بیسیوں فقہی مذاہب وجود میں آئے مگر ان میں سے پانچ چھ کو امت میں قبول حاصل ہوا اور باقی تاریخ کی نذر ہو گئے۔ اب کسی نئے فقہی مذہب کے اضافے کی گنجایش نہیں ہے، اس لیے نہیں کہ اس کا دروازہ کسی نے بند کر دیا ہے یا اس کی صلاحیت واہلیت ناپید ہو گئی ہے، بلکہ اس لیے کہ یہ کام ایک بار مکمل ہو جانے کے بعد اب اس کی ضرورت نہیں رہی اور ان مسلمہ فقہی مذاہب کے اصول وقوانین میں وہ تمام تر گنجایشیں اور وسعتیں موجود ہیں جن کی روشنی میں ہر دور کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔

علامہ محمد اقبالؒ کے مذکورہ خطبہ کے حوالے سے ایک اور بات کو پیش رکھنا بھی ضروری ہے کہ اس خطبے کا بیشتر حصہ ترکی کی فکری اور دستوری نشاۃ ثانیہ کے پس منظر میں ہے جس کے بارے میں علامہ اقبالؒ کا یہ خیال اس خطبے میں صاف طور پر جھلکتا ہے کہ شاید یہ اجتہاد کا عمل تھا جس کے ذریعے ترکی اسلام اور مسلمانوں کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتا تھا، لیکن وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ علامہ محمد اقبالؒ کا یہ خیال اور تاثر درست نہ تھا، اس لیے کہ جدید ترکی کا یہ عمل اسلام میں اجتہاد کا نہیں بلکہ اس سے انقطاع اور یورپ کی طرح مذہب کو ریاستی معاملات سے کلیتاً بے دخل کر دینے کا تھا جس کا رد عمل خود ترکی میں سامنے آ چکا ہے اور جس کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ یورپی یونین کی جس رکنیت کے لیے ترکی نے یہ ساری قربانیاں دی تھیں، پون صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ اس کے لیے ابھی تک ایک موہوم خواب ہی کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس مرحلے میں اس تاریخی حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ قیام پاکستان کے بعد جب علماے کرام کو نئی ریاست کی دستوری حیثیت کا تعین کرنے کے لیے فیصلہ کرنے کا موقع ملا تو انھوں نے ماضی کی روایات سے بے لچک طو رپر بندھے رہنے کے بجائے وقت کے تقاضوں اور علامہ اقبالؒ کی فکر کا ساتھ دیا جس کی واضح مثال قرارداد مقاصد اور تمام مکاتب فکر کے ۲۲ سرکردہ علماے کرام کے ۳۱ متفقہ دستوری نکات میں خلافت عثمانیہ کے خاندانی اور موروثی نظام کی بحالی پر زور دینے کے بجائے عوام کی رائے اور مرضی کو حکومت کی تشکیل کی بنیاد تسلیم کرنے کی صورت میں موجود ہے۔ اسی طرح عقیدۂ ختم نبوت کے منکر قادیانیوں کو مرتد کا درجہ دے کر فقہی احکام کے مطابق گردن زدنی قرار دینے کے بجائے علامہ اقبالؒ کی تجویز کی روشنی میں غیر مسلم اقلیت کی حیثیت دے کر ان کے جان ومال کے تحفظ کے حق کو تسلیم کرنا بھی ملک کے علما کا ایک ایسا اجتہادی فیصلہ ہے جس کے پیچھے علامہ محمد اقبالؒ کی فکر کارفرما دکھائی دیتی ہے، جبکہ ۷۳ء کے دستور میں پارلیمنٹ کو قرآن وسنت کے اصولوں کی پابندی کی شرط پر قانون سازی کی حتمی اتھارٹی تسلیم کیے جانے کو بھی اسی تسلسل کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

آخر میں علامہ اقبالؒ کے خطبہ اجتہاد کے حوالے سے ایک بات اور عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ ماضی کے اجتہادات کو حتمی نہ سمجھا جائے اور ان کے بارے میں نظر ثانی کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔ اگرچہ اس بارے میں ہم تحفظات رکھتے ہیں، کیونکہ اس بحث کی خاصی گنجایش موجود ہے کہ ماضی کے کون سے اجتہادات میں نظر ثانی کی ضرورت ہے اور کون سے اجتہادات میں یہ ضرورت موجود نہیں ہے، مگر ایک بات کہنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس ’’خطبہ اجتہاد‘‘ پر بھی تو پون صدی گزر چکی ہے۔ اس پون صدی میں دنیا کے ماحول اور عالم اسلام کے حالات میں بہت سی تبدیلیاں آئی ہیں، ان پلوں کے نیچے سے بہت سے مزید پانی بہہ چکا ہے اور یقیناًآج کے معروضی حالات اور ضروریات کا نقشہ وہ نہیں ہے جو پون صدی پہلے کا تھا۔ اس لیے کیا ضروری ہے کہ ہمارے ذہنوں کی سوئیاں ۱۹۳۰ء پر ہی رکی رہیں اور کیا ہم ۲۰۰۶ کے عالمی تناظر اور بین الاقوامی ماحول میں اپنی ضروریات اور ترجیحات کا ازسرنو جائزہ نہیں لے سکتے؟





ڈارون کا تصور ارتقا اور اقبال

ڈاکٹر محمد آصف اعوان

چارلس ڈارون (۱۸۸۲۔۱۸۰۹) کو مغرب کی مادہ پرست فکر اور تحریک الحاد کا نمائندہ مفکر قرار دیا جا سکتا ہے۔ ڈارون نے اگرچہ ابتدائی عمر میں طب اور دینیات کی تعلیم حاصل کی تاہم اسے حیوانات اور نباتات کے مشاہدہ اور ان کی شکل وساخت کے تغیرات معلوم کرنے اور ان کی توجیہات پر غور کرنے کا بہت لپکا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کے پانچ نہایت قیمتی سال بحری سفر میں صرف کیے۔ یہ سفر دراصل ڈارون کے لیے حیوانات اور مظاہر فطرت کا ایک مطالعاتی سفر تھا۔ اس سفر کے مشاہدات نے ڈارون کے فلسفہ ارتقا کے لیے خشت اول کا کردار ادا کیا۔ مظاہر فطرت کے اندر تغیرات اور مماثلتوں کے مشاہدہ نے اس کے ذہن میں کئی ایک سوالات پیدا کیے جس کے نتیجے میں اس کے دماغ میں مختلف انواع کے درمیان ایک منطقی ربط اور تسلسل کا خیال پیدا ہوا۔ یہ گویا ڈارون کے تصور ارتقا کا ابتدائی مبہم خاکہ تھا۔

ڈارون کا فلسفہ ارتقا پہلی مرتبہ جامع صورت میں اس کی کتاب ’’مبدا حیات بوسیلہ قدرتی انتخاب‘‘ (On the Origin of Species by Means of Natural Selection) میں منظر عام پر آیا۔ یہ کتاب ۱۸۵۹ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب نے فکری دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ ڈارون نے کہا کہ ہر جاندار کے جسم اور شکل وساخت میں مسلسل خفیف تبدیلیاں رونما ہوتی رہتی ہیں اور ایک طویل مدت کے بعد ان تبدیلیوں کے جمع ہونے سے ایک نیا جاندار وجود میں آ جاتا ہے۔ اگر اس جاندار کی نسل جسمانی بناوٹ کے لحاظ سے جہد للبقا (Struggle for existence) کے دوران میں اپنے ماحول کی مشکلات کے ساتھ کامیاب مقابلہ کر سکے تو وہ زندہ رہتی ہے ورنہ مٹ جاتی ہے۔ زندگی اپنے ظہور کے بعد مسلسل ارتقا پذیر ہے اور اسی وجہ سے مختلف انواع کے وجود بنتے اور مٹتے رہتے ہیں۔ روئے زمین پر نوع بشر کا ظہور بھی ارتقا کے اسی قاعدے کا نتیجہ ہے۔

"As Natural selection acts solely by the preservation of profitable modifications, each new form will tend in a fully-stocked country to take the place of, and finally to exterminate, its own less improved parent form and other less favoured forms with which it comes into competition. Thus extinction and natural selection go hand in hand." 1

ڈارون کے تصور ارتقا میں انتخاب طبعی (Natural Selection) اور تنازع للبقا (Struggle for existence) دو اہم پہلو ہیں۔ ڈارون کے خیال میں وقت اور ماحول کے مطابق اپنے آپ کو جلد از جلد ڈھال لینے کا عمل انواع کی نہ صرف بقا بلکہ دیگر انواع پر حکمرانی اور تغلب کا باعث بھی بنتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا آف فلاسفی میں درج ہے:

"Some variations provide the organisms with an advantage over the rest of the population in the struggle for existence." 2

ایسی انواع جو تنازع للبقا کے دوران میں بہتر حکمت عملی کی بدولت اپنے نظام اور ساخت حیات میں ایسے تیز رفتار تغیرات کے عمل سے گزرتی ہیں جو انھیں دیگر انواع سے یکسر مختلف (Distinct) کر دے، وہ انتخاب طبعی کے عمل میں بھی سرخرو رہتی ہیں۔ انتخاب طبعی کا عمل کیا ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ڈارون کہتا ہے کہ انواع کے اندر غیر محدود طور پر بڑھنے، ترقی کرنے اور اپنی نسل میں اضافہ کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے جس سے آبادی میں بے حد اضافہ ہو جاتا ہے، لیکن وسائل حیات نہیں بڑھتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قدرتی آفات مثلاً بیماری، وبا، جنگ، قحط، زلزلہ اور موت کی دیگر صورتوں سے انواع اور وسائل حیات میں توازن قائم ہوتا ہے۔ ڈارون کا خیال ہے کہ اس طریقے سے قدرت صرف ان انواع کا انتخاب کرتی ہے اور صرف انھیں زندہ رہنے کا حق دیتی ہے جو کسی لحاظ سے دیگر انواع سے بہتر ہوں اور جنھوں نے تنازع للبقا کے عمل میں ماحول کے ساتھ موافقت کرتے ہوئے اپنے آپ کو تغیرات کے عمل سے گزار کر ارتقا کے اگلے مراحل میں قدم رکھ لیا ہو۔ (۳) ڈارون لکھتا ہے:

Every being, which during its natural lifetime produces several eggs or seeds, must suffer destruction during some period of its life, and during some season or occasional year, otherwise, on the principle of geometrical increase, its number would quickly become so inordinately great that no country could support the product. Hence, as more individuals are produced than can possibly survive, there must in every case be a struggle for existence, either one individual with another of the same species, or with the individuals of distinct species or with the physical conditions of life." 4

آگے چل کر ڈارون زیادہ واضح انداز میں رقم طراز ہے:

"There is no exception to the rule that every organic being naturally increases at so high a rate that, if not destroyed, the earth would soon be covered by the progeny of a single pair." 5

چارلس ڈارون چونکہ میکانکی اور مادی نقطہ نظر کا حامل تھا، اس لیے ابتداے حیات کے سوال کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں اور وہ اسے ایک ناقابل حل معما اور انسان کے حیطہ عقل سے ماورا مسئلہ قرار دیتا ہے۔ اسے اس بات کا پختہ یقین تھا کہ انواع کے حیاتیاتی ارتقا میں کسی مافوق الفطرت ہستی یا قوت کا عمل دخل نہیں۔ ہیرلڈ ہونڈنگ لکھتا ہے:

’’اگر مادیت سے محض یہ مراد لی جائے کہ یہ فوق الفطرت مداخلت کو برطرف کر کے مظاہر کو فطری طور پر معین فطری قوانین میں تحویل کرنے کا نام ہے تو ڈارون یقیناًمادیتی تھا۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ جانداروں کی صورتیں مکمل طور پر خدا کے تصور میں نہیں تھیں۔ یہ شکلیں نہایت ادنیٰ شروعات سے اور ماحول کے مسلسل اثرات سے طویل عمل ارتقا کے بعد بنی ہیں۔‘‘ (۶)

مختصر یہ کہ ڈارون کے نزدیک کائنات کی حیثیت ایک مشین کی سی ہے جس میں مظاہر اور انواع، مشین کے پرزوں کی صورت میں میکانکی انداز میں کام کرتے ہوئے اور مقررہ قوانین کے تحت چلتے ہیں۔ زندگی اپنے ادنیٰ ترین مراحل سے انسانی سطح کے اعلیٰ ترین مرحلے تک انھی معین قوانین اور میکانکی عمل کے نتیجے میں پہنچی ہے۔

اقبال کی فکرکا بنیادی نکتہ اس کا فلسفہ خودی تصور کیا جاتا ہے، تاہم اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی فکر پر اول تا آخر فلسفہ ارتقا کی چھاپ ہے، یہاں تک کہ تصور خودی بھی اسی بنیادی اور بڑے فلسفے کا ایک حصہ معلوم ہوتا ہے۔ (۷)

اقبال اور ڈارون کا ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک تمام مادہ کی حقیقت روحانی ہے۔ ’’کائنات میں جذبہ الوہیت جاری وساری ہے۔‘‘ (۸) مادہ کو اس کی روحانی حقیقت سے الگ رکھ کر دیکھا اور پرکھا نہیں جا سکتا جبکہ ڈارون کی کمزوری یہ ہے کہ اس کی نظر کائنات کے صرف مادی پہلو پر ہے جیسے کہ ڈارون کے متعلق پروفیسر سی۔ ای۔ ایم جوڈ رقم طراز ہیں کہ ’’ڈارون کاپیش کردہ عمل ارتقا ارتقاے حیات کا ایسا عمل ہے جسے خالصتاً فطری قوتوں کی کارفرمائی کا ماحصل سمجھنا چاہیے۔‘‘ (۹) چنانچہ مغربی فلسفہ ارتقا میں ڈارون مادیت پرست اور میکانکی طرز فکر کا سب سے بڑا نمائندہ مفکر بن کر سامنے آتا ہے۔ اس کا یہ خیال ہے کہ تمام مظاہر فطرت میکانکی نوعیت کے حامل قوانین قدرت کے پابند اور اسیر ہیں۔ خدا کے وجود کو فرض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں تک کہ حیات اور اس کے تمام ارتقائی مراحل بھی طبعی اور کیمیائی طاقتوں کے اندھا دھند عمل سے انجام پاتے ہیں۔ گویا اقبال کے الفاظ میں:

"The concept of mechanism, a purely physical concept, claimed to be the all embracing explanation of nature." 10

لیکن اقبال کے خیال میں مظاہر فطرت کی توضیح کے لیے محض میکانکی نقطہ نظر کافی اور تسلی بخش نہیں کیونکہ میکانکی انداز فکر نہ صرف یہ کہ نامکمل معلومات فراہم کرتا ہے بلکہ مظاہر کے باہمی ربط وتعلق کی نوعیت پر روشنی نہیں ڈالتا۔ اقبال رقم طراز ہیں:

"Natural science is by nature sectional; it can not, if it is true to its own nature and function, set up its theory as a complete view of Reality." 11

ڈارون کی مادیت پرست سوچ نہ صرف مظاہر فطرت کو میکانکی قوانین کا اسیر دیکھتی ہے بلکہ حیاتیاتی مظاہر کو بھی میکانکی قوانین کی قلم رو میں شامل کر کے تمام حیاتیاتی ارتقائی مراحل کو فطرت کے اندھا دھند عمل کا حاصل قرار دیتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ڈارون کے تصور ارتقا میں حیات ارتقائی مراحل طے کرنے کے باوجود ان ماقبل ارتقائی مراحل کی قوتوں کے رحم وکرم پر ہے جنھیں وہ تنازع للبقا کے عمل میں پیچھے چھوڑ آئی ہے۔ اس طرح ڈارون حیات کی آزادہ روی اور تخلیقی رو کا گلہ دبا کر رکھ دیتا ہے کیونکہ اقبال کے بقول:

"In fact all creative activity is free activity. Creation is opposed to repetition which is a characteristic of mechanical action." 12

اقبال کی نظر میں مادہ درحقیقت حیات کی ادنیٰ درجے کی خودیوں کی بستی کا نام ہے۔ ان خودیوں کے مسلسل ارتباط، اتصال، عمل اور رد عمل سے باہمی یگانگت کا ایک ایسا مقام آ جاتا ہے کہ جہاں سے ایک ایسی اعلیٰ درجے کی خودی کا صدور ہو کہ جو احساس وادراک کی حامل ہو۔ اقبال لکھتے ہیں:

"Suffice it to indicate that even if the body takes the initiative, the mind does enter as a consenting factor at a definite stage in the development of motion." 13

چونکہ ابتدا میں اشیا میں خودی کا احساس پست درجے کا ہوتا ہے، اس لیے جسم پر میکانکی قوانین کی عمل داری زیادہ نظر آتی ہے۔ تاہم خودی کے احساس وادراک کا رجحان مسلسل ترقی پذیر رہتا ہے، یہاں تک کہ خودی مراحل ارتقا طے کرتے کرتے ارتفاع کے اس درجے پر فائز ہو جاتی ہے جہاں وہ بدن اور مادے کی غلامی سے مکمل طور پر آزادی حاصل کر لیتی ہے۔ اقبال رقم طراز ہیں:

"The evolution of life shows that though in the beginning the mental is dominated by the physical, the mental -- as it grows in power -- tends to dominate the physical and may eventually rise to a position of complete independence." 14

دراصل ڈارون اس حقیقت کو نہ سمجھ سکا کہ حیات، ارتقا کے سفر میں تدریجی مراحل سے گزرتی ہوئی ہر مرحلے کی صفات وخصوصیات کو اپنے اندر سمو کر ایک نئی اور بے چگوں کلیت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اقبال کے بقول:

"The movement of life as an organic growth involves a progressive synthesis of its various stages." 15

اقبال کے خیال میں زندگی میکانگی نقطہ نظر سے توضیح کرنے والے ماہرین حیاتیات کا مطالعہ ومشاہدہ حیات کی صرف ایسی ادنیٰ صور واشکال تک محدود ہے جن کے طرز عمل میں کسی حد تک میکانکیت سے مشابہت ہے، لیکن اگر وہ خود اپنی ذات اور اس کے اندر مچلتے ہوئے احساسات، تحریکات، جذبات اور ماضی وحال سے مستقبل کی طرف ابھار اور حرکت کے رجحان پر غور کریں تو انھیں یقیناًحیات کے میکانکی تصور سے دست بردار ہونا پڑے گا۔ گویا حیات کے اندر آئندہ مراحل میں جو تبدیلیاں بھی واقع ہوتی ہیں، وہ اس کی اپنی آغوش سے جنم لیتی ہیں اور اس پر کوئی خارجی میکانکی جبریت عمل پیرا نہیں ہوتی۔ فکر کا یہی وہ مقام ہے کہ جہاں اقبال حیات کے اندر ارتقا کی لگن کو مقصد کے ساتھ وابستہ کر کے اسے میکانکیت کی حدود سے باہر لے آتا ہے اور لکھتا ہے:

"The action of living organisms, initiated and planned in view of an end, is totally different to causal action." 16

اقبال ڈارون کے اس خیال سے تو متفق ہیں کہ انواع کے اندر غیر محدود طور پر بڑھنے اور اپنی نسل میں اضافہ کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ انواع کا تحرک اور کثرت آفات قدرت کو دعوت دینے کاباعث بنتا ہے۔ اقبال

غنچہ ہے اگر گل ہو، گل ہے تو گلستاں ہے (۱۷)

اور 

یمے تعمیر کن از شبنم خویش (۱۸)

کا مشورہ دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک کائنات کا ذرہ ذرہ سوئے منزل دوست گامزن ہے اور ارتقا کی منازل طے کر رہا ہے۔ اقبال کے ہاں ارتقا ادنیٰ درجات حقیقت سے اعلیٰ درجات حقیقت کی طرف سفر کا نام ہے اور یہ سفر خارجی عوامل کے سفاکانہ عمل سے نہیں، بلکہ انواع کی اندرونی لگن اور تسلسل عمل سے انجام پاتا ہے، چنانچہ اقبال ڈارون کے اس خیال کو درست نہیں سمجھتے کہ آفات قدرت ارتقا کے رخ کو متعین کرنے میں کوئی کردار ادا کرتی ہیں کیونکہ اگر اس نقطہ نظر کو قبول کر لیا جائے تو مراحل ارتقا میں حرکت وعمل اور جدوجہد کے تصور کی نفی ہو جاتی ہے اور ارتقا کا عمل محض آفات قدرت کا محتاج نظر آنے لگتا ہے۔ علاوہ ازیں ارتقا ایک ایسا اتفاقی اور حادثاتی عمل بن کر رہ جاتا ہے جس میں نہ عضویہ کی مرضی اور خواہش کو دخل حاصل ہے اور نہ کسی لگن، مقصد اور آرزو کو۔ یوں عضویہ کے جسم میں تمام تبدیلیاں خارجی عوامل کی مرہون منت ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ ڈارون کے نظری ارتقائی دھارے کے مطابق کسی عضویہ کے لیے ارتقا کے اگلے مرحلے میں داخل ہونے سے پہلے بڑے سکون اور صبر سے کسی ناگہانی آفت یا بلا کا انتظار اس کا مقدر ہے۔ ڈاکٹر محمد رفیع الدین اپنے ایک انگریزی مضمون میں لکھتے ہیں:

"Darwin is a terrible shock to man's justified conviction of his own dignity over the rest of creation, which he thinks he enjoys by virtue of the nobility of his mind and spirit and the sanctity of his reason and free will. For the implications of his theory are that the whole of his wonderful world of life is nothing but the blind and fortuitous play of the reckless forces of nature-----this position is, of course, completely antagonistic to that of Iqbal." 19

ڈارون کے نزدیک چونکہ ماحول ایک تغیر پذیر عامل ہے، اس لیے حالات اور ماحول کے مطابق انواع کی مطابقت کی خواہش، تحول اور جدوجہد ارتقا کا باعث ہے۔ اگرچہ یہ بات درست ہے کہ نئے حالات اور جدید تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنا، زمانے کی نبض پر ہاتھ رکھنا اور آئین نو کا ساتھ دینا افراد اور اقوام کی زندگی میں بہت اہم ہے اور وہی افراد اور اقوام ترقی، کامیابی اور ارتقا حاصل کرتی ہیں جو جمود اور سکوت کا شکار رہنے کے بجائے وقت اور حالات پر گہری نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو ان کے مطابق ڈھال لیتی ہیں، تاہم اقبال کے نزدیک افراد اور اقوام کی کامیابی اور ارتقا وقت اور حالات کی اندھا دھند تقلید سے ہی مشروط نہیں، بلکہ ان کے ہاں بقول اکبر الٰہ آبادی:

مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں (۲۰)

کے فلسفے کی زیادہ اہمیت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اقبال انسان کو مظاہر فطرت کے سامنے جھکانا نہیں چاہتا، بلکہ وہ مظاہر فطرت پر انسان کے دست تسخیر کو قائم اور مستحکم دیکھنے کا متمنی ہے۔ انسان کے لیے قوانین فطرت کا اسیر ہونا شایان شان نہیں، بلکہ قوانین فطرت، وقت اور حالات کو اپنے دست تصرف میں لانا، انھیں اپنی آرزووں اور گہری تمناؤں کے مطابق ڈھالنا، اپنی دنیا آپ پیدا کرنا، نئی بستیاں بسانا اور راہوار وقت کی لگام کو ہاتھ میں لے کر اپنے آدرش کے مطابق موڑنا اور پھیرنا اصل کامیابی اور ارتقا کی علامت ہے۔ اقبال رقم طراز ہیں:

"It is the lot of man to share in the deeper aspirations of the universe around him and to shape his own destiny as well as that of the universe now by adjusting himself to its forces, now by putting the whole of his energy to mould its forces to his own ends and purposes." 21
گفتند جہان ما آیا بتو می سازد؟
گفتم کہ نمی سازد، گفتند کہ برہم زن ۲۲

ڈارون کے برعکس اقبال کے نزدیک عالم رنگ وبو میں اپنے آپ کو کھو دینے، گم کر دینے یا محض موافقت پیدا کرنے میں ہی کمال حیات یا ارتقا مضمر نہیں بلکہ باطنی امکانات کی زیادہ سے زیادہ تسخیر سے اپنے اندر ایسی قابلیت اور صلاحیت کو نشوو نما دینا وہ کارنامہ ہے جس سے انسان اس ’’بت خانہ شش جہات‘‘ پر نہ صرف تغلب اور تسلط حاصل کر پاتا ہے` بلکہ اس کی اپنی مرضی کے مطابق تراش کرتے ہوئے ارتقا حاصل کرتا ہے۔

مہر ومہ وانجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر ۲۳

اقبال کے تصور ارتقا کے اس پہلو کی بہترین تفسیر ڈاکٹر اے۔ ریہل (Dr. A. Riehl) کے درج ذیل اقتباس سے ہوتی ہے:

"The animal can adopt its actions to the changed conditions of its environments and from this power of adaptation, we first have reason to conclude that it possesses intelligence. Man on the other hand, can change the conditions about him and adopt them to his mind. He knows how to call forth independently new conditions which correspond to his purpose. He creates tools for himself, and changes the external world by his work. He fills and changes the surface of his plannet with the products of his industry and skill; and his practical understanding shows its superiority to mere adaptation by its power of initative, his theoretical understanding shows its superiority by its power to arrange the perceptions it receives according to the concepts of his thought." 24

اس میں شک نہیں کہ اقبال نے مذہب، فلسفہ، سیاست اور سائنس، ہر میدان میں حکمائے مغرب کی فکر ونظر کا گہرا مطالعہ کیا اور جہاں جو خوبی نظر آئی، اسے قبول کیا، تاہم انھوں نے یکسرمادی اور الحادی نظریات پر بھرپور تنقید بھی کی اور انھیں انسانیت کے لیے گمراہ کن قرار دیا۔ اقبال اور ڈارون کا بنیادی فرق یہ ہے کہ اقبال کے فکر کی اساس دینی وروحانی ہے جبکہ ڈارون کی مادی وعنصری فکری روش اس روحانی سہارے سے محروم ہے۔ اقبال کا تصور ارتقا مغربی طرز فکر کی غلامانہ پیروی کا ماحصل نہیں۔ وہ ارتقا کے ضرور قائل ہیں اور اس لحاظ سے وہ ڈارون کے ہم نوا بھی نظر آتے ہیں، تاہم انھیں ارتقا کا وہی تصور دل پذیر ہے جس کی تعلیم قرآن پاک دیتا ہے۔


------------------

’الشریعہ‘ کے اکتوبر ۲۰۰۵ کے شمارے میں میرے ایک فاضل دوست پروفیسر میاں انعام الرحمن نے راقم کے ایک مضمون بعنوان ’’انسان کا حیاتیاتی ارتقا اور قرآن‘‘ (الشریعہ ستمبر ۲۰۰۵) پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ڈاکٹر آصف صاحب نے زیر بحث مضمون میں اقبال کے تصور ارتقا کو اگرچہ براہ راست ڈسکس نہیں کیا، لیکن ان کی تحریر کے پس منظر کی بافت وبنت اس تصور سے ہی ہوئی ہے۔‘‘ (ص ۳۴)

پھر میاں صاحب اقبال کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اقبال نے جہاں جمود زدہ مسلم فکر میں حرکت پیدا کر کے مسلم معاشرے کی مردہ رگوں میں زندگی کی لہر دوڑا دی، وہاں نطشے اور ڈارون کے افکار کی اسلامی تعلیمات سے تطبیق کی کوشش میں مسلم معاشرے کی روایتی فکر کو بری طرح مجروح کیا۔‘‘ (ص ۳۴)

قارئین محترم نے درج بالا سطور میں ڈارون اور اقبال کے تصور ارتقا کا تقابل ملاحظہ فرمایا ہے۔ چنانچہ اب قارئین بہتر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اقبال نے ڈارون کے تصور ارتقا کو کس حد تک سراہا ہے اور آیا اقبال نے ڈارون کے تصور کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ تطبیق دینے کی کوشش کی ہے یا اس کے بہت سے اجزا کو اسلامی تعلیمات کے منافی قرار دیا ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی نطشے اور اقبال کے حوالے سے بھی ایک مضمون پیش کروں گا جس سے یہ بات بھی واضح ہو جائے گی کہ اقبال مغربی مفکر نطشے یا اس کے خیالی کردار ’’مافوق البشر‘‘ کے متعلق کیا رائے رکھتے تھے۔

------------------


حوالہ جات

۱۔ 

 Darwin, Charles, "The Origin of Species, by Means of Natural Selection", William Benton Publishers, Chicago:1987, p.80

۲۔ 

 Edwards, Pual, (Ed) et.el., "The Encyclopedia of Philosophy", vol.3 & 4, Collier Macmillan Publishers, London: 1972, p.297

۳۔ ڈارون نے انتخاب طبعی کا یہ تصور مالتھس (Robert Malthus) کے نظریہ آبادی سے لیا اور اسے حیوانات کی دنیا پر چسپاں کر دیا۔

۴۔ 

 Darwin, Charles, "The Origin of Species, by Means of Natural Selection", p.33

۵۔ As above

۶۔ ہیرلڈ ہونڈنگ، ڈاکٹر، ’’تاریخ فلسفہ جدید‘‘ (جلد دوم)، ترجمہ: خلیفہ عبد الحکیم، نفیس اکیڈمی کراچی:۱۹۸۷، ص ۵۳۱

۷۔ اقبال نے ’’اسرار خودی‘‘ میں ارتقاے خودی کے تین مراحل بیان کیے۔ مرحلہ اول اطاعت، مرحلہ دوم ضبط نفس اور مرحلہ سوم نیابت الٰہی۔

۸۔ محمد اقبال، ’’اقبال نامہ‘‘ (حصہ اول)، شیخ محمد اشرف لاہور، سن ندارد، ص ۴۵۹

۹۔ جوڈ، سی ای، ایم۔ ’’افکار حاضرہ‘‘، ترجمہ: محمد بن علی باوہاب، مجلس ترقی ادب لاہور: ۱۹۶۶، ص ۳۵

۱۰۔ 

 Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", Sh. Muhammad Ashraf, Lahore: 1965, p. 41

۱۱۔ Ibid, 42

۱۲۔ Ibid

۱۳۔

 Muhammad Iqbal, "The Secrets of the Self", translated by Reynold A. Nicholson, Sh. Muhammad Ashraf, Lahore: 1975, p.XIX

۱۴۔

 Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", p. 106

۱۵۔ Ibid, p.56

۱۶۔ Ibid, p.42

۱۷۔ بانگ درا، ص ۲۸۰

۱۸۔ پیام مشرق، ص ۶۶

۱۹۔ 

 Muhammad Rafiuddin, Dr., "Iqbal's Concept of Evolution", essay included in "Iqbal Review", Ed. Dr. Rafiuddin, vol. 1, April 1960, No. 1, Karachi, p. 39

۲۰۔ اکبر الٰہ آبادی، ’’کلیات اکبر‘‘، پنجاب پبلشرز، کراچی: سن ندارد، ص ۳۸

۲۱۔ 

 Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", p.12

۲۲۔ زبور عجم، ص ۷۵

۲۳۔ ضرب کلیم ص ۴۱

۲۴۔

 Riehl, Dr. A., "Introduction to the theory of Science and Metaphysics", Regan Paul, Trench & Trubner & Com., L.T.D, London,: 1894, p.75,76




خطبات کی روشنی میں اقبال کے افکار کا مختصر جائزہ

پروفیسر عابد صدیق

علامہ اقبالؔ نے مدراس مسلم ایسوسی ایشن کی دعوت پر ۳۰۔۱۹۲۹ء میں اِلٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید کے سلسلے کے چھہ خطبے تحریر کِیے، جن میں سے تین مدراس اور تین علی گڑھ میں پڑھے۔ میسور اور حیدرآباد دکن میں بھی بعض خطبات کا اعادہ کیا۔ پہلی بار یہ خطبے ۱۹۳۰ء میں لاہور سے شائع ہوئے۔ دوبارہ یہ خطبات بعض لفظی ترامیم اور ایک مزید خطبے کے اضافے کے ساتھ ۱۹۳۴ء میں انگلستان میں آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے ’’Reconstruction of Religious Thought in Islam‘‘ کے عنوان سے چھپے۔ یہ ساتواں خطبہ حضرت علامہ نے ارسطو سوسائٹی لندن (Aristotelian Society) کی دعوت پر ۱۹۳۲ء میں پڑھا۔

علامہ اقبالؔ کے یہ خطبات اسلامی حکمت اور مغربی فلسفہ کا نچوڑ ہیں۔ اِن خطبات میں حضرت علامہ نے موجودہ زمانے کے فکری مسائل اور فلسفیانہ موضوعات پر اسلامی حکمت کے حوالے سے تنقید بھی کی ہے اور مغرب کے جدید علوم کی روشنی میں حکمتِ اسلامیہ کے بعض اہم مسائل کی تشریح کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ اور اپنے یقین کی حد تک حضرت علامہ نے کامیاب کوشش کی ہے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ کسی سوال کا قطعی جواب دینا فلسفہ کی حدود سے خارج اور اُس کی روح کے منافی ہے، البتہ فلسفہ موجود سوالات کو زیادہ قابلِ فہم انداز میں پیش کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے، اور مسائل کی تفہیم میں نئے ربط اور نئی ترتیب کے ذریعے اُن کے نئے رخ اور نئی جہات کی تلاش اس کے منصب میں داخل ہے۔ چناں چہ حضرت علامہ نے خطبات کے مقدمے میں فلسفے کی حدود اور طریقِ کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: 

’..... فلسفیانہ افکار میں کوئی قطعیّت موجود نہیں ہوتی..... میرے پیش کردہ نظریات سے ممکن ہے بہتر اور مناسب نظریات پیش کِیے جائیں۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم فکرِانسانی کی روزافزوں ترقی کا بنظرِغائر مطالعہ کرتے ہوئے آزادانہ تنقید کا طریقِ کار اختیار کریں۔‘

حضرت علامہ نے اِن خطبات کی تیاری میں یہی طریقِ کار اختیار کرتے ہوئے انسانی فکر کا جو سرمایہ اُن تک پہنچا، اُس کی تنقید اور تنقیح کرکے مختلف فلسفیانہ مسائل پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے، اور ایک مرتَّب نظامِ فکر پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو اسلامی اِلٰہیات کی جدید تعبیر پر مبنی ہے۔ علومِ جدیدہ کی اصطلاحات کی روشنی میں مذہبی واردات کے حوالے سے اسلامی اِلٰہیات کی یہ تشریح بذاتِ خود بہت مشکل کام تھا۔ مزید برآں یہ کہ حضرت علامہ نے اِس کام کے لیے نہایت ادَق اسلوب اختیار کیا۔ اِن خطبات کے اِس قدر مشکل انگریزی زبان میں تحریر کرنے کا سبب جب حضرت علامہ سے دریافت کیا گیا تو ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب کی روایت کے مطابق حضرت علامہ نے فرمایا: 

’مسلمانوں میں دین والا آدمی جب فلسفے کی اصطلاحوں میں بات کرتا ہے تو اُس کی بات میں وقار اور وزن پیدا ہوجاتا ہے۔ مگر محض فلسفے والا آدمی جب دین کی بات کرتا ہے تو اُس کی نہ فلسفیانہ حیثیت ہوتی ہے اور نہ دینی لحاظ سے اُس میں وزن۔‘

حضرت علامہ بلاشبہہ دین والے آدمی تھے۔ وہ مغربی فلسفیانہ افکار، جدید نظریات اور سائنسی انکشافات سے قطعاً مرعوب نہ تھے، اور وہ دنیا کے تمام نظام ہائے حیات پر دینِ اسلام کی فوقیت کا یقینِ کامل رکھتے تھے۔ اور وہ دانشِ برہانی کے ذریعے ہی دانشِ قرآنی کی عظمت، فوقیت اور قطعی صداقت کے صدقِ دل سے قائل ہوئے۔ حضرت علامہ کے ارشاد کے مطابق اِن خطبات کا ترجَمہ ’تشکیلِ جدید اِلٰہیاتِ اسلامیہ‘ کے نام سے کیا گیا۔ اِس نام کی وضاحت کرتے ہوئے سید نذیر نیازی لکھتے ہیں کہ: 

’’..... ’تشکیل‘ ایک نئی فکر کی تشکیل ہے۔ ’اِلٰہیات‘ عقل اور ایمان کا وہ نقطۂ اتصال ہے جس کی بناء، علم پر ہے۔ اور ’اسلام‘ محسوس حقائق کی اِس دنیا میں زندگی کا راستہ ہے۔‘‘ 

عنوان کی اِس تشریح سے علامہ کے اِن خطبات کے موضوع پر روشنی پڑتی ہے۔ فکر کی اِس نئی تشکیل کے مَباحث کا خلاصہ یہ ہے کہ عقل کی بنیاد علم باالحواس ہے اور ایمان کی بنیاد علم بالوحی ہے۔ اور اسلام انسان کے فکری اِرتقا میں استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ اقبالؔ عقل و فکر اور وجدان و ایمان کو ایک دوسرے کا معاون قرار دیتے ہیں۔

اسلامی فلسفے کی دنیا میں اِن خطبات کے مقام کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈاکٹر اینماری شمل (Dr Annemarie Schimmel) نے Gabrial's Wing میں اور ڈاکٹر سید حسین نصر نے خطبات کے فارسی ترجَمے کے مقدمے میں اِن خطبات کو دوسری احیائے علوم الدین کہا ہے۔ یعنی جس طرح حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ نے احیائے علوم الدین میں اپنے زمانے کے تمام فلسفوں کا جائزہ لیتے ہوئے عقلی اور فلسفیانہ بنیادوں پر اسلام کی برتری ثابت کی تھی، وہی کام اِس دور میں حضرت علامہ نے کیا ہے۔ مذہب کو چند غیر عقلی اعتقادات و تبرکات کا مجموعہ سمجھنے کی جس غلطی میں مادہ پرست فکر کے حامل فلسفی اکثر گرفتار ہوجاتے ہیں، علامہ نے اُن کے افکار پر کڑی تنقید کی ہے اور بتایا ہے کہ دین یا اسلام ایک فعال تمدنی قوت کا نام ہے، جو انسانی زندگی کی تمام عملی و فکری ضروریات میں اُس کی رہنمائی کا فرض ادا کرتا ہے۔ اور اِسی بحث کے دوران میں وہ وسیع پیمانے پر فلسفہ، مابعدالطبیعیات، تاریخ، نفسیات، طبیعیات اور ریاضیاتی سائنس کے مشہور نظریات کا جائزہ لیتے ہیں۔ اِن مَباحث میں اُن کا رویہ آزادانہ تنقید کا ہے۔ اِن علوم کے معلوم کی نفی کرنا اُن کا مقصود نہیں بلکہ معقول تفہیم و تشریح کے ذریعے اُس کی حدود کا تعین ہے۔ تلاشِ حقیقت کے سفر میں جدید علوم کا یہ معلوم جب فکرِانسانی کو خلاؤں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیتا ہے تو علم بِالوحی انسان کی رہنمائی کے لیے آتا ہے۔ اِس طرح حضرت علامہ ذات و کائنات کے مسائل کے حل کے لیے روحانی واردات، مذہبی تجربہ اور وجدانی حقائق سے بحث کرتے ہیں، اور مختلف عنوانات کے تحت اِن مَباحث کو اپنے ساتوں خطبوں پر پھیلاکر نوعِ انسانی کی فکری رہنمائی کی کوشش کرتے ہیں،جس کے لیے ۱۹۰۸ء میں یورپ سے واپسی کے بعد سے ۱۹۳۸ء میں انتقال تک کے پورے عرصے میں وہ مسلسل بے تاب رہتے ہیں۔ اردو شاعری، پھر فارسی شاعری، اور پھر انگریزی کے یہ خطبات-- سب اُسی حکیمانہ شعور کو الفاظ کا جامہ پہنانے کی کوشش ہیں جو اقبالؔ کو مسلسل غور و تدبر اور فکر و ذکر سے حاصل ہوا۔ اِن خیالات کی ترتیب و اظہار میں حضرت علامہ نے کس قدر دکھ اُٹھایا اور کیسے کیسے یاس انگیز لمحات میں اُنھوں نے اپنے دل میں جلنے والے اِس الاؤ کو سرد ہونے سے بچانے کے لیے جدوجہد جاری رکھی، اِس کا کچھ اندازہ ۱۹۰۹ء سے ۱۹۲۰ء تک کے اُن خطوط سے ہوسکتا ہے جو اُنھوں نے اِس عرصے میں اپنے دوستوں کو لکھے۔ ۱۹۰۹ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں: 

’..... وہ خیالات جو میری روح کی گہرائیوں میں ایک طوفان بپا کِیے ہوئے ہیں، عوام پر ظاہر ہوں توپھر مجھے یقینِ واثق ہے کہ میری موت کے بعد میری پرستش ہوگی۔ دنیا میرے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گی اور مجھے اپنے آنسوؤں کا خراجِ عقیدت پیش کرے گی۔‘ 

خیالات کے اظہار کی یہ تڑپ بالآخر ۳۰۔۱۹۲۹ء میں اِن خطبات کے لکھنے کا سبب بنی۔

اب اِن خطبات کے مَباحث کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔

پہلے خطبے ’’علم اور مذہبی مشاہدات‘‘ میں کائنات کی حقیقت، اور کائنات کی تغیرپذیری میں انسان کا منصب، کائنات اور خدا، کائنات اور انسان، انسان اور خدا کے باہمی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے اقبالؔ کائنات کے بارے میں فلسفہ اور مذہب کے رویہ کا جائزہ لیتے ہیں۔ فلسفہ اور مذہب کے مشترک اور غیرمشترک امور سے بحث کرتے ہیں۔ پھر ظاہر اور باطن یعنی مرئی اور غیرمرئی حقائق یا عالمِ محسوسات اور عالمِ اَقدار و اَرواح کے بارے میں مختلف مذاہب کا طرزِعمل بیان کرکے بتاتے ہیں کہ قرآن مطالعۂ انفس و آفاق پر کیوں زور دیتا ہے۔ پھر حقیقت تک رسائی کے ذرائع کی حیثیت سے عقل و وجدان پر بحث کرتے ہیں۔ اِن مَباحث کے ذیل میں وہ بتاتے ہیں کہ ایمان محض جذبے یا تأثر ہی کا نام نہیں بلکہ اِس میں عقل کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مذہبی اصولوں کا انحصار معقولیت پسندی پر ہے۔ لیکن دین و ایمان کو عقل کی روشنی میں دیکھنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ اُن پر فلسفے اور عقل کے تفوق کو تسلیم کرلیا جائے۔ فکر اور وجدان ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک ہی سرچشمے سے فیض یاب ہیں۔ برگساں (Bergson) کا یہ کہنا درست ہے کہ وجدان عقل ہی کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سقراط اور افلاطون محسوسات کے علم کو غیرحقیقی خیال کرتے ہیں، اِس لیے اعیانِ نامشہود (Invisible ideas) پرستار ہیں، جب کہ اسلام باطن کے ساتھ ساتھ ظاہر کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ اشاعرہ ۱؂ (Asharite Thinkers) کا نصب العین اسلام کے معتقدات اور اصولوں کی یونانی جدلیات (Dialectics) کی مدد سے حمایت کرنا تھا۔ کانٹ (Kant) نے انسانی عقل کی حدود واضح کیں، جب کہ غزالی عقلیت کی بھول بھلیوں سے نکل کر صوفیانہ واردات تک پہنچتے ہیں، جن سے عقل و فکر کی محدودیت اُن پر واضح ہوئی۔ البتہ وہ اِس حقیقت کو نہ پاسکے کہ عقل و وجدان آپس میں مربوط ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسلام کے اساسی تصورات کو فلسفیانہ انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگر انسان ترقی پذیر زندگی کی حرکت کو محسوس نہ کرے تو اُس کی روح پتھر کی مانند سخت ہوجاتی ہے، اور انجامِ کار انسان بے جان مادے کی سطح پر آجاتا ہے۔ اِس لیے حقیقتِ مطلَقہ کے کلّی اِدراک کے لیے ہمیں حسّی علم کے علاوہ علمِ باطن بھی سیکھنا چاہیے۔ اگرچہ ہمارے پاس کوئی ایسا مؤثر سائنسی طریقِ کار نہیں ہے جس کی وساطت سے ہم صوفیانہ شعور کے عناصرِترکیبی کا تجزیہ کرسکیں۔ جب کہ صوفیانہ مشاہدہ ہی حقیقت کے کلّی علم کے حصول کا باعث بنتا ہے۔

