فن کے ماہرین کی اجتماعی رائے معتبر ہے۔
عوامی/انفرادی رائے معتبر نہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ , قَالَ : نا شَبَابٌ الْعُصْفُرِيُّ , قَالَ : نا نُوحُ بْنُ قَيْسٍ ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ ، عَنْ عَلِيٍّ , قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِنْ نَزَلَ بِنَا أَمْرٌ لَيْسَ فِيهِ بَيَانٌ : أَمْرٌ وَلا نَهْيٌ ، فَمَا تَأْمُرُنَا ؟ قَالَ : " تُشَاوِرُونَ الْفُقَهَاءَ وَالْعَابِدِينَ ، وَلا تُمْضُوا فِيهِ رَأْيَ خَاصَّةٍ " ، لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ صَالِحٍ إِلا نُوحٌ .
ترجمہ :
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا یا رسول الله ﷺ! اگر ہمیں کوئی ایسی بات (واقعہ) پیش آۓ جس کے متعلق (قرآن و سنّت میں) کوئی حکم یا ممانعت موجود نہ ہو تو میرے لئے آپ کا کیا حکم ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: ایسے معاملہ میں فقہاء و عابدین سے مشورہ کرلیا کرو اور کسی خاص شخص کی راۓ کو نافذ نہ کرو.
[المعجم الأوسط للطبراني (سنة الوفاة:360) الصفحة أو الرقم: 2/172 » بَابُ الْأَلِفِ » مَنِ اسْمُهُ أَحْمَدُ ... رقم الحديث: 1647]
[مسند خليفة بن خياط (سنة الوفاة:240) » عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ... رقم الحديث: 46]
[مسند خليفة بن خياط (سنة الوفاة:240) » عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ... رقم الحديث: 46]
تشریح :
یہ حدیث، اجماع(یعنی ماہرین کی جماعت کے اتفاق) کے دلائل میں بہت اہمیت کی حامل دلیل ہے کیونکہ اس میں اللہ کے رسول ﷺ نے واضح ارشاد فرمایا ہے کہ جس امر(معاملہ) میں کوئی نص موجود نہ ہو تو اس میں صرف فقہاء و مجتہدین کے قول پر عمل کرو اور غیرفقہاء اور غیرعابدین کی (یعنی عوامی یا انفرادی) راۓ پر نہ چلو۔ اجماع بھی فقہاء و مجتہدین (کا اتفاقی) قول ہوتا ہے، لہذا حدیث کی رو سے اجماع (فقہاء کے بعد عابدین) کا اتباع ضروری ٹھہرا۔
حضرت کعب بن عاصم اشعری سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے سنا:
« إِنَّ اللهَ قَدْ أَجَارَ أُمَّتِي مِنْ أَنْ تَجْتَمِعَ عَلَى ضَلَالَة »
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ نے میری امت کو اس بات سے بچالیا ہے کہ وہ گمراہی پر جمع ہوں۔
[السلسلة الأحاديث الصحيحة:3406(1331)]
یہ دلیل ہے اس بات کی کہ مسلمان امت یعنی بڑی جماعت کو اللہ نے معصوم(محفوظ) بنادیا ہے۔
اسی لئے متواتر حدیث اسے کہتے ہیں جس حدیث کو (1)خود سن یا دیکھ کر، آگے پہنچانے-بیان کرنے والے شروع زمانہ سے ہر دور میں (2)مسلسل-پے در پے، (3)اتنی کثیر تعداد رہی ہو، کہ ان سب کا کسی جھوٹ پر متفق رہنا عقلاً وعادتاً ناممکن ہو۔
سواد اعظم کی حدیث:
دوسری موقع پر دوسرے صحابی سے کچھ مختلف اور مزید الفاظ بھی منقول ہیں:
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا:
إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ، فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ.
ترجمہ:
میری امت گمراہی پر "کبھی" جمع نہ ہوگی، لہٰذا جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (یعنی سب سے بڑی جماعت) کو لازم پکڑو۔
[سنن ابن ماجہ:3950]
"السواد الاعظم" عربی زبان میں "سب سے عظیم جماعت" کو کہتے ہیں.
[الصحاح للجوهري:١/٤٨٩]
کثرت کو بطورِ دلیل پیش کرنا کیسا ہے؟
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں، اگر آپ ان کا کہا مان لوگے، تو وہ آپ کو(اے نبی!) الله کی راہ سے بہکادیں گے، (کیونکہ) بےشک وہ پیچھے چلتے ہیں "اپنےخیال" پر ہی اور وہ سب بس "اٹکل" ہی چلاتے ہیں.
[سورۃ الانعام:116]
(کیونکہ) اکثر لوگ ہیں...
حدیث # 1
تمہید :
علماء حدیث و فقہ نے درج ذیل احادیث کی بنیاد پر اختلافات کے وقت جمہور علماء ((اہل السنّت والجماعت)) کے متفقہ راۓ ((اجماع)) کو راجح قرار دیا ہے، جیسے:
ائمہ حدیث نے اِس بات کی تصریح کی ہے کہ اگر کسی راوی کے بارے میں جرح اور تعدیل کے اقوال متعارض ہوں، تو ان میں ترجیح کے لئے علماء نے اوّلاً دو طریقے اختیار کئے ہیں، پہلا طریقہ جو کہ جرح و تعدیل کے دوسرے (فیصلہ کن) اصول کی حیثیت رکھتا ہے، اُسے علامہ خطیب بغدادی نے ’’الکفایۃ فی اصول الحدیث والروایۃ‘‘ میں یہ بیان کیا ہے کہ ’’ ایسے مواقع پر یہ دیکھا جائے گا کہ جارحین کی تعداد زیادہ ہے یا معدلین کی، جس کی طرف تعداد زیادہ ہوگی ، اُسی جانب کو اختیار کیا جائے گا ۔‘‘
اصول فقہ :
اکثر فقہاء کا کسی مسئلہ پر متفق ہونا حجتِ شرعی ہے۔ اسی طرح خلافت کے انعقاد کے لیے بھی پوری امت کا اجماع ضروری نہیں؛ بلکہ اکثر لوگوں کا متفق ہونا کافی ہے۔ اسی لیے فقہاء نے قاعدہ بنایا” لِلْأکْثَرِ حُکْمُ الْکُل “
(الفقہ الاسلامی وادلتہ۸/۲۶۲)
کثرت کو بطورِ دلیل پیش کرنا کیسا ہے؟
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں، اگر آپ ان کا کہا مان لوگے، تو وہ آپ کو(اے نبی!) الله کی راہ سے بہکادیں گے، (کیونکہ) بےشک وہ پیچھے چلتے ہیں "اپنےخیال" پر ہی اور وہ سب بس "اٹکل" ہی چلاتے ہیں.
[سورۃ الانعام:116]
(کیونکہ) اکثر لوگ ہیں...
