اللہ کی خاطر کی گئی ہر نیکی، اللہ کے راستے ہیں:
القرآن:
اور جن لوگوں نے ہماری خاطر کوشش کی ہے، ہم انہیں ضرور بالضرور اپنے راستوں کی ہدایت دیں گے، اور یقینا اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
[سورۃ العنکبوت:69]
امام مُجَاهِدٌ نے فرمایا:
«لَيْسَ سَبِيلُ الله وَاحِدًا، كُلُّ خَيْرٍ عَمِلَهُ فهو فِي سَبِيلِ الله»
ترجمہ:
"اللہ کا راستہ صرف ایک نہیں ہے۔ ہر نیک عمل جو بھی کیا جائے، وہ اللہ کے راستے میں ہے۔"
[مصنف ابن ابی شیبہ:30839]
تشریح:
یہ عبارت دو اہم نکات پر روشنی ڈالتی ہے:
1. اللہ تک پہنچنے کے راستوں کی کثرت:
پہلا جملہ "لَيْسَ سَبِيلُ الله وَاحِدًا" اس تصور کو رد کرتا ہے کہ اللہ کی رضا صرف ایک مخصوص طریقے یا رسمی عبادت تک محدود ہے۔ یہ تنگ نظری اور جمود کے خلاف ایک واضح بیان ہے، جو بتاتا ہے کہ نیکی اور تقویٰ کے مختلف مظاہر بھی اللہ کے قریب کرنے کا ذریعہ ہو سکتے ہیں۔
2. ہر نیکی کو اللہ کا راستہ قرار دینا:
دوسرا حصہ "كُلُّ خَيْرٍ عَمِلَهُ فهو فِي سَبِيلِ الله" اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کوئی بھی اچھا کام، چاہے وہ مالی مدد ہو، علمی خدمت ہو، یا معاشرتی بہتری، اگر نیک نیت سے کیا جائے تو وہ "اللہ کے راستے" میں شمار ہوتا ہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کے اس پہلو کو اجاگر کرتا ہے کہ ایمان صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں نیکی اور احسان (بہترین عمل) کو شامل کرتا ہے۔
نوٹ:
- قرآن و حدیث میں "سَبِيلِ الله" کا لفظ اکثر جہاد(یعنی اللہ کی اطاعت میں مشقت اٹھانے) یا مالی قربانیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (جیسے سورۃ التوبہ:24، التوبہ:60)، لیکن یہاں اس کا دائرہ وسیع کرکے ہر نیک عمل کو شامل کیا گیا ہے۔
- یہ تصور "نیت" کی اہمیت کو بھی ظاہر کرتا ہے، کیونکہ احادیث میں آیا ہے کہ "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے" (صحیح بخاری:1)۔
- یہ فقرہ اسلامی اخلاقیات کی وسعت کو بیان کرتا ہے، جس کے مطابق ہر وہ کام جو معاشرے کی بہتری یا کسی کی مدد کے لیے ہو، شرک اور گناہ سے پاک ہونے کی شرط پر، اللہ کی خوشنودی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
خلاصہ:
اس عبارت کا بنیادی پیغام یہ ہے کہ دین کو تنگ دائرے میں نہ سمجھا جائے۔ ہر نیک عمل، چھوٹا ہو یا بڑا، اگر خلوصِ نیت سے کیا جائے تو وہ اللہ کے راستے میں قدم رکھنے کے مترادف ہے۔ یہ نظریہ انسان کو زندگی کے ہر پہلو میں اللہ کی رضا تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
اللہ کی راہ کی تعریف: "اللہ کی راہ" (فی سبیل اللہ) ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے جو اللہ کی رضا کے حصول کیلئے (1)جہاد وقتال (2)دعوتِ دین، (3)انفاق کے ذریعہ دین کی خدمت اور معاشرتی فلاح کے لیے کیے جانے والے تمام اعمال کو شامل کرتا ہے۔ یہ صرف جہاد وقتال تک محدود نہیں بلکہ ہر وہ عمل جو خالصتاً اللہ کی خاطر کیا جائے، اس کی راہ میں شمار ہوتا ہے۔ حضرت انس بن مالک کی روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لغدوة او روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها.
