ترجمہ:
اس دنیا سے رسول اللہ ﷺ کے رخصت ہو جانے کے بعد آپ ﷺ کی لائی ہوئی اللہ کی کتاب قرآن مجید اور آپ ﷺ کی تعلیمات جن کا معروف عنوان سنت ہے اس دنیا میں ہدایت کا مرکز و سرچشمہ اور گویا آپ ﷺ کی مقدس شخصیت کے قائم مقام ہے اور امت کی صلاح و فلاح ان کی پیروی و پابندی سے وابستہ ہے رسول اللہ ﷺ نے اس بارے میں امت کو مختلف عنوانات سے ہدایت و آگاہی دی ہے اور محدثات و بدعات سے اجتناب کی تاکید فرمائی ہے اگلی امتیں اسی لیے گمراہ ہوئی کہ محدثات و بدعات کو اپنا دین بنا لیا اسی سلسلہ میں آپ ﷺ کے چند اہم ارشادات ذیل میں درج کیے جارہے ہیں۔
[سنن ابوداؤد:حدیث نمبر 4607، سنت کا بیان :سنت کو لازم پکڑنے کا بیان]
سیدنا علی المرتضیٰؓ کی نظر میں، خلفاء راشدین کا عمل بھی سنت ہے:
سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا:
جَلَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعِينَ، وَجَلَدَ أَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ، وَعُمَرُ ثَمَانِينَ، " وَكُلٌّ سُنَّةٌ.
نبی ﷺ اور حضرت ابوبکرؓ نے شرابی کو چالیس کوڑے سزا دی، اور حجرت عمرؓ (اور حضرت عثمانؓ) نے اسّی کوڑے سزا دی، اور دونوں باتیں سنت ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ہمارے حکم (دین) میں کوئی ایسی نئی بات نکالی جو اس میں نہیں، تو وہ مردود ہے.
حضرت عائشہؓ نے خبر دی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔
تشریح:
(1) حکم یعنی دین "میں" نکالنا مردود ہے، لیکن دین کی ضرورت "کیلئے" نہیں۔ جیسے:- (1)قرآن مجید کی حفاظت کیلئے اسے ایک کتابی شکل میں صحابہ کا جمع کرنا (2)یا عجمیوں کے اختلاف وغلطیوں سے حفاظت کیلئے قرآن مجید میں اعراب لگانا (3)یا عربی قاعدے سکھانا بدعت نہیں۔
(2) لفظ ’’ہمارا حکم‘‘ فرمانا دلیل ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کی جماعت کو بھی شامل فرمایا ہے۔ صحابہ کے طریقہ کی پیروی کی فضیلت قرآن مجید نے بھی فرمائی ہے۔
[دیکھیے، سورۃ التوبۃ:100]
(3) اتباع جیسے فعل(یعنی کرنے) میں ہے اسی طرح ترک(یعنی نہ کرنے) میں بھی ہے، سو جس نے ایسے نئے فعل،طریقہ،تعداد،جگہ،وقت،کیفیت یا درجہ دینے پر مواظبت(ہمیشگی/پابندی) کی جو نبی ﷺ اور صحابہ کرام نے نہیں کی، تو وہ بدعت(یعنی دین میں نئی بات نکالنا) ہے، جو مردود ہے۔
تشریح:
استغفر اللہ، کتنی عظیم محرومی ہے؟ کہ ایسے لوگوں کا نبوی تعلق بھی مردود ہے۔
یعنی
(1)وه نیک باتوں کا لوگوں کو حکم کریں گے لیکن اپنے آپ کو بھول جائیں گے
[سورۃ البقرہ:44]
دعوے کریں گے لیکن وہ کام نہیں کریں گے
[سورۃ الصف:2-3]
(2)جس بات کا انہیں حکم نہیں دیا گیا اسے دین وثواب کا عمل سمجھ کر مضبوطی سے پکڑیں گے۔
[دلائل سورۃ فاطر:8، محمد:14، الاعراف:30، الکھف:104،الزخرف:37]
[مجمع البحرین: م ۱۸ ص ۱۲۹، رسالة إنقاذ الهالكين-البركوي: ص۱۰۵، نظم البیان: ص۷۳، لجنہ ۱۶۵]
سأل ابن الكواء عليا عن السنة والبدعة وعن الجماعة والفرقة فقال يا ابن الكواء حفظت المسألة فافهم الجواب السنة والله سنة محمد - صلى الله عليه وسلم - والبدعة ما فارقها والجماعة والله مجامعة أهل الحق وإن قلوا والفرقة مجامعة أهل الباطل وإن كثروا.