جاھل[الانعام:111]
بےعقل[المائدۃ:103]
نافرمان [الاعراف:102]
بےعلم [الاعراف:187]
بےایمان [ھود:17]
ناشکرے [یوسف:38]
مشرک [یوسف:106]
انکاری [الاسراء:89]
جھگڑالو [کھف:54]
ناحق پسند [المومنون:70]
جھوٹے [الشعراء:223]
لہٰذا
وہی اکثریت معتبر ہے جو مردود اکثریت والی بری عادتیں نہ رکھتی ہو:
بےعقل[المائدۃ:103] کے بجائے عقلاء کی اکثریت معتبر ہے ۔۔۔ اور نہیں عقل رکھتے ان(اللہ کی مثالوں کی)سوائے علماء کے۔[العنکبوت:43]
نافرمان [الاعراف:102] کے بجائے فرمانبرداروں کی اکثریت معتبر ہے ۔۔۔ اور فرمان کا علم نہ رکھنے والا یقینا فرمانبردار نہیں ہوسکتے۔
بےعقل[المائدۃ:103]
نافرمان [الاعراف:102]
بےعلم [الاعراف:187]
بےایمان [ھود:17]
ناشکرے [یوسف:38]
مشرک [یوسف:106]
انکاری [الاسراء:89]
جھگڑالو [کھف:54]
ناحق پسند [المومنون:70]
جھوٹے [الشعراء:223]
لہٰذا
وہی اکثریت معتبر ہے جو مردود اکثریت والی بری عادتیں نہ رکھتی ہو:
یعنی خلافِ شریعت خواہشات وخیالات والی اکثریت کے بجائے شریعت کی موافقت میں چلنے والی خواہشات وخیالات والی اکثریت معتبر ہے۔
جاہلوں[الانعام:111]کے بجائے عالموں کی اکثریت معتبر ہے۔
بےعلم [الاعراف:187] کے بجائے علماء کی اکثریت معتبر ہے۔
بےایمان [ھود:17] کے بجائے مومنوں کی اکثریت معتبر ہے اور ایمان والی باتوں کا جسے علم نہ ہو وہ بےایمان ہی رہتا ہے۔
ناشکرے [یوسف:38] کے بجائے شاکرین(یعنی ہر شرعی حکم اور تقدیری فیصلہ پر راضی رہنے والوں)کی اکثریت معتبر ہے، اگر عالم شکرگذار نہیں تو کوئی شاکر نہیں۔
مشرک [یوسف:106] کے نجائے موحدین کی اکثریت معتبر ہے جو بغیرعلم ۔۔۔؟؟؟
انکاری [الاسراء:89] لہٰذا مسلمین کی اکثریت معتبر ہے جو بغیرعلم ۔۔۔؟؟؟
جھگڑالو [کھف:54] کے بجائے مصلحین یعنی صلح کرنے والوں صالحین کی اکثریت معتبر ہے۔
ناحق پسند [المومنون:70] حق(اللہ کی بات)پسند کرنے والوں کی اکثریت معتبر ہے۔
جھوٹے [الشعراء:223] کے بجائے قول میں سب سے سچے اللہ کی باتیں زیادہ پھیلانے والوں کی اکثریت معتبر ہے۔
امت-جماعت سے تفرقہ-علیحدگی کا انجام:*
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ النَّضْرِ [ثقة]، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ صَفْوَانَ الْبَرْذَعِيُّ [صدوق حسن الحديث] , قَالَ : حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَاكِرٍ الصَّائِغُ [ثقة عارف بالحديث] , قَالَ : حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ الْقَرَنِيُّ [صدوق حسن الحديث] , قَالَ : حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ [ثقة] , عَنْ أَبِيهِ [ثقة] , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ [ثقة] , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :" لا يَجْمَعُ اللَّهُ هَذِهِ الأُمَّةَ عَلَى ضَلالَةٍ أَبَدًا " . قَالَ : " يَدُ اللَّهِ مَعَ الْجَمَاعَةِ , فَاتَّبِعُوا السَوَادَ الأَعْظَمِ , فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ " .
ترجمہ :
حضرت عبداللہ بن عمرؓ رسول اللهؐ سے مروی ہیں کہ : نہیں جمع (متفق) کرے گا اس (میری) امت کو کسی گمراہی پر کبھی"، (پھر) فرمایا : "الله کا ہاتھ (سایہ،مدد وحفاظت) جماعت پر ہے، تو تم اتباع (پیروی) کرو سوادِ اعظم (سب سے بڑی جماعت) کی، بس جو اس سے علیحدہ ہوا وہ علیحدہ کیا جاۓ گا آگ (جہنم) میں (داخل کرنے کو).
حضرت عبداللہ بن عمرؓ رسول اللهؐ سے مروی ہیں کہ : نہیں جمع (متفق) کرے گا اس (میری) امت کو کسی گمراہی پر کبھی"، (پھر) فرمایا : "الله کا ہاتھ (سایہ،مدد وحفاظت) جماعت پر ہے، تو تم اتباع (پیروی) کرو سوادِ اعظم (سب سے بڑی جماعت) کی، بس جو اس سے علیحدہ ہوا وہ علیحدہ کیا جاۓ گا آگ (جہنم) میں (داخل کرنے کو).
خلاصة حكم المحدث :
سنده حسن.
(اس حدیث کی سند حسن یعنی اچھی ہے)
[شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة، لللالكائي (سنة الوفاة:418) » سياق ما روى عَنِ النبي صَلَّى الله عَلَيه وَسَلّمَ ...رقم الحديث: 154(1/106)، تحقیق: ڈاکٹر احمد سعید حمدان]
امام حاکمؒ نے بھی اپنی سند سے اپنی کتاب "المستدرک:1 / 115-116" میں حضرت ابن عمرؓ کی یہ روایت دو طرق (طریقوں) سے نقل کی ہے اور دونوں کے بارے میں صحت سند کا رجحان تو ظاہر کیا ہے، فیصلہ نہیں کیا. اور حافظ ذہبیؒ نے سکوت (خاموشی جو نیم رضامندگی ہے) کیا ہے.
الصفحة أو الرقم: 1/109 | خلاصة حكم المحدث : غريب
تشریح:
یہ حدیث دلیل ہے اس پر کہ تلاش کرنا چاہئے وہ عمل جو جمہور کے قول کے مطابق ہو۔
[حاشية السندي على سنن ابن ماجه:2/64]
صحیح بخاری کے شارح امام ابن البطالؒ(المتوفى: 449هـ)نے لکھا ہے:
كل ما كان عليه السواد الأعظم من أهل الإسلام من أمر دينهم فهو الحق الواجب والفرض الثابت۔[شرح صحيح البخارى لابن بطال:10/33]
ترجمہ:
ہر بات جس پر سواد اعظم ہو، اہلِ اسلام میں سے، ان کے دینی احکام میں سے، تو وہ واجب حق اور ثابت فرض ہے۔
یہاں لفظ ’’اعظم‘‘ کے معنیٰ سب سے بڑی عظمت والی اور ’’سواد‘‘ یعنی کثیر تعداد والی جماعت ہے، یہاں عظمت سے مراد عظمتِ عددی، عظمتِ علمی(یعنی علماء کی اکثریت) اور عظمتِ زمانی وافرادی بھی شامل ہے یعنی نبوی زمانہ کے لوگ (یعنی صحابہ کرام کی اکثریت) سب سے پہلے شامل ہیں، جو نصِ حدیث سے بھی ثابت ہے کہ:
بیشک بنی اسرائیل اکہتر (71) فرقوں میں بٹ گئے، اور نصاریٰ (عیسائی) بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے، سب گمراہی پر ہیں سواۓ سواد اعظم کے۔ پوچھا گیا: اے الله کے رسول ﷺ ! اور سواد اعظم کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ لوگ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوں۔۔۔
[المعجم الكبير ، للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ » صُدَيُّ بْنُ الْعَجْلانِ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ ... رقم الحديث: 7551، وقال الأرنؤؤط: إسناده حسن.]
ترجمہ:
اور جو حکم دیا نبی ﷺ نے جماعت کے لازم پکڑنے کو تو وہ اہلِ علم ہیں۔
[صحيح البخاري:9/ 107، كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ]
علامہ مُظْهِري(المتوفى:727هـ) حدیث کی تشریح کرتے لکھتے ہیں:
يعني: فانظروا في العالم فما عليه الأكثر من علماء المسلمين من الاعتقاد والقول والفعل، فاتبعوهم فيه، فإنه هو الحق، وما عداه باطل.
ترجمہ:
پس عالم میں نظر کرو، تو جس اعتقاد، قول اور فعل پر مسلمانوں میں سے اکثر علماء ہوں، تو تم اتباع کرو ان کی اس میں، یہی حق ہے، اور جو اس کے خلاف ہے وہ جھوٹ۔
[شرح صحيح البخارى لابن بطال:10/ 34]
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري:24/ 195، امام عينىؒ(المتوفى: 855هـ)]
[إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري:10/ 184، امام القسطلانيؒ(المتوفی:923ھ)]
(3) امام الصَّرْصَريؒ (المتوفى:716هـ) لکھتے ہیں:
فإنما المراد به طاعة الأئمة والأمراء۔
[التعيين في شرح الأربعين:1/254]
(4) علامہ کرمانیؒ(المتوفى:854هـ)تشریح کرتے لکھتے ہیں:
وهو ما عليه أكثر علماء المسلمين، وقيل: جميع المسلمين الذين هم في طاعة الإمام.
