Saturday, 6 September 2025

محمد رسول اللہ ﷺ کی مصیبت (رحلت-وصال) کو یاد کرنا




حضرت سابطؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت (صدمہ) پہنچے (یعنی کوئی قریبی عزیز فوت ہوجائے) تو میرے دکھ (وفات) کو یاد کرلے، بےشک (میری رحلت) اس کیلئے سب سے بڑا غم ودکھ ہے۔

حوالہ

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أُصِيبَ أَحَدُكُمْ بِمُصِيبَةٍ، فَلْيَذْكُرْ مُصِيبَتَهُ بِي، فَإِنَّهَا أَعْظَمُ الْمَصَائِبِ عِنْدَهُ»


امام ابن الحاج(م737ھ) تشریح فرماتے ہیں:
وَهَذَا أَمْرٌ مِنْهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - لِأُمَّتِهِ وَتَسْلِيَةٌ لَهُمْ، أَمَّا الْأَمْرُ فَقَوْلُهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: فَلْيَذْكُرْ مُصِيبَتَهُ بِي، وَأَمَّا التَّسْلِيَةُ فَقَوْلُهُ: - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - فَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ الْمَصَائِبِ، فَإِذَا تَذَكَّرَ الْمُؤْمِنُ مَا أُصِيبَ بِهِ مِنْ فَقْدِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - هَانَتْ عَلَيْهِ جَمِيعُ الْمَصَائِبِ وَاضْمَحَلَّتْ، وَلَمْ يَبْقَ لَهَا خَطَرٌ وَلَا بَالٌ.
ترجمہ:
اور یہ (بات) آپ ﷺ کی اپنی امت کے لیے ایک حکم اور ان کے لیے تسلی ہے۔ رہا حکم تو وہ آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ: "اسے چاہیے کہ وہ میری مصیبت (یعنی میرے وصال کے غم) کو یاد کرے۔" اور رہی تسلی تو وہ آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ: "بے شک وہ (یعنی میری جدائی) سب سے بڑی مصیبتوں میں سے ہے۔" پس جب ایک مومن یہ یاد کرے کہ اسے نبی ﷺ کے فراق میں کیا مصیبت پہنچی ہے تو اس پر دیگر تمام مصیبتیں آسان ہو جاتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں، اور ان (دیگر مصیبتوں) کا کوئی وزن اور غم نہیں رہتی۔

علامہ مناوی لکھتے ہیں:
یعنی اس امت کے درمیان سے میری جدائی اور وحی کے منقطع ہو جانے (کے صدمے) کو یاد کرے۔ "کیونکہ یہ (میری جدائی) بہت بڑی مصیبتوں میں سے ہے"، بلکہ وہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے (رسول اللہ ﷺ کو) دفن کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے مٹی (نہیں جھاڑی) یہاں تک کہ ہم نے اپنے دلوں میں (غم و اداس کے باعث) تبدیلی محسوس کی (یعنی دل بدل گئے)۔[ترمذي:3618]
[التیسیر بشرح الجامع الصغیر -للمناوی:1/74]


دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

اور یہ مصیبت اس لیے سب سے بڑی تھی کیونکہ اس سے وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، شر کے manifestations عربوں کے ارتداد اور منافقوں کے گروہ بندی کے ذریعے ظاہر ہوئے، اور آپ کی وفات خیر میں کمی کا پہلا سبب تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) دفن کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے مٹی (نہیں جھاڑی) یہاں تک کہ ہم نے اپنے دلوں میں (غم و اداس کے باعث) تبدیلی محسوس کی (یعنی دل بدل گئے)۔
اور اس سلسلے میں سب سے عمدہ کلام تو وہ ہے جو کسی نے اپنے بھائی کی تعزیت (اس کے بیٹے کے انتقال پر) کرتے ہوئے لکھا اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا: ہر تکلیف پر صبر کر اور ثابت قدم رہ۔. . اور جان لے کہ انسان ہمیشہ رہنے والا نہیں اور جب تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کی مصیبت کو یاد کرے۔ . . تو اپنی مصیبت (یعنی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق) کو یاد کر
[فیض القدیر للمناوی: 452]





