Wednesday, 3 July 2019

فضیلتِ فقہ اور مقامِ فقہاء

فقہ کسے کہتے ہیں؟
فقہ کی لغوی معنی ﴿سمجھ، فہم﴾ ہے۔
فقہ کی اصطلاح معنیٰ:
امام راغب اصفھانی(م502ھ) لکھتے ہیں:
الفقہ کے معنی علمِ حاضر سے علمِ غائب تک پہنچنا کے ہیں ، قرآن میں ہے:
فَمالِ هؤُلاءِ الْقَوْمِ لا يَكادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثاً
۔۔۔ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ حدیث(بات)کی فقہ(سمجھ)نہیں پارہے ہیں۔
(سورۃ النساء: 78)
وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ
۔۔۔۔۔ لیکن منافقین فقہ(سمجھ)نہیں رکھتے۔(سورۃ المنافقون:7)
[مفردات في غريب القرآن: ص ؍ 642]


یعنی فقہ وہ باطنی علم کی گہرائی ہے جو ظاہری الفاظ کے سرسری پڑھ یا سُن لینے سے نہیں حاصل ہوتی، بلکہ اس کیلئے مسلسل فکرونظر کی ضرورت پڑتی ہے۔



فقہ حاصل کرنا، فرضِ کفایہ ہے»
اللہ عزوجل نے فقہ حاصل کرنے کو مسلمانوں پر فرضِ کفایہ(کہ ایک گروہ ادا کردے تو باقی لوگ سبکدوش ہوجاتے ہیں)کرتے فرمایا:
 اور مسلمانوں کے لیے یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ وہ (ہمیشہ) سب کے سب (جہاد کے لیے) نکل کھڑے ہوں۔ لہذا ایسا کیوں نہ ہو کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک گروہ (جہاد کے لیے) نکلا کرے، تاکہ (جو لوگ جہاد میں نہ گئے ہوں) وہ دین کی فقہ(سمجھ بوجھ) حاصل کرنے کے لیے محنت کریں، اور جب ان کی قوم کے لوگ (جو جہاد میں گئے ہیں) ان کے پاس واپس آئیں تو یہ ان کو خبردار کریں، تاکہ وہ بچ کر رہیں۔
[سورۃ التوبۃ:122]

فقہاءِ دین کی ظاہری صفات»
(1)  جو دین میں سمجھ حاصل کرنے کیلئے ’’محصور‘‘ رہیں۔
(2)  اور اپنی قوم کو ’’خبردار‘‘ کرنے والے ہوں، بشرطیکہ قوم ان کے پاس آئے یعنی اعتماد کرے۔
(3)  تاکہ وہ انہیں (گناہوں کے سبب اللہ کے عذاب) سے ’’بچانے‘‘ کا سبب بنیں۔





رسول اللہ ﷺ سے اس کی فضیلت میں کئی احادیث بھی مروی ہیں:

(1) مَنْ يُرِدْ اللہُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ"۔
اللہ تعالیٰ جس کے حق میں بہتری چاہتے ہیں، اس کو دین کا تفقہ عطا فرماتے ہیں۔
[صحیح بخاری:71، صحیح مسلم:1037، سنن ابن ماجہ:221]



(2) «فَقِيهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ»
ایک فقیہ(عالم) شیطان پر ہزارعابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔
[سنن ابن ماجہ:222، الأحاديث المختارة:126]



(3)«‌مَنْ ‌تَفَقَّهَ فِي دِينِ اللَّهِ كَفَاهُ اللَّهُ مَهَمَّهُ وَرَزَقَهُ مِنْ ‌حَيْثُ ‌لَا ‌يَحْتَسِبُ»
جو شخص الله کے دین میں فقہ(سمجھ بوجھ) حاصل کرتا ہے، الله تعالیٰ اس کے کاموں میں اس کی کفایت فرماتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں اس کا وہم و گمان بھی نہ گیا ہو.
[مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم: رقم الحديث:4، مسند أبي حنيفة رواية الحصكفي:3، جامع بيان العلم وفضله:216، تاريخ بغداد:‌‌1220، جامع الأحاديث:21816]
 


اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش رکھے گا جو ہماری بات (حدیث) سن کر اسے محفوظ (یادکرلے اور اسے پھر دوسرے اس شخص تک پہنچادے جس نے اسے براہ راست نہیں سنا کیونکہ بہت سے فقہ (علمِ حدیث) کے محافظ حقیقتاً  فقیہ(دینی سمجھ رکھنے والا عالم) نہیں ہوتے  اور بہت سے فقیہ (علمِ حدیث کی فقہ رکھنے والے) تو ہیں لیکن جن کی طرف (یہ فقہ) منتقل کر رہے ہیں وہ ان سے زیادہ فقیہ ہیں...
[سنن ابوداؤد:3660، سنن ترمذی: 2656، سنن ابن ماجه:230]



بےشک لوگ تمہاری(اے میرے ساتھیو!) ’’اتباع‘‘ کریں گے اور زمین کے کناروں سے دین کی فقہ (گہری سمجھ) حاصل کرنے آئیں گے، تو میری طرف سے ان کے ساتھ بھلائی کرنے کی وصیت قبول کرو.
[سنن ترمذی:2650، سنن ابن ماجہ:249، مسند الشاميين للطبراني:405]



جو شخص الله کے دین میں فقہ(سمجھ بوجھ)حاصل کرتا ہے، الله تعالیٰ اس کے کاموں میں اس کی کفایت فرماتا ہے، اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے جہاں اس کا وہم و گمان بھی نہ گیا ہو.
[مسند أبي حنيفة رواية أبي نعيم: رقم الحديث:4]








فقہ کی اہمیت حدیث کے ائمہ(اماموں)کی نظر میں:
(1) امام اعمشؒ نے امام ابوحنیفہؒ کی گہری سمجھ سے متاثر ہوکر بے ساختہ فرمایا:
ترجمہ:
آپ طبیب(Doctor) ہیں اور ہم لوگ عطار(Pharmacists) ہیں.
[جامع بيان العلم وفضله، (امام) ابن عبد البر  » بَابُ ذِكْرِ مَنْ ذَمَّ الإِكْثَارَ مِنَ الْحَدِيثِ ...، رقم الحديث: 1195]



جیسے
علامہ سیوطیؒ(المتوفى: 911ه) ’’الحاوی للفتاوی‘‘ میں لکھتے ہیں :
قَالَتِ الْأَقْدَمُونَ: الْمُحَدِّثُ بِلَا فِقْهٍ كَعَطَّارٍ غَيْرِ طَبِيبٍ، فَالْأَدْوِيَةُ حَاصِلَةٌ فِي دُكَّانِهِ وَلَا يَدْرِي لِمَاذَا تَصْلُحُ، وَالْفَقِيهُ بِلَا حَدِيثٍ كَطَبِيبٍ لَيْسَ بِعَطَّارٍ يَعْرِفُ مَا تَصْلُحُ لَهُ الْأَدْوِيَةُ إِلَّا أَنَّهَا لَيْسَتْ عِنْدَهُ.
ترجمہ:
پہلے اہلِ علم نے کہا ہے کہ وہ محدث جو فقہ نہ جانتا ہو اس عطار(دوا فروش) کی طرح ہے جو طبیب (ڈاکٹر) نہ ہو، سب دوائیں اس کی دکان میں موجود ہوتی ہیں اور وہ نہیں جانتا کہ وہ کس مرض کا علاج ہیں۔ اور فقیہ بلاحدیث اسی طرح ہے جیسے وہ طبیب جو جانتا تو ہے کہ یہ دوائیں کس مرض کی ہیں مگر وہ رکھتا نہیں۔
[الْحَاوِي لِلْفَتَاوِي: جلد 2 صفحہ 398(2/277)]