ترجمہ:
اور(سوادِ اعظم)وہ ہے جس پر اکثر مسلمانوں کے علماء ہیں۔ اور(یہ بھی)فرمایا: سارے مسلمان جو کسی امام(خلیفہ) کی اطاعت میں ہیں۔
رسول اور مومنین کی مخالفت کا عذاب:
یہ حدیث دلیل ہے اس پر کہ تلاش کرنا چاہئے وہ عمل جو جمہور کے قول کے مطابق ہو۔
[حاشية السندي على سنن ابن ماجه:2/64]
صحیح بخاری کے شارح امام ابن البطالؒ(المتوفى: 449هـ)نے لکھا ہے:
كل ما كان عليه السواد الأعظم من أهل الإسلام من أمر دينهم فهو الحق الواجب والفرض الثابت۔[شرح صحيح البخارى لابن بطال:10/33]
ترجمہ:
ہر بات جس پر سواد اعظم ہو، اہلِ اسلام میں سے، ان کے دینی احکام میں سے، تو وہ واجب حق اور ثابت فرض ہے۔
یہاں لفظ ’’اعظم‘‘ کے معنیٰ سب سے بڑی عظمت والی اور ’’سواد‘‘ یعنی کثیر تعداد والی جماعت ہے، یہاں عظمت سے مراد عظمتِ عددی، عظمتِ علمی(یعنی علماء کی اکثریت) اور عظمتِ زمانی وافرادی بھی شامل ہے یعنی نبوی زمانہ کے لوگ (یعنی صحابہ کرام کی اکثریت) سب سے پہلے شامل ہیں، جو نصِ حدیث سے بھی ثابت ہے کہ:
بیشک بنی اسرائیل اکہتر (71) فرقوں میں بٹ گئے، اور نصاریٰ (عیسائی) بہتر (72) فرقوں میں بٹ گئے، سب گمراہی پر ہیں سواۓ سواد اعظم کے۔ پوچھا گیا: اے الله کے رسول ﷺ ! اور سواد اعظم کیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : وہ لوگ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوں۔۔۔
[المعجم الكبير ، للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ » صُدَيُّ بْنُ الْعَجْلانِ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ ... رقم الحديث: 7551، وقال الأرنؤؤط: إسناده حسن.]
اسی طرح اللہ عزوجل نے بھی نبی کی اتباع میں چلنے والی جماعتِ صحابہ یعنی ’’مومنین کے راستہ‘‘ کے خلاف چلنے والوں کو تنبیہ فرمائی:
اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے، اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
[سورۃ النساء:115]
اکثریت ’’علماء‘‘ کی معتبر ہے، غیرعلماء کی نہیں:
اکثریت ’’علماء‘‘ کی معتبر ہے، غیرعلماء کی نہیں:
جماعت سے مراد:
(1) امام بخاریؒ(المتوفیٰ:256ھ) لکھتے ہیں:
وَمَا أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلُزُومِ الجَمَاعَةِ، وَهُمْ أَهْلُ العِلْمِ۔ترجمہ:
اور جو حکم دیا نبی ﷺ نے جماعت کے لازم پکڑنے کو تو وہ اہلِ علم ہیں۔
[صحيح البخاري:9/ 107، كِتَابُ الِاعْتِصَامِ بِالكِتَابِ وَالسُّنَّةِ]
علامہ مُظْهِري(المتوفى:727هـ) حدیث کی تشریح کرتے لکھتے ہیں:
يعني: فانظروا في العالم فما عليه الأكثر من علماء المسلمين من الاعتقاد والقول والفعل، فاتبعوهم فيه، فإنه هو الحق، وما عداه باطل.
ترجمہ:
[المفاتيح في شرح المصابيح السنة:1/282، حدیث#137]
(2) صحیح بخاری کے شارح امام ابن البطالؒ(المتوفى:449هـ) اور علامہ عينى(المتوفى: 855هـ)نے لکھا ہے:
هى جماعة أئمة العلماء۔
ترجمہ:
وہ جماعت علماء کے اماموں کی ہے۔
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري:24/ 195، امام عينىؒ(المتوفى: 855هـ)]
[إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري:10/ 184، امام القسطلانيؒ(المتوفی:923ھ)]
(3) امام الصَّرْصَريؒ (المتوفى:716هـ) لکھتے ہیں:
فإنما المراد به طاعة الأئمة والأمراء۔
ترجمہ:
اس سے مراد اماموں اور حکمرانوں کی اطاعت ہے۔[التعيين في شرح الأربعين:1/254]
(4) علامہ کرمانیؒ(المتوفى:854هـ)تشریح کرتے لکھتے ہیں:
وهو ما عليه أكثر علماء المسلمين، وقيل: جميع المسلمين الذين هم في طاعة الإمام.
ترجمہ:
اور(سوادِ اعظم)وہ ہے جس پر اکثر مسلمانوں کے علماء ہیں۔ اور(یہ بھی)فرمایا: سارے مسلمان جو کسی امام(خلیفہ) کی اطاعت میں ہیں۔
[شرح مصابيح السنة لابن المَلَك:1/179، حدیث#137]
دوسری جگہ وضاحت فرماتے لکھتے ہیں:
وما عليه الجمهور من الصحابة والتابعين والسلف.
ترجمہ:
اور جس(طریقہ) پر جمہور صحابہ، تابعین اور گذرے ہوئے نیک لوگ ہوں۔
دوسری جگہ وضاحت فرماتے لکھتے ہیں:
وما عليه الجمهور من الصحابة والتابعين والسلف.
ترجمہ:
اور جس(طریقہ) پر جمہور صحابہ، تابعین اور گذرے ہوئے نیک لوگ ہوں۔
[شرح مصابيح السنة لابن المَلَك:6/399]
سوادِ اعظم کی وسعت:
امام ابن الملقنؒ (المتوفى: 804هـ) وضاحت فرماتے لکھتے ہیں:
وهم أتباع المذاهب الأربعة وهم: أبو حنيفة ومالك والشافعي وأصحاب الحديث.
ترجمہ:
سوادِ اعظم کی وسعت:
امام ابن الملقنؒ (المتوفى: 804هـ) وضاحت فرماتے لکھتے ہیں:
وهم أتباع المذاهب الأربعة وهم: أبو حنيفة ومالك والشافعي وأصحاب الحديث.
ترجمہ:
اور وہ چاروں(ائمہ کے)راستوں کی اتباع کرنے والے ہیں اور وہ(ائمہ)ہیں: ابوحنیفہؒ، اور مالکؒ، اور شافعیؒ اور حدیث والے(حنبلی)۔
[التوضيح لشرح الجامع الصحيح:32/339]
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ائمہ اربعہؒ (چار فقہ کے مشہور اماموں: امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ بن حنبل) کی اتباع(تقلید) کو سوادِ اعظم کی اتباع قرار دیا ہے:
ولما اندرست المذاهب الحقة إلا هذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم والخروج عنها خروجا عن السواد الأعظم۔
ترجمہ:
جب صرف چار مذاہب (طریقوں) کے علاوہ دوسرے تمام (علماء کے)مذاہب مِٹ گئے تو ان مذاہبِ اربعہ کی اتباع کرنا سوادِ اعظم کی اتباع ہے اور ان مذاہب سے نکل جانا سوادِ اعظم سے نکل جانا ہے۔
[عقد الجید في احكام الاجتهاد الاجتهاد: صفحة#۳۸]
رسول اور مومنین کی مخالفت کا عذاب:
وَمَن يُشاقِقِ الرَّسولَ
مِن بَعدِ ما تَبَيَّنَ لَهُ الهُدىٰ وَيَتَّبِع
غَيرَ سَبيلِ المُؤمِنينَ نُوَلِّهِ ما تَوَلّىٰ وَنُصلِهِ جَهَنَّمَ
ۖ وَساءَت مَصيرًا {4:115}
|
اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی جبکہ کھل چکی
اس پر سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے رستہ کے
خلاف تو ہم حوالہ کریں گے اس کو وہی طرف جو اس نے اختیار کی اور
ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بری جگہ پہنچا [۱۷۲]
|
And whosoever
opposeth the apostle after the truth hath become manifest unto him, and
followeth other way than that of the believers, We shall let him follow that
to which he hath turned, and shall roast him in Hell - an evil retreat!
|
یعنی
جب کسی کو حق بات واضح ہو چکے پھر اس کے بعد بھی رسول کے حکم کی مخالفت کرے اور
سب مسلمانوں کو چھوڑ کر اپنی جُدی راہ اختیار کرے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے جیسا
کہ اس چور نے کیا جس کا ذکر ہو چکا بجائے اس کے کہ قصور کا اعتراف کر کے توبہ
کرتا یہ کیا کہ ہاتھ کٹنے کے خوف سے بھاگ گیا اور مشرکین میں مل گیا۔ {فائدہ}
اکابر علماء نے اس آیت سے یہ مسئلہ بھی نکالا کہ اجماع امت کا مخالف اور منکر
جہنمی ہے یعنی اجماع امت کو ماننا فرض ہے۔ حدیث میں وارد ہے کہ اللہ کا ہاتھ ہے
مسلمانوں کی جماعت پر جس نے جُدی راہ اختیار کی وہ دوزخ میں جا پڑا۔
|
==============================================
إختلاف كا حل :
حدیث # 2
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عُثْمَانَ الدِّمَشْقِيُّ , حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ السَّلَامِيُّ , حَدَّثَنِي أَبُو خَلَفٍ الْأَعْمَى , قَالَ : سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ , يَقُولُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ : " إِنَّ أُمَّتِي لَنْ تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ , فَإِذَا رَأَيْتُمُ اخْتِلَافًا فَعَلَيْكُمْ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ ".