القرآن:
اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فرد بشر کے لیے طے نہیں کیا۔ (18) چنانچہ اگر تمہارا انتقال ہوگیا تو کیا یہ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں؟
[سورۃ الأنبياء:34]
تفسیر:
(18)سورة طور:30 میں مذکور ہے کہ کفار مکہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں کہتے تھے کہ ہم ان کی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے انتقال کے موقع پر وہ خوشی منائیں گے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اول تو موت ہر شخص کو آنی ہے، اور کیا خود یہ خوشی منانے والے موت سے بچ جائیں گے۔



جب کسی امت پر اللہ تعالیٰ کی مہر ہوتی ہے تو اس کا پیغمبر اس کے سامنے گزر جاتا ہے.

حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے ایک امت پر رحمت کرنا چاہتا ہے تو وہ اس امت سے پہلے اس کے نبی کو اٹھا لیتا ہے اور اسے (امت) سے آگے پہلے پہنچنے والا، (اس کا) پیش رو بنادیتا ہے۔ اور جب وہ کسی امت کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کے نبی کی زندگی میں عذاب میں مبتلا کردیتا ہے اور اس کی نظروں کے سامنے انہیں ہلاک کرتا ہے۔ انہوں نے جو اس کو جھٹلایا تھا اور اس کے حکم کی نافرمانی کی تھی تو وہ انہیں ہلاک کرکے اس (نبی) کی آنکھیں ٹھنڈی کرتا ہے۔“

تشریح:

(اگر خدا کسی قوم پر رحم کرنا چاہتا ہے تو اس کے نبی کی روح اس سے پہلے قبض کرتا ہے )

ایک اور حدیث ہے: ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے ، جیسا کہ صحیح مسلم میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے لیے رحمت چاہتا ہے تو اس کے نبی کو ان سے پہلے ہٹا لیتا ہے، اسے ان کا پیش خیمہ بنا دیتا ہے، جب کہ جب وہ ان کی قوم کو ہلاک کرنا چاہتا ہے تو اس کا پیش رو بنا دیتا ہے۔ وہ زندہ ہے، تو وہ ان کو ہلاک کرتا ہے جب کہ وہ زندہ اور دیکھ رہا ہے، اور جب وہ اس کا انکار کرتے ہیں اور اس کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں تو وہ ان کی تباہی سے اپنی آنکھوں کو تسلی دیتا ہے ۔ "

صحابہ کرام نے یہ سن کر تعجب کیا: کیا سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگی یا آپ کے صحابہ؟ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گویا اس قوم کو رب العالمین کی رحمت سے آگاہ کر رہے تھے۔ وہ اس قوم کے لیے رحمت ہے، اللہ تعالیٰ کی دعا اور سلام۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا، مگر رحمت عالم کے لیے۔}
[سورۃ الانبیاء: 107]
لفظ "سوائے" ایک پابندی والی اصطلاح ہے، اس لیے وہ اس امت کے لیے رحمت ہے، اللہ تعالیٰ کی دعاؤں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قوم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ انہیں عذاب نہیں دے گا جب تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان ہوں گے اور انہیں اپنے فضل و کرم سے بڑھا دیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اور اللہ تعالیٰ ان کو اس وقت تک عذاب نہیں دے گا جب تک آپ ان میں ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دے گا جب تک وہ استغفار کریں گے ۔

اس کا فرمان: (اور آپ ان میں سے ہیں) معنیٰ:
اور آپ امت کے لیے رحمت ہیں، پس اگر اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے لے تو اس کی طرف سے رحمت، اس کی شان، باقی رہے گی، تاکہ مومنین رب العالمین سے بخشش طلب کریں، اور وہ ان کو معاف کرے گا اور انہیں عذاب نہیں دے گا، یعنی: ایک عام عذاب جو ہر ایک کو دے گا۔ تاہم، یہ کچھ لوگوں کو ان پر اللہ کے غضب سے نہیں روکتا، اور وہ اس دنیا میں ان کے کچھ گناہوں کا بدلہ لے گا۔ البتہ عام عذاب جو قوم کو مٹا دے گا وہ واقع نہیں ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس قوم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو اس وقت تک ہلاک نہیں کرے گا جب تک کہ ان کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان میں ہوں گے اور نہ ہی ان کو اس وقت ہلاک کریں گے جب وہ استغفار کر رہے ہوں گے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے امید کی فضیلت کے بارے میں ایک آیت ذکر کی ہے جو نیک بندے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: {اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ بے شک اللہ اپنے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ پس اللہ نے اسے ان کے مکر کے شر سے بچا لیا اور فرعون والوں کو بدترین عذاب نے گھیر لیا ۔ یہ فرعون کے خاندان میں سے ایک مومن ہے جس نے اپنی قوم کو موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کی دعوت دی، تو انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کفر کیا، اس شخص نے ان سے کہا: یہ وہ شخص ہے جو تمہارے پاس رب العالمین کی طرف سے واضح دلیلیں لے کر آیا ہے۔

