Friday 16 August 2024

قناعت یعنی اللہ کی تقسیم پر راضی رہنے کی فضیلت

لغوی معنیٰ:

القَنَاعَة عربی زبان کا لفظ ہے، جس کی معنیٰ تھوڑی چیز پر رضا مندی، جو کچھ مل جائے اس پر صبر کرلینے کی خُو(عادت) ہے۔

"القَانِعُ" کے معنی رضامند کے ہیں۔ قناعت کے کچھ دوسرے معانی ہیں: چھپانا، قبول کرنا اور ماننا۔

[لسان العرب : 297/8]


اصطلاحی معنیٰ:

كَانَ غَيْرَ كَافٍ وَتَرْكُ التَّطَلُّعِ إِلَى المَفْقودِ.

ترجمہ:

قناعت ان نیک اخلاق(عادات) میں سے ہے، کہ موجود حلال چیزوں پر نفس کا راضی رہنا، خواہ وہ ناکافی ہو، اور جو نہیں ہے اس کے لیے خواہشات کو ترک کرنا ہے۔


تشریح:

القَنَاعَةُ مِنَ الأَخْلاَقِ الفَاضِلَةِ التي هِيَ مِنْ صِفاتِ الأَنْبِياءِ وَأَهْلِ الإِيمَانِ، وَهِيَ عِبارَةٌ عَنْ امْتِلاءِ قَلْبِ العَبْدِ بِالرِّضَا، وَالبُعْدِ عَنِ الغَضَبِ وَالشَّكْوَى عَمَّا لَمْ يَتَحَقَّقْ وَالطَّمَعِ فِيمَا لاَ يْمَلِكُ، وَالقَناعَةُ قِسْمانِ: 1- قَناعَةُ الفَقِيرِ، وَهِيَ الرِّضَا بِالحَلالِ المَوْجودِ وَتَرْكِ النَّظَرِ فِي الحَرامِ وَالغَضَبِ عِنْدَ فَواتِ نِعْمَةٍ. 2- قَناعَةُ الغَنِيِّ، وَهِيَ أَنْ يَكونَ رَاضِيًا شَاكِرًا مُسْتَعْملًا النِّعْمَةَ فِي طَاعَةِ اللهِ، لَا جَاحدًا طَامِعًا فِي أَموالِ الآخَرِينَ. وَالقَناعَةُ لَهَا فَوائِدُ عَدِيدَةٌ فَهِيَ شِفاءٌ وَدَواءٌ مِنْ أَمْراضِ الجَشَعِ وَالطَّمَعِ وَالحَسَدِ وَالسَّرِقَةِ وَغَيْرِهَا.

ترجمہ:

قناعت حسن اخلاق میں سے ہے جو انبیاء اور اہل ایمان کی خصوصیات میں سے ہے اور یہ اس بات کا اظہار ہے کہ بندے کا دل قناعت سے لبریز ہو اور دور رہے غصہ سے اور جو کچھ اسے حاصل نہیں ہوا اس کا شکوہ کرنے سے اور لالچ سے اس چیز کی جو اس کے پاس نہیں۔

قناعت دو قسم کی ہوتی ہے: (1)فقیر کی قناعت: جو موجود حلال پر راضی رہنے اور حرام میں نظر ڈالنے اور نعمت کے ضایع ہونے پر غصہ ہونے کو ترک کر دینا ہے۔ (2) مالدار کی قناعت: یہ ہے کہ وہ راضی اور شکر گزار ہو، اللہ کی اطاعت میں نعمت کا استعمال کرے، ناشکری اور دوسروں کے مال میں لالچ نہ رکھے۔

اور قناعت کے بہت سے فائدے ہیں، یہ حرص، لالچ، حسد، چوری اور دیگر روحانی-اخلاقی بیماریوں کے لیے شفاء اور دوا ہے۔

[معجم مقاييس اللغة : 33/5 - تهذيب الأخلاق : ص22 - الفروق اللغوية للعسكري : ص430 - لسان العرب : 297/8 - التوقيف على مهمات التعاريف : ص275 -]


 


امام الراغب الاصفہانی لفظ قناعت کے متعلق لکھتے ہیں کہ:

اقنع راسہ اس نے اپنے سر کو اونچا کیا ۔ قرآن میں ہے :

مُقْنِعِي رُؤُسِهِمْ

سر اٹھائے ہوئے

[سورۃ إبراهيم:43]

بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں قناع سے مشتق ہے اور قناع اس چیز کو کہتے ہیں جس سے سر ڈھانکا جائے۔ اس سے قَنِعَ (س) کے معنیٰ ہیں اس نے اپنے فقر(غربت) کو چھپانے کے لئے سر پر قناع اوڑھ لیا۔ اور قنع (ف) کے معنیٰ سوال کرنے کے لئے سر کھولنے کے ہیں۔ جیسا کہ خفی (س) کے معنیٰ چھپنے اور خفٰی کے معنیٰ خفاء کو دور کرنے یعنی ظاہر ہونے کے ہیں۔ اور رجل مقتنع کا محاورہ قناعۃ سے ہے یعنی وہ آدمی جس کی شہادت کو کافی سمجھا جائے، اس کی جمع مقانع ہے۔

[مفردات القرآن-امام الراغب» سورۃ ابراھیم:43]



(1)حضرت ابن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

قَدْ أَفْلَحَ مَنْ أَسْلَمَ، وَرُزِقَ كَفَافًا، وقَنَّعَهُ اللهُ بِمَا آتَاهُ

ترجمہ:

یقیناً وہ شخص کامیاب ہوا جس نے اسلام قبول کیا، اور اسے بقدرِ کفایت رزق عطا کیا گیا، اور اللہ نے اسے قناعت (یعنی اللہ کی تقسیم پر راضی رہنے) کی توفیق دی اس(رزق)پر جو اسے عطا کیا گیا۔

[صحیح مسلم:1054، سنن ابن ماجہ:4138، سنن الترمذی:2348، مسند احمد:6572، صحيح ابن حبان:270، المستدرك الحاكم:7149]


فقہ الحدیث:

کفایت شعاری اور قناعت پسندی کا بیان۔

[صحیح مسلم:1054(2426)]

گذارے کے لائق روزی پر صبر کرنا۔

[سنن الترمذي:2348+2349]

قناعت کا بیان۔

[سنن ابن ماجہ:4138]


اپنے ہاتھ کے کمائی کے ذریعہ (لوگوں سے مانگنے سے) پاکدامن اور بےپرواہ رہنے اور جو کچھ اللہ نے بغیر مانگے اسے عطا کیا اس کی فضیلت کا بیان۔

[السنن الكبرىٰ-للبيهقي:7868]




تشریح:

جن اخلاق کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کا محبوب اور اس دنیا میں بھی بہت بلند ہو جاتا ہے اور دل کی بے چینی اور کڑھن کے سخت عذاب سے بھی اس کو نجات مل جاتی ہے، ان میں سے ایک قناعت اور استغناء بھی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کو جو کچھ ملے اس پر وہ راضی اور مطمئن ہو جائے اور زیادہ کی حرص و لالچ نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ اپنے جس بندے کو قناعت کی یہ دولت عطا فرمائے، بلا شبہ اس کو بڑی دولت عطا ہوئی، اور بڑی نعمت سے نوازا گیا۔ اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کے چند ارشادات ذیل میں پڑھئے: 


تشریح:

بلا شبہ جس بندہ کو ایمان کی دولت نصیب ہو، اور ساتھ ہی اس دنیا میں گذارے کا کچھ ضروری سامان بھی، اور پھر اللہ تعالیٰ اس کے دل کو قناعت اور طمانیت کی دولت بھی نصیب فرما دے، تو اس کی زندگی بڑی مبارک اور بڑی خوشگوار ہے اور اس پر اللہ کا بڑا ہی فضل ہے۔ یہ قناعت اور دل کی طمانیت وہ کیمیا ہے جس سے فقیر کی زندگی بادشاہ کی زندگی سے زیادہ لذیذ اور پُر مسرت بن جاتی ہے۔ 

ایں کیمیائے ہستی قاروں کند گدارا

آدمی کے پاس اگر دولت کے ڈھیر ہوں، لیکن اس میں اور زیادہ کے لئے طمع اور حرص ہو، اور وہ اس میں اجافہ ہی کی فکر اور کوشش میں لگا رہے، اور "هل من مزيد" ہی کے پھیر میں پڑا رہے تو اسے کبھی قلبی سکون نصیب نہ ہو گا، اور وہ دل کا فقیر ہی رہے گا برخلاف اس کے اگر آدمی کے پاس صرف جینے کا مختصر سامان ہو، مگر وہ اس پر مطمئن اور قانع ہو تو فقر و افلاس کے باوجود وہ دل کا غنی رہے گا، اور اس کی زندگی بڑے اطمینان اور آسودگی کی زندگی ہوگی۔ اس حقیقت کو رسول اللہ ﷺ نے ایک دوسری حدیث میں ان الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے۔

[معارف الحدیث:372]











سب سے بڑا شکرگذار کون؟

حضرت ابوھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يَا أَبَا هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ كُنْ وَرِعًا تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ،‏‏‏‏ وَكُنْ قَنِعًا تَكُنْ أَشْكَرَ النَّاسِ،‏‏‏‏ وَأَحِبَّ لِلنَّاسِ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ تَكُنْ مُؤْمِنًا،‏‏‏‏ وَأَحْسِنْ جِوَارَ مَنْ جَاوَرَكَ تَكُنْ مُسْلِمًا،‏‏‏‏ وَأَقِلَّ الضَّحِكَ فَإِنَّ كَثْرَةَ الضَّحِكِ تُمِيتُ الْقَلْبَ.

