(1) اللہ کی کتاب کو چھوڑنا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ، كِتَابُ اللهِ
۔۔۔اور تحقیق میں چھوڑے جا رہا ہوں تم میں اللہ کی کتاب، نہیں تم گمراہ ہوگے اگر تم اسے مضبوط پکڑوگے۔۔۔
[صحیح مسلم:1218، سنن ابوداؤد:1905، مصنف ابن أبي شيبة:14705، المنتخب من مسند عبد بن حميد:858+1135، أخبار مكة للفاکھی:1891، السنة لابن أبي عاصم:1556، السنن الكبرى للنسائی:3987، المنتقى لابن الجارود:469 صحیح ابن خزیمۃ:2809، صحیح ابن حبان:1457+3944، حجة الوداع لابن حزم:92، السنن الكبرى للبيهقي:8827، مستخرج أبي عوانة:3922]
یعنی اسے چھوڑنے کا مطلب اسے نہ سمجھنا اور عمل نہ کرنا ہے، جو ظاہری دلیل ہے گمراہ ہونے کی۔
دین، جان، عقل، نسل، مال کی حفاظت وسلامتی کا حصول شریعت مقاصد ہیں، جن کا حصول ان سب کے خالق کی ہدایت ہی سے ممکن ہے۔
(2) غیرثابت وغیرمعروف احادیث پھیلانے والے اور دین میں نئی باتیں نکالنے والے جدید لوگوں سے نہ بچنا۔
حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«يَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ دَجَّالُونَ كَذَّابُونَ، يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَسْمَعُوا أَنْتُمْ، وَلَا آبَاؤُكُمْ، فَإِيَّاكُمْ وَإِيَّاهُمْ، لَا يُضِلُّونَكُمْ، وَلَا يَفْتِنُونَكُمْ»
ترجمہ:
آخر زمانہ میں جھوٹے دجال لوگ ہوں گے تمہارے پاس ایسی احادیث لائیں گے جن کو نہ تم نے نہ تمہارے آباؤ اجداد نے سنا ہوگا تم ایسے لوگوں سے بچے رہنا مبادا وہ تمہیں گمراہ اور فتنہ میں مبتلا نہ کردیں۔
[صحیح مسلم:7، صحيح ابن حبان:6766، التاريخ الكبير للبخاري بحواشي المطبوع:1167، شرح مشكل الآثار-الطحاوي:2954، 8250، مسند أحمد:8250(8267)، مسند أبي يعلى الموصلي:6384، مسند إسحاق بن راهويه:332، المستدرك على الصحيحين للحاكم، المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم:70، شرح السنة للبغوي:107، ترتیب الأمالي الخميسية-للشجري:327]
ایک روایت میں ہے:
يَأْتُونَكُمْ مِنَ الْأَحَادِيثِ بِمَا لَمْ تَعْرِفُوا۔۔۔
ترجمہ:
ایسی احادیث لائیں گے جن کو تم نہیں جانتے پہچانتے ہوگے۔۔۔
[الكفاية في علم الرواية للخطيب البغدادي، صفحة ٤٢٩، الجزء الأول والثاني من فوائد ابن بشران:99، كتاب العلم-أبو طاهر السلفي:159]
یعنی ان جدید جاہلوں سے بچو، جو نبی ﷺ کے متعلق ایسی نئی باتیں پھیلائیں گے جو ہم سے صحابہ تک والوں کی معلومات میں مشہور/محفوظ نہ ہوگی۔
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
يَأْتُونَكُمْ بِبِدَعٍ مِنَ الْحَدِيثِ
ترجمہ:
۔۔۔وہ لائیں گے تمہارے پاس نئی نئی باتیں حدیث میں سے۔۔۔
[مسند أحمد:8580(8596)، البدع لابن وضاح:65+71]
یعنی وہ جھوٹے دجال فتنہ باز لوگ ایسا بھی کریں گے کہ حدیث سے اپنے نئے نظریات وطریقے نکالیں گے اور اسے دین کا حکم یا ثواب کا کام کہہ کر لوگوں کو گمراہ کریں گے۔
(3) سنت کو چھوڑنا۔
رسول الله ﷺنے فرمایا:
بےشک میں نے یقیناً اپنے پیچھے(غیرحاضری میں) تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں،تم ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان دونوں کے بعد "کبھی بھی"...
[مسند(امام)البزار:8993، الشریعۃ(أمام)الآجري:1705، الحاكم:318، البيهقي:20336، البغوي:2755]
جب تک تم ان دونوں کو پکڑے رہو گے اور تم ’’عمل‘‘ کرتے رہوگے ان دونوں پر: وہ (1)کتاب الله اور (2)میری سنت ہیں۔۔۔
[البيهقي:20338، اللالکائی:90، موطا مالک:3338]
بس قرآن کی تشریح میری سنت کے ذریعہ کرو، تمہاری آنکھیں اندھی نہ ہوں گی، اور تمہارے قدم نہ پھسلیں گے اور تمہارے ہاتھ کوتاہی نہ کریں گے۔
[الصواعق المحرقہ:2/367، الفقيه والمتفقه:1/275 ، مصارف النظر:1/302]
اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے، حتیٰ کہ میرے پاس حوض پر وارد ہوں۔
[دارقطني:4606 ،الحاکم:319 ،البيهقي:20337]
دوسری روایت میں ہے:
اے لوگو! میں تم میں "جو" چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم نے "اسے" پکڑے رکھا تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے: اللہ کی کتاب، اور میرا خاندان میرے اہل بیت۔
[ترمذی:3786]
حتیٰ کہ دونوں حوض پر میرے پاس آئیں، سو خیال رکھنا کے میرے پیچھے (غیر حاضری میں) تم ان کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہو.