(2) حافظ ابن قیمؒ لکھتے ہیں:
عن الْإِمَامُ أَحْمَدُ قَالَ: إذَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ الْكُتُبُ الْمُصَنَّفَةُ فِيهَا قَوْلُ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - وَاخْتِلَافُ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ فَلَا يَجُوزُ أَنْ يَعْمَلَ بِمَا شَاءَ وَيَتَخَيَّرَ فَيَقْضِيَ بِهِ وَيَعْمَلَ بِهِ حَتَّى يَسْأَلَ أَهْلَ الْعِلْمِ مَا يُؤْخَذُ بِهِ فَيَكُونُ يَعْمَلُ عَلَى أَمْرٍ صَحِيحٍ.
ترجمہ:
امام احمدؒ (م241ھ) سے مروی ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس حدیث کی کتابیں ہوں تو اس کے لئے جائز نہیں کہ جس پر چاہے عمل کر لے اور جو قول چاہے اختیارکرلے اور اس کے مطابق فیصلہ دے جب تک علماء سے نہ پوچھ لے کہ کون سی بات اختیار کرنی ہے۔ اس صورت میں اس کا عمل صحیح طریق پر ہوسکے گا۔

پہلے دنوں وہ اہلِ علم جن کی بات سند سمجھی جائے ”فقہاء“ کہلاتے تھے۔




(3) امام شافعیؒ کے شاگرد امام مزنیؒ (المتوفى: 264هـ) جو امام طحاویؒ کے استاد اور ماموں تھے فرماتے ہیں:
فَانْظُرُوا رَحِمَكُمُ اللَّهُ عَلَى مَا فِي أَحَادِيثِكُمُ الَّتِي جَمَعْتُمُوهَا، وَاطْلُبُوا الْعِلْمَ عِنْدَ أَهْلِ الْفِقْهِ تَكُونُوا فُقَهَاءَ۔
ترجمہ:
اللہ تم پر رحم کرے، ان احادیث پر جو تم نے جمع کیں نظر رکھو اور علم اہلِ فقہ سے حاصل کرو۔ تم خود بھی فقہاء(میں)بن جاؤگے۔
[الفقیہ والمتفقہ: جلد 2 صفحہ15(2/35)]






(4) امام ترمذیؒ(م279ھ ) ایک بحث میں لکھتے ہیں:
وَكَذَلِكَ قَالَ الفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الحَدِيثِ۔
ترجمہ: 
اور یہی بات فقہاء نے کہی ہے اور فقہاء ہی حدیث کے معنی بہتر جانتے ہیں۔
[جامع ترمذی: جلد 1 صفحہ118 (3/306)]




(5) حافظ ابن رجب حنبلیؒ(795ھ) اپنے رسالہ ’’الطیبۃ النافعۃ‘‘ میں لکھتے ہیں:
فأما الأئمة وفقهاء أهل الحديث فإنهم يتبعون الحديث الصحيح حيث كان إذا كان معمولا به عند الصحابة: ومن بعدهم: أو عند طائفة منهم فأما ما اتفق على تركه فلا يجوز العمل به لأنهم ما تركوه إلا على علم أنه لا يعمل به قال عمر بن عبد العزيز خذوا من الرأي ما يوافق من كان قبلكم فإنهم كانوا أعلم منكم.
ترجمہ:
تو ائمہ اور فقہاءِ حدیث، حدیث صحیح کی پیروی کرتے ہیں، وہ جہاں بھی ہو بشرطیکہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین کے ہاں یا ان کے کسی ایک حلقے میں عمل میں رہی ہو لیکن جب اسے سب نے چھوڑ رکھا ہو تو اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔ ان حضرات نے اسے کسی علم کی بناء پر ہی چھوڑا ہوگا۔
[فضل علم السلف علم الخلف: صفحہ4]

ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ فقہ اور حدیث میں کوئی تضاد نہیں، فقہ حدیث کا غیر نہیں، حدیث قالب(body) ہے تو فقہ روح(sprit) ہے، حدیث متن(Statement) ہے تو فقہ تشریح (Explanation) ہے - فقہاء نے کبھی قیاس(Logic) اور استنباط(elicitation) کو نص(Text) پر مقدم(forefront) نہیں کیا۔

مزید دیکھیئے:
امام خطیب البغدادی(المتوفى: 463هـ) کی کتاب ’’الفقيه و المتفقه‘‘ کو۔



تَفَقُّہ فِی الدِّیْن
''تَفَقُّہ فِی الدِّیْن‘‘ سے مراد دین کی بابت ایسی بصیرت، تحقیق و تدقیق، فہم و دانش، فراست اور گہرائی و گیرائی ہے کہ صاحبِ علم اپنی تمام تر عقلی، فکری اور علمی صلاحیتوں کو استعمال کر کے قرآن و سنّت سے احکام کا استنباط کرے اور ہر دور کے نِت نئے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے اہلِ ایمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں، توایسا کیوں نہیں ہو جاتا کہ اُن میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلے) سے ایک جماعت نکلے تاکہ وہ دین میں کامل فہم و بصیرت (تفقُّہ) حاصل کریں اور جب وہ اپنی قوم میں واپس جائیں تو وہ انہیں (اللہ کے عذاب سے) ڈرائیں شایدکہ وہ (گناہوں سے) بچیں‘‘ (التوبہ: 122)۔ حاملِ فقہ کو ''فقیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو اپنے آپ کو کل وقتی دین کے لیے وقف کر کے پورے معاشرے کا فرضِ کفایہ ادا کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: ''اللہ تعالیٰ جس شخص کے بارے میں خیر کا ارادہ فرماتا ہے اُسے دین کی کامل فہم عطا فرماتا ہے‘‘ (بخاری: 71)۔ ایک موقع پر آپﷺ نے صحابۂ کرام سے فرمایا: ''لوگ تمہاری پیروی کریں گے، وہ تمہارے پاس اطرافِ عالَم سے دین کے بارے میں جاننے کے لیے آئیں گے، پس جب وہ تمہارے پاس آئیں تو خیر کی طرف اُن کی رہنمائی کرنا‘‘ (ترمذی: 2650)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے اپنا دستِ مبارک میرے شانے پر رکھا اور فرمایا: اے اللہ! اسے دین کی کامل سمجھ عطا فرما اور اسے تاویل کا علم عطا فرما‘‘ (مسند احمد: 2397)۔ تاویل کے معنی ہیں: '' قرآنِ کریم کا کوئی کلمہ جو ایک سے زائد معانی کا احتمال رکھتا ہے، سیاق و سباق کو سامنے رکھتے ہوئے ترجیحی دلائل کی روشنی میں اُسے کسی ایک معنی پر محمول کرنا‘‘۔ الغرض قرآن وحدیث میں فِقْہ وتَفَقُّہْ کے الفاظ استعمال ہوئے، یعنی مطلق علم ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ اس سے علم میں ایسا رسوخ اور تصلُّب مراد ہے کہ انسان کو اپنے خیر و شر سے آگہی حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بھلا یہ تو بتائو کہ جس شخص نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا، اللہ نے اُسے علم کے باوجود گمراہی میں چھوڑ دیا، اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا (کیا وہ ہدایت پائے گا؟)، پس اللہ کے (گمراہی میں چھوڑ دینے کے) بعد اُسے کون ہدایت دے گا، کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے‘‘ (الجاثیہ: 23)، اسی لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اے اللہ! میں ایسے علم سے تیری پناہ میں آتا ہوں جو نفع رساں نہ ہو‘‘ (صحیح مسلم: 2722)۔