ترجمہ:

اے ابوہریرہ! ورع(ڈرنے) والے بن جاؤ تم ہوجاؤ گے لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار، اور قناعت-پسند بن جاؤ تم ہوجاؤ گے لوگوں میں سب سے زیادہ شکر کرنے والے، اور لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو تم ہوجاؤ گے مومن، اور پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کرو تم ہوجاؤ گے مسلمان، اور کم ہنسا کرو کیونکہ زیادہ ہنسی دل کو مردہ کردیتی ہے۔

[سنن ابن ماجہ:4217، شعب الإيمان:5750، مسند ابويعلي:5865]




قناعت پسند یعنی جو کچھ اللہ نے عطا کیا اس پر راضی رہنے-صبر کرنے والا۔


کامل شکر یہ ہے کہ احسان کرنے والے محسن کے (1)دل میں احسانات یاد رکھنا (2)زبان سے احسانات بیان کرنا (3)عمل سے ان کا بدلہ احسان سے دینا۔




حضرت جابر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«عَلَيْكُمْ بِالْقَنَاعَةِ، فَإِنَّ الْقَنَاعَةَ مَالٌ لَا يَنْفَدُ ﴿وكنزٌ لا يفنى﴾»

ترجمہ:

تم لازم کرلو قناعت پسندی کو، کیونکہ قناعت وہ مال ہے جو ختم نہیں ہوتا۔﴿اور وہ خزانہ ہے جو فنا نہیں ہوتا﴾۔

[المعجم الاوسط للطبرانی:6922، ﴿الزهد الكبير للبيهقي:104﴾ الترغيب-للمنذري:1233، مجمع الزوائد:17869، کنزالعمال:7102]

قناعت کی مسنون دعائیں:

حضرت ابو امامہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایک شخص کو فرمایا: تو کہہ:

«اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ نَفْسًا بِكَ مُطْمَئِنَّةً، تُؤْمِنُ بِلِقَائِكَ، وَتَرْضَى بِقَضَائِكَ، وَتَقْنَعُ بِعَطَائِكَ»۔

ترجمہ:

اے اللہ! میں تجھ سے نفس مطمئنہ کا سوال کرتا ہوں جو تیری ملاقات پر ایمان رکھے، تیرے فیصلہ پر راضی رہے اور تیری عطاء پر قناعت پذیر ہو۔

[المعجم الکبیر للطبرانی:7490، وابن عساكر في تاريخ دمشق: 35/ 80 - 81 (3873)، 69/ 158 (9342)]

[جامع الاحادیث-السیوطی:15250+41346، کنزالعمال:3735+5082]




حضرت علی سے روایت ہے:

"أعطيك خمسة آلاف شاة أو أعلمك خمس كلمات؟ فيها صلاح دينك ودنياك، قل: اللهم اغفر لي ذنبي، ووسع لي خلقي وطيب لي كسبي وقنعني بما رزقتني، ولا تذهب طلبي إلى شيء صرفته عني".

ترجمہ:

میں تجھے پانچ ہزار نیکیاں دوں یا تجھ کو پانچ کلمات سکھاؤں جن میں تیرے دین اور تیری دنیا کی بھلائی ہے۔ یوں کہہ:

اللهم اغفر لي ذنبي، ووسع لي خلقي وطيب لي كسبي وقنعني بما رزقتني، ولا تذهب طلبي إلى شيء صرفته عني.

اے اللہ! میرے گناہ معاف فرما، میرے اخلاق کشادہ کر، میرا ذریعہ معاش پاکیزہ کر، جو رزق تو نے مجھے دیا ہے اس پر مجھے قناعت پسند کر اور مجھے ایسی چیز کی طلب میں نہ لگا جو تو نے مجھ سے پھیر دی ہے۔

[جامع الاحادیث-السیوطی:3783+32373، کنزالعمال:3834+5061]



حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ اس دعا کو بھی نہ چھوڑا کرتے تھے:

«اللَّهُمَّ قَنِّعْنِي بِمَا رَزَقْتَنِي،  وَبَارِكْ لِي فِيهِ، وَاخْلُفْ عَلَى كُلِّ غَائِبَةٍ لِي بِخَيْرٍ»

اے اللہ! مجھے قناعت دے میرے رزق پر اور اس میں میرے لیے برکت پیدا فرما، اور جو کچھ بھی ضائع یا کم ہوجائے تو اس کا بہتر بدل عطا فرما۔

[المستدرك الحاكم:1674، 1878، 3360، شعب الايمان:4047]

[تفسير ابن ابي حاتم:12651،سورۃ النحل:97]

[جامع الاحادیث-السیوطی:39030، کنزالعمال:5094]


قرآنی شواھد:

اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔۔۔

[سورۃ البقرۃ:45»تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:1/161]


القرآن:

(مالی امداد کے بطور خاص) مستحق وہ فقرا ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں اس طرح مقید کر رکھا ہے کہ وہ (معاش کی تلاش کے لیے) زمین میں چل پھر نہیں سکتے۔ چونکہ وہ اتنے پاک دامن ہیں کہ کسی سے سوال نہیں کرتے، اس لیے ناواقف آدمی انہیں مال دار سمجھتا ہے، تم ان کے چہرے کی علامتوں سے ان (کی اندرونی حالت) کو پہچان سکتے ہو (مگر) وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ اور تم جو مال بھی خرچ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔

[سورۃ البقرۃ:273»تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:2/96]


القرآن:

جس شخص نے بھی مومن ہونے کی حالت میں نیک عمل کیا ہوگا، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے، اور ایسے لوگوں کو ان کے بہترین اعمال کے مطابق ان کا اجر ضرور عطا کریں گے۔

[سورۃ النحل:97»تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی:5/165]



القرآن:

دیکھو ہم نے کس طرح ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دے رکھی ہے۔ اور یقین رکھو کہ آخرت درجات کے اعتبار سے بہت بڑی ہے، اور فضیلت کے اعتبار سے بھی کہیں زیادہ ہے۔

[سورۃ الاسراء:21»تفسیر ابن کثیر:6/523]

تفسیر:

(11) یعنی دنیا میں کسی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت زیادہ رزق عطا فرمایا ہے، اور کسی کو کم، البتہ جس چیز کے لئے انسان کو پوری کوشش کرنی چاہیے وہ آخرت کے فوائد ہیں کیونکہ وہ دنیا کے فوائد کے مقابلے میں بدرجہا زیادہ ہیں۔



القرآن:

اور تمہیں نادار پایا تو غنی کردیا۔

[سورۃ الضحیٰ:8»تفسیر البغوي:2385]

تفسیر:

(5)حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ آپ نے تجارت میں جو شرکت فرمائی، اس سے آپ کو اچھا خاصا نفع حاصل ہوا تھا۔


شواھدِ احادیث:


نبی ﷺ اور آپ کے صحابہ کے زندگی گزارنے اور دنیا ( کی لذتوں) سے علیحدہ رہنے کا بیان۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَا أَكَلَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْلَتَيْنِ فِي يَوْمٍ إِلَّا إِحْدَاهُمَا تَمْرٌ.

ترجمہ:

حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کے گھرانہ نے اگر کبھی ایک دن میں دو مرتبہ کھانا کھایا تو ضرور اس میں ایک وقت صرف کھجوریں ہوتی تھیں۔

[صحیح بخاری:6455]


عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ إِنْ كُنَّا آلَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ لَنَمْكُثُ شَهْرًا مَا نُوقِدُ فِيهِ بِنَارٍ،‏‏‏‏ مَا هُوَ إِلَّا التَّمْرُ وَالْمَاءُ‏‏‏۔

ترجمہ:

ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ ہم آل محمد ﷺ مہینہ ایسے گزارتے تھے کہ ہمارے گھر میں آگ نہیں جلتی تھی، سوائے کھجور اور پانی کے کچھ نہیں ہوتا تھا۔

[سنن ابن ماجہ:4144، صحیح مسلم:2972، صحیح البخاری:2567، 6458، سنن الترمذی:2471]



عَنْ عَائِشَةَ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ لَقَدْ كَانَ يَأْتِي عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ الشَّهْرُ مَا يُرَى فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِهِ الدُّخَانُ،‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ فَمَا كَانَ طَعَامُهُمْ؟ قَالَتْ:‏‏‏‏ الْأَسْوَدَانِ،‏‏‏‏ التَّمْرُ وَالْمَاءُ،‏‏‏‏ غَيْرَ أَنَّهُ كَانَ لَنَا جِيرَانٌ مِنْ الْأَنْصَارِ جِيرَانُ صِدْقٍ،‏‏‏‏ وَكَانَتْ لَهُمْ رَبَائِبُ،‏‏‏‏ فَكَانُوا يَبْعَثُونَ إِلَيْهِ أَلْبَانَهَا،‏‏‏‏ قَالَ مُحَمَّدٌ:‏‏‏‏ وَكَانُوا تِسْعَةَ أَبْيَاتٍ.

ترجمہ:

ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ کبھی کبھی آل محمد ﷺ پر پورا مہینہ ایسا گزر جاتا تھا کہ ان کے گھروں میں سے کسی گھر میں دھواں نہ دیکھا جاتا تھا، ابوسلمہ نے پوچھا: پھر وہ کیا کھاتے تھے؟ کہا: دو کالی چیزیں یعنی کھجور اور پانی، البتہ ہمارے کچھ انصاری پڑوسی تھے، جو صحیح معنوں میں پڑوسی تھے، ان کی کچھ پالتو بکریاں تھیں، وہ آپ کو ان کا دودھ بھیج دیا کرتے تھے۔ محمد بن عمرو کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کے نو گھر تھے۔   

[سنن ابن ماجہ:4145]




عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ،‏‏‏‏ يَقُولُ:‏‏‏‏ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَلْتَوِي فِي الْيَوْمِ مِنَ الْجُوعِ،‏‏‏‏ مَا يَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا يَمْلَأُ بِهِ بَطْنَهُ.

