Friday 2 August 2024

میری امت۔۔۔






قتل ہونے پر کیا امید کی جائے؟

عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمَّتِي هَذِهِ أُمَّةٌ مَرْحُومَةٌ، لَيْسَ عَلَيْهَا عَذَابٌ فِي الْآخِرَةِ، عَذَابُهَا فِي الدُّنْيَا الْفِتَنُ، وَالزَّلَازِلُ، وَالْقَتْلُ»
ترجمہ:
حضرت ابوموسیٰ ؓ کہتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:  میری اس امت پر اللہ کی رحمت ہے آخرت میں اسے عذاب  (دائمی)  نہیں ہوگا اور دنیا میں اس کا عذاب: فتنوں، زلزلوں اور قتل کی شکل میں ہوگا۔
[سنن أبو داود:4278 ، المستدرک الحاكم:8372، مسند أبو يعلى:7277،۔المعجم الاوسط للطبرانی:4055]


دنیاوی عذاب کا مقصد»
القرآن:
اور اس بڑے عذاب سے پہلے بھی ہم انہیں کم درجے کے عذاب کا مزہ بھی ضرور چکھائیں گے۔ (10) شاید یہ باز آجائیں۔
[سورۃ نمبر 32 السجدة، آیت نمبر 21]

تفسیر:
(10)یعنی آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے اسی دنیا میں انسان کو چھوٹی چھوٹی مصیبتیں اس لئے پیش آتی ہیں کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرکے اپنے گناہوں سے باز آجائے، سبق یہ دیا گیا ہے کہ دنیا میں پیش آنے والی مصیبتوں کے وقت اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے، اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنا چاہیے۔




عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ صَلَّى رَسُولُ اللهِ  ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌يَوْمًا صَلَاةً فَأَطَالَ فِيهَا فَلَمَّا انْصَرَفَ قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ أَطَلْتَ الْيَوْمَ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: إِنِّي صَلَّيْتُ صَلَاةَ رَغْبَةٍ وَرَهْبَةٍ سَأَلْتُ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لِأُمَّتِي ثَلَاثًا فَأَعْطَانِي اثْنَتَيْنِ وَرَدَّ عَلَيَّ وَاحِدَةً سَأَلْتُهُ أَنْ لَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَأَعْطَانِيهَـا وَسَأَلْتُـهُ أَنْ لَا يُهْلِـكَهُمْ غَرَقًـا فَأَعْطَـانِـيهَا وَسَأَلْتُهُ أَنْ لَا يَجْعَلَ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ فَرَدَّهَا عَلَيَّ .
ترجمہ:
حضرت معاذ بن جبل‌ؓ سے مروی ہے انہوں نے كہا كہ رسول اللہ ﷺ نے ایك دن نماز پڑھائی تو لمبی كر دی، جب سلام پھیرا  تو ہم نے كہا: اے اللہ كے رسول ﷺ! آج آپ نے لمبی نماز پڑھائی ہے؟ آپ  ‌ﷺ ‌نے فرمایا: میں نے خوف اور امید والی نماز پڑھائی ہے۔ میں نے اللہ عزوجل سے اپنی امت كے لئے تین چیزوں كا مطالبہ كیا، اللہ تعالیٰ نے دو چیزیں دے دیں، اور ایك کا انكار كر دیا۔ میں نے اللہ سے سوال كیا كہ وہ میری امت پر كسی غیر(قوم کے) دشمن كو مسلط نہ كرے، اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول كر لی، میں نے اللہ سے سوال كیا كہ وہ میری امت كو غرق كر كے نہ مارے، اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول كر لی، اور میں نے اللہ سے سوال كیا كہ وہ میری امت كو آپس میں نہ لڑائے، تو اللہ تعالیٰ نے میری یہ دعا قبول نہیں كی۔
[الصحيحة:1724 (592)، سنن ابن ماجه» كِتَاب الْفِتَنِ » بَاب مَا يَكُونُ مِنْ الْفِتَنِ رقم (3941)]











حضرت ابوہریرہ ؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ يَدْعُو بِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأُرِيدُ أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي فِي الْآخِرَةِ۔
ترجمہ:
ہر نبی کو ایک دعا حاصل ہوتی ہے (جو قبول کی جاتی ہے) اور میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی دعا کو آخرت میں اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھوں۔
[صحیح بخاری:6304، صحیح مسلم:199، سنن الترمذی:3602، سنن ابن ماجہ:4307]


القرآن:
لوگوں کو کسی کی سفارش کرنے کا اختیار بھی نہیں ہوگا، سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے خدائے رحمن سے کوئی اجازت حاصل کرلی ہو۔
[سورۃ مريم، آیت نمبر 87]

القرآن:
.....امید ہے کہ تمہارا پروردگار تمہیں مقام محمود تک پہنچائے گا۔
[سورۃ الاسراء:79]
تفسیر:
مقام محمود کے لفظی معنی قابل تعریف مقام، اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد آنحضرت ﷺ کا وہ منصب ہے جس کے تحت آپ کو شفاعت کا حق دیا جائے گا۔








حضرت عمر بن خطابؓ (اور حضرت عمران بن حصینؓ) سے روایت ہے کہ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا:

مجھے اپنی امت پر (تم پر میرے بعد) سب سے زیادہ خوف ہر اس (جھگڑالومنافق کا ہے جو چرب زبانی کا بڑا ماہر ہوگا۔

[مسند احمد:143+310، مسند البزار:305 (مسند البزار:3514، صحیح ابن حبان:3783) سلسلة الأحاديث الصحيحة:‌‌1013، صحيح الترغيب والترهيب:132+2330، صحيح الجامع الصغير:239+1554+1556]

لیکن دل اور عمل سے جاہل(مخالف)ہوگا۔

[الأحادیث المختارۃ:236]

باتیں حق(نیکی)کی کرے گا اور عمل برائی کے۔

[شعب الایمان:1640]

جو ایمان کی پناہ لے گا اور عمل اسکے خلاف کرےگا۔

[مسند الفاروق:955]

ایمان والوں سے جھگڑے گا قرآنی تعلیم کے ذریعہ.

[مجمع الزوائد:887]

جیساکہ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
«‌يَتَعَلَمُهُ ‌الْمُنَافِقُونَ، ثُمَّ يَجَادِلُونَ بِهِ الذِّينَ آمَنُوا»

’’منافق اس کو سیکھتے ہیں، پھر اس پر ایمان والوں سے جھگڑتے ہیں۔‘‘
[جامع المسانيد والسنن-ابن كثير:7679، غاية المقصد فى زوائد المسند-الهيثمي:873، مسند عقبة بن عامر-ابن قطلوبغا:159]
[الجامع الصحيح للسنن والمسانيد-صهيب عبد الجبار: 4/ 230 (8/ 347)]




القرآن:
.....اور اگر وہ بات کریں تو تم سنتے رہ جاؤ ان کی باتیں.....
[سورۃ المنافقون:4]

القرآن:
کچھ لوگ وہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لے آئے، حالانکہ وہ (حقیقت میں) مومن نہیں ہیں۔
[سورۃ البقرة، آیت نمبر 8]

القرآن:
....اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے وہ باطل کا سہارا لے کر جھگڑا کرتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے حق کو ڈگمگا دیں، اور انہوں نے مذاق بنا رکھا ہے میری آیتوں کا اور انہیں جو تنبیہ کی گئی تھی اس کا۔
[سورۃ الكهف، آیت نمبر 56]

القرآن:
اور یہ (منافق) لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اور رسول پر ایمان لے آئے ہیں، اور ہم فرمانبردار ہوگئے ہیں، پھر ان میں سے ایک گروہ اس کے بعد بھی منہ موڑ لیتا ہے۔ یہ لوگ (حقیقت میں) مومن نہیں ہیں۔
[سورۃ النور، آیت نمبر 47]
تفسیر:
منافقین چونکہ دل سے ایمان نہیں لائے تھے، اس لئے ان سے آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام کے خلاف معاندانہ حرکتیں سرزد ہوتی رہتی تھیں، چنانچہ ایک واقعہ یہ پیش آیا کہ بشر نامی ایک منافق کا ایک یہودی سے جھگڑا ہوگیا، یہودی جانتا تھا کہ آنحضرت ﷺ حق کا فیصلہ کریں گے اس لئے اس نے بشر کو پیشکش کی کہ چلو آنحضرت ﷺ سے اپنے جھگڑے کا فیصلہ کرالیں، بشر کے دل میں چور تھا، اس لئے اس نے آپ سے فیصلہ کرانے کے بجائے ایک یہودی سردار کعب بن اشرف سے فیصلہ کرانے کی تجویز پیش کی، اس کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔





































































حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَخَّر الْكَلَام في الْقَدَر لِشَرَارِ أَمَتِي في آخَر الزَّمَان.
ترجمہ:
تقدیر كے بارے میں گفتگو كو مؤخر كردیا گیا آخری زمانے میں میری امت کے بدترین لوگوں كی وجہ سے۔ 
الصحيحة:3959 (929) صحيح البخاري كِتَاب الْإِيمَانِ بَاب حُسْنُ إِسْلَامِ الْمَرْءِ رقم (40)]


حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَرْبَعٌ فِي أُمَّتِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ لَنْ يَدَعَهُنَّ النَّاسُ النِّيَاحَةُ وَالطَّعْنُ فِي الْأَحْسَابِ وَالْعَدْوَى أَجْرَبَ بَعِيرٌ فَأَجْرَبَ مِائةَ بَعِيرٍ مَنْ أَجْرَبَ الْبَعِيرَ الْأَوَّلَ؟ وَالْأَنْوَاءُ مُطِرْنَا بِنَوْءٍ كَذَا وَكَذَا.
ترجمہ:
ابوہریرہ‌ؓ سے مرفوعا مروی ہے كہ: میری امت میں چار كام جاہلیت سےتعلق رکھتے ہیں، لوگ انہیں كبھی بھی نہیں چھوڑیں گے۔ نوحہ كرنا، حسب نسب میں طعن كرنا، چھوت سمجھنا كہ ایك اونٹ كوخارش ہوئی تواس نے سواونٹوں كوخارش زدہ كردیا۔ بھلا پہلے اونٹ كوكس نے خارش میں مبتلا كیا؟ اور ستارہ پرستی كہ ہم پر فلاں فلاں ستارے كی(گردش كی) وجہ سے بارش ہوئی۔
[الصحيحة:735 (943) سنن الترمذي كِتَاب الْجَنَائزِ بَاب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ النَّوْحِ رقم (922)]








نماز مغرب میں جلدی :
____________________
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم " لا تزال أمتي بخير أو قال على الفطرة ما لم يؤخروا المغرب إلى أن تشتبك النجوم " (سنن ابی داؤد : 418 ، باب في وقت المغرب ،حديث حسن )
[حديث أبى أيوب وعقبة: أخرجه أحمد (4/147، رقم 17367) ، وأبو داود (1/113، رقم 418) ، وابن خزيمة
(1/174، رقم 339) ، والحاكم (1/303، رقم 685) وقال: صحيح على شرط مسلم.
حديث العباس: أخرجه ابن ماجه (1/225، رقم 689) ، وابن خزيمة (1/175، رقم 340) ، والحاكم (1/304، رقم 686) ، وتمام (1/219، رقم 525) ، والبيهقى (1/448، رقم 1948) ، والضياء (8/383، رقم 473) . وأخرجه أيضًا: الدارمى (1/297، رقم 1210) ، والبزار (4/131، رقم 1305) .]












جس وقت دنیا سے توحید کا شیرازہ بکھر چکا تھا تو الله رب العزت نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کو دستور، منشور، قانون… ضابطہٴ قرآن کی شکل میں عطا کیا، پھر پیغمبر علیہ السلام نے قرآن کی ابدی تعلیمات سے ایک ایسی جماعت تیار کی جس کا دل ودماغ، سوچ ونظر، گفتار وکردار پیغمبر علیہ السلام کے تابع ہو گیا، جس طرف کا انہوں نے رخ کیا کام یابی نے ان کے قدم چومے، کفر کے ایوانوں میں زلزلہ برپا انہوں نے کیا، ہر باطل قوت سے ٹکرا کر اس کو پاش پاش کیا، آخر ان کی کام یابی کا راز کیا تھا ”صفھم بالقتال وصفھم فی الصلوٰةسوآء لھم بالیل دوی کدوی النحل“.( مشکوٰة) وہ راتوں کو اٹھ کر روتے اور قرآن کی تلاوت سے اپنے دل ودماغ کو منور ومعبر ومطہر کیا کرتے اوران کی سجدہ گاہیں آنسوؤں سے تر رہا کرتی تھیں … اسی لیے جب ایران کے سپہ سالار رستم نے ان سے ایران پر حملے کی وجہ پوچھی تو حضرت ربعی بن عامر نے کیا خوب جواب دیا ”الله ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادة العباد الی عبادة الله، ومن ضیق الدنیا الی سَعتھا، ومن جور الادیان الی عدل الاسلام“․ (البدایہ والنہایة)… ہمارے آنے کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو مخلوق کی عبادت سے خالق کی بندگی میں لائیں، دنیا کی تنگیوں سے اس ذات کی وسعت میں لائیں او رباطل ادیان کے ظلم سے اسلام کے عدل میں لائیں… یہ تھی ایک مسلمان کی سوچ، جب میں نے تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائی تو مسلمانوں کے زوال کا سب سے پہلا سبب عیش پرستی نظر آیا، خلافت عباسیہ میں معتصم بالله نے حکومت کی شان وشوکت بڑھانے کے لیے تر کی غلاموں سے خدمت لی اوران کی حوصلہ افزائی کی، جس سے حکومت تو چمکی، مگر خلفائے اسلام کا وقار کم ہوتا چلا گیا، عیش پرستی نے عورتوں کو محلوں کا جمالستان بنا دیا ایمانی قوت کمزور ہوئی، تلوار ہاتھ سے گری۔

مسلمانوں کے زوال کا پہلا سبب عیش پرستی بنا۔
داعیانہ صفات کو بھولنا ،زوال کا سبب۔
مجاہدانہ کردار کو چھوڑنا ، زوال کا سبب ۔
خدا پرستی کی بہ جائے قبرپرستی، زوال کا سبب۔
اتحاد کے بجائے قومیت وعصبیت کا رنگ، زوال کا سبب۔
آلات وسائل کا غلط استعمال ،زوال کا سبب۔
صنعت وتجارت میں سودی پھیلاؤ ،زوال کا سبب۔
نئی نسل کا اسلامی تعلیم کے بجائے مغربی تعلیم کا رجحان زوال کا سبب۔
سستی و غیر حاضری بھی زوال کا سبب

مختصر یہ کہ جب سے مسلمان قرآنی تعلیمات کو بھولے، مال معیشت49 ملکوں پر مسلم حکومت، ایک ارب سے زائد آبادی کے باوجود زوال کے بادل چھائے، ذلت مقدر بنتی چلی گئی، بادشاہی غلامی میں بدلی، مجاہدانہ سوچ غلامانہ رنگ دکھلانے لگی، دشمن کو دوست سمجھنے لگے، جب کہ قرآن نے چودہ سو سال پہلے ہمیں یہ نصیحت کی :

﴿ لاتتخذوا بطانة من دونکم لایألونکم خبالا﴾. یہود ونصاری منافقوں کو دوست مت بنانا۔ جب یہود نے دیکھا کہ یہ قوم ہمارے اشاروں پر آگئی تو یہود نے مواصلاتی آلات کا جال پھینکا جس نے رنگ یہ دکھایا کہ وہ مسلم ، نوجوان جو انسانوں کواسلامی تہذیب وتمدن کا سبق سکھلا تا تھا وہ غیروں کی تہذیب وتمدن پہ ناز کرنے لگا اور قرآن پر عمل پیرا ہونا تو درکنار ، قرآن کے مقدس اصولوں کا مذاق اڑانے لگا، وہ جوان جو مسلمانوں کی عزتوں کا محافظ تھا اسی کے ہاتھوں بہن، بہو، بیٹی کی عزت کا جنازہ اٹھنے لگا اور نبی علیہ السلام کی پیار ی سنت کو چہرے پہ سجانے کے بجائے گندی نالی میں پھینک کر مسکرانے لگا ۔

اس لیے شاعر مشرق نے کیا خوب کہا 
؎
        شور ہے دنیا سے ہو گئے مسلماں نابود
        ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلماں موجود
        تہذیب میں تم نصاری تو تمدن میں ہنود
        ہیں یہ وہ مسلماں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

دوستو! اس پرفتن دو رمیں جو کردار ہم ادا کرسکتے ہیں وہ یہ کہ اسلامی گفتارو کردار کا عملی جامہ پہن کر میدان میں آئیں او رنئی پیداوار کے ذہن سے مغربیت کا گردوغبار ہٹا کر قرآن وسنت کی فضا قائم کریں تو پھر یہ بات بعید نہیں کہ اگر آج بھی مسلمان ﴿واعتصموا بحبل الله﴾ کا بھولا ہوا سبق دُھرالیں تو ﴿جاء الحق وزھق الباطل﴾ کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے…، ﴿ان تنصروا الله ینصرکم ویثبت اقدامکم﴾ یہ لڑکھڑاتے، ڈگمگاتے قدم مضبوط جمے ہوئے نظر آئیں گے، ﴿ لیبدلنھم من بعد خوفھم امنا﴾ یہ خوف وہراس امن میں بدل جائے گا، مگر بات کیا ہے 
؎
        وطن تو آزاد ہو چکا دماغ ودل ہیں غلام اب بھی
        مئے غفلت لیے ہوئے ہیں یہاں خاص وعام اب بھی
        غلط ہے ساقی تیرا یہ نعرہ کہ بدل چکا ہے نظام محفل
        وہ شکستہ سی بوتلیں وہی کہنہ ہے جام اب بھی
        میرے خانہ وطن کا رنگ ہی کچھ عجب ہے
        کسی پہ جام شراب جائز کسی پہ پانی حرام اب بھی





