برے علماء کون؟
(1) اپنی رائے کی "ملاوٹ" سے نئی تفسیر و تشریح کرنے والے یا مکمل بات کو "چھپانے" والے۔
القرآن:
اور حق کو باطل کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو، اور نہ حق بات کو چھپاؤ جبکہ(اصل حقیقت)تم اچھی طرح جانتے ہو۔
[سورۃ البقرۃ:42]
(2) بےعمل اسکالرز:
کیا تم حکم تو کرتے ہو لوگوں کو نیکی کا لیکن بھلادیتے ہو اپنے آپ کو جبکہ(سمجھ کر)پڑھتے بھی ہو کتاب کو، کیا تم عقل نہیں رکھتے؟
[سورۃ البقرۃ:44]
(3) دنیا کیلئے دین کو بدلنے والے:
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے بدلے تھوڑی سی"قیمت"وصول کرلیتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ کے سوا کچھ نہیں بھر رہے، قیامت کے دن اللہ ان سے کلام بھی نہیں کرے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
[سورۃ البقرۃ:174]
اے ایمان والو !(یہودی)عالموں اور(عیسائی)راہبوں درویشوں میں سے بہت سے ایسے ہیں کہ لوگوں کا مال ناحق طریقے سے کھاتے ہیں، اور دوسروں کو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں۔ (رشوت لے کر لوگوں کی مرضی کے مطابق شریعت کو توڑ موڑ ڈالتے ہیں، اور اس طرح اللہ کے مقرر کئے ہوئے صحیح راستے سے لوگوں کو روک دیتے ہیں۔)
[سورۃ التوبۃ:34]
(4) جمہور متقدمین علماء سے اختلاف رکھنے سے بڑھ کر مخالفت ومقابلہ كرے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُبَاهِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ، أَوْ لِيُمَارِيَ بِهِ السُّفَهَاءَ، أَوْ يُرِيدُ أَنْ يُقْبِلَ بِوُجُوهِ النَّاسِ إِلَيْهِ، أَدْخَلَهُ اللَّهُ جَهَنَّمَ» ۔
ترجمہ:
جس شخص نے علم اس لیے حاصل کیا تاکہ علماء سے مقابلہ کرے یا کم علم لوگوں سے جھگڑا(بحث)کرے یا لوگوں کو علم کے ذریعہ اپنی طرف مائل کرے، اللہ تعالی ایسے شخص کو جہنم میں داخل کریں گے۔
[ترمذي2654، ابن ماجة:253، طبراني:199، حاكم:293]
تشریح:
جو علم حاصل کرے یعنی وہ بعد والا چھوٹا-اکیلا شخص ہے جو پہلے والے بڑے اور بہت سے علماء سے صرف اختلاف ہی نہیں بلکہ مخالفت ومقابلہ کرے، تاکہ سستی اور جلد شہرت پائے تو یہ نافرمانی گناہِ کبیرہ ہی نہیں بلکہ "فساد" ہے، جو صرف نافرمان کو ہی نقصاندہ نہیں بلکہ خالق کی مخلوق اور دین میں بگاڑ پیدا کرنا ہے، جو قرآن کے مطابق لوگوں کو قتل کرنے سے بھی زیادہ سخت[سورۃ البقرۃ:191] اور بڑا [سورۃ البقرۃ:217] گناہ ہے کیونکہ قتل کرنے سے اس مقتول کا صرف دنیاوی نقصان ہوا، لیکن جو دین کو بگاڑے اور لوگوں کو گمراہ کرے وہ تو آخرت کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔
ایسا شخص کم علم عوام سے بحث کرتا ہے تو اس کا ارادہ ومقصد انہیں اپنی طرف مائل کرنا ہوتا ہے، اور جب یہ خود جہنم میں داخل ہوگا تو اس کے پیروکاروں کا انجام کیا ہوگا۔
اس حدیث میں بڑی اہم اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اولاً تو اسلام کی ترقیات وفتوحات کا ذکر کیا، پھر کچھ علماء وقُراء کا ذکرکیا، جو خود پسندی یا اَنانیت میں مبتلا ہوں گے کہ بڑے پرانے علماء کی بڑی جماعت کی اختلافی رائے کا علمی حق کے نام پر ان سب کو گمراہ قرار دے گا۔ اور اس گروہ کو اس طور پر ذکر کیا ہے کہ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کی ترقیات اور فتوحات میں یہی لوگ رکاوٹ ہیں؛ کیوں کہ اس گروہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی ترقی کا ذکر کرنے کے بعد بہ طورِ تقابل پیش کیا ہے۔