ترجمہ:

حضرت نعمان بن بشیر ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ کو کہتے سنا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ دن میں بھوک سے کروٹیں بدلتے رہتے تھے، آپ کو خراب اور ردی کھجور بھی نہ ملتی تھی جس سے اپنا پیٹ بھر لیتے۔

[سنن ابن ماجہ:4146، صحیح مسلم:2978، سنن الترمذی:2372]



عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ يَقُولُ مِرَارًا:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ،‏‏‏‏ مَا أَصْبَحَ عِنْدَ آلِ مُحَمَّدٍ صَاعُ حَبٍّ وَلَا صَاعُ تَمْرٍ،‏‏‏‏ وَإِنَّ لَهُ يَوْمَئِذٍ تِسْعَ نِسْوَةٍ.

ترجمہ:

حضرت انس بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو باربار فرماتے سنا ہے: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! آل محمد کے پاس کسی دن ایک صاع غلہ یا ایک صاع کھجور نہیں ہوتا، اور ان دنوں آپ ﷺ کی نو بیویاں تھیں۔   

[سنن ابن ماجہ:4147، صحیح البخاری:2069، سنن الترمذی:1215]




عَنْ عَبْدِ اللَّهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا أَصْبَحَ فِي آلِ مُحَمَّدٍ إِلَّا مُدٌّ مِنْ طَعَامٍ،‏‏‏‏ أَوْ:‏‏‏‏ مَا أَصْبَحَ فِي آلِ مُحَمَّدٍ مُدٌّ مِنْ طَعَامٍ.

ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آل محمد کے پاس کبھی ایک مد غلہ سے زیادہ نہیں رہا، یا آل محمد کے پاس کبھی ایک مد غلہ نہیں رہا۔   

[سنن ابن ماجہ:4148، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:2404]



عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَكَثْنَا ثَلَاثَ لَيَالٍ،‏‏‏‏ لَا نَقْدِرُ أَوْ لَا يَقْدِرُ عَلَى طَعَامٍ.

ترجمہ:

حضرت سلیمان بن صرد ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے، اور ہم تین دن تک ٹھہرے رہے مگر ہمیں کھانا نہ ملا جو ہم آپ کو کھلاتے۔   

[سنن ابن ماجہ:4149 (تحفة الأشراف: ٤٥٧٠، ومصباح الزجاجة: ١٤٧٣)]



عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا بِطَعَامٍ سُخْنٍ،‏‏‏‏ فَأَكَلَ فَلَمَّا فَرَغَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا دَخَلَ بَطْنِي طَعَامٌ سُخْنٌ مُنْذُ كَذَا وَكَذَا.

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کے پاس تازہ گرم کھانا لایا گیا، آپ ﷺ نے اسے کھایا، جب فارغ ہوئے تو فرمایا: الحمدللہ میرے پیٹ میں اتنے اور اتنے دن سے گرم تازہ کھانا نہیں گیا ۔   

[سنن ابن ماجہ:4150 (تحفة الأشراف: ١٢٤٤٥، ومصباح الزجاجة: ١٤٧٤)]





عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ آلِ مُحَمَّدٍ قُوتًا۔

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! آل محمد ﷺ کو بقدرِ ضرورت رزق عطا فرما۔

[صحیح بخاری:6460، صحیح مسلم:1055(2427)، سنن الترمذی:2861، سنن ابن ماجہ:4139]




عَنْ أَنَسٍ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا مِنْ غَنِيٍّ وَلَا فَقِيرٍ إِلَّا وَدَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَّهُ أُتِيَ مِنَ الدُّنْيَا قُوتًا۔

ترجمہ:

حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن کوئی مالدار یا فقیر ایسا نہ ہوگا جو یہ تمنا نہ کرے کہ اس کو دنیا میں بہ قدر ضرورت روزی ملی ہوتی۔

[سنن ابن ماجہ:4140]






القرآن:

اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔

[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155]


سب سے بڑا غنی(بےنیاز-مالدار)کون؟

حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

۔۔۔وَارْضَ بِمَا قَسَمَ اللَّهُ لَكَ تَكُنْ أَغْنَى النَّاسِ

ترجمہ: 

...اور اللہ تعالیٰ کی تقسیم شدہ رزق پر راضی رہو، سب لوگوں سے زیادہ غنی(بےنیاز) رہو گے۔۔۔

[سنن الترمذي:2305، مسند احمد:8094، المعجم الأوسط-للطبراني:7054، شعب الإيمان:9543، الصحيحة:930]









القرآن:

اور تمہیں نادار پایا تو غنی کردیا۔

[سورۃ الضحیٰ:8»تفسیر البغوي:2385]

تفسیر:

(5)حضرت خدیجہ ؓ کے ساتھ آپ نے تجارت میں جو شرکت فرمائی، اس سے آپ کو اچھا خاصا نفع حاصل ہوا تھا۔


حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

«لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفس».

ترجمہ:

’’مال داری، مال اور سازو سامان کی کثرت سے حاصل نہیں ہوتی، بلکہ مال داری تو نفس کی مال داری (یعنی قناعت) ہے۔‘‘

[صحیح البخاری:6446، صحیح مسلم:1051(2420)، سنن الترمذی:2373، سنن ابن ماجہ:4137، مشکوٰۃ المصابیح:5170]




عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : قَالَ لِىْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَا أَبَا ذَرٍّ , تَقُوْلُ كَثْرَةَ الْمَالِ الْغِنَى؟ " قُلْتُ : نَعَمْ قَالَ : " تَقُوْلُ قِلَّةَ الْمَالِ هِيَ الْفَقْرُ؟ " , قُلْتُ : نَعَمْ قَالَ ذَالِكَ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ : " الْغِنَى فِى الْقَلْبِ , وَالْفَقْرُ فِى الْقَلْبِ ".

ترجمہ:

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن مجھ سے ارشاد فرمایا: ابوذر! کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ مال زیادہ ہونے کا نام تونگری ہے؟ میں نے عرض کیا، ہاں حضور! (ایسا ہی سمجھا جاتا ہے) پھر آپ نے فرمایا: کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ مال کم ہونے کا نام فقیری اور محتاجی ہے؟ میں نے عرض کیا، ہاں حضور! (ایسا ہی خیال کیا جاتا ہے) یہ بات آپ نے مجھ سے تین دفعہ ارشاد فرمائی۔ اس کے بعد ارشاد فرمایا، اصلی دولتمندی دل کے اندر ہوتی ہے، اور اصلی محتاجی اور فقیری بھی دل ہی میں ہوتی ہے۔

[معجم کبیر للطبرانی:1643]


تشریح:

حقیقت یہی ہے کہ تونگری اور محتاجی، خوشحالی اور بدحالی کا تعلق روپیہ، پیسہ سے زیادہ آدمی کے دل سے ہے، اگر دل غنی اوربے نیاز ہے، تو آدمی نچنت اور خوشحال ہے اور اگر دل حرص و طمع کا گرفتار ہے، تو دولت کے ڈھیروں کے باوجود وہ خوشحالی سے محروم اور محتاج و پریشان حال ہے، سعدی علیہ الرحمہ کا مشہور قول ہے: 

تونگری بدل ست نہ بہ مال

[معارف الحدیث:374]







عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ نَاسًا مِنْ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَاهُمْ ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ حَتَّی إِذَا نَفِدَ مَا عِنْدَهُ قَالَ مَا يَکُنْ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْکُمْ وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ وَمَنْ يَسْتَغْنِ يُغْنِهِ اللَّهُ وَمَنْ يَصْبِرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ مِنْ عَطَائٍ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنْ الصَّبْرِ

ترجمہ:

حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے بعض انصاری صحابہ نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ طلب فرمایا آپ ﷺ نے ان کو عطا فرمایا انہوں نے پھر مانگا تو آپ ﷺ نے ان کو عطا فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس موجود مال ختم ہوگیا۔ تو فرمایا میرے پاس جو کچھ ہوتا ہے اس کو ہرگز تم سے بچا کر نہ رکھوں گا۔ جو شخص سوال سے بچتا ہے اللہ اس کو بچاتا ہے اور جو استغناء اختیار کرتا ہے اللہ اسے غنی کردیتا ہے اور جو صبر کرتا ہے اللہ اسے صبر دے دیتا ہے جو کچھ تم میں سے کسی کو دیا جائے وہ خیر ہے اور صبر سے بڑھ کر کوئی وسعت نہیں۔

[صحیح مسلم:2424]


تشریح:

س حدیث کا خاص سبق یہی ہے کہ بندہ اگر چاہتا ہے کہ وہ دوسرے بندوں کا محتاج نہ ہو، اور ان کے سامنے اس کو دستِ سوال دراز نہ کرنا پڑے، اور مصائب و مشکلات اس کو اپنی جگہ سے ہٹا نہ سکیں، تو اسے چاہئے کہ اپنی استطاعت کی حد تک وہ خود ایسا بننے کی کوشش کرے، اگر وہ ایسا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی پوری پوری مدد فرمائے گا اور یہ سب چیزیں اس کو نصیب ہو جائیں گے۔ 

حدیث کے آخری حصہ میں فرمایا گیا ہے کہ " کسی بندے کو صبر سے زیادہ وسیع کوئی نعمت عطا نہیں ہوئی "۔ واقعہ یہی ہے کہ " صبر " دل کی جس کیفیت کا نام ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نہایت وسیع اور نہایت عظیم نعمت ہے، اسی لیے قرآن مجید کی آیت " وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ " میں صبر کو صلوٰۃ یعنی نماز پر بھی مقدم کیا گیا ہے۔

[معارف الحدیث:375]








حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: ابْنَ آدَمَ تَفْرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسِدَّ فَقْرَكَ وَإِنْ لَا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَكَ شُغُلًا وَلَمْ أسُدَّ فقرك .