[جامع الأحاديث:33424، كنز العمال:1644، تاريخ ابن عساكر:7/ 301 ط بيروت]
ترجمہ:
حضرت علیؓ سے جب سنت اور بدعت ،اجتماعیت اور انفرادیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپؓ نے جواب میں ارشاد فرمایا : ”سنت، اللہ کی قسم! محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور بدعت ہر وہ کام جسے حضور ﷺ نے نہیں کیا ہے، اور جماعت (اجتماعیت) اللہ کی قسم! اہلِ حق کا اجتماع اور ملنا ہے، اگرچہ وہ تھوڑے اور کم ہوں اور انفرادیت اہلِ باطل سے ملنا ہے اور ان کا جمع ہونا ہے اگرچہ وہ تعداد میں زیادہ ہوں“ ۔
[حياة الصحابة:2/232، الناشر: مؤسسة الرسالة، حیاة الصحابہ :2/9 دار القلم ،دمشق]
امام ابوحنیفہؒ(م150ھ)نے فرمایا:
عَلَيْكَ بِالْأَثَرِ وَطَرِيقَةِ السَّلَفِ، وَإِيَّاكَ وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ، فَإِنَّهَا بِدْعَةٌ
ترجمہ:
تم لازم کرلو نقش قدم اور طریقے سلف(پیشرو) کے، اور بچو ہر نئی بات (دین میں) نکالنے سے، کیونکہ یہ بدعت ہے۔
[أحاديث في ذم الكلام وأهله-أبو الفضل الرازي(م454ھ) : صفحہ86، حدیث نمبر 1006]
اہل بدعت کا یہ کہنا کہ جس چیز کی منع کتاب و سنت میں موجود نہ ہو اس کا نکالنا اور کرنا برا نہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ باپ کو گھر سے نکالنے سے منع قرآن وسنت میں نہیں لہذا یہ کام برا نہیں ۔۔۔۔ سراسر باطل اور قطعا مردود ہے اور محدثین عظام اور فقہائے کرام کے صریح ضوابط کے خلاف ہے ۔۔علماء اسلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے کہ جیسے عزائم سے خدا تعالیٰ کی بندگی اور عبادت و خشنودی کی جاتی ہے اسی طرح رخصتوں سے بھی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی متعلق ہے اور جس طرح جناب رسول اللہ ﷺ کا کسی کام کو کرنا سنت ہے اسی طرح کسی کام کا چھوڑنا بھی سنت ہے ۔ لہذا آپ کے ترک فعل کی اتباع بھی سنت ہے اور اس کی مخالفت بدعت ہے ۔۔۔چناچہ ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ایک حدیث شریف یوں پیش فرماتے ہیں :
(مرقات ج 2 ص 15)(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 12)
نیز حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مشکوۃ شریف کی پہلی حدیث "انما الاعمال بالنیات"کی شرح میں یہ نقل کرتے ہیں کہ "متابعت جیسے فعل میں ہوتی ہے اسی طرح ترک میں بھی متابعت ہوتی ہے ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ بدعتی ہے"(مرقات ج 1 ص 41)
اور اسی موقع پر شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ " اتباع جیسے فعل میں واجب ہے اسی طرح ترک میں بھی اتباع ہوگی ۔سو جس نے کسی ایسے کام پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا وہ بدعتی ہوگا ۔اسی طرح محدثین کرام نے فرمایا ہے "
(اشعۃ اللمعات ج 1 ص 20)
شرح مسند امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ میں ہے "اتباع جیسے فعل میں ہے اسی طرح ترک میں بھی ہے سو جس نے ایسے فعل پر مواظبت کی جو شارع علیہ السلام نے نہیں کیا تو وہ مبتدع ہوگا ۔کیوں کہ اس کو آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا یہ قول شامل ہے کہ جس نے کوئی ایسا کام کیا جس پر ہمارا ثبوت نہیں تو وہ مردود ہوگا"(انتہی)
(مواہب لطیفہ شرح مسند ابی حنیفہ بحث تلفظ بالنیۃ)
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ حَمَّادٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ حَرْبٍ ، سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ : " إِنَّ رَفْعَكُمْ أَيْدِيَكُمْ بِدْعَةٌ ، مَا زَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا " ، يَعْنِي : إِلَى الصَّدْرِ .