دوسرے خطبے کا عنوان ’’مذہبی مشاہدات کا فلسفیانہ معیار‘‘ ہے۔ اِس میں اُنھوں نے ہستی کے تین مدارج یعنی مادہ، حیات اور شعور پر مفصل بحث کی ہے۔ مادیت کی بحث میں اُنھوں نے نیوٹن (Newton)، زینو (Zeno)، اشاعرہ، ابنِ حزم، برٹرینڈ رسل (Bertrand Russell)، برگساں (Bergson)، آئن سٹائن (Einstein)، اور اوس پنسکی (Ouspensky) کے تصوراتِ زمان و مکان کا ذکر کیا ہے، اور پھر قرآنی تصورِزمان و مکان کا موازنہ ارسطو، آئن سٹائن اور میک ٹیگرٹ (McTaggart) کے نظریات سے کیا ہے۔ خدا کے وجود کے بارے میں کائناتی استدلال، غائتی استدلال اور وجودی استدلال کا جائزہ لیا ہے اور بتایا ہے کہ ہستیِ مطلق کے یہ تینوں ثبوت لائق تنقید ہیں۔ صرف قرآنِ حکیم ظاہر و باطن کی خلیج کو پاٹ کر اور وجود کی ثَنَویت (Dualism) کو ختم کرکے اُس حقیقتِ کاملہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بیک وقت ظاہر بھی ہے باطن بھی، اوّل بھی ہے آخر بھی۔

مادے کے قدیم نظریے یعنی زمان و مکان میں اُس کے مستقل بالذات ہونے کو آئن سٹائن نے باطل ٹھہرادیا۔ اقبالؔ وہائٹ ہیڈ (Whitehead) کے اِس نظریے سے اتفاق کرتے ہیں کہ فطرت کوئی جامد حقیقت نہیں بلکہ واقعات و حوادث کا ایسا مجموعہ ہے جو مسلسل تخلیقی رو کا مالک ہے۔ جب کہ نیوٹن کا نقطۂ نظر خالص مادی تھا۔ وہ مکان کو ایک آزاد خلا قرار دیتا ہے جس میں چیزیں معلق ہیں۔ زینو مکان کو لاتعداد ناقابلِ تقسیم نقاط پر مشتمل سمجھتا تھا۔ وہ حرکتِ مکانی کو ناممکن قرار دیتے ہوئے تیر کی مثال دیتا ہے کہ تیر حرکت کے دوران میں بھی جگہ کے کسی نہ کسی نقطے پر ٹھہرا ہوا ہوتا ہے۔ برگساں، ابنِ حزم، برٹرینڈرسل اور کینٹر (Cantor) وغیرہ نے زینو کے دلائل کو رد کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اقبالؔ اُن کی کوششوں کو کامیاب تصور نہیں کرتے بلکہ آئن سٹائن کے نظریۂ زمان کی وضاحت کرتے ہوئے اُس کے مکان کو حقیقی تصور کرنے کا ذکر کرتے ہیں۔ لیکن وہ اُسے دیکھنے والے کے مطابق اضافی خیال کرتا تھا۔ اِن پیچیدہ بحثوں کے بعد وہ شعور کی تعریف کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ شعور کا کام ایک ایسا نقطۂ نوری مہیّا کرنا ہے جو زندگی کی آگے بڑھنے والی حرکت کو منور کرسکے۔ شعور زندگی کے روحانی تنوع کا نام ہے۔ یہ مادہ نہیں بلکہ ایک تنظیمی اصول اور طریقِ عمل ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ سائنس حقیقتِ مطلَقہ کے جزئی اِدراک میں سرکھپاتی ہے جب کہ مذہب کلّی حقیقت کا مطالبہ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ زمان و مکان کی اِن نہایت مشکل بحثوں میں وہ بتاتے ہیں کہ شعوری زندگی حیات فی الزمان ہے۔ اور مکانی زمان میں بسر ہونے والی زندگی غیر حقیقی زندگی ہے۔ وہ اِن بحثوں میں کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِی شأن اور اَنَا الدَّھر کے حوالوں سے اسلامی تصورِزمان و مکان کی وضاحت کرتے ہیں، اور فطرت کو سُنَّتُ اللّٰہ قرار دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اِس کی نشوونما کی کوئی حد نہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ فطرت کا علم دراصل خدا کے طریقِ عمل کا علم ہے۔ وہ مسئلۂ زمان و مکان پر مفصل بحث کرتے ہوئے آخر میں کہتے ہیں کہ وقت کے رازِسربستہ کو حل کرنا کوئی آسان بات نہیں۔ خطبے کے اختتام پر وہ فلسفے کو پستی سے نکالنے کے لیے ذکر اور قربِ الٰہی کی ضرورت بیان کرتے ہیں، جسے مذہب کی اصطلاح میں دعا کہا جاتا ہے۔ وہ فکر و ذکر کے امتزاج پر زور دیتے ہیں۔

تیسرے خطبے ’’ذاتِ الٰہیہ کا تصور اور حقیقتِ دعا‘‘ میں وہ فرد کی تعریف اور انائے مطلق کی صفات پر بحث کرتے ہوئے سورۂ اخلاص اور سورۂ نور کا حوالہ دیتے ہوئے نورِایزدی کی مطلقیت کا ذکر کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ارادۂ تکوین اور فعلِ آفرینش ایک ہی ہیں۔ اس طرح وہ ثابت کرتے ہیں کہ کائنات کی اصل روحانی ہے۔ پھر زمان و مکان کے بارے میں وہ ملا جلال الدین دَوّانی، عین القضاۃ الھمدانی عراقی، برگساں اور پروفیسررائس (Royce) وغیرہ کے تصورات کا جائزہ لیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ زمانِ ایزدی زمانِ متسلسل سے بہتر ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ مذہبی واردات عقلی معیار پر پوری اترتی ہے۔ اِس واردات کی اساس ایک تخلیقی مشیئیت ہے، جسے انائے مطلق کہا جاسکتا ہے۔ اور قرآن اِس انائے مطلق کی انفِرادیت ظاہر کرنے کے لیے اِسے ’اللہ‘ کا خاص نام دیتا ہے۔ توالد کا رجحان انفِرادیت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ چوں کہ انسانوں کے لیے توالد و تناسل ضروری ہے اِس لیے وہ افرادِکامل نہیں بن سکتے۔ فردِکامل صرف خدا ہی ہے۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ زمان و مکان، انائے مطلق کی تخلیقی سرگرمی کی فکری تعبیرات ہیں اور ہم انائے مطلق کے امکانات کو اپنے ریاضیاتی زمان و مکان کی شکل میں جزوی طور پر محسوس کرسکتے ہیں۔ خدا کے لیے کائنات کوئی ایسا واقعہ نہیں جو ماقبل اور مابعد پر مشتمل ہو۔ یعنی ارادۂ تخلیق اور فعلِ تخلیق دو مختلف چیزیں نہیں۔ وہ اشاعرہ کے اِس خیال کا جائزہ لیتے ہیں کہ لاتعداد جواہر مل کر مکان کی وسعت اور تخلیق کا باعث بنتے ہیں، اور جوہری اعمال کے مجموعے کا نام شے ہے۔ مکان میں سے جوہر کے گزر کو حرکت کہا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اشاعرہ ابتدا اور انتہا کے درمیان واقع ہونے والے نقاط میں سے کسی چیز کے مرور کو اچھی طرح واضح نہیں کرسکے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جوہر صفتِ حیات کے حصول کے بعد مکانی نظر آتا ہے۔ اِس کی ماہیت روحانی ہے۔ نفس عملِ خالص ہے لیکن جسم ایک دیدنی اور پیمایش پذیر عمل ہے۔ زمانِ الٰہی مرور، تغیر، تواتر اور تقسیم پذیری سے عاری ہے۔ اِس ساری بحث کے آخر میں وہ اعتراف کرتے ہیں کہ جہاں تک وقت کی ماہیت اور اصلیت کا تعلق ہے، میں کوئی قطعی اور درست بات دریافت نہیں کرسکا۔

پھر وہ خیر و شر کا ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ ہستی جس کی حرکات و سکنات مکمل طور پر مشین کی طرح ہوں، نیکی کے کام نہیں کرسکتی۔ نیکی کے لیے آزادی شرط ہے۔ خدا نے انسانی خودی کو آزادیِ عمل کی نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ اِس کے بعد وہ دعا کی وضاحت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خارجی دنیا سے بے زار ہوکر باطن میں پناہ لیتے ہوئے ہستیِ مطلق کا قرب حاصل کرنا دعا ہے۔ دعا کی بدولت ہماری شخصیت کا چھوٹا سا جزیرہ ایک دم بحرِبے کراں بن جاتا ہے۔ تلاشِ حقیقت میں فلسفہ بہت سست رفتار ہے جب کہ دعا برق خرام ہے۔

چوتھے خطبے ’’خودی، جبروقدر، حیات بعد الموت‘‘ میں حضرت علامہ خودی کی بحث کرتے ہیں اور انسان کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ قرآن کے مطالعے سے تین باتیں بالکل واضح دکھائی دیتی ہیں۔ پہلی یہ کہ انسان خدائی برگُزیدہ مخلوق ہے۔ دوسری یہ کہ انسان اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود زمین پر خدا کا نائب ہے۔ تیسری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ انسان آزاد شخصیت کا امین ہے جسے اُس نے خطرہ مول لے کر قبول کیا تھا۔ اِس خطبے میں وہ ماضی سے رشتہ منقطع کِیے بغیر اسلامی تعلیمات کو جدید علوم کی روشنی میں بیان کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں، اور پھر خودی کی وضاحت کی طرف آجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خودی وابَستۂ مکان نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ تاج محل کے حسن و جمال کے بارے میں میرا جذبۂ تحسین آگرہ سے مَسافت کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ اِسی طرح زمان بھی خارجی دنیا میں ماضی، حال اور مستقبل کی صورت اختیار کرنے کے باوجود اندرونی دنیا میں ناقابلِ تقسیم ہوتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ خلوت پسندی خودی کی یکتائی کا اظہار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شعوری تجربہ خودی کے روحانی جوہر کا صحیح سراغ نہیں دے سکتا لیکن اِس کے باوجود شعوری تجربے کی تعبیر ہی وہ شاہراہ ہے جس پر چل کر ہم خودی کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ پھر وہ بتاتے ہیں کہ نماز یا دعا دراصل خودی کا میکانیت یا جبر سے آزادی کی طرف گریز ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ تکرارِعمل مشین کا خاصہ ہے نہ کہ انسان کا۔ اگر ہر واقعہ نیا نہیں تو ہمارے لیے زندگی میں کوئی جاذبیّت باقی نہیں رہتی۔ بقائے ذات ہمارا پیدایشی حق نہیں بلکہ ہمیں اپنی ذاتی کوششوں سے اِسے حاصل کرنا پڑے گا۔ انسان صرف اِس کے لیے امیدوار ہے۔

پانچویں خطبے ’’اسلامی ثقافت کی روح‘‘ میں حضرت علامہ اسلامی کلچر کی روح کا ذکر کرتے ہیں ، اور نبوت اور ولایت کا فرق واضح کرتے ہیں۔ ولی کا منتہائے مقصود صرف ذاتِ ربّانی سے وصال ہے لیکن نبی اِس صعود کے بعد ہدایتِ عامہ کے لیے نزول کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پیغمبرِاسلام دنیائے قدیم اور دنیائے جدید کے درمیان کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ اپنے اِلہام کے سرچشمے کی بدولت عالمِ قدیم سے متعلق ہیں، لیکن اپنی اِلہامی سپرٹ کی وجہ سے عصرِحاضر سے مربوط ہیں۔ اُن کی بدولت زندگی نے اپنی نئی سمتوں کے مناسب علوم اور نئے سرچشمے دریافت کِیے۔ دراصل اسلام کا ظہور استقرائی عقل کا ظہور ہے۔ وہ فقہ کو اسلام کا اصولِ حرکت قرار دیتے ہیں جو اُسے سب زمانوں کے لیے کافی بنادیتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ قرآن کی رو سے حصولِ علم کے تین ذرائع ہیں: باطنی مشاہدہ، مطالعۂ فطرت اور تاریخ۔ وہ بتاتے ہیں کہ جس ثقافت کا نقطۂ نظر یہ ہو، زمان و مکان اُس کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابنِ خلدون نے سب سے پہلے اسلام کی ثقافتی تحریک کی روح کو شدت کے ساتھ محسوس کرکے اُسے منظم طور پر بیان کیا ہے۔

خطبۂ ششم ’’الاجتہاد فی الاسلام‘‘ میں حضرت علامہ اسلام کے اصولِ حرکت یعنی فقہ کا تفصیلی ذکر کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ملتِ اسلامیہ ہی کو قیادتِ عالم سزاوار ہے۔ اسلام اپنے حرکی نظریۂ حیات اور تصورِتوحید کی وجہ سے تمام زمانوں کو محیط اور بنی نوعِ انسان کی وحدت کا ذمہ دار ٹھہرتا ہے، اِس لیے اسلام ہی کسی قوم کو قیادتِ اقوام کا اہل بناتا ہے۔ وہ فقہی جمود کا جائزہ لیتے ہیں اور اِس کے اسباب میں عقل پرستی کی تحریکوں، راہبانہ تصوف اور سیاسی انتشار کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دین اور سیاست دو مختلف حقیقتیں نہیں بلکہ اسلام کی واحد حقیقت کے شُءُون ہیں۔ وہ عقیدۂ توحید کو بنی نوعِ انسانی کی وحدت کا ذریعہ قرار دیتے ہیں، جو مصنوعی امتیازاتِ رنگ و نسل وغیرہ کو مٹاکر ساری انسانیت کو ملتِ واحدہ بناسکتا ہے۔ پھر وہ قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس-- یعنی اَدِلّہ شرعیہ پر بحث کرتے ہیں، جن کی وجہ سے اسلام کا ہر زمانے اور کل انسانیت کے لیے منبعِ ہدایت ہونا ممکن ہے۔

آخری خطبے ’’کیا مذہب کا امکان ہے؟‘‘ میں حضرت علامہ مشرق و مغرب کی اقوام کی زبوں حالی کا تذکرہ کرتے ہوئے مذہب کو اِس تمام تشتت و افتراق سے نکلنے کا واحد ذریعہ قرار دیتے ہیں اور خودی کا نصب العین واضح کرتے ہوئے خودی کی حامل جماعت کا نائبِ حق ہونا ظاہر کرتے ہیں، اور فرسودہ تصوف اور لادین اشتراکیت و قومیت کی بے سوادی اور ناکامی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ خودی کا مقصد اثباتِ ذات قرار دیتے ہیں اور نائبِ حق جماعت کا فریضہ اور زمانی نصب العین یہ بتاتے ہیں کہ وہ خدا کی وحدانیت و حاکمیت کی ترجُمانی کرتی رہے۔




سیمینار: ’’ریاست و حکومت: علامہ اقبال اور عصری مسائل‘‘

ادارہ

(یونیورسٹی آف گجرات اور اقبال اکادمی پاکستان کے اشتراک سے قومی سیمینار۔)

عصر حاضر کے عالمِ اسلام میں جن مفکرین کے نام سرِ فہرست آتے ہیں ان میں علامہ محمد اقبال کو مقامِ نام آوری اور مسندِ امتیاز و افتخار حاصل ہے ۔ لطافتِ خیال اور وسعت فکر میں ان کو اپنے عہد کی عظیم شخصیتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے جس مہم کا آغاز کیا اور جس تصور کی عملی تشکیل کی اس میں شاعرانہ حسن تخیل، فلسفیانہ ژرف نگاہی، مجاہدانہ روح اور قوت ارادی ان کے شریک کار رہی۔ ان کی نظم و نثر کا ہر پہلو ان کے جلوۂ ذہانت اور بصیرت حکیمانہ کا آئینہ دار ہے۔ حضرت اقبال کا فلسفہ اور شاعری بہت سے ارباب دانش کا موضوع فکر بنا لیکن ان کے منظرِفکر و بصیرت کے مختلف گوشوں میں سے جن میں سیاسیات، مذہبیات، اخلاقیات اور الٰہیات شامل ہیں۔ اقبال کے سیاسی نظریات کا چہرہ تاحال حجاب آفریں اور متضاد تصورات کے بے ربط امتزاج کے تاریک غبار میں پنہاں ہے جو ان کے نظام فکر سے وابستہ کر دیئے گئے ہیں۔ بلا شبہ علامہ اقبال کے سیاسی تصورات کے مفہوم و افادیت کا ابھی تک واقعیت پسندی کے ساتھ اس حد تک جائزہ نہیں لیا گیا جہاں تک اس کی اہمیت کا اقتضا ہے ۔ 

اسی تناظر میں یوم اقبال کے ضمن میں جامعہ گجرات نے فکر اقبال کے عصری تقاضوں کے حوالے سے ’’قومی دانشگاہ‘‘ کی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے اقبال اکادمی پاکستان کے اشتراک سے 15 نومبر کو فکر انگیز قومی سیمینار بعنوان ’’ریاست و حکومت: اقبال اور عصری مسائل‘‘ کا انعقاد ممکن بنایا۔ میزبانی رئیس الجامعہ گجرات ڈاکٹر محمد نظام الدین نے کی جبکہ فرزند اقبال جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال نے صدارت کی۔ ڈائریکٹر اقبال اکادمی پاکستان ڈاکٹر محمد سہیل عمر، لمزسے ڈاکٹر اعجاز اکرم، ممتاز کالم نگار، دانشور و اینکرخورشید ندیم، اقبال اکادمی کے ڈاکٹر طاہر حمید تنولی اور مدیر ماہنامہ الشریعہ، محمد عمار خان ناصر نے پر مغزمقالات پیش کیے۔ 

ڈاکٹر محمد نظام الدین نے سیمینار کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ افکار اقبال کو سمجھنے کے لیے یہ بنیادی بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ وہ تاریخ اسلام کے ایسے موڑ پر ابھر کر سامنے آئے جب امت مسلمہ بحیثیت مجموعی صدیوں کی غلامی ، محکومی اور علمی و عملی جمود و انحطاط کے بعد پھر ایک آزاد قوم بن کر ابھرنے والی تھی اور سامراجی، شہنشاہی اور نو آبادیاتی طاقتوں کے چنگل سے نکل کر ایک آزاد قوم کی طرح اپنے مستقبل کے تعمیر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کا مشکل چیلنج اس کے سامنے تھا۔ ایسے جمود زدہ اور زوال زدہ سماج میں ایک جرات مند راہبر و مفکر کی ضرورت تھی یہ راہنما علامہ اقبال کی صورت میں ابھر کر سامنے آیا۔ اقبال نے بالخصوص خطبات میں اپنے عہد کے اہم سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی، یہ سوال کوئی نئے نہیں تھے۔ تاریخ کئی بار ان کے جواب دے چکی تھی لیکن مذہبی فلسفے کا ہر زمانے کی علمی سطح سے تعلق ہوتا ہے۔ جب وہ سطح بدل جاتی ہے تو ان کی عصری قدر و قیمت بھی ختم ہو جاتی ہے، لہٰذا یہ ضروری نہیں کہ ہم اقبال کے پیش کردہ جوابات سے مطمئن ہو کر بیٹھے رہیں۔ اقبال کو ہم اسی طریقے سے حیاتِ نو دے سکتے ہیں جس طرح انہوں نے اپنے اسلاف کے افکار و خیالات کا تنقیدی محاکمہ کیا تھا ۔ صرف پھولوں کی چادر چڑھانے سے اقبال کو زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔شیخ الجامعہ نے مقالہ نگاروں اور حاضرین کو خوش آمدید کہتے ہوئے شرکت پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ 

فرزندِ اقبال جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ یونیورسٹی آف گجرات کا عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نظام تعلیم و تدریس دیکھ کر جی خوش ہو گیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ گجرات جیسے دور دراز علاقے میں ایسی دانش گاہ قومی اور عصری چیلنجوں کو قبول کر کے ان سے عہدہ برآہ ہونے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے ہوئے۔ جسٹس جاوید اقبال نے اقبال اور فلاحی ریاست کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کے نامکمل کام مکمل کیے جائیں۔ اقبال فکر قرآن کے حوالے سے تحقیقی کام کے خواہشمند تھے مگر زندگی میں اس پر تحریری کام نہ کر سکے۔ اسی طرح وہ اجتہاد پر کام کے خواہشمند تھے ۔ اقبال کو رخصت ہوئے ۷۳ سال ہو گئے، ہم وہیں کھڑے ہیں ۔علامہ اقبال نے امام غزالی کے بعد ایک ہزار سال میں پہلی مرتبہ واضح کیا کہ تین منفی طاقتیں ہیں جن کے خلاف جہاد کی ضرورت ہے ۔ مطلق العنان ملوکیت، ملائیت او ر تصوف۔ ان کے خلاف جہادکے ذریعے ہی مسلم معاشرہ وجود میں لایا جاسکتا ہے ۔ 

ڈاکٹر جاوید اقبال نے مزید کہا کہ صحیح معنوں میں کوئی آئیڈیل سیکولر ریاست یا روحانی جمہوریت ہی فلاحی ریاست ہو سکتی ہے ہے جو دوسرے مذاہب کا احترام کرے تو وہ صرف اقبال کی تجویزہ کردہ جدید فلاحی اسلامی ریاست ہے ۔ اقبال سوشلزم اور کمیونزم کے بھی اتنے ہی خلاف تھے جتنے سرمایہ دارانہ نظام کے کیونکہ وہ اسلامی فلاحی ریاست کے تصور میں یقین رکھتے تھے۔ پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کے اجتہاد کی تخلیق ہے۔ یہ روایتی اسلامی تحریکوں کا نتیجہ نہیں تھا۔ پاکستان کو فکر اقبال کے تناظر میں چلانے کے لیے بھی اجتہادی سوچ کی ضرورت ہے ۔ ہماری قوم نے سیاسی آزادی تو حاصل کر لی ہے، لیکن ذہنی طور پر وہ ابھی تک مغلوب ہے۔ ہم نے اپنے آپ کو ابھی تک دوسری اور تیسری صدی کے تقاضوں اور ضروریات کا غلام بنا رکھا ہے ۔ اقبال اور فلاحی ریاست وہ موضوع ہے جس پر ہمیں چودہ اگست ۱۹۴۷ء کے فوراً بعد ہی غور کرنا چاہیے تھا تاکہ ہم جدید اسلامی ریاست کو قائم کر کے اس کے سیاسی و تہذیبی ارتقاء کے لیے راہ ہموار کر سکتے۔

LUMS  کے ڈاکٹر اعجاز اکرم نے ’’فکر اقبال کا پس منظر اور مسلم سیاسی فکر ‘‘کے عنوان سے مقالے میں کہا کہ علامہ اقبال نے فکر اسلامی کو اپنے عصری تقاضوں کی روشنی میں سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ۔اقبال عصری تقاضوں کو اسلام کے ماضی سے رشتہ توڑ کر نہیں بلکہ اس رشتے کو اور بھی مضبوط کر کے پورا کرنا چاہتے تھے، اس لیے فکر اقبال کو سمجھنے کے لیے خود فکر اسلامی کے اس تاریخی ارتقا کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے جو وحی و رسالت کی ساتویں صدی سے چل کر اقبال کی بیسویں صدی تک پہنچتا ہے ۔ یہ بہت طویل اور پیچیدہ سفر ہے گذشتہ پندرہ سو سالوں میں اسلامی فکر مختلف اور متنوع ادوار سے گزری ہے۔

ڈاکٹر محمد سہیل عمر نے ’’مسلم سیاسی فکر اور اقبال کا تصور اجتہاد ‘‘ کے موضوع پر کہا کہ اسلامی تاریخ کے دور جدید میں اقبال ان بلند پایہ اہل بصیرت میں شامل ہیں جو مذہب و سیاست میں اجتہاد کی حمایت کرتے ہیں ۔اقبال کے خیال میں اسلام کا تصورِ حیات جامد نہیں بلکہ متحرک ہے ۔ مسلمانوں کے زوال و انحطاط کا اہم سبب ہی یہ ہے کہ مسلمانوں کی قوت فکر بصیرت و اجتہاد سے محروم ہو گئی ۔ تاہم اجتہاد کا دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی بند کر سکتا ہے ۔ اقبال کے خیال میں اجتہاد حسن تغیر اور حرکت ارتقا کا وسیلہ ہے۔

خورشید احمد ندیم نے ’’جمہوریت اور فکر اقبال ‘‘کے موضوع پر سیر حاصل مقالے میں کہا کہ اقبال اور جمہوریت دونوں کے بارے میں ایک چیز مشترک ہے کہ دونوں کے بارے میں ہمارا علم تا حال ادھورا ہے ۔ علامہ اقبال لبرل ڈیمو کریسی کی بجائے روحانی جمہوریت کی بات کرتے ہیں ۔ اقبال پوری کائنات کی روحانی تعبیر و تشکیل کرنا چاہتے ہیں، وہ کائنات کی مابعد الطبعیاتی تعبیر کرنا چاہتے ہیں۔ مغربی جمہوریت معیشت کی مادری ضروریات کی کوکھ سے جنم لیتی ہے ، جبکہ روحانی جمہوریت کی اساس کہیں اور جاتی ہے ۔ ہمیں جمہوریت کی بھی تعبیر نو کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے جمہوری نظام کی ضرورت ہے جو ظاہر میں مغربی طریقہ ہی ہو مگر اس کی روح روحانی ہو۔

ڈاکٹر طاہر حمید تنولی نے ’’اقبال کا تصور ریاست و حکومت‘‘ کے موضوع پر جامع مقالہ پیش کیا اور کہاکہ اقبال حقیقت میں احیائے اسلام کے شاعر و مفکر ہیں، اس لیے ان کے ذہنی و فکری ارتقا کو تحریک احیائے اسلام کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے ۔ صرف برصغیر میں مسلم ریاست کے قیام سے ان کے خواب کی تکمیل نہیں ہوئی۔ وہ تمدن اسلامی کے احیا کے شاعر تھے ۔ بلاشبہ علامہ اقبال کا تصور ریاست و حکومت روحانی جمہوریت اور اجتہاد کے گرد گھومتا ہے ۔ 

محمد عمار خان ناصر نے ’’خروج کے کلاسیکل اور معاصر موقف، فکر اقبال کے تناظر میں ‘‘ ایک مشکل موضوع کو عام فہم بناتے ہوئے کہاکہ اقبال مسلم ریاست میں اسلامی قانون کی تعبیر و تشریح کے حق کو مذہبی علماء تک محدود رکھنے کے بجائے جدید قانون اور دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین کو شریک کرنے کے قائل ہیں ۔انہوں نے تھیاکریسی کے تصور کی مکمل نفی کرتے ہوئے اجتہاد کا حق مسلمانوں کی منتخب پارلیمنٹ کو دینے اور پارلیمنٹ کی راہنمائی کے لیے مذہبی علما کو اس کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی جسے پاکستان میں عملی طور پر اختیار کیاگیا۔ ریاست و حکومت سے متعلق عصری مسائل پر غور کرتے ہوئے فکر اقبال کے تناظر میں خروج پر بحث فروعی اور اطلاقی ہے ۔ ایسی فروعی فقہی بحثیں فکر اقبال کا موضوع نہ رہیں تاہم گہری نظر سے دیکھا جائے تو خروج کے موضوع سے اقبال کا تعلق واضح دکھائی دیتا ہے ۔خروج کے معاملے کے تمام فریقین اگر فکر اقبال سے راہنمائی لیتے ہوئے اپنے رویوں اور طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کر لیں تو پاکستان اور پاکستانی قوم کو اس بحران سے نکالا جاسکتا ہے ۔ اس کے لیے تمام گروہوں میں مثبت ڈائیلاگ کو فروغ دینا ہماری ذمہ داری ہے ۔ 

علامہ اقبال کی سیاسی فکر کے حوالے سے منعقدہ اس سیمینار میں مقالہ نگاروں نے جامع اور تنقیدی خیالات کا بھرپور اظہار کیا ۔ بلاشبہ آج پاکستان ایسے ہی متغیر دور سے گزر رہا ہے جو ترکی میں ۱۹۲۴ء میں اختتام پذیر ہوا ۔ پاکستان کے روایت پسند حلقوں نے اپنے پیش رو ترک علماء کی طرح اسلامی تعلیمات کو روایتی فقہ کے نفاد کے مترادف قرار دے رکھا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ جب تک معاشرہ صنعتی طور پر ترقی کر کے جاگیردارانہ اور استعماری تسلط سے نجات حاصل نہیں کر لیتا اور جب تک مذہبی علوم کی تدریس جدید علوم کی روشنی میں نئے سرے سے نہیں دی جاتی یہ بحث جاری رہے گی ۔ کسی بھی زندہ معاشرے میں جوابات کی اتنی اہمیت نہیں ہوتی جتنی ان سوالات کی جو عالمانہ جرات و بصیرت سے جنم لیں ۔ اس سیمینار میں سنجیدہ اور شعوری بیداری کے حامل سوالات اٹھائے گئے ۔ اقبال کی فکر کے متحرک تصور کو ابھارنے میں یونیورسٹی آف گجرات اور اس کی وژنری قیادت نے فعال کردار ادا کیا جس کو تمام مقررین ، حاضرین اور دانشوروں نے سراہا اور امید کی کہ جامعہ گجرات میں افکار تازہ کا جھونکا قومی فکر و ترقی میں بہار کی نوید ثابت ہو گا ۔

(رپورٹ: شیخ عبد الرشید)





خروج ۔ کلاسیکل اور معاصر موقف کا تجزیہ، فکر اقبال کے تناظر میں

محمد عمار خان ناصر

(اقبال اکادمی لاہور اور یونیورسٹی آف گجرات کے زیر انتظام ۱۵؍ نومبر ۲۰۱۱ء کو ’’ریاست و حکومت: اقبال اور عصری مسائل‘‘ کے عنوان پر منعقدہ سیمینار کے لیے لکھا گیا۔)


ریاست و حکومت سے متعلق عصری مسائل پر غور کرتے ہوئے فکر اقبال کے تناظر میں ’’خروج‘‘ کے موضوع کو زیر بحث لانا بظاہر عجیب دکھائی دیتا ہے، اس لیے کہ ’’خروج‘‘ کی بحث بنیادی طور پر ایک فروعی اور اطلاقی فقہی بحث ہے جبکہ اس نوعیت کی بحثیں عام طور پر اقبال کے غور وفکر کے موضوعات میں داخل نہیں۔ تاہم ذرا گہرائی سے موضوع کا جائزہ لیا جائے تو اس بحث کے ضمن میں فکر اقبال کی relevance اور اہمیت بہت نمایاں ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔

فقہ اسلامی میں ’خروج‘ کی اصطلاح اس مفہوم کے لیے بولی جاتی ہے کہ مسلمانوں کی ریاست میں بسنے والا کوئی گروہ اپنے کسی مذہبی تصور کی بنیاد پر، جس میں وہ اپنے آپ کو برحق اور اپنے مخالفین کو باطل پر سمجھتا ہو، یا حکمرانوں کے واقعی ظلم وجبر یا فسق وفجور کے تناظر میں مسلمانوں کے نظم اجتماعی کے خلاف ہتھیار اٹھا لے اور طاقت کے زور پر نظام حکومت کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے۔ اس بنیادی نکتے کے لحاظ سے ’خروج‘ کے مفہوم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا اور دور جدید میں ریاستی نظم کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والوں پر یہ اصطلاح اسی طرح قابل انطباق ہے جس طرح دور قدیم میں تھی۔ تاہم فکری پس منظر اور عملی محرکات اور اسباب کے اعتبار سے دور قدیم کے ’خروج‘ اور دور جدید کے ’خروج‘ میں بعض بنیادی نوعیت کے فرق پائے جاتے ہیں جن کا درست فہم حاصل کیے بغیر اس بحث کی تنقیح نہیں کی جا سکتی۔

کلاسیکی دور میں ’خروج‘ کی بحث اسلامی ریاست کے داخلی دائرے میں علم سیاسیات کے اس سوال کا جواب دینے تک محدود تھی کہ اگر حکمران اپنی ان ذمہ داریوں سے گریز کی روش اختیار کر لیں جن کی ادائیگی کے لیے انھیں اس منصب پر فائز کیا گیا ہے تو کیا ان کا حق حاکمیت برقرار رہتا ہے یا نہیں اور اگر نہیں تو پھر انھیں ان کے منصب سے معزول کرنے کا طریقہ کیا ہونا چاہیے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اس اصول کا ذکر تو بہت وضاحت سے ملتا ہے کہ عوام پر حکمرانی کا حق اسی طبقے اور انھی لوگوں کو حاصل ہے جنھیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہو اور وہ انھیں اپنے اوپر حکمران دیکھنا چاہتے ہوں، چنانچہ آپ نے اپنے بعد جزیرۂ عرب میں قائم ہونے والی ریاست میں حکمرانی کے حق کو اسی بنیاد پر قریش کے لیے مخصوص قرار دیا کہ اہل عرب اس وقت کے مخصوص تمدنی اور تاریخی پس منظر کے لحاظ سے اس منصب پر انھی کو فائز دیکھنا چاہتے تھے اور ان کے علاوہ کسی اور گروہ کی قیادت وسیادت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ تاہم، اسلامی سیاست کے اس بنیادی اصول کی وضاحت سے آگے بڑھ کر، شرعی نصوص میں حکمرانوں کے طریق انتخاب اور خاص طور پر انھیں ان کے منصب سے معزول کرنے کے ضمن میں کوئی متعین راہ نمائی نہیں ملتی۔ 

منصب اقتدار پر فائز ہونے کے بعد کسی صاحب منصب کو اس کی زندگی میں معزول کرنے کی ظاہری صورتیں تین ہی ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ حکمران کے عزل ونصب کے لیے اس سے بالاتر کوئی اتھارٹی ہو جس کا فیصلہ اس پر قانوناً نافذ العمل ہو۔ مسیحیت میں یہ اختیار خدا کی براہ راست نمائندگی کے تصور کے تحت پوپ کو حاصل تھا، لیکن اسلام میں نہ صرف یہ کہ ایسا کوئی ادارہ تجویز نہیں کیا گیا، بلکہ اس تصور کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ حکمران ازخود اقتدار سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہو جائے جو ظاہر ہے کہ ایک نادر الوقوع صورت ہے۔ تیسرے یہ کہ خود رعایا کو اپنے حکمرانوں کو معزول کرنے کا اختیار حاصل ہو۔ اسلام کے مزاج اور اس کے تعلیم کردہ سیاسی تصورات سے ہم آہنگی رکھنے والی صورت یہی تھی، تاہم عوام کے اپنے اس اختیار کو پرامن انداز میں موثر طور پر بروے کار لانے کے لیے ریاستی قوت کے بالمقابل جن اجتماعی اداروں کی ضرورت تھی، وہ اس وقت کے حالات میں دست یاب نہیں تھے اور چونکہ تمدنی اور تہذیبی احوال میں کوئی جوہری تبدیلی چند دنوں یا سالوں میں پیدا نہیں کی جا سکتی، اس لیے مستقبل قریب میں بھی اس کی بظاہر کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس تناظر میں راہ راست سے ہٹ جانے والے حکمرانوں کی معزولی کا طریقہ جو عملی طور پر موثر اور نتیجہ خیز ہو سکتا ہو، یہی بچتا تھا کہ لوگ ہاتھ میں تلوار لے کر حکمرانوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں اور بزور قوت انھیں ان کے منصب سے معزول کرنے کی کوشش کریں۔ اس طریقے کو اختیار کرنے کے نتیجے میں مسلمانوں کے معاشرے میں خون خرابے اور فساد کی جس صورت حال کا رونما ہونا یقینی تھا، اس کے پیش نظر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی اور ’کم تر برائی‘ (lesser evil) کے اصول پر اس کی جگہ حکمرانوں کے بگاڑ کو گوارا کرنے کو قابل ترجیح قرار دیا۔ آپ نے اپنے متعدد ارشادات میں اس صورت حال کو موضوع بحث بنایا اور یہ واضح فرمایا کہ اگر مسلمانوں کے حکمران اصولی طور پر اسلام کے ساتھ وابستگی کا اظہار کریں لیکن اپنے طرز عمل، فیصلوں اور پالیسیوں میں دین کی تعلیمات سے انحراف کا طریقہ اختیار کریں تو ان کی اطاعت سے دست کش ہونا جائز نہیں، البتہ حق بات کسی خوف کے بغیر ہر حال میں کہی جائے اور اگر کسی شخص کو کوئی غیر شرعی امر بجا لانے کا حکم دیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ صرف معروف میں حکمرانوں کی اطاعت کرے جبکہ معصیت میں ان کی اطاعت سے انکار کر دے۔ اس سے آگے حکمرانوں کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کرنے یا ان کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے کی آپ نے سخت حوصلہ شکنی کی اور فرمایا کہ تم پر ایسے بدترین حکمران مسلط ہو جائیں جن سے تم شدید نفرت کرتے ہو اور ان پر لعنت بھیجتے ہو، تب بھی ان کی بدعملی سے نفرت کرنا، لیکن ان کی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔

اس کے باوجود اسلامی تاریخ کے صدر اول میں بعض نہایت نمایاں مذہبی شخصیات کی طرف سے نظم اجتماعی کی اطاعت قبول نہ کرنے یا اس کے خلاف خروج کرنے یا ایسا کرنے والوں کی تائید کی بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں سیدنا حسین، عبد اللہ بن زبیر، زید بن علی اور نفس زکیہ کے واقعات بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان حضرات کا زاویہ نظر یہ تھا کہ امام کی اطاعت کا حکم اور اس کے خلاف خروج کی حرمت اس صورت میں ہے جب اس کی حکومت حقیقتاً مسلمان عوام کی تائید اور مشورے سے قائم ہوئی ہو اور اسے راے عامہ کا اعتماد حاصل ہو۔ مذکورہ واقعات میں ان حضرات کے فہم کے مطابق یہ صورت نہیں پائی جاتی تھی، چنانچہ وہ اس بات کی گنجائش سمجھتے تھے کہ منصب اقتدار پر فائز افراد کی اطاعت سے نکل جایا جائے۔ مثلاً سیدنا علی کی خلافت کے انعقاد پر مسلمانوں کا اتفاق تام نہیں ہوا تھا اور جن حالات میں ان کی بیعت کی گئی، اس میں قاتلین عثمان کے ان کے کیمپ میں شامل ہو جانے سے ابتدا ہی سے شبہے کی ایسی صورت پیدا ہو گئی تھی کہ سیدنا معاویہ اور ان کی قیادت میں اہل شام ان کی بیعت کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور باہمی قتل وقتال کے بعد یہ سلسلہ بالآخر مسلمانوں کی دو متوازی حکومتوں کے قیام پر منتج ہوا۔ پھر جب سیدنا معاویہ نے اپنی عمر کے آخری حصے میں سیاسی اثر ورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تو بظاہر اس پر عمومی اتفاق رائے دکھائی دینے کے باوجود یہ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ موروثی جانشینی کا یہ طریقہ عوام الناس کے حقیقی اعتماد اور تائید کی شرط کو کس حد تک پورا کرتا ہے۔ خاندان نبوت کی جن شخصیات نے بنو امیہ کے حکمرانوں کے خلاف خروج کیا، وہ اسی اساس پر تھا کہ ارباب حل وعقد کو عوام کی حقیقی تائید اور حمایت حاصل نہیں اور ان کا اقتدار محض طاقت اور جبر کے زور پر قائم ہے، چنانچہ ان شخصیات نے یہ دیکھتے ہوئے کہ راے عامہ حکمرانی کے منصب پر انھیں فائز دیکھنا چاہتی ہے اور اس سلسلے میں جدوجہد کی کامیابی کے امکانات بھی بظاہر موجود ہیں، خروج کا فیصلہ کر لیا۔ ان میں سے سیدنا حسین، زید بن علی، نفس زکیہ اور محمد بن الاشعث وغیرہ اپنی کوشش میں ناکام ہوئے جبکہ عبد اللہ بن زبیر کو حجاز میں اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔ گویا راے عامہ کی حقیقی تائید اور اعتماد کا نکتہ ان حضرات کے نزدیک بنیادی تھا اور وہ خروج کی ممانعت کو اس صورت میں قابل اطلاق نہیں سمجھتے تھے جب حکمران عوام کے حقیقی اعتماد سے محروم ہوں۔ 

مذکورہ نکتے کی روشنی میں ان حضرات کے اقدامات کے لیے ایک اجتہادی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے اور انھیں شریعت کے کسی صریح حکم کی دیدہ ودانستہ خلاف ورزی کا مرتکب قرار دینا ممکن نہیں رہتا۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ جمہور صحابہ واہل علم نے ان اقدامات میں نہ صرف یہ کہ ان حضرات کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ انھیں اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں میں باہمی خوں ریزی اور فتنے کی جو صورت حال پیدا ہوئی، اس پر سخت اور تیز وتند تبصرے کیے۔ پھر تاریخ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ارباب حل وعقد کے خلاف خروج اور بغاوت کے نتیجے میں مسلم معاشرے کو جس قتل وغارت اور انتشار وافتراق کا سامنا کرنا پڑا، اس کے پیش نظر ائمہ اہل سنت کا اس بات پر ایک عمومی اتفاق ہو گیا کہ غیر عادل حکمرانوں کے خلاف خروج حرام ہے۔ چنانچہ فقہ حنبلی کی معروف کتاب ’الانصاف‘ میں ہے:

ونصوص الامام احمد رحمہ اللہ ان ذالک لا یحل وانہ بدعۃ مخالف للسنۃ وآمرہ بالصبر وان السیف اذا وقع عمت الفتنۃ وانقطعت السبل فتسفک الدماء وتستباح الاموال وتنتہک المحارم (ج ۱۰، ص ۳۱۱)

’’امام احمد کی تصریحات یہ ہیں کہ خروج حلال نہیں اور یہ کہ یہ بدعت ہے اور سنت کے خلاف ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ میں ایسی صورت حال میں صبر کی تلقین کرتا ہوں۔ تلوار جب ایک دفعہ نکل آتی ہے تو فتنہ عام ہو جاتا ہے، راستے بے امن ہو جاتے ہیں، خون بہائے جاتے ہیں، اموال مباح کر لیے جاتے ہیں اور اللہ کی قائم کردہ حرمتیں پامال کی جاتی ہیں۔‘‘


دور جدید میں ’خروج‘ کے فکری اسباب میں ایک خاص dimension کا اضافہ ہوا ہے اور وہ ہے مسلم معاشروں پر مغربی فکر وتہذیب اور اس کے بطن سے پیدا ہونے والے نظام سیاست ومعیشت کا غلبہ اور استیلا۔ مغربی فلسفہ وتہذیب کے غلبے نے مسلم معاشروں کے فکر واعتقاد، داخلی معاشرتی ساخت اور بین الاقوامی سطح پر ان کے سیاسی کردار کو اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی تیزی سے تبدیل کر دیا ہے کہ مذہبی ذہن اگر اس سے اجنبیت اور وحشت محسوس نہ کرتا تو یہ بات خود غیر فطری اور تعجب خیز ہوتی۔ مغربی تہذیب کے زیر اثر مسلم اقوام کی معاشرت، قانون اور سیاست میں در آنے والے تغیرات کا منظرنامہ کچھ یوں بنتا ہے:

  • اسلامی تاریخ میں دنیا کے تمام مسلمانوں کے ’خلافت‘ کے عنوان سے ایک مرکزی سیاسی ادارے کے تحت منظم ہونے کے تصور کو ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اگرچہ اسلام کے بالکل ابتدائی دور میں جنگ صفین کے بعد مسلمانوں کی دو الگ الگ اور متوازی حکومتیں وجود میں آ گئی تھیں اور ایک وقت میں ایک سے زیادہ حکومتوں کے قیام کا تسلسل مختلف علاقوں میں بعد کے ادوار میں بھی جاری رہا اور خاص طور پر ہندوستان میں ایک ایسی مسلم سلطنت بھی قائم رہی جو کسی بھی اعتبار سے ’خلافت‘ کے ادارے کے تحت یا اس سے وابستہ نہیں تھی، تاہم مسلم سیاسی مفکرین اس سیاسی مرکزیت کو اسلام کے سیاسی نظام کی ایک مثالی شکل کے طور پر بیان کرتے رہے ہیں اور کم از کم اسلام کے زیر نگیں مرکزی علاقے (جزیرۂ عرب اور اس کے گرد ونواح کے خطے) کسی نہ کسی رنگ میں پہلے عرب اور پھر بعد میں ترکی خلافت کے زیر سایہ ایک مرکزی سیاسی نظام سے مربوط رہے ہیں۔ خلافت کا یہ ادارہ بہت سی داخلی کمزوریوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ غیر موثر اور غیر مفید ہوتا چلا گیا اور آخری دور میں اس کی حیثیت بالکل علامتی رہ گئی، تاہم سیاسی سطح پر اس علامتی وحدت کی بھی اپنی ایک اہمیت تھی، چنانچہ ۱۹۲۴ء میں ’خلافت‘ کے ادارے کے بالکلیہ خاتمے کے بعد نیشنل ازم کے سیاسی تصور کے تحت مسلمان ممالک کی سیاسی پالیسیوں نے جو الگ الگ اور بسا اوقات باہم متصادم رخ اختیار کر لیا، وہ فطری طور پر روایتی مذہبی ذہن کے لیے بے چینی اور اضطراب کا موجب ہے۔
  • کلاسیکی دور میں دنیا کی غیر مسلم طاقتوں اور مسلم ریاستوں کے مابین تعلقات اور معاہدات اصلاً سیاسی مصلحت پر مبنی ہوتے تھے، جبکہ پوری دنیا کے لیے مشترک اور آفاقی اخلاقی یا قانونی ضابطوں کو معیار ماننے کا پہلو ان میں موجود نہیں تھا۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی کی اساس یہ تھی کہ دنیا دار الاسلام اور دار الحرب کے دو حصوں میں تقسیم ہے اور مسلم وغیر مسلم ممالک کے مابین اصل اور مستقل تعلق ’جنگ‘ کا ہے، تا آنکہ غیر مسلم قومیں مسلم ریاست کا حصہ نہ بن جائیں یا ان کی بالادستی کو قبول کرتے ہوئے انھیں خراج ادا کرنے پر آمادہ نہ ہو جائیں۔ یہ مقصد حاصل ہونے تک درمیانی عرصے میں وقتی اور عارضی نوعیت کے صلح کے معاہدے کیے جا سکتے ہیں، لیکن جیسے ہی حالات و امکانات اور عملی مصالح اجازت دیں، ان معاہدات کو ختم کر کے کفار کے ساتھ جنگ کرنا اور انھیں محکوم بنا لینا اسلامی ریاست کا استحقاق بلکہ اس کی ذمہ داری ہے۔ دور جدید کا عالمی نظام ، جس کے تحت اور جس کی پابندی کو قبول کرتے ہوئے جدید مسلم ریاستیں قائم ہوئی ہیں، اس کے بالکل برعکس ممالک اور ریاستوں کے باہمی تعلقات کے ضمن میں اصل ’امن‘ کو قرار دیتا اور باہمی تنازعات کو نمٹانے کے لیے جنگ کے طریقے کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ اس صورت حال سے مذہبی ذہن دو پہلووں سے اجنبیت محسوس کرتا ہے۔ ایک یہ کہ کلاسیکی تصور کے مطابق دار الاسلام اور دار الحرب کی تقسیم کو ’جہاد‘ کے مذہبی حکم کی تائید بھی حاصل ہے جس کی رو سے اسلام کا غلبہ قائم کرنے کے لیے قوت وطاقت کا استعمال ایک مطلوب اور معیاری طریقہ ہے۔ دوسرے یہ کہ جدید عالمی نظام میں ’امن‘ کے جس تصور کو بین الاقوامی تعلقات کی اساس قرار دیا گیا ہے، دنیا کی غالب طاقتیں خود دیانت داری سے اس کی پابندی نہیں کرتیں اور ان کی طرف سے اپنے سیاسی ومعاشی مفادات کے تحفظ کے لیے ایسی پالیسیاں بکثرت اپنائی گئی ہیں جن کا نتیجہ دنیا کے مختلف حصوں میں کمزور اور مغلوب مسلمانوں پر ظلم وستم اور ان کے حقوق غصب کرنے کی صورت میں نکلا ہے۔ اس بنا پر مذہبی ذہن میں اس احساس کا بیدار ہونا ایک فطری بات ہے کہ موجودہ عالمی نظام کوئی غیر جانب دار نظام نہیں، بلکہ اس کا مقصد فی الحقیقت غالب مغربی اقوام کے حاکمیت کے ایجنڈے کو تحفظ دینا اور قانون و نظام کی پابندی کے عنوان سے کمزور قوموں کے ہاتھ پاؤں باندھ دینا ہے۔
  • موجودہ بین الاقوامی سیاسی نظام بنیادی طور پر انسانی حقوق کے مغربی فلسفے پر مبنی ہے جو کئی اہم حوالوں سے اسلام کے تصور حقوق وفرائض سے متصادم ہے۔ مسلم ریاستیں بین الاقوامی معاہدوں، اداروں اور قوانین کے ایک مضبوط جال میں جکڑی ہوئی ہیں جن کا مقصد انسانی حقوق کے ضمن میں مغربی تصورات اور اقدار کا تحفظ ہے اور یہ چیز بہت سے شرعی احکام پر عمل میں رکاوٹ بھی بنتی ہے ۔ مثال کے طو رپر پاکستان کے دستور میں ایک طرف شریعت کی بالادستی کی بات کی گئی ہے اور دوسری طرف مروجہ تصورات کے مطابق ’انسانی حقوق‘ کے تحفظ کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ اس تضاد کا نتیجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ ایک مقدمے میں مجرم کو کھلے عام پھانسی دینے کے فیصلے کو انسانی حقوق کے منافی ہونے کی بنیاد پر کالعدم قرار دے چکی ہے، حالانکہ اسلام میں سزا کا فلسفہ یہ ہے کہ مجرم کو نشان عبرت بنانے کے لیے اسے کھلے بندوں سزا دی جائے۔ انسانی حقوق کے اسی فلسفے کی بنیاد پر عالمی قانونی اداروں کا یہ مطالبہ ہے کہ پاکستان میں جو بہت سے شرعی قوانین نافذ ہیں، وہ انسانی حقوق سے متصادم ہیں، اس لیے انھیں منسوخ کیا جائے۔
  • یہی معاملہ عام معاشرتی سطح پر مذہب، مذہبی اقدار اور اہل مذہب کو حاصل اثر ورسوخ کا ہے۔ مذہبی ذہن صدیوں سے جس صورت حال کا خوگر اور جس طرز معاشرت سے مانوس رہا ہے، وہ یہ تھی کہ مذہب ایک اعلیٰ روحانی واعتقادی سرچشمے کی حیثیت سے معاشرے میں ایک مسلمہ معیار کی حیثیت رکھتا تھا، معاشرتی واخلاقی قدروں پر عمومی طور پر اس کی گرفت قائم تھی اور مذہبی علم واخلاق کی نمائندگی کرنے والے طبقات یعنی علما اور صوفیا کو نہ صرف عزت واحترام کا مقام حاصل تھا، بلکہ تھیاکریسی کا کوئی باقاعدہ ادارہ موجود نہ ہونے کے باوجود، دین وشریعت کی تعبیر میں علمی سطح پر انھی کو مرجع کی حیثیت حاصل تھی۔ ایسا نہیں کہ فرد اور سماج کی سطح پر منکرات کا اس سے پہلے کوئی وجود نہیں تھا۔ معاشرتی خرابیاں ہر دور میں رہی ہیں، تاہم دین وشریعت کو ایک مسلمہ معیار کی حیثیت حاصل ہونے اور مذہبی طبقے کے لیے مختلف حیثیتوں میں ایک باعزت اور باوقار کردار ادا کرنے کے مواقع نے اسے معاشرے سے اجنبیت کے احساس میں مبتلا نہیں ہونے دیا، جبکہ نئے ماحول میں صورت حال بدیہی طور پر مختلف ہے۔
  • مسلم ریاست کے سیاسی ڈھانچے میں رونما ہونے والی بہت سی اہم تبدیلیاں بھی مذہبی ذہن کے لیے غیر مانوس ہیں۔ مثال کے طور پر حکمران کے انتخاب کو براہ راست عام لوگوں یا ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے ووٹ پر مبنی قرار دینے کا طریقہ اسلامی تاریخ میں نہیں ملتا۔ اسی طرح کلاسیکی فقہ میں حاکم کے انتخاب کے لیے اہل حل وعقد کے مشورے کے ساتھ ساتھ ولی عہدی کو بھی ایک مستقل طریقے کے طور پر بیان کیا گیا ہے جبکہ بالجبر منصب اقتدار پر مسلط ہو جانے والوں کے حق حکمرانی کو بھی بالفعل تسلیم کیا گیا ہے۔ ایک مرتبہ کسی شخص کے حاکم بن جانے کے بعد کفر یا کھلم کھلا فسق جیسی انتہائی صورتوں کے علاوہ اس کو اقتدار سے الگ کیے جانے کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا اور تاحیات حق حکمرانی کو مثالی طریقہ گردانا گیا ہے۔ پھر حکومتی مناصب کے لیے اہلیت کے ضمن میں بہت سی شرائط عائد کی گئی ہیں۔ مثلاً یہ کہ ’خلیفہ‘ یعنی پوری ملت اسلامیہ کے سب سے اعلیٰ منصب حکمرانی کے لیے قبیلہ قریش کا فرد ہونا ضروری یا کسی نہ کسی درجے میں مطلوب ہے۔ سیاسی، عدالتی اور انتظامی مناصب کے لیے خواتین کو بالعموم اہل نہیں سمجھا گیا۔ اسی طرح ایک مسلم ریاست کے غیر مسلم باشندوں کے لیے بھی ایسے مناصب پر تقرری کا استحقاق تسلیم نہیں کیا گیا۔ دور جدید کی جمہوری مسلم ریاستوں میں بالعموم مذکورہ شرائط وضوابط کی پابندی قبول نہیں کی گئی اور ریاست کی سیاسی پالیسیوں، قانون سازی کے عمل اور قانون کی تعبیر وتشریح اور تنفیذ جیسے معاملات میں شرکت کو بلا لحاظ مذہب و جنس اصولی طور پر ریاست کے تمام باشندوں کا حق مانا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس نوعیت کی جوہری تبدیلیوں کے ساتھ ریاستی نظام کا ناک نقشہ اس سے بالکل مختلف بن جاتا ہے جو ہمیں کلاسیکی فقہ میں پڑھنے کو ملتا ہے۔
  • شریعت کے نفاذ میں یہ سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے کہ ریاست کی سطح پر اس کی کس تعبیر کو اختیار کیا جائے گا اور اس ضمن میں عملی طور پر فیصلہ کن اتھارٹی کس کے پاس ہوگی؟ اسلام میں تھیاکریسی کا کوئی وجود نہیں اور دین وشریعت کی تعبیر وتشریح کا حق کسی مخصوص ادارے یا گروہ کے لیے تسلیم نہیں کیا گیا، تاہم یہ کام چونکہ بدیہی طور پر ایک مخصوص علمی مہارت اوربصیرت کے ساتھ ساتھ فقہ وقضا کے ساتھ ایک عملی ممارست کا تقاضا کرتا ہے جس کی توقع فطری طور پر علما اور فقہا ہی سے کی جا سکتی ہے، اس لیے اسلامی تاریخ میں اس ضمن میں مرجع کی حیثیت عمومی طورپر علما ہی کو حاصل رہی ہے۔ معاصر مسلم ریاستوں میں سے سعودی عرب اور ایران میں بھی شرعی قانون کی تعبیر وتشریح کی حتمی اتھارٹی علما ہی ہیں۔ تاہم دور جدید کی بیشتر مسلم ریاستوں میں اور خاص طور پر پاکستان میں قرآن وسنت کی قانونی تعبیر وتشریح کا حتمی اختیار کسی مخصوص طبقے کے بجائے منتخب جمہوری اداروں کے لیے تسلیم کیا گیا ہے، جبکہ قانون کی ترتیب وتدوین اور ان پر نظر ثانی کے لیے قائم کیے جانے والے قانونی اداروں، مثلاً اسلامی نظریاتی کونسل، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بنچ میں بھی علما کے علاوہ دوسرے ماہرین قانون کو باقاعدہ شریک کیا گیا ہے۔ یہ صورت حال بھی مذہبی ذہن کے لیے عدم اطمینان اور تشویش کا باعث ہے۔ 

اس تجزیے سے واضح ہے کہ دور جدید میں مسلمان ریاستوں میں ’خروج‘ کا مسئلہ ایک بالکل مختلف پس منظر میں پیدا ہوا ہے جو ماضی کے مقابلے میں سادہ نہیں، بلکہ پیچیدہ ہے اور اس کی تہہ میں دنیا کی تہذیب، تاریخ اور سیاست میں رونما ہونے والی نہایت گہری اور دور رس تبدیلیاں کارفرما ہیں۔ آج اس مسئلے پر محدود فقہی دائرے میں غور کرنا کافی نہیں ہوگا، اس لیے کہ اس کی جڑیں بنیادی طور پر کسی فقہی حکم کی تفہیم وتعبیر میں نہیں، بلکہ دنیا کے منظر نامے پر رونما ہونے والی جوہری تبدیلیوں کے فہم اور تجزیے میں پائی جاتی ہیں۔ 

مسلمانوں کے بعض طبقات نے اپنے فہم وبصیرت کی حد تک کلاسیکی اسلامی ریاست کے خط وخال کو معیار مانتے ہوئے اس صورت حال کا جو تجزیہ کیا، اس نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا کہ دور جدید کے جمہوری تصورات کے تحت مسلمانوں کی جو ریاستیں اس وقت قائم ہیں، وہ نہ صرف اسلامی ریاست کی تمام بنیادی خصوصیات سے محروم ہیں، بلکہ الٹا معاشرے کی تشکیل میں ان مغربی اقدار اور تصورات کو تحفظ اور تقویت فراہم کر رہی ہیں جو خیر وشر کے اسلامی پیمانے سے مختلف اور متصادم ہیں۔ ان کا فہم انھیں یہ بتاتا ہے کہ اسلامی نظام سیاست کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ قانونی وتشریعی سطح پر حاکمیت کا حق صرف اللہ کے لیے تسلیم کیا جائے اور شرعی مآخذ میں منصوص یا ان سے مستنبط احکام وقوانین کے علاوہ، جنھیں فقہ اسلامی میں بیان کیا جاتا ہے، انسانوں کے لیے اپنے فہم وبصیرت اور تجربات کی روشنی میں قانون سازی اور تشریع کا حق تسلیم نہ کیا جائے، جبکہ جدید جمہوری نظام قانون سازی میں بنیادی سرچشمہ عوام کی پسند وناپسند کو قرار دیتا ہے جس کی وجہ سے ریاست کے نظام میں ان غیر نظریاتی عناصر، مثلاً غیر مسلموں اور لادین وسیکولر طبقات کو بھی شریک کرنا پڑتا ہے جو سرے سے شریعت کی حاکمیت پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔ خارجی سطح پر ان کے تجزیے نے انھیں اس نتیجے تک پہنچایا کہ دنیا میں امت مسلمہ کے غلبہ اور سربلندی کی ضمانت ’جہاد‘ کا شرعی حکم تھا جس سے روگردانی کے نتیجے میں مغربی طاقتیں اور ان کی لادینی تہذیب ہر سطح پر مسلمانوں پر غالب آ گئی ہے۔ ان دو مقدمات کی روشنی میں ان حضرات نے جب یہ دیکھا کہ مسلمانوں کے مقتدر طبقات نے اپنے شخصی وطبقاتی مفادات کی خاطر مغربی تہذیب کے غلبے اور مغربی جمہوری نظام کے سامنے نہ صرف سر تسلیم خم کر دیا ہے بلکہ غلبہ اسلام اور جہاد کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہوئے مغربی تہذیب کے حلیف کا کردار بھی قبول کر لیا ہے تو اس کا حل انھیں اس کے علاوہ کچھ نہ دکھائی دیا کہ اس پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا جائے اور اس کی جگہ خالص اسلامی وشرعی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جائے اور چونکہ موجودہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس میں کوئی بنیادی تبدیلی پیدا کرنا ممکن نہیں، اس لیے مطلوبہ تبدیلی کے لیے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ان کے طرز فکر کا منطقی نتیجہ قرار پایا۔

ظاہر ہے کہ اس ذہنی رویے کو فکری اور نفسیاتی بنیادوں پر مخاطب بنانے کے لیے فقہی بحثیں کافی نہیں، اس لیے کہ فقہی بحثیں کبھی گروہوں اور قوموں کے اجتماعی ذہنی رویے کو تشکیل نہیں دیتیں اور نہ ان میں کوئی تبدیلی پیدا کر سکتی ہیں۔ یہ بحثیں پہلے سے طے شدہ ذہنی رویوں کے زیر اثر پیدا ہوتی اور قانونی زبان میں انھی رویوں کے عملی اظہارات کی توجیہ کی خدمت انجام دیتی ہیں۔ جو ذہن اس وقت ہمارا مخاطب ہے، اس کے لیے محرک کا کردار کسی فقہی نوعیت کے تصور یا بحث نے نہیں، بلکہ ذہن وفکر اور نفسیات کی سطح پر موثر چند دوسرے عوامل نے ادا کیا ہے، اس لیے اس کے لیے فقہی اصول اور حدود وقیود بھی وہی قابل قبول ہوں گے جو اس کے بنیادی فکری احساس کے ساتھ ہم آہنگ ہوں۔ 


اب آئیے، یہ دیکھتے ہیں کہ ا س پوری صورت حال میں فکر اقبال ہماری کیا راہ نمائی کرتی ہے:

۱۔ اقبال مغربی تہذیب کے لادینی تصورات اور الحاد پرستانہ واباحیت پسندانہ رجحانات کے سخت ناقد تھے اور انھیں دین اسلام کی روح اور اس کے مزاج کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے، تاہم دو حوالوں سے ان کا رجحان مغربی تہذیب سے متعلق مثبت دکھائی دیتا ہے۔ ایک یہ کہ اہل مغرب نے تہذیبی ارتقا کے نتیجے میں اپنے مذہبی، سماجی اور سیاسی ڈھانچے میں جو تبدیلیاں کی ہیں، ان کے زیر اثر مسلمانوں کے طرز فکر اور انداز معاشرت پر ملوکیت اور ملائیت کے زیر سایہ صدیوں سے طاری جمود کو توڑنے اور فکر وعمل کی نئی راہیں تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ دوسرے یہ کہ رعایا اور حکمرانوں کے حقوق واختیارات کے باہمی توازن کے حوالے سے مغرب نے جمہوریت کے عنوان سے جو سیاسی نظام اور جو سیاسی ادارے متعارف کروائے ہیں، ان سے مسلمان معاشرے بھی استفادہ کر سکتے ہیں اور انھیں ایسا کرنا چاہیے۔ 

بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے اقبال کے ہاں متضاد رویے پائے جاتے ہیں، بلکہ ارشاد احمد حقانی مرحوم نے اپنے ایک کالم میں جناب ڈاکٹر جاوید اقبال کا یہ تبصرہ نقل کیا تھا کہ اقبال آخر وقت تک مغربی تہذیب کے حوالے سے اپنا کوئی واضح رد عمل متعین نہیں کر سکے۔ کچھ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسی بھی قوم کے تہذیبی تجربات اور حاصلات کو اس کے مخصوص فکری اور فلسفیانہ پس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور جمہوریت کا نظام بھی چونکہ ایک مخصوص فکری رو کا نتیجہ اور اس کی پیداوار ہے جو اسلام کے نظام فکر سے ہم آہنگ نہیں، اس لیے مغربی طرز کے جمہوری سیاسی نظام میں اسلام کی اجتماعی اقدار کی حقیقی عمل داری قائم کرنا ممکن نہیں۔ بہرحال یہ گفتگو کا ایک مستقل موضوع ہے۔ یہاں صرف یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ اقبال مغربی تہذیب کو کلیتاً مسترد کر دینے کے بجائے اس سے اخذ واستفادہ کے قائل تھے اور اہل مغرب کے تہذیبی وتمدنی تجربات کو اسلامی تصورات کے قالب میں ڈھالے جانے کو ایک قابل عمل اور مفید امکان خیال کرتے تھے۔

۲۔ اقبال کے طرز فکرکی ایک خصوصیت یہ دکھائی دیتی ہے کہ وہ مسلم امہ کے مسائل کے درست تجزیے اور ان کا حل تجویز کرنے کے ضمن میں کسی ایک مخصوص طبقے کو اجارہ دار نہیں سمجھتے۔ ان کے نزدیک یہ مسئلہ مختلف ومتنوع زاویہ ہاے نظر رکھنے والے، امت کے سارے طبقات کا مشترک مسئلہ ہے اور وہ سب کی فکری ونظری کاوشوں کو امت کا مجموعی اثاثہ تصور کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے خطبہ اجتہاد میں انھوں نے ترکی کے مسلمانوں کے ہاں فکری بیداری کے بعض نتائج پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اصولی طور پر اس رجحان کے پیدا ہونے کی تحسین کی اور لبرل طبقات کے ہاں ممکنہ فکری کجی کے حوالے سے خدشات ظاہر کرنے کے باوجود اسلام اور امت مسلمہ کی تشکیل نو کے ضمن میں ان سے اہم اور بنیادی کردار کی توقع وابستہ کی ہے۔ 

۳۔ دور جدید میں اسلامی قانون کی تعبیر وتشریح کے ضمن میں اقبال نے بڑی صراحت کے ساتھ ’اجتہاد مطلق‘ کی دعوت دی اور اس حوالے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی آزادئ فکر کو بطور نمونہ پیش کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

The question which confronts him to-day, and which is likely to confront other Muslim countries in the near future is whether the Law of Islam is capable of evolution--a question answered in the affirmative, provided the world of Islam approaches it in the spirit of Umar--the first critical and independent mind in Islam who, at the last moments of the Prophet, had the moral courage to utter these remarkable words: 'The Book of God is sufficient for us.' (The Reconstruction of Religious Thought in Islam, p. 129) 

’’جو سوال آج انھیں (ترکوں کو) درپیش ہے اور مستقبل قریب میں دوسرے مسلم ممالک کو بھی پیش آنے والا ہے، یہ ہے کہ کیا اسلامی قوانین میں ارتقا کی کوئی صورت ممکن ہے؟ یہ سوال شدید فکری کاوش چاہتا ہے اور یقیناًاس کا جواب اثبات میں ہوگا، بشرطیکہ ہم سوال کا ادراک اس انداز سے کریں جس انداز میں اس کی روح حضرت عمرؓ کے ہاں ملتی ہے جو اسلام میں پہلے تنقیدی اور طبع زاد ذہن کے حامل نقاد تھے اور جنھوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری لمحات میں یہ قابل قدر الفاظ کہنے کی جسارت کی: خدا کی کتاب ہمارے لیے کافی ہے۔‘‘ (ترجمہ: ڈاکٹر وحید عشرت)

...since things have changed and the world of Islam is confronted and affected to-day by new forces set free by the extraordinary development of human thought in all its sections, I see no reason why this attitude should be maintained any longer. Did the founders of our schools ever claim finality for their reasonings and interpretations? Never. The claim of the present generation of Muslim liberals to reinterpret the foundational legal principles, in the light of their own experience and the altered conditions of modern life is, in my opinion, perfectly justified. The teaching of the Qur'an that life is a process of progressive creation necessitates that each generation, guided but unhampered by the work of its predecessors, should be permitted to solve its own problems. (The Reconstruction, p. 133, 134) 

’’اب چونکہ صورت حال بدل چکی ہے اور عالم اسلام کو ان نئی قوتوں کی طرف سے آج نئے مسائل وحوادث کا سامنا ہے جو انسانی فکر کے ہمہ جہت اور غیر معمولی ارتقاکی آفریدہ ہیں، لہٰذا مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ہم اس طرح کا رویہ اپنائے رکھیں۔ کیا ہمارے ائمہ فقہ نے اپنے استدلال اور تعبیرات کے لیے قطعیت کا کبھی کوئی دعویٰ کیا تھا؟ بالکل نہیں۔ موجودہ دور کے لبرل مسلمانوں کا یہ دعویٰ کہ اس کے اپنے تجربات کی روشنی میں اور زندگی کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اسلام کے بنیادی اصولوں کی ازسرنو تعبیرات ہونی چاہئیں، میری نظر میں مکمل طور پر جائز اور انصاف پر مبنی ہے۔ قرآن کی یہ تعلیم کہ زندگی ایک ارتقا پذیر تخلیقی عمل ہے، خود اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر نسل کواپنے اجداد کی رہنمائی میں انھیں رکاوٹ سمجھے بغیر یہ اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کر سکے۔‘‘

۴۔ اقبال مسلم ریاست میں اسلامی قانون کی تعبیر وتشریح کے حق کو مذہبی علما تک محدود رکھنے کے بجائے جدید قانون اور دیگر شعبہ ہاے زندگی کے ماہرین کو شریک کرنے کے قائل ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے تھیاکریسی کے تصور کی مکمل نفی کرتے ہوئے اجتہاد کا حق مسلمانوں کی منتخب پارلیمنٹ کو دینے اور پارلیمنٹ کی راہ نمائی کے لیے مذہبی علما کو اس کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی جسے پاکستان میں عملی طور پر اختیارکر لیا گیا۔

۵۔ عالمی سطح پر امت مسلمہ کی سیاسی وحدت کو رو بہ عمل کرنے کے لیے اقبال نے ’خلافت‘ کے قدیم سیاسی نظام کے بجائے معروضی حقیقتوں سے ہم آہنگ ایک نیا قابل عمل اور مفید طریقہ تجویز کیا ہے۔ لکھتے ہیں:

For the present, every Muslim nation must sink into her own deeper self, temporarily focus her vision on herself alone, until all are strong and powerful to form a living family of republics. A true and living unity, according to the nationalist thinkers, is not so easy as to be achieved by a merely symbolical overlordship. It is truly manifested in a multiplicity of free independent units whose racial rivalries are adjusted and harmonized by the unifying bond of a common spiritual aspiration. It seems to me that God is slowly bringing home to us the truth that Islam is neither Nationalism nor Imperialism but a League of Nations which recognizes artificial boundaries and racial distinctions for facility of reference only, and not for restricting the social horizon of its members. (The Reconstruction, p. 126) 

’’موجودہ صورت حال میں ہر مسلمان قوم کو اپنے آپ میں گہرے طور پر غوطہ زن ہونا چاہیے اور عارضی طور پر اپنی نظر خود اپنے آپ پر جما لینی چاہیے حتیٰ کہ تمام اس قدر مضبوط اور مستحکم ہو جائیں کہ وہ جمہوریتوں کا ایک زندہ خاندان تشکیل دے سکیں۔ ایک سچی اور زندہ وحدت نیشنلسٹ مفکرین کے مطابق کوئی ایسی آسان نہیں کہ اسے محض ایک علامتی عالمگیر حکمرانی کی وساطت سے حاصل کر لیا جائے۔ اس کا سچا اظہار خود مختار اکائیوں کی کثرت سے ہوگا جن کی نسلی رقابتوں کو مشترک روحانی امنگوں کی وحدت سے ہم آہنگ اور ہموار کر دیا گیا ہو۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ خدا ہمیں آہستہ آہستہ اس حقیقت کے ادراک کی طرف لا رہا ہے کہ اسلام نہ تو قومیت ہے اور نہ ملوکیت، بلکہ ایک مجلس اقوام ہے جومصنوعی حد بندیوں اور نسلی امتیازات کو محض پہچان کے لیے تسلیم کرتی ہے، نہ اس لیے کہ ان رکن ممالک کے اپنے اپنے سماجی آفاق کو تنگ کر دیا جائے۔‘‘

مذکورہ چند نکات سے دور جدید میں ریاست سے متعلق بنیادی سوالات ومسائل کے حوالے سے اقبال کا فکری رخ بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔


ریاست سے متعلق عصری مسائل پر فکر اقبال کی روشنی میں غور وفکر کی یہ بحث ادھوری اور تشنہ رہے گی اگر ہم اس سوال پر اپنی توجہ مرکوز نہ کریں کہ جن سوالات کا جواب اقبال نے آج سے پون صدی قبل مسلم ریاستوں کی آزادی سے بھی پہلے سوچ لیا تھا، ہم ابھی تک انھی سوالات سے کیوں نبرد آزما ہیں؟ ہمارے نزدیک اس ضمن میں درج ذیل نکات اہل علم ودانش کی سنجیدہ توجہ کے مستحق ہیں:

۱۔ فکر اقبال سے راہ نمائی لیتے ہوئے سب سے اہم پہلو جو بطور خاص ہماری توجہ کا مستحق ہے، وہ ہے اس ساری صورت حال میں سیکولر عناصر کا طرز فکر اور رویہ جو ہمارے خیال میں مذہبی شدت پسندی کی پیدائش کے اسباب وعوامل میں سے ایک اہم عامل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ بات معلوم ہے کہ جدید تہذیبی وسیاسی تبدیلیوں اور اہل مغرب کے سماجی تجربات سے بھرپور استفادہ کا قائل ہونے کے باوجود اقبال نے سیکولرزم یعنی ریاستی واجتماعی معاملات سے مذہب اور اہل مذہب کی بے دخلی کے نظریے کی کبھی تائید نہیں کی، بلکہ اس پر سخت الفاظ میں تنقید کی ہے۔ تاہم ہمارے ہاں سیکولر طرز فکر کے زیر اثر تربیت پانے والے مقتدر طبقات کا فکری وعملی رویہ دین اور ریاست کی جدائی ہی کے تصور کا مظہر رہا ہے جو بجائے خود جمہوریت کی اصل روح کے منافی اور معاشرہ وریاست کی تشکیل کی بنیاد اکثریت کی خواہش اور اعتقاد کے برعکس ایک محدود مگر مقتدر اقلیت کے خیالات وتصورات پر رکھنے کے مترادف ہے۔ ہمارے نہایت بلند پایہ سیکولر دانش ور بھی اس زمینی حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں یا خود کو ذہنی اور نفسیاتی طور پر اسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں کر پاتے کہ مذہبی جماعتوں اوران کے مطالبات ۔چاہے وہ بظاہر کتنے ہی خیالی، فرسودہ، غیر حقیقت پسندانہ اور عملی تقاضوں سے دور سمجھے جاتے ہوں۔ کو حاصل اثر ورسوخ کا اصل راز عوام کی اسلام کے ساتھ گہری جذباتی اور اعتقادی وابستگی میں ہے۔ مذہبی طبقات اسی وابستگی کو معاشرتی اور سیاسی سطح پر اظہار بخشتے اوراس کی نمائندگی کرتے ہیں اور اس کے مطالبات ومظاہر کا اپنے فہم کے لحاظ سے تعین کرتے ہیں۔ سیکولر حلقہ دانش یہ چاہتا ہے کہ معاشرے اور ریاست میں مذہب او رمذہبی طبقات کے کردار کو محدود کرنے کے جس نقطہ نظر کا وہ قائل ہے، اسے فکری بنیادوں پر اس ملک کے عوام سے تسلیم کرائے بغیر، جس کی کامیابی کا اگر امکان بھی ہو تو ظاہر ہے کہ وہ ایک بہت طویل اور صبر آزما کام ہے، اس تصور کو زبردستی معاشرے پر ٹھونس دے اور اگر یہ نہ کر سکے تو کم از کم ریاستی قوانین اور پالیسیوں میں مذہبی عنصر کے نمایاں اور موثر ہونے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا رہے۔ 

سوال یہ ہے کہ کیا انسانی زندگی اور معاشرت میں مذہب کے کردار کی یہ تحدید عوام الناس نے قبول کر لی ہے اور کیا وہ مذہب کے اپنے سابقہ تصورات سے دست بردار ہو کر سیکولر حلقے کی فکری دریافتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی راہنمائی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بالبداہت واضح ہے کہ ایسا نہیں ہے اور ایسا ہونا ممکن بھی نہیں، اس لیے کہ مذہب بنیادی طور پر انسان کے جس ذہنی وفکری اضطراب کو address کرتا ہے اور جس سے مطمئن ہو کر انسان اس دنیا میں اس کی راہنمائی کو ایک نہایت گہری نفسیاتی اور اعتقادی سطح پر قبول کرتا ہے، وہ دنیا کی مادی زندگی کے مسائل ومشکلات نہیں، بلکہ کائنات کی حقیقت ومعنویت، انسان کے مقصد وجود اور موت کے تصورات ہیں جن کا کوئی تشفی بخش جواب کسی غیر مذہبی مادی فلسفے کے پاس نہیں ہے۔ ایسا کوئی بھی فلسفہ ان سوالات کو انسان کے ذہن سے محو کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کی ساری تگ وتاز کا ہدف بس یہ ہے کہ انسان اپنی توجہ ان سوالات سے ہٹا دے اور زندگی کے فوری نوعیت کے مسائل (immediate concerns) پر قانع ہو جائے۔ فرض کر لیجیے کہ مذہب، انسان کے توہم اور اس کی نفسیاتی ضرورتوں کی پیداوار ہے، لیکن وہ مادی کائنات سے ماورا ایک دنیا اور اس کے ایک مقتدر خالق اور پھر حیات بعد الموت کا تصور پیش کر کے بہرحال انسان کے نفسیاتی تقاضوں کا ایک ایسا جواب فراہم کرتا ہے جو چاہے غیرحقیقی اور خیالی کیوں نہ سمجھا جائے، انسان کے لیے اطمینان بخش ہے جبکہ محض مادی زندگی کے دائرے میں محدود کوئی بھی فلسفہ اس صلاحیت سے یکسرمحروم ہے۔ پھر یہ کہ عملی طور پر کائناتی قوتوں کے علم اور ان کی تسخیر او ر اس کے نتیجے میں انسان کے ذہنی اضطرابات اور پریشانیوں کے دور ہو جانے کا تصور ایک elitist تصور ہے جس سے بہت آسودہ حال اور مادی پریشانیوں سے بے نیاز افراد یا طبقے ہی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ مادی وسائل کی فراوانی کے باوجود وسائل معاش کی منصفانہ تقسیم کا سوال ابھی تک انسان کے لیے حل طلب ہے اور جمہوری اصولوں اور آزاد معیشت کے خود کار جادوئی کرشموں کا منظر ہر چند سال کے بعد پوری دنیا کو دیکھنے کو ملتا رہتا ہے۔ 

ان وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سوال لبرل حلقے کی طرف سے بے حد سنجیدہ غوروفکر کا متقاضی ہے کہ وہ زندگی اور اس کے مسائل کی توجیہ غیر مذہبی اساس پر کرنے اور مذہبی روایت اور اس کے نمائندوں کے کردار کو محدود ترکرنے کا جو نسخہ کیمیا (panacea) تجویز کر رہا ہے، ایک مسلمان معاشرے میں اس کی قبولیت کے عملی امکانات کتنے پائے جاتے ہیں۔ ہم پوری دیانت داری کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ لبرل حلقے کے تمام تر جائز اور ناجائز تحفظات بلکہ کسی قدر تعصبات کے باوجود مذہبی شدت پسندی کا حل مذہب اور مذہبی عناصر کے معاشرتی کردار کو محدود کرنے اور انھیں غیر موثر بنانے میں نہیں، بلکہ انھیں ایک حقیقی جمہوری فضا میں معاشرے اور اس کے مسائل کے حوالے سے مذہبی نقطہ نظر پیش کرنے اور معاشرے کی تعلیم وتربیت اور ملک وقوم کی اجتماعی پالیسیوں کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا کرنے کا موقع دینے میں ہے۔ مذہبی عناصر کا فہم اسلام یقیناًاس وقت قابل رشک نہیں اور وہ ملک وقوم کے حقیقی مسائل کے بارے میں زیادہ بصیرت نہیں رکھتے، لیکن صورت حال ان طبقوں کے ہاں بھی زیادہ مختلف نہیں جو اس وقت طاقت واقتدار کے سرچشموں پر قابض ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں، فوج، عدلیہ، ذرائع ابلاغ اور مختلف معاشرتی طبقات کے بارے میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ جمہوری عمل کے تسلسل کے نتیجے میں ان کے فہم وادراک میں بہتری آتی جائے گی اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے لگیں گے تو مذہبی عناصر کے لیے اس سے مختلف معیار وضع کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں۔ مذہبی عنصر کے لیے معاشرت، قانون اور سیاست کے میدان میں موثر کردار ادا کرنے اور ان دائروں میں ملکی وقومی پالیسیوں میں اس کی نمائندگی یا اثرات کو قبول کرنے سے انکار ایک خاص متعصبانہ اور تنگ نظر ذہنیت کی غمازی کرتا ہے جو کسی طرح بھی قومی سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنے اور معاشرے میں رواداری اور انسانی وجمہوری قدروں کے فروغ میں مددگار نہیں، بلکہ اس کے لیے شدید نقصان دہ ہے۔

۲۔ موجودہ نظام سیاست ومعیشت پر کلی عدم اطمینان اور اس کے خلاف بغاوت کا ذہنی رویہ دنیا پرمغرب کے عمومی استیلا اورمسلمانوں کے سیاسی اور تہذیبی زوال سے پیدا ہونے والے احساس محرومی، عدم تحفظ اور فرسٹریشن کی پیداوارہے۔ اقتدار اور اختیار، انسان کے لیے ایک نفسیاتی اطمینان کا موجب ہوتا ہے اور یہ ذہنی سہارا موجود ہو تو افراد اور طبقات مختلف نوع کے خطرات اور چیلنجز درپیش ہونے کے باوجود frustration کی کیفیت میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ یہ چیزیں بالعموم ان کے جذبہ عمل کو انگیخت کرنے کا باعث بنتی ہیں، لیکن طاقت اور اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ایک طرف احساس محرومی اور دوسری طرف اپنی پوزیشن کی کمزوری کا احساس خارجی خطرات کے حوالے سے انسان کو نہایت شدید طو رپر حساس بنا دیتا ہے اور ایسی صورت میں انسان عام طور پر نئی صورت حال کے امکانات اور مواقع کا مثبت طور پر جائزہ لینے کی صلاحیت سے کام لینے کے بجاے ہر معاملے کو تحفظاتی زاویہ نگاہ سے دیکھنے اور معمولی اوربعض اوقات غیر حقیقی خطرہ سامنے آنے پر بھی لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتا ہے۔ دنیا کے سیاسی اور تہذیبی حالات میں تغیر آنے کے بعد مسلمانوں کے جو طبقات اس کے ساتھ ذہنی اور نفسیاتی ہم آہنگی پیدا کر چکے ہیں اور یقیناًبعض اوقات ایسا اپنی مذہبی اور تہذیبی روایت اور اپنے آزاد تشخص کی قیمت پر ہوا ہے ان کے لیے تو کوئی مسئلہ نہیں، لیکن جو طبقات اپنے مذہب اور اپنی تہذیب سے وابستگی کو ترک کرنے کے لیے تیار نہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں جدید طرز معاشرت میں اپنے لیے کوئی موثر کردار ادا کرنے کے امکانات اورمواقع دکھائی نہیں دیتے، ان میں مزاحمت اور بغاوت کے رجحان کا پیدا ہونا ایک قابل فہم بات ہے۔ 

اس ذہنی کیفیت میں کوئی پائیدار تبدیلی لانے کے لیے تاریخ وتہذیب کے وسیع تر تناظر میں بعض بنیادی سوالات کو موضوع بحث بنانا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اہل مذہب کو آسمانی صحائف اور انسانی تاریخ کی روشنی میں دنیا میں قوت واقتدار اور سربلندی کے خدائی قوانین کا نیا فہم حاصل کرنا ہوگا۔ قریش، جنھیں خود خدا کے پیغمبر کی زبان نے حکومت واقتدار کی زمام سپرد کی تھی، ان کی قیادت وسیادت بھی اس بات کے ساتھ مشروط تھی کہ وہ دینی اوراخلاقی اعتبار سے اپنے آپ کو اس کا اہل ثابت کیے رکھیں گے۔ قرآن مجید کے صریح بیان (ذلک بان اللہ لم یک مغیرا نعمۃ انعمہا علی قوم حتی یغیروا ما بانفسہم) کی رو سے مسلم اقوام کا زوال ان کی اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ اسباب کے درجے میں یقیناًاس میں اغیار کی سازشوں نے بھی پورا پورا کردار ادا کیا ہے، لیکن یہ سازشیں خدا کی نصرت سے محرومی کا سبب نہیں بن سکتی تھیں جب تک کہ خود مسلمان اپنے اعمال سے اس کا جواز مہیا نہ کرتے۔ اب اگر مسلمانوں کو دنیا میں دوبارہ غلبہ نصیب ہوگا تو خدا کی اس سنت کے برخلاف نہیں بلکہ اس کے تحت ہی ہوگا۔ احادیث میں بیان ہونے والی پیش گوئیاں اپنی جگہ درست ہیں، لیکن یہ مفروضہ، جس کا ہمیشہ کی طرح ان دنوں بھی مذہبی حلقوں میں بہت چرچا ہے، کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی دینی اور اخلاقی حالت کا لحاظ کیے بغیر محض ان کی زبوں حالی پر ترس کھا کر کسی ظاہر ہونے والے کو ظاہر اور کسی نازل ہونے والے کو نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، نہایت تباہ کن ہے۔ اپنی نااہلیوں کا مداوا خدائی فیصلوں میں ڈھونڈنے کا رویہ نہ پہلے کوئی نتیجہ پیدا کر سکا ہے اور نہ اب اس کا کوئی امکان ہے۔ دنیا میں سرفرازی اور سربلندی کسی قوم کا استحقاق نہیں، بلکہ خدا کا انعام ہے۔ اس باب میں بنی اسرائیل کی نفسیات اور مسلمانوں کی موجودہ مذہبی نفسیات کے مابین جو حیرت انگیز مشابہتیں پائی جاتی ہیں، ان کی طر ف بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح یہ اس تصور بھی، جو درحقیقت ہماری کمزور اور بیمار نفسیات کی پیداوار ہے، بے حد نظر ثانی کا محتاج ہے کہ اسلام بحیثیت ایک عالمی مذہب کے صرف اسی صورت میں زندہ رہ سکتا اور مسلمان اس کی تبلیغ واشاعت کا فرض تبھی ادا کر سکتے ہیں جب انھیں دنیا میں سپر پاور کی حیثیت حاصل ہو۔ مسلمانوں کو دنیا کی تاریخ میں اور خود ان کی اپنی تاریخ میں وہ مثالیں بہ تکرار یاد دلانے کی ضرورت ہے جب علم واستدلال، اعلیٰ انسانی ومذہبی اخلاق، صبر وحوصلہ اور حکمت وتدبیر نے سیاسی طاقت کا سہارا لیے بغیر دشوار سے دشوار تر حالات میں یہ مقصد کامیابی سے حاصل کیا۔ صدیوں تک اسلام اور عالمی اقتدار کا باہمی تعلق ایک تاریخی واقعہ ہے نہ کہ کوئی مذہبی فریضہ۔ اللہ تعالیٰ نے آج تک دنیا میں کسی قوم کے ساتھ، حتیٰ کہ اپنی چنیدہ اور برگزیدہ قوم، ذریت ابراہیم کے ساتھ بھی ابد الآباد تک سیاسی سربلندی اور عالمی اقتدار کا اجارہ نہیں کیا۔ تاریخ بدلتی رہتی ہے اور خدا اپنی حکمتوں کے تحت یہ منصب دنیا کی مختلف قوموں کو دیتا رہتا ہے، چنانچہ دنیا میں اسلام کے کردار کو ایک مخصوص تاریخی سانچے سے نکال کر جدید تہذیبی حقائق کی روشنی میں ازسرنو دریافت اور متعین کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ مسلمانوں کی فکری اور مذہبی قیادت کی ذمہ داری تھی کہ وہ قوموں کے عروج وزوال کے بے لاگ قوانین کی روشنی میں نئی عالمی صورت حال کی تفہیم کے ساتھ ساتھ اس کے خطرات اور ان سے نبرد آزما ہونے کی حکمت عملی سے ایسے اسلوب میں آگاہ کرتی کہ مذہبی ذہن بے فائدہ ٹکراؤ کے بجاے خود اعتمادی کے ساتھ نئی طرز معاشرت اور سیاسی انتظام میں مثبت طور پر حصہ لینے پر آمادہ ہوتا۔ یقیناًایک محدود سطح پر ایسی کوششیں ہوئی ہیں، لیکن عملی نتائج بتاتے ہیں کہ عظمت رفتہ کی بازیابی کے نفسیاتی محرک کو انگیخت کرنے اور عملی حقائق کا ادراک کر کے حکمت عملی کو اس سے ہم آہنگ بنانے کے مابین توازن پوری طرح ملحوظ نہیں رکھا جا سکا اور نفسیاتی تحریک غلبہ پا کر عجلت پسندی، فرسٹریشن اور desperation پیدا کرنے کا موجب بن گئی ہے۔ پھر یہ کہ نئے ماحول کے عملی تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر فکری راہنمائی کرنے والی احیائی تحریکوں کا دائرۂ اثر بنیادی طور پر جدید تعلیم یافتہ طبقات تک محدود رہا ہے، جبکہ مختلف اسباب کے تحت روایتی مذہبی ذہن اس سے مستفید نہیں ہو سکا۔ یہ ذہن اب بھی دو صدی پہلے کے عالمی ماحول، قدیم طرز معاشرت اور ماضی کے فقہی تصورات کی دنیا میں رہتا ہے۔ وہ حالات کے تغیر کو بطور ایک واقعہ کے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور حالات کے اتار چڑھاؤ میں مسلسل ایسے امکانات دیکھتا رہتا ہے جن کے نتیجے میں زمینی حقائق اور تاریخ کے dynamics کو نظر انداز کر کے، تکوینی طور پر مسلمانوں کے اقتدار کی بحالی کی راہ دوبارہ ہموار ہو جائے۔ 