ترجمہ:

’’بے شک اللہ فرماتا ہے: انسان! میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا، میں تیرے دل کو مال داری (قناعت) سے بھر دوں گا، تیری محتاجی ختم کر دوں گا اور اگر تو (ایسے) نہیں کرے گا تو میں تمہیں کاموں میں مصروف کر دوں گا اور تیری محتاجی ختم نہیں کروں گا۔‘‘

[مشکوٰۃ المصابیح:5172]




مہنگائی کے سیلاب میں سادگی، میانہ روی اور قناعت کی ضرورت:

تواضع اختیار کرنا۔

حضرت عثمان بن عفان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لَيْسَ لِابْنِ آدَمَ حَقٌّ فِي سِوَى هَذِهِ الْخِصَالِ؛ بَيْتٌ يَسْكُنُهُ، وَثَوْبٌ يُوَارِي عَوْرَتَهُ، وَجِلْفُ الْخُبْزِ، وَالْمَاءِ.

ترجمہ:

(دنیا کی چیزوں میں سے) آدم کی اولاد کا حق سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ اس کیلئے ایک گھر ہو جس میں وہ زندگی بسر کرسکے، اور اتنا کپڑا ہو کہ جس سے اور اپنا ستر(ننگ) ڈھانپ سکے، اور (بغیر سالن) روٹی اور پانی کیلئے برتن ہوں کہ جس سے وہ کھانے پینے کی ضرورت پوری کرسکے۔

[ترمذى:2341 حاكم:7866، شعب الإيمان:6280، تفسیر ابن ابی حاتم:8672]


القرآن:

اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ نے تمہیں قوم عاد کے بعد جانشین بنایا، اور تمہیں زمین پر اس طرح بسایا کہ تم اس کے ہموار علاقوں میں محل بناتے ہو، اور پہاڑوں کو تراش کر گھروں کی شکل دے دیتے ہو۔ لہذا اللہ کی نعمتوں پر دھیان دو ، اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔

[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 74]




لوگوں سے لپٹ کر سوال کرنے والا کون؟


‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَرَّحَتْنِي أُمِّي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَعَدْتُ فَاسْتَقْبَلَنِي وَقَالَ:‏‏‏‏ مَنِ اسْتَغْنَى أَغْنَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنِ اسْتَعَفَّ أَعَفَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنِ اسْتَكْفَى كَفَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ سَأَلَ وَلَهُ قِيمَةُ أُوقِيَّةٍ فَقَدْ أَلْحَفَ،‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ نَاقَتِي الْيَاقُوتَةُ خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ.

ترجمہ:

حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ  میری ماں نے مجھے رسول اللہ  ﷺ  کے پاس  (کچھ مانگنے کے لیے)  بھیجا، میں آیا، اور بیٹھ گیا، آپ نے میری طرف منہ کیا، اور فرمایا:  جو بےنیازی چاہے گا اللہ عزوجل اسے بےنیاز کر دے گا اور جو شخص سوال سے بچنا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے بچا لے گا، اور جو تھوڑے پر قناعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کافی ہوگا۔ اور جو شخص مانگے اور اس کے پاس ایک اوقیہ  (یعنی چالیس درہم)  کے برابر مال ہو تو گویا اس نے چمٹ کر مانگا ، تو میں نے  (اپنے دل میں)  کہا: میری اونٹنی یاقوتہ ایک اوقیہ سے بہتر ہے، چناچہ میں آپ سے بغیر کچھ مانگے واپس چلا آیا۔

[سنن النسائي:2595، سنن ابی داود:1628]


کتنی دنیا کافی ہے۔

عَنْ سَلَمَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِحْصَنٍ الْأَنْصَارِيِّ،‏‏‏‏ عَنْ أَبِيهِ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَنْ أَصْبَحَ مِنْكُمْ مُعَافًى فِي جَسَدِهِ،‏‏‏‏ آمِنًا فِي سِرْبِهِ،‏‏‏‏ عِنْدَهُ قُوتُ يَوْمِهِ،‏‏‏‏ فَكَأَنَّمَا حِيزَتْ لَهُ الدُّنْيَا.

ترجمہ:

حضرت عبیداللہ بن محصن انصاری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کا جسم صحیح سلامت ہو، اس کی جان امن و امان میں ہو اور اس دن کا کھانا بھی اس کے پاس ہو تو گویا اس کے لیے دنیا اکٹھی ہوگئی۔

[سنن الترمذی:2346، سنن ابن ماجہ:4141]

[سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی:2318]




شکر وقناعت پیدا کرنے کا نبوی نسخہ:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ انْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ أَسْفَلَ مِنْكُمْ،‏‏‏‏ وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ هُوَ فَوْقَكُمْ،‏‏‏‏ فَإِنَّهُ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ۔

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کو دیکھو جو تم سے کم تر ہو، اس کو مت دیکھو جو تم سے برتر ہو، اس طرح امید ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کو حقیر نہ جانو گے۔

[سنن ابن ماجہ:4142، صحیح مسلم:2963، سنن الترمذی:5213]





قناعت بھی ضروری کیوں؟

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ،‏‏‏‏ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ،‏‏‏‏ وَلَكِنْ إِنَّمَا يَنْظُرُ إِلَى أَعْمَالِكُمْ وَقُلُوبِكُمْ.

ترجمہ:

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے اعمال اور دلوں کو دیکھتا ہے۔

[سنن ابن ماجہ:4143، صحیح مسلم:2564]






حضرت زبیر بن عوام سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:

اگر تم میں سے کوئی(صبح سویرے) اپنی رسی لے اور پہاڑ پر جا کر ایک گٹھا لکڑیوں کا اپنی پیٹھ پر لادے، اور اس کو بیچ کر اس کی قیمت پر قناعت کرے(اور صدقہ کرے)، تو یہ اس کے لیے لوگوں کے سامنے مانگنے سے بہتر ہے کہ لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔

[سنن ابن ماجہ:1836، صحیح البخاری:1471]


مجھے تجارت اور دولت اندوزی کا حکم نہیں دیا گیا»


حضرت جُبیر بن نُفیر تابعی سے روایت ہے وہ بطریق ارسال رسول اللہ ﷺ سے نقل کرتے ہیں، کہ آپ نے ارشاد فرمایا:

«مَا أَوْحَى اللهُ إِلَيَّ أَنْ أَجْمَعَ الْمَالَ وَأَكُونَ مِنَ التَّاجِرِينَ وَلَكِنْ أَوْحَى إِلَيَّ أَنْ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ».

ترجمہ:

مجھے اللہ کی طرف سے اس کی وحی نہیں کی گئی، اور یہ حکم نہیں دیا گیا کہ میں مال و دولت جمع کروں، اور تجارت و سودا گری کو اپنا پیشہ اور مشغلہ بناؤں۔ بلکہ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے، اور میری طرف یہ وحی کی گئی ہے کہ اپنے رب کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہ، اور ہو جا اللہ کے حضور میں جھکنے والوں اور گرنے والوں میں سے اور کئے جا بندگی اپنے پروردگار کی، موت آنے تک۔

[شرح السنة-للبغوي:4036، جامع الأحاديث-للسيوطي:19886][تفسير البغوي:1249، سورة الحجر:98]


تشریح:

جن کو شریعت کے اصول و احکام کا کچھ علم ہے، وہ جانتے ہیں کہ تجارت اور اس کے ذریعہ دولت کمانا ناجائز نہیں ہے، اور شریعت کے احکام کا ایک بڑا حصہ تجارت وغیرہ مالی معاملات سے بھی متعلق ہے، بلکہ رسول اللہ ﷺ نے خود ان تاجروں کی بڑی بڑی فضیلتیں بیان فرمائی ہیں، جو امانت داری، راستبازی اور دیانت داری کے ساتھ تجارت کرتے ہوں، لیکن رسول اللہ ﷺ کا جو خاص مقام تھا اور جو کام اللہ تعالیٰ کو آپ سے لینا تھا، اس میں تجارت جیسے کسی جائز معاشی مشغلے میں بھی مشغول ہونے کی گنجائش نہ تھی، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو قناعت اور توکل کا وافر سرمایہ دے کر اس فکر سے فارغ بھی فرما دیا تھا۔

رسول اللہ ﷺ کی اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ مجھے تو ان ہی کاموں میں اپنے کو لگانا ہے جن کا مجھے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے امر اور حکم ہے، میرا کام تجارت اور دولت اندوزی نہیں ہے۔ 

آپ کے امتیوں میں بھی اللہ کے جو بندے خالص متوکلانہ طرزِ زندگی کو اپنے لیے پسند کریں، اور اس راستے کے شدائد و مصائب پر صبر کی ہمت رکھتے ہوں اور اللہ تعالیٰ پر توکل کی دولت ان کو میسر ہو، تو ان کے لیے بھی بلا شبہ یہی افضل ہے، لیکن کن کا یہ حال نہ ہو، ان کو کسی جائز معاشی مشغلہ کا اختیار کرنا خاص کر ہمارے اس زمانہ میں ضروری ہے۔

[معارف الحدیث:188]



تھوڑے پر قناعت


حضرت ابو مالک اشعری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

حلوة الدنيا مرة الآخرة، ومرة الدنيا حلوة الآخرة.

ترجمہ:

دنیا کی مٹھاس آخرت کی کڑواہٹ ہے اور دنیا کی کڑواہٹ آخرت کی مٹھاس ہے۔

[کنزالعمال:6115]

(مسند احمد، طبرانی فی الکبیر، حاکم، بیہقی فی شعب الایمان عن ابی مالک الاشعری)




خيركم أزهدكم في الدنيا، وأرغبكم في الآخرة.

ترجمہ:

تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو دنیا سے بےرغبت ہو اور آخرت کی رغبت رکھنے والا ہو۔

[کنزالعمال:6116]








حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

دعوا الدنيا لأهلها من أخذ من الدنيا فوق ما يكفيه أخذ حتفه وهو لا يشعر.

ترجمہ:

دنیا، دنیا والوں کے لیے چھوڑ دو، جس نے اپنی ضرورت سے زائد دنیا حاصل کی تو اس نے اپنی موت لی، جبکہ اسے معلوم نہیں۔

[کنزالعمال:6117]








ذو الدرهمين أشد حسابا من ذي الدرهم، وذو الدينارين أشد حسابا من ذي الدينار.

