Monday, 5 December 2016

میلاد النبی ﷺ کے متعلق عرب وعجم کے جمہور علماء کا موقف

مِیلاد کے معنیٰ:
(‌ميلاد) الرجل اسم الوقت الذي ولد فيه. (والمولد) الموضع الذي ولد فيه۔
ترجمہ:
(پیدائش) کسی آدمی کے اس وقت کا نام ہے جس میں وہ پیدا ہوا۔ (اور مولد) وہ جگہ جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔
[مختار الصحاح-امام الرازي اللغوي(م666ھ): صفحہ 345]



میلاد النبی ﷺ کیا ہے؟
میلاد النبی ﷺ یعنی پیغمبر کی پیدائش کے وقت(حالات) کا تذکرہ۔
حوالہ
قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ وُلِدْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَأَلَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قُبَاثَ بْنَ أَشْيَمَ أَخَا بَنِي يَعْمَرَ بْنِ لَيْثٍ:‏‏‏‏ أَأَنْتَ أَكْبَرُ أَمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْبَرُ مِنِّي، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا أَقْدَمُ مِنْهُ فِي الْمِيلَادِ، ‏‏‏‏‏‏وُلِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَفَعَتْ بِي أُمِّي عَلَى الْمَوْضِعِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَرَأَيْتُ خَذْقَ الْفِيلِ أَخْضَرَ مُحِيلًا۔
ترجمہ:
قیس بن مخرمہ ؓ کہتے ہیں کہ میں اور رسول اللہ ﷺ دونوں واقعہ فیل (1) کے سال پیدا ہوئے، وہ کہتے ہیں: عثمان بن عفان نے قباث بن اشیم (جو قبیلہ بنی یعمر بن لیث کے ایک فرد ہیں) سے پوچھا کہ آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ ﷺ ؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ مجھ سے بڑے ہیں اور پیدائش میں، میں آپ سے پہلے ہوں (2)، رسول اللہ ﷺ ہاتھی والے سال میں پیدا ہوئے، میری ماں مجھے اس جگہ پر لے گئیں (جہاں ابرہہ کے ہاتھیوں پر پرندوں نے کنکریاں برسائی تھیں) تو میں نے دیکھا کہ ہاتھیوں کی لید بدلی ہوئی ہے اور سبز رنگ کی ہوگئی ہے۔
[سنن الترمذی: مناقب کا بیان - نبی اکرم ﷺ کی پیدائش کے بارے میں - حدیث نمبر 3619]
نوٹ:
(1)یعنی جس سال ابرہہ اپنے ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ ڈھانے آیا تھا۔
(2)کیا ہی مہذب انداز ہے کہ بےادبی کا لفظ بھی استعمال نہ ہو اور مدعا بھی بیان ہوجائے۔
(3)نبی اکرم ﷺ کی ولادت بار بار یا ہر سال نہیں ہوا کرتی تھی کہ اسے ہر سال منایا گیا ہو۔
(4)ذکرِ ولادت کبھی بھی کیا جاسکتا ہے، اس کیلئے کسی خاص دن یا تاریخ کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا۔

امام ابن قیمؒ(م751ھ)کہتے ہیں:
ہاتھیوں والے عیسائی اہلِ کتاب تھے۔ ان کا دین اس وقت کے اہلِ مکہ سے بہتر تھا، اس لیے کہ اہلِ مکہ بتوں کے پجاری تھے۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کے مقابلے میں ان کی ایسی بے مثال مدد فرمائی جو انسانوں کے بس کی بات نہیں تھی۔ یہ واقعہ اس شہر سے مبعوث ہونے والے نبی کے ظہور کی نشانی اور اس محترم شہر کی زبردست عظمت وفضیلت کے اظہار کا ذریعہ بن گیا۔
[المواهب اللدنية:1 / 139 - 140 ، زاد المعاد:1 /76]













ذکرِ ولادتِ رسول ﷺ:

سیدنا ابوامامہ باہلیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رات امي كانه خرج منها نور اضاءت منه قصور الشام.
میری ماں نے دیکھا کہ ایک نور ان سے خارج ہوا، جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا۔“
[سلسله احاديث صحيحه، حدیث: 3172(1925)]




خالد بن معدان، اصحابِ رسول سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہمیں اپنے بارے میں بتلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انا دعوة ابي إبراهيم، وبشرى عيسى عليهما السلام، ورات امي حين حملت بي انه خرج منها نور اضاءت له قصور الشام، واسترضعت في بني سعد بن بكر، فبينا انا في بهم لنا اتاني رجلان عليهما ثياب بيض، معهما طست من ذهب مملوء ثلجا، فاضجعاني، فشقا بطني، ثم استخرجا قلبي فشقاه فاخرجا منه علقة سوداء فالقياها، ثم غسلا قلبي وبطني بذلك الثلج، حتى إذا انقياه رداه كما كان، ثم قال احدهما لصاحبه: زنه بعشرة من امته. فوزنني بعشرة، فوزنتهم، ثم قال: زنه بمائة من امته. فوزنني بمائة فوزنتهم، ثم قال: زنه بالف من امته، فوزنني بالف فوزنتهم، فقال: دعه عنك فلو وزنته بامته لوزنهم".
ترجمہ:
”ہاں، میں اپنے باپ ابراہیم ‏‏‏‏علیہ السلام کی دعا اور عیسی علیہ السلام کی بشارت ہوں، جب میری ماں کو میرا حمل ہوا تو انہوں نے دیکھا کہ ایک نور ان سے نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے، مجھے بنو سعد بن بکر قبیلے میں دودھ پلایا گیا۔ میں وہاں بکریاں چرا رہا تھا، میرے پاس دو آدمی آئے، انہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے، ان کے پاس برف سے بھری ہوئی سونے کی پلیٹ تھی، انھوں نے مجھے لٹا دیا، میرے پیٹ کو چاک کیا، پھر دل کو نکالا، اس کو پھاڑا اور اس سے سیاہ رنگ کا بستہ خون کا ٹکڑا نکال کر پھینک دیا، پھر میرے دل اور پیٹ کو برف سے دھویا، جب انھیں صاف کر لیا تو اپنی اپنی جگہ پر لوٹا دیا۔ پھر ان میں سے ایک نے کہا: ان کی امت کے دس افراد سے ان کا وزن کرو۔ چنانچہ انہوں نے دس افراد سے میرا وزن کیا، میں بھاری رہا۔ پھر اس نے کہا: ان کی امت کے سو افراد سے ان کا وزن کرو۔ سو اس نے سو (‏‏‏‏۱۰۰) افراد سے میرا وزن کیا، میں وزنی رہا۔ پھر اس نے کہا: ہزار آدمیوں سے ان کا وزن کرو، چنانچہ اس نے ہزار افراد سے میرا وزن کیا نتیجتاً میں بھاری رہا (‏‏‏‏بلآخر) اس نے کہا: چھوڑیئے، اگر تم ان کی پوری امت سے ان کا وزن کرو تو پھر بھی یہ وزن میں غالب رہیں گے۔“
[سلسله احاديث صحيحه: 3174(1545)]






جب نبی ﷺ پیدا ہوئے تو آپ نے اپنے ہاتھ زمین پر رکھ لیے، اور اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھالیا۔
[السیرۃ-ابن اسحاق:1/102]






نبی ﷺ نے بعثت(نبوت) کے بعد اپنی طرف سے عقیقہ کیا۔
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم عقَّ عنِ نفسِهِ بعدَ ما بُعِثَ نبيًّا.
[السلسلة الصحيحة: 2726]


مجھے جامع کلمات دیکر بھیجا گیا ہے۔
[صحیح بخاری:2977]
میں ایسا کیوں نہ ہوتا جبکہ میں خود قریش سے ہوں اور میری رضاعت بنو سعد میں ہوئی۔
[الروض الانف:1/257]




حضرت عتبہ بن عبد سلمیؓ، جو اصحاب رسول میں سے تھے، نے ہمیں بیان کیا کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے نبوی معاملے کی ابتداء کیسے ہوئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری دایہ کا تعلق بنو سعد بن بکر قبیلے سے تھا، میں اور اس کا بیٹا بھیڑ بکریاں چرانے کے لیے باہر چلےگئے اور اپنے ساتھ زاد راہ نہ لیا۔ میں نے کہا: میرے بھائی! جاؤ اور اپنی ماں سے اشیاء خوردنی لے آؤ۔ پس میرا بھائی چلا گیا اور میں بکریوں کے پاس ٹھہرا رہا۔ (‏‏‏‏میں کیا دیکھتا ہوں کہ) گدھ کی طرح کے دو سفید پرندے متوجہ ہوئے، ایک نے دوسرے سے کہا: کیا یہ آدمی وہی ہے؟ دوسرے نے کہا: جی ہاں۔ پھر وہ لپکتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوئے، مجھے پکڑا اور گدّی کے بل لٹا دیا، میرا پیٹ چاک کیا، میرا دل نکالا اور اسے چیرا دیا، اس سے گاڑھے خون کے دو سیاہ ٹکڑے نکالے۔ پھر ایک نے دوسر ے سے کہا: برف والا پانی لاؤ۔ پس اس نے اس پانی سے میرا پبٹ دھویا، پھر کہا: اولوں والا پانی لاؤ۔ اس سے اس نے میرا دل دھویا اور پھر کہا: سکینت لاؤ۔ اس (‏‏‏‏اطمنان و سکون) کو میرے دل میں چھڑک دیا۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا: ٹانکے لگا دو۔ پس اس نے ٹانکے لگا دیے اور اس پر مہر نبوت ثبت کر دی۔ پھر ایک نے دوسرے سے کہا: اس (‏‏‏‏محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو (‏‏‏‏ترازو کے) ایک پلڑے میں اور دوسرے میں اس کی امت کے ہزار افراد رکھو۔‏‏‏‏“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(‏‏‏‏جب انہوں نے وزن کرنے کے لیے ترازو اٹھایا تو) میں نے دیکھا کہ وہ ہزار آدمی (‏‏‏‏میرے مقابلے میں کم وزن ہونے کی وجہ سے) اتنے اوپر اٹھ گئے کہ مجھے یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ مجھ پر گر پڑیں۔ پھر اس نے کہا: اگر ان کا وزن ان کی پوری امت سے کیا جائے تو یہ (‏‏‏‏ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) وزنی ثابت ہوں گے، پھر وہ چلےگئے اور مجھے چھوڑ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس وقت میں بہت زیادہ گھبرا گیا اپنی دایہ کے پاس پہنچا اور سارا واقعہ اسے سنا دیا، اسے یہ اندیشہ ہونے لگا کہ کہیں آپ کی عقل میں کوئی فتور نہ آ گیا ہو۔ اس نے کہا: میں تجھے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں دیتی ہوں۔ پھر اس نے اونٹ پر کجاوہ رکھا، مجھے کجاوے پر بٹھایا اور خود میرے پیچھے سوار ہو گئی اور مجھے میری ماں (‏‏‏‏آمنہ) کے پاس پہنچا دیا اور میری ماں کو کہا: میں نے اپنی امانت اور ذمہ داری ادا کر دی ہے، پھر اسے وہ سارا واقعہ سنا دیا، جو مجھے پیش آیا تھا۔ لیکن (‏‏‏‏یہ ماجرا) میری ماں کو نہ گھبرا سکا، بلکہ انہوں نے کہا: جب یہ بچہ (‏‏‏‏میرے بطن سے) پیدا ہوا تھا تو میں نے ایک نور دیکھا تھا، جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے تھے۔
[سلسله احاديث صحيحه: المبتدا والانبياء وعجائب المخلوقات. حدیث: 3789(373)]



میلاد کی جگہ اور دن میں اتفاق:
آپ ﷺ کی ولادت کے متعلق اتفاق ہے کہ وہ ’’مکہ مکرمہ میں عام الفیل(ہاتھیوں والے سال)‘‘ میں ہوئی۔
[سنن الترمذی:3619]
اور ’’پیر کے دن‘‘ ہوئی۔
[صحیح مسلم:1162(2747)، سنن ابوداؤد:2426]

لیکن تاریخ کے متعلق زبردست اختلاف ہے۔

ولادت کے منقول مہینہ میں اختلاف:
بعض کہتے ہیں کہ: آپ رمضان میں پیدا ہوئے۔
بعض کہتے ہیں کہ: آپ محرم میں پیدا ہوئے۔
بعض کہتے ہیں کہ: آپ صفر میں پیدا ہوئے۔
جمہور علماء کے نزدیک: آپ رمضان میں پیدا ہوئے۔
امام ابن جوزیؒ کہتے ہیں کہ: ثقہ(قابلِ اعتماد) علماء کا اسی مہینے پر اتفاق ہے۔
[تلقيح فهوم أهل الأثر: ص7، المواهب اللدنية:1 /140]

تاریخِ ولادت کا اختلافات:
2 ربیع الاول
8 ربیع الاول
10 ربیع الاول
12 ربیع الاول
[السيرة النبوية-امام ابن کثیر(م774ھ): جلد1 / صفحہ 199]
9 ربیع الاول
17 ربیع الاول
18 ربیع الاول
[سبل الهدى والرشاد:1/334]

لیکن صحیح بات یہی ہے کہ آپ ﷺ 9 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571ع کو پیدا ہوئے۔
[المواهب اللدنية:1 /140-141، البداية والنهاية-امام ابن کثیر:2/242]

جب تاریخ میں ہی اختلاف ہے تو 12 ربیع الاول ہی کو ولادت کا دن ’’ماننے‘‘ اور ’’منانے‘‘ کو مقرر کرنا ہماری طرف سے اضافہ، ایجاد، نئی بات(بدعت) ہوجاتی ہے۔

میلاد النبی ﷺ کو ماننے اور منانے میں فرق:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا شان کی (۱)عظمت کرنا، آپ ﷺ کی (۲)اطاعت یعنی حکموں کو ماننا، اور آپ ﷺ کی (۳)اتباع یعنی نقش قدم کی پیروی کرنا، اور آپ ﷺسے (۴)محبت کرنا ہر مسلمان کے لئے لازم و ضروری ہے۔ محبت ہی کا تقاضہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت، حیات طیبہ اور سیرت پاک کا ذکر کیا جائے اور آپ کے اخلاق و شمائل، عادات و اطوار کا بیان مستند کتابوں سے پڑ ھاجائے یا سنا جائے۔ یہ محبت کا تقاضہ بھی ہے اور محبت میں اضافہ کا سبب بھی اور اجرو ثواب کا ذریعہ بھی ہے۔


لیکن میلاد مروجہ میں (۱) ولادت کے مقصد وپیغام کے بجاۓ صرف ولادت کے ذکر ہی کو ضروری(کافی) سمجھتے ہیں، اور (۲)بے سند روایات اور قصے بیان کرتے ہیں، (۳)حاضرین مجلس کے لئے کھڑے ہوکر ولادت کے بیان کو سننا ضروری سمجھتے ہیں، اور (۴)اس کے لئے دن تاریخ کا تعین کرکے اسی خاص تاریخ اور دن ہی ضروری سمجھا جاتا ہے اور (۵)اسی کو سال بھر کے لئے کافی سمجھ لیا جاتا ہے، (۶)عورتوں کا بن سنور کر محفلوں میں شریک ہونا، (۷)محفل میلاد میں شریک ہونے کو فرائض و واجبات سے زیادہ اہم اور باعث برکت سمجھنا، یہ اور اسی طرح کی دیگر بہت سی خرابیوں کی بنا پر یہ بدعت ہے۔ جس کا ثبوت صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ سے نہیں ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں اس کا آغاز ابو سعید نظر الدین(لقب: مظفر الدین کوکبوری) نامی بادشاہ نے کیا تھا لیکن ہر دور میں علماء نے لوگوں کو اس بدعت سے بچنے کی تلقین کی ہے۔
نیچے تفصیلی دلائل پیش ہوں گے۔ 







میلاد النبی ﷺ پر خوشیاں منانا کیسا ہے؟ اور اس پر اعتراض کرنے والے کیوں اعتراض کرتے ہیں؟


میلاد النبی ﷺ کے ’’جلوس‘‘ نہ ضروریاتِ دین میں سے ہے، اور نہ ہی ضروریاتِ اہل السنۃ والجماعۃ مین سے ہے۔


میلاد اور سیرت میں فرق:
میلاد اور سیرت دونوں اسلامی اصطلاحات ہیں جو نبی کریم ﷺ کی زندگی سے متعلق ہیں، لیکن ان میں واضح فرق ہے:

میلاد (ولادت)

· میلاد عربی زبان کے لفظ "ولادت" سے ماخوذ ہے جس کا معنی "پیدائش" ہے۔
· اس سے مراد خاص طور پر نبی کریم ﷺ کی پیدائش کا واقعہ اور اس سے منسلک واقعات ہیں۔
· میلاد میں عام طور پر آپ ﷺ کی ولادت، بچپن، اور ابتدائی زندگی کے چند واقعات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔

سیرت (سیرت النبی)

· سیرت کا لفظ "سیرۃ" سے ماخوذ ہے جس کا معنیٰ "طریقہ زندگی" یا "راستہ" ہے۔
· سیرت النبی سے مراد نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی کا جامع احاطہ ہے۔
· اس میں آپ ﷺ کی ولادت، بچپن، جوانی، نبوت، ہجرت، غزوات، آپ کی تعلیمات، اخلاق، معاشرتی تعلقات اور وصال تک تمام پہلو شامل ہیں۔

عقلی دلائل سے فرق:

1. وسعت کا فرق:
   · میلاد ایک خاص واقعہ (پیدائش) تک محدود ہے
   · سیرت ایک جامع اصطلاح ہے جو پوری زندگی پر محیط ہے
2. مقصد کا فرق:
   · میلاد کا مقصد عام طور پر خوشی کا اظہار اور پیدائش کے واقعے کو یاد کرنا ہے
   · سیرت کا مقصد آپ ﷺ کی کامل زندگی سے راہنمائی حاصل کرنا ہے
3. علمی حیثیت کا فرق:
   · میلاد ایک واقعہ یا تقریب کی شکل اختیار کر سکتا ہے
   · سیرت ایک مکمل علمی discipline ہے جس کا اپنا علمی طریقہ کار اور اصول ہیں
4. عملی تطبیق کا فرق:
   · میلاد میں عموماً جشن اور تقریبات پر زور ہوتا ہے
   · سیرت میں عملی پیروی اور اتباع پر زور دیا جاتا ہے

نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے، اس لیے سیرت کا مطالعہ زیادہ جامع اور مفید ہے۔
جشنِ رسول ﷺ اور مِشن رسول ﷺ میں فرق: عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں

تمہید

جشنِ رسول ﷺ اور مشن رسول ﷺ دو اہم اصطلاحات ہیں جو نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس سے وابستہ ہیں۔ ان دونوں کے درمیان فرق کو سمجھنا ہر مسلمان کے لیے نہایت ضروری ہے تاکہ محبتِ رسول کے تقاضوں کو صحیح طور پر پورا کیا جا سکے۔ ذیل میں دونوں کے درمیان فرق کو عقلی اور نقلی دلائل کی روشنی میں پیش کیا جا رہا ہے۔

💫 1. تعریف اور نوعیت کا فرق

· جشنِ رسول ﷺ:
جشنِ رسول ﷺ سے مراد نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت کی خوشی میں منائی جانے والی تقریبات ہیں، جیسے عید میلاد النبی کے موقع پر جلوس، نعت خوانی، اور دیگر خوشی کے اظہارات۔ یہ ایک عارضی اور موقعیتی عمل ہے جو خاص دنوں میں منعقد ہوتا ہے۔
· مشن رسول ﷺ:
مشن رسول ﷺ سے مراد نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا وہ عملی اور مستقل مقصد ہے جس کے لیے آپ ﷺ کو مبعوث کیا گیا، یعنی توحید کی دعوت، اخلاقی تربیت، اور انسانیت کی رہنمائی۔ یہ ایک مسلسل اور دائمی عمل ہے جو ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔

📜 2. شرعی حیثیت کا فرق

· جشنِ رسول ﷺ:
جشنِ میلاد النبی ﷺ منانے کے بارے میں علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض اسے بدعتِ حسنہ قرار دیتے ہیں جبکہ بعض اسے ناجائز بدعت سمجھتے ہیں۔ البتہ، اسے منانے والوں کے لیے آداب و تقاضوں کا خیال رکھنا ضروری ہے، جیسے طہارتِ عقائد، سنتوں کو زندہ کرنا، صحیح احادیث کا بیان کرنا وغیرہ
· مشن رسول ﷺ:
مشن رسول ﷺ کی اہمیت اور فرضیت پر تمام علماء متفق ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے: "(اے پیغمبر) کہہ دو کہ : یہ میرا راستہ ہے، میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ الله کی طرف بلاتا ہوں، اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی۔۔۔" (یوسف: 108)۔ اس آیت میں نبی اکرم ﷺ کے مشن کو واضح کیا گیا ہے، جو ہر مسلمان کے لیے قابلِ اتباع ہے۔

🎯 3. مقصد اور غایت کا فرق

· جشنِ رسول ﷺ:
اس کا بنیادی مقصد نبی اکرم ﷺ کی ولادت کی خوشی میں اظہارِ محبت اور شکرانہ ہے۔ اس میں نعت خوانی، سیرت کی تعلیمات، اور اجتماعی تقاریب شامل ہوتی ہیں۔
· مشن رسول ﷺ:
مشن رسول ﷺ کا مقصد نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کو عملی زندگی میں نافذ کرنا، توحید کی دعوت دینا، اور انسانیت کو ظلمت سے نکال کر نورِ ہدایت تک پہنچانا ہے۔ یہ نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا مرکزی مشن تھا، جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے: "اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔" (الانبیاء: 107)۔

⚖️ 4. عملی پہلو کا فرق

· جشنِ رسول ﷺ:
یہ ایک رسمی اور تقریبی عمل ہے، جس میں عموماً نفاست، سجاوٹ، اور خوشی کے اظہار پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق زیادہ تر ظاہری اظہار سے ہے۔
· مشن رسول ﷺ:
یہ ایک عملی اور مستقل عمل ہے، جس میں نبی اکرم ﷺ کی سیرت اور تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں اتارنا شامل ہے۔ اس کا تعلق باطنی اور عملی تبدیلی سے ہے، جیسے نماز، روزہ، اور اخلاقی تربیت۔

📖 5. نقلی دلائل

· جشنِ رسول ﷺ:
بعض علماء اسے قرآن مجید کی آیت "(اے پیغمبر) کہو کہ : یہ سب کچھ الله کے فضل اور رحمت سے ہوا ہے، لہذا اسی پر تو انہیں خوش ہونا چاہیے" (یونس:58) سے مستنبط کرتے ہیں، جس میں اللہ کے فضل اور رحمت پر خوشی منانے کا حکم بتاتے ہیں۔ ان کے نزدیک نبی اکرم ﷺ اللہ کی رحمت ہیں، اس لیے آپ ﷺ کی ولادت پر خوشی منانا جائز ہے۔ اگرچہ کسی امامِ مفسر،محدث،فقیہ نے اس آیت سے میلاد مراد نہیں بتایا۔
· مشن رسول ﷺ:
قرآن مجید میں نبی اکرم ﷺ کے مشن کو متعدد آیات میں واضح کیا گیا ہے، جیسے "وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنائیں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں" (الجمعہ:2)۔ اس آیت میں نبی اکرم ﷺ کے مشن کی تین جہتیں بیان کی گئی ہیں: (1)تلاوتِ آیات، (2)تزکیہ نفس، اور (3)تعلیم کتاب اور حکمت۔

🧠 6. عقلی دلائل

· جشنِ رسول ﷺ:
عقلی اعتبار سے، جشن منانا انسانی فطرت ہے۔ جب کوئی عظیم واقعہ پیش آتا ہے تو انسان فطری طور پر اس کی خوشی مناتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ کی ولادت انسانیت کے لیے سب سے بڑا سعادت ہے، اس لیے اس پر خوشی منانا فطری عمل ہے۔
· مشن رسول ﷺ:
عقلی اعتبار سے، اگر نبی اکرم ﷺ کا مشن صرف چند تقاریب تک محدود ہوتا تو انسانیت کی ہدایت کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ مشن رسول ﷺ کی دائمی اور عملی نوعیت ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ آپ ﷺ کی تعلیمات ہر دور میں انسانیت کی رہنمائی کرتی رہیں گی۔

📊 دونوں کے درمیان فرق کا خلاصہ

پہلو    | جشنِ رسول ﷺ  | مشن رسول ﷺ
(1)تعریف:
جشن»عارضی تقریبات اور خوشی کا اظہار
مشن»مستقل اور دائمی مقصد
(2)شرعی حیثیت:
جشن»اختلافی مسئلہ
مشن»متفق علیہ اور فرض
(3)مقصد:
جشن»اظہارِ محبت اور شکرانہ
مشن»توحید کی دعوت اور اخلاقی تربیت
(4)عملی پہلو:
جشن»رسمی اور تقریبی
مشن»عملی اور مستقل
(5)نقلی دلائل:
جشن»سورہ یونس:58 سے منگھڑت استدلال
مشن»سورہ البقرۃ:129-174،آل عمران :164،الجمعہ:2
(6)عقلی دلائل:
جشن»فطری عمل اور خوشی کا اظہار
مشن»ہدایت انسانیت کا دائمی تقاضا

✅ 7. عملی تجویزات

· جشنِ رسول ﷺ کو اگر منایا جائے تو اسے سنت کے مطابق ہونا چاہیے، جیسے نعت خوانی، سیرت کی تعلیمات، اور صدقہ و خیرات۔ اس میں خرافات اور غیر شرعی امور سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
· مشن رسول ﷺ کو ہر مسلمان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اس کے لیے نبی اکرم ﷺ کی سیرت اور تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں اتارنا، دعوت و تبلیغ میں حصہ لینا، اور اخلاقی تربیت پر توجہ دینا ضروری ہے۔

اختتام

جشنِ رسول ﷺ اور مشن رسول ﷺ دونوں نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس سے وابستہ ہیں، لیکن ان کے درمیان نوعیت، مقصد، اور شرعی حیثیت کے اعتبار سے فرق ہے۔ جشنِ رسول ﷺ محبت کا اظہار ہے، جبکہ مشن رسول ﷺ اس محبت کا تقاضا ہے۔ دونوں کو متوازن طریقے سے اپنانا ہی صحیح محبتِ رسول ﷺ کی علامت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی اکرم ﷺ کی سچی محبت اور ان کے مشن کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


مقاصدِ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ 

آپ ﷺ کی ولادتِ باسعادت کے مقاصد کو سمجھنے کے لیے ہمیں قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور تاریخی شواہد کا مطالعہ کرنا ہوگا۔ حضور نبی اکرم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت محض ایک معمولی واقعہ نہیں بلکہ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت اور انسانیت کی ہدایت کا نقطۂ آغاز ہے۔

درج ذیل میں آپ ﷺ کی ولادت کے چند اہم مقاصد تفصیلی دلائل کے ساتھ پیش کیے جا رہے ہیں:

۱۔ توحید کی نشرواشاعت اور شرک کے اندھیروں کا خاتمہ

آپ ﷺ کی ولادت کا سب سے بڑا مقصد دنیا میں توحید خالص کی اشاعت اور شرک و بت پرستی کے ظلمتوں کو مٹانا تھا۔

دلائل:

· قرآن مجید: ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے اگرچہ مشرکین ناپسند کریں۔" (سورۃ الصف: ۹)
· حدیث: آپ ﷺ نے فرمایا:
  "إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ" > "بے شک میں (اس لیے) بھیجا گیا ہوں تاکہ اخلاق کے حسن کو مکمل کروں۔" (موطا امام مالک، شعب الایمان) یہ حدیث اخلاقی انقلاب کی طرف اشارہ کرتی ہے جو شرک اور جہالت کی نجاستوں سے پاک تھا۔

۲۔ اخلاقِ فاضلہ کی تکمیل اور انسانیت کو اعلیٰ معیار پر پروان چڑھانا

عرب معاشرہ آپ ﷺ کی ولادت سے پہلے جہالت، لوٹ مار، ظلم و زیادتی، شراب نوشی اور زناکاری میں ڈوبا ہوا تھا۔ آپ ﷺ کی آمد کا ایک مقصد انسانیت کو اس اخلاقی پستی سے نکال کر اعلیٰ اخلاقی معیار پر فائز کرنا تھا۔

دلائل:

· قرآن مجید: اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں فرمایا:
"اور بے شک آپ اخلاق کے بہت بڑے مرتبے پر فائز ہیں۔" (سورۃ القلم: ۴)
· تاریخى شواہد:
تاریخ گواہ ہے کہ آپ ﷺ کی تعلیمات نے وحشی اور خونخوار قوم کو دنیا کا سب سے مہذب اور بااخلاق قوم بنا دیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب آپ ﷺ کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: "كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ" (آپ کا خلق قرآن تھا)۔ (مسند احمد:24601، صحیح الجامع:4811)

۳۔ عالم انسانیت کو رحمتِ عالم بنا کر بھیجا جانا

آپ ﷺ کی ولادت کا مقصد صرف ایک قوم یا خطے کی ہدایت نہیں تھا، بلکہ آپ ﷺ کو ساری دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔

دلائل:

· قرآن مجید: ارشادِ ربانی ہے:
 "اور (اے حبیب!) ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے۔" (سورۃ الانبیاء: ۱۰۷)
· حدیث: آپ ﷺ نے فرمایا:
  "إِنَّمَا أَنَا رَحْمَةٌ مُهْدَاةٌ" > "بے شک میں رحمت ہوں، (جسے) ہدایت کے طور پر بھیجا گیا ہے۔" (سنن دارمی:15، مسند الشھاب:1160)

۴۔ پچھلی آسمانی کتابوں کی تصدیق اور تکمیل

آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب قرآن مجید پچھلی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ان میں موجود تعلیمات کو مکمل کرتی ہے۔

دلائل:

· قرآن مجید: فرمایا:
 "اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی ہے، جو اپ سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان پر نگہبان (اور حاکم) ہے۔" (سورۃ المائدہ: ۴۸)

۵۔ انسانوں اور جنوں کی ہدایت کے لیے

آپ ﷺ کی مبعوثیت کا دائرہ کار صرف انسانوں تک محدود نہیں تھا بلکہ جنات بھی آپ ﷺ کی تعلیمات سے مستفید ہونے والے تھے۔

دلائل:

· قرآن مجید: ارشاد ہے:
 "آپ فرما دیجئے: کس چیز کی گواہی سب سے بڑی ہے؟ آپ فرما دیجئے: اللہ (سب سے بڑا) گواہ ہے میرے اور تمہارے درمیان، اور میری طرف یہ قرآن اس لئے وحی کیا گیا ہے کہ میں تمہیں اور جسے یہ (قرآن) پہنچے (ہر ایک) کو اس کے ذریعے ڈر سناؤں۔" (سورۃ الانعام: ۱۹) یہاں "وَمَن بَلَغَ" میں جنات بھی شامل ہیں۔
· ایک اور جگہ جنات کے ایک گروہ کا قرآن سن کر ایمان لانے کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ (سورۃ الجن)

۶۔ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے اسوہٴ حسنہ اور نمونہ بنانا

آپ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہر شعبۂ زندگی میں مکمل نمونہ ہے۔ آپ ﷺ کی ولادت کا ایک مقصد انسانیت کے سامنے ایک عملی نمونہ پیش کرنا تھا۔

دلائل:

· قرآن مجید: ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بہترین نمونہ ہے (ہر) اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے۔" (سورۃ الاحزاب: ۲۱)

۷۔ کفر و ظلمت کے خلاف حق و انصاف کی علمبرداری کرنا

آپ ﷺ کی ولادت کا ایک مقصد مظلوموں اور کمزوروں کو ان کے حقوق دلانا، انصاف کا بول بالا کرنا اور ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔

دلائل:

· قرآن مجید: فرمایا:
"آپ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع فرماتے ہیں اور ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں پر ان کے لئے پابندی لگاتے ہیں اور ان پر سے وہ بوجھ اتار دیتے ہیں اور وہ طوق (اور زنجیریں) جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔"
(سورۃ الاعراف: ۱۵۷)

خلاصہ کلام:

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ با سعادت کا مقصد محض ایک تاریخی واقعہ رونما ہونا نہیں تھا، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت کی ہدایت و نجات کے لیے ایک عظیم منصوبے کا آغاز تھا۔ آپ ﷺ رحمت، ہدایت، اخلاق، عدل اور توحید کی کامل ترین تصویر تھے۔ آپ ﷺ کی آمد سے نہ صرف عرب بلکہ پوری انسانیت کی تقدیر بدل گئی۔ آپ ﷺ کی ذات والا صفات وہ مرکز و محور ہے جس کے بغیر نہ دنیا کی کامیابی ممکن ہے اور نہ ہی آخرت کی نجات۔

اللہ تعالیٰ ہمیں آپ ﷺ کی ولادت کے مقاصد کو سمجھنے اور آپ ﷺ کے اسوہٴ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین









کونسا مِیلاد(Birthday) ثابت ہے؟
حضرت ابو قتادہ انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوموار کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ - أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ {وَيَوْمٌ أَمُوتُ فِيهِ}
ترجمہ:
اسی دن میری ولادت ہوئی اور اسی دن مجھے (نبوت کی ذمہ داری کے ساتھ) بھیجا گیا اور اسی دن مجھ پر وحی کا نزول ہوا. {اور اسی دن میری وفات ہوگی}۔

حضرت ابو ہريرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«تُعْرَضُ الأعمالُ يومَ الاثنين والخميس، فَأُحِبُّ أَنْ يُعْرَضَ عَملي وأنا صائم»

ترجمہ:

 ”سوموار اور جمعرات کو (اللہ کے ہاں) اعمال پيش کیے جاتے ہيں، لہٰذا مجھے يہ پسند ہے کہ ميرا عمل (بارگاہِ الٰہی میں) پيش کیا جائے تو ميں روزے سے ہوں“۔

[صحيح مسلم:2565 ، صحيح الترمذي:747، صحيح أبي داود:2436]

گزشتہ صحیح احادیث سے واضح ہوا کہ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کے دن جیسے اپنی پیدائش کی خوشی میں روزہ رکھا ایسے ہی اس دن کی فضیلت کی وجہ سے روزہ رکھا۔ کیونکہ اس دن میں آپ پر وحی نازل ہوئی، اور اسی دن اعمال اللہ کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا کہ آپ کا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔  معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش کا اس دن ہونا، اس دن روزہ رکھنے کے بہت سے اسباب میں سے ایک ہے۔

چنانچہ جو شخص سوموار کا روزہ رکھتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا، اور اس میں مغفرت کی امید رکھے اور اس دن اللہ تعالی کی بندوں کو عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرے، جن میں سے سب سے عظیم نعمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش اور نبوت ہے، اور اس دن اہل مغفرت میں شامل ہونے کی امید رکھے، تو یہ اچھی بات ہے اور نبی ﷺ کی ثابت شدہ سنت کے موافق بھی ہے، لیکن اس کا یہ معمول سارا سال ہی حسبِ طاقت جاری رہنا چاہئے، کسی ہفتے یا مہینے کو خاص نہ کرے۔

تاہم سال کے کسی دن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے جشن کے لیے، یا روزے کے لیے خاص کرنا بدعت  اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے مخالفت ہے؛ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سوموار کے دن روزہ رکھا ہے، سال میں جشن ولادت کا دن جس طرح ہفتے کے دیگر ایام کو بن سکتا ہے اسی طرح سوموار کو بھی آ سکتا ہے۔

سلفِ صالحین یا ابتدائے عہد کے اہل علم میں سے کسی سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوموار کے دن روزہ رکھنے کے عمل سے دلیل لیتے ہوئے، ہفتے، مہینے، یا سال میں سے کسی  خاص دن کی  یا اسے تہوار کا دن قرار دینا ثابت نہیں ہے ۔اگر یہ عمل جائز ہوتا تو اہل علم و فضل اور ہر بھلائی کے کام میں سبقت لے جانے والے لوگ ہم سے پہلے اس پر ضرور عمل کرتے؛ جب انہوں نے یہ  کام نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ یہ نیا کام ہے جس پر عمل جائز نہیں ہے ۔



جبکہ جو لوگ سال میں دو سے زیادہ عید جس روایت سے ثابت ہونا سمجھتے ہیں، انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہاں ان (نحر یعنی قربانی) کے ایام میں کھانے پینے اور (بیوی سے) ملنے کا جائز ہونا یعنی روزہ رکھنے کے ناجائز ہونے کی تعلیم دینا مقصود ہے۔ ورنہ ولادت کے دن کو عید منانے کے سبب امت کیلئے (پیر کو) روزہ رکھنا بھی حرام وناجائز ہوتا لیکن ایسا نہیں ہے، کیا نبی ﷺ یا کسی صحابی نے میلاد النبی کو "عید" کا دن کہا؟

تو خلاصہ یہ ہوا کہ عید میلاد النبی ﷺ منانا اللہ تعالی نے مشروع نہیں کیا اور نہ ہی نبی ﷺ نے مشروع قرار دیا ہے لہذا مسلمانوں کے لیے بھی اللہ تعالی اور نبی ﷺم کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے عید میلاد النبی ﷺ منانا جائز نہیں ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ آپ کو صراط مستقیم کی ہدایت نصیب فرمائے ، آمین یا رب العالمین ۔





جشن میلاد اور کرسمس ڈے فرق کیا ہے؟؟؟عیسائی قومیں ہر سال 25 دسمبر کو کرسمس کا جشن مناتی ہیں، یہ جشن دراصل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا جشن ولادت ہے اور اس کی ابتدا اسی مقدس انداز سے ہوئی تھی کہ اس دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور آپ کی تعلیمات کو لوگوں میں عام کیا جائے گا، چناں چہ ابتدا میں اس کی تمام تقریبات کلیسا میں انجام پاتی تھیں اور ان میں کچھ مذہبی رسوم ادا کی جایا کرتی تھیں، رفتہ رفتہ اس جشن کا سلسلہ کہاں سے کہاں تک پہنچ گیا؟ اس کی مختصر داستان، جشن وتقریبات کی ایک ماہر مصنفہ ہیرزلٹائن ہے، اس سے سنیے، وہ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مقالہ ”کرسمس“ میں لکھتی ہیں:

”کئی صدیوں تک کرسمس خالصتاً ایک کلیسا کا تہوار تھا، جسے کچھ مذہبی رسوم ادا کرکے منایا جاتا تھا، لیکن جب عیسائی مذہب بت پرستوں کے ممالک میں پہنچا تو اس میں ”سرمانی نقطہ انقلاب“ کی بہت سی تقریبات شامل ہوگئیں اور اس کا سبب گریگوری اعظم (اول) کی آزاد خیالی اور اس کے ساتھ مبلغین عیسائیت کا تعاون تھا، اس طرح کرسمس ایک ایسا تہوار بن گیا جو بیک وقت مذہبی بھی تھا اور لادینی بھی، اس میں تقدس کا پہلو بھی تھا اور لطف اندوزی کا سامان بھی۔“

اب کرسمس کس طرح منایا جانے لگا؟ اس کو بیان کرتے ہوئے میری ہیرزلٹائن لکھتی ہیں:
”رومی لوگ اپنی عبادت گاہوں اور اپنے گھروں کو سبز جھاڑیوں اور پھولوں سے سجاتے تھے، ڈرائڈس (پرانے زمانے کے پادری) بڑے تزک و احتشام سے امربیلیں جمع کرتے اور اسے اپنے گھروں میں لٹکاتے، سیکسن قوم کے لوگ سدابہار پودے استعمال کرتے۔“

انہوں نے آگے بتایا ہے کہ:
”کس طرح شجر کرسمس( Chirstmas Tree) کا رواج چلا، چراغاں اور آتش بازی کے مشغلے اختیار کیے گئے، قربانی کی عبادت کی جگہ شاہ بلوط کے درخت نے لے لی، مذہبی نغموں کی جگہ عام خوشی کے نغمے گائے گئے اور : ”موسیقی کرسمس کا ایک عظیم جزو بن گئی۔“

مقالہ نگار آگے رقم طراز ہے:
”اگرچہ کرسمس میں زیادہ زور مذہبی پہلو پر دیا گیا تھا، لیکن عوامی جوش و خروش نے نشاط انگیزی کو اس کے ساتھ شامل کرکے چھوڑا۔“
اور پھر… ”گانا بجانا، کھیل کود، رقص، ناٹک بازی اور پریوں کے ڈرامے تقریبات کا حصہ ہوگئے۔“
[انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ص، 642۔اے ج 5، مطبوعہ1950ء مقالہ “کرسمس“]

