Wednesday, 30 October 2024

سلام کرنے کے فضائل، مسائل، آداب واحکام


السلم والسلامۃ
کے معنیٰ ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنے کے ہیں۔
قرآن میں ہے :
بِقَلْبٍ سَلِيم
[سورۃ الشعراء:89]
پاک دل (لے کر آیا وہ بچ جائیگا)
یعنی وہ دل جو دغا اور کھوٹ سے پاک ہو تو یہ سلامت باطن کے متعلق ہے اور ظاہری عیوب سے سلامتی کے متعلق فرمایا:
مُسَلَّمَةٌ لا شِيَةَ فِيها
[سورۃ البقرة:71]
اس میں کسی طرح کا داغ نہ ہو۔
لہٰذا 
سلم یسلم سلامۃ وسلاما کے معنیٰ سلامت رہنے اور سلمۃ اللہ (تفعیل) کے معنیٰ سلامت رکھنے کے ہیں۔جیسے فرمایا:
وَلكِنَّ اللَّهَ سَلَّمَ
[سورۃ الأنفال:43]
لیکن خدا نے (تمہیں) اس سے بچالیا۔
اسی طرح فرمایا:
ادْخُلُوها بِسَلامٍ آمِنِينَ
[سورۃ الحجر:46]
ان میں سلامتی اور (خاطر جمع) سے داخل ہوجاؤ۔
اسی طرح فرمایا:
اهْبِطْ بِسَلامٍ مِنَّا
[سورۃ هود:48]
ہماری طرف سے سلامتی کے ساتھ ۔۔۔ اترآؤ۔
اور حقیقی سلامتی تو جنت ہی میں حاصل ہوگی جہاں بقاء ہے فنا نہیں ، غنا ہے احتیاج نہیں ، عزت ہے ذلت نہیں ، صحت ہے بیماری نہیں۔ چناچہ اہل جنت کے متعلق فرمایا:
لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ
[سورۃ الأنعام:127]
ان کے لیے سلامتی کا گھر ہے۔
اسی طرح فرمایا:
وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلى دارِ السَّلامِ
[سورۃ يونس:25]
اور خدا سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے۔
اسی طرح فرمایا:
يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوانَهُ سُبُلَ السَّلامِ
[سورۃ المائدة:16]
جس سے اللہ اپنی رضامندی پر چلنے والوں کو نجات کے رستے دکھاتا ہے۔
ان تمام آیات میں سلام بمعنی سلامتی کے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہاں السلام اسمائے حسنیٰ سے ہے، اور یہی معنیٰ آیت:
لَهُمْ دارُ السَّلامِ
[سورۃ الأنعام:127]
ان کیلئے سلامتی کا گھر ہے۔
میں بیان کئے گئے ہیں ۔
اور آیت:۔
السَّلامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ
[سورۃ الحشر:23]
سلامتی، امن دینے والا، نگہبان۔
میں بعض نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وصف کلام کے ساتھ موصوف ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو عیوب و آفات اور مخلوق کو لاحق ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب سے پاک ہے۔ اور آیت :
سَلامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِيمٍ
[سورۃ يس:58]
پروردگار مہربان کی طرف سے سلام (کہا جائیگا)
اسی طرح فرمایا:
سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِما صَبَرْتُمْ
[سورۃ الرعد/ 24]
(اور کہیں گے) تم رحمت ہو (یہ) تمہاری ثابت قدمی کا بدلہ ہے ۔
اسی طرح فرمایا:
سلام علی آل ياسین
«2»
الیاسین پر سلام
اور اس مفہوم کی دیگر آیات میں سلام علیٰ آیا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے تو سلامتی بذریعہ قول مراد ہے یعنی سلام علی ٰ الخ کے ساتھ دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے سلامتی بالفعل مراد ہے یعنی جنت عطا فرمانا۔ جہاں کہ حقیقی سلامتی حاصل ہوگی۔ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں اور آیت:
وَإِذا خاطَبَهُمُ الْجاهِلُونَ قالُوا سَلاماً
[سورۃ الفرقان:63]
اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں۔
میں قالوا سلاما کے معنیٰ ہیں ہم تم سے سلامتی چاہتے ہیں۔ تو اس صورت میں سلاما منصوب اور بعض نے قالوا سلاما کے یہ معنی کئے ہیں کہ وہ اچھی بات کہتے ہیں تو اس صورت میں یہ مصدر مخذوف (یعنی قولا) کی صورت ہوگا ۔ اور آیت کریمہ:
 إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقالُوا سَلاماً قالَ سَلامٌ
[سورۃ الذاریات:25]
جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا ۔ انہوں نے بھی (جواب میں) سلام کہا۔
میں دوسری سلام پر رفع اس لئے ہے کہ یہ باب دعا سے ہے اور صیغہ دعا میں رفع زیادہ بلیغ ہے گویا اس میں حضرت ابراہیم نے اس ادب کو ملحوظ رکھا ہے جس کا آیت :
وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها
[سورۃ النساء:86]
اور جب تم کوئی دعا دے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمات) سے (اسے) دعا دو۔
میں حکم دیا گیا ہے اور ایک قرآت میں سلم ہے تو یہ اس بنا پر ہے کہ سلام سلم (صلح) کو چاہتا تھا اور حضرت ابراہیم السلام ان سے خوف محسوس کرچکے تھے جب انہیں سلام کہتے ہوئے ۔ ستاتو اس کو پیغام صلح پر محمول کیا اور جواب میں سلام کہہ کر اس بات پر متنبہ کی کہ جیسے تم نے پیغام صلح قبول ہو ۔ اور آیت کریمہ:
لا يَسْمَعُونَ فِيها لَغْواً وَلا تَأْثِيماً إِلَّا قِيلًا سَلاماً سَلاماً
[سورۃ الواقعة:25-26]
وہاں نہ بیہودہ بات سنیں گے اور نہ گالی گلوچ ہاں ان کا کلام سلام سلام (ہوگا)
کے معنی یہ ہیں کہ یہ بات صرف بذیعہ قول نہیں ہوگی، بلکہ قولا اور فعلا دونوں طرح ہوگی۔ اسی طرح آیت:
فَسَلامٌ لَكَ مِنْ أَصْحابِ الْيَمِينِ
[سورۃ الواقعة:91]
تو (کہا جائیگا کہ) تم پر پر داہنے ہاتھ والوں کی طرف سے سلام میں بھی سلام دونوں معنی پر محمول ہوسکتا ہے اور آیت:
وَقُلْ سَلامٌ
[سورۃ الزخرف:89]
اور سلام کہدو۔
میں بظاہر تو سلام کہنے کا حکم ہے لیکن فی الحققیت ان کے شر سے سلامتی کی دعا کرنے کا حکم ہے، اور آیاتّ سلام جیسے:
سلامٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعالَمِينَ
[سورۃ الصافات:79]
(یعنی) تمام جہان میں نوح (علیہ السلام) پر سلام
موسیٰ اور ہارون پر سلام ۔ ۔ سَلامٌ عَلى مُوسی وَهارُونَ
[سورۃ الصافات:120]
ابراہیم پر سلام ۔ سَلامٌ عَلى إِبْراهِيمَ
[سورۃ الصافات:109]
میں اس بات پر تنبیہ ہی کہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاء ابراہیم کو اس قدر بلند مرتبہ عطا کیا تھا کہ لوگ ہمیشہ ان کی تعریف کرتے اور ان کے لئے سلامتی کے ساتھ دعا کرتے رہیں گے اور فرمایا :
فَإِذا دَخَلْتُمْ بُيُوتاً فَسَلِّمُوا عَلى أَنْفُسِكُمْ
[سورة النور:61]
اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھر والوں) کو سلام کیا کرو ۔ یعنی تم ایک دوسرے کو سلام کہا کرو ۔

