«لعن» یعنی کسی کو ناراضگی کی بنا پر اپنے سے دور کردینا اور دھتکار دینا۔
خدا کی طرف سے کسی شخص پر لعنت سے مراد ہوتی ہے کہ وہ دنیا میں تو اللہ کی رحمت اور توفیق کے اثر پذیر ہونے سے محروم ہوجائے اور آخرت میں عقوبت(سزا) کا مستحق قرار پائے۔
اور انسان کی طرف سے کسی پر لعنت بھیجنے کے معنیٰ "بددعا" کے ہوتے ہیں۔ قرآن میں ہے:
أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
[سورۃ هود:18]
سن رکھو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔
[المفردات فی غریب القرآن: ص741]
۔۔۔۔اور جس پر اللہ لعنت(یعنی اپنی رحمت سے دور) کرے تو اس کیلئے تم کوئی مددگار نہیں پاؤگے۔
[سورۃ النساء:52]
1. ماں باپ کو گالی دینے والے پر۔
(احمد: 1779)
2. باریک لباس پہننے والی پر۔(احمد: 7063)
3. چور پر۔ (بخاری: 6783)
4. سود کھانے اور کھلانے والے پر۔
(مسلم: 1598)
5. رشوت لینے اور دینے والے پر۔(ترمذی 1337)
6. شراب پینے والے اور پلانے والے اور اس میں شامل تمام لوگوں پر۔ (ابن ماجہ: 1174)
7. تصویر بنانے والے پر۔ (بخاری: 2086)
8. ننگی تلوار لہرانے والے پر۔ (احمد: 19533)
9. ابلیس مردود پر۔ (سورہ نساء: 118)
10. شرک کرنے والے مردوں اور عورتوں پر۔ (فتح: 6)
11. کفر کی حالت میں مرنے والوں پر۔
(بقرہ: 161-162)
12. منافقوں پر۔ (توبہ: 68)
13. مخنث (ہیجڑے) بننے والوں مردوں پر اور مرد بننے والی عورتوں پر ۔ (بخاری 6834)
14. مساجد میں قبر بنانے والوں پر
(بخاری 1330)
15. قبروں کو سجدہ گاہ بنانے والوں پر ۔(بخاری 3454)
16. الله اور اس کے رسول ﷺ کو تکلیف دینے والوں پر۔ (احزاب: 57)
17 .بغیر ضرورت الله کے نام پر مانگنے والوں پر۔ (جامع الصغیر: 5890)
18. الله کے نام پر نہ دینے والوں پر۔ (جامع الصغیر: 5890)
19. خوشی کے وقت گانے بجانے والوں پر۔ (صحیح الترغیب: 3527)
20. مصیبت کے وقت چینخنے چلانے والوں پر۔ (صحیح الترغیب: 3527)
21. مومن کو قتل کرنے والے پر۔ (نساء: 93)
22. پاک دامن عورت پر تہمت لگانے والے پر۔ (نور: 23)
23. جھوٹ بولنے والوں پر۔ (عمران: 61)
24. ظالموں پر۔ (ھود: 18)
25. الله سے کئے گئے عہد کو توڑنے والے پر۔ (رعد: 25)
26. قطع رحمی کرنے والے پر۔ (رعد: 25)
27. زمین پر فساد پھیلانے والے پر۔ (رعد: 25)
28 غیر الله کے نام پر ذبح کرنے والے پر۔ (مسلم: 3657)
29. قرآن میں زیادتی کرنے والے پر۔
(صحیح ابن حبان: 5719)
30. تقدیر کو جھٹلانے والے پر۔ (صحیح ابن حبان: 5719)
31. رسول الله ﷺ کی سنت چھوڑنے والے پر۔
(صحیح ابن حبان: 5719)
32. صحابہ کرام کو گالی دینے والے پر۔ (صحیحہ: 2340)
33. غیر کی طرف نسبت کرنے والے پر۔
(مسلم: 2433)
34. اندھے کو غلط راستہ بتلانے والے پر۔
(ادب المفرد: 892)
35. جب شوہر اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ آنے سے انکار کر دے تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔
(بخاری 5193)
36. جانور سے بدفعلی کرنے والے پر۔ (صحیحہ: 3462)
37. لوگوں کے راستے پر گندگی پھینکنے والے پر۔ (طبرانی اوسط: 5422)
38. خوبصورتی کے لیے گودنے والیوں، چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور سامنے کے دانتوں کے درمیان کشادگی پیدا کرنے والیوں پر (بخاری 5939)
39. نقلی بال لگانے والی پر۔ (بخاری: 5477)
40. جسم پر نقش بنانے والی پر۔
(بخاری: 5477)
41. ماتم اور نوحہ کرنے والی پر۔
(شعب الایمان: 10160)
