دنیا نام ہے ادنیٰ چیز کا۔
دنیا کے لغوی معنیٰ ادنیٰ اور قریبی(جلدی والی) چیز کے ہے۔
[مفردات القرآن:صفحہ318»سورۃ البقرۃ:63، الاسراء:18]
دنیا کی حقیقت:
حضرت علی ؓ نے فرمایا:
«حَلَالُهَا حِسَابٌ، وَحَرَامُهَا عَذَابٌ»
ترجمہ:
جس کے حلال میں حساب، اور جس کے حرام میں عذاب ہے۔
[الزهد لأبي داود:109، الزهد لابن أبي الدنيا:18]
القرآن:
اور تم کو جو نعمت بھی حاصل ہوتی ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، پھر جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اسی سے فریادیں کرتے ہو۔ اس کے بعد جب وہ تم سے تکلیف دور کردیتا ہے تو تم میں سے ایک گروہ اچانک اپنے پروردگار کے ساتھ شرک شروع کردیتا ہے۔ تاکہ ہم نے اسے جو نعمت دی تھی اس کی ناشکری کرے۔ اچھا ! کچھ عیش کرلو، پھر عنقریب تمہیں پتہ چل جائے گا۔
[سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 53-55 (تفسير التستري)]
دنیا نام مٹنے والی چیزوں کا۔
حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا دُوَيْدٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ زُرْعَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدُّنْيَا دَارُ مَنْ لَا دَارَ لَهُ، وَمَالُ مَنْ لَا مَالَ لَهُ، وَلَهَا يَجْمَعُ مَنْ لَا عَقْلَ لَهُ.
ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: دنیا گھر ہے اس شخص کا جس کا کوئی گھر نہ ہو، اور مال ہے اس شخص کا جس کا کوئی مال نہ ہو، اور دنیا کے لئے وہی جمع کرتا ہے جس کے پاس عقل نہ ہو۔
[مسند احمد:24419]
وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ دُوَيْدٍ، وَهُوَ ثِقَةٌ.
[مجمع الزوائد للهيثمي:18078]
[ذم الدنيا، لابن ابي الدنيا:182]
القرآن:
اس زمین میں جو کوئی ہے، فنا ہونے والا ہے۔
[سورۃ الرحمٰن:26]
جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ سب ختم ہوجائے گا ، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے ۔ اور جن لوگوں نے صبر سے کام لیا ہوگا، ہم انہیں ان کے بہترین کاموں کے مطابق ان کا اجر ضرور عطا کریں گے۔
[سورۃ النحل:96]
حديث عائشة: أخرجه أحمد (6/71، رقم 24464) ، قال الهيثمى (10/288) : رجاله رجال الصحيح غير دويد، وهو ثقة. والبيهقى فى شعب الإيمان (7/375، رقم 10638) . وأخرجه أيضًا: الديلمى (2/230، رقم 3109) .
حديث ابن مسعود الموقوف: أخرجه البيهقى فى شعب الإيمان (7/375، رقم 10637) ، وأخرجه أيضًا: أحمد فى الزهد (1/161) . قال المناوى (3/546) : قال المنذرى والحافظ العراق
ى: إسناده جيد
القرآن:
(1)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي الْوَلِيدِ، قَال: سَمِعْتُ خَوْلَةَ بِنْتَ قَيْسٍ، وَكَانَتْ تَحْتَ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ مَنْ أَصَابَهُ بِحَقِّهِ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَرُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِيمَا شَاءَتْ بِهِ نَفْسُهُ مِنْ مَالِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ لَيْسَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا النَّارُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الْوَلِيدِ اسْمُهُ: عُبَيْدُ سَنُوطَا.
ترجمہ:
حمزہ بن عبدالمطلب کی بیوی خولہ بنت قیس ؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے جس نے اسے حلال طریقے سے حاصل کیا اس کے لیے اس میں برکت ہوگی اور کتنے ایسے ہیں جو اللہ اور اس کے رسول کے مال کو حرام وناجائز طریقہ سے حاصل کرنے والے ہیں ان کے لیے قیامت کے دن جہنم کی آگ تیار ہے ۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
[جامع ترمذی» کتاب:-گواہیوں کا بیان»ب اب:-حق کے ساتھ مال لینے کے متعلق»ح دیث نمبر: 2374]
اصول:
قرآن وسنت میں جہاں بھی دنیا کی مذمت کی گئی ہے، وہاں احکام الہی سے غافل کرنے والی اور آخرت کو نقصان پہنچانے والی چیزیں/باتیں مراد ہیں۔
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ أَنَّ عُمَرَ بْنَ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَمِعَ عُبَيْدَ سَنُوطَا يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ خَوْلَةَ بِنْتَ قَيْسٍ وَقَدْ قَالَ خَوْلَةُ الْأَنْصَارِيَّةُ الَّتِي كَانَتْ عِنْدَ حَمْزَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى حَمْزَةَ بَيْتَهُ فَتَذَاكَرُوا الدُّنْيَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الدُّنْيَا خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ مَنْ أَخَذَهَا بِحَقِّهَا بُورِكَ لَهُ فِيهَا وَرُبَّ مُتَخَوِّضٍ فِي مَالِ اللَّهِ وَمَالِ رَسُولِهِ لَهُ النَّارُ يَوْمَ يَلْقَى اللَّهَ
ترجمہ:
حضرت خولہ بنت قیس جو حضرت حمزہ کی اہلیہ تھیں، سے مروی ہے کہ ایک دن نبی حضرت حمزہ کے پاس تشریف لائے اور دنیا کا تذکرہ ہونے لگا، نبی نے فرمایا: دنیا سرسبز و شیریں ہے، جو شخص اسے اس کے حق کے ساتھ حاصل کرے گا اس کے لئے اس میں برکت ڈال دی جائے گی اور اللہ اور اس کے رسول کے مال میں بہت سے (ناحق)گھسنے والے ایسے ہیں جنہیں اللہ سے ملنے کے دن جہنم میں داخل کیا جائے گا۔
[مسند احمد» حضرت خولہ بنت حکیم کی حدیثیں» حدیث نمبر: 26098]
حَدَّثَنَا أَسْوَدُ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذِهِ الدُّنْيَا خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ آتَيْنَاهُ مِنْهَا شَيْئًا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنَّا وَطِيبِ طُعْمَةٍ وَلَا إِشْرَاهٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ وَمَنْ آتَيْنَاهُ مِنْهَا شَيْئًا بِغَيْرِ طِيبِ نَفْسٍ مِنَّا وَغَيْرِ طِيبِ طُعْمَةٍ وَإِشْرَاهٍ مِنْهُ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ
ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ دنیا سرسبز اور شیریں ہے، سو جسے ہم کوئی چیز اپنی خوشی سے اور اچھے کھانے کی دے دیں جس میں اس کی بے صبری شامل نہ ہو تو اس کے لئے اس میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور جس شخص کو ہم اس میں سے کوئی چیز اپنی خوشی کے بغیر اور اچھے کھانے کے علاوہ دیدیں جس میں اس کی بےصبری بھی شامل ہو تو اس کے لئے اس میں برکت نہیں ڈالی جاتی۔
[مسند احمد» ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی مرویات» حدیث نمبر: 23302]
(2)حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دنیا متاع یعنی سامان ہے اور دنیا کا بہترین مال ومتاع نیک بیوی ہے۔
[صحيح مسلم:1467، صحيح ابن حبان:4031]
وضاحت:
کیونکہ نیک بیوی دین اور آخرت کی باتوں میں معاون ومددگار ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اللہ سے غافل کرنے اور آخرت کی بربادی کا سبب بننے والی نہیں ہوتی۔
القرآن:
القرآن:
جو لوگ (صرف) دنیوی زندگی اور اس کی زینت(سج دھج) چاہتے ہیں، ہم ان کے اعمال کا پورا پورا صلہ اسی دنیا میں بھگتا دیں گے، اور یہاں ان کے حق میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
[سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 15]
القرآن:
اور تم کو جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ دنیوی زندگی کی پونجی اور اس کی سجاوٹ ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔ کیا پھر بھی تم عقل سے کام نہیں لیتے؟
[سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 60]
تفسیر:
کافر لوگ جو آخرت پر تو ایمان نہیں رکھتے، اور جو کچھ کرتے ہیں، دنیا ہی کی خاطر کرتے ہیں، ان کی نیکیوں، مثلا صدقہ خیرات وغیرہ کا صلہ دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے، آخرت میں ان کا کوئی ثواب نہیں ملتا، کیونکہ ایمان کے بغیر آخرت میں کوئی نیکی معتبر نہیں ہے۔ اسی طرح اگر کوئی مسلمان کوئی نیک کام صرف دنیوی شہرت یا دولت وغیرہ حاصل کرنے کے لیے کرے تو اسے دنیا میں تو وہ شہرت یا دولت مل سکتی ہے۔ لیکن اس نیکی کا ثواب آخرت میں نہیں ملتا۔ بلکہ واجب عبادتوں میں اخلاص کے فقدان کی وجہ سے الٹا گناہ ہوتا ہے۔ آخرت میں وہی نیکی معتبر ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی نیت سے کی گئی ہو۔
القرآن:
اے نبی ! اپنی بیویوں سے کہو کہ : اگر تم دنیوی زندگی اور اس کی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ تحفے دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں۔
[سورۃ نمبر 33 الأحزاب، آیت نمبر 28]
دنیا وہ ہے جو اللہ کے ذکر (یاد ونصیحت) سے غافل کرے اور نماز کو ضایع کرے۔
القرآن :
فلاح اس نے پائی ہے جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ اور اپنے پروردگار کا نام لیا، اور نماز پڑھی۔ لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔
[سورۃ نمبر 87 الأعلى، آیت نمبر 14-16]
(1)حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا نَضْرَةَ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُکُمْ فِيهَا فَيَنْظُرُ کَيْفَ تَعْمَلُونَ فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَائَ فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ کَانَتْ فِي النِّسَائِ وَفِي حَدِيثِ ابْنِ بَشَّارٍ لِيَنْظُرَ کَيْفَ تَعْمَلُونَ
ترجمہ:
حضرت ابوسعید خدری ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: دنیا میٹھی اور سرسبز ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ ونائب بنانے والا ہے، پس وہ دیکھے گا کہ تم کیسے اعمال کرتے ہو۔ دنیا سے بچو اور عورتوں سے بھی ڈرتے رہو کیونکہ بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورتوں میں تھا۔
[صحیح مسلم» کتاب:-دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان» باب:-اہل جنت میں غریبوں اور اہل جہنم میں عورتوں کی اکثریت ہونے کے بیان میں
حدیث نمبر: 6948]
گ
قرآن مجید کی اصطلاح میں دنیا تو بس دھوکہ کا سامان ہے۔ یعنی (1)کھیل یعنی فضولیات، (2)تماشہ یعنی تفریح ومذاق، (3)زینت یعنی شہرت ودکھلاوا، (4)آپس میں فخر/مقابلہ اور (5)کثرتِ مال واولاد کی "چاہت" جو اللہ کو بھلانے ..... یعنی سارے جہانوں کو پالنے والے اللہ کی عطاکردہ بےشمار احسانات کو یاد نہ رکھنے، احکامات کو نظر انداز کرنے ..... اور آخرت کی بربادی کا سبب بنیں۔
[حوالہ سورۃ الحدیدہ:20]
یہ دھوکہ اللہ (کے حق وعدوں)سے دور ومحروم کرنے کیلئے ہوتا ہے۔
[حوالہ سورۃ فاطر:5، الحدید:18]
اگرچہ یہ دھوکہ۔۔۔
(1)دوسروں کو نصیحت کرنے کے نام پر قسم اٹھانا ہو۔
[حوالہ سورۃ الاعراف:21-22، الانعام:22]
(2)اللہ کے علاوہ کو غائبانہ پکارنے (کے قابل سمجھنے) کا شرک ہو۔
[حوالہ سورۃ فاطر:40]
(3)اللہ کے مقابلے میں کسی مخلوق سے مدد حاصل ہونے کا دھوکہ ہو۔
[حوالہ سورۃ الملک:20]
شیطانی وعدے اور تمنائیں(لمبی-غیرشرعی امیدیں) ہوں۔
[حوالہ سورۃ النساء:120]
جس شخص کیلئے دنیا (کی زندگی، جسمانی صحت، نیک بیوی، علم وذکر والوں کی مجالس وغیرہ) اللہ (کے احکام) کی یاد دلانے اور آخرت بنانے میں مددگار اور سبب بنے تو اس کیلئے وہی دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
القرآن:
جو شخص آخرت کی کھیتی چاہتا ہو، ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے، اور جو شخص (صرف) دنیا کی کھیتی چاہتا ہو، ہم اسے اسی میں سے دے دیں گے، اور آخرت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
[سورۃ الشوریٰ:20]
جو شخص دنیا کے فوری فائدے ہی چاہتا ہے تو ہم جس کے لیے چاہتے ہیں جتنا چاہتے ہیں، اسے یہیں پر جلدی دے دیتے ہیں، پھر اس کے لیے ہم نے جہنم رکھ چھوڑی ہے جس میں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوگا۔
[سورہ بنی اسرائیل:18]
نوٹ:
یہ اس شخص کا ذکر ہے جس نے اپنی زندگی کا مقصد ہی دنیا کی بہتری کو بنا رکھا ہے اور آخرت پر یا تو ایمان نہیں، یا اس کی کوئی فکر نہیں، نیز اس قسم میں وہ شخص بھی داخل ہے جو کوئی نیکی کا کام دنیا کی دولت یا شہرت حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے، اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے نہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو دنیا کے یہ فوائد ملنے کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے، نہ اس بات کی گارنٹی ہے کہ جتنے فائدے وہ چاہ رہے ہیں وہ سب مل جائیں، البتہ ان میں سے جن کو ہم مناسب سمجھتے ہیں دنیا میں دے دیتے ہیں، مگر آخرت میں ان کا انجام جہنم ہے۔
(5)عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَتَى فَاطِمَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا فَوَجَدَ عَلَى بَابِهَا سِتْرًا فَلَمْ يَدْخُلْ قَالَ: وَقَلَّمَا كَانَ يَدْخُلُ إِلَّا بَدَأَ بِهَا فَجَاءَ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ فَرَآهَا مُهْتَمَّةً فَقَالَ: مَا لَكِ؟ قَالَتْ: جَاءَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم إِلَيَّ فَلَمْ يَدْخُلْ فَأَتَاهُ عَلِيٌّ رضی اللہ عنہ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ! إِنَّ فَاطِمَةَ اشْتَدَّ عَلَيْهَا أَنَّكَ جِئْتَهَا فَلَمْ تَدْخُلْ عَلَيْهَا قَالَ: وَمَا أَنَا وَالدُّنْيَا؟ وَمَا أَنَا وَالرَّقْمَ؟ فَذَهَبَ إِلَى فَاطِمَةَ فَأَخْبَرَهَا بِقَوْلِ رَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فَقَالَتْ: قُلْ لِرَسُولِ اللهِ صلی اللہ علیہ وسلم : مَا يَأْمُرُنِي بِهِ؟ قَالَ: قُلْ لَهَا: فَلْتُرْسِلْ بِهِ إِلَى بَنِي فُلَانٍ .
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فاطمہ ؓ کے پاس آئے تو ان کے دروازے پر ایک پردہ لٹکا ہوا دیکھا۔ آپ اندر داخل نہیں ہوئے، کم ہی تھا کہ آپ آئیں اور سب سے پہلے فاطمہ ؓ کے پاس نہ آئیں۔ علی ؓ آئے تو فاطمہ ؓ کو پریشان دیکھا، کہنے لگے:تمہیں کیا ہوا؟ کہنے لگیں: نبی ﷺ میری طرف آئے تھے لیکن اندر داخل نہیں ہوئے۔ علیؓ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! فاطمہ پر یہ بات گراں گزری ہے کہ آپ اس کے پاس آئے لیکن اندر داخل نہیں ہوئے۔آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے دنیا سے کیا غرض؟ مجھے نقش ونگار سے کیا مطلب؟ علی ؓ فاطمہ ؓ کی طرف گئے اور انہیں رسول اللہ ﷺ کی بات بتائی۔ فاطمہ ؓ کہنے لگیں: رسول اللہ ﷺ سے پوچھئے وہ اس (پردے) کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: فاطمہ سے کہو: وہ اسے بنی فلاں کی طرف بھیج دے۔
[الصحيحة:2421(3078)، سنن أبي داؤد،كِتَاب اللِّبَاسِ، بَاب فِي اتِّخَاذِ السُّتُورِ، رقم (3620)، مسند أحمد رقم (4497) .]
حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى الْقَزَّازُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ الْقُرَشِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا صَلَاةَ الْعَصْرِ بِنَهَارٍ، ثُمَّ قَامَ خَطِيبًا فَلَمْ يَدَعْ شَيْئًا يَكُونُ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ إِلَّا أَخْبَرَنَا بِهِ، حَفِظَهُ مَنْ حَفِظَهُ، وَنَسِيَهُ مَنْ نَسِيَهُ، وَكَانَ فِيمَا قَالَ: إِنَّ الدُّنْيَا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وَإِنَّ اللَّهَ مُسْتَخْلِفُكُمْ فِيهَا، فَنَاظِرٌ كَيْفَ تَعْمَلُونَ، أَلَا فَاتَّقُوا الدُّنْيَا وَاتَّقُوا النِّسَاءَ . (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَكَانَ فِيمَا قَالَ: أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ رَجُلًا هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ ، قَالَ: فَبَكَى أَبُو سَعِيدٍ، فَقَالَ: قَدْ وَاللَّهِ رَأَيْنَا أَشْيَاءَ فَهِبْنَا. (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَكَانَ فِيمَا قَالَ: أَلَا إِنَّهُ يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَدْرِ غَدْرَتِهِ، وَلَا غَدْرَةَ أَعْظَمُ مِنْ غَدْرَةِ إِمَامِ عَامَّةٍ يُرْكَزُ لِوَاؤُهُ عِنْدَ اسْتِهِ . (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَكَانَ فِيمَا حَفِظْنَا يَوْمَئِذٍ: أَلَا إِنَّ بَنِي آدَمَ خُلِقُوا عَلَى طَبَقَاتٍ شَتَّى، فَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ مُؤْمِنًا وَيَحْيَا مُؤْمِنًا وَيَمُوتُ مُؤْمِنًا، وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ كَافِرًا وَيَحْيَا كَافِرًا وَيَمُوتُ كَافِرًا، وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ مُؤْمِنًا وَيَحْيَا مُؤْمِنًا وَيَمُوتُ كَافِرًا، وَمِنْهُمْ مَنْ يُولَدُ كَافِرًا وَيَحْيَا كَافِرًا وَيَمُوتُ مُؤْمِنًا، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمُ الْبَطِيءَ الْغَضَبِ سَرِيعَ الْفَيْءِ، وَمِنْهُمْ سَرِيعُ الْغَضَبِ سَرِيعُ الْفَيْءِ فَتِلْكَ بِتِلْكَ، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمْ سَرِيعَ الْغَضَبِ بَطِيءَ الْفَيْءِ، أَلَا وَخَيْرُهُمْ بَطِيءُ الْغَضَبِ سَرِيعُ الْفَيْءِ، أَلَا وَشَرُّهُمْ سَرِيعُ الْغَضَبِ بَطِيءُ الْفَيْءِ، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمْ حَسَنَ الْقَضَاءِ حَسَنَ الطَّلَبِ، وَمِنْهُمْ سَيِّئُ الْقَضَاءِ حَسَنُ الطَّلَبِ، وَمِنْهُمْ حَسَنُ الْقَضَاءِ سَيِّئُ الطَّلَبِ فَتِلْكَ بِتِلْكَ، أَلَا وَإِنَّ مِنْهُمُ السَّيِّئَ الْقَضَاءِ السَّيِّئَ الطَّلَبِ، أَلَا وَخَيْرُهُمُ الْحَسَنُ الْقَضَاءِ الْحَسَنُ الطَّلَبِ، أَلَا وَشَرُّهُمْ سَيِّئُ الْقَضَاءِ سَيِّئُ الطَّلَبِ، أَلَا وَإِنَّ الْغَضَبَ جَمْرَةٌ فِي قَلْبِ ابْنِ آدَمَ، أَمَا رَأَيْتُمْ إِلَى حُمْرَةِ عَيْنَيْهِ وَانْتِفَاخِ أَوْدَاجِهِ فَمَنْ أَحَسَّ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ فَلْيَلْصَقْ بِالْأَرْضِ . (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: وَجَعَلْنَا نَلْتَفِتُ إِلَى الشَّمْسِ هَلْ بَقِيَ مِنْهَا شَيْءٌ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا فِيمَا مَضَى مِنْهَا إِلَّا كَمَا بَقِيَ مِنْ يَوْمِكُمْ هَذَا فِيمَا مَضَى مِنْهُ ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنْ حُذَيْفَةَ، وَأَبِي مَرْيَمَ، وَأَبِي زَيْدِ بْنِ أَخْطَبَ، وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَذَكَرُوا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُمْ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى أَنْ تَقُومَ السَّاعَةُ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے ہمیں عصر کچھ پہلے پڑھائی پھر خطبہ دینے کھڑے ہوئے، اور آپ نے قیامت تک ہونے والی تمام چیزوں کے بارے میں ہمیں خبر دی، یاد رکھنے والوں نے اسے یاد رکھا اور بھولنے والے بھول گئے، آپ نے جو باتیں بیان فرمائیں اس میں سے ایک بات یہ بھی تھی: دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں اس میں خلیفہ بنائے گا ١ ؎، پھر دیکھے گا کہ تم کیسا عمل کرتے ہو؟ خبردار! دنیا سے اور عورتوں سے بچ کے رہو ٢ ؎، آپ نے یہ بھی فرمایا: خبردار! حق جان لینے کے بعد کسی آدمی کو لوگوں کا خوف اسے بیان کرنے سے نہ روک دے ، ابو سعید خدری ؓ نے روتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے بہت ساری چیزیں دیکھی ہیں اور (بیان کرنے سے) ڈر گئے آپ نے یہ بھی بیان فرمایا: خبردار! قیامت کے دن ہر عہد توڑنے والے کے لیے اس کے عہد توڑنے کے مطابق ایک جھنڈا ہوگا اور امام عام کے عہد توڑنے سے بڑھ کر کوئی عہد توڑنا نہیں، اس عہد کے توڑنے والے کا جھنڈا اس کے سرین کے پاس نصب کیا جائے گا ، اس دن کی جو باتیں ہمیں یاد رہیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی: جان لو! انسان مختلف درجہ کے پیدا کیے گئے ہیں کچھ لوگ پیدائشی مومن ہوتے ہیں، مومن بن کر زندگی گزارتے ہیں اور ایمان کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، کچھ لوگ کافر پیدا ہوتے ہیں، کافر بن کر زندگی گزارتے ہیں اور کفر کی حالت میں مرتے ہیں، کچھ لوگ مومن پیدا ہوتے ہیں، مومن بن کر زندگی گزارتے ہیں اور کفر کی حالت میں ان کی موت آتی ہے، کچھ لوگ کافر پیدا ہوتے ہیں، کافر بن کر زندہ رہتے ہیں، اور ایمان کی حالت میں ان کی موت آتی ہے، کچھ لوگوں کو غصہ دیر سے آتا ہے اور جلد ٹھنڈا ہوجاتا ہے، کچھ لوگوں کو غصہ جلد آتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے، یہ دونوں برابر ہیں، جان لو! کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں جلد غصہ آتا ہے اور دیر سے ٹھنڈا ہوتا ہے، جان لو! ان میں سب سے بہتر وہ ہیں جو دیر سے غصہ ہوتے ہیں اور جلد ٹھنڈے ہوجاتے ہیں، اور سب سے برے وہ ہیں جو جلد غصہ ہوتے ہیں اور دیر سے ٹھنڈے ہوتے ہیں، جان لو! کچھ لوگ اچھے ڈھنگ سے قرض ادا کرتے ہیں اور اچھے ڈھنگ سے قرض وصول کرتے ہیں، کچھ لوگ بدسلوکی سے قرض ادا کرتے ہیں، اور بدسلوکی سے وصول کرتے ہیں، جان لو! ان میں سب سے اچھا وہ ہے جو اچھے ڈھنگ سے قرض ادا کرتا ہے اور اچھے ڈھنگ سے وصول کرتا ہے، اور سب سے برا وہ ہے جو برے ڈھنگ سے ادا کرتا ہے، اور بدسلوکی سے وصول کرتا ہے، جان لو! غصہ انسان کے دل میں ایک چنگاری ہے کیا تم غصہ ہونے والے کی آنکھوں کی سرخی اور اس کی گردن کی رگوں کو پھولتے ہوئے نہیں دیکھتے ہو؟ لہٰذا جس شخص کو غصہ کا احساس ہو وہ زمین سے چپک جائے ، ابو سعید خدری کہتے ہیں: ہم لوگ سورج کی طرف مڑ کر دیکھنے لگے کہ کیا ابھی ڈوبنے میں کچھ باقی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جان لو! دنیا کے گزرے ہوئے حصہ کی بہ نسبت اب جو حصہ باقی ہے وہ اتنا ہی ہے جتنا حصہ آج کا تمہارے گزرے ہوئے دن کی بہ نسبت باقی ہے ٣ ؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ١ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ٢ - اس باب میں حذیفہ، ابومریم، ابوزید بن اخطب اور مغیرہ بن شعبہ ؓ سے بھی احادیث آئی ہیں، ان لوگوں نے بیان کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے قیامت تک ہونے والی چیزوں کو بیان فرمایا۔