یہ بڑی قابلِ عبرت بات ہے اور سو فیصد صحیح ہے ، کیوں کہ خود پسندی اور اَناپرستی کی وجہ سے یہ لوگ نہ علمائے حق کا ساتھ دیتے ہیں اور نہ علمائے حق کو آگے آنے دیتے ہیں؛ بل کہ ان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش میں اپنی ہمت اور وقت واستعداد خرچ کرتے ہیں، مقصد صرف اپنی اَنا کی تسکین اور اپنی عزت وشہرت کا بقا وتحفظ ہوتا ہے؛ پھر دین کو ترقی کیسے ہوگی اور فتوحات کا دروازہ کہاں سے کھلے گا؟اس سے معلوم ہوا کہ علمائے سُو ہی اسلام کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں؛ لہٰذا اس حدیث میں قرآن پڑھنے والوں سے مراد علمائے سُو ہیں، جوصرف اپنے دنیوی مفادات اور نام وشہرت کے لیے دینی علوم حاصل کرتے اور اس کی خدمت کرتے ہیں۔
(5) بعد والے یا چھوٹی عمر والے علماء
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَلْتَمِسَ الْعِلْمَ عِنْدَ الْأَصَاغِرِ ".
ترجمہ:
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ اصاغر(یعنی چھوٹے بعد والوں) سے علم حاصل کیا جائے گا۔
[صحیح الجامع الصغیر:2207]
(6) جس کا مقصد دنیا کمانا ہو۔
نبی ﷺ نے فرمایا:"مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ ، لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا ، لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".یعنیجس شخص نے اس علم کو جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے سیکھا جاتا ہے اس لیے سیکھا تاکہ اس کے ذریعہ دنیا کمائے ایسا شخص جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔[ابوداود:3664، ابن ماجة:252، احمد:8457، أبي يعلى الموصلي:6373، صحيح ابن حبان:78، حاكم:288]
(7) اپنی بات کو نبی ﷺ کے نام کہنے والے:
اور ایک روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
اتَّقُوا الْحَدِيثَ عَنِّي إِلَّا مَا عَلِمْتُمْ ، فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ، وَمَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
[ترمذی:2951احمد:2675]
بچو میری حدیث بیان کرنے سے مگر جس کا تمہیں علم ہو، کیونکہ جس نے مجھ پر جھوٹ بولا جان کر تو اس نے اپنا ٹھکانہ جھنم بنالیا۔
اور
جو کہے قرآن(کے بارے)میں(بغیرعلم محض)اپنی رائے سے تو اس نے اپنا ٹھکانہ جھنم بنالیا۔
(8) حکمرانوں کی خلافِ شرع باتوں میں ساتھ دینے والے:
رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے:
العلماء أمناء الرسل على عباد الله ما لم يخالطوا السلطان ويداخلوا الدنيا۔۔۔
ترجمہ:
علماء الله کے بندوں پر رسولوں کے امین(یعنی حفاظتِ دین کے ذمہ دار)ہیں، بشرطیکہ وہ(ظلم میں)حکمرانوں سے گھل مل نہ جائیں اور (دینی تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کر)دنیا میں نہ گھس پڑیں...
[جامع الاحادیث:14504]
حضرت انسؓ کی ایک روایت سے یہ حدیث منقول ہے:
العلماءُ أمناءُ الرسلِ على العبادِ ما لم يخالِطوا السلطانَ ويدخلوا في الدنيا فإذا دخلوا في الدنيا وخالَطوا السلطانَ فقد خانوا الرسلَ فاعتزِلوهُم.