۳۔ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اقبال کے اجتہادی فکر کی روشنی میں ریاست پاکستان کی تشکیل جن خطوط پر ہوئی ہے، ہر سطح پر ان کی فکری اور شعوری تفہیم کو اہتمام کے ساتھ موضوع بنایا جائے اور خاص طو رپر مذہبی طبقات کو فکری ابہام اور ذہنی الجھاؤ کی اس کیفیت سے باہر نکالنے کی کوشش کی جائے جس سے وہ اس وقت دوچار ہیں۔ جہاں تک اعلیٰ سطحی مذہبی قیادت کا تعلق ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں نفاذ اسلام کا بنیادی فریم ورک متعین کرنے میں اس نے کسی rigidity کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ پیش نظر صورت حال کے لحاظ سے نہایت اہم معاملات میں اجتہادی زاویہ نگاہ اختیار کیا اور نئے اجتہادی تجربات کو قبول کیا ہے۔ اس ضمن میں بنیادی نوعیت کے چند اہم اور نمایاں اجتہادات کا حوالہ دینا مناسب ہوگا:

  • قرارداد مقاصد اور علما کے مرتب کردہ ۲۲ دستوری نکات میں بادشاہت اور موروثی اقتدار کے بجائے عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر جمہوری طرز انتخاب کی تائید کی گئی۔
  • ملک کے قانونی ڈھانچے کو اسلامی قالب میں ڈھالنے کے لیے عملی مشکلات کے تناظر میں ’تدریج‘ کی حکمت عملی کو قبول کیا گیا۔
  • قدیم فقہی تصورات کے مطابق غیر مسلموں کو ’ذمی‘ قرار دے کر ان پر جزیہ عائد کرنے کے بجائے انھیں معاہد کے طور پر ریاست کے یکساں درجے کے شہری قرار دیا گیا اور اعلیٰ ترین سیاسی عہدوں کے علاوہ ان کے لیے ہر سطح کے حکومتی مناصب پر خدمات انجام دینے کا حق تسلیم کیا گیا۔
  • قادیانیوں کے بارے میں قدیم فقہی موقف پر اڑے رہنے کے بجائے علامہ محمد اقبالؒ کے تجویز کردہ حل کو قبول کر کے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے پر اکتفا کیا گیا۔
  • مغل سلطنت اور انگریزی دور اقتدار سے چلی آنے والی روایت کے برعکس، جس میں ملک کے عمومی قانون کی بنیاد فقہ حنفی پر تھی، ریاستی سطح پر کسی مخصوص فقہ کی پابندی پر اصرار کے بجاے وسیع تر دائرے میں شریعت کی تعبیر وتشریح کی گنجایش کا نہ صرف امکان تسلیم کیا گیا بلکہ عملی قانونی سازی کے مرحلے پر اسے قبول بھی کیا گیا۔
  • پارلیمنٹ کے لیے شریعت کے دائرے میں قانون سازی کا حق تسلیم کیا گیا، جبکہ تعبیر شریعت کے ضمن میں ذیلی قانونی اداروں میں علما کے ساتھ ساتھ جدید قانون دانوں اور معاشرے کے دیگر طبقات کی شرکت قبول کی گئی۔
  • قانون سازی کے عمل میں کلاسیکی فقہی ذخیرے کی بے لچک پابندی کے بجائے بہت سے اہم معاملات (مثلاً عورت کی دیت اور گواہی جیسے مسائل) میں ماضی کی اجماعی یا اکثریتی فقہی آرا سے اختلاف کرتے ہوئے نئی اجتہادی آرا کو اختیار کیا گیا۔

مذہبی علما نے یہ اجتہادات صرف عملی مجبوری کے تحت قبول نہیں کیے، بلکہ اسلامی سیاست کے تصورات کو جدید قالب میں ڈھالنے کے حوالے سے باقاعدہ علمی بحثیں بھی کی ہیں اور نئے حالات کے تناظر میں قدیم فقہی ذخیرے پر کلی انحصار کے رویے پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ اس ضمن میں ایک مختصر مگر جامع اقتباس یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا جو ممتاز مذہبی عالم اور دانش ور جناب مولانا زاہد الراشدی کی ایک تحریر سے ماخوذ ہے۔ خلافت کے موضوع پر ایک کتاب پر ناقدانہ تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:

’’۱۔کتاب قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کے علمی ذخیرے کی بنیاد پر لکھی گئی ہے اورآج کے عالمی حالات اور معروضی حقائق کی طرف توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے میری رائے یہ ہے کہ اگر خلافت کا نظام آج سے دوسوسال قبل کے ماحول میں قائم کرنا ہے تو اس کے لیے یہ کتاب کافی ہے، لیکن اگر آج کی دنیا میں خلافت کے نظام کی بحالی مقصود ہے تو یہ مواد اور تجزیے قطعی طور پر ناکافی ہیں اوریہ موجودہ مسائل کا حل پیش نہیں کرتے۔

۲۔خلافت کے لیے سنت کے حوالے سے معیار قائم کرنے میں جو حوالہ پیش کیاگیاہے، وہ بہت بہتر ہے، لیکن اس کے لیے مسلم شریف کی یہ روایت بھی شامل کر لی جائے تو زیادہ بہتر ہوگی کہ ’’تمہارے اچھے حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں اور تمہارے برے حکمران وہ ہیں جن سے تم بغض رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں‘‘۔ میرے نزدیک اس ارشاد کا مقصد یہ ہے کہ حکومت اور عوام کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہونا اور باقی رہنا ضروری ہے اور اس کے لیے عملی طور پر حالات کے تحت کوئی بھی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔

۳۔ انعقاد خلافت کا ایک صورت میں صرف ’’ارباب حل وعقد‘‘کو ذریعہ قرار دیاگیاہے جو درست نہیں ہے۔ امامت وخلافت کے بارے میں اہل سنت اور اہل تشیع کا بنیادی اختلاف ہی یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ منصوص ہے جو نامزدگی اور خاندان کی بنیاد پر طے ہوتاہے جبکہ ہمارے نزدیک خلافت نہ منصوص ہے اور نہ ہی خاندانی ہے، بلکہ اسے امت کی صوابدید اور اختیار پر چھوڑ دیا گیا ہے اور امت سے مراد امت ہے، صرف ’’اہل العقد والحل ‘‘نہیں ہیں۔ آپ نے خود حضرت عمرؓ کے ارشاد میں ’’عن غیر مشورۃ من المسلمین‘‘ کا جملہ نقل کیاہے، اس لیے خلیفہ کا انتخاب پوری امت کا حق ہے۔ حضرت عمرؓ کے اس خطبہ کو بخاری شریف میں دیکھیں تو اس میں یہ جملہ بھی ملے گا کہ جو لوگ مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر خلیفہ کا انتخاب کرنا چاہتے ہیں، وہ ان کے حقوق اور اختیارات کو غصب کرنا چاہتے ہیں۔

۴۔ خلافت کے نظام میں صرف شوریٰ نہیں، بلکہ نمائندگی بھی ہے۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے قیدیوں کی واپسی کے لیے بارہ ہزار پر مشتمل اسلامی لشکر کی اجتماعی رائے کو کافی نہیں سمجھا تھا، بلکہ ’’نقبا‘‘ کے ذریعہ ان کی رائے الگ الگ طور پر معلوم کی تھی، اس لیے جہاں عوامی مسائل کی بات ہوگی، وہاں شورائیت کے نظام میں وہ تمام افراد حصہ دار ہوں گے جن کے حقوق حکومتی فیصلوں اور اقدامات سے منسلک ہوں گے۔ ......

۵۔خلافت کے لیے تسلط کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت ذریعہ تسلیم کیا گیاہے کہ اگر کسی وقت ایساہوجائے تو فتنہ وفساد سے بچنے کے لیے اسے قبول کر لیا جائے گا، لیکن اسے ایک مستقل طریق انتخاب اور انعقاد خلافت کے ایک باقاعدہ ذریعہ کے طور پر پیش کرنا درست نہیں ہے۔ بالخصوص آج کے دور میں ایک مستقل ’’طریقہ انعقاد وخلافت‘‘ کے طور پر پیش کریں گے تو اس سے کسی متفقہ خلیفہ کا انتخاب تو ممکن نہیں رہے گا، البتہ عالم اسلام میں اس حوالے سے سو ڈیڑھ سو مقامات پر خانہ جنگی ضرور ہو جائے گی۔

۶۔میرے نزدیک آج کے دور میں خلافت کے انعقاد کی صرف ایک ہی صورت عملاً ممکن ہے کہ عالم اسلام میں آٹھ دس مقامات پر اسلامی امارتیں قائم ہوں جن کی بنیاد شوریٰ اور نمائندگی پر ہو۔ وہ انہی دو بنیادوں پرآپس میں کنفیڈریشن قائم کرکے اپنے اوپر خلافت کا ادارہ قائم کرلیں اور ا س کے حق میں ضروری اختیارات سے دست برداری اختیار کر کے باہمی مشورہ سے امیرا لمومنین کا انتخاب کرلیں۔ اس کے سوا آج کے دور میں اسلامی خلافت کے قیام کی کوئی صورت عملاً ممکن نہیں ہے ۔.........

۹۔ اقوا م متحدہ عالم اسلام پر( غلط یا صحیح )جو حکمرانی کررہی ہے، وہ یک طرفہ اور جبری نہیں ہے بلکہ ایک معاہدہ کے تحت ہے جس میں ہم باضابطہ طورپر شریک ہیں اور اس سے نکلنے کا مکمل اختیار رکھتے ہیں، اس لیے اس کی ساری ذمہ داری اقوام متحدہ پر ڈال دینا مناسب نہیں ہے۔ 

۱۰۔ نیز بین الاقوامی معاملات کے بارے میں بھی ہمیں کوئی اصول قائم کرناہوگا۔ جو بین الاقوامی معاہدہ ہمارے اقتدار اعلیٰ اور قرآن وسنت کے منصوص احکا م کے منافی ہے، اسے ہمیں کلیتاً مسترد کردینا چاہیے بلکہ اس میں شامل ہونا بھی غلط ہے، لیکن جو معاملات ہماری خود مختاری کی نفی نہیں کرتے اور قرآن وسنت کے کسی صریح اور منصوص حکم کے منافی بھی نہیں ہیں، انہیں یکسر مسترد کردینا درست نہیں ہوگا۔‘‘ (ماہنامہ الشریعہ، دسمبر ۲۰۱۱، ص ۴۹۔۵۱)

مذکورہ اجتہادات بدلتے ہوئے حالات اور ان کے تقاضوں کے گہرے شعور کی غمازی کرتے ہیں، لیکن مذہبی حلقے کے فکری جمود کا عالم یہ ہے کہ خود اس کے اکابر علما نے عملی طور پر جو اجتہادی فیصلے کیے، دینی مدارس کی سطح پر ان کی شعوری تفہیم اور اس کے عملی مضمرات اور تقاضوں سے طلبہ کو آگاہ کرنے کا سرے سے کوئی اہتمام موجود نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مدارس کے نظام تعلیم سے فیض یاب ہونے والا عالم دین آج بھی معاشرہ، شریعت اور قانون کا وہی تصور ذہن میں رکھتا اور اسی کو نفاذ اسلام کی معیاری صورت تصور کرتا ہے جو اس نے صدیوں پہلے لکھی گئی فقہی کتابوں میں پڑھی ہے۔ اسے نہ تہذیب وتمدن کے ارتقا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عملی تغیرات سے کوئی آگاہی ہوتی ہے اور نہ اس بات کا ہی پتہ ہوتا ہے کہ خود نفاذ اسلام کی جدوجہد کی قیادت کرنے والے علما نے عملاً کیا کیا اجتہادات کیے ہیں۔ چنانچہ اگرچہ مذہبی طبقات کی نمائندگی کرنے والی باقاعدہ سیاسی جماعتیں سیاسی عمل میں حصہ لیتی ہیں، لیکن اس تبدیلی کا کوئی شعوری فہم حاصل نہ ہونے کی وجہ سے یہ باقاعدہ سوچ پائی جاتی ہے جو دن بدن بڑھ رہی ہے کہ آیا جمہوری عمل کے ذریعے سے نفاذ اسلام ممکن بھی ہے یا نہیں اور یہ کہ مذہبی اکابر نے اگر کسی خوش فہمی کی بنا پر اس عمل میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا تو اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ 

ہمارے نزدیک اس صورت حال کی ذمہ داری بنیادی طور پر ہماری مذہبی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ دینی مدارس دہشت گردی کا مرکز نہیں اور نہ مدارس کے ارباب حل وعقد بحیثیت مجموعی دہشت گردی کی ذہنیت پیدا کرنے یا اسے فروغ دینے میں کوئی دلچسپی رکھتے یا اس صورت حال کو اطمینان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے ایسا کرناممکن ہی نہیں، کیونکہ ارباب مدارس جدید معاشرہ اور اس کے مسائل وضروریات سے کتنے ہی باخبر کیوں نہ ہوں، وہ خود اپنے تحفظ وبقا کے جذبے سے تہی دامن اور اس کے بنیادی تقاضوں سے ناواقف نہیں ہو سکتے، چنانچہ کسی بھی سماجی ادارے کے لیے ایسے کسی زاویہ نظر کا فروغ جو معاشرے کے امن اور اطمینان کو غارت کرنے اور مآل کار خود ان اداروں کی تباہی پر منتج ہو، سماجی نفسیات کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔ مدارس کا جرم یہ نہیں کہ وہ دہشت گردی کی تربیت دیتے یا اس کے لیے فضا ہموار کرتے ہیں۔ ان کی سادگی یہ ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کے ذریعے سے لاشعوری طور پر وہ تمام فکری اور نفسیاتی لوازمات فراہم کر رہے ہیں جس کے بعد اسے دہشت گردی کا روپ دینے کے لیے بس کسی خارجی محرک، کسی استعمال کرنے والے ہاتھ اور ایک جرات رندانہ کی ضرورت رہ جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ ایک خاص ماحول میں طلبہ کی ذہنی تربیت کر کے ان کے اور معاشرے کے دوسرے طبقات کے مابین اجنبیت کی دیوار کھڑی کر دینا، جدید معاشرت اور تمدن کے عملی تقاضوں سے روشناس کرانے کے بجاے قدیم فقہی سانچے کو ان کے سامنے واحد معیار اور آئیڈیل کے طو رپر پیش کرنا، حالات کے معروضی تناظر میں نفاذ اسلام کی حکمت عملی اور اس کے تقاضوں کا شعور دینے کے بجاے محض ایک جذباتی نعرہ ان کو دے دینا، دو عالمی طاقتوں کے ٹکراؤ میں مدارس کے طلبہ کو جذبہ جہاد کے زیر سایہ مسلح تربیت کے مواقع فراہم کرنا اور پھر جب یہ سارا انتظام واہتمام انڈے بچے دینے لگے تو اکابر علما کا جمع ہو کر یہ فتویٰ دے دینا کہ خود کش حملے اور مسلح جدوجہد افغانستان میں تو کی جا سکتی ہے لیکن پاکستان میں نہیں، ایک ایسی سادگی ہے جس پر صرف مرا جا سکتا ہے۔ اگر علما وقتاً فوقتاً پاکستان میں خود کش حملوں کے عدم جواز کے فتوے جاری کرنے کے بجاے صرف ایک دفعہ یہ اعتراف کر لیں کہ پاکستانی قوم کی ایک پوری نسل کو عالمی سیاست کی بچھائی ہوئی بساط میں احیاے اسلام کے خواب دکھانا ان کی غلطی تھی تو یہ درجن بھر فتوے جاری کرنے سے زیادہ موثر خدمت ہوگی، لیکن ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے لیے جو حقیقت پسندی اور اخلاقی جرات درکار ہوتی ہے، موجودہ مذہبی قیادت سے اس کی توقع کرنا شاید خود فریبی ہو۔

۴۔ مذہبی طبقات کے مابین ا س نکتے کو بھی بطور خاص غور وفکر کا موضوع بنانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں اعلیٰ سطحی مذہبی دانش نے یہاں نفاذ اسلام کے لیے جمہوری جدوجہد کا راستہ کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ پوری طرح سوچ سمجھ اور علیٰ وجہ البصیرت اختیار کیا تھا اور یہ کہ موجودہ نسل کو اس ضمن میں کوئی نیا اور جذباتی راستہ اختیار کرنے سے پہلے اپنے ان اکابر کے زاویہ نظر اور فیصلوں کا سنجیدگی اور دقت نظر سے جائزہ لے لینا چاہیے جن میں تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام مسلسل شریک چلے آ رہے ہیں۔ اس ضمن میں پاکستان میں جمہوری نظام کے دائرے میں نفاذ اسلام کی جدوجہد کرنے والے علماء اور قائدین کے نقطہ نظر کی ترجمانی کے طو رپر مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی بعض اہم تصریحات کو یہاں نقل کر دینا مناسب ہوگا۔

مولانا سے سوال کیا گیا کہ ’’کیا موجودہ صورت حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہو گیا؟‘‘ اس کے جواب میں فرمایا:

’’فرض کیجیے کہ بہت سے لوگ مل کر آپ کی صحت بگاڑنے میں لگ جائیں تو کیا آپ ان کی دیکھا دیکھی خود بھی اپنی صحت بگاڑنے کی کوشش میں لگ جائیں گے؟ بہت برا کیا گیا کہ غیر آئینی طریقوں سے کام لیا گیا ہے اور بہت برا کریں گے اگر ہم بھی ایسا ہی کریں گے۔ غیر آئینی طریقوں کو اختیار کرنے کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ ایک علانیہ اور دوسری خفیہ۔ آپ دیکھیں کہ دونوں صورتوں میں کیا نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

علانیہ طور پر غیر آئینی طریقوں سے جو تغیر پیدا ہوگا، وہ زیادہ برا ہوگا۔ اس طرح کی کوششوں سے پوری قوم کو قانون شکنی کی تربیت ملتی ہے اور پھر سو سال تک آپ اسے قانون کی اطاعت پر مجبور نہیں کر سکتے۔ ہندوستان میں تحریک آزادی کے دوران قانون شکنی کو ایک حربے کی حیثیت سے جو استعمال کیا گیا تھا، اس کے اثرات آپ دیکھ رہے ہیں۔ آج پچیس سال ]؟[ بعد بھی لوگوں کو قانون کا پابند نہیں بنایا جا سکا۔

اگر خفیہ طریقے سے غیر آئینی ذرائع کو اختیار کیا جائے تو نتائج اس سے بھی زیادہ خطرناک ہوں گے۔ خفیہ تنظیموں میں چند افراد مختار کل بن جاتے ہیں اور پھر ساری تنظیم یا تحریک ان ہی کی مرضی پر چلتی ہے۔ ان سے اختلاف رکھنے والوں کو فوراً ختم کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پالیسی سے اظہار بے اطمینانی سخت ناگوار اور ناپسندیدہ قرار دی جاتی ہے۔ اب آپ خود سوچیں کہ یہی چند افراد جب برسر اقتدار آئیں گے تو کس قدر بدترین ڈکٹیٹر ثابت ہوں گے۔ اگر آپ ایک ڈکٹیٹر کو ہٹا کر دوسرے ڈکٹیٹر کو لے آئیں تو خلق خدا کے لیے اس میں خیر کا پہلو کون سا ہے؟

میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں، مگر صبر کے ساتھ، تحمل کے ساتھ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا۔ .... آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔‘‘ (تصریحات ص ۲۵۷، ۲۵۸)

مزید فرماتے ہیں:

’’بکثرت لوگ اس الجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یا نہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجائے خود ہمار ے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے، لیکن ہم اس پوری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور اس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام جسے برپا کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جا سکے تو وہ دیرپا نہیں ہو سکتا۔

اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیر جمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظام زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے انھیں ہم خیال بنایا جائے اور ان کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ .....

کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جا سکتا ہے بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جباریت ہے اور خود اس کے ائمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ استعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی رائے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ رائے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے، لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اصولوں کا فہم اور ان کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک اور خواص (خصوصاً کار فرماؤں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اس کے اصول واحکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، انداز فکر اور سیرت وکردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلند پایہ اصول واحکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذ نہیں ہو سکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل ودماغ میں نہیں ٹھونسی جا سکتی، بلکہ ان میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد وافکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اقدار (Values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں اور ان کو اس حد تک ابھار دیا جائے کہ وہ اپنے اوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کر دینے کے لیے کوئی اقدام اس وقت تک نہیں کیا جا سکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہو جائے۔‘‘ (تصریحات ص ۳۲۰-۳۲۲)

مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میں فرمایا:

’’یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ اسلامی انقلاب بہت جلد آ رہا ہے؟ آپ اس قسم کی غلط توقعات قائم نہ کریں۔ بے جا توقعات سے مایوسی ہوتی ہے۔ پاکستان کی تشکیل سے پہلے بھی اخلاقی حالت بگڑی ہوئی تھی۔ پاکستان کے بعد اس بگاڑ میں اور اضافہ ہوا۔ اس ساری مدت میں اصلاح کی طرف کماحقہ توجہ نہ ہوئی۔ ہمارے بس میں جو کچھ ہے، وہ ہم کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل سے جو افراد دین کی حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں، وہ سرگرمی کے ساتھ اصلاح کے کام کا بیڑا اٹھائیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس تمام تر مساعی کے نتیجے میں حالت کب بدلے گی۔ ایک طرف شیطان اپنا کام کر رہا ہے، دوسری طرف ہم اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، لیکن ہمیں توقع ہے کہ اللہ کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ ہمارے کرنے کی جو چیز ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ باقی معاملات اللہ کے اختیار میں ہیں۔‘‘ (تصریحات ص ۳۴۰)

’’میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے۔ میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین وقانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی وجمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ .... یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔ اس کے دستور کی دفعہ ۵ میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت ودیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔‘‘ (تصریحات ص ۹۲)

۵۔ معاصر تناظر میں خروج کی بحث کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نکتہ بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ عالم عرب میں اور ہمارے ہاں، دونوں جگہ بعض طبقات کے لیے حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا بنیادی محرک حکمران طبقات کا جابرانہ، مستبدانہ اور منافقت پسندانہ طرز عمل بنا ہے، جبکہ شرعی وفقہی استدلال نے محض ثانوی طور پر خروج کے طرز عمل کو نظری جواز فراہم کرنے کا کردار ادا کیا ہے۔ چنانچہ دیکھیے، اسلام کے فلسفہ جہاد کی تشریح وتوضیح کے حوالے سے مولانا مودودی اور الاخوان المسلمون کے راہ نماؤں مثلاً سید قطب شہید کے طرز استدلال میں بہت بنیادی اشتراکات پائے جاتے ہیں جنھیں بعض حوالوں سے فکری توارد کی حیرت انگیز مثال کے طورپر پیش کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اصولی اور نظریاتی اشتراک کے باوجود اخوان نے بحیثیت مجموعی ایک تشدد پسند تحریک کی صورت اختیار کر لی جبکہ مولانا موودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ حاکمیت الٰہیہ اور اسلامی شریعت کے غلبے کا تصور فی نفسہ ایسا نہیں کہ اس کے نتیجے میں جمہوری طرز حکومت سے تنفر، مسلم حکمرانوں کی تکفیر اور نظم ریاست کے ساتھ تصادم جیسے تشدد پسندانہ فکری رجحانات کا پیدا ہونا ناگزیر ہو، بلکہ اس کے اسباب اس خارجی ماحول میں تلاش کرنے چاہییں جس میں یہ رجحانات پیدا ہوئے۔ اخوان کے حلقوں میں یہ رجحانات اس ظلم وستم اور تشدد کے جواب میں رد عمل کے طور پر پیدا ہوئے جو مصر اور شام کے قوم پرست سیکولر حکمرانوں کی طرف سے ان کے خلاف روا رکھا گیا، چنانچہ الہجرۃ والتکفیر، اسلامی جہاد اور حزب التحریر جیسے تمام گروہوں کی تاریخ پیدائش اخوان کے خلاف کیے جانے والے ان اقدامات کے بعد کی ہے۔ عالم عرب، خاص طو رپر مصر اور شام میں حکمرانوں کے جبر واستبداد کا شکار ہونے والے جن تحریکی اور انقلابی عناصر میں بغاوت اور تشدد کا جذبہ پیدا ہوا، ظاہر ہے کہ انھیں اپنے طرز عمل کے لیے ایک ’’شرعی‘‘ جواز درکار تھا۔ چونکہ حکمرانوں کے محض ظلم وجبر کی بنیاد پر ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی صریح ممانعت شرعی نصوص میں بیان ہوئی ہے، اس لیے ’’مسلم‘‘ حکمرانوں کے خلاف بغاوت کو justify کرنے کا راستہ انھیں یہی دکھائی دیا کہ وہ مسلم حکمرانوں کو سرے سے ’’مسلمان‘‘ تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیں اور یوں بظاہر حاکمیت الٰہیہ کے مخصوص تصور جبکہ بباطن مزاحمت ومقاومت کو شرعی جواز مہیا کرنے کی عملی ضرورت کے بطن سے جمہوریت کے ’’کفر‘‘ اور مسلم حکمرانوں کے ’’کافر‘‘ ہونے کے انتہا پسندانہ فلسفے نے جنم لیا۔ اس فلسفے کو کتنا ہی اصولی اور نظری استدلالات کی مخمل میں لپیٹ کر پیش کیا جائے، حالات وواقعات کی ترتیب پر نظر رکھنے والا کوئی شخص اس کے ’’عملی‘‘ محرکات سے صرف نظرنہیں کر سکتا۔ 

یہی صورت حال ہمارے یہاں بھی پیدا ہوئی۔ ہمارے عسکری پالیسی سازوں نے اس معاملے میں سب سے پہلا ’’ظلم‘‘ یہ کیا کہ افغان جنگ کے دوران میں پہلے تو دنیا بھر سے جہادی جذبہ رکھنے والے افراد کے لیے یہاں آکر روس کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کا راستہ ہموار کیا اور ایک ایسی جنگ میں جو پاکستانی پالیسی سازوں کے نقطہ نظر سے خالصتاً پاکستان کے اسٹریٹجک مفادات کے تحفظ کے لیے مقامی طور پر ایک محدود اور متعین ہدف کے لیے لڑی جا رہی تھی، ’’جہاد‘‘ جیسے مذہبی جذبے کو عنوان بنا کر جہادی عناصر میں یہ توقع اور امید پیدا کی کہ شاید روس کی شکست اس جنگ کا خاتمہ نہیں، بلکہ خلافت اسلامیہ کے قیام اور عالمی سطح پر جہاد کے عمل کا نقطہ آغاز بن جائے گی۔ تاہم روس کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد جب دنیا بھر سے جمع ہونے والے ان مجاہدین کی ضرورت باقی نہ رہی تو انھیں ایک خطرے کے طور پر ’’ڈیل‘‘ کرنا شروع کر دیا گیا اور بہت سے افراد کو خود پکڑ پکڑ کر ان کی حکومتوں کے حوالے کیا گیا۔ پھر نائن الیون کے نتیجے میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستانی پالیسی سازوں نے fair طرز عمل اختیار کرنے کے بجائے دوغلی پالیسی کے تحت ایک طرف بین الاقوامی فورم پر یوٹرن لیتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا جبکہ دوسری طرف جہادی عناصر کے ساتھ درون خانہ موافقت کا رویہ بھی اپنائے رکھا، البتہ جہاں ضرورت پڑی، اپنی سیاسی مجبوریوں کے تحت ان کے خلاف اقدام کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ جب جہادی عناصر کی ایک بڑی تعداد نے اس دوغلی پالیسی پر بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے خود پاکستانی افواج کو بھی دشمن کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا تو ملک کے مختلف علاقوں میں ان کے خلاف آپریشن شروع کر دیے گئے۔ یہ طرز عمل بدیہی طور پر ’خرق اعتماد‘ (breach of trust) کی نوعیت رکھتا ہے اور اس کے نتیجے میں جہادی عناصر میں اس رجحان کا پیدا ہونا فطری تھا کہ افواج پاکستان ان کو کچلنے کے لیے امریکہ کی چھیڑی ہوئی جنگ کا حصہ بن چکی ہیں، چنانچہ ان کے خلاف مسلح کارروائیاں کرنے کا پورا شرعی جواز موجود ہے۔ اس صورت حال سے افغان جہاد کے دور میں عالم عرب سے درآمد کی جانے والی اس فکر نے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا جو دور جدید میں حکمرانوں کی تکفیر اور خروج جیسے تصورات کی اصل موجد ہے اور آج پاکستان کا نوجوان مذہبی ذہن ریاست سے متعلق ان بنیادی سوالات کا جواب ازسر نو متعین کرنے میں مصروف ہے جن کے حوالے سے قیام پاکستان کے بعد اعلیٰ سطحی مذہبی قیادت نے ایک واضح اور متعین موقف اختیار کرتے ہوئے نفاذ اسلام کی جدوجہد کو جمہوری نظام کے دائرے میں محدود رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔

اگر مذکورہ تمام سوالات اور نکات پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے اور معاملے کے تمام فریق (ریاستی ادارے، سیکولر طبقات، مذہبی قیادت اور خروج کے مویدین) فکر اقبال سے راہ نمائی لیتے ہوئے اپنے رویوں اور طرز عمل پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس کر لیں تو یقیناًپاکستان اور پاکستانی قوم کو اس بحران سے نکالا جا سکتا ہے جس میں وہ اس وقت مبتلا ہے۔ ہذا ما عندی والعلم عند اللہ





شاہ ولی اللہؒ اور علامہ محمد اقبالؒ

مولانا ابوعمار زاہد الراشدی

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور علامہ اقبالؒ جنوبی ایشیا کے ممتاز مسلمان مفکرین میں سے تھے۔ دونوں کے درمیان دو صدیوں کا فاصلہ ہے اور دونوں نے اپنے اپنے دور میں ملت اسلامیہ کی بیداری کے لیے نمایاں اور سیاسی خدمات سر انجام دی ہیں، شاہ ولی اللہؒ کا دور وہ ہے جب اورنگزیب عالمگیرؒ کی نصف صدی کی حکمرانی کے بعد مغل اقتدار کے دورِ زوال کا آغاز ہوگیا تھا اور شاہ ولی اللہؒ کو دکھائی دے رہا تھا کہ ایک طرف برطانوی استعمار اس خطہ میں پیش قدمی کر رہا ہے اور دوسری طرف جنوبی ہند کی مرہٹہ قوت دہلی کے تخت کی طرف بڑھنے لگی ہے، جبکہ علامہ اقبالؒ کو اس دور کا سامنا تھا جب انگریزوں کی غلامی کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد برصغیر کے باشندے اس سے آزادی کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ گویا شاہ ولی اللہؒ غلامی کے امکانات کو دیکھتے ہوئے اسے روکنے کی کوشش کر رہے تھے اور علامہ اقبالؒ غلامی کو بھگتتے ہوئے اس سے قوم کو آزادی دلانے کی جدوجہد میں مصروف عمل تھے۔

شاہ ولی اللہؒ کو یہ خطرہ درپیش تھا کہ جنوبی ہند کے مرہٹے دہلی کے اقتدار کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں، اس کا سدّ باب انہوں نے یوں کیا کہ افغانستان کے فرمانروا احمد شاہ ابدالیؒ کو برصغیر کے مسلمانوں کی مدد کے لیے دعوت دی جس کے نتیجے میں پانی پت کی خوفناک جنگ میں مرہٹوں کو فیصلہ کن شکست ہوئی اور شمالی ہند مسلمانوں کے لیے محفوظ ہوگیا، جبکہ علامہ اقبال ؒ اس پریشانی سے دوچار تھے کہ برطانوی استعمار سے آزادی کے بعد اس خطے کا مستقبل ووٹ اور سیاسی عمل کے ذریعہ تشکیل پائے گا جس میں ہندو کی واضح اکثریت مسلمانوں کے سیاسی مستقبل کو مخدوش کر سکتی ہے، اس کا حل انہوں نے پاکستان کے نام سے مسلمانوں کی الگ ریاست کی شکل میں نکالا اور برصغیر کی تقسیم کی تجویز پیش کر کے مسلمانوں کو سیاسی طور پر محفوظ کرنے کی کوشش کی۔ گویا خطرہ دونوں کو ایک ہی طرح کا درپیش تھا لیکن دونوں نے اس کا حل اپنے اپنے دور کے تقاضوں اور حالات کی روشنی میں الگ الگ تجویز کیا۔

شاہ ولی اللہؒ کو اپنے دور میں فقہی جمود کا سامنا تھا اور اس جمود کو توڑنے کے لیے انہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو قرآن و حدیث سے براہ راست استفادہ کرنے کی دعوت دی بلکہ قرآن کریم اور حدیث نبویؐ کی تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری کیا اور فقہ میں انہوں نے فقہ حنفی کے اصولی دائرہ کو قائم رکھتے ہوئے توسع اور اجتہاد کو فروغ دینے کی بات کی۔

علامہ اقبالؒ کو بھی اسی قسم کے فقہی جمود سے سابقہ تھا، انہوں نے اپنے طور پر اس کا حل یہ نکالا کہ مسلمان ’’اجتہادِ مطلق‘‘ کے دور کی طرف واپس لوٹ جائیں، چنانچہ ’’تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ‘‘ کے عنوان سے اپنے خطابات میں انہوں نے اہل علم و دانش کو اسی بات کی دعوت دی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے یہ خطبات دینی حلقوں میں ایک عرصہ سے زیر بحث ہیں، ان کے بارے میں بہت سے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے اور خود میرے بھی بعض تحفظات ہیں لیکن میرے خیال میں اسے اس نقطۂ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ علامہ اقبالؒ نے یہ خطبات بحث و مباحثہ کے ایجنڈے کے طور پر پیش کیے تھے جن پر علمی و تحقیقی کام نہیں ہو سکا۔

شاہ ولی اللہ دہلویؒ خود علوم قرآن و حدیث کے متبحرِ عالم تھے، انہیں اپنے لائق فرزندوں اور قابل فخر شاگردوں کی صورت میں علمی کام کرنے والی ایک مضبوط ٹیم میسر تھی اس لیے ان کے ایجنڈے نے ایک باقاعدہ علمی حلقے کی شکل اختیار کر لی اور جنوبی ایشیا کی دینی فکر پر ابھی تک اسی کا سکہ چل رہا ہے، مگر علامہ اقبالؒ کو یہ سہولت میسر نہ ہو سکی اور وہ اس معاملہ میں بالکل تنہا نظر آتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا ایک دور میں یہ خیال تھا کہ اگر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ لاہور آجائیں تو وہ دونوں مل کر اس علمی و فکری ایجنڈے کو ایک مستقل علمی و فکری کام کی بنیاد بنا سکتے ہیں اور میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اگر ایسا ہو جاتا تو آج کی علمی و فکری دنیا کا نقشہ ہی مختلف ہوتا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ پھر علامہ اقبالؒ نے سید سلمان ندویؒ اور دوسرے علماء کرام کو اس طرف آمادہ کرنے کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہو سکی، حتیٰ کہ پٹھانکوٹ میں دار الاسلام کا قیام اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی وہاں آمد بھی بنیادی طور پر علامہ اقبالؒ کی سوچ کا نتیجہ لگتی ہے لیکن کام اس رخ پر آگے نہ بڑھ سکا جو علامہ اقبالؒ کے پیش نظر تھا۔ 

یہ بات درست ہے کہ فقہی جمود کو ختم کرنے اور آزادئ فکر کو اجتہاد کے ذریعہ نشو و نما دینے کی جو صورت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے سامنے تھی علامہ اقبالؒ کی آزادئ فکر اور اجتہاد کے دائرے اس سے مختلف تھے لیکن دونوں کے توسع اور آزادئ فکر کے دائرے بہت مختلف ہونے کے باوجود بنیادی طور پر دونوں کو ایک ہی مسئلہ کا سامنا تھا کہ امت کو اس بے لچک فقہی جمود کے دائرے سے نکالا جائے جو فکری اور علمی ارتقاء اور سماجی ترقی میں ان کے خیال میں رکاوٹ تھے۔ البتہ شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا تصور اجتہاد اور فکری آزادی مسلّمہ فقہی اصولوں کی حدود میں تھی جبکہ علامہ اقبالؒ انہی مسلّمہ فقہی اصولوں پر نظر ثانی کی بات کر رہے تھے۔ میرا یہ خیال ہے کہ اگر علامہ اقبالؒ کو شاہ ولی اللہؒ کی طرح کی علمی ٹیم اور مواقع میسر آجاتے تو ان کی فقہی سوچ کے بارے میں دینی حلقوں کے تحفظات یقیناًتوازن کی صورت اختیار کر لیتے لیکن ان کے خطبات صرف ایجنڈا ہی رہے اور اس ایجنڈے پر علمی و تحقیقی کام کا خواب تعبیر کی شکل اختیار نہ کر سکا۔ مجھے اس موقع پر آغا شورش کاشمیری مرحوم کا یہ جملہ یاد آرہا ہے جو ان کا اپنا ہے یا شاید کسی اور دانش ور کے قول کے طور پر انہوں نے نقل کیا تھا کہ ’’اقبالؒ وہ شبلی نعمانی ؒ ہے جسے کوئی سید سلمان ندویؒ میسر نہ آسکا۔‘‘

میرے نزدیک فکرِ اقبالؒ کا اصل المیہ یہی ہے اور اس کا حل آج بھی یہی ہے کہ اقبالؒ اور انور شاہؒ مل کر بیٹھیں اور قدیم اور جدید ایک دوسرے کی نفی کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا وجود اور ضرورت تسلیم کرتے ہوئے باہمی مشاورت اور اشتراک کے ساتھ امت مسلمہ کی علمی و فکری راہ نمائی کریں۔ اقبالؒ کے تصورِ اجتہاد کے سب پہلوؤں سے اتفاق نہ ہونے کے باوجود میں اسے ایک ایجنڈا تصور کرتے ہوئے اس پر علمی و تحقیقی کام کو آج کی ایک اہم ضرورت سمجھتا ہوں اور امت مسلمہ کی صحیح سمت راہ نمائی کے لیے قدیم و جدید کے متوازن امتزاج کو وقت کا ایک ناگزیر تقاضا تصور کرتا ہوں۔




علامہ اقبالؒ کی شخصیت اور ان کا فکر و فلسفہ ۔ مولانا سندھیؒ کے ناقدانہ خیالات کی روشنی میں

پروفیسر محمد سرور

مولانا سندھی نے کہا: قرآن مجید یہود اور نصاریٰ کی بے راہ رویوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: اتخذوا احبارہم ورہبانہم اربابا من دون اللہ والمسیح ابن مریم وما امروا الا لیعبدوا الہا واحدا لا الہ الا ہو سبحانہ عما یشرکون (ٹھہرا لیا اپنے عالموں اور درویشوں کو خدا، اللہ کو چھوڑ کر اور مسیح مریم کے بیٹے کو بھی، اور ان کو حکم یہی ہوا تھا کہ بندگی کریں ایک معبود کی۔ کسی کی بندگی نہیں اس کے سوا۔ وہ پاک ہے ان کے شریک بتلانے سے) (سورۃ التوبہ آیت ۳۱)

مولانا فرمانے لگے کہ مسلمانوں میں پہلے شاہ پرستی آئی اور اس شاہ پرستی نے احبار (علما) ورہبان (درویش) پرستی کو جنم دیا۔ تاتاریوں کے ہاتھوں بغداد کی تباہی (۱۲۵۸) کے بعد امام ابن تیمیہؒ (۱۲۶۳۔۱۳۲۸) نے اس احبار ورہبان پرستی کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی اس دعوت کا سلسلہ برابر جاری رہا او ریہ آواز دور دور تک پہنچی۔ اس دعوت کی ایک کڑی شیخ محمد بن عبد الوہاب نجدیؒ (۱۷۰۳۔۱۷۸۷) تھے۔ یہاں ہندوستان میں اکبر بادشاہ نے علما اور مشائخ کا زور توڑنے کی کوشش کی۔ دین الٰہی سے دراصل اس کا یہی مقصد تھا اور وہ اس طرح اس طبقے کی دینی وسیاسی اجارہ داری کو ختم کرنا چاہتا تھا جس میں وہ ناکام ہوا۔ مولانا نے کہا: میں اقبال کی بڑی عزت کرتا ہوں کہ اس نے شاعری کے ذریعہ، جس کی تاثیر نثر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے، مسلمانوں کو خودی کی تعلیم دے کر اس احبار ورہبان پرستی کے خلاف ابھارا۔ جمود، سکون پسندی، تقدیر پر صابر وشاکر ہونے اور اشخاص پرستی کو مذموم قرار دیا اور ان کے اندر جوش عمل اور جرات کردار پیدا کرنے کی جدوجہد کی۔ میں مانتا ہوں کہ اقبال کی شاعری نے بڑا کام کیا اور نوجوانوں کی ذہنی بیداری میں اس کا بڑا حصہ ہے، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ احبار اور رہبان اب بھی ہمارے ہاں پج رہے ہیں۔ مولانا نے فرمایا کہ میرے نزدیک اس کا علاج صرف یورپین ازم اور نیابتی حکومت ہے۔ جس دن عوام نے سمجھ لیا کہ اقتدار کے مالک وہ ہیں اور حکومت ان کے ووٹوں سے بنے گی اور ٹوٹے گی، اس دن سے مسلمانوں کے ’’احبار‘‘ اور ’’رہبان‘‘ کی قبر کھدنی شروع ہو جائے گی۔

مولانا کہتے تھے کہ میں اقبال کی شاعرانہ عظمت اور ان کے اس عظیم دعوت وابلاغ کے کارنامے کا دل سے معترف ہوں، لیکن میرے نزدیک سیاسی قیادت اور دینی امامت ایک شاعر کے، خواہ وہ کتنا بھی بڑا شاعر کیوں نہ ہو، سپرد کر دینا قوم کو ہلاکت کے گڑھے میں دھکیلنا ہے۔ اقبال کو میں بڑا شاعر مانتا ہوں، لیکن انھیں قوم کا قائد وامام تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اقبال کو قائد وامام ماننے سے ہی جملہ خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ 

اقبال نے اپنے اشعار میں عجم اور قومیت کی جو مسلسل مخالفت کی ہے، مولانا کو ا س پر اعتراض تھا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ ایسا کرنا اسلامی تاریخ کے حقائق کا انکار کرنا ہے۔ ان کے نزدیک تاریخ اسلام کے اموی دور میں مسلمانوں کے جماعتی تصورات وخیالات اور ان کی ثقافت میں شامل عیسائی اور یہودی عناصر موثر تھے۔ عباسی عہد میں ایرانی تہذیب وادب اور یونانی فلسفہ ومنطق برسرکار آئے۔ اسی سے تصوف اور علم کلام واسلامی فلسفہ پروان چڑھے اور ان کے ذریعہ عجمیوں نے اسلام کی ہر لحاظ سے خدمت کی اور ہندوستان میں ہندی فکر نے اسلام کے تصورات وثقافت کو جلا دی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ تاریخ اسلام کے عربوں کے دور کو مقدس سمجھ لیا گیا اور ایرانیوں، ترکوں اور ہندوستانیوں کے عہدوں کو زوال کا زمانہ مان لیا گیا، حالانکہ اسلام کے عالمگیر انقلاب کے اعتبار سے یہ سب دور ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس انقلاب کا اپنے مختلف مراحل میں قومی رنگ اختیار کرنا بالکل فطری تھا۔ مولانا کہتے تھے کہ بد قسمتی سے اقبال اسلامی تاریخ کے ارتقا کے ان قدرتی مظاہر کو نہ سمجھا اور وہ ساری عمر عجم وعجمیت کی مذمت اور عرب وعربیت کی تعریف کرتا رہا۔

