Monday, 13 January 2025

تحقیقِ حدیث» ماں باپ کو دفنانے کے بعد یہ بات یاد رکھنا

 تحقیقِ حدیث»

حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِيقٍ فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا وَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيُدْخِلُ عَلَى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ وَإِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ» .

ترجمہ:

میت قبر میں، ڈوبتے ہوئے فریاد کرنے والے کی طرح ہے، وہ باپ یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچنے والی دعا کی منتظر رہتی ہے، جب وہ اسے پہنچ جاتی ہے تو وہ اس کے لیے دنیا و مافیہا سے بہتر ہوتی ہے، اور بے شک اللہ تعالیٰ (دنیا) والوں کی دعاؤں سے اہل قبور پر پہاڑوں جتنی رحمتیں نازل فرماتا ہے، اور زندوں کا مردوں کے لئے تحفہ ان کے لئے مغفرت طلب کرنا ہے۔

[مسند الدیلمي:6232، کنزالعمال:42796، مشكاة:2355]


حکم الحدیث:

امام بیھقی نے فرمایا کہ:

اس(روایت) کی سند بہت کمزور بلکل منکر ہے۔

[شعب الإيمان:7905، نسخة محققة: 7526]

امام ذھبی نے فرمایا کہ:

اس میں راوی ﴿الفضل بن محمد بن عبد الله بن الحارث بن سليمان الانطاکي﴾ ہے جو مجروح متھم ہے۔

[ميزان الاعتدال: 396/3]


ضعیف حدیث پر عمل کے شرائط:

جمہور کے مطابق ثابت شدہ اعمال مثلاً: دعا واستغفار اور صدقہ وغیرہ کے شوق دلانے میں ضعیف روایات بیان (کرکے اللہ کی رحمت سے ثواب کی امید)کی جاسکتی ہیں۔

اور بعض ائمہ کے مطابق حدیث کے کمزور ثبوت کو واضح کرکے بیان کرنا جائز ہے، تاکہ اس روایت(خبر) پر پختہ یقین(عقیدہ) نہ بن جائے۔

http://raahedaleel.blogspot.com/p/blog-page.html


نوٹ:

اس پوسٹ کردہ منگھڑت حدیث میں»

(1)قبر کے قریب بیٹھ کر ذکر کرنے

(2)اونٹ ذبح کرنے جتنا وقت بیٹھنے

(3)صرف والدین کیلئے کرنے

(4)حق ادا ہو جانے جیسی منگھڑت باتیں رسول اللہ ﷺ کے نام پھیلائی جارہی ہیں۔



Monday, 30 December 2024

شمسی اور قمری سال


نئے سال کی اسلامی دعا»
عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے کہ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نئے سال یا مہینے کی آمد پہ یہ دعا سکھاتے تھے:
اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ، وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ، وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ، وَجَوَازٍ مِنَ الشَّيْطَانِ
ترجمہ:
اے اللہ! داخل فرما ہم پر (اس مہینہ/سال کو) امن، ایمان، سلامتی، اسلام، رحمٰن کی رضا اور شیطان سے پناہ کے ساتھ۔
[المعجم الاوسط-امام الطبراني» حديث#6241][معجم الصحابة-البغوي:1539]






شمسی اور قمری، دونوں اسلامی سال ہیں»
القرآن:
اور اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا، اور چاند کو سراپا نور، اور اس کے (سفر) کے لیے منزلیں مقرر کردیں، تاکہ تم برسوں کی گنتی اور (مہینوں کا) حساب معلوم کرسکو۔ اللہ نے یہ سب کچھ بغیر کسی صحیح مقصد کے پیدا نہیں کردیا  وہ یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے جو سمجھ رکھتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 5]



Friday, 27 December 2024

خلیفہ اول، صحابی رسول حضرت ابوبکر صدیق، عتیق، یارِ غار، ارحم امت۔

نام،کنیت اور نسب

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام ﴿عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب﴾ ہے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔

[المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، 1:1]


آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہونے کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاتی ہیں:

عربی زبان میں ’’البکر‘‘ جوان اونٹ کو کہتے ہیں۔ جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘ کہتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لئے آپ بھی ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔

عربی زبان میں ابو کا معنی ہے ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنی ’’اولیت‘‘ کے ہیں۔ پس ابوبکر کے معنی ’’اولیت والا‘‘ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا۔

[مراة المناجيح، مفتی احمد يار خان نعيمی، 8: 347]

سیرت حلبیہ میں ہے کہ ﴿کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ﴾ ’’آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لئے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘۔




Thursday, 19 December 2024

پہلی تکبیر تحریمہ میں مرد کا"کانوں"تک ہاتھ اٹھانا



(1)عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کَانَ إِذَا کَبَّرَ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا أُذُنَيْهِ۔۔۔

ترجمہ:

حضرت مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے یہاں تک کہ وہ کانوں کے برابر ہوجاتے۔۔۔

[صحیح مسلم:865، السنن الکبریٰ للبیھقی:2306]


عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ أَنَّهُ رَأَی نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ حَتَّی يُحَاذِيَ بِهِمَا فُرُوعَ أُذُنَيْهِ

ترجمہ:

قتادہ سے دوسری سند سے یہ حدیث اسی طرح مروی ہے کہ حضرت مالک بن حویرث ؓ فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا یہاں تک کہ آپ ﷺ اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کی لو کے برابر اٹھاتے۔

[صحیح مسلم:866، سنن ابوداؤد:745، سنن النسائی:1057، السنن الکبریٰ للبیھقی:2306، معجم الکبیر للطبرانی:630]



آدابِ زندگی»اجازت لینا۔

القرآن:

مومن تو وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں اور جب رسول کے ساتھ کسی اجتماعی کام میں شریک ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر کہیں نہیں جاتے۔ (47) (اے پیغمبر) جو لوگ تم سے اجازت لیتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کو دل سے مانتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ اپنے کسی کام کے لیے تم سے اجازت مانگیں تو ان میں سے جن کو چاہو، اجازت دے دیا کرو، اور ان کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا کیا کرو۔ یقینا اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ نمبر 24 النور ، آیت نمبر 62]

تفسیر:

(47) یہ آیت غزوہ ٔ احزاب کے موقع پر نازل ہوئی، اس وقت عرب کے کئی قبیلوں نے مل کر مدینہ منورہ پر چڑھائی کی تھی اور آنحضرت ﷺ نے شہر کے دفاع کے لئے مدینہ منورہ کے گرد ایک خندق کھودنے کے لئے تمام مسلمانوں کو جمع کیا تھا، سارے مسلمان خندق کھودنے میں مصروف تھے، اور اگر کسی کو اپنے کسی کام سے جانا ہوتا تو آپ سے اجازت لے کرجاتا تھا، لیکن منافق لوگ اول تو اس کام کے لئے آنے میں سستی کرتے تھے، اور اگر آجاتے تو کبھی کسی بہانے سے اٹھ کر چلے جاتے، اور کبھی بلا اجازت ہی چپکے سے روانہ ہوجاتے، اس آیت میں ان کی مذمت اور ان مخلص مسلمانوں کی تعریف کی گئی ہے جو بلا اجازت نہیں جاتے تھے۔


Monday, 9 December 2024

بڑی بڑی مونچھیں رکھنا گناہ ہے۔

 القرآن:

(اے پیغمبر ! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ اور اللہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 31]


رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مخالفت کرو مشرکین کی،(لہٰذا)داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں گھٹاؤ۔

[صحیح بخاری:5892]


مونچھوں کو نہ چھوڑو اور ڈاڑھی کو نہ چھیڑو۔

[صحیح مسلم:259(601-603)]


جو نہ کاٹے اپنی مونچھیں تو وہ ہم میں سے نہیں.

[سنن الترمذی:2761، امن النسائی:13]



Wednesday, 27 November 2024

غائبانہ نمازِجنازہ کی شرعی حیثیت

 

غائبانہ نمازِجنازہ کی شرعی حیثیت»
قرآن مجید میں نمازِجنازہ کے بارے میں کوئی واضح حکم نہیں ہے، تو "غائبانہ" نمازِجنازہ کا بھی نہیں۔ تاہم، قرآن مجید میں وفات کے بعد میت کے لیے دعا کرنے کا حکم ہے۔ لہٰذا جب کوئی شخص مر جائے تو اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے استغفار کرنا اصل(بنیادی حکم) ہے۔
[قرآنی حوالہ» سورہ ابراھیم:41 الحشر:7 نوح:28 غافر:7 محمد:19]

نمازِ جنازہ کیلئے میت کا سامنے ہونا شرط ہے، لہٰذا احناف اور مالکیہ کے نزدیک "غائبانہ" نمازِ جنازہ جائز نہیں۔

امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ تعالیٰ کے نزدیک جائز ہے۔ کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کی نمازِ جنازہ پڑھائی، جبکہ وہ سرزمینِ عرب میں نہ تھے۔
حوالہ
جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
...مَاتَ بِغَيْرِ أَرْضِكُمْ...
ترجمہ:
...ان کی موت تمہارے زمین سے باہر ہوگئی ہے...
[سنن ابن ماجہ:1537]
نوٹ:
لیکن اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو دوسری زمین(ملک) میں ہو اور یہ یقین ہو کہ اس کی نمازِ جنازہ ادا نہیں ہوئی تو غائبانہ پڑھنا چاہئے۔ کیونکہ یہ فرض کفایہ ہے۔
لہٰذا
حنفیہ ومالکیہ کی دلیل یہ ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت نجاشی شاہ حبشہ رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ پڑھی تھی
لیکن وہاں درحقیقت تمام حجابات اٹھا دیئے گئے تھے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے "معجزہ" کے طور پر نجاشی کا جنازہ کردیا گیا تھا تو ایسی صورت میں وہ غائبانہ نمازِ جنازہ نہ تھی۔
حوالہ
...وَهُمْ لَا يَظُنُّونَ  إِلَاّ أَنَّ جِنَازَتَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ.
ترجمہ:
۔۔۔اور وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ اس کا جنازہ آپ کے آگے ہے۔
[صحیح ابن حبان:7212(3102)]
تفصیل کے لیے دلائل کے ساتھ ابوداوٴد شریف کی شرح بذل المجہود ملاحظہ کرلیں۔

اور یہ بات بھی قابلِ لحاظ ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار واقعاتِ وفات پیش آئے بہت سے صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت و وفات کے واقعات ہوئے مگر ثابت نہیں کہ نماز جنازہ غائبانہ کا معمول اور عادتِ شریفہ رہی ہو۔

خود نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضراتِ صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم دور دراز علاقوں میں مقیم تھے مگر ثابت نہیں کہ انھوں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی ہو۔

خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے عہد مبارک میں بھی غائبانہ نماز جنازہ کا معمول کہیں منقول(نقل شدہ وثابت) نہیں ملتا۔

خلاصہ:
(1)اکیلا شخص یعنی بغیرجماعت کسی کیلئے غائبانہ نمازِجنازہ پڑھنا خلافِ سنت ہے۔ اگر جماعت میں شریک نہ ہوسکے تو دعائے بخشش کرنا چاہئے۔
(2)جنازہ "حاضر" ہو تو "جماعت" سے نمازِجنازہ پڑھنا سنت ہے۔
(3)اور غائبانہ نمازِجنازہ خاص نجاشی کیلئے ثابت ہے، لہٰذا یہ سنتِ خاصہ ہے، سنتِ عامہ(عادت وشریعت) نہیں۔
🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
ایصالِ ثواب کیا، کیسے، کب اور کیوں؟

Wednesday, 30 October 2024

سلام کرنے کے فضائل، مسائل، آداب واحکام


السلٰم والسلامۃ کے معنیٰ ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں۔
قرآن میں ہے :
بِقَلْبٍ سَلِيم
[سورۃ الشعراء:89]
پاک دل (لے کر آیا وہ بچ جائیگا)
یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا:
مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها
[سورۃ البقرة:71]
اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو۔
لہٰذا 
سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنیٰ سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ (تفعیل) کے معنیٰ سلامت رکھنے کے ہیں۔جیسے فرمایا:
وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ
[سورۃ الأنفال:43]
لیکن اللہ نے (تمہیں) اس سے بچالیا۔
اسی طرح فرمایا:
ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ
[سورۃ الحجر:46]
ان میں سلامتی اور (خاطر جمع) سے داخل ہوجاؤ۔
اسی طرح فرمایا:
اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا
[سورۃ هود:48]
ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ۔
اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقاء ہے فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں۔ چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا:
لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ
[سورۃ الأنعام:127]
ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے۔
اسی طرح فرمایا:
وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ
[سورۃ يونس:25]
اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔
اسی طرح فرمایا:
يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ
[سورۃ المائدة:16]
جس سے اللہ اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے۔
ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے، اور یہی معنیٰ آیت:
لَهُمْ دارُ السَّلامِ
[سورۃ الأنعام:127]
ان کیلئے سلامتی کا گھر ہے۔
میں بیان کئے گئے ہیں ۔
اور آیت:۔
السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ
[سورۃ الحشر:23]
سلامتی، امن دینے والا، نگہبان۔
میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے۔ اور آیت :
سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ
[سورۃ يس:58]
پروردگار مہربان کی طرف سے سلام (کہا جائیگا)
اسی طرح فرمایا:
سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ
[سورۃ الرعد:24]
(اور کہیں گے) تم رحمت ہو (یہ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔
اسی طرح فرمایا:
سلام علی آل ياسین
[سورۃ الصافات:130]
الیاسین پر سلام
اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطا فرمانا۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت:
وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً
[سورۃ الفرقان:63]
اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں۔
میں قالوا سلاما کے معنیٰ ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاما کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف (یعنی قولا) کی صورت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ:
 إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ
[سورۃ الذاریات:25]
جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔
میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس ادب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا آیت :
وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها
[سورۃ النساء:86]
اور جب تم کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمات) سے (اسے) دعا دو۔
میں حکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم (صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ:
لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً
[سورۃ الواقعة:25-26]
وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام (ہوگا)
کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی، بلکہ قولا اور فعلا دونوں طرح ہوگی۔ اسی طرح آیت:
فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ
[سورۃ الواقعة:91]
تو (کہا جائیگا کہ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام
میں بھی سلام دونوں معنیٰ پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت:
وَقُلْ سَلامٌ
[سورۃ الزخرف:89]
اور سلام کہدو۔
میں بظاہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سلامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے، اور آیاتّ سلام جیسے:
سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ
[سورۃ الصافات:79]
(یعنی) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام
موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ
[سورۃ الصافات:120]
ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ
[سورۃ الصافات:109]
میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا :
فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ
[سورة النور:61]
اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھر والوں) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہا کرو ۔