خلاصة حكم المحدث : إسناده حسن
علامہ سدید الدین کاشغری الحنفی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ "رات کے وقت آٹھ رکعت سے زیادہ اور دن کے وقت چار رکعت سے زیادہ ایک سلام کے ساتھ نفلی نماز پڑھنا آئمہ احناف کے اجماع سے مکروہ ہے"(منیۃ المصلیٰ ص 102)
اور علامہ علاوالدین ابو بکر بن مسعود الکاسانی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 587ھ) بعض فقہائے کرام سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "اس لئے مکروہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے اس سے زیادہ مروی نہیں ہے"
(البدائع والصنائع ج 1 ص 295)
صاحب ہدایہ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ "اور عید گاہ میں نماز عید سے پہلے نماز نہ پڑھی جائے کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے باوجود نماز پر حریص ہونے کے ایسا نہیں کیا پھر اس میں اختلاف ہے کہ یہ کراہت عیدہ گاہ کے ساتھ خاص ہے ،یہ بھی کہا گیا ہے کہ عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں کراہت ہوگی کیوں کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے عید گاہ اور غیر عید گاہ دونوں میں نماز نہیں پڑھی"
(ہدایہ ج 1 ص 153)
آپ نے ملاحظ فرمایا کہ صاحب ہدایہ نے آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے عدم فعل کو حجت اور دلیل کو طور پر پیش کیا حالانکہ صراحتہ مرفوع حدیث سے نہی اس پر پیش کرنا ایک دشوار امر ہے کہ آپ نے عید گاہ میں یا عید کے دن کسی دوسری جگہ نفل پڑھنے سے علی الخصوص منع کیا ہے ۔۔۔ تو پھر اہل بدعت کے نزدیک اس فعل کو برا اور مکروہ نہیں ہونا چاہیے اس لئے کہ آنحضرت صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی نہی اس پر موجود نہیں
علامہ ابراہیم حلبی الحنفیؒ (المتوفی 956ھ) نے صلوۃ رغائب(جو رجب میں پڑھی جاتی ہے)وغیرہ کے بدعت اور مکروہ ہونے کی یہ دلیل پیش کی ہے:
"حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام اور بعد کے آئمہ مجتہدین سے یہ منقول نہیں ہے"
(کبیری ص 433)
اور مشہور حنفی امام احمد بن محمدؒ (المتوفی 446ھ ) ایک مسئلہ کی تحقیق میں یوں ارقام ہیں:
"یہ بدعت ہے حضرات صحابہ کرام اور تابعین کرام سے منقول نہیں ہے"
(الواقعات)
(1) غیردین کو دین بنانا، (2) کسی کام کو اچھا یا برا خود قرار دینا جو ایک طرح سے خود کو خدا بنانا ہے. (3) دین کو نامکمل سمجھنا (4) اور نبی پر پورا دین نہ پہنچانے یا چھپانے کا الزام ظاہر کرنا اور (5) خود کو خدا کا پیغام(دین) پہنچانے والا نبی ہونے کا خفیہ دعوا کرنا ہے۔ جو بدعت کی سب سے خطرناک برائی اور تلبیس ابلیس ہے.
خواہش پرست، مشرک اور گمراہ ہے:
القرآن :
ترجمہ:
بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) اللّٰه نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب اللّٰه کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟
کیا کوئی بات خالق کے علم سے باہر ہوسکتی ہے؟
بھلا وہ نہ جانے جس نے بنایا اور وہی ہے بھید جاننے والا خبردار
کیا رسول الله ﷺ نے دین کی کوئی بات چھپائی؟
وَما هُوَ عَلَى الغَيبِ بِضَنينٍ {81:24}
اور وہ پوشیدہ باتوں (کے ظاہر کرنے) میں بخیل نہیں
کیا دین مکمل نہیں ہوا ہے؟
... اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلٰمَ دينًا ۚ ... {5:3}
... آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا.