مولانا نے اقبال کی قومیت ووطنیت دشمنی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میں مسلمانوں کی الگ الگ قومیتوں کے انکار کے خلاف ہوں، بلکہ میرے نزدیک تو خود اس برعظیم میں بڑی بڑی زبانیں بولنے والی آبادیاں، قومیں ہیں۔ ایک خاص خطے اور ایک خاص ماحول میں رہنے والے زندگی کا ایک خاص رنگ جو سب میں مشترک ہوتا ہے، اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کی ایک زبان ہوتی ہے۔ اسلام کی ترقی اور نشر واشاعت کے لیے ان قومیتوں کا اعتراف ضروری ہے اور اس سلسلے میں اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس کی عالمگیر تعلیم کو ان قوموں کی زبان میں پھیلایا جائے۔

ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے اور اس غلطی کو اپنی نہایت دل آویز، انتہائی موثر اور بڑی زور دار شاعری کے ذریعہ نوجوان مسلمانوں کے دلوں اور دماغوں میں بہت گہرا اتارنے میں اقبال کا سب سے بڑا حصہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے الگ الگ قوم ہونے کا انکار کیا اور اپنے آپ کو بس ایک عالمگیر اسلامی برادری کا ایک حصہ سمجھتے رہے۔ اب امر واقعہ یہ ہے کہ مصری، عراقی، ایرانی، ترکی یہاں تک کہ حجازی بھی ۹۰ فی صد قومی ہیں اور ۱۰ فی صد مسلمان اور ان کے مقابلے میں ہم ۱۰۰ فی صد مسلمان ہیں اور ہمیں کسی قوم میں سے ہونے میں عار آتی ہے۔ مولانا کہتے تھے کہ اس فرضی سیاسی اسلامیت کی بدولت، جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہیں تھی، ہم مرزا غلام احمد جیسے نبی مصلح اور اقبال جیسے پیغمبر شاعر پیدا کر سکے لیکن ہم رہے ہوا ہی ہوا میں معلق۔ کسی دوسرے مسلمان ملک میں آپ کو اس زمانے میں اس طرح کے مہدی، مسیح موعود اور نبی بننے والے مذہبی پیشوا اور قومی امنگوں اور وطنی وملکی مطالبوں وآرزوؤں کو قابل توجہ نہ سمجھنے والے ’’پیغمبر‘‘ شاعر نہیں ملیں گے۔ وہاں قومی شخصیتیں پیدا ہوئیں جنھوں نے اپنے پس ماندہ محکوم اور خستہ ونزار عوام کو قومیت کے فطری جذبے کے تحت بیدار کرنے کی کوششیں کیں۔ اقبال نے جمال الدین افغانی اور سعید حلیم پاشا کو تو بے حد سراہا ہے لیکن شیخ محمد عبدہ اور مصطفی کمال کو نظر انداز کیا ہے، حالانکہ جہاں تک شیخ محمد عبدہ کا تعلق ہے، مصر اور ایک حد تک سارے عربی ممالک کا دینی فکر ان سے متاثر ہے۔ اور مصطفی کمال نے تو ترکی کی ساری کایا ہی پلٹ دی ہے۔ ان کے مقابلے میں نہ سید جمال الدین اور نہ حلیم پاشا کا مصر اور ترکی پر کوئی دیرپا اثر مترتب ہوا۔

مولانا سندھی کا کہنا یہ تھا کہ اجنبی غلامی کی سب سے بڑی لعنت یہ ہوتی ہے کہ محکوم اپنے قومی وجود اور اس کی شخصیت کو بھول جاتے ہیں، اس لیے آزادی کی جدوجہد میں سب سے پہلی منزل یہ ہوتی ہے کہ عوام میں اپنے قومی وجود اور اس کی شخصیت کا شعور پیدا کیا جائے۔ ترکوں، ایرانیوں اور عربوں نے اپنی جدوجہد آزادی میں سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا تھا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں اقبال نے ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے ملت اسلامیہ کی ایک سیاسی شخصیت رکھی جس کا دنیا میں کہیں وجود نہ تھا۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اگر اقبال کو ہندو مسلم متحدہ قومیت سے انکار تھا تو وہ اس برعظیم کی مسلمان آبادی کے گزشتہ آٹھ سو سال کے ہندی اسلامی فکر پر نظر ڈالتا اور اس کا احصا اور تجزیہ کر کے اس کی اساس پر اس سرزمین میں ہندوستانی مسلم قومیت کی عمارت اٹھاتا لیکن وہ دوسرے مسلمان ملکوں کے شاندار ماضی ہی کے راگ الاپتا رہا اور اسلامی ہند کی تاریخی عظمتوں میں خال خال اسے کوئی پرکشش موضوع سخن ملا۔

علامہ اقبال نے اسلامی کلچر اور اسلامی ثقافت کا جو فرضی ہیولیٰ کھڑا کر رکھا تھا، مولانا سندھی اس کے بھی سخت مخالف تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس قسم کی فرضی بحثوں سے ہندوستانی عوام، مسلمانوں اور ہندووں، ہر دو کی توجہ اصل مسائل سے، جو اجنبی غلامی سے آزادی حاصل کرنے اور معاشی حالت کو بہتر بنانے سے متعلق تھے، ہٹ جاتی تھی اور اس سے بالواسطہ انگریزی حکمرانوں کو فائدہ پہنچتا تھا۔ مولانا کا کہنا تھا کہ کلچر قومی ہوتے ہیں، جیسے زبانیں اور ادب قومی ہوتے ہیں۔ اگر ایک قوم مسلمان ہے تو ظاہر ہے اس کا قومی کلچر اسلامی عقائد وروایات وتاریخ سے متاثر ہوگا۔ اب عوام کی سیاسی آزادی اور ان کی معاشی مرفہ الحالی کو پیچھے ڈال کر ایک فرضی اسلامی کلچر کو، جس کے تصورات تک واضح ومتیقن نہ تھے، سر پر چڑھا لینا ایک بہت بڑی غلطی تھی۔ مولانا نے فرمایا، تم دیکھنا، اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔ اس سے ذہنی انتشار پیدا ہوگا۔مولانا یہ باتیں کرتے کرتے غصے میں آ گئے اور کہنے لگے: آج جو لوگ بڑھ چڑھ کر اسلامی کلچر کی باتیں کرتے ہیں، ان کی اپنی پوری زندگی، ان کا رہن سہن، ان کی سوچ بچار اور ان کے مجلسی آداب واطوار سب انگریزیت میں رنگے ہوئے ہیں۔

علامہ اقبال کی خود اپنی ذات اور شخصیت کے تضادات اور پھر ان کے فکر وعمل کے تضادات، راقم الحروف ان کی کنہ وحقیقت سمجھنا چاہتا تھا۔ علامہ اقبال کی عظیم شخصیت اور ان کے افکار عالی سے جہاں اور ہزاروں لاکھوں نئے تعلیم یافتہ متاثر ہوئے اور ان کے دلوں اور دماغوں پر علامہ اقبال کی شخصیت کی گہری چھاپ لگی، وہاں ایک میں بھی تھا، اس لیے مجھے ان کے ان تضادات سے بڑی ذہنی الجھن رہتی تھی۔ میں نے مولانا کے سامنے علامہ اقبال کے اس طرح کے کئی ایک تضادات پیش کیے اور پوچھا کہ ایسا کیوں ہے۔ ان کی ایک شخصیت کے اندر یہ دو الگ الگ شخصیتیں کیسے ہیں اور ان میں باہم کش مکش کیوں رہتی ہے؟ مولانا نے فرمایا: اقبال کو تھوڑا بہت جو میں سمجھ سکا ہوں، اس کے مطابق ان کے بارے میں میری رائے یہ ہے:

اقبال جس گھرانے میں پیدا ہوئے اور جس ماحول میں ان کی ابتدائی نشوونما ہوئی، اس میں اسلام سے جذباتی عقیدت بڑی رچی بسی ہوئی تھی۔ پھر خود قدرت نے انھیں یہ نعمت بدرجہ وافر دی تھی، چنانچہ اسلام سے جذباتی عقیدت اور رسول اکرم علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات گرامی سے والہانہ عشق ومحبت کے نقوش بچپن میں ان کے دل ودماغ پر ایسے ثبت ہوئے کہ وہ آخر عمر تک اپنی اسی تازگی کے ساتھ قائم رہے۔ ان کے ان جذبات عقیدت ومحبت میں پورا خلوص تھا اور بے حد شدت بھی۔ چنانچہ جب کبھی ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آتا تو ان کے انھی جذبات کو تحریک ہوتی تو جیسا کہ تم نے بتایا ہے، ان پر رقت طاری ہو جاتی، اپنے اوپر انھیں قابو نہ رہتا اور وہ رونے لگتے۔ اسی طرح جب کبھی اسلام کے ان معتقدات کے خلاف، جن کے سچے اور حق ہونے کے نقش نو عمری میں ان کے دل ودماغ پر ثبت ہو چکے تھے، کسی سے کچھ سنتے تو ان کے دل کو دھکا لگتا اور وہ بے قرار ہو جاتے۔ مولانا سندھی نے کہا: اپنے اس احساس، تاثر اور شدید رد عمل میں وہ بڑے مخلص تھے۔ اور یہ حقیقی اظہار ہوتا تھا ان کی اس شخصیت کا جو خود ان کے اپنے طبعی رجحان، خاندانی ورثے ، ماحول اور نوعمری کی رسمی تعلیم سے تعمیر ہوئی تھی۔

مولانا نے کہا: بعد میں جب وہ کالج میں پہنچے، پھر یورپ گئے اور جرمنی اور انگلستان کی اعلیٰ درس گاہوں میں انھوں نے یورپی فلسفہ پڑھا تو ان کی اپنی جو ایک فلسفی اور حکیم کی شخصیت ہے، اس کی تشکیل ہوئی۔ فلسفہ تشکیک، تنقید، آزادانہ غور وفکر، عدم تقلید اور فکری بغاوت کے رجحانات کو ابھارتا ہے۔ اور یہ کیسے ممکن تھا کہ اقبال جیسا غیر معمولی ذہین عالم وفاضل شخص ان موثرات کے اثر قبول نہ کرتا۔ چنانچہ اس نے یہ اثرات قول کیے اور ان سے اس کی ایک فلسفی وحکیم کی شخصیت بنی۔ اقبال کی یہ دو شخصیتیں باہم ترکیب پا کر اور ایک دوسرے سے پوری ممتزج ہو کر اس طرح ایک نہیں بنیں کہ دونوں کے ائتلاف وترکیب سے اقبال کی ایک سالم، کامل اور ہر لحاظ سے مربوط ومکمل شخصیت وجود میں آتی۔ وہ ہر چیز کو، خواہ وہ ان کا اپنا مذہبی عقیدہ ہو یا کوئی اور مسئلہ، اسے ایک نظر سے دیکھتے۔ وہ نظر خواہ وہ ایک شاعر کی ہوتی جسے جذبات متحرک کرتے ہیں، یا ایک فلسفی وحکیم کی جس کا فکر تنقید وتشکیک سے آگے بڑھتا ہے، یا ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی جو ہر مذہبی روایت کو حجت سمجھتا ہے۔

مولانا سندھی کہنے لگے: کبھی کبھی اقبال کی ان دو یا دو سے زیادہ الگ الگ شخصیتوں میں ارتباط وائتلاف بھی ہوتا ہے۔ اس وقت اقبال اپنے فکر کے اعلیٰ وارفع مقام پر کھڑا ہوتا ہے۔ بے شک اقبال کے کلام میں اس کی کمی نہیں لیکن کبھی کبھی اس کی یہ شخصیتیں باہم ٹکراتی ہیں اور انھی سے وہ تضادات پیدا ہوتے ہیں جن کا تم نے ذکر کیا ہے۔ ان کی شاعری میں یہ تضادات زیادہ ہیں اور وہی زیادہ مقبول بھی ہے۔ اب بحیثیت ایک فلسفی کے اس کی نظر وفکر عالمی ہے۔ مسلمان ہونے کے لحاظ سے وہ اپنے دور کے ہندوستان کا، جس میں چھوٹے چھوٹے ہندو مسلم تنازعات زوروں پر تھے، ایک فرقہ پرست مسلمان بن جاتا ہے اور پنجاب میں قادیانیت کے خلاف جو عام فضا تھی، اس سے متاثر ہوتا ہے تو وہ احمدیوں کو دائرہ اسلام سے باہر کر دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔

مولانا نے فرمایا: یہ ہے میرے نزدیک اقبال۔ ایک عظیم شخصیت، لیکن کامل وسالم نہیں بلکہ اپنے آپ میں بٹی ہوئی اور تضادات کا شکار۔ جوانی میں فکری ہوش سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے وطن کا ’’شخص‘‘ یعنی تصوراتی وجود اقبال کے دماغ پر حاوی ہوا۔ آگے چل کر اس کی جگہ مسلمانوں کی جماعت کے تصوراتی وجود نے لے لی اور آخر تک جماعت کا یہ کابوس اس کے دماغ پر برابر سوار رہا۔ کبھی کبھی خود اس کی اپنی ذات کے نفسی تقاضے جماعت کے بندھنوں کے خلاف بغاوت بھی کرتے رہے لیکن یہ بغاوت محض شعر وشاعری تک محدود رہتی۔ اس ضمن میں اقبال کو ایک مستقل عقلی وفکری مثبت رائے، جسے فلسفیانہ رائے کہہ سکتے ہیں، کبھی نصیب نہ ہوئی، چنانچہ اس نے جماعت کے جبر کے خلاف شاعری میں تو بغاوت ضرور کی ہے لیکن نثر میں، جہاں تشبیہات واستعارات میں اصل غرض چھپائی نہیں جا سکتی، اس بارے میں انھوں نے کچھ نہ لکھا۔ مولانا کے نزدیک یہ وجہ تھی اقبال کی زندگی کی بے عملی اور اس کی شخصیت کے تضادات کی۔

غرض مولانا سندھی کے الفاظ میں اقبال نے جماعت کو، جسے وہ ملت اسلامیہ کہتے تھے، ایک بت بنا لیا۔ ان کے طبعی تقاضے، گرد وپیش کے حالات اور خود ان کی اپنی فکری شخصیت کچھ اور مانگتی تھی۔ وہ ان طبعی، سیاسی اور معاشی مطالبوں کے سامنے ہتھیار بھی ڈال دیتے اور جو زمانے کا چلن ہوتا، اس کا ساتھ دیتے، لیکن جماعت کا ’’شخص‘‘ یعنی تصوراتی وجود اور اس سے جو خصائص وامتیازات انھوں نے متعلق کر رکھے تھے اور اس سے جو احکام وہدایات وہ لیتے تھے، یہ سب چیزیں ان کے نیم شعور میں اس طرح رچی ہوئی تھیں کہ جیسے ہی ان کو موقع ملتا، وہ ان کے شعور میں عود کر آتیں اور فلسفی اقبال ایک روایت پرست بلکہ توہم پرست لاہوری مسلمان ہو جاتا۔ اس حالت میں وہ اپنے آپ کو کوستا، اپنی گناہ گاری کا اعتراف کرتا اور جیسا کہ کہا جاتا ہے، روتا بھی۔ یہاں اس کی عقلیت جواب دے دیتی۔

مولانا نے کہا: سچ پوچھو تو اقبال ایک روایت پرست یہودی کی طرح مسلمانوں کی موہوم جماعت کو پوجتا ہے۔ وہ جماعت کی قیود سے نکلتا تو تھا لیکن اس کی یہ بغاوت منظم فکر کی بغاوت نہ تھی بلکہ یہ فکری آزادہ روی ہوتی جو شعر کا موزوں لباس پہن لیتی۔ اس کا دل اس جبر کی مخالفت کرنے کو چاہتا لیکن نوعمری کی عقیدتوں پر تشکیل شدہ شخصیت اس میں آڑے آتی۔ چنانچہ وہ ساری عمر انھی الجھنوں میں برابر پیچ وتاب کھاتا رہا:

تو شاخ سے کیوں پھوٹا، میں شاخ سے کیوں ٹوٹا
اک جذبہ پیدائی، اک لذت یکتائی

میں مانتا ہوں کہ اقبال دل سے چاہتے تھے کہ قرآن کی حکومت بروے کار آئے اور اسلام پر بالکل ایک نئی دنیا کی تعمیر ہو، لیکن قرآن اور اسلام کی عملی تشریح جو آج کے زمانے میں قابل قبول اور قابل عمل ہو سکے، یہ ان کے بس میں نہ تھی کیونکہ وہ جماعت کے روایتی اثرات اور اس کے قوانین وضوابط سے ذہناً باہر نہیں نکل سکتے تھے اور قرآن واسلام کے نظام کو مجموعی انسانیت کا نظام بنا کر وہ پیش کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے فکراً خواہ وہ کچھ بھی ہوں، اقبال کا اسلام عملاً ایک فرقہ پرست ہندوستانی بلکہ پنجابی مسلمان کا اسلام تھا۔ کردار کے غازی تو تھے ہی نہیں، وہ گفتار کے غازی بھی نہ بن سکے۔

(افادات وملفوظات حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ )





نطشے کا نظریہ تکرارِ ابدی اور اقبال

ڈاکٹر محمد آصف اعوان

جدید مغربی مفکرین میں نطشے ایک بہت بڑا نام ہے۔ اقبال نے اپنے کلام اور خطبات میں نطشے کے افکار وتصورات کا کئی جگہ ذکر کیاہے۔خاص طور پر نطشے کا نظریہ بقائے دوام یعنی تکرارِ ابدی Eternal Recurrence)) اقبال کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اقبال کے خیال میں اس نظریے کے ابتدائی خط وخال ہربرٹ اسپنسر (Spencer, Herbert 1820-1903) کے ہاں ملتے ہیں(۱)۔ ہر برٹ اسپنسر مادی نظریہ ارتقا کے بانیوں میں شامل ہے۔ یہی وہ مفکر ارتقا ہے جس کی فراہم کی ہوئی فکری بنیادوں پر چارلس ڈارون (1809-1882) نے اپنے نظریہ ارتقا کی بنیاد رکھی۔ ڈارون کا نظریہ ارتقا مادیت پسندجدید مغربی ذہن کا محبوب تصور ہے۔ اقبال جب نطشے کے تصورِ تکرار ابدی کو ہربرٹ اسپنسر کی ابتدائی فکر کی ترقی یافتہ صورت قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نطشے کا تصور مغربی مادی فکری روایت کی ہی ترقی یافتہ صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نطشے جدید مغربی ذہن کا حقیقی نمائندہ بن کر سامنے آتاہے۔ چنانچہ اقبال نطشے کے تصور بقائے دوام یعنی تکرار ابدی کا جائزہ لینا ضروری سمجھتے ہیں۔

سب سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نطشے کا نظریہ تکرار ابدی کیاہے؟ نطشے کے نظریہ تکرار ابدی کے اہم ترین نکات کو مختصراً یوں بیان کیا جاسکتاہے:

۱۔ کائنات میں توانائی کی مقدار محدود ہے اور توانائی کے مراکز بھی محدود ہیں۔

۲۔ مکان کا تصور محض ذہنی اختراع ہے، چنانچہ کائنات کے متعلق یہ خیال نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کسی خلائے محض میں واقع ہے۔

۳۔ زمانے کا وجود خارجی اور حقیقی ہونے کے ساتھ ساتھ زمانی عمل لامتناہی بھی ہے، چنانچہ کائنات میں توانائی کی محدود مقدار کے ہوتے ہوئے لامحدود زمانی عمل کامطلب یہی ہے کہ کائنات میں ہمیشہ یا ابدی طورپر واقعات وحوادث کی تکرار ہوتی رہتی ہے اور ایک جیسے واقعات اپنے آپ کو دہراتے رہتے ہیں۔ گویا کائنات کے اندر ایک میکانکی عمل کارفرما ہے۔ نطشے کا نظریہ تکرار ابدی اسی میکانکی عمل کا فلسفیانہ اظہار ہے۔ فریڈرک کوپلسٹن (Frederick Copleston) نظریہ تکرار ابدی پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے:

"The theory is presented as an empirical hypothesis, and not merely as a disciplinary thought or test of inner strength. Thus, we read that the principle of conservation of energy demands the eternal recurrence. If the world can be looked at as a determinate quantum of force of energy and as a determinate number of centres of force, it follows that the world process will take the form of successive combinations of there centres, the number of these combinations being in principle determinate, that it, finite. And in an infinite time every possible combination would have realized at some point. Further, it would be realized an infinite number of time." (2)

فریڈرک کو پلسٹن کی رائے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نطشے کی نظر موجودہ کائنات سے ماورا واقعا ت پر نہیں بلکہ اسی کائنات میں حوادث وواقعات کے میکانکی عمل پر مبنی تکرار ابدی پر ہے۔

خطبات میں اقبال کی نطشے کے نظریہ تکرار ابدی پر زیادہ تر تنقید ٹسناف (R.A. Tsanoff) کی کتاب (The Problem of Immortality) کے پانچویں باب’’تکرار ابدی کا نظریہ ‘‘( The Doctrine of Eternal Recurrence)کے حوالے سے ملتی ہے۔ علامہ اقبال کی نجی لائبریری میں اس کتاب کا ایک نسخہ موجود تھا۔ اس نسخہ کو دیکھنے سے پتہ چلتاہے کہ اقبال نے اس کتاب کے مذکورہ پانچویں باب کے آخر میں نطشے کے نظریہ تکرار ابدی کے متعلق چند تنقیدی اشارات ثبت کیے ہیں۔

۱۔ توانائی کا غلط تصور (Wrong view of energy)

۲۔ زمان کا غلط تصور ۔دوری یا مستقیم (Wrong view of time__circular or straight)

۳۔ لامتناہیت کا غلط تصور ۔لامتناہیت کو دوری ہونا چاہیے۔(Wrong view of infinity__ Infinite process must be periodic)

۴۔ نطشے کا تضاد۔ آرزوئے دوام اور تکرار دوام کا تضاد (Nietzsche inconsistent__ Eternal aspiration and Eternal Recurrence inconsistent)

۵۔ بدترین قسم کا تقدیر پرستی (Involves Fatalism of the wrost type) (۳)

اقبال کے ان تنقیدی اشارات کی وضاحت ان کے خطبات اور خصوصاً چوتھے خطبے میں ملتی ہے۔

سائنسی اصطلاح میں توانائی سے مراد قوتِ کار ہے۔ فلسفیانہ زبان میں اقبال کے نزدیک توانائی خدا کی تخلیقی فعالیت کا نام ہے۔ چونکہ خدا کی تخلیقی فعالیت مسلسل اور لامتناہی ہے، اس لیے کائنات میں توانائی کی مقدار کو متناہی اور محدود قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اقبال کے نزدیک سینہ کائنات سے صداے دما دم کن فیکون بلند ہورہی ہے اور ہر لحظہ حوادث وواقعات جدت وندرت کے نئے پیراہن کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ نطشے مقام کبریا سے آشنا نہ تھا، اس لیے وہ زمانے کے ظاہری اور خارجی لامتناہی تسلسل میں تکرار ابدی کے نظریہ کو ہی پیش کرسکتاتھا کیونکہ بقول فریڈرک کو پلسٹن:

"According to Nietzsche, if we say that the universe never repeats itself but is constantly creating new forms, this statement betrays a hankering after the idea of God. For the universe itself is assimilated to the concept of a creative deity. And this assimilation is excluded by the theory of the eternal recurrence." (4)

اقبال کہتے ہیں کہ نطشے کی نگاہ، کائنات میں زمان کے خارجی پہلوتک ہی محدود رہی اور زمان کی اس باطنی حالت تک رسائی حاصل نہ کرسکی جس میں زمان کی ساخت دوری ( Periodic) نہیں بلکہ ایک ایسے خطہ کی سی ہے جو مسلسل کھینچا جارہاہے۔چنانچہ ایک ایسی کائنات جس میں مقدار توانائی محدود اور زمانی حوادث وواقعات کا تسلسل لامحدود ہو، تکرار حوادث ناگزیرعمل بن جاتاہے کیونکہ محدود توانائی آخر کب تک جدت وندرت کو قائم رکھتے ہوئے تخلیقی عمل کو نباہ سکتی ہے۔ اقبال رقمطراز ہیں :

"In his view of time, however, Nietzsche parts company with Kant and Schopenhaver. Time is not a subjective form, it is a real and infinite process which can only be conceived as 'peridic'. Thus, it is clear that there can be no dissipation of energy in an infinite empty space. The centres of this energy are limited in number and their combination perfectly calculated. There is no beginning or end of his ever active energy, no equilibrium, no first or last change. Since time is infinite, there fore, all possible combinations of energy centres have already been exhausted. There is no new happening in the universe; whatever happens now has happened before an infinite number of times and will continue to happen an infinite number of times in the future." (5)

نطشے کے نظریہ تکرار ابدی پراقبال کی تنقید کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نطشے کے ہاں ایک تسلسل کے مسلسل آگے بڑھنے اور نئے سے نئے مراحل میں قدم رکھنے کے تصور کے بجائے ایک جیسے واقعات کے تکرار کا تصور کار فرما ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک جیسے واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد بعینہ اسی قسم کے دوسرے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں اور مابعد پھر اسی قسم کے واقعات اپنے آپ کو دہراتے ہیں۔ یہی حال شخصیات کا ہے۔ ایک شخصیت اپنا عرصہ حیات ختم کرکے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجاتی ہے، پھر اسی قسم کی دوسری شخصیت جنم لیتی ہے اور یوں تکرار کا یہ عمل کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی سطح پر چلتارہتاہے۔اسی لیے اقبال کہتے ہیں کہ:

"Eternal Recurrence is not eternal creation, it is eternal repetition."(6)

اقبال کے ہاں بقائے دوام کے تصور کا مطلب ایک جیسے واقعات کا تکرار نہیں بلکہ شخصی حیات اور تاریخی تسلسل کا نئے سے نئے مراحل اور ایک سطح سے دوسری بلند ترسطح میں قدم رکھناہے۔ خودی کا سفر ہمیشہ بلندیوں کی طرف جاری رہتا ہے۔ موت خودی کے ارتقائی مراحل میں محض ایک مرحلہ ہے۔ موت کے بعد بھی خودی نہ صرف اپنا تشخص برقرار رکھے گی بلکہ اس کا ارتقائی سفر بھی جاری رہے گا۔ یوں اقبال تاریخ کے ارتقائے دوام اور شخصی بقائے دوام کا ایسا تصور پیش کرتاہے جس کا تسلسل موت کے ظاہر ی حادثے سے بھی نہیں ٹوٹتا۔

یا جہانے تازۂ یا امتحانے تازۂ 
می کنی تاچند با ما آنچہ کردی پیش ازیں
بجانم رزم مرگ وزندگانی است
نگاہم بر حیاتِ جاودانی است 
ضمیر زندگانی جاودانی است
بچشمِ ظاہری بینی، زمانی است
بپایاں نارسیدن زندگانی است 
سفر مارا حیاتِ جاودانی است
موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی 
ہے یہ شام زندگی، صبح دوامِ زندگی
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے
خوگر پرواز کو پرواز میں ڈرکچھ نہیں
موت اس گلشن میں جز سنجیدن پر کچھ نہیں
جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتانہیں
آنکھ سے غائب تو ہوتاہے فنا ہوتانہیں 

اقبال کے تصور ارتقاکی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انسان کے مادی اور سطحی اندازِ نظر کو مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر میں بدل کر اس کے دل سے موت کا خوف زائل کر دیتاہے اور اس کی روح کو حیات جاوید کی تڑپ سے یوں آشنا کردیتاہے کہ اس کے بدن کی مشت خاک مانع پرواز نہیں بنتی۔ اقبال خطبات میں رقمطراز ہیں:

"Philosophically speaking, therefore, we can not go further than this that in view of the past history of man, it is highly improbable that his career should come to an end with the dissolution of his body." (7)

چونکہ نطشے کی نظر صرف مادی دنیا تک محدود ہے، اس لیے حیات بعد الموت کے حوالے سے مابعد الطبیعیاتی تصور کی اس کے ہاں گنجائش نہیں۔اس کی نظر صرف حیات ارضی پر ہے۔ کولیئرز انسائیکلوپیڈیا(Collier's Encyclopedia)میں درج ہے :

"In fact, Nietzsche urges man to remain faithful to the earth, not to entertain other worldly hopes which constitute a slander of this earth." (8)

پروفیسر سید وحید الدین اپنی کتاب ’’اقبال اورمغربی فکر‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’نٹشے کی ارضیت کسی قسم کی مصالحت کو قبول نہیں کرتی۔ وہ تو غیب کا سرے سے انکار کرتی ہے۔‘‘ (۹)

یہی وجہ ہے کہ اقبال اور نطشے کاتصورِ بقائے دوام ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔ اقبال روحانی ارتقا (Spiritual Evolution) پر یقین رکھتاہے جب کہ نطشے ایسے حیاتیاتی ارتقا (Biological Evolution)کی بات کرتاہے جسے انسان کے معنوی فروغ او رشخصی بقا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔چنانچہ فریڈرک کو پلسٹن ،نطشے کے نظریہ تکرار ابدی کے متعلق لکھتاہے:

"The theory also excludes, of course, the idea of personal immortality in a beyond." (10)

اقبال ،ڈاکٹر نکلسن کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

’’نٹشے بقائے شخصی کا منکر ہے۔ جو لوگ حصول بقاکے آرزو مند ہیں، وہ ان سے کہتاہے ،کیا تم ہمیشہ کے لیے زمانے کی پشت کا بوجھ بنے رہنا چاہتے ہو۔ اس کے قلم سے یہ الفاظ اس لیے نکلے کہ زمانے کے متعلق اس کا تصور غلط تھا ۔‘‘ (۱۱)

نٹشے کا المیہ یہ ہے کہ اس کی نظر اس دنیا کے پیچ وخم میں الجھ کر رہ گئی اور مابعد الطبیعیاتی حقائق تک رسائی حاصل نہ کر سکی۔ اس کی نگاہ میں یہ دنیا سمندر حیات کے لیے آخری کنارہ ہے، چنانچہ اس کے نزدیک بقائے دوام کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ کائنات میں واقعات وحوادث کا ایک دوری (Periodic)تسلسل کار فرما ہے اور فوق البشر (Superman) بھی اس تکرار مسلسل کی زد میں ہے۔ وہ مٹتا، پیدا ہوتا، پھر جنم لیتا، فنا ہوتا اور بار بار ایک ہی رنگ وروپ میں جلوہ نما ہوتادکھائی دیتاہے ۔

اقبال کے نزدیک یہ ارتقا اور بقائے دوام کا درست تصور نہیں، کیونکہ اگر خودی اپنے بے مثل نقش (یعنی اپنے تشخص) کو قائم رکھ کر آگے نہ بڑھ سکے تو ایک ابدی چکر میں اس کے باربار ظہور سے کیافائدہ؟

ہو نقش اگر باطل ،تکرار سے کیاحاصل 
کیا تجھ کو خوش آتی ہے آدم کی یہ ارزانی

ایک ایسا فوق البشر جس کا ظہور باربار ہوچکاہو اور جس کی آئندہ بھی باربار پیدائش یقینی ہو،اس کی خودی یقیناًاس لذت یکتائی سے محروم رہتی ہے جو علامہ اقبال کے نزدیک مرکزی نکتہ ہے آرزوئے بقائے دوام کا۔ (۱۲)

اقبال خطبات میں لکھتے ہیں:

"Such is Nietzsche's eternal recurrence. It is only a more rigid kind of mechanism." (13)

مختصر یہ کہ اقبال کے نزدیک بقائے دوام ایسے ابدی چکر کا نام نہیں جو گردش مدام کے ناقابل برداشت اور سوزِ آرزو سے بیگانہ میکانکی عمل کو ظاہر کرے بلکہ بقائے دوام سے مراد خودی کی وہ ارتقائی لگن ہے جس کے باعث وہ اپنی ہستی کی وحدت، انفرادیت اور یکتائی کی صفات اور خوبیوں سمیت ہر لحظہ مستقبل کے لامحدود امکانات کی طرف اپنی اندرونی بہجت عمل کی بدولت قدم آگے بڑھاتی اور حیات کے بلند تر مدارج طے کرتی ہوئی نعرہ مستانہ کی زندہ تصویر بنی نظر آتی ہے:

ایں یک دو آنے، آںیک دوآنے
من جاو دانے، من جاو دانے 


حوالہ جات

1- Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", Sh. Muhammad Ashraf, Lahore: 1962, p:113
2- Copleston, S.T. Frederick, "A History of Philosophy" (vol:11) Image Book, Doubleday, New York: April 1985, p. 415.

3۔ مظفر حسین، مضمون ’’اقبال کا تصور بقائے دوام‘‘مشمولہ ’’متعلقات خطبات اقبال‘‘ :سید عبداللہ ،اقبال اکادمی پاکستان، لاہور:۱۹۷۷ ص۲۱۷۔

4- Copleston, S.T. Frederick, "A History of Philosophy", p:416
5- Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", p:114,115.
6- As Alione, p:142
7- As Alione, p:122,123.
8- Bernard Johnston (Ed),"Collier's Encyclopedia", Macmillan Educational Company, New York: 1991, p:532.

9۔وحید الدین ،پروفیسر سید:’’اقبال اور مغربی مفکرین‘‘ اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی ،سرینگر :سن ندارد،ص:۳۳۔

10- Copleston, S.T. Frederick, "A History of Philosophy" vol:11, p:416

11۔محمد اقبال ’’اقبال نامہ (حصہ اول) ‘‘مرتبہ:شیخ عطاء اللہ، شیخ محمد اشرف ،لاہور:سن ندارد ،ص:۳۶۵۔

12۔مظفر حسین ،مضمون ’’اقبال کا تصور بقائے دوام‘‘مشمولہ’’متعلقات خطبات اقبال‘‘ مرتبہ :سید عبداللہ ،ص:۲۰۳۔

13- Muhammad Iqbal, "The Reconstruction of Religious Thought in Islam", p:115.



اقبالؒ اور تصوف

مولانا محمد عیسٰی منصوری

(مجلسِ اقبالؒ لندن کے صدر جناب محمد شریف بقا کی تصنیف ’’اقبال اور تصوف‘‘ کی رونمائی کی تقریب سے ورلڈ اسلامک فورم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عیسٰی منصوری کا خطاب۔)


صدر محترم، مہمانانِ خصوصی اور حاضرینِ مجلس!

آج کی یہ مجلس ہمارے محترم بزرگ اور دوست، اور مجلسِ اقبال لندن کے صدر جناب محمد شریف بقا صاحب کی مایہ ناز تصنیف ’’اقبال اور تصوف‘‘ کی رونمائی کے ضمن میں منعقد ہو رہی ہے۔ میں نے اخبار جنگ کی وساطت سے جناب بقا صاحب کے گرانقدر مضامین سے ہمیشہ استفادہ کیا ہے اور تقریباً ۱۵ سال سے بقا صاحب سے شناسائی و تعارف کا شرف بھی حاصل ہے۔ گزشتہ دنوں معلوم ہوا کہ اقبال اور تصوف کے موضوع پر آپ کی تازہ کتاب آئی ہے۔ میں کتاب حاصل کرنے کی فکر میں تھا کہ محترم بقا صاحب نے کرم فرمائی کی اور غریب خانہ پر تشریف لا کر کتاب عنایت فرمائی، ساتھ ہی آج کی مجلس میں خطاب کی دعوت بھی دی۔

کتاب کیا ہے، علوم و معارف کا گنجینہ ہے۔ اقبال کے کلام پر بقا صاحب کی جتنی گہری نظر ہے، اتنی ہی تصوف، علمِ کلام اور حضرات صوفیاء کرام کے احوال پر بھی نظر آئی۔ یہ چیز میرے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھی۔ کتاب میں انداز تحریر سلیس، عام فہم اور سادہ ہے۔ وحدۃ الوجود، مسئلہ جبر و قدر اور خودی جیسے معرکۃ الارا اور خالص علمی و فلسفیانہ مسائل کو اتنی سادہ زبان میں حل کیا ہے کہ اسے سہل ممتنع کہا جا سکتا ہے۔ نیز حضرات صوفیاء کرام کے احوال، ان کے افکار و معارف بڑے توازن و اعتدال اور جامعیت کے ساتھ کتاب میں آئے ہیں۔ میں اس بات کی شہادت دوں گا کہ اولیاء کرام کی خصوصیات، ان کے علوم و افکار اور امتیازات کو سمجھنے میں محترم بقا صاحب آج کے بیشتر علماء کرام سے زیادہ کامیاب رہے ہیں۔ نیز اقبال کے اشعار، مضامین و نثری تحریروں کے انتخاب میں مصنف نے بڑی خوش ذوقی کا ثبوت دیا ہے۔ فاضل مصنف نے جس حسنِ نزاکت اور دیدہ دری کے ساتھ اقبال کے کلام کی تشریح و ترجمانی کی ہے اس کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ یہ کتاب نہ صرف تصوف پر اقبال کا نکتہ نظر سمجھنے کے لیے کافی ہے بلکہ اقبال کے پیغام کی مقصدیت و افکار و تصورات کو سمجھنے اور ساتھ ہی نفسِ تصوف اور حضرات صوفیاء کے احوال اور علوم و افکار کو سمجھنے کے لیے بھی بیش قیمت وسیلہ ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں جن کتب سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوا ہوں ان میں بقا صاحب کی یہ شاہکار تصنیف ’’اقبال اور تصوف‘‘ بھی شامل ہے۔ کتاب کے لفظ لفظ سے مصنف کی محنت اور قابلیت چھلکتی ہے۔ کتاب حشو و زوائد سے بالکل مبرا ہے۔ میں اتنی جامع، معلومات افزا اور بصیرت افروز کتاب لکھنے پر مصنف کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ساتھ ہی ان کے پبلشرز نے کتاب کو طباعت، جلد و سرورق کے لحاظ سے جتنے حسین و خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے اس کے لیے میر شکیل الرحمٰن صاحب اور ادارہ جنگ بھی بجا طور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔

اس کتاب کے ذریعے پہلی بار تصوف کے موضوع پر اقبال کے افکار و خیالات کا اتنا عظیم اور وقیع ذخیرہ سامنے آیا ہے۔ یہ واقعہ بھی ہے اور حادثہ بھی کہ تاریخ کی اکثر عظیم شخصیات مظلوم ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں اس ضمن میں جہاں اور بہت سے نام آتے ہیں اس میں علامہ اقبال بھی اس المیہ کا شکار ہیں۔ پاکستان میں اقبال پرستی کی ایک خاص فضا تیار کر کے اقبال فروشی کے کاروبار چمکائے گئے ہیں۔ اقبال کے افکار و آثار مسخ و مجروح شکل میں اس دھڑلے اور اس تکرار سے عام کیے گئے ہیں کہ حقیقی اقبال کی دریافت کارِ دشوار ہو گئی ہے۔ مرحوم آغا شورش کاشمیری نے کیا پتہ کی بات کہی ہے:

’’اقبال وہ شبلی نعمانی ہے جسے کوئی سلیمان ندوی نہ مل سکا۔‘‘

علامہ اقبال نے حافظ کی شاعری کے چند پہلوؤں پر تنقید کی تھی۔ اس کا سہارا لے کر علامہ کے نظریہ تصوف کے بارے میں شد و مد سے غلط فہمیاں پھیلائی گئیں اور انہیں تصوف کا مخالف مشہور کیا گیا۔ اس کتاب میں بقا صاحب نے وضاحت سے بتایا ہے کہ اقبال کس تصوف کے مخالف تھے اور کس تصوف کے موافق۔ بدقسمتی سے آج اقبال کا جانشین وہ طبقہ بن بیٹھا ہے جسے اقبال کے سوز و گداز، عشقِ نبویؐ اور اسلام کی انانیت و ابدیت پر یقین سے کوئی نسبت نہیں۔ جس کے نزدیک مغرب کی نقالی ہی ترقی کی معراج ہے۔ جو تصوف تو کیا اسلام اور اسلامی اقدار و روایات ہی سے باغی ہے۔ اس کے نزدیک اقبال کے کلام کا بہت بڑا حصہ منسوخ ہو چکا ہے جو تجدد پسندی اور مغربیت نوازی کے خلاف ہے۔ اسے صرف وہ چند اشعار یاد ہیں جو اقبال نے علماء سو یا جاہل صوفیا کے متعلق کہے ہیں۔ اس قسم کے چند اشعار کے حوالہ سے حضرات صوفیا اور تصوف کے خلاف اس قدر پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ محترم بقا صاحب کی اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے میں خود اقبال کو نفسِ تصوف کے معاند گروہ میں سمجھتا تھا۔ ’’اقبال اور تصوف‘‘ پڑھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ تصوف کے متعلق اقبال کا نکتہ نظر بلا کم و کاست وہی ہے جو ہر دور میں علماء محققین اور اسلام کی نابغہ اور جلیل القدر ہستیوں کا رہا ہے، اور اس میں انتہائی توازن و اعتدال ہے۔

اقبال کے افکار کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے نفسِ تصوف پر ایک نظر ڈالیں۔ آج کے دور میں اسلام میں تصوف سے زیادہ شاید ہی کوئی مسئلہ متنازعہ فیہ ہو۔

  • ایک طبقہ تصوف پر، اس کی تمام جزئیات کے ساتھ بلکہ ہر ہر دور میں وسائل و ذرائع کے طور پر جو جو طریقے اختیار کیے گئے ہیں، جن میں بڑی حد تک ان ممالک کے معاشرہ و ماحول، اس قدر کے مزاج و نفسیات اور تہذیب و تمدن کا دخل ہے، من و عن ایمان لانا ضروری سمجھتا ہے۔
  • جبکہ دوسرا طبقہ نفسِ تصوف ہی کو اسلام کے خلاف سازش اور اسلام میں عجمی یا غیر اسلامی پیوند قرار دیتا ہے۔ اس کے نزدیک تصوف بدعت بلکہ دین کی تحریف و تنسیخ ہے جس کے لیے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔

آئیے ہم قرآن و سنت، رسول اللہؐ کی سیرتِ طیبہ اور تاریخ کی روشنی میں اس مسئلہ کا جائزہ لیں:

جب ہم قرآن و سنت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ، آپ کے اقوال اور احوال پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دین کے دو پہلو ہیں:

  • ایک ظاہری احکام، نماز روزہ، ذکر و تلاوت، صدقہ و خیرات۔
  • اور دوسرے باطنی کیفیات، اخلاص و احتساب، خشوع و خضوع، صبر و توکل، تسلیم و رضا۔

پہلے کو فقہ ظاہر کہا جا سکتا ہے اور دوسرے کو فقہ باطن قرار دیا جا سکتا ہے۔ قرآن و سنت نے ہمیں مکمل طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی دعوت دی ہے۔ اس میں جہاں ظاہری احکام و اعمال داخل ہیں وہیں باطنی کیفیات، کمالِ ایمان، درجۂ احسان، تسلیم و رضا بھی داخل ہیں۔ اگر ان باطنی کیفیات کو ہم احسان و تزکیہ کے نام سے یاد کرتے یا اسے فقہ باطن کہتے ہیں تو اس شدید اختلاف کی نوبت نہ آتی۔ دورِ نبوت میں ہر مسلمان دین کے ظاہری و باطنی دونوں پہلوؤں پر مکمل طور پر عامل تھا۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، ذکر و تلاوت کے ساتھ ساتھ خشوع و خضوع، اخلاص و احسان اور رسولؐ کی محبت، آخرت کا شوق، استحضار، اخلاص و استقامت کا حصول، ساتھ ہی ریا، طمع، حبِ جاہ، دنیا کی محبت و حسد، تکبر و غرور جیسے رذائل و امراضِ باطنی کا علاج بھی ضروری سمجھتا تھا۔

