


حضرت ابو ہريرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«تُعْرَضُ الأعمالُ يومَ الاثنين والخميس، فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَملي وأنا صائم»
ترجمہ:
”سوموار اور جمعرات کو (اللہ کے ہاں) اعمال پيش کیے جاتے ہيں، لہٰذا مجھے يہ پسند ہے کہ ميرا عمل (بارگاہِ الٰہی میں) پيش کیا جائے تو ميں روزے سے ہوں“۔
كَالذِّكْرِ بِهَيْئَةِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى صَوْتٍ وَاحِدٍ، وَاتِّخَاذُ يَوْمِ وِلَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِيدًا۔
ترجمہ:
[الاعْتِصَام للشاطبي:1/51، الناشر: دار ابن الجوزي للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية]
ترجمہ:
[المورد فى عمل المولد: ص10، الناشر: دار العاصمة - الرياض]
(بحوالہ كتاب: رسائل فى حكم الاحتفال بالمولد النبوي).
(۳) ابن امیر الحاجؒ مالکی (المتوفى: 737هـ) فرماتے ہیں:
وَمِنْ جُمْلَةِ مَا أَحْدَثُوهُ مِنْ الْبِدَعِ مَعَ اعْتِقَادِهِمْ أَنَّ ذَلِكَ مِنْ أَكْبَرِ الْعِبَادَاتِ وَإِظْهَارِ الشَّعَائِرِ مَا يَفْعَلُونَهُ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ مِنْ مَوْلِدٍ وَقَدْ احْتَوَى عَلَى بِدَعٍ وَمُحَرَّمَاتٍ جُمْلَةٍ.
[المدخل-ابن الحاج: جلد2 صفحہ2، فَصْلٌ فِي مَوْلِدِ النَّبِيّ والبدع المحدثة فِيهِ ، الناشر: دار التراث]
ليس فيه نص
ترجمہ:
اس(میلاد کے جائز ہونے) میں کوئی نص (یعنی قرآن وسنت میں کوئی واضح حکم) نہیں۔
(۵) امام ابن کثیرؒ(م774ھ) فرماتے ہیں کہ:
[البداية والنهاية-امام ابن کثیر: جلد 13 صفحہ 144]
عمر بن وحیہ کے بارے میں علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ:




اسی 'صاحب ِاربل' ہی کے بارے میں امام سیوطیؒ (م911ھ) رقم طراز ہیں کہ
[القول المعتمد في عمل المولد: احمد بن محمد مصري]
علامہ عبدالرحمن مغربی اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں کہ:
أن عمل المولد بدعة لم يقل به ولم يفعله رسول الله والخلفاء والأئمه
ترجمہ:
تحقیقی بات یہ ہے کہ میلاد منانا بدعت ہے آنحضرت ،خلفاء راشدین اورنہ ہی ائمہ مجتہدین نے خود اس کو کیا اور نہ ہی اس کو منانے کا حکم دیا۔
[الحاوي للفتاوي:1/ 229]
علامہ احمد بن محمد مالکی مصری لکھتے ہیں کہ:
قد أتفق العلماء والمذاهب الأربعه بذم هذا العمل.
ترجمہ:
تحقیق مذاہب اربعہ کے علماء کا اس عمل (میلاد) کی مذمت پراتفاق ہے۔
اس کے علاوہ علماء وسلف صالحین نے اس مسئلہ پر کتابیں لکھیں جن میںجشن میلادمنانے کی تردید کی گئی ہے۔
مثلاً
۱: امام ابوالحسن علی بن مفضل المقدسی المالکی نے اپنی کتاب’’کتاب الجامع المسائل‘‘میں
۲: امام احمد بن محمد المالکی نے اپنی کتاب ’’القول المعتمد فی عمل المولد‘‘ میں
۳: امام ابن الحاج الامیر المالکی نے اپنی کتاب’’ المُدْخَل‘‘ میں
۴: امام عبدالرحمن المغربی نے اپنے فتاویٰ میں
۵: امام حسن بن علی نے اپنی کتاب ’’طریق السنۃ‘‘ میں
۶: علامہ ابن تیمیہ حنبلی نے اپنے فتاوی میں
۷: امام ربانی مجدد الف ثانی نے مکتوبات حصہ پنجم میں
۸: امام نصیر الدین شافعی نے اپنی کتاب ’’رشاد الاخیار‘‘ میں
۹: امام ابواسحاق شاطبی نے اپنی کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں
اور دیگر ائمہ نے اپنے اپنے زمانہ میں مروجہ محفل میلاد کی پرزورتردید کی ہے.
محبت رسول اللہؐ کی علامات
نہیں ہے کوئی عالم الغیب اور حاضر و ناظر ، سواۓ الله کے
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، أَنَّ رَجُلًا , سَمِعَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ ، يَقُولُ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُومُوا نَسْتَغِيثُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا الْمُنَافِقِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يُقَامُ لِي ، إِنَّمَا يُقَامُ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى " .
ترجمہ:
[الطبقات الكبرى لابن سعد » ذِكْرُ صَلاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ... رقم الحديث: 938(1 : 187)]
[الزهد للمعافى بن عمران الموصلي » بَابٌ : فِي الشَّرَفِ ۔۔۔ رقم الحديث: 85]
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ : " لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ .
[جامع الترمذي : ابواب الاستيذان و الأدب، باب ما جاء فی كراهية قيام، حديث : -2558]
جامع الترمذي: كتاب الدعوات - باب قول النبي ﷺ -: قوموا إلى سيدكم

محافلِ میلاد میں منکرات کا ارتکاب، تفہیم المسائل
Milad un Nabi Kyun NAHI Manaana Chahiye (Bralwi Ulama ki Zubaani)

جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منع آخر کیوں؟
لفظی اعتبار سے ہر اس دن کو عید کہتے ہیں جس میں کسی بڑے آدمی یا کسی بڑے واقعہ کی یاد منائی جائے۔ بعض نے کہا کہ عید کو عید؛ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے۔
[المنجد: ۶۹۰، معجم الوسیط:۶۳۵]
”عید“ کو عید کہنا ایک طرح کی نیک فالی اور اس تمنّا کا اظہار ہے کہ یہ روزِ مسرّت بار بار آئے۔
[قاموس الفقہ:۴/۴۱۹]
ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح تاریخ:
تمام موٴرخین اور اصحابِ سیر کا اس پر تو اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ با سعادت پیر کے دن ہوئی؛ البتہ تاریخ میں شدید اختلاف ہے۔۲،۸،۹،۱۰،اور ۱۲ تاریخیں بیان کی گئی ہیں اور وفات کے سلسلے میں ۲/ربیع الاول کو جب کہ ولادت کے سلسلے میں ۱۲/ربیع الاول کو ترجیح دی گئی۔
یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
یومِ ولادت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یعنی اس عظیم الشان شخصیت کا جنم دن ،جسے تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔وہ دن واقعی بڑی ہی عظمت و برکت کا حامل تھا؛اس لیے کہ اس مبارک دن میں رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے۔اگرچہ شریعت نے سالانہ آقا کے یومِ ولادت کو”منانے“ کا حکم نہیں دیا نہ اسے عید ہی قرار دیا، نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرّر کیے؛لیکن جس سال ماہِ ربیع الاول میں یہ دن آیا تھا ،وہ نہایت ہی متبرک اور پیارا دن تھا۔آج جو لوگ اس دن کو ”عید“ کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ اصلاً رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہیں،اس لیے کہ خود ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
اللہ تعالیٰ نے دیگر قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے عید کے دو دن مقرّر کیے ہیں: (۱)عید الفطر اور (۲) عید الاضحی۔یہ ارشاد اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جب کہ آپ نے اہلِ مدینہ کو دوسرے دنوں میں زمانہٴ جاہلیت کے طرز پر عید و خوشی مناتے دیکھا۔
[ابوداود: ۱۳۳۴، نسائی: ۱۵۵۷]
اس سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کے لیے سالانہ صرف دو دنوں کو عید کے طورپر مقرر فرمایا،ان کے علاوہ بعض روایتوں میں جمعہ کے دن کو بھی عید کہا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دن کے متعلق عید کا لفظ وارد نہیں ہوا۔اب اگر کوئی اس پر زیادتی کرکے اپنی طرف سے مزید ایک دن بڑھاتا اور اس میں عید جیسی خوشیاں مناتا ہے،تو وہ گویا رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشادِ عالی پر عدم رضامندی کا اظہار کرتا ہے،اور جو اسے دین کا حصہ سمجھتا ہے،وہ اپنی طرف سے نیا دین تراشتا ہے اور یہ دونوں ہی طریقہٴ عمل نہایت خطرناک ہیں۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداء:
فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی فرماتے ہیں:
یہ مروجہ مجلسِ میلاد قرآن ِکریم سے ثابت ہے نہ حدیث شریف سے،نہ خلفاءِ راشدین و دیگر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے نہ تابعین و ائمہ مجتہدین؛امام اعظم ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی،امام احمد وغیرہ سے ،نہ محدثین ؛امام بخاری،امام مسلم،امام ابو داود،امام ترمذی،امام نسائی اور امام ا بن ماجہ وغیرہ سے اورنہ اولیاءِ کاملین؛ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری،خواجہ بہاء الدین نقشبندی اور شیخ عارف شہاب الدین سہروردی وغیرہ سے۔چھ صدیاں اس امت پر اس طرح گزر گئیں کہ اس مجلس کاکہیں وجود نہیں تھا۔سب سے پہلے بادشاہ اربل نے شاہانہ انتظام سے اس کو منعقد کیا اور اس پر بہت مال خرچ کیا،پھر اس کی حرص و اتباع میں وزراء وامراء نے اپنے اپنے انتظام سے مجالس منعقد کیں،اس کی تفصیل ”تاریخ ابن خلکان “ میں موجود ہے۔
اسی وقت سے علماءِ حق نے اس کی تردید بھی لکھی ہے؛چنانچہ ”کتاب المدخل“میں علامہ ابن الحجاج نے بتیس صفحات میں اس کے قبائح و مفاسد دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں لکھے ہیں۔ ۷۳۷ھ میں اس کی تصنیف سے فراغت حاصل ہوئی،پھر جہاں یہ مجلس پہنچتی گئی ،وہاں کے علماء تردید فرماتے رہے؛چنانچہ عربی،فارسی اور اردو صلی اللہ علیہ وسلم ہر زبان میں اس کی تردید موجود ہے اور آج تک تردید کی جا رہی ہے۔
[فتاوی محمودیہ جدید:۳/۲۱۴-۲۱۳بتغیر]
بریلوی عالم کا اعتراف:
بریلوی حضرات کے ایک عالم قاضی فضل احمد صاحب لکھتے ہیں:”یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ اس مخصوص شکل سے یہ عملِ خیر و برکت و نعمت ۶۰۴ھ سے جاری ہے“۔
[مروجہ محفلِ میلاد:۵۲ ملخصاً]
عیدِ میلاد کا حکم:
اس سے بعض لوگ اس غلط بات کی طرف چلے جاتے ہیں، گویا کہ ہم ذکر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو منع کرتے ہیں۔ نعوذ باللہ ! ثم نعوذ باللہ! نفسِ ذکر میلاد فخر عالم علیہ السلام کو کوئی منع نہیں کرتا؛بلکہ ذکرِ ولادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل ذکر دیگر سیر و حالات کے مندوب ہے۔[البراہین القاطعةعلی ظلام انوار الساطعة:۱۴] لیکن اس زمانہ میں مجالسِ میلاد بہت سے منکرات وممنوعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ممنوع ہے۔
[فتاویٰ محمودیہ:۳/۱۸۱جدید محقق]
بالفاظِ دیگر میلاد ِ مروجہ وقیام مروج جو امور ِ محدثہ ، ممنوعہ کو مشتمل ہے ، ناجائز اور بدعت ہے۔
[عزیز الفتاویٰ:۱۲۲،زکریا بکڈپو ، دیوبند]
یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یقینا باعث ِ خوشی اور اظہارِ مسرت کا سبب ہے؛لیکن اس تاریخ میں ہر سال اگر یہ دن ”منانے“ کا ہوتا، تو اس کے متعلق احکامات و ہدایات شریعتِ مطہرہ میں کثرت سے وارد ہوتیں۔یہ خیال رکھنے کی بات ہے کہ یہ دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے سامنے بھی تھا ،تو جب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام نے اس خوشی کا اظہار مروجہ طریقہ پر نہیں کیااور” عید ِمیلاد“نہیں منایا،تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شریعت میں اظہارِ خوشی کا یہ طریقہ درست نہیں،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہٴ کرام اس پر عمل کرکے اس کا جواز ضرور بتلاتے۔یہی ایک دلیل مروجہ میلاد کے غیر درست ہونے کے لیے کافی ہے۔