ترجمہ:
اللہ کے راستے میں ایک صبح یا ایک شام (کا وقت گزارنا) دنیا اور اس کی ساری چیزوں سے بہتر ہے۔
[صحیح البخاری:2792، صحیح مسلم:4873(1880)، سنن الترمذی:1651، سنن ابن ماجه:2757]
کیوں کہ جنت دنیا سے بہتر اور باقی رہنے والی جگہ ہے، جب کہ دنیا فانی ہے اور بہت ہی تھوڑی چیز ہے۔
اور حضرت انس بن مالک ہی سے دوسری روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من راح روحة في سبيل الله كان له بمثل ما اصابه من الغبار مسكا يوم القيامة۔
ترجمہ:
جو شخص ایک شام بھی اللہ کی راہ میں چلا، تو جتنا غبار اس پر پڑا قیامت کے دن اس کے لیے اتنی ہی مشک ہو گی۔
[الاحادیث المختارۃ:2192، سنن ابن ماجہ:2775، المعجم الاوسط للطبرانی:1359، الصحیحہ:2338]
اللہ کی راہ کی اہم صورتیں:
(1)تلاشِ علمِ دین کیلئے نکلنا:
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
«مَنْ خَرَجَ في طَلَبِ الْعِلْمِ فهو فِي سبيل اللَّهِ حَتَّى يَرْجِعَ»
ترجمہ:
جو نکلے علم کی طلب میں تو وہ اللہ کی راہ میں ہے جب تک کہ وہ واپس لوٹے۔
[المعجم الصغیر للطبرانی:380، الاحادیث المختارۃ:2119-2120-2122]
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ جَاءَ مَسْجِدِي هَذَا، لَمْ يَأْتِهِ إِلَّا لِخَيْرٍ يَتَعَلَّمُهُ أَوْ يُعَلِّمُهُ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَمَنْ جَاءَ لِغَيْرِ ذَلِكَ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يَنْظُرُ إِلَى مَتَاعِ غَيْرِهِ»
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ: جو میری اس مسجد میں صرف اس لئے آئے کہ بھلائی کی بات سیکھے یا سکھائے وہ اللہ کے راستہ میں لڑنے والے کے برابر ہے اور جو اس کے علاوہ کسی اور غرض سے آئے تو وہ اس شخص کی مانند ہے جو دوسرے کے سامان پر نظر رکھے۔
[سنن ابن ماجہ:227، مصنف ابن أبي شيبة:7517، مسند احمد:9419، مسند أبي يعلى الموصلي:6472]
(2) باجماعت نماز کیلئے نکلنا:
حَدَّثَنَا عَبَايَةُ بْنُ رِفَاعَةَ، قَالَ: أَدْرَكَنِي أَبُو عَبْسٍ وَأَنَا أَذْهَبُ إِلَى الجُمُعَةِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ»
ترجمہ:
عبایہ بن رافع روایت کرتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز کیلئے جا رہا تھا کہ مجھ سے ابوعبس ملے اور کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس کے دونوں پاؤں اللہ کے راستہ میں غبار آلود ہوں، اس کو اللہ تعالیٰ دوزخ پر حرام کردیتا ہے۔
[صحيح البخاري:907، سنن الترمذي:1632، سنن للنسائي:3116]
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ من سَرَايَاهُ قَالَ: فَمَرَّ رَجُلٌ بِغَارٍ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ قَالَ: فَحَدَّثَ نَفْسَهُ بِأَنْ يُقِيمَ فِي ذَلِكَ الْغَارِ فَيَقُوتُهُ مَا كَانَ فِيهِ من مَاءٍ وَيُصِيبُ مَا حَوْلَهُ مِنَ الْبَقْلِ، وَيَتَخَلَّى مِنَ الدُّنْيَا، ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنِّي أَتَيْتُ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ فَإِنْ أَذِنَ لِي فَعَلْتُ، وَإِلَّا لَمْ أَفْعَلْ. فَأَتَاهُ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، إِنِّي مَرَرْتُ بِغَارٍ فِيهِ مَا يَقُوتُنِي مِنَ الْمَاءِ وَالْبَقْلِ، فَحَدَّثَتْنِي نَفْسِي بِأَنْ أُقِيمَ فِيهِ وَأَتَخَلَّى مِنَ الدُّنْيَا. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ بِالْيَهُودِيَّةِ وَلَا بِالنَّصْرَانِيَّةِ، وَلَكِنِّي بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَغَدْوَةٌ أَوْ رَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللهِ خير مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا، وَلَمُقَامُ أَحَدِكُمْ فِي الصَّفِّ خَيْرٌ مِنْ صلاته ستين سَنَةً۔
