السلم والسلامۃ
کے معنیٰ ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں۔
قرآن میں ہے :
بِقَلْبٍ سَلِيم
[سورۃ الشعراء:89]
پاک دل (لے کر آیا وہ بچ جائیگا)
یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا:
مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها
[سورۃ البقرة:71]
اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو۔
لہٰذا
سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنیٰ سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ (تفعیل) کے معنیٰ سلامت رکھنے کے ہیں۔جیسے فرمایا:
وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ
[سورۃ الأنفال:43]
لیکن خدا نے (تمہیں) اس سے بچالیا۔
اسی طرح فرمایا:
ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ
[سورۃ الحجر:46]
ان میں سلامتی اور (خاطر جمع) سے داخل ہوجاؤ۔
اسی طرح فرمایا:
اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا
[سورۃ هود:48]
ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ۔
اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقاء ہے فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں۔ چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا:
لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ
[سورۃ الأنعام:127]
ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے۔
اسی طرح فرمایا:
وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ
[سورۃ يونس:25]
اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔
اسی طرح فرمایا:
يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ
[سورۃ المائدة:16]
جس سے اللہ اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے۔
ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے، اور یہی معنیٰ آیت:
لَهُمْ دارُ السَّلامِ
[سورۃ الأنعام:127]
ان کیلئے سلامتی کا گھر ہے۔
میں بیان کئے گئے ہیں ۔
اور آیت:۔
السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ
[سورۃ الحشر:23]
سلامتی، امن دینے والا، نگہبان۔
میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے۔ اور آیت :
سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ
[سورۃ يس:58]
پروردگار مہربان کی طرف سے سلام (کہا جائیگا)
اسی طرح فرمایا:
سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ
[سورۃ الرعد/ 24]
(اور کہیں گے) تم رحمت ہو (یہ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔
اسی طرح فرمایا:
سلام علی آل ياسین
«2»
الیاسین پر سلام
اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطا فرمانا۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت:
وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً
[سورۃ الفرقان:63]
اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں۔
میں قالوا سلاما کے معنیٰ ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاما کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف (یعنی قولا) کی صورت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ:
إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ
[سورۃ الذاریات:25]
جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔
میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس ادب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا آیت :
وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها
[سورۃ النساء:86]
اور جب تم کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمات) سے (اسے) دعا دو۔
میں حکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم (صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ:
لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً
[سورۃ الواقعة:25-26]
وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام (ہوگا)
کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی، بلکہ قولا اور فعلا دونوں طرح ہوگی۔ اسی طرح آیت:
فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ
[سورۃ الواقعة:91]
تو (کہا جائیگا کہ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت:
وَقُلْ سَلامٌ
[سورۃ الزخرف:89]
اور سلام کہدو۔
میں بظاہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سلامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے، اور آیاتّ سلام جیسے:
سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ
[سورۃ الصافات:79]
(یعنی) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام
موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ
[سورۃ الصافات:120]
ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ
[سورۃ الصافات:109]
میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا :
فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ
[سورة النور:61]
اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھر والوں) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہا کرو ۔
[مفردات القرآن -امام الراغب الاصفھاني]