[مفردات القرآن -امام الراغب الاصفھاني]

Thursday, 26 September 2024

حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں۔

 حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں۔

القرآن:

مسیح کبھی اس بات کو عار نہیں سمجھ سکتے کہ وہ اللہ کے بندے ہوں، اور نہ مقرب فرشتے (اس میں کوئی عار سمجھتے ہیں) اور جو شخص اپنے پروردگار کی بندگی میں عار سمجھے، اور تکبر کا مظاہرہ کرے تو (وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ) اللہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا۔ 

[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 172]


تفسیر:

نجران کے وفد نے کہا: اے محمد ﷺ! آپ ہمارے آقا (عیسیٰ مسیح) پر عیب لگاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: میں کیا کہتا ہوں؟ وفد والوں نے کہا: آپ ان کو اللہ کا بندہ اور رسول کہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اللہ کا بندہ ہونا عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے باعث عار نہیں۔

[تفسير امام البغوي: حديث#735 (جلد1 صفحه726)]


نوٹ:

(1)اللہ کی شان انبیاء بلکہ تمام مخلوق سے بھی بلند ہے، لہٰذا اللہ کے مقابلے میں کسی کی شان کو اللہ سے بلند یا برابر نہ رکھنا بلکہ چھوٹا/کم رکھتے بندہ کہنا کہلوانا حق ہے، اس بات پر کوئی پیغمبر یا فرشتہ ہرگز عار محسوس نہیں کرتا بلکہ خوشی وفخر محسوس کرتا یے۔

(2)اگر حقیقی شان بیان کرنا گستاخی نہیں، جو ایسا سمجھے وہ نادان ہے۔


دیگر مثالیں:

*(2)پیغمبر کو "بشر"(انسان) ماننا:*

اللہ نے خود پیغمبر کو حکم فرمایا کہ "کہدیجئے! میں تم جیسا بشر ہوں..."

[حوالہ سورۃ الکھف:100، فصلت:6]


*(3)پیغمبر کو "امی" کہنا-ماننا۔*

[حوالہ سورۃ الاعراف:157-158، الجمعہ:2]


(4)کہدیجئے! میں مالک نہیں اپنے لئے بھی کسی نفع کا اور نہ کسی نقصان کا مگر جو چاہے اللہ...

[سورۃ الاعراف:188]


(5)کہو کہ : میں پیغمبروں میں کوئی انوکھا پیغمبر نہیں ہوں، مجھے معلوم نہیں ہے کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور نہ یہ معلوم ہے کہ تمہارے ساتھ کیا ہوگا ؟ میں کسی اور چیز کی نہیں، صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو مجھے بھیجی جاتی ہے۔ اور میں تو صرف ایک واضح انداز سے خبردار کرنے والا ہوں۔

[سورۃ الأحقاف، آیت نمبر 9]


(6)(اے پیغمبر) حقیقت یہ ہے کہ تم جس کو خود چاہو ہدایت تک نہیں پہنچا سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت تک پہنچا دیتا ہے، اور ہدایت قبول کرنے والوں کو وہی خوب جانتا ہے۔

[سورۃ القصص ،آیت نمبر 56]


(7)(اے نبی) تم ان کے لیے استغفار کرو یا نہ کرو، اگر تم ان کے لیے ستر مرتبہ استغفار کرو گے تب بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کا رویہ اپنایا ہے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔

[سورۃ التوبة ،آیت نمبر 80]


(8)اور یہود و نصاری تم سے اس وقت تک ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کے مذہب کی پیروی نہیں کرو گے۔ کہہ دو کہ حقیقی ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے۔ اور تمہارے پاس (وحی کے ذریعے) جو علم آگیا ہے اگر کہیں تم نے اس کے بعد بھی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کرلی تو تمہیں اللہ سے بچانے کے لیے نہ کوئی حمایتی ملے گا نہ کوئی مددگار۔

[سورۃ البقرة، آیت نمبر 120]