جو عیسائیوں کی طرح دین وشریعت کی پابندیوں کو نظر انداز کرتے کرسٹمس کی میلاد مناتے ہیں، ان کے طریقہ کو اختیار کرنا جائز نہیں.
کیونکہ
الله نے کفر (انکار) کرنے والوں کے جیسا ہوجانے سے منع فرمایا.
[سورۃ آل عمران:156]
جبکہ اللہ کے رسول نے فرمایا:
”جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں سے ہوگا“․
[سنن ابو داوٴد:4031]
اور رسول ﷺ نے بھی اہل کتاب کی مخالفت کرنے کا حکم فرمایا
[صحیح بخاری:3462]



لوگوں کی بنائی عیدیں غیراسلامی(بدعت) ہیں:
حضرت طاؤسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَتَّخِذُوا ‌شَهْرًا ‌عِيدًا، وَلَا تَتَّخِذُوا يَوْمًا عِيدًا۔
’’تم (اپنی طرف سے) کسی مہینے کو عید نہ بناؤ، اور نہ کسی دن کو عید بناؤ‘‘.
[مصنف عبد الرزاق:8100 (7853) ، لطائف المعارف لابن رجب: ص118]
---
نوٹ:
عید مقرر کرنے کا حق ہمیں نہیں، البتہ اللہ کے حکم سے رسول ﷺ جس ماہ یا دن کو عید بنائیں، ہمیں انہی کا پابند رہنا ہے۔

تشریح:

یہ روایت اسلامی تعلیمات میں بدعات و رسومات کے رد اور شریعت میں نئے تہواروں کے ایجاد کرنے کی ممانعت پر زور دیتی ہے۔

تشریح کے اہم نکات:

1. شرعی عیدوں کی حفاظت:
اسلام میں صرف دو عیدیں (عید الفطر اور عید الاضحی) مشروع ہیں۔ اس حدیث کا مقصد انہیں خاص اہمیت دینا اور ان کے ساتھ کسی بھی غیر شرعی تہوار یا دن کو شامل ہونے سے روکنا ہے۔
2. بدعات سے روکنا:
یہ حکم ان تمام غیر شرعی رسومات، تہواروں اور تقریبات کی نفی کرتا ہے جو بعد میں ایجاد ہوئے، جیسے کسی خاص مہینے یا دن کو عید کی طرح منانا (مثلاً بعض ثقافتی یا صوفیانہ رسومات)۔
3. توحید کی حفاظت:
غیر شرعی تہواروں کا انعقاد اکثر دیگر مذاہب یا مشرکانہ رسومات سے متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ حکم عقیدۂ توحید کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی ہے۔
4. فقہی نقطہ نظر:
اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ اسلام میں نئے تہوار ایجاد کرنا جائز نہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تہوار شرعی احکام میں سے ہیں، لہٰذا اس میں اجتہاد کی گنجائش نہیں۔

خلاصہ:

یہ روایت مسلمانوں کو صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مشروع کردہ تہواروں (دو عیدوں) پر اکتفا کرنے اور کسی بھی قسم کے غیر شرعی دن یا مہینے کو عید یا تہوار کے طور پر منانے سے روکتی ہے تاکہ دین میں کوئی نئی بات (بدعت) داخل نہ ہو سکے۔



عید میلاد النبی ﷺ صرف اور صرف جشن نہیں ہے، کہ اسکا عبادت کیساتھ کوئی تعلق "نہ" ہو، بلکہ جو لوگ جشن مناتے ہیں وہ اسے ایک "دینی" تہوار کے طور پر قربِ الہی حاصل کرنے کیلئے مناتے ہیں۔

اسکی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:

اول:
جو لوگ عید میلاد مناتے ہیں، یا ان محفلوں میں شرکت کرتے ہیں، یہ سب لوگ اسے نبی ﷺ سے محبت کی وجہ سے کرتے ہیں، اور اللہ و اسکے رسول سے محبت عظیم ترین عبادات میں سے ہے، یہی ایمان کا مضبوط ترین کڑا ہے، چنانچہ جو کوئی بھی کام اس محبت کی وجہ سے کیا جائے گا تو یقیناً وہ عبادت کے طور پر کیا جا رہا ہے۔
اس بنا پر ہم کہتے ہیں  کہ : رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کرام آپ کیساتھ سب سے زیادہ محبت کرتے تھے، سب سے زیادہ آپکی تعظیم  کرتے تھے، صحابہ کرام کو اپنے بعد آنے والے لوگوں سے زیادہ نبوی حقوق کا علم تھا؛ چنانچہ جو کام صحابہ کرام کے ہاں دین میں شامل نہیں تھا، وہ انکے بعد بھی دین میں شامل نہیں ہوسکتا۔

اسی اصول اور قاعدہ کو حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے مسجد میں ذکرِ الہی کیلئے جمع ہو کر کنکریوں پر تسبیح شمار کرنے والے  حضرات کے خلاف دلیل بنایا، اور کہا:
"قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تم ملتِ محمد ﷺ سے زیادہ ہدایت والی ملت پر ہو!؟ یا کوئی گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو؟!
لوگوں نے کہا: اللہ کی قسم! ابو عبد الرحمن [عبد اللہ بن مسعودؓ کی کنیت] ہم تو نیکی ہی کرنا چاہتے تھے!؟
آپ نے کہا: "کتنے لوگ ہیں جو نیکی کرنا چاہتے ہیں ، لیکن نیکی کر نہیں پاتے!!"
[سنن الدارمی: (حدیث#210)]

دوم:
ہر سال کسی موسم میں جشن منانا اسے تہوار کے درجے تک پہنچا دیتا ہے، اور یہ  تہوار دینی شعائر ہوتے ہیں، اسی لئے اہل کتاب اپنے تہواروں کو مقدس سمجھتے ہیں، اور ان دنوں میں مخصوص تقریبات  بھی کرتے ہیں۔

شیخ ناصر العقل حفظہ اللہ کہتے ہیں: 
"تہوار بھی شریعت کا حصہ ہیں، جس طرح قبلہ، نماز، روزہ وغیرہ ہیں، اور تہواروں کو  صرف عادات نہیں کہا جا سکتا، بلکہ تہواروں کے بارے میں کفار کیساتھ مشابہت اور انکی تقلید زیادہ خطرناک معاملہ ہے، اسی طرح اللہ کے مقرر کردہ تہواروں سے ہٹ کر خود ساختہ تہوار منانا ، "حکم بغیر ما انزل اللہ "کے زمرے میں شامل ہے، بغیر علم کے  اللہ کی طرف کسی  بات کی نسبت کرنے ، اس پر بہتان باندھنے، اور دینِ الہی میں بدعت شامل کرنے کے مترادف ہے" انتہی
[مقدمہ اقتضاء الصراط المستقیم (ص58)]

سوم:

ابو داود: (1134) میں انسؓ سے مروی ہے کہ : "رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو [اہل مدینہ] دو دنوں میں تفریح ومیلہ کیا کرتے تھے، تو آپ ﷺ نے پوچھا: یہ دو دن کیا ہیں؟ تو انہوں نے کہا: "ہم دورِ جاہلیت سے ان دنوں میں کھیلتے آرہے ہیں" تو آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں سے اچھے دن بدلے میں دیے ہیں: عید الاضحی، اور عید الفطر۔
اسے البانی نے "صحیح سنن ابو داود" میں صحیح کہا ہے۔

چنانچہ اگر کسی تہوار کو جشن منانا عادات میں شامل ہوتا، اور عبادت کیساتھ اس کا کوئی تعلق نہ ہوتا ، اور نہ ہی اس میں کفار سے مشابہت  کی گنجائش ہوتی تو رسول اللہ ﷺ انہیں کھیل کود میں لگا رہنے دیتے، کیونکہ کھیل کود، اور ہنسی مذاق  میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے۔

اس لئے اگر نبی ﷺ نے انہیں کسی تہوار کے دن میں  کھیل کود سے  منع فرمایا، حالانکہ اس میں کسی قسم کی عبادت بھی نہیں تھی؛ تو جو شخص کوئی عمل عبادت اور قرب الہی کیلئے ، یا دلی میلان کیساتھ ، یا  اس عمل پر ثواب ملنے کا دعوی کرے؛ اسے تو بالاولی منع ہونا چاہیے،  اور نبی ﷺ کا فرمان ہے:
جس شخص نے ہمارے [دینی] معاملے میں  ایسا کام ایجاد کیا جو اس میں نہیں ہے، تو وہ مردود ہے۔
[بخاری:2697، مسلم:1718]









قرآن مجید جمع کرنے کی ضرورت یا سبب نبی ﷺ کے بعد حافظ صحابہ کا کثرت سے شہید ہوجانا تھا جو کہ ایک نیا حادثہ تھا، جبکہ میلاد منانے کا سبب ’’محبت یا خوشی’’ ہے جو نبی ﷺ کے زمانہ میں بھی تھی، یعنی یہ کوئی نیا حادثہ نہیں اور دونوں کے سبب کے وجود میں فرق ہے، لیکن صحابہ نے اسے مخصوص دن 12 ربیع الاول کے ساتھ، ’عید‘ کے نام پر، ہر سال جلوس نکال کر، میلاد کو رواج نہیں دیا اور نہ ہی نبی ﷺ نے میلاد منانے کی تعلیم دی۔




مروجہ محفل میلاد مفسرین، محدثین، فقہاء اور علمائے امت کی نظر میں
جب سے یہ محفل میلاد شروع ہوئی ہے اس وقت سے لے کر آج تک علماء کی دو رائے رہی ہیں، بعض صرف جواز کے قائل تھے اور بعض بدعت کہتے تھے، بعد میں اس میں اضافے ہوتے رہے، ان اضافوں کی وجہ سے حکم بھی بدلتا رہا، یہی وجہ ہے کہ ہر زمانہ میں ہر طبقہ کے علماء نے اس محفل میلاد کی تردید کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
(۱) امام ابو اسحاق شاطبیؒ (المتوفى:790هـ) نے بدعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:
كَالذِّكْرِ بِهَيْئَةِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى صَوْتٍ وَاحِدٍ، وَاتِّخَاذُ يَوْمِ وِلَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِيدًا۔
ترجمہ:
جیسے کہ ہم آواز ہوکر اجتماعی طور پر ذکر کرنا اور نبی ﷺ کے یومِ پیدائش کو ’’عید‘‘ کے طور پر منانا۔
[الاعْتِصَام للشاطبي:1/51، الناشر: دار ابن الجوزي للنشر والتوزيع، المملكة العربية السعودية]
(۲) علامہ تاج الدین فاکہانیؒ (المتوفى: 734هـ) کا مسلک اور ان کا قول معروف ہے کہ:

ولا جائز أن يكون مباحا، لأن الابتداع في الدين ليس مباحا بإجماع المسلمين.
ترجمہ:
ممکن نہیں ہے کہ وہ(میلاد) درست اور مباح ہو، اس لئے کہ دین میں کسی نئی بات کا اضافہ بالاجماع مباح نہیں ہے۔
[المورد فى عمل المولد: ص10، الناشر: دار العاصمة - الرياض]
(بحوالہ كتاب: رسائل فى حكم الاحتفال بالمولد النبوي).




(۳) ابن امیر الحاجؒ مالکی (المتوفى: 737هـ) فرماتے ہیں:
وَمِنْ جُمْلَةِ مَا أَحْدَثُوهُ مِنْ الْبِدَعِ مَعَ اعْتِقَادِهِمْ أَنَّ ذَلِكَ مِنْ أَكْبَرِ الْعِبَادَاتِ وَإِظْهَارِ الشَّعَائِرِ مَا يَفْعَلُونَهُ فِي شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ مِنْ مَوْلِدٍ وَقَدْ احْتَوَى عَلَى بِدَعٍ وَمُحَرَّمَاتٍ جُمْلَةٍ.
ترجمہ:
اور من جملہ من گھڑت بدعات کے ایک بدعت جس کو وہ بہت بڑی عبادت اور شعائرِ اسلام کا اظہار تصور کرتے ہیں وہ ہے جو ربیع الاول کے مہینہ میں میلاد کے سلسلہ میں کیا کرتے ہیں اور میلاد مختلف بدعات اور حرام چیزوں کو شامل ہے۔

[المدخل-ابن الحاج: جلد2 صفحہ2، فَصْلٌ فِي مَوْلِدِ النَّبِيّ والبدع المحدثة فِيهِ ، الناشر: دار التراث]

علامہ ابن امیر الحاج رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَهَذِهِ الْمَفَاسِدُ مُرَكَّبَةٌ عَلَى فِعْلِ الْمَوْلِدِ إذَا عَمِلَ بِالسَّمَاعِ فَإِنْ خَلَا مِنْهُ وَعَمِلَ طَعَامًا فَقَطْ وَنَوَى بِهِ الْمَوْلِدَ وَدَعَا إلَيْهِ الْإِخْوَانَ وَسَلِمَ مِنْ كُلِّ مَا تَقَدَّمَ ذِكْرُهُ فَهُوَ بِدْعَةٌ بِنَفْسِ نِيَّتِهِ فَقَطْ إذْ أَنَّ ذَلِكَ زِيَادَةٌ فِي الدِّينِ وَلَيْسَ مِنْ عَمَلِ السَّلَفِ الْمَاضِينَ وَاتِّبَاعُ السَّلَفِ أَوْلَى بَلْ أَوْجَبُ مِنْ أَنْ يَزِيدَ نِيَّةً مُخَالِفَةً لِمَا كَانُوا عَلَيْهِ لِأَنَّهُمْ أَشَدُّ النَّاسِ اتِّبَاعًا لِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَتَعْظِيمًا لَهُ وَلِسُنَّتِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَلَهُمْ قَدَمُ السَّبْقِ فِي الْمُبَادَرَةِ إلَى ذَلِكَ وَلَمْ يُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ مِنْهُمْ أَنَّهُ نَوَى الْمَوْلِدَ وَنَحْنُ لَهُمْ تَبَعٌ فَيَسَعُنَا مَا وَسِعَهُمْ.
ترجمہ:
اور یہ خرابیاں میلاد منانے کے عمل سے بڑھ جاتی ہیں اگر یہ سنی گئی باتوں کی بنیاد پر کی جائیں۔ اگر وہ اس سے خالی بھی ہو اور وہ صرف کھانا ہی بناتا ہے اور میلاد کی نیت کرتا ہے اور بھائیوں کو اس کی دعوت دیتا ہے، اور ان تمام باتوں سے خالی بھی ہو جو اوپر بیان ہوئے ہیں تو بھی یہ صرف اس کی نیت کی بنا پر بدعت ہے، کیونکہ یہ دین میں اضافہ ہے اور ابتدائی سلف کے اعمال میں سے نہیں ہے۔ سلف کی اتباع اولیٰ ہے، اور ان میں سے کسی سے یہ روایت نہیں آئی کہ انہوں نے میلاد کا ارادہ کیا، اور ہم اس کی پیروی کرتے ہیں، اس لیے جو ان کے لیے کافی تھا وہی ہمارے لیے کافی ہے۔"


وَبَعْضُهُمْ يَتَوَرَّعُ عَنْ هَذَا وَيَعْمَلُ الْمَوْلِدَ بِقِرَاءَةِ الْبُخَارِيِّ وَغَيْرِهِ عِوَضًا عَنْ ذَلِكَ، وَهَذَا وَإِنْ كَانَتْ قِرَاءَةُ الْحَدِيثِ فِي نَفْسِهَا مِنْ أَكْبَرِ الْقُرَبِ وَالْعِبَادَاتِ وَفِيهَا الْبَرَكَةُ الْعَظِيمَةُ وَالْخَيْرُ الْكَثِيرُ لَكِنْ إذَا فَعَلَ ذَلِكَ بِشَرْطِهِ اللَّائِقِ بِهِ عَلَى الْوَجْهِ الشَّرْعِيِّ كَمَا يَنْبَغِي لَا بِنِيَّةِ الْمَوْلِدِ. أَلَا تَرَى أَنَّ الصَّلَاةَ مِنْ أَعْظَمِ الْقُرَبِ إلَى اللَّهِ تَعَالَى وَمَعَ ذَلِكَ فَلَوْ فَعَلَهَا إنْسَانٌ فِي غَيْرِ الْوَقْتِ الْمُشْرَعِ لَهَا لَكَانَ مَذْمُومًا مُخَالِفًا فَإِذَا كَانَتْ الصَّلَاةُ بِهَذِهِ الْمَثَابَةِ فَمَا بَالَك بِغَيْرِهَا 
ترجمہ:
کچھ لوگ احتیاط کا پہلو اپناتے ہوئے جشن میلاد میں گانے بجانے کی بجائے صحیح بخاری پڑھتے ہیں ، یہ عمل بذاتہ خود ایک عظیم عمل اور عبادت ہے، بلکہ خیر و برکت کا موجب بھی ہے، لیکن اس کیلئے شرط وہی ہے کہ اسے بھی اسی انداز سے سر انجام دیا جائے جیسے کہ اسے کرنے کا شرعی طور پر طریقہ بتلایا گیا ہے، جشن میلاد کی نیت سے نہ کیا جائے، اس کی مثال آپ یوں سمجھیں کہ نماز قربِ الہی کے حصول کا عظیم ترین ذریعہ ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کوئی شخص نماز کے وقت سے پہلے ہی یا نماز کا وقت ہی نہ ہو تو ایسے وقت میں نماز ادا کرنا قابلِ مذمت اور شریعت سے متصادم ہوگا، اگر نماز کا یہ معاملہ ہے تو اس کے علاوہ دیگر امور کا کیا حال ہوگا؟!
[المدخل-ابن الحاج : 2 / 25]





(۴) امام جلال الدین سیوطی(م911ھ) فرماتے ہیں:

ليس فيه نص

ترجمہ:

اس(میلاد کے جائز ہونے) میں کوئی نص (یعنی قرآن وسنت میں کوئی واضح حکم) نہیں۔

 


(۵) امام ابن کثیرؒ(م774ھ) فرماتے ہیں کہ:

فَوَجَدَ مَلِكَهَا الْمُعَظَّمَ مُظَفَّرَ الدِّينِ بْنَ زَيْنِ الدِّينِ يَعْتَنِي بِالْمَوْلِدِ النَّبَوِيِّ، فَعَمِلَ لَهُ كِتَابَ " التَّنْوِيرِ فِي مَوْلِدِ السِّرَاجِ الْمُنِيرِ " وقرأه عليه بنفسه، فأجازه بألف دينار۔
ترجمہ:
تو اس(عمرو بن دحیہ) نے اس(اربل) کے نامور بادشاہ مظفرالدین ابن زین الدین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کا خیال رکھتے ہوئے پایا تو اس نے اس کیلئے کتاب "التنویر فی میلاد السراج المنیر" بنوائی اور اسے خود پڑھ کر سنایا۔ تو اس نے اسے ایک ہزار دینار کا انعام دیا۔
[البداية والنهاية-امام ابن کثیر: جلد 13 صفحہ 169]


اور اس کا عمر بن وحیہ نے خوب ساتھ دیا تھا۔
[البداية والنهاية-امام ابن کثیر: جلد 13 صفحہ 144]

عمر بن وحیہ کے بارے میں علامہ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ:
یہ جھوٹا آدمی تھا، لوگوں نے اس کی روایت پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا تھا اور اس کی بہت زیادہ تذلیل کی تھی۔
[البداية والنهاية-امام ابن کثیر: جلد 13 صفحہ 145]

حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمتہ اللہ علیہ، نقل کرتے ہیں:
وہ آئمہ دین اور سلف کی شان میں بہت ہی گستاخیاں کیا کرتا تھا، گندی زبان کا ملک تھا، بڑا احمق (بیوقوف) متکبر (گھمنڈی) تھا، دین کے کاموں میں بڑا بےپروا اور سست تھا۔
[لسان المیزان: جلد-06-ص-85]


علامہ ابن نجار رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگون کو اس کے جھوٹ اور ضعف پر متفق پایا۔
[لسان المیزان:جلد-06-ص-84]



حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"آپ کو پہلے لکھا جا چکا تھا کہ سماع(گانے/شاعری سننے) کے منع ہونے کا مبالغہ مولود کے منع ہونے کو بھی شامل ہے جو نعتیہ قصیدوں یا غیر نعتیہ شعروں کے پڑھنے سے مراد ہے"
[مطبوعہ امام ربانی: صفحہ 586]


بدعت ِعید میلاد کا اول موجد کون؟

عید میلاد کا جشن سب سے پہلے چوتھی صدی ہجری میں رافضی و غالی شیعہ جنہیں فاطمی بھی کہا جاتا ہے، نے حب ِنبوی ﷺ اور حب ِاہل بیت کی آڑ میں اس وقت جاری کیا جب انہیں مصر میں باقاعدہ حکومت و اقتدار مل گیا۔ ان لوگوں نے نہ صرف' میلاد النبیؐ' کا تہوار جاری کیا بلکہ حضرت علی، حضرت فاطمہ اور حسن و حسین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے 'میلاد' بھی سرکاری سطح پر جاری کئے۔اس کے ثبوت اور حوالہ جات سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ان فاطمیوں اور رافضیوں کے عقائد و اعمال پر بھی روشنی ڈال دی جائے۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ اس سلسلہ میں رقم طراز ہیں کہ ''یہ کافر و فاسق، فاجر و ملحد، زندیق و بے دین، اسلام کے منکر اور مجوسیت و ثنویت کے معتقد تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حدود کو پامال کیا، زنا کو جائز، شراب اور خون ریزی کو حلال قرار دیا۔ یہ دیگر انبیاء کرام ؑ کو گالیاں دیتے اور سلف صالحین پر لعن طعن کرتے تھے۔''
نیز لکھتے ہیں کہ ''فاطمی خلفاء بڑے مالدار، عیاش اور جابر و سرکش تھے۔ ان کے ظاہر و باطن میں نجاست کوٹ کوٹ کربھری ہوئی تھی۔ ان کے دورِ حکومت میں منکرات و بدعات ظہور پذیر ہوئیں.سلطان صلاح الدین ایوبی نے ۵۶۴ ہجری میں مصر پر چڑھائی کی اور ۵۶۸ ہجری تک ان کا نام و نشان مٹا دیا۔''
(البدایۃ والنھایۃ : ۱۱؍۲۵۵ تا ۲۷۱)
بدعت ِعید میلاد اور میلاد حسن و حسین کے موجد یہی فاطمی شیعہ تھے اس کے ثبوت کے لئے چند حوالہ جات ذکر کئے جاتے ہیں :
1۔ مصر ہی کے ایک معروف مفتی علامہ محمد بخیت اپنی کتاب ''أحسن الکلام فیما یتعلق بالسنۃ والبدعۃ من الأحکام'' میں صفحہ ۴۴،۴۵پر رقم طراز ہیں کہ
''‌إن ‌أول ‌من ‌أحدثها ‌بالقاهرة: ‌الخلفاء الفاطميون، وأولهم المعز لدين الله، توجه من المغرب إلى مصر في شوال سنة (361) إحدى وستين وثلاثمائة هجرية ...''
[فتاوى الشبكة الإسلامية:8762 (8/803)]
''سب سے پہلے قاہرہ (مصر) میں عید ِمیلاد فاطمی حکمرانوں نے ایجاد کی اور ان فاطمیوں میں سے بھی المعز لدین اللہ سرفہرست ہے۔ جس کے عہد ِحکومت میں چھ میلاد ایجاد کئے گئے یعنی میلاد النبیؐ، میلادِ علیؓ، میلادِ فاطمہؓ، میلادِ حسنؓ، میلادِ حسینؓ، اور حاکم وقت کا میلاد.. یہ میلاد بھرپور رسم و رواج کے ساتھ جاری رہے حتیٰ کہ افضل بن امیر الجیوش نے بالآخر انہیں ختم کیا۔''

2۔ علامہ تقی الدین احمد بن علی مقریزی اس بدعت کی حقیقت پر روشنی ڈالتے ہیں :
''کان للخلفاء الفاطمیین فی طول السنۃ أعیاد ومواسم وھی موسم رأس السنۃ وموسم أول العام ویوم عاشوراء ومولد النبی ا ومولد علی بن أبی طالب ومولد فاطمۃ الزھرأ ومولد الحسن ومولد الحسین ومولد الخلیفۃ الحاضر''
[المواعظ والاعتبار بذکر الخطط والآثار:ج۱؍ ص۴۹۰]
''فاطمی حکمران سال بھر میلاد، تہوار اور جشن مناتے رہتے۔اس سلسلے میں ہر سال کے آغاز (New year) پر اور عاشورا کے روز جشن منایا جاتا۔ اسی طرح میلاد النبیؐ، میلادِ علیؓ، میلاد فاطمۃ الزہراؓ، میلادِ حسنؓ، میلاد حسینؓ اور حاکم وقت کا میلاد بھی منایا جاتا۔''

3۔ علامہ ابوالعباس احمد بن علی قلقشندی بھی اسی بات کا ذکر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
'' فاطمی حکمران ۱۲؍ ربیع الاول کو تیسرا جلوس نکالتے تھے اور اس جلوس کے موقع پر ان کا معمول یہ تھا کہ دارالفطرۃ (مقام) میں ۲۰ قنطار (پیمانہ) عمدہ شکر سے انواع و اقسام کا حلوہ تیار کیا جاتا اور پیتل کے ۳۰۰ خوبصورت برتنوں میں ڈال لیا جاتا۔ پھر جب میلاد کی رات ہوتی تو شریک ِمیلاد مختلف لوگ مثلا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) داعی و مبلغ اور خطباء و قرأ حضرات، قاہرہ اور مصر کی دیگر یونیورسٹیوں کے اعلیٰ عہدیداران اور مزاروں وغیرہ کے دربان و نگران حضرات میں تقسیم کیا جاتا۔''
[دیکھئے: صبح الاعشی فی صناعۃ الانشاء ، ج۳؍ ص۴۹۸ تا ۴۹۹]

بدعت ِمیلاد سے متعلقہ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے الابداع في مضار الابتداع (ص۱۲۶) از شیخ علی محفوظ، البدعۃ ضوابطھا وأثرھا السیئۃ في الأمۃ (ص ۱۶تا۲۱) از ڈاکٹر علی بن محمد ناصر، القول الفصل في حکم الاحتفال بمولد خیر الرسل (ص۶۴ تا ۷۲) از شیخ اسماعیل بن محمد الانصاری، المحاضرات الفکریۃ، ص۸۴ از سیدعلی فکری ... وغیرہ



بدعت ِمیلاد ؛ مصر کے فاطمیوں سے عراق (اِربل و موصل) کے سنّیوں تک:
عیدوں اور میلادوں کا جو سلسلہ مصر کے رافضی حکمرانوں نے ایجاد کیا تھا، وہ اگرچہ خلیفہ افضل بن امیر الجیوش نے اپنے عہد ِحکومت میں ختم کردیا مگر اس کے مضر اثرات اطراف واکناف میں پھیل چکے تھے۔ حتیٰ کہ رافضی شیعوں سے سخت عداوت رکھنے والے سنی بھی ان کی دیکھا دیکھی عیدمیلاد منانے لگے۔ البتہ سنیوں نے اتنی ترمیم ضرور کرلی کہ شیعوں کی طرح میلادِ علیؓ، میلادِ حسنؓ و حسینؓ وغیرہ کی بجائے صرف میلاد النبیؐ پر زور دیا۔ چنانچہ الشیخ الامام شہاب الدین ابو محمد عبدالرحمن بن اسماعیل المعروف ابوشامہ (599-665ھ) کے بقول :
''وَكَانَ ‌أول ‌من ‌فعل ذَلِك يالموصل الشَّيْخ عمر بن مُحَمَّد الملا أحد الصَّالِحين الْمَشْهُورين وَبِه اقْتدى فِي ذَلِك صَاحب ‌أربل وَغَيره''
ترجمہ:
''(سنیوں میں سے) سب سے پہلے موصل شہر میں عمر بن محمد ملا نامی معروف زاہد نے میلاد منایا۔ پھر اس کی دیکھا دیکھی 'اربل' کے حاکم نے بھی (سرکاری طورپر) جشن میلاد منانا شروع کردیا۔''
[الباعث على إنكار البدع والحوادث: ص۲۱ (ص24-الناشر: دار الهدى - القاهرة)]

اربل کا یہ حاکم ابوسعید کوکبوری بن ابی الحسن علی بن بکتیکن بن محمد تھا جو مظفر الدین کوکبوری کے لقب سے معروف تھا۔ 586 ہجری میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے اربل کا گورنر مقرر کیا مگر یہ بے دین، عیاش اور ظالم و سرکش ثابت ہوا جیسا کہ
یاقوت حمویؒ(م626ھ) لکھتے ہیں کہ :
''یہ گورنر بڑا ظالم تھا، عوام پر بڑا تشدد کرتا، بلا وجہ لوگوں کے اَموال ہتھیالیتا اور اس مال ودولت کو غریبوں، فقیروں پر خرچ کرتا اور قیدیوں کو آزاد کرنے میں صرف کرتا اور ایسے ہی شخص کے بارے میں شاعر کہتا ہے کہ ؎
كساعية للخير من كسب فرجها                       لك الويل! لا تزني ولا تتصدّقي
''یہ تو اس عورت کی طرح ہے جو بدکاری کی کمائی سے صدقہ خیرات کرتی ہے۔ اے بدکار عورت! تیرے لئے ہلاکت ہے۔ نہ تو زنا کر اور نہ ایسی گندی کمائی سے صدقہ کر۔''
[معجم البلدان: ج۱ / ص۱۳۸ الناشر: دار صادر، بيروت]

اسی 'صاحب ِاربل' ہی کے بارے میں امام سیوطیؒ (م911ھ) رقم طراز ہیں کہ
''وَأَوَّلُ مَنْ أَحْدَثَ فِعْلَ ذَلِكَ صَاحِبُ ‌إِرْبِلَ الْمَلِكُ ‌الْمُظَفَّرُ ‌أَبُو ‌سَعِيدٍ كُوكْبُرِي''
ترجمہ:
''سب سے پہلے (اربل میں) جس نے عید ِمیلاد کی بدعت ایجادکی، وہ اربل کا حاکم الملک المظفر ابوسعید کوکبوری تھا۔''
[الحاوي للفتاوي: ص222 ج1 ، الناشر: دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت-لبنان]

شاہِ اربل بدعت ِمیلاد کا انعقاد کس جوش و خروش اور اہتمام و انصرام سے مناتا تھا، اس کا تذکرہ ابن خلکان نے ان الفاظ میں کیا ہے:
''محرم کے شروع ہوتے ہی بغداد، موصل، جزیرہ، سنجار، نصیبین اور عجم کے شہروں سے فقہاء، صوفیاء، وعظاء، قرأء اور شعراء حضرات اربل آنا شروع ہوجاتے اور شاہ اربل مظفرالدین کوکبوری ان 'مہمانوں' کے لئے چار چار، پانچ پانچ منزلہ لکڑی کے قبے تیار کرواتا۔ ان میں سب سے بڑا قبہ اور خیمہ خود بادشاہ کا ہوتا اور باقی دیگر ارکانِ حکومت کے لئے ہوتے۔ ماہِ صفر کے آغاز میں ان قبوں اور خیموں کو خوب سجا دیا جاتا اور ہر قبے میں آلاتِ رقص و سرود کا اہتمام کیا جاتا۔ ان دنوں لوگ اپنی کاروباری اور تجارتی مصروفیات معطل کرکے سیرو تفریح کے لئے یہاں جمع ہوتے۔ حاکم وقت ہر روز عصر کے بعد ان قبوں کی طرف نکلتا اور کسی ایک قبے میں رقص و سرود کی محفل سے لطف اندوز ہوتا۔ پھر وہیں محفل میں رات گزارتا اور صبح کے وقت شکار کے لئے نکل جاتا، پھر بو قت ِدوپہر اپنے محل میں واپس لوٹ آتا۔ عید ِمیلاد تک شاہِ اربل کا یہی معمول رہتا۔ ایک سال ۸؍ربیع الاول اور ایک سال ۱۲؍ ربیع الاول کو عید میلاد منائی جاتی۔ اس لئے کہ (اس وقت بھی ) آنحضرتؐ کے یوم ولادت کی تعیین میں اختلاف پایا جاتا تھا۔ عید میلاد سے دو دن پہلے شاہِ اربل اونٹوں، گائیوں اور بکریوں کی بہت بڑی تعداد اور طبلے، سارنگیاں وغیرہ کے ساتھ میلاد منانے نکلتا اور ان جانوروں کو ذبح کرکے شرکائے میلاد کی پرتکلف دعوت کی جاتی۔''
[وفیات الاعیان-امام ابن خلکان(م681ھ) : ص۱۱۷ ؍ج۴]

سبط ابن جوزیؒ (م654ھ) کا بیان ہے کہ:
''اس بادشاہ (کوکبوری) کے منعقد کردہ جشن میلاد کے دسترخوان پر حاضر ہونے والے ایک شخص کا بیان ہے اس نے دستر خوان پر ۵ ہزار بھنے ہوئے بکرے، دس ہزار مرغیاں، ۱۰۰ گھوڑے، ایک لاکھ پیالے اور ۳۰ ہزار حلوے کی پلیٹیں شمار کیں۔ اس کے پاس محفل میلاد میں بڑے بڑے مولوی اور صوفی حاضر ہوتے جنہیں وہ خلعت ِفاخرہ سے نوازتا، ان کے لئے خیرات کے دروازے کھول دیتا اور صوفیاء کے لئے ظہر سے فجر تک مسلسل محفل سماع منعقد کراتا جس میں وہ بذاتِ خود شریک ہوکر رقص کرتا۔ ہر سال اس محفل میلاد پر یہ بادشاہ تین لاکھ دینار خرچ کرتا تھا۔''
[مرآۃ الزمان: ج22 ص324 الناشر: دار الرسالة العالمية، دمشق - سوريا]



تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عید میلاد النبیﷺ کا رواج قرونِ ثلٰثہ میں نہیں تھا، سب سے پہلے اس کا رواج مظفر الدین بادشاہ نے کیا، یہ ساتویں صدی ہجری کا ایک بدعتی بادشاہ تھا۔
[القول المعتمد في عمل المولد: احمد بن محمد مصري]

علامہ عبدالرحمن مغربی اپنے فتاوی میں لکھتے ہیں کہ:

أن عمل المولد بدعة لم يقل به ولم يفعله رسول الله والخلفاء والأئمه

ترجمہ:

تحقیقی بات یہ ہے کہ میلاد منانا بدعت ہے آنحضرت ،خلفاء راشدین اورنہ ہی ائمہ مجتہدین نے خود اس کو کیا اور نہ ہی اس کو منانے کا حکم دیا۔

[الحاوي للفتاوي:1/ 229]


علامہ احمد بن محمد مالکی مصری لکھتے ہیں کہ:

قد أتفق العلماء والمذاهب الأربعه بذم هذا العمل.

ترجمہ:

تحقیق مذاہب اربعہ کے علماء کا اس عمل (میلاد) کی مذمت پراتفاق ہے۔

 



اس کے علاوہ علماء وسلف صالحین نے اس مسئلہ پر کتابیں لکھیں جن میںجشن میلادمنانے کی تردید کی گئی ہے۔

مثلاً

۱: امام ابوالحسن علی بن مفضل المقدسی المالکی نے اپنی کتاب’’کتاب الجامع المسائل‘‘میں

۲: امام احمد بن محمد المالکی نے اپنی کتاب ’’القول المعتمد فی عمل المولد‘‘ میں

۳: امام ابن الحاج الامیر المالکی نے اپنی کتاب’’ المُدْخَل‘‘ میں

۴: امام عبدالرحمن المغربی نے اپنے فتاویٰ میں

۵: امام حسن بن علی نے اپنی کتاب ’’طریق السنۃ‘‘ میں

۶: علامہ ابن تیمیہ حنبلی نے اپنے فتاوی میں

۷: امام ربانی مجدد الف ثانی نے مکتوبات حصہ پنجم میں

۸: امام نصیر الدین شافعی نے اپنی کتاب ’’رشاد الاخیار‘‘ میں

۹: امام ابواسحاق شاطبی نے اپنی کتاب ’’الاعتصام‘‘ میں


اور دیگر ائمہ نے اپنے اپنے زمانہ میں مروجہ محفل میلاد کی پرزورتردید کی ہے.

ثوبیہ ابولہب کی لونڈی تھی۔ ابولہب نے اس کو آزاد کر دیا تھا۔ (جب اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے کی خبر ابولہب کو دی تھی) پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا جب ابولہب مر گیا تو اس کے کسی عزیز نے مرنے کے بعد اس کو خواب میں برے حال میں دیکھا تو پوچھا کیا حال ہے کیا گزری؟ وہ کہنے لگا: جب سے میں تم سے جدا ہوا ہوں کبھی آرام نہیں ملا مگر ایک ذرا سا پانی (پیر کے دن مل جاتا ہے)۔ ابولہب نے اس گڑھے کی طرف اشارہ کیا جو انگوٹھے اور کلمہ کے انگلی کے بیچ میں ہوتا ہے، یہ بھی اس وجہ سے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کر دیا تھا۔
[صحيح البخاري: كتاب النكاح، حدیث:5101]




الحمد للہ رب العالمين، والصلاۃ والسلام على نبينا محمد و آلہ و صحبہ اجمعين، و بعد:

سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور ان كے سب صحابہ كرام پر درود و سلام كے بعد:

كتاب و سنت ميں اللہ تعالى كى شريعت اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى اور دين اسلام ميں بدعات ايجاد كرنے سے باز رہنے كے بارہ جو كچھ وارد ہے وہ كسى پر مخفى نہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{كہہ ديجئے اگر تم اللہ تعالى سے محبت كرنا چاہتے ہو تو پھر ميرى ( محمد صلى اللہ عليہ وسلم ) كى پيروى و اتباع كرو، اللہ تعالى تم سے محبت كرنے لگے گا، اور تمہارے گناہ معاف كر دے گا}
[سورۃ آل عمران (31)]

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

{جو تمہارے رب كى طرف سے تمہارى طرف نازل ہوا ہے اس كى اتباع اور پيروى كرو، اور اللہ تعالى كو چھوڑ كر من گھڑت سرپرستوں كى اتباع و پيروى مت كرو، تم لوگ بہت ہى كم نصيحت پكڑتے ہو}
[سورۃ الاعراف (3)]

اور ايك مقام پر فرمان بارى تعالى كچھ اس طرح ہے:

{اور يہ كہ يہ دين ميرا راستہ ہے جو مستقيم ہے، سو اسى كى پيروى كرو، اور اسى پر چلو، اس كے علاوہ دوسرے راستوں كى پيروى مت كرو، وہ تمہيں اللہ  كے راستہ سے جدا كرديں گے}
[سورۃ الانعام (153)]

اور حديث شريف ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلا شبہ سب سے سچى بات اللہ تعالى كى كتاب ہے، اور سب سے بہتر ہدايت و راہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى ہے، اور سب سے برے امور اس دين ميں بدعات  كى ايجاد ہے

اور ايك دوسرى حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ كام مردود ہے

[صحيح بخارى حديث نمبر (2697) صحيح مسلم حديث نمبر (1718)]

اور مسلم شريف ميں روايت ميں ہے كہ:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ عمل مردود ہے

لوگوں نے جو بدعات آج ايجاد كرلى ہيں ان ميں ربيع الاول كے مہينہ ميں ميلاد النبى كا جشن بھى ہے ( جسے جشن آمد رسول بھى كہا جانے لگا ہے ) اور يہ جشن كئى اقسام و انواع ميں منايا جاتا ہے:

كچھ لوگ تو اسے صرف اجتماع تك محدود ركھتے ہيں ( يعنى وہ اس دن جمع ہو كر ) نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش كا قصہ پڑھتے ہيں، يا پھر اس ميں اسى مناسبت سے تقارير ہوتى اور قصيدے پڑھے جاتے ہيں.

اور كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو كھانے تيار كرتے اور مٹھائى وغيرہ تقسيم كرتے ہيں.

اور ان ميں سے كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو يہ جشن مساجد ميں مناتے ہيں، اور كچھ ايسے بھى ہيں جو اپنے گھروں ميں مناتے ہيں.

اور كچھ ايسے بھى ہيں جو اس جشن كو مذكورہ بالا اشياء تك ہى محدود نہيں ركھتے، بلكہ وہ اس اجتماع كو حرام كاموں پر مشتمل كر ديتے ہيں جس ميں مرد و زن كا اختلاط، اور رقص و سرور اور موسيقى كى محفليں سجائى جاتى ہيں، اور شركيہ اعمال بھى كيے جاتے ہيں، مثلا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور مدد طلب كرنا، اور انہيں پكارنا، اور دشمنوں پر نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے مدد مانگنا، وغيرہ اعمال شامل ہوتے ہيں.