[سنن ابن ماجه (سنة الوفاة:275) : کتاب الفتن، باب السواد الاعظم ... رقم الحديث: 3948(3950)]
[سنن ابن ماجه (سنة الوفاة:275) : کتاب الفتن، باب السواد الاعظم ... رقم الحديث: 3948(3950)]
حضرت انس بن مالکؓ سے بھی مروی ہے کہ رسول اللهؐ نے فرمایا "میری امت کسی گمراہی پر جمع (متفق) نہیں ہوگی، بس جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سوادِ اعظم (سب سے عظیم جماعت) کو لازم پکڑلو (یعنی اس کی اتباع کرو)".
الصفحة أو الرقم: 1/113 | خلاصة حكم المحدث : غريب
|
نوٹ :
اس حدیث میں یہ جملہ "جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو سوادِ اعظم (سب سے عظیم جماعت) کو لازم پکڑلو" حضرت انسؓ کی اس حدیث کے علاوہ (پہلی بیان کردہ) حدیث ابن عمرؓ میں اس طرح ہے کہ "تو اتباع (پیروی) کرو سوادِ اعظم (سب سے عظیم جماعت) کی، بس جو اس سے علیحدہ ہوا وہ علیحدہ کیا جاۓ گا آگ (جہنم) میں (داخل کرنے کو)".
شواهد:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ ، عَنِالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ ، قَالَ : وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ ، وَالسَّمْعِ ، وَالطَّاعَةِ ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
[جامع الترمذي » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ ... رقم الحديث: 2619(2676)]
شواهد:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو السُّلَمِيِّ ، عَنِالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ ، قَالَ : وَعَظَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بَعْدَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ ، فَقَالَ رَجُلٌ : إِنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ ، وَالسَّمْعِ ، وَالطَّاعَةِ ، وَإِنْ عَبْدٌ حَبَشِيٌّ فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ يَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّهَا ضَلَالَةٌ ، فَمَنْ أَدْرَكَ ذَلِكَ مِنْكُمْ فَعَلَيْهِ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ، عَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ " , قَالَ أَبُو عِيسَى : هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
[جامع الترمذي » كِتَاب الْعِلْمِ » بَاب مَا جَاءَ فِي الْأَخْذِ بِالسُّنَّةِ وَاجْتِنَابِ ... رقم الحديث: 2619(2676)]
حضرت عرباض بن ساریہ (رضی الله عنہ) نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز ہمیں نماز پڑھائی پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں ایک بلیغ اور نصیحت بھرا وعظ فرمایا کہ جسے سن کر آنکھیں بہنے لگے اور قلوب اس سے ڈر گئے تو ایک کہنے والے نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گویا کہ یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے۔ تو آپ ہمارے لیے کیا مقرر فرماتے ہیں فرمایا کہ میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور سننے کی اور ماننے کی اگرچہ ایک حبشی غلام تمہارا امیر ہو پس جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو عنقریب وہ بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا پس تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور خلفائے راشدین میں جو ہدایت یافتہ ہیں کی سنت کو پکڑے رہو اور اسے نواجذ (ڈاڑھوں) سے محفوظ پکڑ کر رکھو اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
[سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ١٢١٩، سنت کا بیان :سنت کو لازم پکڑنے کا بیان]
[سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ١٢١٩، سنت کا بیان :سنت کو لازم پکڑنے کا بیان]
تنبيه :
یہاں پر اختلاف سے مراد خیر القرون (بہترین زمانوں) کے اصحابِؓ رسولؐ سے دین کی فقہ [سوره التوبہ : ١٢٢] جمع کرکے ظاہر کرنے والے ائمہ اربعہؒ (چار فقہ کے اماموں : امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ بن حنبل) کے فقہی اختلاف نہیں، کیونکہ وہ قرآن و سنّت کے دلائل ہی پر مبنی مختلف احادیث کے سبب یا مختلف تفسیری و تشریحی، معانی و مطالب کے سبب یا جدید مسائل میں قرآن و سنّت میں حکم غیر واضح ہونے کے سبب بطور اجتہادی (علمی) راۓ سے ظاہر کردہ مسائل میں ہر ایک کی اپنی اپنی خداداد دینی سمجھ (فقہ) کے مطابق کسی ایک بات کو راجح و مرجوح یا افضل و مفضول قرار دیے گئے فروعی اختلاف ہیں، وہ تو اتباع کے لائق صحابہ کرام [سورہ التوبہ:١٠٠] میں بھی تھے، جن جیسا ایمان لانے کو الله حکم دے [سورہ البقرہ:١٣+١٣٧]، ایسے لوگوں کے اختلاف کو جو گمراہانہ کہے وہ دراصل الله عزوجل کے علم پر اعتراض کرتا اور اس کے حکم کو رد کرنے کی گمراہی میں مبتلا ہے. مزید اس کی تفصیلات جاننے کیلئے دیکھئے:
لیکن خیر القرون (بہترین زمانوں) کے بعد جن جماعتوں کا دین میں اختلاف، صحابہؓ و ائمہ اربعہؒ کی فقہی تشریحات اور ان کے اختلافات کے سوا نفس پرستی میں غالب نام نہاد مسلمانوں کا اختلاف اب تک کہ جمہور علماء کے خلاف چند نام نہاد اسکالرس / ڈاکٹرس / علماء کی اپنی نئی تشریح ہو تو وہ مردود ہے.
سابقین اولین کے فضائل:
وَالسّٰبِقونَ الأَوَّلونَ
مِنَ المُهٰجِرينَ وَالأَنصارِ وَالَّذينَ
اتَّبَعوهُم بِإِحسٰنٍ رَضِىَ اللَّهُ عَنهُم وَرَضوا عَنهُ
وَأَعَدَّ لَهُم جَنّٰتٍ تَجرى تَحتَهَا الأَنهٰرُ خٰلِدينَ فيها أَبَدًا ۚ
ذٰلِكَ الفَوزُ العَظيمُ {9:100}
|
اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے
اور مدد کرنے والے اور جو انکے پیرو ہوئے نیکی کے
ساتھ اللہ راضی ہوا ان سے اور وہ راضی ہوئے اس سے اور تیار کر رکھے
ہیں واسطے انکے باغ کہ بہتی ہیں نیچے ان کےنہریں رہا کریں انہی میں ہمیشہ یہی ہے
بڑی کامیابی [۱۱۲]
|
And the Muhajirs
and Ansar, the leaders and the first ones and those who followed them in
well-doing, --well-pleased is Allah with them, and well pleased are they with
Him, and He hath gotten ready for them Gardens where under the rivers flow,
as abiders therein forever. That is the achievement supreme.