ترجمہ:

دو درھم والے کا حساب، ایک درھم والے سے سخت ہوگا اور دو دینار والے کا حساب ایک دینار والے سے سخت تر ہوگا۔

[کنزالعمال:6118]

(حاکم فی تاریخہ عن ابوہریرہ ؓ، بیہقی فی شعب الایمان عن ابی ذر، موقوفا)

تشریح:

۔۔۔ چاندی سے ڈھالے ہوئے سکے کو درھم اور سونے سے ڈھالے ہوئے کو دینار کہتے ہیں۔






حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا يكون زاهدا حتى يكون متواضعا.

ترجمہ:

(انسان) اس وقت تک زاہد نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ وہ متواضع ہوجائے۔

[کنزالعمال:6119]

(طبرانی فی الکبیر عن ابن مسعود)





عرض علي ربي بطحاء مكة ذهبا، فقلت: لا يا رب، ولكني أشبع يوما، وأجوع يوما، فإذا جعت تضرعت إليك وذكرتك وإذا شبعت حمدتك وشكرتك.

ترجمہ:

میرے رب (اللہ تعالیٰ) نے مکہ کے پہاڑوں کو سونے کا بنا کر میرے سامنے پیش کیا، تو میں نے عرض کی، اے میرے رب! میں (دنیا میں) ایک روز سیر اور ایک روز بھوک سے رکھ، (کیونکہ) جب میں خالی پیٹ ہوں گا تو آپ کی طرف زاری کروں گا، اور آپ کو یاد کروں گا، اور جب سیر ہوں گا تو آپ کی تعریف اور شکر کروں گا۔

[کنزالعمال:6120]

(مسند احمد، ترمذی، عن ابی امامۃ)





الغنى اليأس مما في أيدي الناس.

ترجمہ:

غنا و لاپرواہی یہ ہے کہ جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے نا امیدی ہو۔

[کنزالعمال:6121]

(حلیۃ الاولیاء القجاعی عن ابن مسعود)





حضرت ابن مسعود ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

الغنى اليأس مما في أيدي الناس، ومن مشى منكم إلى طمع من طمع الدنيا فليمش رويدا.

ترجمہ:

غنا یہ ہے کہ لوگوں کے پاس جو کچھ ہے اس سے مایوسی ہوجائے، تم میں سے جو دنیا کی کسی لالچ کی طرف چلے تو وہ آہستہ چلے۔

[کنزالعمال:6122]




حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

الغنى اليأس مما في أيدي الناس، وإياك والطمع فإنه الفقر الحاضر.

ترجمہ:

غنا یہ ہے کہ لوگوں کی چیزوں سے مایوسی ہو، خبردار لالچ سے بچنا اس واسطے کہ وہ موجود محتاجی ہے۔

[کنزالعمال:6123]






فراش للرجل، وفراش لامرأته، والثالث للضيف، والرابع للشيطان.

ترجمہ:

(گھر میں) ایک بستر مرد کے لیے ایک اس کی عورت کے واسطے اور تیسرا مہمان کے لیے ہے اور چوتھا شیطان کے لیے ہوگا۔

[کنزالعمال:6124]

(مسند احمد، مسلم، ابوداؤد، نسائی عن جابر)

تشریح:

مراد یہ ہے کہ دنیا کی چیزوں کی کمی کرو کثرت سے بچو۔




حضرت فضل سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

فضوح الدنيا أهون من فضوح الآخرة.

ترجمہ:

دنیا کی ذلت و رسوائی آخرت کی ذلت سے ہلکی ہے۔

[کنزالعمال:6125]

(طبرانی فی الکبیر عن الفضل)





حضرت عثمان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كل شيء فضل عن ظل بيت وجلف الخبز وثوب يواري عورة الرجل والماء لم يكن لابن آدم فيه حق.

ترجمہ:

ہر وہ چیز جو گھر کے سائے روئی کے چھلکے اور اتنے کپڑے سے زائد ہو جس سے انسان اپنی شرمگاہ چھپائے، اور پانی سے زائد ہو اس میں انسان کا کوئی حق نہیں۔

[کنزالعمال:6126]




حضرت انس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
القناعة مال لا ينفد.
ترجمہ:
قناعت ایسا مال ہے جو ختم نہیں ہوتا۔
[کنزالعمال:7080]





حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ابن آدم عندك ما يكفيك، وأنت تطلب ما يطغيك، ابن آدم لا بقليل تقنع، ولا من كثير تشبع، ابن آدم إذا أصبحت معافى في جسدك آمنا في سربك عندك قوت يومك، فعلى الدنيا العفاء.

ترجمہ:

اے انسان! تیرے پاس وہ ہے جو تیرے لیے کافی ہے جبکہ تو ایسی چیز طلب کرتا ہے جو تجھے سرکش بنا دے، اے انسان تو تھوڑے پر قناعت نہیں کرتا، اور نہ زیادہ سے سیر ہوتا ہے، اے انسان! جب تو اس طرح صبح کرے کہ تیرے بدن میں عافیت ہو، تیرے گھر میں امن ہو اور تیرے پاس ایک دن کا کھانا ہو تو دنیا پر مٹی یعنی تف ہے۔

[کنزالعمال:7081]



تشریح:

اللہ تعالیٰ داتا ہیں وہ خوب جانتے ہیں کس کو کتنا دینا ہے کون سرکش ہوگا اور کون فرمان بردار، سلیمان و محمد ﷺ کو دنیا کی بادشاہت دی لیکن عجز و انکساری کے پیکر تھے، فرعون و شداد کو چند حیلوں سے حکومت ملی تو لگے سرکشی کرنے۔







حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إذا أصبحت آمنا في سربك معافى في بدنك عندك قوت يومك فعلى الدنيا العفاء.

ترجمہ:

جب تو اپنے گھر میں امن سے ہو تیرے بدن میں عافیت ہو اور تیرے پاس تیرے اس روز کا کھانا ہو تو دنیا پر خاک پڑے۔

[کنزالعمال:7082]





حضرت عبیداللہ بن محصن سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من أصبح منكم آمنا في سربه معافى في جسده وعنده قوت يومه فكأنما حيزت له الدنيا.

ترجمہ:

جو تم میں سے اپنے گھر امن سے ہو اس کے بدن میں عافیت ہو اس کے پاس اس روز کا کھانا موجود ہو تو گویا اس کے پاس پوری دنیا سمٹ کر آگئی۔

[کنزالعمال:7083]


(بخاری فی الادب المفرد، ترمذی عن عبید اللہ بن محصن)






حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أحبكم إلى الله تعالى أقلكم طعما وأخفكم بدنا.

ترجمہ:

تم میں سے اللہ تعالیٰ کو وہ شخص زیادہ پسند ہے جس کا کھانا کم اور بدن ہلکا ہو۔

[کنزالعمال:7084]







حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إذا أراد الله بعبد خيرا جعل غناه في نفسه، وتقاه في قلبه، وإذا أراد بعبد شرا جعل فقره بين عينيه.

ترجمہ:

اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو بھلائی پہنچانا چاہیں تو اس کا دل غنی کردیتے اور اس کا دل متقی بنا دیتے ہیں اور جب کسی بندے کو کسی برائی سے دو چار کرنا چاہیں تو محتاجی کو اس کا نصب العین بنا دیتے ہیں۔

[کنزالعمال:7085]





حضرت  ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إذا اشتد كلب الجوع فعليك برغيف وجرة من الماء القراح، وقل على الدنيا وأهلها مني الدمار.

ترجمہ:

جب سخت بھوک لگے تو ایک چپاتی کھالو اور صاف پانی کا ایک گھونٹ پی لو، اور کہو دنیا اور دنیا والوں پر مار پڑے۔

[کنزالعمال:7086]





حضرت جذع سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أكبر أمتي الذين لم يعطوا فيبطروا، ولم يقتر عليهم فيسألوا.

ترجمہ:

میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں جنہیں (اس لیے) نہیں دیا گیا کہ وہ اترانے لگیں اور نہ ان سے (ضرورت کا سامان) روکا گیا کہ وہ لوگوں سے مانگنے لگیں۔

[کنزالعمال:7087]

(ابن شاھین)


تشریح:

یعنی انھیں اعتدال کی روزی عطا کی گئی ہے۔






خير أمتي الذين لم يعطوا فيبطروا، ولم يمنعوا فيسألوا.

"ابن شاهين عن الجذع".

ترجمہ:

میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں جنہیں (اس لیے) نہیں دیا گیا کہ وہ اترانے لگیں اور نہ ان سے (ضرورت کا سامان) روکا گیا کہ وہ لوگوں سے مانگنے لگیں۔

[کنزالعمال:7088]

(ابن شاھین عن الجذع)

تشریح:

یعنی انھیں اعتدال کی روزی عطا کی گئی ہے۔







روزی کم ہونا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی نہیں ہے


حضرت علی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن الله تعالى إذا أحب عبدا جعل رزقه كفافا.

ترجمہ:

اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو پسند کرتے ہیں تو اس کا رزق (قابل) کفایت کرتے دیتے ہیں۔

[کنزالعمال:7089]





بنی سلیم کے ایک شخص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن الله تعالى يبتلي العبد فيما أعطاه، فإن رضي بما قسم الله له بورك له ووسعه، وإن لم يرض لم يبارك له، ولم يزد على ما كتب له.

ترجمہ:

اللہ تعالیٰ بندے کو جو (مال) عطا کرتا ہے اس میں اسے آزماتا ہے پھر اگر وہ اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی ہوجائے تو اسے برکت دی جاتی ہے اور (تھوڑے مال میں بھی) اسے وسعت دیتے ہیں، اور اگر راضی نہ ہو تو اسے برکت نہیں دی جاتی اور جتنا (کسی کی قسمت میں) لکھا ہوتا ہے اس پر زیادہ نہیں کرتے۔

[کنزالعمال:7090]

(مسند احمد وابن قانع بیہقی عن رجل من بنی سلیم)







حضرت عمران سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن الله تعالى يحب الفقير المتعفف أبا العيال.