(9)اور اگر (بالفرض) یہ پیغمبر کچھ (جھوٹی) باتیں بنا کر ہماری طرف منسوب کردیتے۔ تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑ تے۔ پھر ہم ان کی شہ رگ کاٹ دیتے۔ پھر تم میں سے کوئی نہ ہوتا جو ان کے بچاؤ کے لیے آڑے آسکتا۔

[سورۃ الحاقة، آیت نمبر 44-47]


(10)یہ بات کسی نبی کے شایان شان نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی رہیں جب تک کہ وہ زمین میں (دشمنوں کا) خون اچھی طرح نہ بہا چکا ہو (جس سے ان کا رعب پوری طرح ٹوٹ جائے) تم دنیا کا سازوسامان چاہتے ہو اور اللہ (تمہارے لیے) آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے اور اللہ صاحب اقتدار بھی ہے، صاحب حکمت بھی۔ اگر اللہ کی طرف سے ایک لکھا ہوا حکم پہلے نہ آچکا ہوتا تو جو راستہ تم نے اختیار کیا، اس کی وجہ سے تم پر کوئی بڑی سزا آجاتی۔

[سورۃ الأنفال ،آیت نمبر 67-68]



Tuesday, 10 September 2024

عظیم اخلاق

 

القرآن:
اور یقیناً آپ(اے پیغمبر!) اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر ہیں۔
[سورۃ القلم،آیت#4]

چنانچہ ہر فعل آپ کا موصوف باعتدال اور قرین رضائے الٰہی ہے۔

اور وہ بھی اس مرتبہ پر کہ آپ ﷺ کی سیرت تو نظیر اور نمونہ کا کام دے گی زندگی کے ہر ہر شعبہ میں اور وہ بھی کسی ایک قوم ، کسی ایک زمانہ کے لئے نہیں، ہر ملک ، ہر قوم ، ہر زمانہ کے لئے عدیم النظیر سیرت والے کی جانب جنون ودیوانگی کی نسبت دینا خود اپنے پاگل پن کا ڈھنڈورا پیٹنا ہے۔

عظیم اخلاق کی تفاسیر»
(1)قرآن(کی تعلیمات)، آپ کے اخلاق تھے۔
[تفسير البغوي:2248، مسند احمد:25302+25813(24601)]

سورۃ المؤمنون(آیت 1سے11) پڑھ لو۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق تھے۔
[الأدب المفرد-للبخاري:308]

(2)قرآن، آپ کا اخلاق تھا کہ آپ اللہ کی رضا پر راضی رہتے اور اسکی ناراضگی والی باتوں پر غصہ ہوتے۔
[المعجم الأوسط-للطبراني:72، اخلاق النبي-ابي الشيخ:54(1/198)]

(3)قرآن، آپ کا اخلاق تھا اور آپ کنواری لڑکیوں سے بڑھ کر لوگوں سے حیا کرنے والے تھے جو اپنے پردے میں ہوتی ہیں۔

(4)دینِ اسلام، آپ کا اخلاق تھا۔
[تفسير مقاتل بن سليمان:4/403، تفسير ابن جرير: 23/150]

(5)عظیم اخلاق یہ ہیں کہ اللہ کے احکام کو بجا لاتے تھے اور اللہ کی ممانعت سے رکتے تھے۔
[تفسير الثعلبي:9/10، تفسير البغوي:8/188]

(6)آپ نے خادم کو کبھی اف تک نہ کہا، کبھی یہ نہ کہا کہ یہ کیوں نہ کیا اور یہ کیوں کیا؟
[صحیح البخاري:6038، تفسير البغوي:2251]
ملامت کرنے والے ملامت کرتے تو آپ فرماتے کہ اسے چھوڑدو، اگر یہ چیز مقدر میں ہوتی تو اس طرح ہوجاتا۔
[السنة ابن ابي عاصم:355، جامع الاحاديث-للسيوطي:12358]
(7)آپ نہ فحش کام کرنے والے تھے، اور نہ فحش بات کہنے والے تھے، اور نہ بازاروں میں شور مچانے والے تھے، اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دینے والے تھے، لیکن آپ درگذر کرنے والے، اور معاف کرنے والے تھے۔
[جامع الترمذي:2016، صحيح ابن حبان:7288، مسند احمد:25990]

(8)اللہ کی راہ میں لڑنے کے علاؤہ کسی پر ہاتھ نہ اٹھاتے، نہ خادم پر اور نہ عورت پر۔
[تفسير البغوي:2256، شرح السنة-للبغوي:3667]

(9)جب کسی مرد کو مصافحہ کرتے تو اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ کھینچتے جب تک وہ خود اپنا ہاتھ نہ کھینچ لے، اور اپنے چہرے کو اس کے چہرے سے نہ پھیرتے حتیٰ کہ وہ خود اپنے چہرے کو پھیر لے، اور آپ (علیہ السلام) کو کبھی کسی سامنے بیٹھے ہوئے شخص کی طرف ٹانگیں پھیلائے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔
[تفسير البغوي:2255، جامع الترمذي:2490]
حوالہ
[موسوعة التفسير المأثور: 78023-78045]



تمام جہانوں کیلئے رحمت» محمد رسول اللہ ﷺ

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
اور (اے محمد!) ہم نے تمہیں بھیجا ہے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔
[سورة الانبياء:107]

القرآن:
اور (اے پیغمبر) اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو۔۔۔
[سورۃ الأنفال، آیت نمبر 33]
رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا: کیا آپ (قریش کے) مشرکین پر لعنت نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، بلکہ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
[صحیح مسلم:2599()]
اور پرہیزگاروں کیلئے ہدایت (بن کر)۔
[مسند احمد:22218ـ22307]
میں تو بس ایک رحمت ہوں جو رہنمائی کرتا ہے۔
[الصحيحة:490، حاکم:100]
میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو  (اے اللہ)  میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے  اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب  (امیر المؤمنین)  کو لکھ بھیجوں گا۔
[سنن ابوداؤد:4659، مسند احمد:23706]

حضرت ابن عباس نے فرمایا: جو ایمان لائے گا اس پر دنیا اور آخرت میں رحم کیا جائے گا، اور جو ایمان نہیں لائے گا کہ وہ اس عذاب سے بچ جائے گا جو موجودہ دنیا میں قوموں پر ہوتا تھا۔ یعنی دھنسنے، چہرے بگڑنے اور پتھروں کی بارش سے، یہی اس دنیا میں رحمت ہے۔
[المعجم الكبير للطبراني:12358، دلائل النبوة للبيهقي:5/486]




Thursday, 5 September 2024

نظرِ بد کی حقیقت، تاثیر اور علاج

نظرِ بد کا اثر اور حقیقت»

حضرت جابر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

"العين تدخل الرجل القبر وتدخل الجمل القِدر".

ترجمہ:

نظر آدمی پر قبر میں بھی لگ جاتی ہے اور ہانڈی میں گوشت پر بھی لگ جاتی ہے۔

[مسند الشھاب:1057، کنزالعمال:17660، صحیح الجامع:4144، الصحیحہ:1249]

القرآن:

جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے جب وہ نصیحت کی یہ بات سنتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ اپنی (تیز تیز) آنکھوں سے تمہیں ڈگمگا دیں گے۔۔۔

[سورۃ القلم:51]



Tuesday, 3 September 2024

شدت-انتہاپسندی کے جائز اور ناجائز پہلو

انتہا-شدت پسندی یہ نہیں کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ سچا، مخلص اور گہری عقیدت رکھی جائے۔ علمِ دین کی لگن، دین پر ثابت قدمی، غیر متزلزل عزم-وابستگی، بغیرسمجھوتہ عدل وانصاف، ظلم وناحق کا انکار کیا جائے۔

بلکہ

انتہا-شدت پسندی تو یہ ہے کہ گناہ/ناحق پر قائم اور ضدی رہنا، اللہ کی مقرر کردہ حدود سے نکلنا، عدل وانصاف پر سمجھوتا کرنا، لوگوں کو ناحق تکلیف/نقصان پہنچانا، اپنوں کا ظلم میں ساتھ دینا اور دوسروں کیلئے دوغلی پالیسی رکھنا، حقوق وحدود کا انکار کرنا ہے۔



محمود انتہاپسندی


قرآن و سنت میں "اچھی" یا "صحیح" انتہا پسندی کے تصور کو اس طرح سمجھا گیا ہے:


انتہا پسندی مثبت معنی میں:

1. گہری عقیدت

2. سچی لگن

3. غیر متزلزل عزم


دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، نیک مقاصد کے لیے۔


قرآنی رہنمائی:

1. _اللہ کی راہ میں جہاد کرنا_:

"اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو..."

(قرآن 9:20)

2. _استقامت-ثابت قدم رہنا:

(قرآن 2:250، 3:147، 4:66، 8:45، 10:89، 11:122، 16:102، 17:74، 41:30، 46:13)

"اور تقویٰ پر ثابت قدم رہو..."

(قرآن 3:79)

3. _نیک کاموں میں سبقت/جلدی کرنا_:

"اپنے رب کی بخشش اور جنت کی طرف دوڑو..."

(قرآن 57:21)


نبوی تعلیمات (سنت):


1. _عبادت میں فضیلت تلاش کرنا_:

"بہترین اعمال وہ ہیں جو مستقل-دائمی ہوں، چاہے وہ چھوٹے-تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں۔"

(صحیح بخاری)

2. _علم کا جوش-لگن_:

"علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔"

 (سنن ابن ماجہ)

3. _غیر متزلزل عزم_:

"ثابت قدم رہو، اور ڈگمگانے والوں میں سے نہ بنو۔"

(سنن ابوداؤد)


مثبت انتہا پسندی کی مثالیں:


1. _حضرت عبداللہ ابن عباس کی_ علم کی لگن

2. _حضرت عمر بن عبدالعزیز کا_غیر سمجھوتہ کرنے والا انصاف

3. _امام احمد بن حنبل کی_تحفظ حدیث سے غیرمتزلزل وابستگی


درست انتہا پسندی کی خصوصیات:


1. _اخلاص_: اللہ ہی کی رضا کی تلاش میں سچا اور باوفا رہنا۔

2. _علم_:

3. _توازن_: خود کو یا دوسروں کو نقصان پہنچانے سے بچنا۔بچانا۔

4. عاجزی: اپنی حدود کو پہچاننا۔


حق اور ناحق انتہاپسندی میں فرق-تمیز:


1. _حوصلہ افزائی_:

صحیح انتہا پسندی اللہ کی محبت سے چلتی ہے، جب کہ غلط انتہا پسندی نفرت یا ذاتی فائدے کی وجہ سے ہوتی ہے۔

2. _طریقہ کار:

صحیح انتہا پسندی پرامن، شرعی وقانونی ذرائع استعمال کرتی ہے، جب کہ غلط انتہا پسندی تشدد یا نقصان کا سہارا لیتی ہے۔

3. _اثر_:

صحیح انتہا پسندی معاشرہ/سماج کو فائدہ پہنچاتی ہے، جبکہ غلط انتہا پسندی اسے نقصان پہنچاتی ہے۔


آخر میں، قرآن و سنت مثبت انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، جس کی خصوصیت راستبازی، علم اور عقیدت کے لیے غیر متزلزل وابستگی ہے، جبکہ نقصان دہ اور پرتشدد انتہا پسندی کی مذمت کرتے ہیں۔





In the Quran and Sunnah, the concept of "good" or "right" extremism is understood as:


*Al-Ghuluww* (الغلو): Extremism in a positive sense, meaning:


1. Excessive devotion

2. Intense dedication

3. Unwavering commitment


to righteous causes, without harming others.


*Quranic Guidance:*


1. _Striving in Allah's path_: "And strive in Allah's path with your wealth and your lives..." (Quran 9:20)

2. _Standing firm_: "And stand firm in righteousness..." (Quran 3:79)

3. _Excelling in good deeds_: "Race towards forgiveness from your Lord and a Garden..." (Quran 57:21)


*Prophetic Teachings (Sunnah):*


1. _Excellence in worship_: "The best of deeds are those which are constant, even if they are small." (Sahih Bukhari)

2. _Zeal for knowledge_: "Seeking knowledge is obligatory upon every Muslim." (Sunan Ibn Majah)

3. _Unwavering commitment_: "Be steadfast, and do not be of the wavering ones." (Sunan Abu Dawud)


*Examples of Positive Extremism:*


1. _Abdullah ibn Abbas's_ dedication to knowledge

2. _Umar ibn Abdul Aziz's_ uncompromising justice

3. _Ahmad ibn Hanbal's_ unwavering commitment to Hadith preservation


*Characteristics of Right Extremism:*


1. _Sincerity_: Pure intentions for Allah's sake

2. _Knowledge_: Grounded in Islamic scholarship

3. _Balance_: Avoiding harm to oneself or others

4. _Humility_: Recognizing one's limitations


*Distinguishing Right from Wrong Extremism:*


1. _Motivation_: Right extremism is driven by love for Allah, while wrong extremism is fueled by hatred or personal gain.

2. _Methodology_: Right extremism employs peaceful, lawful means, whereas wrong extremism resorts to violence or harm.

3. _Impact_: Right extremism benefits the community, while wrong extremism harms it.


In conclusion, the Quran and Sunnah encourage positive extremism, characterized by unwavering commitment to righteousness, knowledge, and devotion, while condemning harmful and violent extremism.






مذموم انتہاپسندی

قرآن و سنت میں انتہا پسندی کی مذمت اور اس کے خلاف تنبیہ کی گئی ہے۔ یہاں کچھ اہم نقطہ نظر ہیں:


قرآنی رہنمائی:


1. اعتدال (وسطیہ):

"اور اس طرح ہم نے تمہیں ایک درمیانی امت بنایا..."

(قرآن،سورۃ البقرۃ:143)

2. توازن:

"اور زمین پر عاجزی کے ساتھ چلو..."

(قرآن 31:19)

3. غلو-حد سے گذرنا:

"اپنے دین میں غلو نہ کرو..."

(قرآن 4:171، 5:77)

4. عدل اور انصاف:

"عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے..."

(قرآن 5:8)


نبوی تعلیمات (سنت):


1. عبادت میں اعتدال:

"بہترین اعمال وہ ہیں جو مستقل ہوں، چاہے وہ چھوٹے ہی کیوں نہ ہوں۔"

(صحیح بخاری)

2۔ غلو سے اجتناب:

"دین میں غلو سے بچو، کیونکہ غلو نے تم سے پہلے لوگوں کو تباہ کر دیا۔"

(سنن ابن ماجہ)

3. ہمدردی اور رحم:

"زمین والوں پر رحم اور رحم کرو، تاکہ اللہ تم پر رحم اور رحم کرے۔"

(سنن ابوداؤد)

4. نقصان سے منع کرنا:

"نہ دوسروں کو نقصان پہنچاؤ اور نہ اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچاؤ۔"

(صحیح مسلم)


شدت پسندی کی اقسام:


1. مذہبی انتہا پسندی:

اسلامی تعلیمات کی حدود سے باہر جانا۔

2. پرتشدد انتہا پسندی:

بے گناہ کمزور لوگوں کے خلاف تشدد کرنا۔

3. نظریاتی انتہا پسندی:

دوسروں پر اپنے خیالات مسلط کرنا۔


انتہا پسندی کے نتائج:


1. صحیح راستے سے بھٹکنا:

"جو لوگ راہ راست سے بھٹکتے ہیں ان پر غضب نازل ہوتا ہے۔"

(قرآن 7:182)

2. خود کو اور دوسروں کو نقصان پہنچانا:

 "جس نے کسی انسان کو قتل کیا، گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا۔"

(قرآن 5:32)

3. معاشرے کی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا:

 "زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔"

(قرآن 7:56)


انتہا پسندی کا علاج:


1. علم کی تلاش:

"علم کو جھولا سے قبر تک حاصل کرو۔" (حدیث)

2. نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی:

"نبی کی سنت کی پیروی کرو۔"

(قرآن 33:21)

3. برداشت اور افہام و تفہیم کو فروغ دینا:

"معافی دکھاؤ، نیکی کا حکم دو، اور احمقوں سے کنارہ کشی کرو۔"

(قرآن 7:199)


آخر میں، قرآن و سنت اعتدال، توازن، انصاف اور ہمدردی پر زور دیتے ہیں، جبکہ انتہا پسندی کی ان اقسام کی مذمت کرتے ہیں۔


In the Quran and Sunnah, the concept of "good" or "right" extremism is understood as:


*Al-Ghuluww* (الغلو): Extremism in a positive sense, meaning:


1. Excessive devotion

2. Intense dedication

3. Unwavering commitment


to righteous causes, without harming others.


*Quranic Guidance:*


1. _Striving in Allah's path_: "And strive in Allah's path with your wealth and your lives..." (Quran 9:20)

2. _Standing firm_: "And stand firm in righteousness..." (Quran 3:79)

3. _Excelling in good deeds_: "Race towards forgiveness from your Lord and a Garden..." (Quran 57:21)


*Prophetic Teachings (Sunnah):*


1. _Excellence in worship_: "The best of deeds are those which are constant, even if they are small." (Sahih Bukhari)

2. _Zeal for knowledge_: "Seeking knowledge is obligatory upon every Muslim." (Sunan Ibn Majah)

3. _Unwavering commitment_: "Be steadfast, and do not be of the wavering ones." (Sunan Abu Dawud)


*Examples of Positive Extremism:*


1. _Abdullah ibn Abbas's_ dedication to knowledge

2. _Umar ibn Abdul Aziz's_ uncompromising justice

3. _Ahmad ibn Hanbal's_ unwavering commitment to Hadith preservation


*Characteristics of Right Extremism:*


1. _Sincerity_: Pure intentions for Allah's sake

2. _Knowledge_: Grounded in Islamic scholarship

3. _Balance_: Avoiding harm to oneself or others

4. _Humility_: Recognizing one's limitations


*Distinguishing Right from Wrong Extremism:*


1. _Motivation_: Right extremism is driven by love for Allah, while wrong extremism is fueled by hatred or personal gain.

2. _Methodology_: Right extremism employs peaceful, lawful means, whereas wrong extremism resorts to violence or harm.

3. _Impact_: Right extremism benefits the community, while wrong extremism harms it.


In conclusion, the Quran and Sunnah encourage positive extremism, characterized by unwavering commitment to righteousness, knowledge, and devotion, while condemning harmful and violent extremism.


Would you like more information or specific Quranic and Hadith references?

Friday, 30 August 2024

صحت کا بیان


حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:

دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ اپنا نقصان کرتے ہیں:(1)صحت (2)فراغت۔

[بخاری:6412 ترمذی:2304 ابن ماجہ:4170]


تشریح:

۔۔۔ اور کچھ نہ کیا تو صبح سے شام تک پڑے ہوتے رہے اور آج کل تو صحت مند و مریض سب کا ایک ہی مشغلہ ہے فلم بینی یا ڈرامہ دیکھنا۔


فقہ الحدیث:

(1)باب:-دل کو نرم کرنے والی باتیں اور یہ کہ آخرت ہی کی زندگی زندگی ہے۔

[بخاری:6412]

(2)باب:-زھد کے متعلق اللہ کے رسول ﷺ کے فرامین۔

[ترمذی:2304، ابن ابی شیبہ:35497]

(3)باب:-توکل اور یقین کا بیان

[ابن ماجہ:4170]

(4)باب:-جو ساٹھ سال کی عمر کو پہنچا، اللہ نے اس کی عمر کا بہانہ ختم کیا: کیا ہم نے تمہیں عمر نہ دی تاکہ جو نصیحت حاصل کرنا چاہتا کرلیتا جبکہ ڈرانے والے بھی آئے۔﴿سورۃ فاطر:37﴾

[سنن کبریٰ للبیہقی:6523]

(5)قیامت کے روز نعمت کے متعلق سوال ہوگا۔

[کنزالعمال:6444]



القرآن:

اور ہم جس شخص کو لمبی عمر دیتے ہیں اسے تخلیقی اعتبار سے الٹ ہی دیتے ہیں۔ کیا پھر بھی انہیں عقل نہیں آتی؟

[سورۃ نمبر 36 يس، آیت نمبر 68]







Friday, 16 August 2024

قناعت یعنی اللہ کی تقسیم پر راضی رہنے کی فضیلت

لغوی معنیٰ:

القَنَاعَة عربی زبان کا لفظ ہے، جس کی معنیٰ تھوڑی چیز پر رضا مندی، جو کچھ مل جائے اس پر صبر کرلینے کی خُو(عادت) ہے۔

"القَانِعُ" کے معنی رضامند کے ہیں۔ قناعت کے کچھ دوسرے معانی ہیں: چھپانا، قبول کرنا اور ماننا۔

[لسان العرب : 297/8]


اصطلاحی معنیٰ:

كَانَ غَيْرَ كَافٍ وَتَرْكُ التَّطَلُّعِ إِلَى المَفْقودِ.

ترجمہ:

قناعت ان نیک اخلاق(عادات) میں سے ہے، کہ موجود حلال چیزوں پر نفس کا راضی رہنا، خواہ وہ ناکافی ہو، اور جو نہیں ہے اس کے لیے خواہشات کو ترک کرنا ہے۔


تشریح:

القَنَاعَةُ مِنَ الأَخْلاَقِ الفَاضِلَةِ التي هِيَ مِنْ صِفاتِ الأَنْبِياءِ وَأَهْلِ الإِيمَانِ، وَهِيَ عِبارَةٌ عَنْ امْتِلاءِ قَلْبِ العَبْدِ بِالرِّضَا، وَالبُعْدِ عَنِ الغَضَبِ وَالشَّكْوَى عَمَّا لَمْ يَتَحَقَّقْ وَالطَّمَعِ فِيمَا لاَ يْمَلِكُ، وَالقَناعَةُ قِسْمانِ: 1- قَناعَةُ الفَقِيرِ، وَهِيَ الرِّضَا بِالحَلالِ المَوْجودِ وَتَرْكِ النَّظَرِ فِي الحَرامِ وَالغَضَبِ عِنْدَ فَواتِ نِعْمَةٍ. 2- قَناعَةُ الغَنِيِّ، وَهِيَ أَنْ يَكونَ رَاضِيًا شَاكِرًا مُسْتَعْملًا النِّعْمَةَ فِي طَاعَةِ اللهِ، لَا جَاحدًا طَامِعًا فِي أَموالِ الآخَرِينَ. وَالقَناعَةُ لَهَا فَوائِدُ عَدِيدَةٌ فَهِيَ شِفاءٌ وَدَواءٌ مِنْ أَمْراضِ الجَشَعِ وَالطَّمَعِ وَالحَسَدِ وَالسَّرِقَةِ وَغَيْرِهَا.

ترجمہ:

قناعت حسن اخلاق میں سے ہے جو انبیاء اور اہل ایمان کی خصوصیات میں سے ہے اور یہ اس بات کا اظہار ہے کہ بندے کا دل قناعت سے لبریز ہو اور دور رہے غصہ سے اور جو کچھ اسے حاصل نہیں ہوا اس کا شکوہ کرنے سے اور لالچ سے اس چیز کی جو اس کے پاس نہیں۔

قناعت دو قسم کی ہوتی ہے: (1)فقیر کی قناعت: جو موجود حلال پر راضی رہنے اور حرام میں نظر ڈالنے اور نعمت کے ضایع ہونے پر غصہ ہونے کو ترک کر دینا ہے۔ (2) مالدار کی قناعت: یہ ہے کہ وہ راضی اور شکر گزار ہو، اللہ کی اطاعت میں نعمت کا استعمال کرے، ناشکری اور دوسروں کے مال میں لالچ نہ رکھے۔

اور قناعت کے بہت سے فائدے ہیں، یہ حرص، لالچ، حسد، چوری اور دیگر روحانی-اخلاقی بیماریوں کے لیے شفاء اور دوا ہے۔

[معجم مقاييس اللغة : 33/5 - تهذيب الأخلاق : ص22 - الفروق اللغوية للعسكري : ص430 - لسان العرب : 297/8 - التوقيف على مهمات التعاريف : ص275 -]


 


امام الراغب الاصفہانی لفظ قناعت کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

اقنع راسہ اس نے اپنے سر کو اونچا کیا ۔ قرآن میں ہے :

مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ

سر اٹھائے ہوئے

[سورۃ إبراهيم:43]

بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قناع سے مشتق ہے اور قناع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے سر ڈھانکا جائے۔ اس سے قَنِعَ (س) کے معنیٰ ہیں اس نے اپنے فقر(غربت) کو چھپانے کے لئے سر پر قناع اوڑھ لیا۔ اور قنع (ف) کے معنیٰ سوال کرنے کے لئے سر کھولنے کے ہیں۔ جیسا کہ خفی (س) کے معنیٰ چھپنے اور خفٰی کے معنیٰ خفاء کو دور کرنے یعنی ظاہر ہونے کے ہیں۔ اور رجل مقتنع کا محاورہ قناعۃ سے ہے یعنی وہ آدمی جس کی شہادت کو کافی سمجھا جائے، اس کی جمع مقانع ہے۔

[مفردات القرآن-امام الراغب» سورۃ ابراھیم:43]



(1)حضرت ابن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ

ترجمہ:

یقیناً وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اسلام قبول کیا، اور اسے بقدرِ کفایت رزق عطا کیا گیا، اور اللہ نے اسے قناعت (یعنی اللہ کی تقسیم پر راضی رہنے) کی توفیق دی اس(رزق)پر جو اسے عطا کیا گیا۔

[صحیح مسلم:1054، سنن ابن ماجہ:4138، سنن الترمذی:2348، مسند احمد:6572، صحيح ابن حبان:270، المستدرك الحاكم:7149]


فقہ الحدیث:

کفایت شعاری اور قناعت پسندی کا بیان۔

[صحیح مسلم:1054(2426)]

گذارے کے لائق روزی پر صبر کرنا۔

[سنن الترمذي:2348+2349]

قناعت کا بیان۔

[سنن ابن ماجہ:4138]


اپنے ہاتھ کے کمائی کے ذریعہ (لوگوں سے مانگنے سے) پاکدامن اور بےپرواہ رہنے اور جو کچھ اللہ نے بغیر مانگے اسے عطا کیا اس کی فضیلت کا بیان۔

[السنن الكبرىٰ-للبيهقي:7868]




تشریح:

جن اخلاق کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب اور اس دنیا میں بھی بہت بلند ہو جاتا ہے اور دل کی بے چینی اور کڑھن کے سخت عذاب سے بھی اس کو نجات مل جاتی ہے، ان میں سے ایک قناعت اور استغناء بھی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کو جو کچھ ملے اس پر وہ راضی اور مطمئن ہو جائے اور زیادہ کی حرص و لالچ نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے کو قناعت کی یہ دولت عطا فرمائے، بلا شبہ اس کو بڑی دولت عطا ہوئی، اور بڑی نعمت سے نوازا گیا۔ اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے: 


تشریح:

بلا شبہ جس بندہ کو ایمان کی دولت نصیب ہو، اور ساتھ ہی اس دنیا میں گذارے کا کچھ ضروری سامان بھی، اور پھر اللہ تعالیٰ اس کے دل کو قناعت اور طمانیت کی دولت بھی نصیب فرما دے، تو اس کی زندگی بڑی مبارک اور بڑی خوشگوار ہے اور اس پر اللہ کا بڑا ہی فضل ہے۔ یہ قناعت اور دل کی طمانیت وہ کیمیا ہے جس سے فقیر کی زندگی بادشاہ کی زندگی سے زیادہ لذیذ اور پُر مسرت بن جاتی ہے۔ 

ایں کیمیائے ہستی قاروں کند گدارا

آدمی کے پاس اگر دولت کے ڈھیر ہوں، لیکن اس میں اور زیادہ کے لئے طمع اور حرص ہو، اور وہ اس میں اجافہ ہی کی فکر اور کوشش میں لگا رہے، اور "هل من مزيد" ہی کے پھیر میں پڑا رہے تو اسے کبھی قلبی سکون نصیب نہ ہو گا، اور وہ دل کا فقیر ہی رہے گا برخلاف اس کے اگر آدمی کے پاس صرف جینے کا مختصر سامان ہو، مگر وہ اس پر مطمئن اور قانع ہو تو فقر و افلاس کے باوجود وہ دل کا غنی رہے گا، اور اس کی زندگی بڑے اطمینان اور آسودگی کی زندگی ہوگی۔ اس حقیقت کو رسول اللہ ﷺ نے ایک دوسری حدیث میں ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے۔

[معارف الحدیث:372]





Friday, 2 August 2024

میری امت۔۔۔






قتل ہونے پر کیا امید کی جائے؟

عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمَّتِي هَذِهِ أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ، لَيْسَ عَلَيْهَا عَذَابٌ فِي الْآخِرَةِ، عَذَابُهَا فِي الدُّنْيَا الْفِتَنُ، وَالزَّلَازِلُ، وَالْقَتْلُ»
ترجمہ:
حضرت ابوموسیٰ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  میری اس امت پر اللہ کی رحمت ہے آخرت میں اسے عذاب  (دائمی)  نہیں ہوگا اور دنیا میں اس کا عذاب: فتنوں، زلزلوں اور قتل کی شکل میں ہوگا۔
[سنن أبو داود:4278 ، المستدرک الحاكم:8372، مسند أبو يعلى:7277،۔المعجم الاوسط للطبرانی:4055]