امت محمدیہ کے مردوں اور عورتوں کے دس اوصاف

أعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم
﴿إن المسلمین والمسلمٰت والمؤمنین والمؤمنات والقانتین والقٰنتٰت والصٰدقین والصدقٰت والصٰبرین والصٰبرات والخاشعین والخٰشعت والمتصدقین والمتصدقت والصائمین والصائمت والحفظین فروجھم والحٰفظت والذاکرین الله کثیرا والذکرات أعدالله لھم مغفرة وأجرا عظیما﴾․(سورہٴ احزاب آیت:35)

بے شک دین اسلام اختیار کرنے والے مرد اور دین اسلام اختیار کرنے والی عورتیں اور ایمان ویقین والے مرد اور ایمان ویقین والی عورتیں اور ( الله ورسول کی) فرما نبرداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں اور صدق وسچائی والے مرد اور صدق وسچائی والی عورتیں اور صبر وبرداشت کرنے والے مرد اور صبر وبرداشت کرنے والی عورتیں اور انکسار وفروتنی اختیار کرنے والے مرد اور انکسار وفروتنی اختیار کرنے والی عورتیں اور ( راہ خدا میں) صدقہ خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اور ( شہوت نفس کے ناجائز تقاضوں سے) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور الله کو زیادہ یاد کرنے اور یاد رکھنے والے مرد اور زیادہ یاد کرنے اور یاد رکھنے والی عورتیں، الله نے ان سب کے واسطے طے کر رکھی اور تیار کر رکھی ہے بخشش اور اجر عظیم۔
تفسیر وتشریح
پچھلے ہفتے سورہٴ احزاب کے چوتھے رکوع کا درس ہوا تھا۔ اس کا خاص روئے سخن حضور صلی الله علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کی طرف تھا، ان کے خاص مقام ومرتبہ کے لحاظ سے ان کو کچھ خصوصی ہدایتیں فرمائی گئی تھیں، نماز، زکوٰة جیسے اعمال صالحہ کو اہتمام سے ادا کرنے کی اور منکرات ومکروہات سے بچنے کی سخت تاکید فرمائی گئی تھی ، اگرچہ یہ اوامر ونواہی امت کی سب خواتین کے لیے ہیں ، پچھلے رکوع میں ان احکام کی خاص مخاطب ازواج مطہرات ہی تھیں۔ اب یہ پانچواں رکوع شروع ہوا ہے اس کی پہلی آیت اپنے مضمون کے لحاظ سے بڑی جامع اور اہم آیت ہے، اس میں وہ سارے اوصاف جمع کر دیے گئے ہیں جو الله کو اپنے بندوں او ربندیوں میں مطلوب ہیں۔ جو بندہ یا جو بندی یہ اوصاف وخصائل جس درجہ اپنے اندر پیدا کر لے وہ اسی درجہ میں مومن کامل اور ”ولی الله“ ہے، یہ آیت گویا ”ولایت الہی“ کا منشورہے۔ اس آیت کا روئے سخن امت محمدیہ کے تمام مردوں اور عورتوں کی طرف ہے۔ اس میں مردوں کے ساتھ عورتوں کا ذکر صراحت کے سا تھ کرکے گویا یہ اعلان فرمایا گیا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ذریعہ سے آئی ہوئی روحانی دولت میں عورتیں مردوں کی برابر کی شریک ہیں اور ان کے لیے ولایت اور قرب الہٰی کے وہ سب دروازے کھلے ہوئے ہیں جو مردوں کے لیے کھلے ہیں۔

بہرحال اس آیت میں امت محمدیہ کے تمام مردوں اور عورتوں کو سنایا جارہا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ الله تعالیٰ تمہاری چھوٹی بڑی ساری خطائیں ، سارے گناہ اور ساری لغزشیں معاف فرمادے اور تم سے آخرت میں کوئی باز پرس نہ ہو اور اُس رب کریم کی طرف سے ”اجرعظیم“ تم کو عطا ہو ( جس میں بلاشبہ رضائے مولیٰ اوردیدارِ الہٰی بھی شامل ہے) تو یہ دس اوصاف اپنے اندر پیدا کرلو۔

ایک اسلام۔ جس کا مطلب ہے الله کے حضور میں سرافگندہ ہو جانا، اس کے دین کو قبول کرکے اس کے حکموں پر چلنے کا فیصلہ کر لینا اور اس کی بندگی کو اپنی زندگی کا اصول بنا لینا۔ ﴿ان المسلمین والمسلمات﴾ میں اسی وصف کا ذکر ہے۔

دوسرا ایمان: ایمان کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ کی طرف سے اُس کے پیغمبر نے جو ایسی باتیں اور ایسی حقیقتیں بتلائیں جن کو ہم بطور خود نہیں جان سکتے ، اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے ، اپنی عقلوں سے نہیں سمجھ سکتے (جیسے الله تعالیٰ کی ذات وصفات، قیامت، آخرت، جنت ، دوزخ، فرشتوں کا وجود ، وحی کا آنا ، قرآن شریف کا کلام الله ہونا ، وغیرہ وغیرہ ) تو ایسی ساری باتوں اور حقیقتوں پر ، صرف الله کے پیغمبر کے اعتبار واعتماد پر دل سے ایسا یقین کر لینا اور مان لینا جیسا کہ آنکھوں دیکھی چیزوں پر یقین کرلیا جاتا ہے۔ ﴿المؤمنین والمؤمنات﴾ میں اسی کا ذکر ہے۔

تیسرا وصف ہے۔ عملی زندگی میں الله تعالیٰ کی کامل فرماں برداری کرنا ﴿والقانتین والقنتت﴾ میں اسی وصف کا ذکر ہے۔

چوتھا وصف ہے سچائی وراستبازی۔ اپنے اقوال میں بھی اوراعمال ومعاملات میں بھی ﴿والصدقین والصٰدقت﴾ میں اسی کا ذکر ہے۔

پانچواں وصف ہے صبر۔ ”صبر“ کا لفظ ہماری آپ کی زبان میں یعنی اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے، لیکن ہماری زبان میں اس کے معنی بہت محدود ہیں، جو ہم آپ سب جانتے ہیں، لیکن قرآن پاک کی زبان میں صبر کے معنی بہت وسیع ہیں اور وہ بہت اونچا وصف ہے، یعنی کسی اعلیٰ مقصد کے لیے تکلفیں اٹھانا، مصیبتیں جھیلنا، اپنے نفس پر کنٹرول رکھنا۔ ﴿والصٰبرین والصٰبرات﴾ کا یہی مطلب ہے۔

چھٹا وصف ہے خشوع۔ اس کے معنی ہیں فروتنی، عاجزی وانکساری، الله تعالیٰ کے حضور میں بھی اور بندوں سے برتاؤ میں بھی، باطن میں بھی اور ظاہر میں بھی، یہ وصف عبدیت او ربندگی کی روح اور جان ہے ﴿والخاشعین والخشعت﴾ میں اسی کا ذکر ہے۔

ساتواں وصف ہے الله کی راہ میں اپنے مال کی قربانی۔ یعنی اس کی رضا جوئی کے لیے صدقہ وخیرات کرنا، جس سے بخل وکنجوسی کی روحانی بیماری کا علاج بھی ہوتا ہے اور الله کے حاجت مندوں کی مدد بھی ہوتی ہے ﴿والمتصدقین والمتصدقٰت﴾میں اسی وصف کا ذکر ہے۔

آٹھواں وصف ہے روزہ داری۔ یعنی الله کی رضا اور اپنے نفس کے علاج کے لیے او راپنے اندر تقوے کی صفت پیدا کرنے کے لیے روزے رکھنا، فرض بھی او رحسب توفیق نفلی بھی ﴿والصائمین والصٰئمت﴾میں اس وصف کا ذکر ہے۔

نواں وصف ہے عفت وپاک بازی ۔ یعنی شہوت نفس کے غلط اورناجائز تقاضوں سے اپنی حفاظت کرنا۔ ﴿والحفظین فروجھم والحٰفظت﴾ میں اس کا ذکر ہے۔

دسواں اور آخری وصف الله کا ذکر، نہ صرف ذکر، بلکہ ذکر کثیر۔ یعنی الله سے غافل نہ ہونا، اُس کا دھیان رکھنا او رزیادہ سے زیادہ اس کا ذکر کرنا۔ اس میں نماز، قرآن پاک کی تلاوت، الله کی حمد وتسبیح اور دعا واستغفار وغیرہ ذکر الله کی سب شکلیں شامل ہیں ۔ ﴿والذکرین الله کثیراً والذٰکرات﴾ میں اسی کا ذکر ہے۔