اس باطنی پہلو کے حصول کے طرق و ذرائع کا نام بعد کی صدیوں میں تصوف پڑ گیا۔ چونکہ لفظ تصوف اور اس کی اصطلاحات و تعبیرات، اور اسی طرح وہ طرق و ذرائع جو تزکیہ باطن یا احسانی کیفیت کے حصول کے لیے بعد کے ادوار میں اختیار کیے گئے، کم از کم شروع کی ڈیڑھ صدی میں نہیں ملتے۔ اس لیے بادی النظر میں ایسا لگتا ہے کہ کوئی غیر اسلامی چیز اسلام میں داخل ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ دوسری چیز جس نے تصوف سے بدظن کیا وہ ہر دور میں بعض پیشہ ور صوفیا کا وجود ہے۔ چنانچہ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی اپنی کتاب ’’تزکیہ و احسان‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’دوسری چیز جس نے اس حقیقت کو زیادہ غبار آلود کر دیا وہ پیشہ ور، جاہ طلب، حقیقت فروش، اور الحاد شعار فاسد العقیدہ نام نہاد صوفی ہیں جنہوں نے دین میں تحریف کرنے، مسلمانوں کو گمراہ کر کے معاشرہ میں انتشار پیدا کرنے، آزادی و بے قیدی کی تبلیغ کرنے کے لیے تصوف کو آلہ کار بنایا۔ اور اس (تصوف) کے محافظ و علمبردار بن کر لوگوں کے سامنے آئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اہلِ غیرت اور اہلِ حمیت مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان سے بدظن ہو گئی۔ کچھ غیر محقق صوفیا ایسے تھے جو اس شعبہ کی روح اور اس کے حقیقی مقاصد سے ناآشنا تھے۔ وہ مقاصد اور وسیلہ میں تمیز نہ کر سکے۔ بعض اوقات انہوں نے وسائل پر تو بہت اصرار کیا اور مقاصد کو نظرانداز کر دیا۔ اس شعبہ اور اس فن میں ایسی چیزیں داخل کیں جس کا اس سے کوئی تعلق نہ تھا اور اس کو فن کی روح اور تن کا کمال قرار دیا بلکہ مقصود و مطلوب سمجھ بیٹھے۔‘‘ (ص ۱۸)

غرض ایسے صوفیا کی وجہ سے مخلصین اور باغیرت مسلمانوں کے ایک طبقہ میں نفسِ تصوف ہی سے دوری اور بُعد پیدا ہوا۔ اور انہیں اس بات کا اندیشہ ہونے لگا کہ تصوف کے نام پر جو عجمی افکار و تصورات دین میں داخل کیے جا رہے ہیں اگر انہیں رد نہیں کیا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام کی صحیح صورت ہی مسخ ہو جائے۔ اس لیے انہوں نے دین کی تحریف و تبدیلی کے اندیشہ سے نفسِ تصوف ہی سے انکار کر دیا۔ بندہ کے نزدیک تصوف سے تنفر اور دوری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعد کے ادوار میں ان علماء نے، جن پر تصور کا گہرا رنگ چڑھا ہوا تھا، اپنی نیک نفسی اور حسنِ عقیدت کی بنا پر بعض اکابر صوفیا کے صراحتاً غیر اسلامی افکار و خیالات اور بدیہی طور پر غلط بلکہ خلافِ اسلام باتوں کو، جو ان حضرات سے اکثر حالتِ سکر و حالتِ جذب میں صادر ہوتی رہی ہیں، دور اَز کار تاویلات کے ذریعہ شریعت کے مطابق ثابت کرنا چاہتا۔ جیسے محی الدین ابن عربی، منصور حلاج اور مہدوی فرقہ کے بانی شیخ محمد جونپوری کے افکار و دعووں کو صراحتاً خلافِ شرع کہنے کے بجائے ان بزرگوں کے علم و فضل، زہد و تقوٰی اور بعض ظاہری و باطنی کمالات کی وجہ سے ان کی غلط سے غلط باتوں اور دعووں کو کھینچ تان کر شریعت کے موافق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ بعض علماء کا یہ طرز عمل خاص طور پر ہمارے اس دور میں تصوف کے لیے بہت بڑا حجاب بن گیا اور بعض حلقوں نے چند ایسی باتوں کو نہایت ہوشیاری سے نفسِ تصوف کے خلاف اور تصوف سے بدظن اور متنفر کرنے کے لیے بڑی بے رحمی سے استعمال کیا۔

جہاں یہ ایک ناقابلِ تردید تاریخی حقیقت ہے کہ دورِ صحابہؓ کے بعد اسلام کی اشاعت میں سب سے نمایاں کردار حضراتِ صوفیا کا رہا ہے، دنیا کے بیشتر ملکوں میں اسلام انہی پاک نفس اہل اللہ کے ذریعہ پھیلا ہے، وہیں دوسری جانب آج آپ کسی بزرگ کے مزار پر چلے جائیں تو وہاں جو کچھ ہوتا ہے، اس کی ایک جھلک دیکھ کر آپ کہہ اٹھیں گے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ مشہور عالم ربانی، تصوف کے امام اور اپنے وقت کے بہت بڑے محقق مولانا رشید احمد گنگوہیؒ نے اپنے آخری دور میں اعتراف کیا تھا کہ تصوف سے فائدہ بھی ہوا ہے اور نقصان بھی بے حد و حساب ہوا ہے۔ چنانچہ حضرت مولانا منظور احمد نعمانی مدظلہ لکھتے ہیں:

’’تصوف کی تاریخ پر جن حضرات کی نظر ہے ان سے یہ بات مخفی نہیں ہو گی کہ مختلف زمانوں میں اس راہ سے کیسی کیسی گمراہیاں امت میں داخل ہوئی ہیں، اور آج بھی اپنے کو تصوف و صوفیا کی طرف منسوب کرنے والے حلقوں میں کتنی بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کے تصورات اور اعمال اسلام و توحید کی بہ نسبت کفر و شرک سے زیادہ قریب ہیں۔ اللہ نے جنہیں واقفیت اور بصیرت دی ہے، وہ جانتے ہیں کہ خانقاہی حلقوں میں اس قسم کی گمراہیاں زیادہ تر بزرگوں کے ساتھ عقیدت اور خوش اعتقادی میں غلو اور تعظیم میں افراط سے پیدا ہوئی ہیں۔‘‘ (تصوف کیا ہے؟ ص ۴۴)

یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے علماء محققین نے تصوف میں غیر اسلامی افکار و خیالات اور باطل نظریات و فلسفوں کو رد کیا ہے اور احسان و تصوف کو صاف و شفاف طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ مولانا ندوی لکھتے ہیں:

’’اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے ہر دور اور ہر ملک میں ایسے لوگ پیدا کر دیے جو دین کو مبالغہ کرنے والوں کی تحریف، باطل پرستوں کی غلط بیانیوں اور جاہلوں کی تاویلات سے پاک و صاف اور عجمیت و فلسفہ سے محفوظ کرتے رہے، بغیر کسی تاویل و تحریف کے خالص تزکیہ کی دعوت دیتے رہے، جس کا نام احسان اور فقہ باطن ہے۔ انہوں نے اس طبِ نبوی کی ہر زمانہ میں تجدید کا فرض انجام دیا۔‘‘ (ص ۱۸)

یقیناً آج بھی اس ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر دور کی طرح آج بھی غیر اسلامی چیزیں تصوف کا جزو بنتی جا رہی ہیں۔

اب آئیے اسلام میں لفظ تصوف اور اس کی تعبیرات کی درآمد کا سراغ لگائیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ لفظ تصوف اور اس کی بعض تعبیرات یونانی اشراقیت سے آئی ہیں، چنانچہ مشہور حکیم ابو ریحان بیرونی لکھتا ہے:

’’صوف یونانی میں حکمت کو کہتے ہیں میں حکمت کو کہتے ہیں اور اسی سے فیلسفوف کو یونانی میں ’’پیلا سوپا‘‘ کہتے ہیں یعنی حکمت کا عاشق۔ چونکہ اسلام میں بعض لوگ ان کے قریب گئے اس لیے وہ بھی اسی نام (صوفیہ) سے پکارے گئے۔‘‘ (تصوف کیا ہے؟ ۔ ص ۹۴)

لفظ تصوف پر بحث کرتے ہوئے مولانا ندوی لکھتے ہیں:

’’سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوا کہ اس لفظ کی حقیقت و مراد بتائیے؟ اس کا ماخذ  و منبع کیا ہے؟ آیا وہ صوف سے ماخوذ ہے یا صفا سے نکلا ہے یا صفہ سے؟ یا وہ ایک یونانی لفظ صوفیا سے لیا گیا ہے جس کے معنی حکمت بتائے جاتے ہیں؟ آخر یہ لفظ کہاں سے برآمد کیا گیا اور کس طرح اس کا رواج ہوا؟ جبکہ نہ قرآن و حدیث میں اس کا وجود ملتا ہے، نہ صحابہ کرامؓ و تابعینؒ کے اقوال میں، نہ خیر القرون میں اس کا سراغ ملتا ہے۔ اور یہ ایسی چیز جس کا یہ حال اور جس کی یہ تاریخ ہو، بدعت کہلانے کی مستحق ہے۔‘‘ (تزکیہ و احسان ۔ ص ۱۴)

درحقیقت تصوف اسلام کے مدمقابل اور شریعت کے مخالف اسی وقت بنتا ہے جب بے جا طور پر تصوف کے نام پر یونانی فلسفہ یا افلاطونی افکار یا اشراقیت کو رائج کیا جائے۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بعد کے ادوار میں تصوف میں ان چیزوں کی آمیزش ہوئی ہے۔ بہت سے صوفیا یونان و اسکندریہ کے فلسفوں میں منہمک رہے ہیں۔ بعد کے دور میں ان حضرات کے فلسفیانہ افکار و خیالات کو بھی حسنِ عقیدت کی بنا پر دین یا تصوف سمجھ لیا گیا۔ چنانچہ علامہ سید سلمان ندویؒ لکھتے ہیں:

’’فلسفیانہ تصوف سے مقصود الٰہیات سے متعلق حکیمانہ خیالات رکھنا اور فلاسفہ کی طرح خشک زندگی اختیار کر کے ان کی اخلاقی تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔ اس فلسفیانہ تصوف کا ماخذ یونان کا اشراقی اور اسکندریہ کا افلاطونی اسکول ہونا بعض قدیم علماء کے نزدیک بھی مسلم ہے۔‘‘ (تصوف کیا ہے؟ ص ۹۶)

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اپنے رسالہ علم الظاہر والباطن میں باطنیہ و قرامطہ کی تلسیات کو نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’اور اس قسم کی بہت سی باتیں متکلمین صوفیا کے کلام میں راہ پا گئیں۔‘‘

’’صوفیا میں بعض متکلمین کے طریق پر ہیں اور بعض فلاسفہ کے طریق پر اور ایک جماعت وہ ہے جو اہل حق کے مسلک پر ہے۔ جیسے فضیل اور وہ تمام لوگ جن کا امام قشیری نے رسالہ میں تذکرہ کیا ہے۔‘‘ (جلاء العینین ص ۳۵ ۔ تصوف کیا ہے؟ ص ۹۹)

معلوم ہوتا ہے کہ دوسری صدی ہجری کے اواخر سے ہی صوفیا کا ایک گروہ فلسفیانہ و کلامی مسائل کی بھول بھلیاں میں الجھ گیا تھا۔ ان میں سے بعض تو ایسے تھے جو انہیں باطل نظریات کے ہو کر رہ گئے تھے، جیسے کہ شیخ ابن سینا کے متصوفانہ فلسفہ کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اسے یونانی فلسفہ، بدعتی جہمیہ کے خیالات، اور اسماعیلی (آغا خانی) قرامطہ باطنیہ کے ملحدانہ خیالات کا ملغوبہ قرار دیا ہے۔

بعض اکابر صوفیا کے فلسفیانہ مباحث میں مشغول رہنے کی سب سے واضح اور بدیہی مثال وحدۃ الوجود کا مسئلہ ہے جو اصلاً فلسفہ کا مسئلہ تھا مگر صدیوں تک اسے مذہبی رنگ دے کر بال کی کھال اتاری گئی۔ خیال آتا ہے کہ وحدۃ الوجود جیسے فلسفیانہ مسئلہ پر صدیوں تک ہمارے صوفیا کرام الجھے رہے اور ہمارے بہترین دماغ اس کی گتھیاں سلجھانے میں منہمک رہے۔ آج کے دور اور موجودہ حالات کے پس منظر میں یہ چیز ہماری سمجھ سے بالاتر نظر آتی ہے مگر ہمیں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ حضرات صوفیا کے وحدۃ الوجود جیسے فلسفیانہ مسائل میں اشتعال پر اعتراض کی بڑی وجہ اس دور کا پس منظر سامنے نہ ہونا ہے۔

دوسری صدی ہجری کے اواخر میں جب اسلام عرب سے نکل کر دور دراز علاقوں تک پھیلا، اس دور میں یونان، ہندوستان، ایران وغیرہ میں دیدانت فلسفہ و حکمت کا بڑا زور تھا۔ اس دور کا تعلیم یافتہ اور دانشور طبقہ انہی اصطلاحات و تعبیرات میں بات کہنے اور سمجھنے کا عادی تھا۔ اسے اس دور کی زبان یا اس دور کا میڈیا کہا جا سکتا ہے۔ اب اہل اسلام کے ایک طبقہ نے اپنی بات سمجھانے کے لیے وہ زبان و اصطلاحات و تعبیرات استعمال کیں جو اس دور کی ضروریات اور اس دور کی زبان تھی۔ ہاں یہ ضرور ہوا کہ کوئی کامیاب ہوا، کوئی پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا۔ کسی نے کسی حد تک مسئلہ کو سلجھایا اور کسی نے مسئلہ سلجھانے کی کوشش میں اسے اور الجھا دیا۔ محققین نے ہمیشہ صوفیا کے فلسفیانہ مباحث میں اشتعال سے اختلاف کیا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ کو صوفیا کے جس مسئلہ سے زیادہ اختلاف تھا وہ یہی وحدۃ الوجود کا مسئلہ ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:

’’اس وحدۃ الوجود کی غایت یہ ہے کہ اس کے ماننے والے عبد اور معبود، خالق اور مخلوق کا کردار، امر در امور، طاعت اور معصیت میں فرق نہیں کرتے۔‘‘ (طریق الہجرتین ص ۳۳۳)

’’ملاحدہ اہل وحدۃ الوجود کے نزدیک غیر حق عین حق میں گم ہو جاتا ہے بلکہ غیر حق کا وجود نفس حق کا وجود ہوتا ہے۔‘‘ (مدارج السالکین ج ۳ ص ۸۷ ۔ تصوف کیا ہے؟ ص ۱۲)

دوسری چیز جس میں اہلِ تصوف حدِ اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں وہ احسانی کیفیت کے حصول کے وسائل و ذرائع، یا تربیت کے ان طریقوں پر اصرار کرنا ہے جو مختلف زمانوں میں اہلِ تصوف نے اختیار کیے ہیں۔ جن کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے کوئی طبیب حاذق مریض کے لیے دوا تجویز کرتا ہے جو ہر مریض کے مزاج اور موسم و احوال کے اعتبار سے بدلتی رہی ہے۔ چنانچہ مولانا اسماعیل شہیدؒ فرماتے ہیں:

’’صوفیا کے نفع بخش اشغال کی حیثیت دوا و معالجہ کی ہے کہ بوقت ضرورت ان سے کام لے اور بعد کو پھر اپنے کام میں مشغول ہو۔‘‘ (ایضاح الحق الصریح۔ تصوف کیا ہے؟ ص ۷۱)

چنانچہ محققین نے تصریح کی ہے کہ ان اشغال یا اوراد و وظائف کی حیثیت احسانی کیفیت کے حصول کے لیے محض ذریعہ کی سی ہے۔ جیسے مریض کے لیے دوا، جو ہر شخص کے مزاج اور ہر زمانہ کے مطابق بدلتی رہتی ہے، جس پر اصرار کرنا یا یہ سمجھنا کہ ان اشغال کے بغیر قلوب کا تزکیہ ہو ہی نہیں سکتا، صریح جہالت ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ قول جمیل میں فرماتے ہیں:

’’ہرگز خیال نہ کرنا کہ نسبت (خدا کا تعلق) بجز ان اشغال کے کسی طرح حاصل نہیں ہو سکتی۔‘‘

ان وسائل و ذرائع میں غلو کرنے یا انہیں ہی مقصودِ اصلی سمجھ لینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شریعت و طریقت کی دوئی کا ذہن بنتا ہے کہ شریعت الگ ہے، طریقت الگ، جو خالص جہالت و کم فہمی پر مبنی ہے۔ چنانچہ شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ فرماتے ہیں:

’’ اور بعض جہلا جو کہتے ہیں کہ شریعت اور ہے، طریقت اور ہے، محض ان کی کم فہمی ہے۔ طریقت بے شریعت خدا کے گھر مقبول نہیں۔ صفائی قلب کفار کو بھی حاصل ہوتی ہے۔ قلب کا حال مثل آئینہ کے ہے۔ آئینہ زنگ آلود ہے تو پیشاب سے بھی صاف ہو جاتا ہے اور گلاب سے بھی صاف ہو جاتا ہے۔ لیکن فرق نجاست و طہارت کا ہے۔ ولی اللہ کے پہچاننے کے لیے اتباعِ سنت کسوٹی ہے۔ جو متبع سنت ہے وہ اللہ کا دوست ہے۔ اگر مبتدع ہے تو محض بیہودہ ہے۔ خرق عادات تو دجال سے بھی ہوں گے۔‘‘ (تصوف کیا ہے؟ ص ۵۹)

اس بحث سے یہ واضح ہو گیا کہ آج کل تصوف کی جن باتوں پر اعتراض و اشکال کیا جاتا ہے، محققین کے نزدیک وہ مقصود و مطلوب نہیں ہیں۔ ان کی حقیقت محقق صوفیا کے نزدیک بھی محض وقتی وسائل و ذرائع کی ہے۔ چنانچہ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی مدظلہ نے اپنی کتاب ’’تزکیہ و احسان‘‘ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تصوف و شریعت کے مابین نزاع درحقیقت نزاع لفظی ہے۔ دراصل دوسری صدی ہجری میں اہل تصوف نے ایسی تعبیرات و اصطلاحات استعمال کیں جو بظاہر قرآن و سنت اور دور نبوت و دور صحابہ میں نہیں ملتیں۔ یہ تعبیرات و اصطلاحات اس دور کی فلسفیانہ زبان تھی۔

اس میں شبہ نہیں کہ تعبیرات کا بھی ایک پس منظر ہوتا ہے۔ تعبیرات و اصطلاحات مستعار لینے سے اس دور کے افکار و خیالات اور فلسفیانہ اثرات کا آنا ناگزیر ہے۔ چنانچہ تاریخِ تصوف کے لائق مصنف پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے تصوف کی یہ اصطلاحات و تعبیرات اور صفائی باطن کے ریاضات و مجاہدات ہندومت، بدھ مت، عیسائی و یہودی تصوف میں بھی تفصیل سے بیان کی ہیں۔ لیکن محض ان تعبیرات کو اختیار کرنے کی وجہ سے نہ دین کے اس اہم جزو کو چھوڑا جا سکتا ہے اور نہ تزکیہ و احسان سے بے اعتنائی برتی جا سکتی ہے۔ چنانچہ مولانا ندوی فرماتے ہیں:

’’چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن دین کے ایک شعبہ اور نبوت کے ایک اہم رکن کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہے اور اس کو تزکیہ سے تعبیر کرتا ہے، اور ان چار ارکان میں اس کو شامل کرتا ہے جن کی تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے منصبِ نبوت سے متعلق اور مقاصدِ بعثت میں شامل تھی، اور زبانِ نبوت اس کو ’’احسان‘‘ سے تعبیر کرتی ہے جس سے مراد یقین و استحضار کی وہ کیفیت ہے جس کے لیے ہر مسلمان کو کوشاں ہونا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ احسان کیا ہے تو آپ نے فرمایا، تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اس کو نہیں دیکھ رہے ہو تو وہ تم کو دیکھ رہا ہے۔ (بخاری و مسلم)‘‘ (ملخصاً ص ۱۴ ۔ ۱۵)

یہی وہ تزکیہ و احسان ہے جسے دوسری صدی ہجری میں تصوف کے لفظ سے یاد کیا جانے لگا۔ آگے مولانا ندوی مزید وضاحت سے فرماتے ہیں:

’’زیادہ مناسب تھا کہ ہم اس علم کو، جس کا نام تزکیہ نفس و تہذیبِ اخلاق ہے، تزکیہ و احسان ہی کے نام سے یاد کرتے یا کم از کم فقہ باطنی ہی کہتے۔ اگر ایسا ہوتا تو شاید اختلاف و نزاع کی نوبت ہی نہ آتی اور سارا جھگڑا ختم ہو جاتا، اور دونوں فریق جن کو اصطلاح نے ایک دوسرے سے برسرِ نزاع کر رکھا ہے، مصالحت پر آمادہ ہو جاتے۔‘‘ (تزکیہ و احسان ۔ ص ۱۶)

’’اگر اہلِ تصوف اس مقصد کے حصول کے لیے (جس کو ہم تزکیہ و احسان سے تعبیر کرتے ہیں) کسی خاص اور متعین راستے یا شکل پر اصرار نہ کرتے (اس لیے کہ زمان و مکان اور نسلوں کے مزاج و ماحول کے ساتھ اصلاح و تربیت کے طریقے اور ان کے نصاب بدلتے رہتے ہیں) اور وسیلہ کے بجائے مقصد پر زور دیتے تو اس مسئلہ میں آج سب یک زبان ہوتے ور اختلاف کا راستہ ہی باقی نہ رہتا۔‘‘ (ص ۱۷)

اس کے بعد مولانا ندوی نے فیصلہ کن بات فرما دی ہے جو میرے نزدیک انتہائی قرین انصاف اور حرفِ آخر ہے۔ فرماتے ہیں:

’’میں تزکیہ کی کسی خاص لگی بندھی اور متعین شکل پر زور نہیں دیتا، جس کا رواج عام ہوا اور جس کا نام آخری دور میں تصوف پڑا، اور نہ ہی تصوف کے حاملین میں سے سب کو ہر طرح کی غلط روی و غلط فہمی سے بری سمجھتا ہوں، اور نہ ان کو معصوم قرار دیتا ہوں۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس خلا کو، جو ہماری زندگی اور ہمارے معاشرہ میں واقع ہو گیا ہے، جلد پُر کیا جائے اور تزکیہ و احسان اور فقہ باطن کو پھر سے تازہ کیا جائے، جس طرح ہمارے اسلاف نے اپنے اپنے زمانہ میں تازہ کیا تھا، اور یہ سب منہاجِ نبوت اور کتاب و سنت کی روشنی میں ہو۔ بہرحال ہر دور میں اور ہر جگہ جہاں مسلمان بستے ہوں یہ کام ضروری ہے، اس لیے کہ حقیقت میں یہ خلا ایک عظیم خلا ہے اور ہماری انفرادی و اجتماعی زندگی میں اس کے اثرات و نتائج بہت دور رس ہیں۔

اپنے اپنے دور میں اس ذمہ داری کو ادا کرنے والوں اور اس خدمت کے انجام دینے والوں پر تنقید کرنے والوں سے ایک عربی شاعر کی زبان میں کہنا چاہتا ہوں ؏

اقلو علیھم لا ابا لابیکم من اللوم او سدوا المکان الذی سدوا۔

’’ان اللہ کے بندوں پر ملامت بہت ہو چکی۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا ان کی جگہ لینے والا اور درد کا مداوا کرنے والا کوئی ہے؟‘‘ (تزکیہ و احسان ص ۲۴۔۳۵)

اس ساری بحث کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ دین کے ظاہری و باطنی دونوں پہلو ضروری ہیں، اور تصوف اس دوسرے پہلو کے حصول کا محض ایک ذریعہ رہا ہے۔ محقق صوفیا کے نزدیک بھی تصوف کے اشغال مقصودِ اصلی نہیں بلکہ عشق و اخلاص اور خدا کا تعلق پیدا کرنے کے ذرائع ہیں۔ اسی طرح بیعت بھی ضروری و لازمی نہیں، محض اعتماد کے اظہار کا طریقہ ہے۔ اور کسوٹی بہرحال قرآن و سنت ہی ہے، نہ کہ کوئی بزرگ یا ولی۔ لیکن آج کل بعض پڑھے لکھے لوگوں نے یہ فیشن بنا لیا ہے کہ بڑی بے باکی سے نفسِ تصوف ہی کو زیغ و ضلال اور گمراہی کہہ دیتے ہیں۔ عام طور پر یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو نہ صرف اس کوچہ سے نا آشنائے محض ہوتے ہیں بلکہ اسلام کے فرائض کی ادائیگی سے بھی کوسوں دور ہوتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ اگر اسلام کی ۱۴ سو سالہ تاریخ سے اہل اللہ بزرگانِ دین اور ان کی کاوشوں کو الگ کر دیا جائے تو اسلامی تاریخ کے بہت بڑے حصے سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ کیا کوئی ذی عقل اسے باور کر سکتا ہے کہ ۱۴ سو سال سے اسلام کے علمبردار اکابر اہل اللہ اور صوفیائے کرام سب کے سب اصل دین سے دور محض گمراہی میں رہے؟

اب آئیے کتاب اللہ کی طرف، قرآن عظیم رہتی دنیا تک کے لیے ہدایت نامہ بن کر آیا ہے اور اس کا دعوٰی ہے ’تبیانا لکل شئی‘‘ یعنی انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کے لیے جن جن چیزوں کی ضرورت تھی، قرآن نے اسے مکمل طور پر بیان کر دیا، کوئی پہلو ادھورا نہیں چھوڑا۔ آئیے غور کریں کہ قرآن سے ہمیں اس ضمن میں کیا رہنمائی ملتی ہے۔

تصوف اپنے انجام کے اعتبار سے رہبانیت سے زیادہ قریب ہے کہ تصوف میں غلو کا نتیجہ ہمیشہ ہر دور اور ہر ملت و مذہب میں رہبانیت کی صورت میں نکلا ہے۔ قرآنِ عزیز نے اپنے معجز انداز میں چند الفاظ میں رہبانیت کی پوری تاریخ بیان کر دی ہے۔ سورہ حدید میں ارشاد ہے:

ورھبانیۃن ابتدعوھا ما کتبنٰھا علیھم الا ابتغاء رضوان اللّٰہ فما رعوھا حق رعایتھا فاٰتینا الذین اٰمنوا منھم اجرھم وکثیر منھم فاسقون۔

(ترجمہ) ’’انہوں نے رہبانیت کو خود ایجاد کر لیا، ہم نے ان پر اس کو واجب نہ کیا تھا۔ لیکن انہوں نے اللہ کی رضا کے واسطے اس کو اختیار کیا تھا، تو انہوں نے اس رہبانیت کی پوری رعایت نہ کی۔ ان میں جو لوگ ایمان لائے، ہم نے ان کو ان کا اجر دیا اور زیادہ ان میں نافرمان ہیں۔‘‘ (از مولانا تھانویؒ)

یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ چند لفظوں میں رہبانیت کی پوری تاریخ بیان کر دی۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نصف آیت میں رہبانیت کی پوری انسائیکلوپیڈیا کو بند کر دیا ہے۔ اس آیت سے اصولی طور پر چند امور کی طرف رہنمائی ملتی ہے: (۱) رہبانیت خدا نے فرض نہیں کی۔ (۲) انسانوں نے اسے خود اختیار کیا۔ (۳) جذبہ و نیت اچھی تھی یعنی خدا کے قرب و رضا کے  حصول کی نیت رکھتے تھے۔ (۴) اس کے حدود کی رعایت نہ رکھ سکے۔ (۵) نتیجہ یہ ہوا کہ گمراہی و نافرمانی میں پڑ گئے، خدا سے قریب ہونے کے بجائے خدا سے دور ہو گئے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو تصوف کی تاریخ بھی یہی ہے کہ اللہ کے مخلص اور نیک بندوں نے احسانی کیفیت اور خدا کے تعلق و محبت کے حصول اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرنے کے لیے اپنے اپنے دور میں عبادات و ریاضات، اذکار و ادوار کے مختلف طریقوں کو اپنایا۔ جب تک شریعت کی حدود میں رہے ان سے فائدہ اٹھایا، اور جب غلو آ گیا تو یہی چیزیں گمراہی و نافرمانی بنتی چلی گئیں۔

حضراتِ سامعین! اگرچہ تصوف پر تمہیدی کلام کچھ طویل ہو گیا ہے مگر علامہ کے نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے یہ تفصیل ضروری معلوم ہوئی۔ اب آئیے اس طرف کہ تصوف کے متعلق علامہ کا نقطہ نظر کیا ہے۔ علامہ کی تحریروں کی روشنی میں اس کا جائزہ لیں:

’’حضرت مجدد الف ثانیؒ اپنے مکتوبات میں جگہ جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ تصوف شعائر فقہ اسلامیہ میں خلوص پیدا کرنے کا نام ہے۔ اگر تصوف کی یہ تعریف کی جائے تو کسی مسلمان کو اس پر اعتراض کرنے کی جرات نہیں ہو سکتی۔ راقم الحروف اس تصوف کو، جس کا نصب العین شعائر اسلام میں مخلصانہ استقامت پیدا کرنا ہو، عین اسلام جانتا ہے اور اس پر اعتراض کرنے کو بدبختی و خسران کے مترادف سمجھتا ہے۔ لیکن اہلِ نظر کو معلوم ہے کہ صوفیائے اسلام میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو شریعتِ اسلامیہ کو علمِ ظاہر کے حقارت آمیز خطاب سے یاد کرتا ہے اور تصوف سے وہ باطنی دستور العمل مراد لیتا ہے جس کی پابندی سے سالک کو فوق الادراک حقائق کا عرفان ہوتا ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۸)

شاہ سلیمان پھلواری شریف کے نام مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’حقیقی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ میں نے تصوف کو کرات سے دیکھا ہے۔ بعض لوگوں نے ضرور غیر اسلامی عناصر اس میں داخل کر دیے ہیں۔ جو شخص غیر اسلامی عناصر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے وہ تصوف کا خیرخواہ ہے نہ کہ مخالف۔ انہی غیر اسلامی عناصر کی وجہ سے مغربی محققین نے تمام تصوف کو غیر اسلامی قرار دے دیا ہے اور یہ حملہ انہوں نے حقیقت میں مذہب اسلام پر کیا ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۱۹۷)

ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’تصوف کی ادبیات کا وہ حصہ جو اخلاق و عمل سے تعلق رکھتا ہے نہایت قابل قدر ہے کیونکہ اس کے پڑھنے سے طبیعت پر سوز و گداز کی حالت طاری ہوتی ہے۔ فلسفہ کا حصہ محض بے کار اور بعض صورتوں میں میرے خیال میں قرآن کے مخالف ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ۲۰۳)

سید نذیر نیازی کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اسلام کو فطرت کے طور پر Realize کرنے کا نام تصوف ہے اور ایک اخلاص مند مسلمان کا فرض ہے کہ اس کیفیت کو اپنے اندر پیدا کرے۔‘‘ (اقبال و تصوف)

اسی طرح ایک عزیز دوست کو لکھتے ہیں:

’’تصوف لکھنے پڑھنے کی چیز نہیں، کرنے کی چیز ہے۔ کتابوں کے مطالعے اور تاریخی تحقیقات سے کیا ہوتا ہے۔‘‘ (ص ۲۹)

ایک جگہ فرماتے ہیں:

’’خدا شناسی کا ذریعہ خرد نہیں عشق ہے، جسے فلاسفہ کی اصطلاح میں وجدان کہتے ہیں۔‘‘ (ص ۲۰۳)

رومی کے ایک شعر کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا، عالم قلم پر چلتا ہے اور صوفی قدم پر۔

ظفر احمد صدیقی کے نام اپنے مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’شریعت کو اپنے قلب کی گہرائیوں کے ساتھ محسوس کرنے کا نام طریقت ہے۔ جب احکامِ الٰہی خودی میں اس حد تک سرایت کر جائیں کہ خودی کے پرائیویٹ امیال و عواطف باقی نہ رہیں اور صرف رضائے الٰہی اس کا مقصد ہو جائے تو زندگی کی اس کیفیت کو بعض اکابر صوفیائے اسلام نے فنا کہا ہے، بعض نے اس کا نام بقا رکھا ہے۔ لیکن ہندی و ایرانی صوفیا جن سے اکثر نے مسئلہ فنا کی تفسیر ویدانت اور بدھ مت کے زیر اثر کی ہے، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس وقت عملی اعتبار سے ناکارہ محض ہے۔ میرے عقیدے کی رو سے یہ تقسیم، بغداد کی تباہی سے بھی زیادہ خطرناک تھی اور ایک معنی میں میری تمام تحریریں اس تفسیر کے خلاف ایک قسم کی بغاوت ہیں۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۱)

علامہ نے متعدد جگہ بصراحت اس کی تکرار کی ہے کہ وہ کس تصوف کے خلاف ہیں۔ درحقیقت تصوف میں جو عجمی اثرات ہیں، خواہ وہ ہندی ویدانت کے ہوں، بدھ مت یا عیسائیت کے، یونانی اشراقیت کے ہوں یا ایرانی، یا  ان لا یعنی فلسفوں کے جن میں ایران صدیوں تک مشغول رہا اور جس کی وجہ سے قدیم عربی لٹریچر میں ایران پر خاص طور پر عجم کا اطلاق ہوتا ہے، غرض ہر وہ چیز جو باہر سے درآمد کی جائے یا جمود کی طرف لے جائے یا جس میں شریعت و طریقت کی دوئی یا باطنیت کا شائبہ پایا جائے، علامہ کی طبیعت اس سے ابا کرتی ہے اور وہ اس کے خلاف احتجاج بلکہ جہاد اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ’’اقبال اور تصوف‘‘ کے مصنف جناب شریف بقا صاحب لکھتے ہیں:

’’بعض اہلِ طریقت یا اہلِ تصوف شریعت کے علم کو ظاہری علم اور تصوف و طریقت کے علم کو باطنی قرار دیتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں علمِ باطن علمِ ظاہر سے زیادہ اہم ہے۔ علامہ اقبال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکمل پیغام کو قرآن و سنت میں محفوظ خیال کرتے ہیں۔ علمِ مخفی یا علمِ باطن کے عقیدے کو ختمِ نبوت اور قرآنی ہدایت کی تکمیل کے منافی سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ خدا کے اس آخری نبیؐ نے خدا کا پورا پیغام مسلمانوں کو پہنچا دیا تھا۔ اس لیے وہ کسی مخفی علم کو حضورؐ سے منسوب کرنا قرآنی اعلان کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ وہ شریعت و طریقت کو ایک ہی حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے مرشد مولانا روم فرماتے ہیں کہ

’’شریعت ہمچو شمع است کہ رہ می نماید، چوں در راہ آمدی این رفتن تو طریقت است، چون بمقصود رسدی این رسیدن تو حقیقت است‘‘ (مثنوی دفتر پنجم)

’’شریعت راستہ دکھانے والی شمع کے مانند ہے، جب تو اس راہ میں آیا تو تیرا چلنا طریقت ہے، اور جب تو منزل مقصود تک پہنچ گیا تو تیرا یہ وہاں پہنچنا حقیقت ہے۔

یعنی شریعت روشنی ہے اور طریقت راستہ، جو منزل تک پہنچنے میں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ اس لیے شریعت و طریقت ایک دوسرے کے مخالف کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘

علامہ کے نزدیک نظری طور پر عربوں کا مزاج اسلام کے مطابق ہے اور عجمیت اسلام کی شکل مسخ کرنے کی کوشش ہے۔ اس لیے وہ اسلام میں عجمی اثرات کے سخت مخالف ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ عجمیت سے الرجک ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر سید یامین کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’میری رائے میں عجمیت ایشیا کے مسلمانوں کے لیے تباہی کا باعث ہوئی ہے۔ اس وقت اس باطل کے خلاف جہاد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۱)

جب تک اسلام جزیرۃ العرب میں تھا اس میں حرارت و حرکت کا عنصر شامل تھا، لیکن جب دیگر ممالک تک پھیلا تو آہستہ آہستہ اس میں عجمی اثرات شامل ہوتے گئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ؎

یہ امت روایات میں کھو گئی
حقیقت خرافات میں کھو گئی

علامہ، نیاز احمد کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’نہایت بے دردی سے قرآن اور اسلام میں ہندی و یونانی تخیلات داخل کیے جا رہے ہیں۔‘‘ (ص ۲۰۶)

اسی طرح ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:

’’عجمیت کی دھند سے باہر نکل کر عرب کے صحرا کی شاندار دھوپ میں چلو۔‘‘

اور

شیخ احمد سید گردون جناب
کا سب نور از ضمیرش آفتاب
با مریدے گفت اے جان پدر
از خیالات عجم باید حذر

شیخ احمد رفاعیؒ ایک عظیم المرتبت بزرگ تھے۔ سورج ان کے ضمیر سے اکتساب نور کرتا، انہوں نے ایک مرتبہ اپنے مرید سے کہا، بیٹا تجھے عجمی خیالات سے پرہیز کرنا چاہئے۔ اسی طرح ایک جگہ فرماتے ہیں:

وہ صوفی کہ تھا خدمت حق میں مرد
محبت میں یکتا حمیت میں فرد
عجم کے خیالات میں کھو گیا
یہ سالک مقامات میں کھو گیا

ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’تصوف غیر اسلامی عنصر سے خالی نہیں اور میں مخالف ہوں تو صرف ایک گروہ کا جس نے محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر بیعت لے کر دانستہ و نادانستہ ایسے مسائل کی تعلیم دی جو مذہبِ اسلام سے تعلق نہیں رکھتے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۳۲)

شیخ محی الدین ابن عربی جنہوں نے ساتویں صدی ہجری میں خالق و مخلوق کے اتحاد کو تصوف کا جزو لاینفک بنا دیا تھا، ان کے بارے میں علامہ لکھتے ہیں:

’’مسلمانوں اور ہندوؤں کی تاریخ میں ایک عجیب و غریب ذہنی مماثلت ہے۔ جس نکتہ خیال سے شری شنکر نے گیتا کی تفسیر کی، اسی نکتہ خیال سے شیخ محی الدین ابن عربی اندلسی نے قرآن شریف کی تفسیر کی۔ انہوں نے مسئلہ وحدۃ الوجود کو اسلامی تخیل کا جزو لاینفک بنا دیا۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۳۶)

وحدۃ الوجود کے متعلق ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’ہمہ اوست مذہبی مسئلہ نہیں فلسفہ کا مسئلہ ہے۔ وحدت و کثرت کی بحث سے اسلام کو کوئی سروکار نہیں۔ اسلام کی روح توحید ہے اور اس کی ضد کثرت بلکہ شرک ہے۔ وہ فلسفہ و مذہبی تعلیم جو انسان کی شخصیت کی نشوونما کے منافی ہو، بے کار چیز ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۳۶)

سراج الدین پال کے نام ایک مکتوب میں لکھتے ہیں:

’’کسی مذہب یا قوم کے دستور العمل میں باطنی معنی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں اس دستور العمل کو مسخ کر دینا ہے (جیسا کہ قرامطہ کے طرزعمل سے ثابت ہے)۔ یہ نہایت عیارانہ طریقہ تنسیخ ہے۔‘‘ (ص ۲۰۳)

خواجہ حسن نظامی کے نام اپنے مکتوب میں فرماتے ہیں:

’’رہبانیت عیسائی مذہب کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ہر قوم میں پیدا ہوئی ہے اور ہر جگہ اس نے قانون اور شریعت کا مقابلہ کیا ہے اور اس کے اثرات کو کم کرنا چاہا ہے۔ اسلام درحقیقت اسی رہبانیت کے خلاف صدائے احتجاج ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۲)

علامہ کا اسلام کی صلاحیت پر اعتماد اور اذعان کا یہ عالم تھا کہ ایک مجلس میں:

’’ہم نے آپ سے دریافت کیا، فوق البشر کی تعریف کیا ہے؟ کہنے لگے ہر صحیح مومن فوق البشر ہے۔ اسلام وہ سانچہ ہے جس میں فوق البشر ڈھلتے ہیں ۔۔۔۔ کہنے لگے ہیرو کی تعریف یہ ہے کہ وہ انسان جس کے اعمال و افعال نوع انسانی کے لیے چشمہ ہائے زندگی جاری کرنے والے ہوں۔ شخصیت پرستی (Heroworship)  ہندو قوم کی امتیازی صفت ہے، مگر اسلام اس کے خلاف ہے۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۰)

علامہ ہمیشہ ان علمائے حق اور صوفیائے عظام کے بڑے مداح اور دل سے قدردان رہے جنہوں نے تصوف کو شریعت کی حدود میں رکھا۔ ایسے علما و بزرگان دین سے بصد ادب ملتے اور ان کے مزارات پر بصد شوق و ادب حاضری دیتے، ان کے کارناموں سے مسلمانوں کے دلوں کو گرماتے، اپنے آخری دنوں میں مولانا ابوالحسن علی ندوی (جو ان دنوں نوعمر تھے) سے ملاقات کے دوران فرمایا:

’’اسلام اپنے پیروؤں میں عملیت اور حقیقت پسندی پیدا کرتا ہے۔ ہندوستان میں اسلام کی تجدید و احیا کی بات نکلی تو فرمایا، شیخ احمد سرہندیؒ اور شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور سلطان محی الدین عالمگیر کا وجود اور ان کی جدوجہد نہ ہوتی تو ہندوستانی تہذیب و فلسفہ اسلام کو نگل جاتا۔‘‘ (اقبال و تصوف)

ایک جگہ اکبر الٰہ آبادی کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’مجدد الف ثانیؒ اور مولانا اسماعیل شہیدؒ نے اسلامی سیرت کے احیا کی کوشش کی مگر صوفیا نے اس گروہِ احرار کو کامیاب نہ ہونے دیا۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۳۷)

جاوید نامہ کے اخیر میں خطاب بہ جاوید کے عنوان سے چند باتیں جاوید کے لیے لکھی ہیں۔ ان میں ایک جگہ علامہ نے چودھری محمد حسین سے کہا:

’’عصرِ حاضر میں قحط الرجال ہے اور مردانِ خدا کا ملنا کتنا مشکل ہو رہا ہے۔ اگر تم خوش قسمت ہوئے تو تمہیں کوئی صاحبِ نظر مل جائے گا۔ اگر نہ ملا تو تم میری ہی نصائح پر عمل کرنا۔ پھر کہنے لگے، میرے مرنے کے بعد جاوید جوان ہو تو اسے ان اشعار کا مطلب سمجھا دینا۔‘‘

اب آخر میں علامہ کی ایک نصیحت سن لیجئے۔ اکبر الٰہ آبادی کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’کوئی فعل مسلمان کا ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کا مقصد اعلائے کلمۃ اللہ کے سوا کچھ اور ہو۔‘‘ (اقبال و تصوف ص ۲۰۲)

حضرات! بندہ نے ’’اقبال اور تصوف‘‘ سے یہ چند اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کیے ہیں۔ بندہ آپ سے سوال کرتا ہے کہ کیا علامہ کی ان روشن تحریروں اور افکار کی روشنی میں کوئی ذی عقل یہ کہہ سکتا ہے کہ علامہ نفسِ تصوف کے خلاف تھے؟ اور کیا آج کے اقبال شناسی کے دعوے داروں کو اقبال کے فکر و ذہن یا افکار و خیالات سے کوئی دور کی نسبت بھی ہے؟





علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ ۔ فکری مماثلتیں

کلام اقبال میں ملا‘ ملائے حرم‘ پیر حرم‘ فقیہان حرم‘ جناب شیخ‘ شیخ مکتب‘ فقیہ شہر‘ صوفی‘ ذکر نیم شبی‘ مراقبے‘ سرور‘ خانقہی اور کرامات جیسی اصطلاحات اور تراکیب سے ایک عامی اس بدگمانی میں بجا طور پر مبتلا ہوتا ہے کہ اقبال طبقہ علماء ومشائخ پر طنز کر رہے ہیں۔ یہ صرف بدگمانی نہیں‘ کچھ حقیقت بھی ہے لیکن اس تنقید کا مصداق جید اور مستند علماء کرام نہیں بلکہ علم وہنر سے بے نیاز اور فکر وعمل سے تہی دامن حضرات ہیں۔ قدیم وجدید میں رشتہ قائم کرنا وقت کا اہم ترین مسئلہ رہا ہے اور بدقسمتی سے علما کی اکثریت اس امرخاص سے بے نیاز رہی ہے۔ دراصل اقبال مستقبل کے چیلنجوں سے بے خبر انہی روایت پسند رویوں پر اعتراض کرتے ہیں اور اپنی اس تنقید میں وہ حق بجانب بھی ہیں کیونکہ تقلیدِ محض اسلام کے اصول حرکت کے منافی ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے اقبالؒ علما کے محسن تصور کیے جا سکتے ہیں۔ رشید احمد جالندھری اپنے ایک مضمون ’’اقبال اور علما‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’وہ تو علما کو ان کی معنوی بیماریوں، جمود، تنگ نظری، بے کیف رسوم پرستی اور حقائق حیات سے تغافل وغیرہ سے صحت یاب کر کے ان کو ان کا صحیح مقام دلانا چاہتے ہیں۔‘‘