[ترمذی:3788، طحاوی:1765، طبرانی:4969، حاکم:4576]
حدیث کی تشریح احادیث سے:
(1)اہلِ بیت سے میرے بعد ہمیشہ حسنِ سلوک کرنا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں بہترین شخص وہ ہے جو میرے بعد میرے اہل خانہ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا ہو“۔ ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی الله عنہ نے اپنا ایک باغ چار لاکھ میں فروخت کیا اور اس کی رقم نبی ﷺ کی بیویوں میں تقسیم کردی۔
[السنة(امام)ابن ابي عاصم:1414]
فضائلِ اھلِ بیت:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میں تم لوگوں کو اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا(یعنی ڈراتا)ہوں۔
[صحیح مسلم:2408]
میں اپنی عترت کے بارے میں تمہیں بھلائی کی وصیت کرتا ہوں۔
[مسندالبزار:1050]
اے الله! دوست رکھ جو اِنہیں دوست رکھے اور تو دشمنی رکھ جو ان سے دشمنی رکھے۔
[طبرانی:4971]
یعنی ان سے بھلائی کرنا اور دوستی رکھنا، برائی ودشمنی سے بچنا۔
بہترین کون؟
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے بہترین وہ ہے جو میرے بعد(غیرحاضری میں) میرے اھل کے لئے بہترین ہے۔
[حاکم:5359، أبويعلي:5924، ابن أبي عاصم:1414]
یعنی وہ شخص بہترین نہیں جو ہمیشہ نبی کے گھروالوں کے ساتھ اضافی نیکی واحسان، خصوصی بھلائی وخیرخواہی نہ کرتا رہے۔
تنبیہ:
(1)جس طرح نبی ﷺ کا مقام اہلِ بیت کے افضل ہے، اسی طرح نبی ﷺ کی سنت، اہل بیت کے طریقہ سے افضل ہے۔
(2) الله کے بعد رسول ﷺ کی اطاعت فرض ہے...پھر حکم والوں کی...[سورہ النساء:59] جس نے کہا مانا رسول کا اس نے کہا مانا الله کا...[سورہ النساء:80]
(3) خاندانِ نبوت میں اہلِ بیت کی فضیلت ان کیلئے نہیں جو نبی(کی سنت) کے مخالف ہوں۔[سورہ النساء:115]
جیسے: نوح نبی كا غیرصالح بیٹا(کنعان) [هود:45]
نبی محمد ﷺ کے چچا ابولھب۔[سورہ لھب:1]
نبی محمد ﷺ پیارے پاسبان چاچا ابوطالب کے متعلق مشرک مرنے اور جہنمی ہونے کے سبب الله نے نبی کو دعائے بخشش سے بھی کو بھی قبول نہ فرمایا۔
[بخاری:4675،سورۃ التوبۃ:113]
(4)حضرت عباسؓ، حضرت علیؓ اور دیگر اہل بیت کی طرح بالترتیب حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان کی خلافت کو تسلیم کرنا اور ان کے فیصلوں کو جاری رکھنا، اہلِ بیت کے طریقہ کو پکڑنا ہے۔
(5)اسی طرح حضرت امیر معاویہ کی خلافت کو تسلیم کرنا بھی سیدنا حسن، حسین اور دیگر اہل بیت کے طریقہ کو پکڑنا ہے۔
عترت/اھل بیت کا مطلب، شیعہ کتب سے:
(1)
فلم ندر ما الثقلان حتّى قام رجل من المهاجرين فقال: بأبي أنت و امّي ما الثقلان؟ قال: الأكبر منهما كتاب اللّه سبب طرف بيد اللّه عزّ و جلّ و طرف بأيديكم فتمسّكوا به لا تزلّوا و لا تضلّوا. و الأصغر منهما عترتي لا تقتلوهم و لا تقهروهم، فإنّي سألت اللطيف الخبير أن يردّوا عليّ الحوض فأعطاني، فقاهر هما قاهري و خاذلهما خاذلي، و وليّهما وليّي، و عدوّ هما عدوّي.