یہ دس صفتیں، جو بندہ اپنے اندر پیدا کرلے وہ بامراد اور کامیاب ہے۔ وہ الله کا اور الله اس کا ہو گیا، ایسے بندوں کو اس آیت میں بشارت سنائی گئی ہے﴿اعد الله لھم مغفرة واجراً عظیما﴾ یعنی الله نے ایسے بندوں کے لیے مغفرت وبخشش اور”اجر عظیم“ کا تحفہ تیار کر رکھا ہے۔ جس”اجر“ کو خود الله تعالیٰ ”عظیم الشان“ فرمائے اس کی عظمت کا کوئی بندہ یہاں تصور بھی نہیں کرسکتا۔
ایک حدیث قدسی
ایک مشہور حدیث قدسی ہے، یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے الله تعالیٰ کا یہ ارشاد اسی کی طرف سے امت کو پہنچایا ”أعددت لعبادی الصالحین مالاعین رأت، ولا أذن سمعت، ولا خطر علی قلب بشر․“ میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے جنت میں راحت ولذت اورمسرت کے وہ سامان اور وہ نعمتیں تیار کرکے رکھی ہیں جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے او رنہ کسی انسان کے دل میں کبھی ان کا خیال ہی آیا ہے ، یعنی جو انسانی خیال وتصور کی پرواز کی حد سے بھی بالاتر ہیں ، بس وہیں پہنچ کر معلوم ہو گا کہ وہ کیا نعمتیں ہیں اور ان میں کیسی لذت اور مسرت کا کیسا سامان ہے ۔ (مشکوٰة، باب صفة الجنة… بحوالہ بخاری ومسلم)

اس کی صحیح مثال یہ ہے کہ ہم آپ جب اس دنیا میں آنے سے پہلے اپنے ماؤں کے پیٹ میں تھے تو ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ ہم کسی اور دنیا میں پہنچیں گے او روہاں لذت وراحت کے عجیب وغریب سامان ہوں گے، وہاں زعفرانی، بریانی، فیرنی اور کباب قورمہ جیسی لذیذ غذائیں ہوں گی ، روح افزا جیسے لذیذ مشروب ہوں گے مشکی حنا اور شمامة العنبر او روح گلاب او رکیوڑہ جیسے عطریات ہوں گے۔ سیر وتفریح کے لیے پارک او رچمن ہوں گے ، سواری کے لیے موٹریں ہوں گی، عالیشان محلات ہوں گے ، تو ماں کے پیٹ والی ہماری پہلی دنیا میں ان چیزوں کا تصور بھی نہیں ہو سکتا تھا، لیکن جب الله کے حکم سے یہاں آئے اور الله نے یہ چیزیں نصیب فرمائیں تو اس کے بعد ہی ان کو جانا، بالکل اسی طرح سمجھنا چاہیے کہ الله تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لیے جو نعمتیں جنت میں تیار کر رکھی ہیں اُن کا یہاں ہم تصور بھی نہیں کر سکتے، وہ ہمارے ادراک وخیال کی پرواز سے بھی وراء الوراء ہیں، بس وہاں پہنچ کر ہی ہم اُن سے آشنا ہوں گے۔

آخرت او رجنت میں عطا ہونے والی اُن سب نعمتوں کو اس آیت میں ”اجر عظیم“ فرمایا گیا ہے ، ان نعمتوں کے حاصل کرنے کا راستہ کیا ہے ؟ او ران کی قیمت کیا ہے جو ہم کو ادا کرنی ہے ؟ بس وہی اعمال واوصاف جن کا اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے ، میں نے عرض کیا تھاکہ الله کے جو بندے جس درجہ میں یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لیں وہ اسی درجہ میں ”مومن کامل“ اور ” الله کے ولی“ اور یہ آیت ”ولایت الہٰی کا منشور“ ہے۔
تصوف اور صوفیہ
بزرگان دین کی خانقاہوں کا اصل موضوع یہی تھا کہ الله کے طالب بندے وہاں کے خاص ماحول میں رہ کر یہ ایمانی اوصاف اور یہ اخلاق واعمال اپنے اندر پیدا کر لیں اور ان کی ایسی مشق کر لیں کہ یہی ان کی طبیعت ثانیہ ہو جائے، بس یہی تصوف ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔

ان مطلوبہ اوصاف میں آخری او رانتہائی چیز” الله تعالیٰ کا ذکر کثیر“ ہے ، سب سے آخر میں فرمایا گیا ہے﴿والذاکرین الله کثیراً والذاکرات﴾ پھر آگے اسی سورت میں چند ہی آیتوں کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے ﴿یا أیھا الذین اٰمنوا اذکروا الله ذکر اً کثیراً﴾ (اے ایمان والے بندو !الله کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو اور اس کو بہت یاد رکھو)

حضرت عبدالله بن عباس نے انہی آیتوں کی روشنی میں فرمایا ہے کہ ” الله تعالیٰ کی طرف سے بندوں کو جن عبادتی اعمال کا حکم دیا گیا ہے ، اُن سب کی ایک حد مقرر ہے کہ بس اتنا ضروری ہے اس کے بعد چھٹی۔ نماز روزہ، حج وغیرہ سب کا یہی حال ہے ۔ لیکن ”ذکرالله“ کے لیے ایسی کوئی حد مقرر نہیں کی گئی ہے، بلکہ حکم ہے کہ ہر وقت اور ہر حال میں اس کو یاد کرو اور یاد رکھو۔ ارشاد فرمایا گیا ہے ﴿فاذکروا الله قیاماً وقعوداً وعلی جنوبکم﴾ ( یعنی الله کا ذکر کرو کھڑے ہونے کی حالت میں اور بیٹھے ہونے کی حالت میں اور جب تم لیٹے ہوئے ہو ) اس کا کھلا مطلب یہی ہے کہ الله تعالیٰ کی یاد تمہارے دل ودماغ میں اس طرح بس جانی چاہیے کہ کسی حال اُس سے غفلت نہ ہو، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ امت کے تمام طبقوں میں یہ دولت صرف مشائخ ربانی کاحصہ ہے، جن کو ”صوفیہ“ کہا جاتا ہے۔

ایک حدیث شریف کا مضمون ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ الله کے بندوں میں کون لوگ افضل اورزیادہ بلند مرتبہ ہیں؟آپ نے ارشاد فرمایا”والذاکرین الله کثیراً والذاکرات“یعنی الله کا بہت زیادہ ذکر کرنے والے بندوں او ربندیوں کا درجہ اور مرتبہ سب سے اعلیٰ وبالا ہے۔ (مشکوٰة باب ذکرالله، بحوالہ احمد وترمذی)

الله تعالیٰ اس دولت کا کچھ نہ کچھ حصہ ہم آپ سب کو نصیب فرمائے اور الله کی رحمت سے یقین کے ساتھ امید ہے کہ ہم آپ میں جو بھی سچے دل سے اس کا طالب ہو گا اور اُس کے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا اور الله تعالیٰ سے دعا بھی کرتا رہے گا، ان شاء الله وہ محروم نہ رہے گا۔

﴿سبحانک اللھم وبحمدک، ونشھد ان لا الہ الا انت، نستغفرک ونتوب الیک﴾․



امت کا بگاڑ ۔۔۔ اسباب ، حل ،علاج
حکم الامت، مجدد ملت، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ و قدس سرہ فرماتے ہیں: ”امتی من حیث ہو امتی کے اعتبار سے دنیوی انقلاب تو مطمح نظر ہو نہیں سکتا۔“ (اصلاح انقلاب امت: ج1/ص16)

حضرت رحمة اللہ علیہ کیا فرمانا چاہتے ہیں، آپ غور کریں؟ حضرت یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آج کی مادی ترقی کی ظاہری چمک دمک کو دیکھ کر ہماری آنکھیں خیرا ہیں اور ہم مسلمان بھی یہی سوچنے لگے ہیں کہ مادی ترقی ہی اصل ہے اور ترقی کے لفظ کو سن کر گویا ہمارا ذہن اسی طرف فوراً سبقت کرتا ہے کہ خوب عیش و عشرت اور طاقت کا سامان مہیا ہو جانا یہ ترقی ہے، نہیں، اگر ہم من حیث الامة یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہونے کی حیثیت سے ہم غور کریں تو ہمارے پیشِ نظر ہر حالت میں اللہ کی رضا اور خوش نودی ہونی چاہیے، اگر اس بات کو پیش نظر رکھیں تو ترقی کا صحیح اسلامی مفہوم ہوگا: اخلاص و للہیت کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور ان کی محبت کے لیے جہد مسلسل جو قرآن کے بیان کے مطابق ایک ہی لفظ ”تقویٰ“ میں موجود ہے۔ لہٰذا جس میں جتنا زیادہ تقویٰ ہوگایعنی گناہوں سے اجتناب اور اعمال صالحہ پر محنت ہو گی و ہ اتنا ہی زیادہ ترقی یافتہ ہوگا، چاہے اس کے پاس حسن و جمال نہ ہو، مال و منال نہ ہو، مکان و دکان نہ ہو ۔﴿ان اکرمکم عند اللہ اتقاکم﴾!