یہاں اقبال علما تعلقات پر تفصیلی بحث مطلوب نہیں۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ اقبال کے علماء ومشائخ سے گہرے روابط کے باوجود آج ان کو علما کا نقاد خیال کیا جاتا ہے تو اس کی کئی ایک ظاہری وجوہ ہیں۔ ایک وجہ تو اقبال کی علما پر وہ تنقید ہے جو انہوں نے عصری تقاضوں سے غفلت کی وجہ سے ان پر کی ہے۔ دوسری وجہ بعض قدامت پسند حضرات کے وہ فتوے ہیں جو انہوں نے علامہ پر لگائے ہیں۔ ایک اور وجہ علما کا سیاسی کردار بھی ہو سکتا ہے جس کی آڑ میں خاص وعام نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے۔ 

تاہم یہ تصویر کا صرف ایک پہلو ہے۔ تصویر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عصری تقاضوں سے علما کی اس علمی بے نیازی کے باوجود اقبال علما سے بے نیاز نہیں ہوئے بلکہ وقتاً فوقتاً ان حضرات سے مقدور بھر استفادہ کرتے رہے چنانچہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی تنقیدات کو علما سے بعد کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ علماء ومشائخ سے غایت درجہ کی عقیدت رکھتے تھے۔ مولانا شبلی نعمانی، سید سلمان ندوی اور مولانا انور شاہ کشمیری وغیرہ سے آپ کو خصوصی علمی ودینی تعلق رہا ہے۔ سید سلمان ندوی کے نام علامہ کے بیسیوں خطوط ملتے ہیں۔ ان خطوط سے شبلی، ندوی اور اقبال کی ایک خوبصورت علمی تکون بنتی نظر آتی ہے۔ ’’تشکیل جدید الہیات اسلامیہ‘‘ کی تیاری کے سلسلے میں اقبالؒ نے مولانا ندوی کو ایک طویل سوال نامہ ارسال فرمایا۔ اس سے ان حضرات کے علمی تعلقات پر روشنی پڑتی ہے۔ جسٹس جاوید اقبال نے ’’زندہ رود‘‘ جلد ۳ میں ان سوالات کا خلاصہ بیان کیا ہے۔ سفر افغانستان بھی ندوی اقبال دوستی پر دال ہے۔ علامہ انور شاہ کشمیری سے اقبال کی متعدد ملاقاتیں اور مسئلہ زمان ومکان، مسئلہ ختم نبوت، فقہ حنفی اور مسئلہ حدوث عالم وغیرہ پر علمی استفادہ بھی ثابت ہے۔ علامہ کشمیری کی وفات پر شاعر مشرق نے لاہور میں ایک تعزیتی جلسہ منعقد کرایا اور اپنی صدارتی تقریر میں شاہ مرحوم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا: ’’اسلام کی ادھر کی پانچ سو سالہ تاریخ شاہ صاحب کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔‘‘ مولانا کشمیری کا یہ قول بھی قابل غور ہے کہ ’’مجھ سے جس قدر استفادہ اقبال نے کیا، کسی مولوی نے نہیں کیا۔‘‘

علما کے ساتھ ذاتی روابط کے علاوہ بہت سے معاصر علما اور مشائخ کے ساتھ اقبال کاعلمی، دینی اور فکری اشتراک بھی پایا جاتا ہے جس پر ہمارے سکالرز اور محققین پوری طرح سے توجہ نہیں دے سکے۔ زیر نظر سطور میں، میں مولانا تھانویؒ اور علامہ اقبالؒ کے مابین پائی جانے والی فکری مماثلتوں کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ 

ڈاکٹر محمد اجمل نے اپنے مقالہ ’’علم اور مذہبی واردات‘‘ میں ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی کے لیے ’’دو حکیم الامت‘‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں:

’’بیسویں صدی کے اوائل میں برصغیر کے مسلمانوں نے دو ممتاز ہستیوں کو ’’حکیم الامت‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔ ایک تھے مولانا اشرف علی تھانوی اور دوسرے علامہ اقبال۔حقیقت میں یہ دونوں ہستیاں حکیم الامت تھیں۔‘‘

پروفیسر انور صادق کے نزدیک اقبال کی بنیادی حیثیت ایک مصلح کی ہے۔ اپنے مضمون ’’اقبال کی بنیادی حیثیت‘‘ میں فرماتے ہیں: 

’’واقعہ یہ ہے کہ اقبال بنیادی طور پر شاعر ہیں اور نہ فلسفی بلکہ وہ کچھ اور ہی ہیں۔ شاعری اور تفلسف ان کی ذات کے اضافی پہلو ہیں۔ درحقیقت وہ مصلحِ قوم ہیں۔‘‘

عالم اسلام کی موجودہ حالت پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ سوچ ایک سوال بن کر ابھرتی ہے کہ جب اسلام ایک ابدی دین ہے جس کو اللہ تمام ادیان پر غالب کرنا چاہتے ہیں تو آخر اس دین حق کی موجودگی میں مسلمان اپنی سیاسی بے چارگی‘ معاشی پس ماندگی‘ معاشرتی بد حالی اور اخلاقی بے راہ روی سے کیوں دوچار ہیں؟ علامہ محمد اقبال نے ’’علم الاقتصاد‘‘ ، ’’قومی زندگی‘‘، ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ اور ’’خطبات‘‘ خاص طور پر خطبہ اجتہاد میں انہی وجوہ کا جائزہ لیا ہے۔ ’’شکوہ‘‘، ’’جواب شکوہ‘‘، ’’طلوع اسلام‘‘ اور ’’خضر راہ‘‘ میں بھی ان سوالات کا جواب ملتا ہے۔ غالباً برصغیر میں ڈاکٹر محمد اقبال پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے ’’اسلام کی تشکیل جدید‘‘ کی ضرورت محسوس کی۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی ’’خطبات اقبال پر ایک نظر‘‘ میں فرماتے ہیں:

’’اس کی داد دینی چاہیے کہ ایک ایسے دور جمود وتعطل ذہنی میں جبکہ اجتہاد کا لفظ زبان سے نکالتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں ان پر آزاد خیالی کا لیبل نہ لگ جائے، علامہ نے اپنی چشم بصیرت سے آنے والے زمانے کو دیکھ لیا۔‘‘

آپ اسلامی فقہ کی تدوین نو کو کتنا ضروری خیال کرتے تھے؟ صوفی غلام مصطفی کے نام خط میں لکھتے ہیں:

’’میرا عقیدہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے جورس پروڈنس پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت ثابت کرے گا، وہی اسلام کا مجدد ہوگا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہوگا۔‘‘

یہی بات قدرے زیادہ شہرت کے پس منظر میں مولانا تھانویؒ کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ اصلاحِ احوال امت کے موضوع پر آپ نے مستقل کتب تصنیف فرمائی ہیں۔ ’’اصلاح انقلاب امت‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں ایک ضخیم تصنیف جسٹس تقی عثمانی صاحب نے مرتب کی ہے۔ جناب شیخ محمد اکرام نے حضرت تھانویؒ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’دیوبند سے متعدد بلند پایہ ہستیوں نے فیض حاصل کیا۔ ان میں سے بعض مثلاً انور شاہ کشمیری اور شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اس لائق ہیں کہ ان کے کارنامے علیحدہ عنوانات کے تحت بیان کروں لیکن اکابرین دیوبند میں ایک بزرگ ایسے تھے کہ ان کے ذکر کے بغیر گزشتہ پچاس برس کی مذہبی تاریخ کسی طرح مکمل نہیں ہو سکتی۔‘‘

گردوپیش کے احوال کے لحاظ سے اصلاح امت کے لیے ان دونوں بزرگوں نے جو افکار پیش کیے، ان میں اشتراک اور ہم آہنگی کے متعدد دل چسپ پہلو پائے جاتے ہیں۔ آئیے ان پر ایک نظر ڈالیں:

سیاسی افکار

۱۔ دو قومی نظریہ تحریک پاکستان کا سنگ بنیاد ہے اور مولانا تھانوی روز اول ہی سے دو قومی نظریہ کے حامی اور ہندو مسلم اتحاد کے مخالف رہے تھے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ اقبال اور قائد اعظم ایک عرصہ تک ہندو مسلم اتحاد کے داعی رہے۔ میثاق لکھنو وغیرہ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ ’’ہندوستانی بچوں کا قومی گیت‘‘، ’’نیا شوالہ‘‘ اور ’’ترانہ ہندی‘‘ ایسی نظمیں اقبال کی اسی فکر کی مظہر ہیں لیکن مولانا تھانوی نے اپنی سیاسی بصیرت سے کام لے کر بہت پہلے ہندوؤں کی ذہنیت سے آگاہ کر دیا تھا۔ اپنے ایک وعظ میں فرمایا:

’’یہ ہندو مسلمانوں کی جان، مال اور ایمان سب کے دشمن ہیں اور انہیں کو اپنا ہم درد اور خیر خواہ سمجھ رکھا ہے۔ یہی ان کی بڑی زبردست ناکامی کا راز ہے۔ جو شخص دوست دشمن میں امتیاز نہ کر سکے، وہ کیا خاک کام کرے گا۔‘‘

گاندھی جسے کانگرس کا دماغ کہنا چاہیے، اس نے نہایت مہارت کے ساتھ مسلمانوں کی قوت اور جذبہ کا استعمال اپنی جماعت کے حق میں کیا۔ عام مسلمان کا تو ذکر ہی کیا، بڑے بڑے اس کے سیاسی فریب کاشکار ہو کر کانگرس کا دم بھرنے لگے۔ مولانا تھانویؒ نے کانگرس کی اسلام دشمنی کو بے نقاب کر کے اس میں عدم شرکت پر فتویٰ دیا: 

’’مسلمانوں کا کانگریس میں شرکت کرنا، ہندوؤں کے ساتھ مل کر یا ان کو ساتھ ملا کر کام کرنا یہ اسلام اور مسلمانوں کے لیے نہایت خطرناک بات ہے۔‘‘ 

آپ نے اپنے ایک ملفوظ میں مزید فرمایا:

’’کانگرس خالص مذہبی اور سیاسی ہندوؤں کی تحریک ہے جس کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو تباہ وبرباد کرنا ہے۔‘‘ 

آپ نے ایک اور سلسلہ گفتگو میں فرمایا:

’’ہم کانگرس کی امداد نہیں کر سکتے۔‘‘ 

مولانا تھانوی کے ملفوظات میں بڑے حقیقت پسندانہ تبصرے موجود ہیں۔ ایک خاص مجلس میں گاندھی کے بارے میں فرمایا:

’’یہ توحید اور رسالت کا منکر ہے، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن اور رئیس المشرکین والکافرین ہے۔‘‘ 

ایک جگہ گاندھی کو ’طاغوت‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ایک ملفوظ میں اسے چالاک، مکار، اسلام اور مسلمانوں کا دشمن کہا ہے۔ تحریک شدھی، ہجرت، قربانی گاؤ،موہلا بغاوت وغیرہ کے پیچھے گاندھی کا ذہن کام کر رہا تھا۔ ان تحاریک کے نتائج مسلمانوں کے حق میں نہایت مضر اور ہندوؤں کے لیے انتہائی سودمند ثابت ہوئے۔ مولانا نے ان امور پر یوں گرفت فرمائی:

’’بعض کفار پر مجھے بہت ہی غیظ ہے۔ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچا اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئیں۔ ہجرت کا سبق پڑھایا، شدھی کا مسئلہ اٹھایا، مسلمانوں کے عرب جانے کی آواز اٹھائی، قربانی گاؤ پر انہوں نے اشتعال دیا۔ یہ لوگ مسلمانوں کی جان کے دشمن ہیں بلکہ ایمان، جان ومال اور ماہ وجاہ، مسلمانوں کی سب چیزوں کے دشمن ہیں۔‘‘

اس قدر سخت تنقید کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ آپ ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں سوچ بھی سکتے تھے۔ وہ تو اتحاد کو مسلمانوں کی شان کے خلاف سمجھتے تھے نیز ہندوؤں اور انگریز کے بجائے خدا پر بھروسہ کرنے کی تلقین کرتے تھے۔ 

علامہ اقبال بھی مسلمان علما کے کانگریسی کردار کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ایک گفتگو کے دوران میں فرمایا: 

’’کانگرسی خیال کے علما ہندوؤں کا ساتھ دے کر بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ اگر قوم نے ان کا ساتھ دیا تو اس کا نتیجہ بہت مہلک ہوگا۔‘‘

مسئلہ وطنیت وقومیت پر مولانا حسین احمد مدنی سے آپ کا اختلاف ایک مشہور بات ہے۔ ’’ارمغان حجاز‘‘ میں ’’حسین احمد‘‘ کے زیر عنوان نظم بھی اس بحث کی یاد دلاتی ہے۔ علامہ نے اپنے موقف کی حمایت میں ’’جغرافیائی حدود اور مسلمان‘‘ کے نام سے مضمون قلم بند کروایا جو ۹ مارچ ۱۹۳۸ء کے روزنامہ ’’احسان‘‘ میں شائع ہوا۔ اس تحریر کے ۴۳ روز بعد آپ راہئ ملک عدم ہوئے۔ مذکورہ مضمون ’’مقالات اقبال‘‘ (مرتبہ سید عبد الواحد) میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

۲۔ علامہ اقبال ترکِ موالات کے مخالف تھے بلکہ اس کے رہنماؤں سے بھی نالاں تھے۔ مولانا تھانویؒ بھی اس تحریک میں مستور نقصانات کو دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ اس کے اثرات پر یوں تبصرہ کیا کہ ایک صاحب جو ترک موالات کا شکار ہوئے اور ملازمت کھو بیٹھے، اس کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

’’یہ صاحب سرکاری ملازم تھے۔ اس تحریک کے سبب مستعفی ہو گئے۔ ملازمت تلاش کرتے ہیں مگر ملتی نہیں۔ پریشان ہیں۔ دین ودنیا دونوں خراب ہوئے۔ اس کانگریس کی وجہ سے ہر شخص پریشان ہے۔‘‘

۳۔ آپ نے تحریکِ ہجرت کی بھی مخالفت کی اور فتویٰ دیا کہ شریعت نے وجوبِ ہجرت کے لیے جو شرائط عائد کی ہیں وہ شرائط ابھی موجود نہیں۔ آپ ہجرت کو گاندھی کا سبق کہتے تھے اور اس کے فتاویٰ جاری کرنے والے علما پر سخت ناراضی اور غصے کا اظہار کرتے تھے۔ 

علامہ اقبال کے خطوط میں ہجرت کے متعلق اشارات ملتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اس تحریک کی حمایت بالکل نہیں کی بلکہ اس کو مولانا تھانوی کی طرح ناپسند فرمایا۔ پروفیسر محمد اکبر منیر کو اپنے ایک مکتوب میں لکھتے ہیں: 

’’ہندوستان اور بالخصوص پنجاب سے بے شمار لوگ افغانستان کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ اس وقت تک پندرہ بیس ہزار آدمی جا چکا ہوگا۔‘‘ 

اس تحریک کے نتائج کے بارے میں جسٹس جاوید اقبال رئیس بروک ولیمز کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’کابل سے پشاور تک شاہراہ پر دونوں طرف زمین ان بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کی قبروں سے بھر گئی جو اس سفر کی مصیبتیں برداشت نہ کر سکے۔ جب مہاجرین اپنے اپنے دیہات واپس پہنچے تو بالکل قلاش اور گھربار سے محروم تھے اور سرچھپانے کے لیے کوئی جگہ نہ تھی۔‘‘

سید ریاض حسین نے اس تحریک کے بارے میں اپنا خیال ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’بس یہی قدم تھا جو مسلمانوں نے بغیر سوچے سمجھے کیا۔‘‘

۴۔ اقبال اور مولانا تھانوی تحریک خلافت کے بارے میں بھی ہم خیال تھے۔ اقبال صوبائی خلافت کمیٹی کے رکن تھے، بعد ازاں مستعفی ہو گئے۔ وہ وفد خلافت کو انگلستان بھیجنے کے بھی خلاف تھے چنانچہ سید سلمان ندوی کے نام ایک خط میں اس وفد پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ مولانا تھانوی نے تحریک خلافت سے علیحدگی اختیار کی۔ اس پر مولانا کو قتل کی دھمکی بھی موصول ہوئی۔ آپ نے ایک مجلس میں فرمایا:

’’تحریک خلافت کا زمانہ نہایت ہی پرفتن زمانہ تھے۔ بڑے بڑے پھسل گئے۔ عجب ایک ہڑبونگ مچا ہوا تھا۔ حق وباطل میں بھی امتیاز نہ رہا تھا۔‘‘

طریقت وتصوف

تصوف اور مسائل تصوف مسلمانوں کا ایک قدیمی مسئلہ ہے۔ تصوف کے بارے میں عام طور پر تین مکاتب فکر موجود ہیں۔ ایک افراط کا شکار ہے اور دوسرا تفریط کا اور تیسرا ان کے بین بین ہے اور یہی مسلک ہر دو حکیم الامت کا تھا۔ علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ کا عقیدہ یہ تھا کہ شریعت وطریقت دو چیزیں نہیں ہیں بلکہ طریقت شریعت کا ایک جز ہے اور شریعت کے تابع ہے جس کا مقصد تزکیہ نفس ہے۔ اقبال اپنے ایک خط میں شاہ سلمان پھلواری کو لکھتے ہیں:

’’حقیقی اسلامی تصوف کا میں کیونکر مخالف ہو سکتا ہوں کہ خود سلسلہ عالیہ قادریہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ بعض لوگوں نے ضرورغیر اسلامی عناصر اس میں داخل کر دیے ہیں۔ جو شخص غیر اسلامی عناصر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتا ہے، وہ تصوف کا خیر خواہ ہے نہ کہ مخالف۔‘‘

آج بھی نام نہاد صوفیوں نے سادہ لوح عوام کو ظاہر وباطن کی بحث میں الجھا رکھا ہے حالانکہ شریعت ظاہر وباطن دونوں پر حاوی ہے اور ان میں تفریق کی قائل نہیں۔ اقبال نے ’نیو ایرا‘ کی ۲۸ جولائی ۱۹۱۷ء کی اشاعت میں اپنے ایک مضمون ’’تصوف اور اسلام‘‘ میں شیخ احمد رفاعی کے حوالے سے لکھا ہے:

’’شیخ وہ ہے جس کا ظاہر وباطن مشروع ہو۔ طریقت عین شریعت ہے۔ جھوٹا اس فرقے کو نجاست آلود کرتا ہے اور کہتا ہے باطن اور ہے ظاہر اور ہے۔‘‘

علامہ نے تصوف پر کئی اور مضامین بھی لکھے۔ یہ مضامین خواجہ حسن نظامی کے مثنوی اسرار خودی پر اعتراضات کے جواب میں تحریر کیے جن میں ’اسرار خودی اور تصوف‘ (۱۹۱۶ء)، ’سرِاسرار خودی‘ (۱۹۱۶ء)، ’تصوفِ وجودیہ‘ (۱۹۱۶ء) اور ’علم ظاہر وباطن‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مسئلہ تصوف کی تفہیم میں اقبال کی یہ تحریریں بڑی معاون ثابت ہوتی ہیں۔ مذکورہ بالا مضامین ’مقالاتِ اقبال‘ میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ۱۹۱۶ء سے ۱۹۱۸ء کے عرصے میں لکھے گئے مکتوبات میں یہ بحث مل سکتی ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ حقیقی اسلامی تصوف کے قائل ہیں اور طریقت کو شریعت کا ہی ایک حصہ اور جز خیال کرتے ہیں۔

تصوف پر مولانا تھانوی کا گراں قدر سرمایہ موجود ہے۔ ’انفاس عیسیٰ‘، ’الرفیق فی سواء الطریق‘، اور ’شریعت وطریقت‘ خالص تصوف کی کتابیں ہیں۔ تیرہ سو صفحات پر مشتمل ’تربیت السالک‘ مولانا کی مایہ ناز تصنیف ہے۔ ’التکشف عن مہمات التصوف‘ نہایت مستند اور ادبی مزاج کی کتاب ہے جو ۷۵۰ صفحات پر مشتمل آٹھ رسائل کا مجموعہ ہے۔ اس میں ’عرفان حافظ‘ کے نام سے حافظ شیرازی کے کلام کی متصوفانہ شرح کے علاوہ ’حقیقت الطریقۃ من السنۃ الانیقۃ‘ کے عنوان سے ۳۵۰ احادیث کی روشنی میں تصوف اور متعلقات تصوف کو ثابت کیا ہے۔ علاوہ ازیں ’مسائل السلوک من کلام ملک الملوک‘ کے نام سے قرآن کی متصوفانہ تفسیر فرمائی ہے۔ ’بیان القرآن‘کے حاشیے میں جابجا مسائل تصوف کی نشان دہی کی گئی ہے۔ آپ کے ملفوظات وفرمودات میں بھی موقع ومحل کی مناسبت سے تصوف وسلوک پر عمدہ بحثیں موجود ہیں۔ پھر آپ کے خلفا اور مریدین اور سوانح نگاروں نے آپ کی زیر نگرانی جو کام کیا ہے، وہ اس پر مستزاد ہے۔ 

مولانا تھانوی تصوف کی کیا تفسیر فرماتے ہیں، ’شریعت وطریقت‘ سے چند سطور قارئین کی نذر ہیں:

’’شریعت کے پانچ اجزا ہیں۔ پانچواں جز تصوف ہے جسے شریعت میں اصلاح نفس کہتے ہیں۔ آج کل لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تصوف کے لیے بیوی، بچوں اور دوسرے دنیاوی امور کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔ یہ جاہل صوفیوں کا مسئلہ ہے جو تصوف کی حقیقت کو نہیں جانتے۔‘‘

اسی چیز کو اقبال نے بار بار غیر اسلامی اور عجمی تصوف کہا ہے۔ خلاصہ یہ ہوا کہ دونوں حضرات ایسے غیر اسلامی رہبانی تصوف کے مخالف ہیں جو زندگی کے تقاضوں سے فرار کی راہ دکھاتا ہے۔

مثنوی مولانا رومؒ 

علامہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ میں ایک اور فکری ہم آہنگی مولانا رومؒ اور ان کی مثنوی ہے۔ شاعر مشرق کی مولانا جلال الدین رومیؒ سے عقیدت محتاج بیان نہیں جبکہ مولانا تھانویؒ کے مولانا رومیؒ سے استفادہ سے ایک عام آدمی بھی باخبر ہے۔ جو حضرات مولانا تھانویؒ کے علمی افادات سے شغف رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ان کے ملفوظات اور تصانیف میں جابجا مولانا رومی کے اشعار ملتے ہیں۔ ’’عرفان حافظ‘‘ کا ذکر گزر چکا ہے۔ یہاں یہ سن لیجیے کہ آپ نے مثنوی مولوی معنوی کی شرح کی ہے جس کو کلید مثنوی کے نام سے ۲۴ جلدوں میں ادارۂ تالیفات اشرفیہ ملتان نے شائع کیا ہے۔ فارسی اور اردو کا ذوق رکھنے والے احباب کے لیے یہ ایک خاصے کی چیز ہے۔ اس شرح کا تذکرہ علامہ کے خطوط میں ملتا ہے۔ خان محمد نیاز الدین خان کو ایک مکتوب محررہ ۳ فروری ۱۹۱۷ء میں لکھتے ہیں:

’’مولوی اشرف علی تھانوی، جہاں تک مجھے معلوم ہے، وحدۃ الوجود کے مسئلے سے اختلاف رکھتے ہیں۔ مجھے یقین ہے ان کی کتاب عمدہ ہوگی۔‘‘

اپنے مضمون ’’سر اسرار خودی‘‘ میں حضرت خواجہ حسن نظامی کو مخاطب کر کے لکھا ہے:

’’حضرت، میں نے مولانا جلال الدین رومیؒ کی مثنوی کو بیداری میں پڑھا ہے اور بار بار پڑھا ہے۔ آپ نے شاید اسے سکر کی حالت میں پڑھا ہے کہ اس میں آپ کو وحدۃ الوجود نظر آتا ہے۔ مولوی اشرف علی تھانوی سے پوچھیے، وہ اس کی تفسیر کس طرح کرتے ہیں۔ میں اس بارے میں انہی کا مقلد ہوں۔‘‘

تعلیم وتربیت

شعبہ تعلیم وتربیت میں بھی مشترک اقدار موجود ہیں۔ خاص طور پر تعلیم وتربیت نسواں کے بارے میں ان حضرات نے بہت زیادہ لکھا ہے۔ اقبالؒ عورت کو تمدن کی جڑ قرار دیتے ہیں چنانچہ آپ نے ضرب کلیم میں عورت پر متعددقطعات رقم فرمائے ہیں۔ مدراس میں انجمن خواتین کے سپاس نامہ کے جواب میں آپ نے تقریر فرمائی جو ’’شریعت اسلام میں مرد وعورت کا مرتبہ‘‘ کے عنوان سے مقالاتِ اقبال کی زینت بن چکی ہے۔

اقبالؒ عورت کو کیسی تعلیم دینا چاہتے تھے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘ میں رقم طراز ہیں:

’’قومی ہستی کی مسلسل بقا کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو ابتدا میں ٹھیٹھ مذہبی تعلیم دیں۔ جب وہ مذہبی تعلیم سے فارغ ہو چکیں تو ان کو اسلامی تاریخ، علم تدبیر، خانہ داری اور علم اصول حفظ صحت پڑھایا جائے۔ اس سے ان کی دماغی قابلیت اس حد تک نشوو نما پا جائے گی کہ وہ اپنے شوہروں سے تبادلہ خیال کر سکیں گی اور امومت کے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے سکیں گی۔‘‘

علامہ اقبالؒ نے یہاں عورتوں کی تعلیم کا نصاب مقرر کر دیا ہے۔ اس نصاب کی عملی شکل ہم کو مولانا تھانویؒ کی کتاب ’’بہشتی زیور‘‘ کی صورت میں ملتی ہے۔ حضرت تھانوی ؒ کتاب کے دیباچے میں اس کی غرض تصنیف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’حقیر ناچیز اشرف علی تھانوی مظہر مدعا ہے کہ ایک مدت سے ہندوستان کی عورتوں کے دین کی تباہی دیکھ کر قلب دکھتا ہے اور اس کے علاج کی فکر میں رہتا ہے اور زیادہ وجہ فکر کی یہ تھی کہ یہ تباہی صرف ان کے دین تک محدود نہ تھی بلکہ دین سے گزر کر ان کی دنیا تک پہنچ گئی تھی اور ان کی ذات سے گزر کر ان کے بچوں بلکہ بہت سے آثار ان کے شوہروں تک اثر کر گئی تھی اور جس رفتار سے یہ تباہی بڑھتی جاتی تھی، اس کے اندازہ سے معلوم ہوتا تھا کہ اگر چندے اور اصلاح نہ کی جائے تو شاید یہ مرض قریب قریب لاعلاج ہو جائے اس لیے علاج کی فکر زیادہ ہوئی اور سبب اس تباہی کا بالقاء الٰہی اور تجربہ اور دلائل اور خود علم ضروری سے محض یہ ثابت ہوا کہ عورتوں کا علوم دینیہ سے ناواقف ہونا ہے جس سے ان کے عقائد، ان کے اعمال، ان کے معاملات، ان کے اخلاق، ان کا طرز معاشرت سب برباد ہو رہا ہے۔‘‘

اس کے بعد مولانا عورت کے جذبہ امومت کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’چونکہ بچے ان کی گود میں پلتے ہیں، زبان کے ساتھ ان کا طرز عمل، ان کے خیالات بھی ساتھ ساتھ دل میں جمے جاتے ہیں جس سے دین تو ان کا تباہ ہونا ہی ہے مگر دنیا بھی بے لطف بد مزہ ہو جاتی ہے، اس وجہ سے کہ بد اعتقادی سے بد اخلاقی پیدا ہوتی ہے اور بد اخلاقی سے بد اعمالی اور بد اعمالی سے بد معاملگی جو جڑ ہے تکدر معیشت کی۔‘‘

یہی وہ چیزیں ہیں جن کو اقبالؒ نے ’اسرار ورموز‘ کے ان اشعار میں بیان کیا ہے:

از امومت پختہ تر تعمیر ما
در خطِ سیمائے او تقدیر ما
از امومت گرم رفتار حیات
از امومت کشف اسرارِ حیات
مال او فرزند ہائے تندرست
تر دماغ وسخت کوش وچاق چست
حافظِ رمزِ اخوت مادراں
قوتِ قرآن وملت مادراں
ضرب کلیم کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگِ امومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت

مختصر یہ کہ اقبالؒ اور مولانا تھانویؒ میں ایک معنوی اتحاد موجود ہے خاص طور پر ان کی سیاسی و تعلیمی اصلاح وفلاح کے ابواب میں حد درجہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ ان سطور کا مقصد یہ ہے کہ اس علمی ربط کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ اس سے ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ امت کے دو بڑے گروہ جنہیں عرف عام میں قدیم وجدید کہا جاتا ہے، ایک دوسرے کے قریب آئیں گے، بد گمانیوں کے بادل چھٹ جائیں گے، علمی بعد اور معاشرتی نفرتیں کم ہوں گی اور فکر وعمل کی نئی نئی راہیں سامنے آئیں گی۔ ان شاء اللہ۔





’’ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی‘‘

’’ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی افکار کا تقابلی جائزہ‘‘ (برائے ایم فل اقبالیات) کی مبسوط جلدسامنے ہے۔ یہ مقالہ جناب محمد یونس میو کے رشحات قلم کا نتیجہ ہے۔ پہلے تو اتنی ضخیم کتاب کو دیکھ کر ایک مرعوب کن تاثر ابھرتا ہے۔ ساتھ ہی خیال گزرتا ہے کہ اتنی ضخامت میں رطب و یابس بھی ہو گا۔ آخور کی بھرتی ہی سے ایسی طول کلامی ہو سکتی ہے، کیونکہ ’ خیرالکلام ماقل ودل‘ کا فرمان رسول بھی اپنے ا ندر حقائق کا سمندر لیے ہوئے ہے۔ شیکسپیئر نے بھی کہا تھا اور سچ ہی کہا تھا: Brevity is the soul of will ۔

قاری حوصلہ کر کے پہلے تو اس کے محتویات کا جائزہ لیتا ہے اور پھر جی کڑا کر کے آگے بڑھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جوں جوں اس کے مشمولات نظر سے گزرتے ہیں، ایک بے نام مسرت بھی ہوتی ہے اور مقالہ نگار کی ژرف نگاہی کے لیے ستایش کا داعیہ بھی ابھرتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ حسن ترتیب کی گرہیں بھی کھلتی چلی جاتی ہیں، تاآنکہ پیش لفظ سے گزر کر پہلے باب اور پھر چھٹے باب کے آخر میں فقہ واجتہاد اور کتابیات تک پہنچتے پہنچتے یہ مرعوبیت فاضل مقالہ نگار کی علمی وجاہت کی حد تک تو قائم رہتی ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، مگر علم وآگہی اور معلومات فراواں کی جو قندیلیں فروزاں ہوتی چلی جاتی ہیں، ان کی روشنی میں دونوں جید ہستیوں ڈاکٹر محمد اقبال اور مولانا اشرف علی تھانوی کی فکری مماثلتیں اور ذہنی ہم آہنگی کے مختلف پہلو دل ودماغ میں نئی کسمسا ہٹیں پیدا کر دیتے ہیں۔ دونوں کے تعلیمی نظریات، سیاسی نظریات بالخصوص دو قومی نظریہ، تصوف، نظریہ شعر وسخن، تحریک علی گڑھ اور اس کے اساطین کے بارے میں مستند معلومات اور آخر میں دونوں کے نظریہ اجتہاد اور دینی تفقہ سے متعلق گراں قدر معلومات قاری کو ایک انسائیکلوپیڈیائی فضا میں لے جاتی ہیں۔ 

مقالہ نگار کا یہ تقابلی مطالعہ ا ن کی علمی بصیرت، تحقیقی کاوش، موضوع پر مضبوط گرفت اور ہمہ جہت مطالعے کا آئینہ دار ہے۔ ان عظیم شخصیتوں کے افکار وخیالات اور احوال وکوائف کے ساتھ ساتھ کتنی ہی علمی وادبی شخصیات کے احوال وآثار اور روشن فکری کے گوشے بے نقاب ہو گئے ہیں۔ دیوبند، علی گڑھ اور ندوۃ العلماء کی کئی جہتیں اس مقالے سے روشن تر ہو کر سامنے آ گئی ہیں۔ سید انور شاہ کشمیری، خواجہ عزیزالحسن مجذوب، مولانا ڈاکٹر عبدالحئ عارفی، ذکی کیفی، سید سلیمان ندوی، مولانا شاہ حکیم محمد اختر جیسے مختلف الجہات عظیم رجال اپنی گوناگوں صفات کے ساتھ صفحہ قرطاس پر منتقل ہو گئے ہیں۔ 

سیاسی میدان میں اقبال وتھانوی کے ساتھ ساتھ سرسید احمد خان، قائد اعظم محمد علی جناح، موہن داس کرم چند گاندھی، مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا عبدالباری جیسی سیاسی شخصیات کے سیاسی نظریات اور موضوع مقالہ کی دونوں عظیم شخصیتوں سے ان کے ربط وارتباط کا بخوبی پتہ چلتا ہے۔ 

یوں تو مقالے کا ایک ایک باب اور ہر باب کے ذیلی عنوان اپنی پوری تحقیقی روح کے ساتھ مقالہ نگار کے علم وآگہی کا پتہ دیتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نے اس کی تحریر وتسوید، مواد کی چھان پھٹک، اصول تحقیق کی پابندی سے لے کر تبویب وتدوین کے جملہ مراحل میں کئی ہفت خواں طے کیے ہیں، تاہم تصوف اور اجتہاد جیسے دقیق موضوعات میں اصل مآخذ سے استفادہ کرنے کی صلاحیت نے مقالے کو بڑا ہی جاندار، شاندار اور قابل قدر بنا دیا ہے۔ 

وحدت الوجود جیسا دقیق اور پیچیدہ موضوع جس میں اتفاق واختلاف رکھنے والے مشرق ومغرب کے بعد پرہیں، علامہ اقبال اور مولانا تھانوی کے تعلق سے تحقیقی مقتضیات کو پورا کرتے ہوئے اس سے عہدہ برآ ہونا مقالہ نگار کی علمی گہرائی اور فنی مہارت کا غماز ہے، بالخصوص یہ باور کرانا کہ علامہ اقبال مولانا تھانوی کے پیروکار تھے اور اسے پرزور دلیل سے ثابت کرنا کارے دارد۔ موصوف کی یہ رائے ہے کہ ’’مولانا کے اتحاد وحلول کی نفی اور وجود حقیقی کامل کے سامنے ان کے وجود کو کالعدم اور لاشی سمجھنا‘‘ ایک دلیل قاطع ہے۔

تصوف کی بات چھڑی تو مقالے میں دونوں بزرگوں کی زندگی سے متعلق معلومات تو ہیں ہی اور ان کی فکر کے میلانات تو سامنے آئے ہی ہیں، ابن عربیؒ ، حلاج، جلال الدین رومی اور حافظ شیرازی سے ان کی فکری یگانگت یا جزوی اختلافات بھی نکھر کر منظر عام پر آ گئے ہیں۔ ان اتفاقات واختلافات کو سامنے رکھ کر قاری خود اخذ نتائج اور اقامت رائے کے لیے آزاد ہو جاتا ہے۔ 

تقلید واجتہاد کا باب اس مقالے میں خاص اہمیت کاحامل ہے۔ علامہ اقبال کا تجدیدی فکرونظر کے لیے سراپا ستایش ہونا اور عموماً تقلید سے گریز کی راہیں تلاش کرنے کے باوجود ان کی ذہنی یافت کا نتیجہ ہے۔ مقالہ نگار نے ڈاکٹر سید عبداللہ کے حوالے سے اقبال کا ایک اقتباس پیش کر کے انہیں تقلید جامد سے متنفر اور تقلید اجتہاد آمیز کا قائل ثابت کیا ہے، کیونکہ اقبال ایک طرف تو کہتے ہیں:

کامل بسطام در تقلید فرد
اجتناب از خوردن خربوزہ کرد

دوسری طرف ان کا کہنا ہے :

تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خودکشی 
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے 

خطاب ’’مطالعہ اقبال کے چند نئے رخ‘‘ از عبداللہ کا اقتباس یہ ہے : ’’اگرچہ یورپ نے مجھے بدعت کا چسکا ڈال دیا ہے، تاہم میرا مسلک بھی وہی تھے جو قرآن کا ہے۔ میرا میلان بھی قدیم کی طرف ہے۔‘‘ (مقالہ ہذا، ص۴۳۲)

جہاں تک مولانا تھانوی کا تعلق ہے وہ تو مسلمانوں کے شاندار ماضی کے بہت بڑے مناد ہیں۔ وہ اپنی تمام تحریروں میں ماضی کے شفاف آئینے میں جھانک کر حال واستقبال کی اصلاح و ابقا کے بہت بڑے علمبردار ہیں۔ وہ ماضی سے کسی صورت میں ہٹ سکتے ہیں نہ کٹ سکتے ہیں۔ یوں دونوں ( اقبال و تھانوی) میں کامل ہم آہنگی موجود ہے۔ دونوں ہی ماضی سے صرف نظر نہیں کر سکتے۔ اس مقام پر دونوں میں فکری مماثلت بھی بدرجہ اتم پیدا ہو گئی ہے اور عملی مساعی بھی قدرے اختلاف کے ساتھ ایک جیسی ہو گئی ہیں۔ دونوں تجدد کے زبردست مخالف ہیں، مگر بصد احتیاط تجدید واجتہادکے سرگرم داعی بھی ہیں۔ ترکی کی مغرب پرستی اور غیر اسلامی تجدد، اذان ونماز کو ترکی زبان کاجامہ پہنانا دونوں کے نزدیک ناقابل قبول بھی ہے اور ناقابل عمل بھی۔ مقالہ نگار نے اس پہلو کوبطریق احسن پیش کیا ہے۔ دونوں کے نزدیک اجتہاد وتجدید دین کا دروازہ تو کھلا ہے مگر ہرکہ ومہ کومنہ اٹھائے اندر جانے کی اجازت نہیں، سوائے ان اہل خبرونظر کے جواس میں داخلے کی اہلیت و استعداد سے بہرہ مند ہوں۔ ان کے نزدیک صلاحیت وصالحیت دونوں کا ہونا ضروری ہے۔ 

پایان کار یہ امر بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتاکہ اتنے اچھے مواد کو جس حسن وخوبی سے پیش کیا گیا ہے وہ لائق توصیف ہے مگریہ بات رہ رہ کر کھٹکتی ہے کہ اس ضخامت کے مقالے کی مسودہ خوانی جس امعان نظر کے ساتھ ہونی چاہیے تھی، نہیں کی گئی۔ زیر نظر کاپی میں ان گنت غلطیاں ہیں۔ بہت سی تصحیح کر دی گئی ہے مگر بہت سی ایسی باتیں ہیں جو استیعا باً مطالعے کی متقاضی ہیں جس کے لیے فاضل مقالہ نگار کو خصوصی محنت ودقت نظر سے کام لینا چاہیے۔ اشعار میں بہت غلطیاں ہیں اور عربی عبارات میں تو اغلاط کی بھرمار ہے۔ جب تک ان کانٹوں کو ہٹا نہیں دیا جاتا، یہ گل تراپنی اصلی بہار نہیں دکھا سکتا۔ 

میرا خیال ہے کہ اگر ان اغلاط کا ازالہ کر دیا جائے تو یہ مقالہ ایم فل کے چوٹی کے مقالات میں شمار کیے جا نے کے قابل ہے۔ معلومات کی فراوانی، اسلوب کی ندرت، تحقیق وتدقیق کے تقاضوں کی تکمیل اور موضوع سے شیفتگی کی حد تک وابستگی اس تحریرکو اہل ذوق کے لیے اپنی سطح کا ایک نادرہ کار کارنامہ بنا رہی ہے۔ مقالے میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی۔ موضوع وسعت طلب تھا، اس میں گہرائی کا آنا ایک بدیہی امر تھا۔ مقالہ نگار نے ’’دریا بحباب اندر‘‘ کے مصداق اس وسعت صحرا کو سمیٹ کر قارئین کے سامنے پھولوں سے لدی پھندی کیاری بنا دیا ہے۔ (پروفیسر غلام رسول عدیم)





ٹیپو سلطانؒ، اقبالؒ اور عصر حاضر

پروفیسر میاں انعام الرحمن

تاریخ کے جدید دور میں یورپی سیاست کو عالمی سیاست کی اہمیت حاصل رہی ہے۔ برطانیہ سے امریکہ کی آزادی، انقلاب فرانس اور نپولین کے عروج نے توازن طاقت انگریزوں کے خلاف کر دیا تھا۔ زار روس سلطنت عثمانیہ پر قبضہ کر کے بحیرۂ روم تک پہنچنا چاہتا تھا۔ مصر میں نپولین کی کام یابی نے برصغیر کے انگریزوں کو خطرے کا قوی احساس دلا دیا تھا۔ انہی دنوں والی کابل زمان شاہ کے ارادے بھی شمالی ہند کے لیے پریشان کن تھے۔ انگریز افسر ہر اس حکمران سے نفرت کرتے تھے جو ان کے سیاسی مستقبل اور اقتدار کے لیے خطرناک ثابت ہو رہا ہو۔ ان کی یہ نفرت ٹیپو سلطانؒ کے بارے میں انتہائی شدید تھی۔

’’تاریخ ٹیپو سلطان‘‘ کا مصنف محب الحسن رقم طراز ہے:

’’لارڈ کارنوالس جب گورنر جنرل بن کر برصغیر آیا تو بین الاقوامی سیاست میں تجربہ کی روشنی میں اس نے انگلینڈ اور فرانس کی رقابت میں برصغیر کی اہمیت کا صحیح اندازہ کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر برصغیر میں برطانوی اقتدار قائم کرنا ہے تو جلد یا بدیر ’’ٹیپو‘‘ سے ضرور لڑنا ہوگا۔‘‘ (ص ۱۴۸)

کیمبرج ہسٹری آف انڈیا کے مطابق:

’’ٹیپو سلطان کے بارے میں انگریز کمپنی کی پالیسی یکساں وجامد نہیں رہی۔ ابتدا میں یہ کوشش تھی کہ ٹیپو کو اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ کمپنی کے لیے خطرہ نہ رہے۔ بعد میں یہی پالیسی اس کے مکمل استحصال میں تبدیل کر دی گئی۔‘‘(ج ۵ ص ۳۳۷)

انگریزوں کے ان رجحانات میں ٹیپو سلطان کی بد قسمتی کو صرف یہ دخل تھا کہ اٹھارہویں صدی میں وہ واحد ہندوستانی حکمران تھا جس نے انگریز استعماریت کو چیلنج کیا اور جذبہ آزادی کو اپنی زندگی کا واحد نصب العین بنا لیا۔ سلطان، اسلام اور آزادی کو دو الگ الگ چیزیں نہیں سمجھتا تھا۔ اس کے نزدیک اسلام کو سربلند کرنے یا آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے جہاد بالکفار لازمی شے تھا۔ اس نے ’’فتح المجاہدین‘‘ میں تفصیل سے مسائل جہاد بیان کیے ہیں۔ ۱۷۸۶ء میں اس نے جو اعلان جہاد کیا، ا س سے اس کے جذبہ ایمانی کا پوری طرح اظہار ہوتا ہے۔ یہ اعلان ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:

’’ختم پیغمبران ﷺ کے وقت مسلمانوں کو جو احکام دیے گئے تھے، انہوں نے ان احکام کو بھلا دیا جس کی وجہ سے ان پر زوا ل آ گیا۔ اس وقت خدا کے فضل وکرم سے ہم ان احکام کو اپنے دستخط اور مہر سے مسلمانوں کی آگاہی کے لیے دوبارہ جاری کرتے ہیں تاکہ مسلمان ان سے ہدایت پائیں۔‘‘ (بحوالہ ’’صحیفہ ٹیپو سلطان‘‘ حصہ دوم، ص ۱۴۱ از محمود بنگلوری)