ترجمہ:
نبی ﷺ نے جب ثقلین(دو بھاری چیزوں)کا بیان فرمایا تو ہم ثقلین کا مطلب نہ سمجھ سکے، حتیٰ کہ مہاجرین میں سے ایک شخص کھڑا ہوا، اس نے عرض کیا: آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، ثقلین کیا چیز ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ان دونوں میں سے بڑی چیز تو اللہ کی کتاب ہے، اس کا ایک سِرا تو الله کے دستِ قدرت میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھوں میں ہے، بس اس سے تمسّک کرو گے تو نہ پھسلوگے اور نہ ہی گمراہ ہوگے۔
اور ان دونوں بھاری چیزوں میں سے جو چھوٹی ہے، وہ نبی کی اولاد ہے، ان کو قتل نہ کرنا، ان پر قہر و تشدد نہ کرنا، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ یہ مجھے حوض پر ملیں، تو یہ سوال منظور ہوا۔ ان پر قہر کرنا، رسوا و ذلیل کرنا گویا میرے ساتھ یہ معاملہ کرنا ہے، جو دونوں بھاری چیزوں کا دوست ہے، وہ ہمارا دوست ہے جو ان کا دشمن ہے وہ بھی دشمن ہے۔
[كشف الغمه:١/٦٧ مع ترجمہ فارسی، ترجمہ المناقب، طبع جدید،ایران]
(2)
ثُمَّ تَرِدُ عَلَيَّ رَايَةٌ مَعَ سَامِرِيِّ هَذِهِ الْأُمَّةِ فَأَقُولُ لَهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِالثَّقَلَيْنِ مِنْ بَعْدِي- فَيَقُولُونَ أَمَّا الْأَكْبَرُ فَعَصَيْنَاهُ وَ تَرَكْنَاهُ- وَ أَمَّا الْأَصْغَرُ فَخَذَلْنَاهُ وَ ضَيَّعْنَاهُ- وَ صَنَعْنَا بِهِ كُلَّ قَبِيحٍ- فَأَقُولُ رِدُوا النَّارَ ظِمَاءً مُظْمَئِينَ مُسْوَدَّةً وُجُوهُكُمْ- ثُمَّ تَرِدُ عَلَيَّ رَايَةُ ذِي الثُّدَيَّةِ مَعَ أَوَّلِ الْخَوَارِجِ وَ آخِرِهِمْ- فَأَسْأَلُهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِالثَّقَلَيْنِ مِنْ بَعْدِي- فَيَقُولُونَ أَمَّا الْأَكْبَرُ فَفَرَّقْنَاهُ [فَمَزَّقْنَاهُ] وَ بَرِئْنَا مِنْهُ- وَ أَمَّا الْأَصْغَرُ فَقَاتَلْنَاهُ وَ قَتَلْنَاهُ، فَأَقُولُ رِدُوا النَّارَ ظِمَاءً مُظْمَئِينَ مُسْوَدَّةً وُجُوهُكُمْ، ثُمَّ تَرِدُ عَلَيَّ رَايَةٌ مَعَ إِمَامِ الْمُتَّقِينَ وَ سَيِّدِ الْوَصِيِّينَ- وَ قَائِدِ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ وَ وَصِيِّ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، فَأَقُولُ لَهُمْ مَا فَعَلْتُمْ بِالثَّقَلَيْنِ مِنْ بَعْدِي- فَيَقُولُونَ أَمَّا الْأَكْبَرُ فَاتَّبَعْنَاهُ وَ أَطَعْنَاهُ- وَ أَمَّا الْأَصْغَرُ فَأَحْبَبْنَاهُ وَ وَالَيْنَاهُ- وَ وَازَرْنَاهُ وَ نَصَرْنَاهُ- حَتَّى أُهْرِقَتْ فِيهِمْ دِمَاؤُنَا، فَأَقُولُ رِدُوا الْجَنَّةَ رِوَاءً مَرْوِيِّينَ مُبْيَضَّةً وُجُوهُكُمْ- ثُمَّ تَلَا رَسُولُ اللَّهِ ص «يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَ تَسْوَدُّ وُجُوهٌ
ترجمہ:
(حضور علیہ السلام نے فرمایا) پھر پانچواں جھنڈا امام المتقین، سید الوصیین، قائد غر المحجلیں، وصی رسول رب العالمین کا میرے پاس وارد ہوگا۔ میں ان سے دریافت کروں گا کہ تم میرے بعد "ثقلین(یعنی دو بھاری چیزوں)" کے ساتھ کس طرح پیش آۓ؟ وہ جواب میں عرض کریں گے کہ ثقل اکبر(یعنی بڑی بھاری چیز) کی ہم نے پیروی اور اطاعت کی اور ثقل اصغر(یعنی چھوٹی بھاری چیز) سے ہم نے محبت اور موالات کی اور ان کو یہاں تک مدد دی کہ ان کے بارے میں ہمارے خوں تک بھادیئے گئے، پس ان سے میں کہوں گا کہ تم سیر وسیراب ہوکر سفید رو(یعنی چہروں والے) بن کر جنت میں چلے جاؤ. اس کے بعد رسول الله ﷺ نے یہ آیتیں (سورہ آل عمران:106) تلاوت فرمائیں.