ترجمہ:
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سریہ میں تھے، ایک ساتھی کا گزر ایک غار سے ہوا جس میں ضرورت کے بقدر پانی اور کھیتی تھی، اس کا دل چاہا کہ گھر بار سے کنارہ کشی کرکے اس میں سکونت اختیار کرلے، اور اپنا گزر بسر غار میں موجود پانی اور اطراف کی کھیتی سے کرے، پھر اس نے اپنے جی میں کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو كر اس کا تذكره کروں گا، اگر انہوں نے مجھے اجازت دی تو ایسا ہی کروں گا، وگرنہ نہ کروں گا۔پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنا ارادہ بیان کیا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے یہودیت یا نصرانیت دے کر نہیں بھیجا گیا ہے ، بلکہ مجھے آسان روشن شریعت دے کر بھیجا گیا ہے، (یعنی رہبانیت و دنیا سے بالکلیہ قطع تعلق کرنے کی تعلیم دے کر نہیں بھیجا گیا ہے) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضه قدرت میں محمد کی جان ہے، یقینًا صبح یا شام کے وقت اللہ کے راستہ میں نکلنا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے، اور تم میں سے کسی کا صف (جہاد ہو یا نماز) میں کھڑا ہونا اس کے اکیلے ساٹھ سال نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
[مسند احمد:22291، المعجم الکبیر للطبرانی:7868، الصحیحہ:2924]
(3)انفاق فی سبیل اللہ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنا)
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا بھی "سبیل اللہ" کا اہم حصہ ہے۔ اس میں زکوٰۃ، صدقات، اور معاشرتی ضرورتوں کی تکمیل شامل ہے:
القرآن:
جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگائے (اور) ہر بالی میں سو دانے ہوں، اور اللہ جس کے لیے چاہتا ہے (ثواب میں) کئی گنا اضافہ کردیتا ہے، اللہ بہت وسعت والا (اور) بڑے علم والا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 261]
تفسیر:
اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے سات سوگنا ثواب ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ جس کا ثواب چاہیں اور بڑھا سکتے ہیں، واضح رہے کہ اللہ کے راستے میں خرچ کا قرآن کریم نے بار بار ذکر کیا ہے اور اس سے مراد ہر وہ خرچ ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کیا جائے اس میں زکوٰۃ صدقات اور خیرات سب داخل ہیں۔

القرآن:
(مالی امداد کے بطور خاص) مستحق وہ فقرا ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں اس طرح مقید کر رکھا ہے کہ وہ (معاش کی تلاش کے لیے) زمین میں چل پھر نہیں سکتے۔ چونکہ وہ اتنے پاک دامن ہیں کہ کسی سے سوال نہیں کرتے، اس لیے ناواقف آدمی انہیں مال دار سمجھتا ہے، تم ان کے چہرے کی علامتوں سے ان (کی اندرونی حالت) کو پہچان سکتے ہو (مگر) وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر سوال نہیں کرتے۔ اور تم جو مال بھی خرچ کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 273]
تفسیر:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ یہ آیت اصحاب صفہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، یہ وہ صحابہ تھے جنہوں نے اپنی زندگی علم دین حاصل کرنے کے لئے وقف کردی تھی اور آنحضرت ﷺ کے پاس مسجد نبوی سے متصل ایک چبوترے پر آپڑے تھے، طلب علم کی وجہ سے وہ کوئی معاشی مشغلہ اختیار نہیں کرسکتے تھے مگر مفلسی کی سختیاں ہنسی خوشی برداشت کرتے تھے کسی سے مانگنے کا سوال نہیں تھا، اس آیت نے بتایا کہ ایسے لوگ امداد کے زیادہ مستحق ہیں جو ایک نیک مقصد سے پوری امت کے فائدے کے لئے مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور سختیاں جھیلنے کے باوجود اپنی ضرورت کسی کے سامنے ظاہر نہیں کرتے۔ آیت نمبر 261 سے 274 تک صدقات کی فضیلت اور اس کے احکام بیان ہوئے تھے۔ آگے آیت نمبر 280 تک اس کی ضد یعنی سود کا بیان ہے۔ صدقات انسان کے جذبہ سخاوت کی نشانی ہیں، اور سود بخل اور مال کی محبت کی علامت ہے۔