[مفردات القرآن -امام الراغب الاصفھاني]

Thursday, 26 September 2024

حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں۔

 حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں۔

القرآن:

مسیح کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھ سکتے کہ وہ اللہ کے بندے ہوں، اور نہ مقرب فرشتے (اس میں کوئی عار سمجھتے ہیں) اور جو شخص اپنے پروردگار کی بندگی میں عار سمجھے، اور تکبر کا مظاہرہ کرے تو (وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ) اللہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔ 

[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 172]


تفسیر:

نجران کے وفد نے کہا: اے محمد ﷺ! آپ ہمارے آقا (عیسیٰ مسیح) پر عیب لگاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں کیا کہتا ہوں؟ وفد والوں نے کہا: آپ ان کو اللہ کا بندہ اور رسول کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کا بندہ ہونا عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باعث عار نہیں۔

[تفسير امام البغوي: حديث#735 (جلد1 صفحه726)]


نوٹ:

(1)اللہ کی شان انبیاء بلکہ تمام مخلوق سے بھی بلند ہے، لہٰذا اللہ کے مقابلے میں کسی کی شان کو اللہ سے بلند یا برابر نہ رکھنا بلکہ چھوٹا/کم رکھتے بندہ کہنا کہلوانا حق ہے، اس بات پر کوئی پیغمبر یا فرشتہ ہرگز عار محسوس نہیں کرتا بلکہ خوشی وفخر محسوس کرتا یے۔

(2)اگر حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں، جو ایسا سمجھے وہ نادان ہے۔


دیگر مثالیں:

*(2)پیغمبر کو "بشر"(انسان) ماننا:*

اللہ نے خود پیغمبر کو حکم فرمایا کہ "کہدیجئے! میں تم جیسا بشر ہوں..."

[حوالہ سورۃ الکھف:100، فصلت:6]


*(3)پیغمبر کو "امی" کہنا-ماننا۔*

[حوالہ سورۃ الاعراف:157-158، الجمعہ:2]


(4)کہدیجئے! میں مالک نہیں اپنے لئے بھی کسی نفع کا اور نہ کسی نقصان کا مگر جو چاہے اللہ...

[سورۃ الاعراف:188]


(5)کہو کہ : میں پیغمبروں میں کوئی انوکھا پیغمبر نہیں ہوں، مجھے معلوم نہیں ہے کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ یہ معلوم ہے کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا ؟ میں کسی اور چیز کی نہیں، صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھے بھیجی جاتی ہے۔ اور میں تو صرف ایک واضح انداز سے خبردار کرنے والا ہوں۔

[سورۃ الأحقاف، آیت نمبر 9]


(6)(اے پیغمبر) حقیقت یہ ہے کہ تم جس کو خود چاہو ہدایت تک نہیں پہنچا سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت تک پہنچا دیتا ہے، اور ہدایت قبول کرنے والوں کو وہی خوب جانتا ہے۔

[سورۃ القصص ،آیت نمبر 56]


(7)(اے نبی) تم ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو، اگر تم ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کرو گے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویہ اپنایا ہے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔

[سورۃ التوبة ،آیت نمبر 80]


(8)اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آگیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرلی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔

[سورۃ البقرة، آیت نمبر 120]


(9)اور اگر (بالفرض) یہ پیغمبر کچھ (جھوٹی) باتیں بنا کر ہماری طرف منسوب کردیتے۔ تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ تے۔ پھر ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ پھر تم میں سے کوئی نہ ہوتا جو ان کے بچاؤ کے لیے آڑے آسکتا۔

[سورۃ الحاقة، آیت نمبر 44-47]


(10)یہ بات کسی نبی کے شایان شان نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی رہیں جب تک کہ وہ زمین میں (دشمنوں کا) خون اچھی طرح نہ بہا چکا ہو (جس سے ان کا رعب پوری طرح ٹوٹ جائے) تم دنیا کا سازوسامان چاہتے ہو اور اللہ (تمہارے لیے) آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے اور اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی۔ اگر اللہ کی طرف سے ایک لکھا ہوا حکم پہلے نہ آچکا ہوتا تو جو راستہ تم نے اختیار کیا، اس کی وجہ سے تم پر کوئی بڑی سزا آجاتی۔

[سورۃ الأنفال ،آیت نمبر 67-68]



Tuesday, 10 September 2024

عظیم اخلاق

 

القرآن:
اور یقیناً آپ(اے پیغمبر!) اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہیں۔
[سورۃ القلم،آیت#4]

چنانچہ ہر فعل آپ کا موصوف باعتدال اور قرین رضائے الٰہی ہے۔

اور وہ بھی اس مرتبہ پر کہ آپ ﷺ کی سیرت تو نظیر اور نمونہ کا کام دے گی زندگی کے ہر ہر شعبہ میں اور وہ بھی کسی ایک قوم ، کسی ایک زمانہ کے لئے نہیں، ہر ملک ، ہر قوم ، ہر زمانہ کے لئے عدیم النظیر سیرت والے کی جانب جنون ودیوانگی کی نسبت دینا خود اپنے پاگل پن کا ڈھنڈورا پیٹنا ہے۔

عظیم اخلاق کی تفاسیر»
(1)قرآن(کی تعلیمات)، آپ کے اخلاق تھے۔
[تفسير البغوي:2248، مسند احمد:25302+25813(24601)]

سورۃ المؤمنون(آیت 1سے11) پڑھ لو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق تھے۔
[الأدب المفرد-للبخاري:308]

(2)قرآن، آپ کا اخلاق تھا کہ آپ اللہ کی رضا پر راضی رہتے اور اسکی ناراضگی والی باتوں پر غصہ ہوتے۔
[المعجم الأوسط-للطبراني:72، اخلاق النبي-ابي الشيخ:54(1/198)]

(3)قرآن، آپ کا اخلاق تھا اور آپ کنواری لڑکیوں سے بڑھ کر لوگوں سے حیا کرنے والے تھے جو اپنے پردے میں ہوتی ہیں۔

(4)دینِ اسلام، آپ کا اخلاق تھا۔
[تفسير مقاتل بن سليمان:4/403، تفسير ابن جرير: 23/150]

(5)عظیم اخلاق یہ ہیں کہ اللہ کے احکام کو بجا لاتے تھے اور اللہ کی ممانعت سے رکتے تھے۔
[تفسير الثعلبي:9/10، تفسير البغوي:8/188]

(6)آپ نے خادم کو کبھی اف تک نہ کہا، کبھی یہ نہ کہا کہ یہ کیوں نہ کیا اور یہ کیوں کیا؟
[صحیح البخاري:6038، تفسير البغوي:2251]
ملامت کرنے والے ملامت کرتے تو آپ فرماتے کہ اسے چھوڑدو، اگر یہ چیز مقدر میں ہوتی تو اس طرح ہوجاتا۔
[السنة ابن ابي عاصم:355، جامع الاحاديث-للسيوطي:12358]
(7)آپ نہ فحش کام کرنے والے تھے، اور نہ فحش بات کہنے والے تھے، اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے، اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے تھے، لیکن آپ درگذر کرنے والے، اور معاف کرنے والے تھے۔
[جامع الترمذي:2016، صحيح ابن حبان:7288، مسند احمد:25990]

(8)اللہ کی راہ میں لڑنے کے علاؤہ کسی پر ہاتھ نہ اٹھاتے، نہ خادم پر اور نہ عورت پر۔
[تفسير البغوي:2256، شرح السنة-للبغوي:3667]

(9)جب کسی مرد کو مصافحہ کرتے تو اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ کھینچتے جب تک وہ خود اپنا ہاتھ نہ کھینچ لے، اور اپنے چہرے کو اس کے چہرے سے نہ پھیرتے حتیٰ کہ وہ خود اپنے چہرے کو پھیر لے، اور آپ (علیہ السلام) کو کبھی کسی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی طرف ٹانگیں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
[تفسير البغوي:2255، جامع الترمذي:2490]
حوالہ
[موسوعة التفسير المأثور: 78023-78045]