اور ان سے فرمایا:
{اے میری قوم، میں تمہیں نجات کی طرف کیوں بلاتا ہوں جب کہ تم مجھے آگ کی طرف بلاتے ہو؟}
(سورۃ غافر:41)
تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں فرمایا:
{اور میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ بے شک اللہ بندوں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
(سورۃ غافر:44) ۔

اگر کوئی شخص خدا پر توکل کرتا ہے اور اپنے معاملات اس کے سپرد کرتا ہے تو خدا اسے ہر برائی اور نقصان سے محفوظ رکھتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{پس خدا نے اس کو ان کے شر سے محفوظ رکھا جو انہوں نے کی تھیں}
[سورۃ غافر:45]
 جب وہ خدا پر توکل کرتا ہے اور اپنے معاملات اس کے سپرد کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے ان کی چالوں سے محفوظ رکھے گا۔







عن عائشة، قالت:" مات النبي صلى الله عليه وسلم وإنه لبين حاقنتي وذاقنتي، فلا اكره شدة الموت لاحد ابدا بعد النبي صلى الله عليه وسلم".
ترجمہ:
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان (سر رکھے ہوئے) تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کی شدت سکرات) دیکھنے کے بعد اب میں کسی کے لیے بھی نزع کی شدت کو برا نہیں سمجھتی۔ 
[صحيح البخاري:4446-3100، سنن النسائى:1831]




نبی کریم ﷺ کی بیماری اور آپ ﷺ کی وفات کا بیان۔

وقال يونس: عن الزهري، قال عروة: قالت عائشة رضي الله عنها:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يقول في مرضه الذي مات فيه:" يا عائشة، ما ازال اجد الم الطعام الذي اكلت بخيبر، فهذا اوان وجدت انقطاع ابهري من ذلك السم".
ترجمہ:
اور یونس نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض وفات میں فرماتے تھے کہ خیبر میں (زہر آلود) لقمہ جو میں نے اپنے منہ میں رکھ لیا تھا، اس کی تکلیف آج بھی میں محسوس کرتا ہوں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری شہ رگ اس زہر کی تکلیف سے کٹ جائے گی۔
[صحيح البخاري:4428، صحیح مسلم:5705(2190)، سنن ابوداود:4512، مستدرک حاکم:4393]






أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الأَشْقَرُ ، ثنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْمَرْوَزِيُّ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، ثنا عَنْبَسَةُ ، ثنا يُونُسُ ، عَنِابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : قَالَ عُرْوَةُ : كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ : " يَا عَائِشَةُ ، إِنِّي أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُهُ بِخَيْبَرَ ، فَهَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ ، وَقَدْ أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ ، فَقَالَ : وَقَالَ يُونُسُ .
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ جس بیماری میں رسول الله ﷺ کا انتقال ہوا، اس میں آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس کھانے کا زہر جو میں نے خیبر میں کھایا تھا برابر محسوس ہوتا رہا یہاں تک کہ اب وہ وقت قریب آگیا ہے کہ اس زہر سے میری شہہ رگ کٹ جاۓ.
[المستدرك على الصحيحين: 3/56، 4331  ؛ السنن الكبرى للبيهقي: 10/9، 18146 ؛ دلائل النبوة للبيهقي: 3101]