(4) زکوة وصول کرنے والوں کا حکم:
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: «الْعَامِلُ عَلَى الصَّدَقَةِ بِالْحَقِّ كَالْغَازِي فِي سَبِيلِ اللَّهِ، حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى بَيْتِهِ»
ترجمہ:
حضرت رافع بن خدیجؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو یہ فرماتے سنا امانتداری کے ساتھ زکوٰۃ وصول کرنے والا اللہ کی راہ میں لڑنے والے کے برابر ہے۔ یہاں تک یہ لوٹ کر اپنے گھر آئے۔
[سنن أبي داود:2936، سنن الترمذي:645 ، سنن ابن ماجہ:1809]
(5) خدمتِ خلق کیلئے نکلنا:
معاشرتی فلاح کے کاموں کو بھی اللہ کی راہ میں عمل قرار دیا گیا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَكَالَّذِي يَقُومُ اللَّيْلَ وَيَصُومُ النَّهَارَ»
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہؓ روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: بیواؤں مسکینوں کی نگہداشت کرنے والا اللہ کی راہ میں لڑنے والے کی مانند ہے اور اس شخص کی انند ہے جو رات بھر قیام کرے اور دن بھر روزہ رکھے۔
[صحیح البخاری:5353+6007، صحیح مسلم:2982، سنن النسائی:2577، سنن ابن ماجہ:2140]
القرآن:
﴿وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ﴾
ترجمہ:
۔۔۔اور اللہ کی محبت میں اپنا مال رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سائلوں کو دیں، اور غلاموں کو آزاد کرانے میں خرچ کریں۔۔۔
[سورۃ البقرۃ:177]
(6) حلال کمائی کیلئے نکلنا:
عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَة، قَالَ: مَرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَرَأَى أَصْحَابُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جِلْدِهِ وَنَشَاطِهِ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ: لَوْ كَانَ هَذَا فِي سَبِيلِ اللهِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنْ كَانَ خَرَجَ يَسْعَى عَلَى وَلَدِهِ صِغَارًا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَإِنْ كَانَ خَرَجَ يَسْعَى عَلَى أَبَوَيْنِ شَيْخَيْنِ كَبِيرَيْنِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَإِنْ كَانَ يَسْعَى عَلَى نَفْسِهِ يُعِفُّهَا فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللهِ، وَإِنْ كَانَ خَرَجَ رِيَاءً وَمُفَاخَرَةً فَهُوَ فِي سَبِيلِ الشَّيْطَانِ»
ترجمہ:
ایک شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو صحابہ کرام رضی الل عنہم نے اس کے طاقتور جسم اور اس کی چستی کو دیکھ کر بہت تعجب کا اظہار کیا اور کہنے لگے : یارسول اللہ ! (كاش) اس شخص کی طاقت و جوانی اور چستی و مستعدی اللہ کے راستے میں خرچ ہوتی !!! رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"(ایسانہ کہو ) اگر یہ گھر سے اس لیے نکلا کہ اپنے چھوٹے بچوں کے لیے دوڑ دھوپ کرے تو یہ اللہ ہی کے راستے میں ہے۔ • اسی طرح اگر یہ اس لیے نکلا کہ اپنے بوڑھے والدین کی ضروریات پوری کرے تو پھر بھی یہ اللہ ہی کے راستے میں ہے۔ : اور اگر یہ اس لیے نکالا کہ اپنے آپ کو دست سوال پھیلانے سے بچائے تو یہ بھی اللہ ہی کے راستے میں شمار ہو گا۔ • اور اگر یہ اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے نکلا ہے تو اسے بھی اللہ کا راستہ ہی کہا جائے گا۔ ہاں اگر یہ گھر سے اس نیت سے نکالا کہ دوسروں پر فخراور بڑائی جائے اور اپنی دولت مندی کا مظاہرہ کرے تو پھر ان اس کی یہ دوڑ دھوپ شیطان کے راستے میں شمار ہو گی۔
[المعجم الكبير للطبراني:282، المعجم الاوسط للطبرانی:6835، المعجم الصغیر للطبرانی:940، السنن الکبریٰ للبیھقی:15741، صحيح الترغيب:1692، صحيح الجامع:1482،۔الصحيحة:3240-3248]