[جامع ترمذی» کتاب: فتنوں کا بیان» باب: اس بارے میں کہ نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو قیامت تک کے واقعات کی خبر دی
حدیث نمبر: 2191]
تخریج دارالدعوہ:
{سنن ابن ماجہ»4000 (تحفة الأشراف: ٤٣٦٦ الصحیحہ: ٤٨٦، ٩١١ ) ]
وضاحت: :
یعنی تم کو پچھلی قوموں کا وارث و نائب بنائے گا، یہ نہیں کہ انسان اللہ کا خلفیہ و نائب ہے یہ غلط بات ہے، بلکہ اللہ خود انسان کا خلیفہ ہے جیسا کہ خضر کی دعا میں ہے «والخلیف ۃ بعد»۔
حضرت عمرو بن عاص ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے میرے پاس پیغام بھیجا کہ اپنے کپڑے اور اسلحہ زیب تن کر کے میرے پاس آؤ، میں جس وقت حاضر ہوا تو نبی ﷺ وضو فرما رہے تھے، نبی ﷺ نے ایک مرتبہ مجھے نیچے سے اوپر تک دیکھا پھر نظریں جھکا کر فرمایا: میرا ارادہ ہے کہ تمہیں ایک لشکر کا امیر بنا کر روانہ کروں، اللہ تمہیں صحیح سالم اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لائے گا اور میں تمہارے لئے مال کی اچھی رغبت رکھتا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ میں نے مال و دولت کی خاطر اسلام قبول نہیں کیا، میں نے دلی رغبت کے ساتھ اسلام قبول کیا ہے اور اس مقصد کے لئے کہ مجھے نبی ﷺ کی ساتھ حاصل ہوجائے، نبی ﷺ نے فرمایا: نیک آدمی کے لئے نیک(حلال) مال کیا ہی خوب ہوتا ہے۔
[مسند احمد»حدیث نمبر: 17763+17802]
کیونکہ
مال سے الله کی راہ میں خرچ کرنا نیک بننا ہے۔
[حوالہ سورۃ المنافقون:10]
ناحق طریقوں سے مال کھانا اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرتے جمع کرتے رہنا دردناک عذاب کا سبب ہے۔
[حوالہ سورۃ التوبہ:34(تفسیر البغوی، الرازی)]
قرآنی دعا سے سبق:
لہٰذا صرف دنیا دعا مانگنے سے روکا اور دنیا کے ساتھ آخرت کی بھلائی بھی مانگتے رہنے کی تعلیم دی گئی ہے:
.....اب بعض لوگ تو وہ ہیں جو (دعا میں بس) یہ کہتے ہیں کہ : ”اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما“ اور آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اور انہی میں سے وہ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ : ”اے ہمارے پروردگار ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی، اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے“.
[سورۃ البقرۃ:200-201]
دنیا "میں" بھلائی سے مراد آسائش وکثرتِ مال نہیں۔
دنیا"میں"بھلائی عطا فرما
یعنی
نیک اعمال
[دلائلِ قرآن، سورۃ الزمر:10-النساء:40-85، الانعام:160، النمل:89، القصص:84]
نیک اولاد اور پیغمبرانہ تعلیم
[سورۃ العنکبوت:27]
ٹھکانہ
[النحل:41]
فتح
[آل عمران:120، النساء:78]
حسنِ سلوک
[الرعد:22، القصص:54، فصلت:34]
بہترین نمونۂ زندگی
[الممتحنہ:4-6]
علم اور عبادت، رزقِ حلال، عافیت(صحت وامن)، شکر کرنے والا دل، ذکر کرنے والی زبان، صبر کرنے والا جسم، اور نیکی میں مددگار بیوی۔
[تفسیر-امام الطبری(م310ھ)، امام ابن ابی حاتم(م327ھ)]
نیکوکار بیوی
[نسائی:3232]
جو اپنی عزت اور شوہر کے مال میں خیانت نہ کرے۔
[طبرانی:11275]
(1)حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
چار چیزیں ایسی ہیں جسے مل جائیں تو اسے دنیا و آخرت کی بھلائی مل گئی:
(1)شکرگذار ۔۔۔ یعنی اللہ کے احسانات کو یاد رکھنے والی ۔۔۔ دل،
(2)ذکر کرنے والی زبان،
(3)صبر کرنے والا بدن(صحت)
(4)اور ایسی عورت جو اپنی عزت اور اپنے شوہر کے مال میں خیانت نہ کرے۔
[الأحادیث المختارۃ:63]
تفسیر الثعالبي»سورة الشوري:20
دنیا کس کیلئے آخرت کی کھیتی ہے؟
(2)حضرت عبیداللہ بن محصن خطمی ؓ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
تم میں سے جس نے بھی صبح کی اس حال میں کہ (1)وہ اپنے گھر(یا قوم) میں امن سے ہو (2)اور جسمانی لحاظ سے بالکل تندرست ہو (3)اور دن بھر کی روزی(کھانا)اس کے پاس موجود ہو تو گویا اس کے لیے پوری دنیا سمیٹ دی گئی۔
[ترمذی:2346،ابنِ ماجہ:4141]
تفسير ابن كثير-سورۃ المائدۃ:24
وضاحت:
مفہوم یہ ہے کہ امن و صحت کے ساتھ ایک دن کی روزی والی زندگی دولت کے انبار والی اس زندگی سے کہیں بہتر ہے جو امن و صحت والی نہ ہو، گویا انسان کو مال و دولت کے پیچھے زیادہ نہیں بھاگنا چاہیے بلکہ صبر و قناعت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے کیونکہ امن و سکون اور راحت و آسائش اسی میں ہے۔
القرآن:
اے لوگو ! یاد کرو ان نعمتوں کو جو اللہ نے تم پر نازل کی ہیں۔ کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہو ؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ پھر آخر تم کہاں اوندھے چلے جارہے ہو ؟
[سورۃ نمبر 35 فاطر، آیت نمبر 3]
القرآن:
اے ایمان والو ! اللہ نے تم پر جو انعام فرمایا اس کو یاد کرو۔ جب کچھ لوگوں نے ارادہ کیا تھا کہ تم پر دست درازی کریں، تو اللہ نے تمہیں نقصان پہنچانے سے ان کے ہاتھ روک دئیے (12) اور (اس نعمت کا شکر یہ ہے کہ) اللہ کا رعب دل میں رکھتے ہوئے عمل کرو، اور مومنوں کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
[سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 11]
تفسیر:
12: یہ ان مختلف واقعات کی طرف اشارہ ہے جن میں کفار نے مسلمانوں کا خاتمہ کرنے کے منصوبے بنائے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو خاک میں ملادیا، ایسے واقعات بہت سے ہیں، ان میں سے کچھ واقعات مفسرین نے اس آیت کے تحت بھی ذکر کئے ہیں، مثلاً صحیح مسلم میں روایت ہے کہ مشرکین سے ایک جنگ کے دوران عسفان کے مقام پر آنحصرت ﷺ نے ظہر کی نماز تمام صحابہ کو جماعت سے پڑھائی، مشرکین کو پتہ چلا تو ان کو حسرت ہوئی کہ جماعت کے دوران مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں ختم کردینے کا یہ بہترین موقع تھا، پھر انہوں نے منصوبہ بنایا کہ جب یہ حضرات عصر کی نماز پڑھیں گے تو ان پر ایک دم حملہ کردیں گے ؛ لیکن عصر کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ نے صلاۃ الخوف پڑھی جس میں مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہو کر نماز پڑھتے ہیں اور ایک حصہ دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہتا ہے (اس نماز کا طریقہ پیچھے سورة نساء : 102 میں گزرچکا ہے) چنانچہ مشرکین کا منصوبہ دھرا رہ گیا (روح المعانی) مزید واقعات کے لئے دیکھئے معارف القرآن۔