|
"اعراب مومنین" کے بعد مناسب معلوم ہوا کہ زعماء و
اعیان مومنین کا کچھ ذکر کیا جائے۔ یعنی جن مہاجرین نے ہجرت میں سبقت و اولیت کا
شرف حاصل کیا اور جن انصار نے نصرت و اعانت میں پہل کی غرض جن لوگوں نے قبول حق
اور خدمت اسلام میں جس قدر آگے بڑھ بڑھ کر حصے لئے پھر جو لوگ نیکوکاری اور حسن
نیت سے ان پیش روان اسلام کی پیروی کرتے رہے ان سب کو درجہ بدرجہ خدا کی خوشنودی
اور حقیقی کامیابی حاصل ہو چکی۔ جیسےانہوں نے پوری خوش دلی اور انشراح قلب کے
ساتھ حق تعالیٰ کے احکام تشریعی اور قضاء تکوینی کے سامنے گردنیں جھکا دیں اسی
طرح خدا نے ان کو اپنی رضاء و خوشنودی کا پروانہ دے کر غیر محدود انعام و اکرام
سے سرفراز فرمایا۔ (تنبیہ) مفسرین سلف کے اقوال { اَلسَّابِقُوْنَ
الْاَوَّلُوْنَ } کے تعین میں مختلف ہیں بعض نے کہا ہے کہ وہ مہاجرین و انصار
مراد ہیں جو ہجرت سے پہلے مشرف با سلام ہوئے۔ بعض کے نزدیک وہ مراد ہیں جنہوں نے
دونوں قبلوں (کعبہ و بیت المقدس) کی طرف نماز پڑھی۔بعض کہتے ہیں کہ جنگ بدر تک
کے مسلمان "سابقین اولین" ہیں۔ بعض حدیبیہ تک اسلام لانے والوں کو اس
کا مصداق قرار دیتے ہیں اور بعض مفسرین کی رائے ہے کہ تمام مہاجرین و انصار
اطراف کے مسلمانوں اور پیچھے آنے والی نسلوں کے اعتبار سے "سابقین
اولین" ہیں۔ ہمارے نزدیک ان اقوال میں چنداں تعارض نہیں "سبقت" و
"اولیت" اضافی چیزیں ہیں۔ ایک ہی شخص یا جماعت کسی کے اعتبار سے سابق
اور دوسرے کی نسبت سے لاحق بن سکتی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے "فائدہ" میں
اشارہ کیا۔ جو شخص یا جماعت جس درجہ میں سابق و اول ہو گی اسی قدر رضائے الہٰی
اور حقیقی کامیابی سے حصہ پائے گی۔ کیونکہ سبقت و اولیت کی طرح رضاء و کامیابی
کے بھی مدارج بہت سے ہو سکتے ہیں۔ واللہ اعلم۔
|
دینی سمجھ کا حصول بعض لوگوں پر فرض کیوں ہے:
وَما كانَ المُؤمِنونَ
لِيَنفِروا كافَّةً ۚ فَلَولا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرقَةٍ مِنهُم طائِفَةٌ
لِيَتَفَقَّهوا فِى الدّينِ وَلِيُنذِروا قَومَهُم
إِذا رَجَعوا إِلَيهِم لَعَلَّهُم يَحذَرونَ {9:122}
|
اور ایسے تو نہیں مسلمان کہ کوچ کریں سارے سو
کیوں نہ نکلا ہر فرقہ میں سے ان کا ایک حصہ تاکہ سمجھ پیدا کریں دین میں اور تاکہ خبر پہنچائیں اپنی قوم کو جب کہ لوٹ کر
آئیں ان کی طرف تاکہ وہ بچتے رہیں [۱۴۳]
|
And it is not for
the believers to march forth all together. So why should not a band from each
party of them march forth so that they may gain understanding in religion and
that when they come back unto them, haply they might warn their people when
they come back unto them, haply they may beware!
|
گذشتہ
رکوعات میں "جہاد" میں نکلنے کی فضیلت اور نہ نکلنے پر ملامت تھی۔
ممکن تھا کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ ہمیشہ ہر جہاد میں تمام مسلمانوں پر نکلنا فرض
عین ہے اس آیت میں فرما دیا کہ نہ ہمیشہ یہ ضروری ہے ، نہ مصلحت ہے کہ سب مسلمان
ایک دم جہاد کے لئے نکل کھڑے ہوں مناسب یہ ہے کہ ہر قبیلہ اور قوم میں سے ایک
جماعت نکلے ، باقی لوگ دوسری ضروریات میں مشغول ہوں۔اب اگر نبی کریم ﷺ بنفس نفیس جہاد کے لئے تشریف لے جارہے ہوں تو ہر قوم میں سے
جو جماعت آپ کے
ہمراہ نکلے گی وہ حضور ﷺ کی صحبت میں رہ کر اور سینکڑوں
حوادث و واقعات میں سے گذر
کر دین اور احکام دینیہ کی سمجھ حاصل کرے گی اور واپس آ کر اپنی باقی ماندہ قوم
کو مزید علم و تجربہ کی بناء پر بھلے برے سے آگاہ کرے گی اور فرض کیجئے اگر حضور
ﷺ خود
مدینہ میں رونق افروز رہے تو باقی ماندہ لوگ جو جہاد میں نہیں گئے حضور ﷺ کی خدمت
سے مستفید ہو کر دین کی باتیں سیکھیں گے۔ اور مجاہدین کی غیبت میں جو وحی و
معرفت کی باتیں سنیں گے ان سے واپسی کے بعد مجاہدین کو خبردار کریں گے۔ آیت
کےالفاظ میں عربی ترکیب کے اعتبار سے دونوں احتمال ہیں۔ کما "فی روح
المعانی" وغیرہ۔ حضرت شاہ صاحبؒ لکھتے ہیں کہ "ہر قوم میں سے چاہئے
بعضے لوگ پیغمبر کی صحبت میں رہیں تا علم دین سیکھیں اور پچھلوں کو سکھائیں۔ اب
پیغمبر ﷺ اس دنیا میں موجود نہیں لیکن علم دین اور علماء موجود ہیں۔
طلب علم فرض کفایہ ہے اور جہاد بھی فرض کفایہ ہے۔ البتہ اگر کسی وقت امام کی طرف
سے نفیر عام ہو جائے تو "فرض عین" ہو جاتا ہے۔ تبوک میں یہ ہی صورت
تھی اس لئے پیچھے رہنے والوں سے بازپرس ہوئی۔ واللہ اعلم۔ ابو حیان کے نزدیک یہ
آیت جہاد کے لئے نہیں، طلب علم کے بارہ میں ہے۔ جہاد اور طلب علم کی آیات میں
مناسبت یہ ہے کہ دونوں میں خروج فی سبیل اللہ ہے اور دونوں کی غرض احیاء و
اعلائے دین ہے۔ ایک میں تلوار سے دوسرے میں زبان وغیرہ سے۔
|
کیوںکہ نظامِ عالم میں جس کام کی جو اہمیت وفضیلت ہے اسے اتنا ہی وقت وتوجہ درکار ہے، اس لیے ہر کام میں سب کو مہارت پانے کا حکم نہ دینا رحمت کا اظہار ہے۔ اور فقیہ(عالم)کے خبردار کرنے کا مقصد اس کی (دینی)خبر کی پیروی کرانا ہے جس میں پیروکار کیلئے نفس پرستی کا شائبہ نہیں رہتا۔
=============================
حدیث # 3
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الأَسْفَاطِيُّ ، ثنا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ النَّشِيطِيُّ ، ثنا سَلْمُ بْنُ زُرَيْرٍ ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " افْتَرَقَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً تَزِيدُ عَلَيْهَا أُمَّتِي فِرْقَةً كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلا السَّوَادَ الأَعْظَمَ " .
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْفَضْلِ الأَسْفَاطِيُّ ، ثنا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ النَّشِيطِيُّ ، ثنا سَلْمُ بْنُ زُرَيْرٍ ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : " افْتَرَقَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً تَزِيدُ عَلَيْهَا أُمَّتِي فِرْقَةً كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلا السَّوَادَ الأَعْظَمَ " .
ترجمہ:
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ میں نے سنا اللہ کے پیغمبر ﷺ کو فرماتے ہوئے کہ: بنی اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئے جو میری امت سے زیادہ ہیں۔ سب کے سب آگ میں ہیں سوائے سب سے بڑی جماعت کے۔
[المعجم الكبير، للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ، رقم الحديث: 7975(8054)]
یھاں مسلم امت محمدیہ میں ہونے والے فرقوں میں مسلمانوں کا وہ فرقہ مراد ہوگا جو الله کے رسولؐ اور ان کے صحابہؓ (ساتھیوں) کے طریقہ پر ہوگا، چناچہ چار صحابہ کرام (١) حضرت ابو درداءؓ (٢) حضرت انسؓ (٣) حضرت واثلہ بن اسقعؓ اور (٤) حضرت ابوامامہؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللهؐ سے دریافت فرمایا :
" ذَرُوا الْمِرَاءَ ، فَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ افْتَرَقُوا عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً ، وَالنَّصَارَى عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً كُلُّهُمْ عَلَى الضَّلالَةِ إِلا السَّوَادَ الأَعْظَمَ " ، قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَمَنِ السَّوَادُ الأَعْظَمُ ؟ قَالَ : " مَنْ كَانَ عَلَى مَا أَنَا عَلَيْهِ ، وَأَصْحَابِي مَنْ لَمْ يُمَارِ فِي دِينِ اللَّهِ ، وَمَنْ لَمْ يُكَفِّرْ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ التَّوْحِيدِ بِذَنْبٍ غُفِرَ لَهُ " .