ترجمہ:

اللہ تعالیٰ کو وہ نادار شخص پسند ہے جو (باوجود) عیالدار (ہونے کے بھی) سوال سے بچنے والا ہو۔

[کنزالعمال:7091]







حضرت علی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن الطير إذا أصبحت سبحت ربها، وسألته قوت يومها.

ترجمہ:

پرندہ صبح کی وقت اپنے رب کی تسبیح کرتا ہے اور اپنے اس روز کی روزی مانگتا ہے۔

[کنزالعمال:7092]

 (خطیب عن علی)





حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن أهل البيت ليقل طعمهم فتستنير بيوتهم.

ترجمہ:

(فلاں) گھر والے (ایسے ہیں) ان کا کھانا (تو) کم ہے (مگر) ان کے گھر منور ہیں۔

[کنزالعمال:7093]






حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إذا أردت اللحوق بي فليكفك من الدنيا كزاد الراكب وإياك ومجالسة الأغنياء، ولا تستخلقي ثوبا حتى ترقعيه.

ترجمہ:

(اے عائشہ!) اگر تم مجھ سے ملنا چاہتی تو تمہارے لیے اتنی دنیا کافی ہونی چاہیے جتنا ایک سوار کا توشہ ہوتا ہے اور مالدار لوگوں کے ساتھ بیٹھنے سے بچنا اور کوئی کپڑا پرانا (سمجھ کر) نہ اتارنا یہاں تک کہ اس میں پیوند لگا چکو۔

[کنزالعمال:7094]






حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

خيار أمتي القانع، وشرارهم الطامع.

ترجمہ:

میری امت کے بہترین لوگ قناعت پسند ہیں اور برے لوگ لالچ کرنے والے ہیں۔

[کنزالعمال:7095]







حضرت انس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

خير الرزق ما كان يوما بيوم كفافا.

ترجمہ:

بہترین رزق وہ ہے جو دن بدن کافی ہو۔

[کنزالعمال:7096]





حضرت زیاد بن جبیر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

خير الرزق الكفاف.

ترجمہ:

بہترین رزق وہ ہے (حسب ضرورت) کافی ہو۔

[کنزالعمال:7097]

(مسند احمد فی الزھد عن زیاد بن جبیر، مرسلاً)








حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

طوبى لمن أسلم فكان عيشه كفافا.

ترجمہ:

خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جو مسلمان ہو اور اس کی (گزر اوقات کی) زندگی (میں قابل کفایت رزق) ہو۔

[کنزالعمال:7098]






حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

طوبى لمن بات حاجا، وأصبح غازيا، رجل مستور ذو عيال، متعفف قانع باليسير من الدنيا، يدخل عليهم ضاحكا، ويخرج عنهم ضاحكا، فوالذي نفسي بيده إنهم هم الحاجون الغازون في سبيل الله عز وجل.

ترجمہ:

خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جو رات کو حج کرنے والا اور صبح کو غازی تھا، (وہ ایسا) آدمی ہے جس کا حال (لوگوں سے) پوشیدہ ہے عیالدار ہے سوال سے بچتا ہے دنیا کی تھوڑی چیزوں پر قناعت کرتا ہے، لوگوں کے پاس ہنستے ہوئے آتا ہے اور ہنستے ہوئے واپس جاتا ہے اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں حج اور غزوہ کرنے والے ہیں۔

[کنزالعمال:7099]








حضرت عبد الله بن حنطب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

طوبى لمن رزقه الله الكفاف ثم صبر عليه.

ترجمہ:

خوشخبری ہے اس شخص کے لیے جسے اللہ تعالیٰ نے کفایت (کا رزق) دیا پھر وہ (اسی پر) صبر کرتا ہے۔

[کنزالعمال:7100]







حضرت فضالة بن عبيد سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

طوبى لمن هدى للإسلام وكان عيشه كفافا وقنع به.

ترجمہ:

اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جسے اسلام کی ہدایت ملی اور اس کی زندگی قابل کفایت ہے اور وہ اس پر قانع ہے۔

[کنزالعمال:7101]

(ترمذی، ابن حبان، حاکم عن فضالۃ بن عبید)







حضرت جابر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

عليكم بالقناعة، فإن القناعة مال لا ينفد.

ترجمہ:

قناعت کو اختیار کرو کیونکہ یہ ایسا مال ہے جو ختم نہیں ہوتا۔

[کنزالعمال:7102]




حضرت ابن عمرو سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

قد أفلح من أسلم ورزق كفافا، وقنعه الله بما آتاه.

ترجمہ:

وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اسلام قبول کیا، اور اسے قابل کفایت رزق دیا گیا، اور جو (مال) اللہ تعالیٰ نے اسے دیا، اس پر قناعت کی توفیق بخشی۔

[کنزالعمال:7103]

(مسند احمد، مسلم ترمذی، ابن ماجہ عن ابن عمرو)







حضرت ابوامامہ اور ثعلبة ابن حاطب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

قليل تؤدي شكره خير من كثير لا تطيقه.

ترجمہ:

وہ تھوڑا (مال) جس پر تم شکر کرو اس سے زیادہ بہتر ہے جس کی تم میں طاقت نہ ہو۔

[کنزالعمال:7104]

(البغوی والباوردی وابن قانع وابن السکن وابن شاہین عن ابی امامہ عن ثعلبۃ بن حاطب)







حضرت عبادة بن الصامت سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ليس بي رغبة عن أخي موسى، عريش كعريش موسى؟

ترجمہ:

مجھے اپنے بھائی موسیٰ سے بےرغبتی نہیں، کیا تم میرے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کے چبوترے جیسا چیوترا بنانا چاہتے ہو؟

[کنزالعمال:7105]

تشریح:

یعنی موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے جو چبوترا بنایا گیا تھا اس کی نوعیت و ضرورت جدا تھی مجھے چونکہ اس کی ضرورت نہیں تو کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھے اپنے بھائی موسیٰ (علیہ السلام) کے فعل سے اعراض اور ان کی ذات پر اعتراض ہے بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ لوگ مسجد میں گفتگو کے لیے بیٹھ جائیں گے اور ہر مسجد میں ایسے چبوترے بننے شروع ہوجائیں گے۔





حضرت سالم بن عطية سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

عرش كعرش موسى؟

ترجمہ:

مجھے، موسیٰ (علیہ السلام) کے چبوترے جیسے چبوترے کی ضرورت نہیں۔

[کنزالعمال:7106]

(بیہقی عن سالم بن عطیۃ)








حضرت عثمان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ليس لابن آدم حق فيما سوى هذه الخصال: بيت يسكنه وثوب يواري عورته، وجلف الخبز والماء.

ترجمہ:

ان چیزوں کے علاوہ انسان کو (زائد ضرورت) کسی چیز کا حق حاصل نہیں، رہنے کے لیے گھر، بدن ڈھانپنے کے لیے کپڑا، روٹی کا ٹکڑا (جو سخت ہو) اور پانی۔

[کنزالعمال:7107]






حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ثلاث لا يحاسب بهن العبد: ظل خص يستظل به وكسرة يشد بها صلبه، وثوب يواري به عورته.

ترجمہ:

تین (نعمتوں) کا بندے سے حساب نہ ہوگا، سرکنڈوں سے بنے گھر کا سایہ، جس سے وہ سایہ حاصل کرے اتنا روٹی کا ٹکڑا جسے اپنی کمر سیدھی کرسکے، اور اتنا کپڑا جس سے اپنا ستر چھپا سکے۔

[کنزالعمال:7108]

(مسند احمد فی الزھد، بیہقی عن الحسن، مرسلاً)








ما أبالي ما رددت به عني الجوع.

ترجمہ:

مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ میں کسی چیز سے اپنی بھوک دور کرلوں۔

[کنزالعمال:7109]

(ابن المبارک عن الاوزاعی معضلا)


تشریح:

یعنی جو کچھ حلال اور طیب کھانے کے لیے مل جائے۔




حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما فوق الإزار وظل الحائط وجرة الماء فضل يحاسب به العبد يوم القيامة.

ترجمہ:

جو چیز تہبند، دیوار کے سائے اور پانی کے گھونٹ سے بڑھ کر ہو تو رائد (از ضرورت) ہے قیامت کے روز بندے سے اس کا حساب لیا جائے گا۔

[کنزالعمال:7110]





حضرت ابوسعید الخدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما قل وكفى خير مما كثر وألهى.

ترجمہ:

تھوڑی چیز جو کافی ہو اس سے بہتر ہے جو (ہو تو) زائد ہو (لیکن) غفلت میں ڈال دے۔

[کنزالعمال:7111]






حضرت علي سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من رضي من الله باليسير من الرزق رضي الله منه بالقليل من العمل.

ترجمہ:

جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھوڑے رزق پر راضی ہوگیا تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے تھوڑے عمل پر راضی ہوجائیں گے۔

[کنزالعمال:7112]








حضرت معاوية ابن حيدة سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

نعم العون على الدين قوت سنة.

ترجمہ:

ایک سال کی خوراک دین کے لیے بہترین معاون ہے۔

[کنزالعمال:7113، مسند الفردوس-للدیلمی:6335]








حضرت انس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللهم لا عيش إلا عيش الآخرة.

ترجمہ:

اے اللہ! عیش(زندگی) تو صرف آخرت کی عیش(زندگی) ہے۔

[کنزالعمال:7114]

(مسند احمد، بیہقی، ترمذی، ابو داؤد، نسائی، عن انس)






حضرت انس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما من أحد يوم القيامة غني أو فقير إلا ود أن ما كان أوتي من الدنيا قوتا.

ترجمہ:

قیامت کے روز فقیر و مالدار چاہے گا کہ اسے صرف اتنی دنیا ملتی جس سے اس کی روزی حاصل ہوجاتی۔

[کنزالعمال:7115]








حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اللهم اجعل رزق آل محمد في الدنيا قوتا.