عَنْ عَائِشَةَ. قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا مَرِضَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِهِ، نَفَثَ عَلَيْهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ. فَلَمَّا مَرِضَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، جَعَلْتُ أَنْفُثُ عَلَيْهِ وَأَمْسَحُهُ بِيَدِ نَفْسِهِ. لِأَنَّهَا كَانَتْ أَعْظَمَ بَرَكَةً مِنْ يَدِي.
ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آپ پناہ دلوانے والے کلمات اس پر پھونکتے۔ پھر جب آپ اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی رحلت ہوئی تو میں نے آپ پر پھونکنا اور آپ کا اپنا ہاتھ آپ کے جسم اطہر پر پھیرنا شروع کر دیا کیونکہ آپ کا ہاتھ میرے ہاتھ سے زیادہ بابرکت تھا۔







نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے زندگی گزارنے اور دنیا ( کی لذتوں) سے علیحدہ رہنے کا بیان۔
حَدَّثَنِي عُثْمَانُ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَنْصُورٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْأَسْوَدِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ مِنْ طَعَامِ بُرٍّ ثَلَاثَ لَيَالٍ تِبَاعًا حَتَّى قُبِضَ.
ترجمہ:
مجھ سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے جریر بن عبدالحمید نے، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ محمد ﷺ کے گھر والوں کو مدینہ آنے کے بعد کبھی تین دن تک برابر گیہوں کی روٹی کھانے کے لیے نہیں ملی، یہاں تک کی نبی کریم ﷺ کی روح قبض ہوگئی۔
[صحيح البخاری:6454-6687-6454-5416-6458، صحیح مسلم:7444(2970)، 7448(2971)، 7449(2972)، 7453(2974)، 7446(2970)، 7447(2970)، 7448(2971)، 7445(2970)، جامع الترمذي:2357-2356]



میں(عروہ بن زبیرؓ) نے پوچھا پھر آپ لوگ زندہ کس چیز پر رہتی تھیں؟ بتلایا کہ صرف دو کالی چیزوں پر، کھجور اور پانی۔ ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے یہاں دودہیل اونٹنیاں تھیں وہ اپنے گھروں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دودھ بھیج دیتے اور آپ ہمیں وہی دودھ پلا دیتے تھے۔
[صحيح البخاري:6459-2567، صحيح مسلم:7452(2972)]




سخاوت کی فضیلت اور بخل کی مذمت
عَنْ عَائِشَةَ،  أَنَّهَا قَالَتْ: اشْتَدَّ وَجَعُ رَسُولِ اللهِ صَلى الله عَلَيه وسَلم وَعِنْدَهُ سَبْعَةُ دَنَانِيرَ أَوْ تِسْعَةٌ، فقَالَ: "يَا عَائِشَةُ،   مَا فَعَلَتْ تِلْكَ الذَّهَبُ؟ " فَقُلْتُ: هِيَ عِنْدِي، قَالَ: "تَصَدَّقِي بِهَا"، قَالَتْ: فَشُغِلْتُ بِهِ، ثُمَّ قَالَ: "يَا عَائِشَةُ،   مَا فَعَلَتْ تِلْكَ الذَّهَبُ؟ " فَقُلْتُ: هِيَ عِنْدِي، فقَالَ: "ائْتِنِي بِهَا"، قَالَتْ: فَجِئْتُ بِهَا، فَوَضَعَهَا فِي كَفِّهِ، ثُمَّ قَالَ: " مَا ظَنُّ مُحَمَّدٍ أَنْ لَوْ لَقِيَ اللهَ وَهَذِهِ عِنْدَهُ؟ مَا ظَنُّ  مُحَمَّدٍ أَنْ لَوْ لَقِيَ اللهَ وَهَذِهِ عِنْدَهُ؟۔
ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا، جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو میرے پاس آپ کے چھ یا سات دینار تھے، رسول اللہ ﷺ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں انہیں تقسیم کر دوں، لیکن نبی ﷺ کی تکلیف نے مجھے مصروف رکھا، آپ نے ان کے متعلق پھر مجھ سے پوچھا:’’ آپ نے ان چھ یا سات دیناروں کا کیا کیا؟‘‘ میں نے عرض کیا، اللہ کی قسم! آپ کی تکلیف نے مجھے مصروف کر دیا، انہوں نے وہ منگائے، پھر انہیں اپنی ہتھیلی میں رکھا، فرمایا:’’ اللہ کا نبی محمد کیا گمان کرے کہ وہ اللہ عزوجل سے ملاقات کرے اور یہ اس کے پاس ہوں۔‘‘
[صحیح ابن حبان:(713)3966+3967+7372]
[مسند احمد:24560-24733، السنن الکبریٰ للبیھقی:13029]