ترجمہ:
بیشک بنی اسرائیل اکہتر (٧١) فرقوں میں بٹ گئے، اور نصاریٰ (عیسائی) بہتر (٧٢) فرقوں میں بٹ گئے سب گمراہی پر ہیں سواۓ سواد اعظم کے، پوچھا گیا: اے الله کے رسولؐ! اور سواد اعظم کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا : "وہ لوگ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوں". اور جو اللہ کے دین سے منحرف نہیں ہوا، اور جس نے اہل توحید میں سے کسی کو گناہ کی وجہ سے کسی ایک کی بھی تکفیر نہ کی تو اس کی مغفرت ہو جائے گی۔
[المعجم الكبير ، للطبراني (سنة الوفاة:360) » بَابُ الصَّادِ » مَنِ اسْمُهُ الصَّعْبُ » صُدَيُّ بْنُ الْعَجْلانِ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ ...رقم الحديث: 7551 وقال الأرنؤؤط: إسناده حسن.]
الصفحة أو الرقم: 6/236 | خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات
[مجمع الزوائد : کتاب
العلم ، باب ما جاء في المرء، 704 (1/156)
مجمع الزوائد : كتاب الفتن ،
باب افتراق الأمم ، 12096+12099(7/258)]
تخريج الحديث
|
اس کا یہ مضمون کہ "وہ لوگ جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہوں" دوسری قوی (مضبوط) اور صحیح سند کی حدیث سے بطورِ شواہد ثابت ہے، لہذا اس صحیح وثابت شدہ نبویؐ مضمون و تفسیر کو بقیہ ائمہ وعلماء کی تشریحات بالراۓ سے اولیت و افضلیت میں کوئی شبہ نہیں رہنا چاہیے۔
اور اس اصول کو اپنایا جاۓ تو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں اور بہت سے فرقے مٹ جائیں، لیکن عوام تو عوام یہاں تو خواص نے بھی اس اصول کو نظر انداز کردیا اور اپنا یا اپنے فرقہ کا تراشیدہ اصول کو رہنما بنایا، جس سے مسائل سلجھنے کی بجاۓ الجھ گئے اور فساد و بگاڑ کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہوا.
========================================
حدیث # 4
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْحَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ الْعَبْسِيُّ كُوفِيٌّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ، قَالَ : أَتَيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى وَهُوَ مَحْجُوبُ الْبَصَرِ ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ، قَالَ لِي : مَنْ أَنْتَ ؟ فَقُلْتُ : أَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ، قَالَ : فَمَا فَعَلَ وَالِدُكَ ؟ قَالَ : قُلْتُ : قَتَلَتْهُ الْأَزَارِقَةُ ، قَالَ : لَعَنَ اللَّهُ الْأَزَارِقَةَ ، لَعَنَ اللَّهُ الْأَزَارِقَةَ ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كِلَابُ النَّارِ ، قَالَ : قُلْتُ : الْأَزَارِقَةُ وَحْدَهُمْ ، أَمْ الْخَوَارِجُ كُلُّهَا ؟ قَالَ : بَل الْخَوَارِجُ كُلُّهَا ، قَالَ : قُلْتُ : فَإِنَّ السُّلْطَانَ يَظْلِمُ النَّاسَ ، وَيَفْعَلُ بِهِمْ ، قَالَ : فَتَنَاوَلَ يَدِي ، فَغَمَزَهَا بِيَدِهِ غَمْزَةً شَدِيدَةً ، ثُمَّ قَالَ : وَيْحَكَ يَا ابْنَ جُمْهَانَ ، عَلَيْكَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ ، عَلَيْكَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ ، إِنْ كَانَ السُّلْطَانُ يَسْمَعُ مِنْكَ ، فَأْتِهِ فِي بَيْتِهِ ، فَأَخْبِرْهُ بِمَا تَعْلَمُ ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْكَ ، وَإِلَّا فَدَعْهُ ، فَإِنَّكَ لَسْتَ بِأَعْلَمَ مِنْهُ .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » تتمة مسند الكوفيين » حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رقم الحديث: 18981(18922)]
سعید بن جمہان رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت تک ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے بتایا کہ میں سعید بن جمہان ہوں ، انہوں نے پوچھا کہ تمہارے والد صاحب کیسے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ انہیں تو" ازارقہ " نے قتل کردیا ہے انہوں نے دو مرتبہ فرمایا ازارقہ پر لعنت الٰہی نازل ہو، نبی کریم ﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ جہنم کے کتے ہیں ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس سے صرف " ازارقہ " فرقے کے لوگ مراد ہیں یا تمام خوارج ہیں ؟ انہوں نے فرمایا تمام خوارج " مراد ہیں پھر میں نے عرض کیا بعض اوقات بادشاہ بھی عوام کے ساتھ ظلم اور نا انصافی وغیرہ کرتا ہے انہوں نے میرا ہاتھ زور سے دبایا اور بہت تیز چٹکی کاٹی اور فرمایا اے ابن جمہان ! تم پر افسوس ہے سواد اعظم کی پیروی کرو سواد اعظم کی پیروی کرو اگر بادشاہ تمہاری بات سنتا ہے تو اس کے گھر میں اس کے پاس جاؤ اور اس کے سامنے وہ ذکر کرو جو تم جانتے ہو اگر وہ قبول کرلے توبہت اچھا ورنہ تم اس سے بڑے عالم نہیں ہو۔
لہٰذا، اختلافی مسائل میں سوادِ اعظم (یعنی سب سے بڑی جماعت یعنی جمہور علماء) کی پیروی کرنے کو لازم بنایا جائے۔
------------------------------------------------------
حدیث # 4
حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا الْحَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ الْعَبْسِيُّ كُوفِيٌّ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ، قَالَ : أَتَيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى وَهُوَ مَحْجُوبُ الْبَصَرِ ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ، قَالَ لِي : مَنْ أَنْتَ ؟ فَقُلْتُ : أَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ، قَالَ : فَمَا فَعَلَ وَالِدُكَ ؟ قَالَ : قُلْتُ : قَتَلَتْهُ الْأَزَارِقَةُ ، قَالَ : لَعَنَ اللَّهُ الْأَزَارِقَةَ ، لَعَنَ اللَّهُ الْأَزَارِقَةَ ، حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كِلَابُ النَّارِ ، قَالَ : قُلْتُ : الْأَزَارِقَةُ وَحْدَهُمْ ، أَمْ الْخَوَارِجُ كُلُّهَا ؟ قَالَ : بَل الْخَوَارِجُ كُلُّهَا ، قَالَ : قُلْتُ : فَإِنَّ السُّلْطَانَ يَظْلِمُ النَّاسَ ، وَيَفْعَلُ بِهِمْ ، قَالَ : فَتَنَاوَلَ يَدِي ، فَغَمَزَهَا بِيَدِهِ غَمْزَةً شَدِيدَةً ، ثُمَّ قَالَ : وَيْحَكَ يَا ابْنَ جُمْهَانَ ، عَلَيْكَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ ، عَلَيْكَ بِالسَّوَادِ الْأَعْظَمِ ، إِنْ كَانَ السُّلْطَانُ يَسْمَعُ مِنْكَ ، فَأْتِهِ فِي بَيْتِهِ ، فَأَخْبِرْهُ بِمَا تَعْلَمُ ، فَإِنْ قَبِلَ مِنْكَ ، وَإِلَّا فَدَعْهُ ، فَإِنَّكَ لَسْتَ بِأَعْلَمَ مِنْهُ .