ترجمہ:

اے اللہ! محمد ﷺ کی اولاد کا رزق گزر بسر کا بنا دے۔

[کنزالعمال:7116]




حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إذا أراد الله بعبد خيرا أرضاه بما قسم، وبارك له فيه.

ترجمہ:

اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو بھلائی دینا چاہتے ہیں تو اسے اپنی تقسیم پر راضی کردیتے ہیں اور اس میں اسے برکت دیتے ہیں۔

[کنزالعمال:7117]




حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إذا نظر أحدكم إلى من فضل عليه في المال والجسم فلينظر إلى من هو دونه في المال والجسم.

ترجمہ:

جب تم میں سے کوئی اپنے سے اعلیٰ شخص کو دیکھے جو مال اور جسم میں افضل ہے تو اسے چاہیے کہ اسے دیکھ لے جو مال اور بدن میں اس سے کم درجہ کا ہے۔

[کنزالعمال:7118]





حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إذا نظر أحدكم إلى من فضل عليه في المال والخلق فلينظر إلى من هو أسفل منه ممن فضل هو عليه.

ترجمہ:

جب تم میں سے کوئی مال اور پیدائش میں اپنے سے برتر کو دیکھے تو اس چاہے کہ اپنے سے کم تر کو دیکھ لے جس پر اسے فضیلت حاصل ہے۔

[کنزالعمال:7119]





حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إذا أراد الله بعبد خيرا جعل غناه في نفسه، وتقاه في قلبه، وإذا أراد الله بعبد شرا جعل فقره بين عينيه.

ترجمہ:

اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو بھلائی پہنچانا چاہتے ہیں تو اس کے دل میں غنا اور تقویٰ (لاپرواہی) پیدا فرما دیتے ہیں اور جب کسی بندے کو برائی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تو فقر و فاقہ کو اس کا نصب العین بنا دیتے ہیں۔

[کنزالعمال:7120]







حضرت عبداللہ بن الشخیر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن الله ليبتلي العبد بالرزق لينظر كيف يعمل؟ فإن رضي بورك له فيه، وإن لم يرض لم يبارك له فيه.

ترجمہ:

اللہ تعالیٰ بندے کو رزق میں (تنگی کرکے) آزماتا ہے تاکہ دیکھیں وہ کیا کرتا ہے؟ پھر اگر وہ راضی ہوجائے تو اسے اس (مال) میں برکت دی جاتی ہے اور اگر راضی نہ ہو تو برکت نہیں دی جاتی۔

[کنزالعمال:7121]


تشریح:

۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہوتا ہے صرف اس بندے پر اس کی حماقت کا اظہار کرنا ہوتا ہے کہ یہ اس کے اپنے عمل کا نتیجہ ہے اللہ تعالیٰ کسی پر تاگے برابر بھی ظلم نہیں کرتا ہے۔





گھر کا سامان مختصر ہونا چاہیے

حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنما هو فراش للزوج، وفراش للمرأة، وفراش للضيف وفراش للشيطان.

ترجمہ:

بستر تو ایک خاوند کے لیے ہونا چاہے اور ایک بیوی کے لیے اور ایک مہمان کے لیے (اور ضرورت سے زائد) بستر شیطان کے لیے ہوگا۔

[کنزالعمال:7122]






حضرت ابن مسعود ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إنما يكفي أحدكم ما قنعت به نفسه، وإنما يصير إلى أربعة أذرع في شبر، وإنما يرجع الأمر إلى آخره.

ترجمہ:

تم میں سے کسی کے لیے اتنا کافی ہے جس پر اس کا دل قناعت کرسکے، انجام کار اسے چار گز ایک بالشت جگہ میں جانا ہے پھر معاملہ اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔

[کنزالعمال:7123]


تشریح:

یعنی قبر میں جانا ہے اور پھر آخرت میں جمع ہونا ہے۔






حضرت ابو عبیدہ بن جراح سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إن ينسأ الله في أجلك يا أبا عبيدة فحسبك من الخدم ثلاثة: خادم يخدمك، وخادم يسافر معك، وخادم يخدم أهلك، ويرد عليهم، وحسبك من الدواب ثلاثة: دابة لرجلك، ودابة لثقلك ودابة لغلامك، إن أحبكم إلي وأقربكم مني من لقيني على مثل الحال التي فارقني عليها.

ترجمہ:

اے ابو عبیدہ! اگر اللہ تعالیٰ تمہاری عمر میں اضافہ کرے تو تمہارے لیے تین خادم کافی ہیں، ایک خادم جو تمہاری خدمت کرے، دوسرا جو تمہارے ساتھ سفر کرے، اور تیسرا جو تمہارے گھر والوں کے کام کرے، اور ان کے پاس آئے، اور تین جانور کافی ہیں ایک جانور تمہارے پاؤں کے لیے، ایک جانور تمہارے بوجھ کے لئے، اور ایک جانور تمہارے غلام کے لیے، تم میں سے مجھے زیادہ محبوب اور میرے قریب وہ شخص ہوگا جو مجھے اسی حالت پر ملے جس حالت میں وہ مجھ سے جدا ہوا۔

[کنزالعمال:7124]

(مسند احمد، ابن عساکر عن ابی عبیدہ بن الجراح، وقال: ابن عساکر، منقطع)







حضرت ابو عبیدہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

حسبك من الدواب: دابة لثقلك، ودابة لرجلك، ودابة لغلامك.

ترجمہ:

تمہارے لیے (تین) جانور کافی ہیں، ایک تمہاری باربرداری کے لیے، ایک تمہاری سواری کے لیے اور ایک تمہارے غلام کے لیے۔

[کنزالعمال:7125]





حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

خير المؤمنين القانع، وشرهم الطامع.

ترجمہ:

بہترین مومن قناعت کرنے والا ہے اور (جسکا حال) برا ہے جو لالچ کرنے والا ہے۔

[کنزالعمال:7126]





حضرت جابر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

فراش للرجل، وفراش لامرأته، وفراش للضيف، والرابع للشيطان.

ترجمہ:

(تین بستر کافی ہیں) ایک بستر مرد کا ایک اس کی بیوی کا ایک (فالتو) مہمان کے لیے (اس سے زائد) بستر شیطان کا ہے۔

[کنزالعمال:7127]

(مسند احمد، ابو داؤد، نسائی، مسلم، ابو عوانہ ابن حبان عن جابر، مر برقم، ٦١٢٤)





حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

قال الله عز وجل: لم يلتحف العباد بلحاف أبلغ عندي من قلة الطعم.

ترجمہ:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: بندوں کے اپنے لیے کم کھانے کا لحاف جو بنایا ہے اس سے بڑھ کر میرے نزدیک انتہائی درجہ کو پہنچنے والا نہیں۔

[کنزالعمال:7128]

تشریح:

یعنی کم کھانے کی قدر و منزلت میرے پاس ہے۔








حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كان في بني إسرائيل جدي ترضعه أمه فترويه، فأفلت فأرتضع الغنم، ثم لم يشبع، فأوحى الله إليهم أن مثل هذا كمثل قوم يأتون من بعدكم، يعطى الرجل منهم ما يكفي الأمة والقبيلة، ثم لا يشبع.

ترجمہ:

بنی اسرائیل میں ایک بکری کا بچہ تھا، جسے اس کی ماں دودھ پلاتی تھی اس کا دودھ ختم ہوگیا تو اس نے (دوسری) بکریوں کا دودھ پینا شروع کردیا پھر بھی وہ سیراب نہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی، کہ اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک قوم جو تمہارے بعد آئے گی، ان میں سے ایک آدمی اتنا دیا جائے گا جو پوری قوم اور قبیلہ کے لیے کافی ہوگا، پھر بھی وہ (لینے سے) سیراب نہ ہوگا۔

[کنزالعمال:7129]





حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كان في بني إسرائيل جدي في غنم كثيرة ترضعه أمه فانفلت فرضع الغنم كلها، ثم لم يشبع، فبلغ ذلك نبيهم، فقال: إن هذا مثل قوم يأتون من بعدكم، يعطى الرجل منهم ما يكفي القبيلة أو الأمة، ثم لا يشبع.

ترجمہ:

بنی اسرائیل میں ایک بکروٹا تھا جو اپنی ماں کا دودھ پیتا تھا جب دودھ ختم ہوگیا تو تمام بکریوں کا دودھ پینے لگا پھر بھی وہ سیر نہ ہوا، اس کی اطلاع ان کے نبی کو ہوئی تو انھوں نے فرمایا: اس کی مثال اس قوم جیسی ہے جو تمہارے بعد آئے گی ان میں ایک شخص کو اتنا دیا جائے گا جو ایک قوم اور قبیلہ کے لیے کافی ہوگا پھر بھی وہ سیراب نہ ہوگا۔

[کنزالعمال:7130]




حضرت عثمان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كل شيء يفضل عن ابن آدم من جلف الخبز وثوب يواري به سوأته، وبيت يكنه، وما سوى ذلك فهو حساب يحاسب به العبد يوم القيامة.

ترجمہ:

انسان کی ہر زائد چیز جو روٹی کے ٹکڑے، اور ستر ڈھانپنے کے کپڑے اور (سر) چھپانے کے گھر سے فالتو ہوگی اس کا قیامت کے روز بندے سے حساب ہوگا۔

{کنزالعمال:7131]








حضرت عثمان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

كل شيء سوى جلف هذا الطعام والماء العذب وبيت يظله فضل ليس لابن آدم فيه حق.

ترجمہ:

ہر وہ چیز جو اس اناج، ٹھنڈے پانی اور سایہ دار گھر سے زائد ہو، اس میں انسان کا کوئی حق نہیں۔

[کنزالعمال:7132]







حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما فوق الخبز وجرة الماء، وظل الحائط وظل الشجرة فضل يحاسب به ابن آدم يوم القيامة.