ترجمہ:
علماء الله کے بندوں کے درمیان رسولوں کے (علمی ورثے کے) امین ہوتے ہیں، جب تک کہ وہ حکمران کے ساتھ نہ گھِلیں مِلیں(یعنی پیچھے پیچھے چلنے نہ لگیں)۔ پس اگر وہ حکمران کے ساتھ گِھل ملیں، تو بلاشبہ انہوں نے رسولوں(کی علمی امانت)سے خیانت کی، تو تم ان(علماء) سے خبردار رہنا اور ان سے علیحدہ ہوجانا‘‘۔
[تنبيه الغافلين» حدیث#675، الجامع الصغير» حدیث#5683حسن]
اسی طرح حضرت علیؓ سے بھی ایک روایت میں ہے:
الفقَهاءُ أمَناءُ الرسلِ ما لم يَدخلوا في الدُّنْيا ويتَّبعوا السُّلطانَ ، فإذا فعَلوا ذلِكَ فاحذَروهُم۔
ترجمہ:
فقہاء(علمِ دین کی سمجھ رکھنے والے) الله کے بندوں کے درمیان رسولوں کے(علمی ورثے کے) امین (محافظ) ہوتے ہیں، جب تک کہ وہ دنیا میں داخل نہ ہوں اور(وہ اس طرح کہ) حکمرانوں کی پیروی کریں، پس جب وہ ایسا کریں تو ان سے بچنا۔
(9) بدعات کے حامی اور صحابہ کی فضیلت چھپانے والے:
رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے:
إذا ظهرت البدعُ فى أمتى وشُتِمَ أصحابى فليُظْهِر العالمُ علمَه فإنْ لم يفعلْ فعليه لعنةُ اللهِ۔
ترجمہ:
جب میری امت میں بدعتیں نکالی جائیں اور میرے صحابہ کو برا کہا جاۓ تو اس وقت کے عالم پر لازم ہے کہ اپنے علم(سنت)کو ظاہر کرے اور جو ایسا نہ کرےگا تو اس پر لعنت(یعنی رحمت سے دوری)ہے الله کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی بھی.
[الشریعۃ،لامام آجری:2875]
جامع الاحادیث:2336
الاعتصام،لامام شاطبی:1/104
مفتاح الجنۃ،للسیوطی:1/66
فیض القدیر،للمناوی:1/401
عَنْ عَلِیٍّ ؓ قَالَ قَالَ رَسوْلُ اللہِﷺ: يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقىٰ مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اِسْمُهُ، وَلَا يَبْقىٰ مِنَ الْقُرْاٰنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدىٰ، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَاۗءِ مِنْ عِنْدِهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيْهِمْ تَعُوْدُ۔
ترجمہ:
حضرت علیؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ جس میں صرف اِسلام کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف نقوش باقی رہیں گے۔ اُن کی مسجدیں بظاہر آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ اُس زمانہ کے علماء(Scholars) آسمان کے نیچے سب سے بدترین مخلوق ہوں گے۔ خود اُن ہی میں سے فتنہ پھوٹے گا اور اُنہی میں جاکر ٹھہرے گا۔
[شعب الإيمان، للبیھقی:1763(ضعيف)]
(10) جو دنیاداری کا عالم ہو۔
حضرت ابوہريرهؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبْغِضُ كُلَّ جَعْظَرِيٍّ جَوَّاظٍ سَخَّابٍ فِي الْأَسْوَاقِ جِيفَةُ اللَّيْلِ، حِمَارُ النَّهَارِ، عَالِمٌ بِالدُّنْيَا، جَاهِلٌ بِالْآخِرَةِ»
بےشک اللہ عز وجل نفرت رکھتے ہیں ہر بدخلق، اجڈ اور بازاروں میں شور مچانے والے، رات کو گوشت کا لوتھڑا(بغیر سوئے)رہنے والے، دن کے گدھے، دنیا کے عالم، آخرت سے جاہل سے۔
[صحيح ابن حبان:72، السنن الكبرى للبيهقي:20804، صحيح الجامع:1879]
یعنی
قابلِ نفرت علماء سے مراد دنیا کے عالم ہیں۔ دنیا حاصل کرنے کے سب طریقے جانتا ہے اور آخرت بنانے والے اعمال کی مخالفت کرتا رہتا ہے۔
لہٰذا، اکثر لوگوں کو حدیث کا خالی ترجمہ پڑھنے سے دھوکہ ہوسکتا ہے، اور وہ آخرت کی طرف متوجہ رہنے والے اور لوگوں کو توجہ دلانے والے علماء پر اس حدیث کو فِٹ کرتے، خود بھی گمراہ رہتے ہیں اور دوسروں کو بھی دین کی من چاہی تشریح وتفسیر کرنے پر لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment