
یومِ آزادی اور اس کے قومی تقاضے

آزادی اور وطن کی دو مستقل نعمتیں
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آزادی مستقل نعمت ہے اور وطن ایک مستقل نعمتِ خداوندی ہے۔ آزادی کیا ہے؟ اس کے حوالے سے ایک واقعہ عرض کرنا چاہوں گا جو قرآن پاک نے ذکر کیا ہے۔
سیدنا حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پرورش وقت کے سب سے بڑے اور جابر حکمران فرعون کے گھر میں ہوئی تھی۔ ان کا بچپن اور لڑکپن فرعون کے گھر کے ایک فرد کے طور پر گزرا تھا۔ شاہی محلات تھے، شاہی پروٹوکول اور شاہی سہولتیں تھی، شاہی کھانے اور لباس، سب کچھ جو بھی شاہی محلات میں ہوتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک نے نبوت سے سرفراز کیا، اور نبوت کا پیغام لے کر اسی فرعون کے سامنے جب دونوں بھائی گئے، موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام، تو فرعون نے اس کا طعنہ بھی دیا۔ فرعون نے کہا ’’لبثت فینا من عمرک سنین‘‘ موسیٰ! تم کتنے سال میرے گھر میں رہے ہو۔ ’’وفعلت فعلتک التی فعلت‘‘ (الشعراء ۱۸، ۱۹) جاتے جاتے ایک بندہ بھی مار گئے تھے۔ تو شاہی محلات میں، شاہی پروٹوکول میں، شاہی ماحول میں، شاہی سہولتوں میں رہنا، فرعون نے اس کا طعنہ دیا کہ تم میرے گھر میں رہے ہو اور اب مجھ سے تقاضے کر رہے ہو اور میرے سامنے مطالبات رکھ رہے ہو؟
موسیٰ علیہ السلام نے اس کا بڑا خوبصورت جواب دیا، اسی مجلس میں، فرمایا ’’تلک نعمۃ تمنھا علیّ ان عبدت بنی اسرائیل؟‘‘ (الشعراء ۲۲) فرعون! کون سا احسان جتا رہے ہو؟ کیا احسان تم نے مجھ پر کیا ہے؟ یہی کہ میری قوم کو نسلوں سے غلام بنا رکھا ہے؟ بنی اسرائیل کو، میرے خاندان کو، میری قوم کو تم نے غلام بنا رکھا ہے۔ یہی تمہارا احسان ہے؟
اس کا کیا مطلب ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے ہمارے لیے سبق دیا کہ زندگی شاہی محلات میں رہنے کا نام نہیں ہے۔ زندگی شاہی پروٹوکول کا نام نہیں ہے۔ زندگی شاہی سہولتوں کا نام نہیں ہے۔ زندگی شاہی کھانے پینے کا نام نہیں ہے۔ زندگی آزادی اور وقار کا نام ہے۔ ایک انسان آزادی کے ساتھ، عزت کے ساتھ، وقار کے ساتھ جو عمر بسر کرے، اس کا نام زندگی ہے، اور انسان اسی لیے دنیا میں آیا ہے۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس کے احسان کو ایک طرف جھٹکتے ہوئے کہا، میں تو یہ مطالبہ لے کر آیا ہوں ’’فارسل معنا بنی اسرآئیل ولا تعذبھم‘‘ (طہ ۴۷) میں اپنی قوم کی آزادی کے لیے آیا ہوں، میری قوم کو اپنے وطن جانے دو، ان کو غلامی کے عذاب میں مبتلا نہ رکھو۔
یہ ہے آزادی۔ آزادی افراد کا بھی اپنے دائرے میں حق ہے، قوموں کا بھی حق ہے، ملکوں کا بھی حق ہے۔ ہم دو سال سے، ایک سو نوے سال سے انگریزوں کی غلامی میں چلے آ رہے تھے۔ پہلے اس پورے جنوبی ایشیا پر، جس میں ہندوستان بھی ہے، پاکستان بھی ہے، بنگلہ دیش بھی ہے، برما بھی ہے، ایسٹ انڈیا کمپنی نے، جو یہاں تجارت کے لیے آئی تھی، قبضہ کر لیا۔ ایک سو سال انہوں نے حکومت کی، پھر نوے سال برطانیہ نے براہ راست حکومت کی۔
ہمارے اکابر نے، ہمارے بزرگوں نے اس غلامی کے خلاف طویل جدوجہد کی، جو دو سو سال کی طویل جدوجہد ہے، بے شمار قربانیاں ہیں۔ اس میں عسکری تحریکات بھی ہیں، سیاسی تحریکات بھی ہیں۔ تحریکِ خلافت جیسی، تحریکِ پاکستان جیسی، تحریک آزادی جیسی سیاسی تحریکات بھی ہیں۔ دو سو سال کی طویل جدوجہد کے بعد انگریز نے اس ملک کا اقتدار چھوڑا تھا اور ہم ایک آزاد ملک کے شہری بنے تھے۔ یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ہم نے جب مطالبہ کیا کہ برصغیر کے مسلمان الگ تہذیب رکھتے ہیں، الگ دین رکھتے ہیں، الگ نظریہ رکھتے ہیں، الگ پہچان رکھتے ہیں، تو ہم الگ ملک چاہتے ہیں۔ ہمارے عقیدہ اور ہماری تہذیب و ثقافت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی پہچان کو قائم رکھیں۔ اور تہذیب اور ثقافت کا تحفظ آج کی دنیا میں بھی قوموں کا مسلّمہ حق مانا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے تشخص کو قائم رکھنے کے لیے مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں الگ ریاست چاہیے، تو اس مقصد کے لیے پاکستان کے نام سے الگ ملک وجود میں آیا۔ پاکستان کے وجود میں آنے کا دن بھی چودہ اگست ہے، اور انگریزوں کے اقتدار کے خاتمے کا دن بھی چودہ اگست ہے۔
ہمارے لیے یہ دو بڑی نعمتیں ہیں: آزادی مستقل نعمت ہے، پاکستان مستقل نعمت ہے۔ دونوں ہماری زندگی کے مقاصد میں سے ہیں۔ آزادی بھی زندگی کا حصہ ہے، زندگی کی بنیاد ہے، جیسے میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ زندگی کھانے پینے کا اور پروٹوکول کا نام نہیں ہے، زندگی آزادی اور عزت و وقار کا نام ہے، بالخصوص قوموں کے لیے۔ اور وطن کے حوالے سے بھی ایک بات عرض کرنا چاہوں گا۔ وطن تو وطن ہے، بہت سی باتیں کہی جاتی ہیں اور کہی جا سکتی ہیں، ایک حوالہ دوں گا۔
بخاری شریف کی روایت ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو مہاجرین ساتھ تھے، نیا ملک تھا، نیا علاقہ تھا، نیا ماحول تھا، اجنبی لوگ تھے۔ اور ویسے بھی یثرب، جو مدینہ منورہ کا پہلا نام ہے، یثرب موسمی لحاظ سے ٹھیک جگہ نہیں تھی، وبائی علاقہ تھا، باہر سے آنے والوں کو وہاں کی آب و ہوا راس نہیں آتی تھی۔ اکثر علاقوں میں ایسا ہوتا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت صدیق اکبرؓ بھی بیمار ہو گئے اور حضرت بلالؓ بھی بیمار ہو گئے اس وبائی اثرات کی وجہ سے۔ اب دونوں بزرگ اپنے وطن کو اپنے اپنے انداز میں یاد کر رہے ہیں۔ وہ اشعار بھی نقل کیے ہیں حضرت عائشہؓ نے۔
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بخار میں، اپنے انداز میں اپنے وطن کو یاد کر کے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں، کہ ہم کہاں آگئے ہیں، ہر آدمی اپنے گھر والوں کے ساتھ صبح کرتا ہے، ہم اجنبی ماحول میں، پردیس میں ہیں، موت کا کوئی وقت مقرر نہیں، وہ تو جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے، پتہ نہیں کس وقت موت آجائے، کیسے ماحول میں آجائے۔
اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ تو گھومتے پھرتے تھے اور مکہ کا یاد کر کے روتے تھے، کہتے تھے: ’’وہل اردن یوما میاہ مجنۃ، وہل یبدون لی شامۃ و طفیل‘‘ کیا وہ دن آئے گا کبھی کہ میں اپنے مکہ کے مجنۃ کے علاقے کے چشمے کا پانی دیکھوں گا؟ کبھی میں مکہ کے شامہ اور طفیل کے پہاڑ دیکھ سکوں گا زندگی میں؟ یہ وطن کی یاد آ رہی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یارسول اللہ! ہمارے دونوں بزرگ وطن کی یاد میں بے چین ہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی:
- ایک دعا تو یہ کی ’’اللھم حبب الینا المدینۃ کحبنا مکۃ او اشد‘‘ یا اللہ! جس طرح ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت ہے، مدینہ کی محبت بھی پیدا فرما دے، یا مکہ سے بھی زیادہ کر دے۔ آج بھی میں عرض کیا کرتا ہوں، یہ حضورؐ کی دعا کی برکت ہے کہ مکہ کے ساتھ بھی ہر مسلمان کی محبت اور عقیدت ہے، لیکن مدینہ کا نام آتے ہی مسلمان کے دل کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے کہ یااللہ مدینہ کی محبت مکہ سے بھی زیادہ کر دے۔
- دوسری دعا یہ کی ’’اللھم بارک لنا فی صاعھا ومدھا‘‘ یا اللہ! مدینہ کے پیمانوں میں برکت عطا فرما۔ مدینہ کی تجارت میں برکت عطا فرما۔
- اور تیسری دعا کی ’’وانقل حماھا الی الجحفۃ‘‘ یا اللہ! یہ جو وبا ہے اس کو جحفہ لے جا، بارڈر پر لے جا۔
اللہ پاک نے تینوں دعائیں قبول فرمائیں۔ میں عرض یہ کر رہا ہوں کہ وطن کی محبت فطری بات ہے، آزادی ہمارا حق ہے، پاکستان ہمارا وطن ہے۔ آج ہم آزادی کے حوالے سے، قیامِ پاکستان کے حوالے سے تقریبات کر رہے ہیں، اپنے اپنے انداز میں کر رہے ہیں۔ آج ہم سے ایک تقاضا آزادی کا ہے اور ایک تقاضا پاکستان کا ہے:
- آزادی کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم آزادی کی قدر کریں، اللہ کی نعمت ہے، شکر ادا کریں۔ نعمت کی قدر کی جائے تو اللہ پاک کا وعدہ ’’لئن شکرتم لازیدنکم‘‘ اگر میری نعمت کا شکر ادا کرو گے تو میں نعمتوں میں اضافہ کروں گا، ’’ولئن کفرتم ان عذابی لشدید‘‘ (ابراہیم ۷) اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی سخت ہے۔ تو سب سے پہلے یہ کہ ہم اللہ کا شکر ادا کریں۔
- اور دوسری بات یہ ہے کہ آزادی کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ آزادی حاصل کر لینا کافی نہیں ہے، دو مرحلے آگے بھی ہیں: آزادی کو مکمل کرنا اور اس کی حفاظت کرنا۔ میں آج یہ سوال سامنے رکھنا چاہوں گا کہ ہم نے آزادی حاصل کی تھی، جن اقوام کے لیے، جن علاقوں کے لیے، کیا سب کو آزادی مل گئی ہے؟ کیا کشمیر آزاد ہو گیا ہے؟ کیا ہمارے نقشے میں پاکستان کا حصہ ہے، ابھی وہ غلامی کے مرحلے میں نہیں ہے؟ تو اللہ کی نعمتوں کو یاد کر کے شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آزادی کی تکمیل، پاکستان کی تکمیل۔ ہمارے کشمیری بھائی کس حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں؟ پاکستان کو مکمل کرنا، آزادی کو مکمل کرنا ہمارے اہداف اور مقاصد میں سے ہے۔
- اور تیسری بات کہ پاکستان کس مقصد کے لیے قائم ہوا تھا؟ ہم نے یہ کہہ کر پاکستان بنایا تھا کہ ہم عقیدہ، تہذیب، ثقافت، روایات رکھتے ہیں اور اپنی شناخت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں اس لیے الگ ملک چاہتے ہیں۔ اللہ پاک نے ہمیں الگ ملک دیا، یہ بات ہمیں بالکل یاد رکھنی چاہیے، ہم نے اللہ سے وعدہ کیا تھا بحیثیت قوم کہ ’’یا اللہ! علیحدہ وطن دے دے، تیرے دین کا نفاذ ہم کریں گے‘‘۔ اللہ نے اپنا کام کر دیا ہے، ہم نے اپنا کام نہیں کیا۔ اللہ نے ہمیں ملک دے دیا ہے، ہم نے ناقدری کی ہے، ہم نے اپنا حصے کا کام نہیں کیا۔
اس لیے میں تین گزارشات کر رہا ہوں: پہلی بات، آزادی اور پاکستان کی دونوں نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرنا۔ دوسری بات، آزادی اور پاکستان کی تکمیل کے لیے، جس کا بڑا حصہ کشمیر ہے، جدوجہد کرنا۔ اور تیسری بات، آزادی کی حفاظت کے لیے، پاکستان کی حفاظت کے لیے، پاکستان کی سالمیت و وحدت کے لیے، پاکستان کے قیام کا مقصد پورا کرنے کے لیے، اپنے عقیدہ اور تہذیب و ثقافت کی روایات کو نافذ کرنے کے لیے اور ان کے بقا کے لیے جدوجہد کا عزم کرنا، یہ آج کے دن کا سب سے بڑا تقاضا ہے۔
اللہ پاک ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر اور قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمیں اس کی تکمیل کے لیے اور اس کی ترقی کے لیے محنت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہم صلی علیٰ سیدنا محمدن النبی الامی وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔
یومِ آزادی اور اس کا پیغام
۱۴ اگست کو پوری قوم نے یوم آزادی منایا۔ چھپن برس قبل ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو برصغیر پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش نے برٹش استعمار کی غلامی سے آزادی حاصل کی تھی اور اسی روز دنیا کے نقشے پر ’’پاکستان‘‘ کے نام سے ایک نئی اسلامی ریاست نمودار ہوئی تھی۔ اس خوشی میں اس دن ہر سال یوم آزادی منایا جاتا ہے، ہر طبقہ اس خوشی میں شریک ہوتا ہے اور ہر طرف جشن کا سماں نظر آتا ہے، اس کے مختلف مناظر ہم نے بھی دیکھے۔
ایک منظر یہ تھا کہ ۱۲ اگست کو جب میں دوپہر کے وقت الشریعہ اکادمی سے گھر واپس آ رہا تھا کہ جس ویگن پر سوار تھا اس نے اچانک اپنا رخ جی ٹی روڈ سے شہر کے اندر جانے والی سڑک کی طرف موڑ لیا۔ کنڈیکٹر سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ یوم آزادی آ رہا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور میں جو جلسہ کر رہے ہیں اس کے لیے لوگوں کو جمع کرنے کی غرض سے پولیس ویگنوں کو قبضہ میں لے رہی ہے، اس لیے ہم اندرونی سڑک کی طرف مڑ گئے ہیں، کیونکہ آگے پولیس کا ناکہ ہے سیدھے گئے تو پکڑے جائیں گے اور پھر دو تین روز تک گاڑی سمیت ہم پولیس کی تحویل میں ہوں گے۔ اس احتیاط کے باوجود وہ ویگن بچ نہیں سکی اور جب اندرونی سڑک سے چکر کاٹ کر ڈرائیور ویگن کو ایمن آبادی دروازے سے جی ٹی روڈ پر لایا تو ٹریفک پولیس کے دو کارندے موٹر سائیکل پر وہاں بھی کھڑے تھے، انہوں نے ویگن کو قابو کر لیا۔ مجھے تو وہیں اترنا تھا اس لیے پریشانی نہیں ہوئی مگر جن مسافروں نے آگے جانا تھا انہیں بھی وہیں اترنا پڑا۔
مجھے اگلے روز یوم آزادی ہی کی ایک تقریب کے سلسلہ میں لاہور جانا تھا۔ ’’بے کار‘‘ شخص ہوں پبلک ٹرانسپورٹ ہی میرا ذریعہ سفر ہوتا ہے، اس لیے فکر لاحق ہوئی کہ اگر ویگنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو لاہور کا سفر کیسے کر سکوں گا؟ مگر خدا بھلا کرے ’’ق لیگ‘‘ والوں کا کہ انہوں نے سندھ و بلوچستان کے سیلاب زدگان کی ہمدردی میں لاہور کا جلسہ منسوخ کر دیا اور ویگنوں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ ختم ہوا۔
دوسرا منظر جو میرے مشاہدے میں آیا وہ میرے ہی شہر گوجرانوالہ کے زندہ دلوں کی وہ ’’موٹر سائیکل ریس‘‘ تھی جو چودہ اگست کی شام کو جی ٹی روڈ پر شروع ہوئی اور رات گئے تک جاری رہی۔ سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان موٹر سائیکلوں پر سوار گھومتے رہے۔ ایک ایک موٹر سائیکل پر چار چار پانچ پانچ سوار تھے۔ بعض نے غبارے پکڑ رکھے تھے، بعض جھنجھنے بجا رہے تھے، جن کے پاس اور کچھ نہیں تھا وہ اپنی زبان اور حلق سے کام لے رہے تھے۔ بعض منچلوں نے اپنی موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکال رکھے تھے اور جب وہ تیز رفتاری کے ساتھ ادھر ادھر جاتے تو ایسے لگتا کہ کانوں کے پردے پھٹنے لگے ہیں۔ میں رات دس بجے کے قریب سیالکوٹ روڈ پر یوم آزادی کی ایک تقریب میں شرکت کے بعد مولانا حافظ محمد ارشد کے ہمراہ ان کی موٹر سائیکل پر گھر واپس آ رہا تھا تو ان زندہ دل نوجوانوں کے درمیان سے گزرنے کا موقع ملا اور انہیں ’’انجوائے‘‘ کرتے دیکھ کر دل میں یہ خیال آیا کہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے، ہم نے انہیں آزادی کا جو مفہوم بتایا ہے اور آزادی کا جو ماحول فراہم کیا ہے، اس میں یہ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے ہیں؟
اس سال یوم آزادی کے حوالے سے تین تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ ۱۳ اگست کو مغرب کے بعد مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں پاکستان شریعت کونسل کے صوبائی سیکرٹری جنرل مولانا قاری جمیل الرحمٰن اختر نے ’’آزادی اور اس کے تقاضے‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا اہتمام کر رکھا تھا۔
۱۴ اگست کو ظہر کے بعد مدرسہ فاروقیہ چوک امام صاحبؒ سیالکوٹ میں اسی عنوان پر تقریب منعقد ہوئی اور رات کو عشاء کے بعد جمعیۃ اہل سنت گوجرانوالہ کے سیکرٹری جنرل مولانا حافظ گلزار احمد آزاد نے مسجد ختم نبوت ابوبکر ٹاؤن میں تقریب کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ان تقریبات میں راقم الحروف نے جو گزارشات پیش کیں ان میں بنی اسرائیل کی اس تحریک آزادی کا تذکرہ بھی شامل تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں بپا ہوئی اور جس کے مختلف مراحل کا قرآن کریم میں تذکرہ موجود ہے۔ اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے کوہ طور پر جب ہم کلامی کے شرف اور نبوت و رسالت سے سرفراز کیا اور ان کے ساتھ ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت عطا فرمائی تو انہیں فرعون کے پاس دو پیغام دے کر بھیجا۔ ایک پیغام اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کی وحدانیت کو تسلیم کرنے کے بارے میں تھا اور دوسرا بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کرنے کے حوالے سے ان الفاظ میں تھا کہ ’’فارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبہم‘‘ بنی اسرائیل کو غلامی کے عذاب سے نجات دو اور آزادی دے کر ہمارے ساتھ بھجوا دو۔ گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشن کے دو حصے تھے۔ ایک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور حاکمیت کا پرچار اور دوسرا بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے آزادی دلوانا۔ چنانچہ جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس دعوت اور مطالبے کے جواب میں اپنے احسانات یاد دلائے کہ ہم نے کس طرح بچپن میں آپ کی پرورش کی اور آپ کو پال پوس کر جوان کیا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کو یہ تاریخی جواب دیا کہ ’’و تلک نعمتہ تمنھا علی ان عبدت بنی اسرائیل‘‘ تم مجھ پر اس احسان کو جتلا رہے ہو کہ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں اس مہم میں کامیابی عطا فرمائی اور آزادی کی منزل سے ہمکنار کیا۔ بنی اسرائیل بحیرہ قلزم پار کر کے صحرائے سینا میں پہنچ گئے اور فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوا۔ صحرائے سینا میں بنی اسرائیل نے کیمپ لگائے اور اللہ تعالیٰ نے ’’من و سلویٰ‘‘ کی بارش کی تو قوم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے قانون اور شریعت کا تقاضا کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر گئے، چالیس راتیں وہاں رہے اور واپسی پر توراۃ کی صورت میں شریعت اور دستور لے کر آئے، مگر بنی اسرائیل کا ایک بڑا حصہ ان کی واپسی کا انتظار کیے بغیر بچھڑے کو خدا بنا چکا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہلے ان سے نمٹنا پڑا، پھر حالات نارمل ہونے پر بنی اسرائیل کے سامنے توراۃ کی صورت میں شریعت پیش کی تو بنی اسرائیل نے اسے یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دیا کہ یہ قوانین بہت سخت ہیں، ان پر عمل کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے، اس لیے ان میں رد و بدل کیا جائے اور ان کی جگہ دوسرے قوانین لائے جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس حکم عدولی پر سزا کے لیے کوہ طور کو ان کے سروں پر اٹھا دیا اور خوفناک سزا کی دھمکی دی جس پر بنی اسرائیل نے توراۃ کو قبول کرنے کا راستہ اختیار کیا۔
اس کے بعد دوسرا مرحلہ فلسطین کو دشمنوں کے قبضے سے چھڑانے اور بیت المقدس میں داخل ہونے کا تھا جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ذریعے بنی اسرائیل کو جہاد کا حکم دیا، مگر غلامی کی ماری ہوئی اس قوم نے جہاد کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ دشمن کی قوم بڑی طاقتور اور سخت ہے۔ ہم اس کے مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے، اس لیے ہم ان سے جنگ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو خدا کا خوف دلایا اور دوبارہ کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر یہ جہاد فرض کیا ہے اور کامیابی دلانے کا وعدہ کیا ہے، اس لیے ہمت کر کے میدان میں نکلو اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے جہاد کرو، مگر بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ کہہ کر صاف جواب دے دیا کہ ہم تو کسی صورت جہاد کے لیے تیار نہیں ہیں، اگر یہ جہاد ضروری ہے تو آپ اور آپ کا رب دونوں جا کر جنگ لڑیں ہم یہیں بیٹھے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس حکم عدولی کی بنی اسرائیل کو یہ سزا دی کہ چالیس سال تک انہیں صحرا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اب تم چالیس برس تک اسی صحرا میں سرگرداں پھرتے رہو گے۔ چنانچہ بنی اسرائیل کی اس نسل نے انہی صحرائی کیمپوں میں زندگی بسر کی۔ حضرت ہارون علیہ السلام کی وفات وہیں ہوئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات بھی اسی صحرا میں ہوئی۔ بیت المقدس کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تڑپ اور جذبات کا اندازہ اس بات سے کر لیں کہ بخاری شریف کی روایت کے مطابق وفات کے وقت انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ زندگی میں بیت المقدس تک نہیں پہنچ سکا تو کم از کم وفات کے بعد میری قبر ہی بیت المقدس کے قریب کر دی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر فرشتوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر کو بیت المقدس کے اتنا قریب کر دیا جتنی دور تک پتھر پھینکا جا سکتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر تھے، مگر ان کی تمام تر عظمت اور بزرگی کے باوجود چونکہ ان کی قوم نے ساتھ دینے سے انکار کر دیا، اس لیے جہاد کے جذبہ اور بیت المقدس کی آزادی کی خواہش کے باوجود انہیں قوم کے ساتھ صحرائے سینا میں ہی زندگی بسر کرنا پڑی۔ اور ان کی وفات کے بعد چالیس سال کا عرصہ گزرنے پر ان کے جانشین حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں جہاد کر کے بنی اسرائیل نے بیت المقدس کو دشمنوں سے آزاد کرایا اور وہاں بنی اسرائیل کی حکومت قائم ہوئی۔
بنی اسرائیل کی اس تحریک آزادی کے تذکرہ سے میری غرض یہ ہے کہ ہم بھی اسی قسم کے حالات سے گزر رہے ہیں اور ان جیسی حرکتوں کے مرتکب ہیں۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی اور ہندوؤں سے الگ کر کے پاکستان جیسی عظیم اسلامی ریاست دلوائی، مگر جب پاکستان میں شریعت اسلامی کے نفاذ کا مرحلہ آیا تو ہم نے اس سے انکار کر دیا، اور جہاد کا موقع آیا تو ہم اس کے لیے بھی تیار نہ ہوئے۔ دونوں جگہ ہمارا عذر وہی ہے جو بنی اسرائیل کا تھا۔ نظامِ شریعت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قوانین بہت سخت ہیں، آج کے دور میں قابل عمل نہیں ہیں اور اتنے سخت قوانین کے مطابق زندگی بسر کرنا ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔ جبکہ جہاد کے حوالے سے ہمارا موقف یہ ہے کہ دشمن ہم سے کہیں زیادہ طاقت ور ہے، اس کے پاس فوجیں زیادہ ہیں، ٹیکنالوجی زیادہ ہے، قوت زیادہ ہے، اس لیے ہم اس سے لڑنے کی سکت نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کے لیے تیار ہیں۔
اس کے بعد اگلا مرحلہ ’’صحرا میں بھٹکتے پھرنے‘‘ کی سزا کا ہے اور اگر ہم سب کی حس مردہ نہیں ہو گئی اور ہم سب کا شعور جواب نہیں دے گیا تو ہم پر یہ سزا نافذ ہو چکی ہے اور یہ عذاب ہم پر پوری طرح مسلط ہے۔ ہم دنیا کے اس صحرا میں بے بسی اور لاچاری کے عالم میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ کوئی ہمارا ہاتھ تھامنے والا نہیں ہے اور کوئی ہمیں راستہ بتانے والا نہیں۔ صرف اتنا فرق ہے کہ بنی اسرائیل کے پاس پیغمبر موجود تھے جنہوں نے سزا کی مدت بیان کر دی تھی کہ یہ سزا چالیس سال تک جاری رہے گی، مگر ہمارے پاس سزا کی مدت بیان کرنے والا کوئی نہیں ہے کہ ہم نے کب تک مجبوری اور ذلت کے اس صحرا میں سرگرداں رہنا ہے۔
اس لیے حالیہ یوم آزادی کا ہم سے سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ ہم احساس اور شعور کی مردگی کے ماحول سے نکلنے کی کوشش کریں، اپنے موجودہ حالات کا ادراک حاصل کریں، آزادی کا مطلب پہچانیں، پاکستان کی نعمت کی قدر کریں، اپنی نئی نسل کو آزادی کے تحفظ اور پاکستان کی ترقی کے لیے تیار کریں، دشمن اور اس کے طریق واردات کو سمجھیں، اگلی پود کو اس کے مقابلہ کے لیے تیاری کرائیں، اور اپنے عقیدہ، دین، شریعت، تہذیب اور روایات کو اگلی نسل تک صحیح صورت میں منتقل کرنے کی کٹھن ڈیوٹی سے عہدہ برآ ہونے کی جدوجہد کریں۔ ہو سکتا ہے کہ ان میں کوئی ’’یوشع بن نون‘‘ پیدا ہو جائے اور اس کی قیادت میں قوم آزادی کی اصل منزل سے ہمکنار ہو جائے۔

1. اللہ کی عبادت کے سوا ہر غلامی سے آزادی
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ"اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔" (الذاریات: 56)
اس آیت کے مطابق، انسان کی حقیقی آزادی اس بات میں ہے کہ وہ ہر غیر اللہ کی غلامی چھوڑ کر صرف اللہ کا بندہ بن جائے۔
جو شخص مال، شہوت، طاقت یا دنیاوی نظاموں کا غلام ہو، وہ حقیقی معنوں میں آزاد نہیں۔
2. نفس کی خواہشات سے آزادی
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا"کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا؟ کیا آپ اس کے ذمہ دار ہوں گے؟" (الفرقان: 43)
حقیقی آزادی یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کی بری خواہشات (لالچ، غصہ، تکبر، شہوت) پر قابو پائے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"حقیقی مومن وہ ہے جو اپنی خواہشات کو میری لائی ہوئی تعلیمات کے تابع کردے۔" (بیہقی)
3. ظلم اور جہالت سے آزادی
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ"اور وہ (اللہ) ان سے ان کے بوجھ اور زنجیریں اتار دے گا جو ان پر تھیں۔" (الأعراف: 157)
اسلام نے جاہلیت کے ظالمانہ رسوم (جیسے بت پرستی، نسلی تعصب، سود خوری) کو ختم کرکے انسان کو فکری اور عملی غلامی سے نجات دی۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"تم نے اپنی ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہو کر لوگوں کو غلام کیوں بنا لیا؟" (اسلام نے غلامی کے خاتمے کی طرف پہلا قدم اٹھایا)
4. فکری اور دینی آزادی
قرآن میں ارشاد ہے:
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ"دین میں کوئی جبر نہیں۔" (البقرة: 256)
اسلام انسان کو حق قبول کرنے یا رد کرنے کا اختیار دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی اسے اپنے انتخاب کا ذمہ دار بھی ٹھہراتا ہے۔
حقیقی آزادی یہ ہے کہ انسان حق کو سمجھے اور اسے اختیار کرے، نہ کہ محض اپنی خواہشات کے پیچھے اندھا ہو جائے۔
5. معاشرتی انصاف اور حقوق کی پاسداری
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔" (بخاری و مسلم)
حقیقی آزادی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک معاشرے میں ظلم، استحصال اور ناانصافی موجود ہو۔
اسلام نے عورت، غریب، غلام اور اقلیتوں کے حقوق دے کر انہیں سماجی غلامی سے آزاد کیا۔
نتیجہ:
قرآن و سنت کے مطابق حقیقی آزادی یہ ہے کہ:
انسان اللہ کے سوا کسی کی غلامی نہ کرے۔
وہ اپنے نفس کی بری خواہشات پر قابو پائے۔
وہ جہالت، ظلم اور تعصبات سے آزاد ہو۔
وہ حق کو اختیار کرنے کی آزادی رکھتا ہو۔
وہ ایک منصفانہ معاشرے کا حصہ ہو جہاں اس کے حقوق محفوظ ہوں۔
اس لیے، حقیقی آزادی وہ ہے جو انسان کو اللہ کے قریب کرے، نہ کہ اس سے دور۔
شہدائے آزادی کی روحوں کا سوال
۱۴ اگست ہمارا یوم آزادی ہے اور ایک نئی اسلامی ریاست کے وجود میں آنے کا دن ہے۔ ۱۹۴۷ء میں اس روز ہم نے برطانوی استعمار کے طوق غلامی سے نجات حاصل کی تھی اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے ایک نئے ملک کی حدود ابھری تھیں۔ اس ملک کے وجود میں آنے کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ جنوبی ایشیامیں کروڑوں کی تعداد میں بسنے والے مسلمان اپنا الگ تہذیبی وجود رکھتے ہیں، جداگانہ دینی شناخت سے بہرہ ور ہیں، اور اپنے عقیدہ و ثقافت کی بنیاد پر ایک مستقل نظام حیات کے حامل ہیں، اس لیے ان کی الگ قومی شناخت کا عملی اظہار ضروری ہے اور ان کی اکثریت کے علاقوں کو ایک الگ ملک کی حیثیت سے آزاد کرانا ناگزیر ہے۔ تاکہ وہ اپنے عقیدہ، ثقافت اور نظام حیات کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں اور اپنے جداگانہ نظام حیات کی عملداری کا اہتمام کر سکیں۔
’’آزادی‘‘ اور ’’اسلام‘‘ کے دو عنوانات تھے جن کے ساتھ ہم نے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان کے نام سے نئے سفر کا آغاز کیا تھا اور اس عزم کے ساتھ نئی منزل کی طرف گامزن ہوئے تھے کہ آزادی اور خود مختاری کے ثمرات و نتائج حاصل کریں گے۔ اور اسلام کی اعلیٰ و ارفع تعلیمات کی بنیاد پر ایک مثالی طرز حیات کو قومی حیثیت سے اپنا کر دنیا کے سامنے ایک آئیڈیل سو سائٹی کا نقشہ پیش کریں گے۔ لیکن نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کےبعد بھی آزادی اور اسلام کی دونوں منزلیں ہم سے دور ہیں۔ اگر آج کے حالات کا پچپن برس پہلے کے حالات کے ساتھ حقیقت پسندانہ مواز نہ کیا جائے تو اب ہم اس مقام پر بھی کھڑے نظر نہیں آتے جہاں سے ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو یہ سفر شروع کیا تھا کہ
- دینی و اخلاقی اقدار دھیرے دھیرے دم توڑتی جا رہی ہیں اور غیرت و حمیت کا جنازہ نکل گیا ہے،
- ہندو ثقافت اور مغربی تہذیب کے ملغوبے نے آکاس بیل کی طرح ہماری قومی اور معاشرتی زندگی کا احاطہ کر رکھا ہے،
- اسلام کے ساتھ دو ٹوک کمٹمنٹ اور دین و عقیدہ کی خاطر قربانی دینے کا جذبہ نہ صرف اجنبی ہوتا جا رہا ہے بلکہ اس پر ’’بنیاد پرستی‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ کے لیبل لگا کر نئی نسل کو اس سے دور رکھنے کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے،
- عالمی برادری اور بین الاقوامی نظام و قانون کے ساتھ ہم آہنگی کے نام پر قوم کو قرآن و سنت کے واضح احکام و ضوابط سے دستبردار ہونے کی تلقین کی جارہی ہے،
- اور دینی اقدار و شعائر پر کسی حد تک قائم رہنے والے حلقے رفتہ رفتہ معاشرے کے سمندر میں چھوٹے چھوٹے جزیروں کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں۔
اسلام اور آزادی کی خاطر ہمارے بزرگوں نے بڑی بڑی قربانیاں دی تھیں۔ جنگ آزادی ۱۸۵۷ء سے پہلے اور اس کے بعد ہمارے بزرگوں کا اس قدر وحشیانہ قتل عام کیا گیا تھا کہ سر عام درختوں کے ساتھ ان کی لاشیں لٹکتیں نظر آتی تھیں، انہیں کالا پانی کے جزائر کی طرف دھکیل دیا گیا تھا، تاریخی روایات کے مطابق زندہ انسانوں کو خنزیر کی کھال میں سی کر آگ میں جلا دیا گیا تھا، توپ کے منہ پر باندھ کر گولے کے ساتھ ان کے جسموں کے پرخچے اڑا دیے گئے تھے، زندہ انسانوں کو درختوں سے لٹکا کر زندہ حالت میں ان کے جسموں سے کھالیں کھینچ لی گئی تھیں، آزادی کا نام لینے والے تختۂ دار پر لٹکا دیے جاتے تھے اور اس کا مطالبہ کرنے والوں سے جیلوں کی کال کوٹھڑیاں بھر دی جاتی تھیں۔ یہ کوئی دو چار برس کی بات نہیں بلکہ دو صدیوں کا قصہ ہے جو ۱۷۸۷ء میں بنگال کے غیور نواب سراج الدولہؒ کی شہادت سے شروع ہوا اور ۱۹۴۷ء تک پورے تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ اس میں سلطان ٹیپو شہیدؒ کا نام بھی آتا ہے جس نے اپنے عظیم باپ نواب حیدر علی کی قائم کردہ ریاست سلطنت خدا داد میسور کو اسلامی حمیت اور جدوجہد آزادی کا بیس کیمپ بنا دیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں سے لڑتے ہوئے یہ کہہ کر جام شہادت نوش کیا کہ ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘
اسلام اور آزادی کے لیے دی جانے والی ان قربانیوں میں شہدائے بالاکوٹ کا تذکرہ بھی ہے جنہوں نے اسلامیان پاکستان کے دلوں میں جہاد کے جذبے کو ایک بار پھر زندہ کیا اور عملی طور پر میدان جہاد میں کود کر پشاور کے صوبے میں ۱۸۳۰ء میں اسلامی ریاست قائم کرتے ہوئے پاکستان کے قیام سے سوا سو برس قبل’’پاکستان‘‘ کا عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ اور پھر ۶ مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کر کے اپنے ہم وطنوں کو آزادی کے حصول کے لیے با وقار جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ عزیمت و استقامت کی اس تاریخ میں ایک باب شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ ، مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور ان کے رفقاء کا بھی ہے جنہوں نے قوم کے لیے آزادی حاصل کرنے کی خاطر ملکوں کی خاک چھانی، در بدر گھومے، آزادی پسند اقوام کے سامنے قوم کی غلامی کی دہائی دی، اور غلامی کی زنجیروں کو ڈھیلا کرنے کے لیے جو کچھ ان کے بس میں تھا کر گزرے۔ اس قافلے میں حضرت مولانا محمد علی جوہرؒ ، حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ، مولانا ابوالکلام آزادؒ ، حضرت مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانویؒ ، امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ اور ان کے رفقاء کار ہزاروں علماء کرام بھی شامل ہیں جن کی زندگیوں کے بہترین سال آزادی کی خاطر جیل کی کال کوٹھڑیوں میں گزرے اور جو تمام تر مصائب و مشکلات کے باوجود بلند آہنگی کے ساتھ آزادی کا نعرہ لگاتے رہے۔
آزادی اور اسلام کی خاطر قربانیاں دینے والوں میں ان لاکھوں مسلمانوں کا حصہ بھی کسی سے کم نہیں جنہوں نے اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کے لیے گھر بار چھوڑے، بے وطن ہوئے، ہزاروں نے جام شہادت نوش کیا، ہزاروں عورتوں کی عصمتیں لٹیں، ہزاروں بچے نیزوں اور تلواروں پر پروئے گئے۔ صرف اس لیے کہ وہ مسلمان تھے، اسلام کا نام لیتے تھے، اسلام کے نام پر بننے والے نئے ملک سے محبت کرتے تھے، اور ایمانی جوش وجذبہ کے ساتھ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’لے کے رہیں گے پاکستان‘‘ کے نعرے لگایا کرتے تھے۔
پاکستان کے قیام کی جدو جہد کے قائد و بانی محمد علی جناح مرحوم نے اعلان کیا تھا کہ ’’پاکستان کا دستور قرآن کریم ہوگا اور اس نئے ملک میں اسلامی نظام کی عملداری ہوگی‘‘۔ اس اعلان پر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ، علامہ شبیر احمد عثمانی ، مولانا اطہر علی ، مولانا ظفر احمد عثمانی ، مولانا مفتی محمد شفیع ، مولانا عبد الحمید بدایونی ، پیر صاحب مانکی شریف ، مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہم اللہ تعالیٰ اور ان کی قیادت میں ہزاروں علماء کرام نے پاکستان کے حق میں رائے عامہ کو منظم و بیدار کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا تھا۔ لیکن جب ان دو صدیوں پر محیط قربانیوں کے پس منظر میں ہم اپنے نصف صدی کے قومی سفر کو دیکھتے ہیں تو ندامت اور شرمساری کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ آج ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہری کہلاتے ہیں لیکن ہمارے’’اسلام‘‘ اور ’’آزادی‘‘ دونوں پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ امریکہ کی قیادت میں عالمی استعمار کے نئے اتحاد نے ہمارے’’اسلام‘‘ اور ’’آزادی و خود مختاری‘‘ دونوں کا ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور ہم بے جان پتلیوں کی طرح وائٹ ہاؤس کے اشارے پر ناچتے چلے جارہے ہیں۔
جنگ آزادی اور تحریک پاکستان کے لاکھوں شہداء و مجاہدین کی روحیں بے چین و مضطرب ہیں اور انتہائی کرب و الم کے عالم میں ہم سے سوال کر رہی ہیں کہ کیا ہماری قربانیوں اور جدو جہد کے ساتھ تم اسی طرح بے وفائی کرتے رہو گے؟ اور کیا اپنے عمل و کردار سے اسی طرح ان کا مذاق اڑاتے رہو گے؟ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم میں سے کسی کے پاس اس سوال کو سننے کی فرصت بھی ہے؟
تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضرات علماء کرام! اگست کا وسطی عشرہ چل رہا ہے، ملک بھر میں چودہ اگست کو یومِ آزادی منانے کی تیاریاں جاری ہیں اور ان دنوں تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان وغیرہ کا تذکرہ ہوتا ہے، آج کی گفتگو انہی دو تین حوالوں سے ہو گی۔
۱۴ اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے کوئی ملک موجود نہیں تھا۔ اس سے پہلے یہ سارا خطہ جو جنوبی ایشیا کہلاتا ہے یعنی پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش، برما، نیپال، یہ برطانوی حکومت کے کنٹرول میں تھا اور اس کی نوآبادی تھی۔ برطانیہ یہاں نوے سال سے حکمران تھا، یہاں ملکہ برطانیہ کا حکم چلتا تھا اور وہ وائسرائے کے ذریعے حکمرانی کرتی تھی۔ اس سے پہلے سو سال یہ خطہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر تسلط رہا ہے۔ برطانوی حکومت کی راجداری ۱۸۵۷ء میں قائم ہوئی تھی، جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف یہاں بغاوت ہوئی تو برطانوی حکومت نے ایسٹ انڈیا کمپنی کو درمیان سے نکال کر براہ راست اقتدار سنبھال لیا۔ اس طرح ایک سو نوے سال اس خطے کے لوگوں نے برطانوی غلامی میں گزاری ہے۔
برطانیہ کو جب یہ خطہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تو یہاں کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے مطالبہ کیا کہ ہم ہندوستان میں ہندوؤں کے ساتھ ایک ہی ملک میں اکٹھے نہیں رہ سکتے لہٰذا ہمیں الگ ملک دیا جائے۔ پاکستان کے نام سے ایک الگ ریاست بنانے کا فیصلہ ہوا تاکہ مسلمان جس خطے میں اکثریت میں ہیں وہ وہاں اپنی مرضی کے ساتھ رہ سکیں اور اپنی تہذیب کو باقی رکھ سکیں۔ یوں ایک سو نوے سال کی غلامی کے بعد ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان الگ ریاست کے طور پر برطانوی اقتدار سے آزاد ہوا اور اس سے اگلے دن ۱۵ اگست کو باقی ہندوستان بھی برطانوی راجداری سے آزاد ہو گیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی یہاں کیسے آئی اور ہماری غلامی کی ابتدا کیسے ہوئی، اس کا پس منظر بھی جاننا چاہیے۔ یہاں اس وقت مغلوں کی حکمرانی تھی۔ سولہویں صدی کے آغاز میں دہلی میں ظہیر الدین بابر کی حکومت تھی۔ پھر اس کا بیٹا ہمایوں آیا جس کے مقابلے میں شیر شاہ سوری کی قوت تھی۔ ہمارے ہاں حملہ آور اور قابض یا حکمران دو راستوں سے آئے: ایک کابل اور دوسرا قندھار۔ کابل کے راستے سے آنے والے زیادہ تر ترک تھے اور قندھار کے راستے سے آنے والے زیادہ تر پٹھان تھے۔ یہ طالبان اور شمالی اتحاد طرز کی پرانی کشمکش چلی آ رہی ہے۔ اس وقت مغل وغیرہ شمالی اتحاد تھا، اور شیر شاہ سوری اور محمود غزنوی پٹھان تھے۔ ترکمانستان اور سنکیانگ سے لے کر ترکی تک کے لوگ ترکمان اور فارسی بان کہلاتے ہیں۔
شیر شاہ سوری اور ہمایوں کی ٹکر ہوئی جسے پانی پت کی پہلی لڑائی کہتے ہیں، اس میں شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو شکست دی اور دہلی کے اقتدار پر قبضہ کر لیا، جو چھ سات سال سے زیادہ نہیں رہا، اس کی وفات کے بعد اس کے بیٹے آئے اور چودہ پندرہ سال اس کے خاندان نے یہاں اقتدار کیا، یہ سوریوں کا دور تھا۔ ہمایوں نے یہاں سے بھاگ کر سندھ امر کوٹ میں پناہ لے لی تھی، وہیں اکبر بادشاہ پیدا ہوا۔ شیر شاہ سوری نے مغلوں سے حکومت چھینی، پھر مغل صفویوں کی مدد سے واپس آئے۔ صفوی خاندان ایران کے حکمران کے طور پر بڑی طاقتور حکومت گزری ہے، اور ایران کو سنی اکثریت سے شیعہ اکثریت میں تبدیل کرنے والے صفوی حکمران ہی ہیں، ان کا عروج کا زمانہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شیر شاہ سوری نے مغلوں کو شکست دی تھی تو ہمایوں نے صفویوں سے مدد مانگی کہ ہماری مدد کرو تاکہ ہماری حکومت بحال ہو۔ اس کی درخواست پر صفوی مدد کے لیے آئے اور انہوں نے شیر شاہ سوری کے بیٹے کو شکست دے کر دوبارہ دہلی کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ یہ پندرہ سولہ سال کا درمیان میں خلا ہے ورنہ مغل حکومت ظہیر الدین بابر سے چلی آ رہی تھی۔
ہمایوں کے بعد اکبر بادشاہ، پھر جہانگیر، پھر شاہجہان، پھر اورنگزیب عالمگیر، یہ مغلوں کا تسلسل چلا آتا تھا۔ اکبر بہت طاقتور حکمران تھا اور برصغیر کے بڑے حصے پر اس کی حکومت تھی۔ اکبر کا ’’دینِ الٰہی‘‘ ایک مستقل نیا مذہب تھا جو مختلف مذاہب کا ملغوبہ تھا ۔ اکبر اور اورنگزیب مغلوں کے دو بڑے حکمران شمار ہوتے ہیں۔ اورنگزیب خالصتاً حنفی سنی اور بڑا غیرت مند مسلمان تھا اور یہی مغلوں کا آخری طاقتور حکمران تھا جس نے پچاس سال برصغیر کے اس پورے خطے پر حکومت کی ہے۔
اورنگزیب کی داراشکوہ کے ساتھ جنگ میں حضرت شاہ ولی اللہؒ کے دادا شیخ شجاع مرحوم اورنگزیب کے ساتھ تھے۔ اورنگزیب نے پانچ سو علماء کی جو کونسل بنائی تھی جس نے فتاویٰ عالمگیری مرتب کیا، حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والد حضرت شاہ عبد الرحیمؒ اس کونسل کے رکن تھے ۔
اورنگزیب کے بعد مغلوں کا ستیاناس ہو گیا، اس کا بیٹا معظم شاہ جب بہادر شاہ اول کے نام سے اورنگزیب کے تخت پر بیٹھا تو ہر چیز ختم ہو گئی۔ ایک تو یہ کہ نااہل آدمی تھا، اپنے مقبوضہ علاقوں کو سنبھال نہیں سکا، چاروں طرف بغاوت پھیل گئی۔ اور دوسرا طوفان اس نے یہ مچایا کہ تخت پر بیٹھتے ہی شیعہ ہونے کا اعلان کر دیا، اس نے اذان میں ’’علی ولی اللہ، وصی رسول اللہ‘‘ پڑھنے کا حکم دیا اور خطبہ جمعہ و عیدین میں خلفاء ثلاثہ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ کا نام لینا جرم قرار دیا۔ اس پر ہر طرف افراتفری پھیلی، لاہور کئی دن تک ہنگاموں کی زد میں رہا، بہت سے افراد شہید ہوئے۔ بہرحال اس کی نااہلی اور مذہب کی تبدیلی وغیرہ مغل حکومت کی تباہی کا سبب بنی۔
اس دوران پنجاب میں سکھ منظم ہو گئے اور جنوبی ہند سے انتہا پسند ہندو مرہٹے منظم ہو کر دہلی کی طرف بڑھنا شروع ہو گئے۔ اس دور میں انگریز آچکا تھا کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ کی زندگی میں ہی ۱۷۵۷ء میں انہوں نے یہاں رخ کر لیا تھا۔ انگریز کے آنے کی ترتیب بھی مختصراً عرض کر دیتا ہوں۔ اٹلی، ہالینڈ، فرانس، برطانیہ اور پرتگال کے تاجر تجارت کے لیے یہاں آتے تھے۔ اکبر کے دور سے یہ سلسلہ جاری تھا۔ ان کی طریقہ کار یہ تھا کہ پہلے انہوں نے بادشاہوں سے تجارت کے اجازت نامے حاصل کیے، پھر ٹیکسوں میں سہولتیں مانگیں اور تحفظ کا مطالبہ کیا۔ ظاہر بات ہے کہ جب بین الاقوامی تاجر آئے گا تو سامان کے تحفظ کے لیے گودام وغیرہ کی ضرورت ہو گی، چنانچہ بڑے شہروں میں مراکز قائم ہوئے جن کو فرنگی کوٹھیاں اور فرنگی محل کہا جاتا تھا۔
ہمارے فرنگی محلی علماء کا پس منظر بھی ایسا ہی فرنگی محل تھا۔ لکھنؤ میں ایک بڑے فرانسیسی تاجر کا محل تھا، وہ فوت ہوا تو لاوارث ہونے کی وجہ سے وہ کوٹھی حکومت کے قبضے میں چلی گئی۔ ملا نظام الدین سہالویؒ ملا قطب الدین شہیدؒ کے بیٹے تھے اور علاقے میں ان کا سادات کے ساتھ جھگڑا تھا۔ بعض اسے شیعہ سنی جھگڑا کہتے ہیں اور بعض سادات اور انصاریوں کا جھگڑا کہتے ہیں۔ اس میں سادات سہالہ میں غالب آ گئے، ملا قطب الدین کو شہید کر دیا، ان کے مکانات جلا دیے اور جائیداد پر قبضہ کر لیا۔ یہ جلا وطن ہو کر لکھنؤ آ گئے۔ یہ اورنگزیب کا زمانہ تھا۔ اورنگزیب نے فرانسیسی تاجر کی لاوارث کوٹھی ان کے حوالے کر دی کہ یہاں مدرسہ بنائیں۔ اس درس گاہ سے فرنگی محلی علماء شروع ہوئے، مثلاً مولانا عبد الحی لکھنویؒ، مولانا عبد الحلیم لکھنویؒ، امام اہلسنت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ یہ سب فرنگی محلی علماء کہلاتے ہیں۔ اب تک یہ سلسلہ جاری ہے اور اب بھی وہ مدرسہ بھارت کے بڑے دینی مراکز میں سے ہے۔
بہرحال ایسٹ انڈیا کمپنی نے مختلف شہروں میں مراکز بنائے تو ان کو ضرورت پیش آئی کہ مراکز کی حفاظت کے لیے فورس بھی ہونی چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں تحفظ کے لیے اپنی چھوٹی چھوٹی فوجیں بنانے کی اجازت دی جائے۔ انڈیا میں اس قسم کی بہت سی کوٹھیاں تھیں اور ہر کوٹھی کے لیے اگر دو سو آدمی بھی ہوں تو مجموعی طور پر ہزاروں بن جاتے ہیں۔ یوں آہستہ آہستہ انہوں نے منظم ہونا شروع کیا۔ جس کے پاس چار پیسے ہوں وہ علاقے میں بااثر ہوتا ہے، اس لیے کافی عرصے سے علاقے میں تجارت کرتے ہوئے ان کا اثر و رسوخ قائم ہو چکا تھا۔ ادھر سے ان کے رابطے اور طاقت مضبوط ہوتی گئی اور ادھر سے بہادر شاہ اول نے لُٹیا ڈبو دی اور ملک میں افراتفری پھیل گئی، تقریباً بغاوت کی کیفیت پیدا ہو گئی۔
انگریزوں کی حکومت کا نقطہ آغاز یہ تھا کہ ۱۷۵۷ء میں بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مراکز تھے۔ بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہؒ ان کو پسند نہیں کرتے تھے اور انہوں نے آہستہ آہستہ ان پر پابندیاں لگانا شروع کر دی تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی منظم ہو چکی تھی اور برطانیہ سے بھی ان کا رابطہ تھا بلکہ یہ اس کی نمائندہ تھی۔ نواب سراج الدولہ کی پابندیوں کے خلاف ایسٹ انڈیا کمپنی نے بغاوت کی اور لڑائی ہوئی، ان کے وزیر اعظم میر جعفر نے انگریزوں سے ساز باز کر کے نواب سراج الدولہ کو شہید کروایا اور انگریزوں کا بنگال پر قبضہ ہو گیا۔ یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا پہلا قبضہ تھا۔
انگریزوں نے آگے بڑھنا شروع کیا، ملک بھر میں ان کی کمپنیاں موجود تھیں، چھوٹی چھوٹی فوجیں موجود تھیں اور ان کے تعلقات بھی تھے۔ پھر ۱۷۶۴ء میں بکسر کی جنگ ہوئی۔ شجاع الدولہ لکھنؤ کے نواب تھے اور شاہ عالم ثانی مغل حکمران تھا۔ یہ آپس میں ملے کہ انگریزوں کو نکالنے کی ایک کوشش اور کرتے ہیں، چنانچہ انہوں نے بغاوت کی اور بکسر کے مقام پر جنگ ہوئی لیکن ان کو بھی شکست ہو گئی۔ انگریزوں نے شاہ عالم ثانی کو تھوڑا سا علاقہ دے کر تخت پر بٹھا دیا تھا، مہر اس کی ہوتی تھی اور اس کے نام پر انگریز حکومت کرتے تھے۔ اس زمانے میں محاورہ مشہور تھا ’’سلطنتِ شاہ عالم از دہلی تا پالم‘‘ ۔ دہلی سے آٹھ دس میل دور پالم کا قصبہ ہو گا، جو کہ اب دہلی کا انٹرنیشنل ایئر پورٹ ہے۔ ۱۷۶۵ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے شاہ عالم ثانی سے معاہدہ کیا تھا جس کا اعلان ان جملوں میں تھا: ’’زمین خدا کی، مملکت بادشاہ کی، حکم کمپنی بہادر کا‘‘ یعنی ایسٹ انڈیا کمپنی کا حکم اور انتظام چلے گا۔
انگریزوں کی تیسری بڑی جنگ ۱۸۰۱ء میں سلطان ٹیپو سے ہوئی۔ جنوبی ہند میں ’’سلطنتِ خداداد میسور‘‘ ایک بڑی سلطنت تھی جو سلطان ٹیپو کے والد سلطان حیدر علی نے قائم کی تھی، پھر فتح علی ٹیپو نے حکومت سنبھالی جو کہ بڑے دیندار اور مجاہد آدمی تھے، انہوں نے کوشش کر کے سلطنت منظم کی اور لوگوں کو ساتھ ملایا۔ ان کا ہدف بھی یہ تھا کہ انگریزوں کو واپس نہیں دھکیل سکتے تو کم از کم میسور سے آگے بڑھنے سے روکیں۔ نتیجتاً یہاں بھی جنگ ہوئی اور سلطان ٹیپو شہید ہو گئے۔ اس موقع پر انگریز کمانڈر نے ان کی لاش پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے، اس لیے کہ اب ان کے لیے کوئی بڑی رکاوٹ نہیں رہی تھی۔
اس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال، دہلی اور پھر میسور پر قبضہ کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہمارے علمی دنیا کے فرمانروا شاہ عبد العزیزؒ تھے، دہلی میں مدرسہ رحیمیہ کے استاد اور حضرت شاہ ولی اللہؒ کے جانشین تھے۔ انہوں نے ان حالات میں کہ دہلی پر بھی انگریزوں کی حکمرانی قائم ہو گئی ہے، قانون ان کا چلتا ہے، نصاریٰ کا تغلب ہو گیا ہے اور اسلامی قوانین و احکام جو پہلے تھے اب ختم ہو گئے ہیں، اس لیے ۱۸۲۲ء میں انڈیا کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا کہ اب اس ملک کی آزادی کے لیے اور انگریزوں کو نکالنے کے لیے جہاد فرض ہو گیا ہے۔ فتاویٰ عزیزی میں یہ فتویٰ موجود ہے جو کہ اصل میں فارسی میں ہے، اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے، چنانچہ اس فتویٰ پر آزادی کی مسلح اور غیر مسلح تحریکیں منظم ہوئیں۔
ایک دور مسلح تحریکات کا ہے جس میں شہداء بالاکوٹ کی تحریک، بنگال میں حاجی شریعت اللہ، سندھ میں پیر آف پگارا، پنجاب میں سردار احمد خان کھرل اور سرحد میں حاجی صاحب فقیر ایپی، حاجی صاحب ترنگزئی کی تحریکات تھیں۔ ان مسلح تحریکات کا آخری اسٹیج تحریک ریشمی رومال تھا جو کہ ایک متحدہ محاذ تھا۔ شیخ الہندؒ نے اس کی قیادت کی۔ اس میں ہندو بھی تھے، مسلمان بھی اور مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر تھے۔ بین الاقوامی محاذ تھا جس میں جرمنی، جاپان، خلافت عثمانیہ اور افغانستان بھی شریک تھے۔ شیخ الہندؒ نے ایک پورا جال تنا تھا اور بغاوت کا پروگرام بنایا تھا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکا، اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ شیخ الہندؒ کو مکہ مکرمہ سے گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا اور مالٹا جزیرے میں قید رکھا گیا۔ اس وقت پنجاب کا گورنر تھا جنرل ایڈوائر، اس کی یادداشتیں چھپ گئی ہیں، وہ کہتا ہے کہ یہ تحریک میں نے سبوتاژ کی تھی، اس کا کہنا یہ ہے کہ یہ اتنی منظم تحریک تھی کہ اس میں کہیں کوئی خلا ہمیں محسوس نہیں ہوتا تھا، لیکن اللہ کو منظور نہیں تھا تو ناکام ہو گئی۔ بیسیوں مسلح تحریکات ہیں جن میں لوگوں نے ہتھیار اٹھائے، جنگیں لڑیں، علاقے آزاد کروائے، حکومتیں قائم کیں، ان میں سے ہر ایک کی مستقل تاریخ ہے۔
شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ جب مالٹا سے واپس آئے تو انہوں نے جدوجہد کا رخ مسلح تحریک سے پرامن تحریک کی طرف موڑ دیا اور فرمایا اب ہتھیار اٹھا کر ہم نہیں جیت سکتے، اب ہمیں پرامن سیاسی جدوجہد کرنا ہو گی۔ وہاں سے پرامن سیاسی تحریکات کا دور شروع ہوا۔ غیر مسلح تحریک کا مطلب ہوتا ہے عوامی قوت کے ساتھ حکومت کو مجبور کرنا۔ لیکن ان دونوں قسم کی تحریکات کی بنیاد شاہ عبد العزیزؒ کا فتویٰ تھا کہ آزادی حاصل کرنا فرض ہے۔ اس زمانے میں حضرت مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ نے بھی ایک فتویٰ صادر کیا تھا۔ یہ بھی شاہ ولی اللہؒ کے شاگرد ہیں اور شاہ عبد العزیزؒ کے ہم جماعت اور معاصر تھے، بڑی علمی شخصیت تھے جس کا اندازہ ان کی تفسیرِ مظہری سے کیا جا سکتا ہے۔ اب ان دونوں فتووں پر بحث ہے کہ پہلے کون سا تھا؟ تین سال قبل مجھے انڈیا جانے کا اتفاق ہوا۔ کاندھلہ گیا تو مولانا نور الحسن راشد جو وہاں کے محقق فاضل ہیں ان کے پاس میں نے قاضی صاحبؒ کا فتویٰ دیکھا۔ شاہ عبد العزیزؒ کا فتوٰی تو فتاویٰ عزیزی میں چھپا ہوا ہے، جبکہ قاضی صاحبؒ کا فتویٰ اس سے زیادہ مفصل، واضح اور دو ٹوک بھی ہے لیکن وہ مطبوعہ نہیں ہے بلکہ قلمی ہے۔
یہ غیر مسلح پرامن تحریکات کا دوسرا دور جو شیخ الہندؒ کے بعد شروع ہوا، اس میں ’’تحریکِ خلافت‘‘ سب سے بڑی تحریک تھی جو ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کو بچانے کے لیے تھی۔ تقریباً ایک سو سال پہلے کی بات ہے، جنگِ عظیم اول میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا جس میں جرمنی کو شکست ہوئی تو ترکی کو بھی شکست ہو گئی اور متحدہ یورپی فوجوں نے جرمنی کے ساتھ خلافتِ عثمانیہ کے علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا۔ مصر، عراق، فلسطین، شام پر قبضہ ہو گیا، کسی پر فرانس، کسی پر اٹلی اور کسی پر برطانیہ نے قبضہ کر لیا۔ اس کے نتیجے میں خلافتِ عثمانیہ ختم ہو گئی اور معاہدہ لوزان ہوا۔ مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ، مولانا ظفر علی خانؒ، یہ سب حضرت شیخ الہندؒ کے معتقدین تھے۔ حضرت شیخ الہندؒ جب جیل سے رہا ہو کر واپس آئے تو دیوبند اور علی گڑھ گئے، دونوں کو ملانے کی کوشش کی اور کہا کہ نئے تعلیم یافتہ طبقے کو آزادی کی جنگ کے لیے تیار کرو۔ یہ شیخ الہندؒ کی اس فکر اور محنت کا نتیجہ تھا کہ مولانا محمد علی جوہرؒ، مولانا شوکت علیؒ، مولانا ظفر علی خانؒ جو خالصتاً گریجویٹ اور علی گڑھی تھے لیکن مولانا کہلاتے ہیں حالانکہ انہوں نے کسی مدرسے سے نہیں پڑھا۔ یہ تینوں ہمارے قومی لیڈر ہیں جو علی گڑھ سے نکلے اور تحریکِ خلافت شروع ہوئی۔
ترکی کی خلافت پر متحدہ یورپی فوجوں نے جو قبضہ کیا تھا تو وہ ترکی کو بھی تقسیم کرنا چاہتے تھے چنانچہ ہندوستان میں اس کی حمایت میں یہ تحریک چلی تھی۔ مولانا محمد علی جوہر گرفتار ہوئے تو ان کی والدہ میدان میں آ گئیں اور تقریریں کرتی تھیں، ’’ بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو‘‘ ان کا بڑا مشہور ترانہ ہے۔ اس تحریک نے پورے جنوبی ایشیا میں سیاسی فکر کو منظم اور بیدار کیا۔ یہ ام التحاریک ہے جس نے سیاسی ذوق پیدا کیا۔ جلسہ، جلوس، احتجاج، قید، جیل یہ پورا کلچر ہے۔ ایک سو سال اس کلچر نے ہم پر حکمرانی کی ہے کہ ہتھیار نہ سہی، احتجاج سہی، قتل نہ سہی، جیل سہی۔ تحریکِ خلافت کی کوکھ سے ہی مسلم لیگ، مجلس احرار اسلام، جمعیت علماء ہند اور کانگرس نے جنم لیا۔ جو جذبہ تحریکِ خلافت نے پیدا کیا تھا اس جذبے کو انہوں نے کیش کروایا۔
مولانا جوہرؒ عجیب مردِ حر تھا۔ برطانوی حکومت نے مذاکرات کے لیے لندن بلایا، وہاں تشریف لے گئے اور پھر کہا کہ میں غلام ملک میں واپس نہیں جانا چاہتا، مجھے آزادی کا پروانہ دو یا مجھے قبر کی جگہ دو۔ اللہ کی قدرت کہ ان کی بات ایسے قبول ہوئی کہ واپسی کے راستے میں عدن میں فوت ہو گئے اور ان کی قبر بیت المقدس قبرستان ابراہیمی میں حضرت ابراہیمؑ کے قدموں میں ہے، اللہ پاک نے ان کو یہ اعزاز بخشا۔
اس تحریک میں ہندو، سکھ، مسلمان سبھی شریک تھے اور سارے ملک میں ایک ہلچل مچ گئی تھی۔ اس تحریک سے سب سیاسی جماعتوں نے جنم لیا۔ مجلس احرار اسلام کا میں تھوڑا سا پس منظر عرض کر دوں۔ ادھر ترکوں نے خلافتِ عثمانیہ ختم کر دی تو یہاں تحریکِ خلافت بھی ختم ہو گئی کہ یہ تو بنی ہی اس کے تحفظ کے لیے تھی۔ لیکن پنجاب کی خلافت کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ہم ختم نہیں ہوں گے بلکہ نئے نام سے کام کریں گے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا حبیب الرحمٰن لدھیانویؒ، چوہدری افضل حق مرحوم نے ’’مجلس احرار اسلام‘‘ کے نام سے کام شروع کیا، ان جماعتوں نے آزادی کے لیے جدوجہد کی۔ جلسے، جلوس، گرفتاریاں سب کچھ ہوا۔ ہم تصور نہیں کر سکتے کہ ہمارے ان قائدین نے آزادی کی جنگ کے لیے کتنے کتنے سال جیلیں کاٹی ہیں اور عوام کا جذبہ بیدار کیا ہے۔
اس وقت کے جوش و خروش کا ایک پہلو دیکھیں کہ ۱۹۳۱ء کی بات ہے مقبوضہ کشمیر میں ڈوگرہ حکومت تھی۔ انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی تو مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے، سری نگر کے مسلمانوں کی اپنے ڈوگرہ نواب کے خلاف مقامی تحریک تھی، مجلس احرار نے اس کی حمایت کا اعلان کر دیا اور پورے ملک سے کشمیری حریت پسندوں کی اس تحریک کی حمایت میں تیس ہزار کے لگ بھگ رضاکار گرفتار کروائے۔ عجیب غلغلہ ہوتا تھا، اب تو فضا بدل گئی ہے، پہلے تو جس سیاسی کارکن نے جیل نہیں کاٹی ہوتی تھی اس کو غیر مستند سمجھا جاتا تھا اور ہمارے دور تک یہ بات رہی ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں اگر کسی تبلیغی نے چار ماہ نہ لگائے ہوں تو وہ غیر مستند تبلیغی ہوتا ہے۔ مسجد نور کی تحریک تک اور تحریک نظامِ مصطفٰی تک گرفتار ہونا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔
ہمارے گوجرانوالہ میں بھی مختلف تحریکیں چلتی رہیں، تحریکِ ختمِ نبوت، تحریکِ نظامِ مصطفیٰ، تحریکِ مسجد نور وغیرہ۔ ہم پانچ سات آدمیوں کا گروپ ہوتا تھا علامہ محمد احمد لدھیانوی، ڈاکٹر غلام محمد، صوفی حسین احمد، مولانا گل محمد توحیدی رحمہم اللہ تعالیٰ، ہم میں سے ہر آدمی باری باری گرفتار ہوا ہے۔ ڈاکٹر غلام محمد مرحوم تحریک میں ہمارے پیش پیش ہوتے تھے، بڑے اچھے مخلص ساتھی تھے، ہماری بہت سی تحریکات میں بنیادی کردار ادا کیا، ان کے خلاف مقدمے بنتے تھے لیکن گرفتار نہیں ہوتے تھے اور ہر دفعہ کسی طریقے سے بچ جاتے تھے۔ ایک دفعہ ہم نے فیصلہ کیا کہ ڈاکٹر صاحب کو گرفتار کروانا چاہیے۔ ایک مقدمہ ہم نے تلاش کیا کہ ان کے خلاف یہ مقدمہ ہے جس میں انہوں نے ضمانت نہیں کروائی۔ چوکی تھانہ گھنٹہ گھر ہوتی تھی تو ہم ساتھی ڈاکٹر صاحب کو وہاں لے کر گئے اور اے ایس آئی کے حوالے کیا کہ فلاں مقدمے میں یہ آپ کا مجرم ہے اس کو پکڑ لو۔ وہ کہنے لگا یہ آپ کیا مذاق کر رہے ہیں، آرام سے گھر جاؤ، اس نے ڈاکٹر صاحب کو گرفتار نہیں کیا۔ ڈاکٹر صاحب کہنے لگے، کرا لو مجھے گرفتار۔ بہرحال اس دور کا کلچر یہ تھا کہ کسی دینی جدوجہد کے لیے گرفتار ہونا اعزاز سمجھا جاتا تھا اور سند ہوتی تھی کہ یہ پکا سیاسی کارکن ہے۔ مجھے بھی یہ سند ۱۹۷۶ء میں مسجد نور کی تحریک میں ملی تھی۔ سیاسی تحریکات میں میرے سب سے بڑے استاد نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم تھے۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد برطانیہ اگرچہ فاتح تھا لیکن کمزور ہو گیا تھا۔ پہلوان فتح تو پا لیتا ہے لیکن اس کا اپنا جو حال ہوتا ہے وہ بعد میں پتہ چلتا ہے جب ٹھنڈی دردیں اٹھتی ہیں۔ برطانیہ اب قیادت کا اہل نہیں رہا تھا۔ اس وقت آزادی کی تحریکات میں زیادہ قوت کے ساتھ ہمارے بزرگوں نے جوش و خروش پیدا کیا تو برطانیہ نے یہاں سے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ ہے تحریکِ آزادی کا پس منظر۔
تحریکِ پاکستان کا آغاز کہاں سے ہوا، اس کا پس منظر میں نے واقعات کی روشنی میں ذکر کیا ہے۔ ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ہر بات جذبات کی روشنی میں کرتے ہیں تبھی ہمیں پوری بات سمجھ نہیں آتی۔ کسی بھی بات کا تجزیہ حقائق و واقعات کی روشنی میں کرنا چاہیے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد یہاں براہ راست تاج برطانیہ کی حکومت آ گئی تو اب تحریکات میں ہمارا مطالبہ یہ ہوتا تھا کہ ہمیں کم از کم اندرونی خود مختاری دو، اوپر جو مرضی کرو لیکن یہاں کی مقامی حکومت تو ہمیں دو۔
۱۸۵۷ء سے پہلے ایک ہزار سال تک طریقہ کار یہ تھا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ ہم نے ہزار سال تک اکثریت کی بنیاد پر یہاں حکومت نہیں کی، اکثریت ہماری کبھی بھی نہیں رہی۔ لودھیوں، غزنویوں اور مغلوں نے طاقت کے زور سے حکومت کی ہے اور طاقت کے ذریعے ہی ان سے چھینی گئی ہے۔ لیکن اب دنیا کا ماحول یہ بن چکا تھا کہ حکومت طاقت کے زور سے نہیں بلکہ ووٹ کے ذریعے بنے گی، اب جس کی اکثریت ہو گی وہ حکومت کرے گا۔ یورپ میں انقلابِ فرانس ۱۷۹۰ء کے بعد یہ رجحان آ گیا تھا اور یہ کلچر مستحکم ہوتا جا رہا تھا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد کچھ مفکرین نے ، جن کے سرخیل سرسید احمد خان ہیں، یہ بات کی کہ اگر آئندہ فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہونے ہیں تو اکثریت ہندوؤں کی ہے، انگریز جب بھی برصغیر سے جائے گا تو حکومت ہندوؤں کو دے کر جائے گا، ہم دوسرے درجے کے شہری ہو جائیں گے، ہماری کوئی حیثیت نہیں ہو گی، اس لیے ہمیں الگ اپنی حیثیت منوانی چاہیے اور اپنا الگ وجود تسلیم کروانا چاہیے۔ ہندوؤں کی اب بھی جنوبی ہند میں اکثریت ہے، وہ تقریباً ایک ارب سے زیادہ ہیں اور ہم ملا جلا کر بھی ساٹھ کروڑ نہیں ہیں۔
یہ ہے جداگانہ قومیت اور دو قومی نظریے کی بنیاد کہ مسلمان مستقل قوم ہیں اور انگریزوں سے یہ مطالبہ تھا کہ ہمیں ہندوؤں سے الگ ایک مستقل قوم کے طور پر معاملہ کیا جائے، جداگانہ انتخابات کیے جائیں، ہماری سیٹیں ہمارے تناسب کے لحاظ سے الگ ہوں وغیر ذالک۔ سر سید، نواب بہادر یار جنگ، آغا خان، اقبال، قائد اعظم اور مسلم لیگ کے دیگر راہنما ، پھر اکابر علماء میں حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور علامہ شبیر احمد عثمانیؒ و دیگر نے جداگانہ مسلم قومیت کا نظریہ پیش کیا کہ ان کے ساتھ اقلیت میں رہنے سے بہتر ہے کہ ہمیں اپنی الگ حیثیت منوانی چاہیے۔
دوسری طرف ہماری بڑی سیاسی طاقت جمعیت علماء ہند تھی، اس کا موقف قیامِ پاکستان تک یہ رہا کہ الگ ہونے کا فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس طرح ہم تقسیم ہو جائیں گے، اکٹھے رہ کر ہی حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور ہماری یہ حیثیت ہے کہ ہندوستان کے مجموعی ماحول میں توازن اپنے ہاتھ میں رکھ سکتے ہیں، اس لیے ہندوستان متحد رہنا چاہیے۔
بہرحال اس کشمکش میں تحریکِ پاکستان کا آغاز ہوا۔ الگ ملک کا تصور سب سے پہلے علامہ اقبالؒ نے پیش کیا کہ جن علاقوں میں مسلم اکثریت ہے ان کو ایک مستقل اسلامی ریاست کے طور پر آزاد قرار دیا جائے۔ انگریز سے مطالبہ تھا کہ جب جاؤ تو ہمیں ان کے ساتھ جوڑ کر نہ جانا بلکہ ہمیں الگ کر کے جانا۔ ہماری اکثریت یہاں شمالی ہند اور مشرقی بنگال میں تھی، درمیان میں ہندو اکثریت کا علاقہ تھا۔ پاکستان کا نام چوہدری رحمت علی مرحوم نے تجویز کیا تھا لیکن اس کو منظم طریقے سے علمی اور فکری طور پر اقبالؒ نے پیش کیا۔ اس کو اپنی تحریک کا ہدف مسلم لیگ اور قائد اعظم نے بنایا تھا۔ مسلم لیگ نے ۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور کے منٹو پارک میں اجتماع کر کے ایک قرارداد کے ذریعے اس کو اپنا مشن بنا لیا کہ ہم نے پاکستان بنانا ہے۔
علماء کی قوت دو حصوں میں بٹ گئی، اس کی جمہور اکثریت تو ادھر ہی رہی کہ پاکستان کے نام سے تقسیم نہیں ہونی چاہیے، لیکن حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ، مولانا مبین خطیبؒ، مولانا غلام مرشدؒ وغیرہم کا پورا حلقہ پاکستان کی حمایت میں مسلم لیگ کے ساتھ تھا۔ یہ ہماری آپس کی چپقلش رہی ہے کہ بعض پاکستان کے حق میں تھے اور بعض نہیں تھے۔ بہرحال ۱۹۴۷ء میں پاکستان بن گیا۔ مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان۔
پاکستان بننے کے بعد مسلم آبادی ادھر منتقل ہوئی تو قتل عام بھی بہت زیادہ ہوا، جو تحریک کی وجہ سے نہیں بلکہ آبادی کے انتقال کی وجہ سے ہوا۔ وہاں سے مسلمان اِدھر آئے، یہاں سے ہندو اُدھر گئے۔ لاکھوں مسلمان بے گھر ہوئے اور ہزاروں شہید ہوئے کہ ہم نے پاکستان میں جانا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد ہمارے وہ اکابر جنہوں نے پاکستان کے قیام کی مخالفت کی تھی ان میں نمائندہ دو نام تھے حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ۔ حضرت مدنیؒ وہیں رہ گئے تھے جبکہ شاہ جیؒ یہاں آ گئے تھے۔ امرتسر سے ملتان آ گئے تھے اور انہوں نے لاہور دہلی دروازے میں احرار کے زیر اہتمام پبلک جلسہ کر کے اعلان کر دیا کہ عوام نے ہماری رائے کے مقابلے میں مسلم لیگ کی رائے قبول کی ہے، ہم اپنی شکست قبول کرتے ہیں ، اب پاکستان ہمارا وطن ہے، اس کا استحکام اور سالمیت وبقا ہماری ذمہ داری ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کے استحکام کے تحفظ کی کانفرنس احرار نے لاہور میں کی۔
ایک بڑا حلقہ حضرت مدنیؒ کا شاگرد تھا۔ میرے والد گرامی بھی ان کے شاگرد تھے اور جماعتی طور پر احرار میں تھے۔ میرے چچا محترم صوفی عبد الحمید سواتیؒ جمعیت علماء ہند میں تھے، مفتی عبد الواحد صاحبؒ بھی اسی کیمپ میں تھے۔ اہلحدیث کے بڑے عالم مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ بھی کانگریسی تھے۔ یہ سب اکٹھے تھے۔ اب انہوں نے حضرت مدنیؒ سے رہنمائی مانگی تو انہوں نے فرمایا کہ اب تم پاکستانی ہو اور پاکستان آپ کا ہے۔ اب اس ملک کی حفاظت و سالمیت اور اس کی خدمت آپ کی ذمہ داری ہے۔ اس پر حضرت مدنیؒ نے ایک مثال دی۔ مولانا قاضی زاہد الحسینیؒ نے حضرت مدنیؒ کی زندگی پر ’’چراغِ محمد‘‘ کتاب لکھی، اس میں اس خط کا میں نے مطالعہ کیا تھا جس میں تھا کہ مسجد بننے سے پہلے اس میں اختلافِ رائے ہو سکتا ہے کہ مسجد کا نقشہ کیسا ہو یا اس کا رقبہ کتنا ہو، لیکن جب ایک فریق غلبہ پا لے اور اس کی رائے کے مطابق مسجد بن جائے تو اب وہ سب کے لیے مسجد ہے، اختلاف کرنے والے فریق کے لیے بھی مسجد ہے، وہ وہیں نماز پڑھیں گے اور اس کی حفاظت و احترام بھی کریں گے۔
دوسری مثال جو شاہ جیؒ نے دی وہ بڑی عجیب مثال تھی۔ وہ یہ کہ بچے کا رشتہ کرنے میں ماں باپ کا اختلاف ہو گیا، جھگڑا چلتا رہا، بالآخر اس میں ماں غالب آ گئی اور اس نے اپنی مرضی کے مطابق رشتہ کروا لیا۔ باپ اتنا سخت ناراض ہوا کہ شریک بھی نہیں ہوا، لیکن جب وہ لڑکی بہو بن کر گھر آ گئی تو وہ لڑکے کے والد کی بھی بہو ہے۔ اب اس بہو کی عزت کی حفاظت کرنا اس کی بھی ذمہ داری ہے، اس کی عزت کو کوئی خطرہ ہوگا تو یہ ناراض سسر آگے آئے گا کہ یہ میری بہو ہے، میری عزت ہے۔ اسی طرح پاکستان ہماری مرضی کے خلاف بنا ہے لیکن یہ ہماری عزت ہے اور ہمارا وطن ہے، ہم اس کے استحکام و سالمیت کے داعی ہیں۔ اس وقت سے الحمد للہ بحیثیت طبقہ ملک کا کوئی طبقہ بھی ملک کی وفاداری میں، ملک کی سالمیت کے تحفظ میں اور ملک کے نظریاتی استحکام میں اس طبقے سے بڑھ کر وفاداری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔
یومِ آزادی کے حوالہ سے اگست کے آغاز سے ہی مختلف پروگراموں کا آغاز ہو گیا تھا اور گوجرانوالہ، لاہور، فیصل آباد کی متعدد نشستوں میں گفتگو کا اتفاق ہوا جبکہ ۱۴ اگست بحمد اللہ تعالیٰ بہت مصروف گزرا اور دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ کی اس سلسلہ میں دلچسپی سے جی بہت خوش ہوا۔
- فجر کی نماز حسب معمول الشریعہ اکادمی ہاشمی کالونی گوجرانوالہ میں ادا کی اور بخاری شریف کی ایک حدیث کا درس دیا۔
- ساڑھے سات بجے جمعیۃ العلماء اسلام (س) کے راہنما مولانا قاری احسان اللہ قاسمی کے مدرسہ میں حاضری ہوئی اور طلبہ سے ’’یہ تیرا پاکستان ہے یہ میرا پاکستان ہے‘‘ کا ترانہ سن کر یومِ آزادی کی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ مختصر گفتگو کے بعد علاقہ کے معزز حضرات کے ہمراہ پاکستان کا پرچم فضا میں بلند کرنے کی سعادت حاصل کی۔
- ساڑھے نو بجے پیپلز کالونی کے ادارۃ النعمان میں پاکستان شریعت کونسل کے راہنما مولانا مفتی نعمان احمد نے علماء و طلبہ کی نشست کا اہتمام کر رکھا تھا، ان کے سامنے تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کے مقاصد اور پس منظر پر گفتگو کی اور اس کے بعد پرچم کشائی کی تقریب میں شریک ہوا۔
- ساڑھے دس بجے جامعہ مدینۃ العلم جناح کالونی میں مولانا محمد ریاض جھنگوی نے بارونق محفل سجا رکھی تھی، اس میں مولانا حافظ گلزار احمد آزاد کے ہمراہ حاضری دی اور اساتذہ و طلبہ کو قیامِ پاکستان کے مقاصد اور ان کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔
- ساڑھے گیارہ بجے جامعہ قاسمیہ ملہی چوک میں وفاق المدارس العربیہ کے ضلعی مسئول مولانا جواد محمود قاسمی نے اہتمام کے ساتھ علماء کرام اور طلبہ کے علاوہ شہر کے تاجروں اور دیگر طبقات کے نمائندوں کا بھرپور اجتماع رکھا ہوا تھا، اس میں شرکت اور پرچم کشائی کی تقریب میں حاضری کی سعادت حاصل کی۔
- ظہر کے بعد جمعیۃ طلباء اسلام گوجرانوالہ کے زیر اہتمام مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ میں ’’مقصدِ پاکستان سیمینار‘‘ انعقاد پذیر ہوا جس میں شہر کے علماء کرام، دینی جماعتوں اور طالب علم تنظیموں کے سرکردہ حضرات شریک تھے، اس میں تحریک آزادی اور تحریک پاکستان میں علماء حق کے کردار کا تذکرہ کیا۔
- اور اس کے بعد الشریعہ اکادمی کوروٹانہ کی تقریب میں حاضر ہوا جہاں علاقہ بھر سے علماء کرام، اساتذہ اور معززین جمع تھے۔ طلبہ کے پرجوش خطابات سنے اور کچھ گزارشات پیش کیں اور ان چند پروگرام کے بعد غروب آفتاب سے قبل گھر واپس پہنچ گیا۔
ان نشستوں میں پیش کی جانے والی گزارشات کے چند اہم نکات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں:
- تحریکِ آزادی کی بنیاد حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے اس فتویٰ پر تھی جسے ’’دارالحرب‘‘ کا فتویٰ کہا جاتا ہے، اس میں حضرت شاہ صاحبؒ نے دہلی پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے کنٹرول کے بعد کہا تھا کہ حکمرانی مسلمانوں کی بجائے انگریزوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے اور نظام و قوانین بھی ان کا رائج ہو گیا ہے اس لیے اب یہ مسلم ریاست نہیں رہی، اور انگریزی حکومت و قوانین سے آزادی کے لیے جہاد فرض ہو گیا ہے۔ ۱۹۴۷ء میں ہمیں انگریز حکمرانوں سے تو آزادی مل گئی جب قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کو انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اس خطہ کا اقتدار منتقل کر دیا، مگر نظام و قوانین سے آزادی کا مرحلہ ابھی تک نہیں آیا اور ہم بدستور نوآبادیاتی نظام و قوانین کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اس لیے حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے فتویٰ پر عمل اس وقت مکمل ہو گا جب نوآبادیاتی انگریزی نظام و قوانین کا خاتمہ ہو گا اور قرآن و سنت کی حکمرانی قائم ہو گی۔
- اس خطے پر انگریزوں کی حکمرانی سے پہلے بھی شرعی قوانین کی عملداری تھی جنہیں منسوخ کر کے انگریزوں نے اپنا نظام قائم کیا تھا، اس لیے ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ان کے نظام و قوانین کا خاتمہ اور اسلامی نظام کا نفاذ بھی آزادی کی جدوجہد کا ناگزیر تقاضہ اور ہماری ذمہ داری ہے۔
- تحریکِ پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریہ کے عنوان سے اس تصور پر تھی کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ مذاہب کے ساتھ دو متضاد تہذیبوں کے حامل ہیں جو اکٹھے نہیں رہ سکتے، اس لیے مسلمانوں کے لیے الگ ملک ضروری ہے تاکہ وہ ہندو اکثریت کے غلبہ سے آزاد رہ کر اپنے دین اور تہذیب کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ دو قومی نظریہ سر سید احمد خان مرحوم نے پیش کیا، علامہ محمد اقبال مرحوم نے اسے فکری و علمی رنگ دیا اور قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اس کی بنیاد پر مسلمانوں کے لیے پاکستان کے نام سے الگ ملک کا مطالبہ کیا جو ۱۹۴۷ء میں وجود میں آیا اور آج ہم اس کا یومِ آزادی منا رہے ہیں۔
- قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے دوٹوک اعلان کیا تھا کہ ہم پاکستان میں قرآن و سنت کے قوانین کا نفاذ عمل میں لائیں گے اور دنیا کو ایک بار پھر عملی تجربہ کر کے بتائیں گے کہ قرآن و سنت کے قوانین تیرہ صدیاں قبل کی طرح آج بھی قابل عمل اور انسانوں کے مسائل کا صحیح حل ہیں۔ انہوں نے پاکستان قائم ہو جانے کے بعد بھی اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان میں معیشت مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر استوار کریں گے۔ مگر قائد اعظم مرحوم کی وفات کے بعد ہم نے سب کچھ بھلا دیا اور بتدریج مغربی ملکوں کی غلامی میں دھنستے چلے گئے، جو پہلے ’’ریموٹ کنٹرول غلامی‘‘ تھی اور اب وہ ’’روبوٹ کنٹرول غلامی‘‘ میں تبدیل ہو چکی ہے۔
- آج یومِ آزادی کا ہم سے سب سے بڑا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے ماضی سے باخبر ہوں، اپنے بزرگوں کی جدوجہد اور قربانیوں سے آگاہی حاصل کریں، تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کے مقاصد کو سمجھنے کی کوشش کریں، ان مقاصد کے حصول میں ابھی تک کامیاب نہ ہونے کے اسباب کا جائزہ لیں، اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کے ساتھ ہر سطح پر اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کی کوشش کریں۔
- آزادی اور پاکستان دونوں اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمتیں ہیں، ہم نے ان کی قدر نہیں کی۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اگر تم میری نعمتوں کا شکر ادا کرو گے تو میں نعمتوں میں اضافہ کروں گا، مگر نعمتوں کی ناشکری پر میرا عذاب بھی سخت ہوتا ہے۔ آج ہم اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا شکار ہیں جس کی وجہ ہم خود ہیں۔ ہمیں توبہ و استغفار کے ساتھ قرآن و سنت کی طرف رجوع اور قومی خودمختاری کی بحالی کا فکر کرنا چاہیے جس کے لیے بیرونی مداخلت کے خلاف کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم بیرونی دخل اندازی سے نجات حاصل نہیں کریں گے تحریکِ آزادی اور تحریکِ پاکستان کے مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ وطنِ عزیز کی حفاظت فرمائیں اور ہم سب کو مل جل کر اسے صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنانے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
آزادی کے اہداف اور درپیش خطرات
آج ہمارا یوم آزادی ہے، ۱۴ اگست کو ہمیں برطانوی استعمار کی غلامی سے آزادی ملی تھی اور اسی روز پاکستان کے نام سے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی خودمختار نظریاتی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس لیے یہ دوہری خوشی کا دن ہے چنانچہ اس روز پاکستانی عوام ملک بھر میں بلکہ دنیا میں جہاں بھی وہ آباد ہیں، آزادی اور نئے وطن کی خوشی میں تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس مناسبت سے ماضی قدیم کی ایک تحریک آزادی کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جس کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے اور جس کی قیادت حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے فرمائی تھی۔
بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو کہتے ہیں جو اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس فلسطین سے مصر آ گئے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی حکومت و بادشاہت کا سلسلہ قائم ہو گیا تھا۔ یہ اللہ تعالٰی کی بے نیازی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں غلام کی حیثیت سے آئے تھے، انہیں باقاعدہ منڈی سے خریدا گیا تھا مگر وہ غلامی اور قید و بند کے مراحل سے گزر کر مصر کی حکمرانی کے منصب پر فائز ہوئے اور ان کے خاندان کی حکومت کئی نسلوں تک چلتی رہی۔
یہ اللہ تعالٰی کا تکوینی نظام ہے کہ وہ کسی ایک طاقت کو ہمیشہ اقتدار پر نہیں رہنے دیتا اور توازن تبدیل کرتا رہتا ہے، جسے قرآن کریم نے ’’ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ بنی اسرائیل کی کئی نسلوں تک مصر پر بادشاہت کے بعد حالات نے پلٹا کھایا، آل فرعون کی حکومت قائم ہوئی اور بنی اسرائیل غلام ہو گئے۔ ان کی یہ غلامی اور مظلومیت کئی نسلوں تک جاری رہی۔ فطری بات ہے کہ نئے حکمرانوں نے جن سے حکومت چھینی ہو ان کے جبر و تشدد کا نشانہ سب سے زیادہ وہی بنتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ساتھ ایک عرصہ تک یہی کچھ ہوتا رہا، پھر اللہ تعالٰی نے ان کی ہدایت اور آزادی کے لیے حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، ان دونوں بھائیوں کو جب نبوت و رسالت دے کر اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل اور آل فرعون کی طرف بھیجا تو توحید و بندگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ان کی دعوت و پیغام کا حصہ تھا کہ ’’فارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم‘‘۔ اس میں فرعون سے کہا گیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کو آزادی کے ساتھ ان کے وطن جانے دے اور غلامی کے عذاب سے نجات دے۔ گویا اپنی قوم کی آزادی کی جدوجہد بھی دو نبیوں کے اہداف میں شامل تھی اور اس کے لیے انہیں فرعون کے ساتھ طویل کشمکش سے گزرنا پڑا۔
پھر اللہ تعالٰی نے فرعون کو لشکر سمیت بحیرہ قلزم میں غرق کیا اور بنی اسرائیل کو سمندر پار کرا کے آزادی کی نعمت سے ہمکنار کر دیا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ اپنا وطن فلسطین آزاد کرانے کے لیے وہاں پر قابض قوم کے خلاف جہاد کرو۔ بنی اسرائیل نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا جس پر اللہ تعالٰی نے فلسطین میں بنی اسرائیل کا داخلہ چالیس سال تک حرام قرار دے دیا۔ اس دوران حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ انتقال فرما گئے اور ان کی جگہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی قیادت سنبھالی، ان کی قیادت میں جہاد کر کے بنی اسرائیل نے فلسطین آزاد کرایا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہوئی جو کئی نسلوں تک قائم رہی۔ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ صرف آزادی قوم کی اصل منزل نہیں ہوتی بلکہ اس کے نتیجے میں آزاد ریاست کا قیام اور آسمانی تعلیمات کی حکمرانی بھی اہل دین کی آزادی کے مقاصد میں شامل ہوتی ہے۔
اسی طرح ہمارے بزرگوں نے دینی جذبہ کے ساتھ جنوبی ایشیا کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی حکومت کے دو سو سالہ تسلط سے نجات دلانے کے لیے آزادی کی جنگیں لڑیں۔ نواب سراج الدولہؒ اور ٹیپو سلطان شہیدؒ سے لے کر شہدائے بالاکوٹ تک، بنگال میں حاجی شریعت اللہؒ کی فرائضی تحریک، پنجاب میں رائے احمد خان کھرلؒ کی جدوجہد، سرحد میں فقیر ایپیؒ اور حاجی صاحب ترنگ زئیؒ کی تحریکات، ۱۸۵۷ء کا معرکہ آزادی اور حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک ریشمی رومال اسی تناظر اور تسلسل کی تحریکات ہیں۔ جن کے بعد تحریک خلافت اور دیگر پر اَمن سیاسی تحریکات کا دور شروع ہوا اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی تحریکات کے تسلسل نے انگریزوں کو یہاں سے جانے پر مجبور کر دیا، جس کے نتیجے میں ہندوستان انگریزوں کے براہ راست تسلط سے آزاد ہوا اور وطن عزیز پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا یوم آزادی ہم ایک بار پھر کل چودہ اگست کو منا رہے ہیں۔
ہماری غلامی کا آغاز تجارت کے عنوان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثرونفوذ کے فروغ کے ذریعے ہوا تھا جو بڑھتے بڑھتے پورے جنوبی ایشیا پر برطانوی استعمار کا تسلط قائم ہونے تک جا پہنچا۔ آج پھر تجارت کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں مغرب و مشرق دونوں طرف سے ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہیں بلکہ ہماری روزمرہ زندگی ان کی پراڈکٹس اور سروسز کے سہارے چل رہی ہے، اور عالمی معاہدات اور اداروں کے ذریعے بیرونی تسلط کا ایک نیا دور مسلط ہوتا نظر آ رہا ہے جس کا تقاضہ ہے کہ جس طرح آزادی کے حصول کے لیے دو سو سال محنت کی گئی تھی اور حضرات علماء کرام نے اس کی قیادت و راہنمائی کی تھی، اسی طرح آزادی کے تحفظ، غیر ملکی مداخلت کی روک تھام اور قومی خودمختاری کی بحالی کی ہمہ گیر منظم جدوجہد کا مرحلہ پھر ہمارے سامنے آگیا ہے جو قومی تقاضہ ہونے کے ساتھ ملی و دینی فریضہ بھی ہے اور اس میں علماء کرام، صوفیاء عظام اور دینی راہنماؤں کو کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔
۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ برصغیر یعنی ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، برما وغیرہ خطے پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قبضے اور پھر برطانوی حکومت کے قبضے کے بعد جو آزادی کی تحریکات چلیں ان کے مختلف مراحل کا تذکرہ ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے میں نے حضرت شاہ ولی اللہؒ اور ان کے خاندان کی خدمات پر، شہدائے بالاکوٹ اور بنگال کے حاجی شریعت اللہؒ کی تحریک پر کچھ گزارشات پیش کی تھیں، اب اسی تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی جس کو ہماری تاریخ کی پرانی کتابوں میں غدر کے نام سے تعبیر کیا جاتا تھا، اس تحریکِ آزادی کے حوالے سے کچھ معلوماتی باتیں بریفنگ کے انداز میں عرض کرنا چاہوں گا۔
میں نے بتایا تھا کہ ۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ میں مجاہدین کا قافلہ شہید ہوا تھا۔ ۱۸۳۱ء، ۱۸۳۲ء کے دوران ہی مشرقی بنگال ڈھاکہ فرید پور میں حاجی شریعت اللہ صاحبؒ کی تحریک آگے بڑھی تھی۔ اسی دوران مغربی بنگال کلکتہ میں ایک اور مجاہد امیر نثار علی کھڑے ہوئے تھے جو کہ تیتو میر کے نام سے معروف ہیں، انہوں نے بغاوت کی تھی اور خاصا عرصہ جنگ کرتے رہے، پھر شہید ہو گئے۔ یہ سید احمد شہیدؒ کے ساتھیوں میں سے تھے یعنی ان کے ملنے والوں میں سے تھے۔ ان کا محاذ مغربی بنگال کلکتہ وغیرہ تھا۔ اسی دوران سندھ میں سید صبغت اللہ شاہ اولؒ جو پیر پگارا کے نام سے مشہور تھے انہوں نے حروں کی بنیاد رکھی تھی، اور سید احمد شہیدؒ جب سندھ کے علاقے سے گزرے تھے تو ان کا استقبال کرنے والے اور ان کو سپورٹ کرنے والوں میں سے پیر پگارا سید صبغت اللہؒ تھے۔ یہ سب معاصر تحریکیں تھیں۔ تحریکیں چلیں، بغاوتیں ہوئیں، مقابلے ہوئے، لڑائیاں ہوئیں۔
اس کے بعد ایک بڑا معرکہ برپا ہوا جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے معروف ہے۔ اس کے اسباب میں ایک بات تو بہرحال یہی تھی کہ برصغیر پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے برطانوی انگریزوں کی جو تجارتی کمپنی تھی اس نے اپنی فوجیں منظم کر کے ہندوستان کے بہت سے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ بنگال اور میسور وغیرہ بھی آہستہ آہستہ قبضے میں لے لیے اور باقی ریاستوں کے نوابوں کے ساتھ معاہدات کر لیے، لیکن ان معاہدات کو توڑتے توڑتے باقی علاقوں پر بھی قبضے کرتے چلے جا رہے تھے۔ اس لیے بنیادی سبب تو یہ تھا کہ یہاں کے مسلمانوں اور ہندوؤں میں یہ احساس تھا کہ ہم غلام ہو گئے ہیں، ہم پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے انگریزوں کا قبضہ ہو گیا ہے اور ہم ان کی غلامی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ اصل یہ جذبۂ حریت تھا، غلامی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ جذبے میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔
اصل سبب تو یہ تھا لیکن فوری اسباب میں دو تین باتیں ایسی ہوئی ہیں جن سے وہ جذبات جو موجود تھے وہ مختلف علاقوں میں بھڑکے اور مسلمانوں اور ہندوؤں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں کے خلاف بغاوت کی اور لڑائی لڑی۔
(۱) مثال کے طور پر ایک سبب یہ بنا کہ اودھ کی ریاست جس کا دارالحکومت لکھنؤ تھا ایک بڑی ریاست تھی، اس کے نواب واجد علی شاہ تھے اور انگریزوں کا ان سے معاہدہ تھا۔ انگریزوں نے ان کو ریاست کا بادشاہ اور نواب تسلیم کر رکھا تھا، لیکن ۱۸۵۶ء میں نہایت مکروہ طریقے سے انگریزوں نے وہ معاہدہ منسوخ کر کے واجد علی شاہ کو معزول کر دیا، ان کی سلطنت کو اپنی قلم رو میں شامل کر کے قبضہ کر لیا۔ واجد علی شاہ کلکتہ چلے گئے۔
لکھنؤ میں انگریزوں نے اپنی عملداری قائم کرنا چاہی جس کے خلاف وہاں بغاوت ہوئی اور دو شخصیتیں ہیں جنہوں نے اس بغاوت میں بہت اہم کردار ادا کیا: ایک واجد علی شاہ کی بیگم حضرت محل، اس خاتون نے بہادری کا مظاہرہ کیا اور دنیا نے مانا۔ وہ مردانہ لباس میں اور مردانہ ہیئت میں اپنی فوجوں کی کمان کرتی تھی، انگریزوں کے خلاف بغاوت کی اور ایک عرصے تک میدان جنگ میں انگریزوں کا مقابلہ کیا اور بہت دفعہ شکست دی۔ دوسری طرف علماء میں مولانا احمد اللہ شاہ مدراسیؒ کا اہم کردار ہے۔ ان دو کے علاوہ اور بھی لوگ تھے۔
اس واقعے نے اور زیادہ غصہ پیدا کر دیا کہ جو معاہدات کیے تھے وہ معاہدات توڑ کر ایسٹ انڈیا کمپنی ہمارے ملکوں میں قبضہ کرتی جا رہی ہے۔ اودھ کی ریاست یا لکھنؤ کی ریاست کے ختم ہونے سے اور انگریزوں کی غداری نے جذبات اور زیادہ بھڑکا دیے۔
پھر پورے ملک میں ملک کے مختلف حصوں میں بغاوت کے شعلے بھڑکے اور کچھ علاقوں کی آپس میں تنظیم تھی کہ ہم مل کر بغاوت کریں گے۔ تاریخی روایات میں آتا ہے کہ چونکہ آپس میں جوڑ کے لیے ہر زمانے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے، آج کل تو میسج سسٹم ہے، اس زمانے میں یہ تو نہیں ہوتا تھا تو علامت کے طور پر چپاتیاں تقسیم ہوتی تھیں۔ خاص قسم کی چپاتیاں پکا کر دوسرے کو بھجواتے تھے، یہ تعلق کی علامت ہوتی تھی۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ ان پر کچھ لکھا ہوتا تھا جو آگ کے سامنے پڑھا جاتا تھا۔ بہرحال چپاتیوں کی تقسیم اتنے منظم طریقے سے ہوتی تھی کہ اس نے انگریز کو پریشان کر دیا کہ یہ چپاتیاں جو تقسیم ہو رہی ہیں، اندر اندر کوئی سازش ہے۔
(۲) ایک اور بڑا مسئلہ جو فوری سبب بنا وہ یہ تھا کہ میرٹھ کی چھاؤنی میں فوجیوں نے ہی بغاوت کر دی۔ اس کی وجہ یہ بنی کہ آج کل تو کلاشنکوف ہے اور گولیاں ہیں۔ اس زمانے میں ہتھوڑے دار بندوقیں ہوتی تھیں، کارتوس کو دانتوں سے کھول کر اندر رکھا جاتا تھا اور پھر گولی چلتی تھی۔ فوجیوں میں مشہور ہو گیا کہ انگریزوں نے کارتوس پر گائے کی چربی اور سور کی چربی لگائی ہوتی ہے۔ گائے ہندوؤں کے ہاں مقدس ہے اور وہ اسے ماں کا درجہ دیتے ہیں۔ اور مسلمانوں کے لیے سور کی چربی ناقابل استعمال ہے۔ وہاں فوجوں میں یہ بات پھیل گئی کہ یہ کارتوس انہوں نے جان بوجھ کر ہمارا دین خراب کرنے کے لیے بنائے ہیں اور ان میں گائے کی چربی اور سور کی چربی بھری ہے۔ میرٹھ اور انبالہ کی چھاؤنیوں میں کارتوس تقسیم ہوئے تو انہوں نے کہا کہ ہم یہ کارتوس نہیں لیں گے۔ جس پر افسروں کے ساتھ فوجیوں کا جھگڑا ہو گیا، اور پھر فوجیوں نے افسروں کے خلاف بغاوت کر دی۔
اس وقت حکومت کی صورتحال یہ تھی کہ انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے بہادر شاہ ظفر سے پہلے شاہ عالم ثانی کے زمانے میں بہادر شاہ ظفر سے ایک معاہدہ کر لیا تھا کہ بادشاہ تم رہو گے، حکومت ہم کریں گے۔ جس طرح ملکہ برطانیہ الزبتھ ہے کہ اس کا اپنے محل کے اندر بھی کوئی اختیار نہیں ہے، سارے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہیں۔ اسی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی نے شاہ عالم ثانی پھر بہادر شاہ ظفر سے معاہدہ کر لیا کہ تمہارے نام پر ہم حکومت کریں۔ میں نے بتایا تھا کہ اس وقت یہ نعرہ لگا ”زمین خدا کی، ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی بہادر کا“ یعنی زمین تو اللہ کی ملک ہے، ملک کی بادشاہت بہادر شاہ ظفر کی ہے، لیکن قانون کمپنی کا چلے گا۔ اس طرح بہادر شاہ ظفر کے نام پر کمپنی کے افسر حکومت کرتے رہے۔ اسی کے خلاف ۱۸۰۳ء میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے ہندوستان کے دارالحرب ہونے کا فتویٰ دیا تھا کہ یہ اسلامی مملکت نہیں رہی اور یہ اعلان کیا تھا کہ انگریزی اقتدار ختم کرنے کے لیے جہاد فرض ہو گیا ہے۔
چنانچہ ۱۸۵۷ء میں انگریز کے خلاف مختلف مقامات پر بغاوت ہوئی، جو مقامات میرے ذہن میں ہیں ان میں دہلی، لکھنؤ، انبالہ، میرٹھ کے علاوہ مردان، مری اور اوکاڑہ کے علاقے ہیں، بیسیوں مقامات ہیں جہاں بغاوت کے شعلے بھڑکے اور پھر ایک وقت آیا کہ جنرل بخت خان کی قیادت میں باغی فوجیں اکٹھی ہو کر دہلی میں داخل ہوئیں اور قبضہ کر لیا۔ جب یہ دہلی میں داخل ہوئے تو انہوں نے کہا کہ بہادر شاہ ظفر ہی ہمارے بادشاہ ہوں گے، ہم ان کی حکومت تسلیم کرتے ہیں اور انہیں اختیارات واپس ملنے چاہئیں۔ جنرل بخت خان کو بہادر شاہ ظفر نے شاہی فوجوں کا کمانڈر انچیف بنا دیا۔ بہادر شاہ ظفر نے سرپرستی قبول کر لی کہ ہماری پرانی سلطنت بحال ہو جائے گی۔
دہلی پر جنرل بخت خان کا قبضہ انگریز تو شاید نہ چھڑا سکتے کہ ان کے پاس اب اتنی ہمت نہیں تھی، لیکن پنجاب سے سکھوں کی تازہ دم پندرہ ہزار فوج گئی جنہوں نے پھر انگریزوں کی حمایت میں لڑائی لڑی۔ اس فوج کا ایک چھوٹا سا حوالہ ذکر کر دوں کہ مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کو اپنی وفاداری یاد دلاتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے باپ مرزا غلام قادر نے انگریزوں کی حمایت میں دہلی میں مسلمانوں سے لڑنے کے لیے پچاس سواروں کا دستہ بھیجا تھا۔ میرا باپ بھی تمہارا وفادار تھا، میں بھی تمہارا وفادار ہوں۔ یہ تھوڑا سا منظر ہے کہ یہاں سے فوجیں گئیں اور کچھ اندر سے لوگوں سے غداری کی۔ دہلی پر کئی مہینے قبضہ رہا، تقریباً چار مہینے تک کشمکش رہی۔ کہتے ہیں کہ ۱۰ مئی کو میرٹھ سے بغاوت کا آغاز ہوا تھا اور ۱۹ ستمبر کو جنرل بخت خان کو دہلی چھوڑنا پڑا تھا اور مجاہدین کی فوجیں شکست کھا گئیں۔
مؤرخین تجزیہ کرتے ہیں کہ یہ شکست کیوں ہوئی تھی۔ کیونکہ جب کسی محاذ پر ناکامی ہوتی ہے تو ناکامی کے اسباب بھی دیکھے جاتے ہیں۔ جیسا کہ احد کی جنگ میں وقتی طور پر ناکامی ہوئی تھی، مسلمان غالب آتے آتے رک گئے تھے، افراتفری مچی، ستر صحابہ شہید ہو گئے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے، نقصان اٹھانا پڑا تو قرآن پاک نے تین رکوع میں اس کے اسباب بیان کیے کہ یہ شکست کیوں ہوئی تھی اور ڈانٹا بھی۔ اس لیے اپنی ناکامیوں کے اسباب بھی دیکھنے چاہئیں، خالی جذبات تو کچھ نہیں کرتے۔
مورخین ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی شکست کے بہت سے اسباب بیان کرتے ہیں، لیکن دو بڑے سبب بیان کرتے ہیں: ایک یہ کہ دہلی میں اتنی لوٹ مار شاید کبھی کسی نے کی ہوئی جتنی انہوں نے کی تھی۔ اتنی لوٹ مار کی کہ دہلی والے متنفر ہو گئے کہ انگریز ٹھیک تھے کہ عزتیں تو محفوظ تھیں، مال تو محفوظ تھا، جان تو محفوظ تھی۔ دہلی پر جو چار مہینے رہے تو لوٹ مار ہی کرتے رہے۔ جنرل بخت خان نے کنٹرول کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کنٹرول نہیں کر سکا۔ شکست کا دوسرا بڑا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ آپس میں رابطے نہیں تھے، فوجوں میں آپس میں نظم کوئی نہیں تھا۔ ایک جتھہ ادھر سے آ رہا ہے، ایک ادھر سے آ رہا ہے، جنرل بخت خان کی کمان تو تھی لیکن سارے آزاد تھے۔ ایک گروپ وہاں لڑ رہا ہے، دوسرا گروپ وہاں لڑ رہا ہے، ہر ایک اپنی مرضی سے لڑ رہا ہے، تو اس سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا اور دوبارہ دہلی پر قبضہ کر لیا۔
پھر دوسرے علاقوں پر قبضہ ہوا اور آہستہ آہستہ کنٹرول انگریزوں نے قائم کر لیا اور فرق صرف یہ پڑا کہ پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے ایک کاروباری کمپنی حکومت کرتی تھی، اب کمپنی کو ہٹا کر حکومتِ برطانیہ نے سارے ہندوستان کی براہ راست کمان سنبھال لی اور یہاں تاج برطانیہ کی حکومت قائم ہو گئی۔
یہ بنیادی بات میں نے ذکر کی ہے کہ بغاوت ہوئی لیکن اس میں ہم کامیاب نہیں ہو سکے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں جو اہم مراکز تھے، ان میں ایک تو دہلی کا مرکز تھا، لدھیانہ میں علمائے لدھیانہ نے بھی جہاد کا فتویٰ دیا اور آزادی کی جنگ لڑی، ان کا ایک الگ معرکہ ہے۔ اسی زمانے میں اوکاڑہ کے علاقے میں سردار احمد خان کھرل شہید نے بہادر شاہ ظفر کی حمایت میں انگریزوں کے مقابلے میں بغاوت کر دی۔ آٹھ سال تک لڑتے رہے پھر شہید ہو گئے، اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائیں، مردان میں بغاوت ہوئی۔ جھانسی ایک ریاست تھی، اس کی رانی نے بھی جنگ لڑی ہے۔ ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں دو عورتوں نے جنگوں کی کمان کی: لکھنؤ کی حضرت محل نے اور جھانسی کی ہندو رانی نے۔ حضرت محل تو مسلمان تھی اور مسلمان فوجوں کی کمان کی ہے، رانی جھانسی ہندو تھی لیکن وطن کی آزادی کے لیے اور انگریزوں کو نکالنے کے لیے اس نے بھی انگریزوں سے بڑی بہادری سے جنگ لڑی۔ اس لیے ان دونوں خواتین کا تذکرہ دنیا کی بہادر ترین خواتین میں کیا جاتا ہے جنہوں نے اپنے وطن کی آزادی کے لیے دشمنوں کو نکالنے کے لیے میدان جنگ میں کئی سال تک لڑائی لڑی۔
جنرل بخت خان اور مولانا احمد اللہ شاہ مدراسی نے بھی جنگ لڑی، لیکن میں ایک معرکے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس سے ہماری اگلی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ اسے ہم شاملی کا محاذ کہتے ہیں۔ تھانہ بھون، دیوبند، مظفرنگر کے سارے علاقہ کی تحصیل شاملی تھی جو ایک بڑا شہر تھا۔ اس علاقہ میں بھی بغاوت کا فیصلہ ہوا تھا۔ شاملی کے محاذ پر علماء لڑے۔ بہت سے علاقوں میں صرف مسلمان نہیں لڑے، ہندو بھی لڑے، نواب بھی لڑے، نوابوں کے بیٹے بھی لڑے، دیندار بھی لڑے اور دنیادار بھی، لیکن بعض محاذ ایسے ہیں جہاں صرف علماء لڑے، ان میں شاملی کا محاذ بھی تھا۔ اس کے مجاہدین میں لڑنے والوں میں حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی، حضرت حافظ ضامن شہید اور مولانا عبد الجلیل کیرانوی شہید رحمہم اللہ تعالیٰ شامل ہیں۔ یہ علماء کا ایک گروپ تھا جنہوں نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی میدان میں آتے ہیں۔ ان میں اختلاف بھی ہوا کہ جہاد میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں لینا چاہیے اور اس طرح جنگ لڑنا جہاد ہے یا نہیں ہے؟
تھانہ بھون میں اس وقت سجادہ نشین حضرت مولانا محمد تھانویؒ تھے۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ چشتی سلسلے کے بڑے پیر تھے، باقی سارے ان کے مرید ہیں۔ یوں سمجھیے کہ ایک خانقاہ نے، پیر خانے نے جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ مشاورت ہوئی کہ میرٹھ میں بغاوت ہو گئی ہے، فلاں جگہ ہو گئی ہے، فلاں جگہ ہو گئی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ یہ بڑی دلچسپ داستان ہے، پڑھنی ہو تو مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے ’’سوانح قاسمی‘‘ میں بڑی تفصیل سے اس پر لکھا ہے۔ تھانہ بھون کی خانقاہ میں مشاورت ہوئی کہ لڑائی میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں لینا چاہیے۔ بہت سے علماء کی رائے تھی کہ نہیں لینا چاہیے۔ اعتراض یہ کیا کہ جب تک کوئی امیر نہ ہو، اس وقت تک لڑائی جہاد نہیں بنتا، تو مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے کہا کہ ہمارے پیر صاحب بیٹھے ہوئے ہیں، یہی ہمارے جہاد کے امیر ہیں۔ میں بیعت کرتا ہوں تم بھی بیعت کرو۔ ایک اشکال یہ ہوا کہ ہمارے پاس اسلحہ نہیں ہے تو انہوں نے کہا کہ تم فیصلہ کرو، اللہ پاک اسلحہ کا انتظام بھی کر دے گا۔
یہ بھی عجیب قصہ تھا کہ جہاد میں حصہ لینے کا یہ مشورہ ہو رہا تھا تو پتہ چلا کہ میرٹھ کی بغاوت کے بعد انگریزوں کا ایک توپ خانہ جا رہا ہے اور قریب سے گزر رہا ہے، انہوں نے فیصلہ کیا کہ رات کو چھاپہ ماریں گے اور اسے پکڑیں گے۔ دن کو فیصلہ کیا اور رات کو قافلہ روک کر سارے اسلحے پر قبضہ کر لیا، پھر اسی اسلحے سے لڑائی لڑی اور شاملی کی پوری تحصیل انہوں نے آزاد کرا لی۔ حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ امیر تھے، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کمانڈر انچیف تھے اور مولانا رشید احمد گنگوہیؒ قاضی القضاۃ تھے۔ یہ تقسیم کار تھی اور سترہ دن انہوں نے شاملی میں حکومت کی۔ اگر دہلی میں شکست نہ ہوتی تو ان کی یہ حکومت چلتی رہتی، لیکن دہلی کی شکست کے بعد آہستہ آہستہ یہ سارے تقسیم ہوتے گئے۔
اس وقت مختلف مقامات پر بغاوت کے شعلے بھڑکے اور لوگوں نے بڑے مجاہدانہ جذبے کے ساتھ، بڑی جرأت اور بڑے حوصلے کے ساتھ آزادی کی جنگ میں حصہ لیا، لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ آزادی کی اس جنگ میں حصہ لینے کے بعد جب مجاہدین کو شکست ہوئی اور انگریزوں نے دوبارہ دہلی پر، میرٹھ، لکھنؤ اور شاملی پر قبضہ کر لیا، تو پھر انگریز نے مجاہدین آزادی سے جو انتقام لیا ہے وہ بھی ایک مستقل تاریخ ہے۔
میں ۱۹۸۰ء میں جب صد سالہ اجلاس کے موقع پر میں دیوبند گیا تو وہ مسجد دیکھی جس میں علماء مشاورت کے لیے جمع ہوئے تھے اور انہیں گھیرے میں لے کر ان پر چاروں طرف سے فائرنگ کر کے سب کو شہید کر دیا گیا تھا۔ گولیوں کے نشان اب تک باقی تھے۔ یہ بات درست ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے ساتھ مجاہدین نے جو سلوک کیا تھا اسے انگریز ہمیشہ یاد رکھیں گے، لیکن یہ بات بھی درست ہے کہ انتقام میں انگریزوں نے مجاہدین کے ساتھ جو حشر کیا وہ بھی تاریخ یاد رکھے گی۔ ۱۸۵۷ء کے بعد ان مجاہدین آزادی پر جو مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں اور ان سے جو انتقام لیا گیا ہے وہ تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ یہ داستان پڑھنے کے لیے دو کتابوں کا حوالہ دوں گا:
(۱) ایک کتاب مولانا امداد صابری مرحوم کی ’’تاریخِ جرم و سزا‘‘ ہے۔ یہ اپنے زمانے میں دہلی کے ڈپٹی میئر رہے ہیں۔ ان کی یہ کتاب دو جلدوں میں ہے جس میں انہوں نے تاریخ کے حوالے سے ذکر کیا ہے کہ کس کس دور میں کیا کیا سزائیں دی گئیں اور انگریزوں نے ہندوستان میں دوبارہ قبضے کے بعد مجاہدین آزادی کو انتقاماً کیا کیا سزائیں دیں۔ ان میں سے صرف دو تین کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ کہتے ہیں کہ تقریباً تیس ہزار علماء کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ مجاہدین کو سور کی کھال میں ڈال کر آگ میں ڈال دیا گیا۔ ایک ایک توپ کے منہ پر پانچ پانچ آدمیوں کو باندھ کر گولے سے اڑا دیا جاتا۔ زندہ انسان کو ننگا کر کے گھٹنوں تک زمین میں گاڑ کر اوپر دہی ڈال کر بھوکے کتے چھوڑے جاتے تھے۔ کالاپانی اُس زمانے کا گوانتاناموبے تھا۔ ہزاروں علماء کو اور تحریک آزادی کے کارکنوں کو کالاپانی بھیج دیا گیا۔
ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں جو اس سے ذرا پہلے کا ہے۔ شہدائے بالاکوٹ کے ساتھ جنگ آزادی میں کشمیر کے لوگ بھی شریک تھے، کشمیر کا راجہ گلاب سنگھ تھا، اس کی خود اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی کتاب ’’گلاب نامہ ہے‘‘ جس میں اس نے لکھا ہے کہ میں نے سردار سبز علی اور سردار قلی خان کو ہزارہ میں جا کر شورش پسندوں کے ساتھ شریک ہونے کے جرم میں یہ سزا دی کہ پلندری کا سارا علاقہ اکٹھا کیا اور ان دونوں کو درختوں کے ساتھ الٹا لٹکوا کر زندہ حالت میں ان کی کھالیں اتروائیں تاکہ لوگوں کو عبرت ہو۔ گلاب سنگھ بیٹھا تماشا دیکھ رہا تھا۔ اس نے لکھا ہے کہ جب سردار سبز علی شہید کی سینے تک کھال پہنچی تو اس نے پانی مانگا مگر میں نے کہا کہ اسے پانی نہیں دینا۔ یہ میں صرف ایک ہلکی سی جھلکی بیان کی ہے۔
(۲) دوسری الحاج مرزا غلام نبی جانباز مرحوم کی کتاب ہے جس کا نام ہے ’’بڑھتا ہے ذوقِ جرم میرا ہر سزا کے بعد‘‘۔ جانباز مرزا مرحوم ہمارے تحریک آزادی کے بڑے سرگرم رہنماؤں میں سے ہیں، بڑے شاعر تھے، مجاہد تھے، میرا ان سے خاصا تعلق رہا ہے، انہوں نے چودہ سال جیل کاٹی ہے۔ اس کتاب میں اپنی داستان بھی لکھی ہے اور پچھلی تاریخ بھی لکھی ہے کہ کس کس زمانے میں کن کن لوگوں کو کس کس جرم میں کیا کیا سزا دی گئی تھی۔
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی اصل میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے مظالم کے خلاف تھی، جو مظالم غلامی کی صورت میں تھے، جو مظالم معاہدات توڑنے کی صورت میں تھے، مختلف ریاستوں پر قبضہ کرنے کی صورت میں تھے، بھاری ٹیکس لگانے کی صورت میں تھے، اور یہاں کی صنعت کو برباد کرنے کی صورت میں تھے۔ کمپنی نے یہاں کیا کیا مظالم ڈھائے یہ اگر پڑھنا ہو تو باری علی کی ’’کمپنی کی حکومت‘‘ کے نام سے کتاب موجود ہے۔ اور اگر زیادہ تفصیل پڑھنا چاہیں تو حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ کی خود نوشت سوانح ’’نقشِ حیات‘‘ کے نام سے دو جلدوں میں ہے۔ اس میں حضرت مدنیؒ نے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ انگریز یہاں کیسے آئے تھے، یہاں کی صنعت و حرفت کو کیسے برباد کیا، یہاں زمینداریاں قائم کر کے عام لوگوں کو کیسے غلام بنایا، یہاں انسانوں اور ہاریوں کے ساتھ کیا سلوک کیا، یہاں کی تجارت کا کیسے بیڑا غرق کیا۔ اس میں پوری تفصیل لکھی ہے کہ کمپنی کی حکومت نے ہندوستان کو نچوڑ کر اس کی دولت اپنے ہاں لے جانے کے لیے کیا کیا مظالم کیے۔
میں نے یہ ذکر کیا کہ ہمارا تحریک آزادی کا ایک مرحلہ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ہے، جس میں ملک کے مختلف حصوں میں مجاہدینِ آزادی نے علمِ بغاوت بلند کیا، انگریز فوجوں سے لڑے اور دہلی کو انگریزوں سے خالی کروایا، لیکن پھر اپنی بدنظمی کی وجہ سے اور بہت سے لوگوں کی غداری کی وجہ سے ناکام ہوئے اور دہلی پر انگریزوں نے براہ راست حکومت قائم کر لی۔ پھر ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کر دی گئی اور برطانیہ کی حکومت نے ہندوستان کا نظم سنبھال لیا۔ اس کے بعد یہاں کے نظام کو جس طریقے سے بگاڑا گیا اور ۱۸۵۷ء کے بعد کیا تبدیلیاں آئیں اور ان کے نتیجے میں ہمارے بزرگوں نے اپنے مستقبل کے لیے کیا راستہ اختیار کیا؟ اس پر بات ان شاء اللہ اگلی نشست میں ہو گی۔
آزادی کا تحفظ اور اہل دین کی ذمہ داریاں
(۱۳ اگست ۲۰۲۰ء کو بھوربن مری میں عالمی انجمن خدام الدین کے سالانہ اجتماع کی بعد نماز مغرب نشست سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ حضرت مولانا میاں محمد اجمل قادری اور عالمی انجمن خدام الدین کا شکر گزار ہوں کہ وقتاً فوقتاً ان کی توجہ فرمائی سے سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ کی مختلف نشستوں میں حاضری اور احباب سے ملاقات کا موقع مل جاتا ہے اور اپنے بزرگوں کے ساتھ نسبت تازہ ہو جاتی ہے، اللہ تعالٰی ان نسبتوں کو قائم رکھیں اور دونوں جہانوں میں ہم سب کے لیے برکتوں کا باعث بنائیں، آمین یا رب العالمین۔
کل ہمارا یوم آزادی ہے، ۱۴ اگست کو ہمیں برطانوی استعمار کی غلامی سے آزادی ملی تھی اور اسی روز پاکستان کے نام سے جنوبی ایشیا میں مسلمانوں کی خودمختار نظریاتی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس لیے یہ دوہری خوشی کا دن ہے اور اس روز پاکستانی عوام ملک بھر میں بلکہ دنیا میں جہاں بھی وہ ہیں، آزادی اور نئے وطن کی خوشی میں تقریبات کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس مناسبت سے آج آپ حضرات کے سامنے ماضی قدیم کی دو تحریکات آزادی کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جن کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے، اور جن کی قیادت حضرات انبیائے کرام علیہم السلام نے فرمائی تھی، یہ دونوں تحریکیں بنی اسرائیل کے دور کی ہیں۔
بنی اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد کو کہتے ہیں جو اپنے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس فلسطین سے مصر آ گئے تھے اور حضرت یوسف علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی حکومت و بادشاہت کا سلسلہ قائم ہو گیا تھا۔ یہ اللہ تعالٰی کی بے نیازی ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام مصر میں غلام کی حیثیت سے آئے تھے، انہیں باقاعدہ منڈی سے خریدا گیا تھا مگر وہ غلامی اور قید و بند کے مراحل سے گزر کر مصر کی حکمرانی کے منصب پر فائز ہوئے اور ان کے خاندان کی حکومت کئی نسلوں تک چلتی رہی۔
یہ اللہ تعالٰی کا تکوینی نظام ہے کہ وہ کسی ایک طاقت کو ہمیشہ اقتدار پر نہیں رہنے دیتا اور توازن تبدیل کرتا رہتا ہے، جسے قرآن کریم نے ’’ولولا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ ہمارے ہاں دو سو سال تک برطانیہ نے حکومت کی، پھر امریکہ بہادر سامنے آیا اور اب قوت و طاقت کا پلڑا مشرق کی طرف جھکتا نظر آ رہا ہے۔ پھر اس کے بعد شاید ہماری باری آ جائے مگر ابھی کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ بہرحال بنی اسرائیل کی کئی نسلوں تک مصر پر بادشاہت کے بعد حالات نے پلٹا کھایا، آل فرعون کی حکومت قائم ہوئی اور بنی اسرائیل غلام ہو گئے۔ ان کی یہ غلامی اور مظلومیت کئی نسلوں تک جاری رہی۔
یہ بھی فطری بات ہے کہ نئے حکمرانوں نے جن سے حکومت چھینی ہو ان کے جبر و تشدد کا نشانہ سب سے زیادہ وہی بنتے ہیں۔ چنانچہ بنی اسرائیل کے ساتھ ایک عرصہ تک یہی کچھ ہوتا رہا، پھر اللہ تعالٰی نے ان کی ہدایت اور آزادی کے لیے حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، ان دونوں بھائیوں کو جب نبوت و رسالت دے کر اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل اور آل فرعون کی طرف بھیجا تو توحید و بندگی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ان کی دعوت و پیغام کا حصہ تھا کہ ’’فارسل معنا بنی اسرائیل ولا تعذبھم‘‘۔ اس میں فرعون سے کہا گیا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کو آزادی کے ساتھ ان کے وطن جانے دے اور غلامی کے عذاب سے نجات دے۔ گویا اپنی قوم کی آزادی کی جدوجہد بھی دو نبیوں کے اہداف میں شامل تھی اور اس کے لیے انہیں فرعون کے ساتھ طویل کشمکش سے گزرنا پڑا۔ فرعون نے حضرت موسٰیؑ کے ساتھ اپنی گفتگو میں طعنہ دیا کہ تم نے میرے گھر میں پرورش پائی ہے اور ہمارا ایک آدمی بھی قتل کر دیا تھا، اس کے ساتھ انہیں ’’ولا یکاد یبین‘‘ کہہ کر لکنت کا طعنہ بھی دیا۔ جس کا جواب حضرت موسٰی علیہ السلام نے دیا کہ تم کون سا احسان جتلا رہے ہو؟ یہی کہ ’’ان عبّدت بنی اسرائیل‘‘ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔
بہرحال طویل جدوجہد اور کشمکش کے بعد اللہ تعالٰی نے فرعون کو لشکر سمیت بحیرہ قلزم میں غرق کیا اور بنی اسرائیل کو سمندر پار کرا کے آزادی کی نعمت سے ہمکنار کر دیا۔ اس کے بعد بنی اسرائیل کو حکم ہوا کہ اپنا وطن فلسطین آزاد کرانے کے لیے وہاں پر قابض قوم کے خلاف جہاد کرو۔ بنی اسرائیل نے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا جس پر اللہ تعالٰی نے فلسطین میں داخلہ بنی اسرائیل کے لیے چالیس سال تک حرام قرار دے دیا۔ اس دوران حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ انتقال فرما گئے اور ان کی جگہ حضرت یوشع بن نون علیہ السلام نے بنی اسرائیل کی قیادت سنبھالی، ان کی قیادت میں جہاد کر کے بنی اسرائیل نے فلسطین آزاد کرایا اور وہاں ان کی حکومت قائم ہوئی جو کئی نسلوں تک قائم رہی۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ صرف آزادی قوم کی اصل منزل نہیں ہوتی بلکہ اس کے نتیجے میں آزاد ریاست کا قیام اور آسمانی تعلیمات کی حکمرانی بھی آزادی کے مقاصد میں شامل ہوتا ہے۔
پھر ایک موقع پر ایک اور ظالم بادشاہ جالوت نے ان کے علاقے پر قبضہ کر لیا اور بنی اسرائیل کی حیثیت غلاموں جیسی ہو گئی، انہوں نے اس وقت کے پیغمبر حضرت سموئیل علیہ السلام سے جہاد کے لیے امیر مقرر کرنے کی درخواست کی، قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق انہوں نے حضرت طالوتؒ کو امیر مقرر کر دیا جن کی قیادت میں جالوت کے خلاف جہاد کیا گیا۔ قرآن کریم نے اس کا ذکر بھی تفصیل کے ساتھ کیا ہے، یہ جہاد نہر اُردن کے اسی مغربی کنارے میں ہوا جہاں آج کل فلسطین اور اسرائیل کے درمیان قبضہ کی کشمکش بڑھتی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت قتل ہوا، بنی اسرائیل کو فتح ملی اور حضرت طالوتؒ کی حکومت قائم ہو گئی۔ انہوں نے حضرت داؤد علیہ السلام کو داماد بنا لیا اور طالوتؒ کے بعد حضرت داؤدؑ کی بادشاہت کا سلسلہ شروع ہوا جسے اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں ’’خلافت‘‘ کے عنوان کے ساتھ ذکر کیا ہے اور وہ حضرت سلیمانؑ کے دور میں عروج و کمال تک پہنچی۔ آج کے یہودی اس عظیم سلطنت ’’اسرائیل‘‘ کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے عربوں اور فلسطینیوں سے لڑ رہے ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ دونوں جنگیں اللہ تعالٰی کے پیغمبروں کی قیادت میں جہاد کے عنوان سے لڑی گئیں۔ دونوں کے نتیجے میں اللہ تعالٰی کے پیغمبروں کی حکومتیں قائم ہوئیں اور ریاستیں وجود میں آئیں جو تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔ ان کا ذکر قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے اور بائبل بھی ان کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے زمین پر انسانوں کی ہدایت کے لیے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا تو ان کے اہداف و مقاصد میں قوموں کو غلامی سے نجات دلانا، آزاد و خودمختار ریاست قائم کرنا اور آسمانی تعلیمات کی حکمرانی قائم کرنا شامل تھا۔
اسی طرح ہمارے بزرگوں نے بھی دینی جذبہ کے ساتھ جنوبی ایشیا کو ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی حکومت کے دو سو سالہ تسلط سے نجات دلانے کے لیے آزادی کی جنگیں لڑیں۔ نواب سراج الدولہؒ اور ٹیپو سلطان شہیدؒ سے لے کر شہدائے بالاکوٹ تک، بنگال میں حاجی شریعت اللہؒ کی فرائضی تحریک، پنجاب میں رائے احمد خان کھرلؒ کی جدوجہد، سرحد میں فقیر ایپیؒ اور حاجی صاحب ترنگ زئیؒ کی تحریکات، ۱۸۵۷ء کا معرکہ آزادی اور حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک ریشمی رومال اسی تناظر اور تسلسل کی تحریکات ہیں۔ جن کے بعد تحریک خلافت اور دیگر پر اَمن سیاسی تحریکات کا دور شروع ہوا اور عدم تشدد پر مبنی سیاسی تحریکات کے تسلسل نے انگریزوں کو یہاں سے جانے پر مجبور کر دیا، جس کے نتیجے میں ہندوستان انگریزوں کے براہ راست تسلط سے آزاد ہوا اور وطن عزیز پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا یوم آزادی ہم ایک بار پھر کل چودہ اگست کو منا رہے ہیں۔
اس موقع پر میں یہ عرض کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہماری غلامی کا آغاز تجارت کے عنوان سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے اثرونفوذ کے فروغ کے ذریعے ہوا تھا جو بڑھتے بڑھتے پورے جنوبی ایشیا پر برطانوی استعمار کا تسلط قائم ہونے تک جا پہنچا۔ آج پھر تجارت کے نام پر ملٹی نیشنل کمپنیاں مغرب و مشرق دونوں طرف سے ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہیں بلکہ ہماری روزمرہ زندگی ان کی پراڈکٹس اور سروسز کے سہارے چل رہی ہے، اور بیرونی تسلط کا ایک نیا دور مسلط ہوتا نظر آ رہا ہے جس کا تقاضہ ہے کہ جس طرح آزادی کے حصول کے لیے دو سو سال محنت کی گئی تھی اور حضرات علماء کرام نے اس کی قیادت و راہنمائی کی تھی، اسی طرح آزادی کے تحفظ اور قومی خودمختاری کی بحالی کی ہمہ گیر منظم جدوجہد کا مرحلہ پھر ہمارے سامنے ہے جو قومی تقاضہ ہونے کے ساتھ ملی و دینی فریضہ بھی ہے۔ اور اس میں بھی علماء کرام، صوفیاء عظام اور دینی راہنماؤں کو کلیدی کردار ادا کرنا ہو گا۔
اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کا شعور و ادراک نصیب فرمائیں اور پاکستان کی سالمیت و وحدت، خودمختاری و نظریاتی تشخص، اور تہذیبی امتیاز کو قائم رکھنے کے لیے اپنا اپنا کردار صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
تحریکِ آزادی اور علماء حق
پاکستان بنانے میں علماء کا کردار
علماء کرام نے بنیادی طور پر پاکستان بنانے کے لیے مندرجہ ذیل شعبوں میں کام کیا:
- برصغیر کے مسلمانوں میں دینی افکار و نظریات اور اقدار و روایات کو اصلی صورت میں زندہ رکھا اور یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دینی اقدار و روایات ہی تحریکِ پاکستان کی کامیابی اور اس کے ساتھ مسلمانوں کی والہانہ عقیدت کا باعث بنیں۔
- انگریزی حکومت کے خلاف جدوجہدِ آزادی کی قیادت، فرنگی راج کے خلاف شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا فتویٰ جہاد، بالاکوٹ میں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی شہادت، ۱۸۵۷ء کا معرکۂ حریت، شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کی تحریک ریشمی رومال، تحریکِ خلافت، تحریکِ ترکِ موالات، تحریکِ ہجرتِ افغانستان، فرنگی فوج میں بھرتی ہونے کی حرمت کا فتویٰ، اور آزادیٔ کامل کے لیے جمعیۃ علماء ہند کا نمایاں کردار اس کی مختلف کڑیاں ہیں۔
- تحریکِ پاکستان کو حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ، شیخ الاسلام مولانا شبیر احمدؒ عثمانی، حضرت مولانا ظفر احمدؒ عثمانی اور دیگر سربرآوردہ علماء کرام کی تائید و حمایت حاصل رہی۔ حکیم الامت تھانویؒ کی حمایت اور سرحد اور سلہٹ کے ریفرنڈم میں حضرت مولانا شبیر احمدؒ عثمانی اور حضرت مولانا ظفر احمدؒ عثمانی کی خدمات کا اعتراف خود بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس وقت کے قومی پریس میں واضح طور پر کیا۔ اور ان کی خدمات کے عملی اعتراف کے طور پر پاکستان کا جھنڈا کراچی میں علامہ شبیر احمدؒ عثمانی اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمدؒ عثمانی کے ہاتھوں سب سے پہلے لہرایا گیا۔
جمعیۃ علماء کا قیام باضابطہ طور پر ۲۸ دسمبر ۱۹۱۹ء کو امرتسر میں معرضِ عمل میں آیا۔ اس کا قیام دراصل تحریک ولی اللہی کو اس وقت کے حالات اور تقاضوں کے مطابق ازسرنو منظم کرنے کے لیے عمل میں آیا تھا۔ اس جگہ تحریک ولی اللہی کے مختلف ادوار کا ذکر ضروری ہے تاکہ جمعیۃ علماء ہند کے قیام کا بنیادی مقصد سمجھنے میں دشواری پیش نہ آئے۔
سب سے پہلے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے برصغیر میں مغلوں کا زوال اور مرہٹوں کے بڑھتے ہوئے قدم دیکھ کر افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالیؒ کو ہندوستان پر حملہ کرنے اور مرہٹوں کا زور توڑنے کی دعوت دی۔ چنانچہ انہوں نے ہندوستان کے اہلِ حق کی معاونت سے پانی پت کے تاریخی میدان میں مرہٹوں کو فیصلہ کن شکست دے کر ان کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ اس کے ساتھ ہی امام ولی اللہؒ نے آنے والے خطرات کو بھانپ کر اسلام کے اقتصادی، سیاسی اور معاشی نظریاتی کی وضاحت کی اور انقلابِ فرانس سے پچاس سال قبل اور کارل مارکس کی پیدائش سے سو سال قبل انسان کے جمہوری و اقتصادی حقوق قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرما کر ایک فکری و عملی جماعت کی بنیاد رکھ دی، جس جماعت نے برصغیر میں ان مقاصد کے لیے نمایاں خدمات انجام دیں:
- جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے برصغیر کو اپنے تسلط میں لے کر فرنگی قوانین کے اجراء کا اعلان کیا تو حضرت شاہ ولی اللہؒ کے جانشین اور تحریک ولی اللہی کے سربراہ شاہ عبد العزیزؒ نے ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر فرنگی کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا اور اس کے لیے باقاعدہ جماعت کو عملی طور پر تیار کیا۔
- حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پوتے شاہ اسماعیل شہیدؒ نے سید احمد شہیدؒ کے ساتھ مل کر جہاد کا آغاز تحریک ولی اللہی کے سوچے سمجھے پروگرام کے مطابق پشاور کے علاقہ سے کیا۔ تحریک ولی اللہی کی فوج راجھستان، سندھ اور بلوچستان سے ہوتی ہوئی پشاور پہنچی اور اس علاقہ کو اپنی تحویل میں لے کر تحریک ولی اللہی کے پروگرام کے مطابق اس صوبہ میں، جس کی سرحدیں آزاد کشمیر کے پہاڑوں سے خوشاب کی پہاڑیوں تک وسیع تھیں، قرآن و سنت کا نظام نافذ کیا۔ سید احمد شہیدؒ نے امیر المومنین کی حیثیت سے چھ ماہ اس خطہ پر حکومت کی لیکن پنجاب کی سکھ حکومت نے اسے اپنے اقتدار کے لیے خطرہ محسوس کرتے ہوئے انگریز کی مدد سے سازشوں کے جال بچھا دیے چنانچہ شاہ اسماعیل شہیدؒ اور سید احمد شہیدؒ ۶ مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ میں شیرسنگھ کی فوج اور اس کی پشت پر فرنگی ڈپلومیسی کا مقابلہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرما گئے۔
- اس کے بعد ولی اللہی تحریک نے جدوجہد کو نئے سرے سے منظم کیا جس کے نتیجے میں ۱۸۵۷ء کا عظیم الشان معرکۂ حریت برپا ہوا۔ اس معرکۂ حریت میں دہلی کے محاذ کے سپہ سالار جنرل بخت خان روہیلاؒ نے سید احمد شہیدؒ کے خلیفہ مولوی سرفراز علیؒ کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی تھی۔ اور شاملی کے محاذ پر حضرت شاہ ولی اللہؒ کے خاندان کے علمی و روحانی فرزند مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حافظ ضامن شہیدؒ اور مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے جہاد کی کمان سنبھالی تھی۔ مگر اپنوں کی غداری کی وجہ سے یہ منصوبہ کامیابی کی آخری حد تک پہنچتے پہنچتے ناکام ہوگیا۔
- ۱۸۵۷ء کے جہاد کی وقتی ناکامی، ہزاروں علماء کی شہادت، فرنگی کی طرف سے ہزاروں دینی مدارس کے خاتمہ اور ہندوستان کے سادہ لوح مسلمانوں پر یورپی عیسائی پادریوں کی یکطرفہ فکری یلغار کے بعد تحریک ولی اللہی نے دینی علوم کو زندہ رکھنے کے لیے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی اور امدادِ باہمی کی بنیاد پر اس عظیم تعلیمی تحریک کا آغاز کیا، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اس کے بانی ہیں۔ جبکہ عیسائی پادریوں کی فکری یلغار کو مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ، مولانا شرف الحق دہلویؒ اور ان کے رفقاء نے روکا اور اس طرح فرنگی کے فکری و علمی حملہ کو ناکام بنا دیا۔
- دارالعلوم دیوبند سے فارغ ہونے والے پہلے طالب علم شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ نے اپنے شاگرد مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور دیگر تلامذہ کے ساتھ جمعیۃ الانصار قائم کی جس کا بنیادی مقصد علماء کو انگریز کے خلاف جدوجہد پر آمادہ کرنا تھا۔ خود حضرت شیخ الہندؒ نے ترکی، افغانستان اور حجاز کی حکومتوں کی مدد سے آزادیٔ وطن کی تحریک کا خاکہ تیار کیا جس کے تحت ترکی کی فوج نے افغانستان کے راستہ سے ہندوستان پر حملہ کرنا تھا اور تحریک ولی اللہی نے ملک کے اندر علمِ جہاد و حریت بلند کر کے فرنگی اقتدار کا تختہ الٹنا تھا۔ لیکن تحریک کی دستاویزات قبل از وقت انگریز کے ہاتھ لگ گئیں جس کی وجہ سے یہ منصوبہ ناکام ہوگیا ورنہ خود انگریز کے بقول فرنگی کو سمندر بھی پناہ نہ دیتا۔ چنانچہ شیخ الہندؒ کو ان کے رفقاء مولانا سید احمدؒ مدنی اور مولانا عزیر گل مدظلہ اور دیگر احباب سمیت جزیرہ مالٹا میں نظر بند کر دیا گیا۔
- اس منصوبہ میں شرکت کے جرم میں افغانستان کو بھی فرنگی کے غیظ و غضب کا نشانہ بننا پڑا۔ افغانستان کو فرنگی تسلط سے بچانے اور تحریک آزادی کے لیے پناہ گزین کیمپ کے طور پر محفوظ رکھنے کے لیے تحریک ولی اللہی کے رہنما مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے کابل میں بیٹھ کر فرنگی کے خلاف افغانستان کی مسلح جنگ کی رہنمائی کی جس کے نتیجے میں افغانستان پر جنگی اقتدار قائم نہ ہو سکا۔ غالباً دنیا کا واحد ملک افغانستان ہے جو فرنگی تسلط سے محفوظ رہا، اس کی مفصل رپورٹ مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے رفیق ظفر حسین ایبک نے اپنی آپ بیتی مطبوعہ قومی کتب خانہ لاہور میں درج کی ہے۔
ان مراحل سے گزر جانے کے بعد جب آئینی جدوجہد کا مرحلہ پیش آیا تو جمعیۃ علماء ہند کی بنیاد رکھی گئی۔
جمعیۃ کا پہلا اجلاس اور دستور و منشور
جمعیۃ علماء ہند کا پہلا اجلاس ۲۸ دسمبر ۱۹۱۹ء کو امرتسر میں مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ کی میزبانی میں مولانا عبد الباری فرنگی محلیؒ کی زیرصدارت منعقد ہوا، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ کو جمعیۃ کا صدر اور مولانا احمد سعید دہلویؒ کو ناظمِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ اس اجلاس کی آخری نشست کی صدارت مولانا مفتی کفایت اللہؒ نے کی۔ ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘ کے مصنف جناب مولانا طفیل احمد علیگ مرحوم نے جمعیۃ کی روداد کے حوالہ سے جمعیۃ کے قیام کے مقاصد پر مندرجہ ذیل روشنی ڈالی:
’’۲۲ نومبر ۱۹۱۹ء کو جب دہلی میں خلافت کانفرنس کا پہلا اجلاس اس غرض سے منعقد کیا گیا کہ اتحادیوں سے عموماً اور حکومت برطانیہ سے خصوصاً ان وعدوں کے ایفا کا مطالبہ کیا جائے جو مسلمانوں سے جنگ عمومی کے وقت کیے گئے تھے تو خلافت کے اس جلسہ میں علماء نے اس امر کی ضرورت محسوس کی کہ ان علماء کرام کو ایک رابطہ میں منسلک کیا جائے جن کی اجتماعی قوت کو ۱۸۵۷ء کے انقلاب میں بالکل منتشر کر دیا گیا تھا۔‘‘
ہندوستان کی سیاست محض چاپلوسی اور خوشامد اور اظہارِ وفاداری تک محدود ہو چکی تھی۔ گویا کہ مسلمانوں کا سب سے بڑا سیاستدان وہ سمجھا جاتا تھا جو حکومتِ متسلطہ کا سب سے بڑا وفادار ہوتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ علماء مذہب جو طبعاً خوشامد اور چاپلوسی سے متنفر ہیں اور جو بڑے بڑے جابر بادشاہوں کے مقابلہ میں اعلاء کلمۃ الحق کے حاوی رہے ہیں اس سیاست سے علیحدہ ہو کر گوشہ نشین ہوگئے تھے۔ لہٰذا ۱۸۵۷ء میں علماء حق کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک کیا گیا اور جس بے دردی کے ساتھ بے شمار علماء ہند کو پھانسی اور جلاوطنی کی وحشیانہ سزائیں دی گئی تھیں اس کا مقتضٰی قدرتاً یہ تھا کہ علماء کو مجبورًا گوشہ نشینی کی زندگی اختیار کرنی پڑی۔ چونکہ مسلمانوں کی سیاست نے ۱۹۱۹ء میں پھر پلٹا کھایا اور خوشامد و تملق کی پالیسی تبدیل ہوئی تو علماء امت نے دوبارہ سیاسی میدانِ عمل میں قدم رکھا اور جمعیۃ علماء ہند کا قیام کیا گیا۔
جمعیۃ علماء ہند کا دوسرا اجلاس
جمعیۃ علماء ہند کا دوسرا اجلاس ۱۹، ۲۰، ۲۱ اکتوبر ۱۹۲۰ء کو دہلی میں زیرصدارت حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ منعقد ہوا جس میں مولانا ابوالکلام آزادؒ بھی شریک ہوئے۔ حضرت شیخ الہندؒ نے اپنے تاریخی خطبہ میں، جو آپ کا آخری خطبہ تھا، اسلامیانِ ہند کو آئندہ لائحہ عمل کے لیے واضح ہدایات دیں۔ اہم ترین ارشادات درج ذیل ہیں:
- تحفظِ ملت اور تحفظِ خلافت کے خالص اسلامی مطالبہ میں اگر برادرانِ وطن ہمدردی اور اعانت کریں تو جائز ہے اور وہ مستحقِ شکریہ ہیں۔
- اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن انگریز ہے جس سے ترکِ موالات فرض ہے۔
- استخلاصِ وطن کے لیے برادرانِ وطن سے اشتراکِ عمل جائز ہے مگر اس طرح کہ مذہبی حقوق میں رخنہ واقع نہ ہو۔
- اگر موجودہ زمانہ میں توپ، بندوق، ہوائی جہاز کا استعمال مدافعتِ اعداء کے لیے جائز ہو سکتا ہے (باوجودیکہ قرونِ اولیٰ میں یہ چیزیں نہ تھیں) تو مظاہروں اور قومی اتحادوں اور متفقہ مطالبوں کے جواز میں تامل نہ ہوگا۔
اس تاریخی اجلاس میں مندرجہ ذیل تجاویز منظور کر کے جمعیۃ علماء ہند نے اپنے آئندہ لائحۂ عمل کی وضاحت کر دی:
- مسلمانوں کو احکامِ شرعی کی تعمیل کی طرف متوجہ کیا جائے۔
- حکومت سے ترکِ موالات کر کے خطابات، عہدے، ممبری، کونسل، ملازمت، فوج اور سرکاری تعلیم کو چھوڑا جائے۔
- انگلستان کا تجارتی مقاطعہ کیا جائے۔
- عدالتوں میں مقدمات کی پیروی ترک کی جائے۔
- برادرانِ وطن کے تحریکِ خلافت میں شریک ہونے کو بنظرِ اطمینان دیکھا جائے اور ان سے خوشگوار تعلقات رکھے جائیں۔
- قومی بیت المال اور شعبہ تبلیغ قائم کیے جائیں۔
- قومی درسگاہیں سرکاری امداد لینا بند کر دیں۔
- اسی اجلاس میں انگریزی فوج میں بھرتی ہونے کو حرام قرار دیا گیا اور پانچ سو علماء کا متفقہ فتویٰ شائع کیا گیا کہ سرکاری فوج میں بھرتی ہونا حرام ہے۔ یہ فتویٰ ضبط کر لیا گیا اور اس فتویٰ کی بنا پر مولانا سید حسین احمدؒ مدنی، مولانا محمد علی جوہرؒ اور دیگر زعماء پر بغاوت کا تاریخی مقدمہ چلایا گیا۔
تیسرا اجلاس
۱۹ نومبر ۱۹۲۱ء کو لاہور میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں طے ہوا کہ ولایتی کپڑے کا بائیکاٹ کیا جائے۔ نیز گزشتہ اجلاس میں فوج اور پولیس کی ملازمت کو ممنوع قرار دینے اور پانچ سو علماء کی طرف سے اس کے حرام ہونے کے فتویٰ کی حکومت کی طرف سے ضبطی پر احتجاج کرتے ہوئے اس فتویٰ کا دوبارہ اعلان کیا گیا۔
چوتھا اجلاس
۲۴ دسمبر ۱۹۲۲ء کو گیا میں زیرصدارت مولانا حبیب الرحمانؒ دیوبندی منعقد ہوا۔
پانچواں اجلاس
۳۱ دسمبر ۱۹۲۳ کو کناڈا میں حضرت مولانا حسین احمدؒ مدنی کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں دیگر مطالبات کے ساتھ ساتھ جزیرۃ العرب کی آزادی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
چھٹا اجلاس
۱۱ تا ۱۶ جنوری ۱۹۲۵ میں مراد آباد میں حضرت مولانا سید محمد سجادؒ کی زیرصدارت منعقد ہوا۔
ساتواں اجلاس
اس لحاظ سے نمایاں اور تاریخی حیثیت کا حامل ہے کہ اس اجلاس میں جمعیۃ علماء ہند نے سب سے پہلے فرنگی سے ہندوستان کو مکمل طور پر آزاد کر دینے اور ہند چھوڑ کر چلے جانے کا مطالبہ کیا۔ جبکہ کانگریس اور مسلم لیگ سمیت دوسری تمام جماعتیں ابھی آزادیٔ کامل کے مطالبہ کے اسٹیج پر نہیں پہنچی تھیں۔ یہ تاریخ ساز اجلاس ۱۴ مارچ ۱۹۲۶ء کو کلکتہ میں علامہ سید سلیمان ندویؒ کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں آزادیٔ کامل کا مندرجہ ذیل تاریخی ریزرویشن منظور کیا گیا:
’’چونکہ برادرانِ وطن کے مخالفانہ طرزِ عمل سے منافرت کی خلیج وسیع ہو رہی ہے اس لیے مسلمان اپنی تنظیم کر کے اپنے بل پر ملک کو آزاد کرائیں۔ البتہ جو غیرمسلم حضرات اس بارے میں اتحادِ عمل کرنا چاہیں ان کے ساتھ اتحادِ عمل کیا جائے۔ اس کے لیے عملی کام یہ ہیں:
- مسلم قوم عموماً اور علماء بالخصوص سیاسی امور میں غوروخوض اور تبلیغ کیا کریں۔
- آزادیٔ ہند کے فریضہ ہونے کے مذہبی، مالی، ملکی وجوہ اسباب کو نہایت غوروخوض سے دریافت کریں اور لوگوں کو سمجھائیں۔ دیگر مذہبی امور کی اشاعت کی طرح اس کو بھی ضروری سمجھیں۔ آزادی اور دیگر حقوق کے سلب ہونے کی مضرتوں اور مفاسد کی اشاعت نہایت پر امن طریقہ سے کر کے ہر مسلمان کو زندہ کریں۔
- قومی اخبارات اور رسائل کا، جو آزادی پر روشنی ڈالتے ہیں، مطالعہ کیا کریں۔
- اور مسلمانوں سے افلاس دور کرنے کی کوشش کریں۔
آٹھواں اجلاس
۲ تا ۵ دسمبر ۱۹۲۷ء کو پشاور میں علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں آزادی کا مطالبہ دہرانے کے ساتھ مسٹر محمد علی جناح کے چودہ نکاتی فارمولا کی تائید کی گئی۔
نواں اجلاس
۳ تا ۶ مئی ۱۹۳۰ء کو شاہ معین الدین اجمیریؒ کی زیرصدارت امروہہ میں منعقد ہوا جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ چونکہ کانگریس نے آزادیٔ کامل کے مطالبہ کا اعلان کر دیا ہے اس لیے جمعیۃ علماء ہند اس کے ساتھ اشتراکِ عمل کرے گی۔
دسواں اجلاس
۳۱ مارچ و یکم اپریل ۱۹۳۱ء کو کراچی میں مولانا ابوالکلام آزادؒ کی زیرصدارت منعقد ہوا۔ اس کے بعد مسلسل جدوجہد اور قائدین کے بار بار جیل جانے کی وجہ سے آٹھ سال تک سالانہ اجلاس نہ ہو سکا۔
گیارہواں اجلاس
۳ تا ۶ مارچ ۱۹۳۹ء کو مولانا عبد الحقؒ مدنی کی صدارت میں بمقام دہلی منعقد ہوا جس میں ایک بار پھر کانگریس کے ساتھ آزادیٔ وطن کی خاطر اشتراکِ عمل کا اعلان کیا گیا۔
بارہواں اجلاس
۷ تا ۹ جون ۱۹۴۰ء کو جونپور میں زیرصدارت حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی منعقد ہوا جس میں آپ نے پاکستان کی تجویز کے بارے میں جمعیۃ علماء ہند کی رائے کا مندرجہ ذیل الفاظ میں اظہار فرمایا:
’’اس زمانہ میں پاکستان کی تحریکِ زبان زد عوام ہے۔ اگر اس کا مطلب اسلامی حکومت علی منہاج النبوۃ (جس میں تمام احکام اسلامی حدود و قصاص جاری ہوں) مسلم اکثریت والے صوبوں میں قائم کرنا ہے تو ماشاء اللہ نہایت مبارک اسکیم ہے، کوئی بھی مسلمان اس میں گفتگو نہیں کر سکتا، مگر بحالات موجودہ یہ چیز متصور الوقوع نہیں۔ اور اگر اس کا مقصد انگریز حکومت کے ماتحت کوئی ایسی حکومت قائم کرنا ہے جسے مسلم حکومت کا نام دیا جا سکے تو میرے نزدیک یہ اسکیم محض بزدلانہ و سفیہانہ ہے۔‘‘
۲۰، ۲۱، ۲۲ مارچ ۱۹۴۲ء کو لاہور میں حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کی زیرصدارت منعقد ہوا جس میں جمعیۃ علماء ہند نے برصغیر کی تمام مسلم جماعتوں کو ان الفاظ کے ساتھ اتحاد و اشتراکِ عمل کی دعوت دی:
’’ہندوستان کی آزادی کے متعلق سر اسٹیفورڈ کرپس برطانوی حکومت کا کوئی نظریہ لائے ہیں۔ معلوم نہیں وہ نظریہ کیا ہے اس کے متعلق اظہارِ رائے کا کوئی موقع نہیں۔ تاہم یہ امر یقینی ہے کہ برطانوی حکومت نے اس کام کا بہترین وقت اپنی ناعاقبت اندیشی اور مغرورانہ بے پروائی سے ضائع کر دیا۔ اندیشہ ہے کہ موجودہ نازک لمحات میں کوئی ایسی تجویز بھی جو اگر بروقت ہوتی تو مناسب سمجھی جاتی لیکن بعد از وقت کی مشہو رمثل کے مصداق نہ بن جائے ۔۔۔۔ تاہم ان نازک لمحات میں ہندوستانیوں کے فرائض بہت اہم ہوگئے ہیں۔ جمعیۃ علماء تمام مسلمانانِ ہند اور مسلم اداروں کو پرزور توجہ دلاتی ہے کہ اس وقت تمام مسلم ادارے اور جماعتیں اشتراکِ عمل سے کام لیں اور پورے غوروفکر اور تبادلۂ خیالات کے بعد کسی متحدہ فیصلہ پر سب متفق ہو جائیں۔‘‘
اسی اجلاس میں جمعیۃ علماء ہند نے آزادیٔ ہند کے لیے مندرجہ ذیل فارمولا منظور کیا:
’’جمعیۃ علماء بارہا اس امر کا اعلان کر چکی ہے کہ اس کا نصب العین کامل آزادی ہے۔ اس پر تمام مسلمانانِ ہند متفق ہیں اور اسی کو اپنے لیے ذریعۂ نجات سمجھتے ہیں۔ جمعیۃ نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وطنی آزادی میں مسلمان آزاد ہوں گے، ان کا مذہب آزاد ہوگا اور مسلم کلچر اور تہذیب و ثقافت آزاد ہوگی۔ وہ کسی ایسے آئین کو ہرگز قبول نہیں کریں گے جس کی بنیاد ایسی آزادی پر نہ رکھی گئی ہو۔ جمعیۃ علماء ہند ہندوستان میں صوبوں کی کامل خودمختاری اور آزادی کی زبردست حامی ہے جس میں غیر مصرحہ اختیارات بھی صوبوں کے ہاتھ میں ہوں اور مرکز کو صرف وہی اختیارات ملیں جو تمام صوبے متفقہ طور پر مرکز کے حوالہ کریں اور جن کا تعلق تمام صوبوں سے یکساں ہو۔ جمعیۃ علماء ہند کے نزدیک ہندوستان کے آزاد صوبوں کا سیاسی وفاق ضروری اور مفید ہے۔ مگر وفاق اور ایسی مرکزیت جس میں اپنی مخصوص تہذیب و ثقافت کی مالک نو کروڑ نفوس پر مشتمل مسلمان قوم کسی عددی اکثریت کے رحم و کرم پر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو ایک لمحہ کے لیے بھی گوارا نہ ہوگی۔ یعنی مرکز کی تشکیل ایسے اصول پر ہونی ضروری ہے کہ مسلمان اپنی مذہبی، سیاسی اور تہذیبی آزادی کی طرف سے مطمئن ہوں۔‘‘
چودھواں اجلاس
۴ تا ۷ مئی ۱۹۴۵ء کو جمعیۃ علماء ہند کا اجلاس سہارنپور میں زیرصدارت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی منعقد ہوا جس میں آزادیٔ کامل کے بارے میں سابقہ فارمولا کی مندرجہ ذیل تشریح منظور کی گئی:
’’اگرچہ اس تجویز میں بیان کردہ اصول اور ان کا مقصد واضح ہے کہ جمعیۃ علماء مسلمانوں کی مذہبی و سیاسی اور تہذیبی آزادی کو کسی حال میں چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہے، وہ بے شک ہندوستان میں وفاقی حکومت اور ایک مرکز کو پسند کرتی ہے کیونکہ اس کے خیال میں مجموعہ ہندوستان کی وفاقی حکومت کا قیام اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ صوبوں کے لیے حق خودارادیت تسلیم کر لیا جاوے اور وفاق کی تشکیل اس طرح ہو کہ مرکز کی غیر مسلم اکثریت مسلمانوں کے مذہبی، سیاسی، تہذیبی حقوق پر اپنی عددی اکثریت کے بل بوتے پر تعدی نہ کر سکے۔ مرکز کی ایسی تشکیل جس میں اکثریت کی تعدی کا خوف نہ رہے باہمی افہام و تفہیم سے مندرجہ ذیل صورتوں میں سے کسی صورت پر، یا ان کے علاوہ کسی اور تجویز پر ہو، جو مسلم و غیر مسلم جماعتوں کے اتفاق سے طے ہو جائے، ممکن ہے۔
- مثلاً مرکزی ایوان میں ممبروں کی تعداد کا تناسب یہ ہو: ہندو ۴۵، مسلمان ۴۵، دیگر اقلیتیں ۱۰
- مرکزی حکومت میں کسی بل یا تجویز کو مسلم ارکان کی دو تہائی اکثریت اپنے مذہب یا اپنی سیاسی آزادی یا اپنی تہذیب و ثقافت پر مخالفانہ اثر انداز قرار دے تو وہ بل یا تجویز ایوان میں پیش یا پاس نہ ہو سکے گا۔
- ایک ایسا سپریم کورٹ قائم کیا جائے جس میں مسلم و غیر مسلم ججوں کی تعداد مساوی ہو اور جس کے ججوں کا تقرر مسلم و غیر مسلم صوبوں کے مساوی تعداد کے ارکان کمیٹی کرے۔ یہ سپریم کورٹ مرکز و صوبوں کے درمیان تنازعات، یا صوبوں کے باہمی تنازعات، یا ملک کی قوموں کے تنازعات کے آخری فیصلے کرے گا۔ نیز تجویز نمبر ۲ کے ماتحت اگر کسی بل کے مسلمانوں کے خلاف ہونے یا نہ ہونے میں مرکز کی اکثریت مسلم ارکان کی دو تہائی اکثریت کے فیصلہ سے اختلاف کرے تو اس کا فیصلہ سپریم کورٹ سے کرایا جائے گا۔
- یا کوئی اور تجویز جسے فریقین باہمی اتفاق سے طے کر لیں۔‘‘
جمعیۃ علماء ہند کے زیر اہتمام دہلی میں جلسۂ عام
۲۶ اپریل ۱۹۴۷ء کو اردو پارک دہلی میں جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کی زیرصدارت ایک عظیم الشان جلسہ عام منعقد ہوا جس میں مولانا ابوالکلام آزادؒ، شیخ حسام الدینؒ، مولانا حفظ الرحمان سیوہارویؒ، مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ اور ماسٹر تاج الدین انصاریؒ بھی اسٹیج پر موجود تھے۔ اس عظیم جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے احرار رہنما امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
’’حضرات! آج میں نے کوئی تقریر نہیں کرنی بلکہ چند حقائق ہیں جنہیں بلاتمہید کہنا چاہتا ہوں۔ اس وقت آئینی و غیر آئینی دنیا میں، خواہ دنیا کے اس علاقے کا تعلق ایشیا سے ہو یا یورپ سے، اس وقت جو بحث چل رہی ہے وہ یہ ہے کہ آیا ہندوستان میں ہندو اکثریت کو مسلم اقلیت سے جدا کر کے برصغیر کو دو حصوں میں کر دیا جائے، قطع نظر اس کے کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ مجھے پاکستان بن جانے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا اس بات پر کہ صبح کو سورج مشرق سے طلوع ہوگا۔ لیکن یہ پاکستان وہ پاکستان نہیں ہوگا جو دس کروڑ مسلمانان ہند کے ذہنوں میں اس وقت موجود ہے اور جس کے لیے آپ بڑے خلوص سے کوشاں ہیں۔ ان مخلص نوجوانوں کو کیا معلوم کہ کل کیا ان کے ساتھ ہونے والا ہے۔ بات جھگڑے کی نہیں، بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے۔ سمجھا دو، مان لوں گا۔ لیکن تحریک پاکستان کی قیادت کرنے والوں کے قول و فعل میں بلا کا تضاد اور بنیادی فرق ہے۔
اگر آج کوئی مجھے اس بات کا یقین دلا دے کہ کل کو ہندوستان کے کسی قصبہ کی کسی گلی، کسی شہر کے کسی کوچہ میں حکومت الٰہیہ کا قیام اور شریعت اسلامیہ کا نفاذ ہونے والا ہے تو رب کعبہ کی قسم میں آج ہی اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کا ساتھ دینے کو تیار ہوں۔ لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو لوگ اپنی اڑھائی من لاش پر اور چھ فٹ کے قد پر اسلامی قوانین کو نافذ نہیں کر سکتے، جن کا اٹھنا بیٹھنا، جن کا سونا، جن کا جاگنا، جن کی وضع قطع، جن کا رہن سہن، بول چال، زبان و تہذیب، کھانا پینا، لباس وغیرہ غرضیکہ کوئی چیز بھی اسلام کے مطابق نہ ہو، وہ دس کروڑ کی انسانی آبادی کے ایک قطعہ زمین پر اسلامی قوانین کس طرح نافذ کر سکتے ہیں؟ یہ ایک فریب ہے اور میں یہ فریب کھانے کے لیے ہرگز تیار نہیں۔
ادھر مشرقی پاکستان ہوگا ادھر مغربی پاکستان ہوگا، درمیان میں ۴۰ کروڑ متعصب ہندو کی آبادی ہوگی جس پر اس کی اپنی حکومت ہوگی اور وہ حکومت لالوں کی ہوگی۔ کون لالے؟ لالے دولت والے، لالے ہاتھیوں والے، عیار لالے، مکار لالے۔ ہندو اپنی مکاری و عیاری سے پاکستان کو ہمیشہ تنگ کرتا رہے گا، اسے کمزور بنانے کی ہر کوشش کرے گا، اس تقسیم کی بدولت آپ کے دریاؤں کا پانی روک دیا جائے گا، آپ کی معیشت تباہ کرنے کی کوشش کی جائے گی اور آپ کی حالت یہ ہوگی کہ بوقت ضرورت مشرقی پاکستان مغربی پاکستان کی، اور مغربی پاکستان مشرقی پاکستان کی کوئی سی مدد کرنے سے قاصر ہوگا۔
اندرونی طور پر پاکستان میں چند خاندانوں کی حکومت ہوگی اور یہ خاندان زمینداروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کے خاندان ہوں گے۔ انگریز کے پروردہ، فرنگی سامراج کے خود کاشتہ پودے، سروں، نوابوں اور جاگیرداروں کے خاندان ہوں گے جو اپنی من مانی کارروائیوں سے محب وطن اور غریب عوام الناس کو پریشان کر کے رکھ دیں گے۔ غریب کی زندگی اجیرن ہو کر رہ جائے گی، ان کی لوٹ کھسوٹ سے پاکستان کے عوام، کسان اور مزدور نان شبینہ کو ترس جائیں گے۔ امیر دن بدن امیر تر ہوتا چلا جائے گا اور غریب غریب تر۔ مسلم لیگ اور کانگریس! دونوں سنو!
امیر جمع ہیں احباب دردِ دل کہہ لے
پھر التفاتِ دلِ دوستاں رہے نہ رہےیاد رکھو! اگر آج تم باہم مل بیٹھ کر کوئی معاملہ بھی طے کر لیتے تو وہ تمہارے حق میں بہتر ہوتا۔ تم الگ رہ کر بھی باہم شیر و شکر رہ سکتے تھے۔ مگر تم نے اپنے تنازعہ کا انصاف فرنگی سے مانگا اور وہ تم دونوں کے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والا فساد ضرور پیدا کر کے جائے گا جس سے تم دونوں قیامت تک چین سے نہ بیٹھ سکو گے اور آئندہ بھی تمہارا آپس کا کوئی سا تنازعہ باہمی گفتگو سے کبھی طے نہیں ہو سکے گا۔ آج انگریز کے فیصلہ سے تم تلواروں اور لاٹھیوں سے لڑو گے، تمہاری اس نادانی اور من مانی سے اس برصغیر میں انسانیت کی جو تباہی ہوگی، عورت کی جو بے حرمتی ہوگی، اخلاق و شرافت کی تمام قدریں جس طرح پامال ہوں گی تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ یہاں وحشت و درندگی کا دور دورہ ہوگا، بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہو جائے گا، انسانیت و شرافت کا گلا گھونٹ دیا جائے گا، نہ کسی کی عزت محفوظ ہوگی، نہ جان نہ مال اور نہ ایمان اور اس سب کا ذمہ دار کون ہوگا؟ تم دونوں!‘‘ (منقول از روزنامہ الجمعیۃ دہلی ۲۸ اپریل ۱۹۴۶ بحوالہ نوادرات امیر شریعت۔ مطبوعہ مکتبہ نشریات اہل سنت مدرسہ مفتاح العلوم محلہ ملتانی والا، بیرون چونگی نمبر ۳ کہروڑ پکا ضلع ملتان)
آل انڈیا نیشنل کانگریس کے صدر مولانا ابوالکلام آزادؒ نے ۱۵ اپریل ۱۹۴۶ء کو ایک بیان جاری کیا جسے انہوں نے تصنیف ’’انڈیا وِنز فریڈم‘‘ میں بھی نقل کیا ہے۔ یہ بیان پاکستان کے بارے میں مولانا آزادؒ کے موقف کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔
’’میں نے مسلم لیگ کی پاکستان اسکیم پر ہر ممکن نقطۂ نگاہ سے غور کیا ہے، ایک ہندوستانی کی حیثیت پورے ہندوستان سے متعلق اس کی پیچیدگیوں کا میں نے جائزہ لیا ہے اور ایک مسلمان کی حیثیت سے ہندوستان کے مسلمانوں کی قسمت پر پڑنے والے اور اس کے ممکنہ اثرات کا میں نے تجزیہ کیا ہے۔ اس اسکیم کے تمام پہلوؤں پر میں نے بہت کچھ غور کیا اور اس نتیجہ پر پہونچا ہوں کہ پورے ہندوستان کے لیے اس اسکیم کے جو بھی نقصان ہیں وہ اپنی جگہ لیکن مسلمانوں کے لیے یہ تجویز سخت تباہ کن ہوگی اور اس سے ان کی کوئی مشکل حل ہونے کی بجائے مزید مشکلات پیدا ہوجائیں گی۔
اول تو مجوزہ لفظ ہی میرے نزدیک اسلامی تصورات کے خلاف ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’اللہ تعالیٰ نے تمام روئے زمین میرے لیے مسجد بنا دی ہے‘‘۔ روئے زمین کو پاک اور ناپاک کے درمیان تقسیم کرنا ہی اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ دوسرے یہ کہ پاکستان کی یہ اسکیم ایک طرح سے مسلمانوں کے لیے شکست کی علامت ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد ۹ کروڑ سے زائد ہے اور وہ اپنی اس زبردست تعداد کے ساتھ ایسی مذہبی اور معاشرتی صفات کے حامل ہیں کہ ہندوستان کی قومی و وطنی زندگی میں پالیسی اور نظم و نسق کے تمام معاملات پر فیصلہ کن اثر ڈالنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مزید برآں کئی صوبوں میں مسلمانوں کو مکمل اکثریت حاصل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان کی اسکیم کے ذریعہ ان کی یہ ساری قوت و صلاحیت تقسیم ہو کر ضائع ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں ایک مسلمان کی حیثیت سے ایک لمحہ کے لیے بھی میں اپنا یہ حق نہیں چھوڑ سکتا کہ پورا ہندوستان میرا ہے اور اس کی سیاسی و اقتصادی زندگی میں میری شرکت ناگزیر ہے۔ میرے نزدیک یہ بدترین بزدلی کا نشان ہے کہ میں اپنی میراث پدری سے دستبردار ہو کر ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر قناعت کر لوں۔
میں اس مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو نظر انداز کر کے تنہا مسلم مفاد کے نقطۂ نظر سے بھی غور کرنے کے لیے تیار ہوں کہ اگر پاکستان کی اسکیم کو کسی طور پر بھی مسلمانوں کے لیے مفید ثابت کر دیا جائے تو میں اسے قبول کرلوں گا اور دوسروں سے اسے منوانے پر اپنا پورا زور صرف کر ڈالوں گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم سے مسلمانوں کے جماعتی اور ملی مفاد کو ذرہ بھی فائدہ نہیں پہنچتا اور ان کا کوئی اندیشہ بھی دور نہیں ہو سکتا۔
اب ذرا جذبات سے بالاتر ہو کر اس کے ممکنہ نتائج پر غور کریں کہ جب پاکستان بن جائے گا تو کیا ہوگا؟
ہندوستان دو ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ ایک ریاست میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی، دوسری میں ہندو اکثریت۔ ہندو اکثریت کے علاقوں میں مسلمانوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے زائد ہوگی اور وہ بہت چھوٹی چھوٹی اقلیتوں کی صورت میں پورے ملک میں بکھر کر رہ جائیں گے۔ یعنی آج کل کے مقابلہ میں وہ ہندو اکثریت کے صوبوں میں اور زیادہ کمزور ہو جائیں گے۔ جہاں ان کے گھر بار اور بود و باش ایک ہزار سال سے چلی آرہی ہے اور جہاں انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن کے مشہور اور بڑے بڑے مراکز تعمیر کیے ہیں۔ ہندو اکثریت کے علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کو ایک دن اس اچانک صورتحال سے سابقہ پیش آئے گا کہ ایک صبح آنکھ کھلتے ہی وہ اپنے آپ کو اپنے گھر اور وطن میں ہی پردیسی اور اجنبی پائیں گے۔ صنعتی، تعلیمی اور معاشی لحاظ سے پس ماندہ ہوں گے اور ایک ایسی حکومت کے رحم و کرم پر ہوں گے جو خالص ہندو راج بن گئی ہوگی۔ پاکستان میں خواہ مسلمانوں کی مکمل اکثریت کی حکومت ہی کیوں نہ قائم ہو جائے اس سے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں کا مسئلہ ہرگز حل نہ ہو سکے گا۔
دو ریاستیں ایک دوسرے کے مدمقابل بن کر ایک دوسرے کی اقلیتوں کا مسئلہ حل کرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکتیں۔ اس سے صرف یرغمال اور انتقام کا راستہ کھلے گا۔ عالمی معاملات میں بھی پاکستان کوئی نمایاں مقام حاصل نہیں کر پائے گا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں جو فارمولا میں نے پیش کیا ہے اور جسے کانگریس سے منظور کرانے میں کامیاب ہوا ہوں اس میں پاکستان کی تمام خوبیاں موجود ہیں اور وہ ان نقائص سے پاک ہے جو اس اسکیم میں پائے جاتے ہیں۔
دراصل پاکستان کی اسکیم اس خوف کا نتیجہ ہے کہ ہندو مرکز میں اکثریت میں ہوں گے اور مسلم اکثریت کے صوبوں میں ان کی مداخلت ممکن ہے۔ میرے پیش کردہ فارمولے سے جسے کانگریس منظور کر چکی ہے اس خوف کا ازالہ اس طرح ہو جاتا ہے کہ تمام صوبائی وحدتیں مکمل خودمختار ہوں گی۔ مرکزی اختیارات کی دو فہرستیں ہوں گی، ایک لازمی اور دوسری اختیاری۔ مرکز کے پاس صرف وہ چند اختیارات ہوں گے جنہیں صوبے مرکز کو تفویض کریں گے، باقی اختیارات صوبوں کے سپرد ہوں گے۔ مسلم اکثریت کے صوبے اپنی صوابدید کے مطابق ان اختیارات کو استعمال کرنے میں آزاد ہوں گے اور مرکز کو سپرد کردہ معاملات پر بھی اپنا اثر ڈالنے کا حق رکھیں گے۔ بہرحال کابینہ مشن اور کانگریس دونوں ہی سے میں نے اپنی وفاقی تجویز منظور کرائی جس کی رو سے تمام صوبے مکمل طور پر خودمختار قرار دیے گئے تھے اور صوبوں کی طرف سے صرف ۳ امور مرکز کو تفویض کیے جانے تھے۔ دفاع، امور خارجہ اور رسل و رسائل‘‘۔
مولانا آزادؒ نے بنگلہ دیش کے بارے میں کیا کہا تھا؟ اخبار وطن دہلی مارچ ۱۹۴۸ء کے مطابق مولانا ابوالکلام آزادؒ نے یوپی سے پاکستان جانے والے مسلمانوں کے گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا
’’آپ مادر وطن چھوڑ کر جا رہے ہیں، آپ نے سوچا کہ اس کا انجام کیا ہوگا؟ آپ کے اس طرح فرار ہوتے رہنے سے ہندوستان میں بسنے والے مسلمان کمزور ہو جائیں گے اور ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے جب پاکستان کے علاقائی باشندے اپنی اپنی جداگانہ حیثیتوں کا دعویٰ لے کر اٹھ کھڑے ہوں۔ بنگالی، پنجابی، سندھی، بلوچ اور پٹھان خود کو مستقل قومیں قرار دینے لگیں۔ کیا اس وقت آپ کی پوزیشن پاکستان میں بن بلائے مہمان کی طرح نازک اور بے کسانا نہیں رہ جائے گی؟ ہندو آپ کا مذہبی مخالف تو ہو سکتا ہے، قومی اور وطنی مخالف نہیں۔ آپ اس صورتحال سے نمٹ سکتے ہیں مگر پاکستان میں آپ کو کسی وقت بھی قومی اور وطنی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑ جائے گا جس کے آگے آپ بے بس ہو جائیں گے‘‘۔
۲۳ مارچ ۱۹۴۲ء کو دہلی دروازہ لاہور کے بیرونی باغ میں جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام کے مشترکہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ابوالکلام آزادؒ نے کہا:
’’سوال یہ ہے کہ بحیثیت ایک ہندوستانی مسلمان کے ہمیں مستقبل کے متعلق کیا فیصلہ کرنا چاہیے؟ میں آنے والے زمانے کو کمزوری و تذبذب سے نہیں دیکھتا بلکہ عزم و ہمت او رحوصلہ سے دیکھ رہا ہوں۔ جو قوم اپنے آپ کو بچانے پر قادر نہ ہو اس کو تحفظات نہیں بچا سکتے۔ مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ ہے۔ اگر دس کروڑ کی بجائے مسلمان دس لاکھ بھی ہوتے اور ان کے دل میں یہ خیال ہوتا کہ وہ مرنے کے لیے نہیں زندہ رہنے کے لیے ہیں تو کوئی قوم ان کو نہیں مٹا سکتی۔
ہندوستان میں آباد اتنی بڑی تعداد کو اقلیت قرار دینا اور ان کے لیے اقلیتی حقوق اور اقلیتی علیحدگی کا مطالبہ کرنا نہ صرف بزدلی ہے بلکہ ان کے شاندار مستقبل کے لیے تباہ کن ہے۔ میرے نزدیک ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت اقلیت کی نہیں بلکہ دوسری بڑی اکثریت کی ہے۔
پس میری جگہ تذبذب اور کمزوری نہیں بلکہ یقین اور ایمان کی ہے۔ لیکن اگر اتنی بڑی تعداد یعنی دس کروڑ کے ہوتے ہوئے بھی تم یہ خیال کرتے ہو کہ فنا ہو جاؤ گے، مٹ جاؤ گے تو اس کا کیا علاج، کہ دس کروڑ لاشوں کو کوئی تحفظ اور کوئی دستور نہیں بچا سکتا‘‘۔ (بحوالہ ’’مولانا آزاد نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے بارے میں کیا کہا تھا‘‘ تالیف ڈاکٹر احمد حسین کمال مطبوعہ جمعیۃ اکادمی سی ۱۵۳ کورنگی ۶ کراچی ۳)
جمعیۃ کے مرکزی اور صوبائی دفاتر کئی جگہ تھے۔ مرکزی دفتر دہلی میں تھا جو آج بھی ہندوستان کی جمعیۃ کا صدر دفتر ہے اور قوم کی اصلاح میں مصروف عمل ہے۔ صوبائی دفاتر صوبوں کے صدر مقامات میں ہی ہو سکتے ہیں۔
دیوبند اور علی گڑھ کا اختلاف
علی گڑھ تحریک کے بانی سر سید احمد خان مرحوم اور دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ایک ہی استاد حضرت مولانا مملوک علیؒ کے شاگرد تھے لیکن دونوں کے خیالات و افکار اور کردار و عمل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ سرسید احمد خان مرحوم اور مولانا قاسم نانوتویؒ کے درمیان یا دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ تحریک کے درمیان فرق کو مختلف پہلوؤں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، ان کے رفقاء اور دارالعلوم دیوبند اور اس کے اعضاء و ارکان نے انگریزی حکومت کے خلاف تحریک کی ہمیشہ قیادت کی ہے اور ہر معرکۂ جدوجہد میں پیش پیش رہے ہیں۔ جبکہ سرسید احمد خان اور مجموعی طور پر علی گڑھ تحریک کا رویہ انگریز حکومت کے ساتھ مفاہمت اور معاونت کا رہا ہے۔ حتیٰ کہ جب جنگ لڑی جا رہی تھی سر سید احمد خان کی ہمدردیاں اور خدمات فرنگی حکومت کو حاصل تھیں اور انہوں نے انگریز حکومت کے ایک ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے انقلاب ۱۸۵۷ء کو ناکام بنانے کی پوری سعی کی۔ خود ان کی تحریر کردہ کتاب ’’سرکشی ضلع بجنور‘‘ جو ۱۸۵۷ء کے انقلاب کے دوران ان کی روزانہ ڈائری پر مشتمل ہے ان کے اس طرزعمل پر شاہد عدل ہے۔
- مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور ان کے رفقاء دارالعلوم دیوبند اور اس کے اکابر و اصاغر نے اسلام کے عقائد اور قرآن و حدیث کی تشریحات کے ضمن میں حضرات صحابہ کرامؓ، حضرات ائمہ کرام سلف صالحین اور امتِ مسلمہ کے چودہ سو سالہ اجماعی تعامل کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور قرآن و حدیث کی جو تشریح و تفسیر بزرگانِ امت سے اجماعی طور پر نقل ہوتی چلی آئی ہے اس میں ردوبدل قبول نہیں کیا۔ جبکہ سرسید احمد خان نے اسلام کے بنیادی عقائد اور قرآن و حدیث کی اجماعی تشریحات سے انحراف کی راہ نکالی اور قرآن و حدیث کی ہر وہ بات جو ان کی عقل کے ترازو پر پورا نہیں اتر سکی اس سے انہوں نے انکار کر دیا۔ مثلاً حضرات انبیاء کرامؑ کے معجزات کا انکار، فرشتوں کا انکار، حضرت جبرائیلؑ کے وجود کا انکار، آسمانوں کے وجود کا انکار، جنت و دوزخ کا انکار، قبلۂ رخ ہو کر نماز پڑھنے کو خدا کا حکم ماننے سے انکار، سود کی بہت سی قسموں کو حلال قرار دینا، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے سے انکار، بدر کے میدان میں فرشتوں کے نازل ہونے سے انکار، نبی اکرمؐ کی معراج جسمانی کا انکار اور دیگر ایسے بنیادی عقائد سے انکار کرنا جن کا ثبوت قرآن مجید اور احادیث کی قطعی نصوص سے ملتا ہے اور جن پر پوری امت کا چودہ سو سال سے اجماع و اتفاق چلا آرہا ہے۔
- قومی زندگی میں دیوبند کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ انگریز کے ساتھ کلی طور پر ترکِ موالات کیا جائے، اس کی تہذیب و ثقافت، تعلیم و قانون، ملازمت، معاشرت اور تجارت غرضیکہ کسی بھی معاملہ میں اس سے تعاون نہ کیا جائے۔ دیوبند کی نظر میں انگریز اپنی تعلیم اور تہذیب کے ذریعے مسلمان قوم کو دین اسلام سے دور ہٹانا چاہتا تھا اور ان کو فکری و عملی طور پر ہمیشہ کے لیے اپنا غلام بنائے رکھنا چاہتا تھا، اس لیے دیوبند نے بجا طور پر پوری سختی کے ساتھ انگریزی تعلیم و تہذیب کو قبول کرنے سے مسلمانوں کو روکا۔ جبکہ سر سید احمد خان دین کی اجماعی تشریح سے انحراف کے بعد نئی تہذیب کو اپنانے، انگریزی تعلیم حاصل کرنے اور انگریز کی ملازمت اختیار کرنے کے سب سے بڑے داعی تھے ان کے خیال میں مسلمان کی ترقی اس بات میں تھی کہ وہ حکمران گروہ کے کلچر اور زبان و تعلیم کو قبول کر کے پوری طرح ان میں گھل مل جائے ۔۔۔۔۔ گویا دیوبند کے نقطۂ نظر میں اپنے عقائد و روایات پر سختی کے ساتھ کاربند رہنے اور فرنگی کی کسی بھی چیز کو قبول نہ کرنے میں مسلمان کی غیرت اور ان کا روشن مستقبل پنہاں تھا۔ اور علی گڑھ کو یہ روشن مستقبل فرنگی کے ساتھ تعاون کرنے اور اس کی ملازمت اختیار کرنے اور اسلام کے اجماعی عقائد سے انحراف کرنے میں نظر آرہا تھا۔
حکیم الامت حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانویؒ نے تتمہ امداد الفتاوٰی ص ۲۶۴ تا ۲۷۴ میں سر سید احمد خان کے ان عقائد و خیالات کا نقشہ ان کی کتابوں کے حولے سے تحریر فرمایا ہے۔ تفسیر حقانی کے مصنف مولانا عبد الحقؒ حقانی نے تفسیر کے مقدمہ میں اور علامہ سید سلیمان ندویؒ نے حیاتِ شبلیؒ میں سر سید احمد خان کے ان عقائد پر تفصیلی بحث کی ہے۔
مولانا آزادؒ کا جمعیۃ میں کردار
مولانا ابوالکلام آزادؒ جمعیۃ علماء ہند کی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے ہیں اور جمعیۃ کے بعض اجلاسوں کی صدارت بھی انہوں نے فرمائی ہے اور جمعیۃ کے اہم فیصلوں میں ان کی گرامی قدر رائے کو بنیادی حیثیت حاصل ہوتی تھی۔
قائد اعظم محمد علی جناح اور جمعیۃ
قائد اعظم مرحوم کبھی جمعیۃ علماء ہند میں شامل نہیں رہے۔ ۱۹۳۴ء/ ۱۹۳۵ء کے انتخابات میں جمعیۃ علماء ہند اور مسلم لیگ کے درمیان انتخابی معاہدہ ہوا تھا اور انتخاب میں مشترکہ طور پر حصہ لیا گیا تھا لیکن بعد میں یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اس کی تفصیل مولانا طفیل احمد علیگ کی کتاب ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے۔
جمعیۃ کانگریس تعلق کی نوعیت
جمعیۃ علماء ہند نے آزادیٔ وطن کی خاطر کانگریس کے ساتھ تعاون کی پالیسی اختیار کی تھی۔ جمعیۃ کے متعدد ارکان کانگریس کے بھی رکن رہے ہیں۔ جمعیۃ کے صدر حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی بھی کانگریس کے رکن رہے ہیں اور کانگریس کے صدر مولانا ابوالکلام آزادؒ جمعیۃ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن تھے۔ غرضیکہ آزادیٔ وطن کی خاطر دونوں جماعتوں نے شانہ بشانہ کام کیا۔
جمعیۃ علماء ہند کا مسلم لیگ سے تعلق
جمعیۃ علماء ہند اور مسلم لیگ کے درمیان جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ۱۹۳۴ء میں باہمی تعاون کا معاہدہ ہوا تھا جو کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے بعد دونوں جماعتوں کی راہِ عمل ایک دوسرے سے مختلف رہی۔
دارالعلوم دیوبند اور تاریخِ برصغیر
دارالعلوم دیوبند اس دور میں قائم ہوا تھا جبکہ:
- علماء کرام کی موجودہ کھیپ کی اکثریت ۱۸۵۷ء کے انقلاب کی نذر ہو چکی تھی۔
- دینی مدارس کو فرنگی حکمتِ عملی کے تحت ختم کر دیا گیا تھا۔
- عالمِ اسباب میں قرآن، حدیث، فقہ اور دیگر اسلامی علوم کی حفاظت و ترویج کا کوئی بندوبست نظر نہیں آتا تھا۔
لیکن دارالعلوم دیوبند نے اس پرآشوب دور میں اپنے فرائض کو کماحقہ سرانجام دیا، اس نے:
- مساجد و مدارس کو تازہ بتازہ علماء کی کھیپ مہیا کر کے مسجد و مدرسہ کے نظام کو معطل ہونے سے بچایا۔
- تحریکِ حریت کو شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ، امام انقلاب مولانا عبید اللہ سندھیؒ، مفتی اعظم کفایت اللہؒ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمدؒ مدنی، حضرت مولانا حفظ الرحمانؒ، حضرت مولانا احمد سعید اور علامہ شبیر احمدؒ عثمانی جیسے سیاسی قائد، علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ جیسے محدث اور حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ جیسے ولیٔ کامل مہیا کیے جنہوں نے سیاسی، علمی، فکری، روحانی اور عملی محاذوں پر فرنگی حکمتِ عملی کو شکست دی۔
- اسلامی اقدار و روایات، کلچر و ثقافت اور تہذیب و تمدن کا تحفظ کیا۔ جس کے نتیجہ میں آج برصغیر کے ممالک اسلامی تہذیب و ثقافت کے لحاظ سے دنیا بھر میں نمایاں اہمیت رکھتے ہیں۔
- اسلام کے بنیادی عقائد قرآن و حدیث کی اجماعی تشریحات اور ملتِ اسلامیہ کی راسخ الاعتقادی کا تحفظ کیا اور انحراف و الحاد کے فتنوں کا پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کیا۔ گویا مختصر الفاظ میں دارالعلوم دیوبند نے برصغیر پاک و ہند کو اسپین بننے سے بچا لیا۔
حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کا جمعیۃ میں کردار
حضرت مولانا عبید اللہ انور مدظلہ کے والد محترم اور میرے داداپیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے اپنی تحریکی زندگی کا آغاز امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے ساتھ جمعیۃ الانصار کے پلیٹ فارم سے کیا تھا اور آپ ولی اللہی تحریک کے اس شعبہ کے اہم رکن تھے۔ آپؒ نے دہلی میں کچھ عرصہ امام ولی اللہ کی تعلیمات کی روشنی میں قرآن کریم کی تعلیم بھی دی۔ بعد میں آپ کو ایک جگہ نظربند کر دیا گیا اور اس کے بعد مستقل طور پر آپ کی نظر بندی لاہور میں ہوگئی۔ یہاں آپ نے ایک چھوٹی سی مسجد میں قرآن کریم کی تدریس کا سلسلہ شروع کیا، رفتہ رفتہ آپ کا کام ترقی کرتا گیا یہاں تک کہ آپ نے انجمن خدام الدین کی بنیاد رکھی جو آج تک دین کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف ہے۔ اس انجمن کے تحت ہفت روزہ خدام الدین شائع ہوتا ہے۔ آپ نے قرآن کریم کا ترجمہ اور اس پر حواشی لکھے جن پر تمام مکاتب فکر کے علماء کی تصدیقات ہیں۔ آپ بنیادی طور پر سیاست کی بجائے علم و فکر اور تبلیغ و اصلاح کے میدان کے آدمی تھے اور آپ نے ان شعبوں میں ولی اللہی مشن کی خوب خدمت کی۔ اس کے باوجود آپ کی عقیدت و محبت اور وفاداری کا محور جمعیۃ علماء ہند کے اکابر خصوصاً حضرت شیخ مولانا سید حسینؒ احمد مدنی کی ذات گرامی تھی۔
یوم آزادی کی تقریبات میں شرکت
اس سال بھی یوم آزادی کے حوالہ سے دینی مدارس میں تقریبات کا سلسلہ رہا اور تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے مختلف مراحل کا ان تقریبات میں تذکرہ ہوا۔ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا محمد فیاض خان سواتی نے اس سلسلہ میں عمومی معاشرتی مزاج کا تذکرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر اپنے ایک تبصرے میں اس خدشہ کا بجا طور پر اظہار کیا ہے کہ اگر ان تقریبات کو ایک مناسب دائرے میں کنٹرول نہ کیا گیا تو بہت سی غیر متعلقہ سرگرمیوں کے ان کے ساتھ شامل ہونے سے مستقبل میں بعض مسائل بھی کھڑے ہو سکتے ہیں۔ تاہم آزادی اور ایک نئی اسلامی ریاست کے حصول پر جس طرح دینی مدارس میں خوشی اور جذبات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ ملک و قوم کے ساتھ اہل دین کی محبت کی علامت ہے۔ راقم الحروف کو بھی بعض تقریبات میں حسبِ ذیل ترتیب کے ساتھ شرکت کا موقع ملا۔
- ۱۱ اگست کو مرکزی جامع مسجد شیرانوالہ باغ گوجرانوالہ میں جمعۃ المبارک کے بیان کا موضوع یہی تھا۔
- ہر جمعہ کو مجلس صوت الاسلام کلفٹن کراچی کے زیراہتمام تین سے چار بجے تک آن لائن کلاس ہوتی ہے جس میں کراچی، کوئٹہ، اسلام آباد اور پشاور کے سینکڑوں علماء کرام شریک ہوتے ہیں۔ ۱۱ اگست کو تحریک پاکستان کے تاریخی پس منظر اور قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالہ سے ان سے گفتگو ہوئی۔
- ۱۲ اگست بروز ہفتہ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے دورۂ حدیث کے طلبہ کے تقاضے پر طحاوی شریف کے پیریڈ میں ان سے اس عنوان پر بات چیت کی۔ جبکہ اسی روز بعد نماز مغرب ڈسکہ ضلع سیالکوٹ کی جامع مسجد حنفیہ میں تحریک پاکستان میں علماء حق کے کردار کے موضوع پر منعقدہ نشست سے خطاب ہوا۔
- ۱۳ اگست اتوار کو صبح ۱۱ بجے جوہر ٹاؤن لاہور کے مدرسہ مفتاح العلوم میں متحدہ علماء کونسل کے زیراہتمام تقریب تھی جس میں تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے مختلف پہلوؤں کا تذکرہ ہوا۔ جبکہ اسی روز بعد نماز مغرب مکی مسجد ملتان روڈ لاہور میں علماء کرام کے ایک بھرپور اجتماع میں اس سلسلہ میں کچھ گزارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
- ۱۴ اگست کو ملک کی معروف دینی درسگاہ جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد میں ظہر سے قبل پرچم کشائی اور بیانات کی ایک باوقار تقریب میں شرکت ہوئی۔ مولانا مفتی محمد طیب اور مولانا مفتی محمد زاہد کی نگرانی میں جامعہ کے متعدد طلبہ نے مختلف زبانوں میں آزادی اور پاکستان کے موضوعات پر گفتگو کی اور راقم الحروف نے بھی کچھ معروضات پیش کیں۔ اسی روز بعد نماز ظہر جامعہ اسلامیہ محمدیہ فیصل آباد میں علماء کرام اور طلبہ کی ایک بھرپور نشست تھی جس میں تفصیل کے ساتھ تحریک پاکستان کے مقاصد کا ذکر کیا گیا۔ جبکہ بعد نماز عصر قرآن سنٹر ڈجکوٹ روڈ میں پیر ریاض احمد قادری صاحب نے بھی ایک نشست کا اہتمام کر رکھا تھا۔
ان تقریبات میں تحریک آزادی اور تحریک پاکستان کے حوالہ سے تفصیل کے ساتھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا جن کا دائرہ بہت متنوع اور وسیع ہے اور سب باتوں کا تذکرہ ایک کالم میں نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ان میں سے کچھ معروضات اختصار کے ساتھ قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہیں۔
برطانوی استعمار سے آزادی اور پاکستان کا قیام دونوں مستقل نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک ساتھ عطا فرمائیں مگر ہم نے ان کی قدر نہیں کی اور آج ہم قومی سطح پر جس خلفشار اور باہمی بے اعتمادی کا شکار ہیں وہ اسی ناقدری و ناشکری کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر تم میری نعمتوں پر شکر ادا کرو گے تو میں نعمتوں میں اضافہ کروں گا، لیکن اگر ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بھی بہت سخت ہوتا ہے۔ ہماری آج کی عمومی صورتحال یہ بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ راضی ہوں تو ہمارا یہ حال نہ ہو۔ اس لیے ہمیں اپنی اجتماعی کوتاہیوں پر توبہ و استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے اور قومی طور پر معافی مانگتے ہوئے اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ یوم آزادی کا ہمارے لیے یہی سب سے بڑا پیغام ہے۔
