ہدایت :
یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
Tuesday, 11 November 2025
سود کے معنیٰ، اقسام، احکام
Sunday, 5 October 2025
سب سے جلد قبول ہونے والی دعا
Saturday, 4 October 2025
کفار کی نیکیاں صرف دنیا میں انکے کام آئیں گی
Tuesday, 23 September 2025
الحاسب:حساب لینے والا، الحسیب:سب کیلئے کافی ہوجانے والا
حساب کے معنیٰ گننے اور شمار کرنے کے ہیں۔ قرآن میں ہے:
لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسابَ
[يونس:5]
تاکہ تم برسوں کا شمار اور حساب جان لو۔
[المفردات فی غریب القرآن-امام راغب اصفھانی: ج1 ص232]
اللہ کیسا حاسب (حساب لینے والا) ہے؟
القرآن:
جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب الله ہی کا ہے، اور جو باتیں تمہارے دلوں میں ہیں، خواہ تم ان کو ظاہر کرو یا چھپاؤ، الله تم سے ان کا حساب لے گا (188) پھر جس کو چاہے گا معاف کردے گا اور جس کو چاہے گا سزا دے گا (اور الله ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 284]
تفسیر:
(188) آگے آیت نمبر 286 کے پہلے جملے نے واضح کردیا کہ انسان کے اختیار کے بغیر جو خیالات اس کے دل میں "آجاتے" ہیں، ان پر کوئی گناہ نہیں ہے(لیکن ناجائز خیالات "لانے" مثلاً: چالبازی،دکھلاوے وغیرہ پر پکڑ ہے)۔ لہذا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان جان بوجھ کر جو غلط عقیدے دل میں رکھے، یا کسی گناہ کا سوچ سمجھ کر بالکل پکا ارادہ کرلے تو اس کا حساب ہوگا۔
اللہ کے ننانوے خوبصورت ناموں میں سے ایک نام ﴿الحسیب یعنی سب کیلئے کافی ہوجانے والا﴾ بھی ہے۔
حساب کی دو اقسام:
(1)آسان حساب (2)سخت حساب
القرآن:
پھر جس شخص کو اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔ اس سے تو آسان حساب لیا جائے گا۔
[سورۃ الإنشقاق، آیت نمبر 7-8]
القرآن:
اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار اور اس کے رسولوں کے حکم سے سرکشی کی تو ہم نے ان کا سخت حساب لیا، اور انہیں سزا دی، ایسی بری سزا جو انہوں نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔
[سورۃ نمبر 65 الطلاق، آیت نمبر 8]
Tuesday, 9 September 2025
بارش»دلیلِ وجود اور قدرتِ الٰہی
بارش» اللہ(کے وجود)کی نشانی اور قدرت کا شاہکار۔
القرآن:
اور وہی ہے جو لوگوں کے ناامید ہونے کے بعد بارش برساتا اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی ہے جو (سب کا) قابل تعریف رکھوالا ہے۔
[سورۃ الشورى،آیت نمبر 28]
بھلا وہ کون ہے جو خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں تمہیں راستہ دکھاتا ہے اور جو اپنی رحمت (کی بارش) سے پہلے ہوائیں بھیجتا ہے جو تمہیں (بارش کی) خوشخبری دیتی ہیں ؟ کیا (پھر بھی تم کہتے ہو کہ) الله کے ساتھ کوئی اور خدا ہے ؟ (نہیں ! بلکہ) الله اس شرک سے بہت بالا و برتر ہے جس کا ارتکاب یہ لوگ کر رہے ہیں۔
[سورۃ نمبر 27 النمل،آیت نمبر 63]
القرآن:
اور وہ ہوائیں جو بادلوں کو پانی سے بھر دیتی ہیں، ہم نے بھیجی ہیں، پھر آسمان سے پانی ہم نے اتارا ہے، پھر اس سے تمہیں سیراب ہم نے کیا ہے، اور تمہارے بس میں یہ نہیں ہے کہ تم اس کو ذخیرہ کر کے رکھ سکو۔
[سورۃ نمبر 15 الحجر، آیت نمبر 22]
Saturday, 6 September 2025
محمد رسول اللہ ﷺ کی مصیبت (رحلت-وصال) کو یاد کرنا
سیلاب کا بیان
(1)سیلاب کا بیان
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا کہ عمرو بن دینار بیان کیا کرتے تھے کہ ہم سے سعید بن مسیب نے اپنے والد سے بیان کیا، انہوں نے سعید کے دادا حزن سے بیان کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک مرتبہ سیلاب آیا کہ (مکہ کی) دونوں پہاڑیوں کے درمیان پانی ہی پانی ہو گیا۔ سفیان نے بیان کیا کہ بیان کرتے تھے کہ اس حدیث کا ایک بہت بڑا قصہ ہے۔