رزق کے معاملے میں اللہ سے بدگمانی»
القرآن:
اور کتنے جانور ہیں جو اپنا رزق اٹھائے نہیں پھرتے۔ الله انہیں بھی رزق دیتا ہے، اور تمہیں بھی (32) اور وہی ہے جو ہر بات سنتا، ہر چیز جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 29 العنكبوت،آیت نمبر 60]
تفسیر:
(32) ہجرت کرنے میں ایک خوف ہوسکتا تھا کہ یہاں تو ہمارے روزگار کا ایک نظام موجود ہے، کہیں اور جاکر معلوم نہیں کوئی مناسب روزگار ملے یا نہ ملے، اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ دنیا میں کتنے جانور ایسے ہیں جو اپنا رزق ساتھ لئے نہیں پھرتے، بلکہ وہ جہاں کہیں جاتے ہیں الله تعالیٰ وہیں ان کے رزق کا انتظام فرماتا ہے، لہذا جو لوگ الله تعالیٰ کے حکم کی اطاعت میں وطن چھوڑیں گے، کیا الله تعالیٰ ان کے رزق کا انتظام نہیں فرمائے گا ؟ البتہ رزق کی کمی اور زیادتی تمام تر الله تعالیٰ کی مشیت اور حکمت پر موقوف ہے، لہذا وہی فیصلہ فرماتا ہے کہ کس کو کس وقت کتنا رزق دینا ہے۔



 موت کے وقت کی سختی کا بیان

عن عائشة، انها قالت: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالموت وعنده قدح فيه ماء، وهو يدخل يده في القدح ثم يمسح وجهه بالماء، ثم يقول:" اللهم اعني على غمرات الموت، وسكرات الموت ".
ترجمه:
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ سکرات کے عالم میں تھے، آپ کے پاس ایک پیالہ تھا، جس میں پانی تھا، آپ پیالے میں اپنا ہاتھ ڈالتے پھر اپنے چہرے پر ملتے اور فرماتے: ”اے اللہ! سکرات الموت میں میری مدد فرما“۔
 [سنن ترمذيل:978، سنن ابن ماجه:1623]


مریض کا موت کی آرزو کرنا۔

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَيَّ يَقُولُ:‏‏‏‏ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الأَعْلَى.
ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عباد بن عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، نبی کریم ﷺ میرا سہارا لیے ہوئے تھے (مرض الموت میں) اور فرما رہے تھے:
اے اللہ! میری مغفرت فرما مجھ پر رحم کر اور مجھ کو اچھے رفیقوں (فرشتوں اور پیغمبروں) کے ساتھ ملا دے۔
[صحيح البخاری:5674]





نبی کریم ﷺ کے معجزوں یعنی سچی پیشنگوئیوں کا بیان


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانہ مرض میں اپنی صاحب زادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور چپکے سے کوئی بات ان سے فرمائی تو وہ رونے لگیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور چپکے سے پھر کوئی بات فرمائی تو وہ ہنسیں۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے اس کے متعلق پوچھا۔
[صحيح البخاري:كتاب المناقب، حدیث: 3625]
تو انہوں نے بتایا کہ پہلی مرتبہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے آہستہ سے گفتگو کی تھی تو اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آپ کی اس مرض میں وفات ہو جائے گی جس میں واقعی آپ کی وفات ہوئی۔ میں اس پر رو پڑی۔ پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے مجھ سے جو بات کہی اس میں آپ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں، میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملوں گی۔ میں اس پر ہنسی تھی۔
[صحيح البخاري:كتاب المناقب۔ حدیث: 3626]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اپنے اس مرض کے موقع پر بلایا جس میں آپ کی وفات ہوئی، پھر آہستہ سے کوئی بات کہی تو وہ رونے لگیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور آہستہ سے کوئی بات کہی تو وہ ہنسنے لگیں، عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر میں نے ان سے اس کے متعلق پوچھا۔
[صحيح البخاري:كتاب فضائل الصحابة، حدیث: 3715]
‏‏‏‏ تو انہوں نے بتایا کہ پہلے مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے یہ فرمایا تھا کہ وہ اپنی اسی بیماری میں وفات پا جائیں گے، میں اس پر رونے لگی۔ پھر مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آہستہ سے فرمایا کہ آپ کے اہل بیت میں سب سے پہلے میں آپ سے جا ملوں گی، اس پر میں ہنسی تھی۔
[صحيح البخاريؒ:كتاب فضائل الصحابة، حدیث: 3716]