پاکستان کے قیام کے بارے میں بعض حلقوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ تحریک پاکستان کے قائدین خاص طور پر قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے قیام پاکستان سے قبل اپنی عوامی تقریروں میں اسلام، نظریۂ پاکستان اور قرآن و سنت کی حکمرانی کی جو باتیں کی تھیں وہ مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تھیں، جبکہ ان کا مقصد کسی نظریاتی اسلامی ریاست کا قیام نہیں تھا۔ یہ بات خلاف واقعہ ہونے کے ساتھ ساتھ قائد اعظم مرحوم اور ان کے رفقاء کے بارے میں بدگمانی کا اظہار بھی ہے کہ انہوں نے اسلام کا نام سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا تھا۔
قائد اعظم مرحوم کو آج کے دور کے ان انتخابی امیدواروں کی صف میں کھڑا کرنا جو محض عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے سیاسی وعدے کرتے ہیں، قائد اعظم کی عزت نہیں بلکہ ان کی توہین ہے۔ لیکن بالفرض ان حلقوں کی یہ بات چند لمحوں کے لیے مان بھی لی جائے کہ تحریک پاکستان کے دوران اسلام کا نام سیاسی نعرے کے طور پر لیا جاتا تھا تو میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ قیام پاکستان کے ایک سال بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظم نے جو تقریر کی تھی وہ کون سی انتخابی تقریر تھی؟ اس تقریر میں انہوں نے واضح طور پر کہا تھا کہ وہ پاکستان کے معاشی نظام کو مغربی اصولوں پر نہیں بلکہ اسلامی اصولوں پر استوار دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کو فساد اور تباہی کے سوا کچھ نہیں دیا، جبکہ اسلامی اصولوں پر مبنی معیشت ہی دنیا کو امن و انصاف فراہم کر سکتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے افتتاح کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم کی یہ تقریر انتخابی اور سیاسی نہیں بلکہ ایک پالیسی خطاب کی حیثیت رکھتی ہے جس سے پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کے بارے میں قائد اعظم کے جذبات و عزائم کے بارے میں بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان کا قیام اسلامی احکام کی عملداری اور مسلمانوں کے مذہبی امتیاز اور تہذیبی تشخص کے تحفظ کے لیے عمل میں لایا گیا تھا، اس کے علاوہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم کا اور کوئی جواز ہی نہیں بنتا تھا۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ صرف مسلمانوں کی تہذیب و تمدن کا تحفظ اور اسے ہندو تہذیب میں ضم ہونے سے بچانا تھا، اس کا مقصد اسلامی نظام کا نفاذ نہیں تھا۔ میری گزارش یہ ہے کہ بالفرض اگر یہی بات تھی کہ تہذیب و ثقافت کے امتیاز و تشخص کو باقی رکھنے کے لیے الگ ملک حاصل کیا گیا تھا، تو آج مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو مغربی تہذیب اور ہندو ثقافت کی یلغار سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ لوگ کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس لیے کہ ہماری ملی و علاقائی تہذیب مسلسل مغربی اور ہندو ثقافت کی دوطرفہ یلغار کی زد میں ہے اور سیکولر حضرات اس کا مقابلہ کرنے کی بجائے سرے سے پاکستانی تہذیب کے وجود سے ہی انکار کرتے جا رہے ہیں۔ میں ان حضرات سے عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ لوگ اسلامی نظام کی بات نہیں کرنا چاہتے تو مسلمان قوم کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا محاذ ہی سنبھال لیں اور آگے بڑھ کر مغربی اور ہندو تہذیب و ثقافت کی یلغار کا مقابلہ کریں، اسلامی نظام کی بات ہم خود کر لیں گے۔
ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ پاکستان کے نام سے الگ ریاست کے قیام کا اصل مقصد مسلمانوں کا معاشی تحفظ تھا۔ چلیں ہم یہ بات بھی تھوڑی دیر کے لیے مان لیتے ہیں، تو مسلمانوں کو ہندوؤں کے معاشی غلبہ کے خوف سے نکال کر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی معاشی بالادستی کے شکنجے میں جکڑ دینا کونسی قوم پرستی ہے؟ پاکستان بننے کے بعد سے ہم مغرب کے معاشی حصار کا شکار ہیں اور اب اس سے نکل کر مشرق کے معاشی حصار کی طرف بڑھ رہے ہیں، اس کو حب الوطنی اور قومی وقار کا کون سا معیار قرار دیا جائے گا؟ مسلمانوں کے معاشی تحفظ کا مطلب ایک آزاد، خودمختار اور اسلامی معیشت کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ ہم ایک عرصہ سے عالمی استعمار کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں جس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہمیں قیام پاکستان کے اصل مقصد کی طرف واپس جانا ہوگا اور اسلامی احکام و قوانین کی حکمرانی کے ساتھ ساتھ مسلم تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے لیے قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور علامہ محمد اقبالؒ کے اعلانات کو مشعلِ راہ بنانا ہوگا۔ اس کے بغیر نہ ہم پاکستان کو صحیح معنوں میں اسلامی جمہوریہ بنا سکتے ہیں اور نہ ہی قوموں کی برادری میں کوئی باوقار مقام حاصل کر سکتے ہیں۔
آزادی کے مقاصد اور ہماری کوتاہیاں
۱۱ اگست ۲۰۲۲ء کو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ علومِ اسلامی کے زیر اہتمام ’’یومِ آزادی‘‘ کے سلسلہ میں تقریب سے خطاب کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یومِ آزادی کے حوالے سے اس تقریب کے انعقاد اور اس میں شرکت کا موقع دینے پر صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر محمد حماد لکھوی اور ان کے رفقاء کا شکرگزار ہوں۔ اس موقع پر جن طلبہ اور طالبات نے قیامِ پاکستان اور حصولِ آزادی کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے وہ میرے لیے خوشی کا باعث بنے ہیں کہ ہماری نئی نسل اپنے ماضی کا احساس رکھتی ہے، حال سے با خبر ہے، اور مستقبل کے خطرات پر بھی اس کی نظر ہے جو میرے جیسے لوگوں کو حوصلہ دے رہی ہے کہ ہمارے مستقبل کی قیادت اپنی ذمہ داریوں کا شعور رکھتی ہے، اللہ تعالیٰ اسے مزید برکات و ترقیات سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
قیامِ پاکستان کو پون صدی گزر چکی ہے اور ایک نئے ملک کے طور پر اس کے وجود میں آنے کے محرکات میں عام طور پر جن عوامل کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں سے تین چار کا آج کی گفتگو میں تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ انگریزوں نے اس ملک پر قبضہ کر لیا تھا اور فرنگی استعمار سے آزادی کے لیے سب لوگوں نے مل کر جدوجہد کی۔ جدوجہد کے اس دائرے میں دوسری ہم وطن قومیں بھی ہمارے ساتھ شریک تھیں ہندو، سکھ، مسیحی اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں نے اس جدوجہد میں حصہ لیا اور سب نے مل کر وطن کو بیرونی تسلط سے آزاد کرایا۔ جبکہ اگلے تین دائرے مسلمانوں سے متعلق ہیں۔
- ایک یہ کہ مسلمانوں کا تہذیبی تشخص برقرار رہے، مسلم تہذیب و ثقافت کی اپنی ایک شناخت اور تسلسل ہے جو اس سے قبل ہزار سالہ دور میں بھی خطرات کا شکار رہی ہے بالخصوص اکبر بادشاہ کے دور میں یہ خطرات حقیقت کا روپ دھارتے نظر آنے لگے تو مسلم راہنماؤں نے ان کا مقابلہ کیا۔ تہذیب و شناخت کے تحفظ کی یہ جدوجہد سرسید اور ان کے رفقاء نے کی۔ سرسید احمد خان مرحوم سے لے کر علامہ محمد اقبال مرحوم اور قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم تک اس قافلہ کی جدوجہد کا عنوان مسلمانوں کا تہذیبی تشخص و امتیاز قائم رکھنا تھا جس کے لیے انہوں نے تہذیبی روایات و اقدار کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی بقا کی جنگ بھی لڑی اور اس میں کامیاب رہے۔
- دوسرا دائرہ معاشی تحفظات کا تھا کہ مسلمانوں کو ہندوؤں کی معاشی بالادستی کے ماحول سے نکالنا ضروری ہو گیا تھا جس کے لیے ان کی الگ ریاست کا قیام ناگزیر تھا تاکہ وہ معاشی آزادی اور خودمختاری سے ہمکنار ہو سکیں۔ اس کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشی خودکفالت اور آزادی کے بغیر کسی قوم کی سیاسی آزادی اور تہذیبی شناخت کا باقی رہنا مشکل ہوتا ہے۔
- جبکہ تیسرا دائرہ مسلم معاشرہ میں اسلامی احکام و قوانین کی عملداری کا تھا جو بحیثیت مسلم قوم ہماری ملی ذمہ داری ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخی پس منظر کا تقاضہ بھی تھا کہ برطانوی استعمار نے جب اس ملک پر تسلط قائم کیا تو اس وقت مغل اقتدار کے دور میں یہاں اسلامی احکام و قوانین تھے جنہیں منسوخ کر کے برطانوی قانونی نظام کو رائج کیا گیا تھا۔ چنانچہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط کے بعد جب حضرت شاہ عبد العزیز دہلویؒ نے اس کے خلاف جہاد کا فتوٰی دیا جس کی بنیاد پر آزادی کی جنگیں لڑی گئیں تو اس فتوٰی میں فرنگی کے سیاسی و عسکری تسلط کے ساتھ اسلامی قوانین کی منسوخی اور فرنگی قوانین کے نفاذ کو بھی بنیاد بنایا گیا تھا۔
قیامِ پاکستان کے یہ محرکات مختلف طبقات کی طرف سے ذکر ہوتے رہتے ہیں اور یہ سب نہ صرف درست ہیں بلکہ ایک دوسرے سے مربوط ہونے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے بنیادی عوامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میں پنجاب یونیورسٹی کے علمی ماحول میں تحقیق اور ریسرچ کی دنیا کے لوگوں کے درمیان کھڑا گفتگو کر رہا ہوں اس لیے یہ توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے یہ مقاصد ابھی تک ادھورے ہیں اور ہم ان میں سے کوئی ایک بھی مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکے۔
- قومی خودمختاری آج ہمارے لیے سوالیہ نشان بن چکی ہے، فرق صرف یہ رونما ہوا ہے کہ پہلے ہماری قسمت کے فیصلے لندن میں ہوتے تھے اب واشنگٹن میں ہوتے ہیں اور ہم اپنی بنیادی پالیسیاں طے کرنے میں آزاد نہیں ہیں۔
- معاشی صورتحال اس سے زیادہ سنگین ہے، ہم قرضوں اور سود در سود کی جکڑبندی کے ساتھ بین الاقوامی اداروں کے حصار بلکہ شکنجے میں ہیں اور اس جکڑبندی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تہذیبی ماحول میں مسلم تہذیب اور ہماری ثقافتی روایات و اقدار اب دوہری یلغار کی زد میں ہیں۔ ایک طرف ہندو ثقافت کا خطرہ بدستور موجود ہے جبکہ دوسری طرف مغربی ثقافت کی یلغار نے ہمارے عقیدہ و ایمان اور تہذیب و ثقافت کو گھیرے میں لے رکھا ہے۔
- قوانین و نظام کی تبدیلی کا دائرہ بھی اسی طرح تذبذب اور گومگو کا شکار ہے اور ہم دستوری طور پر قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری کی ضمانت کے باوجود اس سمت کوئی پیشرفت نہیں کر پا رہے اور فرنگی قوانین و نظام کے جال نے ہمیں بدستور جکڑ رکھا ہے۔
ملک کے تمام جامعات اور بڑے علمی مراکز کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبہ اور ریسرچ سکالرز سے میری گزارش ہے کہ آزادی اور قیام پاکستان کے مذکورہ عوامل و مقاصد میں ہماری ناکامی اور کوتاہی تو سب کے سامنے ہے مگر اس کے اسباب کا جائزہ لینا اہل دانش کا کام ہے اور ملک کے علمی مراکز کی ذمہ داری ہے۔ میں نوجوان اہلِ دانش سے گزارش کروں گا کہ ان موضوعات کو اپنی ریسرچ کا موضوع بنائیں اور اگلی نسل کو بتائیں کہ ہم آزادی اور قیام پاکستان کے مقاصد اب تک کیوں حاصل نہیں کر پائے اور اپنی ان کوتاہیوں کی تلافی ہم کس طرح کر سکتے ہیں؟
اس کے ساتھ ہی میں اپنے پیشرو مقرر محترم ڈاکٹر محمد امین کی ایک بات کو دہراتے ہوئے اس کے ساتھ ایک گزارش کا اضافہ کرنا چاہوں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کے وقت بحیثیت قوم اللہ تعالیٰ سے ایک وعدہ کیا تھا کہ ہمیں الگ ملک مل جائے تو ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و قوانین کی عملداری قائم کریں گے، مگر ہم نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا جس پر آج اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہو رہا ہے اور ہم قومی سطح پر خلفشار اور افراتفری کا شکار ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے اس ارشاد کی تائید کرتے ہوئے یہی بات دوسرے انداز سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے ’’لئن شکرتم لازیدنکم‘‘ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو نعمتوں میں اضافہ کروں گا لیکن اگر ناشکری کی تو ’’ان عذابی لشدید‘‘ میرا عذاب بھی سخت ہو گا۔ اسی طرح ایک مقام پر قرآن کریم میں مذکور ہے کہ جب حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ان کے حواریوں نے آسمان سے تیار کھانے نازل کیے جانے کا تقاضہ کیا اور حضرت عیسٰی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تیار کھانے اتار دیتا ہوں لیکن اب اگر ناشکری کی تو ایسی سزا دوں گا جو کسی اور کو نہیں دی ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ اس نعمت کی ناشکری کرنے والوں کی شکلیں بدل دی گئیں۔ یہاں مفسرین کرامؒ نے لکھا ہے کہ عمومی نعمتوں کی ناشکری بھی سزا کا باعث ہوتی ہے مگر مانگی ہوئی نعمت کی ناشکری اس سے کہیں زیادہ سزا کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ پاکستان ہم نے اللہ تعالیٰ سے مانگ کر لیا تھا جو بہت بڑی نعمت ہے بالخصوص ایسے ماحول میں جب پوری دنیا میں ریاست کا تعلق مذہب سے ختم ہو کر رہ گیا تھا حتٰی کہ خلافتِ عثمانیہ بھی ختم ہو گئی تھی۔ اس ماحول میں مذہب اور مذہبی احکام و ثقافت کے عنوان سے نئی ریاست کا وجود میں آنا نعمتِ عظمٰی سے کم نہیں تھا، مگر ہم پون صدی سے ناشکری اور ناقدری کے ماحول میں ہیں اور اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ و استغفار اور اس میں کوتاہی کی تلافی کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
بنی اسرائیل کی جدوجہدِ آزادی کی چند جھلکیاں
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اگست کا مہینہ شروع ہو گیا ہے اور حسبِ معمول ہر طرف سبز ہلالی پرچم لہرانے کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔ چودہ اگست کو ہم قومی یومِ آزادی مناتے ہیں، اس روز برصغیر نے برطانوی استعمار کی حکومت سے آزادی حاصل کی تھی اور اسی روز پاکستان کے نام سے ایک نئی سلطنت اس خطہ میں وجود میں آئی تھی۔ ہم ان دو باتوں کی خوشی میں چودہ اگست کو ملک بھر میں تقریبات کرتے ہیں، قومی پرچم لہرایا جاتا ہے، ریلیاں ہوتی ہیں اور شہدائے آزادی کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی ایسا ہی ہو گا اور وطن و قوم کے لیے اور دین و ملت کے لیے ہم نئے عزم کا اظہار کریں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
اس موقع پر ایک قدیمی تحریکِ آزادی کے کچھ مناظر کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی تفصیلات قرآن کریم نے بیان فرمائی ہیں، ان میں سے دو چار کا تذکرہ کروں گا۔
یہ بنی اسرائیل کی جدوجہد آزادی ہے جو حضرت موسٰی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی قیادت میں کی گئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو وہاں کے یہودی قبائل کو دیکھا کہ وہ دس محرم کو روزہ رکھتے ہیں۔ وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ اس روز فرعون اپنے لشکر سمیت سمندر میں غرق ہوا تھا اور بنی اسرائیل کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں فرعون کی غلامی سے نجات ملی تھی۔ یہ ہمارا یومِ آزادی ہے اور ہم اس کے شکرانہ میں روزہ رکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ ’’نحن احق بموسیٰ منکم‘‘ ہمارا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تعلق تم سے زیادہ ہے، اس لیے ہم بھی روزہ رکھیں گے۔ چنانچہ اس کے بعد دس محرم کے روزے کا سلسلہ ہمارے ہاں بھی شروع ہو گیا۔
بنی اسرائیل کی آزادی کے بہت سے مراحل قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں، ان میں سے دو چار کا ذکر کر رہا ہوں۔
پہلی بات یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت غلام قوم میں ہوئی تھی اور اس وقت طاقت ور اور غالب قوم یعنی آل فرعون کا طریق کار یہ تھا کہ غلام قوم بنی اسرائیل کے کسی گھر میں اگر لڑکا پیدا ہوتا تو اسے قتل کر ا دیتے تھے تاکہ بڑا ہو کر ہمارے لیے مسئلہ نہ بنے۔ اور لڑکی کو زندہ رہنے دیتے تھے کہ یہ خدمت کے کام آئے گی۔ حضرت موسٰیؑ کی ولادت ہوئی تو والدہ محترم پریشان ہو گئیں کہ حکمران گروہ کو پتہ چل گیا تو بچے کی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر انہیں تسلی دی جو قرآن کریم میں ہے کہ ’’واوحینا الیٰ ام موسیٰ ان ارضعیہ فاذا خفت علیہ فالقیہ فی الیم ولا تخافی ولا تحزنی‘‘ (القصص ۷) ہم نے حضرت موسٰیؑ کی والدہ کے دل میں بات ڈالی کہ بچے کو دودھ پلاؤ، اگر اس کے بارے میں خوف ہو تو صندوق میں بند کر کے دریائے نیل میں ڈال دو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اس کی خود حفاظت کریں گے، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ صندوق دریائے نیل کی لہروں کے ساتھ فرعون کے محلات کے پاس سے گزرا تو کارندوں نے پکڑ لیا۔ کھول کر دیکھا تو ایک خوبصورت بچہ تھا۔ معصوم بچہ ایسے بھی خوبصورت لگتا ہے، اور وہ تو پیغمبر تھے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’والقیت علیک محبۃ منی‘‘ (طہ ۳۹) میں نے حضرت موسٰی علیہ السلام پر محبت کی چادر ڈال دی تھی، جو بھی دیکھتا تھا محبت کرنے لگتا تھا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی حفاظت کا بندوبست تھا۔
فرعون کی اہلیہ حضرت آسیہؓ نے دیکھا تو ان کے دل میں محبت کا جذبہ موجزن ہو گیا اور انہوں نے فرعون کے کارندوں کو قتل کرنے سے روک دیا بلکہ اپنا بیٹا بنا لیا۔ اور پھر حضرت موسٰیؑ کی پرورش فرعون کے خرچہ پر اس کے گھر میں ہوئی۔ جبکہ حضرت موسٰیؑ کو اپنی والدہ محترم سے بھی اللہ رب العزت نے ملا دیا اور دودھ وہی پلاتی رہیں۔
جوان ہونے تک حضرت موسٰیؑ کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ کس خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک بار ان کے قوم کے ایک فرد کا جھگڑا فرعون کے خاندان کے ایک شخص سے ہوا تو موسیٰ علیہ السلام نے قومِ فرعون کے شخص کو مکہ مارا جس سے وہ مر گیا۔ حضرت موسٰیؑ پکڑے جانے کے خوف سے مصر چھوڑ کر مدین چلے گئے اور حضرت شعیب علیہ السلام کے گھر میں دس سال رہے۔ ان کی بیٹی سے ان کی شادی ہوئی، پھر وطن واپس آ رہے تھے کہ کوہِ طور پر اللہ تعالیٰ نے نبوت سے نوازا اور فرعون کو دین کی دعوت دینے پر مامور فرمایا۔
حضرت موسٰیؑ کی درخواست پر ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو بھی نبوت ملی اور دونوں بھائی فرعون کے دربار میں اللہ تعالیٰ کے دو پیغام لے کر گئے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کی سرکشی سے باز آجاؤ اور خدائی کا دعویٰ ترک کر کے ایک اللہ کی عبادت کرو۔ اور دوسرا پیغام یہ تھا کہ ’’ان ارسل معنا بنی اسرائیل‘‘ (الشعراء ۱۷) ہماری قوم بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ اپنے پرانے وطن فلسطین میں واپس جانے دو۔ ہم واپس آزادی کے ماحول میں جانا چاہتے ہیں، تم راستہ نہ روکو۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت کی نشانی اور معجزہ کے طور پر عصا اور یدِ بیضا عطا فرمائے تھے جن کا اظہار فرعون کے دربار میں ہوا۔ جسے فرعون نے جادو قرار دے کر اس کے مقابلہ کے لیے اپنے جادوگر اکٹھے کرنے کا فیصلہ کیا۔ ملک بھر سے جادوگر جمع کیے گئے، کھلے میدان میں مقابلہ ہوا، جادوگروں کا جادو ناکام ہوا اور وہ سمجھ گئے کہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام جادوگر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی ہیں۔ وہ ان پر ایمان لے آئے جس پر فرعون نے انہیں قتل کرنے اور سولی پر لٹکانے کی دھمکی دی۔ انہوں نے اس کی پروا نہ کی اور ایمان پر استقامت کا اظہار کیا۔
اس مقابلہ میں ناکامی کے بعد فرعون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف کوئی کاروائی کرنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا، جبکہ حضرت موسٰیؑ اور حضرت ہارونؑ آزادی کے ساتھ اپنا کام کر رہے تھے۔ اس پر ’’وقال الملا من قوم فرعون اتذر موسیٰ و قومہ لیفسدوا فی الارض‘‘ (الاعراف ۱۲۷) فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کہ تم نے موسیٰ اور اس کی جماعت کو زمین میں فساد پھیلانے کے لیے کھلا چھوڑ دیا ہے؟ فرعون نے یہ بات درباریوں کے سامنے پیش کی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کے لیے مشورہ مانگا تو خود فرعون کے ایک رشتہ دار نے اس کی مخالفت کر دی اور دربار میں حضرت موسٰیؑ کے حق میں خطاب کیا۔ جس کا ذکر قرآن کریم نے ’’وقال رجل مومن من اٰل فرعون‘‘ (مومن ۲۸) کے عنوان سے تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔
یہ مراحل گزرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ ’’اسر بعبدی انکم متبعون‘‘ (الشعراء ۵۲) بنی اسرائیل کو لے کر رات کے وقت مصر سے نکل جاؤ کہ تمہارا تعاقب کیا جائے گا۔ چنانچہ بنی اسرائیل رات کو نکلے، فرعون نے پیچھا کیا، سمندر کے قریب پہنچ کر بنی اسرائیل پریشان ہو گئے کہ ہم تو درمیان میں پھنس گئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے سمندر کو پھاڑ کر بنی اسرائیل کو راستہ دیا اور فرعون کو لشکر سمیت غرق کر دیا اور اس طرح بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات ملی۔
تذکرہ تحریکات آزادی
پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما پر مشتمل برصغیر میں برطانوی، فرانسیسی اور پرتگالی تجارتی کمپنیوں نے تجارت کے حوالہ سے آمد و رفت کا سلسلہ شروع کیا تھا مگر رفتہ رفتہ انہوں نے مغل حکمرانوں کو زوال پذیر ہوتا دیکھ کر اس خطے کے معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ اس پر سیاسی حکمرانی کے خواب بھی دیکھنا شروع کر دیے جبکہ اورنگزیب عالمگیرؒ کی وفات کے بعد ہر طرف پھیل جانے والی طوائف الملوکی، باشندگان ہند کے باہمی خلفشار اور حکمران طبقات کی نا اہلی اور بے بصیرتی نے مغربی در اندازوں کا مسلسل راستہ ہموار کیا جس کے نتیجے میں برطانیہ، فرانس اور پرتگال سے تعلق رکھنے والی تجارتی کمپنیوں نے اپنی اپنی فوجیں منظم کیں اور دھیرے دھیرے مختلف علاقوں پر قبضہ جماتی چلی گئیں، حتیٰ کہ ان میں سے برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی غالب آئی اور اس نے کم و بیش ایک سو برس کی مسلسل تگ و دو کے بعد پورے برصغیر پر تسلط جما لیا۔
مغربی استعمار کے اس تسلط اور متحدہ ہندوستان کو نو آبادی بنانے کی اس مغربی مہم کی راہ میں ہر دور میں حریت پسندوں نے مزاحمت کی کوشش کی لیکن وہ مختلف اسباب و عوامل کی وجہ سے پسپا ہوتے چلے گئے اور بالآخر ۱۸۵۷ء میں برطانوی حکومت نے اس پورے خطے کو نو آبادی قرار دے کر اپنی سلطنت میں شامل کر لیا جس کے بعد تحریک آزادی کا ایک نیا دور شروع ہوا اور کم و بیش نوے برس کی جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں ۱۹۴۷ء میں برطانوی حکومت یہاں سے رخصت ہوئی اور یہ خطہ پاکستان، بھارت اور برما کی آزاد ریاستوں کی صورت میں دنیا کے نقشے پر اپنا مستقل تشخص قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ برطانوی استعمار کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنے اور اس کے تسلط کے بعد اس سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جن لوگوں نے حریت پسندی کے جذبہ کے ساتھ جدوجہد کی اور قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی وہ یقیناً اس خطے کے تمام باشندوں کے محسنین ہیں اور ان کی قربانیوں کی وجہ سے ہی یہ اقوام و ممالک آج آزاد ممالک و اقوام کے طور پر متعارف ہیں۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ آج کی نئی نسل ان محسنین اور مجاہدین سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی نئی نسل کو اپنے اس شاندار ماضی سے واقف رکھنے کے لیے حکومتی سطح پر بالخصوص اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کوئی منصوبہ بندی یا سوچ موجود ہے۔ اس افسوسناک صورت حال کا ایک نا مبارک ثمرہ یہ بھی ہے کہ آزادی کی قدر و قیمت، اس کی اہمیت اور اس کے تحفظ کے جذبہ سے آج کا عمومی ماحول نا آشنا ہے اور آزادی حاصل کرنے کے باوجود ہم ابھی تک عالمی استعمار کے ریموٹ کنٹرول شکنجے میں اس بری طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ اس سے گلو خلاصی کی کوئی صورت بظاہر دکھائی نہیں دے رہی۔
آزادی کی جنگ لڑنے والوں اور اس کے لیے بے پناہ اور بے شمار قربانیاں دینے والوں میں علماء حق اور مسلمانوں کے دینی کارکن ہمیشہ سب سے نمایاں رہے ہیں اور ان ارباب عزیمت اور اصحاب ذوق کی قربانیوں کی وجہ سے نہ صرف برصغیر باشندگان وطن کو آزادی کی نعمت نصیب ہوئی ہے بلکہ بہت سے دوسرے ممالک کی مظلوم اور غلام اقوام نے بھی ان قربانیوں سے روشنی اور راہ نمائی حاصل کی ہے۔ لیکن ستم ظریفی کا ایک المناک پہلو ہے کہ خود مسلمانوں کے دینی حلقے، علماء کرام حتیٰ کہ دینی مدارس کے اساتذہ و طلبہ بھی اس جدوجہد اور قربانیوں سے واقف نہیں ہیں بلکہ جن بزرگوں اور اکابر کا نام لے کر ہم دنیا میں اپنا تعارف کراتے ہیں اور جن کی جدوجہد کے تسلسل کے ساتھ خود کو جوڑ کر عزت حاصل کرتے ہیں، ان کی حیات و خدمات اور جدوجہد سے ہمیں شناسائی حاصل نہیں ہے اور نہ ہی اس کی کسی سطح پر ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ کسی محفل میں موقع و محل کی مناسبت سے اکابر علماء حق کی جدوجہد اور تحریک آزادی کے راہ نماؤں کی خدمات اور کارناموں کا تذکرہ کرتا ہوں تو سننے والوں کے چہروں پر حیرت و اجنبیت کی جھلک نظر آنے لگتی ہے۔ کچھ دنوں سے میں نے الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ کی ماہانہ فکری نشستوں میں اکابر علماء حق کا تذکرہ شروع کر رکھا ہے۔ ایک نشست میں حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی قومی و ملی خدمات کا تذکرہ کیا تو ایک پرانے دوست نے کہا کہ مجھے آج پہلی بار بہت سی باتیں معلوم ہوئی ہیں اور یہ پتہ چلا ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی زندگی کا یہ پہلو بھی ہے۔ اسی طرح ایک نشست میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی تحریک آزادی کے لیے خدمات کا تذکرہ کیا تو دینی مدارس کے اساتذہ کی سطح کے بعض شرکاء نے تعجب کا اظہار کیا کہ ہمیں تو ان باتوں کا علم نہیں تھا۔
اس پس منظر میں ہمارے فاضل دوست مولانا شفیع اللہ چترالی نے اس اہم ترین ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ’’تذکرہ تحریکات آزادی‘‘ کے عنوان سے آزادی کی مختلف تحریکات کے تعارف پر مشتمل ایک جامع کتاب مرتب کی ہے جسے میں نے ایک نظر دیکھا ہے اور اس میں بعض مقامات پر مشورے بھی دیے ہیں۔ آزادی کی تحریکات کے حوالہ سے اکابر کی بہت سی کتابیں اور تصنیفات موجود ہیں اور تاریخ کے ریکارڈ میں بہت بڑا ذخیرہ مطالعہ کے لیے میسر ہے لیکن ہماری اس طرف توجہ نہیں ہے اور مطالعہ و تحقیق کا ذوق کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس لیے مولانا شفیع چترالی کی یہ کاوش قابل داد ہے جو انہوں نے بہت سی طویل کتابوں میں بکھری ہوئی معلومات کو اچھے ذوق اور اسلوب کے ساتھ جمع کر دیا ہے، میرے خیال میں ان کی یہ کتاب دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ ساتھ دینی جماعتوں کے کارکنوں کے لیے بھی اپنے اکابر کی قومی و ملی جدوجہد سے واقفیت کے حوالہ سے بہترین گائیڈ اور راہنما ثابت ہوگی۔ دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت اس کاوش کو قبول فرمائیں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس سے استفادہ کرنے کی توفیق سے نوازیں۔ آمین یا رب العالمین۔
دینی اداروں میں یوم آزادی کی تقریبات
اس سال ۱۴ اگست کی تقریبات میں دینی مدارس کی پیش رفت اور جوش و خروش کا مختلف مضامین اور کالموں میں بطور خاص تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ اور یہ واقعہ بھی ہے کہ اس بار دینی مدارس میں یوم آزادی اور قیام پاکستان کے حوالہ سے زیادہ تقریبات منعقد کی گئی ہیں اور جوش و خروش کا پہلے سے زیادہ اظہار ہوا ہے جس کے اسباب پر مختلف پہلوؤں سے گفتگو کا سلسلہ جاری ہے۔ میرا ایک عرصہ سے معمول ہے کہ قومی سطح پر منائے جانے والے دنوں کی تقریبات میں کسی نہ کسی حوالہ سے ضرور شریک ہوتا ہوں اور عنوان کی مناسبت سے اپنے خیالات و تاثرات بھی پیش کرتا رہتا ہوں۔ لیکن اس سال اس کا تناسب بہت زیادہ رہا کہ ۱۲ اگست سے ۱۵ اگست تک نو کے لگ بھگ تقریبات اور نشستوں میں یوم آزادی اور قیام پاکستان کے موضوع پر تفصیلی اظہار خیال کا موقع ملا۔
- ۱۲ اگست کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعۃ المبارک کا خطاب اسی موضوع پر تھا۔
- بعد نماز جمعہ مجلس صوت الاسلام، کلفٹن، کراچی کے ’’خطباء تربیتی کورس‘‘ کی آن لائن کلاس میں پشاور، اسلام آباد، کراچی اور کوئٹہ سے کورس میں شریک علماء کرام کی مجالس کے سامنے آزادی اور قیام پاکستان کے مقاصد اور نتائج کو واضح کیا۔ اس آن لائن کلاس میں ہر جمعہ کو تین سے چار بجے میرا بیان ہوتا ہے۔
- بعد نماز مغرب مرکزی جامع مسجد امام اہل سنتؒ ، گکھڑ منڈی میں تفصیلی گفتگو کی۔
- بعد نماز عشأ مسجد نمرہ، سوئی گیس روڈ، گوجرانوالہ میں تنظیم اسلامی کی خصوصی نشست میں اس حوالہ سے اظہار خیال کیا۔
- ۱۳ اگست ہفتہ کو جامعہ اسلامیہ محمدیہ، مچھلی فارم، فیصل آباد میں مولانا عبد الرزاق کی دعوت پر جامعہ کی تقسیم انعامات کی تقریب میں آزادی اور پاکستان کے مقاصد پر بیان ہوا۔
- ۱۴ اگست اتوار کو ۱۱ بجے دن جامعہ شاہ ولی اللہ، اٹاوہ، گوجرانوالہ میں منعقدہ ایک باوقار تقریب میں شرکت کی اور کچھ معروضات پیش کیں۔ تقریب میں طلبہ نے خطابات کیے اور ترانے پیش کیے۔
- بعد نماز ظہر مدرسہ سیدنا ابو ایوب انصاریؓ، کنگنی والا، گوجرانوالہ میں منعقدہ پروگرام میں اظہار خیال کے علاوہ قومی پرچم لہرانے کی تقریب میں بھی شرکت ہوئی۔
- بعد نماز مغرب جامعہ فاروقیہ، چوک امام صاحبؒ ، سیالکوٹ میں اس عنوان پر تفصیلی اظہار خیال کیا۔
- ۱۵ اگست پیر کو ظہر کی نماز کے بعد جامعہ فتحیہ، اچھرہ، لاہور کی تقریب میں بھی یوم آزادی اور قیام پاکستان کے حوالہ سے گزارشات پیش کیں۔
آزادی اور پاکستان کے بارے میں جو گزارشات میں نے پیش کیں ان کا خلاصہ اگلے چند کالموں میں شامل کرنے کی کوشش کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ سردست اس بحث کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں جو دینی مدارس کی اس طرف پہلے سے زیادہ توجہ کے اسباب کے بارے میں بعض مضامین میں کی گئی ہے۔
عام طور پر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ چونکہ دیوبندی مکتب فکر کے بعض بڑے اکابر نے قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اس لیے ان سے عقیدت رکھنے والے دینی مدارس ایسی تقریبات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ حتیٰ کہ بعض حضرات کی طرف سے تعریضاً بھی یہ کہا گیا ہے کہ اب ان مدارس کو ریاستی دباؤ بڑھنے پر اچانک ’’یوم پاکستان‘‘ یاد آگیا ہے۔ میرے خیال میں یہ تجزیہ درست نہیں ہے، اس لیے کہ قیام پاکستان کے فورًا بعد اس کی مخالفت کرنے والے سرکردہ علماء کرام بالخصوص ان کے دو بڑے راہ نماؤں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی طرف سے واضح طور پر کہہ دیا گیا تھا کہ یہ اختلاف پاکستان کے قیام سے پہلے تھا جبکہ پاکستان بن جانے کے بعد یہ اختلاف باقی نہیں رہا۔ مولانا سید حسین احمدؒ مدنی نے تو یہاں تک فرما دیا تھا کہ مسجد تعمیر ہونے سے پہلے اس کے نقشہ اور سائز کے بارے میں اختلاف ہو جایا کرتا ہے لیکن جب مسجد بن جائے تو وہ جیسے بھی بنے مسجد ہی ہوتی ہے اور اس کا احترام سب کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