اس کی مزید وضاحت آپﷺ کے اس فرمان سے ہوتی ہے: ''اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ رکھے جس نے ہم سے (دین کی) کوئی بات سنی، پھر اُسے یاد رکھا حتیٰ کہ اُسے دوسرے تک پہنچایا، کیونکہ بہت سے حاملِ فقہ (یعنی احادیث کو جاننے والے) فقیہ نہیں ہوتے، لیکن وہ انہیں ایسے شخص تک پہنچا دیتے ہیں جو اُس سے بڑا فقیہ ہوتا ہے‘‘ (ترمذی: 2656)، یعنی وہ دین کی ایسی فہم و بصیرت رکھتا ہے کہ اُن احادیث مبارکہ سے مسائل کا استنباط کر سکتا ہے۔ اس حدیثِ پاک میں حاملِ فقہ سے وہ شخص مراد ہے جو نبی کریمﷺ کے فرامین کو سنے، اُنہیں یاد رکھے اور پھر دوسروں تک پہنچائے اور فقیہ سے مراد وہ شخص ہے جو نبی کریمﷺ کے اُس فرمان کے سیاق و سباق، اُس کی علّت و حکمت اور اُس کے مقصد و منشا پر غور کر کے اس سے مسائل کا استنباط کرے؛ پس تفقہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ہر کس و ناکس اگر تفقہ کا حامل ہوتا تو رسول اللہﷺ یہ کیسے ارشاد فرماتے کہ بعض حاملِ فقہ (حدیث) غیر فقیہ ہو تے ہیں۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر فقیہ محدث ضرور ہوتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر محدث فقیہ بھی ہو۔ غیر فقیہ محدث الفاظ شناسِ رسول جبکہ فقیہ مزاج شناسِ رسول ہوتا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: ''فقہائے کرام ہی حدیث کے معانی کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں‘‘ (ترمذی، ج: 3، ص: 306)۔
ایک مرتبہ کسی محفل میں محدثِ جلیل امام سلیمان بن مہران اعمشؒ سے کچھ مسائل پوچھے گئے، وہاں محدث و فقیہ امام اعظم ابوحنیفہؒ بھی موجود تھے، اُنہوں نے فرمایا: ان مسائل کے حل کے لیے ان سے رجوع کرو، امام صاحب نے تمام مسائل کے جوابات عنایت فرما دیے، امام اعمش نے پوچھا: یہ مسائل آپ نے کہاں سے بتائے؟ آپ نے امام اعمش کو بتایا: یہ مسائل میں نے اُن احادیث سے اخذ کیے جو آپ نے روایت کی ہیں، اس استنباط و فقاہت پر امام اعمش حیران و ششدر رہ گئے اور امام ابوحنیفہ کی تحسین کرتے ہوئے یہ تاریخی کلمات ارشاد فرمائے: اے گروہِ فقہاء! آپ طبیب ہیں اور ہم (گروہِ محدثین) عطار ہیں‘‘ (جَامعُ بَیانِ العِلمِ وَ فضلِہ: 1195)، یعنی ہم محدثین کی مثال پنساری کی سی ہے جس کے پاس مختلف قسم کے مفردات (جڑی بوٹیاں وغیرہ) ہوتی ہیں، مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ کسی مرض کے علاج کے لیے کن مفردات سے کون سی مرکب دوا تیار کی جائے، اُس کی خوراک کی مقدار کیا ہو، پرہیز کیا ہو گا، ان باتوں کو حکیم اور طبیب ہی جانتا ہے۔ اِسی طرح محدثین کے حافظے میں احادیث کا بیش بہا خزانہ ہوتا ہے، مگر وہ ان سے شریعت کے احکام و مسائل کے استنباط کا ملکہ نہیں رکھتے، یہ اجتہاد و استنباط فقہاء کا خاصّہ ہے: ان کی مثال طبیب و حکیم کی سی ہے، وہ احادیث کے معانی کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ الغرض فکر و تدبرکی گہرائی کے ساتھ دین کی فہم و بصیرت اور ادراک کا نام فقہ ہے اور شریعت سے وابستہ اُمور کی گہرائی میں اُترنا اور پیش آمدہ مسائل کی پیچیدہ گتھی کو سلجھانا فقہی بصیرت کا خاصّہ ہے، اِس کی اساس وحیِ الٰہی ہے، دین ودنیا کی فلاح اور اخروی نجات اس کا مُدّعا و مقصود ہے۔
فقہِ اسلامی قرآن و سنّت کا ثمر، تعاملِ اُمت کا جوہر اور ائمہ مجتہدین کی فکری کاوشوں کا سرمایہ ہے اور ابدی و آفاقی دین کا ایک بنیادی رکن اور جز ہونے کے ناتے ہر لحاظ سے جامع و کامل اور ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے جو انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں اور دنیا و آخرت کی فلاح کی ضامن ہے، وہ اسلام کی تشریعی فکر کا خزانہ اور اس کی آفاقی تہذیب کا سرچشمہ ہے۔ عہدِ صحابہ و تابعین میں فقہ کا اطلاق ہر قسم کے دینی احکام کے فہم پر بولا جاتا تھا، ان میں عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاملات اور حدود و فرائض سب شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہِ اسلامی کے سب سے پہلے مُدَوِّن امام اعظم ابوحنیفہ نے فقہ کی تعریف یہ فرمائی: ''نفسِ انسانی کے لیے مفید اور خیر پر مبنی اُمور کا شعور اور ضرر رساں اُمور کے فہم و ادراک کاحاصل ہونا فقہ ہے‘‘۔ ایک عرصے تک فقہ کا یہی مفہوم برقرار رہا، لیکن اسلامی علوم میں توسیع کے ساتھ ساتھ فقہ اُن مسائل و معاملات تک محدود ہو گیا جو انسان کو زندگی میں عملاً پیش آتے ہیں، اس کے نتیجے میں عقائد و اخلاقیات فقہ کے دائرہ کار سے خارج ہو گئے، عقائد کے لیے علم الکلام اور علم العقائد کے عنوان سے ایک الگ شعبہ قائم ہوا، وجدانی اُمور اور تزکیۂ باطن تصوف اور علم الاخلاق کا حصہ بن گئے، یہ تمام اُمور شریعت کے دائرے میں آتے ہیں، پھر فقہ کا یہ اصطلاحی مفہوم قرار پایا: ''احکام عملیہ شرعیہ کو تفصیلی دلائل کے ساتھ جاننے کا نام فقہ ہے‘‘، مثلاً: اگر یہ بیان کیا جائے کہ اسلام نے نماز اور روزے کو فرض قرار دیا ہے یا سود اور زنا کو حرام قرار دیا ہے تو اس حکم کے ساتھ قرآن و سنت میں مذکور نماز و روزے کی فرضیت اور زنا و سودکی حرمت کے دلائل بھی ذکر کیے جائیں، گویا علم فقہ کا موضوع انسانی اعمال و افعال میں سے ہر فعل کا شرعی حکم دلیل کے ساتھ اس طرح معلوم کرنا ہے کہ یہ فعل و عمل جائزہے یا ناجائز، حلال ہے یا حرام، مستحب ہے یا مکروہ، وغیرہ۔