دنیا کس کیلئے آخرت کی کھیتی ہے؟
(3)حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دنیا متاع یعنی سامان ہے اور دنیا کا بہترین مال ومتاع نیک بیوی ہے۔
[صحيح مسلم:1467، صحيح ابن حبان:4031]
دنیا کس کیلئے آخرت کی کھیتی ہے؟
(4) حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے اس کی نرمی کا حصہ دیا گیا تو اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی عطا کی گئی۔
[مسند ابن الجعد:3452، مسند أبي يعلى:4530، مسند الشهاب القضاعي:444]
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جسے اس کی نرمی سے محروم کیا گیا تو اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی سے محروم کیا گیا۔
[مسند ابن الجعد:3454، معجم ابن الأعرابي:44]
اور صلہ رحمی، حسن اخلاق اور پڑوسی سے اچھا سلوک (جیسے امور خیر) گھروں (اور قبیلوں) کو آباد کرتے ہیں اور عمروں میں اضافہ کرتے ہیں۔
[مسند أحمد:25259، سلسلة الأحاديث الصحيحة:519، الصحيح المسند مما ليس في الصحيحين:1629]
القرآن:
اور اپنے رب کی طرف سے مغفرت اور وہ جنت حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بڑھ کر تیزی دکھاؤ جس کی چوڑائی اتنی ہے کہ اس میں تمام آسمان اور زمین سما جائیں۔ وہ ان پرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ جو خوشحالی میں بھی اور بدحالی میں بھی (اللہ کے لیے) مال خرچ کرتے ہیں، اور جو غصے کو پی جانے اور لوگوں کو معاف کردینے کے عادی ہیں۔ اللہ ایسے نیک لوگوں سے محبت کرتا ہے۔
[تفسیر الدر المنثور»سورۃ آل عمران:134+135]
دنیا کس کیلئے آخرت کی کھیتی ہے؟
(5)حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کو حسن صورت، حسن اخلاق، نیک بیوی اور سخاوت کا مادہ عطاء ہو اس کو دنیا اور آخرت کی بھلائی مل گئی۔
[الترغيب في فضائل الأعمال-لابن شاهين:264]
دنیاوی لالچ اور ذخیرہ اندوزی سے بچنے کی فضیلت:
عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا حَمَاهُ الدُّنْيَا كَمَا يَظَلُّ أَحَدُكُمْ يَحْمِي سَقِيمَهُ الْمَاءَ»
ترجمہ:
حصرت قتادہ بن نعمان سے روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب اللہ پاک اپنے کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو اس کو دنیا سے اس طرح جاتے ہیں جس طرح (جان جانے کے) خوف سے اپنے بیمار کو کھانے اور پانی سے پرہیز کرواتے ہو۔
[سنن الترمذي:2036 ، صحيح ابن حبان:669]
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:7464]
القرآن
اور وہی ہے جو لوگوں کے ناامید ہونے کے بعد بارش برساتا اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی ہے جو (سب کا) قابل تعریف رکھوالا ہے۔
[سورۃ الشورى:28]
القرآن:
اور اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تمام انسان ایک ہی طریقے کے (یعنی کافر) ہوجائیں گے تو جو لوگ خدائے رحمن کے منکر ہیں، ہم ان کے لیے ان گھروں کی چھتیں بھی چاندی کی بنا دیتے، اور وہ سیڑھیاں بھی جن پر وہ چڑھتے ہیں۔ بلکہ انہیں سونا بنا دیتے، اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سب کچھ بھی نہیں، صرف دنیوی زندگی کا سامان ہے۔ (10) اور آخرت تمہارے پروردگار کے نزدیک پرہیزگاروں کے لیے ہے۔
[سورۃ الزخرف:35(تفسیر الخازن)]
تفسیر:
10: بتلانا یہ مقصود ہے کہ دنیا کا مال و دولت اللہ تعالیٰ کے نزدیک اتنی بےحقیقت چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ کافروں سے ناراض ہونے کے باوجود ان کے آگے سونے چاندی کے ڈھیر لگاسکتا ہے، اور اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ مال و دولت کی حقیقت نہ سمجھنے کی وجہ سے کافروں کی دولت دیکھ کر کافر ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ کافروں کے گھر اور ان کے گھر کا سارا ساز و سامان سونے چاندی کا بنا دیتا ، کیونکہ وہ فنا ہونے والی چیزیں ہیں، اور اصل دولت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور آخرت کی ابدی زندگی کی خوش حالی ہے، جو پرہیزگاروں ہی کو نصیب ہوتی ہے، لہذا کسی دولت مند شخص پر نازل کرنے کا مطالبہ سراسر لغو مطالبہ ہے۔
القرآن:
جو لوگ ہم سے (آخرت میں) آملنے کی کوئی توقع ہی نہیں رکھتے، اور دنیوی زندگی میں مگن اور اسی پر مطمئن ہوگئے ہیں، اور جو ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔
[سورۃ يونس: 7]
[تفسير ابن رجب الحنبلي، ٥٣٩/١]
م
دنیا کس کیلئے آخرت کی کھیتی ہے؟
حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ بن عاص سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
چار چیزیں جب تمہیں مل جائیں تو دنیا کی کسی چیز کے نہ ملنے پر افسوس نہ کرنا: (1) امانت کی پاسداری کرنا (2) گفتگو میں سچ بولنا (3)حُسنِ اخلاق (4)اور حلال وپاکیزہ روزی(کھانا)۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:7876][مسند احمد:6652]
تفسير ابن كثير - سورة الأحزاب:72
الدر المنثور في التفسير بالمأثور-سورۃ النساء:58
م
اسلامی تعلیم کا مقصد-سلامتی ہے۔
دنیاوی آسائشوں اور کثرت کے حصول میں ہر ظلم/ناحق سے رکنے/روکنے کے ذریعے ظالم کی مدد اور مظلوم پر رحم کیلئے سختی ونرمی کے درمیان معتدل نظریہ اور راستہ (1)سارے جہانوں کو پالنے والے اللہ کی پہچان اور (2)آخرت پر یقین رکھنا نہ صرف حق ہے بلکہ سب سے موثر بھی ہے۔
عدل واحسان کا شوق دلانے اور ظلم وزیادتی سے خبردار کرنے/ڈرانے کیلئے جنت اور جہنم جیسی دائمی، لامحدود اور سب سے عمدہ نعمتوں اور درناک عذابوں کا وجود دینا...تمام جہانوں کے پالنہار کیلئے...حق ہے، کچھ غلط نہیں۔
اگر دنیاوی امتحان میں ڈالے بغیر اللہ جو ہر عیب سے پاک ہے وہ اپنے علم کے مطابق جنت کے حقدار کو ہمیشہ جنت میں اور جہنم کے مستحق کو ہمیشہ جہنم میں ڈال بھی دیتا تو جہنمی ضرور اعتراض کرتے کہ آپ نے ہمیں بغیر آزمائش جہنم میں ڈال دیا۔ لہٰذا یہ امتحان لینا بھی حق ہے۔
اللہ پاک کا حق کلام ہے:
ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔
[سورۃ آل عمران:185]
اے لوگو ! اپنے پروردگار (کی ناراضی) سے بچو، اور ڈرو اس دن سے جب کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام نہیں آئے گا، اور نہ کسی بیٹے کی یہ مجال ہوگی کہ وہ اپنے باپ کے ذرا بھی کام آجائے۔ یقین جانو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، اس لیے ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ یہ دنیوی زندگی تمہیں دھوکے میں ڈال دے، اور ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ وہ (شیطان) تمہیں اللہ کے معاملے میں دھوکے میں ڈال دے جو سب سے بڑا دھوکا باز ہے۔