[تفسیر قمی عربی : صفحہ ٥٩ ایران (ضمیمہ: صفحہ ٥٨ مولوی مقبول احمد صاحب)]
(3)
ثم قال: أنشدكم بالله أتعلمون أن رسول الله صلى الله عليه وآله قال في حجة الوداع: أيها الناس إني قد تركت فيكم ما لم تضلوا بعده: كتاب الله وعترتي أهل بيتي فأحلوا حلاله، وحرموا حرامه، واعملوا بمحكمه، وآمنوا بمتشابهه، وقولوا: آمنا
ترجمہ:
پھر آپ (امام حسن رضی الله عنہ) نے (اپنے مخاطبین کو قسم دے کر) فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا: اے لوگو! میں نے تم میں اس چیز کو چھوڑا ہے جس کے بعد تم گمراہ نہ ہو گے، وہ کتاب اللہ ہے اور میری اولاد ہے۔ کتاب اللہ کے حلال کو حلال جانو اور اس کے حرام کو حرام جانو اور اسکے محکم (واضح حکموں) کے ساتھ عمل کرو اور متشابہ(غیرواضح آیات)پر ایمان رکھو اور کہو کہ اللہ نے جو کتاب اتاری ہے اس کے ساتھ ایمان لائے۔ اور اہل بیت کے ساتھ محبت رکھو اور جو شخص ان کے ساتھ دوستی رکھے تم اس کے ساتھ دوستی رکھو، اور جو ان کے ساتھ دشمنی رکھے تم اس کا خلاف کرو، اور یہ دونوں تم میں رہیں گے حتیٰ کہ قیامت کے روز میرے پاس حوض پر پہنچیں۔
[الاحتجاج طبرسی: ص139]
(4) نبی اور خلفاء کی مخالفت کرنا اور دین میں نئی نئی باتوں سے نہ بچنا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
میرے بعد(غیر حاضری میں)لوگوں میں "اختلاف" ہوجاۓ گا، تو تم لازم پکڑنا میری سنت اور خلفاء راشدین کی سنت کو...اور(دین میں)نئی باتوں سے بچو کیونکہ(دین میں)ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
[ابو داؤد:4607، ترمذی:2676، ابن ماجہ:42]
ہدایت اور گمراہی:
قرآن مجید کی واضح ادھوری آیتوں سے گمراہی کی دلیل نکالنا ممکن ہے۔
جیسے:
لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ...مت قریب جاؤ نماز کے
اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ...عمل کرو جو چاہو تم
فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ...تو عبادت کرو جس کی چاہو تم
قرآنی گواہی:
۔۔۔اسی(قرآنی مثالوں)سے وہ(الله)کئی لوگوں کو ھدایت دیتا ہے اور اسی(قرآنی مثالوں)سے وہ(الله)کئی لوگوں کو گمراہ کرتا ہے، اور نہیں وہ(الله)گمراہ کرتا اس کے ذریعے سے مگر نافرمانوں ہی کو۔
[سورۃ البقرۃ:26]
گمراہی کی دلیل پکڑنے کا طریقہ:
قرآن مجید کا جو معنیٰ و مطلب، دلیل یا تفسیر الله کے رسول کے صحابہ سے اماموں نے بیان نہیں کیا، بعد کے کسی شخص نے کیا، تو وہ جدید معنیٰ و مطلب، دلیل یا تفسیر غلط اور گمراہی کی ہے۔
دلیلِ قرآن:
اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت(قرآن) واضح ہونے کے بعد بھی رسول(سنت) کی مخالفت کرے، اور مومنوں(یعنی صحابہ کی جماعت-اجماع) کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
[سورۃ النساء:115]
قرآن کے مطابق رسول اور سارے مؤمنین(جو اس وقت صحابہ تھے)کے راستہ کی مخالفت جہنم میں جانے کا سبب ہے۔
اور
صحابہ میں خاص خلفاء کی مخالفت کی بڑی برائی ہے۔
معیاِر حق : علمِ دین میں صحابہ کرامؓ کا فہم
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے حضرت ابنِ عباسؓ سے دریافت فرمایا:
اس امت کا جب نبی ایک، قبلہ ایک، کتاب ایک تو اس میں اختلاف کیوں کر پیدا ہوگا؟
تو حضرت ابنِ عباسؓ نے جواب دیا:
اے امیر المومنین! قرآن ہمارے سامنے اترا ہے، ہم تو اس کے مواردِ نزول کو اچھی طرح جانتے ہیں، لیکن آئندہ ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن تو پڑھیں گے مگر انھیں صحیح طور پر اس کے موادر و مصادر (یعنی جس کیلئے جو آیات وارد و صادر ہوئیں ) کا علم نہ ہوگا پھر اس میں (بےعلم ہوتے ہوۓ بھی) اپنی طرف سے راۓ زنی شروع کریں گے اور اٹکل کے تیر چلائیں گے. اس لئے ان میں اختلاف ہوجاۓ گا اور جب اختلاف ہوگا تو لڑائیاں ہوں گی. شروع میں تو اس خیال سے حضرت عمرؓ نے اتفاقِ راۓ نہ کیا لیکن غور کرنے کے بعد انھیں بھی حضرت ابنِ عباسؓ سے اتفاقِ راۓ کرنا پڑا۔
قرآن مجید سے دھوکہ دینے والوں کو پہچاننے کا طریقہ:
صحابہ وتابعین کا علمِ تاویل:
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ الله نے منکرین تقدیر کے ایک مغالطے (کہ قرآن کریم میں ایسی آیات بھی موجود ہیں جن سے تقدیر تک کی نفی معلوم ہوتی ہے) کو دور کرنے کے لیے یہ ارشاد فرمایا:
لَقَدْ قَرَءُوا مِنْهُ ﴿يَعْنِي الصَّحَابَةَ﴾ مَا قَدْ قَرَأْتُمْ، وَعَلِمُوا مِنْ تَأْوِيلِهِ مَا جَهِلْتُمْ، ثُمَّ قَالُوا بَعْدَ ذَلِكَ: كُلُّهُ كِتَابٌ وَقَدَرٌ
ترجمہ:
ان لوگوں ﴿یعنی صحابہ کرام﴾ نے بھی یہ آیتیں پڑھی ہیں جن کو تم پڑھتے ہو، لیکن وہ ان کی تاویل(تفسیر و مطلب) کا علم رکھتے ہیں جس سے تم ناواقف ہو، اور انہوں نے یہ سب آیات پڑھنے کے باوجود تقدیر کا اقرار کیا ہے۔
[سنن أبي داود:4612، الشريعة للآجري:529﴿532﴾]
الفقه الدين:
(القرآن، التوبۃ:122)
(5) علماء کے بجائے جھلاء سے فتوے لینا:
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ بندوں (کے سینوں) سے نکال لے بلکہ علماء کو موت دیکر علم کو اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو جاہلوں کو سردار بنالیں گے، اور ان سے (دینی مسائل) پوچھے جائیں گے، اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔
[صحیح بخاری:100، صحیح مسلم:2673، سنن ترمذی:2652، سنن ابن ماجۃ:52، الجامع - معمر بن راشد:20477، الزهد والرقائق لابن المبارك:816، مسند أبي داود الطيالسي:2406، مسند الحميدي:592، مسند ابن الجعد:2677، مصنف ابن أبي شيبة:37590، مسند احمد:6511+6787، سنن الدارمي:245، أخبار مكة - الفاكهي:669،البدع لابن وضاح:233، مسند البزار:2422+2423، السنن الكبرى للنسائی:5876، شرح مشكل الآثار - الطحاوي:306، صحيح ابن حبان:4571+6719،
المعجم الأوسط للطبراني:55+988+2301+3222+6403،
المعجم الأوسط للطبراني:459،
المُعْجَمُ الكَبِير للطبراني:14210-14233،
المعجم لابن المقرئ:199+306+518+591+1042+1130+1311
مسند الموطأ للجوهري:774، السنن الواردة في الفتن للداني:262-266
مسند الشهاب للقضاعي:1107، جامع بيان العلم وفضله:951+1003-1011
السنن الكبرى للبيهقي:20352، شعب الإيمان للبيهقي:1541،
ترتيب الأمالي الخميسية للشجري:182، شرح السنة للبغوی:147،
معجم ابن عساکر:172+265+285+372+765+844+1039+1365+1441
مستخرج أبي عوانة:11729-11742]
تشريح:
یہ سچی نبوی پیشگوئی ہر سال مزید واضح ہوتی جارہی ہے کہ(1)گمراہی بڑھتی جائے گی،کیونکہ(2)غیرعالم کو راہنما بناکر فتوے لئے جائیں گے(3)پہلوں/بڑوں سے علمِ﴿نبوی﴾حاصل نہ کیا جائے گا_بعد والوں/پچھلوں/چھوٹوں کی رائے_عقل کے نام پر خیالات وخواہشات کو قبول کیا جائے گا۔
اللہ نے نبی کے بعد علم کی حفاظت اور تعلیم کے قابل ذریعہ علماء کو بنایا ہے۔ اسی لیے انہیں ہدایت کا امام چنا۔[سورۃ السجدۃ:24] اور ان ہی سے پوچھنے کا حکم فرمایا۔[سورۃ النحل:43] اور ان شرعی حکم دینے والوں کی (متفقہ باتوں میں) اطاعت کرنے کو لازم قرار دیا۔[سورۃ النساء:59] اور غیرعالم کی خواہشوں پر چلنے سے روکا۔[سورۃ الجاثیۃ:18] اور اللہ ہدایت نہیں دیتا نافرمان قوم کو۔[سورۃ المائدۃ:108 التوبۃ:24+80 الصف:5 المنافقون:6]
اور پہلے دور کے گذرے ہوئے علماء(صحابہؓ اور ائمہؒ) سب سے زیادہ قابلِ اعتماد اور قابلِ تقلید ہیں۔
کیا علماء کے بغیر کتاب کا وجود فائدہ مند ہے؟
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: «خُذُوا الْعِلْمَ قَبْلَ أَنْ يَذْهَبَ». قَالُوا: وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَفِينَا كِتَابُ اللَّهِ؟ قَالَ: فَغَضِبَ، ثُمَّ قَالَ: «ثَكِلَتْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ أَوَلَمْ تَكُنِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمْ شَيْئًا؟ إِنَّ ذَهَابَ الْعِلْمِ أَنْ يَذْهَبَ حَمَلَتُهُ، إِنَّ ذَهَابَ الْعِلْمِ أَنْ يَذْهَبَ حَمَلَتُهُ»
[سنن الدارمی:246]
ترجمہ:
حضرت ابوامامہ نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں علم کے رخصت ہوجانے سے پہلے اسے حاصل کرلو لوگوں نے دریافت کیا اے اللہ کے نبی علم کیسے رخصت ہوگا جبکہ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب موجود ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ ناراض ہوئے اور آپ نے ارشاد فرمایا تمہاری مائیں تمہیں روئیں۔ کیا تورات اور انجیل بنی اسرائیل میں موجود نہیں تھیں۔ یہ دونوں ان کے کیا کام آسکیں؟ بےشک علم کا رخصت ہونا یہ ہے کہ اس کے رکھنے والے رخصت ہوجائیں گے، بےشک علم کا رخصت ہونا یہ ہے کہ اس کے رکھنے والے رخصت ہوجائیں گے۔[سنن الدارمی:246]