جشن ميلاد النبى كى جتنى بھى انواع و اقسام ہيں، اور اسے منانے والوں كے مقاصدہ چاہيں جتنے بھى مختلف ہوں، بلاشك و شبہ يہ سب كچھ حرام اور بدعت اور دين اسلام ميں ايك نئى ايجاد ہے، جو فاطمى شيعوں نے دين اسلام اور مسلمانوں كے فساد كے ليے پہلے تينوں افضل دور گزر جانے كے بعد ايجاد كى.

اسے سب سے پہلے منانے والا اور ظاہر كرنے والا شخص اربل كا بادشاہ ملك مظفر ابو سعيد كوكپورى تھا، جس نے سب سے پہلے جشن ميلاد النبى چھٹى صدى كے آخر اور ساتويں صدى كے اوائل ميں منائى، جيسا كہ مورخوں مثلا ابن خلكان وغيرہ نے ذكر كيا ہے.

اور ابو شامہ كا كہنا ہے كہ:

موصل ميں اس جشن كو منانے والا سب سے پہلا شخص شيخ عمر بن محمد ملا ہے جو كہ مشہور صلحاء ميں سے تھا، اور صاحب اربل وغيرہ نے بھى اسى كى اقتدا كى.

حافظ ابن كثير رحمہ اللہ تعالى " البدايۃ والھايۃ" ميں ابو سعيد كوكپورى كے حالات زندگى ميں كہتے ہيں:

(اور يہ شخص ربيع الاول ميں ميلاد شريف منايا كرتا تھا، اور اس كا جشن بہت پرجوش طريقہ سے مناتا تھا،...

انہوں نے يہاں تك كہا كہ: بسط كا كہنا ہے كہ:

ملك مظفر كے كسى ايك جشن ميلاد النبى كے دسترخوان ميں حاضر ہونے والے ايك شخص نے بيان كيا كہ اس دستر خوان ( يعنى جشن ميلاد النبى كے كھانے ) ميں پانچ ہزار بھنے ہوئے بكرے، اور دس ہزار مرغياں، اور ايك لاكھ پيالياں، اور حلوى كے تيس تھال پكتے تھے..

اور پھر يہاں تك كہا كہ:

اور صوفياء كے ليے ظہر سے فجر تك محفل سماع كا انتظام كرتا اور اس ميں خود بھى ان كے ساتھ رقص كرتا اور ناچتا تھا.

[ديكھيں: البدايۃ والنھايۃ (13 / 137)]

اور " وفيات الاعيان " ميں ابن خلكان كہتے ہيں:

اور جب صفر كا شروع ہوتا تو وہ ان قبوں كو بيش قيمت اشياء سے مزين كرتے، اور ہر قبہ ميں مختلف قسم كے گروپ بيٹھ جاتے، ايك گروپ گانے والوں كا، اور ايك گروپ كھيل تماشہ كرنے والوں كا، ان قبوں ميں سے كوئى بھى قبہ خالى نہ رہنے ديتے، بلكہ اس ميں انہوں نے گروپ ترتيب ديے ہوتےتھے.

اور اس دوران لوگوں كے كام كاج بند ہوتے، اور صرف ان قبوں اور خيموں ميں جا كر گھومتے پھرنے كے علاوہ كوئى اور كام نہ كرتے...

اس كے بعد وہ يہاں تك كہتے ہيں:

اور جب جشن ميلاد ميں ايك يا دو روز باقى رہتے تو اونٹ، گائے، اور بكرياں وغيرہ كى بہت زيادہ تعداد باہر نكالتے جن كا وصف بيان سے باہر ہے، اور جتنے ڈھول، اور گانے بجانے، اور كھيل تماشے كے آلات اس كے پاس تھے وہ سب ان كے ساتھ لا كر انہيں ميدان ميں لے آتے...

اس كے بعد يہ كہتے ہيں:

اور جب ميلاد كى رات ہوتى تو قلعہ ميں نماز مغرب كے بعد محفل سماع منعقد كرتا.

[ديكھيں: وفيات الاعيان لابن خلكان (3 / 274).]

جشن ميلاد النبى كى ابتداء اور بدعت كا ايجاد اس طرح ہوا، يہ بہت دير بعد پيدا ہوئى اور اس كے ساتھ لہو لعب اور كھيل تماشہ اور مال و دولت اور قيمتى اوقات كا ضياع مل كر ايسى بدعت سامنے آئى جس كى اللہ تعالى نے كوئى دليل نازل نہيں فرمائى.

اور مسلمان شخص كو تو چاہيے كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كا احياء كرے اور جتنى بھى بدعات ہيں انہيں ختم كرے، اور كسى بھى كام كو اس وقت تك سرانجام نہ دے جب تك اسے اس كے متعلق اللہ تعالى كا حكم معلوم نہ ہو.

جشن ميلاد النبى صلى الله عليه وسلم كا حكم:

جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كئى ايك وجوہات كى بنا پر ممنوع اور مردود ہے:

اول:

كيونكہ يہ نہ تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ميں سے ہے، اور نہ ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے خلفاء راشدين كى سنت ہے.

اور جو اس طرح كا كام ہو يعنى نہ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہو اور نہ ہى خلفاء راشدہ كى سنت تو وہ بدعت اور ممنوع ہے.

اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميرى اور ميرے خلفاء راشدين مہديين كى سنت پر عمل پيرا رہو، كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى و ضلالت ہے

[اسے احمد (4 / 126) اور ترمذى نے حديث نمبر (2676) ميں روايت كيا ہے.]

ميلاد كا جشن منانا بدعت اور دين ميں نيا كام ہے جو فاطمى شيعہ حضرات نے مسلمانوں كے دين كو خراب كرنے اور اس ميں فساد مچانے كے ليے پہلے تين افضل ادوار گزر جانے كے بعد ايجاد كيا، اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنے كے ليے ايسا كام كرے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نہ تو خود كيا اور نہ ہى اس كے كرنے كا حكم ديا ہو، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بعد خلفاء راشدين نے كيا ہو، تو اس كے كرنے كا نتيجہ يہ نكلتا اور اس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر يہ تہمت لگتى ہے كہ ( نعوذ باللہ ) نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دين اسلام كو لوگوں كے ليے بيان نہيں كيا، اور ايسا فعل كرنے سے اللہ تعالى كے مندرجہ ذيل فرمان كى تكذيب بھى لازم آتى ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

{آج كے دن ميں نے تمہارے ليے تمہارے دين كو مكمل كر ديا ہے}
[سورۃ المائدۃ (3)]

كيونكہ وہ اس زيادہ كام كو دين ميں شامل سمجھتا ہےاور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے ہم تك نہيں پہنچايا.

دوم:

جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانے ميں نصارى ( عيسائيوں ) كے ساتھ مشابھت ہے، كيونكہ وہ بھى عيسى عليہ السلام كى ميلاد كا جشن مناتے ہيں، اور عيسائيوں سے مشابہت كرنا بہت شديد حرام ہے.

حديث شريف ميں بھى كفار كے ساتھ مشابہت اختيار كرنے سے منع كيا گيا اور ان كى مخالفت كا حكم ديا گيا ہے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسى طرف اشارہ كرتے ہوئے فرمايا:

" جس نے بھى كسى قوم كے ساتھ مشابہت اختيار كى تو وہ انہى ميں سے ہے

[مسند احمد (2 / 50) سنن ابو داود (4 / 314)]

اور ايك روايت ميں ہے:

"مشركوں كى مخالفت كرو

[صحيح مسلم شريف حديث (1 / 222) حديث نمبر (259).]

اور خاص كر ان كے دينى شعائر اور علامات ميں تو مخالف ضرور ہونى چاہيے.

سوم:

جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا بدعت اور عيسائيوں كے ساتھ مشابہت تو ہے ہى، اور يہ دونوں كام حرام  بھى ہيں، اور اس كے ساتھ ساتھ اسى طرح يہ غلو اور ان كى تعظيم ميں مبالغہ كا وسيلہ بھى ہے، حتى كہ يہ راہ اللہ تعالى كے علاوہ  نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے استغاثہ اور مدد طلب كرنے اور مانگنے كى طرف بھى لے جاتا ہے، اور شركيہ قصيدے اور اشعار وغيرہ بنانے كا باعث بھى ہے، جس طرح قصيدہ بردہ وغيرہ بنائے گئے.

حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو ان كى مدح اور تعريف كرنے ميں غلو كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا:

" ميرى تعريف ميں اس طرح غلو اور مبالغہ نہ كرو جس طرح نصارى نے عيسى بن مريم عليہ السلام كى تعريف ميں غلو سے كام ليا، ميں تو صرف اللہ تعالى كا بندہ ہوں، لھذا تم ( مجھے ) اللہ تعالى كا بندہ اور اس كا رسول كہا كرو

[صحيح بخارى (4 / 142) حديث نمبر (3445)، ديكھيں فتح البارى (6 / 551)]

يعنى تم ميرى مدح اور تعريف و تعظيم ميں اس طرح غلو اور مبالغہ نہ كرو جس طرح عيسائيوں نے عيسى عليہ السلام كى مدح اور تعظيم ميں مبالغہ اور غلو سے كام ليا، حتى كہ انہوں نے اللہ تعالى كے علاوہ ان كى عبادت كرنا شروع كردى، حالانكہ اللہ تعالى نے انہيں ايسا كرنے سے منع كرتے ہوئے فرمايا:

{اے اہل كتاب! تم اپنے دين ميں غلو سے كام نہ لو، اور نہ ہى اللہ تعالى پر حق كے علاوہ كوئى اور بات كرو، مسيح عيسى بن مريم عليہ السلام تو صرف اور صرف اللہ تعالى كے رسول اور اس كے كلمہ ہيں، جسے اس نے مريم كى جانب ڈال ديا، اور وہ اس كى جانب سے روح ہيں
[سورۃ النساء (171)]

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس خدشہ كے پيش نظر ہميں اس غلو سے روكا اور منع كيا تھا كہ كہيں ہميں بھى وہى كچھ نہ پہنچ جائے جو انہيں پہنچا تھا، اسى كے متعلق بيان كرتے ہوئے فرمايا:

" تم غلو اور مبالغہ كرنے سے بچو، كيونكہ تم سے پہلے لوگ بھى غلو اور مبالغہ كرنے كى بنا پر ہلاك ہو گئے تھے

[سنن نسائى شريف  (5 / 268) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح سنن نسائى حديث نمبر (2863) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.]

چہارم:

جشن ميلاد كى بدعت كا احياء اور اسے منانے سے كئى دوسرى بدعات منانے اور ايجاد كرنے كا دروازہ بھى كھل جائے گا، اوراس كى بنا پر سنتوں سے بے رخى اور احتراز ہو گا، اسى ليے آپ ديكھيں كہ بدعتى لوگ بدعات تو بڑى دھوم دھام اور شوق سے مناتے ہيں، ليكن جب سنتوں كى بارى آتى ہے تو اس ميں سستى اور كاہلى كا مظاہرہ كرتے ہوئے ان سے بغض اور ناراضگى كرتے ہيں، اور سنت پر عمل كرنے والوں سے بغض اور كينہ و عداوت ركھتے ہيں، حتى كہ ان بدعتى لوگوں كا سارا اور مكمل دين صرف يہى ميلاديں اور جشن ہى بن گئے ہيں، اور پھر وہ فرقوں اور گروہوں ميں بٹ چكے ہيں اور ہر گروہ اپنے آئمہ كرام كے عرس اور ميلاديں منانے كا اہتمام كرتا پھرتا ہے، مثلا شيخ بدوى كا عرس اور ميلاد، اور ابن عربى كا ميلاد، اور دسوقى اور شاذلى كا ميلاد، ( ہمارے يہاں بر صغير پاك و ہند ميں تو روزانہ كسى نہ كسى شخصيت كا عرس ہوتا رہتا ہے كہيں على ھجويرى گنج بخش اور كہيں اجمير شريف اور كہيں حق باہو اور كہيں پاكپتن، الغرض روزانہ ہى عرس ہو رہے ہيں ) اور اسى طرح وہ ايك ميلاد اور عرس سے فارغ ہوتے ہيں تو دوسرے ميلاد ميں مشغول ہو جاتے ہيں.

 اور ان اور اس كے علاوہ دوسرے فوت شدگان كے ساتھ اس غلو كا نتيجہ يہ نكلا كہ اللہ تعالى كو چھوڑ كر انہيں پكارنا شروع كر ديا گيا اور ان سے مراديں پورى كروائى جانے لگى ہيں، اور ان كے متعلق ان لوگوں كا يہ عقيدہ اور نظريہ بن چكا ہے كہ يہ فوت شدگان نفع و نقصان كے مالك ہيں، اور نفع ديتے اور نقصان پہنچاتے ہيں، حتى كہ يہ لوگ اللہ تعالى كےدين سے نكل كر اہل جاہليت كے دين كى طرف جا نكلے ہيں، جن كے متعلق اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

{اور وہ اللہ تعالى كے علاوہ ان كى عبادت كرتے ہيں جو نہ تو انہيں نقصان پہنچا سكتے ہيں اور نہ ہى كوئى نفع دے سكتے ہيں، اور وہ كہتے ہيں كہ يہ ( مردے اور بت ) اللہ تعالى كے ہاں ہمارے سفارشى ہيں
[سورۃ يونس (18)]

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

{اور جن لوگوں نے اللہ تعالى كے علاوہ دوسروں كو اپنا ولى بنا ركھا ہے، اور كہتے ہيں كہ ہم ان كى عبادت صرف اس ليے كرتے ہيں كہ يہ بزرگ اللہ تعالى كے قرب تك ہمارى رسائى كرا ديں
[سورۃ الزمر (3)]

جشن ميلاد منانے والوں كے شبہ كا مناقشہ:

اس بدعت كو منانے كو جائز سمجھنے والوں كا ايك شبہ ہے جو مكڑى كے جالے سے بھى كمزور ہے، ذيل ميں اس شبہ كا ازالہ كيا جاتا ہے:

1 -  ان بدعتيوں كا دعوىٰ ہے كہ: يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم و تكريم كے ليے منايا جاتا ہے:

اس شبہ كا جواب:

اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم تو يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كرتے ہوئے ان كے فرماين پر عمل پيرا ہوا جائے، اور جس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے اس سے اجتناب كيا جائے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت كى جائے.

بدعات و خرافات پر عمل كرنا، اور معاصى و گناہ كے كام كرنے ميں تو نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى تعظيم نہيں، اور جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا بھى اسى مذموم قبيل سے ہے كيونكہ يہ معصيت و نافرمانى ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سب سے زيادہ تعظيم اور عزت كرنے والے صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين تھے جيسا كہ عروۃ بن مسعود نے قريش كو كہا تھا:

( ميرى قوم كے لوگو! اللہ تعالى كى قسم ميں بادشاہوں كے پاس بھى گيا ہوں اور قيصر و كسرى اور نجاشى سے بھى ملا ہوں، اللہ كى قسم ميں نے كسى بھى بادشاہ كے ساتھيوں كواس كى اتنى عزت كرتے ہوئے نہيں ديكھا جتنى عزت محمد صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھى محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى كرتے ہيں، اللہ كى قسم اگر محمد صلى اللہ عليہ وسلم تھوكتے ہيں، تو وہ تھوك بھى صحابہ ميں سے كسى ايك كے ہاتھ پر گرتى ہے، اور وہ تھوك اپنے چہرے اور جسم پر مل ليتا ہے، اور جب وہ انہيں كسى كام كا حكم ديتے ہيں تو ان كے حكم پر فورا عمل كرتے ہيں، اور جب محمد صلى اللہ عليہ وسلم وضوء كرتے ہيں تو اس كے ساتھى وضوء كے پانى پر ايك دوسرے سے جھگڑتے ہيں، اور جب اس كے سامنے بات كرتے ہيں تو اپنى آواز پست ركھتے ہيں، اور اس كى تعظيم كرتے ہوئے اسے تيز نظروں سے ديكھتے تك بھى نہيں"

[صحيح بخارى شريف (3 / 178) حديث نمبر (2731) اور (2732)، اور فتح البارى (5 / 388)]

اس تعظيم كے باوجود انہوں نے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے يوم پيدائش كو جشن اور عيد ميلاد كا دن نہيں بنايا، اگر ايسا كرنا مشروع اور جائز ہوتا تو صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كبھى بھى اس كو ترك نہ كرتے.

2 -  يہ دليل دينا كہ بہت سے ملكوں كے لوگ يہ جشن مناتے ہيں:

اس كے جواب ميں ہم صرف اتنا كہيں گے كہ: حجت اور دليل تو وہى ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تو عمومى طور پر بدعات كى ايجاد اور اس پر عمل كرنے كى نہى ثابت ہے،  اور يہ جشن بھى اس ميں شامل ہوتا ہے.

جب لوگوں كا عمل كتاب و سنت كى دليل كے مخالف ہو تو وہ عمل حجت اور دليل نہيں بن سكتا چاہے اس پر عمل كرنے والوں كى تعداد كتنى بھى زيادہ  كيوں نہ ہو:

فرمان بارى تعالى ہے:

{اگر آپ زمين ميں اكثر لوگوں كى اطاعت كرنے لگ جائيں تو وہ آپ كو اللہ تعالى كى راہ سے گمراہ كر ديں گے
[سورۃ الانعام ( 116 )]

اس كے ساتھ يہ بھى ہے كہ الحمد للہ ہر دور ميں بدعت كو ختم كرنے اور اسے مٹانے اور اس كے باطل كو بيان كرنے والے لوگ موجود رہے ہيں، لہذا حق واضح ہو جانے كے بعد كچھ لوگوں كا اس بدعت پر عمل كرتے رہنا كوئى حجت اور دليل نہيں بن جاتى.

اس جشن ميلاد كا انكار كرنے والوں ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى شامل ہيں جنہوں نے اپنى معروف كتاب" اقتضاء الصراط المستقيم" ميں اور امام شاطبى رحمہ اللہ تعالى نے اپنى كتاب" الاعتصام" ميں اور ابن الحاج نے " المدخل" ميں اور شيخ تاج الدين على بن عمر اللخمى نے تو اس كے متعلق ايك مستقل كتاب تاليف كى ہے، اور شيخ محمد بشير السھوانى ھندى نے اپنى كتاب " صيانۃ الانسان" ميں اور سيد محمد رشيد رضا نے بھى ايك مستقل رسالہ لكھا ہے، اور شيخ محمد بن ابراہيم آل شيخ نے بھى اس موضوع كے متعلق ايك مستقل رسالہ لكھا ہے، اور جناب فضيلۃ الشيخ عبدالعزيز بن باز رحمہ اللہ تعالى اور ان كے علاوہ كئى ايك نے بھى اس بدعت كے بارہ ميں بہت كچھ لكھا اور اس كا بطلان كيا ہے، اور آج تك اس كے متعلق لكھا جا رہا ہے، بلكہ ہر برس اس بدعت منانے كے ايام ميں اخبارات اور ميگزينوں اور رسلائل و مجلات ميں كئى كئى صفحات لكھے جاتے ہيں.

3 -  جشن ميلاد منانے ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد كا احياء ہوتا ہے.

اس كے جواب ميں ہم يہ كہتے ہيں كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تو ہر مسلمان شخص كے ساتھ تجديد ہوتى رہتى ہے اور مسلمان شخص تو اس سے ہر وقت مرتبط رہتا ہے، جب بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا نام اذان ميں آتا ہے يا پھر اقامت ميں يا تقارير اور خطبوں ميں، اور وضوء كرنے اور نماز كى ادائيگى كے بعد جب كلمہ پڑھا جاتا ہے، اور نماز ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھتے وقت بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد ہوتى ہے.

اور جب بھى مسلمان شخص كوئى صالح اور واجب و فرض يا پھر مستحب عمل كرتا ہے، جسے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع كيا ہے، تو اس عمل سے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تازہ ہوتى ہے، اور عمل كرنے والے كى طرح اس كا اجر بھى ان تك پہنچتا ہے...

تو اس طرح مسلمان شخص تو ہر وقت نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ياد تازہ كرتا رہتا ہے، اور پورى عمر ميں دن اور رات كو اس سے مربوط ركھتا ہے جو اللہ تعالى نے مشروع كيا ہے، نہ كہ صرف جشن ميلاد منانے كے ايام ميں ہى ، اور پھر جبكہ يہ جشن ميلاد يا جشن آمد رسول منانا بدعت اور ناجائز ہے تو پھر يہ چيز تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ہميں دور كرتى ہے نہ كہ نزديك اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم اس سے برى ہيں.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس بدعتى جشن كى كوئى ضرورت نہيں وہ اس سے بے پرواہ ہيں، كيونكہ اللہ تعالى نے ان كى تعظيم كے ليے وہ كام مشروع كيے ہيں جن ميں ان كى عزت و توقير ہوتى ہے، جيسا كہ مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:

{اور ہم نے آپ كا ذكر بلند كر ديا
[سورۃ الشرح (4)]

تو جب بھى اذان ہو يا اقامت يا خطبہ اس ميں جب اللہ تعالى كا ذكر ہوتا ہے تو اس كے ساتھ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ذكر لازمى ہوتا ہے، جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت و تعظيم اور ان كى عزت و تكريم اور توقير كى تجديد كے ليے اور ان كى  اتباع و پيروى كرنے پر ابھارنے كے ليے كافى ہے.

اور پھر اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد فرقان حميد ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى ولادت كو احسان قرار نہيں ديا بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بعثت كو احسان اور انعام قرار ديا ہے.

ارشاد بارى تعالى ہے:

{يقينا اللہ تعالى نے مومنوں پر احسان اور انعام كيا جب ان ميں سے ہى ايك رسول ان ميں مبعوث كيا
[سورۃ آل عمران ( 164 )]

اور ايك مقام پر اس طرح ارشاد فرمايا:

{اللہ وہى ہے جس نے اميوں ميں ان ميں سے ہى ايك رسول مبعوث كيا
[سورۃ الجمعۃ ( 2 )]

4 -  اور بعض اوقات وہ يہ بھى كہتے ہيں:

ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كا جشن منانے كى ايجاد تو ايك عادل اور عالم بادشاہ نے كى تھى اور اس كا مقصد اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنا تھا!

اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ:

بدعت قابل قبول نہيں چاہے وہ كسى سے بھى سرزد ہو، اور اس كا مقصد كتنا بھى اچھا اور بہتر ہى كيوں نہ ہو، اچھے اور بہتر مقصد سے كوئى برائى كرنا جائز نہيں ہو جاتى، اور كسى كا عالم اور عادل ہونے كا مطلب يہ نہيں كہ وہ معصوم ہے.

5 -  ان كا يہ كہنا كہ: جشن ميلاد النبى بدعتِ حسنۃ ميں شمار ہوتى ہے، كيونكہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وجود پر اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے كى خبر ديتى ہے.

اس كا جواب يہ ہے كہ:

بدعت ميں كوئى چيز حسن نہيں ہے بلكہ وہ سب بدعت ہى شمار ہوتى ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے

[صحيح بخارى ( 3 / 167 ) حديث نمبر ( 2697 ) ديكھيں فتح البارى ( 5 / 355 )]

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:

" يقينا ہر بدعت گمراہى ہے

[اسے امام احمد نے مسند احمد ( 4 / 126 ) اور امام ترمذى نے جامع ترمذى حديث نمبر ( 2676 ) ميں روايت كيا ہے.]

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سب بدعتوں پر گمراہى كا حكم صادر كر ديا ہے اور يہ كہتا ہے كہ سارى بدعتيں گمراہى نہيں بلكہ كچھ بدعتيں حسنہ بھى ہيں.

حافظ ابن رجب حنبلى رحمہ اللہ تعالى شرح الاربعين ميں كہتے ہيں:

(رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان: " ہر بدعت گمراہى ہے" يہ جوامع الكلم ميں سے ہے، اس سے كوئى چيز خارج نہيں، اور يہ دين كے اصولوں ميں سے ايك عظيم اصول ہے، اور يہ بالكل نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے اسى قول كى طرح اور شبيہ ہے:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس دين ميں ايسا كام ايجاد كر ليا جو اس ميں سے نہيں تو وہ عمل مردود ہے

[اسے بخارى نے (3 / 167) حديث نمبر (2697) ميں روايت كيا ہے، ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 355 ).]

لھذا جس نے بھى كوئى ايجاد كركے اسے دين كى جانب منسوب كر ديا، اور دين اسلام ميں اس كى كوئى دليل نہيں جس كى طرف رجوع كيا جا سكے تو وہ گمراہى اور ضلالت ہے، اور دين اس سے برى ہے دين كے ساتھ اس كا كوئى تعلق اور واسطہ نہيں، چاہے وہ اعقادى مسائل ميں ہو يا پھر اعمال ميں يا ظاہرى اور باطنى اقوال ميں ہو ) انتہى.

[ديكھيں: جامع العلوم والحكم صفحہ نمبر ( 233 ).]

اور ان لوگوں كے پاس بدعتِ حسنہ كى اور كوئى دليل نہيں سوائے عمر رضى  اللہ تعالى عنہ كا نمازِ تراويح كے متعلق قول ہى ہے، جس ميں انہوں نے كہا تھا:

(نعمت البدعۃ ھذہ) يہ طريقہ اچھا ہے۔ اسے بخارى نے تعليقا بيان كيا ہے۔
[ديكھيں: صحيح بخارى شريف ( 2 / 252 ) حديث نمبر ( 2010 ) ديكھيں: فتح البارى ( 4 / 294 ).]

جشن ميلاد منانے والوں كا يہ بھى كہنا ہے كہ:

كچھ ايسى نئى اشياء ايجاد كى گئى جن كا سلف نے انكار نہيں كيا تھا: مثلا قرآن مجيد كو ايك كتاب ميں جمع كرنا، اور حديث شريف كى تحرير و تدوين.

اس كا جواب يہ ہے كہ:

ان امور كى شريعت مطہرہ ميں اصل ملتى ہے، لہذا يہ كوئى بدعت نہيں بنتے.

اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا قول " يہ طريقہ اچھا ہے" ان كى اس سے مراد لغوى بدعت تھى نہ كہ شرعى، لہذا جس كى شريعت ميں اصل ملتى ہو تو اس كى طرف رجوع كيا جائے گا.

جب كہا جائے كہ: يہ بدعت ہے تو يہ لغت كے اعتبار سے بدعت ہو گى نہ كہ شريعت كے اعتبار سے، كيونكہ شريعت ميں بدعت اسے كہا جاتا ہے جس كى شريعت ميں كوئى دليل اور اصل نہ ملتى ہو جس كى طرف رجوع كيا جا سكے.

اور قرآن مجيد كو ايك كتاب ميں جمع كرنے كى شريعت ميں دليل ملتى ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم قرآن مجيد لكھنے كا حكم ديا كرتے تھے، ليكن قرآن جدا جدا اور متفرق طور پر لكھا ہوا تھا، تو صحابہ كرام نے اس كى حفاظت كے ليے ايك كتاب ميں جمع كر ديا.

اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے صحابہ كو چند راتيں تراويح كى نماز پڑھائى تھى، اور پھر اس ڈر اور خدشہ سے چھوڑ دى كے كہيں ان پر فرض نہ كر دى جائے، اور صحابہ كرام نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں عليحدہ عليحدہ اور متفرق طور پر ادا كرتے رہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد بھى اسى طرح ادا كرتے رہے، يہاں تك كہ عمر بن خطاب رضى اللہ تعالى عنہ نے انہيں ايك امام كے پيچھے جمع كر ديا، جس طرح وہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم كے پيچھے تھے، اور يہ كوئى دين ميں بدعت نہيں ہے.

اور حديث لكھنے كى بھى شريعت ميں دليل اور اصل ملتى ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كچھ احاديث بعض صحابہ كرام كو ان كے مطالبہ پر لكھنے كا حكم ديا تھا.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زندگى ميں احاديث عمومى طور پر اس خدشہ كے پيش نظر ممنوع تھيں كہ كہيں قرآن مجيد ميں وہ كچھ نہ مل جائے جو قرآن مجيد كا حصہ نہيں، لہذا جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہو گئے تو يہ ممانعت جاتى رہى، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات سے قبل قرآن مجيد مكمل ہو گيا اور لكھ ليا گيا تھا، اور اسے احاطہ تحرير اور ضبط ميں لايا جا چكا تھا.

تو اس كے بعد مسلمانوں نے سنت كو ضائع ہونے سے بچانے كے ليے احاديث كى تدوين كى اور اسے لكھ ليا، اللہ تعالى انہيں اسلام اور مسلمانوں كى طرف سے جزائے خير عطا فرمائے كہ انہوں نے اپنے رب كى كتاب اور اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كو ضائع ہونے اور كھيلنے والوں كے كھيل اور عبث كام سے محفوظ كيا.

اور يہ بھى كہا جاتا ہے كہ:

تمہارے خيال اور گمان كے مطابق اس شكريہ كى ادائيگى ميں تاخير كيوں كى گئى، اور اسے پہلے جو افضل ادوار كہلاتے ہيں، يعنى صحابہ كرام اور تابعين عظام اور تبع تابعين كے دور ميں كيوں نہ كيا گيا، حالانكہ يہ لوگ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بہت زيادہ اور شديد محبت ركھتے تھے، اور خير و بھلائى كے كاموں اور شكر ادا كرنے ميں ان كى حرص زيادہ تھى، تو كيا جشن ميلاد كى بدعت ايجاد كرنے والے ان سے بھى زيادہ ہدايت يافتہ اور اللہ تعالى كا شكر ادا كرنے والے تھے؟ حاشا و كلا ايسا نہيں ہو سكتا.

6 -  اور بعض اوقات وہ يہ كہتے ہيں كہ : جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم منانا نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت ظاہر كرتا ہے، اور يہ اس محبت كے مظاہر ميں سے ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كا اظہار كرنا مشروع اور جائز ہے !

اس كے جواب ميں ہم يہ كہيں گے كہ:

بلاشك و شبہ ہر مسلمان شخص پر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت واجب ہے، اور يہ محبت اپنى جان، مال اور اولاد اور والد اور سب لوگوں سے زيادہ ہونى چاہيے-  ميرے ماں باپ نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر قربان ہوں -  ليكن اس كا معنى يہ نہيں كہ ہم ايسى بدعات ايجاد كر ليں  جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہمارے ليے مشروع بھى نہ كى ہوں.

بلكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت تو يہ تقاضا كرتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى كى جائے اور ان كے حكم كے سامنے سر خم تسليم كيا جائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كے مظاہر ميں سے سب عظيم ہے، كسى شاعر نے كيا ہى خوب كہا ہے:

اگر تيرى محبت سچى ہوتى تو اس كى اطاعت و فرمانبردارى كرتا، كيونكہ محبت كرنے والا اپنے محبوب كى اطاعت و فرمانبردارى كرتا ہے.

لہذا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى محبت كا تقاضا ہے كہ ان كى سنت كا احياء كيا جائے، اور سنت رسول كو مضبوطى سے تھام كر اس پر عمل پيرا ہوا جائے، اور افعال و اقوال ميں سے جو كچھ بھى سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم كا مخالف ہو اس سے اجتناب كرتے ہوئے اس سے بچا جائے.

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ جو كام بھى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت كے خلاف ہے وہ قابل مذمت بدعت اور ظاہرى معصيت و گناہ كا كام ہے، اور جشن آمد رسول يا جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم وغيرہ بھى اس ميں شامل ہوتا ہے.

چاہے نيت كتنى بھى اچھى ہو اس سے دين اسلام ميں بدعات كى ايجاد جائز نہيں ہو جاتى، كيونكہ دين اسلام دو اصلوں پر مبنى ہے اور اس كى اساس دو چيزوں پر قائم ہے: اور وہ اصول اخلاص اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

{سنو! جو بھى اپنے آپ كو اخلاص كے ساتھ اللہ تعالى كے سامنے جھكا دے بلا شبہ اسے اس كا رب پورا پورا بدلہ دے گا، اس پر نہ تو كوئى خوف ہو گا، اور نہ ہى غم اور اداسى
[سورۃ البقرۃ ( 112 )]

تو اللہ تعالى كے سامنے سر تسليم خم كرنا اللہ تعالى كے ليے اخلاص ہے، اور احسان نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى اور سنت پر عمل كرنے كا نام ہے.

7 -  ان كے شبھات ميں يہ بھى شامل ہے كہ وہ يہ كہتے ہيں:

جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كے احياء اور اس جشن ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت پڑھنے ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و پيروى پر ابھارنا ہے !

اس كے جواب ميں ہم ان سے يہ كہيں گے كہ:

مسلمان شخص سے مطلوب تو يہ ہے كہ وہ سارا سال اور سارى زندگى ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سيرت كا مطالعہ كرتا رہے، اور يہ بھى مطلوب ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى بھى ہر وقت اور ہر كام ميں كرے.

اب اس كے ليے بغير كسى دليل كے كسى دن كى تخصيص كرنا بدعت شمار ہو گى، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور ہر بدعت گمراہى ہے

[اسے احمد نے (4 / 164) اور ترمذى نے حديث نمبر (2676) ميں روايت كيا ہے۔]

اور پھر بدعت كا ثمر اور نتيجہ شر اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے دورى كے سوا كچھ نہيں ہوتا.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

جشن ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم ہو يا جشن آمد رسول صلى اللہ عليہ وسلم اس كى سارى اقسام و انواع اور اشكال و صورتيں بدعت منكرہ ہيں مسلمانوں پر  واجب ہے كہ وہ اس بدعت سے بھى باز رہيں اور اس كے علاوہ دوسرى بدعات سے بھى اجتناب كريں، اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كا احياء كريں اور سنت كى پيروى كرتے رہيں، اور اس بدعت كى ترويج اور اس كا دفاع كرنے والوں سے دھوكہ نہ كھائيں، كيونكہ اس قسم كے لوگ سنت كے احياء كى بجائے بدعات كے احياء كا زيادہ اہتمام كرتے ہيں، بلكہ اس طرح كے لوگ تو ہو سكتا ہے سنت كا بالكل اہتمام كرتے ہى نہيں.

لہذا جس شخص كى حالت يہ ہو جائے تو اس كى تقليد اور اقتدا كرنى اور بات ماننى جائز نہيں ہے، اگرچہ اس طرح كے لوگوں كى كثرت ہى كيوں نہ ہو، بلكہ بات تو اس كى تسليم جائے گى اور اقتدا اس كى كرنى چاہيے جو سنت نبوى صلى اللہ عليہ وسلم پر عمل كرتا ہو اور سلف صالحين كے نھج اور طريقہ پر چلنے والا ہو، اگرچہ ان كى تعداد بہت قيل ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ حق كى پہچان آدميوں كے ساتھ نہيں ہوتى، بلكہ آدمى كى پہچان حق سے ہوتى ہے.

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بلاشبہ تم ميں سے جو زندہ رہے گا تو وہ عنقريب بہت زيادہ اختلافات كا مشاہدہ كرے گا، لہذا تم ميرى اور ميرے بعد ہدايت يافتہ خلفاء راشدين كى سنت اور طريقہ كى پيروى اور اتباع كرنا، اسے مضبوطى سے تھامے ركھنا، اور نئے نئے كاموں سے اجتناب كرنا، كيونكہ ہر بدعت گمراہى ہے

[ديكھيں: مسند احمد ( 4 / 126 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 2676 ).]

اس حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہميں يہ بتا ديا ہے كہ اختلاف كے وقت ہم كسى كى اقتدا كريں، اور اسى طرح يہ بھى بيان كيا كہ جو قول اور فعل بھى سنت كے مخالف ہو وہ بدعت ہے، اور ہر قسم كى بدعت گمراہى ہے.

اور جب ہم جشن ميلاد النبى كو كتاب و سنت پر پيش كرتے ہيں، تو ہميں اس كى نہ تو كوئى دليل سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں ملتى ہے اور نہ خلفاء راشدين كى سنت اور طريقہ ميں، تو پھر يہ كام نئى ايجاد اور گمراہ بدعات ميں سے ہے.

اور اس حديث ميں پائے جانے والے اصول كى دليل كتاب اللہ ميں بھى پائى جاتى ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

{اور اگر تم كسى چيز ميں اختلاف كر بيٹھو تو اسے اللہ تعالى اور رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ تعالى اور يوم آخرت پر ايمان ركھتے ہو، يہ بہت بہتر اور انجام كے اعتبار سے بہت اچھا ہے
[سورۃ النساء ( 59 )]

اللہ تعالى كى طرف لوٹانا يہ ہے كہ كتاب اللہ كى طرف رجوع كيا جائے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف لوٹانے كا مطلب يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى وفات كے بعد اسے سنت پر پيش كيا جائے.

تو اس طر تنازع اور اختلاف كے وقت كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى طرف رجوع كيا جائے گا، لھذا كتاب اور سنت رسول صلى اللہ عليہ ميں جشن ميلاد النبى كى مشروعيت كہاں ملتى ہے، اور اس كى دليل كہاں ہے؟

لہذا جو بھى اس فعل كا مرتكب ہو رہا ہے يا وہ اسے اچھا سمجھتا ہے اسے اللہ تعالى كے ہاں اس كے ساتھ ساتھ دوسرى بدعات سے بھى توبہ كرنى چاہيے، اور حق كا اعلان كرنے والے مومن كى شان بھى يہى ہے، ليكن جو شخص متكبر ہو اور دليل مل جانے كے بعد اس كى مخالفت كرے اس كا حساب اللہ تعالى كے سپرد.

اس سلسلہ ميں اتنا ہى كافى ہے، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں روز قيامت تك كتاب و سنت پر عمل كرنے اور اس پر كاربند رہنے كى توفيق بخشے، اور ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ  وسلم اور ان كى آل اوران كے صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

[ديكھيں: كتاب حقوق النبى صلى اللہ عليہ وسلم بين الاجلال و الاخلال صفحہ نمبر (139).]

الشيخ ڈاكٹر صالح بن فوزان الفوزان، ممبر كبار علماء كرام كميٹى سعودى عرب.


*********************
اول:

سب سے پہلى بات تو يہ ہے كہ علماء كرام كا نبى كريم ﷺ كى تاريخ پيدائش ميں اختلاف پايا جاتا ہے اس ميں كئى ايك اقوال ہيں جہيں ہم ذيل ميں پيش كرتے ہيں:

چنانچہ ابن عبد البر رحمہ اللہ كى رائے ہے كہ نبى كريم ﷺ كى پيدائش سوموار كے دن دو ربيع الاول كو پيدا ہوئے تھے.

اور ابن حزم رحمہ اللہ نے آٹھ ربيع الاول كو راجح قرار ديا ہے.

اور ايك قول ہے كہ: دس ربيع الاول كو پيدا ہوئے، جيسا كہ ابو جعفر الباقر كا قول ہے.

اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش بارہ ربيع الاول كو ہوئى، جيسا كہ ابن اسحاق كا قول ہے.

اور ايك قول ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى پيدائش رمضان المبارك ميں ہوئى، جيسا كہ ابن عبد البر نے زبير بكّار سے نقل كيا ہے.

ديكھيں: السيرۃ النبويۃ ابن كثير ( 199 - 200 ).

ہمارے علم كے ليے علماء كا يہى اختلاف ہى كافى ہے كہ نبى كريم ﷺ سے محبت كرنے والے اس امت كے سلف علماء كرام تو نبى كريم ﷺكى پيدائش كے دن كا قطعى فيصلہ نہ كر سكے، چہ جائيكہ وہ جشن ميلاد النبى ﷺ مناتے، اور پھر كئى صدياں بيت گئى ليكن مسلمان يہ جشن نہيں مناتے تھے، حتى كہ فاطميوں نے اس جشن كى ايجاد كى.

شيخ على محفوظ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" سب سے پہلے يہ جشن فاطمى خلفاء نے چوتھى صدى ہجرى ميں قاہر ميں منايا، اور انہوں نے ميلاد كى بدعت ايجاد كى جس ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم، اور على رضى اللہ تعالى عنہ كى ميلاد، اور فاطمۃ الزہراء رضى اللہ تعالى عنہا كى ميلاد، اور حسن و حسين رضى اللہ تعالى عنہما، اور خليفہ حاضر كى ميلاد، منانے كى بدعت ايجاد كى، اور يہ ميلاديں اسى طرح منائى جاتى رہيں حتى كہ امير لشكر افضل نے انہيں باطل كيا.

اور پھر بعد ميں خليفہ آمر باحكام اللہ كے دور پانچ سو چوبيس ہجرى ميں دوبارہ شروع كيا گيا حالانكہ لوگ تقريبا اسے بھول ہى چكے تھے.

اور سب سے پہلا شخص جس نے اربل شہر ميں ميلاد النبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ايجاد كى وہ ابو سعيد ملك مظفر تھا جس نے ساتويں صدى ہجرى ميں اربل كے اندر منائى، اور پھر يہ بدعت آج تك چل رہى ہے، بلكہ لوگوں نے تو اس ميں اور بھى وسعت دے دى ہے، اور ہر وہ چيز اس ميں ايجاد كر لى ہے جو ان كى خواہش تھى، اور جن و انس كے شياطين نے انہيں جس طرف لگايا اور جو كہا انہوں وہى اس ميلاد ميں ايجاد كر ليا " انتہى

ديكھيں: الابداع مضار الابتداع ( 251 ).




دوم:

سوال ميں ميلاد النبى كے قائلين كا يہ قول بيان ہوا ہے كہ:

جو تمہيں كہے كہ ہم جو بھى كرتے ہيں اس كا نبى كريم ﷺ يا عہد صحابہ يا تابعين ميں پايا جانا ضرورى ہے "

اس شخص كى يہ بات اس پر دلالت كرتى ہے كہ ايسى بات كرنے والے شخص كو تو بدعت كے معنى كا ہى علم نہيں جس بدعت سے ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بچنے كا بہت سارى احاديث ميں حكم دے ركھا ہے؛ اس قائل نے جو قاعدہ اور ضابطہ ذكر كيا ہے وہ تو ان اشياء كے ليے ہے جو اللہ كا قرب حاصل كرنے كے ليے كى جاتى ہيں يعنى اطاعت و عبادت ميں يہى ضابطہ ہو گا.

اس ليے كسى بھى ايسى عبادت كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنا جائز نہيں جو ہمارے ليے رسول كريم ﷺ نے مشروع نہيں كى، اور يہ چيز نبى كريم ﷺ نے جو ہميں بدعات سے منع كيا ہے اسى سے مستنبط اور مستمد ہے، اور بدعت اسے كہتے ہيں كہ: كسى ايسى چيز كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كرنے كى كوشش كى جائے جو اس نے ہمارے ليے مشروع نہيں كى، اسى ليے حذيفہؓكہا كرتے تھے:

" ہر وہ عبادت جو رسول كريم ﷺ كے صحابہ كرنے نے نہيں كى تم بھى اسے مت كرو "

يعنى: جو رسول كريم ﷺ كے دور ميں دين نہيں تھا، اور نہ ہى اس كے ساتھ اللہ كا قرب حاصل كيا جاتا تھا تو اس كے بعد بھى وہ دين نہيں بن سكتا "

پھر سائل نے جو مثال بيان كى ہے وہ جرح و تعديل كے علم كى ہے، اس نے كہا ہے كہ يہ بدعت غير مذموم ہے، جو لوگ بدعت كى اقسام كرتے ہوئے بدعت حسنہ اور بدعت سئيہ كہتے ہيں ان كا يہى قول ہے كہ يہ بدعت حسنہ ہے، بلكہ تقسيم كرنے والے تو اس سے بھى زيادہ آگے بڑھ كر اسے پانچ قسموں ميں تقسيم كرتے ہوئے احكام تكليفيہ كى پانچ قسميں كرتے ہيں:

وجوب، مستحب، مباح، حرام اور مكروہ عزبن عبد السلام رحمہ اللہ يہ تقسيم ذكر كيا ہے اور ان كے شاگرد القرافى نے بھى ان كى متابعت كى ہے.

اور شاطبى رحمہ اللہ قرافى كا اس تقسيم پر راضى ہونے كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" يہ تقسيم اپنى جانب سے اختراع اور ايجاد ہے جس كى كوئى شرعى دليل نہيں، بلكہ يہ اس كا نفس متدافع ہے؛ كيونكہ بدعت كى حقيقت يہى ہے كہ اس كى كوئى شرعى دليل نہ ہو نہ تو نصوص ميں اور نہ ہى قواعد ميں، كيونكہ اگر كوئى ايسى شرعى دليل ہوتى جو وجوب يا مندوب يا مباح وغيرہ پر دلالت كرتى تو پھرى كوئى بدعت ہوتى ہى نہ، اور عمل سارے ان عمومى اعمال ميں شامل ہوتے جن كا حكم ديا گيا ہے يا پھر جن كا اختيار ديا گيا ہے، چنانچہ ان اشياء كو بدعت شمار كرنے اور يہ كہ ان اشياء كے وجوب يا مندوب يا مباح ہونے پر دلائل دلالت كرنے كو جمع كرنا دو منافى اشياء ميں جمع كرنا ہے اور يہ نہيں ہو سكتا.

رہا مكروہ اور حرام كا مسئلہ تو ان كا ايك وجہ سے بدعت ہونا مسلم ہے، اور دوسرى وجہ سے نہيں، كيونكہ جب كسى چيز كے منع يا كراہت پر كوئى دليل دلالت كرتى ہو تو پھر اس كا بدعت ہونا ثابت نہيں ہوتا، كيونكہ ممكن ہے وہ چيز معصيت و نافرمانى ہو مثلا قتل اور چورى اور شراب نوشى وغيرہ، چنانچہ اس تقسيم ميں كبھى بھى بدعت كا تصور نہيں كيا جا سكتا، الا يہ كہ كراہت اور تحريم جس طرح اس كے باب ميں بيان ہوا ہے.

اور قرافى نے اصحاب سے بدعت كے انكار پر اصحاب سے جو اتفاق ذكر كيا ہے وہ صحيح ہے، اور اس نے جو تقسيم كى ہے وہ صحيح نہيں، اور اس كا اختلاف سے متصادم ہونے اور اجماع كو ختم كرنے والى چيز كى معرفت كے باوجود اتفاق ذكر كرنا بہت تعجب والى چيز ہے، لگتا ہے كہ اس نے اس تقسيم ميں اپنے بغير غور و فكر كيے اپنے استاد ابن عبد السلام كى تقليد و اتباع كى ہے.

پھر انہوں نے اس تقسيم ميں ابن عبد السلام رحمہ اللہ كا عذر بيان كيا ہے اور اسے " المصالح المرسلۃ " كا نام ديا ہے كہ يہ بدعت ہے، پھر كہتے ہيں:

" ليكن اس تقسيم كو نقل كرنے ميں قرافى كا كوئى عذر نہيں كيونكہ انہوں نے اپنے استاد كى مراد كے علاوہ اس تقسيم كو ذكر كيا ہے، اور نہ ہى لوگوں كى مراد پر بيان كيا ہے، كيونكہ انہوں نے اس تقسيم ميں سب كى مخالفت كى ہے، تو اس طرح يہ اجماع كے مخالف ہوا " انتہى

ديكھيں: الاعتصام ( 152 - 153 ).

ہم نصيحت كرتے ہيں كہ آپ كتاب سے اس موضوع كا مطالعہ ضرور كريں كيونكہ رد كے اعتبار سے يہ بہت ہى بہتر اور اچھا ہے اس ميں انہوں نے فائدہ مند بحث كى ہے.

عز عبد السلام رحمہ اللہ نے بدعت واجبہ كى تقسيم كى مثال بيان كرتے ہوئے كہا ہے:

" بدعت واجبہ كى كئى ايك مثاليں ہيں:

پہلى مثال:

علم نحو جس سے كلام اللہ اور رسول اللہ كى كلام كا فہم آئے ميں مشغول ہونا اور سيكھنا يہ واجب ہے؛ كيونكہ شريعت كى حفاظت واجب ہے، اور اس كى حفاظت اس علم كو جانے بغير نہيں ہو سكتى، اور جو واجب جس كے بغير پورا نہ ہو وہ چيز بھى واجب ہوتى ہے.

دوسرى مثال:

كتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ ميں سے غريب الفاظ اور لغت كى حفاظت كرنا.

تيسرى مثال:

اصول فقہ كى تدوين.

چوتھى مثال:

جرح و تعديل ميں كلام كرنا تا كہ صحيح اور غلط ميں تميز ہو سكے، اور شرعى قواعد اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شريعت كى حفاظت قدر متعين سے زيادہ كى حفاظت فرض كفايہ ہے، اور شريعت كى حفاظت اسى كے ساتھ ہو سكتى ہے جس كا ہم نے ذكر كيا ہے " انتہى.

ديكھيں: قواعد الاحكام فى مصالح الانام ( 2 / 173 ).

اور شاطبى رحمہ اللہ بھى اس كا رد كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" اور عز الدين نے جو كچھ كہا ہے: اس پر كلام وہى ہے جو اوپر بيان ہو چكى ہے، اس ميں سے واجب كى مثاليں اسى كے حساب سے ہيں كہ جو واجب جس كے بغير واجب پورا نہ ہوتا ہو تو وہ چيز بھى واجب ہے ـ جيسا اس نے كہا ہے ـ چنانچہ اس ميں يہ شرط نہيں لگائى جائيگى كہ وہ سلف ميں پائى گئى ہو، اور نہ ہى يہ كہ خاص كر اس كا اصل شريعت ميں موجود ہو؛ كيونكہ يہ تو مصالح المرسلہ كے باب ميں شامل ہے نہ كہ بدعت ميں " انتہى.

ديكھيں: الاعتصام ( 157 - 158 ).

اور اس رد كا حاصل يہ ہوا كہ:

ان علوم كو بدعت شرعيہ مذمومہ كے وصف سے موصوف كرنا صحيح نہيں، كيونكہ دين اور سنت نبويہ كى حفاظت والى عمومى شرعى نصوص اور شرعى قواعد سے ان كى گواہى ملتى ہے اور جن ميں شرعى نصوص اور شرعى علوم ( كتاب و سنت ) كو لوگوں تك صحيح شكل ميں پہچانے كا بيان ہوا ہے اس سے بھى دليل ملتى ہے.

اور يہ بھى كہنا ممكن ہے كہ: ان علوم كو لغوى طور پر بدعت شمار كيا جا سكتا ہے، نا كہ شرعى طور پر بدعت، اور شرعى بدعت سارى مذموم ہى ہيں، ليكن لغوى بدعت ميں سے كچھ تو محمود ہيں اور كچھ مذموم.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" شرعى عرف ميں بدعت مذموم ہى ہے، بخلاف لغوى بدعت كے، كيونكہ ہر وہ چيز جو نئى ايجاد كى گئى اور اس كى مثال نہ ہو اسے بدعت كا نام ديا جاتا ہے چاہے وہ محمود ہو يا مذموم " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 253 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" البدع يہ بدعۃ كى جمع ہے، اور بدعت ہر اس چيز كو كہتے ہيں جس كى پہلے مثال نہ ملتى ہو، لہذا لغوى طور پر يہ ہر محمود اور مذموم كو شامل ہو گى، اور اہل شرع كے عرف ميں يہ مذموم كے ساتھ مختص ہو گى، اگرچہ يہ محمود ميں وارد ہے، ليكن يہ لغوى معنى ميں ہو گى " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 13 / 340 ).

اور صحيح بخارى كتاب الاعتصام بالكتاب و السنۃ باب نمر 2حديث نمبر ( 7277 ) پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ كى تعليق پر شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ تقسيم لغوى بدعت كے اعتبار سے صحيح ہے، ليكن شرع ميں ہر بدعت گمراہى ہے، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اور سب سے برے امور دين ميں نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

اور اس عموم كے باوجود يہ كہا جائز نہيں كہ كچھ بدعات واجب ہوتى ہيں يا مستحب يا مباح، بلكہ دين ميں يا تو بدعت حرام ہے يا پھر مكروہ، اور مكروہ ميں يہ بھى شامل ہے جس كے متعلق انہوں نے اسے بدعت مباح كہا ہے: يعنى عصر اور صبح كے بعد مصافحہ كرنے كے ليے مخصوص كرنا " انتہى

اور يہ معلوم ہونا ضرورى ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں كسى بھى چيز كے كيے جانے كے اسباب كے پائے جانے اور موانع كے نہ ہونے كو مدنظر ركھنا چاہيے چنانچہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ميلاد اور صحابہ كرام كى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے محبت يہ دو ايسے سبب ہيں جو صحابہ كرام كے دور ميں پائے جاتے تھے جس كى بنا پر صحابہ كرام آپ كا جشن ميلاد منا سكتے تھے، اور پھر اس ميں كوئى ايسا مانع بھى نہيں جو انہيں ايسا كرنے سے روكتا.

لہذا جب نبى كريم ﷺاور ان كے صحابہ كرام نے جشن ميلاد نہيں منايا تو يہ علم ہوا كہ يہ چيز مشروع نہيں، كيونكہ اگر يہ مشروع ہوتى تو صحابہ كرام اس كى طرف سب لوگوں سے آگے ہوتے اور سبقت لے جاتے.

شيخ الاسلام ابن تيميہؒ كہتے ہيں:

" اور اسى طرح بعض لوگوں نے جو بدعات ايجاد كر ركھى ہيں وہ يا تو عيسى عليہ السلام كى ميلاد كى طرح عيسائيوں كے مقابلہ ميں ہيں، يا پھر نبى كريم ﷺ كى محبتا ور تعظيم ميں ـ اللہ سبحانہ و تعالى اس محبت اور كوشش كا تو انہيں اجروثواب دے گا نہ كہ اس بدعت پر ـ كہ انہوں نے ميلاد النبى كا جشن منانا شروع كر ديا ـ حالانكہ آپ كى تاريخ پيدائش ميں تو اختلاف پايا جاتا ہے ـ اور پھر كسى بھى سلف نے يہ ميلاد نہيں منايا، حالانكہ اس كا مقتضى موجود تھا، اور پھر اس ميں مانع بھى كوئى نہ تھا.

اور اگر يہ يقينى خير و بھلائى ہوتى يا راجح ہوتى تو سلف رحمہ اللہ ہم سے زيادہ اس كے حقدار تھے؛ كيونكہ وہ ہم سے بھى زيادہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ محبت كرتےتھے، اور آپ كى تعظيم ہم سے بہت زيادہ كرتے تھے، اور پھر وہ خير و بھلائى پر بھى بہت زيادہ حريص تھے.

بلكہ كمال محبت اور نبى كريم ﷺ كى تعظيم تو اسى ميں ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كى جائے، اور آپ كا حكم تسليم كيا جائے، اور ظاہرى اور باطنى طور پر بھى آپ كى سنت كا احياء كيا جائے، اور جس كے ليے آپ صلى اللہ عليہ وسلم مبعوث ہوئے اس كو نشر اور عام كيا جائے، اور اس پر قلبى لسانى اور ہاتھ كے ساتھ جھاد ہو.

كيونكہ مہاجر و انصار جو سابقين و اولين ميں سے ہيں كا بھى يہى طريقہ رہا ہے اور ان كے بعد ان كى پيروى كرنے والے تابعين عظام كا بھى " انتہى

ديكھيں: اقتضاء الصراط ( 294 - 295 ).

اور يہى كلام صحيح ہے جو يہ بيان كرتى ہے كہ نبى كريم ﷺ كى محبت تو آپ كى سنت پر عمل كرنے سے ہوتى ہے، اور سنت كو سيكھنے اور اسے نشر كرنے اور اس كا دفاع كرنے ميں نبى كريم ﷺ كى محبت ہے اور صحابہ كرام كا طريقہ بھى يہى رہا ہے.

ہم یہ پوچھتے ہیں کہ نبی ﷺ سے محبت کا مطلب کیا ہے؟ تو ہر عقلمند شخص کا جواب یہی ہوگا کہ:  نبی ﷺ کی اتباع کی جائے، اور آپ ﷺ کے طریقے پر عمل پیرا رہا جائے، چنانچہ اگر  یہ لوگ نبی ﷺ کے طریقہ کار پر چلتے اور آپکی اتباع کرتے ، تو یہ بھی اسی طرح عمل کرتے جیسے نبی ﷺ کے ساتھ محبت کرنے والے اور آپکی اتباع کرنے والے صحابہ کرام نے کیا، اور انہیں اس بات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سلف کی اتباع کرنے میں ہی خیر ہے، اور برے لوگوں کی اتباع کرنے  کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔

قاضی عیاضؒ  نبی ﷺ سے محبت کی علامت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: 
"یہ بات ذہن نشین کرلو کہ: جو شخص جس سے محبت کرتا ہے، اسی کو ترجیح دیتا ہے، اور اسی کے نقش قدم پر چلتا ہے، اگر ایسے نہ کرے تو وہ اپنی  محبت میں  سچا  نہیں ہے، بلکہ صرف زبانی جمع خرچ ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے سچی محبت کرنے والے شخص پر جو علامات ظاہر ہوتی ہیں، ان میں سب سے پہلے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اقتدا ، آپکی سنتوں پر عمل، آپ کی باتوں اور آپکے افعال  پر عمل، آپکے احکامات، اور ممنوعات کی پاسداری، آپ کی جانب سے ملنے والے آداب پر تنگی ترشی، آسانی فراوانی، سستی چستی ہر حالت میں  کار بند رہنا ہے، اس کی دلیل اللہ تعالی کےاس  فرمان میں ہے:
{قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ} 
ترجمہ:
کہہ دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تعالی تم سے محبت کریگا" [سورۃ آل عمران : 31]
اسیطرح شریعتِ محمدی کو ترجیح دینا،اسے  نفسانی خواہشات پر  مقدم کرنا، اور  آپکی  چاہت  کے مطابق عمل کرنا آپ سے محبت کی دلیل ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ} 
ترجمہ:
جو ان مہاجرین کی آمد سے پہلے ایمان لا کر دارالہجرت میں مقیم ہیں یہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں۔ اور جو کچھ بھی ان کو دے دیا جائے۔ اس کی کوئی حاجت اپنے دلوں میں نہیں پاتے اور اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ وہ اپنی جگہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔[سورۃ الحشر : 9]

اور رضائے الہی کی خاطر  لوگوں کی ناراضگی مول لینا آپ سے سچی محبت کی علامت ہے ۔۔۔، چنانچہ  جو شخص ان صفات سے متصف ہو وہی اللہ ، اور اس کے رسول سے کامل محبت کرتا ہے، اور جو  کچھ امور میں مخالفت کرے تو اسکی محبت ناقص ہے،  اگرچہ وہ محبت کے دائرے میں ہے۔
" الشفا بتعريف حقوق المصطفى " ( 2 / 24 ، 25 )

ليكن ان بعد ميں آنے والوں نے تو اپنے آپ كو دھوكہ ديا ہوا ہے، اور اس طرح كے جشن منانے كے ساتھ شيطان انہيں دھوكہ دے رہا ہے، ان كا خيال ہے كہ وہ اس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ اپنى محبت كا اظہار كر رہے ہيں، ليكن اس كے مقابلہ ميں وہ سنت كے احياء اور اس پر عمل پيرا ہونے اور سنت نبويہ كو نشر كرنے اور پھيلانے اور سنت كا دفاع كرنے سے بہت ہى دور ہيں.



سوم:

اور اس بحث كرنے والے نے جو كلام ابن كثير رحمہ اللہ كى طرف منسوب كى ہے كہ انہوں نے جشن ميلاد منانا جائز قرار ديا ہے، اس ميں صرف ہم اتنا ہى كہيں گے كہ يہ شخص ہميں يہ بتائے كہ ابن كثير رحمہ اللہ نے يہ بات كہاں كہى ہے، كيونكہ ہميں تو ابن كثير رحمہ اللہ كى يہ كلام كہيں نہيں ملى، اور ہم ابن كثير رحمہ اللہ كو اس كلام سے برى سمجھتے ہيں كہ وہ اس طرح كى بدعت كى معاونت كريں اور اس كى ترويج كا باعث بنيں ہوں.



اب ہم رسول اللہ ﷺ کی تاریخ پیدائش پر غور و فکر کرتے ہیں، کیا اس بارے میں کوئی ثبوت ہے؟ پھر اس  کے بعد ہم دوسری جانب نبی ﷺ کی وفات کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ کیا آپکی وفات کا دن ثابت ہے؟ ان دونوں سوالات کا جواب باشعور اور منصف شخص یہی دے گا کہ: آپ ﷺ کی تاریخ ولادت ثابت نہیں ہے، لیکن یقینی طور پر آپ ﷺ کی وفات کا دن ثابت ہے۔
اور جب ہم کتب سیرتِ نبویہ  میں غور کریں تو ہمیں  سیرت نگار آپ ﷺ کی تاریخ پیدائش  درج ذیل مختلف  اقوال  بیان کرتے ہوئے ملتے ہیں:

1- بروز سوموار، 2 ربیع الاول

2- آٹھ ربیع الاول

3- 10 ربیع الاول

4- 12 ربیع الاول

5- جبکہ زبیر بن بکار رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ آپکی پیدائش رمضان  المبارک میں ہوئی۔

  اگر آپ ﷺ کی پیدائش کے دن  پر کوئی حکم مرتب ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ سے ضرور پوچھتے،  یا کم از کم آپ ﷺ خود ہی انہیں بتلا دیتے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں  ہوا۔

جبکہ آپ ﷺ کی وفات کے بارے میں دیکھیں تو  سب اس بات پر متفق ہیں کہ 11 سن ہجری  کی ابتدا میں  12 ربیع الاول کو آپ ﷺ کی وفات ہوئی۔

اب ذرا غور کریں کہ بدعتی لوگ کس دن جشن مناتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ  یہ لوگ آپ ﷺ کی وفات کے دن جشن مناتے ہیں، آپکی پیدائش کے دن نہیں! خاندانِ عبیدی - جنہوں نے اپنا نسب نامہ تبدیل کر کے اپنے آپ کو فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف منسوب کرتے ہوئے"فاطمی" کہلوایا-  جو کہ فرقہِ باطنیہ سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے  اس بدعت  کا آغاز کیا ، اور بدعتی لوگوں نے بھی بڑی آسانی سے اسے قبول کر لیا، حالانکہ عبیدی لوگ زندیق ، ملحد تھے، ان کا مقصد نبی ﷺ کی وفات کے دن جشن منانا تھا، اور اس کیلئے انہوں نے عید میلاد کا ڈھونگ رچایا، اور اسی لیے تقریبات منعقد کیں،  دراصل ان لوگوں کا مقصد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات پر خوشی مناناتھا، جسے انہوں نے سادہ مسلمانوں کو چکما دے  کر پور اکیا کہ جو بھی ان کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرےگا  وہ حقیقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا محب ہو گا!، چنانچہ اس انداز سے وہ اپنے مکروہ مقاصد میں کامیاب ہوگئے، اور ساتھ میں انہیں یہ بھی کامیابی ملی کہ "محبت" کا معنی ہی تبدیل کر کے رکھ دیں، اور "نبی سے محبت" کو صرف  عید میلاد پر مخصوص قصیدے پڑھنے، کھانے کی سبیلیں لگانے، مٹھائیوں کی تقسیم، ناچ گانے کی محفلوں کا انعقاد، مرد و زن کا مخلوط ماحول، آلات موسیقی، بے پردگی، اور بے ہودگی میں محصور کر  دیں، مزید برآں بدعتی وسیلے ، اور ان مجالس میں کہے جانے والے شرکیہ کلمات  وغیرہ کا رواج  اس کے علاوہ  ہیں۔

واللہ اعلم .




🚫 مروجہ میلاد النبی ﷺ کے متعلق عرب وعجم کے جمہور علماء کا موقف اور دلائل:

*1. 📖 بدعت کی حرمت کا عقیدہ:*

· دلیل:
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: *"ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا، جو اس میں سے نہ ہو، وہ مردود ہے".*
[بخاري:2697، مسلم:1718]
· استدلال:
میلاد کا عمل نہ تو نبی ﷺ سے ثابت ہے، نہ صحابہ سے، نہ تابعین سے، نہ ائمہ مجتہدین سے۔ اس لیے یہ دین میں نئی چیز (بدعت) ہے اور اسے مردود قرار دیا جاتا ہے۔



*2. ⏳ تاریخی ثبوت کی عدم موجودگی:*

· دلیل:
صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ محدثین میں سے کسی نے بھی میلاد نہیں منایا۔ یہ رسم ساتویں صدی ہجری میں شروع ہوئی۔
· واضح حوالہ:
سب سے پہلے میلاد منانے والا شخص موصل کے علاقے اربل کا بادشاہ "ملک مظفرالدین" تھا جس نے 604ھ میں پہلی محفل میلاد منعقد کی۔
[البداية والنهاية-امام ابن کثیر: جلد 13 صفحہ 169]


*3. 📜 قرآن کی غلط تفسیر کا رد:*

· دلیل:
میلاد منانے والے سورہ یونس آیت 58 ("کہدیجئے کہ یہ اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوا ہے، لہٰذا اسی پر تو انہیں خوش ہونا چاہئے") سے دلیل پکڑتے ہیں، جبکہ اس آیت میں "فضل" اور "رحمت" سے مراد قرآن مجید، دین حق، جنت اور اخروی نعمتیں ہیں، نبی ﷺ کی ولادت نہیں۔
· تاکید:
آج تک کسی مستند مفسر، محدث یا فقیہ عالم نے نہیں کہا کہ اس آیت میں فضل اور رحمت سے مراد نبی ﷺ کی ولادت ہے۔

*4. ☪️ دین میں اضافے کی ممانعت:*

*· دلیل:*
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: *"آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا"۔*
[سورۃ المائدہ:3]۔
دین کے مکمل ہو جانے کے بعد اس میں نیا اضافہ (جیسے میلاد) بدعت ہے۔
· نفسیاتی پہلو:
جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ دین میں اضافہ کر سکتا ہے، وہ گویا یہ سمجھتا ہے کہ نبی ﷺ دین کو مکمل چھوڑ کر نہیں گئے۔

*5. 🗓️ زمانہٴ رسالت میں عدم ثبوت:*

· دلیل:
نبی ﷺ نے اپنی زندگی میں کبھی اپنا میلاد نہیں منایا، نہ ہی اس کی ترغیب دی۔
· تاریخی حقیقت:
نبی ﷺ کی وفات کے بعد بھی پہلی چھ(6)صدیوں تک مسلمانوں میں میلاد منانے کا کوئی رواج نہیں تھا۔

*6. 👥 صحابہ کرام کا عمل:*

· دلیل:
نبی ﷺ کیلئے اپنی جان، مال، اولاد غرض سب کچھ قربان کرنے والے جانثار صحابہ کرام نبی ﷺ سے سب سے زیادہ محبت رکھنے والے تھے، اسی لئے ان جیسا ایمان لانے کا حکم دیا گیا۔
[حوالہ»سورۃ البقرہ:13]
اور مہاجر اور انصار کی پیروی پر جنت، اللہ کی رضا اور عظیم کامیابی حاصل ہونے کی خوشخبری سنائی گئی۔
[حوالہ»سورہ التوبہ:100]
لیکن
انہوں نے کبھی میلاد نہیں منایا۔ اگر یہ عمل خیر/نیکی ہوتا تو وہ ضرور کرتے۔
· اخلاقی پہلو:
صحابہ کرام نبی ﷺ کے مزاج کو بہتر جانتے تھے، اس لیے انہوں نے کوئی ایسا عمل نہیں کیا جو نبی ﷺ کو ناپسند ہو۔

*7. 🔍 شرعی عیدوں کی محدود تعداد:*

· دلیل:
اسلام میں (سالانہ) صرف دو عیدیں (عید الفطر اور عید الاضحی) مشروع ہیں۔
[أبوداود:1134، نسائی:1557]
لہٰذا تیسری عید(میلاد) کا اضافہ، دین میں اضافہ ہے۔
· تقابلی جائزہ:
ماہِ رمضان المبارک اور عشرہ ذی الحجہ کو قرآن میں خصوصی فضیلت حاصل ہے، جبکہ ربیع الاول کے مہینے میں کوئی خاص عبادت مقرر نہیں کی گئی۔
[حوالہ»سورۃ البقرۃ:185، 197، الفجر:1]

*8. ⚠️ غیرمسلموں سے مشابہت:*

· دلیل:
میلاد منانا دراصل عیسائیوں کے "کرسمس" کی نقل ہے، جو ان کے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت مناتے ہیں۔
[حکم»سورۃ آل عمران:105-156، سورۃ البقرہ؛120]
· تاریخی حوالہ:
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: "نصاریٰ میلادِ عیسیٰ مناتے تھے، (بدعتی) مسلمانوں نے انہیں دیکھ کر یہ رسم اختیار کی"۔


*9. 💸 فضول خرچی اور اسراف:*

· دلیل:
میلاد کی محافل میں بڑے پیمانے پر فضول خرچی ہوتی ہے، جبکہ اسلام میں اسراف حرام ہے۔
[حکم»سورۃ الانعام:141 الاعراف:31]
· تاریخی مثال:
ملک مظفرالدین ہر سال میلاد پر تقریباً تین لاکھ روپے فضول خرچ کرتا تھا، جو رعایا کے مال سے ہوتا تھا۔
[البداية والنهاية-امام ابن کثیر: جلد 13 صفحہ 169]

*10. 🚷 شرکیہ اعمال کا دخول:*

· دلیل:
موجودہ دور کی میلاد کی محافل میں شرکیہ امور بھی پائے جاتے ہیں، جیسے نبی ﷺ کو حاضِر ناظِر سمجھنا، غُلُو در تعظیم وغیرہ۔
· تنبیہ:
نبی ﷺ سے محبت کا صحیح طریقہ ان کی اطاعت و اتباع ہے، نہ کہ نئے رسومات ایجاد کرنا۔
[حکم»سورہ آل عمران:31]سورۃ الکھف:104، الزخرف:37، الاعراف:30 (فاطر:8، محمد:14)]


*11. 📅 تاریخِ ولادت میں اختلاف:*

· دلیل:
نبی ﷺ کی صحیح تاریخ ولادت میں اختلاف ہے (8, 9, 10, 12 ربیع الاول)، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دن کو میلاد "ماننا" بھی دین کا حصہ نہیں۔
· منطقی نتیجہ:
اگر یہ دن واقعی اہم ہوتا تو نبی ﷺ یا صحابہ کرام اس کی تعیین ضرور کرتے۔

*12. 🙅‍♂️ سنت سے انحراف:*

· دلیل:
نبی ﷺ نے اپنی ولادت،بعثت اور نزولِ وحی کے شکرانے کیلئے پیر کے دن روزہ عادتاً(ہمیشہ)رکھتے تھے۔
[مسلم:1162، ابوداؤد:2426]
لیکن اجتماعی جشن منعقد نہیں کیا اور نہ کروایا۔ لہٰذا مروجہ میلاد تو درحقیقت سنت سے انحراف اور بدعت ہے۔
· حدیث:
نبی ﷺ نے فرمایا:
*"جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ مجھ سے نہیں".*
[بخاری:5063]

*13. 🤔 عقلی دلیل: صحابہ کی زیادہ محبت:*

· دلیل:
*...اس(نئی بات) میں کوئی "خیر" ہوتی تو صحابہ کرام ہم سے پہلے اس کام کی طرف رخ کرتے انہوں نے "نیکی" کی کسی بات کو نہ چھوڑا مگر یہ کہ وہ اس کی طرف دوڑتے تھے۔*
[تفسیر ابن کثیر»سورۃ الاحقاف:11]
· نکتہ:
صحابہ کرام نے نبی ﷺ کی وفات کے بعد بھی میلاد نہیں منایا، بلکہ سنت پر عمل کیا۔
کیونکہ یہی معیارِ محبت ہے۔
[حوالہ»سورۃ آل عمران:31]

*14. 📢 نبی ﷺ کی بعثت کی اہمیت:*

· دلیل:
نبی ﷺ کی ولادت نہیں بلکہ بعثت (نبوت) زیادہ اہم ہے، جو رمضان المبارک میں ہوئی۔ لیکن اس پر بھی کوئی جشن نہیں منایا جاتا۔
· موازنہ:
قرآن میں رمضان المبارک کا ذکر ہے، جبکہ ربیع الاول کا نہیں۔

*15. ⚖️ دین میں توازن:*

· دلیل:
نبی ﷺ نے تین صحابہ کو ڈانٹا جو عبادت میں غُلُو(حدیں پار) کرنا چاہتے تھے، ان سے نبی ﷺ نے فرمایا: *"میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں"*.
[بخاری:5063]
· ہدایت:
میلاد منانا درحقیقت دین میں غُلُو ہے، جس سے نبی ﷺ نے منع فرمایا۔

*16. 📜 سلفِ صالحین کی رائے:*

· دلیل:
امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور دیگر ائمہ میں سے کسی نے بھی میلاد منانے کی تائید نہیں کی۔
· اقوال:
علامہ عبدالرحمن مغربی فرماتے ہیں: "میلاد منانا بدعت ہے، کیونکہ نہ نبی ﷺ نے یہ کیا، نہ ہی صحابہ یا ائمہ نے
[الحاوي للفتاوي:1/ 229]

*17. 🕌 دینی تعلیمات میں عدم موجودگی:*

· دلیل:
دینی تعلیمات کی معروف کتابوں (کتب حدیث، فقہ، تفسیر) میں ہر سال ربیع الاول ہی میں ذکرِ میلاد منانے کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
· نتیجہ:
یہ رسم بعد کے لوگوں کی ایجاد کردہ ہے، جو کہ دین نہیں۔

*18. 🔄 سنتِ رسول ﷺ کی پیروی:*

· دلیل:
نبی ﷺ سے محبت کا صحیح اظہار یہ ہے کہ آپ ﷺ کی سنت پر عمل کیا جائے، نہ کہ نئے رسومات ایجاد کیے جائیں۔
[حوالہ»سورہ آل عمران:31]
· حدیث:
"تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک میں اسے اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں
[بخاری:14]
محبت کا تقاضا اطاعت ہے، نہ کہ نئے کام ایجاد کرنا۔

*19. 💡 متبادل طریقہٴ کار:*

· دلیل:
ولادت کی خوشی میں یہ کرنا چاہیے کہ نبی ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلا جائے، جیسے مردہ سنتوں کو زندہ کرنا، نفلی روزے رکھنا، درود پڑھنا، خیرات کرنا وغیرہ۔
· ہدایت:
دن اور وقت متعین کیے بغیر ہمیشہ ہر لمحہ اللہ کا شکر اور نبی ﷺ کی سنتوں کو ادا کیا جائے۔

*20. 🚨 موجودہ میلاد میں خرافات:*

· دلیل:
موجودہ دور میں میلاد کی محافل میں متعدد خرافات و بیہودہ امور پائے جاتے ہیں، جو شرعاً ناجائز ہیں۔
· ہدایت:
(1)شرکیہ نعتیں، (2)جھوٹی ومنگھڑت احادیث کا بیان، (3)فضول خرچی، (4)مرد و عورت کا اختلاط، (5)آلات موسیقی کا استعمال وغیرہ۔

---

نوٹ:
یہ تمام دلائل ان علماء و محققین کی طرف سے ہیں جو عید میلاد النبی کو شرعاً ناجائز سمجھتے ہیں۔ دین میں کسی بھی نئے اضافے (بدعت) سے بچنا اور سنت پر عمل کرنا ہی اصل احتیاط ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے۔


میلاد یا ذکرِ ولادت کرنے کی شرطیں اور آداب:
(1) صحیح احادیث و روایات کے ساتھ نبی کریم ﷺ کے متعلق باتوں کا ذکر ہو تاکہ عقائد ونظریات درست رہیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
آخری زمانہ میں دجل وفریب دینے والے جھوٹے ہوں گے جو تمہارے پاس ایسی "احادیث" لائیں گے جنہیں نہ تم نے سنا ہوگا اور نہ ہی تمہارے باپ دادا نے سنا ہوگا.
لہذا ان سے بچو اور ان کو اپنے آپ سے بچاؤ تاکہ وہ تمہیں گمراہ نہ کریں اور فتنہ میں نہ ڈالیں.
[صحیح مسلم: حدیث#7]


اور یہ بھی فرمایا:
مجھے حد سے نہ بڑھاؤ جیسے عیسائی(حضرت)عیسیٰ بن مریم کو بڑھاتے ہیں٬ میں تو بس اس کا بندہ ہوں، لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔
[صحیح بخاری:کتاب الأنبیاء: حدیث#3445]

اس نبوی پیشنگوئی کی سچائی دیکھیے کہ آج بعض لوگوں نے یہ چھاپنا بھی شروع کردیا ہے کہ:
خدا کہتے ہیں جسکو، مصطفیٰ معلوم ہوتا ہے
جسے کہتے ہیں بندہ، خود خدا معلوم ہوتا ہے۔
[دیوانِ محمدی/انوارِ فریدیہ: صفحہ#69 فارسی]
احمد احد میں کوئی فرق نہیں اے محمد!
عشاق یار رکھتے ہیں ایمان نئے نئے۔
[دیوانِ محمدی/انوارِ فریدیہ: صفحہ#104 فارسی]
گر محمد نے محمد کو خدا مان لیا،
پھر تو سمجھو کہ مسلمان ہے دغاباز نہیں۔
[دیوانِ محمدی/انوارِ فریدیہ: صفحہ#105 فارسی]

استغفر الله

فرمانِ نبوی ﷺ ہے کہ:
کسی سے تمہارا محبت کرنا تمہیں اندھا اور بہرا بنادیتا ہے۔
[ابوداؤد:5130، احمد:21694]
قرآنی شاہدی:
اور بعض لوگ وہ ہیں جو بناتے ہیں اللہ کے برابر اوروں کو٬ انکی محبت ایسی رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ کی، اور ایمان والوں کو ہے سب سے شدید محبت اللہ کی۔۔۔
[سورة البقرة:165]
یعنی
ان کی ویسی تعظیم کرتے(کھڑے ہوتے،سجدہ کرتے) ہیں جیسی الله کی اور ان کے سامنے بھی ویسی عاجزی کرتے(گڑگڑاتے)ہیں۔
[تفسیر(امام)نسفی:1/148]
وہ ان پر بھی بھروسہ کرتے، اور اپنے سارے کاموں میں(حصولِ نفع اور پناہ کی خاطر) اس کی طرف(امید ولالچ رکھتےغائبانہ التجا کرتے پکارتے)سہارا لیتے ہیں۔
[تفسیر(امام)ابنِ کثیر:1/476]






🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
بریلوی اعلیٰ حضرت احمد رضا خان صاحب کا فتویٰ ہے،کہ:
(2) داڑھی منڈا میلاد خواں سے مجلس مبارک پڑھوانا حرام ہے.
[دیکھیے کتاب، تعلیماتِ اعلٰی حضرت: ص38، فتاویٰ رضویہ: جلد دہم]

لڑکوں کی نعت خوانی کی ممانعت:
امرد (یعنی بےریش لڑکا) اپنی خوبصورتی یا خوش آوازی سے، محل اندیشہ و فتنہ ہو، خوش الحانی میں اسے بازو(یعنی ساتھی وممدگار) بنانے سے ممانعت کی جائے گی،منقول ہے کہ عورت کے ساتھ دو شیطان ہوتے ہیں اور امرد کے ساتھ ستر شیطان، خوبصورت مرد کا حکم(بھی)مثل عورت کے ہے۔
[تعلیماتِ اعلٰی حضرت:ص112، ملفوظات:ص237]

کیونکہ

القرآن:
۔۔۔ الله تو بس پرہیزگاروں ہی سے(اعمال)قبول کرتا ہے۔
[سورۃ المائدۃ:27]
تو
نعت خواں عورت کا اپنے چہرہ و آواز کا پردہ نہ کرنے اور مرد کا داڑھی مونڈھنے جیسی اعلانیہ نافرمانی کی عادت کے ساتھ مجلسِ میلاد میں نعت کہنا درست نہیں۔

اعلانیہ نافرمانی کے عادی لوگوں کا صدقہ بھی قبول نہیں۔
القرآن:
کہدیجیے، کہ تم اپنا مال چاہے خوشی خوشی چندے میں دو ، یا بد دلی سے، وہ تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔(کیونکہ) تم ایسے لوگ ہو جو مسلسل نافرمانی کرتے رہے ہو۔
[سورۃ التوبۃ:53]
جد بن قیس جس کا ذکر پچھلی آیت میں آیا ہے، اسی کے بارے میں ایک روایت یہ ہے کہ اس نے جنگ میں جانے سے تو مذکورہ بالا بےہودہ عذر پیش کیا تھا۔ لیکن یہ کہا تھا کہ اس کے بدلے میں اپنا مال چندے میں دوں گا۔[تفسیر ابن جریر، ج :10 ص :152]۔ اس کے جواب میں یہ آیت منافقین کے چندے کے ناقابل قبول ہونے کا اعلان کر رہی ہے۔

محبت رسول اللہؐ کی علامات




🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰

(3) ایسے وقت میں(میلاد/ذکرِ ولادت)بیان کریں جو فرض یا واجب نماز کا وقت نہ ہو تاکہ فرض، غیرضروری نہ بنیں۔
دلیلِ قرآن:
۔۔۔بیشک نماز مسلمانوں پر فرض ہے اپنے مقرر وقتوں میں۔
[سورۃ النساء:103]
آج کل نماز روزہ کوئی ادا نہ کرے تو اکثر لوگ ملامت نہیں کریں گے کیونکہ اس سے انہیں کوئی غرض وفائدہ نہیں بلکہ ان کے کام آپ سے لینے کا موقع گذرجاتا ہے ، لیکن نافرمان پیٹ اور نافرمان نظر کی خواہش کو پورا کرنے کیلئے"ایسی"دعوتیں، اجتماعی رسمیں جن حلال وحرام کی تمیز نہیں رہتی اور عورت کے بےپردہ چہرہ اور آواز کا موقع ملے،وہ بھی الله اور اس کے رسول کے نام کو استعمال کرکے،ایسی مجالس اور دعوتیں جن کا(1)نہ پہلے(نبی اور صحابہ کے دور میں)وجود تھا،اور(2)نہ ہی اس کا حکم دیا گیا۔۔۔تو اب اس غیرضروری(بلکہ غیرشرعی بات) کو ضروری بنانا اور ضروری(حکموں)کو غیرضروری بنانا،یہ دین کو بدلنا،بگاڑنا ہے،مخلوق کے دین کو خالق کا دین کہنا اور منوانا ہے، جو نبی کے بھیجے جانے کے مقصد، تعلیم اور اسے پھیلانے کی کوششوں میں برداشت کی گئی تکالیف کو ضایع کرنا اور مخالفت کرنا نہیں و اور کیا ہے؟؟؟
نبی ﷺ نے دین میں نئی باتیں نکالنے والے بدعتیوں کی یہ نشانیاں پیشگوئی فرمائیں،کہ:
(1)...وہ لوگوں سے تو کہتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے اور (2) وہ کام کرتے ہیں جن کا انہیں حکم نہیں ملا تھا...
[مسلم:50،احمد:4379]
قرآن:
جنکی(1)برباد ہوگئی کوشش دنیا کی زندگی میں اور(2)وہ یہ سمجھے ہوۓ ہیں کہ اچھے کام کررہے ہیں.
[الکھف:104]


نبی ﷺ نے فرمایا:
جس نے ہمارے (یعنی نبی اور صحابہ کے) دین میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس (یعنی سنت ِنبوی اور جماعتِ صحابہ کے طریقہ) میں نہیں تو وہ(نئی بات) "مردود" ہے.(یعنی مقبول نہیں).
[صحیح بخاری: حدیث#2697]
کیونکہ
آپ ﷺ نے فرمایا:
نہیں چھوڑی میں نے کوئی(نیکی کی)چیز(بات/عمل/طریقہ)جو قریب کردے تمہیں جنت کے مگر وہ کرچکا میں بیان تمہیں اور نہیں چھوڑی میں نے کوئی(بری)چیز(بات/عمل/طریقہ)جو قریب کرے تمہیں جھنم کے مگر وہ بھی کرچکا میں بیان تمہیں.
[سنن الکبریٰ(امام)بیھقی:7/75 کتاب الوصایا ،حدیث#12447]
لہذا،
جو نیا طریقہ نکالتا ہے وہ اس حرکت سے گویا کہ یہ سمجھتا اور سمجھاتا ہے کہ یہ بات نبی نے ہم تک نہیں پہنچائی، یا نبی کو معلوم نہ تھی۔(معاذ الله)


نبی ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
بدترین بات(دین میں)نئی نکالی گئی ںاتیں ہیں
اور
(دین میں نکالی گئی)ہر نئی بات "بدعت" ہے
اور
تمام بدعت گمراہیاں ہیں
[مسلم:867]
اور تمام گمراہیاں جھنم میں(لے جانے والی)ہے.
[نسائی:1578]


الله نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
...آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ہے...
[سورۃ المائدة:3]
لہذا، اس دورِ نبوی کے دن کے بعد دین میں ثواب کی نیت سے اب کوئی نئی بات(طریقہ)نکالنے کا حق کسی کو نہیں۔




🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
(4) ایسی کیفیات(طور طریقوں اور حالتوں)کے ساتھ میلاد(ذکرِ ولادت)کریں جو صحابہ کرام اور قرونِ ثلاثہ(پہلے کی تین صدیوں)کے طریقے کے خلاف نہ ہوں، اور ایسے آداب کے ساتھ ذکر نہ کریں کہ جو آداب صحابہ کرام کی سیرت و طریقے کے مخالف ہوں، اپنی طرف سے کمی یا اضافہ نہ کریں۔
لہٰذا ثواب کی نیت سے گلیاں سجانا، بالآخر کچرے یا نالے میں جمع ہونے والی جھنڈیاں لگانا، بیجز بنوانا پہننا، بھنگڑے ڈالنا، ناچنا، حرام حلال کی پروا کیے بغیر دعوت کا اہتمام، بےپردگی، دکھلاوا، فضول خرچ وہ بھی چوری کرکے چراگاں کرنا وغیرہ۔ کیا یہ نبوی تعلیم اور بھیجے جانے کا مقصد تھا؟؟؟ کل کس منہ سے نبی کے پاس حاضر ہونے کی امید رکھتے ہیں؟؟؟
نبی ﷺ نے فرمایا:
سب سے بہترین لوگ میرے زمانہ کے(یعنی نبی اور ان کے ساتھ چلنے والے صحابہ کا زمانہ)٬پھر وہ(لوگ)جو ان کے قریب ہوں(یعنی صحابہ کے پیچھے چلنے والے تابعین)، پھر وہ جو ان کے قریب ہوں(یعنی تابعین کے پیچھے چلنے والے تبع تابعین بہترین لوگ ہے)،ان کے بعد وہ لوگ ہوں گے کہ(1)وہ گواہی دیں گے حالانکہ انہیں گواہی دینے کے لئے نہیں کہا جائے گا اور(2) وہ امانت میں خیانت کریں گے اور(3)نذر مانیں گے، لیکن اسے پورا نہیں کریں گے اور(4)ان میں موٹاپا ظاہر(عام)ہوگا۔
[بخاری:2652، مسلم:2533]
اور
نبی ﷺ نے فرمایا:
میرے بعد(غیرحاضری میں)لوگوں میں"اختلاف"ہوجاۓ گا تو تم لازم پکڑنا میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو...اور(دین میں)نئی باتوں سے بچو کیونکہ(دین میں)ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے.
[ابو داؤد:4607، ترمذی:2676، ابن ماجہ:42]
اور
نبی ﷺ نے فرمایا:
تم میں سے جو بھی "فتنہ" کا دور پاۓ تو وہ(اپنی یا بعد والوں کے بجاۓ)پہلے گذرے ہوۓ(نیک)لوگوں کے طریقے پر چلے کیونکہ(ابتداء سے)تم فطرت(اسلام)پر ہو.
[دارمی:219]
یعنی انہوں نے جو مانا،کہا،کیا وہی کرو اور جو انہوں نے نہیں مانا،نہیں کہا،نہیں کیا اسے مت کرو۔کیونکہ وہ اصل السلام پر تھے، ان کے بعد نیکی اور نیکوکاروں کا غلبہ نہ رہے گا، برائی اور فتنہ(یعنی حق چھپانے اور جھوٹ ملانے کے سبب حلال اور حرام، صحیح وغلط میں فرق وتمیز نہ رہنے کی آزمائش اور فساد)پھیل جاۓ گا۔

🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
(5) اور ایسے اعتقاد وعقیدے کے ساتھ(میلاد/ذکرِ ولادت)بیان کریں جس میں شرک وبدعت کا شبھہ نہ ہو.
جیسے:
یہ شرکیہ عقیدہ نہ ہو کہ نبی ﷺ یہاں پر حاضر وموجود ہیں لہذا کھڑا ہونا اور انہیں(غائبانہ)پکارنا صحیح نہیں۔ اور یہ بدعتی نظریہ بھی نہ ہو کہ نبی ﷺ کا ذکر جو ہم کر رہے ہیں وہ ثواب ہے اور جو ایسا نہیں کرتے وہ "گناہ" کر رہے ہیں۔ لہٰذا شریک نہ ہونے والے کو طعن وتشنیع کرنا،گمراہ کہنا اور کفر کے فتوے لگانا گناہ وحرام ہے۔
کیونکہ ایسی باتیں نبی ﷺ نے نہیں سکھلائیں، بلکہ اس کے خلاف یہ باتیں تعلیم دیں جو ہر عام اور معمولی سمجھ رکھنے والے مومن کیلئے بھی کافی اور واضح ہے:
نبی ﷺ نے فرمایا:
میں نہیں جانتا کہ کتنا(عرصہ) میں تم میں رہوں گا
لہذا
پیچھے چلنا(یعنی کہا ماننا،ساتھ دینا)میرے بعد(غیرحاضری میں)ابوبکر اور عمر کے.
[ترمذی:3799، ابن ماجہ:97]


(2)اور ایک بار یہ فرمایا،کہ:
(اے عائشہ!)تم مت رو، اگر دجال میری زندگی(یعنی حاضری)میں نکلا تو اس کے لئے میں تمہاری طرف سے کافی ہوں اور اگر مجھے موت نے آلیا اور اگر دجال میرے بعد نکلا، پس(یہ یاد رکھنا) تمہارا رب عزوجل کانا نہیں ہے۔
[احمد:27568، 24467، طبراني:406، ابن حبان:6822]
اور اگر وہ میرے بعد(میر غیرحاضری میں)نکلا تو الله میرا خلیفہ(نائب)ہے پر مسلمان پر۔
[طیالسی:1738،حمیدی:369،احمد:27568]


(3) اور یوں بھی فرمایا،کہ:
جو میری قبر کے پاس درود پڑھےتو میں اسے خود سنتا ہوں
اور
جو دور سے درود پڑھے تو وہ(فرشتوں کےذریعہ)پہنچایا جاتا ہے.
[فتح الباری شرح البخاری:6/352]
معلوم ہوا کہ آپ ہر وقت یا ہر جگہ موجود نہیں۔

نہیں ہے کوئی عالم الغیب اور حاضر و ناظر ، سواۓ الله کے

حدیث : مجھے حد سے نہ بڑھاو جیسے ...





🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰🔰
(6)نبی  کیلئے کھڑا ہونا، خود نبی  کو ناپسند تھا۔
حضرت انس فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کے لئے رسول الله ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہیں تھا،لیکن وہ اس کے باوجود آپ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے،کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ اسے ناپسند کرتے تھے۔
[ترمذی:1446]

نبی ﷺ کیلئے تعظیماََ کھڑا ہونا:
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ ، أَنَّ رَجُلًا , سَمِعَ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ  ، يَقُولُ :  خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قُومُوا نَسْتَغِيثُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا الْمُنَافِقِ ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا يُقَامُ لِي ، إِنَّمَا يُقَامُ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى "  .

ترجمہ:
حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے لئے مت کھڑے ہوجایا کرو، صرف اللہ ہی کیلئے کھڑے ہوا کرو۔



حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَخْبَرَنَا عَفَّانُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَنَسٍ  ، قَالَ : " لَمْ يَكُنْ شَخْصٌ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : وَكَانُوا إِذَا رَأَوْهُ لَمْ يَقُومُوا لِمَا يَعْلَمُونَ مِنْ كَرَاهِيَتِهِ لِذَلِكَ " ، قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا  حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ  .
ترجمہ:
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام کے لئے رسول الله ﷺ سے بڑھ کر کوئی شخص محبوب نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود وہ لوگ آپ ﷺ کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہوتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ ﷺ اسے برا مانتے تھے.

[جامع الترمذي : ابواب الاستيذان و الأدب، باب ما جاء فی كراهية قيام، حديث : -2558]
جامع الترمذي: كتاب الدعوات - باب قول النبي ﷺ -: قوموا إلى سيدكم
أحمد:12345+13623
الأدب المفرد للبخاري:946،
البغوي - شرح السنة:3329، مصابيح السنة :3639 ،
الأحاديث المختارة:1958+1960+1961
المصنف ابن أبي شيبة:25583، 
مسند أبي يعلى الموصلي:3784، 
صَحِيحُ التَّرْغِيب وَالتَّرْهِيب:32، 
فتح الباري 53/11، 
روضة المحدثين:2473













عید اور میلاد میں فرق:
عيد اس تِہْوار كا نام ہے جس ميں بار بار اجتماع عادتاً ہو، يا تو وہ سال بعد آئے يا پھر ايک ماہ بعد يا ايک ہفتہ بعد۔
[المنجد:ص593، قاموس الوحید:ص1139، فیروز اللغات:ص908]
یعنی
(1) وہ تِہْوار جو عيد الفطر اور يوم الجمعہ كى طرح بار بار آئے۔
(2) اس دن اجتماع ہو اور لوگ جمع ہوں۔
(3) اس روز جو عبادات اور عادات جيسے اعمال كيے جاتے ہيں۔
جبکہ
(1)میلاد کو بطورِ تِہْوار(جشن)نبی ﷺ اور صحابہ نے ہر سال نہیں منایا.
(2)اجتماع کا نہ کوئی وقت مقرر ہے نہ کوئی جگہ
(3)نہ کوئی اجتماعی عمل ہے نہ کوئی عبادت۔


عيد
العادۃ کسی فعل یا انفعال کو "بار بار کرنا" حتی کہ وہ طبعی فعل کی طرح سہولت سے انجام پاسکے۔ اسی لئے بعض نے کہا ہے کہ عادۃ طبیعتِ ثانیہ کا نام ہے۔
العید وہ ہے جو بار بار لوٹ کر آئے۔
اصطلاحِ شریعت میں یہ لفظ فطرہ کے دن اور قربانی کے دن پر بولا جاتا ہے۔ چونکہ شرعی طور پر یہ دن خوشی کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«يَوْمُ عَرَفَةَ، وَيَوْمُ النَّحْرِ، وَأَيَّامُ التَّشْرِيقِ عِيدُنَا أَهْلَ الْإِسْلَامِ، وَهِيَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ.»
ترجمہ:
یوم عرفہ(یعنی نویں ذی الحجہ)، یوم النحر(یعنی دسویں ذی الحجہ) اور ایامِ تشریق (یعنی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں ذی الحجہ) ہم اہلِ اسلام کی عید ہے، اور یہ (1)کھانے اور (2)پینے کے دن ہیں۔
[سنن ابو داؤد:2419، سنن الترمذی:773، سنن النسائی:3007، صحيح ابن خزيمة:2100، صحيح ابن حبان:3603]

«أَلَا ، لَا تَصُومُوا هَذِهِ الْأَيَّامَ فَإِنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ ، وَذِكْرِ اللهِ»
ترجمہ:
خبردار!ان دنوں میں روزہ مت رکھو، کیونکہ یہ دن ہیں: (1)کھانے اور (2)پینے اور (3)ذکر اللہ کے۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌3573، شرح معاني الآثار:4100]
ذکر اللہ سے مراد یہ ہے کہ ایامِ تشریق میں فرض نمازوں کے بعد اللہ اکبر۔اللہ اکبر کہیں۔
[تفسیر ابن کثیر:1 /417 سورۃ البقرۃ:203]

تیسری روایت میں ہے کہ بھیجا رسول اللہ ﷺ نے حضرت علیؓ کو ایامِ تشریق میں، کہ وہ اعلان کریں (لوگوں میں):
فَإِنَّهَا أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَبِعَالٍ»
ترجمہ:
(اے لوگو!) یہ دن ہیں: (1)کھانے اور (2)پینے اور (3)میل جول کے۔
[مصنف ابن أبي شيبة:15265، (شرح معاني الآثار:4111) (الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم:3376)]
يَعْنِي النِّكَاحَ
[مسند إسحاق بن راهويه:2419]
وملاعبةُ الرجلِ أهلَه
ترجمہ:
اور کھیلنے کیلئے مرد کا اپنے گھروالی سے۔
[غريب الحديث للقاسم بن سلام:58]

اس لئے ہر وہ دن جس میں کوئی شادمانی حاصل ہو اس پر عید کا لفظ بولا جانے لگا ہے۔
چناچہ آیت کریمہ:۔
أَنْزِلْ عَلَيْنا مائِدَةً مِنَ السَّماءِ تَكُونُ لَنا عِيداً
ترجمہ:
ہم پر آسمان سے خوان (نعمت) نازل فرما۔ ہمارے لئے (وہ دن) عید قرار پائے۔
[سورۃ المائدة:114]
میں عید سے شادمانی کا دن ہی مراد ہے۔ اور العید اصل میں (خوشی یا غم کی) اس حالت کو کہتے ہیں جو بار بار انسان پر لوٹ کر آئے اور العائدۃ ہر اس منفعت کو کہتے ہیں جو انسان کو کسی چیز سے حاصل ہو۔

[المفردات في غريب القرآن - امام الراغب الأصفهانيؒ(م502ھ) : صفحہ593، الناشر: دار القلم، الدار الشامية - دمشق بيروت]

اس لیے کہ عید منانا سب لوگوں کی شرست اور طبیعت میں شامل ہے اور ان کے احساسات سے مرتبط ہوتی ہے، لہٰذا سب لوگ یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے لیے کوئي نہ کوئي تِہْوار ہونا چاہیے جس میں وہ سب جمع ہو کر اپنی خوشی وفرحت اور سرور کا اظہار کریں۔

لوگوں کی بنائی عیدیں غیراسلامی(بدعت) ہیں:
حضرت طاؤسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَتَّخِذُوا ‌شَهْرًا ‌عِيدًا، وَلَا تَتَّخِذُوا يَوْمًا عِيدًا۔
’’تم (اپنی طرف سے) کسی مہینے کو عید نہ بناؤ، اور نہ کسی دن کو عید بناؤ‘‘.
[مصنف عبد الرزاق:8100 (7853) ، لطائف المعارف لابن رجب: ص118]

کفار امتوں کی عیدیں اور تِہْوار اس کے دنیاوی معاملات کے اعتبار سے منائي جاتی ہیں مثلا: سال نو کا تہوار یا پھر زراعت کا موسم شروع ہونے کا تہوار اور بیساکھی کا تہوار یا موسم بہار کا تہوار ، یا کسی ملک کے قومی دن کا تہوار یا پھر کسی حکمران کا مسند اقدار پر براجمان ہونے کے دن کا تہوار اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے تہوار منائے جاتے ہيں ۔

اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے کچھ دینی تہوار بھی ہوتے ہیں، مثلا: یھود  کے خاص دینی تہوار یا عیسائيوں کے تہواروں میں جمعرات کا تہوار شامل ہے، جس کے بارہ میں ان کا خیال ہے کہ جمعرات کے دن عیسی علیہ السلام پر مائدہ یعنی آسمان سے دسترخوان نازل کیا گیا تھا اور سال کے شروع میں کرسمس کا تہوار ، اسی طرح شکر کا تہوار ، عطاء کا تہوار ، بلکہ اب تو عیسائي سب یورپی اور امریکی اور اس کے علاوہ دوسرے ممالک جن میں نصرانی نفوذ پایا جاتا ہے ان تہواروں کو مناتے ہیں اگرچہ بعض ممالک میں اصلا نصرانیت تو نہيں لیکن اس کے باوجود کچھ ناعاقبت اندیش قسم کے کچھ مسلمان بھی کم علمی یا پھر نفاق کی بنا پر ان تہواروں میں شامل ہوتے ہیں ۔

اسی طرح مجوسیوں کے بھی کچھ خاص تہوار اور عیدیں ہیں مثلا: مھرجان اور نیروز وغیرہ کا تہوار مجوسیوں کا ہے  ۔

اور اسی طرح فرقہ باطنیہ کے بھی کچھ تہوار ہیں، مثلا: عید الغدیر کا تہوار جس کے بارہ میں ان لوگوں کا خیال ہے کہ اس دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضي اللہ تعالی عنہ اور ان کے بعد بارہ اماموں سے خلافت پر بیعت کی تھی۔


مسلمانوں کی عید میں دوسروں سے امتیاز:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مسلمانوں کی ان دو عیدوں پر دلالت کرتا ہے اور مسلمانوں کی ان دو عیدوں کے علاوہ کوئي اور عید ہی نہیں :

حضرت عائشہ ؓ نے بتلایا کہ حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے گھر میں یہ شیطانی باجے؟ اور یہ عید(الفطر) کا دن تھا۔ آخر رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ سے فرمایا: اے ابوبکر!
إِنَّ ‌لِكُلِّ ‌قَوْمٍ ‌عِيدًا، وَهَذَا عِيدُنَا۔
ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
[صحيح البخاري:952، صحيح مسلم:892، (سنن ابن ماجه:1898)]

لھذا مسلمانوں کے لیے جائز اورحلال نہيں کہ وہ کفار اور مشرکوں سے ان کے تہواروں اورعیدوں میں مشابہت کریں نہ تو کھانے اورنہ ہی لباس میں اورنہ ہی آگ جلاکر اورعبادت کرکے ان کی مشابہت کرنا بھی جائز نہيں ، اور اسی طرح ان کے تہواروں اورعیدوں میں بچوں کو کھیل کود کرنے بھی نہيں دینا چاہیے ، اورنہ ہی زيب وزينت کا اظہار کیا جائے اوراسی طرح مسلمانوں کے بچوں کو کفار کے تہواروں اور عیدوں میں شریک ہونے کی اجازت بھی نہیں دینی چاہیے  ۔

ہر کفریہ اور بدعت والی عید اورتہوار حرام ہے مثلا سال نو کا تہوار منانا ، انقلاب کا تہوار ، عید الشجرۃ ، عیدالجلاء ، سالگرہ منانا ، ماں کا تہوار ، مزدوروں کا تہوار ، نیل کا تہوار ، اساتذہ کا تہوار ، اورعید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب بدعات اورحرام ہیں ۔

مسلمانوں کی صرف اور صرف دو عیدیں اور تہوار ہيں ، عید الفطر اور عیدالاضحی ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی فرمان ہے۔

حضرت انس رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ نبویہ تشریف لائے تو اہل مدینہ کے دو تہوار تھے جن میں وہ کھیل کود کرتے اورخوشی وراحت حاصل کرتے تھے ، لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں ؟
لوگوں نے جواب دیا کہ ہم دور جاہلیت میں ان دنوں میں کھیل کود کیا کرتے تھے ، تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا: يَوْمَ الْأَضْحَى، وَيَوْمَ الْفِطْرِ
یقینا اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں کے بدلے میں اچھے دن دیے ہیں عید الاضحی اور عیدالفطر۔
[سنن ابوداود: حدیث نمبر 1134]۔

یہ دونوں عیدیں اللہ تعالی کے شِعار(یعنی نشان، پہچان،رسم،عادت) اورعلامتوں میں سے جن کا احیاء کرنا اوران کے مقاصد کا ادراک اوران کے معانی کو سمجھنا ضروری ہے ۔







محافلِ میلاد میں منکرات کا ارتکاب، تفہیم المسائل

پروفیسر مفتی منیب الرحمن (مرکزی رویت ہلال کمیٹی، پاکستان کے سابقہ چیئرمین)
سوال:
میلاد شریف کے جلسوں میں دف کا اہتمام کیا جانا اور جشنِ میلاد شریف کے جلسوں میں تالیاں بجانا، ڈھول اور رقص پر اصرار کیا جانا، شریعتِ مطہرہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے، کیا کہیں کوئی جواز کی صورت ہے یادودھ وشہد میں نجاست وپلیدی ڈالنا اور حلال کو حرام کرنا ہے؟ دَف والی حدیث کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے اس حدیث کی روشنی میں مباح سمجھا جائے یا حدیث کو منسوخ سمجھا جائے یا پھر خصوصیت پر محمول کیا جائے؟ بعض حضرات صوفیہ کے سازوں کے ساتھ قوالی سننے کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ (تنظیمات اہل السنت والجماعت، سرگودھا)

جواب:

میلاد النبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے جلسوں اور جلوس کا محرمات، مکروہات سے پاک ہونا ہی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم سے حقیقی محبت کا ثبوت ہے کہ آپ کی بعثتِ مبارکہ کا مقصد ظلمت وجہالت کو دور کرنا اور احکامِ الٰہی کا پابند بنانا ہے، لوگوں کی رذیل صفات کو حسنِ اخلاق میں بدل دینا ہے۔ رسالت مآب صلی ﷲ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے دن کا اکرام انہی شرعی تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے جو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی مجالس میں نظر آتے ہیں اس سے ہٹ کر کسی غیر شرعی امر(کام) کا ارتکاب دعویٔ عشق و محبت رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ میلاد النبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے جلوس نہ ضروریاتِ دین سے ہیں، اور نہ ہی ضروریاتِ مسلک اہل السنت والجماعت سے، البتہ یہ برصغیر میں شعائرِ اہل سنت سے ہیں، یہ اگر محرمات ، بدعات اور منکرات سے پاک ہوں تو زیادہ سے زیادہ استحباب واستحسان کے درجے میں قرار دیا جاسکتا ہے۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
«‌لَا ‌يُؤْمِنُ ‌أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا ‌جِئْتُ ‌بِهِ»
ترجمہ:
تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل) مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک اس کی خواہش میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہو جائے۔
[السنة لابن أبي عاصم:15، الأربعون للنسوي:8، الأربعون للنسوي:279، شرح السنة للبغوي:104، الحجة في بيان المحجة-إسماعيل الأصبهاني:103، معجم السفر-أبو طاهر السلفي:1265]

حدیث کا واضح مفہوم یہی ہے کہ کامل ایمان کی علامت یہ ہے کہ انسان کا ہر قول و فعل ، معاملات ومعمولات اور خواہشات رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق ہونی چاہئیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے دینی امور(باتوں) کو قرآن وسنت میں بیان کردہ حقائق کی روشنی میں طے کرنے کے بجائے اپنی وضع کردہ عقیدتوں اور خواہشات کی نذر کردیتے ہیں اور عقیدے وعقیدت کا تعین ایک ایسا طبقہ کرتا ہے جو دینی فہم سے عاری و نابلد ہے ۔ محافلِ میلاد کے نام پر مقدس محافل کی آڑ میں بڑے بڑے کاروبار کیے جارہے ہیں، بعض مقامات پر نعت خوانوں اور شعلہ بیان مقررین (جن کی اکثریت موضوع روایات کا سہارا لیتی ہے) کی ایجنٹوں کے ذریعے لاکھوں میں بکنگ ہورہی ہے، کسی زمانے میں شہر بھر میں سیاسی لیڈروں کی بڑی بڑی قد آور تصاویر لگائی جاتی تھیں، اب واعظین اور نعت خواں حضرات کی تصاویر صرف بازاروں اور چوراہوں تک محدود نہیں، بلکہ مساجد کے صدر دروازوں پر بھی آویزاں نظر آتی ہیں۔ انگلینڈ سے فون آیا کہ اب پیر صاحبان کی تصاویر مساجد کے اندر آویزاں کی جارہی ہیں۔ ہمیں حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک باریش پیر کو جبے قبے کے ساتھ غیر محرم جوان عورتوں کے ساتھ بلاحجاب رقص کرتے ہوئے دکھایا، وہ ان کے ہاتھ پکڑے ہوئے نظر آتے ہیں، کبھی وہ انھیں بوسہ دیتی ہیں، یہ حرام ہے۔ جب ابتذال(یعنی فضول خرچی،بے قدری) اس حد تک پہنچ جائے تو علمائے کرام کو تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر شدت کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ کفار بیت ﷲ شریف کے پاس تالیاں بجاتے اور اسے عبادت شمار کرتے تھے، قرآن مجید میں اسے کفر قرار دیا گیا ہے، ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :
اور بیت ﷲ کے پاس ان کی نماز اس کے سوا کیا تھی کہ یہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے تھے، سواب عذاب کو چکھو کہ کیونکہ تم کفر کرتے تھے۔
[سورۃ الانفال:۳۵]

علامہ ابوعبدﷲ محمد بن احمد قرطبیؒ(م671ھ) لکھتے ہیں :
وَعَلَى التَّفْسِيرَيْنِ فَفِيهِ رَدٌّ عَلَى الْجُهَّالِ مِنَ ‌الصُّوفِيَّةِ الَّذِينَ يَرْقُصُونَ وَيُصَفِّقُونَ (وَيُصْعَقُونَ). وَذَلِكَ كُلُّهُ مُنْكَرٌ يَتَنَزَّهُ عَنْ مِثْلِهِ الْعُقَلَاءُ، وَيَتَشَبَّهُ فَاعِلُهُ بِالْمُشْرِكِينَ فِيمَا كَانُوا يَفْعَلُونَهُ عِنْدَ الْبَيْتِ
[تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن: 7/ 400]
ترجمہ:
قرآن مجید نے سیٹیاں بجانے اور تالیاں پٹینے کی جو مذمت کی ہے اس میں ان جاہل صوفیاء کا رد ہے، جو رقص کرتے ہیں ، تالیاں پیٹتے اور بے ہوش ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں (جسے وَجد نہیں بلکہ تواجُد سے تعبیر کیا گیا ہے)
[الجامع لاحکام القرآن ، جزء ۷، ص:۳۵۹، بیروت]

شریعت مطہرہ میں تالیاں بجانے کو مکروہ عمل فرمایا ہے۔
علامہ ابن عابدین(م1252ھ) شامیؒ لکھتے ہیں :
(قَوْلُهُ وَكُرِهَ كُلُّ لَهْوٍ) أَيْ كُلُّ لَعِبٍ وَعَبَثٍ فَالثَّلَاثَةُ بِمَعْنًى وَاحِدٍ كَمَا فِي ‌شَرْحِ ‌التَّأْوِيلَاتِ وَالْإِطْلَاقُ شَامِلٌ لِنَفْسِ الْفِعْلِ، وَاسْتِمَاعُهُ كَالرَّقْصِ وَالسُّخْرِيَةِ وَالتَّصْفِيقِ وَضَرْبِ الْأَوْتَارِ مِنْ الطُّنْبُورِ وَالْبَرْبَطِ وَالرَّبَابِ وَالْقَانُونِ وَالْمِزْمَارِ وَالصَّنْجِ وَالْبُوقِ، فَإِنَّهَا كُلَّهَا مَكْرُوهَةٌ لِأَنَّهَا زِيُّ الْكُفَّارِ
[حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي: 6 / 395]
ترجمہ:
’’(ہر بیہودہ کھیل مکروہ ہے) یعنی ہر لہو ولعب اور عبث (بے مقصد کام) تینوں (یعنی لہو، لعب او رعبث) کے معنیٰ ایک ہیں جیسا کہ ’’شرح التاویلات‘‘ میں ہے ۔ لہو کو مطلق (یعنی کسی قید کے بغیر) ذکر کرنا نفسِ فعل اور اس کی توجہ سے سماعت کو شامل ہے، جیسے رقص کرنا، مذاق کرنا اور تالیاں بجانا، ڈھول بجانا، ستار بجانا، سارنگی بجانا، چنگ بجانا، قانون (ایک تار والا باجا) بجانا، مزامیر کا استعمال ، جھانجھ (مجیرا) بجانا اور بگل بجانا، یہ سب مکروہ ہیں کیونکہ یہ عاداتِ کفار ہیں۔
[ردالمختار علی الدرالمختار، جلد:۹، ص:۴۸۱]

گانے کی دھن پر بنائی گئی موسیقی اور آلاتِ موسیقی کے ساتھ نعت پڑھنا، پڑھوانا اور سننا سب ناجائز ہے۔
علامہ علی قاری علیہ الرحمۃ الباری(م1014ھ) لکھتے ہیں:
’’جس نے دَف اور ڈانڈیا کے ساتھ قرآن کی تلاوت کی (وہ توہینِ قرآن کی وجہ سے) کفر کا مرتکب ہوا، میں (ملا علی قاری) کہتا ہوں :
اسی حکم کے قریب دَف اور ڈانڈیا کے ساتھ ﷲ تعالیٰ کا ذکر یا نعت مصطفی صلی ﷲ علیہ وسلم پڑھنا بھی ہے۔

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ مکمل ضابطہ اور دستور ہے ، احادیثِ مبارکہ میں صرف چند مواقع ایسے ملتے ہیں، جہاں دَف بجائی جارہی تھی، آپ ﷺ نے ان مواقع پر کسی خاص سبب سے اعراض نہ کیا۔ لیکن آج "تسکینِ نفس" کی تکمیل کے لیے ہر شخص اسے "سنت" سے ثابت کرنے پر تلا رہتا ہے، جبکہ حدیث پاک میں ہے:
‌بَعَثَنِي لِأَمْحَقَ الْمَعَازِفَ ‌وَالْمَزَامِيرَ
ترجمہ:
مجھے آلاتِ موسیقی کو توڑنے والا بنا کر بھیجا گیا۔
[ذم الملاهي لابن أبي الدنيا:69، الدر المنثور في التفسير بالمأثور:3 /178-سورۃ المائدۃ:آیت90]
کے کلمات بھی آئے ہیں۔ 
حضرت بریدہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ایک معرکہ سے واپس لوٹے تو ایک سیاہ رنگ کی بچی آکر کہنے لگی: ’’یا رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم! میں نے نذر مانی تھی کہ ﷲ تعالیٰ آپ کو صحیح سلامت لوٹادے تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اور اشعار گاؤں گی۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تو نے نذر مانی تھی تو، تو پھر دَف بجالے ورنہ نہیں۔ وہ لڑکی دَف بجانے لگی، اس اثناء میں حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ تشریف لائے ، وہ دف بجاتی رہی، پھر حضرت علیؓ تشریف لائے، وہ دف بجاتی رہی ، پھر حضرت عثمانؓ تشریف لائے، وہ تب بھی دف بجاتی رہی۔ پھر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف کو اپنے سرین کے نیچے چھپا کر اس پر بیٹھ گئی۔ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اے عمرؓ! تم سے شیطان ڈرتا ہے، میں بیٹھا تھا یہ دف بجاتی رہی، پھر ابوبکر (رضی ﷲ عنہ) آئے یہ دف بجاتی رہی ، پھر علی (رضی ﷲ عنہ) آئے یہ دف بجاتی رہی ،پھر عثمان (رضی ﷲ عنہ) آئے یہ دف بجاتی رہی اور پھر اے عمر (رضی ﷲ عنہ)! جب تم آئے تو اس نے دف رکھ دی۔
[سنن ترمذی:3690]

(بریلوی) امام احمد رضا قادری قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں:
’’دف کہ بے جلاجل یعنی بغیر جھانجھ (اسے جھانجر بھی کہتے ہیں) کا ہو اور تال سم کی رعایت سے نہ بجایا جائے اور بجانے والے نہ مرد ہوں نہ ذی عزت عورتیں، بلکہ کنیزیں یا ایسی کم حیثیت عورتیں اور وہ غیر محل فتنہ میں بجائی تو نہ صرف جائز بلکہ مستحب ومندوب ہے:
ترجمہ: ’’حدیث میں مَشْرُوط (یعنی جس کے ساتھ کوئی شرط ہو، محدود، مقید) دف کے بجانے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی تمام قیود کو فتاویٰ شامی وغیرہ میں ذکر کردیا گیا اور ہم نے اپنے فتاویٰ میں اس کی تشریح کردی ہے‘‘۔ اس کے سوا ور باجوں سے احتراز کیا جائے ، وﷲ تعالیٰ اعلم۔
[فتاویٰ رضویہ، جلد:۲۱]

دَف اور ڈھولک میں فرق ہے، دف ایک طرف سے کھلا ہوتا ہے، جبکہ ڈھولک دونوں طرف سے بند ہوتا ہے لہٰذا دَف سے ڈھولک کا جواز ثابت نہیں کیا جاسکتا اور امام احمد رضا قادری نے دف کے ساتھ بھی جھانجھر نہ ہونے کی شرط لگائی ہے ، جبکہ بعض لوگ جھانجھر والے دف کے ساتھ نوخیز قریب البلوغ یا بالغہ لڑکیوں سے ٹی وی پر گروپ کی شکل میں نعت پڑھواتے ہیں ، یہ درست نہیں ہے۔ بعض لوگ ہجرت کے موقع پر قبیلہ بنو نجار کی بچیوں کے ان استقبالیہ اشعار سے استدلال کرتے ہیں:
‌طَلَعَ ‌الْبَدْرُ ‌عَلَيْنَا * مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوَدَاعْ وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا * مَا دَعَا لِلَّهِ دَاعْ۔
ترجمہ:
ہم پر چودہویں کا چاند ثنیات الوداع کی طرف سے طلوع ہوا ۔۔۔۔۔ ہم پہ شکر واجب ہے کہ بلانے والے نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا۔
[السيرة الحلبية = إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون: 2 / 257 الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت]

یہ(حق پر جھوٹ کا لباس چڑھانا) کَلِمَۃُ الْحَقّ أرِیْدُ بِھَا الْبَاطِلْ‘‘ (یعنی حق کی بات کے سہارے ناحق کا ارادہ وچاہت کرنے) کے قبیل سے ہے۔
اوّلاً تو یہ کہ یہ ابتدائے اسلام کا دور تھا، یہ بچیاں عہدِ اسلام کی تربیت یافتہ نہیں تھیں، بلکہ اس عہد کے قبائلی رواج کے مطابق انھوں نے ایسا کیا، اور وہ بھی ایک دائرے میں تھا، جبکہ مزامیر کو توڑنے کی روایات بعد کی ہیں(یعنی اب آخری حکم توڑنے پر عمل کیا جائے گا)۔ بعد ازاں رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم جنگی فتوحات سے واپس تشریف لائے، کئی خوشی کے مواقع آئے، لیکن آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اس شِعار(یعنی نشان، پہچان،رسم،عادت) کو رائج نہیں کیا اور نہ ہی اس کی ترغیب دی۔ مغنیات(یعنی گانے والیوں) سے کام لینا مشرکین مکہ کا شِعار(یعنی پہچان،رسم،عادت،نشان) تھا۔
[مطبوعہ: روزنامہ ’’جنگ‘‘۲۵؍دستمبر۲۰۱۵]



تاریخِ ولادتِ پیغمبر ﷺ میں اختلاف کیوں؟
اول:
سیرت نگار اور مؤرخین کا تاریخ، دن، اور ماہِ ولادت کی تعیین  کے بارے میں اختلاف ہے، یہ ایک ایسا امر ہے جس کا معقول سبب بھی ہے، وہ یہ کہ  کسی کو اس مبارک نومولود  کی آئندہ  شان کے بارے میں علم نہیں تھا، چنانچہ انہیں عام بچوں کی طرح سمجھا گیا، یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی یقینی اور قطعی طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت کے بارے میں تحدید نہیں کر سکتا۔
ڈاکٹر محمد طیب نجار رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ جس وقت آپکی پیدائش ہوئی تو کسی کو بھی آپکی  عظمت شان کے بارے میں توقع نہ تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم   کی   ابتدائی زندگی پر اتنی توجہ نہیں دی گئی، تاہم جس وقت اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو آپ کی ولادت سے چالیس سال بعد دعوت دینے کا حکم  دیا تو لوگ  نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے متعلقہ یادوں کو واپس  لانے لگے، اور آپکی زندگی کے بارے میں ہر چھوٹی بڑی چیز کے بارے میں پوچھنے لگے، اس کیلئے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی اپنی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کا بیان کافی معاون ثابت ہوا، اسی طرح آپ کی زندگی سے منسلک صحابہ کرام اور دیگر افراد نے بھی آپکی زندگی سے متعلقہ واقعات بیان کیے ۔
اس وقت سے مسلمان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی سے متعلقہ کوئی بات بھی سنتے تو اسے محفوظ کر لیتے تا کہ اپنے بعد آنے والے لوگوں کو  سیرت النبی سے آگاہ کریں"۔
[القول المبين في سيرة سيد المرسلين: ص 78]

دوم:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت سے متعلقہ متفقہ باتوں  میں سال کیساتھ  دن کی تعیین  بھی شامل ہے ۔

1- سال کے بارے میں یہ رائے متفقہ ہے کہ یہ عام الفیل کا سال تھا، چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش مکہ مکرمہ میں  عام الفیل کے سال ہوئی"
[زاد المعاد في هدي خير العباد: 1 / 76 ]

محمد بن یوسف صالحی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"ابن اسحاق رحمہ اللہ کے مطابق ولادت کا سال عام الفیل ہے"

ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"جمہور کے ہاں یہی مشہور ہے"

ابراہیم بن منذر حزامی  رحمہ اللہ جو کہ امام بخاریؒ کے استاد ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ :
"اس کے بارے میں کسی بھی اہل علم  کو شک و شبہ نہیں ہے"

جبکہ خلیفہ بن خیاط، ابن جزار، ابن دحیہ، ابن جوزی، اور ابن قیم  نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ  اس بارے میں اجماع ہے۔
[سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد : 1 / 334 ، 335]

ڈاکٹر اکرم ضیاء عمری حفظہ اللہ کہتے ہیں:
"حق بات یہ ہے کہ اس موقف سے متصادم  تمام روایات ضعیف ہیں، جن کا لب لباب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت عام الفیل سے دس سال بعد ہوئی، یا 23 سال بعد ہوئی یا 40 سال بعد ہوئی، علمائے کرام کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ آپ کی ولادت عام الفیل میں ہوئی، انکے اس موقف کی تائید جدید تحقیقات نے بھی کی ہے  جو مسلم اور مستشرق محققین کی جانب سے کی گئی ہیں، انہوں نے عام الفیل کو 570ء یا 571ء  کے موافق پایا ہے"
[السيرة النبوية الصحيحة-أكرم العمري(1942ع-1963ع) : جلد 1 / صفحہ  97]


2- جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش کا دن  سوموار کو بنتا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اسی دن پیدا ہوئے، اسی دن رسالت سے نوازا گیا، اور اسی دن آپ نے وفات پائی، چنانچہ ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوموار کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: (اس دن میں پیدا ہوا، اور اسی دن مجھے مبعوث کیا گیا-یا مجھ پر وحی نازل ہوئی-) [صحیح مسلم : 1162]

امام ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"اس شخص نے بعید از قرائن بات کی، بلکہ غلط کہا ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت جمعہ کے دن 17 ربیع الاول کہتا ہے"

جمعہ کے دن کے قول کو حافظ ابن دحیہ  نے کسی شیعہ عالم کی  کتاب: " إعلام الروى بأعلام الهدى " سے نقل کیا ہے، اس کے بعد انہوں  نے اسکو ضعیف بھی کہا ہے، اور ایسے قول کی تردید کرنی بھی چاہیے کیونکہ یہ نص سے متصادم ہے۔
[السيرة النبوية -امام ابن کثیر(م774ھ): جلد1 / صفحہ 199]

سوم:

 آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش سے متعلق اختلافی امور میں  مہینے اور اس مہینے میں دن کی تعیین ہے، اس بارے میں ہمیں بہت سے اقوال ملے ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

1. آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش دو ربیع الاول کو ہوئی۔
چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بھی کہا گیا ہے کہ دو ربیع الاول کو آپکی پیدائش ہوئی، یہ قول ابن عبد البر نے "الاستیعاب" میں نقل کیا ہے، اور واقدی نے ابو معشر نجیح بن عبد الرحمن مدنی سے بھی روایت کیا ہے"
[السيرة النبوية -امام ابن کثیر(م774ھ): جلد1 / صفحہ 199]

2. اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش ہوئی۔
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"یہ بھی کہا گیا ہے کہ آٹھ ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش ہوئی ، یہ قول حمیدی نے ابن حزم سے بیان کیا ہے، اور مالک، عقیل، یونس بن یزید وغیرہ نے زہری  کے واسطے سے محمد بن جبیر بن مطعم سے روایت کیا ہے، نیز ابن عبد البر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ مؤرخین اسی کو صحیح قرار دیتے ہیں، جبکہ حافظ محمد بن موسی خوارزمی نے اسی کو یقینی طور پر صحیح کہا ہے، حافظ ابو خطاب ابن دحیہ نے اسے اپنی کتاب " التنوير في مولد البشیر النذير " میں اسے راجح قرار دیا ہے"
[السيرة النبوية -امام ابن کثیر(م774ھ): جلد1 / صفحہ 199]

3. یہ بھی کہا گیا ہے کہ دس ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی۔
چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش دس ربیع الاول کو ہوئی، اسے ابن دحیہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے، اور ابن عساکر نے ابو جعفر باقر سے بھی روایت کیا ہے، نیز مجالد  نے شعبی سے یہی موقف بیان  کیا ہے"
[السيرة النبوية -امام ابن کثیر(م774ھ): جلد1 / صفحہ 199]

4. اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ 12 ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی۔
چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بھی کہا گیا ہے کہ 12 ربیع الاول کو آپ کی پیدائش ہوئی، اسی موقف کی صراحت ابن اسحاق نے کی ہے، اور ابن ابی شیبہ نے اپنی کتاب "المصنف" میں عفان سے انہوں نے سعید بن میناء سے انہوں نے جابر اور ابن عباس دونوں سے روایت کیا ہے، اور دونوں کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  عام الفیل بروز سوموار 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، سوموار کے دن ہی آپ مبعوث ہوئے، اور اسی دن آپکو معراج کروائی گئی، اور اسی دن آپ نے ہجرت کی، اور اسی دن آپ فوت ہوئے، جمہور اہل علم کے ہاں یہی مشہور ہے" واللہ اعلم
[السيرة النبوية -امام ابن کثیر(م774ھ): جلد1 / صفحہ 199]

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کی پیدائش رمضان  میں ہوئی ہے، یہ بھی کہا گیا ہے کہ صفر میں اور اس کے علاوہ دیگر اقوال بھی اس بارے میں موجود ہیں۔

ہمیں جو نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش کے حوالے سے مضبوط ترین اقوال آٹھ  ربیع الاول سے لیکر 12 ربیع الاول کے درمیان ہیں، اور کچھ مسلم محقق  ماہرین فلکیات، اور ریاضی دان افراد نے  یہ ثابت کیا ہے کہ سوموار کا دن ربیع الاول کی نو تاریخ کو بنتا ہے، چنانچہ یہ ایک نیا قول ہو سکتا ہے، لیکن یہ ہے مضبوط ترین قول، اور یہ شمسی اعتبار سے  20 اپریل 571ء  کا  دن  ہے، اسی کو معاصر سیرت نگاروں  نے راجح قرار دیا ہے، ان میں محمد الخضری، اور صفی الرحمن مبارکپوری بھی شامل ہیں۔

ابو القاسم سہیلی رحمہ اللہ(م581ھ) کہتے ہیں:
"ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش شمسی  اعتبار سے  20 اپریل بنتی ہے"
[الروض الأُنُف: جلد 1 / صفحہ 282]

پروفیسر محمد خضری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" مرحوم محمود پاشا- جو کہ مصری ماہر فلکیات ہیں ، آپ فلکیات، جغرافیہ، حساب میں بہت ماہر تھے، انہوں نے کافی کتب اور تحقیقات شائع کی ہیں، 1885ء میں فوت ہوئے- انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیدائش صبح سویریے 9 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571ء کو ہوئی، جو کہ حادثہ فیل کا پہلا سال تھا، آپ کی ولادت شعب بنی ہاشم ، میں ابو طالب کے گھر ہوئی"
[نور اليقين في سيرة سيد المرسلين : صفحہ 9، الرحيق المختوم : صفحہ 41]

چہارم:

جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات  کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپکی وفات سوموار کو ہوئی، اور ابن قتیبہ سے جو نقل کیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات بدھ کے دن ہوئی تو یہ درست نہیں ہے، یہ ہو سکتا ہے  کہ انکی مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی تدفین ہو، تو یہ درست ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تدفین بدھ کے دن ہوئی۔

جبکہ وفات کے سال کے متعلق بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ سن گیارہ ہجری  میں ہوئی۔

اور ماہِ وفات کے بارے میں  بھی کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آپکی وفات ربیع الاول میں ہوئی

جبکہ اس مہینے کے دن کے متعلق علمائے کرام میں اختلاف ہے کہ :

1- تو جمہور علمائے کرام 12 ربیع الاول کے قائل ہیں

2- خوازمی کہتے ہیں کہ آپکی وفات ربیع الاول کی ابتدا میں ہوئی تھی

3- ابن کلبی ، اور ابو احنف کہتے ہیں کہ یہ ربیع الاول کو ہوئی ، اسی کی جانب سہیلی کا میلان ہے، اور حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔

جبکہ مشہور وہی ہے جس کے بارے میں جمہور علمائے کرام کا موقف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات 12 ربیع الاول  سن گیارہ ہجری کو  ہوئی تھی۔

دیکھیں:

[الروض الأنف-امام السهيلي(م581ھ) : جلد 4 / صفحہ 439 ، 440 ، السيرة النبوية-امام ابن كثير(م774ھ): جلد4صفحہ  / 509 ،  فتح الباری-امام ابن حجر(م852ھ): جلد8 / صفحہ 130]

واللہ اعلم.





Milad un Nabi Kyun NAHI Manaana Chahiye (Bralwi Ulama ki Zubaani)


Ulama e Bralwiya ko Baar Baar Yeh baat Kahi Jaati hai ke Milad ke Manaane aur Uske Juloos se Islaam ki Ibtedaayi 500 Sadi (500 years) Khaali rahi hai.
Lekin Ba-jaaye Samajhne ke, Yeh Hazraat Ulta Ulama e Ahle sunnat wal Jamaat ko Bhala Bura Kehte hai.
Par jo baat Ulama e Ahle Sunnat ne Kahi hai, wahi Bralwi Ulama ne bhi Kahi hai.
Pas, Ab Baat Hamaari hai, Zubaan Unki hai.
Bralwi Hazraat ke Hakeem ul Ummat, Mufti Ahmed Yaar Khan Naeemi Farmaate hai ke
“ Imam Sakhaawi Rh. ne Farmaaya ke Milad Shareef Teeno Zamaano me Kisi ne NA kiya, Baad me Ijaad huwa.”
(Jaal al Haq : Safa 236)
Scan Page :

Bralwi Maulwi Faiz Ahmed Owaisi Likhte hai ke
‘Waqai Salaf-o-Saleheen ne yeh Amal Nahi kiya.’
(Gausul Ibaad : Safa 50)
Scan Page :

Ek aur Maqaam par Kehte hai ke
‘Chunke Salaf-o-Saleheen ke Zamaane me is Tareeq ka Dastoor Nahi tha.’ (Gausul Ibaad : Safa 51)
Scan Page :

Bralwi Allama Ghulam Rasool Saeedi Farmaate hai ke ‘Mehfil e Milaad ki Haiyyat e Ijtemaayi Har Chand ke BIDDAT hai.’
(Sharah Muslim : Jild 3 : Safa 185)
Scan Page :
Aage Farmaate hai ke
“Khulaasa Yeh hai ke Eid e Milaad Bid’at (Naya Kaam) hai, Lekin Ach-chaiyyo Buraiyyo par Mushtamil hai.”
(Sharah Muslim : Jild 7 : Safa 1026)
Scan Page :
Bralwi Shaykh ul Islaam, Tahir ul Qadri ki Gawaahi :
Sarkaar e Do-Aalaam SAW Apne Khaliq Haqeeqi se Jaa-mile, Toh Sahaba Kiraam Rdh. par gum wa Aalam ka Ek Kohe giraa toot gaya.
Isliye Jab Inki zindagi me 12 Rabbi-ul-awwam ka din aata, Toh Wisaal ke Sadme tale Wilaadat ki Khushi dab jaati aur
Judai ka gham az-sarino taza hojaata.
Aaqa e do Jahaa SAW ki Zindagi ki Yadoon ke Jalwe me 12 Rabbi ul Awwaal ka din Aata toh Khushi wa Gum ki Kaifiyate mil Jaati aur Sahaba Kiraam Rdh. Wisaal e Mehboob SAW ko Yaad Karke Sadma Zadah dilo ke saat Khushi ka Izhaar na karsakte the.
(Milad un Nabi SAW : Safa 454)
Scan Page :
In Tamaam Bralwi Ulama ke Irshaadaat se Maloom huwa ke Sahaba Kiraam Rdh. Salaf-o-Saleheen aur Teeno Zamaano me Milad un Nabi MANAANE ka Riwaaj Nahi tha.
Mazeed Ghulam Rasool Saeedi ne Milad un Nabi ke Juloos ke Halaat yu Bayaan Karte hai ke
“Baaz Shehro me Eid e Milad un Nabi ke Juloos ke Taqdees ko Bilkul Pa’amaal kar diya gaya hai, Juloos Tang Raasto se Guzarta hai aur Makaano ki Khirdkiyo or Balconiyo se Naw-jawaan Lardkiya Aurtein Sharka Juloos par Phal waghairah Phaikti hai (Shayad Sawaab ki Niyyaat se, Al Eyaazubillaah)
Aubaash Nau-jawaan Fahesh Harkatein karte hai.
Juloos me Mukhtalif Gaadiyo par Filmi gaano ki Recording hoti hai aur Naujawaan Lardke Filmi Gaano ki Dhuno par Naach-te hai aur Namaaz ke Auqaat (Waqt) me Juloos Chalta rehta hai, Masaajid ke Aage se Guzarta hai aur Namaaz ka koi Ahtemaam nahi kiya jaata.
Is Qism ke Juloos MILAD UN NABI KE TAQDEES PAR BAD-NUMA DHAAG hai, Unki Agar Islaah na ho sake, TOH UNKO FAURAN BAND KARDENA CHAHIYE.
Kyunke Ek Amr Mustahsin ke naam par In Moharmaat ke Irtekaab ki Shariyat me Koi Asal nahi hai.
(Sharah Muslim : Jild 3 : Safa 170)
Scan Page :
Ek aur Maulwi Sahaab, Abdul Ghafoor Sharqipuri Farmaate hai ke “Agar Mustahab Farz ke liye Rukaawat bane, Toh Mustahab ka Chor-na Zaroori hai.”
(Namaazi ke paas Ba-Awaaz Zikr karna Jayez hai ya Nahi : Safa 176)
Scan Page :
Aakheer me Ahmed Yaar Khan Naeemi Sahaab yu Likhte hai ke
“ Is aayaat se Chand Masaail Maloom hote hai, Ek Yeh ke Agar Ghair Zaroori Ibaadat Fasaad Zariya ban-jaaye, Jo Hum se Mit na Sake, Toh Isko Chor-diya Jaaye.”
(Tafseer e Nurul Irfan, Haashiya : Safa 224)
Scan Page :

Khulaasa e Kalaam :
Hamaari Sanjeeda Bralwi Hazraat se Guzaarish hai ke wo Bralwi Allama, Ghulam Rasool Saeedi Sahaab ki Ibaarat pe Ghaur kare.
Kya Aaya wo Tamaam Baatein Jo Saeedi Sahaab ne Zikr ki hai, Aaj kal ke Juloos me nahi horahi hai ?
Kya waqai Namaz ke Auqaat me Juloos ko Rok-kar Namaz Aada ki-jaati hai ?
Kya Waqai 12 Rabbi-ul-awwal ke din Masjido me Musalliyo ki Ta’adaad me Bhaari Izaafa hota hai ?
Kya Milad ke Julooso me Nau-jawaan Be-huda Harkatein Nahi Karte hai ?
Har Aankhe Rakhne waala Shaks Dekh raha hai ke Aaj Milad ke Julooso ke naam par kya kya Horaha hai ?
Pas, Hamaari yahi Guzaarish hai ke
Milad ke Naam par Croro ke paise Kharch-karne,
Namaze Chor-na aur Isme
Nau-jawaano ka Be-huda Kaam karna,
Naach-na Gaana,
Logo ko Takleef dena,
Raat Raat bhar aur Isi Tarah ROAD par speaker ka Full sound ke saat Chaalu rehna,
Motor cycle ke Silencer ki awaaz Badaakar Taiz chalaana aur
Ghair Muslimo ko Dekh-kar Naare Lagaana, Isse Kaunsa Deeni Fariza aada horaha hai, Isse Kaise Sach-cha Aashiq e Rasool hona Saabit horaha hai ?
Hum Kisi par Tanz nahi maar rahe hai, Balke Aaj ke Milad ke Naam Juloos ko Dekh-kar Har Saaheb e Basirat Shaks (Jisko ALLAH Tala ne Dil ki Aankhe di ho, Jo Waqai me Huzur SAW ka Sach-cha Ummati ho, Jisne Milaad ke Juloos me hone hone Badi Badi Ghalatiyo ko Mehsoos kiya hai, wo) yahi Kahege ke
‘AAJ ke Be-hayaai ke DAUR me Milad ke Naam par Juloos nikaalna aur Isko Manaane ki Koi Gunjaa-ish nahi hai.’
Wallahu’alam.









Hum Eid-E-Milad un Nabi Kyun Nahi Manate [ Part-1 ]



Assalamu Alaykum Doston Aaj-kal EK Bidat Jo Aam Hai Eid-E-Milad Ke Naam Se Uska Tahqeeqi Tankeedi jayza Liya Gaya Hai.







Milaad Ka Baani Or Milad Kab Se Shuru Hua:



Ye Bid’at 604 Hijri Mosal Ke Sheher Me Hai Muzaffar Uddin Kokri Bal 630 Hijri Ke Hukum Se Ijad Hui Jo Ek Masroof Aur Deen Se Be Parwah Badshah Tha
( Dekhiye Ibn-E-Khalkaan Wagerah ) 









Hafiz Ibne Hajr Askalaani Shafa’ii Rehmatullah Alayh, Naqal Karte Hain: 



Wo Aaimma E Deen Aur Salaf Ki Shaan Me Bahot Hi Gustakhi Kiya Karta Tha ,Gandi Zabaan Ka Malik Tha_Bada Ahmaq (Bevkoof) Mutkabbir ( Ghamandi ) Tha Deen Ke Kamo Me Bada Be Parwah Aur Sust Tha.



[Lisaan Al Meezaan—Jild—06—Pg—85]


Scan







Allama Ibn Najaar Rahmatullah Alay Ne Farmaya:

Allama Ibn Najaar Ramatullah Alay Farmate Hain Ke Me Ne Logon Ko Is Ke Jhoot Aur Zuaf Par Muttafiq Paya۔
( Lisan Al Meezaan—Jild—06—Pg—84 ) Ba Hawala Rahe Sunnat 
Scan 









Meelad Par Sabse Pehle Kitab Kisne Likhi:



Jis Dunya Parast Maulvi Ne Is Jashn Ke Dil Dadad Badshah Ke Liye Meelad Ke Jawaz Par Mawaad Ikhatta Kiya Tha Is Ka Naam Umar Bin Dahya Abu Al Khattab (633 Hijri ) Tha Jisko Is Kitab Ke Sile Me Sahab Arbal Aur Masroof Badshah Ne Ek Hazaar Pond Inaam Diya Tha [Dekhiye: Daul Al Islam]









Umar Ibn Dahya Abul Khattab Ke Mutallik Hafiz Ibn E Kaseer Likhte Hain:

Ye Jhoota Shaqs Tha Logon Ne Is Ki Riwayat Par Aitbaar Karna Chhod Diya Tha Aur Iski Bohot Tazleel Ki Thi

[Dekhiye: Al Bidaya Wan Nihaya ] 









Milad Ki Asal Barelvi Alimo Ke Zabani.



Maulvi Abdus Sami Rampuri Sahab Likhte Hain



Lekin Ye Samani Farhat Wa Suroor Karna Or Isko Bhi Makhsoos Shaher Rabi Ul Awwal Ke Sath Aur Is Me Khas Wahi Baharvi’n Din Milad Shareef Ka Mu’een Karna Baad Me Hua Yaani CHahhti ( 6 ) Sadi Ke Aakhir Me Aur Awwal Ye Rabi Ul Awwal Me Karna Takhsees Aur Ta’ayyun Ke Saath Shaher-E-Mosool Hua


Scan









Aage Phir Likhte Hain 



Aur badshahon Me Awwal Badshah Abu Saeed Muzaffar Ne Molood Shareef Takhsees Wa Ta’ayyun Ke Sath Rabi Ul Awwal Me Kiya Garz Ke Is Badshah Ne Shaikh Umar Mazkoor Ki Pervi Is Fa’aal Me Ki Har Saal Rabi Ul Awwal Me Teen Lakh (300000) Asharfi Lagakar Badi Mahfil Kiya Karta Tha.



Scan




Mazeed Aage Likhte Hain 

Jis Waqt Mulk Abu Saeed Muzaffar Ne Mahfil-E-Molood Ka Samaa’n Kiya Aur Muftiyaan Deen Ne Is Masle Ka 604 Hijri Me Ailan Kiya.




Scan



Rabi Ul Awwal Ka Naam Eid-E-Miladunnabi Kis ne Allot Kiya 

Barelviyat Ke Paaye Ke Aalim Likhte Hain

Ulama-E-Ikram Masha’ikh Azzam Ka EK Ijlas Bulaya Gaya Jisme Hazrat Peer Sayyed Jamaat Ali Shah Muhaddis Ali Puri ,Hazrat maulana Asgar Ali Rohi ,Maulana Muhammed Bakhsh Muslim B.A Ke Alawah Kai’n Sarkardah Shakhsiyaat Ne Shirkat Ki Is Ijlas Ka Agenda Ye Tha Ke Rabi Ul Awwal Shareef Ko Bara Wafaat Kehne Ki Bajaye Eid-e-MIladunnabi ﷺ Kaha Jaye.

Scan 


Aage Likhte Hain

Govermant Ke Gizd Or Sarkari Kagzaat Me Barah Wafaat Ki Awaami Galti Ko Eid-E-Miladunnabi ﷺ Se Tabdeel Karwaya _Is Din Aam Ta’ateel Manzoor Karwai.

Scan 
Mazeed Aage Likhte Hain 

Mahnama Zia-E-Haram Eid-E-Miladunnab ﷺ Number Mah (Maheena ) November, December 1989 Lahore –Page—293 / 294 Par Hai Ke Anjuman Mu’een Al Islam Ne Jis Waqt Qayaam 1930 Me Amal Me Aaya Tha Sarkaar Englishiya Se Darkhwast Ke Calandro Or Dairyon Me Barah Wafaat Ka Jo Lafz Likha Jata Hai WO Galat Hai_Iske Bajaye Eid-e-Miladunnabi ﷺ Ka Lafz Hona Chahiye_Chunanche Govermant Ne Anjuman Ki Is Tajveez Ko Mazoor Kar Liya_Phir Is Waqt Se Is Ta’ateel Ko Bhi Ta’ateel Eid-E-Miladunnabi ﷺ Likha Jaane Laga__

Scan


Dekhiye Is Bid’at Ko Khud Ulama E Barelviya Bayaan Kar rahe Hain Chhati (6 ) Hijri Me Hui Jiska Aqeedah Imam Hajr Askalani Ra. Ne Bayaan Kiya Or Phir Barelvi Ulama Ki Tasnifaat Se Pata CHata Hai Ki Ye Kaam kab Ijad Hua Hai…Yahan Bhi Dekha Jaaye Ke Barelvi Hazraat Govermant Englishiya Se Apna Moqqaf Sabit Karte Hain Jis Kaam Ki Ijzat Angrezi Hukumat Se Li Gayi Ho Kya Wo Sahahaba Taabi’een Tabe Tabi’een Me Se Kisi Ka Amal Sakta Hai Lihaza Ye Bid’at Hai .




Aqeedah Salaf Salheen 

Imam jalaluddin Suyuti Rehima Ullah Milad Ki Jhande Wali Riwayt Ke Muta’allik Farmate Hain




Mene Apni Is Kitab Me Is Se Zyadah Munkir Riwayat Koi Bhi Bayaan Nahi Ki 
[Khasais Al Kubra Jild—1—Page—83 ]

Scan


Allama Ibn Ameer Al Haaj Rahima Ullah Farmate Hain 

“Agar Milad Tamaam Mafasid Se Mahfooz Bhi Ho Tab Bhi Wo Sirf Niyat ( AqdiMajlis Milad ) Ki Wajah Se Bid’at Hogi Aur Deen Ke Ander Jadeed Amr Ka Izafa Hoga Jo Salaf Salheen Ke Amal Me Na Tha Halanke Aslaaf Ke Naqshe Kadam Par Chalna Or Unki Pervi Karna Hi Behtar Hai ”
[ Al Mudkhal—Jild—02—Page—02 ]




Mazeed Aage Likhte Hain 

“ Logon’n Ki In Bid’ato’n Or Nau Ijad Bato’n Me Se Jinko Badi Ibadat Samajhte Hain Or Jin Ke Karne Ko Sha’aar-E-Islamia Ka Izhar Kehte Hain , EK Majlis Milad Bhi Hai Jisko WO mah Rabi Ul Awwal Me Karte Hain Or Waqya Ye Hai Ke Bohot Si Bid’aat Or Mahermaat Par Mushtamil Hai ….Aakhir Me Farmate hain…..Or Is Majlis Milad Par Mafasid Us Surat Me Murattab Hote Hain Jabke Sama’a Ho So Agar Majlis Milad sama’a Se Bhi Paak Ho Or Sirf Be Niyat Molood Khana tayyar kar Liya Ho Or Bhaiyyon Or Doston Ko Is Liye Bulaya jaye Or Tamaam Mazkoor Bala Mafasid Se Mahfooz Ho Ho Tab Bhi Wo Sirf ( Aqdi Majlis Milad ) Ki Wajah Se Bid’at Hai Or Deen Ke Andar Ek Jadeed Izafa Karna Hai ,Jo Salaf Saalheen Ke Amal Me Na Tha Halanke Aslaaf Ke Naqshe Kadam Par Chalna Aur Unki Pervi Karna Hi Zyadah Behtar Hai__
[ Al Mudkhal—Jild—02—Page—10 ]

Scan


Hazrat Is’haaq Shatbi Rahima Ullah Bid’at Ke Hawale Se Farmate Hain.

“ Jese Ke Hum Awaaz Hokar Ijtemayi Taur Par Zikr Karna Aur Aap ﷺ Ke Pedha’ish Ko Eid Ke Taur Par Manana ”__
[ Al Aitisaam—Jild—01—Pg—53 ]

Scan



Hazrat Mujaddid Al FIsani Rahima Ullah Farmate Hain.

“ Aapko Pehle Likha Ja Chuka Tha Tha Ke Sama’a Ke Mana Hone Ka Mubalga Molood Ke Mana Hone Ko Bhi SHamil Hai Jo Natiya Qaseedon Or Ger Natiya Sha’aron Ke Padhne Se Murad Hai ”

[ Matubat-E-Imam-E-Rabbani—Page—586 ]

Scan




Jub Aslaaf Ka Aqeedah Hi Ye Kaam Bid’at Hai To Barelvi Ulama Ko Sochna Chahiye Ke Sirf Ulama E Deoband Ke Bugz Me Ye Saari Khurafaat Karne Me Tumhari Konsi Bhalai Hai…….Allah Ta’ala Hum Sab Ko Amal Ki Taufeeq Ata Farmaye…..Ameen








Hum Eid-E-Miladunnabi Kyun Nahi Manate [ Part-2 ]



Eid-E-Milad Ke Naam Par Khurafat Machane Walon Ke Liye Lamha E Fikria


Or Maulvi Ahmed Raza Khan Ke Fatawajaat Ki ROshni Me Eid-E-Miladunnabi Ki Haqeeqat Aapki Kidmat Me Hazir Hai.


Yun To Ahmed Raza Khan Ne Kai Jagah Wiladat Par Ikhtelaaf Bayan Kiya Hai Magar Apne Qaul Par Amal Karne Ki Hukum Bhi Kiya Hai Wiladat Or Wisal Par Maulvi Ahmed Raza Khan Ki tahqeeq Mulaheza Ho.


Maulvi Ahmed Raza Khan Barelvi Likhte Hain.


“ Agarche Aksar Muhaddiseen Wa Morrikheen Ka Nazarya Ye Hai Ke Wiladat Ba Sa’adat 8 Tarikh Ko Hui ”

[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—412 ]


Scan

Or Ijma Nakal Karte Hui Likhte Hain.


“ Ahle Zebaat Ka Is Par Ijma Hai ”

[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—412 ]


Scan
Or Aage Likhte Hain.


“ Ibn Hazam Wa Humaidi Ka Yahi Mukhtar Hai Or Ibn Abbas Rdh.Jubair Bin Mu’attam Rdh. Se Bhi Marvi Hai ”

[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—412 ]


Scan

Or Apna Aqeedah Bayan Karte Hui Fatawa Dete Hain.


“ Mai Kehta Hun Ke Humne Hisab Lagaya To Huzoor Akram ﷺ Ki Wiladat Aqdas Wale Saal Muhrram Ka Garah Wastia ( Agaaz ) Jume Raat Ke Rauz Paya To Isi Tarah Mahe Wiladat Kareema Ka Garah Wastia Baroz Itwar Or Garah Hilalia Baroz Peer Hua TO Is Tarhan Peer Ke Rauz Ma Wiladat Mubarka Ki 8 tarikh Banti Hai ”

[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—412 ]


Scan

Yahi Qaul Ko Maulvi Ahmed Raza Khan ne Apni Kitab Nutkul Hilal Me Bhi Nakal Kiya Hai

[ Nutkul Hilal—Page—412 ]


Scan 

Maulvi Ahmed Raza Khan Se Sawali Jawabi mamua Me Sawal Hua Hua Ke Aqa ﷺ Ki Wiladat Or Wisal Kab Kab Hua To Ahmed Raza Khan Barelvi Ne 8 Tarikh Ka Jawab Diya Or 12 Rabi Ul Awaal Wisaal Ka Jawab Diya 

[ Nutkul Hilal—Page—3/4 ]


Scan

Or Phir Apne Wisaal Ko Lekar Fatawa Me Bayaan Karte Hain.


“ Qaul Mash’hoor Motamad Jamhoor Dawaz Duham Rabi Ul Awwal , Ibn Sa’aad Ne Tabkate Me Batareeq Umar Bin Ali Murtaza Rdh. Anhuma Ameerul Momineen Maula Ali Karam Allahu Ta’ala Wajha Al Kareem Se Riwayat Ki Hai__Yaani Huzoor Aqdas ﷺ Ki Wafaat Shareef Rauz Do ( 2 ) Shamba Baharvin ( 12 ) Tareekh Rabi Ul Awwal Shareef Ko Hui ”

[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—415 ]

Or Aage Allama Zurqani Ka Hawala Naqal Karte Hui Likha Hai.


“ Imam Ibn Is’haaq Or Jamhoor Ke Nazdeen Rasool Ullah ﷺ Ka Wisal Aqdas Mah Rabi Ul Awwal Ki Barah (12 ) Tareekh Ko Hua ”

[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—415 ]


Scan

Or Aage Is Par Bayaan Karte Hain.


“ Jamhoor Ka Qaul Ye Hai Ke Rasool Ullah ﷺ Ne Barah ( 12 ) Rabi Ul Awwal Ko Wisal Farmaya ”

[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—415 ]


Scan

Mazeed Aage Tareekh-E-Khamees Ka Hawala Dete Hui Likha.


“ Nabi Aqdas ﷺ Ka Wisal Mubarak Barah ( 12 ) Rabi Ul Awwal Shareef Ko 11 Hijri Baroz Peer Dopher Ke Waqt Hua Jis Waqt Aap Madeena Mnawwarah Me Dakhil Huai Thai ”

[ Fatawa-E-Rizvia—Jild—26—Page—415 ]


Scan


Aur Inke Ek Bade Aalim-E-Deen Allama Noor Bakhsh Tawakkali Farmate Hain.


“ Jamhoor Ke Nazdeek Rabi Ul Awwal Ki Baharvin ( 12 ) Tareekh Thi ”_

[ Seerat-E-Rasool-E-Arbi—Page—173 ]


Scan

Firqa Barelvia Ke Liye Lamha Fiqria.


Ahmed Raza Khan Ne Apne Wisal Se Pehle Wasiyat Kari Jo Yun Ki Hai 


“ Hattal Imkan Itteba Shariat Na Chhoro Aur Mera Deen Wa Mazhab Jo Meri Kutub Se Zahir Hai Us Par Mazbooti Se Qayam Rehna Har Farz Se Ahem Farz Hai ”_

[ Wasaya Shareef—Page—10 ]


Scan 

Or Naeem Uddin Moradabadi Ne Apne Aala Hazrat Ke Deen Par Qayam Rehte Hui Yun Likha


“ Rahi Ye Baat Ke Jo Aala Hazrat Ka Hum Aqeedah Nahi Usko Hum Kafir jante Hain Ye Durust ”

[As Sawarimul Hindiyya—Page—138 ]


Scan 

Or Kuchh Yuhin In Alfazon Ko Nizamuddin Multani Ne Bhi Nakal Karte Hui Likha.


“ Rahi Ye Baat Ke Jo Aala Hazrat Ka Hum Aqeedah Nahi Usko Hum Kafir jante Hain Ye Durust ”

[ Anwaar-E-Shariat—Jild—01—Page—140 ]


Scan

Ab Barelvi Maulviyon Or Awaam Ko Maulvi Ahmed Raza Khan Ko Manne Ka Dawa Chhor Dena Chahiye Ya Apna Iman Sabit Karen Kyunki Baqaul Naeemuddin Moradabadi Or Nizamuddin Multani Ke Ye Log Kafir Ja Bane Hain…








Allah Ta’ala Hum Sabko Deen-E-Haqqa Par Chalne Ki Taufeeq Ata Farmaye,Ameen 




 

 

جشنِ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منع آخر کیوں؟

 


لفظی اعتبار سے ہر اس دن کو عید کہتے ہیں جس میں کسی بڑے آدمی یا کسی بڑے واقعہ کی یاد منائی جائے۔ بعض نے کہا کہ عید کو عید؛ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے۔

[المنجد: ۶۹۰، معجم الوسیط:۶۳۵]

عید“ کو عید کہنا ایک طرح کی نیک فالی اور اس تمنّا کا اظہار ہے کہ یہ روزِ مسرّت بار بار آئے۔

[قاموس الفقہ:۴/۴۱۹]

ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح تاریخ:

تمام موٴرخین اور اصحابِ سیر کا اس پر تو اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادتِ با سعادت پیر کے دن ہوئی؛ البتہ تاریخ میں شدید اختلاف ہے۔۲،۸،۹،۱۰،اور ۱۲ تاریخیں بیان کی گئی ہیں اور وفات کے سلسلے میں ۲/ربیع الاول کو جب کہ ولادت کے سلسلے میں ۱۲/ربیع الاول کو ترجیح دی گئی۔

یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:

یومِ ولادت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  یعنی اس عظیم الشان شخصیت کا جنم دن ،جسے تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔وہ دن واقعی بڑی ہی عظمت و برکت کا حامل تھا؛اس لیے کہ اس مبارک دن میں رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے۔اگرچہ شریعت نے سالانہ آقا کے یومِ ولادت کو”منانے“ کا حکم نہیں دیا نہ اسے عید ہی قرار دیا، نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرّر کیے؛لیکن جس سال ماہِ ربیع الاول میں یہ دن آیا تھا ،وہ نہایت ہی متبرک اور پیارا دن تھا۔آج جو لوگ اس دن کو ”عید“ کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ اصلاً رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی کرتے ہیں،اس لیے کہ خود ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے :

اللہ تعالیٰ نے دیگر قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے عید کے دو دن مقرّر کیے ہیں: (۱)عید الفطر اور (۲) عید الاضحی۔یہ ارشاد اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا جب کہ آپ نے اہلِ مدینہ کو دوسرے دنوں میں زمانہٴ جاہلیت کے طرز پر عید و خوشی مناتے دیکھا۔

[ابوداود: ۱۳۳۴، نسائی: ۱۵۵۷]

اس سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کے لیے سالانہ صرف دو دنوں کو عید کے طورپر مقرر فرمایا،ان کے علاوہ بعض روایتوں میں جمعہ کے دن کو بھی عید کہا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دن کے متعلق عید کا لفظ وارد نہیں ہوا۔اب اگر کوئی اس پر زیادتی کرکے اپنی طرف سے مزید ایک دن بڑھاتا اور اس میں عید جیسی خوشیاں مناتا ہے،تو وہ گویا رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس ارشادِ عالی پر عدم رضامندی کا اظہار کرتا ہے،اور جو اسے دین کا حصہ سمجھتا ہے،وہ اپنی طرف سے نیا دین تراشتا ہے اور یہ دونوں ہی طریقہٴ عمل نہایت خطرناک ہیں۔

عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ابتداء:

فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی فرماتے ہیں:

یہ مروجہ مجلسِ میلاد قرآن ِکریم سے ثابت ہے نہ حدیث شریف سے،نہ خلفاءِ راشدین و دیگر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے نہ تابعین و ائمہ مجتہدین؛امام اعظم ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی،امام احمد وغیرہ سے ،نہ محدثین ؛امام بخاری،امام مسلم،امام ابو داود،امام ترمذی،امام نسائی اور امام ا بن ماجہ وغیرہ سے اورنہ اولیاءِ کاملین؛ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری،خواجہ بہاء الدین نقشبندی اور شیخ عارف شہاب الدین سہروردی وغیرہ سے۔چھ صدیاں اس امت پر اس طرح گزر گئیں کہ اس مجلس کاکہیں وجود نہیں تھا۔سب سے پہلے بادشاہ اربل نے شاہانہ انتظام سے اس کو منعقد کیا اور اس پر بہت مال خرچ کیا،پھر اس کی حرص و اتباع میں وزراء وامراء نے اپنے اپنے انتظام سے مجالس منعقد کیں،اس کی تفصیل ”تاریخ ابن خلکان “ میں موجود ہے۔

اسی وقت سے علماءِ حق نے اس کی تردید بھی لکھی ہے؛چنانچہ ”کتاب المدخل“میں علامہ ابن الحجاج نے بتیس صفحات میں اس کے قبائح و مفاسد دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں لکھے ہیں۔ ۷۳۷ھ میں اس کی تصنیف سے فراغت حاصل ہوئی،پھر جہاں یہ مجلس پہنچتی گئی ،وہاں کے علماء تردید فرماتے رہے؛چنانچہ عربی،فارسی اور اردو صلی اللہ علیہ وسلم ہر زبان میں اس کی تردید موجود ہے اور آج تک تردید کی جا رہی ہے۔

[فتاوی محمودیہ جدید:۳/۲۱۴-۲۱۳بتغیر]

بریلوی عالم کا اعتراف:

بریلوی حضرات کے ایک عالم قاضی فضل احمد صاحب لکھتے ہیں:”یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ اس مخصوص شکل سے یہ عملِ خیر و برکت و نعمت ۶۰۴ھ سے جاری ہے“۔

[مروجہ محفلِ میلاد:۵۲ ملخصاً]

عیدِ میلاد کا حکم:

اس سے بعض لوگ اس غلط بات کی طرف چلے جاتے ہیں، گویا کہ ہم ذکر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کو منع کرتے ہیں۔ نعوذ باللہ ! ثم نعوذ باللہ! نفسِ ذکر میلاد فخر عالم علیہ السلام کو کوئی منع نہیں کرتا؛بلکہ ذکرِ ولادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل ذکر دیگر سیر و حالات کے مندوب ہے۔[البراہین القاطعةعلی ظلام انوار الساطعة:۱۴] لیکن اس زمانہ میں مجالسِ میلاد بہت سے منکرات وممنوعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ممنوع ہے۔

[فتاویٰ محمودیہ:۳/۱۸۱جدید محقق]

بالفاظِ دیگر میلاد ِ مروجہ وقیام مروج جو امور ِ محدثہ ، ممنوعہ کو مشتمل ہے ، ناجائز اور بدعت ہے۔

[عزیز الفتاویٰ:۱۲۲،زکریا بکڈپو ، دیوبند]

یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  یقینا باعث ِ خوشی اور اظہارِ مسرت کا سبب ہے؛لیکن اس تاریخ میں ہر سال اگر یہ دن ”منانے“ کا ہوتا، تو اس کے متعلق احکامات و ہدایات شریعتِ مطہرہ میں کثرت سے وارد ہوتیں۔یہ خیال رکھنے کی بات ہے کہ یہ دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام کے سامنے بھی تھا ،تو جب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام نے اس خوشی کا اظہار مروجہ طریقہ پر نہیں کیااور” عید ِمیلاد“نہیں منایا،تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شریعت میں اظہارِ خوشی کا یہ طریقہ درست نہیں،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہٴ کرام  اس پر عمل کرکے اس کا جواز ضرور بتلاتے۔یہی ایک دلیل مروجہ میلاد کے غیر درست ہونے کے لیے کافی ہے۔

 ارشادِ ربّانی ہے:

﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾۔

[سورة المائدة:۳]

آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل و مکمل کر دیا(اب اس میں کسی طرح کمی بیشی کی گنجائش نہ رہی)اور تم پر اپنا انعام مکمل کر دیااور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا۔

نیز ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے ،جو دین میں سے نہیں ہے،وہ مردود ہے۔

[بخاری:۲۶۹۷،مسلم:۶۷۱۸]

ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:

تم میری سنّت کو لازم پکڑو اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو،اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہو اور دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو؛کیوں کہ دین میں پیدا کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔

[ابو داود: ۴۶۰۷، ترمذی: ۲۶۷۸، ابن ماجہ:۴۲]

کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بس یہی حق امت پر ہے کہ سارے سال میں صرف ایک دن اور وہ بھی صرف تماشہ کے طور پر ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک جھوٹے سچے رسالوں سے پڑھ دیا اور پھر سال بھر کے لیے فارغ ہو کر آئندہ بارہ وفات اور عیدِمیلاد کے منتظر ہوکر بیٹھ گئے۔افسوس !مسلمانوں کا فرض تو یہ ہے کہ کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ مبارک سے خالی نہ جائے؛البتہ یہ ضروری نہیں کہ فقط ولادت کا ہی ذکر ہو؛بلکہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا،کبھی آپ کے روزے کا،کبھی جہاد کا،اور کبھی آپ کے اخلاق و اعمال کا،جو کہ سب سے زیادہ اہم ہیں۔کبھی ولادتِ با سعادت کا بھی ہو کہ یہ بھی باعثِ خیر و برکت ہے۔

[جواہر الفقہ:۴/۹۱،امداد المفتیین:۱۶۳]

محبت کی علامت بھی یہی ہے کہ محبوب کی ہر بات کا ذکر ہو،ولادتِ شریفہ کا بھی،سخاوت اور عبادت کا بھی۔اس میں کسی مہینہ اور تاریخ اور مقام کی کوئی تخصیص نہیں؛بلکہ دوسرے وظیفوں کی طرح روزمرہ اس کا وظیفہ ہونا چاہیے۔یہ نہیں کہ سال بھر میں مقررہ تاریخ پر یومِ میلاد منا لیا جائے اور اس کے بعد کچھ نہیں؛حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک تو غذا ہے،ہر وقت ہونا چاہیے،اس میں وقت کی تخصیص کی کیا ضرورت؟

[الفضائل والاحکام :۱۱۱،امداد الفتاویٰ:۱/۱۸۷]

اس پوری تفصیل سے واضح ہو گیا کہ محفلِ میلاد میں کوئی تاریخ معین اور ضروری نہ سمجھی جائے، شیرینی کو ضروری نہ سمجھا جائے، ضرورت سے زیادہ روشنی نہ کی جائے، غلط روایات نہ پڑھی جائیں،نظم پڑھنے والے بے ریش نہ ہوں،اور گانے کی طرح نہ پڑھیں،اسی طرح دوسری بدعات سے خالی ہو، تو مضائقہ نہیں۔

[امداد الفتاویٰ:۵/۲۴۹ ، و نظام الفتاویٰ ، حصہ دوم : ۱/۱۶۵، اعتقاد پبلشنگ ہاوٴس ، دیوبند]

غرض یہ کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک جب کہ ان رسوم و بدعات سے خالی ہو تو ثواب اور افضل ہے،اوراگر مروجہ طریقہ پررسوم وبدعات سے بھرا ہو تو نیکی برباد گناہ لازم ہے۔جیسے کوئی بیت الخلاء میں جاکر قرآن ِکریم کی تلاوت کرنے لگے۔

[جامع الفتاویٰ:۲/۵۵۲ ، ربانی بک ڈپو ، دہلی ، فتاوی عثمانی:۱/۱۱۹، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند]

المختصر !ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی خوشی اور غمی ،ہر حالت میں شریعت کی اتباع کرنا واجب و ضروری ہے اور شریعت میں امرِ مندوب پر اصرار کرنا اور واجب کی طرح اس کا التزام کرنا اتباعِ شیطان ہے۔

[عزیزالفتاویٰ:۱۴۲ بتغیر]

اہل ِ حدیث ‘ علماء کا موقف:

جناب مولانا مفتی ابو محمد عبد الستار صاحب فرماتے ہیں:

ہےئت ِمروجہ کے ساتھ مجلس ِ میلاد کا انعقاد ازروئے کتاب و سنت قطعاً حرام اور بدعت؛ بلکہ داخل فی الشرک ہے؛کیوں کہ اس کا ثبوت نہ تو خود رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے،نہ کسی صحابی  سے،نہ کسی تابعی  سے۔غرض قرونِ ثلاثہ میں اس کا وجود بالکل مفقود ہے،نہ ازمنہٴ ائمہ اربعہ میں اس کا پتہ لگتا ہے؛بلکہ ساتویں صدی میں یہ بدعت بجانب خود ایجاد کی گئی ہے۔

[فتاویٰ ستاریہ:۱/۶۴]

جناب مولانا ثناء اللہ امرتسری فرماتے ہیں:

ہم مجلسِ میلاد کو کارِ ثواب نہیں جانتے؛اس لیے کہ زمانہٴ رسالت و خلافت میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔آگے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:مولود کی مجلس ایک مذہبی کام ہے،جس پر ثواب کی امید ہوتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ کسی کام پر ثواب کا بتلانا شرع شریف کا کام ہے؛اس لیے کسی کام پر ثواب کی امید رکھنا،جس پر شرع شریف نے ثواب نہ بتلایا ہو،اس کام کو بدعت بنا دیتا ہے۔مولود کی مجلس بھی اسی قسم سے ہے؛کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے اس پر ثواب کا وعدہ نہیں کیا؛اس لیے ثواب سمجھ کر تو یقیناًبدعت ہے،رہا محض محبت کی صورت، یہ بھی بدعت ہے؛کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کرنا بھی ایک مذہبی حکم ہے،جس پر ثواب کی امید ہے۔پس جس طریق سے شرع شریف نے محبت سکھائی ہے،اس طریق سے ہوگی تو سنّت،ورنہ بدعت۔

[فتاویٰ ثنائیہ: ۱/۱۱۹]

مفتیِ اعظم مکہ مکرمہ کا فتویٰ:

شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن بازفرماتے ہیں:

مسلمانو کے لیے ۱۲/ربیع الاول کی رات یا کسی اور رات میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی محفل منعقد کرنا جائز نہیں ہے؛بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ کسی اور کی ولادت کی محفل منعقد کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ میلاد کی محفلوں کا تعلق ان بدعات سے ہے،جو دین میں نئی پیدا کر لی گئی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی حیات ِ پاک میں کبھی اپنی محفلِ میلاد کا انعقاد نہیں فرمایا تھا؛حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  دین کے تمام احکام کو بلا کم وکاست ،من وعن پہنچانے والے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مسائلِ شریعت کو بیان فرمانے والے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے محفلِ میلاد نہ خود منائی اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔یہی وجہ ہے کہ خلفاءِ راشدین ،حضراتِ صحابہٴ کرام اور تابعین میں سے کسی نے کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا تھا،الخ۔

[مقالات وفتاویٰ:۴۰۶ اردو]

اللّٰہم ارنا الحق حقا ًوارزقنا اتباعہ، وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ

$ $ $




******************






ولادت باسعادت اور وصال پُر ملال کی تاریخیں

رسالت مآب، سید البشر رحمة للّعالمین ﷺ کی ولادت باسعادت اور وصال پُر ملال کی تاریخ کے تعین میں اختلاف ہے، اس سلسلے میں تین باتیں قابل ذکر ہیں۔ دن مہینہ اور تاریخ ۔ دن اور مہینہ میں سب موٴرخین کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ (پیر ) اور مہینہ ربیع الاول کا ہے، بعض مرجوح اقوال ربیع الاول کے علاوہ کے بھی ہیں، لیکن جمہور کے مقابلے میں قابل التفا ت نہیں؛ البتہ تاریخ میں اختلاف ایک معر کة الآرا موضوع ہے؛ معتبرقول کیاہے؟ اس کو جاننے کے لیے ائمہ کی تاریخی شہادتوں کا تجزیہ کرنے کی ضرورت تھی، جس کومعتبرعلماء، محققین نے کرکے بتادیاہے ۔ولادت باسعادت

ولادت باسعادت کے بارے میں بعض مرجوح اقوال ہیں، جنہیں الامام الحافظ الموٴرخ ابو الفداء اسماعیل بن کثیر نے تاریخ کی مشہور کتاب ”البدایة والنھایة“ میں ذکر کیا ہے۔چناں چہ پہلی روایت وہ ہے جسے ابن عبدالبر نے زبیر بن بکاء سے نقل کیا ہے، اس کو حافظ صاحب صریح طور پر مرجوح لکھتے ہیں۔

اَ نہ وُلد فی رمضان، نقلہ ابن عبدالبر عن الزبیر بن بکار، ھوقول غریب جداً․

آپ صلی الله علیہ وسلم رمضان میں پیدا ہوئے، اس کو ابن عبد البر نے زبیر بن بکار سے نقل کیا ہے، یہ بہت غریب قول ہے۔

اسی طرح زبیر بن بکار ایک اور روایت نقل کرتے ہیں، جس میں مکان ولادت کی بھی تعیین ہے۔

قال الزبیر بن بکار․․․․․․:وُلِد بمکة بالدار المعروفة بمحمد بن یوسف․․․․․․․لاثنتی عشرة خلت من شھر رمضان․

زبیر بن بکار کہتے ہیں آپ صلی الله علیہ وسلم مکہ میں دارالمعروفہ میں رمضان کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔

مذکورہ روایت میں تاریخ کا بھی ذکر ہے۔اسی طرح ایک روایت ہے جس میں دن کاذکر ہے۔

ورواہ الحافظ ابن عساکر من طریق محمد بن عثمان․․․ولد یوم الاثنین لاثنی عشرة لیلة خلت من شھر رمضان․

حافظ ابن عسا کر نے محمد بن عثمان کے طریق سے روایت ذکر کی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پیر کے دن رمضان کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔

ایک دوسری روایت کو ابن عسا کر نے محمد بن عثمان کے طریق سے ببان کیا ہے ،اس میں رمضان کی بارہ تاریخ کو ظاہر کیا گیا ہے۔

واَبعد بل اَخطا من قال: ولد یوم الجمعة لسبع عشرة خلت من ربیع الاول․(البدایة والنھایة، 33/3، ط: دار ابن کثیر)

جس نے کہا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جمعہ کے روز اورسترہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے ۔اس نے غلط بات کہی ہے۔

مذکور ہ اقوال مرجوح ہیں ، اب جو اقوال راجح ہیں ان کو ذکر کیا جاتا ہے، اس میں مختلف اقوال ہیں۔


پہلا قول : دو تاریخ 

بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش ربیع الاول کی دو تاریخ کو ہوئی، حافظ ابن عبد البر  نے اسی قول کو اختیار کیا ہے اور الاستیعاب فی معرفة الاصحاب میں اس کو ذکر کیا ہے۔ چناں چہ حافظ اسماعیل بن کثیر نے البدایہ والنھایة میں اس کو ذکر کیا ہے۔

فقیل: للیلتین خلتا منہ․ قالہ ابن عبد البر فی الاستیعاب ورواہ الواقدی عن ابی معشر نجیح بن عبدالرحمن المدنی․

ترجمہ :۔ کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی پیدائش دو ربیع الاول کو ہوئی۔ اس کو حافظ ابن عبدالبرنے استیعاب میں ذکر کیا ہے اور واقدی نے ابو معشر نجیح بن عبدالرحمن مدنی سے اس کو روایت کیا ہے ۔
دوسرا قول : آٹھ ربیع الاول

آپ صلی الله علیہ وسلم آٹھ ربیع الاول بروز پیر پیدا ہوئے، چناں چہ علامہ حافظ ابن کثیر  نے ” البدایہ والنھایہ “ میں اس قول کے متعلق روایت نقل کی ہے:

و قیل : لثمان خلون منہ حکاہ الحمیدی عن ابن حزم۔ ورواہ مالک، وعقیل، و یونس بن یزید، وغیرھم ․․․․․، ونقل ابن عبد البر عن اَ صحاب التاریخ اَنھم صححوہ․ (البدایہ والنھایہ ،33/3 )

․ترجمہ :۔ کہا گیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت آٹھ ربیع الاول کو ہوئی، اسی کو حمیدی نے ابن حزم سے بیان کیا ہے اور امام مالک، عقیل اور یونس بن یزید نے بھی اسی کو روایت کیا ہے۔ اور ابن عبدا لبر نے اصحاب تاریخ سے نقل کیا ہے کہ یہی قول صحیح ہے۔

اسی طرح آٹھ ربیع الاول کے قول کو شیخ الحدیث حضرت مولانا ادریس کاندھلوی صاحب ترجیح دیتے ہیں۔ چناں چہ انہوں اپنی عظیم تصنیف میں تحریر فرمایا ہے۔

” سر ور دو عالم، سید ولد آدم، محمد مصطفی ،احمد مجتبیٰ صلی الله علیہ وسلم و شرف و کرم واقعہ فیل کے پچاس یا پچپن روز کے بعد بتاریخ 8 ربیع الاول یوم دو شنبہ مطابق ماہ اپریل 570 عیسوی مکہ مکرمہ میں صبح صادق کے وقت ابو طالب کے مکان میں پیدا ہوئے۔ ولادت باسعادت کی تاریخ میں مشہور قول تو یہ ہے کہ حضور پر نور صلی الله علیہ وسلم 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، لیکن جمہور محدثین اور موٴرخین کے نزدیک راجح اور مختار قول یہ ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے، عبدالله بن عباس اور جبیر بن مطعم  سے بھی یہی منقول ہے اور اسی قول کو علامہ قطب الدین قسطلانی نے اختیار کیا ہے۔ “ (سیرت مصطفی صلی الله علیہ وسلم، 65/1 ،ادریس کاندھلوی )

اسی طرح آٹھ ربیع الاول کے قول کو مولوی احمد رضا خان بریلوی صاحب نے اختیار کیا ہے اور دوسرے اقوال کو مرجوح قرار دیا ہے اور فتاوی رضویہ صفحہ نمبر 412اور جلد نمبر 26 میں اس کو ذکر کیا ہے۔

یہاں پر ایک بات افسوس سے لکھنی پڑرہی ہے کہ جو حضرات مولوی احمد رضا خان صاحب کے مسلک کے ہیں وہ کھینچ تان کر ولادت 12 ربیع الاول کو ثابت کرتے ہیں اور اپنے امام کا قول ذکر ہی نہیں کرتے، گویا کہ ان کے یہاں یہ قول مردود ہے۔

تیسرا قول : نو ربیع الاول

بعض علماء نے نو ربیع الاول کے قول کو اختیار فرمایا، چناں چہ خلافت اسلامیہ کے آخری شیخ الاسلام کے نائب، عالم اسلام کے عظیم محقق، امام، محمد زاہد بن الحسن الکوثری  المتوفی 1371 ہجری نے نو ربیع الاول والے قول کو اختیار فرمایا ہے اور اپنے ایک مقالے” المولد الشریف النبوی“ جو مقالات کو ثری کے مجموعہ میں شامل ہے، میں تحریر فرماتے ہیں․

ولادتہ علیہ الاسلام عند انقضاء ثمانیة اَیام من الشھر․ فیکون ھذا ھو الراجح روایة بل المتعین درایة، لاَن الیوم التاسع عند انقضاء تلک الایام الثمانیة․ مقالات الکوثری، ۴۰۶ ، دار الشہبی للنشر․

․․ترجمہ :۔ آپ علیہ السلام کی ولادت ربیع الاول کے آٹھ دن گزرنے کے بعد ہوئی ․․․․یہی روایت راجح ہے بلکہد رایةً بھی یہی متعین ہے۔

نو ربیع الاول کا قول مصرکے مشہور ریاضی دان محمود پاشا الفلکی کا اختیار کردہ ہے، اسی کو علامہ زاہد الکوثری نے اختیار کیا ہے، چناں چہ آگے ذکر فرماتے ہیں۔

ھو الذی تعین لمولدہ صلی الله علیہوسلم بعد اِجراء تحقیق ریاضی لا یتخلف بمعرفة الریاضی المشہور العلامة محمود باشا الفلکی المصری رحمہ الله فی رسالة لہ باللغة الغربیة فی تقو یم العرب قبل الاسلام․ (مقالات الکوثری ․ 406)

اسی طرح نو ربیع الاول کے قول کو مشہورسیرت نگار علامہ شبلی نعمانی  اختیار فرماتے ہیں ، چناں چہ اپنی گرانقدر سیرت کی کتاب سیرة النبی صلی الله علیہ وسلم میں رقمطراز ہیں۔

”تاریخ ولادت کے متعلق مصر کے مشہور ہےئت دان عالم محمود پاشا فلکی نے ایک رسالہ لکھا ہے، جس میں انہوں نے دلائل ریاضی سے ثابت کیا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ولادت 9ربیع الاول روز دو شنبہ مطابق 20اِپریل 571 ھ میں ہوئی تھی “
چوتھا قول 

ایک روایت دس ربیع الاول کی بھی ہے، دس ربیع الاول کی روایت کو ابن دحیہ اپنی کتاب میں نقل فرماتے ہیں اور اس کو علامہ ابن عساکر روایت کرتے ہیں جس کو علامہ ابن کثیر  نے البدایہ والنھایہ میں اور موٴرخ عزالدین ابی الحسن الشیبانی المعروف بابن اثیر المتوفی 630ھ نے تاریخ کی مشہور کتاب الکامل فی التاریخ میں ذکر کیا ہے یہ دونوں حضرات تحریر فرماتے ہیں۔

وقیل: لعشر خلون منہ۔ نقلہ ابن دحیہ فی کتابہ۔ ورواہ ابن عساکر۔ البدایہ والنھایہ،33/3 ط: دار ابن کثیر الکامل فی التاریخ299/2دارالمعر فة بیروت۔

ترجمہ:۔ کہا گیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی پیدائش دس ربیع الاول کو ہوئی، اسی قول کو ابن دحیہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔
پانچواں قول : بارہ ربیع الاول

بارہ تاریخ کے قول کو علامہ ابن اسحاق  نے اختیار کیا ہے اور اس کو امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی مَصَنف میں روایت کیا ہے، اسی قول کو علامہ ابن کثیر  البدایة والنھایة میں ذکر کرتے ہیں چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔

”اور کہاجاتا ہے کہ بارہ تاریخ۔ اسی پر ابن اسحاق کا قو ل ہے اور ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں حضرت جابر و ابن عباس سے روایت ذکر کی ہے ،وہ دونوں فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم عام الفیل میں بروز پیر بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔“

اسی طرح اس روایت کو علامہ ابن ہشام  نقل فرماتے ہیں :قال ابن اسحاق: ولد رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین، لاثنتین عشرة لیلة خلت من شھر ربیع الاول، عام الفیل․(السیرة النبویة لابن ہشام 158/1 ملتزم الطبع والنشر )

اسی روایت کو ابن اسحاق کے طریق سے علامہ ابن اثیر  نقل فرماتے ہیں۔ متاخرین علماء میں سے صرف مفتی اعظم پاکستان مولانا شفیع صاحب  اس قول کو اختیار فرماتے ہیں، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔

” مشہور قول بارہویں تاریخ کا ہے، یہاں تک کہ ابن البزار نے اس پر اجماع نقل کر دیا ہے اور اسی کو کامل ابن اثیر میں اختیار کیا گیا ہے ۔“

یہاں پانچوں اقوال کو ذکر کر دیا گیا ہے، ان میں راجح قول نویں تاریخ کا ہے، متعدد وجوہات کی وجہ سے ، پہلے قول کو کم استعمال کیا گیا ہے اور متاخرین نے بھی اس کو ذکر نہیں کیا، بارہ تاریخ کی ایک ہی روایت ہے جسے سب نے ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے یہ مشہور ہو گیا، جب کہ ان کے مقابلے میں نو تاریخ کے قول کو اکثر نے اختیار کیا ہے، نو تاریخ کے قول کو آٹھ اور دس تاریخ کے اقوال سے قریب ہونے کی وجہ سے تقویت ملتی ہے، لہٰذا نو تاریخ کا قول قوی ثابت ہوا، نو تاریخ کے قول کے بارے میں مفتی اعظم ہند مفتی کفایت الله دہلوی  فیصلہ صادر فرماتے ہیں۔

” حضور سرور عالم صلی الله علہ وسلم کی تاریخ ولادت میں پہلے سے موّرخین و اہل سیر کا اختلاف ہے، دو شنبہ کا دن اور ربیع الاول کا مہینہ تو متفق علیہ ہے، مگر تاریخ کی تعین میں متعدد اقوال ہیں۔ کسی نے دوسری ، کسی نے تیسری، کسی نے آٹھویں ، کسی نے نویں، کسی نے بارہویں تاریخ بتائی ہے۔ از روئے حساب جو جانچا گیا تو 9تاریخ والا قول زیادہ قوی ثابت ہوا۔“(کفایت المفتی،147/1 ، دار الاشاعت )
تاریخ وصال پر ملال

تاریخ ولادت باسعادت کی طرح تاریخ وصال میں بھی اختلاف ہے، دن اور مہینہ تو سب کے یہاں متفق علیہ ہے کہ پیر کے روز ربیع الاول کے مہینے میں وصال ہوا، لیکن بعض روایات ایسی بھی ہیں جن میں مہینہ کا اختلاف ظاہر کیا گیا ہے،لیکن یہ روایات شاذ ہیں، البتہ جن روایات میں تاریخ کا اختلاف ہے وہ بڑی معرکة الآراہیں، تاریخ کی روشنی میں ان کا موازنہ کیا جا سکتا ہے، تعین تاریخ میں چار اقوال ہیں۔
پہلا قول : یکم ربیع الاول

اس قول کی روایت کو یعقوب بن سفیان نقل کرتے ہیں اور علامہ ابن کثیر  نے البدایة والنھایہ میں بھی اس کو ذکر کیا ہے، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔

وقال یعقوب بن سفیان…توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاِثنین للیلة خلت من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ، 359/5 ط : دار ابن کثیر)

ترجمہ:۔ بعقوب بن سفیان کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یکم ربیع الاول پیر کے روز وفات پائی۔

آگے جا کر علامہ ابن کثیر  یکم ربیع الاول کا ایک اور قول نقل کرتے ہیں لیکن وہ ابو نعیم الفضل بن دکین کا اختیار کردہ ہے، چناں چہ ابن کثیر  تحریر فرماتے ہیں۔

وقال ابو نعیم الفضل بن دکین: توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین مستھل ربیع الاول․(ایضاً)

ترجمہ :۔ ابو نعیم فضل بن دکین فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پیر کے روز یکم ربیع الاول کوو فات پائی۔
دوسرا قول : دو ربیع الاول

بعض روایات میں آ تا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ربیع الاول کی دو تاریخ کو ہوا ، اس روایت کو علامہ و اقدی کے حوالے سے ابن کثیر  نے کچھ یوں ذکر کیا ہے۔

وقال الوا قدی․․․․․․․․:توفی یوم الاثنین للیلتین خلتا من ربیع الاول․(البدایہ والنھایہ ، 359/5)

ترجمہ :۔ واقدی کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پیر کے روز دو ربیع الاول کو وفات پائی۔

اسی طرح اس قول کی ایک روایت امام المحد ثین ابی بکر احمد بن الحسین بن علی بیہقی سے منقول ہے، جسے البدایہ والنھایہ میں اس طرح سے ذکر کیا گیا۔

وقال البیہقی․․․․․․․:کانت وفاتہ علیہ الصلاة والسلام یوم الاثنین للیلتین خلتا من شھر ربیع الاول․

ترجمہ:۔ بیہقی کہتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی وفات پیر کے روز دو ربیع الاول کو واقع ہوئی۔

اسی قول کو سعد بن ابراہیم الزھری ابن عساکر اور واقدی سے نقل کرتے ہیں۔

توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم یوم الاثنین للیلتین خلتا من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ ، 360/5)

ترجمہ:۔ دو ربیع الاول کو آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا۔
تیسرا قول : دس ربیع الاول 

اس قول کی روایت کو یوسف بن عمر عبدالله بن عباس  سے نقل کرتے ہیں۔ وروی یوسف بن عمر․․․․․مات یوم الاثنین لعشر خلون من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ، 360/5)

ترجمہ :۔ یوسف بن عمر سے روایت ہے کہ پیر روز دس ربیع الاول کو آپ کا وصال ہوا۔

اس قول کے متعلق یہی روایت ملی ہے۔
چوتھا قول : بارہ ربیع الاول

اکثرعلماء اسی قول کو نقل کرتے ہیں، چناں چہ اس قول کی ایک روایت علامہ و اقدی حضرت ابن عباس  اور حضرت عائشہ  سے نقل فرماتے ہیں

ورواہ الوقدی عن ابن عباس وعائشہ رضی الله عنہا اثنتی عشرة لیلة خلت من ربیع الاول․ (البدایہ والنھایہ ،361/5)

ترجمہ :۔ واقدی بیان کرتے ہیں حضرت ابن عباس  اور حضرت عائشہ  سے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال پیر کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوا۔ ایک اور روایت کو علامہ واقدی  محمد بن سعد کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں ،جسے البدایہ والنھایہ میں ذکر کیا گیا ہے۔

بارہ تاریخ کے قول کو محمد بن اسحاق  نے بھی اختیار فرمایا ہے، چناں چہ ان کے قول کو ابن کثیر  کچھ اس طرح سے ذکر فرماتے ہیں۔

وقال محمد بن اسحاق: توفی رسول الله صلی الله علیہ وسلم لأثنتی عشر لیلة خلت من شھر ربیع الاول․ (البدایة والنھایة، 359/5)

ترجمہ :۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے بارہ ربیع الاول کو وفات پائی۔

اسی طرح اسی قول کو حافظ ابن اثیر  اختیار فرماتے ہیں، چناں چہ وہ کچھ اس طرح سے ” الکامل فی التاریخ میں رقم طراز ہیں۔

وکان موتہ فی یوم الاثنین لاثنی عشرة لیلة خلت من ربیع الاول․ (الکامل فی التاریخ ، 299/2،دار المعر فة بیروت)

اسی طرح بارہ تاریخ کے قول کو متاخرین علماء بھی اختیار فرماتے ہیں، چناں چہ مشہورسیرت نگار شیخ الحدیث مولانا ادریس کاندھلوی ،، سیرت مصطفی صلی الله علیہ وسلم میں فرماتے ہیں

”یہ جاں گداز اور روح فرسا واقعہ جس نے دنیا کو نبوت ورسالت کے فیوض و برکات اور وحی ربانی کے انو ار و تجلیات سے محروم کر دیا، بروز دو شنبہ دو پہر کے وقت 12، ربیع الاول کو پیش آیا“

بارہ تاریخ کے قول پر علامہ ابو القاسم السھیلی  کو اعتراض ہوتا ہے کہ از روئے حساب اگر دیکھا جائے تو بارہ تاریخ پیر کے دن نہیں پڑتی، چناں چہ اسی بات کو البدایہ والنھایة میں اس طرح سے ذکر کیا گیا ہے ۔

قال ابو القاسم السھیلی فی ”الروض“ ما مضمونہ: لا یتصور وقوع وفاتہ علیہ الصلاة والسلام یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول من سنة احدی عشر، وذلک لانہ علیہ الصلاة والسلام وقف فی حجّة الوداع سنة عشر یوم الجمعة، فکان اول ذی الحجة یوم الخمیس، فعلی تقدیر ان تحسب الشھور تامة او ناقصة او بعضھاتامة وبعضھا ناقصة، لا یتصور ان یکون یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاول ․(البدایة والنھایہ، 361/5)

لیکن اس اشکال کو علامہ ابن کثیر  نے اختلاف مطالع کی وجہ سے رد کر دیا ہے، چناں چہ وہ تحریر فرماتے ہیں۔

ان یکون اھل مکة راوا ھلال ذی الحجة لیلة الخمیس، واما اھل المدینة فلم یروہ الا لیلة الجمعة، ویوید ھذا قول عائشة وغیرھا، خرج رسول الله صلی الله علیہ وسلم لخمس بقین من ذی القعدة․ یعنی من المدینة․ الی حجة الوداع و یتعین بما ذکرناہ انہ خرج یوم السبت، ولیس کما زعم ابن حزم انہ خرج یوم الخمیس، لانہ قد بقی اکثر من خمس بلاشک، ولا جائز ان یکون خرج یوم الجمعة؛ لان انساً قال: صلی رسول الله صلی الله علیہ وسلم الظہر بالمدینة اربعاً، والعصر بذی الحلیفة رکعتین، فتعین انہ خرج یوم السبت لخمس بقین، فعلی ھذا انما رای اھل المدینة ھلال ذی الحجة لیلة الجمعة، واذا کان اول ذی الحجة عند اھل المدینة الجمعة، وحسبت الشھور بعدہ کو امل، یکون اول ربیع الاول یوم الخمیس، فیکون ثانی عشرة یوم الاثنین․(البدایہ والنھایہ، 361/5)

لہٰذا معلوم ہوا کہ بارہ تاریخ وفات کی متعین ہے، اس تاریخ کی روایات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ ہیں اور ان کو روایت کرنے والے کبار علماء ہیں، اسی وجہ سے اسی کو ترجیح حاصل ہو گی۔ ( والله اعلم )



جشنِ عید میلاد النبی ﷺ منع آخر کیوں؟


لفظی اعتبارسے ہر اس دن کو عید کہتے ہیں جس میں کسی بڑے آدمی یا کسی بڑے واقعہ کی یاد منائی جائے۔ بعض نے کہا کہ عید کو عید؛ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ہر سال لوٹ کر آتی ہے۔ (المنجد: ۶۹۰، معجم الوسیط:۶۳۵) ”عید“ کو عید کہنا ایک طرح کی نیک فالی اور اس تمنّا کا اظہار ہے کہ یہ روزِ مسرّت بار بار آئے۔(قاموس الفقہ:۴/۴۱۹)
ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کی صحیح تاریخ
تمام موٴرخین اور اصحابِ سیر کا اس پر تو اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادتِ با سعادت پیر کے دن ہوئی؛البتہ تاریخ میں شدید اختلاف ہے۔۲،۸،۹،۱۰،اور ۱۲ تاریخیں بیان کی گئی ہیں اور وفات کے سلسلے میں ۲/ربیع الاول کو جب کہ ولادت کے سلسلے میں ۱۲/ربیع الاول کو ترجیح دی گئی۔
یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
یومِ ولادت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  یعنی اس عظیم الشان شخصیت کا جنم دن ،جسے تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔وہ دن واقعی بڑی ہی عظمت و برکت کا حامل تھا؛اس لیے کہ اس مبارک دن میں رحمةللعالمین حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم اس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے۔اگرچہ شریعت نے سالانہ آقا کے یومِ ولادت کو”منانے“ کا حکم نہیں دیا نہ اسے عید ہی قرار دیا، نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرّر کیے؛لیکن جس سال ماہِ ربیع الاول میں یہ دن آیا تھا ،وہ نہایت ہی متبرک اور پیارا دن تھا۔آج جو لوگ اس دن کو ”عید“ کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ اصلاً رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم  کی نافرمانی کرتے ہیں،اس لیے کہ خود ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے :
اللہ تعالیٰ نے دیگر قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے عید کے دو دن مقرّر کیے ہیں: (۱)عید الفطر اور (۲) عید الاضحی۔یہ ارشاد اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا تھا جب کہ آپ نے اہلِ مدینہ کو دوسرے دنوں میں زمانہٴ جاہلیت کے طرز پر عید و خوشی مناتے دیکھا۔(ابوداود: ۱۳۳۴، نسائی: ۱۵۵۷) اس سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہو گیا کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کے لیے سالانہ صرف دو دنوں کو عید کے طورپر مقرر فرمایا،ان کے علاوہ بعض روایتوں میں جمعہ کے دن کو بھی عید کہا گیا ہے، اس کے علاوہ کسی دن کے متعلق عید کا لفظ وارد نہیں ہوا۔اب اگر کوئی اس پر زیادتی کرکے اپنی طرف سے مزید ایک دن بڑھاتا اور اس میں عید جیسی خوشیاں مناتا ہے،تو وہ گویا رحمة للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس ارشادِ عالی پر عدم رضامندی کا اظہار کرتا ہے،اور جو اسے دین کا حصہ سمجھتا ہے،وہ اپنی طرف سے نیا دین تراشتا ہے اور یہ دونوں ہی طریقہٴ عمل نہایت خطرناک ہیں۔
عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ابتداء
فقیہ الامت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی فرماتے ہیں:
یہ مروجہ مجلسِ میلاد قرآن ِکریم سے ثابت ہے نہ حدیث شریف سے،نہ خلفاءِ راشدین و دیگر صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے ثابت ہے نہ تابعین و ائمہ مجتہدین؛امام اعظم ابو حنیفہ،امام مالک،امام شافعی،امام احمد وغیرہ سے ،نہ محدثین ؛امام بخاری،امام مسلم،امام ابو داود،امام ترمذی،امام نسائی اور امام ا بن ماجہ وغیرہ سے اورنہ اولیاءِ کاملین؛ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری،خواجہ بہاء الدین نقشبندی اور شیخ عارف شہاب الدین سہروردی وغیرہ سے۔چھ صدیاں اس امت پر اس طرح گزر گئیں کہ اس مجلس کاکہیں وجود نہیں تھا۔سب سے پہلے بادشاہ اربل نے شاہانہ انتظام سے اس کو منعقد کیا اور اس پر بہت مال خرچ کیا،پھر اس کی حرص و اتباع میں وزراء وامراء نے اپنے اپنے انتظام سے مجالس منعقد کیں،اس کی تفصیل ”تاریخ ابن خلکان “ میں موجود ہے۔
اسی وقت سے علماءِ حق نے اس کی تردید بھی لکھی ہے؛چنانچہ ”کتاب المدخل“میں علامہ ابن الحجاج نے بتیس صفحات میں اس کے قبائح و مفاسد دلائلِ شرعیہ کی روشنی میں لکھے ہیں۔ ۷۳۷ھ میں اس کی تصنیف سے فراغت حاصل ہوئی،پھر جہاں یہ مجلس پہنچتی گئی ،وہاں کے علماء تردید فرماتے رہے؛چنانچہ عربی،فارسی اور اردو صلی اللہ علیہ وسلم ہر زبان میں اس کی تردید موجود ہے اور آج تک تردید کی جا رہی ہے۔(فتاوی محمودیہ جدید:۳/۲۱۴-۲۱۳بتغیر)
بریلوی عالم کا اعتراف
بریلوی حضرات کے ایک عالم قاضی فضل احمد صاحب لکھتے ہیں:”یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ اس مخصوص شکل سے یہ عملِ خیر و برکت و نعمت ۶۰۴ھ سے جاری ہے“۔(مروجہ محفلِ میلاد:۵۲ ملخصاً)
عیدِ میلاد کا حکم
اس سے بعض لوگ اس غلط بات کی طرف چلے جاتے ہیں، گویا کہ ہم ذکر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کو منع کرتے ہیں۔ نعوذ باللہ ! ثم نعوذ باللہ! نفسِ ذکر میلاد فخرعالم علیہ السلام کو کوئی منع نہیں کرتا؛بلکہ ذکرِ ولادت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل ذکر دیگر سیر و حالات کے مندوب ہے۔(البراہین القاطعةعلی ظلام انوار الساطعة:۱۴)لیکن اس زمانہ میں مجالسِ میلاد بہت سے منکرات وممنوعات پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعاً ممنوع ہے۔(فتاویٰ محمودیہ:۳/۱۸۱جدید محقق)بالفاظِ دگرمیلاد ِ مروجہ وقیام مروج جو امور ِ محدثہ ، ممنوعہ کو مشتمل ہے ، ناجائز اور بدعت ہے۔(عزیز الفتاویٰ:۱۲۲،زکریا بکڈپو ، دیوبند)
یومِ ولادتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  یقینا باعث ِ خوشی اور اظہارِ مسرت کا سبب ہے؛لیکن اس تاریخ میں ہر سال اگر یہ دن ”منانے“ کا ہوتا، تو اس کے متعلق احکامات و ہدایات شریعتِ مطہرہ میں کثرت سے وارد ہوتیں۔یہ خیال رکھنے کی بات ہے کہ یہ دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام کے سامنے بھی تھا ،تو جب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام نے اس خوشی کا اظہار مروجہ طریقہ پر نہیں کیااور” عید ِمیلاد“نہیں منایا،تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شریعت میں اظہارِ خوشی کا یہ طریقہ درست نہیں،ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہٴ کرام  اس پر عمل کرکے اس کا جواز ضرور بتلاتے۔یہی ایک دلیل مروجہ میلاد کے غیر درست ہونے کے لیے کافی ہے۔
 ارشادِ ربّانی ہے:﴿اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾۔(سورة المائدة:۳)آج میں نے تمھارے لیے دین کو کامل و مکمل کر دیا(اب اس میں کسی طرح کمی بیشی کی گنجائش نہ رہی)اور تم پر اپنا انعام مکمل کر دیااور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر راضی ہو گیا۔
نیز ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  ہے:جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات ایجاد کرے ،جو دین میں سے نہیں ہے،وہ مردود ہے۔(بخاری:۲۶۹۷،مسلم:۶۷۱۸)
ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا:
تم میری سنّت کو لازم پکڑو اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنّت کو لازم پکڑو،اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہو اور دین میں نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو؛کیوں کہ دین میں پیدا کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے،اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(ابو داود: ۴۶۰۷، ترمذی: ۲۶۷۸، ابن ماجہ:۴۲)
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا بس یہی حق امت پر ہے کہ سارے سال میں صرف ایک دن اور وہ بھی صرف تماشہ کے طور پر ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک جھوٹے سچے رسالوں سے پڑھ دیا اور پھر سال بھر کے لیے فارغ ہو کر آئندہ بارہ وفات اور عیدِمیلاد کے منتظر ہوکر بیٹھ گئے۔افسوس !مسلمانوں کا فرض تو یہ ہے کہ کوئی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ مبارک سے خالی نہ جائے؛البتہ یہ ضروری نہیں کہ فقط ولادت کا ہی ذکر ہو؛بلکہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا،کبھی آپ کے روزے کا،کبھی جہاد کا،اور کبھی آپ کے اخلاق و اعمال کا،جو کہ سب سے زیادہ اہم ہیں۔کبھی ولادتِ با سعادت کا بھی ہو کہ یہ بھی باعثِ خیر و برکت ہے۔(جواہر الفقہ:۴/۹۱،امداد المفتیین:۱۶۳)
محبت کی علامت بھی یہی ہے کہ محبوب کی ہر بات کا ذکر ہو،ولادتِ شریفہ کا بھی،سخاوت اور عبادت کا بھی۔اس میں کسی مہینہ اور تاریخ اور مقام کی کوئی تخصیص نہیں؛بلکہ دوسرے وظیفوں کی طرح روزمرہ اس کا وظیفہ ہونا چاہیے۔یہ نہیں کہ سال بھر میں مقررہ تاریخ پر یومِ میلاد منا لیا جائے اور اس کے بعد کچھ نہیں؛حالاں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک تو غذا ہے،ہر وقت ہونا چاہیے،اس میں وقت کی تخصیص کی کیا ضرورت؟(الفضائل والاحکام :۱۱۱،امداد الفتاویٰ:۱/۱۸۷)
اس پوری تفصیل سے واضح ہو گیا کہ محفلِ میلاد میں کوئی تاریخ معین اور ضروری نہ سمجھی جائے، شیرینی کو ضروری نہ سمجھا جائے، ضرورت سے زیادہ روشنی نہ کی جائے، غلط روایات نہ پڑھی جائیں،نظم پڑھنے والے بے ریش نہ ہوں،اور گانے کی طرح نہ پڑھیں،اسی طرح دوسری بدعات سے خالی ہو، تو مضائقہ نہیں۔(امداد الفتاویٰ:۵/۲۴۹ ، و نظام الفتاویٰ ، حصہ دوم : ۱/۱۶۵، اعتقاد پبلشنگ ہاوٴس ، دیوبند)
غرض یہ کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ذکرِ مبارک جب کہ ان رسوم و بدعات سے خالی ہو تو ثواب اور افضل ہے،اوراگر مروجہ طریقہ پررسوم وبدعات سے بھرا ہو تو نیکی برباد گناہ لازم ہے۔جیسے کوئی بیت الخلاء میں جاکر قرآن ِکریم کی تلاوت کرنے لگے۔(جامع الفتاویٰ:۲/۵۵۲ ، ربانی بک ڈپو ، دہلی ، فتاوی عثمانی:۱/۱۱۹، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
المختصر !ہم مسلمان ہیں اور ہمیں اپنی خوشی اور غمی ،ہر حالت میں شریعت کی اتباع کرنا واجب و ضروری ہے اور شریعت میں امرِ مندوب پر اصرار کرنا اور واجب کی طرح اس کا التزام کرنا اتباعِ شیطان ہے۔(عزیزالفتاویٰ:۱۴۲ بتغیر)
’ اہل ِ حدیث ‘ علماء کا موقف
جناب مولانا مفتی ابو محمد عبد الستار صاحب فرماتے ہیں:
ہےئت ِمروجہ کے ساتھ مجلس ِ میلاد کا انعقاد ازروئے کتاب و سنت قطعاً حرام اور بدعت؛ بلکہ داخل فی الشرک ہے؛کیوں کہ اس کا ثبوت نہ تو خود رسو اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے ثابت ہے،نہ کسی صحابی سے،نہ کسی تابعی  سے۔غرض قرونِ ثلاثہ میں اس کا وجود بالکل مفقود ہے،نہ ازمنہٴ ائمہ اربعہ میں اس کا پتہ لگتا ہے؛بلکہ ساتویں صدی میں یہ بدعت بجانب خود ایجاد کی گئی ہے۔(فتاویٰ ستاریہ:۱/۶۴)
جناب مولانا ثناء اللہ امرتسری فرماتے ہیں:
ہم مجلسِ میلاد کو کارِ ثواب نہیں جانتے؛اس لیے کہ زمانہٴ رسالت و خلافت میں اس کا ثبوت نہیں ملتا۔آگے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:مولود کی مجلس ایک مذہبی کام ہے،جس پر ثواب کی امید ہوتی ہے۔یہ ظاہر ہے کہ کسی کام پر ثواب کا بتلانا شرع شریف کا کام ہے؛اس لیے کسی کام پر ثواب کی امید رکھنا،جس پر شرع شریف نے ثواب نہ بتلایا ہو،اس کام کو بدعت بنا دیتا ہے۔مولود کی مجلس بھی اسی قسم سے ہے؛کیوں کہ شریعتِ مطہرہ نے اس پر ثواب کا وعدہ نہیں کیا؛اس لیے ثواب سمجھ کر تو یقیناًبدعت ہے،رہا محض محبت کی صورت، یہ بھی بدعت ہے؛کیوں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت کرنا بھی ایک مذہبی حکم ہے،جس پر ثواب کی امید ہے۔پس جس طریق سے شرع شریف نے محبت سکھائی ہے،اس طریق سے ہوگی تو سنّت،ورنہ بدعت۔(فتاویٰ ثنائیہ: ۱/۱۱۹)
مفتیِ اعظم مکہ مکرمہ کا فتویٰ
شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن بازفرماتے ہیں:
مسلمانو کے لیے ۱۲/ربیع الاول کی رات یا کسی اور رات میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی محفل منعقد کرنا جائز نہیں ہے؛بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے علاوہ کسی اور کی ولادت کی محفل منعقد کرنا بھی جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ میلاد کی محفلوں کا تعلق ان بدعات سے ہے،جو دین میں نئی پیدا کر لی گئی ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی حیات ِ پاک میں کبھی اپنی محفلِ میلاد کا انعقاد نہیں فرمایا تھا؛حالاں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  دین کے تمام احکام کو بلا کم وکاست ،من وعن پہنچانے والے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مسائلِ شریعت کو بیان فرمانے والے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے محفلِ میلاد نہ خود منائی اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا۔یہی وجہ ہے کہ خلفاءِ راشدین ،حضراتِ صحابہٴ کرام اور تابعین میں سے کسی نے کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا تھا،الخ۔(مقالات وفتاویٰ:۴۰۶اردو)
اللّٰہم ارنا الحق حقا ًوارزقنا اتباعہ، وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ
$ $ $