تخریج:
[صحيح البخاريؒ:4434-3626-3716، صحیح مسلم:6312-6313(2450 )، جامع الترمذي:3872، سنن ابن ماجه:1621]

تشریح:
یہ دو حدیثیں ہیں پہلی حدیث کو حضرت عائشہ ؓ سے بیان کرنے والے حضرت مسروق ہیں۔
جبکہ دوسری حدیث کو ان سے بیان کرنے والے حضرت عروہ ؒ ہیں لیکن دونوں روایات میں کچھ اختلاف ہے پہلی روایت میں سیدہ کے رونے کا سبب آپ کا رسول اللھ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے پہلے ملنے کو قرار دیا گیا جبکہ دوسری روایت میں اسے سیدہ کے ہنسنے کا باعث قراردیا گیا ہے۔
دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ ؓ کو خفیہ طور پر تین باتیں بتائیں پہلی بات تو آپ کے انتقال کی تھی یہ تو ان کے رونے کا سبب تھا۔
دوسری بات جنت میں ان کے سردار ہونے کی تھی جس کے سبب انھیں سرور لاحق ہوا اور آپ ہنس پڑیں۔
تیسری بات یہ تھی کہ اہل خانہ میں سب سے پہلے سیدہ وفات پائیں گی اور سب سے پہلے مجھ سے ان کی ملاقات ہوگی۔
یہ خبر ایک وجہ سے خوشی اور سرور کا باعث تھی جیسا کہ عروہ کی روایت میں ہے اور ایک وجہ سے غم کی خبر تھی جس وجہ سے آپ رونے لگیں۔
جیسا کہ مسروق کی روایت میں ہے اس طرح سے دونوں روایات کا اختلاف ختم ہو جاتا ہے علامہ سندھی کہتے ہیں شایدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ ؓ کو دو مرتبہ بشارت سنائی ہو۔
ایک مرتبہ وفات کی خبر کے ساتھ ملا دیا۔
جس سے ان پر رونا غالب آگیا اور دوسری مرتبہ بشارت سیادت کے ساتھ ملا دیا تو دونوں بشارتیں ہنسنے کا سبب بن گئیں اس طرح بھی دونوں روایات جمع ہو سکتی ہیں۔
[حاشیہ سندھی: 284/2]


حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدِّثُهُ (٢) ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا فَاطِمَةَ ابْنَتَهُ فَسَارَّهَا فَبَكَتْ، ثُمَّ سَارَّهَا فَضَحِكَتْ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ لِفَاطِمَةَ: مَا هَذَا الَّذِي سَارَّكِ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَكَيْتِ، ثُمَّ سَارَّكِ فَضَحِكْتِ؟ قَالَتْ: " سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي بِمَوْتِهِ، فَبَكَيْتُ، ثُمَّ سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ مَنْ أَتْبَعُهُ مِنْ أَهْلِهِ، فَضَحِكْتُ۔
[مسند أحمد:24483]




نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی جب وفات ہوئی تو ابوبکر ؓ اس وقت مقام سُنح میں تھے۔ اسماعیل نے کہا یعنی عوالی کے ایک گاؤں میں۔ آپ کی خبر سن کر عمر ؓ اٹھ کر یہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ کی وفات نہیں ہوئی۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ عمر ؓ کہا کرتے تھے اللہ کی قسم اس وقت میرے دل میں یہی خیال آتا تھا اور میں کہتا تھا کہ اللہ آپ کو ضرور اس بیماری سے اچھا کر کے اٹھائے گا اور آپ ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے (جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں) اتنے میں ابوبکر ؓ تشریف لے آئے اور اندر جا کر آپ کی نعش مبارک کے اوپر سے کپڑا اٹھایا اور بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور وفات کے بعد بھی اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر دو مرتبہ موت ہرگز طاری نہیں کرے گا۔ اس کے بعد آپ باہر آئے اور عمر ؓ سے کہنے لگے، اے قسم کھانے والے! ذرا تامل کر۔ پھر جب ابوبکر ؓ نے گفتگو شروع کی تو عمر ؓ خاموش بیٹھ گئے۔
ابوبکر ؓ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد (ﷺ) کو پوجتا تھا (یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں مریں گے) تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد ﷺ کی وفات ہوچکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔ (پھر ابوبکر ؓ نے سورة الزمر کی یہ آیت پڑھی)
اے پیغمبر! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے۔
(سورة الزمر:30)
اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
محمد ﷺ صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پاجائیں یا انہیں شہید کردیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔
(سورۃ آل عمران:144)
راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ ؓ کے پاس جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہوگا (دونوں مل کر حکومت کریں گے) پھر ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح ؓ ان کی مجلس میں پہنچے۔ عمر ؓ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن ابوبکر ؓ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ عمر ؓ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم! میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کرلی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ ابوبکر ؓ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی۔ پھر ابوبکر ؓ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم (قریش) امراء ہیں اور تم (جماعت انصار) وزارء ہو۔ اس پر حباب بن منذر ؓ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزارء ہو (وجہ یہ ہے کہ) قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کا ملک (یعنی مکہ) عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر ؓ کی بیعت کرلو یا ابوعبیدہ بن جراح کی۔ عمر ؓ نے کہا: نہیں ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ عمر ؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ ؓ کو تم لوگوں نے مار ڈالا۔ عمر ؓ نے کہا: انہیں اللہ نے مار ڈالا۔
اور عبداللہ بن سالم نے زبیدی سے نقل کیا کہ عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، انہیں قاسم نے خبر دی اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی نظر (وفات سے پہلے) اٹھی اور آپ نے فرمایا: اے اللہ! مجھے رفیق اعلیٰ میں (داخل کر) آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ ابوبکر اور عمر ؓ دونوں ہی کے خطبوں سے نفع پہنچا۔ عمر ؓ نے لوگوں کو دھمکایا کیونکہ ان میں بعض منافقین بھی تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرح (غلط افواہیں پھیلانے سے) ان کو باز رکھا۔
اور بعد میں ابوبکر ؓ نے جو حق اور ہدایت کی بات تھی وہ لوگوں کو سمجھا دی اور ان کو بتلا دیا جو ان پر لازم تھا (یعنی اسلام پر قائم رہنا) اور وہ یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل‏ محمد ( ﷺ ) ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں الشاکرين‏ تک(سورۃ آل عمران:144)۔

تخریج:
[صحيح بخاری:1241-1242-3667-4452، سنن النسائى:1840-1841-1842، سنن ابن ماجه:1627]







نبی اکرم ﷺ کی وفات اور تدفین کا بیان
یومِ وصال النبی ﷺ : صحابہؓ کیلئے حزن وملال کا دن۔

عن انس بن مالك، قال: " لما كان اليوم الذي دخل فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة اضاء منها كل شيء، فلما كان اليوم الذي مات فيه اظلم منها كل شيء، ولما نفضنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم الايدي وإنا لفي دفنه حتى انكرنا قلوبنا ".
ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب وہ دن ہوا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (پہلے پہل) مدینہ میں داخل ہوئے تو اس کی ہر چیز پرنور ہو گئی، پھر جب وہ دن آیا جس میں آپ کی وفات ہوئی تو اس کی ہر چیز تاریک ہو گئی اور ابھی ہم نے آپ کے دفن سے ہاتھ بھی نہیں جھاڑے تھے کہ ہمارے دل بدل گئے۔
[سنن ترمذي:3618، سنن ابن ماجہ:1631، سنن الدارمی:14 (89)]




No comments:

Post a Comment