سلطان کی اپنی زندگی اسلامی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ ’’تاریخ سلطنت خداداد‘‘ کا مصنف رقم طراز ہے کہ سلطان اس قدر کامل الحیا تھا کہ سوائے اس کے پیر کے ٹخنوں اور کلائیوں کے اس کے جسم کو کبھی کسی نے برہنہ نہیں دیکھا۔ یہاں تک کہ حمام میں بھی وہ اپنے تما م جسم کو چھپائے رکھتا۔ (ص ۵۰۵) حضرت عثمان غنیؓ کے بعد اس اعتبار سے دنیا میں سلطان کی حیرت انگیز مثال ہے۔

ٹیپو سلطان مجاہد تھا۔ وہ مجاہدکی طرح لڑا۔ اس کی جدتیں مفید تھیں لیکن محمد بن تغلق کی طرح اس کے خلاف پڑیں۔ سرجادوناتھ سرکار نے اگر یہ کہا ہے کہ ’’ٹیپو سلطان اپنے زمانے سے بہت پہلے پیدا ہو چکا تھا‘‘ تو کیا غلط کہا ہے۔ سلطان کے دوستوں اور حامیوں میں جذبہ تو موجود تھا لیکن انگریزوں کی مانند قومی تصور نہیں تھا۔ سلطان کے وکیلوں اور مشیروں کو انفرادی مفادات کا لالچ دے کر خریدا جا سکتا تھا۔ سلطان کی شہادت صرف اسلامی جاہ وجلال کی موت نہ تھی بلکہ یہ ہندوستان کی غیرت اور خود داری کی موت تھی۔ جنرل ہیرس سلطان کی لاش دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھا تھا کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘

’’سلطنت خداداد‘‘ کے مطابق ایک امریکی مورخ برڈز اوڈ کلف نے سلطان کی شہادت کے ۲۴ برس بعد مشہد سلطان پر بیٹھ کر کچھ ایسے تاثرات ظاہر کیے تھے:

’’اے آسمانی جہاد کے ستارے! تو غروب ہو گیا لیکن ان ذلیل انسانوں کی طرح نہیں کہ جو مغرور اور سربلند دشمنوں کے سامنے معافی اور جاں بخشی کے لیے خاک مذمت پر سربسجود ہوئے۔ ..... تو شہنشاہی کی زندگی ٹھکرا کر شیر کی طرح میدان میں کود پڑا اور سپاہی کی طرح مر گیا۔ ...... موت بہتر ہے کہ ایسی رسوا کن زندگی سے جو سالہا سال کے اندوہ وانفعال کی سرمایہ دار ہو۔‘‘ (ص ۶۳۰) 

مسلمان حکمرانوں پر یہ الزام عموماً لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوؤں کے مندروں کو منہدم کیا اور غیر مسلموں کے ساتھ وحشیانہ سلوک روا رکھا۔ یہ ایک بہتان عظم ہے اور ٹیپو سطان کے بارے میں بالکل بے بنیاد ہے۔ گاندھی کے مضمون سے یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے۔ گاندھی نے یہ مضمون اپنے اخبار ’’ینگ انڈیا‘‘ میں شائع کیا تھا۔ ایم عبد اللہ کی مرتب کی ہوئی کتاب ’’ٹیپو سلطان‘‘ کے صفحہ ۴۶ سے یہ اقتباس درج ذیل ہے:

’’میسور کا بادشاہ فتح علی ٹیپو شہید غیر ملکی مورخوں کی نظر میں ایک ایسا مسلمان تھا جس نے اپنے رعایا کو زبردستی مسلمان بنایا لیکن یہ بہت بڑا جھوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوؤں سے اس کے تعلقات نہایت ہی دوستانہ تھے۔ اس کے کارنامہ زندگی کی یاد، دل کے اندر خوشی اور مسرت کی ایک لہر پیدا کر دیتی ہے۔ اس عظیم المرتبت سلطان کا وزیر اعظم ایک ہندو تھا اور ہمیں نہایت ندامت کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ اس نے فدائے آزادی کو دھوکہ دے کر دشمنوں کے حوالے کر دیا۔‘‘

ڈاکٹر بی اے سالیتور بھی اس سلسلے میں بیان کرتا ہے کہ:

’’ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی شہنشاہ ایسا نہیں گزرا جس نے اپنے اور اپنی رعایا کے مفاد کو ایک جانا ہو جیسے ٹیپو سلطان نے سمجھا تھا اور اس کے سارے خطوط جو سرین گری گرو کے نام بھیجے گئے ہیں، وہ بھی انہی جذبات کے آئینہ دار ہیں۔‘‘ (بحوالہ میڈیول انڈیا کوارٹرلی، علی گڑھ، اکتوبر ۱۹۵۰ء)

ٹیپو سلطان نے اگرچہ مذہب کے معاملے میں اسلامی رواداری کا مظاہرہ کیا تھا لیکن انگریز مورخین نے ان امور کی ایسی توجیہ کی جس سے ان کی بد نیتی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسمتھ لکھتا ہے :

’’ٹیپو سلطان کٹڑ مسلمان ہونے کے باوجود عالم خوف وہراس میں برہمنوں کی دیوی دیوتاؤں سے بغرض استمداد رجوع کیا کرتا تھا اور ان کے مندروں اور عبادت گاہوں کے لیے تحفے تحائف بھیجتا تھا۔‘‘ (بحوالہ ونسنٹ اسمتھ، آکسفرڈ ہسٹری آف انڈیا، ص ۵۸۵)

لیکن جہاں مورخ اپنے فرائض کی انجام دہی سے تھک جاتا ہے، حقائق سے چشم پوشی کو حقیقت بیان قرار دینے لگتا ہے اور واقعات کی درست اور غیر جانب دارانہ ترتیب وتزئین سے عاجز آجاتا ہے، وہاں انسا ن کا ’’شاعرانہ احساس‘‘ جلوہ گر ہوتا ہے۔ وہ اسی دور ظلمت اور اندھیر نگری میں اپنے فکر وتخیل سے حقائق کی ایسی تصویر کھینچتا ہے جس سے ایک طرف تو حق سامنے آجاتا ہے اور دوسری طرف دنیا اور عالم انسانیت جوروستم اور مکروفریب کے مکروہ چہرے سے خوب واقف ہو جاتی ہے۔ ہاں ، اپنے ہی احساس تلے شاعر، مورخ کا کام بھی سرانجام دیتا ہے، قوم کی ہمت بڑھاتا ہے، راہنمائی کرتا ہے،آباؤ اجداد کے کارناموں سے اور کبھی عظمت ماضی کے تذکروں سے غیرت دلاتا ہے۔ اقبال ایسا ہی عظیم انسان تھا۔ وہ محض فلسفی شاعر نہیں تھا اور نہ صرف شاعر فلسفی تھا بلکہ مورخ شاعر بھی تھا۔ اقبال کی شاعری اس ’’تاریخی شعور‘‘ کا شاخسانہ ہے جس کی جڑیں مسلم تاریخ میں پیوست ہیں اور جس کے ڈانڈے اسلام کی ’’تعبیر نو‘‘ سے جا ملتے ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں ٹیپو شہید کی شمشیر کا نعم البدل اقبال کے قلم کی صورت میں رونما ہوا۔ ڈاکٹر اقبال نے ’’آزادی‘‘ پر نہایت شرح وبسط سے اظہار خیال فرمایا۔ اقبال کے نزدیک آزادی ہی زندگی کا دوسرا نام ہے۔ آزادی میں زندگی ’’بحر بیکراں‘‘ بن جاتی ہے اور غلامی میں متاع بے بہا سمٹ کر ’’جوئے کم آب‘‘ رہ جاتی ہے۔

برصغیر میں انگریزوں کے خلاف ٹیپو سلطان کی ناکامی کے ضمن میں ذکر ہوا تھا کہ ہندوستان میں انگریز کی مانند ’’قومی تصور‘‘ موجود نہیں تھا جس کی بنا پر ٹیپو کے رفقا کو لالچ دے کر خریدا جا سکتا تھا۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد اقبال کے عہد تک ہندوستان میں ’’قومیت‘‘ ابھرنا شروع ہو گئی تھی۔ اقبال نے اپنے ابتدائی سالوں میں ’’وطنی قومیت‘‘ کا ہی پرچار کیا مگر مطالعہ اور دنیا پر تنقیدی نظر ڈالنے کے بعد وہ اس قسم کی قومیت کے خلاف ہو گئے۔ اقبال وطن سے محبت کے خلاف نہیں بلکہ وطن کی ایسی پرستش کے خلاف ہیں جو جذبہ ملت اور انسانیت کے تقاضوں سے ٹکرا جائے۔ انہوں نے وطن سے محبت کو بہت سراہا ہے۔ نہایت مقامی اور ابتدائی وطن کشمیر کو سراہا، پھر پنجاب کے ساتھ محبت کا اظہار کیا اور پھر ہندوستان کی وسیع تر مقامیت سے وابستگی بھی قائم رکھی۔ ’ساقی نامہ‘، ’کشمیر‘، ’محراب گل‘، ’افغان کے افکار‘، ’روح ہندوستان کی فریاد‘ وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ 

اگر ہم فکر اقبال کا بغور مطالعہ کریں تو یوں لگتا ہے جیسے وہ ٹیپو سلطان اور اکیسویں صدی میں احیاء اسلام کی تحریکات کے مابین ’’بنیادی واسطہ‘‘ ہوں۔ ٹیپو کی شکست کی بنیادی وجہ جذبہ قومیت کی کمی تھی۔ اکیسویں صدی میں اگر مسلم دنیا کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ ’’جذبہ ملت‘‘ کی کمی ہوگی۔ فکر اقبال وطن سے فطری محبت کو نبھاتی ہوئی ملت کے دھارے میں گم ہوتی نظر آتی ہے۔ جدید عہد کی متوقع عالم گیریت (Globalization) کو بھانپتے ہوئے مقامیت کے اثبات کے ساتھ اقبال نہایت شدومد کے ساتھ اسلام کے تصور ملت کی بات کرتے ہیں:

اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

اٹھارہویں صدی کی عالمی سیاست کے تناظر میں برطانیہ اور فرانس کی باہمی کشمکش کو دیکھتے ہوئے ٹیپو سلطان نے بھی نپولین سے رابطہ قائم کیا تھا کیونکہ وطنی قومیت کے سبب یہ دونوں ممالک ’’رقیب‘‘ بنے ہوئے تھے۔ یہ رقابت اکیسویں صدی میں یورپی یونین کی شکل میں ’’رفاقت‘‘ بن چکی ہے۔ اہل مغرب کا وطنی تصور قومیت بے محابا پھیلاؤ (Proliferation) کا شکار ہو چکا ہے۔ ایسے معروضی حالات میں مسلم دنیا کو بھی ’’وحدت‘‘ کا حامل ہونا پڑے گا۔ او آئی سی کے پلیٹ فارم پر جب مسلم ممالک اکٹھے ہوتے ہیں تو ان کے انداز واطوار اس قسم کے ہوتے ہیں جیسے گول دائرے میں پچاس ساٹھ اشخاص کھڑے ہوں اور ان کی پیٹھیں دائرے کے ’’مرکز ‘‘ کی جانب ہوں اور چہرے اپنے اپنے رخ پر۔ 

خیال رہے، ریاست میسور اور طالبان کے افغانستان میں حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی ہے۔ سلطان فتح علی ٹیپو کی مانند ملاعمر نے ہی’’مزاحمت‘‘کی جرات کی ہے، باقی مسلم دنیا تماشائی بنی رہی۔ ٹیپو کی شہادت کے بعد انگریزوں نے اعلان کیا تھا کہ حیدر علی اور ٹیپو غاصب تھے، ان کے ’’ظلم‘‘ کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ ایسا ہی خاتمہ طالبان کے افغانستان میں کیا گیا ہے۔ ٹیپو اور ملا عمر دونوں کی سفارت کاری ناکام رہی۔

اکیسویں صدی میں ہماری پالیسیاں اور سوچ اٹھارہویں صدی والی ہیں۔ اٹھارہویں صدی میں، تیرہویں چودھویں صدی والی تھیں۔ فکری اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کی وجہ سے دو سو سال (۱۷۹۹ء۔۲۰۰۱ء) کے عرصے میں مسلم دنیا کا مزاحمتی گروہ اہل مغرب کو شکست نہیں دے سکا۔ 

اگر آج ہم زمانے کے ساتھ نہ چلے تو عبرت ناک انجام سے دوچار ہوں گے۔ ایسے ممکنہ انجام سے بچاؤ کے لیے ہی اقبال نے ’’افکار تازہ‘‘ پر زور دیا ہے کہ کوئی بھی نظام یا فکر آخر کار Point of saturation پر پہنچ کر بے بس ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں کی زبوں حالی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی نظام اور فکر اس نقطہ پر پہنچ چکے ہیں۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو اسلامی نظریہ ناقص، محدود اور وقتی معلوم ہوتا ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسلامی نظریے کی بنیاد الٰہیاتی ہے۔ اس نظریے کا دعویٰ ہے کہ یہ وقتی اور مقامی نہیں ہے بلکہ آفاقی اور ہر زمانے پر محیط ہے۔ اسلامی نظریہ اپنی حقیقی صورت میں کبھی Point of saturation سے دوچار نہیں ہو سکتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس کی حقیقی صورت قائم نہیں رہنے دی۔ فکر اقبال ہمیں اسلامی نظریے کی حقیقی صورت سے روشناس کراتی ہے۔ اسلامی نظریے میں موجود ’’اجتہاد‘‘ کا عنصر مسلسل نمو اور تازگی کا باعث بنتا ہے جس سے Point of saturation کبھی قریب بھی نہیں پھٹکتا۔ اقبال کے اشعار اور ان کا چھٹا خطبہ صراحت سے اجتہاد کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ اس عالم گیریت کے عہد میں بھی اسلام کے آفاقی اور عالمی پروگرام کے باوجود، مسلم دنیا اجتہاد سے محترز ہونے کے باعث ’’مقامیت‘‘ کے گرد گھوم رہی ہے۔ ہمیں کوئی نیا سوشل آرڈر بنانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صرف اتنا کرنا ہے کہ عصر حاضر اور اس کے مسائل کو جرات مندی سے address کریں۔ صرف اس عمل سے ہی اجتہاد کے شجر پر نئی کونپلیں پھوٹ نکلیں گی اور اسلامی نظریے کا یہ عنصر اپنے ثمرات سے لدا پھدا پوری دنیا اور عالم انسانیت کو دعوت عیش دے گا۔ بقول اقبال:

مشرق سے ہو بے زار نہ مغرب سے حذر کر

فطرت کا اشارہ ہے کہ ہر شب کو سحر کر

آج صورت احوال یہ ہے کہ ہم فطرت کے اشارے سمجھنے سے قاصر ہیں اور سحر کو شب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اسلامی نظریے کی آبیاری کے بجائے اس کی ’’جڑوں‘‘ پر ہاتھ ڈال رہے ہیں۔ مسلم دنیا کا مقتدر طبقہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔ پاکستان کی مثال سامنے ہے۔ آئین کی بالادستی کے نئے طریقے ڈھونڈنے کے بجائے آئین کو گھر کی لونڈی بنا لیا گیا ہے حالانکہ اسلامی نظریے کے بنیادی، اٹل اور قطعی اصولوں میں سے ایک اصول ’’قانون کی بالادستی‘‘ ہے:

تھا جو ناخوب، بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

’’نظریہ ضرورت‘‘ کا تسلسل سے وارد ہو کر ’’اصول‘‘ بن جانا ظاہر کرتا ہے کہ ناخوب، خوب ہو چکا ہے۔ قوم واقعتا غلام ہے، اس کا ضمیر بدل چکا ہے۔ شیر کی طرح آزاد زندگی گزارنے والا ٹیپو سلطان شہید تھا کہ آزاد ہونے کے ناطے اسلامی نظریے کو اچھی طرح جاننے کے سبب خود کو ’’شہری‘‘ کہلوانے پر فخر محسوس کرتا تھا۔ اس کے نام کے سات ’’سلطان‘‘ کوئی ایسا لقب نہیں تھا جو اس نے بعد میں اختیار کیا ہو، بلکہ یہ اس کے نام کا ایک حصہ تھا۔ محققین کے مطابق ٹیپو سلطان نے بعض دستاویزات پر ’’شہری ٹیپو‘‘ کے نام سے دستخط کیے تھے۔

ٹیپو کی حریت پسندی اور فکر اقبال کی اجتہادی جہت اپنے تسلسل کے ضمن میں ہم سے چند سوالات کرتے ہیں:

۱۔ کیا مسلمان حقیقتاً آزاد ہیں؟

۲۔ کیامسلم حکمران ’’شہری‘‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں اور قانون کے تابع ہیں؟

۳۔ کیا قومی جذبے کے ساتھ ساتھ ملی جذبہ بھی پروان چڑھ رہا ہے؟

۴۔ کیا اجتہاد کا دھارا اسلامی نظریے کی آب یاری کر رہا ہے؟

اگر نہیں تو ہمیں نہایت سرگرمی سے فکری اور عملی دونوں محاذوں پر کام شروع کر دینا چاہیے۔ اگر اب بھی ہم نے سستی، کاہلی دکھائی اور جمود کا شکار رہے تو نشان عبرت بن جائیں گے۔






پاک بھارت تعلقات اور اقبال و جناح کا زاویہ نظر

محمد عمار خان ناصر

انگریزی دور اقتدار میں برصغیر کی اقوام جمہوریت کے جدید مغربی تصور سے روشناس ہوئیں اور برطانوی حکمرانوں نے اسی تصور کے تحت ہندوستان کے سیاسی نظام کی تشکیل نو کے لیے اقدامات کا آغاز کیا تو یہاں کی دو بڑی قوموں یعنی ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین باہمی بے اعتمادی کی وجہ سے اپنے سیاسی اور اقتصادی حقوق کی حفاظت کے حوالے سے کشمکش اور تناؤ کی صورت حال پیدا ہو گئی جس نے آگے چل کر ایک باقاعدہ قومی تنازع کی شکل اختیار کر لی۔ اس صورت حال کے تجزیے اور ممکنہ حل کی تجویز میں مسلمان قیادت بھی باہم مختلف الرائے ہو گئی۔ ایک گروہ نے ہندوستان میں بسنے والی تمام اقوام کے لیے متحدہ قومیت کے تصور کی تائید کی اور اس بات پر زور دیا کہ تمام قومیں اور خاص طور پر ہندو اور مسلمان اپنے لیے ایک مشترک سیاسی مستقبل کے خط وخال متعین کریں اور مشترکہ سیاسی جدوجہد کے ذریعے سے ہندوستانی قوم کو سیاسی خود مختاری یا آزادی کی منزل سے ہم کنار کریں۔ تاہم مسلم لیگ کی قیادت، کانگریس کے موقف، طرز سیاست اور رویے سے بوجوہ مطمئن نہ ہو سکی اور اس نے مسلم قومیت کی بنیاد پر اپنی سیاسی جدوجہد کو منظم کیا جس کا بنیادی مطالبہ آگے چل کر ہندوستان کی تقسیم قرار پایا۔ مسلم لیگی قیادت اس مطالبے کے جواز پر مسلمان عوام کی اکثریت کو قائل کرنے میں کامیاب رہی اور ۱۹۴۷ء میں قیام پاکستان کی صورت میں تقسیم ہند کے تصور نے ایک عملی حقیقت کا درجہ اختیار کر لیا۔

یہاں یہ نکتہ یاد رکھنا بہت اہم ہے کہ مسلم قائدین کا یہ اختلاف اس حوالے سے نہیں تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین مذہبی اختلاف یا ماضی کی تلخیوں کی بنیاد پر کشمکش اور تصادم کی صورت حال کا قائم رہنا مطلوب یا ضروری ہے یا کسی بھی حوالے سے اس خطے کے سیاسی یا معاشی مفادات کے لیے مفید ہو سکتا ہے۔ اس بات پر دونوں فریق متفق تھے کہ خطے اور اس میں بسنے والی قوموں کے مابین باہمی تعاون کی فضا ہی خطے کے مجموعی مفاد کے لیے ناگزیر ہے۔ اختلاف اس پر تھا کہ تعاون اور موافقت کی یہ فضا آیا ایک ہی ملک میں اکٹھے رہتے ہوئے پیدا کی جا سکتی ہے یا اس کے لیے ملک کی سیاسی تقسیم کا طریقہ زیادہ حقیقت پسندانہ اور عملی ہے۔ مسلم لیگ دوسرے نقطہ نظر کی قائل تھی اور دراصل تقسیم ہند کے مطالبے کی بنیاد ہی یہ نکتہ تھا کہ اس فیصلے سے دونوں قوموں کے باہمی تنازعات کا ایک مستقل حل نکل آئے گا اور اس کے بعد دونوں قومیں دوستی اور تعاون کی فضا میں خطے کی مجموعی ترقی کے لیے جدوجہد کر سکیں گی۔

اس حوالے سے مسلمانوں کے جداگانہ سیاسی تشخص کے موقف کی ترجمانی کرنے والے دو صف اول کے مسلم قائدین کے زاویہ نظر کا حوالہ دینا یہاں مناسب ہوگا۔ 

علامہ محمد اقبال کا خطبہ الٰہ آباد مسلمانوں کی سیاسی فکر کا رخ متعین کرنے میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ اقبال نے اس خطبے میں جہاں خود مختار مسلم ریاستوں کی تشکیل کی فکری وتہذیبی اساسات کو واضح کیا ہے، وہاں دونوں قوموں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے اس کے مضمرات کو واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

Thus, possessing full opportunity of development within the body politic of India, the North-West Indian Muslims will prove the best defenders of India against a foreign invasion, be that invasion one of ideas or of bayonets. ...... From this you can easily calculate the possibilities of North-West Indian Muslims in regard to the defense of India against foreign aggression. 

اقتباس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقے میں اگر مسلمانوں کو اپنی خود مختار ریاست بنانے کا موقع مل جائے تو وہ ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے اور باہر سے ہونے والی کسی بھی فکری یا عسکری جارحیت سے ہندوستان کی حفاظت کا فریضہ انجام دیں گے۔ 

دوسری شخصیت، مسلمانوں کی قومی سیاسی جدوجہد کے حقیقی قائد، محمد علی جناح کی ہے۔ تقسیم ہند سے تقریباً تین ماہ قبل قائد اعظم محمد علی جناح نے رویٹرز کے نمائندے Doon Campbell کو ایک بہت اہم انٹرویو دیا جو ۲۲ مئی ۱۹۴۷ء کو ڈان میں شائع ہوا۔ انٹرویو کا موضوع تقسیم کے بعد پاکستان کی سیاسی وخارجہ پالیسی کے بنیادی نکات تھے، خصوصاً یہ کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی، پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ کیا ہوگا اور بین الاقوامی طاقتوں میں وہ کس پر زیادہ انحصار کرے گا، اور یہ کہ پاکستان میں اقلیتوں کی حفاظت کیسے اور کیونکر کی جا سکے گی۔ انٹرویو سے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے حوالے سے قائد اعظم کا وژن بہت واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ اس کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:

۱۔ قائد اعظم پاکستان اور بھارت کے مابین دوستانہ اور اعتماد پر مبنی تعلقات کے خواہاں تھے۔ تقسیم ہند ان کے نقطہ نظر سے مستقل دشمنی اور تناؤ کی نہیں، بلکہ باہمی کشیدگی کے خاتمے کی بنیاد تھی۔

۲۔ وہ کسی بھی بیرونی جارحیت کے مقابلے کے لیے پاکستان اور بھارت کے مابین دفاعی معاہدے یا کسی دفاعی اتحاد میں شرکت کے موید تھے۔

۳۔ وہ پاکستان کے قیام کو ’’پان اسلام ازم‘‘کی قسم کے کسی سیاسی تصور یا تحریک کا حصہ نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے خیال میں یہ تصور عرصہ دراز ہوا، اپنی عدم افادیت ثابت کر چکا تھا۔ البتہ وہ تمام مسلم ممالک سے دوستانہ اور مبنی بر تعاون تعلقات کی خواہش رکھتے تھے۔

بد قسمتی سے دونوں ملکوں کے مابین پر امن اور دوستانہ تعلقات کا یہ وژن مختلف عوامل کے زیر اثر نسیاً منسیاً ہو چکا ہے۔ تقسیم ہند کے موقع پر پیدا ہو جانے والی یا پیدا کی جانے والی بعض پیچیدگیوں اور ان کے تلخ اثرات نے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں بنیاد کی حیثیت حاصل کر لی ہے اور مرور زمانہ کے ساتھ کشیدگی اور تناؤ کی اس فضا کو برقرار رکھنے کو اب دونوں ملکوں میں طاقت اور اقتدار کا کھیل کھیلنے والے توانا عناصر نے اپنی ضرورت فرض کر لیا ہے۔ 

سیاست بدقسمتی سے طاقت کا کھیل ہے جس کی مثال ایک طوائف کی ہے۔ اس کی فطرت میں ہے کہ وہ غمزہ وعشوہ کے سامان اور داد وتحسین کے لیے تو ’’تماش بینوں‘‘ (یعنی عوام) پر انحصار کرے، لیکن خود چند مخصوص طبقوں کی رکھیل بن کر رہے۔ جنگ کو بھی ’’متبادل ذرائع سے سیاست‘‘ کی ایک شکل سمجھا جاتا ہے، سو یہ بھی ہمیشہ عوام کا خون نچوڑ کر لڑی جاتی ہے تاکہ چند بالادست طبقے اپنے خود غرضانہ مقاصد کی تکمیل کر سکیں۔ عوام کی، خود فریبی اور کوتاہ نظری کی صلاحیت کی بدولت، کشیدگی اور تصادم کے خواہش مند یہ صلاحیت رکھتے ہیں کہ ایک محدود اور وقتی تناظر میں عوام کے دل ودماغ کو ہیجان اور اشتعال کا یرغمال بنا لیں۔ 

یہ صورت حال دیانت دار اہل دانش کے لیے ایک کڑی آزمائش کی حیثیت رکھتی ہے۔ موقع پرست دانش وروں کے لیے اس فضا کا حصہ بن جانا آسان بھی ہوتا ہے اور صلہ بخش (rewarding) بھی، اور تاریخ کے ساتھ ساتھ معاصر حالات میں اس کے جوازات ڈھونڈ لینے میں بھی انھیں کوئی خاص دقت نہیں ہوتی، لیکن حقیقی اہل دانش کی اصل اخلاقی ذمہ داری بہت بلند ہے۔ ان کا کام اسٹریٹجک تجزیوں سے کسی قوم کی دور بینی کی صلاحیت کو کند کرنا نہیں، انسان دوستی کے جذبے کو فروغ دینا اور طاقت اور مفادات کے ٹکراؤ کے ماحول میں ہوش مندی کے پیغام کو زندہ رکھنا ہے۔






’’علامہ اقبال اور دو قومی نظریہ‘‘
علامہ سر محمد اقبال کو  دو قومی نظریہ کے باقاعدہ نظریہ سازوں میں شامل کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انہوں نے برصغیر کے معروضی حالات اور زمینی حقائق کا جائزہ لینے کے بعد جملہ جزئیات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک باقاعدہ اور مکمل نظریے کی صورت میں یہ تصور پیش کیا تھا۔ انہوں نے متعدد سامنے کے پہلوؤں کو بھی نظر انداز کر دیا تھا۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں رہ جانے والی مسلم اقلیت اور مسلمان ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں کی قومیت کا مسئلہ اور دیگر ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ تعلق کی نوعیت کا مسئلہ وغیرہ۔ جہاں تک اسلام کے تصورِ ملت کی آفاقیت اور مقامی قومیتوں کے تصور میں مطابقت اور دونوں کے الگ الگ تقاضوں کی تفہیم کے مسئلے کا تعلق ہے، حیرت ہوتی ہے کہ وہ قوم اور ملت کی اصطلاحوں میں واضح نصوص کے باوجود کوئی فرق روا رکھنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ایک سامنے کی لیکن ضروری بات یہ بھی ہے کہ عملی طور پر اس صورت حال کے بہت سے پہلو، علامہ کی وفات کے بعد سامنے آئے یا واضح ہوئے، سو اب کیا کہا جا سکتا ہے کہ ان کے تصورات ارتقا پا کر کیا صورت اختیار کرتے اور بعد کی سیاسی پیش رفت کے دوران میں ان کا نقطہ نظر کیا ہوتا؟ پنجاب مسلم لیگ کے ساتھ ان کے تعلق کے مختلف مراحل اور اس دوران ان کے نقطہ نظر میں آنے والی تبدیلیاں ہمارے سامنے ہیں۔ 

جہاں تک خود بانئ پاکستان اور دو قومی نظریے کا تعلق ہے، صورت حال دلچسپ تر ہے۔ انہوں نے اس معاملے کے نظری پہلو پر کبھی تفصیل سے کلام کیا ہی نہیں۔ ان کی تقاریر کے اقتباسات اور بیانات ہی پیش کیے جاتے ہیں لیکن ان میں مختلف مواقع پر مختلف بلکہ متضاد تصورات پائے جاتے ہیں۔ غالبًا اس کا سبب تقاریر کے لکھنے والے ہو سکتے ہیں۔ اگر Speech Writer غلام احمد پرویز ہوں تو ان کی تقریر میں صرف قرآن سے رہنمائی لینے اور مرکز ملت کا تصور جھلکنے لگتا ہے۔ جب وہ اپنی تقریر خود لکھتے ہیں تو ۱۱ ۔اگست کا تاریخی خطاب سامنے آتا ہے، ان بیانات میں مطابقت پیدا کرنا جناح صاحب کے ہر سوانح نگار کے لیے ایک مسئلہ رہا ہے اور رہے گا۔ کتاب کا ایک معنیٰ خیز بلکہ بعض حضرات کے لیے چشم کشا باب ’’دو قومی نظریہ کے ہندو اور انگریز نظریہ ساز‘‘ ہے۔ لیکن اس سے پہلے وہ مودودی صاحب کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے دیگر مصنفین کا تحریک آزادی، تحریک پاکستان اور دو قومی نظریے کے حوالے سے رویّہ دلچسپ اور تاریخی ہی نہیں، نفسیاتی مطالعے کا بھی سزاوار ہے۔ غالبًا یہی سبب ہے کہ فاضل مصنف نے ایک باب اس حوالے سے شامل کتاب کرنا ضروری سمجھا وگرنہ اس دور کی جماعت کا حجم اور مولانا مودودی کے اس وقت کے مقام و مرتبہ اور حلقۂ اثر کو پیش نظر رکھا جائے تو اس حوالے سے ان کا کوئی قابل ذکر اور موثر کردار ممکن ہی نہیں تھا۔ لہٰذا مجید نظامی کا انہیں پاکستان مخالف قرار دینا اور جماعتی حلقوں کی جانب سے انہیں محسنینِ تحریک پاکستان میں شامل کرنا افراط و تفریط ہی کہلائے گا۔ 

دو قومی نظریے کے شارحین کے بیان میں فاضل مصنف ایک اہم لیکن نسبتًا غیر معروف کردار فضل کریم درّانی کو بھی یاد کیا ہے۔ یہ صاحب ایک دور میں اتنے اہم تھے کہ محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی ملاقاتوں میں موجود ہوتے تھے۔ ان کی کتاب The Future of Islam In India علامہ اقبال کے خطبۂ الٰہ آباد سے دو سال قبل شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب میں دو قومی نظریہ پوری تفصیل اور شدّت کے ساتھ موجود ہے۔ لہٰذا خورشید کمال عزیز کا یہ سوال بے جا نہیں کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے اور باہم تعارف اور ملاقاتوں کے باوجود علامہ اقبال درانی صاحب کے خیالات سے متاثر یا کم از کم بخوبی آگاہ نہ ہو چکے ہوں۔

اس کے بعد ذکر آتا ہے تھانوی حلقہ کے علمائے کرام اور جناب جی اے پرویز کا۔ دونوں کا ذکر ایک ہی جملے میں کرتے ہوئے ہمیں بھی عجیب لگ رہا ہے اور یقیناًپڑھنے والوں کو بھی عجیب لگے گا لیکن یہ بھی تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی کو اعلاء السنن میں غلام احمد پرویز اور طلوع اسلام کا حوالہ دینا پڑے۔ 

کتاب میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اصل سوال آج کے دور میں دو قومی نظریے کی ایسی معنویّت تلاش کرنے کا ہے جسے قبول کرنے کے بعد ۱۵۔ اگست ۱۹۴۷ء سے قبل بھی اس کا جواز برقرار رہے۔ کیا دو قومی نظریے کے علم برداروں میں سے کوئی ایسا کر پایا؟ آخری باب میں شاکر صاحب نے جناب جاوید اقبال کی خود نوشت سوانح ’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں شامل ’’علامہ اقبال کے نام دوسرا خط‘‘ سے ایک اقتباس نقل کیا ہے، ہم اسی اقتباس کو درج کرتے ہوئے اپنی بات سمیٹ لیتے ہیں۔

’’اے پدرِ محترم! اگر اب ہماری اجتماعی شناخت کے لیے وہ علاقہ مختص ہوگیا ہے جسے پاکستان کہتے ہیں اور جس کا مفاد ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے تو پھر مولانا حسین احمد کا قول کس اعتبار سے غلط ہوا؟ کیا ہمارے عمل سے یہ ثابت نہیں ہوگیا کہ قومی یا وطنی اعتبار سے تو ہم پاکستانی ہیں اور ملی اعتبار سے مسلم۔‘‘




















پیام اقبال بنام نوجوانان ملت
علامہ محمد اقبالؒ ہماری قوم کے رہبر و رہنما تھے،آپ کو شاعر مشرق کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل مشرق کے جذبات و احساسات کی جس طرح ترجمانی کا حق اقبال مرحوم نے ادا کیا ہے اس طرح کسی دوسرے نے نہیں کیا ہے ۔شاعری کسی فکرونظریہ کودوسروں تک پہنچانے کاموثرترین طریقہ ہے ۔شعرونظم سے عموماً عقل کی نسبت جذبات زیادہ متاثرہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وحی الہیٰ کے لیے شعرکواختیارنہیں کیاگیا۔تاہم اگرجذبات کی پرواز درست سمت میں ہوتوانہیں ابھارنا بجائے خودمقصودہے ۔۔ ان کی شاعری عروج رفتہ کی صدا ہے ۔ ان کے افکار و نظریات عظمت مسلم کے لئے ایک بہترین توجیہ اور جواز فراہم کرتے ہیں،اوراسلام کی انقلابی ،روحانی اوراخلاقی قدروں کاپراثرپیغام ہے ۔ان کی شاعری میں نری جذباتیت نہیں بلکہ وہ حرکت وعمل کاایک مثبت درس ہے ۔اس سے  انسان میں خودی کے جذبے پروان چڑھتے ہیں اورملت کاتصورنکھرتاہے ۔بنابریں یہ کہاجاسکتاہے کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کونظم میں بیان کیاہے۔تاہم یہ بات بھی ملحوظ خاطررکھناضروری ہے کہ علامہ عالم دین نہ تھے ہمارے ملی شاعرتھے اوربس ۔فلہذاتعبیردین میں ان کوسندخیال کرناقطعاً غلط ہے ۔زیر تبصرہ کتاب" پیام اقبال بنام نوجوانان ملت"بھی آپ کے نوجوانوں کے نام منسوب اشعار کا مجموعہ ہے،جسے سید قاسم محمود نے مرتب کیا ہے،اور ساتھ ہی ساتھ ان کا معنی ومفہوم بھی واضح کر دیا ہے، تاکہ امت کا نوجوان اپنی جوانی کو اللہ کی رضا اور اسلام کی سر بلندی میں کھپا کر دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں سرخرو ہو جائے۔اللہ تعالی ان کی اس مھنت کو قبول فر ما کت نوجوانان امت کا قبلہ درست فرمائے۔آمین

علامہ اقبال اور فتنۂ قادیانیت
اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے۔آپ خاتم النبیین اور سلسلہ نبوت کی بلند مقام عمارت کی سب سے آخری اینٹ ہیں ،جن کی آمد سے سلسلہ نبوی کی عمارت مکمل ہو گئی ہے۔آپ کے بعد کوئی برحق نبی اور رسول نہیں آسکتا ہے ۔لیکن آپ نے فرمایا کہ میرے بعد متعدد جھوٹے اور کذاب آئیں گے جو اپنے آپ کو نبی کہلوائیں گے۔آپ کے بعد آنے والے متعدد کذابوں میں سے ایک جھوٹا اور کذاب مرزا غلام احمد قادیانی ہے ،جس نے نبوت کا دعوی کیا اور شریعت کی روشنی میں کذاب اور مردود ٹھہرا۔لیکن اللہ رب العزت نے اس کےجھوٹ وفریب کوبے نقاب کرد یا اور وہ دنیا وآخرت دونوں جہانوں میں ذلیل وخوار ہو کر رہ گیا۔علامہ اقبال بیسویں صدی کے شہرہ آفاق دانشور ،عظیم روحانی شاعر ،اعلی درجے کے مفکر اور بلند پایہ فلسفی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک عہد ساز انسان بھی تھے۔انہوں نے جب دیکھا کہ مرزائی خود تو کافر اور مرتد ہیں ہی ،دیگر مسلمانوں کو بھی مرتد بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔اور اسلام کا لبادہ اوڑھ کر انہیں گمراہ کر رہے ہیں۔تو وہ اس دجل اور فریب کو برداشت نہ کر سکے۔چنانچہ انہوں نے اس مسئلے کا گہرائی سے جائزہ لیا اور اپنے تاثرات امت مسلمہ کے سامنے واضح انداز میں پیش کئے۔ زیر تبصرہ کتاب " علامہ اقبال اور فتنہ قادیانیت " قادیانی فتنے کے خلاف لکھنے والے معروف قلمکار محمد متین خالد کی کاوش ہے،جس میں انہوں نے علامہ اقبال کے اسلامی غیرت وحمیت پر مبنی ان تاثرات کو انہی کی زبان میں جمع کر دیا ہے۔ اللہ تعالی ان کی اس محنت کو قبول ومنظور فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اس فتنے سے محفوظ فرمائے۔آمین



کلیات اقبال ۔اردو
شاعری کسی فکرونظریہ کودوسروں تک پہنچانے کاموثرترین طریقہ ہے ۔شعرونظم سے عموماً عقل کی نسبت جذبات زیادہ متاثرہوتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ وحی الہیٰ کے لیے شعرکواختیارنہیں کیاگیا۔تاہم اگرجذبات کی پروازدرست سمت میں ہوتوانہیں ابھارنا بجائے خودمقصودہے ۔ہمارے عظیم قومی شاعرعلامہ محمداقبال نے یہی کارنامہ سرانجام دیاہے ۔اقبال کی شاعری اسلام کی انقلابی ،روحانی اوراخلاقی قدروں کاپراثرپیغام ہے ۔اس کی شاعری میں نری جذباتیت نہیں بلکہ وہ حرکت وعمل کاایک مثبت درس ہے ۔اس سے  انسان میں خودی کے جذبے پروان چڑھتے ہیں اورملت کاتصورنکھرتاہے ۔بنابریں یہ کہاجاسکتاہے کہ اقبال نے اسلامی تعلیمات کونظم میں بیان کیاہے۔تاہم یہ بات بھی ملحوظ خاطررکھناضروری ہے کہ علامہ عالم دین نہ تھے ہمارے ملی شاعرتھے اوربس ۔فلہذاتعبیردین میں ان کوسندخیال کرناقطعاً غلط ہے ۔ہم قارئین کے لیے ’کلیات اقبال ‘پیش کررہے ہیں ،اس امیدکے ساتھ کہ اس سے احیائے ملت کاجذبہ بیدارہوگا۔ان شاء اللہ






نقوش اقبال :
یہ کتاب عظیم مفکر اسلام مولانا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ کی تصنیف ’روائع اقبال‘کا اردو قالب ہے ۔اس میں مولانا موصوف نے علامہ اقبال کی اہم نظمون اور متفرق اشعار سے اسلام کی بنیادی تعلیمات ،ان کی روح اور ملت اسلامیہ کی تجدید واصلاح،مغربی تہذیب اور اس کے علوم وغیرہ کے متعلق اقبال کے افکار وخیالات کا خلاصہ اور لب لباب پیش کر دیا ہے۔جس سے اس کے اہم رخ سامنے آجاتے ہیں ۔کتاب کے بعض مندرجات سے اختلاف ممکن ہے لیکن بحثیت مجموعی یہ انتہائی مفید کتاب ہے ۔مختصر ہونے کے باوصف یہ کتاب اقبال کے مقصد،پیام اور افکار وتصورات کو سمجھنے کے لیے بالکل کافی ہے ۔اقبال کو خاص طور پر ان کے دینی رجحان اور دعوتی میلان کی روشنی میں دیکھنے کو کوشش اب تک بہت کم ہوئی ہے ۔زیر نظر کتاب میں اقبال کے قلب وروح تک پہنچنے اور اس کی چند جھلکیاں دکھانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔




علامہ اقبال اور تقلید و اجتھاد:
یہ کتاب سلامک فقہ اکیڈمی کے مسابقتی پروگرام میں لکھی گئی ھے اور پہلے نمبر سے کامیاب ھوئی ھے۔
علامہ اقبال کا نظریہ تقلید و اجتہاد پر لکھی گئی اب تک کی کتابوں میں سب سے معتدل، افراط تفریط سے پاک، معتبر کتب
اور معتبر علماء  کے اقوال کی روشنی میں لکھی گئی کتاب ھے۔ 
اکیڈمی کی جانب سے کتاب کو “تقلید و اجتہاد علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں” نام دیا گیا تھا ابھی اس کا نام رکھا گیا ھے “علامہ اقبال اور تقلید و اجتہاد”
مؤلف:  مفتی محمد طاہر شاھی قاسمی





شکوہ جواب شکوہ مع ترجمہ و تشریح:
’’شکوہ“ کے جواب میں نظمیں دیکھ کراقبال کو خود بھی دوسری نظم ”جواب شکوہ“ لکھنی پڑی جو 1913ء کے ایک جلسہ عام میں پڑھ کر سنائی گئی۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسے میں ”شکوہ “ پڑھی گئی تو وسیع پیمانے پر اس کی اشاعت ہوئی یہ بہت مقبول ہوئی لیکن کچھ حضرات اقبال سے بدظن ہو گئے اور ان کے نظریے سے اختلاف کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ”شکوہ“ کا انداز گستاخانہ ہے۔ اس کی تلافی کے لیے اور یوں بھی شکوہ ایک طرح کا سوال تھا جس کا جواب اقبال ہی کے ذمے تھا۔ چنانچہ ڈیڑھ دو سال کے عرصے کے بعد انہوں نے ”جواب شکوہ“ لکھی۔ یہ 1913ء کے جلسے میں پڑھی گئی۔ جو نماز مغرب کے بعد بیرونی موچی دروازہ میں منعقد ہوا تھا۔ اقبال نے نظم اس طرح پڑھی کہ ہر طرف سے داد کی بوچھاڑ میں ایک ایک شعر نیلام کیا گیا اور اس سے گراں قدر رقم جمع کرکے بلقان فنڈ میں دی گئی۔ شکوہ کی طرح سے ”جواب شکوہ“ کے ترجمے بھی کئی زبانوں میں ملتے ہیں۔شکوہ میں اقبال نے انسان کی زبانی بارگاہ ربانی میں زبان شکایت کھولنے کی جرات کی تھی یہ جرات عبارت تھی اس ناز سے جو امت محمدی کے افراد کے دل میں رسول پاک سے عقیدیت کی بناءپر پیدا ہوتی ہے۔ جواب شکوہ درحقیقت شکوہ کا جواب ہے۔ شکوہ میں مسلمانوں کی زبوں حالی بیاں کی گئی تھی اور اس کی وجہ پوچھی گئی تھی پھر وہاں مایوسی اور دل شکستگی کی ایک کیفیت تھی ۔”جواب شکوہ“ اس کیفیت کی توجیہ ہے اور شکوہ میں اٹھائے جانے والے سوالات کے جواب دیے گئے ہیں۔ جواب شکوہ میں اسلامی تاریخ کے بعض واقعات اور جنگ بلقان کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں۔زیر نظر کتاب   علامہ اقبال کی مشہور نظم   شکوہ جواب شکوہ کے متن اور اسکےمکمل مطالب  وتشریح پر مشتمل ہے۔


No comments:

Post a Comment