[سورۃ لقمان:33]
دلوں کی سختی کو نرم کردینے والی بات:
حضرت ابو موسیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص دنیا کو اپنا محبوب ومطلوب بنائے گا وہ اپنی آخرت کا ضرور نقصان کرے گا اور جو کوئی آخرت کو محبوب بنائے گا وہ اپنی دنیا کا ضرور نقصان کرے گا‘ (پس جب دنیا وآخرت میں سے ایک کو محبوب بنانے سے دوسری کا نقصان برداشت کرنا لازم اور ناگزیر ہے تو عقل ودانش کا تقاضا یہی ہے کہ) فنا ہونے والی (دنیا) کے مقابلہ میں‘ باقی رہنے والی (آخرت)کو اختیار کرو۔
[صحيح ابن حبان:709، المستدرك على الصحيحين للحاكم:7897]
آخرت کو ترجیح دینا۔
حضرت ابوھریرہ ؓ ﴿ابو موسیٰ اشعری﴾ سے روایت ہے كہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ طَلَبَ﴿أَحَبَّ﴾ الدُّنْيَا أَضَرَّ بِالآخِرَةِ، وَمَنْ طَلَبَ﴿أَحَبَّ﴾ الآخِرَةَ أَضَرَّ بِالدُّنْيَا فَأَضِرّوا بِالفَانِيَ لِلْبَاقِي۔
ترجمہ:
جس شخص نے ﴿دنیا سے محبت کی﴾ دنیا طلب كی اس نے آخرت کا نقصان اٹھایا اور جس شخص نے ﴿آخرت سے محبت کی﴾ آخرت طلب كی اس نے دنیا كا نقصان اٹھایا، لہٰذا باقی رہنے والی چیز(آخرت) كے لئے فنا ہونے والی(دنیا) كا نقصان برداشت كر لو۔
[الصحيحة:3287، الزهد لابن أبي عاصم:161 ﴿مسند البزار:3067﴾]
اللہ پاک نے فرمایا:
لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو۔ حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے۔
[سورۃ الاعلیٰ:16+17]
حضرت عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن خطبہ دیا اور فرمایا کہ: سن لو اور یاد رکھو کہ دنیا ایک وقتی اور عارضی سودا ہے جو فی الوقت حاضر اور نقد ہے (اور اس کی کوئی قدر وقیمت نہیں اسی لئے) اس میں ہر نیک وبد کا حصہ ہے اور سب اسی سے کھاتے ہیں‘ اور یقین کرو کہ آخرت مقرر وقت پر آنے والی ایک سچی اٹل حقیقت ہے اور اس میں سب کچھ پر قدرت رکھنے والا شہنشاہ (اللہ) فیصلہ کرے گا‘ یاد رکھو کہ ساری خیر اور خوشگواری اور اس کی تمام قسمیں جنت میں ہیں اور سارا شر اور دکھ اور اس کی تمام قسمیں دوزخ میں ہیں‘ پس خبردار! (جو کچھ کرو) اللہ سے ڈرتے ہوئے کرو‘ اور یقین کرو کہ تم اپنے اپنے اعمال کے ساتھ اللہ کے حضور پیش کئے جاؤگے‘ پس جس شخص نے ذرہ برابر کوئی نیکی کی ہوگی وہ اس کو بھی دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر کوئی برائی کی ہوگی وہ اس کو بھی دیکھ لے گا۔{سورة الزلزال:}
[مسند الشافعي - ترتيب سنجر: حدیث#445، السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية: حدیث#5808، حلية الأولياء-أبو نعيم: جلد 1 / صفحہ 264]
حضرت مستورد بن شدادؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آخرت کے مقابلے میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈالے پھر(نكال كر) دیکھے کہ وه سمندر كا کتنا پانی اپنے ساتھ لائی ہے۔
[صحيح مسلم:2858، سنن الترمذي:2323، سنن ابن ماجه:4108]
تفسير ابن أبي حاتم-سورۃ التوبۃ:38، تفسير السمرقندي-سورۃ الرعد:26، تفسير الثعلبي-سورۃ آل عمران:197، تفسير البغوي-سورۃ النساء:77
م
اللہ کی یاد سے غافل کرنے والی دنیا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: خبردار! دنیا اور جو کچھ دنیا میں ہے‘ وہ ملعون(رحمتِ الٰہی سے محروم)ہے‘ سوائے اللہ کی یاد کے اور ان چیزوں کے جن کا اللہ سے کوئی تعلق اور واسطہ ہے اور سوائے عالم اور متعلم کے.
[سنن ابن ماجه:4112، سنن الترمذي:2322، صحيح الترغيب:74+3244، صحيح الجامع:1609+3414، الصحيحة:2797]
تفسير القرطبي-سورۃ الانعام:32
.....سوائے نیکی کا حکم دینے یا برائی سے منع کرنے کے یا ذکر الٰہی کے۔
[مسند البزار:1736]
.....سوائے اس کے جس سے اللہ کی رضا تلاش کی جاتی ہے۔
[الزهد لابن أبي عاصم:127، مسند الشاميين للطبراني:612، صحيح الترغيب:9]
الدر المنثور في التفسير بالمأثور-سورۃ الکھف:110
حضرت حسن بصریؒ سے مرسل روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے“۔
[الزهد لابن أبي الدنيا:9، تفسير الماتريدي-سورۃ الحدید:20]
جیساکہ دنیا (کی محبت) ترک کرنا ہر عبادت کی اصل ہے‘ سبب اس میں یہ ہے کہ دنیا سے محبت رکھنے والا اگر بالفرض کسی دینی کام میں مشغول بھی ہوجائے تو اس کے اعمال پھر بھی فاسد اغراض کے ساتھ ملتبس ہوتے ہیں اور تارک الدنیا اگر بالفرض دنیوی امور میں مشغول بھی ہوجائے تو بھی اس کا مطمح نظر دوسرا ہوتا ہے۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن فرمایا: کیا کوئی ایسا ہے کہ پانی پر چلے اور اس کے پاؤں نہ بھیگیں؟ عرض کیا گیا: حضرت ایسا تو نہیں ہوسکتا‘ آپ ﷺ نے فرمایا: اسی طرح دنیادار گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔
[شعب الإيمان - ت زغلول:10457، الزهد الكبير للبيهقي:257]
حضرت ابوہریرةؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہلاک ہوا جو دینار‘ درہم اور چادر کا غلام ہوا ‘ اگر ملے تو خوش اور راضی ہو اور اگر نہ ملے تو ناراض وناخوش ہو۔
[صحيح البخاري:2886]
(ایسے شخص کی اس مذموم خصلت کی وجہ سے گویا حضور ﷺ نے دوبارہ بددعا دی) ہلاک ہو ایسا شخص اور ذلیل وسرنگوں ہو! اور دیکھو جب اس شخص کے پاؤں میں کانٹا لگ جائے تو کوئی اس کو نہ نکالے۔ سعادت اور خوش بختی ہے اس بندے کے لئے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کی باگ پکڑے کھڑا ہے‘ اس کے سر کے بال پراگندہ اور قدم غبار آلود ہیں‘ اگر اس کو لشکر کی اگلی صفوں کے آگے نگہبانی پر مامور کیا جائے تو پوری طرح نگہبانی کرتاہے اور اگر اس کو لشکر کے پیچھے رکھا جائے تو لشکر کے پیچھے ہی رہتا ہے‘ اگر وہ لوگوں کی محفلوں میں شریک ہونا چاہے تو اس کو شرکت کی اجازت نہیں دیجاتی‘ اور اگر کسی کی سفارش کرتاہے تو اس کی سفارش قبول نہیں کی جاتی۔
[صحيح البخاري:2887]
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں اپنی امت پر جن بلاؤں کے آنے سے ڈرتا ہوں‘ ان میں سب سے زیادہ ڈر کی چیزیں ”ہویٰ“ اور ”طول امل“ ہے۔ ہویٰ (نفسانی رجحانات) تو آدمی کو قبول حق سے مانع ہوتی ہے اور طول امل (لمبی لمبی آرزوئیں) رکھنے والا آخرت کو بھلادیتاہے اور اس کی فکر اور تیاری سے غافل ہوجاتاہے‘ دنیا دم بدم چلی جارہی ہے‘ گذررہی ہے اور آخرت (ادھر) سے چل پڑی ہے اور ان دونوں کے بچے ہیں‘ پس اے لوگو! اگر تم کر سکو تو ایسا کرو کہ دنیا سے چمٹنے والے اور اس کے بچے نہ بنو‘ پس تم اس وقت دار العمل میں ہو اور یہاں حساب یعنی جزا وسزا نہیں اور کل تم آخرت میں پہنچ جانے والے ہو اور وہاں کوئی عمل نہ ہوگا.