آج سے تقریباً 70 سے لے کر80 سال قبل امت کے دینی احوال کو دیکھ کر حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ #
        اے بسرا ہر وہ یثرب بخواب
        خیز کہ شد مشرق ومغرب خراب
        اے وہ ذات جو مدینہ میں محو خواب ہے
        اٹھیے کہ مشرق و مغرب برباد ہوگئے

یعنی امت کی حالت ایسی بدتر ہے کہ نبی کی روح بھی کانپ اٹھے، اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم 14صدیاں پیشتر امت کو ایک کامل و مکمل شریعت اور دستور حیات دے کر گئے تھے اور جب دنیا سے پردہ کررہے تھے انسانوں کی ایک جماعت پورے طور پر اس پر عمل پیرا تھی، مگر آج امت عملی اعتبار سے بالکل دین سے دور ہو چکی ہے۔

دین کے شعبے اور امت کا بگاڑ
دین اسلام ویسے تو بے شمار شعبوں اور اجزا پر مشتمل ہے، اگر اس کو بڑے بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جائے تو کل پانچ اجزا اور شعبے بنتے ہیں: عقائد۔ عبادات۔ معاملات۔ معاشرت اور اخلاق۔

عقائد اور انقلاب تغیر
عقائد کے باب میں مسلمانوں میں واضح الفاظ میں انکار تو نہیں پایا جاتا، مگر تدین کے لبادہ میں تغیر اور ردوبدل ضرور ہوا ہے کہ دین اور اصلاح کے نام پر طرح طرح کی بدعنوانیوں کا ظہور امت میں عام ہے۔ نصوص یعنی قرآنی آیات اور احادیث کا صریح انکار تو نہیں کیا گیا مگر باطل تاویلات ضرور کی گئیں۔

عقائد اور ان کا انکار
ہاں !البتہ ایک بڑا طبقہ جو جدید تعلیم یافتہ ہے اس نے عقائد میں انکار کی بھی جسارت کی ہے، مثلاً غیر محسوس و غیر مرئی کا انکار، جیسے معجزات کا انکار، عذاب قبر کا انکار، احادیث کی حجیت کا انکار، فرشتوں کے وجود کا انکار، بلکہ انکار سے تجاوز کرکے جمہور کے عقائد کے ساتھ مذاق اور اس کی حقارت۔ اور جب ان کی ان حرکتوں پر علما نے کفر اور ضلالت کے فتوے لگائے توانہیں ”متعصب“ کا لقب دیا گیا۔ یہ تو حضرت تھانوی کے دور تک تھا، اب تو علما اور متدین حضرات کی ذلت کے ساتھ ساتھ اسلاف کی کتابوں سے آگے پیچھے کی عبارات کاٹ کرکے ان بیچارے مخلصوں پر، جنہوں نے دین کے تحفظ کی خاطر اپنی پوری زندگی اور زندگی کی توانائی اورمال و دولت سب کچھ صرف کردیا، ان کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے، اللہ صحیح ہدایت عطا فرمائے۔

عبادات سے امت کی غفلت
عبادات میں امت ترک اور اہمال کا شکار ہوچکی ہے، امت کی اکثریت نے نماز کو ترک کردیا ہے، ایک طبقہ روزے سے بیزار ہے اور ایک طبقہ باوجود صاحب نصاب ہونے کے زکوٰة کی ادائیگی سے انکاری ہے، ایک طبقہ ایسا ہے جوحج فرض ہونے کے باوجود فریضہٴ حج کی ادائیگی میں تامل کرتاہے۔

معاملات، معاشرت اور اخلاق اجزائے دین میں کوتاہی
مذکورہ دو شعبوں کے علاوہ تین شعبوں میں سب سے زیادہ خرابی واقع ہوئی ہے، عام مسلمانوں نے ان تینوں شعبوں کو تو گویا اجزائے دین سمجھنا ہی چھوڑ دیا ہے اور اسے اپنے طور پر، جیسا سمجھ میں آتا ہے، انجام دیتے ہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر خرابی یہ ہوئی کہ شریعت کے ان تینوں شعبوں سے متعلق احکام کے مقابلہ میں کوئی نہ کوئی رسم ایجاد کرلی اور پھر اس کو اپنی زندگی کا دستور العمل بنا لیا اور شریعت کی صریح مخالفت کے باوجود اسے سمجھنا بھی فراموش کردیا ،بلکہ اسے فخریہ انداز میں بیان کرتے ہیں؛ جیسے سود کے لین دین کو نئے نئے نام دے کر؛ مثلاً انٹرسٹ، یوژری یا میں اپنی خوشی سے زائد رقم ہدیہ دیتا ہوں، وغیرہ۔ معاشرت مثلاً نکاح میں نئی نئی رسومات، جیسے مہندی کی رسم، دولہا دولہن کا بے پردہ اسٹیج پر بیٹھنا اور ناک کھینچنا، ناچ گانا، تصویر کشی، جوتے چپل چھپانا، مہر میں افراط و تفریط ،وغیرہ۔ اخلاق میں جیسے گالی گلوچ، لوگوں کے ساتھ بداخلاقی سے پیش آنا ،وغیرہ۔

گویا پہلے دو شعبوں کے مقابلہ ان تین شعبوں میں خرابی زیادہ ہے کیوں کہ ان شعبوں کو دین سے خارج ہی سمجھ لیا ہے، عقائد میں تغیر او رباطل تاویلی عبادات میں تقصیر ۔تو یہاں تو سرے سے دین کے جز ہی سے انکار اور وہ بھی صراحتاً اور کریلا وہ بھی نیم چڑھا، یعنی ان کی جگہ رسومات کا اختراع کرلیا اور پھر دینی احکام پر انہیں مخترعات کو ترجیح دی۔

مسلمانو! ذرا ہوش کے ناخن لو
امت دین سے اتنی دور ہوگئی کہ الامان و الحفیظ ،یعنی چہرے، بشرے اور اعمال و اعمال و اخلاق سے ”امت محمدیہ“ کا فرد ہے اس کا بھی علم نہیں ہوتا اور اگر دعویٰ بھی کرے تو وہ جھوٹا ہے۔

میرے مسلمان بھائیو! ذرا ہوش میں آوٴ!! اپنی حالت پہ متنبہ ہو جاوٴ، کیا مرنا نہیں ہے؟ کیا زندگی کا حساب نہیں دینا ہے؟ اللہ کے سامنے کیا منھ لے کر قیامت کے دن حاضر ہوگے؟ کب اپنی اصلاح کی فکر کروگے؟ آخر آپ اور ہم کس چیز کا انتظار کررہے ہیں؟ کیا مرض الموت کاانتظار کررہے ہیں؟ یا موت کا؟ یا وحی جدید کا؟ سو اس کی تو گنجائش نہیں۔ موت تو بہرحال آنی ہے ،مگر کیا اس وقت کچھ کرسکوگے؟

بدترین حالات کے اسباب
اب تک تو یہ بیان کیا گیا کہ امت اس وقت زندگی کے ہر شعبہ میں دین سے کتنی دور ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوا اور خیر امت مصائب کے بھنور میں کیسے پھنسی؟ تو آئیے اسباب کو جانتے ہیں اور پھر علاج اور طریقہٴ اصلاح پر گفتگو کریں گے۔ ان شاء اللہ

انسان دو چیزوں سے مرکب ہے، ایک روح اور دوسرے بدن۔ جس طرح بدن کبھی صحت یاب ہوتا ہے، کبھی بیمار ہوتا ہے اور جب بیمار ہوتا ہے تو علاج ومعالجہ کیا جاتا ہے تو ڈاکٹر سب سے پہلے اسباب مرض کو جاننے کی کوشش کرتا ہے اور پھر علاج تجویز کرتا ہے۔ اسی طرح روح بھی بیمار ہوتی ہے اور روح کی بیماری دین سے دوری، بھلائی سے تعرض، نیکی سے فرار ہے، برائی سے محبت اور گناہوں پر اصرار ،و غیرہ۔ اب یہ بیماریاں بھی بغیر سبب کے نہیں ہوتیں، کیوں کہ دنیا دارالاسباب ہے، لہٰذا سنة اللہ ہے کہ عام طور پر دنیا میں ہر چیز اسباب کے تابع ہوتی ہے۔

دواہم اسباب
ویسے تو اگر تدبر کیا جائے تو ہماری پستی اور تنزلی کے بے شمار اسباب ہیں، مگر حکیم الامت، مجدد ملت حضرت تھانوی کے بیان کے مطابق دو اسباب امہات الاسباب کا درجہ رکھتے ہیں:
1.  قلت علم، یعنی دینی تعلیم سے ناواقفی اور بے خبری۔
2.  ضعف ہمت ،یعنی قصد وارادہ کی کمی یا فقدان۔ (اصلاح انقلاب امت : ج1/ص20)

آئیے! ان دونوں اسباب کی تشریح و توضیح کردوں، کیوں کہ حضرت رحمة اللہ علیہ کی تحریر و تقریر تو متن ہوتی ہے، مختصر الفاظ میں بہت کچھ سمو دینا ہی حضرت کا طرہٴ امتیاز ہے، جس کو بہت سے کم فہم لوگوں نے ”عیب“ تصور کرلیا ہے۔