[مصنف عبد الرزاق:9578]
امام حسن بصری سے(بعض صحابہ سے)روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا أَنْفَقْتُمْ عَلَى أَهْلِيكُمْ في غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلَا تَقْتِيرٍ فهو فِي سبيل اللهِ۔
ترجمہ:
جو بھی تم اپنے اہل وعیال پر خرچ کرتے ہو بغیر اسراف اور کنجوسی کے تو وہ بھی اللہ کی راہ میں ہے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ:26606، السنن الکبریٰ للبیھقی:6134]
مَا أَنْفَقْتُمْ عَلَى أَهْلِيكُمْ في غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلَا تَقْتِيرٍ فهو فِي سبيل اللهِ۔
[السنن الکبریٰ للبیھقی:6132]

(7)دعوت وتبلیغِ دین میں نکلنا۔
القرآن:
اُدۡعُ اِلٰى سَبِيۡلِ رَبِّكَ بِالۡحِكۡمَةِ وَالۡمَوۡعِظَةِ الۡحَسَنَةِ وَجَادِلۡهُمۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُؕ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِيۡلِهٖ وَهُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُهۡتَدِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کر کے دعوت دو ، اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقے سے کرو جو بہترین ہو۔ یقینا تمہارا پروردگار ان لوگوں کو بھی خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گئے ہیں، اور ان سے بھی خوب واقف ہے جو راہ راست پر قائم ہیں۔
[سورۃ نمبر 16 النحل،آیت نمبر 125]
(8)جہاد(قتال) فی سبیل اللہ:
اللہ کا بول بالا کرنے کیلئے نکلنا:
عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا القِتَالُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ فَإِنَّ أَحَدَنَا يُقَاتِلُ غَضَبًا، وَيُقَاتِلُ حَمِيَّةً، فَرَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ، قَالَ: وَمَا رَفَعَ إِلَيْهِ رَأْسَهُ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ قَائِمًا، فَقَالَ: «مَنْ قَاتَلَ لِتَكُونَ كَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ العُلْيَا، فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»
ترجمہ:
حضرت ابوموسیؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ، اللہ کی راہ میں لڑنے کی کیا صورت ہے؟ اس لئے کہ کوئی ہم میں سے غصہ کے سبب لڑتا ہے، کوئی حمیت کے سبب سے جنگ کرتا ہے، پس آپ نے اپنا سر مبارک اس کی طرف اٹھایا اور آپ نے سر اسی سبب سے اٹھایا کہ وہ کھڑا ہوا تھا، پھر آپ نے فرمایا: جو شخص اس لئے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے تو وہ اللہ کی راہ میں (لڑنا) ہے۔
[صحیح البخاری:123، صحیح مسلم:1904، سنن أبي داود:2517، سنن الترمذي:1646، سنن ابن ماجه:2783، سنن للنسائي:3136]
القرآن:
اور (مسلمانو) ان کافروں سے لڑتے رہو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے، اور دین پورے کا پورا اللہ کا ہوجائے۔ پھر اگر یہ باز آجائیں تو ان کے اعمال کو اللہ خوب دیکھ رہا ہے۔
[سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 39]
القرآن:
اور تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہوجائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو (سمجھ لو کہ) تشدد سوائے ظالموں کے کسی پر نہیں ہونا چاہیے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة،آیت نمبر 193]
تفسیر:
یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جہاد کا اصل مقصد کسی کو اسلام پر مجبور کرنا نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ عام حالات میں کوئی شخص کفر پر اصرار کرے تب بھی جزیہ کے ذریعے اسلامی حکومت کے قوانین کی اطاعت کرکے اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے، لیکن جزیرۂ عرب کا حکم مختلف ہے، یہ وہ ملک ہے جہاں رسول کریم ﷺ کو براہ راست بھیجا گیا اور جہاں کے لوگوں نے آنحضرت ﷺ کے معجزات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور آپ ﷺ کی تعلیمات براہ راست سنیں، ایسے لوگ اگر ایمان نہ لائیں تو پچھلے انبیاء (علیہم السلام) کے زمانوں میں انہیں عذاب عام کے ذریعے ہلاک کیا گیا، آنحضرت ﷺ کے زمانے میں عذاب عام موقوف فرما دیا گیا، لیکن یہ حکم دیا گیا کہ جزیرۂ عرب میں کوئی کافر مستقل شہری کی حیثیت میں نہیں رہ سکتا، یہاں اس کے لئے تین ہی راستے ہیں یا اسلام لائے یا جزیرۂ عرب سے باہر چلا جائے یا جنگ میں قتل ہوجائے۔
(9)مجاہد کی نیابت کیلئے نکلنا:
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الوَارِثِ، حَدَّثَنَا الحُسَيْنُ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُسْرُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ خَالِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ جَهَّزَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَدْ غَزَا، وَمَنْ خَلَفَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِخَيْرٍ فَقَدْ غَزَا»
ترجمہ:
حضرت زید بن خالدؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا سامان درست کردے، تو گویا اس نے خود جہاد کیا اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے پیچھے اس کے گھر کی عمدہ طور پر خبر گیری کرے، تو گویا اس نے خود جہاد کیا۔
[صحیح البخاریؒ:2843، صحیح مسلم:1895، سنن أبي داود:2509، سنن الترمذي:1628، سنن ابن ماجه:1746، سنن النسائي:3180]
القرآن:
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے ہجرت کی ہے اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کے راستے میں جہاد کیا ہے، وہ اور جنہوں نے ان کو (مدینہ میں) آباد کیا اور ان کی مدد کی، یہ سب لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ولی وارث ہیں۔۔۔۔۔
[سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 72]
القرآن:
اور جو لوگ ایمان لے آئے، اور انہوں نے ہجرت کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، وہ اور جنہوں نے انہیں آباد کیا اور ان کی مدد کی وہ سب صحیح معنوں میں مومن ہیں۔ ایسے لوگ مغفرت اور باعزت رزق کے مستحق ہیں۔
[سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 74]
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے:
من مَاتَ على هَذِه التسع فهو في سبيل الله {التائبون العابدون۔۔۔}
ترجمہ:
جسے موت آئے ان نو(9) خصلتوں پر تو وہ اللہ کی راہ میں(موت آئی)ہے۔
(کامیاب سودا کرنے والے) (1)توبہ کرنے والے! (2)اللہ کی بندگی کرنے والے ! (3)اس کی حمد کرنے والے ! (4)روزے رکھنے والے ! (5)رکوع میں جھکنے والے ! (6)سجدے گزرنے والے ! (7)نیکی کی تلقین کرنے والے، (8)اور برائی سے روکنے والے، (9)اور اللہ کی قائم کی ہوئی حدوں کی حفاظت کرنے والے، (اے پیغمبر) ایسے مومنوں کو خوشخبری دے دو۔
[تفسیر الدر المنثور»سورہ التوبہ:112،۔فتح القدیر للشوکانی:2/466]
---
3. خصوصی نکات:
- وسیع مفہوم:
"سبیل اللہ" کا دائرہ کار انتہائی وسیع ہے، جیسے کہ حضرت ابو امامہ کی حدیث میں غار میں عبادت کی خواہش کو رسول اللہ ﷺ نے رہبانیت سے منع کرتے ہوئے "سبیل اللہ" کو اجتماعی عمل سے جوڑا ۔
- نیت کی اہمیت:
ہر عمل کی قبولیت کی شرط نیت کی خلوص ہے، جیسے کہ انفاق میں احسان نہ جتلانا۔
---
4. خلاصہ:
اللہ کی راہ سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے کیے جائیں، خواہ وہ (1)جہاد، (2)انفاق، (3)دعوت، تعلیم، یا عبادت کی شکل میں ہوں۔ قرآن و حدیث میں ان کی تفصیلات موجود ہیں، اور ان کا بنیادی مقصد انسان کی دنیاوی و اخروی کامیابی ہے۔
No comments:
Post a Comment