علامہ ابن نجیم و دیگر فقہائے کرام نے اِن عملی شعبوں کو جن سے فقہی مسائل کا تعلق ہے کلی طور پر تین حصوں میں اور پھر ذیلی ابواب میں تقسیم کیا ہے: (1) عبادات: یعنی جن اعمال پر اللہ اور بندے کے باہمی تعلق کی بنیاد ہے، یہ پانچ اعمال ہیں: نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور جہاد، (2) معاملات: یعنی جن اعمال کا تعلق انسانوں کے باہمی معاملات سے ہے، یہ بھی پانچ ہیں: مالی معاوضات (مثلاً: بیع و شراء، استصناع اور اجارہ وغیرہ)، مناکحات (مثلاً: نکاح و طلاق اور اس سے متعلقہ مسائل)، مخاصمات (مثلاً: دعویٰ، شہادت اور قضا وغیرہ)، امانت، (یعنی عاریت اور ودیعت وغیرہ)، ترکات یعنی میراث کے مسائل، (3): زواجر و عقوبات: یعنی جرائم کے انسداد سے متعلق اُمور، اِن کی بھی پانچ قسمیں ہیں: یعنی انسانی جان سے متعلق جرائم کے انسداد سے متعلق مسائل (مثلاً: قصاص، دیات اور معاقل وغیرہ)، مال سے متعلق جرائم کے سدِّباب سے متعلق احکام، (یعنی چوری اور ڈاکا وغیرہ کی سزائیں)، عزتِ نفس کو داغ دار اور مجروح کرنے کے جرائم کے انسداد سے متعلق قوانین (مثلاً: حدِّ قذف وغیرہ)، آبرو ریزی کے انسداد یعنی زنا سے متعلق مسائل، اسلامی حدود کی پامالی، مثلاً: اِرتداد وغیرہ کے انسداد سے متعلق مسائل‘‘ (البحر الرائق، ج: 1،ص: 7 تا 8)۔ چنانچہ فقہائے اسلام نے حفاظتِ نفس، حفاظتِ دین، حفاظتِ عقل، حفاظتِ مال اور حفاظتِ آبرو کو مقاصدِ شرعیہ میں سے قرار دیا ہے۔
تَفَقُّہ فِی الدِّیْن کی بابت قرآنی ترغیب و تشویق ہی کا نتیجہ تھا کہ کچھ ہی عرصے میں صحابۂ کرام کا وہ مخصوص طبقہ وجود میں آیا جو اپنی علمی و دینی خصوصیات کے لحاظ سے عام صحابہ سے ممتاز تھا، یہ وہ طبقہ تھا جو افتاء کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتا تھا، صحابہ کرام کی تعداد پر اگر روشنی ڈالی جائے تو ان کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ چودہ ہزار ہے، لیکن اُن میں فقہاء صحابہ کرام جنہوں نے فتوے دیے، اُن کی تعداد صرف ایک سو ساٹھ کے لگ بھگ ہے اور پھر ان میں اجتہاد و فقاہت کے درجے پر فائز صحابہ کی تعداد دس بارہ سے متجاوز نہ تھی؛ ان میں خلفائے راشدین کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت معاذ بن جبل، حضرت اُبی بن کعب، حضرت زید بن ثابت، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں۔ اس سے بھی یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ محض احادیث کو روایت کرنا اور ان میں فقہ و بصیرت سے کام لینا دو مختلف اُمور ہیں اور یہ کہ اس بہترین دور میں بھی تمام صحابۂ کرام خود قرآن و سنت سے مسائل کا استنباط نہیں کرتے تھے، یہ فریضہ چند اہلِ علم صحابہ کرام ہی ادا کرتے تھے اور باقی حضرات اُن کی پیروی کرتے تھے، تو آج کے دورِ انحطاط میں ہر شخص کو یہ منصب کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ براہِ راست قرآنِ مجید اور سنتِ رسولﷺ سے مسائل و احکام کا استنباط کرے اور ائمہ مجتہدین کی اتباع کرنے کے بجائے خود ہی مجتہد بن بیٹھے۔