حضرت فرمانا چاہتے ہیں کہ سب سے اہم سبب تو دینی تعلیم سے ناواقفیت اور جہالت ہے، نہ امت کی اکثریت کو عقائد کا صحیح علم، نہ احکام کا ، نہ معاملات کا، نہ معاشرت کا اور نہ ہی اخلاق کا۔ دینی علم سے امت بالکل نابلد یا کم سے کم واقف ہے۔ جب کہ ایک مسلمان کے لیے سب سے زیادہ اہم دینی تعلیم ہے، وہ اس کے بغیر اسلامی اور ایمانی زندگی گزار ہی نہیں سکتا؛ مکمل نہیں تو کم از کم ہر شعبہٴ زندگی سے متعلق بنیادی اور اصولی احکام سے تو واقف ہونا چاہیے اور یہ ایسے ہی نہیں ہوا، بلکہ دشمنان اسلام اور خاص طور پر اہل کتاب کی و سیع اور گہری سازشوں کے بعد ہوا ہے، کیوں کہ اہل کتا ب وکفار نے اس بات کو بھانپ لیا تھا کہ محض طاقت کے بل بوتے پر مسلمانوں کو شکست نہیں دی جاسکتی کیوں کہ وہ غزوہٴ خندق، غزوہٴ خیبر، غزوہٴ تبوک، غزوہٴ قادسیہ اور پھر اس کے بعد صلیبی جنگوں میں صلاح الدین ایوبی اور قسطنطیہ میں محمد الفاتح سے باوجود عظیم طاقت کے شکست و ہزیمت سے دوچار ہوچکے تھے۔ آخر کار صدیوں کے غوروفکر اور تدبر کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ ان کو قرآن سے، حدیث سے، ایمان سے، حب رسول سے جب تک دور نہیں کیا جاتا یہ شکست خوردہ ہونے والے نہیں، لہٰذا صلیبی جنگوں کے بعد صدیوں کی سازشوں کے بعدمسلمانوں کو مادی علوم میں منہمک کرنے کا پلان بنایا گیا، جس کے لیے انہیں ضرورت تھی خلافت کو ختم کرنے کی، لہٰذا قومیت کا ناپاک بیج مسلمانوں میں بو دیا، پھر مسلمان اسلام کے بجائے عربیت‘ ترکیت‘ عجمیت‘ فارسیت پر مجتمع ہونے لگا ،جس سے ان میں اختلاف برپا ہوا اور پھر اہل کتاب نے Divide and Rule یعنی آپس میں لڑاوٴ اور سرداری کروکے پیش نظر مسلمانوں کو خوب لڑوایا، یہاں تک کہ 1923ء میں خلافت کا خاتمہ ہوگیا اور پھر پوری دنیا پر استعمار حاوی ہونے لگا اور استشراق کو گلوبلائیزیشن کا نام دے کر پوری دنیا کے تعلیمی نصاب کو مرتب کیا اور ”مادی علوم“ میں ایسا منہمک کیا گیاکہ دینی علوم کے لیے وقت نہ مل سکا اوراس طرح امت دینی تعلیم سے بیگانہ اور دور ہوگئی، جس کی حشرسامانیاں آج ہماری نظروں کے سامنے ہیں نہ ایمانیات کا پتہ، نہ عبادات و احکام کاپتہ، نہ معاشرت و اخلاق کا پتہ، نہ حلال معلوم نہ حرام؛ اس طرح ایمان کمزور ہوگیا۔ مسلمانوں کی نظریں مسبب الاسباب یعنی اللہ سے ہٹ کر کافروں کی طر ح محض اسباب پر ٹھہر گئیں اور جب اسباب ہی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا تودشمن کی طاقت سے مرعوبیت کا شکار ہوگئے اور پھر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے دشمن کی طرح تیاری شروع کردی تو دنیا کی محبت دل میں بیٹھ گئی، پھر جب دیکھا کہ دنیا طلبی کے لیے کافی وقت درکار ہے تو اصلاح کے نام سے باطل تاویلات شروع کردی؛ اس طرح یکے بعد دیگرے تنزل کے اسباب پیدا ہوتے رہے۔

اہل کتاب نے جب دیکھا کہ یہ مسلمان جال میں پھنس چکا ہے تو مطالعہ مشرق کے نام پر استشراق کی بنیاد ڈالی ، اپنی سازشیں اور تیز کردیں۔ مسلمانوں کی دینی تعلیم سے غفلت کا بھرپور فائدہ اٹھایا؛ پھر عصری اور دنیوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے عرب‘ مصر‘ ترکی اور ہندوستان وغیرہ سے مسلمان نوجوانوں کا ایک طبقہ فرانس‘ انگلینڈ وغیرہ یورپی ممالک کی طرف گیا، جہاں ایک منظم سازش کے تحت ان کی ”برین واشنگ“ کی گئی مثلاً ترکی کا پاشا اتاترک وغیرہ، مصر سے طہٰ حسین، رفاعہ طحطاوی، احمد امین وغیرہ۔ ہندوستان سے عنایت اللہ علامہ مشرقی وغیرہ اور پھر جب یہ لوگ اپنے اپنے ممالک لوٹے تو ضعیف ا لایمان اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان سے متأثر ہوگیا، کیوں کہ مذکورہ افراد اپنے باطل نظریات اور افکار کی اشاعت بھی کرتے تھے ۔ اس طرح ”تجدد پسند“ ، ”مغرب زدہ“ افراد کا ایک اور گروہ وجود میں آگیا۔ جمال افغانی، محمد عبدہ، رشید رضا، سرسید، غلام احمد پرویز، عبداللہ چکڑالوی، عبداللہ جے راجپوری، عنایت اللہ مشرقی، عامر عثمانی، حامدی، ارشد شاز وغیرہ اسی قبیل سے ہیں۔ انہیں لوگوں نے آزادئ نسواں، مساوات مردوزن وغیرہ کے اسلامی تعلیمات سے متصادم نظریات مسلمانوں میں رائج کیے اور بس پھر تو کیا تھا؟ باطل تاویلات کا دروازہ سرپٹ کھول دیا گیا اور افغانی ،عبدہ ،سرسید وغیرہ نے حد کردی، قرآن کی تفسیر بھی عقلیات کے نام پر غیرمعقول اور غیرشرعی انداز میں کی اور احادیث کی تو حجیت ہی کا انکار کردیا اور فقہ کو دریا برد کرکے خود ہی مجتہد بن بیٹھے۔ بس پھر کیا تھا سود کو یوژری اورIntrest کے نام دے کر جائز قرار دیا۔ دین اور سیاست کو الگ الگ کردیا اور جمہوریت کی تائید کی، معیشت اور دین کو الگ کردیا اور سرمایہ داریت و اشتراکیت کی تائید، جہاد کی فرضیت کا انکار کیا، نظریہٴ ارتقا کو قرآن و حدیث سے ثابت کیا؛ گویا مغرب سے مرعوبیت کا شکار ہوکر اصول اجتہاد سے ہٹ کر اجتہادات کیے۔ یہ ہوئے دینی تعلیم سے غفلت کے اسباب۔

دوسرا سبب ضعف ہمت۔ یعنی گناہو ں کو اور خلاف شرع امور کو چھوڑنے، مطابق شرع احکامات پر عمل کرنے میں ہمت اور ارادے کا فقدان ، اتباع خواہشات میں ایسے پھنسے کہ ہمت ہی نہ رہی کہ چلو بھائی! یہ چیز شریعت کے خلاف ہے، لہٰذا ترک کردیں۔ یہ چیز شریعت کے عین موافق ہے یا فرض ہے تو کسی طرح بھی کرلیں ۔اسی لیے آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان کتنے جری ہوکر اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں ،نہ چہرے پر داڑھی ، نہ بدن پر اسلامی لباس اور نہ وضع قطع، نہ گناہوں سے اجتناب، کھلے عام گناہوں کا ارتکاب، مثلاً گانا بجانا اور سننا، ناچ دیکھنا، شراب نوشی کرنا، پائجامہ ٹخنوں سے نیچے پہننا، گھروں میں TV بسانا، کھیل کود میں مشغول ہونا وغیرہ۔ حالاں کہ یہ سب کام خلاف شرع ہیں، مگر نہ چھوڑنے کا ارادہ اور نہ ہمت، بلکہ انہیں گناہ سمجھنا ہی چھوڑ دیا، گویا احساس گناہ ہی ختم ہوگیا، جب کہ اس کا انجام بہت بدترین ہوتا ہے۔ انسان ایمان سے بھی محروم ہوسکتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ ہماری پستی اور تنزلی کے اسباب دو طرح کے ہیں: ایک اسباب رئیسہ اور دوسرے اسباب ذیلیہ۔