[صحيح البخاري: كتاب مناقب الأنصار،حدیث: 3833]
حافظ ابن حجر نے کہا، موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ کعبہ میں سیلاب اس پہاڑ کی طرف سے آیا کرتا تھا جو بلند جانب میں واقع ہے ان کو ڈر ہوا کہ کہیں پانی کعبہ کے اندر نہ گھس جائے اس لیے انہوں نے عمارت کو خوب مضبوط کرنا چاہا اور پہلے جس نے کعبہ اونچا کیا اور اس میں سے کچھ گرایا وہ ولید بن مغیرہ تھا۔
پھر کعبہ کے بننے کا وہ قصہ نقل کیا کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے ہوا اور امام شافعی نے کتاب ''الأم '' میں عبد اللہ بن زبیر ؓ سے نقل کیا کہ جب وہ کعبہ بنا رہے تھے تو حضرت کعب نے ان سے کہا: خوب مضبوط بناؤ کیونکہ ہم(اہل کتاب) کتابوں میں یہ پاتے ہیں کہ آخر زمانے میں سیلاب بہت آئیں گے۔
تو قصے سے مراد یہی ہے کہ وہ اس سیلاب کو دیکھ کر جس کے برابر کبھی نہیں آیا تھا یہ سمجھ گئے کہ آخر زمانے کے سیلابوں میں یہ پہلا سیلاب ہے۔
[فتح الباري:189/7]
Friday, 5 September 2025
قیلولہ کی اہمیت وفضیلت
"قیلولہ "کے معنی ہیں: دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لیٹنا، خواہ نیند آئے یا نہ آئے. ( عمدۃ القاری للعینی)
"قیلولہ" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول رہا ہے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: "دن کے سونے کے ذریعے رات کی عبادت پر قوت حاصل کرو. (شعب الایمان للبیہقی) نیز دوپہر کو سونا عقل کی زیادتی اور کھانے کے ہضم کا باعث بھی ہے. قیلولہ کی کم ازکم یا زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق تلاش کے باوجود کوئی روایت نہیں ملی.
حضرت انس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
قِيلُوا فَإِنَّ الشيطان لا يقيل.
ترجمہ:
قیلولہ کیا کرو؛ اس لئے کہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔
[المعجم الأوسط-للطبراني:28، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1647]
شجرکاری کی اہمیت اور فضائل
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو جسے وہ لگا رہا ہو، تو اگر قیامت برپا ہونے سے پہلے پہلے وہ اس پودے ک ولگا سکے تو ضرور لگادے۔
حوالہ
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالْكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَفِي يَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةً، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فليغرسها»
[مسند احمد:12902، مسند الطيالسي:2068، مسند عبد بن حميد:1216، الأدب المفرد-البخاري:479 ، مسند البزار:7408، معجم ابن الأعرابي:180]
Friday, 15 August 2025
اصلاح اغلاط العوام» سماجی خرابی کی اعلانیہ عملی دائمی مخالفت
القرآن:
اور (اے پیغمبر !) یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر الله نے بھی احسان کیا تھا اور تم نے بھی احسان کیا تھا (32) یہ کہہ رہے تھے کہ : اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں رہنے دو ، اور الله سے ڈرو، (33) اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے الله کھول دینے والا تھا (34) اور تم لوگوں سے ڈرتے تھے، حالانکہ الله اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔ پھر جب زید نے اپنی بیوی سے تعلق ختم کرلیا تو ہم نے اس سے (اے پیغمبر!) تمہارا نکاح کرادیا، تاکہ مسلمانوں کے لیے اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں (سے نکاح کرنے) میں اس وقت کوئی تنگی نہ رہے جب انہوں نے اپنی بیویوں سے تعلق ختم کرلیا ہو۔ اور الله نے جو حکم دیا تھا اس پر عمل تو ہو کر رہنا ہی تھا۔
[سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 37]