ولادتِ مبارکہ ۹یا ۱۲ – تاریخی و شرعی حیثیت



پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ موسمِ بہار، واقعہٴ عام الفیل کے ۵۵ روز بعد آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے مطابق ۲۲/اپریل ۵۷۱ء مطابق یکم جیٹھ ۲۲۸ بکرمی یا ۹/یا ۱۲/ربیع الاوّل کو دوشنبے کے دن، صبح صادق کے بعد طلوعِ آفتاب سے پہلے عرب کے مشہور ترین اور مقدس ترین شہر مکہ معظمہ میں ہوئی۔
          تاریخِ ولادت باسعادت میں موٴرخین نے بہت کچھ اختلافات کیے ہیں، مثلاً ابوالفداء نے ۱۰/ربیع الاوّل لکھی ہے، بعض نے ۸/ربیع الاوّل، طبری اور ابن خلدون نے ۱۲/ربیع الاوّل لکھی ہے اور مشہور یہی روایت ہے؛ مگر سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ولادتِ شریفہ دوشنبے کے دن ہوئی اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ دو شنبہ کے دن ۹/ربیع الاوّل کے سوا کسی اور تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتا؛ اس لیے زیادہ صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ ۹/ربیع الاول ہی میں ولادت مبارکہ ہوئی؛ چنانچہ فلکیات کے مشہور مصری عالم اور محقق محمود پاشا کی تحقیق بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ شریفہ دوشنبہ کے دن، ۹/ربیع الاوّل کو واقعہٴ فیل کے پہلے سال ہوئی، اسی طرح ”تاریخ دول العرب والاسلام“ میں محمد طلعت عربی نے ۹/تاریخ ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔ (رحمة للعالمین: قاضی سلیمان منصورپوری، نبیِ رحمت: مولانا علی میاں ندوی)
          تاریخِ ولادت باسعادت میں ایک طرف تو یہ اختلافات ہیں، پھر یہ کہ راجح اور اصح ۹/ربیع الاوّل ہے اور دوسری طرف تاریخِ وفات کو ملاحظہ فرمایے؛ چنانچہ ”رحمة للعالمین“ میں قاضی سلیمان منصور پوری نے لکھا ہے کہ ۱۲/ربیع الاوّل ۱۲ھء یوم دو شنبہ، بوقتِ چاشت جسمِ اطہر سے روحِ انور نے پرواز کیا، امام اسیر ابن اسحاق اور جمہور کا قول بھی یہی ہے، ابن سعد، عمر بن علی ابن ابی طالب اور وہ اپنے باپ حضرت علی سے نقل کرتے ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۲/ربیع الاوّل کو انتقال کیا (اصح السیر)۔
          اس اختلاف کے تناظر میں بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت مبارکہ ۹/ربیع الاوّل کو ہوئی ہے اور وصال ۱۲/ربیع الاوّل ۱۱ھ بروز دو شنبے کو ہوا (لہٰذا جو لوگ اس بات پر مُصِر ہیں کہ نہیں ولادت شریفہ تو ۱۲/ ہی میں ہوئی، ۸ یا ۹/میں نہ ہوئی اور سانحہٴ ارتحال ایک یا دو ربیع الاوّل میں پیش آیا ہے نہ کہ ۱۲/ میں؛ اس لیے اگر ہم ۱۲/ ربیع الاوّل میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مناتے ہیں، جلسے جلوس کا اہتمام کرتے ہیں، مسجدوں، مزاروں، مکانوں، دوکانوں اور سڑکوں کو سجاتے ہیں، مٹھائیاں تقسیم کرتے ہیں) تو کیا غلط کرتے ہیں؟
          یہ ان کی تاریخ سے ناواقفیت کی کھلی دلیل ہے اور حقائق سے چشم پوشی کا بیّن ثبوت ہے؛ کیوں کہ جب یہ بات واضح طور پر معلوم ہوچکی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کا ۹/ربیع الاوّل کو ہونا زیادہ راجح اور زیادہ صحیح ہے اور وصال کا ۱۲/ربیع الاوّل میں ہونا اصح اور راجح ہے تو ۱۲/ربیع الاوّل میں یوم وفات ہونے کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب تو کیا جاسکتا ہے؛اس لیے کہ ایصالِ ثواب کے لیے کسی دن اور کسی وقت کو متعین کرنا بے اصل اور بے بنیاد ہے؛ مگر اس دن میں خوشیاں منانا، محفلیں آراستہ کرنا، بزم میلاد کرنا، جلسے جلوس کا اہتمام کرنا چہ معنی دارد؟
          جن موٴرخوں نے ۱۲/ربیع الاوّل کو یوم ولادت لکھا ہے، اگر ان کی بات تسلیم کربھی لی جائے، پھر بھی ۱۲/ربیع الاوّل میں خوشیاں نہیں منائی جاسکتیں، محفلیں منعقد نہیں کی جاسکتیں؛ اس کو خوشی کا دن نہیں شمار کیا جاسکتا؛ کیوں کہ اکثر محققین؛ بلکہ جمہور کی رائے بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی بارہ ربیع الاوّل ۱۱ ھ میں ہوئی اور یہی رائے زیادہ صحیح بھی ہے، جیساکہ ماقبل میں گزر چکا۔
          جب بارہ ربیع الاوّل ولادت، وصال دونوں کا سنگم ہے، بارہ ربیع الاوّل میں اسبابِ خوشی اور اسبابِ غم دونوں پائے جاتے ہیں، تو پھر یہ کہاں کی عقلمندی اور دانشمندی ہے کہ بارہ ربیع الاوّل میں صرف اسبابِ خوشی کو ذہن میں رکھ کر اور بارہ ربیع الاوّل کو صرف یوم ولادت مان کر جو کہ قطعی نہیں ہے، عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منعقد کی جائے، جلوس نکالے جائیں اور وہ جلوس بھی ایسے جن میں ہزاروں طرح کے خرافات وبدعات پائی جاتی ہوں، جن میں سڑکوں کو جام کرکے راہ چلتے لوگوں کو پریشانی میں ڈالنا، امن وسکون کے ماحول کو غارت وبرباد کرنا اور اس کو پُرخطر ومخدوش بنانا، فضا کو مسموم کرنا وغیرہ وغیرہ ہوتا ہو۔
          اسی پر بس نہیں ؛ بلکہ ان جلوس میں تو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اوباش اور لاخیرے قسم کے نوجوان لڑکے ہڑبونگ مچاتے رہتے ہیں، سڑک پر اُتر اُتر کرناچتے رہتے ہیں، ڈھول اور تاشے بجاتے رہتے ہیں، نماز کا وقت ہوجاتا ہے، مسجدوں میں نمازیں ہوتی ہیں؛ مگر یہ نام نہاد عاشقان رسول شور وغل میں نمازوں کو برباد کرتے ہیں؛ بلکہ نمازیوں کو پریشان کرکے ان کی نمازوں کو بھی خراب کرتے ہیں، مسجدوں کی بے حرمتی کرنے تک سے باز نہیں آتے؛ جبکہ ایذائے مسلم حرام، مسجدوں کی بے حرمتی حرام ہے۔
          یہ تو جلوس کے ہنگامے اور شور شرابے کی بات ہے، عرسوں میں مردوزن کے اختلاط کی وجہ سے بدکاریوں، برائیوں، تباہ کاریوں کا رونما ہونا، قبروں کی بے حرمتی کرنا، مزاروں پر چادر اور پھول چڑھانا، صاحب قبر کو داتا سمجھنا اور اس سے حاجت روائی کرنا، اس کے سامنے سجدہ ریز ہونا، اس طرح کے دیگر اعمالِ شرکیہ اور خرافات وبدعات کا ہونا جو ہر عرس کے موقع پر اور ہر جگہ کے عرس میں دیکھنے کو ملتے ہیں یہ سب جلوس کے ہنگامے کے ما سوا ہے۔
          علاوہ ازیں اگر بارہ ربیع الاوّل کو جشن میلاد النبی منعقد کیے جانے کا سبب جلوس وغیرہ نکالے جانے کی وجہ اور بنیاد صرف یہ ہو کہ آفتاب رسالت اسی روز کی صبح کو طلوع ہوا تھا، تو یہ وجہ اور یہ سبب تو خود آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھا، نبی کے زمانے میں بھی بارہ ربیع الاوّل آتا تھا؛ مگر آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ ربیع الاوّل کی آمد پر کبھی بھی عید میلاد النبی منعقد نہیں کی، نہ کبھی جلسے جلوس نکلوانے کا اہتمام فرمایا، کیا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ اس عید سے ناواقف تھے؟
          نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد صحابہٴ کرام کی ایک بہت بڑی جماعت اس روئے زمین پر موجود تھی، جن میں خلفائے اربعہ: حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم بھی تھے، جنھیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے خلافت سے بھی نوازا تھا، اگر وہ چاہتے تو عالمی پیمانے پر نہیں تو کم از کم ملکی پیمانے پر تو ضرور عید میلاد النبی منعقد کرواتے، اگر کوئی اس عید سے سرموبھی انحراف کرتا تو اس کے ساتھ قتال کرتے، جیساکہ حضرت ابوبکر صدیق نے مانعینِ زکوٰة سے قتال فرمایا۔ خلفائے اربعہ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کرئہ ارضی پر ہزاروں صحابہ موجود تھے؛ مگر کسی صحابی نے بارہ ربیع الاوّل میں عید میلاد النبی کی مجلسیں منعقد نہ کیں، کیا نعوذ باللہ صحابہ کا فہم یہاں تک نہیں پہنچا تھا؟ کیا صحابہ سے زیادہ آج کے نام نہاد عاشقانِ رسول دین کو سمجھتے ہیں؟ کیا صحابہ سے بھی زیادہ یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے ہوگئے؟ اسی طرح تابعینِ عظام کے دور میں بھی بارہ ربیع الاوّل کی آمد کی مناسبت سے عید میلاد النبی کے نام سے محفلیں نہیں سجائی جاتی تھیں؛ نہ ہی جلوس نکالے جاتے تھے اور نہ ہی تبع تابعین کے عہد میں عیدمیلاد النبی کا کہیں ثبوت ملتا ہے۔
          جب بارہ ربیع الاوّل کی یہ رسمیں عید میلاد النبی، جلوس، عرس، قبروں پر چادر چڑھانا، چراغاں روشن کرنا وغیرہ وغیرہ خیرالقرون: عہد نبوی، عہد صحابہ، عہد تابعین میں نہیں پائی جاتی تھیں باوجودے کہ خیرالقرون میں ان رسموں کا باعث موجود تھا، معلوم ہوا کہ بعد میں لوگوں نے اپنے اپنے مقاصد کی خاطر ان چیزوں کو دین میں داخل کرلیا ہے، شریعت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے؛ اس لیے یہ رسمیں از روئے شرع بدعت قرار پائیں گی، صورةً بھی اور حقیقتاً بھی۔
          اخیر میں قارئین کے مزید اضافے کے لیے بدعت کی پہچان، سنت وبدعات کے درمیان فرق، کونسی چیز صورةً وحقیقتاً بدعت ہے اور کونسی صرف صورةً، بارہ ربیع الاوّل میں عیدمیلاد النبی مذہبی خوشی ہے یا دنیوی؟ وغیرہ کے سلسلے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنے خطبات میں جو بیان فرمایا ہے مختصراً یہاں پر نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ حضرت قدس سرہ بدعت کی پہچان کراتے ہوئے فرماتے ہیں: ”بدعت کی ایک پہچان بتلاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جو بات قرآن وحدیث، اجماع و قیاس چاروں میں سے کسی ایک سے ثابت نہ ہو اور اس کو دین سمجھ کر کیا جائے تو وہ بدعت ہے۔“
          خیرالقرون کے بعد ایجاد کی جانے والی چیزوں میں کونسی بدعت ہے اور کونسی سنت ؟ ان کو حضرت تھانوی ان الفاظ میں بیان فرمارہے ہیں:
          ”جتنی چیزیں خیرالقرون کے بعد وجود میں آئیں، ان میں سے کونسی بدعت ہے اور کونسی مندوب، مستحب اور شریعت سے ثابت ہے، کون سا طریقہ مقبول اور کونسا مردود؟ فلاں مروجہ طریقہ بدعت ہے یا نہیں؟ اس کو جاننے کے لیے یہ سمجھ لیجیے کہ خیرالقرون کے بعد جو چیزیں ایجاد کی گئیں ان کی دو قسمیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ ان کا سبب اور داعی بھی جدید ہے اور وہ کسی مامور بہ کی موقوف علیہ ہو کہ اس کے بغیر اس شرعی حکم پر عمل نہیں ہوسکتا، جیسے دینی کتابوں کی تصنیف، خانقاہوں اور مدرسوں کی تعمیر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ان میں سے یعنی اس انداز کی کوئی چیز نہیں تھی اور ان کا سبب اور داعی بھی جدید ہے، نیز یہ چیزیں ایسی ہیں کہ شرعی حکم ان پر موقوف ہے اور دین کی حفاظت بھی ان پر موقوف ہے؛ یہ اعمال گو صورةً بدعت ہیں؛ مگر حقیقتاً بدعت نہیں؛ بلکہ اس قاعدہ ”مقدمة الواجب واجب“ سے واجب ہے۔
          دوسری قسم کی چیزیں وہ ہیں جن کا سبب قدیم ہے، یعنی خیرالقرون میں وہ سب موجود تھا مثلاً مروجہ میلاد کی مجلسیں، تیجہ، دسواں، چہلم وغیرہ بدعات کہ ان کا سبب قدیم ہے، مثلاً مجلس میلاد منعقد کرنے کا سبب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ پر خوشی ہے اور یہ سبب حضور اکرم کے زمانے میں بھی موجود تھا؛ لیکن حضور نے یا صحابہ نے مجلسیں منعقد نہیں کیں، اگر اس کا سبب اس وقت نہ ہوتا تو البتہ یہ کہہ سکتے تھے کہ ان کا منشاء موجود نہ تھا؛ لیکن جب اس کا باعث اور اس کی بنیاد موجود تھی، پھر کیا وجہ ہے کہ نہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی میلاد کی مجلس منعقد کی، نہ صحابہ نے، ایسی شے کا حکم یہ ہے کہ وہ صورةً بھی بدعت ہے اور معنیً بھی۔“
          اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ خیرالقرون کے بعد ایجاد کی جانے والی وہ چیزیں جن کا سبب جدید ہو یعنی خیرالقرون میں اس کی ضرورت کے دواعی اور اسباب نہیں پائے گئے؛ مگر کوئی مامور بہ اور شرعی حکم اس پر موقوف ہو اس طور پر کہ اس کے بغیر اس شرعی حکم پر عمل کیا جانا ممکن نہ ہو تو ایسی چیزیں صورةً تو بدعت ہیں جس کو بدعت حسنہ سے بھی تعبیر کیا جاتاہے؛ مگر معنیً اور حقیقتاً بدعت نہیں ہیں، یعنی اس کو بدعت سیئہ نہیں کہا جائے گا؛ البتہ بعد میں ایجاد کی جانے والی وہ چیزیں جن کے دواعی واسباب خیرالقرون میں پائے جاتے تھے؛ مگر پھر بھی وہ چیزیں خیرالقرون میں وجود میں نہیں آئیں اور خیرالقرون کے بعد ان چیزوں کو دین سمجھ کر کیا جارہا ہے تو ایسی چیزیں صورةً اور معنی ً وحقیقتاً دونوں طرح بدعت کہی جائیں گی۔
          حضرت تھانوی ان دونوں قسموں کے درمیان عجیب وغریب فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”پہلی قسم کی تجویز کرنے والے خواص یعنی علماء ہوتے ہیں اور اس میں عوام تصرف نہیں کرتے اور دوسری قسم کی تجویز کرنے والے عوام ہوتے ہیں اور وہی ہمیشہ اس میں تصرف کرتے رہتے ہیں؛ چنانچہ میلاد شریف کی مجلس کو ایک بادشاہ نے ایجاد کیا ہے اس کا شمار بھی عوام ہی میں سے ہے اور عوام ہی اب تک اس میں تصرف کررہے ہیں۔“
          اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر نبی علیہ السلام کی ولادت کی خوشی میں عیدمیلاد النبی کا انعقاد کیا جانا دراصل ایک بادشاہ کا ایجاد کردہ ہے شرعاً اس کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ شرع میں اس کی کوئی اصل اور بنیاد ہے۔ شرعاً اس کی اصل اور بنیاد کیوں کر ہوسکتی ہے؛ کیوں کہ شریعتِ اسلامیہ میں صرف دو عیدوں کی اصل ملتی ہے؛ ایک عید الفطر، دوسری عید الاضحی، چنانچہ آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایحا: ”قَدْ أَبْدَلَکُمُ اللّٰہُ بِہَا خَیْرًا مِنْہَا یَوْمَ الأَضْحٰی وَیَوْمَ الْفِطْرِ․․․․ رواہ ابوداوٴد“ ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے بدلے میں تمھیں دو بہتر دن عطا فرمائے ہیں، عیدقرباں کا اور عید فطر کا (ابوداؤد) اب اگر شریعت اسلامیہ میں کسی تیسری عید کا اضافہ کرکے اس کو بھی منایاجائے اور اس کو دین وشریعت ہی کی عید سمجھی جائے اور اس تیسری عید کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جائے کہ یہ بھی عید الفطر اور عید الاضحی کی طرح ایک عید ہے، جس کو بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر منعقد کیا جاتا ہے تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اچھا خاصا معارضہ ہوجائے گا اور شریعت محمدیہ میں تبدیلی کرنا لازم آئے گا، جس کے ناجائز ہونے میں کیا شبہ ہوسکتا ہے؟
          بارہ ربیع الاوّل کے موقع پر عید میلاد النبی کے غیرشرعی ہونے کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ شرعاً عید ہوتی تو مذہبی عید ہوتی اور مدہبی خوشی ہوتی نہ کہ دنیوی، اور مذہبی عید کے ثبوت کے لیے وحی کی ضرورت ہوتی ہے، جیساکہ عید الفطر، اور عید الاضحی کے لیے اور اس طرح کی کوئی وحی ہے نہیں، جس سے بارہ ربیع الاوّل کی عید میلاد النبی ثابت ہو، اگر اس طرح کی کوئی وحی ہوتی جس سے اس عید مُحْدَث کا ثبوت ہوتا تو سب سے پہلے خود صاحبِ وحی آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار ربیع الاوّل کے موقع پر جشن میلاد منعقد کرتے، پھر صحابہ بھی مناتے، ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین؛ آج تک پوری امتِ مسلمہ متفقہ طور پر مناتی، جس طرح عیدالفطر اور عیدالاضحی کو خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منایا، صحابہ نے اور تابعین، تبع تابعین نے منایا اور آج تک پوری امتِ مسلمہ متفقہ طور پر منارہی ہے اور قیامت تک منائے گی، انشاء اللہ۔
          رہی یہ بات کہ عید میلاد النبی مذہبی خوشی اور مذہبی عید ہے نہ کہ دنیوی، تو وہ کیسے؟ اس کو حضرت حکیم الامت نے اس طرح سمجھایا ہے:
          ”یہ تو سب کو معلوم ہے کہ دنیا کا اطلاق اس خطہٴ ززین پر یا زیادہ سے زیادہ چند فرسخ اوپر ہَوَا پر ہوتا ہے، پس اگر کوئی دنیوی خوشی ہوگی تو اس کا اثراس خطہٴ زمین تک محدود رہے گا، اس کے آگے نہ بڑھے گا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے دن نہ صرف زمین کی موجودات؛ بلکہ ملائکہ، عرش، کرسی اور باشندگانِ عالم بالا سب کے سب مسرور وشادمان تھے․․․․․ اور وجہ اس کی یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور؛ چوں کہ تمام عالم کے بقا کا سبب تھا؛ اس لیے تمام عالم میں یہ خوشی ہوتی اور جب اس کا اثر دنیا سے آگے بڑھ گیا تو اس خوشی کو دنیوی خوشی نہیں کہہ سکتے؛ بلکہ یہ مذہبی خوشی ہوگی۔“
          اللہ تعالیٰ پوری امتِ مسلمہ کو اس طرح کے شرک وبدعات سے محفوظ رکھے اور صحیح بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین۔
***


میلا دالنبی ﷺ اور موسیقی
عید میلاد النبی یا جشن میلا دالنبی کے نام سے منعقد ہو نے والے پرو گراموں میں لوگ اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہوں نے ساز،باجے اور موسیقی کے ناپاک اور شیطانی عمل کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے ،فحش گانوں کے لہجہ اور انداز میں نعت خوانی کے ساتھ قوالی وغیرہ کے عنوان سے موسیقی کے آلات بھی استعمال ہو ناشروع ہو گئے ہیں، ان نادانوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ آقا ئے نام دار، حضور صلی الله علیہ وسلم تو گانا اور موسیقی سے سختی کے ساتھ منع فرمائیں اور خود نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے نام پر منعقد ہو نے والی مجلسوں میں موسیقی کو جگہ دے کر آپ کے حکم کی کھلی مخالفت کی جائے ،بلکہ موسیقی کو روح کی غذا قرار دیا جائے۔( نعوذ بالله تعالیٰ )

الله تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے :﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَ ہَا ہُزُواً أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ﴾ ( لقمان:6)
” بعض ایسے آدمی بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں تاکہ بغیر سمجھے الله کے راستے سے گمراہ کریں اور اس کا مذاق بنائیں ، ایسے لوگوں کیلیے ذلت کا عذاب ہے۔“

اس آیت میں ” لہوالحدیث “ (کھیل کی باتوں ) سے مراد گانے بجانے کے آلات ہیں ، کئی صحابہ کرام  ، تابعین عظام اور مفسرین کرام سے اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے ۔

اور حضرت عائشہ  سے مروی ہے: ” قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:ان الله عز وجل حرم القینة وبیعھا وثمنھا وتعلیمھا والاستماع الیھا، ثم قرأ ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ﴾․

” رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے گانے والی ( عورت اور آلات ) کو حرام کیا ہے ، اس کے بیچنے کو بھی اور اس کی قیمت کو بھی اور اسے گانا سکھانے کو بھی اور اس کا گانا سننے کو بھی ۔ پھر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ․“

پہلے زمانے میں گانا صرف انسان کی زبان سے ہو تا تھا اور آج گانے کو مختلف چیزوں ( مثلا کیسٹ ،سی ڈی ،موبائل وغیرہ تمام الیکٹرونک آلات ) میں ریکارڈ کر لیا جاتا ہے، جن چیزوں میں گانا ریکارڈ کر لیا جائے ، وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں اور ان کی خریدوفروخت اور ان سے گانا سننا گناہ ہے ۔

اور حضرت عبدالله بن مسعود  سورہ لقمان کی مذکورہ آیت کے بارے میں فرماتے ہیں ” ہو والله،الغناء “ ( مستدرک حاکم :رقم الحدیث3542 )

” قسم الله کی وہ ( یعنی لہو الحدیث ) گانا ہے ۔“

اور حضرت ابن عباس اور حضرت مجاہد اور حضرت عکرمہ وغیرہ سے بھی مذکورہ آیت کی یہی تفسیر منقول ہے ۔

احادیث مبارکہ:
حضرت عبدالرحمن بن غنم سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریر والخمروالمعازف․ “( بخاری : رقم الحدیث 5590)

”یقینا میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو زنا ، ریشم اور شراب اور آلات موسیقی کو ( خوش نما تعبیروں سے ، جیسے آرٹ کلچر ، ثقافت وغیرہ ) حلال کر لیں گے۔“

جو لوگ نعوذ بالله موسیقی کو روح کی غذا قرار دے رہے ہیں اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کے نام پر اس کو کار خیر سمجھ کر اختیا ر کر ر ہے ہیں وہ بھی اس حدیث کی مذکورہ وعید میں داخل ہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا!

” یمسخ قوم من امتی فی آخر الزمان قردة وخنازیر، قیل یا رسول الله ویشھد ون ان لا الہ الا الله وانک رسول الله صلی الله علیہ وسلم ویصومون؟ قال نعم، قیل: فما بالھم یا رسول الله،؟ قال یتخذ ون المعازف والقینات والدفوف ویشربون الاشربة، فباتوا علی شربھم ولھوھم، فاصبحوا قد مسخوا قردة وخنازیر․ “ ( حلیة الاولیاء لابی نعیم الاصبھانی،رقم الحدیث 8)

”آخری زمانے میں میری امت کے کچھ لوگوں کو بندراور خنزیر کی شکل سے مسخ کردیا جائے گا ، کہا گیا کہ اے الله کے رسول ! وہ لوگ الله کی توحید اور آپ کے رسول ہو نے کی گواہی دیں گے اور روزے رکھیں گے ؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ جی ہا ں ۔ عرض کیاگیاکہ الله کے رسول ! ان کے کیا اعمال ہو ں گے ؟

رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ گانے بجانے کے آلات اختیار کریں گے اور گانے والی ( عورتیں اور چیزیں ) رکھیں گے اور ڈھول اور دف رکھیں گے اور شرابیں پییں گے تو وہ شراب پی کر اور لہو ولعب کی حالت میں رات گزاریں گے ، پھر اس حال میں صبح کریں گے کہ ان کو بندر اور خنزیر کی شکلوں میں مسخ کردیا گیا ہو گا۔“

موسیقی کو جائز ،بلکہ ثواب سمجھنے والے نادان سوچ لیں کہ وہ کہیں الله کی پکڑ میں نہ آجائیں اور بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ نہ کردیے جائیں ۔

اس حدیث سے تمام آلات موسیقی کا حرام ہونا ظاہر ہو ا ۔

حضرت جابر  کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
” نھیت عن صوتین احمقین فاجرین، صوت عند نغمة لھو ولعب ومزامیر الشیطان، وصوت عند مصیبة لطم وجوہ وشق جیوب․“ ( مستدرک حاکم : رقم الحدیث 6825)

میں نے دو احمق اور فاجر ( گناہ والی ) آوازوں سے منع کیا ہے ، ایک نغمہ کے وقت لہوو لعب کی اور شیطانی بانسریوں سے اور مصیبت کے وقت کی آوازسے اپنے چہرے کو پیٹنے سے اور اپنے کپڑے پھاڑ نے سے۔

حضرت نافع کی روایت میں ہے !

” ان ابن عمر سمع صوت زمارة راع، فوضع اصبعیہ فی اذنیہ، وعدل راحلتہ عن الطریق، وہو یقول یانافع اتسمع؟ فاقول نعم، فیمضی حتیٰ قلت: لافوضع یدیہ واعاد راحلتہ الی الطریق، وقال رأیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم، وسمع صوت زمارة راع فصنع مثل ہذا․“ ( مسند احمد : رقم الحدیث 4535)

”حضرت ابن عمر  نے ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سنی تو اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں رکھ لیا اور اپنی سواری کو راستے سے ہٹالیا ( آواز سے دور ہونے کی غرض سے راستے سے ہٹ کر چلتے رہے ) اور یہ کہتے رہے کہ اے نافع کیا آپ کو آواز آرہی ہے ؟ میں نے کہا کہ جی ہا ں ، آپ نے یہ عمل برابر جاری رکھا ، یہاں تک کہ میں نے کہا کہ اب آواز نہیں آرہی تو آپ نے اپنے ہاتھ ہٹائے اور اپنی سواری کو راستے پر واپس لے آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سننے کے وقت اسی طرح کر تے ہو ئے دیکھا تھا ۔“

غور فرمائیے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اورآپ کی اتباع میں صحابہ کرام  تو ایک بانسری کی آواز آنے پر بھی کان بند فرمالیا کرتے تھے ۔اور آج آپ کے نام لیوا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے میلاد کے نام پر ہی کتنے موسیقی کے آلات استعمال کر تے ہیں ؟!

حضرت عبدالله بن عمر و بن عاص  سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا !

”ان ربی حرم علي الخمر والمیسر والکوبة والقنین․ والکوبة الطبل “ ( السنن الکبریٰ للبیھقی : رقم الحدیث 20994)

”بے شک میرے رب نے میرے اوپر شراب کو اور جوئے کو اور کوبہ کو حرام کیا ہے اور کو بہ سے مراد طبلہ ہے ۔“

حضرت عائشہ  کے بارے میں یہ واقعہ مروی ہے!

”اذ دخل علیہا بجاریة وعلیہا جلاجل یصوتن فقالت لا تد خلنھا علي الا ان تقطعواجلاجلھا وقالت سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم:یقول لا تدخل الملائکة بیتا فیہ جرس․“ (سنن ابی داوٴد: رقم الحدیث 4231)

” حضرت عائشہ  کے پاس ایک بچی لا ئی گئی ، جس نے آواز والے گھنگھرو پہنے ہو ئے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ اسے میرے پاس نہ لاوٴ ، جب تک کہ اس کے گھنگھرونہ کا ٹ دو ۔اور فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہو تے ،جس میں گھنٹی ہو ۔“

حضرت ابن عباس  فرماتے ہیں کہ!

” الدف حرام والمعازف حرام، والکوبة حرام، والمزمار حرام “․ ( السنن الکبری للبیھقی: رقم الحدیث 21000)

” دَف حرام ہے اور گانے بجانے کے آلات ( موسیقی ) حرام ہیں اور طبلہ حرام ہے اور بانسری حرام ہے۔“

حضرت عائشہ  کے بارے میں ایک تقریب کے حوالے سے یہ قصہ مذکور ہے کہ !

” فمرت عائشة فی البیت، فرأتہ یتغنی، ویحرک رأسہ طربا، وکان ذاشعر کثیر، فقالت: اُف، شیطان اخرجوہ، اخرجوہ“
( الادب المفرد للبخاری : رقم الحدیث 1247)

”پس حضرت عائشہ  اس گھر میں سے گزریں تو ا س آدمی کو دیکھا کہ وہ گانا گا رہا ہے اور اپنے سر کو مستی کے ساتھ حرکت دے رہا ہے اور اس کے بڑے بڑے بال تھے، تو سیدہ عائشہ  نے فرمایا کہ! اُ ف یہ شیطان ہے، اسے باہر نکالو ، باہر نکالو۔“

آج بھی قوال اور گوئیے بڑے بڑے بال رکھتے ہیں ،ڈاڑھیاں منڈاتے ہیں ،نشہ کے عادی ہو تے ہیں اور دوران قوالی اپنے سر مستی سے ہلاتے ہیں ،جو کہ سیدہ عائشہ  کے فرمان کے مطابق شیطان ہیں ۔

حضرت شریح فرماتے ہیں کہ ” ان الملائکة لاید خلون بیتاً فیہ دف “ ( مصنف ابن ابی شیبہ : رقم الحدیث 26993)

” فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہو تے جس میں دف ہو۔“

ٍ حضرت ابراہیم نجعی فرماتے ہیں کہ
” کان اصحاب عبدالله یستقبلون الجواری فی الازفة، معھن الدفوف، فیشقونھا․“( مصنف ابن ابی شیبہ : رقم الحدیث 26995)

”حضرت عبدالله بن مسعود  کے شاگرد وں کو ( آتے جاتے ہوئے) راستوں میں ( چھوٹی ) بچیوں کا سامنا ہو تا تھا ، جن کے ساتھ دفیں (طبلے وڈھولکیاں ) ہوا کرتی تھیں ، تو وہ ان کو پھاڑ دیا کرتے تھے۔“ ( تلک عشرة کاملة)

فائدہ :”معازف “عربی زبان میں گانے بجانے کے تمام آلات کو کہا جاتا ہے ، جس میں ڈھول ، بانسری وغیرہ سب داخل ہے ۔اور” دف“اسے کہا جاتاہے کہ جس کے صرف ایک طرف بجانے کی جگہ ہو تی ہے ۔اور ڈھول اسے کہا جاتا ہے جو دونوں طرف سے بجا یا جاتا ہے ۔اور ”کوبہ“ طبلے کو کہتے ہیں۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ مندرجہ بالا احادیث میں واضح طور پر گانے بجانے کے آلات کا ذکر ہے، جس سے واضح ہو تا ہے کہ اگر خالی گانے بجانے کے آلات کو بھی استعمال کیا جائے اور اس کے ساتھ گانے والے کسی انسان کی آواز شامل نہ ہو تب بھی یہ ناجائز وحرام ہے ۔نیز گانے بجانے کے ناجائز ہونے پر ائمہ اربعہ ( امام ابو حنیفہ  ، امام شافعی  ، امام مالک  ، امام احمد بن حنبل ) کا اجماع ہے ۔

دف سے متعلق ایک اشکال اور اس کا حل 
بعض روایات میں نکاح کے موقع پر دف کے ذریعے سے اعلان کی اجازت ملتی ہے ۔تو بعض لوگو ں کو اس سے شبہ پیدا ہوتا ہے، مگر یاد رہے کہ…

اول  تو گانے بجانے کے آلات کے ناجائز اور ڈھول اور دَف کے گانے بجانے کے آلات میں داخل ہو نے اور خود دَ ف کے ناجائز ہو نے پر احادیث وروایات موجود ہیں، جو ہم نے نقل کر دی ہیں۔ اور پھر جائز وناجائز میں تعارض ہو نے کی صورت میں ناجائز کو ترجیح حاصل ہو اکر تی ہے ۔

دوسرے   دَ ف کے جائز ہو نے کے سلسلہ میں بعض روایات ضعیف بھی ہیں ۔

اور آخری درجے میں اگر دف کا جائز ہونا بھی تسلیم کر لیا جائے تو وہ بھی کئی شرائط کے ساتھ مقید تھا ۔

مثلاً : ایک شرط یہ تھی کہ کہ دف سادی ہو ، اس کے ساتھ گھنگھرو اور گانے بجانے کا کوئی دوسرا آلہ استعمال نہ ہو ( جیساکہ پہلے زمانے میں سادہ دفیں ہو اکر تی تھیں اور آج کل معاملہ اس کے برعکس ہے ۔)

اور دوسری شرط یہ تھی کہ دف بجانے کا انداز سادہ ہو، یعنی اس میں کوئی خاص طرز اور دھن نہ لگائی جا ئے، ( جیساکہ مشاق لوگ خاص طرز اور دھن کے ساتھ بجاتے ہیں ) ،بلکہ بغیر کسی طرزاور لَے کے اس کو چند مرتبہ بجالیا جائے ، جس کو پیٹنا اور مارنا کہا جاتا ہے ۔

اور تیسری یہ کہ اس کا نکاح وغیرہ کے موقع پر جائز ہو نا بھی خواتین کے ساتھ مخصوص تھا اور اس سے مقصود بھی ( نکاح وغیرہ کا ) اعلان تھا ، نہ کہ بذات خود اس کی آواز کا سننا، سنانا یا لطف انداز ہو نا ۔ اور آج کل پہلے زمانے کے مقابلے میں اعلان وشہرت کے دوسرے بے شمار جائز ذرائع موجود ہیں ۔ اس لیے اس دف کی بھی چنداں ضرورت نہیں ۔

اور جب اس سے مقصود اعلان تھا تو یہ بھی ضروری تھا کہ جتنی مقدار سے اعلان ہو جائے ، اس پر اکتفا کیا جائے ، نہ یہ کہ نکاح وغیرہ کے اعلان وعنوان سے گھنٹو ں تک دف اور ڈھول بجایا جائے ۔

اور چوتھی شرط یہ تھی کہ اس کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر (حمدونعت وغیرہ ) شامل نہ ہو ۔

اور ایک اہم شرط یہ بھی تھی کہ یہ کسی ناجائز چیز کا ذریعہ نہ نبے ۔

اور آج کل چوں کہ گانے بجانے کا استعمال اور جہالت عام ہے، مذکورہ بالا شرائط کی رعایت بھی عام طور پر نہیں ہے ، اس لیے موجودہ حالا ت میں محققین نے اس کو مطلقاً ممنوع قرار دے دیا ہے ، چوں کہ جب کسی مباح وجائز، بلکہ مستحب عمل میں بھی مفاسد پیدا ہو جائیں ، تو وہ عمل جائز ومستحب سے نکل کر، ناجائز کے زمرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ ( امدادالفتاویٰ: 279/2۔ اسلام اور موسیقی :215)

بہر حال موسیقی اور گانے بجانے کے آلات کا استعال ویسے ہی گناہ ہے اور میلا النبی کے نام سے ذکر ونعت کے وقت اس طرح کے آلات کو استعمال کر نا اور بھی سنگین گناہ ہے ۔



میلاد بشر کا ہوتا ہے نور کا نہیں، خزائن العرفان فی تفسیر القرآن یہ تفسیر ہے مولوی نعیم الدین مرادا آبادی ص4۔۔۔۔حاشیہ نمبر 13 قرآن پاک میں جابجا انبیاء کرام کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میلاد منانا بریلوی عقیدے کے ہی خلاف ہے۔

مولوی عبد الحیکم شرف قادری بریلوی لکھتے ہیں النعمۃ الکبری علی العالم فی مولد سید ولد آدم ۔۔۔۔اس میں اکثر موضوع اور جھوٹی روایات ہیں یہ ایک جعلی کتاب ہے جو علامہ ابن حجر مکی کی طرف منسوب کردی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ماہنامہ البر لاھور مارچ 2012)






























No comments:

Post a Comment