ترجمہ:

ہر وہ چیز جو روٹی، پانی کے گھونٹ اور دیوار و درخت کے سایہ سے زائد ہو اس کا قیامت کے روز بندہ سے حساب لیا جائے گا۔

[کنزالعمال:7133]




ما من أحد إلا وهو يتمنى يوم القيامة أنه كان يأكل في الدنيا قوتا.

ترجمہ:

قیامت کے روز ہر شخص اس بات کی تمنا کرے گا کہ وہ دنیا میں گزر بسر کی خوراک کھاتا۔

[کنزالعمال:7134]





حضرت علی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

شرار أمتي الذين يساقون إلى النار، الأقماع من أمتي، الذين إذا أكلوا لم يشبعوا، وإذا جمعوا لم يستغنوا.

ترجمہ:

میری امت کے برے لوگ وہ ہیں جو جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے میری امت (میں اعمال کے لحاظ) سے گھٹیا لوگ وہ ہیں جو کھاتے ہیں تو سیر نہیں ہوتے اور جب (مال) جمع کرتے ہیں تو (ان کا دل نہیں بھرتا) مالدار نہیں ہوتے۔

[کنزالعمال:7135]

تشریح:

یعنی ان کی مثال قیف جیسی ہے جس کا منہ کھلا ہوتا ہے اور نیچے سوراخ ہوتا ہے ان لوگوں کا بھی یہی حال ہے۔




حضرت سمرۃ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أنصر أحدكم ما يسد الجوع إذا أصاب حلالا.

ترجمہ:

تم میں سے زیادہ مددگار وہ شخص ہے جب اسے اتنا حلال مل جائے جس سے وہ اپنی بھوک روک سکے۔

[کنزالعمال:7135]






حضرت مقداد بن معدی کرب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما ملأ ابن آدم وعاء شرا من بطن، حسبك يا ابن آدم لقيمات يقمن صلبك، فإن كان لا بد فثلث طعام وثلث شراب وثلث نفس.

ترجمہ:

انسان نے پیٹ سے بڑھ کر کسی برے برتن کو نہیں بھرا، اے انسان! تیرے لیے وہ چند لقمے جن سے تو اپنی کمر سیدھی کرے، کافی ہیں، اور اگر (اس سے زائد) ضروری ہوں تو ایک تہائی کھانا، ایک تہائی پانی اور ایک تہائی سانس کے لیے ہے۔

[کنزالعمال:7137]





حضرت سمرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أنصر أحدكم ما يسد الجوع إذا أصاب حلالا.

ترجمہ:

تم میں سے زیادہ مددگار وہ شخص ہے جب اسے اتنا حلال مل جائے جس سے وہ اپنی بھوک روک سکے۔

[کنزالعمال:7136]





حضرت مقدام بن معدی کرب سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ما ملأ ابن آدم وعاء شرا من بطن، حسبك يا ابن آدم لقيمات يقمن صلبك، فإن كان لا بد فثلث طعام وثلث شراب وثلث نفس.

ترجمہ:

انسان نے پیٹ سے بڑھ کر کسی برے برتن کو نہیں بھرا، اے انسان! تیرے لیے وہ چند لقمے جن سے تو اپنی کمر سیدھی کرے، کافی ہیں، اور اگر (اس سے زائد) ضروری ہوں تو ایک تہائی کھانا، ایک تہائی پانی اور ایک تہائی سانس کے لیے ہے۔

[کنزالعمال:7137]






حضرت ابودرداء ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من أصبح معافى في بدنه، آمنا في سربه، عنده قوت يومه، فكأنما حيزت له الدنيا، يا ابن جعشم يكفيك منها ما سد جوعتك، ووارى عورتك، فإن كان بيت يواريك فذاك، وإن كانت دابة تركبها فبخ، جلف الخبز وماء الجر، وما فوق ذلك فحساب عليك.

ترجمہ:

جس کے بدن میں عافیت ہو، اس کے دل میں اطمینان ہو اور اس کے پاس اس روز کی خوراک ہو، تو گویا اس کے لیے دنیا جمع ہوگئی، اے ابن جعشم تمہارے لیے اتنی دنیا کافی ہے جس سے تم اپنی بھوک روک سکو، اپنا ستر ڈھانپ سکو پھر اگر (تمہیں ایسا) گھر (مل جائے) جو تمہیں پوشیدہ رکھے تو یہ بھی ٹھیک ہے، اور اگر کوئی سواری ہو جس پر تم سوار ہو تو یہ اچھی بات ہے، روٹی کا ٹکڑا اور گھڑے کا پانی (تو) ضرورت کی چیزیں ہیں بہتر ہیں اس کے علاوہ جو چیز ہوگی اس کا تم سے حساب لیا جائے گا۔

[کنزالعمال:7138]




حضرت ابوسعید اور ابن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من تسخط رزقه، وبث شكواه، ولم يصبر، لم يصعد له إلى الله عمل، ولقي الله تعالى وهو عليه غضبان.

ترجمہ:

جو اپنے (تھوڑے) رزق پر ناراض ہوا، اور شکوہ کرنے لگا، صبر سے کام نہ لیا، اللہ تعالیٰ کی طرف اس کا کوئی عمل نہ جائے گا، اور اللہ تعالیٰ کو ایسی حالت میں ملے گا کہ وہ اس سے غصہ ہوگا۔

[کنزالعمال:7139]






حضرت علی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من رضي من الله باليسير من الرزق رضي منه بالقليل من العمل.

وانتظار الفرج من الله عبادة.

ترجمہ:

جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھوڑے رزق پر راضی ہوگیا تو اللہ تعالیٰ اس کے تھوڑے عمل پر راضی ہوجائیں گے۔

(اور دیلمی میں مزید یہ بھی ہے کہ)

اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کشادگی کا انتظار کرنا عبادت ہے۔

[کنزالعمال:7140]





حضرت ابن مسعود سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من قنع بما رزق دخل الجنة.

ترجمہ:

جو اپنے رزق پر قانع رہا جنت میں داخل ہوگا۔

[کنزالعمال:7141]

(ابن شاہین والدیلمی عن ابن مسعود)






حضرت ابوسعید سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من قل ماله، وكثر عياله، وحسنت صلاته، ولم يغتب المسلمين جاء يوم القيامة وهو معي كهاتين.

ترجمہ:

جس کا مال تھوڑا ہو، عیال و اولاد زیادہ ہوں، اس کی نماز اچھی ہو اور اس نے مسلمانوں کی غیبت نہ کی ہو تو وہ قیامت میں یوں آئے گا کہ میرے ساتھ اس طرح ہوگا (جیسے یہ دو انگلیاں ملی ہوئی ہیں)۔

[کنزالعمال:7142]

(ابو یعلی والخطیب وابن عساکر عن ابی سعید)






حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يكفي أحدكم من الدنيا خادم ومركب.

ترجمہ:

تم میں کسی کیلئے دنیا (کی چیزوں) میں سے ایک خادم اور سواری کافی ہے۔

[کنزالعمال:7143]






حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يكفيك من الدنيا ما سد جوعتك، ووارى عورتك فإن كان لك شيء يظلك فذاك، وإن كانت لك دابة تركبها فبخ.

ترجمہ:

دنیا کی اتنی چیز جس سے تم اپنے بھوک مٹا سکو، اپنا ستر ڈھانپ سکو، اور اگر کوئی ایسا سائبان ہو جس کا سایہ حاصل کرسکو تو یہ بھی صحیح ہے اور اگر تمہاری سواری ہو جس پر تم سوار ہو تو یہ بھی اچھی چیز ہے۔

[کنزالعمال:7144]





حضرت ابن مبارک حضرت یحیی بن ابی کثیر سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

والذي نفس محمد بيده ما امتلأت دار حبرة إلا امتلأت عبرة وما كانت فرحة إلا تبعتها ترحة.

ترجمہ:

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، جو گھر (سرکشی کی) خوشی سے بھرا وہ آنسوؤں سے بھر جائے گا، اور خوشی کے بعد غم ہے۔

[کنزالعمال:7145]






حضرت علی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يا أبا الحسن: أيما أحب إليك خمسمائة شاة ورعاؤها؟ أو خمس كلمات أعلمكهن تدعو بهن؟ تقول: اللهم اغفر لي ذنبي، وطيب لي كسبي، ووسع لي في خلقي، وقنعني بما قضيت لي، ولا تذهب نفسي إلى شيء صرفته عني.

ترجمہ:

اے ابو الحسن علی: ان میں سے تمہیں کیا زیادہ پسند ہے پانچ سو بکریاں اور ان کے چرواہے؟ یا پانچ کلمے جو میں تمہیں سکھا دوں جن سے تم دعا کرو؟ تم کہا کرو: اے اللہ! میرے گناہ بخش دے، میری کمائی کو پاک بنا دے، اور میرے اخلاق کو وسعت عطا فرما، اور جو آپ نے میرے لیے فیصلہ فرمایا مجھے اس پر قناعت کی توفیق دے، اور میرا دل کسی ایسی چیز کی طرف مائل نہ ہو جسے آپ نے مجھ سے پھیر دیا ہے۔

[کنزالعمال:7146]






حضرت ابوهاشم شيبة بن عتبة القرشي سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يا أبا هاشم: إنها لعلك أن تدرك أموالا تقسم بين أقوام وإنما يكفيك من جمع المال خادم ومركب في سبيل الله.

ترجمہ:

اے ابو ہاشم! شاید ایسا ہو کہ تم ایسے اموال پاؤ جو قوموں میں تقسیم ہوں گے، مال کے جمع کرنے کے مقابلہ میں تمہارے لیے خادم اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں سواری کافی ہے۔

[کنزالعمال:7147]






حضرت سمرہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يا ابن آدم ارض من الدنيا بالقوت، فإن القوت لمن يموت كثير.

ترجمہ:

اے آدم کی اولاد! دنیا میں سے گزر بسر کی روزی پر راضی ہوجا، کیونکہ اتنی روزی جس سے موت واقع نہ ہو وہ بہت زیادہ ہے۔

[کنزالعمال:7148]






No comments:

Post a Comment