جبکہ اس کے بعد مسلسل سات عشروں کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کی سا لمیت و استحکام اور اسے اپنے مقاصد کے مطابق ایک اسلامی رفاہی ریاست بنانے کی جدوجہد میں وہ حلقے بھی برابر کے شریک چلے آرہے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان بنانے کے خلاف تھے۔ اور ان کی طرف سے کوئی ایسی بات سامنے نہیں آئی جو اس کے منافی ہو۔ خود مجھ سے ایک محفل میں سوال کیا گیا کہ قیام پاکستان کی حمایت اور مخالفت کے اختلاف کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے؟ میں نے اس پر عرض کیا کہ میری پیدائش پاکستان بن جانے کے ایک سال بعد ہوئی ہے اس لیے میں اپنی ولادت سے پہلے کے تنازعات میں فریق نہیں بننا چاہتا۔ اس پر مجھے امیر المومنین حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا ایک قول یاد آیا کہ ان سے کچھ لوگوں نے صحابہ کرامؓ کے درمیان ہونے والی جنگوں کے بارے میں ان کا موقف دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو ان میں سے کسی کے خون سے آلودہ ہونے سے بچا لیا ہے تو ہم اپنی زبانوں کو بھی ان میں سے کسی کے بارے میں لب کشائی سے محفوظ رکھیں گے۔
اس لیے مذکورہ بالا تبصرہ و تجزیہ سے اتفاق نہ کرتے ہوئے میں ایک اور پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا جو میرے خیال میں زیادہ قرین قیاس ہے ۔ وہ یہ کہ ہمارے مسلکی حلقوں میں دن منانے کو ویسے ہی ناپسند کیا جاتا ہے، اس لیے کہ دینی حوالوں سے کوئی نیا دن منایا جائے یا نیکی کے کسی کام کے لیے کسی دن کو مخصوص کر کے اسے شرعی حیثیت دے دی جائے تو وہ بدعت ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ دین کے معمولات میں اضافے کا موجب بن جاتا ہے۔ جبکہ ایسے کسی کام کو فضیلت اور ثواب کے عنوان سے شرعی حیثیت نہ دی جائے تو وہ محض رسم و رواج کا درجہ رکھتا ہے۔ لیکن یہ فرق عام طور پر نہ سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے بزرگوں نے قرآن و سنت میں منصوص شرعی ایام سے ہٹ کر دینی حوالہ سے کوئی نیا دن منانے کو پسند نہیں کیا۔ حتیٰ کہ کچھ عرصہ قبل بعض حلقوں کی طرف سے حضرات خلفائے راشدینؓ کے ایام وفات سرکاری طور پر منائے جانے کا مطالبہ کیا گیا تو والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ نے اس سے اختلاف کیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح لوگ اسے دین کا حصہ سمجھنے لگیں گے جو کہ درست نہیں ہے۔
میرے خیال میں دینی مدارس کے قومی ایام میں اب تک زیادہ دلچسپی نہ لینے کی اصل وجہ یہ ہے۔ لیکن اب چونکہ اسے غلط معنوں میں لیا جا رہا ہے اور دینی مدارس کے خلاف مہم میں اسے استعمال کیا جا رہا ہے اس لیے دینی مدارس اس تاثر کو زائل کرنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔ جبکہ اگر ان ایام کو شرعی دائرے میں شامل کرنے سے گریز کیا جائے اور قومی ضروریات کے دائرے میں رکھ کر ان کا اہتمام کیا جائے تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ بلکہ ان کی افادیت ان تحفظات سے بہرحال زیادہ ہے جن کے باعث دینی مدارس کی دلچسپی اس بارے میں اب تک کم چلی آرہی ہے۔
تحریکِ آزادی میں علماءِ دیوبند کا کردار
امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کے نواسے مولانا ظہیر الحق دین پوریؒ کا گزشتہ جون کے دوران دین پور شریف میں انتقال ہوا ہے۔ وہ حضرت سندھیؒ کی ایک چلتی پھرتی نشانی تھے، جو آنکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالی انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق سے نوازے، آمین يا رب العالمین۔
ان کے بارے میں ایک مضمون میں بزرگ صحافی اور دانش ور حضرت مولانا مجاہد الحسینی آف فیصل آباد نے امام الہند مولانا ابو الکلام آزادؒ کا ایک مکتوب شائع کیا ہے، جو انہوں نے آزادی ہند کے موقع پر مولانا ظہیر الحق دین پوریؒ کی طرف سے مبارک باد کے خط کے جواب میں ارسال فرمایا تھا۔ آج کی محفل میں وہ خط اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں، خط کے بعد اس حوالے سے کچھ مزید باتیں بھی عرض کروں گا۔
”عزیز القدر مولوی ظہیر الحق دین پوری
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ نے آزادی پر مبارکباد کا پیغام بھیجا، شکریہ۔ خط پڑھتے ہی مولانا عبید اللہ سندھیؒ کی یاد آئی اور اس طرح آئی کہ صدائے در و زبان تک پہنچی اور زبان نے نوک قلم کے حوالے کیا۔ قصہ بہت طویل ہے، اسے مختصر کیا جائے تب بھی وقت سازگاری نہیں کرتا۔
۱۹۱۴ء کی عالمگیر جنگ کے ایام تھے، ولی اللٰہی قافلہ کے امیر حضرت مولانا محمود الحسن قدس سرہ نے انتہائی نامساعد حالات میں مولانا عبید اللہ سندھیؒ کو کابل بھیج دیا۔ ان کو وہاں مختلف ممالک کے سیاسی رہنماؤں سے مل کر کام کرنے کا موقع ملا، ان میں جرمن، فرانسیسی اور جاپانی سیاستدان چند ایک ایسے بھی تھے جو آج ملکوں میں برسر اقتدار ہیں اور عنانِ حکومت انہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہ لوگ اس وقت کے سیاسی رفیق یا مشیر ہیں کہ جب مولانا نے کابل میں حکومت موقتہ قائم کی، خود اس کے وزیرِ ہند منتخب ہوئے اور ریشمی خطوط کی تحریک چلا کر برٹش حکومت کو للکارا اور میدان جنگ میں شکست دے کر اپنا موقف منوایا۔ برطانوی نمائندہ نے جنگ کے خاتمے پر مصالحتی دستاویزات پر دستخط کرتے ہوئے حکومت کابل کی خود مختاری کا اعلان کیا، ہندوستان کے مطالبہ آزادی کو تسلیم کیا اور بتدریج ہند کو چھوڑ دینے کی وضاحت کر دی۔ اس کا انتقام برٹش حکومت نے امیر امان اللہ خان سے تو لے لیا، مگر مولانا سندھیؒ کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ یہ مولانا کا ذاتی سیاسی اثر تھا، جس سے مرعوب تھی۔
پچیس سال کی جلاوطنی کے بعد ۱۹۳۹ء میں جب یہاں پہنچے تو دوسری جنگ کا آغاز تھا۔ انہوں نے اپنی تحریک کانگریس میں پیش کرنے کے لیے میدان ہموار کیا۔ گاندھی جی تک نے اس تحریک کی مخالفت کی، اس کے باوجود ”ہندوستان چھوڑ دو“ کا نعرہ ہاؤس نے مار دیا اور اس کی گونج بکنگھم پیلس سے ٹکرائی۔ یہ سب کچھ مولانا نے باہر بیٹھ کر کسی بھی بحث میں حصہ نہیں لیا، نہ ہی کبھی کسی اجلاس میں شرکت کی۔ یہ فن صرف وہی جانتے تھے۔
ایک ملاقات میں چائے پر میں نے ان کے چہرے سے کچھ ایسا تاثر قبول کیا، جس کی بناء پر ان سے پوچھ بیٹھا تو فرمایا کہ میں چاہتا ہوں سوبھاش اسی وقت باہر چلے جائیں۔ کچھ دیر خاموش ہو کر رخصت ہوئے۔ اپنی قیام گاہ سے دہلی کو ملانے والی آٹھ میل لمبی سڑک کے ایک ویران گوشے میں سوبھاش سے ان کی ملاقات ہو گئی۔
دوسری ملاقات ان کی بالی گنج کلکتہ میں ہوئی، اسی ملاقات میں اسے جاپان جانے کے لیے رخصت کیا۔ حکومت جاپان کے نام وزیر ہند حکومت موقتہ کی حیثیت سے اسے ایک شناختی کارڈ دیا اور وہاں کے فوجی بورڈ کے سربراہ کے نام اپنا ذاتی پیغام دیا۔ سوبھاش کے وہاں پہنچنے پر حکومت جاپان نے فوج میں ان پر اپنے اعتماد کا اعلان کیا۔ ادھر اعلان ہونا تھا کہ احمد نگر کے قلعہ سے کانگریس ہائی کمان کی رہائی بغیر کسی شرط منظور کر لی گئی، ورنہ حکومت کا یہ فیصلہ تھا کہ قلعہ کو بمعہ سیاسی قیدیوں کے بم سے اڑا دیا جائے۔ ساتھ ہی ہند کی آزادی کا اعلان کر دیا اور ہم آزاد ہو گئے۔ کون جانتا ہے کہ کس کی قربانیاں ہیں؟ جاپانی حکومت نے حضرت مولانا پر اعتماد کیا۔ اس جرم کی سزا اسے ہیرو شیما میں بھگتنی پڑی۔ حضرت مولانا کو ایسا زہر دیا کہ جس نے ان کی ہڈیوں سے کھال کھینچ لی، پھر ان کی دونوں آنکھیں نکال لیں اور ۲۲ اگست ۱۹۴۴ء کو اس مقام پر پہنچے جو پہلے ہی دن سے اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے اپنے حضور میں محفوظ کر رکھا تھا۔
اس وقت آسمان اشک بار تھا، زمین رو رہی تھی، ہندوستان سوگوار تھا، جرمن اور جاپان کا علمی اور سیاسی طبقہ بھی ماتم کناں تھا کہ حکومت برطانیہ نے اس خبر کو افواہ سمجھا۔ تاج کے حکم سے وائسرائے ہند کے ذریعے ایک تحقیقاتی محکمہ قائم ہوا اور یکم ستمبر ۱۹۴۵ء کو پورے ایک سال نو دن بعد سرکاری طور پر اس امر کی تصدیق کی کہ مولانا واقعی فوت ہو گئے ہیں۔
ایک انقلابی کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈال دیں اور پوری دنیا کو دوسرے پلڑے میں ڈال دیں تو وہ پوری دنیا پر بوجھل ہوتا ہے۔ اب صرف ایک یاد ہی ہے اور اس یاد کے ساتھ غم۔ غم صرف اس کا نہیں کہ یہ لوگ جدا ہو گئے، غم اس کا ہے کہ وہ دنیا ہی مٹ گئی جس دنیا کی یہ مخلوق تھے۔ ہم اس کاروان رفتہ کے پسماندگان رہ گئے ہیں، جن میں نہ تو ہمیں کوئی پہچانتا ہے اور نہ ہم کسی کے شناسا ہیں۔
آزادی صد مبارک، ان شہداء اور اللہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ان کی تربت پر ہوں۔ میں خیریت سے ہوں (الحمد للہ) خیریت سے مطلع کرتے رہا کریں۔ والدہ صاحبہ کی خدمت میں سلام عرض کر دیں۔
والسلام ابو الکلام، دہلی
۱۵ ستمبر ۱۹۴۷ء“
برصغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، امامِ انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور ان کے قافلہ کے فیصلہ کن کردار کے بارے میں مولانا ابو الکلام آزادؒ کا یہ مکتوب بجائے خود ایک مستند تاریخی حوالہ کی حیثیت رکھتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک اور تاریخی شہادت پر بھی نظر ڈال لیں، جو روزنامہ ”جنگ“ لندن نے ۱۶ اگست ۱۹۹۴ء کو جرمنی کے ایک دانش ور کے دورۂ پاکستان کی رپورٹ کے طور پر شائع کی تھی۔ ”جنگ“ کی شائع کردہ رپورٹ کا متن یہ ہے:
”ریشمی رومال تحریک کا اصل نام” برلن پلان “تھا، جو ۱۵ اگست کو کابل میں جرمنی اور ترکی کی مدد سے تیار کیا گیا۔ ہندوستان کی آزادی کے اس منصوبے کی تشکیل میں راجہ مہندر پرتاب، مولانا برکت اللہ اور مولانا عبید اللہ سندھی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
یہ انکشاف جرمنی کی وزارتِ خارجہ کے ایک سابق ڈپٹی سیکرٹری اور برلن یونیورسٹی میں سیاسیات کے استاد پروفیسر اولف شمل نے ایک خصوصی ملاقات میں کیا۔ پروفیسر اولف شمل آج کل پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے ہیں اور ”برلن پلان“ پر کتاب لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ برلن پلان دراصل شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے ذہن کی اختراع تھی۔ اس منصوبے کے تحت جرمنی، ترکی اور افغانستان کے علاوہ روس، چین اور جاپان کی مدد سے ہندوستان کو آزاد کروانا تھا، تاہم مولانا محمود الحسن صرف جرمنی، ترکی اور افغانستان کے حکمرانوں کو راضی کر سکے۔ اس پلان کے لیے مالی امداد کراچی کے تاجر حاجی عبد اللہ ہارون نے فراہم کی تھی، جبکہ مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اور نواب وقار الملک نے بھی برلن پلان کے تحت بہت سا کام کیا۔
پروفیسر اولف شمل کے مطابق ۱۵ اگست ۱۹۱۵ء کو کابل میں ہونے والے اجلاس میں جرمن وزارتِ خارجہ کے ایک افسر ڈاکٹر منیر بے، جرمن آرمی کے کیپٹن سینڈئر میئر، لیفٹیننٹ وان بیئنگ اور کیپٹن ویگز کے علاوہ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کا ایک نمائندہ شامل تھا۔ اس اجلاس میں طے پایا کہ جرمنی قبائلی علاقوں میں فوجی تربیت کے کیمپ لگائے گا۔ نیز افغانستان کے راستے سے ساٹھ ہزار جرمن فوجی اور مالی امداد بھی فراہم کی جائے گی۔ نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ نہ صرف جرمنی کی حمایت کرے گی، سلطان ترکی برطانیہ کے خلاف اعلان جہاد کر دے گا۔ ترکی اور افغانستان کو یہ ضمانت دی گئی کہ ان کے خلاف جارحیت کی صورت میں جرمنی اور ہندوستان ان کا تحفظ کریں گے۔ اس اجلاس کے بعد ہندوستان کی جلاوطن حکومت تشکیل دی گئی، جس کا صدر راجہ مہندر پرتاب، وزیر اعظم مولانا برکت اللہ بھوپالی، وزیر خارجہ مولانا عبید اللہ سندھی اور فیلڈ مارشل مولانا محمود الحسن کو بنایا گیا۔ ۲۶ مئی ۱۹۱۶ء کو عبید اللہ سندھی نے عبد الباری اور شجاع اللہ کو حتمی معاملات طے کرنے کے لیے جرمنی بھیجا لیکن روس میں ان دونوں کو گرفتار کر کے برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا۔ اس دوران کابل کے نواحی علاقے باغ بابر میں جرمنی آرمی کے لیفٹیننٹ والکاٹ نے تربیتی کیمپ قائم کر لیا۔ ایک روز وہ مجاہد بھرتی کرنے قبائلی علاقے میں آیا اور گرفتار ہو گیا۔ انگریزوں نے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ مولانا عبید اللہ سندھی نے ریشمی رومالوں پر خفیہ پیغامات لکھ کر اپنے ساتھیوں کو ہندوستان بھیجے لیکن یہ رومال پکڑے گئے اور منصوبہ بے نقاب ہو گیا۔ سینکڑوں افراد گرفتار ہوئے۔ کابل کا حکمران امیر حبیب اللہ خوفزدہ ہو گیا اور یوں منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔
۱۹۱۷ء میں انقلابِ روس کے بعد لینن نے مولانا عبید اللہ سندھی کو ماسکو بلا لیا اور ہندوستان کی آزادی کے لیے تعاون کی پیشکش کی۔ جرمنی نے بھی ایک دفعہ پھر رضامندی ظاہر کر دی، لیکن کابل نے مدد کرنے سے انکار کر دیا۔ پروفیسر اولف شمل کے مطابق حاکم جدہ نے مولانا محمود الحسن کو گرفتار کروا دیا تھا ورنہ یہ منصوبہ دوبارہ بھی شروع ہو سکتا تھا۔
۱۹۳۳ء میں ہٹلر نے برسر اقتدار آ کر اپنی وزارتِ خارجہ کو حکم دیا کہ ہندوستانی علماء کے ساتھ دوبارہ رابطہ کیا جائے، لیکن علامہ عنایت اللہ خان مشرقی کے علاوہ کسی سے رابطہ نہ ہوا۔ پروفیسر اولف شمل کا کہنا ہے کہ اگر کابل مدد کرتا تو نہ سلطنتِ عثمانیہ ختم ہوتی اور نہ ہی ہندوستانیوں کو مزید تیس سال غلام رہنا پڑتا، کیونکہ جرمنی، ترکی اور روس نے ہندوستان کو گھیرا ڈال لینا تھا۔“
مولانا ابو الکلام آزادؒ کا مکتوب گرامی اور پروفیسر اولف شمل کے یہ ریمارکس آزادی ہند کی تحریک کے اس ”عظیم باب“ کا مکمل خاکہ نہیں، بلکہ صرف اشارات ہیں، جن سے ان عظیم لوگوں کی جاں گسل جدوجہد کا کچھ نہ کچھ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ مستقبل میں جب اس تحریک کے اصل خدوخال اور تفصیلات سامنے آئیں گی تو جنوبی ایشیا کے باشندوں کو معلوم ہو گا کہ ان کی آزادی کے لیے خون دینے والے مجنوں کون تھے اور شہداءِ آزادی کی لاشوں پر دستر خوان بچھا کر ثمرات و نتائج کی چوری کھانے والے کون؟
برطانوی استعمار سے آزادی کی جدوجہد اور ایاز امیر
معلوم ہوتا ہے کہ رائے عامہ کی راہنمائی کا دعوٰی رکھنے والے بہت سے دانشوروں نے خود اپنی ہی تاریخ اور تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کا عزم کر لیا ہے اور اس کے لیے کسی طے شدہ منصوبہ کے تحت لگاتار جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ گوئبلز کا یہ مقولہ کہ ’’جھوٹ کو اتنی بار دہراؤ کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں‘‘ ہمارے قومی پریس کے بعض قلمکاروں کا ماٹو بن گیا ہے اور اس کے لیے کسی بھی قسم کی اخلاقیات کی پروا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی جس پر انا للہ و انا الیہ راجعون کا ورد ہی کیا جا سکتا ہے۔ ’’قراردادِ مقاصد‘‘ کو تحریک پاکستان کے مخالفین کے کھاتے میں ڈالنے کے حوالہ سے تنویر قیصر شاہد صاحب کے ایک کالم پر ہم تبصرہ کر چکے ہیں کہ عید کے دن روزنامہ جنگ میں ایاز امیر صاحب کا یہ ارشاد پڑھنے کو مل گیا:
’’یہ ریاست جس کی بنیاد مسٹر جناح نے رکھی جبکہ انگریز حکومت نے فراخدلی سے اس کی تخلیق کے لیے راستہ دیا، اپنے وجود میں آنے کی منطق کھو چکی ہے۔ ہمیں ان بنیادی حقائق، جو اس کی تخلیق کا باعث بنے، کو تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر برصغیر پر برطانیہ کا قبضہ نہ ہوتا تو پاکستان بھی وجود میں نہ آتا۔ مزید یہ کہ برطانوی راج سے مسلمانوں کو اتنی تکلیف نہ تھی جتنی اس تصور سے کہ انگریز کے جانے کے بعد ہندو اکثریت تلے ایک سیاسی اقلیت بن کر رہنا پڑے گا۔ درحقیقت ہمارے آباؤ اجداد نے غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کی، کم از کم سر سید احمد خان کو برطانوی راج کے فوائد کے بارے میں کوئی مغالطہ نہ تھا۔ ۱۶ مارچ ۱۸۸۸ء کو میرٹھ میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے علی گڑھ تحریک کے بانی نے فرمایا تھا کہ انڈیا میں امن اور ترقی کے لیے برطانوی حکومت کو مزید کئی سال بلکہ ہمیشہ کے لیے قائم رہنا چاہیے۔ دراصل ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے جداگانہ تشخص کی حفاظت کے لیے جدوجہد کی تھی اور برطانیہ جس کا طریق کار ہی یہ تھا کہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو، نے بھی اس کاوش میں ان کی حوصلہ افزائی کی۔‘‘
ایاز امیر صاحب پاکستان کے مقصدِ وجود کی افادیت کی نفی کے جوش میں یہ بات بھول گئے ہیں کہ اگر انگریز ہندوستان میں نہ آتا اور برطانوی حکومت قائم نہ ہوتی تو سرے سے پاکستان قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ آتی، اس لیے کہ پورے متحدہ ہندوستان کا اقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا اور وہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود پانی پت کے میدان میں ہندو اکثریت سے کامیابی کے ساتھ نمٹ کر یہ بتا چکے تھے کہ ان کے اقتدار کو ادھر سے سرِدست کوئی سنجیدہ خطرہ نہیں ہے۔ پاکستان کے قیام کا دوسرا مقصد بھی انہیں برطانوی حکومت سے پہلے حاصل تھا کہ ملک کا عدالتی نظام فتاوٰی عالمگیری کی بنیاد پر اسلامی قوانین پر مبنی تھا اور سیاسی حکمرانی کے ساتھ ساتھ قانونی حکمرانی کا پرچم بھی انہی کے ہاتھ میں تھا۔ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار اور اسلامی قوانین کی عملداری کو ختم کر کے ہی برطانوی حکومت نے ’’لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت ہندوؤں اور مسلمانوں کو باہمی کشمکش کے راستے پر ڈالا تھا جس کی وجہ سے تحفظات کا ذہن رکھنے والے مسلمانوں کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اپنے جداگانہ تشخص کی بات کریں۔ اس لیے یہ کہنا کہ ’’اگر برصغیر پر برطانیہ کا قبضہ نہ ہوتا تو پاکستان بھی وجود میں نہ آتا‘‘ ایک گمراہ کن مغالطہ کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتا لیکن تحفظات اور مرعوبیت کا شکار ذہن اس کے سوا اور سوچ بھی کیا سکتا ہے!
خیر اس بات کو تو ایک مغالطے کی اوٹ میں چھپایا جا سکتا ہے لیکن اس صریح جھوٹ کو کیموفلاج کرنے کے لیے آخر کون سی تکنیک استعمال کی جائے گی کہ’’درحقیقت ہمارے آباؤ اجداد نے غیر ملکی تسلط سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کی‘‘؟ کیا ایاز امیر صاحب اس حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں کہ انگریز کے برصغیر میں قدم رکھتے ہی مزاحمت کی جدوجہد شروع ہوگئی تھی۔ کیا ۱۷۵۷ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ شہیدؒ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ جنگ اپنے جداگانہ تشخص کے تحفظ کے لیے تھی؟ اور سلطان ٹیپو شہیدؒ نے جس جرأت و استقامت کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا اسے ’’جداگانہ تشخص کے تحفظ‘‘ کی جدوجہد کا عنوان دے کر ایاز امیر صاحب تاریخ کی کون سی خدمت کر رہے ہیں اور اسے منطق کی کونسی صنف میں شمار کیا جائے گا؟ ٹیپو سلطان شہیدؒ تو غیر ملکی تسلط کا راستہ روکنے میں اس قدر حساس تھے کہ انہوں نے اس وقت کے عثمانی خلیفہ سے عدن کی بندرگاہ لیز پر مانگ لی تھی اور پیشکش کی تھی کہ اگر انہیں یہ بندرگاہ لیز پر دے دی جائے اور کچھ سائنس دانوں کی خدمات فراہم کر دی جائیں تو وہ پورے برصغیر کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تسلط سے بچانے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔
پھر ۱۸۵۷ء کی ملک گیر معرکہ آرائی جسے ایاز امیر صاحب کے آباؤ و اجداد کچھ عرصہ پہلے تک ’’غدر‘‘ ہی کا عنوان دیتے رہے ہیں لیکن اب ہماری تاریخ اسے ’’جنگ آزادی‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے، اس میں تو مسلمان، ہندو اور سکھ سبھی شامل تھے۔ اس کے نتائج اور ناکامی کے اسباب پر بحث کی جا سکتی ہے لیکن اس بات میں شک کی کوئی گنجائش آخر کس طرح تلاش کر لی جائے گی کہ یہ معرکہ آرائی غیر ملکی تسلط سے آزادی کے لیے ہی تھی جس میں ہزاروں باشندگان وطن نے آزادیٔ وطن کے جذبہ کے تحت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اپنا سب کچھ جذبۂ حریت کی نذر کر دیا تھا۔ غیر ملکی تسلط سے آزادی کے لیے برصغیر کے طول و عرض میں بپا ہونے والی تحریکوں کا شمار بیسیوں میں کیا جا سکتا ہے جن میں سے صرف تین تحریکوں کا ہم نے ذکر کیا ہے۔
ایاز امیر صاحب کا کہنا ہے ہے کہ سر سید احمد خان مرحوم نے برطانوی راج کے ہمیشہ قائم رہنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس روایت کی ذمہ داری انہی پر ہے مگر ہم یہ جانتے ہیں کہ اگر سر سید احمد خان مرحوم کی یہ خواہش تھی بھی تو ان کی اپنی اگلی نسل نے اس سے بغاوت کر دی تھی اور علی گڑھ سے فیض پانے والے ایک سپوت مولانا محمد علی جوہرؒ نے سر سید احمد خان مرحوم کی وفات کے صرف تیرہ سال بعد ’’کامریڈ‘‘ کے نام سے انگریزی اخبار جاری کر کے اس خواہش کا ’’کریا کرم‘‘ کر دیا تھا۔ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، ڈاکٹر انصاری، حکیم محمد اجمل خان اور مولانا ظفر علی خان رحمہم اللہ علی گڑھی کے مایہ ناز سپوت تھے جنہوں نے اس آن بان کے ساتھ تحریک آزادی کی قیادت کی کہ تحریک آزادی کا تذکرہ ان کے بغیر مکمل نہیں ہو پاتا۔ مولانا محمد علی جوہرؒ کا یہ اعزاز بھی ہے کہ جب وہ برطانوی حکومت سے مذاکرات کے لیے ۱۹۳۱ء کے دوران گول میز کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لندن گئے تو انہوں نے کانفرنس کی میز پر کہہ دیا کہ وہ مکمل آزادی سے کم کسی بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اور اگر برطانوی حکومت برصغیر کی مکمل آزادی کا پروانہ انہیں دینے کے لیے آمادہ نہیں ہے تو اسے انہیں قبر کی جگہ بھی ہندوستان سے باہر دینا ہوگی اس لیے کہ وہ غلام ہندوستان میں مرنے اور دفن ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اللہ تعالٰی نے اس مرد قلندر کے اس نعرۂ مستانہ کی لاج اس طرح رکھی کہ گول میز کانفرنس کے بعد وہ بیمار ہوئے، اسی بیماری میں ان کا انتقال ہوگیا اور تدفین کے لیے انہیں بیت المقدس کے ماحول میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے قدموں میں قبر کی جگہ ملی۔
ایاز امیر صاحب سے درخواست ہے کہ امریکی بالادستی کی راہ ہموار کرنے کے لیے برطانوی استعمار کے تسلط کا تاریخی جواز تراشنے کی غرض سے وہ اپنی ذہانت کا ضرور اور بھرپور استعمال کریں لیکن اس کے لیے تاریخی حقائق کو مسخ نہ کریں، تحریک آزادی کے شہداء کے مقدس خون کا مذاق اڑانے سے باز رہیں اور گوئبلز کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اس کے انجام پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
جہاد، دہشت گردی اور جد و جہد آزادی میں فرق
میں نے عرض کیا کہ یہ بات درست نہیں ہے اس لیے کہ جہاں تک پاکستان یا کسی بھی مسلم ملک میں نفاذ شریعت کے لیے حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بات ہے ہم نے ہر موقع پر یہ کہا ہے کہ اسے ہم درست نہیں سمجھتے اور اس کی حمایت نہیں کرتے۔لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کا بگل بجانے والوں نے دہشت گردی کی کوئی تعریف عالمی سطح پر طے کیے بغیر یہ اختیار اپنے پاس رکھ لیا ہے کہ وہ جسے چاہیں دہشت گرد قرار دے کر اس پر چڑھ دوڑیں۔ یہ طرز عمل درست نہیں ہے کہ اس نے جہاد، دہشت گردی اور قومی آزادی کی جنگ کو گڈمڈ کر کے رکھ دیا ہے اور ایک ایسا کنفیوژن دنیا بھر میں پیدا کر دیا ہے کہ دہشت گردی کی متفقہ تعریف طے کیے بغیر اسے دور کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے جب ہم سے دہشت گردی کے خلاف یکطرفہ بات کرنے اور غیر مشروط فتویٰ جاری کرنے کا تقاضہ کیا جاتا ہے تو ہمارے تحفظات ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہم جہاد افغانستان، جہاد فلسطین اور جہاد کشمیر کو دہشت گردی کے زمرے میں شامل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور کوئی ایسی بات نہیں کر سکتے جس کی زد میں جہاد اور قومی آزادی کی تحریکات بھی آتی ہوں۔
میں نے وکلاء سے عرض کیا کہ اس سلسلہ میں علماء کرام اور وکلاء دونوں کو کام کرنا چاہیے کہ وہ جہاد، دہشت گردی اور قومی آزادی کی تحریکات کے درمیان فرق کو واضح کریں اور استعماری قوتوں نے جو کنفیوژن پیدا کر دیا ہے اسے دور کرنے کے لیے ہر سطح پر علمی اور فکری طور پر محنت کریں۔ جبکہ میرے خیال میں آزاد کشمیر کے علماء کرام اور وکلاء کی ذمہ داری اس سلسلہ میں زیادہ ہے کہ جہاد، دہشت گردی اور آزادی کی جنگ کو گڈمڈ کر کے استعماری قوتوں نے جو الجھاؤ اور کنفیوژن پیدا کر رکھا ہے اور جسے وہ اپنے مذموم مقاصد کے لیے مسلسل بڑھاتی اور پھیلاتی جا رہی ہیں، کشمیری عوام کی آزادی کی جدوجہد اس سے براہ راست متاثر ہو رہی ہے اور کشمیر کاز کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس لیے آزادیٔ کشمیر کی جد و جہد کو اس کنفیوژن سے نکالنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ آزاد کشمیر کے علماء کرام اور وکلاء اس سلسلہ میں کردار ادا کریں اور علمی و فکری دائرے میں جد و جہد کر کے دنیا کو بتائیں کہ جہاد اور آزادی کی جنگ کا دائرہ اور ہے اور دہشت گردی کا دائرہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔
میں نے گزارش کی کہ علماء کرام اور وکلاء کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ باہمی میل جول کا ماحول پیدا کریں اور سوسائٹی میں قانون کی بالا دستی، اسلامی قوانین کے نفاذ اور دیگر ملی مقاصد کے لیے طبقاتی معاصرت کے ماحول سے نکل کر مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کریں۔
یومِ آزادی ۱۴ اگست یا رمضان المبارک کی ستائیسویں شب
حکیم محمد سعید شہید رحمہ اللہ کی بات میرے ذہن سے اتر چکی تھی، مگر مولانا عبد المجید لدھیانوی نے پھر یاد دلا دی۔ بیسویں صدی عیسوی کے اختتام پر ہم نے اس حوالے سے کچھ پروگرام بنانا چاہے اور اس عنوان سے کچھ فکری اور نظریاتی پروگراموں کی ترتیب کرنا چاہی تو اس سلسلے میں مشاورت اور رہنمائی کے لیے مختلف ارباب دانش کو خطوط لکھے، جن میں حکیم محمد سعید شہید رحمہ اللہ بھی شامل تھے۔ حکیم صاحب ”الشریعہ“ کے مستقل قاری تھے اور مشوروں سے بھی حسب موقع نوازا کرتے۔ ہمارے اس خط کے جواب میں انہوں نے تعجب کا اظہار کیا اور فرمایا کہ
”ہم تو صدی کے حوالے سے تقریبات اور دیگر پروگرام ہجری صدی کے اختتام پر کر چکے ہیں اور ہماری صدی وہی ہے۔ آپ حضرات کو یہ نئے پروگرام کیسے سوجھ گئے ہیں؟“
ان کے اس ارشاد پر ہمیں بھی تنبہ ہوا اور ہم نے ہاتھ ڈھیلا کر دیا۔ حکیم صاحب رحمہ اللہ کا یہ ارشاد سو فیصد درست ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مارکیٹ میں رائج الوقت سکہ ہی چلتا ہے، اس لیے ہمارے ذہنوں اور معمولات میں شمسی تقویم کی حکمرانی چلی آ رہی ہے۔
گزشتہ ہفتے کے دوران مولانا عبد المجید لدھیانوی دامت برکاتہم کی خدمت میں جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا میں حاضری کا اتفاق ہوا اور انہوں نے بڑی شفقت اور دعاؤں سے نوازا، جبکہ اس سے قبل دارالعلوم مدنیہ، ماڈل ٹاؤن، بہاولپور میں ختم بخاری شریف کی تقریب کے موقع پر ان کے ارشادات سننے کا موقع ملا۔ انہوں نے ہجری سن اور تقویم کے بارے میں بطور خاص بات کی اور کہا کہ
”ہمارے دینی مدارس کے امتیازات اور خدمات میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے ہجری تقویم کو زندہ رکھا ہوا ہے، اس طرح کہ دینی مدارس کے تعلیمی سال کا دورانیہ، امتحانات، تعطیلات اور دیگر متعلقہ امور ہجری سن کے اعتبار سے طے پاتے ہیں، ورنہ ہماری عام زندگی میں ہجری سن، تاریخ اور تقویم کا کوئی حوالہ باقی نہیں رہ گیا۔ حالانکہ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ چونکہ بہت سے شرعی احکام و فرائض کی ادائیگی قمری ماہ و سال سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے چاند کی رؤیت اور ہجری مہینوں اور سالوں کا حساب رکھنا امت کے لیے فرض کفایہ کا درجہ رکھتا ہے اور اس وقت یہ فرض کفایہ پوری امت کی طرف سے صرف دینی مدارس ادا کر رہے ہیں۔“
مجھے اس موقع پر یاد آیا کہ سعودی عرب بھی اس فرض کفایہ کی ادائیگی میں ہمارے ساتھ شریک ہے اور سعودی عرب کے سرکاری اور دفتری امور ہجری سن و ماہ کے لحاظ سے انجام پاتے ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اس سلسلے میں دلچسپ واقعہ پیش آیا کہ ایک موقع پر میں نے لندن سے واپسی پر سعودی عرب میں کچھ وقت گزارنے کا پروگرام بنایا اور سعودی سفارت خانے سے وزٹ ویزا حاصل کر لیا، جو ایک ماہ کے لیے تھا۔ میں نے عمرہ کے ویزے کی درخواست دی تھی، مگر ان دنوں عمرہ کا ویزہ نہیں لگ رہا تھا۔ اس لیے مجھے ایک دوست کی سفارش پر سعودیہ کے سفیر محترم نے خصوصی حکم کے ذریعے وزٹ ویزا جاری کرا دیا، میں نے اسے غنیمت سمجھا اور ریاض، جدہ، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، بدر اور دیگر مقامات کی خوب سیر کی اور عمرہ کی سعادت سے بھی بہرہ ور ہوا۔
سعودی ویزے پر عیسوی تقویم کے ساتھ ساتھ ہجری تقویم کے اعتبار سے بھی تاریخ درج ہوتی ہے اور سرکاری طور پر اسی کا اعتبار ہوتا ہے۔ میں نے یہ پورا ماہ سعودیہ میں گزارا اور جب واپسی کے لیے جدہ ایئر پورٹ پہنچا تو صورتحال یہ تھی کہ ہجری ماہ کے حوالے سے سعودی عرب میں میرا قیام ویزے سے ایک دن زیادہ بنتا تھا، مگر شمسی حساب سے مہینہ پورا تھا۔ مجھے کاؤنٹر پر روک لیا گیا کہ آپ نے ویزے کی مدت کی خلاف ورزی کی ہے اور ایک دن زیادہ گزارا ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے ویزے کی مدت کی خلاف ورزی نہیں کی اور زیادہ وقت نہیں گزارا۔ اس پر کاؤنٹر پر کھڑے افسر اور میرے درمیان خاصی تکرار ہوئی۔ وہ ویزے میں درج قمری تاریخ پر انگلی رکھتا اور کہتا کہ تمہارا قیام ایک دن زائد بنتا ہے اور میں شمسی تاریخ پر انگلی رکھ کر اصرار کرتا کہ میرا قیام ایک ماہ پورا رہا ہے۔ جب ہماری تکرار زیادہ بڑھ گئی تو وہ مجھے اپنے افسر کے پاس لے گیا۔ اس نے ہماری بات سنی، میری طرف دیکھ کر مسکرایا اور اس افسر سے کہا کہ چھوڑو، جانے دو۔ یوں میری جان چھوٹ گئی، ورنہ مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ اور کچھ ہو یا نہ ہو، اس تکرار میں میری فلائٹ نکل سکتی ہے۔
مولانا عبد المجید لدھیانوی مدظلہ نے اس گفتگو میں فرمایا کہ
”ہم قیامِ پاکستان اور آزادی کا دن ۱۴ اگست کو مناتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ہمیں برطانوی استعمار سے آزادی ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو ملی تھی اور پاکستان بھی ایک نئے ملک کے طور پر اسی روز دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا تھا، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جس رات پاکستان کے قیام کا باضابطہ اعلان ہوا وہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب تھی اور برکتوں اور رحمتوں والی رات تھی۔ اس لیے اگر ہم اپنی آزادی اور یوم آزادی کی نسبت ۱۴ اگست کی بجائے ۲۷ رمضان المبارک سے قائم رکھتے اور اس سلسلے کی تقریبات کا ۲۷ رمضان المبارک کو اہتمام کرتے تو ہمیں رمضان المبارک کی برکات کا حصہ بھی ملتا اور رمضان المبارک کی ستائیسویں شب کی نسبت سے دینی ماحول اور آزادی کے ساتھ دین کا تعلق بھی ذہنوں میں فروغ پاتا، مگر مغرب ہمارے ذہنوں پر اس قدر مسلط ہے کہ ہم اپنی تاریخ اور ماہ و سال کے حساب کا شرعی معیار بھی بھولتے جا رہے ہیں۔ عام لوگ تو رہے ایک طرف، علماء کرام کی اکثریت کا حال بھی یہ ہے کہ نہ قمری تاریخ یاد ہوتی ہے اور نہ مہینہ ذہن میں ہوتا ہے۔“