تخریج: ابن ماجہ:228 ترمذی:2653
شواہد:
1) عَنْ زِيَادِ بْنِ لَبِيدٍ، قَالَ: ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَقَالَ: «ذَاكَ عِنْدَ أَوَانِ ذَهَابِ الْعِلْمِ» ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَكَيْفَ يَذْهَبُ الْعِلْمُ، وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَنُقْرِئُهُ أَبْنَاءَنَا، وَيُقْرِئُهُ أَبْنَاؤُنَا أَبْنَاءَهُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ زِيَادُ إِنْ كُنْتُ لَأَرَاكَ مِنْ أَفْقَهِ رَجُلٍ بِالْمَدِينَةِ، أَوَلَيْسَ هَذِهِ الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى، يَقْرَءُونَ التَّوْرَاةَ، وَالْإِنْجِيلَ لَا يَعْمَلُونَ بِشَيْءٍ مِمَّا فِيهِمَا؟»
حضرت زیاد بن لبید انصاریؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا : نبی ﷺ نے کسی واقعے کا ذکر کیا اور فرمایا : یہ علم چلے جانے کے وقت ہوگا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! علم کیسے اٹھ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں، اپنے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنے بیٹوں کو پڑھائیں گے ؟ قیامت تک (اسی طرح سلسلہ جاری رہے گا۔) نبی ﷺ نے فرمایا : زیاد ! تیری ماں تجھے روئے، میں تو تجھے مدینے میں سب سے زیادہ سمجھدار آدمی خیال کرتا تھا۔ کیا یہ یہودی اور عیسائی تورات اور انجیل نہیں پڑھتے؟ لیکن وہ ان میں موجود کسی حکم پر عمل نہیں کرتے۔
یعنی
بے عملی کا سبب علماء سے دوری ہے۔
2) عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ: «هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ العِلْمُ مِنَ النَّاسِ حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ» فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الأَنْصَارِيُّ: كَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا القُرْآنَ فَوَاللَّهِ لَنَقْرَأَنَّهُ وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا، فَقَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ، إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ المَدِينَةِ هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالإِنْجِيلُ عِنْدَ اليَهُودِ وَالنَّصَارَى فَمَاذَا تُغْنِي عَنْهُمْ؟»
حضرت ابودرداءُ سے بھی روایت ہے کہ ہم ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے کہ آپ ﷺ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا پھر فرمایا یہ ایسا وقت ہے کہ لوگوں سے علم کھینچا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں سے کوئی چیز ان کے قابو میں نہیں رہے گی۔ زیاد بن لبید انصاریؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم سے کیسے علم سلب کیا جائے گا جب کہ ہم نے قرآن پڑھا ہے اور اللہ کی قسم ہم اسے خود بھی پڑھیں گے اور اپنی اولاد اور عورتوں کو بھی پڑھائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تمہاری ماں تم پر روئے اے زیاد ! میں تو تمہیں مدینہ کے فقہاء میں شمار کرتا تھا۔ کیا تورات اور انجیل یہود و نصاری کے پاس نہیں ہے۔ لیکن انہیں کیا فائدہ پہنچا؟
[صحيح الترمذي:2653، سنن الدارمی:296، حاکم:338]
آج اکثر گھروں میں قرآن مجید گِرد وغبار سے لحاف میں لپٹا ایک کونے میں بس برکت کے نام سے رکھا رہتا ہے، جسے سمجھنا اور عمل کرنا تو دور اسے صرف بغیر سمجھے پڑھنے کیلئے بھی مولویوں کی ضرورت پڑتی ہے، پھر بھی لوگ علمِ انبیاء کے وارث علماء کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ان سے اتنا دور رہتے ہیں کہ وہ نہ خود عالم بننے کا شوق رکھتے ہیں اور نہ ہی اپنی اولاد کو عالم بنانے کا شوق دلاتے ہیں۔
حضرت ابن عيينة (م197ھ) نے فرمایا:
الحديث مضلة إلا للفقهاء.
ترجمہ:
حدیث گمراہی ہے سوائے فقہاء (یعنی گہری سمجھ رکھنے والے علماء) کیلئے۔
[الجامع في السنن والآداب والمغازي والتاريخ (ابن أبي زيد القيرواني م٣٨٦ھ) : ص118]
تفسير الموطأ للقنازعي (م٤١٣ھ) : 1/164،
الجامع لمسائل المدونة (ابن يونس الصقلي م٤٥١ھ) :24/65،
مسائل أبي الوليد ابن رشد (م٥٢٠ھ) : 1/672،
حضرت ابن وهب(م197ھ) فرماتے ہیں:
الحديث مضلة إلا للعلماء. ولولا مالك والليث لضللنا۔
ترجمہ:
حدیث گمراہی ہے سوائے علماء کیلئے۔ اور اگر امام مالکؒ اور امام لیثؒ (جیسے فقہاء) نہ ہوتے تو ہم گمراہ ہوجاتے۔
[ترتيب المدارك وتقريب المسالك (القاضي عياض م٥٤٤ھ): 1/91]
حضرت ابن وهب(م197ھ) فرماتے ہیں:
كل صاحب حديث ليس له إمام في الفقه فهو ضال ولولا أن الله أنقذنا بمالك والليث لضللنا.
ترجمہ:
ہر وہ حدیث والا(عالم) جس کا فقہ میں کوئی امام نہ ہو تو وہ گمراہ ہے، اور اگر اللہ نہ بچاتا ہمیں مالکؒ اور لیثؒ (جیسے امام) کے ذریعے تو ہم یقینا گمراہ ہوجاتے۔
[الجامع في السنن والآداب والمغازي والتاريخ (ابن أبي زيد القيرواني م٣٨٦ھ) : ص119]
الجامع لمسائل المدونة (ابن يونس الصقلي م٤٥١ھ) :24/65،
ترتيب المدارك وتقريب المسالك (القاضي عياض م٥٤٤ھ): 1/ 91+171
طبقات علماء الحديث (ابن عبد الهادي م٧٤٤ھ) : 1/314
امام محمدؒ بن حسن الشیبانی(م189ھ) نے فرمایا کتاب ’’أدب القاضي‘‘ میں:
لَا يَسْتَقِيمُ الْحَدِيثُ إلَّا بِالرَّأْيِ وَلَا يَسْتَقِيمُ الرَّأْيُ إلَّا بِالْحَدِيثِ حَتَّى أَنَّ مَنْ لَا يُحْسِنُ الْحَدِيثَ أَوْ عِلْمَ الْحَدِيثِ وَلَا يُحْسِنُ الرَّأْيَ فَلَا يَصْلُحُ لِلْقَضَاءِ وَالْفَتْوَى
ترجمہ:
حدیث‘ (ماہر کی)رائے(یعنی فقہ) کے بغیر درست نہیں ہوسکتی اور (ماہر کی)رائے‘ حدیث کے بغیر درست نہیں ہوسکتی، چنانچہ جو شخص حدیث بہتر نہ جانتا ہو یا فقہی اصول کا ماہر نہ ہو تو وہ قاضی بننے یا فتویٰ دینے کا صحیح اہل نہیں ہوسکتا۔
[الكافي شرح البزودي:1/ 185-186، كشف الأسرار شرح أصول البزدوي:1/ 17]
قاضی امام ابویوسف(م186ھ) فرماتے ہیں:
الْعَامِّيَّ إذَا سَمِعَ حَدِيثًا فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ بِظَاهِرِهِ
ترجمہ:
عام آدمی جب کوئی حدیث سنے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ ظاہر حدیث سے جو سمجھا ہے اس پر عمل کرے۔
[المبسوط للسرخسي:3/ 80]
لأنه لا يهتدي إلى معرفة أحواله، لأنه قد يكون منسوخاً أو متروكاً أو مصروفاً عن ظاهره.