کیا محمد رسول الله ﷺ انبیاء کے سلسلہ کو ختم کرنے والے نہیں؟ما كانَ مُحَمَّدٌ أَبا أَحَدٍ مِن رِجالِكُم وَلٰكِن رَسولَ اللَّهِ وَخاتَمَ النَّبِيّۦنَ ۗ وَكانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيءٍ عَليمًا {33:40}
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے والد نہیں ہیں بلکہ خدا کے پیغمبر اور نبیوں (کی نبوت) کی مہر (یعنی اس کو ختم کردینے والے) ہیں اور خدا ہر چیز سے واقف ہے.
کیا رسول الله ﷺ نے بدعت سے نہیں روکا؟
قُلۡ هَلۡ نُنَبِّئُکُمۡ بِالۡاَخۡسَرِیۡنَ اَعۡمَالًا ﴿۱۰۳﴾ اَلَّذِیۡنَ ضَلَّ سَعۡیُهُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ هُمۡ یَحۡسَبُوۡنَ اَنَّهُمْ یُحۡسِنُوۡنَ صُنۡعًا ﴿۱۰۴﴾ سورۃ الکھف
ترجمہ:
یہ سب سے پہلا فرقہ تھا جس نے صحابہ کرام (رضی اللہ عنھم) اور صحابہ کے رفقاء یعنی تابعین (رحمھم الله) کے خلاف بغاوت کی اور بغاوت کو حق سمجھا۔
مطلب یہ ہے کہ جیسے یہ آیت یہود و نصاریٰ وغیرہ کفّار کو شامل ہے، اسی طرح خارجیوں کا حکم بھی اس میں شامل ہے، کیونکہ آیت عام ہے. جو بھی الله کی عبادت و اطاعت اس طریقے سے بجا لاۓ جو طریقہ الله کو پسند نہیں تو گو وہ اپنے اپنے اعمال سے "خوش" ہو اور "سمجھ" رہا ہو کہ میں نے آخرت کا توشہ بہت کچھ جمع کرلیا ہے، میرے نیک اعمال الله کے پسندیدہ ہیں اور مجھے ان پر اجر و ثواب ضرور ملے گا لیکن اس کا یہ گمان غلط ہے. اس کے اعمال مقبول نہیں بلکہ مردود ہیں اور وہ غلط گمان شخص ہے.
صحابہؓ کے اعمال پر بدعت کا اطلاق نہیں
پس ہرچہ خلفائے راشدین بداں حکم کردہ باشند....اطلاق بدعت برآں نتواں کرد۔
[أشعة اللمعات: ١/١٣٠]
"ہر مومن کو سنت اور جماعت (اہلِ سنّت-والجماعت) کی پیروی کرنا واجب ہے، سنّت اس طریقے کو کہتے ہیں جس پر آپ ﷺ چلتے "رہے" اور جماعت اسے کہتے ہیں جس پر چاروں خلفاءِ راشدین نے اپنے خلافت کے زمانے میں "اتفاق(اجماع)" کیا، یہ لوگ سیدھی راہ دکھانے-والے تھے، کیوں کہ انہیں سیدھی راہ دکھائی گئی تھی."
[غنية الطالبين: صفحة # ١٨٥]
"وأماأهل السنةوالجماعة فيقولون في كل فعل وقول لم يثبت عن الصحابة: هوبدعة؛ لأنه لو كان خيرا لسبقونا إليه، لأنهم لم يتركوا خصلة من خصال الخير إلا وقد بادروا إليها"۔
(تفسیر ابن کثیر۔تفسیر الاحقاف:۱۱،شاملہ)
ترجمہ:اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ ہر وہ قول وفعل جو حضورﷺ کے صحابہ سے ثابت نہ ہو بدعت ہے کیوں کہ اس(دینی کام)میں کوئی خیر ہوتی تو صحابہ کرام ہم سے پہلے اس کام کی طرف رخ کرتے انہوں نے نیکی کی کسی بات کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہ اس کی طرف دوڑتے تھے۔
"کل عبادۃ لم یتعبد ھااصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا"۔
(الاعتصام:۱/۵۴)
ترجمہ:دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔
جو دینی-کام نبی ﷺ اور خلفاء راشدین کی سنّت سے ثابت نہ ہو وہ دین میں "بدعت" ہے.
[تفسیر_ابن_کثیر: سورہ احقاف، آیت # ١١]
کیا باجماعت نماز تراویح بدعت ہے؟
(ترویج الجنان ۔۔والجنہ ص 161)
(عمدۃ القاری ج 5 ص 356)
عمدہ مضمون ہے
ReplyDelete