اِفتاء کا میدان فقہ کی نسبت وسیع تر ہے۔ لغت میں اس کا معنی ہے: ''کسی سوال کا جواب دینا، خواہ وہ شریعت سے متعلق ہو یا نہ ہو، جیسا کہ قرآنِ مجید میں بادشاہِ مصر کی یہ بات نقل کی گئی: ''اے میرے درباریو! اگر تم خواب کی تعبیر بیان کر سکتے ہو تو مجھے میرے خواب کی تعبیر بتائو‘‘ (یوسف: 43)۔ اِسی طرح ملکہ سبا کی بات نقل کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: '' بولی: اے میرے درباریو! مجھے درپیش معاملے (یعنی سلیمان علیہ السلام کے مکتوب کے بارے) میں رائے دو‘‘ (النمل: 32)۔ ان دونوں آیات میں افتاء کا لفظ ایسے سوال کا جواب دینے کے لیے استعمال ہوا ہے جو احکام سے متعلق نہیں ہے، لیکن پھر یہ لفظ شریعت سے متعلق سوال کا جواب کے دینے کے ساتھ خاص ہو گیا۔ قرآن مجید اور متعدد احادیث میں یہ لفظ اِس معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری ہے: ''(اے رسولِ مکرّم!) یہ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ فرما دیں! اللہ تمہیں اُن کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے‘‘ (النسآء: 127)۔ احادیث میں ہے: (1) نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''تم میں فتویٰ دینے میں سب سے زیادہ جری (یعنی علم کے بغیر دین کے مسائل بتانے والا) آگ میں داخل ہونے میں زیادہ جری ہے‘‘ (سنن دارمی)، (2) ''حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک اللہ تعالیٰ علم کو (اس طرح) نہیں اٹھائے گا کہ علم کو بندوں (کے سینوں) سے نکال لے، لیکن علمائِ (حق) کے اٹھائے جانے سے علم کو اٹھا لے گا حتیٰ کہ جب وہ کسی عالم کو باقی نہیں رکھے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا مذہبی پیشوا بنا لیں گے، پھر اُن سے (دین کے بارے میں) سوال کیا جائے گا تو وہ (اپنی جہالت کا اعتراف کیے بغیر) جہالت پر مبنی فتوے دیں گے، پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘ (صحیح بخاری: 100)، یعنی دینی پیشوائی کے منصب پر فائز جاہلوں کا غرورِ نفس اُنہیں اپنی جہالت کے اعتراف کی اجازت نہیں دے گا اور وہ جہالت پر مبنی فتوے دیں گے اور یوں دین میں تباہی اور بربادی کا راستہ کھل جائے گا، اس کے مظاہر ہمیں آج بھی جابجا نظر آتے ہیں۔
پس زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق پیش آمدہ مسائل میں دینی رہنمائی کا نام فتویٰ ہے اور مفتی صرف شریعت کے عملی احکام کا ہی جواب نہیں دیتا، بلکہ بسا اوقات دین کے اعتقادی مسائل کا بھی جواب دیتا ہے۔ حدیث کے معنی و مفہوم یا حدیث کی اسنادی حیثیت فرقوں اور ملّتوں، تاریخ و سیرت، تصوف و سلوک، اخلاق و آداب، عبادات و معاملات، معاشرت و سیاسیات وغیرہ کے وہ مسائل جو دین اور دینی علوم سے متعلق ہیں، ان کے بھی جواب دیتا ہے۔
پہلی صدی ہجری سے لے کر عصرِ حاضر تک فقہائے کرام کا ایک طویل سلسلہ ہے، بعض فقہائے کرام نے کتبِ فقہ مدوّن کیں اور بعض نے کتبِ فتاویٰ مرتب فرمائیں۔ خالص فتاویٰ کے تحریر ی مواد کی تاریخ بھی عہدِ صحابہ ہی سے شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ مفتیٰ بہٖ مسائل اور کثیر جزئیات پر مشتمل لکھی جانے والی کتابوں میں بلادِ شام میں لکھی جانے والی ردّالمحتار عَلی الدُّرِّ المختار اور غیرمنقسم ہندوستان میں فتاویٰ عالمگیری اس فن کی اہم ترین کتابوں میں سے ہیں۔


No comments:

Post a Comment