ترجمہ:
کیوں کہ ممکن ہے کہ ظاہری معنى مراد نہ ہو، یا وہ حدیث منسوخ ہو، یا(عملاً) متروک ہو، یا اپنے ظاہر سے پھری ہوئی ہو۔
[البناية شرح الهداية:4/ 110]
بخلاف فتویٰ کہ کیونکہ فتویٰ میں یہ شبہ نہیں ہوتا اس لئے کہ مجتہد نے پوری تحقیق کے بعد ہی فتویٰ دیا ہے۔
تابعی حضرت عبدالرحمٰن بن مھدیؒ(م198ھ) نے فرمایا:
السُّنَّةُ الْمُتَقَدِّمَةُ مِنْ سُنَّةِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ خَيْرٌ مِنَ الْحَدِيثِ۔
[مسند الموطأ للجوهري (م٣٨١ھ) : حدیث56]
يريد أنه أقوى من نقل الآحاد۔
[الذب عن مذهب الإمام مالك (ابن أبي زيد القيرواني م٣٨٦ھ) : 1/274]
ترجمہ:
پہلے لوگوں کی سنت میں سے مدینہ والوں کی سنت حدیث سے بہتر ہے۔
مراد یہ ہے کہ وہ(پہلے لوگوں کا اجتماعی طریقہ) زیادہ قوت والا ہے نقل کردہ اکیلی(حدیث وخبر)کے۔
(6) گمراہی سے اللہ کی پناہ نہ مانگنا۔
سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے:
« اللهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، اللهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِعِزَّتِكَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْ تُضِلَّنِي، أَنْتَ الْحَيُّ الَّذِي لَا يَمُوتُ، وَالْجِنُّ وَالْإِنْسُ يَمُوتُونَ »
یعنی اے پروردگار ! میں تیرا فرمانبردار ہو گیا اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر بھروسا کیا اور تیری طرف رجوع کیا اور تیری مدد سے دشمنوں سے لڑا۔ اے مالک میرے ! میں تیری عزت کی پناہ مانگتا ہوں کوئی برحق معبود نہیں سوائے تیرے، اس بات سے کہ تو بھٹکا دے مجھ کو، تو وہ زندہ ہے جو کبھی نہیں مرتا، جن اور آدمی مرتے ہیں۔
[صحیح مسلم:2717 مسند احمد:2748، صحیح ابن حبان:898]
الله ہی ہدایت دیتا ہے اپنے نور سے جسے چاہے
[سورۃ النور:35،تفسیر ابن القیم:ص393]
(7) مسلمانوں کا آپس میں لڑنا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَلاَ فَلاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي ضُلَّالًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ۔
خبردار! میرے بعد تم گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔
[صحیح البخاری:4406+5550+7447، صحیح ابن حبان:5974+5975، المعجم الأوسط للطبراني:963، حجة الوداع لابن حزم:151، السنن الكبرى للبيهقي:9773، شرح السنة للبغوی:1965]
ہدایت پر آنے اور لانے کیلئے بھی جان کی حفاظت ضروری ہے اور شرعی مقاصد میں سے دوسرا اہم مقصد ہے۔
8) گمراہ کرنے والے لیڈر:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّمَا أَخَافُ عَلَی أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ۔
بیشک مجھے اپنی امت پر گمراہ کرنے والے رہنماؤں Leaders کا ڈر ہے۔
[ترمذی:2229، ابوداؤد:4252]
(9) شراب کا پینا۔
معراج کی رات میں نبی ﷺ کے سامنے بیت المقدس میں دو پیالے پیش کئے گئے ایک شراب کا اور دوسرا دودھ کا۔ نبی ﷺ نے دونوں کو دیکھا پھر دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ اس پر جبرائیل نے کہا کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہے جس نے آپ کو فطرت (اسلام) کی ہدایت کی۔ اگر آپ شراب کا پیالہ اٹھا لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی۔
[صحیح بخاری:4709]
ہدایت کیلئے عقل کی حفاظت ضروری ہے اور عقل کی حفاظت شرعی مقاصد میں سے تیسرا اہم مقصد ہے۔
*********************************
فرمانِ صحابہ:
سنت کی مخالفت کرتے قرآن کو کافی کہنا۔
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ عُمَرُ لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ حَتَّی يَقُولَ قَائِلٌ لَا نَجِدُ الرَّجْمَ فِي کِتَابِ اللَّهِ فَيَضِلُّوا بِتَرْکِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ أَلَا وَإِنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ عَلَی مَنْ زَنَی وَقَدْ أَحْصَنَ إِذَا قَامَتْ الْبَيِّنَةُ أَوْ کَانَ الْحَبَلُ أَوْ الِاعْتِرَافُ قَالَ سُفْيَانُ کَذَا حَفِظْتُ أَلَا وَقَدْ رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ
[بخاری:6830]
حضرت عمرؓ نے کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ ایک زمانہ لوگوں پر ایسا آئے گا کہ ایک کہنے والا کہے گا کہ ہم کتاب اللہ میں رجم کا حکم نہیں پاتے، چناچہ وہ ایک فرض کو چھوڑ کر گمراہ ہوں گے جو اللہ نے نازل کیا ہے، خبردار رجم واجب ہے اس پر جس نے زنا کیا اور شادی شدہ ہو بشرطیکہ اس پر گواہی قائم ہوجائے یا حمل ہوجائے یا اقرار ہو، شعبان نے کہا کہ اس طرح میں نے یاد کیا ہے سن لو رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا ہے اور آپ کے بعد ہم نے بھی سنگسار کیا ہے۔
لوگوں سے ان کی عقل کے بقدر حدیث بیان نہ کرنا۔ ہر سنی سنائی بات بیان نہ کرنا۔
أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، قَالَ: مَا أَنْتَ بِمُحَدِّثٍ قَوْمًا حَدِيثًا، لَا تَبْلُغُهُ عُقُولُهُمْ، إِلَّا كَانَ لِبَعْضِهِمْ فِتْنَةً.
[مسلم:1/11]
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ جب تم لوگوں سے ایسی احادیث بیان کروگے جہاں ان کی عقول نہ پہنچ سکیں تو بعض لوگوں کے لئے یہ فتنہ کا باعث بن جائے گی یعنی وہ گمراہ ہوجائیں گے اس لئے ہر شخص سے اس کی عقل کے موافق بات کرنی چاہیے۔
No comments:
Post a Comment