دنیاوی عذاب کا مقصد»
القرآن:
اور اس بڑے عذاب سے پہلے بھی ہم انہیں کم درجے کے عذاب کا مزہ بھی ضرور چکھائیں گے۔ (10) شاید یہ باز آجائیں۔
[سورۃ نمبر 32 السجدة، آیت نمبر 21]

تفسیر:
(10)یعنی آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے اسی دنیا میں انسان کو چھوٹی چھوٹی مصیبتیں اس لئے پیش آتی ہیں کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرکے اپنے گناہوں سے باز آجائے، سبق یہ دیا گیا ہے کہ دنیا میں پیش آنے والی مصیبتوں کے وقت اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے، اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنا چاہیے۔



Sunday, 28 July 2024

شکوہ وشکایت کا بیان

 

شکوہ-شکایت کا سبب»

(1)غم وپریشانی یا (2)رنج ودکھ پہنچنے کی وجہ سے شکوہ-شکایت ہوتی ہے۔


شکوہ-شکایت کرنے کا مقصد»

غم اور رنج کا مداوا-علاج کرنا۔


جائز شکوہ-شکایت»جو مخلوق سے نہیں، خالق سے کی جائے۔

القرآن:

قَالَ اِنَّمَاۤ اَشۡكُوۡا بَثِّـىۡ وَحُزۡنِىۡۤ اِلَى اللّٰهِ وَاَعۡلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ۞ 

ترجمہ:

یعقوب نے کہا : میں اپنے رنج و غم کا شکوہ (فریاد) (تم سے نہیں) صرف اللہ سے کرتا ہوں، اور اللہ کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں، تم نہیں جانتے۔

[سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 86]


تفسیر(امام)ابن کثیر:

(اللہ کے پیغمبر حضرت یعقوب علیہ السلام کے) بچوں نے باپ کا یہ حال دیکھ کر انہیں سمجھانا شروع کیا کہ ابا جی آپ تو اسی کی یاد میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے بلکہ ہمیں تو ڈر ہے کہ اگر آپ کا یہی حال کچھ دنوں اور رہا تو کہیں زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں ۔ حضرت یعقوب نے انہیں جواب دیا کہ میں تم سے تو کچھ نہیں کہہ رہا میں تو اپنے رب کے پاس اپنا دکھ رو رہا ہوں ۔ اور اس کی ذات سے بہت امید رکھتا ہوں وہ بھلائیوں والا ہے ۔ مجھے یوسف کا خواب یاد ہے ، جس کی تعبیر ظاہر ہو کر رہے گی۔


تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:

(اپنے بیٹے)یوسف کے غم میں روتے روتے یعقوب کی آنکھیں سفید ہوگئی تھیں (یعنی) آنکھوں کی سیاہی زائل ہوکر سفیدی میں تبدیل ہوگئی تھی، وہ دل ہی دل میں گھٹ رہے تھے (یعنی) مغموم بے چین تھے، اپنی بے چینی کا اظہار نہیں کرتے تھے، بیٹوں نے کہا: واللہ! آپ تو ہمیشہ یوسف ہی کو یاد کرتے رہو گے یہاں تک کہ اپنے طولِ مرض کی وجہ سے لب جان ہوجائیں گے، یا ہلاک ہی ہوجائیں گے۔ (یعقوب) نے ان سے کہا: میں تو اپنی پریشانی اور دکھ کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں نہ کہ کسی اور سے (بث) اس شدید غم کو کہتے ہیں کہ جس پر صبر نہ کیا جا سکے، یہاں تک کہ لوگوں کو بھی اس کا علم ہوجائے۔ ایک وہی ذات ایسی ہے کہ اسی سے فریاد فائدہ دے سکتی ہے اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم واقف نہیں ہو اس بات سے کہ یوسف (علیہ السلام) کا خواب سچا ہے اور وہ زندہ ہے۔


نوٹ:

صبرِ جمیل کے منافی اگر کوئی شکایت ہے تو وہ خالق کی آزمائش ومصیبت کی شکایت مخلوق سے کرنا ہے۔ لہٰذا مخلوق کی شکایت خالق سے کرنا یہ صبرِ جمیل کے منافی نہیں بلکہ عین دعاء والتجا ہے۔

مخلوق کی شکایت مخلوق سے کرنا: یہ دو قسم کی ہے:

(1)ظلم کی حق شکایت کرنا۔

(2)بلاوجہ ناحق شکایت کرنا۔

 


بیماری میں جزع فزع کی ممانعت:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ - صلى الله عليه وسلم -: " قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِذَا ابْتَلَيْتُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنَ , فَلَمْ يَشْكُنِي إِلَى عُوَّادِهِ أَطْلَقْتُهُ مِنْ إِسَارِي ثُمَّ أَبْدَلْتُهُ لَحْمًا خَيْرًا مِنْ لَحْمِهِ , وَدَمًا خَيْرًا مِنْ دَمِهِ، ثُمَّ يَسْتَأنِفُ الْعَمَلَ.

ترجمہ:

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ: میں جب اپنے مومن بندے کو (بیماری میں) مبتلا کرتا ہوں اور وہ عیادت کرنے والوں سے میری شکایت نہ کرے، تو میں اسے اپنی قید سے آزاد کردیتا ہوں، پھر اس کے گوشت کے بدلہ میں اچھا گوشت اور خون کے بدلہ اچھا خون لگا دیتا ہوں، پھر وہ ازسرنو عمل شروع کردیتا ہے۔

[حاکم:1290، بیھقی:6548، الصحيحة:272]