[قصر الأمل لابن أبي الدنيا:4، الأحاديث المائة الشريحية:20، شعب الإيمان - ت زغلول:10616، المتفق والمفترق-الخطيب البغدادي:979، ذم الكلام وأهله-الهروي، أبو إسماعيل:90، صفات رب العالمين - ابن المحب الصامت:518]
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں: بے شک دنیا میٹھی ہے، سر سبز ہے، بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس میں نائب بنایا ہے۔ پس وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو، بس دنیا سے اور عورتوں کے فتنے سے بچو۔
[سنن ابن ماجه:4000، سنن الترمذي:2191]
بے شک بنی اسرائیل کا جو پہلا فتنہ تھا وہ عورتوں ہی کے بارے میں تھا۔
[صحيح مسلم:2742]
سب سے پہلے بنو اسرائیل یوں ہلاک ہوئے کہ ایک غریب آدمی کی بیوی کپڑوں یا زیورات کے بارے میں اپنے خاوند کو مالدار آدمی کی بیوی کی طرح تکلیف دیتی تھی۔ پھر آپ ﷺ نے بنو اسرائیل کی کوتاہ قد عورت کا تذکرہ کیا، اس نے لکڑی کے جوتے (کھڑاؤں) تیار کروائے اور ایک انگوٹھی بنوائی، اس میں ایک خلا تھا اور اس پر ایک ڈھکن تھا، اس نے اس خلا میں کستوری بھری اور دو دراز قد یا بھاری بھر کم عورتوں کے ہمراہ نکلی۔ انہوں نے ان کے پیچھے ایک آدمی کو بھیجا، اس نے لمبے قد والی دو عورتوں کو تو پہچان لیا لیکن لکڑی کی جوتیوں والی عورت کو نہ پہچان سکا۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة:591+486، [صحيح ابن خزيمة:1699]
حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کہ جو اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے‘ اللہ اس کی ملاقات کو پسند فرماتے ہیں اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرے‘ اللہ اس کی ملاقات کو ناپسند فرماتے ہیں‘ یہ سن کر حضرت عائشہؓ یا کسی دوسری زوجہ مطہرہؓ نے عرض کیا کہ: ہم تو موت کو ناپسند کرتے ہیں‘ آپ ا نے فرمایا کہ: یہ مراد نہیں‘ بلکہ مراد یہ ہے کہ جب مؤمن کی موت آتی ہے تو اس کو اللہ کی رضامندی اور اس کے اعزاز واکرام کی خوشخبری دی جاتی ہے ‘ چنانچہ وہ اس چیز سے جو اس کے آگے آنے والی ہے‘ سے زیادہ کسی چیز کو محبوب نہیں رکھتا‘ اس لئے بندہ مؤمن اللہ کی ملاقات کو پسند کرتاہے اور اللہ پاک اس کی ملاقات کو پسند کرتاہے۔ اور جب کافر کی موت آتی ہے تو اس کو خدا کے عذاب اور سخت سزا کی خبر دی جاتی ہے‘ چنانچہ وہ اس چیز سے جو آگے آنے والی ہے سے زیادہ کسی چیز کو ناپسند نہیں کرتا‘ اس لئے وہ اللہ کی ملاقات کو نا پسند کرتاہے‘ تو اللہ تعالیٰ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتے ہیں۔
[صحيح البخاري:6507، صحيح مسلم:2684-2685]
ملا علی قاری ؒ لکھتے ہیں:
اللہ کا دیدار موت سے پہلے ممکن نہیں‘ بلکہ موت کے بعد ہوگا‘ مراد یہ ہے کہ جس کو اللہ کی ملاقات محبوب ہو‘ اس کو موت محبوب ہوتی ہے۔ اس لئے کہ موت کے ذریعہ اس کی رسائی اللہ کی ملاقات تک ہوتی ہے‘ موت سے پہلے ملاقات کا تصور نہیں ہوسکتا‘ اس حدیث میں اس بات کی دلالت ہے کہ یہ ملاقات موت کے علاوہ ہے۔
[مرقاة المفاتيح:1602]
موت سے طبعی ناپسندیدگی اس میں تو کوئی قباحت نہیں‘ کیونکہ طبعاً ہر جاندار وذی روح کو موت ناپسند ہوتی ہی ہے۔ اور ایک موت کو اعتقاداً ناپسند کرناہے‘ مؤمن طبعاً توموت کو ناپسند کرتاہے لیکن موت کے بعد اس کو نیک اعمال کا جو صلہ ملنے کی امید ہوتی ہے‘ اس کی وجہ سے اور اللہ کے دیدار کے اشتیاق کی وجہ سے وہ اعتقاداً موت کو پسند کرتاہے ‘ کافر اور منافق طبعاً اور اعتقاداً بھی موت کو ناپسند کرتے ہیں‘ اس لئے کہ وہ آگے اپنی سزا کو دیکھتے ہیں تو موت کو ناپسند کرتے ہیں تو اللہ کریم بھی ان کو اور ان سے ملاقات کو ناپسند کرتے ہیں۔
حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ: اللہ سے حیا کرو جیساکہ حیاء کا حق ہے‘ صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! الحمد اللہ! ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں‘ آپ ﷺ نے فرمایا کہ: حیاء سے یہ مراد نہیں جو تم کہتے ہو‘ بلکہ جو شخص اللہ سے حیاء کا حق ادا کرے تو اسے چاہئے کہ سر اور جو کچھ سر کے ساتھ ہے اس کی(نافرمانی سے)حفاظت کرے‘ پیٹ اور جو کچھ پیٹ کے ساتھ ہے اس کی حفاظت کرے اور اسے چاہئے کہ موت کو اور ہڈیوں کے بوسیدہ ہونے کو یاد رکھے اور جو شخص آخرت کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے‘ وہ دنیا کی زینت وآرائش کو چھوڑ دیتا ہے‘ پس جس شخص نے ایسا کیا تو اس نے اللہ سے حیأ کی‘ جس طرح حیأ کا حق ہے۔
[سنن الترمذي:2458، صحيح الجامع:935]
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (آخرت کے مقابلے میں) دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے جنت (باغ و بہار) ہے۔
[صحيح مسلم:2956، سنن ابن ماجه:4113، سنن الترمذي:2324]
تفسير القرطبي-سورة الزخرف:35
نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ جنگِ احزاب کے موقعہ پر یہ جملہ ارشاد فرمایا تھا‘ اور ایک مرتبہ حجة الوداع کے موقعہ پر صحابہ کرام کی بھاری جمعیت کے سامنے‘ نیز یہ بات بھی جان لینی چاہئے کہ ”دنیا آخرت کی کھیتی ہے“ اور یہاں کی زندگی بس ایک ساعت کی ہے اس کو اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں صرف کرنا چاہئے“
نبوی دعا سے سبق:
«اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ … فَأَصْلِحِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَةَ»
(… فَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ)
(… فَأَصْلِحِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهْ)
ترجمہ:
اے اللہ! نہیں ہے کوئی(حقیقی)عیش سوائے آخرت کے عیش(آرامدہ زندگی)کے ... پس انصار اور مہاجرین پر اپنا کرم فرما۔
(… پس تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔)
{… پس تو انصار و مہاجرین کو درست رکھ۔۔}
[صحيح البخاري:2961+3795+3796+3797+(4098+6414){6413}]
القرآن:
اور کتنی ہی بستیاں وہ ہیں جو اپنی معیشت پر اتراتی تھیں ہم نے ان کو تباہ کر ڈالا، اب وہ ان کی رہائش گا ہیں تمہارے سامنے ہیں جو ان کے بعد تھوڑے عرصے کو چھوڑ کر کبھی آباد ہی نہ ہوسکیں، اور ہم ہی تھے جو ان کے وارث بنے۔
[سورۃ نمبر 28 القصص، آیت نمبر 58]
حضرت معاذ بن جبل ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب انہیں یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا:
إِيَّاكَ وَالتَّنَعُّمَ؛ فَإِنَّ عِبَادَ اللهِ لَيْسُوا بِالْمُتَنَعِّمِينَ
ترجمہ:
نازو نعمت سے بچنا کیوں کہ اللہ کے بندے آسائشوں والے نہیں ہوتے۔
[مسند احمد:22105، الصحيحة:353(3021)]
نعمتوں والے منہ موڑلیتے ہیں»
القرآن:
اور جب ہم انسان کو کوئی نعمت دیتے ہیں تو وہ منہ موڑ لیتا ہے، اور پہلو بدل لیتا ہے، اور اگر اس کو کوئی برائی چھو جائے تو مایوس ہو بیٹھتا ہے۔
[سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 83]
القرآن:
اور جب ہم انسان پر کوئی انعام کرتے ہیں تو وہ منہ موڑ لیتا اور پہلو بدل کر دور چلا جاتا ہے، اور جب اسے کوئی برائی چھو جاتی ہے تو وہ لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے۔
[سورۃ نمبر 41 فصلت، آیت نمبر 51]
القرآن:
کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدل ڈالا، اور اپنی قوم کو تباہی کے گھر میں لا اتار۔
[سورۃ نمبر 14 ابراهيم، آیت نمبر 28]
القرآن:
اور اگر اسے کوئی تکلیف پہنچنے کے بعد ہم اسے نعمتوں کا مزہ چکھا دیں تو وہ کہتا ہے کہ ساری برائیاں مجھ سے دور ہوگئیں۔ (اس وقت) وہ اترا کر شیخیاں بگھارنے لگتا ہے۔
[سورۃ نمبر 11 هود، آیت نمبر 10]
القرآن:
یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ اللہ کا دستور یہ ہے کہ اس نے جو نعمت کسی قوم کو دی ہو اسے اس وقت تک بدلنا گوارا نہیں کرتا جب تک وہ لوگ خود اپنی حالت تبدیل نہ کرلیں، اور اللہ ہر بات سنتا، سب کچھ جانتا ہے۔
[سورۃ نمبر 8 الأنفال، آیت نمبر 53]
تفسیر:
یعنی اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کو عذاب سے اسی وقت بدلتا ہے جب کوئی قوم اپنی حالت کو خود بدل لیتی ہے، کفار مکہ کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمتیں عطا فرمائی تھیں جن میں سب سے بڑی نعمت یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ کو انہی کے درمیان مبعوث کیا گیا اگر وہ اس وقت ضد سے کام لینے کے بجائے حق طلبی اور انصاف سے کام لیتے تو ان کے لئے اسلام قبول کرنا کچھ مشکل نہیں تھا لیکن انہوں نے اس نعمت کی ناشکری کرکے اور ضد سے کام لے کر اپنی حالت کو بدل لیا اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اسلام قبول کرنے کو اپنے وقار کا مسئلہ بنالیا جس سے حق کو قبول کرنا ان کے لئے مشکل ہوگیا، جب انہوں نے اپنی حالت اس طرح بدل لی تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی نعمتوں کو عذاب سے تبدیل کردیا۔
القرآن:
اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پر امن اور مطمئن تھی اس کا رزق اس کو ہر جگہ سے بڑی فراوانی کے ساتھ پہنچ رہا تھا، پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری شروع کردی، تو اللہ نے ان کے کرتوت کی وجہ سے ان کو یہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف ان کا پہننا اوڑھنا بن گیا۔
[سورۃ نمبر 16 النحل، آیت نمبر 112]
تفسیر:
یہ اللہ تعالیٰ نے ایک عام مثال دی ہے کہ جو بستیاں خوشحال تھیں، جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور نافرمانی پر کمر باندھ لی تو اللہ تعالیٰ نے ان کو عذاب کا مزہ چکھایا لیکن بعض مفسرین نے کہا ہے کہ اس سے مراد مکہ مکرمہ کی بستی ہے جس میں سب لوگ خوشحالی اور امن کے ساتھ رہ رہے تھے، لیکن جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کو جھٹلایا تو ان پر سخت قسم کا قحط مسلط کردیا گیا جس کے نتیجے میں لوگ چمڑا تک کھانے پر مجبور ہوئے۔ بعد میں انہوں نے آنحضرت ﷺ سے درخواست کی کہ آپ قحط دور ہونے کی دعا فرمائیں۔ چنانچہ وہ آپ کی دعا سے دور ہوا۔ اس واقعے کا ذکر سورة دخان میں بھی آنے والا ہے۔
خوشحال(عیش وعشرت والے)لوگ نافرمان ہوتے/ہوجاتے ہیں۔
القرآن:
(ان ظالموں سے کہا گیا) بھاگو مت، اور واپس جاؤ، اپنے انہی مکانات اور اسی عیش و عشرت کے سامان کی طرف جس کے مزے تم لوٹ رہے تھے، شاید تم سے کچھ پوچھا جائے۔
[سورۃ نمبر 21 الأنبياء، آیت نمبر 13]
عیاش لوگ، فسادی اور ظالم ہوتے/ہوجاتے ہیں»
القرآن:
تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں، بھلا ان میں ایسے لوگ کیوں نہ ہوئے جن کے پاس اتنی بچی کھچی سمجھ تو ہوتی کہ وہ لوگوں کو زمین میں فساد مچانے سے روکتے ؟ ہاں تھوڑے سے لوگ تھے جن کو ہم نے (عذاب سے) نجات دی تھی۔ اور جو لوگ ظالم تھے، وہ جس عیش و عشرت میں تھے، اسی کے پیچھے لگے رہے، اور جرائم کا ارتکاب کرتے رہے۔
[سورۃ نمبر 11 ھود، آیت نمبر 116]
خوشحال(عیش وعشرت والے) لوگ نافرمان ہوتے ہیں۔
القرآن:
اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو (ایمان اور اطاعت کا) حکم دیتے ہیں، پھر وہ وہاں نافرمانیاں کرتے ہیں، تو ان پر بات پوری ہوجاتی ہے، چنانچہ ہم انہیں تباہ و برباد کر ڈالتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 17 الإسراء، آیت نمبر 16]
خوشحال(عیاش)لوگ کافر رہتے/ہوجاتے ہیں۔
القرآن:
ان کی قوم کے وہ سردار جنہوں نے کفر اپنا رکھا تھا، اور جنہوں نے آخرت کا سامنا کرنے کو جھٹلایا تھا، اور جن کو ہم نے دنیوی زندگی میں خوب عیش دے رکھا تھا، انہوں نے (ایک دوسرے سے) کہا : اس شخص کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ یہ تمہی جیسا ایک انسان ہے۔ جو چیز تم کھاتے ہو، یہ بھی کھاتا ہے، اور جو تم پیتے ہو، یہ بھی پیتا ہے۔
[سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 33]
خوشحال(عیاش)لوگ آیاتِ الٰہی سے منہ موڑتے ہیں۔
القرآن:
یہاں تک کہ جب ہم ان کے دولت مند لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے تو وہ ایک دم بلبلا اٹھیں گے۔۔۔(کیونکہ)میری آیتیں تم کو پڑھ کر سنائی جاتی تھیں تو تم الٹے پاؤں مڑ جاتے تھے۔
[سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 64]
خوشحال(عیاش)لوگ پیغامِ الٰہی کا انکار کرتے ہیں۔
القرآن:
اور جس کسی بستی میں ہم نے کوئی خبردار کرنے والا پیغمبر بھیجا، اس کے خوش حال لوگوں نے یہی کہا کہ : جس پیغام کے ساتھ تمہیں بھیجا گیا ہے ہم اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 34 سبإ، آیت نمبر 34]
خوشحال(عیاش)لوگ پیغمبر کا انکار کرتے ہیں، اپنے باپ دادا کی اندھی تقلید کرتے ہیں۔
القرآن:
اور (اے پیغمبر) ہم نے تم سے پہلے جب بھی کسی بستی میں کوئی خبردار کرنے والا (پیغمبر) بھیجا تو وہاں کے دولت مند لوگوں نے یہی کہا کہ: ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقے پر پایا ہے، اور ہم انہی کے نقش قدم کے پیچھے چل رہے ہیں۔
[سورۃ نمبر 43 الزخرف، آیت نمبر 23]
خوشحال(عیاش)لوگ عظیم گناہ کے عادی ہوتے ہیں۔
القرآن:
یہ لوگ اس سے پہلے بڑے عیش میں تھے۔ اور بڑے بھاری گناہ پر اڑے رہتے تھے۔
[سورۃ نمبر 56 الواقعة، آیت نمبر 45]
No comments:
Post a Comment