ارشادِ ربّانی ہے:
﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾۔
[سورة المائدة:۳]
آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل و مکمل کر دیا(اب اس میں کسی طرح کمی بیشی کی گنجائش نہ رہی)اور تم پر اپنا انعام مکمل کر دیااور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا۔
نیز ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے ،جو دین میں سے نہیں ہے،وہ مردود ہے۔
[بخاری:۲۶۹۷،مسلم:۶۷۱۸]
ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
تم میری سنّت کو لازم پکڑو اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو،اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہو اور دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو؛کیوں کہ دین میں پیدا کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
[ابو داود: ۴۶۰۷، ترمذی: ۲۶۷۸، ابن ماجہ:۴۲]
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بس یہی حق امت پر ہے کہ سارے سال میں صرف ایک دن اور وہ بھی صرف تماشہ کے طور پر ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ مبارک جھوٹے سچے رسالوں سے پڑھ دیا اور پھر سال بھر کے لیے فارغ ہو کر آئندہ بارہ وفات اور عیدِمیلاد کے منتظر ہوکر بیٹھ گئے۔افسوس !مسلمانوں کا فرض تو یہ ہے کہ کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ مبارک سے خالی نہ جائے؛البتہ یہ ضروری نہیں کہ فقط ولادت کا ہی ذکر ہو؛بلکہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا،کبھی آپ کے روزے کا،کبھی جہاد کا،اور کبھی آپ کے اخلاق و اعمال کا،جو کہ سب سے زیادہ اہم ہیں۔کبھی ولادتِ با سعادت کا بھی ہو کہ یہ بھی باعثِ خیر و برکت ہے۔
[جواہر الفقہ:۴/۹۱،امداد المفتیین:۱۶۳]
محبت کی علامت بھی یہی ہے کہ محبوب کی ہر بات کا ذکر ہو،ولادتِ شریفہ کا بھی،سخاوت اور عبادت کا بھی۔اس میں کسی مہینہ اور تاریخ اور مقام کی کوئی تخصیص نہیں؛بلکہ دوسرے وظیفوں کی طرح روزمرہ اس کا وظیفہ ہونا چاہیے۔یہ نہیں کہ سال بھر میں مقررہ تاریخ پر یومِ میلاد منا لیا جائے اور اس کے بعد کچھ نہیں؛حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ مبارک تو غذا ہے،ہر وقت ہونا چاہیے،اس میں وقت کی تخصیص کی کیا ضرورت؟
[الفضائل والاحکام :۱۱۱،امداد الفتاویٰ:۱/۱۸۷]
اس پوری تفصیل سے واضح ہو گیا کہ محفلِ میلاد میں کوئی تاریخ معین اور ضروری نہ سمجھی جائے، شیرینی کو ضروری نہ سمجھا جائے، ضرورت سے زیادہ روشنی نہ کی جائے، غلط روایات نہ پڑھی جائیں،نظم پڑھنے والے بے ریش نہ ہوں،اور گانے کی طرح نہ پڑھیں،اسی طرح دوسری بدعات سے خالی ہو، تو مضائقہ نہیں۔
[امداد الفتاویٰ:۵/۲۴۹ ، و نظام الفتاویٰ ، حصہ دوم : ۱/۱۶۵، اعتقاد پبلشنگ ہاوٴس ، دیوبند]
غرض یہ کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ مبارک جب کہ ان رسوم و بدعات سے خالی ہو تو ثواب اور افضل ہے،اوراگر مروجہ طریقہ پررسوم وبدعات سے بھرا ہو تو نیکی برباد گناہ لازم ہے۔جیسے کوئی بیت الخلاء میں جاکر قرآن ِکریم کی تلاوت کرنے لگے۔
[جامع الفتاویٰ:۲/۵۵۲ ، ربانی بک ڈپو ، دہلی ، فتاوی عثمانی:۱/۱۱۹، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند]
المختصر !ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی خوشی اور غمی ،ہر حالت میں شریعت کی اتباع کرنا واجب و ضروری ہے اور شریعت میں امرِ مندوب پر اصرار کرنا اور واجب کی طرح اس کا التزام کرنا اتباعِ شیطان ہے۔
[عزیزالفتاویٰ:۱۴۲ بتغیر]
اہل ِ حدیث ‘ علماء کا موقف:
جناب مولانا مفتی ابو محمد عبد الستار صاحب فرماتے ہیں:
ہےئت ِمروجہ کے ساتھ مجلس ِ میلاد کا انعقاد ازروئے کتاب و سنت قطعاً حرام اور بدعت؛ بلکہ داخل فی الشرک ہے؛کیوں کہ اس کا ثبوت نہ تو خود رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،نہ کسی صحابی سے،نہ کسی تابعی سے۔غرض قرونِ ثلاثہ میں اس کا وجود بالکل مفقود ہے،نہ ازمنہٴ ائمہ اربعہ میں اس کا پتہ لگتا ہے؛بلکہ ساتویں صدی میں یہ بدعت بجانب خود ایجاد کی گئی ہے۔
[فتاویٰ ستاریہ:۱/۶۴]
جناب مولانا ثناء اللہ امرتسری فرماتے ہیں:
ہم مجلسِ میلاد کو کارِ ثواب نہیں جانتے؛اس لیے کہ زمانہٴ رسالت و خلافت میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔آگے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:مولود کی مجلس ایک مذہبی کام ہے،جس پر ثواب کی امید ہوتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ کسی کام پر ثواب کا بتلانا شرع شریف کا کام ہے؛اس لیے کسی کام پر ثواب کی امید رکھنا،جس پر شرع شریف نے ثواب نہ بتلایا ہو،اس کام کو بدعت بنا دیتا ہے۔مولود کی مجلس بھی اسی قسم سے ہے؛کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے اس پر ثواب کا وعدہ نہیں کیا؛اس لیے ثواب سمجھ کر تو یقیناًبدعت ہے،رہا محض محبت کی صورت، یہ بھی بدعت ہے؛کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا بھی ایک مذہبی حکم ہے،جس پر ثواب کی امید ہے۔پس جس طریق سے شرع شریف نے محبت سکھائی ہے،اس طریق سے ہوگی تو سنّت،ورنہ بدعت۔
[فتاویٰ ثنائیہ: ۱/۱۱۹]
مفتیِ اعظم مکہ مکرمہ کا فتویٰ:
شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن بازفرماتے ہیں:
مسلمانو کے لیے ۱۲/ربیع الاول کی رات یا کسی اور رات میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محفل منعقد کرنا جائز نہیں ہے؛بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور کی ولادت کی محفل منعقد کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ میلاد کی محفلوں کا تعلق ان بدعات سے ہے،جو دین میں نئی پیدا کر لی گئی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات ِ پاک میں کبھی اپنی محفلِ میلاد کا انعقاد نہیں فرمایا تھا؛حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین کے تمام احکام کو بلا کم وکاست ،من وعن پہنچانے والے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مسائلِ شریعت کو بیان فرمانے والے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محفلِ میلاد نہ خود منائی اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔یہی وجہ ہے کہ خلفاءِ راشدین ،حضراتِ صحابہٴ کرام اور تابعین میں سے کسی نے کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا تھا،الخ۔
[مقالات وفتاویٰ:۴۰۶ اردو]
اللّٰہم ارنا الحق حقا ًوارزقنا اتباعہ، وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ․
$ $ $
******************
ولادت باسعادت اور وصال پُر ملال کی تاریخیں
| ||||||
رسالت مآب، سید البشر رحمة للّعالمین ﷺ کی ولادت باسعادت اور وصال پُر ملال کی تاریخ کے تعین میں اختلاف ہے، اس سلسلے میں تین باتیں قابل ذکر ہیں۔ دن مہینہ اور تاریخ ۔ دن اور مہینہ میں سب موٴرخین کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ (پیر ) اور مہینہ ربیع الاول کا ہے، بعض مرجوح اقوال ربیع الاول کے علاوہ کے بھی ہیں، لیکن جمہور کے مقابلے میں قابل التفا ت نہیں؛ البتہ تاریخ میں اختلاف ایک معر کة الآرا موضوع ہے؛ معتبرقول کیاہے؟ اس کو جاننے کے لیے ائمہ کی تاریخی شہادتوں کا تجزیہ کرنے کی ضرورت تھی، جس کومعتبرعلماء، محققین نے کرکے بتادیاہے ۔ولادت باسعادت ولادت باسعادت کے بارے میں بعض مرجوح اقوال ہیں، جنہیں الامام الحافظ الموٴرخ ابو الفداء اسماعیل بن کثیر نے تاریخ کی مشہور کتاب ”البدایة والنھایة“ میں ذکر کیا ہے۔چناں چہ پہلی روایت وہ ہے جسے ابن عبدالبر نے زبیر بن بکاء سے نقل کیا ہے، اس کو حافظ صاحب صریح طور پر مرجوح لکھتے ہیں۔ اَ نہ وُلد فی رمضان، نقلہ ابن عبدالبر عن الزبیر بن بکار، ھوقول غریب جداً․ آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان میں پیدا ہوئے، اس کو ابن عبد البر نے زبیر بن بکار سے نقل کیا ہے، یہ بہت غریب قول ہے۔ اسی طرح زبیر بن بکار ایک اور روایت نقل کرتے ہیں، جس میں مکان ولادت کی بھی تعیین ہے۔ قال الزبیر بن بکار․․․․․․:وُلِد بمکة بالدار المعروفة بمحمد بن یوسف․․․․․․․لاثنتی عشرة خلت من شھر رمضان․ زبیر بن بکار کہتے ہیں آپ صلی الله علیہ وسلم مکہ میں دارالمعروفہ میں رمضان کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔ مذکورہ روایت میں تاریخ کا بھی ذکر ہے۔اسی طرح ایک روایت ہے جس میں دن کاذکر ہے۔ ورواہ الحافظ ابن عساکر من طریق محمد بن عثمان․․․ولد یوم الاثنین لاثنی عشرة لیلة خلت من شھر رمضان․ حافظ ابن عسا کر نے محمد بن عثمان کے طریق سے روایت ذکر کی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پیر کے دن رمضان کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔ ایک دوسری روایت کو ابن عسا کر نے محمد بن عثمان کے طریق سے ببان کیا ہے ،اس میں رمضان کی بارہ تاریخ کو ظاہر کیا گیا ہے۔ واَبعد بل اَخطا من قال: ولد یوم الجمعة لسبع عشرة خلت من ربیع الاول․(البدایة والنھایة، 33/3، ط: دار ابن کثیر) جس نے کہا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جمعہ کے روز اورسترہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے ۔اس نے غلط بات کہی ہے۔ مذکور ہ اقوال مرجوح ہیں ، اب جو اقوال راجح ہیں ان کو ذکر کیا جاتا ہے، اس میں مختلف اقوال ہیں۔ پہلا قول : دو تاریخ بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کی دو تاریخ کو ہوئی، حافظ ابن عبد البر نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور الاستیعاب فی معرفة الاصحاب میں اس کو ذکر کیا ہے۔ چناں چہ حافظ اسماعیل بن کثیر نے البدایہ والنھایة میں اس کو ذکر کیا ہے۔ فقیل: للیلتین خلتا منہ․ قالہ ابن عبد البر فی الاستیعاب ورواہ الواقدی عن ابی معشر نجیح بن عبدالرحمن المدنی․ ترجمہ :۔ کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی پیدائش دو ربیع الاول کو ہوئی۔ اس کو حافظ ابن عبدالبرنے استیعاب میں ذکر کیا ہے اور واقدی نے ابو معشر نجیح بن عبدالرحمن مدنی سے اس کو روایت کیا ہے ۔دوسرا قول : آٹھ ربیع الاول آپ صلی الله علیہ وسلم آٹھ ربیع الاول بروز پیر پیدا ہوئے، چناں چہ علامہ حافظ ابن کثیر نے ” البدایہ والنھایہ “ میں اس قول کے متعلق روایت نقل کی ہے: و قیل : لثمان خلون منہ حکاہ الحمیدی عن ابن حزم۔ ورواہ مالک، وعقیل، و یونس بن یزید، وغیرھم ․․․․․، ونقل ابن عبد البر عن اَ صحاب التاریخ اَنھم صححوہ․ (البدایہ والنھایہ ،33/3 ) ․ترجمہ :۔ کہا گیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت آٹھ ربیع الاول کو ہوئی، اسی کو حمیدی نے ابن حزم سے بیان کیا ہے اور امام مالک، عقیل اور یونس بن یزید نے بھی اسی کو روایت کیا ہے۔ اور ابن عبدا لبر نے اصحاب تاریخ سے نقل کیا ہے کہ یہی قول صحیح ہے۔ اسی طرح آٹھ ربیع الاول کے قول کو شیخ الحدیث حضرت مولانا ادریس کاندھلوی صاحب ترجیح دیتے ہیں۔ چناں چہ انہوں اپنی عظیم تصنیف میں تحریر فرمایا ہے۔ ” سر ور دو عالم، سید ولد آدم، محمد مصطفی ،احمد مجتبیٰ صلی الله علیہ وسلم و شرف و کرم واقعہ فیل کے پچاس یا پچپن روز کے بعد بتاریخ 8 ربیع الاول یوم دو شنبہ مطابق ماہ اپریل 570 عیسوی مکہ مکرمہ میں صبح صادق کے وقت ابو طالب کے مکان میں پیدا ہوئے۔ ولادت باسعادت کی تاریخ میں مشہور قول تو یہ ہے کہ حضور پر نور صلی الله علیہ وسلم 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، لیکن جمہور محدثین اور موٴرخین کے نزدیک راجح اور مختار قول یہ ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، عبدالله بن عباس اور جبیر بن مطعم سے بھی یہی منقول ہے اور اسی قول کو علامہ قطب الدین قسطلانی نے اختیار کیا ہے۔ “ (سیرت مصطفی صلی الله علیہ وسلم، 65/1 ،ادریس کاندھلوی ) اسی طرح آٹھ ربیع الاول کے قول کو مولوی احمد رضا خان بریلوی صاحب نے اختیار کیا ہے اور دوسرے اقوال کو مرجوح قرار دیا ہے اور فتاوی رضویہ صفحہ نمبر 412اور جلد نمبر 26 میں اس کو ذکر کیا ہے۔ یہاں پر ایک بات افسوس سے لکھنی پڑرہی ہے کہ جو حضرات مولوی احمد رضا خان صاحب کے مسلک کے ہیں وہ کھینچ تان کر ولادت 12 ربیع الاول کو ثابت کرتے ہیں اور اپنے امام کا قول ذکر ہی نہیں کرتے، گویا کہ ان کے یہاں یہ قول مردود ہے۔ تیسرا قول : نو ربیع الاول
بعض علماء نے نو ربیع الاول کے قول کو اختیار فرمایا، چناں چہ خلافت اسلامیہ کے آخری شیخ الاسلام کے نائب، عالم اسلام کے عظیم محقق، امام، محمد زاہد بن الحسن الکوثری المتوفی 1371 ہجری نے نو ربیع الاول والے قول کو اختیار فرمایا ہے اور اپنے ایک مقالے” المولد الشریف النبوی“ جو مقالات کو ثری کے مجموعہ میں شامل ہے، میں تحریر فرماتے ہیں․ ولادتہ علیہ الاسلام عند انقضاء ثمانیة اَیام من الشھر․ فیکون ھذا ھو الراجح روایة بل المتعین درایة، لاَن الیوم التاسع عند انقضاء تلک الایام الثمانیة․ مقالات الکوثری، ۴۰۶ ، دار الشہبی للنشر․ ․․ترجمہ :۔ آپ علیہ السلام کی ولادت ربیع الاول کے آٹھ دن گزرنے کے بعد ہوئی ․․․․یہی روایت راجح ہے بلکہد رایةً بھی یہی متعین ہے۔ نو ربیع الاول کا قول مصرکے مشہور ریاضی دان محمود پاشا الفلکی کا اختیار کردہ ہے، اسی کو علامہ زاہد الکوثری نے اختیار کیا ہے، چناں چہ آگے ذکر فرماتے ہیں۔ ھو الذی تعین لمولدہ صلی الله علیہوسلم بعد اِجراء تحقیق ریاضی لا یتخلف بمعرفة الریاضی المشہور العلامة محمود باشا الفلکی المصری رحمہ الله فی رسالة لہ باللغة الغربیة فی تقو یم العرب قبل الاسلام․ (مقالات الکوثری ․ 406) اسی طرح نو ربیع الاول کے قول کو مشہورسیرت نگار علامہ شبلی نعمانی اختیار فرماتے ہیں ، چناں چہ اپنی گرانقدر سیرت کی کتاب سیرة النبی صلی الله علیہ وسلم میں رقمطراز ہیں۔ ”تاریخ ولادت کے متعلق مصر کے مشہور ہےئت دان عالم محمود پاشا فلکی نے ایک رسالہ لکھا ہے، جس میں انہوں نے دلائل ریاضی سے ثابت کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت 9ربیع الاول روز دو شنبہ مطابق 20اِپریل 571 ھ میں ہوئی تھی “چوتھا قول ایک روایت دس ربیع الاول کی بھی ہے، دس ربیع الاول کی روایت کو ابن دحیہ اپنی کتاب میں نقل فرماتے ہیں اور اس کو علامہ ابن عساکر روایت کرتے ہیں جس کو علامہ ابن کثیر نے البدایہ والنھایہ میں اور موٴرخ عزالدین ابی الحسن الشیبانی المعروف بابن اثیر المتوفی 630ھ نے تاریخ کی مشہور کتاب الکامل فی التاریخ میں ذکر کیا ہے یہ دونوں حضرات تحریر فرماتے ہیں۔ وقیل: لعشر خلون منہ۔ نقلہ ابن دحیہ فی کتابہ۔ ورواہ ابن عساکر۔ البدایہ والنھایہ،33/3 ط: دار ابن کثیر الکامل فی التاریخ299/2دارالمعر فة بیروت۔ ترجمہ:۔ کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی پیدائش دس ربیع الاول کو ہوئی، اسی قول کو ابن دحیہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔پانچواں قول : بارہ ربیع الاول بارہ تاریخ کے قول کو علامہ ابن اسحاق نے اختیار کیا ہے اور اس کو امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی مَصَنف میں روایت کیا ہے، اسی قول کو علامہ ابن کثیر البدایة والنھایة میں ذکر کرتے ہیں چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔ ”اور کہاجاتا ہے کہ بارہ تاریخ۔ اسی پر ابن اسحاق کا قو ل ہے اور ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں حضرت جابر و ابن عباس سے روایت ذکر کی ہے ،وہ دونوں فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم عام الفیل میں بروز پیر بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔“ اسی طرح اس روایت کو علامہ ابن ہشام نقل فرماتے ہیں :قال ابن اسحاق: ولد رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین، لاثنتین عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الاول، عام الفیل․(السیرة النبویة لابن ہشام 158/1 ملتزم الطبع والنشر ) اسی روایت کو ابن اسحاق کے طریق سے علامہ ابن اثیر نقل فرماتے ہیں۔ متاخرین علماء میں سے صرف مفتی اعظم پاکستان مولانا شفیع صاحب اس قول کو اختیار فرماتے ہیں، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔ ” مشہور قول بارہویں تاریخ کا ہے، یہاں تک کہ ابن البزار نے اس پر اجماع نقل کر دیا ہے اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیا گیا ہے ۔“ یہاں پانچوں اقوال کو ذکر کر دیا گیا ہے، ان میں راجح قول نویں تاریخ کا ہے، متعدد وجوہات کی وجہ سے ، پہلے قول کو کم استعمال کیا گیا ہے اور متاخرین نے بھی اس کو ذکر نہیں کیا، بارہ تاریخ کی ایک ہی روایت ہے جسے سب نے ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے یہ مشہور ہو گیا، جب کہ ان کے مقابلے میں نو تاریخ کے قول کو اکثر نے اختیار کیا ہے، نو تاریخ کے قول کو آٹھ اور دس تاریخ کے اقوال سے قریب ہونے کی وجہ سے تقویت ملتی ہے، لہٰذا نو تاریخ کا قول قوی ثابت ہوا، نو تاریخ کے قول کے بارے میں مفتی اعظم ہند مفتی کفایت الله دہلوی فیصلہ صادر فرماتے ہیں۔ ” حضور سرور عالم صلی الله علہ وسلم کی تاریخ ولادت میں پہلے سے موّرخین و اہل سیر کا اختلاف ہے، دو شنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تو متفق علیہ ہے، مگر تاریخ کی تعین میں متعدد اقوال ہیں۔ کسی نے دوسری ، کسی نے تیسری، کسی نے آٹھویں ، کسی نے نویں، کسی نے بارہویں تاریخ بتائی ہے۔ از روئے حساب جو جانچا گیا تو 9تاریخ والا قول زیادہ قوی ثابت ہوا۔“(کفایت المفتی،147/1 ، دار الاشاعت )تاریخ وصال پر ملال تاریخ ولادت باسعادت کی طرح تاریخ وصال میں بھی اختلاف ہے، دن اور مہینہ تو سب کے یہاں متفق علیہ ہے کہ پیر کے روز ربیع الاول کے مہینے میں وصال ہوا، لیکن بعض روایات ایسی بھی ہیں جن میں مہینہ کا اختلاف ظاہر کیا گیا ہے،لیکن یہ روایات شاذ ہیں، البتہ جن روایات میں تاریخ کا اختلاف ہے وہ بڑی معرکة الآراہیں، تاریخ کی روشنی میں ان کا موازنہ کیا جا سکتا ہے، تعین تاریخ میں چار اقوال ہیں۔پہلا قول : یکم ربیع الاول اس قول کی روایت کو یعقوب بن سفیان نقل کرتے ہیں اور علامہ ابن کثیر نے البدایة والنھایہ میں بھی اس کو ذکر کیا ہے، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔ وقال یعقوب بن سفیان…توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاِثنین للیلة خلت من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ، 359/5 ط : دار ابن کثیر) ترجمہ:۔ بعقوب بن سفیان کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یکم ربیع الاول پیر کے روز وفات پائی۔ آگے جا کر علامہ ابن کثیر یکم ربیع الاول کا ایک اور قول نقل کرتے ہیں لیکن وہ ابو نعیم الفضل بن دکین کا اختیار کردہ ہے، چناں چہ ابن کثیر تحریر فرماتے ہیں۔ وقال ابو نعیم الفضل بن دکین: توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین مستھل ربیع الاول․(ایضاً) ترجمہ :۔ ابو نعیم فضل بن دکین فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پیر کے روز یکم ربیع الاول کوو فات پائی۔دوسرا قول : دو ربیع الاول بعض روایات میں آ تا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ربیع الاول کی دو تاریخ کو ہوا ، اس روایت کو علامہ و اقدی کے حوالے سے ابن کثیر نے کچھ یوں ذکر کیا ہے۔ وقال الوا قدی․․․․․․․․:توفی یوم الاثنین للیلتین خلتا من ربیع الاول․(البدایہ والنھایہ ، 359/5) ترجمہ :۔ واقدی کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پیر کے روز دو ربیع الاول کو وفات پائی۔ اسی طرح اس قول کی ایک روایت امام المحد ثین ابی بکر احمد بن الحسین بن علی بیہقی سے منقول ہے، جسے البدایہ والنھایہ میں اس طرح سے ذکر کیا گیا۔ وقال البیہقی․․․․․․․:کانت وفاتہ علیہ الصلاة والسلام یوم الاثنین للیلتین خلتا من شھر ربیع الاول․ ترجمہ:۔ بیہقی کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات پیر کے روز دو ربیع الاول کو واقع ہوئی۔ اسی قول کو سعد بن ابراہیم الزھری ابن عساکر اور واقدی سے نقل کرتے ہیں۔ توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین للیلتین خلتا من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ ، 360/5) ترجمہ:۔ دو ربیع الاول کو آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا۔تیسرا قول : دس ربیع الاول اس قول کی روایت کو یوسف بن عمر عبدالله بن عباس سے نقل کرتے ہیں۔ وروی یوسف بن عمر․․․․․مات یوم الاثنین لعشر خلون من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ، 360/5) ترجمہ :۔ یوسف بن عمر سے روایت ہے کہ پیر روز دس ربیع الاول کو آپ کا وصال ہوا۔ اس قول کے متعلق یہی روایت ملی ہے۔چوتھا قول : بارہ ربیع الاول اکثرعلماء اسی قول کو نقل کرتے ہیں، چناں چہ اس قول کی ایک روایت علامہ و اقدی حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ سے نقل فرماتے ہیں ورواہ الوقدی عن ابن عباس وعائشہ رضی الله عنہا اثنتی عشرة لیلة خلت من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ ،361/5) ترجمہ :۔ واقدی بیان کرتے ہیں حضرت ابن عباس اور حضرت عائشہ سے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوا۔ ایک اور روایت کو علامہ واقدی محمد بن سعد کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں ،جسے البدایہ والنھایہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ بارہ تاریخ کے قول کو محمد بن اسحاق نے بھی اختیار فرمایا ہے، چناں چہ ان کے قول کو ابن کثیر کچھ اس طرح سے ذکر فرماتے ہیں۔ وقال محمد بن اسحاق: توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم لأثنتی عشر لیلة خلت من شھر ربیع الاول․ (البدایة والنھایة، 359/5) ترجمہ :۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے بارہ ربیع الاول کو وفات پائی۔ اسی طرح اسی قول کو حافظ ابن اثیر اختیار فرماتے ہیں، چناں چہ وہ کچھ اس طرح سے ” الکامل فی التاریخ میں رقم طراز ہیں۔ وکان موتہ فی یوم الاثنین لاثنی عشرة لیلة خلت من ربیع الاول․ (الکامل فی التاریخ ، 299/2،دار المعر فة بیروت) اسی طرح بارہ تاریخ کے قول کو متاخرین علماء بھی اختیار فرماتے ہیں، چناں چہ مشہورسیرت نگار شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی ،، سیرت مصطفی صلی الله علیہ وسلم میں فرماتے ہیں ”یہ جاں گداز اور روح فرسا واقعہ جس نے دنیا کو نبوت ورسالت کے فیوض و برکات اور وحی ربانی کے انو ار و تجلیات سے محروم کر دیا، بروز دو شنبہ دو پہر کے وقت 12، ربیع الاول کو پیش آیا“ بارہ تاریخ کے قول پر علامہ ابو القاسم السھیلی کو اعتراض ہوتا ہے کہ از روئے حساب اگر دیکھا جائے تو بارہ تاریخ پیر کے دن نہیں پڑتی، چناں چہ اسی بات کو البدایہ والنھایة میں اس طرح سے ذکر کیا گیا ہے ۔ قال ابو القاسم السھیلی فی ”الروض“ ما مضمونہ: لا یتصور وقوع وفاتہ علیہ الصلاة والسلام یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول من سنة احدی عشر، وذلک لانہ علیہ الصلاة والسلام وقف فی حجّة الوداع سنة عشر یوم الجمعة، فکان اول ذی الحجة یوم الخمیس، فعلی تقدیر ان تحسب الشھور تامة او ناقصة او بعضھاتامة وبعضھا ناقصة، لا یتصور ان یکون یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول ․(البدایة والنھایہ، 361/5) لیکن اس اشکال کو علامہ ابن کثیر نے اختلاف مطالع کی وجہ سے رد کر دیا ہے، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔ ان یکون اھل مکة راوا ھلال ذی الحجة لیلة الخمیس، واما اھل المدینة فلم یروہ الا لیلة الجمعة، ویوید ھذا قول عائشة وغیرھا، خرج رسول الله صلی الله علیہ وسلم لخمس بقین من ذی القعدة․ یعنی من المدینة․ الی حجة الوداع و یتعین بما ذکرناہ انہ خرج یوم السبت، ولیس کما زعم ابن حزم انہ خرج یوم الخمیس، لانہ قد بقی اکثر من خمس بلاشک، ولا جائز ان یکون خرج یوم الجمعة؛ لان انساً قال: صلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم الظہر بالمدینة اربعاً، والعصر بذی الحلیفة رکعتین، فتعین انہ خرج یوم السبت لخمس بقین، فعلی ھذا انما رای اھل المدینة ھلال ذی الحجة لیلة الجمعة، واذا کان اول ذی الحجة عند اھل المدینة الجمعة، وحسبت الشھور بعدہ کو امل، یکون اول ربیع الاول یوم الخمیس، فیکون ثانی عشرة یوم الاثنین․(البدایہ والنھایہ، 361/5) لہٰذا معلوم ہوا کہ بارہ تاریخ وفات کی متعین ہے، اس تاریخ کی روایات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور ان کو روایت کرنے والے کبار علماء ہیں، اسی وجہ سے اسی کو ترجیح حاصل ہو گی۔ ( والله اعلم ) |
جشنِ عید میلاد النبی ﷺ منع آخر کیوں؟
ولادتِ مبارکہ ۹یا ۱۲ – تاریخی و شرعی حیثیت
عید میلاد النبی یا جشن میلا دالنبی کے نام سے منعقد ہو نے والے پرو گراموں میں لوگ اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہوں نے ساز،باجے اور موسیقی کے ناپاک اور شیطانی عمل کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے ،فحش گانوں کے لہجہ اور انداز میں نعت خوانی کے ساتھ قوالی وغیرہ کے عنوان سے موسیقی کے آلات بھی استعمال ہو ناشروع ہو گئے ہیں، ان نادانوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ آقا ئے نام دار، حضور صلی الله علیہ وسلم تو گانا اور موسیقی سے سختی کے ساتھ منع فرمائیں اور خود نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے نام پر منعقد ہو نے والی مجلسوں میں موسیقی کو جگہ دے کر آپ کے حکم کی کھلی مخالفت کی جائے ،بلکہ موسیقی کو روح کی غذا قرار دیا جائے۔( نعوذ بالله تعالیٰ )
الله تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے :﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَ ہَا ہُزُواً أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ﴾ ( لقمان:6) ” بعض ایسے آدمی بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں تاکہ بغیر سمجھے الله کے راستے سے گمراہ کریں اور اس کا مذاق بنائیں ، ایسے لوگوں کیلیے ذلت کا عذاب ہے۔“ اس آیت میں ” لہوالحدیث “ (کھیل کی باتوں ) سے مراد گانے بجانے کے آلات ہیں ، کئی صحابہ کرام ، تابعین عظام اور مفسرین کرام سے اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے ۔ اور حضرت عائشہ سے مروی ہے: ” قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:ان الله عز وجل حرم القینة وبیعھا وثمنھا وتعلیمھا والاستماع الیھا، ثم قرأ ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ﴾․ ” رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے گانے والی ( عورت اور آلات ) کو حرام کیا ہے ، اس کے بیچنے کو بھی اور اس کی قیمت کو بھی اور اسے گانا سکھانے کو بھی اور اس کا گانا سننے کو بھی ۔ پھر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ․“ پہلے زمانے میں گانا صرف انسان کی زبان سے ہو تا تھا اور آج گانے کو مختلف چیزوں ( مثلا کیسٹ ،سی ڈی ،موبائل وغیرہ تمام الیکٹرونک آلات ) میں ریکارڈ کر لیا جاتا ہے، جن چیزوں میں گانا ریکارڈ کر لیا جائے ، وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں اور ان کی خریدوفروخت اور ان سے گانا سننا گناہ ہے ۔ اور حضرت عبدالله بن مسعود سورہ لقمان کی مذکورہ آیت کے بارے میں فرماتے ہیں ” ہو والله،الغناء “ ( مستدرک حاکم :رقم الحدیث3542 ) ” قسم الله کی وہ ( یعنی لہو الحدیث ) گانا ہے ۔“ اور حضرت ابن عباس اور حضرت مجاہد اور حضرت عکرمہ وغیرہ سے بھی مذکورہ آیت کی یہی تفسیر منقول ہے ۔ احادیث مبارکہ: حضرت عبدالرحمن بن غنم سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریر والخمروالمعازف․ “( بخاری : رقم الحدیث 5590) ”یقینا میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو زنا ، ریشم اور شراب اور آلات موسیقی کو ( خوش نما تعبیروں سے ، جیسے آرٹ کلچر ، ثقافت وغیرہ ) حلال کر لیں گے۔“ جو لوگ نعوذ بالله موسیقی کو روح کی غذا قرار دے رہے ہیں اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کے نام پر اس کو کار خیر سمجھ کر اختیا ر کر ر ہے ہیں وہ بھی اس حدیث کی مذکورہ وعید میں داخل ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا! ” یمسخ قوم من امتی فی آخر الزمان قردة وخنازیر، قیل یا رسول الله ویشھد ون ان لا الہ الا الله وانک رسول الله صلی الله علیہ وسلم ویصومون؟ قال نعم، قیل: فما بالھم یا رسول الله،؟ قال یتخذ ون المعازف والقینات والدفوف ویشربون الاشربة، فباتوا علی شربھم ولھوھم، فاصبحوا قد مسخوا قردة وخنازیر․ “ ( حلیة الاولیاء لابی نعیم الاصبھانی،رقم الحدیث 8) ”آخری زمانے میں میری امت کے کچھ لوگوں کو بندراور خنزیر کی شکل سے مسخ کردیا جائے گا ، کہا گیا کہ اے الله کے رسول ! وہ لوگ الله کی توحید اور آپ کے رسول ہو نے کی گواہی دیں گے اور روزے رکھیں گے ؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ جی ہا ں ۔ عرض کیاگیاکہ الله کے رسول ! ان کے کیا اعمال ہو ں گے ؟ رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ گانے بجانے کے آلات اختیار کریں گے اور گانے والی ( عورتیں اور چیزیں ) رکھیں گے اور ڈھول اور دف رکھیں گے اور شرابیں پییں گے تو وہ شراب پی کر اور لہو ولعب کی حالت میں رات گزاریں گے ، پھر اس حال میں صبح کریں گے کہ ان کو بندر اور خنزیر کی شکلوں میں مسخ کردیا گیا ہو گا۔“ موسیقی کو جائز ،بلکہ ثواب سمجھنے والے نادان سوچ لیں کہ وہ کہیں الله کی پکڑ میں نہ آجائیں اور بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ نہ کردیے جائیں ۔ اس حدیث سے تمام آلات موسیقی کا حرام ہونا ظاہر ہو ا ۔ حضرت جابر کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ” نھیت عن صوتین احمقین فاجرین، صوت عند نغمة لھو ولعب ومزامیر الشیطان، وصوت عند مصیبة لطم وجوہ وشق جیوب․“ ( مستدرک حاکم : رقم الحدیث 6825) میں نے دو احمق اور فاجر ( گناہ والی ) آوازوں سے منع کیا ہے ، ایک نغمہ کے وقت لہوو لعب کی اور شیطانی بانسریوں سے اور مصیبت کے وقت کی آوازسے اپنے چہرے کو پیٹنے سے اور اپنے کپڑے پھاڑ نے سے۔ حضرت نافع کی روایت میں ہے ! ” ان ابن عمر سمع صوت زمارة راع، فوضع اصبعیہ فی اذنیہ، وعدل راحلتہ عن الطریق، وہو یقول یانافع اتسمع؟ فاقول نعم، فیمضی حتیٰ قلت: لافوضع یدیہ واعاد راحلتہ الی الطریق، وقال رأیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم، وسمع صوت زمارة راع فصنع مثل ہذا․“ ( مسند احمد : رقم الحدیث 4535) ”حضرت ابن عمر نے ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سنی تو اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں رکھ لیا اور اپنی سواری کو راستے سے ہٹالیا ( آواز سے دور ہونے کی غرض سے راستے سے ہٹ کر چلتے رہے ) اور یہ کہتے رہے کہ اے نافع کیا آپ کو آواز آرہی ہے ؟ میں نے کہا کہ جی ہا ں ، آپ نے یہ عمل برابر جاری رکھا ، یہاں تک کہ میں نے کہا کہ اب آواز نہیں آرہی تو آپ نے اپنے ہاتھ ہٹائے اور اپنی سواری کو راستے پر واپس لے آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سننے کے وقت اسی طرح کر تے ہو ئے دیکھا تھا ۔“ غور فرمائیے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اورآپ کی اتباع میں صحابہ کرام تو ایک بانسری کی آواز آنے پر بھی کان بند فرمالیا کرتے تھے ۔اور آج آپ کے نام لیوا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے میلاد کے نام پر ہی کتنے موسیقی کے آلات استعمال کر تے ہیں ؟! حضرت عبدالله بن عمر و بن عاص سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ! ”ان ربی حرم علي الخمر والمیسر والکوبة والقنین․ والکوبة الطبل “ ( السنن الکبریٰ للبیھقی : رقم الحدیث 20994) ”بے شک میرے رب نے میرے اوپر شراب کو اور جوئے کو اور کوبہ کو حرام کیا ہے اور کو بہ سے مراد طبلہ ہے ۔“ حضرت عائشہ کے بارے میں یہ واقعہ مروی ہے! ”اذ دخل علیہا بجاریة وعلیہا جلاجل یصوتن فقالت لا تد خلنھا علي الا ان تقطعواجلاجلھا وقالت سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم:یقول لا تدخل الملائکة بیتا فیہ جرس․“ (سنن ابی داوٴد: رقم الحدیث 4231) ” حضرت عائشہ کے پاس ایک بچی لا ئی گئی ، جس نے آواز والے گھنگھرو پہنے ہو ئے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ اسے میرے پاس نہ لاوٴ ، جب تک کہ اس کے گھنگھرونہ کا ٹ دو ۔اور فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہو تے ،جس میں گھنٹی ہو ۔“ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ! ” الدف حرام والمعازف حرام، والکوبة حرام، والمزمار حرام “․ ( السنن الکبری للبیھقی: رقم الحدیث 21000) ” دَف حرام ہے اور گانے بجانے کے آلات ( موسیقی ) حرام ہیں اور طبلہ حرام ہے اور بانسری حرام ہے۔“ حضرت عائشہ کے بارے میں ایک تقریب کے حوالے سے یہ قصہ مذکور ہے کہ ! ” فمرت عائشة فی البیت، فرأتہ یتغنی، ویحرک رأسہ طربا، وکان ذاشعر کثیر، فقالت: اُف، شیطان اخرجوہ، اخرجوہ“ ( الادب المفرد للبخاری : رقم الحدیث 1247) ”پس حضرت عائشہ اس گھر میں سے گزریں تو ا س آدمی کو دیکھا کہ وہ گانا گا رہا ہے اور اپنے سر کو مستی کے ساتھ حرکت دے رہا ہے اور اس کے بڑے بڑے بال تھے، تو سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ! اُ ف یہ شیطان ہے، اسے باہر نکالو ، باہر نکالو۔“ آج بھی قوال اور گوئیے بڑے بڑے بال رکھتے ہیں ،ڈاڑھیاں منڈاتے ہیں ،نشہ کے عادی ہو تے ہیں اور دوران قوالی اپنے سر مستی سے ہلاتے ہیں ،جو کہ سیدہ عائشہ کے فرمان کے مطابق شیطان ہیں ۔ حضرت شریح فرماتے ہیں کہ ” ان الملائکة لاید خلون بیتاً فیہ دف “ ( مصنف ابن ابی شیبہ : رقم الحدیث 26993) ” فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہو تے جس میں دف ہو۔“ ٍ حضرت ابراہیم نجعی فرماتے ہیں کہ ” کان اصحاب عبدالله یستقبلون الجواری فی الازفة، معھن الدفوف، فیشقونھا․“( مصنف ابن ابی شیبہ : رقم الحدیث 26995) ”حضرت عبدالله بن مسعود کے شاگرد وں کو ( آتے جاتے ہوئے) راستوں میں ( چھوٹی ) بچیوں کا سامنا ہو تا تھا ، جن کے ساتھ دفیں (طبلے وڈھولکیاں ) ہوا کرتی تھیں ، تو وہ ان کو پھاڑ دیا کرتے تھے۔“ ( تلک عشرة کاملة) فائدہ :”معازف “عربی زبان میں گانے بجانے کے تمام آلات کو کہا جاتا ہے ، جس میں ڈھول ، بانسری وغیرہ سب داخل ہے ۔اور” دف“اسے کہا جاتاہے کہ جس کے صرف ایک طرف بجانے کی جگہ ہو تی ہے ۔اور ڈھول اسے کہا جاتا ہے جو دونوں طرف سے بجا یا جاتا ہے ۔اور ”کوبہ“ طبلے کو کہتے ہیں۔ ملحوظ رہنا چاہیے کہ مندرجہ بالا احادیث میں واضح طور پر گانے بجانے کے آلات کا ذکر ہے، جس سے واضح ہو تا ہے کہ اگر خالی گانے بجانے کے آلات کو بھی استعمال کیا جائے اور اس کے ساتھ گانے والے کسی انسان کی آواز شامل نہ ہو تب بھی یہ ناجائز وحرام ہے ۔نیز گانے بجانے کے ناجائز ہونے پر ائمہ اربعہ ( امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، امام مالک ، امام احمد بن حنبل ) کا اجماع ہے ۔ دف سے متعلق ایک اشکال اور اس کا حل بعض روایات میں نکاح کے موقع پر دف کے ذریعے سے اعلان کی اجازت ملتی ہے ۔تو بعض لوگو ں کو اس سے شبہ پیدا ہوتا ہے، مگر یاد رہے کہ… اول تو گانے بجانے کے آلات کے ناجائز اور ڈھول اور دَف کے گانے بجانے کے آلات میں داخل ہو نے اور خود دَ ف کے ناجائز ہو نے پر احادیث وروایات موجود ہیں، جو ہم نے نقل کر دی ہیں۔ اور پھر جائز وناجائز میں تعارض ہو نے کی صورت میں ناجائز کو ترجیح حاصل ہو اکر تی ہے ۔ دوسرے دَ ف کے جائز ہو نے کے سلسلہ میں بعض روایات ضعیف بھی ہیں ۔ اور آخری درجے میں اگر دف کا جائز ہونا بھی تسلیم کر لیا جائے تو وہ بھی کئی شرائط کے ساتھ مقید تھا ۔ مثلاً : ایک شرط یہ تھی کہ کہ دف سادی ہو ، اس کے ساتھ گھنگھرو اور گانے بجانے کا کوئی دوسرا آلہ استعمال نہ ہو ( جیساکہ پہلے زمانے میں سادہ دفیں ہو اکر تی تھیں اور آج کل معاملہ اس کے برعکس ہے ۔) اور دوسری شرط یہ تھی کہ دف بجانے کا انداز سادہ ہو، یعنی اس میں کوئی خاص طرز اور دھن نہ لگائی جا ئے، ( جیساکہ مشاق لوگ خاص طرز اور دھن کے ساتھ بجاتے ہیں ) ،بلکہ بغیر کسی طرزاور لَے کے اس کو چند مرتبہ بجالیا جائے ، جس کو پیٹنا اور مارنا کہا جاتا ہے ۔ اور تیسری یہ کہ اس کا نکاح وغیرہ کے موقع پر جائز ہو نا بھی خواتین کے ساتھ مخصوص تھا اور اس سے مقصود بھی ( نکاح وغیرہ کا ) اعلان تھا ، نہ کہ بذات خود اس کی آواز کا سننا، سنانا یا لطف انداز ہو نا ۔ اور آج کل پہلے زمانے کے مقابلے میں اعلان وشہرت کے دوسرے بے شمار جائز ذرائع موجود ہیں ۔ اس لیے اس دف کی بھی چنداں ضرورت نہیں ۔ اور جب اس سے مقصود اعلان تھا تو یہ بھی ضروری تھا کہ جتنی مقدار سے اعلان ہو جائے ، اس پر اکتفا کیا جائے ، نہ یہ کہ نکاح وغیرہ کے اعلان وعنوان سے گھنٹو ں تک دف اور ڈھول بجایا جائے ۔ اور چوتھی شرط یہ تھی کہ اس کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر (حمدونعت وغیرہ ) شامل نہ ہو ۔ اور ایک اہم شرط یہ بھی تھی کہ یہ کسی ناجائز چیز کا ذریعہ نہ نبے ۔ اور آج کل چوں کہ گانے بجانے کا استعمال اور جہالت عام ہے، مذکورہ بالا شرائط کی رعایت بھی عام طور پر نہیں ہے ، اس لیے موجودہ حالا ت میں محققین نے اس کو مطلقاً ممنوع قرار دے دیا ہے ، چوں کہ جب کسی مباح وجائز، بلکہ مستحب عمل میں بھی مفاسد پیدا ہو جائیں ، تو وہ عمل جائز ومستحب سے نکل کر، ناجائز کے زمرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ ( امدادالفتاویٰ: 279/2۔ اسلام اور موسیقی :215) بہر حال موسیقی اور گانے بجانے کے آلات کا استعال ویسے ہی گناہ ہے اور میلا النبی کے نام سے ذکر ونعت کے وقت اس طرح کے آلات کو استعمال کر نا اور بھی سنگین گناہ ہے ۔ |
No comments:
Post a Comment