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ الْعَشَرَةِ الْمُبَشَّرِينَ بِالْجَنَّةِ ... » تتمة مسند الكوفيين » حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رقم الحديث: 18981(18922)]
سعید بن جمہان رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت تک ان کی بینائی ختم ہوچکی تھی انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے بتایا کہ میں سعید بن جمہان ہوں ، انہوں نے پوچھا کہ تمہارے والد صاحب کیسے ہیں ؟ میں نے عرض کیا کہ انہیں تو" ازارقہ " نے قتل کردیا ہے انہوں نے دو مرتبہ فرمایا ازارقہ پر لعنت الٰہی نازل ہو، نبی کریم ﷺ نے ہمیں بتایا ہے کہ وہ جہنم کے کتے ہیں ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اس سے صرف " ازارقہ " فرقے کے لوگ مراد ہیں یا تمام خوارج ہیں ؟ انہوں نے فرمایا تمام خوارج " مراد ہیں پھر میں نے عرض کیا بعض اوقات بادشاہ بھی عوام کے ساتھ ظلم اور نا انصافی وغیرہ کرتا ہے انہوں نے میرا ہاتھ زور سے دبایا اور بہت تیز چٹکی کاٹی اور فرمایا اے ابن جمہان ! تم پر افسوس ہے سواد اعظم کی پیروی کرو سواد اعظم کی پیروی کرو اگر بادشاہ تمہاری بات سنتا ہے تو اس کے گھر میں اس کے پاس جاؤ اور اس کے سامنے وہ ذکر کرو جو تم جانتے ہو اگر وہ قبول کرلے توبہت اچھا ورنہ تم اس سے بڑے عالم نہیں ہو۔
الصفحة أو الرقم: 1/427 | خلاصة حكم المحدث : حسن
الصفحة أو الرقم: 542 | خلاصة حكم المحدث : حسن
الصفحة أو الرقم: 2/1098 | خلاصة حكم المحدث : غريب
الصفحة أو الرقم: 5/233 (6/235) | خلاصة حكم المحدث : رجاله ثقات
لہٰذا، اختلافی مسائل میں سوادِ اعظم (یعنی سب سے بڑی جماعت یعنی جمہور علماء) کی پیروی کرنے کو لازم بنایا جائے۔
------------------------------------------------------
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے ائمہ اربعہؒ (چار فقہ کے اماموں : امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمدؒ بن حنبل) کی اتباع کو سوادِ اعظم کی اتباع قرار دیا ہے:
"ولما اندرست المذاهب الحقة إلاهذه الأربعة كان اتباعها اتباعا للسواد الأعظم والخروج عنها خروجا عن السواد الأعظم
ترجمہ:
جب صرف چار مذاہب (مسالک) کے علاوہ دوسرے تمام مذاہب مٹ گئے تو ان مذاہب اربعہ کی اتباع کرنا سوادِ اعظم کی اتباع ہے اور ان مذاہب سے نکل جانا سوادِ اعظم سے نکل جانا ہے۔
(عقدالجید:۳۸)
علامہ ابن ہمامؒ :
"انعقد الاجماع علی عدم العمل بالمذاهب"۔
ترجمہ :
ائمہ اربعہؒ کے علاوہ دوسرے تمام مخالف مذاہب (مسالک) پرعمل نہ کرنے پر اجماع منعقد ہوچکا ہے۔
(عقدالجید:۳۸)
حافظ الحدیث علامہ ابن حجرؒ نے لکھا ہے:
"امافی زماننا فقال ائمتنا لایجوز تقلید غیرالائمة الاربع الشافعی ومالک وابی حنیفۃ واحمد بن حنبل"۔
ترجمہ:
رہی ہمارے زمانے کی بات تو ہمارے ائمہؒ حضرات نے فرمایا کہ ائمہ اربعہؒ کے علاوہ کسی دوسرے کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے، (جو) امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام ابوحنیفہؒ اور امام احمد بن حنبلؒ (ہیں)۔
(عقدالجید:۳۸)
==========================================
حدثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، ثنا ابْنُ الأَصْبَهَانِيِّ ، ثنا شَرِيكٌ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ يَسِيرَ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ أَبَا مَسْعُودٍ (عقبة بن عمرو بن ثعلبة) لَمَّا قُتِلَ عَلِيٌّ فَتَبِعْتُهُ ، فَقُلْتُ : أَنْشُدُكَ اللَّهَ مَا سَمِعْتَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْفِتَنِ ؟ فَقَالَ : "إِنَّا لا نَكْتُمُ شَيْئًا , عَلَيْكَ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالْجَمَاعَةِ ، وَإِيَّاكَ وَالْفُرْقَةَ فَإِنَّهَا هِيَ الضَّلالُ وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَكُنْ لِيَجْمَعَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلالَةٍ".[المعجم الكبير للطبراني » بَابُ التَّاءِ » مَنِ اسْمُهُ عُقَيْلٌ، رقم الحديث: 14106]
ترجمہ :
حضرت ابو مسعود (عقبہ بن عمرو) رسول اللهؐ سے مروی ہیں : بیشک ہم نہیں چھپاتے کوئی شئ (اصول یا حکم) ، تو لازم پکڑ الله کی تقویٰ اور جماعت کو، اور فرقوں سے خبردار رہو، پس وہ گمراہی ہے اور بیشک الله عز وجل نہیں ہوگا جمع کرنے کو امت محمد صلی الله علیہ وسلم کو گمراہی پر.
تخريج الحديث
|
یعنی سواد اعظم سے مراد سب سے بڑی جماعت ہے
ReplyDeleteپحر تو اس وقت دنیا میں سب سے بڑ جماعت عیساءیت ہے۔
تو آپ کے ٰلما سو کے خود ساختہ فتویِ کے مطابق اس میں شامل ہو جاءیں
سواد اعظم
سے مراد
بڑا شھر ، اکثریت اور غالب ہے۔
فیروز اللغات
ص 743
غلبہ تو احناف کاکھیں بھی نہیں
تعداد میں
شافعی احناف سے زیادہ ہیں اور بڑا شہر نیو یارک ہے
آپ غلبہ کسے سمجھتے ہیں اسی سے بات آگے چلے گی
ہمارے نزدیک جس کی دلیل پختہ ہو وہی غالب ہے
ہم دیں گے صرف صحیح حدیث
اور قرآن
یقیناً ان سے بڑی دلیل آپ کے پاس نہ ہو گی
١) اپنی غیر عالمانہ سمجھ سے ((عظیم جماعت)) کو آپ نے عیسائیت سمجھا ہے تو کیا اس حدیث پر عامل بنتے آپ خود عیسائی ہوۓ؟ صرف دوسروں کو عیسائی بننے کی دعوت دینا صرف احادیث میں شکوک پیدا کرتے رد کرنے کے سوا آپ کا کوئی مقصد ظاہر نہیں کرتا. یہاں خطاب و حکم مسلمانوں کو، ان کے درمیاں اختلافات پر ہے، یہودیوں و نصاریٰ (عیسائیوں) کے بعد اس امت (مسلمہ) میں فرقہ واریت پر سواد اعظم کی پیروی پر نبی نے یہ واضح تعلیم دی ہے، جس کو سمجھے بغیر یا جان بوجھ کر ناسمجھتے اپنے مسلکی مخالف کی اس دلیل کو مشکوک بنانے رد کرنے کو یہ غیر عالمانہ شیطانی وسوسے بیکار ہیں، کیونکہ ائمہ کا اختلاف، اختلاف صحابہ سے ماخوذ یا ان ہی کی طرح جدید مسائل میں اجتہادی دلائل پر مبنی تھا، اور اجتہادی مسائل میں صحیح فیصلہ پر دو اجر اور خطا پر ایک اجر کی بشارت خود نبی نے دی، اور اجر گناہ کے کام پر نہیں ملتا.
Deleteچند جدید مسائل_اجتہادیہ؛ جن کا واضح حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں:
١. ٹیلیفون کے ذریعے نکاح
٢. انتقال_خون(خون کا کسی مریض کو منتقل کرنا)
٣. اعضاء کی پیوند-کاری
٤. حالت_روزہ میں انجیکشن کا مسئلہ
٥. لاؤڈ-اسپیکر پر اذان کا مسئلہ
٦. ڈیجیٹل تصویر کا مسئلہ وغیرہ
مزید اجتہادی اختلاف کی تفصیل جاننے کے لئے لنک دوبارہ حاضر ہے:
http://urdubooklinks.blogspot.com/2012/12/blog-post_17.html
یہ اختلاف نا اسلام و کفر کے مابین اختلاف کہلاۓ گا، اور نہ ہی سنّت و بدعت کا اختلاف کہلاتا ہے، یہ اختلاف دلائل پر مبنی مختلف سنّتوں یا غیر واضح حکم کو شریعت کے اصول (اجتہاد) سے مجتہد فقہاء و علماء کی علمی دلائل پر مبنی اپنی اپنی فقہی راۓ کا فروعی اختلاف ہے، جس کو علماۓ شافعیہ احناف پر یا علماۓ حنفیہ شافعیہ پر اختیار نہ کرنے پر (انکار اسلام سمجھتے) کافر کہتے ہیں اور نہ ہی (انکار سنت سمجھتے) گمراہ قرار دیتے ہیں.
https://fbcdn-sphotos-c-a.akamaihd.net/hphotos-ak-ash4/s720x720/307810_290848964358031_1851076642_n.jpg
٢) عربی لفظ ((سواد اعظم)) کا ترجمہ عربی لغت کی بجاۓ اردو لغت کی کتاب ((فیروز اللغات)) سے کرنا ہی آپ کی عالمانہ حقیقت ظاہر کردیتی ہے.