اسباب رئیسہ دو ہیں: دینی تعلیم سے دوری یا اس کی قلت گناہوں کو ترک نہ کرنے اور نیکی کرنے کی ہمت اور ارادے کا فقدان۔ اور اسباب ذیلیہ بہت سے ہیں۔ مثلاً ضعف ایمان، حب دنیا اور دشمن کا خوف، اصلاح اور ترقی کے نام پر افساد، دین اور سیاست میں جدائی، خلافت اسلامیہ کا سقوط، دشمن سے مرعوبیت؛ مغرب سے متاثر ہوکر اسے اپنا آئیڈیل بنانا، مستشرقین اور مغرب زدہ مسلمانوں کی مسلسل کوششیں، دنیوی تعلیم میں ضرورت سے زیادہ انہماک، مسلمانوں کا اپنی اولاد کی دینی تربیت نہ کرنا، مسلمانوں کا چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپسی اختلاف و انتشار کا شکارہونا، عوام کا علماء سے کٹ جانا، بلکہ متنفر ہو جانا، معاصی اور فواحشات اور لغویات میں زندگی کی قیمتی سانسوں کو برباد کرنا وغیرہ۔

ہم موجودہ حالات سے کیسے نجات پاسکتے ہیں؟
ہمارے بدترین احوال اور ان کے اسباب کے بعد اب ہمیں سب سے زیادہ جس چیز کو جاننا اور سمجھنا ہے وہ ہے اسباب علاج اور حل ۔ جیسا کہ ابھی اوپر بیان کیا گیا۔ ویسے تو ہماری پستی کے بہت سے اسباب ہیں، مگر دو اہم اسباب ہیں، بالکل اسی طرح ہماری پستی سے نکلنے کے بہت سے حل اور علاج ہے، مگر اساسی اور بنیادی حل جس کو امہات الاسباب کہا جاسکتا ہے وہ بھی دو ہی ہیں: ایک ،دینی تعلیم سے واقفیت، دوم، ہمت اور حوصلہ۔

سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے ذہن و دماغ سے یہ بات نکال دیں کہ دین سے وابستگی اور دینی تعلیم‘ تنزلی کا ذریعہ ہے؛ بلکہ سب سے زیادہ ضرورت ہی دینی تعلیم کی ہے۔ قرآن کا اعلان ہے: ﴿إن تنصروا اللہ ینصرکم ویثبت اقدامکم﴾ اگر تم اللہ کی مدد (یعنی اطاعت) کروگے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا۔ اور تمہارے قدموں کو جما دے گا۔ لہٰذا امت کا ہر فرد اس بات کو اپنی اولین ذمہ داری سمجھے کہ مجھے اور اپنی اولاد اور اہل خانہ کو دین کی بنیادی باتوں کا علم حاصل کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے کوئی نہ کوئی طریقہ اختیار کرے۔

تحصیل علم کے دستور العمل
جن لوگوں کو اللہ نے کافی و شافی مال و دولت سے نوازا ہو وہ اپنی اولاد کو دینی تعلیم کے لیے وقف کردیں اور نہیں تو کم از کم بنیادی تعلیم تو دلوا ہی دیں، ورنہ کل قیامت کے دن اللہ کے یہاں باز پرس ہوگی، اولاد کا باپ پرسب سے پہلا حق ان کی صحیح تعلیم و تربیت ہے، مگر آج ہم نے دنیوی تعلیم ہی کو سب کچھ جان لیا ہے، دینی تعلیم فرض عین ہے ، کسی عالم سے رابطہ کرکے، اگر تاجر ہے تو بنیادی عقائد کے ساتھ ساتھ تجارت کے مسائل کی تعلیم دلوا دے، تاکہ حلا ل و حرام کی تمیز ہوسکے، اگر کہیں نوکری کرتا ہے اور اولاد کو بھی اسی پیشہ میں لگانا ہو تو اسے بھی اجرت کے بنیادی مسائل سے واقف کروادے اور خود بھی اگر دین کی تعلیمات سے ناواقف ہے تو کسی عالم سے ربط پیدا کرکے علم دین حاصل کرے۔

اور اگر باپ غریب ہے تو بھی بہرحال اولاد کو دین کی بنیادی تعلیم تو کسی طرح بھی دلوادے اور الحمدللہ آج تو مکاتب کا نظام بھی کافی عام ہوچکا ہے، لہٰذا اپنی اولاد کو مکاتب میں پابندی سے بھیجے اور ان کے استاذ سے باز پرس بھی کرے اور جس طرح اسکول کے ہوم ورک کی فکر کرتے ہیں، گھر میں دینی تعلیم کا بھی مذاکرہ کریں اور اپنی اولاد پر خاص توجہ دیں۔

اگر آپ اور بچے اردو پڑھ لیتے ہیں تو گھر میں چند کتابیں رکھیں اور سب باری باری اس کا مطالعہ کرتے رہیں، کتابوں میں مثلاً بہشتی زیور، حیاة المسلمین، معارف الحدیث، معارف القرآن، تعلیمات اسلام، حیاة الصحابہ، فضائل اعمال وغیرہ، انشاء اللہ بہت فائدہ ہوگا اور اگر اردو نہیں جانتے تو مذکورہ کتابوں کا بھی انگریزی ہوچکا ہے، اس کے علاوہ مولانا تقی عثمانی صاحب کی تفیہم ( Nots of The noble Quran) وغیرہ سے اپنے گھر کو بسائے اور ان میں سے اکثرکتابوں کا ہندی‘ گجراتی وغیرہ میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے۔

اور جو لوگ بالکل ناخواندہ ہیں، یعنی پڑھنا لکھنا نہیں جانتے وہ کسی عالم کو ہر ہفتہ اپنے یہاں بلائیں یا ان کے پاس جاکر ایک گھنٹہ بیٹھیں اور ان سے دین کی بنیادی باتیں سیکھیے اور کسی بھی کام کرنے سے پہلے مفتی صاحب کی طرف رجوع کریں اور پوچھ لیں کہ یہ جائز ہے یا نہیں ؟اگر نہ مل سکیں تو فون پر یا خط‘ فیکس‘ ای میل وغیرہ کے ذریعہ معتبر علماء سے اپنے مسائل دریافت کریں۔

عورتوں کی دینی تعلیم کی فکر بھی بہت ضروری ہے، کیوں کہ وہی اولاد کے لیے پہلا مدرسہ ہیں، کسی پڑھی لکھی یا معلمہ عفیفہ سے بچیوں کو دین کی بنیادی تعلیم سے آراستہ کیا جائے یا گھروں میں مسائل کی کتابیں مثلاً بہشتی زیور وغیرہ کی تعلیم پابندی سے کی جائے، اگر عورتیں نہ جانتی ہوں تو گھر کا کوئی سنجیدہ مرد ان کے درمیان تعلیم کردے اور گھر میں کسی متورع، متبع سنت عالم کا وعظ وقفے وقفے سے کرواتے رہیں۔

علماء اور طلبہ کس طرح دینی تعلیم کو عام کریں؟
سب سے پہلے تو علما اس بات کو سمجھیں اور طلبہ بھی کہ امت کو دین کا پیغام پہنچانا اور ان کو احکام و عقائد، اخلاق وغیرہ سے واقف کرنا، برائیوں سے روکنا، بھلائی کا حکم دینا‘ ہمارافریضہ اور ذمہ داری ہے، اگر ہم نے اس میں کوتاہی کی تو کل قیامت کے دن ہم جواب دہ ہوں گے، اپنے اسلاف کے احوال کا آپ مطالعہ کریں وہ کس طرح امت کو دین کے احکام سے روشناس کرواتے تھے۔

وکیع بن الجراح تلمیذ امام ابوحنیفہ و استاذ امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں فجر سے چاشت تک مسجد میں طلبہ کو پڑھاتا تھا، پھر زوال کے وقت کھیتوں میں چلا جاتا اور کسانوں کو جمع کرکے دینی احکام و مسائل سکھاتا یا سقایا کو بازار میں جمع کرکے پڑھاتا۔ (ہر طبقہ اور پیشہ میں علم اور علماء)

ہم تو یہ کہتے ہیں کہ پیاسا کنوویں کے پاس جائے گا، کنواں پیاسے کے پاس کیسے آئے گا؟ مگر یہ غلط ہے، ہماری ذمہ داری ایسی ہے کہ کنواں پیاسے کے پاس جائے، لہٰذا ہم اس میں کوتاہی نہ کریں، ہمہ وقت اسی فکر میں رہیں کہ امت کو کس طرح تعلیمی اعتبار سے نفع پہنچایا جائے۔

وعظ و نصیحت
اس وقت امت کو دینی تعلیم سے آشنا کرنے کے لیے سب سے موٴثر طریقہ وعظ اور تقریر ہے، مگر مصیبت یہ ہے کہ عام طور پر ہم اسرائیلی روایات اورحکایات و واقعات کو بیان کرتے رہتے ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم طلبہ و علماء، عوام الناس جس میں بہت زیادہ مبتلا ہیں اس کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیان کریں، مثلاً عقائد سے امت آج ناواقف ہے، تو اپنی تقریر میں ضروری عقائد بتلائیں، قرآن کی آیات پڑھ کر ان کو سمجھائیں، اگر جدید تعلیم یافتہ طبقہ سامنے ہے تو مادیت کے ابطال، خاص طور پر نظریہٴ ارتقاء، جنسیت وغیرہ کے غیراسلامی ہونے کو بتلائیں او رعقل کی روشنی میں اس کے ابطال کو ثابت کریں۔

امت کو احکام پر لائیں، مثلاً سود کے مسائل، وراثت کے مسائل، فاسد بیوعات کے مسائل، شرکت و مضاربت کے مسائل، مزدور طبقہ مخاطب ہو تو اجارہ کے مسائل۔

امت اسلامی معاشرت سے بالکل ہی نابلد ہے، تو اپنی تقریروں میں حقوق الوالدین، حقوق الاولاد، حقوق الزوج و الزوجہ، حقوق موٴمن، حقوق جار، حقوق حیوانات وغیرہ پر بھی خاص توجہ دیں۔

امت کی اسلامی اخلاق سے دوری تو انتہاء تک پہنچی ہوئی ہے، عوام تو عوام ،خواص بھی اس میں مبتلا ہیں، لہٰذا بتلائیں کہ اسلامی اخلاق کیا ہیں، کسی کو گالی نہ دینا، کسی کو تکلیف نہ پہنچانا، کسی کو ذلیل کرنے کے درپے نہ ہونا، حسد نہ کرنا، چوری نہ کرنا وغیرہ۔

وعظ و تقریر محض رضا الٰہی کی خاطر کریں، اس پر عوض نہ لیں اور نہ کسی سے امید رکھیں، ان اجری الا علی اللہ!