42. بیشک دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے، سوائے اللہ کی یاد اور اس چیز کے جس کو اللہ پسند کرتا ہے،
[ترمذی: 2322]
43. دین میں نیا کام نکالنے والے پر۔[مسلم: 3179]
44. بیوی سے دبر میں مباشرت کرنے والے پر ۔[ابو داﺅد: 2162]
45. اہل بیت کی عزت کو پامال کرنے والے پر۔[صحیح ابن حبان: 5719]
46. مردوں کا لباس پہننے والی عورت پر اور عورتوں کا لباس پہننے والے مرد پر۔ [ابو داﺅد: 4098]
47. زکوۃ نہ دینے والے پر۔ [الترغیب: 1408]
حدیث قدسی: الله پاک فرماتا ہے ... جب میں کسی سے ناراض ہوتا ہوں تو اس پر لعنت بھیجتا ہوں اور میری لعنت اس کی ساتویں اولاد تک پہنچتی ہے۔
(کتاب الزہد للامام احمد: 69)
احادیث اور فقہی تفاسیر کے مطابق، لعنت کرنے کی ممانعت اور اس کی اجازت کے درمیان فرق "عمومی لعنت" اور "خاص حالات میں لعنت" کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت کی گئی ہے:
---
1. عام حالات میں لعنت کی ممانعت:
قرآن و حدیث میں مسلمانوں کو بددعا، گالی گلوچ، یا کسی بھی مخلوق کو لعنت کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر:
- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، فحش گو، اور بدزبان نہیں ہوتا"۔
[ترمذی:1977]
- ایک اور حدیث میں ہے: "مومن کو لعنت کرنے والا نہیں ہونا چاہیے"۔
[ترمذی:2019]
یہ ممانعت اس لیے ہے کہ لعنت کرنا انسان کی فطری رحم دلی اور اخلاقی بلندی کے منافی ہے، نیز یہ معاشرے میں انتشار کا سبب بنتا ہے۔
---
2. ظالموں یا کافروں پر لعنت کی اجازت:
بعض خاص حالات میں، جن افراد یا گروہوں نے اسلام کے خلاف کھلم کھلا دشمنی کی ہو اور ان کے کفر یا ظلم پر یقین ہو، ان کے لیے لعنت جائز ہے۔ مثال کے طور پر:
- قرآن میں کافروں پر لعنت: کا ذکر ہے: {فَلَعْنَةُ اللَّـهِ عَلَى الْكَافِرِينَ}(تو لعنت ہو اللہ کی کافروں پر۔) (البقرة: 89)۔
- احادیث میں فرعون، ابوجہل، یا شراب پینے والے جیسے معین افراد پر لعنت کی گئی ہے ۔
- فقہاء کے مطابق، "عام صفاتِ مذمومہ" (جیسے کفر، ظلم) والوں پر لعنت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ کسی معین شخص کے لیے نہ ہو جس کے بارے میں یقین نہ ہو کہ وہ کفر پر مرا۔
---
3. دونوں حکموں میں تطبیق کیسے؟
- عمومی اصول: مومن کو اپنی عادت میں لعنت کرنے والا نہیں بننا چاہیے، کیونکہ یہ اس کے اخلاقی مرتبے کو گراتا ہے اور اس کی دعاؤں کے اثر کو کم کرتا ہے ۔
- استثناء: صرف ان ہی معاملات میں لعنت کی اجازت ہے جنہیں شریعت نے واضح طور پر "ملعون" قرار دیا ہو، جیسے کافر، ظالم، یا وہ لوگ جو اللہ اور رسول کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہیں ۔
---
4. لعنت کرنے کے نتائج:
- اگر کوئی شخص کسی بےقصور پر لعنت کرے تو وہ لعنت اسی پر لوٹ آتی ہے ۔
- حدیث میں آیا ہے: "جس نے کسی مومن کو لعنت دی، تو یہ اسے قتل کرنے کے برابر ہے" ۔
---
5. خلاصہ:
- ممانعت کا مقصد: مومن کے اخلاق کو پاکیزہ رکھنا اور معاشرتی تعلقات کو بہتر بنانا۔
- اجازت کا مقصد: صرف ان موارد میں جہاں شریعت نے واضح حکم دیا ہو، اور یہ "عمومی برائی" کے خلاف اعلانِ بیزاری ہو۔
اس لیے حدیث "لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَكُونَ لَعَّانًا"(مومن کو لعنت کرنے والا نہیں ہونا چاہیے) [ترمذی:2019] میں "عمومی عادت" کی ممانعت ہے، جبکہ ظالموں یا کافروں پر لعنت ایک "شرعی حکم" کے تحت ہے، نہ کہ ذاتی غصے یا عادت کے طور پر۔
No comments:
Post a Comment