٣) مسلک احناف کے رد میں پوسٹ کی احادیث کا رد کرنا آپ کی سمجھ اور دل میں احناف کیلئے حسد کو ظاہر کرتا ہے، ورنہ ان کی تعداد دنیا میں شافعیہ سے زیادہ نہ ہونا اظہر من الشمس ہے، اس وقت بھی پاکستان، بھارت، افغانستان، چینی ترکستان، وسطی ایشیا اور ترکی وغیرہ میں مسلمانوں کی غالب اکثریت حنفی فقہ پر کاربند ہے۔
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%D9%86%D9%81%DB%8C#.D8.A2.D8.AC_.DA.A9.DB.92_.D8.AF.D9.88.D8.B1_.D9.85.DB.8C.DA.BA
اور
امت مسلمہ کی اکثریت مذاہب اربعہ کی مقلد ہوئی اور قبول عام انہی ائمہ اربعہ کے مسائل مستخرج کو حاصل ہوا۔ (اعلام الموقعین، امام ابن قیم :۱/۱۳۵۔۴۰)
neez ye k in char masalik main to halal haram ka farq mojud hay, ap k haan khoon beh jaye to wuzu gya, shafi aur hambli k haan aisa nahin, aik k haan tamam aisy janwr jin ki zindagi pani hay wo halal hain jb k dosray k haan jo machli mr kr pani ki satah pr aye wo haram, teesray k haan agr seedhi ho to halal warna haram, aik k haan teen talal chutti, baqi teeno k haan aik nishast ki lataadad talaqain bi aik, aik k haan dahi shoq se khaya jata hay dosroo k haan makroo tehreemi, aik k haan jangli gadha aur ghorra halal to baqio k haan haram, aik k haan nijaste ghaleeza ko zuban se chtna bhi pak krta hay, baqi isay qabeeh feyl kehty hain aur haram khori main shumar krty ain, ap ne latadaad zaeef ahadith apne blog pe laga kr ye tasur diya k barra ilam jhaar liya gya ab to log mutassir hongay, lekin kya aik hadith apko yaad nahin rahi k "jo cheez shuba main dal de usay chorr do". Allah se dariye aur sahih hadith k muqabla main zaeef riwayat pesh na kijiye.
ReplyDelete
ReplyDelete١) حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا : کہ لوگوں سے وہی حدیث (بات) بیان کرو جس کو وہ سمجھ سکیں، کیا تم اس بات کو اچھا سمجھتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کی تکذیب کی جائے؟[صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 129- علم کا بیان :جس شخص نے ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری قوم کو علم (کی تعلیم) کے لئے مخصوص کرلیا، یہ خیال کر کے کہ یہ لوگ بغیر تخصیص کے پورے طور پر نہ سمجھیں گے، تو اس مصلحت سے اس کا یہ فعل مستحسن ہے]اسی لئے علماء ایسی علمی احادیث جو صحیح بھی ہوں، جب کسی میں سمجھنے کی صلاحیت نہیں پاتے تو (بلا تفسیر) بیان نہیں کرتے، لیکن آج بعض حضرات اس حدیث کا مصداق بنتے علماء کا مقابلہ کرنے کی جرات کرتے اس وعید سے بے خوف ہو رہے ہیں:حضرت ابن عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں جس نے اس لئے علم حاصل کرنا چاہا کہ بے وقوفوں سے تکرار کرے یا علم والوں کے مقابلہ میں اپنی بڑائی ظاہر کرے یا عوام کے قلوب اپنی طرف مائل کرے وہ دوزخ میں جائے گا۔[سنن ابن ماجه » كِتَاب ابْنُ مَاجَهْ » أَبْوَابُ فِي فَضَائِلِ أَصَحَابِ رَسُولِ اللَّهِ ...، رقم الحديث: ٢٥٥]
https://fbcdn-sphotos-g-a.akamaihd.net/hphotos-ak-prn1/s720x720/66077_309735079136086_510037084_n.jpg
٢) اختلاف تو علماۓ حدیث میں بھی ہے بلا دلیل کسی حدیث کو صحیح/ضعیف کہتے کسی بات کو حلال/جائز اور کسی کو حرام/ناجائز کہتے ہیں، وہ بھلا کیوں ؟؟؟ آپ کسی ایک حدیث کا بھی صحیح/ضعیف ہونا کسی امام کے قول کی تقلید کرنے کے سوا صرف الله و رسول سے واضح ثابت نہ کیوں نہیں کرتے پاتے؟؟؟ پھر منافقت ایسی کہ خود اسی تقلید میں ڈوب کر مقلدوں کو جاہل و مشرک کہتے شرم نہیں آتی.http://urdubooklinks.blogspot.com/2012/11/ikhtilafaatahlhadees.html
٣) قرآن و حدیث کافی ہونے کے دعوا کے بعد اپنے فتاویٰ کی کتب لکھنے کی کیا ضرورت تھی؟؟؟ جس میں ضعیف حدیث کی قبولیت کا بلا دلیل یہ اصول بتایا :
علماء نے ان کو اگرچہ ضعیف کہا لیکن اصول_حدیث میں یہ مقرر ہے کہ جب ایسی (یعنی ضعیف) حدیث کے طرق کثیرہ ہوں تو وہ حسن بلکہ صحیح ہوجاتی ہے. (فتاویٰ علماء حدیث : ٧/٧٠ ، كتاب الزكوة)
امام ابو داود نے کہا : جس حدیث پر کہ میں اپنی کتاب میں سکوت کروں تو وہ احتجاج (حجت و دلیل ہونے) کی صلاحیت رکھتی ہے...(فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٢ ، كتاب الزكوة)نوٹ : معلوم ہوا کہ علماۓ حدیث اپنی کتب میں جن احادیث کو شامل کرتے ہیں، وہ ان کے نزدیک لائق احتجاج ہوتی ہے.
(وہ ہیں) جو اسناد کی حیثیت سے مردود ، معنا کے لحاظ سے مقبول ہیں (فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٣ ، كتاب الزكوة)
تلقی بالقبول:
چونکہ علماء نے اس کو قبول کیا ہے، سو اس حدیث کو اسناد کے لحاظ سے مردود اور معنا کے حثیت سے قبول کیا ہے. (فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٣، كتاب الزكوة)شوکانی نے کہا اہل_حدیث اس زیادت کے ضعف پر اتفاق کر چکے ہیں، لیکن اس کے مضمون میں اجماع واقع ہوچکا ہے. (فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٣، كتاب الزكوة)
http://3.bp.blogspot.com/-ZEZRjwP1pio/UQr_dtUA4ZI/AAAAAAAAD38/Q8ClvbAL0lg/s1600/Usool_Hadees=Ftawa+Ulamay+Hadees.jpg
٤) حنفی مسلک (راۓ) یہ ہے کہ سمندر میں مر جائے اس کا کھانا حلال نہیں جیسے کہ خشکی میں از خود مرے ہوئے جانور کا کھانا حلال نہیں کیونکہ قرآن نے اپنی موت آپ مرے ہوئے جانور کو آیت (حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنْزِيْرِ وَمَآ اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ ۔ الخ) 5۔ المائدہ:3) میں حرام کر ذیا ہے اور یہ عام ہے ، اور حضرت جابر سے حدیث ہے کہ جو تم شکار کر لو اور وہ زندہ ہو پھر مر جائے تو اسے کھا لو اور جسے پانی آپ ہی پھینک دے اور وہ مرا ہوا الٹا پڑا ہوا ہو اسے نہ کھاؤ.[عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَا صِدْتُمُوهُ وَهُوَ حَيٌّ فَمَاتَ فَكُلُوهُ , وَمَا أَلْقَى الْبَحْرُ مَيِّتًا طَافِيًا فَلا تَأْكُلُوهُ " .[أحكام القرآن، للجصاص (سنة الوفاة:370) » ومن سورة /65 البقرة /65 » باب تحريم الميتة، رقم الحديث: 42]
اوپر مضمون میں آپ نے ایک حدیث کا ذکر کیا جس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواد اعظم سے مراد اپنے اور اپنے صحابہ کے طریقے پر چلنے والے کو کہا ہے
ReplyDeleteاب سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی کی تقلید کو اختیار کیا ہے؟
جی ہاں،
Deleteحضرت عبدالله بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي مِنْ أَصْحَابِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ
پیروی کرنا ان کی جو میرے بعد ہوں گے میرے صحابہ میں سے (یعنی) ابوبکرؓ و عمرؓ.
[ترمذی:3805، حاکم:4456]
تقلید کا معنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع، اطاعت اور اقتداء کے سب ہم معنی ہیں۔
[مختار الصحاح : 758 ، موسوعه فقہیہ : 1 / 264 - 265، فیروز الغات: ا - ت، صفحہ # ٦٢]
http://raahedaleel.blogspot.com/2012/09/blog-post_27.html