مذکورہ بالا صورتوں کو اختیار کرنے سے انشاء اللہ دینی تعلیم کا مسئلہ کافی حد تک حل ہوجائے گا، رمضان میں امت مسجد کی طرف پورے سال کے بالمقابل زیادہ آتی ہے۔ ہر نماز کے بعد صرف 5منٹ لے کر امت میں دینی تعلیم کی طلب پیدا کریں، اور خوب محنت سے کام لیں، اگر ایک آدمی بھی ہدایت سے مالامال ہو جائے گا تو ہوسکتا ہے کہ ہماری نجات کا ذریعہ بن جائے۔

ضعف ہمت کی تدبیر
آج ہماری ایک بڑی بیماری بلند ہمتی کا فقدان بھی ہے، ہم گناہوں کو چھوڑ نے کی ہمت نہیں کرتے، اعمال صالحہ کرنے کی ضرورت ہے کہ خوب مجاہدہ کریں اور ہمت سے کام لے کر گناہوں کو ترک کریں، نماز جماعت کے ساتھ پہلی صف میں پڑھنے کا مکمل التزام کریں، اپنے نفس پر قابو رکھیں۔ اللہ ہمیں ہمت عطا فرمائے اور ہم سے راضی ہو جائے۔

یہ تو ہوا اسباب تخلف اور اس کا علاج، اب چند ایسے امور پر متنبہ ہونا بھی ضروری ہے جو علاج کے لیے پرہیز کی حیثیت رکھتے ہیں، جیسے علاج کے ساتھ اگر پرہیز نہ ہو تو مریض اچھا نہیں ہوتا، ایسے ہی اعمال باطنیہ کا حال ہے ۔ لہٰذا اصلاح معاشرہ میں کون سی چیزیں مانع ہوسکتی ہیں ان کو بیان کیا جاتا ہے۔

کتب دینیہ کو پڑھنے یا سننے کا اہتمام اگر نہ ہو تو امت کی اصلاح نہیں ہوسکتی اور جس کتاب کے پڑھنے کا اہتمام ہو ا س کے بارے میں تحقیق لازم ہے کہ یہ کس کی لکھی ہوئی ہے اور لکھنے والا کیسا ہے؟ ورنہ نفع کے بجائے نقصان ہو جائے گا، لہٰذا کسی محقق عالم سے پوچھے بغیر کسی بھی کتاب کے پڑھنے اور تعلیم کرنے سے اجتناب کریں۔

جب بھی کوئی کام کرنا ہو تو علماء سے دریافت کرلیں کہ یہ حلال ہے یا حرام؟ جائز ہے یا ناجائز؟ اور اس میں دیکھیے کہ آپ کس سے دریافت کررہے ہیں؟ معتبر علماء ہی سے سوالات پوچھنے کا اہتمام ضروری ہے اور ایک مسئلہ دس سے نہ پوچھیں بلکہ ایک ہی سے دریافت کریں اور غیر ضروری سوالات نہ کریں۔

دینی تقریروں اور علماء کے بیانات کے سننے سے اگر اجتناب کیا گیا تو بھی بڑا نقصان ہے، لہٰذا معتبر علماء کی تقریریں سنتے رہیں۔

شیخ کامل کی صحبت میں وقفہ وقفہ سے حاضر ہوتے رہیں، شیخ کامل کی علامات یہ ہیں:

بقدر ضرورت علم دین رکھتا ہو ۔

عقائد واعمال میں شرع کا پابند ہو۔

دنیا کی حرص نہ رکھتا ہو۔

کما ل کا دعوی نہ کرتا ہو۔

کسی شیخ کامل کی صحبت میں کچھ عرصے رہا ہو۔

اس زما نے کے منصف علماء ومشائخ اس کو اچھا سمجھتے ہوں۔

بہ نسبت عوام کے خواص یعنی فہیم ‘دین دار لوگ اس کی طرف زیاد ہ مائل ہوں۔

اس سے جو لوگ بیعت ہیں ‘ان میں اکثر کی حالت باعتبار اتباع شرع وقلت حرص دنیا کے اچھی ہو۔وہ شیخ تعلیم وتلقین میں اپنے مریدوں کے حال پر شفقت رکھتا ہو ۔اور ان کی کوئی بری بات دیکھے یا سنے تو ان کو روک ٹوک کرتا ہو ۔یہ نہ ہو کہ ہرایک کو اس کی مرضی پر چھوڑدے ‘اس کی صحبت میں چند بار بیٹھنے سے دنیا کی محبت میں کمی اور حق تعالی کی محبت میں ترقی محسوس ہوتی ہو۔

خو د بھی وہ ذاکر شاغل ہو ۔اس لیے کہ بدون ِعمل یا عزم عمل‘ تعلیم میں برکت نہیں ہوتی ۔اور صدور کشف وکرامت اوراستجابت دعا ء لوازم شیخ سے نہیں ہیں۔

غرض ایسے حضرات کی صحبت ‘خاص طور پر موٴثر ہے ۔مگر اس کی صحبت کی تاثیر میں شرط یہ ہے کہ اس میں نیت بھی یہ ہوکہ میرے قلب میں رغبت طاعت اور نفرت معاصی پیدا ہو ۔اور اس کے ساتھ اس کا بھی التزام رہے کہ اپنی کیفیات قلب کی شیخ کو اطلا ع دے کر جو علاج تجویز فرمائیں اس پر کاربند ہو۔ (اصلاح انقلابِ امت:ص27)

موت کو فراموش نہ کریں، اسے یاد کرتے رہیں، کم از کم بیس منٹ موت، قیامت، جنت، جہنم، حشر، منکر نکیر کے سوالات، پل صراط، حساب وغیرہ پر غور و فکر کریں یا اس مضمون کی کتابوں کا مطالعہ کریں، مثلاً موت کی یاد، موت کا جھٹکا، جہنم کا کھٹکا، مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ وغیرہ۔

یہ مضمون درحقیقت حضرت تھانوی کی کتاب اصلاح انقلابِ امت کے حصہ اول میں ”مسلمان کیوں بدل گئے؟“ کو سامنے رکھ کر اس کی تسہیل ، تفسیر اور توضیح کرکے پیش کیا جارہا ہے۔

اللہ ہمارے لیے ہدایت کے فیصلے فرمائے اور امت اور ہم کو اعمال صالحہ کی توفیق سے نوازے اور اللہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے راضی ہو جائے۔ آمین یا رب العالمین!









 لَا يَشْرَبُ الْخَمْرَ رَجُلٌ مِنْ أَمَّتِي فتُقْبَل لَه صَلَاةُ أَرْبَعِين صَبَاحًا.
ترجمہ:
میری امت كا جوبھی شخص شراب پیئے گا توچالیس دن تك اس كی نماز قبول نہیں ہوگی۔
[الصحيحة:709 (779)، صحيحه ابن خزيمة ( 1 / 103 / 2 )]



السلسلة الصحيحة
کتاب: قربانی، ذبحہ ، عقیقہ،كھانے،پینے اور حیوانوں كےساتھ نرمی كرنے كا بیان
باب: قربانی، ذبحہ ، عقیقہ،كھانے،پینے اور حیوانوں كےساتھ نرمی كرنے كا بیان
حدیث نمبر: 830

عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم ‌قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : إِنَّ أُنَاسًا مِنْ أُمَّتِي يَشْرَبُونَ الْخَمْرَ يُسَمُّونَهَا بِغَيْرِ اسْمِهَا.

ترجمہ:
نبی ‌ﷺ ‌كے ایك صحابی نے بیان كیا كہ رسول اللہ ‌ﷺ ‌نے فرمایا: میری امت كے كچھ لوگ شراب پیئں گے اور اسے كوئی دوسرا نام دیں گے۔
الصحيحة:414 ()، مسند أحمد رقم (17379)]









No comments:

Post a Comment