بہرحال یہ ہماری اجتماعی کوتاہیوں میں سے ہے، جس کی طرف توجہ کرنے اور توجہ دلانے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں ایک اور بات بھی ذہن میں آ رہی ہے، جو میرے والد محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدر دامت برکاتہم ایسے موقع پر فرمایا کرتے تھے کہ
”تاجر حضرات اور زکوٰۃ ادا کرنے والے دیگر لوگوں کے لیے بھی ہجری تقویم کا حساب رکھنا شرعاً ضروری ہے۔ کیونکہ زکوٰۃ کی ادائیگی اور اس میں رقم پر سال گزرنے کی شرط میں ہجری اور قمری سن کا اعتبار ہے، جو شمسی سال سے دس دن چھوٹا ہوتا ہے اور دونوں کے حساب میں تینتیس سال میں ایک سال کا فرق پڑ جاتا ہے۔ اس لیے اگر کوئی صاحب شمسی حساب سے زکوٰۃ ادا کرتے ہیں تو تینتیس سال میں ان کی ایک سال کی زکوٰۃ رہ جائے گی جو انہوں نے ادا نہیں کی ہو گی۔“
بہرحال اس سال میں نے ۱۴ اگست کا دن کراچی میں گزارا۔ اس روز جامعہ انوار القرآن آدم ٹاؤن نارتھ، کراچی میں ختم بخاری شریف کی تقریب تھی، جامعہ کے مہتمم مولانا فداء الرحمٰن درخواستی مدظلہ کے ارشاد پر میری حاضری ضروری تھی، مگر ۱۳ اگست کو رات جامعہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ خان پور کے سالانہ اجتماع کی آخری نشست میں حاضری کے بعد کراچی کے سفر کا عزم کیا تو اگرچہ تیزگام پر میری سیٹ بک تھی، مگر گاڑیاں مسلسل دس دس بارہ بارہ گھنٹے لیٹ ہو رہی تھیں، اس لیے اسے ترک کرنا پڑا اور کوچ پر بیٹھ گیا، جس نے گیارہ گھنٹے کے مسلسل سفر کے بعد صبح ساڑھے دس بجے کراچی پہنچا دیا۔
منگھو پیر روڈ پر جامعہ عثمانیہ کی تقریب میں بھی شرکت کا وعدہ تھا۔ دیوبند سے مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری مدظلہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ ان کی زیارت کی اور جامعہ عثمانیہ کے پروگرام میں حاضری کے بعد جامعہ انوار القرآن پہنچا، جہاں ایک پروقار تقریب میں مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے شیخ الحدیث مولانا سیف الرحمٰن المہند نے دورہ حدیث کے طلبہ کو آخری سبق پڑھایا۔ ان کے علاوہ ریٹائرڈ بریگیڈیئر ڈاکٹر قاری فیوض الرحمٰن، مولانا عبد الرشید انصاری، مولانا فداء الرحمٰن درخواستی اور راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔
راقم الحروف نے اپنی گفتگو میں دورۂ حدیث کے طلبہ اور علماء کرام کو اس طرف توجہ دلائی کہ بخاری شریف پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے اس بات کو ضرور پیش نظر رکھیں کہ پہلی حدیث ”انما الاعمال بالنیات“ اور آخری حدیث ”کلمتان حبیبتان“ کے درمیان انہوں نے سال بھر میں جو کچھ پڑھا ہے یا پڑھ رہے ہیں، اس میں انسان کی انفرادی، خاندانی، قومی اور بین الاقوامی زندگی کے مسائل اور ضروریات کا کوئی پہلو تشنہ تو نہیں ہے۔ یہ اسلام کا اعجاز، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیاز اور بخاری شریف کی جامعیت ہے کہ اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی کا حوالہ ملے گا۔
آج کے دور میں جو کہ اجتماعیت کا دور ہے، سولائزیشن کا دور ہے اور معاشرت کے تیزی کے ساتھ ارتقا کا دور ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی اس جامعیت کو زیادہ اہمیت کے ساتھ نمایاں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے حدیث نبویؐ کی تعلیمات کا تذکرہ کرتے ہوئے آج کے حالات اور عالمی تناظر کو ضرور سامنے رکھ لیا کریں۔ اس سے بہت رہنمائی ملے گی اور وہ زیادہ اعتماد اور حوصلے کے ساتھ نبویؐ تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کر سکیں گے۔
۱۵ اگست کو مجھے علی الصبح واپس آنا تھا، اس لیے کراچی کے یوم آزادی کا مشاہدہ نہ کر سکا، البتہ جامعہ عثمانیہ سے جامعہ انوار القرآن آتے ہوئے راستے میں دو نوجوانوں کو دیکھا کہ وہ موٹر سائیکل کے سائلنسر نکال کر سڑک پر گھوم رہے تھے اور موٹر سائیکل کے شور کی طرف پورے علاقے کو توجہ دلا کر اپنے ”ذوقِ آزادی“ کا اظہار کر رہے تھے، جبکہ ۱۵ اگست کو صبح ایئر پورٹ کی طرف جا رہا تھا کہ ہماری گاڑی کے ڈرائیور نے یکے بعد دیگرے تین اشارے پار کر دیے۔ وہ ہمارے ہی ایک عزیز ساتھی تھے، میں نے انہیں یاد دلایا کہ بھائی! آج بھارت کا یوم آزادی ہے، ہمارا یوم آزادی کل گزر چکا ہے، اس پر انہوں نے مسکراتے ہوئے رفتار کم کر دی۔
شخصی آزادی کا مغربی تصور اور آسمانی تعلیمات
بخاری شریف اور حدیث کی دیگر مستند کتابوں میں روایت ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر صحابہ کرامؓ کو عام راستوں اور گزرگاہوں میں بیٹھنے اور مجلس لگانے سے منع فرما دیا۔ اس پر بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارا اس کے بغیر گزارہ نہیں، کیونکہ کوئی ملنے کے لیے آئے تو بسا اوقات گھر میں بٹھانے کی جگہ نہیں ہوتی اور باہر کھلے راستے میں گفتگو کرنا پڑ جاتی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر یہ مجبوری ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں تو پھر راستے کا حق ادا کرو۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا کہ راستے کا حق کیا ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (۱) نگاہیں نیچی رکھو (۲) سلام کا جواب دو (۳) راستے میں کوئی تکلیف دہ چیز پڑی ہو مثلاً اینٹ، پتھر یا چھلکا وغیرہ تو اسے وہاں سے ہٹا دو (۴) کوئی آدمی راستہ بھول گیا ہو تو اس کی رہنمائی کرو، اور (۵) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، یعنی نیکی کی تلقین کرو اور برائی سے روک ٹوک کرتے رہو۔ گویا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک مسلمان کی ان دینی ذمہ داریوں میں سے ہے جن کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے راہ چلتے ہوئے بھی ضرورت محسوس ہونے پر اسے ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔
بخاری شریف کی ایک حدیث کے مطابق حضرت جریر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے وہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسلمان ہونے کے لیے حاضر ہوئے اور آپؐ کے دست مبارک پر بیعت کی تو جناب رسالت مآبؐ نے بیعت کی شرائط میں ’’والنصح لکل مسلم‘‘ کو بھی شامل فرما دیا کہ ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرو گے اور خیرخواہی کی سب سے زیادہ عملی صورت یہ ہے کہ کسی شخص کو نقصان اور ضرر سے بچا لیا جائے اور نفع و نقصان کے حوالے سے اس کی رہنمائی کی جائے۔ یہ نفع و نقصان دنیا کا بھی اور آخرت کا نفع و نقصان بھی اس میں شامل، بلکہ وہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
لیکن چونکہ مغرب کی مادہ پرستانہ تہذیب و ثقافت نے ہمیں ہر طرف سے گھیر رکھا ہے، اس لیے ہمارے ذہنوں میں نفع و نقصان کا وہی تصور رسائی حاصل کر پاتا ہے جس کا تعلق دنیا کے مفادات سے ہو اور آخرت کے نفع و نقصان کا تصور ذہنوں سے رفتہ رفتہ نکلتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنے کسی دوست، پڑوسی، محلہ دار یا ملنے جلنے والے سے اس کی سرگرمیوں کے حوالے سے اس پہلو سے بات کرتا ہے کہ اس کی فلاں بات اس کے کاروبار کے لیے نقصان دہ ہے یا اس کے کسی اور مفاد کے لیے ضرر رساں ہے، تو اسے قابلِ تعریف سمجھا جاتا ہے۔ اس کے قابل تعریف ہونے میں ہمیں بھی کوئی کلام نہیں ہے، لیکن اگر کوئی شخص اپنے کسی دوست، ساتھی اور واقف کار کو آخرت کے نفع و نقصان کے بارے میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کا فلاں عمل قبر میں اس کے لیے مشکلات پیدا کرے گا، آخرت میں اس کے لیے نقصان دہ ہو گا اور اسے جہنم میں لے جانے کا ذریعہ بنے گا تو اسے نہ صرف یہ کہ غیر ضروری سمجھا جاتا ہے، بلکہ بسا اوقات دقیانوسیت کی علامت بھی قرار دے دیا جاتا ہے۔
اسی طرح مغربی ثقافت کے زیر اثر یہ تصور بھی ہمارے ذہنوں میں سرایت کرتا جا رہا ہے کہ شخصی آزادی کے تحت آپ کو کسی دوسرے شخص کے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ وہ جو کچھ بھی کرے، اگر آپ کا کوئی مفاد اور حق اس سے مجروح نہیں ہوتا تو آپ کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ اس کے ساتھ روک ٹوک کا معاملہ کریں۔ مگر اسلام شخصی آزادی کے اس مفہوم کو تسلیم نہیں کرتا اور ہر مسلمان کے لیے یہ بات لازم کرتا ہے کہ اگر وہ کسی شخص کو کوئی ایسا عمل کرتا دیکھے جو معاشرے کے لیے ضرر رساں ہو، حتیٰ کہ اگر خود عمل کرنے والے کا بھی اس میں دنیا یا آخرت کا نقصان نظر آ رہا ہو، تو دیکھنے والے کا فریضہ ہے کہ وہ اسے ٹوکے، سمجھائے اور اسے اس عمل سے باز رکھنے کی کوشش کرے۔ اس معاملے میں اسلام کی تعلیمات شخصی آزادی کے مغربی تصور سے قطعی طور پر مختلف ہیں، کیونکہ قرآن و سنت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو مسلمانوں کے باہمی حقوق، بلکہ فرائض میں شامل کیا گیا ہے اور بیسیوں آیات و احادیث میں اس کی تلقین و تاکید کی گئی ہے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم (سورۃ المائدۃ) میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ جب بنی اسرائیل کو ایک بار پوری دنیا پر فضیلت دیے جانے کے بعد ان کی حرکات کی وجہ سے ملعون قرار دیا گیا تو ان پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے لعنت نازل ہونے کے اسباب میں ایک سبب یہ بھی تھا کہ انہوں نے برائیوں کے ارتکاب پر ایک دوسرے کو روکنے اور منع کرنے کا عمل ترک کر دیا تھا، سوسائٹی میں برائی کے اعمال کھلے بندوں ہوتے تھے، مگر باہمی روک ٹوک کا ماحول باقی نہیں رہا تھا۔ قرآن کریم نے مذکورہ آیات میں اس طرز عمل کو کسی قوم کے لیے اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق ہونے کا باعث بتایا ہے۔
اس پس منظر میں جب ہم لال مسجد اسلام آباد کی بعض کارروائیوں مثلاً ایک مبینہ قحبہ خانہ اور مساج پارلرز پر چھاپے مار کر کارندوں کو حراست میں لینے اور انتظامیہ پر ایسے اڈوں کو بند کرنے کے لیے دباؤ ڈالتے دیکھتے ہیں تو اس پر مختلف حلقوں کا رد عمل اور تبصرے بھی یکطرفہ اور ادھورے دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ بات تو سبھی کہہ رہے ہیں کہ لال مسجد اسلام آباد کی انتظامیہ کا اس طرح قانون کو ہاتھ میں لینا اور انتظامی و عدالتی نظام کو کراس کرتے ہوئے ازخود اس نوعیت کی کارروائی کرنا درست طرز عمل نہیں ہے، دانش مندی کی بات نہیں ہے اور ملک و ملت کے لیے نقصان دہ طرز عمل ہے، لیکن اس بات پر بحث کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کہ بے حیائی، بدکاری اور فحاشی کے کھلم کھلا ارتکاب اور ان کے باقاعدہ اڈے قائم ہونے پر حکومتی اداروں نے کیوں خاموشی اختیار کر رکھی ہے، دینی و سیاسی جماعتوں کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے، سماجی تنظیموں کو سوسائٹی کو تباہی کی طرف لے جانے والا یہ عمل کیوں دکھائی نہیں دے رہا اور قرآن و سنت کے احکام سے صریح بغاوت پر پوری قوم سناٹے کی کیفیت میں کیوں ہے؟
جہاں تک لال مسجد کی انتظامیہ کے طرز عمل اور طریق کار کا تعلق ہے، ہم نے اس سے کھلے بندوں اختلاف کیا ہے اور ہم پورے انشراحِ صدر کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں دینی جدوجہد کا یہ طریق کار درست نہیں ہے، بلکہ غیر دانش مندانہ اور دینی جدوجہد کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن صرف اسلام آباد نہیں، بلکہ ملک کے مختلف شہروں میں قحبہ خانوں کا جو وسیع نیٹ ورک کام کر رہا ہے اور مساج پارلروں کے نام پر جس طرح بدکاری اور فحاشی کو مسلسل فروغ دیا جا رہا ہے، اس پر حکومتی اداروں، دینی و سیاسی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کی خاموشی اس سے کہیں بڑا جرم ہے۔ کیونکہ اس وقت عملی طور پر یہ منظر دکھائی دے رہا ہے کہ بے حیائی، فحاشی اور بدکاری کے مراکز کا جال ہر طرف پھیل رہا ہے، لیکن ان پر روک ٹوک کا کوئی سرکاری یا پرائیویٹ نظام موجود نہیں ہے اور ہم اپنے مجموعی ماحول کے حوالے سے اسی سطح پر پہنچ چکے ہیں، جس سطح پر بنی اسرائیل کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت نازل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ لال مسجد کے طرز عمل کو ہدف تنقید بنانے میں ہم اپنے دانش ور دوستوں کے ساتھ ہیں، لیکن کیا معاملے کے اس دوسرے رخ کے حوالے سے قوم کی رہنمائی کرنے کے لیے ہمارے دانشوروں کے پاس کوئی سوچ یا مواد موجود نہیں ہے؟
قیامِ پاکستان اور دستور سازی
پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان ہندوستان کو تقسیم کر کے بنا ہے۔ جب انگریز برصغیر میں آئے تھے تو متحدہ ہندوستان اورنگزیب کے زمانے سے ایک ملک چلا آ رہا تھا جو اَب چار ملکوں میں تقسیم ہو گیا ہے یعنی بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور برما۔ جب انگریزوں نے یہاں قبضہ کیا تو
- پہلے انہوں نے برما کو الگ کیا۔
- اس کے بعد ہندوستان کی آزادی کے وقت یہاں کی سیاسی پارٹیوں میں دو نقطۂ نظر سامنے آ گئے کہ مسلمانوں کے لیے الگ ملک ہونا چاہیے، اس پر آپس کی تقسیم بھی ہوئی اور اختلافات بھی ہوئے لیکن بہرحال پاکستان اور ہندوستان کے نام سے دو الگ الگ آزاد ریاستیں تسلیم کی گئیں۔
- پھر پاکستان میں دو حصے شامل تھے، مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان، ایوب خان کے زمانے میں پاکستان کے یہ دو بڑے صوبے تھے۔ پھر یحییٰ خان کے زمانے میں یہ دو حصے الگ ہو گئے، مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا، اور مغربی پاکستان اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نام سے الگ ملک بنا۔
یوں اس تقسیم میں چار الگ الگ ملک دنیا کے نقشے پر موجود ہیں۔
پاکستان بن جانے کے بعد نفاذِ اسلام کی جدوجہد کن مراحل سے گزری اور کیا پیشرفت ہوئی؟ ۱۹۴۷ء میں پاکستان بنا تو بنگلہ دیش بھی مشرقی بنگال کے طور پر ہمارا حصہ تھا۔ اس وقت پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بھی دونوں حصوں سے تھی۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان سے منتخب نمائندوں سے متفقہ دستور ساز اسمبلی وجود میں آئی جس نے یہ طے کرنا تھا کہ پاکستان کا دستور اور آئین کیا ہو گا اور پاکستان کا نظام کیا ہو گا۔ دستور ساز اسمبلی کے طور پر ملک میں انتخاب ہوا اور ملک کے مختلف حصوں سے نمائندے منتخب ہو کر آئے۔ ان میں مشرقی پاکستان سے سلہٹ کے علاقے سے شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ جو جمعیت علماء اسلام کے سربراہ تھے منتخب ہو کر دستور ساز اسمبلی میں آئے اور دستور سازی کا آغاز ہو گیا۔
پاکستان بننے کے بعد دستور ساز اسمبلی میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہو گا یا سیکولر ریاست ہو گا؟ ملک کے دستور اور آئین کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق ہو گا یا نہیں ہو گا؟ دستور ساز اسمبلی میں دستور کی تشکیل کے ساتھ ہی یہ بحث شروع ہو گئی۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم تھے، وزیراعظم خان لیاقت علی خان مرحوم تھے، وزیر قانون جوگندر ناتھ ہندو تھے، اور وزیر خارجہ ظفر اللہ قادیانی تھا۔ یہ ایک مخلوط سی وزارت تھی۔ دستور ساز اسمبلی میں سب سے پہلا مسئلہ یہ پیش آیا کہ پاکستان اسلامی ریاست ہو گی یا سیکولر ریاست ہو گی؟ مشرقی پاکستان سے بہت سے ہندو بھی نمائندے تھے، اور مسلم لیگی یا دوسروں میں بھی بہت سے سیکولر لوگ تھے جو پاکستان کو ایک مسلمان ریاست تو تسلیم کرتے تھے لیکن اسلامی ریاست تسلیم نہیں کرتے تھے۔ یہ بہت بڑا حلقہ تھا جو اَب بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان مسلمانوں کے لیے بنا ہے، اسلام کے لیے نہیں بنا۔ مسلمانوں کو ہندوؤں کی بالادستی سے بچانے کے لیے ہم نے الگ ملک لیا تھا، اسلام کا نفاذ اور اسلام کا قانون اور دستور ہمارے پیشِ نظر نہیں تھا۔ ایک بڑا حلقہ یہ کہتا ہے۔
لیکن چونکہ قائد اعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان اور علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہم اللہ تعالیٰ جو کہ تحریک پاکستان کے بنیادی لیڈروں میں سے تھے، ان کے واضح اعلانات موجود ہیں کہ پاکستان میں اسلام کا نظام نافذ ہو گا، قرآن و سنت کے نفاذ کے لیے ہم نے یہ ملک لیا ہے، پاکستان ایک اسلامی، رفاہی اور نظریاتی ریاست ہو گی۔ اس پر لوگوں نے قربانیاں دی تھیں جو کہ آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔ اس لیے سیکولر لوگ اپنی بات پر زیادہ زور نہ دے سکے اور بالآخر مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی کوششوں سے خان لیاقت علی خان نے مضبوط موقف اختیار کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اسمبلی کے اندر بنیادی طور پر محنت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور وزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم کی تھی، جبکہ اسمبلی سے باہر مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے رائے عامہ منظم کرنے کے لیے محنت کی۔ ان میں جمعیت علماء اسلام کے رہنما مفتی محمد شفیعؒ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ، جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ، اہلِ حدیث رہنما مولانا داؤد غزنویؒ اور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹیؒ، بریلوی علماء میں سے دو بڑے اکابر مولانا حامد بدایونیؒ اور پیر صاحب آف مانکی شریفؒ شامل تھے۔ ان حضرات نے عوام میں محنت کی کہ ملک کا دستور اسلامی ہونا چاہیے۔ کچھ عوامی دباؤ سے اور کچھ اسمبلی میں مضبوط نمائندگی سے کہ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ خود اسمبلی میں موجود تھے، انہوں نے یہ مہم سر کر لی کہ دستور ساز اسمبلی نے ’’قرارداد مقاصد‘‘ پاس کر کے ہمیشہ کے لیے یہ طے کر دیا کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہو گا، اور اس میں دستور اور قانون کی تشکیل میں اسلام، قرآن مجید اور سنتِ رسول کو بنیادی حیثیت حاصل ہو گی۔
قراردادِ مقاصد کیا ہے؟ یہ ذکر کرنے سے پہلے میں ایک بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ نفاذِ اسلام کے لیے دو تین اہم سوال ہمارے سامنے آ گئے تھے جن کا فیصلہ کیے بغیر پاکستان کو اسلامی ریاست قرار دینا مشکل تھا۔
ایک بات یہ تھی کہ پاکستان کا نظامِ حکومت کیسا ہو گا؟ دنیا میں دو تین قسم کے نظامِ حکومت چلتے آ رہے ہیں: ایک تصور یہ تھا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ چونکہ بانئ پاکستان ہیں، اس لیے انہیں بادشاہ تسلیم کر لیا جائے اور ان کی جو اولاد ہے وہ ملک کی قیادت کرتی رہے۔ یعنی شخصی خاندانی حکومت کہ باپ کے بعد بیٹا، پھر دوسرا بیٹا، پھر بھائی وغیرہ۔ جبکہ دوسرا تصور یہ تھا کہ ملک میں جمہوری حکومت عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے قائم کی جائے۔
اسلامی ریاست بنانے کا مسئلہ پیش آیا تو اس وقت یہ دو آئیڈیل دستور ساز اسمبلی کے سامنے تھے۔ ایک خلافت عثمانیہ کا نمونہ ہمارے سامنے تھا۔ خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ۱۹۲۴ء میں ہوا اور پاکستان ۱۹۴۷ء میں بنا۔ خلافتِ عثمانیہ جو تقریباً چار سو سال سے زیادہ عرصہ گزار کر دنیا سے رخصت ہوئی تھی، وہ ماڈل بھی سامنے تھا، لیکن وہ نظام خاندانی اور نسلی تھا اس لیے وہ آج کے دور میں قابلِ قبول نہیں تھا۔ اور اس کے بعد عالمِ اسلام میں جو ماڈل آیا تھا وہ سعودی عرب کا تھا۔ آلِ سعود نے خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سعودی عرب کی تشکیل کی تھی اور حکومت قائم کی تھی۔ سعودی عرب نے اگرچہ یہ اعلان کیا تھا کہ ہم قرآن و سنت کے مطابق حکمرانی کریں گے لیکن حکومتی نظام بادشاہی ہو گا۔ حتیٰ کہ شاہ عبد العزیز مرحوم کو ہمارے بعض اکابر ہندوستانی علماء کی طرف سے یہ پیشکش کی گئی تھی کہ آپ خلافت کا اعلان کریں، ہم آپ کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کریں گے۔ لیکن انہوں نے کہا تھا کہ نہیں! سعودی عرب میں نظامِ حکومت بادشاہی ہو گا، البتہ قانون قرآن و سنت کے مطابق ہو گا۔ چنانچہ سعودی عرب کا نظام بھی ایک خاندانی بادشاہی نظام تھا، جو پاکستان میں قابلِ عمل نہیں تھا۔ سعودی عرب میں بادشاہ کون ہو گا، اس کا فیصلہ وہاں کے عوام نہیں کرتے بلکہ آلِ سعود کا خاندان اس کا انتخاب کرتا ہے۔
چنانچہ دستور ساز اسمبلی کے سامنے جو سوالات رکھے گئے، ان میں یہ سوال تھا کہ آپ خاندانی نظامِ حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو یہ دو ماڈل خلافتِ عثمانیہ اور آلِ سعود آپ کے سامنے ہیں۔ یہ دونوں پاکستان کے اس وقت کے حالات کے لیے بھی قابلِ قبول نہیں تھے اور آج کے حالات میں بھی نہیں ہیں۔ اس لیے یہ تو نہیں ہو سکتا تھا، پھر کیا کیا جائے؟
لہٰذا قراردادِ مقاصد نے یہ طے کیا کہ نظامِ حکومت تو جمہوری ہو گا لیکن نظامِ مملکت قرآن و سنت کے تابع ہو گا۔ یوں ہی سمجھ لیجیے جیسے سعودی عرب میں قوانین شرعی ہوں گے اور حکومت بادشاہی ہو گی۔ بالکل اسی نہج پر یہاں یہ طے کیا گیا کہ قوانین شرعی ہوں گے اور حکومت جمہوری ہو گی۔ خلافت کا عنوان نہ سعودی عرب نے اختیار کیا اور نہ پاکستان نے اختیار کیا۔
قراردادِ مقاصد کی تین بنیادیں ہیں جس میں یہ باتیں طے کر دی گئیں:
- پہلا اصول قراردادِ مقاصد میں طے کیا گیا کہ حاکمیتِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے۔ جمہوریت کی بنیادی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ ’’عوام کی حکومت، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے‘‘۔ یعنی حاکمیتِ اعلیٰ عوام کی ہو گی، عوام جو فیصلہ کر دیں ، فائنل اتھارٹی سوسائٹی ہے۔ لیکن قراردادِ مقاصد میں طے ہوا کہ پاکستان میں حاکمیتِ اعلیٰ عوام کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ہے۔
- قرارداد مقاصد میں دوسرا اصول یہ طے ہوا کہ نظامِ حکومت نہ بادشاہی ہو گا اور نہ خاندانی ہو گا بلکہ عوام کی رائے کی بنیاد پر جمہوری حکومت ہوگی۔
- تیسرا اصول یہ طے کیا گیا کہ حکومت اور پارلیمنٹ قرآن و سنت کے تابع ہوں گے۔ حکومت اور پارلیمنٹ قرآن و سنت کے منافی کوئی فیصلہ نہیں کر سکے گی۔
جب قراردادِ مقاصد پاس ہو گئی تو یہ کہا گیا کہ پاکستان نے کلمہ پڑھ لیا ہے۔ جیسے کوئی آدمی کلمہ پڑھ لیتا ہے تو وہ مسلمان ہو جاتا ہے، آگے اس کا تعلق اعمال سے ہے، لیکن کلمہ پڑھنے سے بہرحال وہ مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ قراردادِ مقاصد کی منظوری کے بعد پاکستان ایک اسلامی ریاست تسلیم کیا گیا اور بالکل اسی طرح دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا جیسے کوئی آدمی کلمہ پڑھ کر خود کو مسلمانوں کی فہرست میں شامل کر لیتا ہے۔
قراردادِ مقاصد کے تعین میں جو اصول طے ہوئے، اس میں جن لوگوں کا کردار ہے ان کا اعتراف ہونا چاہیے۔ پاکستان بننے کے بعد جو نفاذِ شریعت کی دستوری اور قانونی جدوجہد میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم رہنما بھی ہمارے ساتھ شریک رہے ہیں۔ ان میں بطور خاص اے آر کارنیلس جو بعد میں پاکستان کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بھی ہوئے ہیں، وہ عیسائی تھے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں مسلسل نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرتے رہے۔ وہ بین الاقوامی کانفرنسوں میں جاتے تو پاکستان کے نظریاتی تشخص کا دفاع کرتے تھے اور کہتے تھے کہ پاکستان چونکہ مسلمانوں کی اکثریت کا ملک ہے اور اسلام کے نام پر بنا ہے اس لیے پاکستان میں نفاذِ اسلام پاکستانیوں کا حق ہے اور میں ان کے حق کی تائید کرتا ہوں۔ دوسرے عیسائی رہنما آنجہانی جوشو افضل دین جو مسیحیوں کے بڑے لیڈروں میں سے تھے اور مغربی پاکستان کی اسمبلی کے منتخب رکن تھے۔ وہ یہ آواز لگایا کرتے تھے کہ پاکستان میں اسلام اور شریعت کا نظام نافذ ہونا چاہیے، ہم عیسائیوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ ہمیں خوشی ہو گی کہ پاکستان میں اسلامی تعلیمات اور شریعتِ اسلامیہ کے مطابق نظام قائم ہو، ہم پورا ساتھ دیں گے۔ یہ دونوں رہنما پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے لیے غیر مسلم حلقوں کی طرف سے بڑی مضبوط آواز تھے۔
ان کے علاوہ اسمبلی میں خان لیاقت علی خان اور عوامی محاذ پر مولانا ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا عبد الحامد بدایونی، مولانا سید داؤد غزنوی، مولانا مفتی محمد حسن، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا احتشام الحق تھانوی، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی اور پیر صاحب آف مانکی شریف رحمہم اللہ تعالیٰ تمام مکاتبِ فکر کے ان سرکردہ حضرات نے ملک میں یہ راہ ہموار کرنے کے لیے محنت کی، اور یہ ان کی مجموعی محنت کا نتیجہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی نے قراردادِ مقاصد منظور کر کے پاکستان کی ریاستی اسلامی نظریاتی حیثیت کو ہمیشہ کے لیے طے کر دیا۔
اس کے بعد دوسرا مسئلہ پیش آ گیا۔ سیکولر حلقوں نے یہ سوال اٹھا دیا کہ پاکستان میں کس کا اسلام نافذ ہو گا؟ دیوبندیوں کا؟ بریلویوں کا؟ اہلِ حدیثوں کا؟ یا شیعوں کا؟ اس وقت یہ چار بڑے فرقے تھے، اب بھی یہی فرقے ہیں۔
شیعہ اس ملک میں بڑی تعداد میں ہیں، ان کی آبادی تین چار فیصد بتائی جاتی ہے۔ ان کا یہ دعوٰی ہے کہ پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناحؒ شیعہ تھے، اس لیے ہم زیادہ حق رکھتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ خاندانی طور پر تو شیعہ ہی تھے، جو بعد سنی ہو گئے تھے یا نہیں، یہ الگ مسئلہ ہے۔ بہرحال شیعہ حضرات کا دعوٰی ہے کہ پاکستان کے بانی ہم ہیں تو ہمارا استحقاق زیادہ ہے۔
سنی کہلانے والوں میں دیوبندی، بریلوی اور اہلِ حدیث تین مکاتبِ فکر تھے۔ بلکہ میں تو اکثر کہا کرتا ہوں کہ جس وقت ہم نفاذِ اسلام کی جنگ کا آغاز کر رہے تھے تو ہمارے ہاں چار نہیں بلکہ ساڑھے چار مکاتبِ فکر تھے۔ جماعتِ اسلامی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ اگرچہ کسی فرقے میں ہونے کے دعویدار نہیں تھے لیکن یہ مستقل مکتبِ فکر تھا۔ وہ ان چار میں کسی فرقے کے دعویدار نہیں لیکن ان کا وجود ہے اور محنت ہے، اس لیے میں ساڑھے چار مکاتبِ فکر کہتا ہوں۔
اب یہ اشکال سامنے تھا کہ تعبیرات کس کی ہوں گی؟ قرآن و سنت کے قوانین نافذ ہوں گے تو دیوبندی تعبیر کے مطابق ہوں گے یا شیعہ تعبیر کے مطابق؟ بریلوی تعبیر کے مطابق ہوں گے یا اہلِ حدیث تعبیر کے مطابق؟ یا مولانا مودودیؒ کی تعبیرات کے مطابق؟ یہ ایک نیا مسئلہ کھڑا کیا گیا کہ اسلام کا نفاذ فرقہ وارانہ مسئلہ ہے، اس لیے اس کو چھوڑ دیا جائے تاکہ کوئی فرقہ دوسرے پر حاوی نہ ہو سکے اور فرقہ وارانہ کشمکش سے نجات ملے۔ یہ بہت بڑا اشکال تھا جس نے ملک میں خلفشار پیدا کر دیا کہ یہاں اسلام نافذ کرنا ہے تو کون سا اسلام؟
اللہ تعالیٰ ان حضرات کو جزائے خیر دیں جنہوں نے اس کے لیے محنت کی اور اس اعتراض کا دوٹوک جواب مہیا کیا۔ ان محنت کرنے والوں میں ایک سردار مولا بخش سومرو تھے۔ ہم اپنے حلقے کے علاوہ باقی لوگوں کو بھول جایا کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔ ابھی پچھلی قومی اسمبلی میں احمد میاں سومرو تھے، ان کے والد مولا بخش سومرو سندھ کے بڑے سرداروں میں سے تھے۔ وہ مولانا احمد علی لاہوریؒ کے مرید اور بہت دیندار آدمی تھے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں منسٹر رہے ہیں۔ پرانے بزرگوں میں سے تھے۔ تحریک چلانے والوں میں مولانا احتشام الحق تھانویؒ، مولانا متین خطیبؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور مولانا ظفر احمد انصاریؒ تھے، انہوں نے ملک بھر میں تمام مکاتبِ فکر کے علماء سے رابطہ قائم کر کے سال ڈیڑھ سال اس مسئلے پر محنت کی کہ ہم سب مل کر دستوری حوالے سے ایک متفقہ فارمولہ دے دیں کہ ہم اس پر متفق ہیں اور ہمارا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارے اختلافات دستور اور قانون کے مسائل پر نہیں ہیں، کچھ اور مسائل پر ہمارے اختلافات ہیں، دستور اور قانون کے دائرے پر ہم متفق ہیں، اس کو نافذ کر دیا جائے۔ اس کے لیے کراچی میں سردار مولا بخش کی کوٹھی پر کئی دن میٹنگیں ہوتی رہیں۔ ایک بہت بڑا نام جنہوں نے ان سب میٹنگوں کی صدارت کی تھی مولانا علامہ سید محمد سلیمان ندویؒ ہیں۔ اس میں ایک نو مسلم ’’روڈ ٹو مکہ‘‘ والے علامہ محمد اسدؒ بھی شریک تھے۔ تمام مکاتبِ فکر کے علماء کی ایک پوری ٹیم تھی۔
اکتیس سرکردہ علماء کرام اکٹھے ہوئے جنہوں نے بائیس دستوری نکات مرتب کیے۔ ان نکات پر سب متفق تھے، سب نے دستخط کیے اور یہ اعلان کیا کہ یہ بائیس نکات متفق علیہ ہیں۔ جس پر دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث، جماعتِ اسلامی اور شیعہ کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اس میں تمام طبقوں کی اعلیٰ ترین قیادت شریک ہوئی۔ شیعہ حضرات کی طرف سے مولانا مفتی جعفر حسینؒ، علامہ حافظ کفایت حسینؒ جو ان کی ٹاپ کی لیڈرشپ تھی، بریلوی حضرات میں مولانا حامد بدایونیؒ، پیر صاحب آف مانکی شریفؒ اور سندھ کے بڑے پیر صاحب تھے۔ اہلِ حدیث حضرات میں مولانا داؤد غزنویؒ، مولانا اسماعیل سلفیؒ اور مولانا ابراہیم میر سیالکوٹیؒ، اور جماعت اسلامی کے مولانا مودودیؒ بھی اس میں شامل تھے۔ یعنی چاروں پانچوں مکاتب فکر کی اس وقت کی جو موجود اعلیٰ قیادت تھی وہ شریک ہوئے اور سب نے متفقہ طور پر بائیس نکات منظور کر کے بتایا کہ دستور اور قانون کے مسائل پر ہمارا آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہے ہم ان بائیس نکات پر متفق ہیں اس کو نافذ کر دیا جائے۔ یہ دوسرا معرکہ ہمارے بزرگوں نے اس طرح سَر کیا۔ چنانچہ ہمارا قانونی اور دستوری اسلام متفقہ ہے، باقی ہمارے اختلافات الگ نوعیت کے ہیں۔
چند سال پہلے یہ مسئلہ پھر نئے سرے سے کھڑا ہوا۔ اِس وقت ہمارا ایک مشترکہ فورم ہے ”ملی مجلس شرعی“ کے نام سے۔ بریلوی مکتبِ فکر کے مفتی محمد خان قادری اس کے صدر ہیں، میں اس کا نائب صدر ہوں، ڈاکٹر محمد امین سیکرٹری جنرل، اور مولانا عبدالغفار روپڑی بھی نائب صدر ہیں۔ ہم نے ایک بار پھر ملک گیر اجتماع کیا۔ لاہور میں تمام مکاتبِ فکر کے چوٹی کے ستاون اکابر علماء کو جمع کیا اور مشترکہ قومی کنونشن میں آج کے اکابر علماء سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، جماعت اسلامی سب نے اکٹھے ہو کر اعلان کیا کہ بائیس نکات پر آج بھی ہمارا اتفاق ہے اور اس کے ساتھ ہم پندرہ نکات کا اضافہ کر رہے ہیں۔ اس میں الحمد للہ میرا بھی حصہ ہے، میں اس کا متحرک رکن ہوں۔ اس میں ہم نے دو کام کیے۔ ایک تو پھر سے بائیس نکات کی توثیق کرا دی، اور دوسرا اُن کی وضاحت میں پندرہ نکات کا اضافہ کیا ۔
یہ بہت بڑا معرکہ تھا جو سَر کیا گیا اور ان لوگوں کا منہ بند کیا گیا جو کہتے تھے کہ کس کا اسلام نافذ کرنا ہے؟ علماء نے جواب دیا کہ ہم سب کا اسلام ایک ہے۔ اور یہ اعلان کیا کہ ہم آج بھی وہی کھڑے ہیں، جہاں ۱۹۵۱ء میں کھڑے تھے۔
حضرت سمرۃ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ جَامَعَ الْمُشْرِكَ وَسَكَنَ مَعَهُ فَإِنَّهُ مِثْلُهُ»
[سنن ابوداؤد:2787، طبرانی:7023]





















No comments:
Post a Comment