یقینًا ہم ہی نے اسے رستہ بھی دکھا دیا، اب خواہ شکرگذار ہو خواہ ناشکرا۔ [القرآن : سورۃ الدھر: آیۃ3] یعنی اولًا اصل فطرت اور پیدائشی عقل و فہم سے پھر دلائل عقلیہ و نقلیہ سے نیکی کی راہ سجھائی جس کا مقتضٰی یہ تھا کہ سب انسان ایک راہ چلتے لیکن گردوپیش کے حالات اور خارجی عوارض سے متاثر ہو کر سب ایک راہ پر نہ رہے۔ بعض نے اللہ کو مانا اور اس کا حق پہچانا، اور بعض نے ناشکری اور ناحق کوشی پر کمر باندھ لی۔ آگے دونوں کا انجام مذکور ہے۔
[سنن ابن ماجه:229، المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم:3491]
[صحيح مسلم:1478، المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم:3486]
اللہ پاک نے فرمایا:
۔۔۔۔ اور (اے پیغمبر) ہم نے تم پر بھی یہ قرآن اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپلوگوں کے سامنے ان باتوں کی واضح تشریح کر دو جو ان کے لیے اتاری گئی ہیں اور تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں۔
[سورۃ النحل:44]
یعنی پیغمبر کی ذمہ داری اور منصب صرف قرآن حکیم کو پہچادینا ہی نہیں، بلکہ اللہ کی مراد بھی واضح کرنا ہے۔ پھر اس کے بعد علماء کو غور وفکر سے کام لینا چاہئے۔
پبغمبر کا کام (1)تلاوت، (2)تزکیہ اور (3)تعلیم بھی ہے۔
اللہ پاک نے فرمایا:
حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، انہیں پاک صاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے، جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
[سورۃ آل عمران:164]
آیت سے ماخوذ آدابِ علم:
(1)کتاب پڑھنے سے پہلے معلم(استاد) سے سیکھنا۔ کتاب پڑھنے سے پہلے معلم کوسننا۔
(2)حکمت یعنی کتاب پر عمل کا طریقہ، موقع اور محل کی سمجھ بھی معلم(استاد) سے سیکھنا۔
(3)کتاب وحکمت سے پہلے معلم(استاد) سے اپنا تزکیہ یعنی تربیت کروانا۔
(4)استاد کی صحبت (Companionship) اہم ہے تزکیہ، تعلیم اور حکمت کیلئے۔
جیسے تربیت کرنے والا پہلے سناتا پھر عمل کرواتا اور پھر وضاحت کرتا ہے۔
غیر معصوم امتی کا استاد بننا»
حضرت عثمان بن عفان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ.
تم میں بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
جو شخص میری اس مسجد(نبوی) میں صرف خیر (علم دین) سیکھنے یا سکھانے کے لیے آئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کے درجہ میں ہے، اور جو اس کے علاوہ کسی اور مقصد کے لیے آئے تو وہ اس شخص کے درجہ میں ہے جس کی نظر دوسروں کی مال ومتاع پر لگی ہوتی ہے۔
[سنن ابن ماجه:227]
حضرت ابوامامہ الباھلیؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ایک عام آدمی پر ہے۔ اللہ اور اس کے فرشتے اور آسمان اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور مچھلیاں بھی اس شخص کے لیے صلاۃ (یعنی دعائیں اور استغفار) کرتی ہیں جو لوگوں کو خیر(یعنی بھلائی وحقوق) کی تعلیم دیتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن مجید چار لوگوں سے سیکھو: ابن مسعود، ابی بن کعب، معاذ بن جبل، اور سالم مولی ابی حذیفہ سے“۔
علمِ چار شخصوں سے نہ لیا جائے: نہ بدعتی سے، نہ بیوقوف(غیرفقیہ) سے، نہ اس شخص سے جو لوگوں کی باتوں میں جھوٹ بول لیتا ہو اگرچہ حدیثِ نبوی میں سچ ہی کہتا ہو، اور نہ اس سے جو اس(موضوع)کی شان(موقع)کو ہی نہ جانتا ہو۔
[مقدمہ اوجز المسالک:6، تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي:1/30 دار طيبة]
المجالسة وجواهر العلم:1891+3053، المعجم لابن المقرئ:1084، جامع بيان العلم وفضله:1542، الكفاية في علم الرواية:ص160
حضرت سلمان بیان کرتے ہیں لوگ اس وقت تک بھلائی پر گامزن رہیں گے جب تک پہلے سے لوگوں سے علم حاصل کیا جاتا رہے گا یا دوسرے لوگ ان سے علم حاصل کرتے رہیں گے۔ جب پہلے لوگوں سے علم کے حصول سے پہلے ہی پہلے لوگ فوت ہوجائیں تو لوگ ہلاکت کا شکار ہوجائیں گے۔
[سنن دارمی» باب: علم کا رخصت ہوجانا۔ حدیث نمبر: 244]
لوگ ہمیشہ خیر پر رہیں گے جب تک کہ وہ علم حاصل کریں گے اپنے اکابر(بڑوں/پہلوں)، اور اپنے امانتدار لوگوں، اور اپنے عُلَماء سے۔ اور جب وہ اپنے چھوٹوں(آخر والوں) اور برے لوگوں سے علم حاصل کریں گے تو وہ ہلاک ہوجائیں گے۔
[غريب الحديث للقاسم بن سلام:3/369، المدخل إلى السنن الكبرىٰ-امام البيهقي(م458ھ) - تحقیق عوامة : حدیث#1403، جامع بيان العلم وفضله-امام ابن عبد البر(م463ھ):حدیث#1057، نصيحة أهل الحديث-امام الخطيب البغدادي(م463ھ) : ص26، الفقيه والمتفقه - امام الخطيب البغدادي(م463ھ) : 2/155، الحوادث والبدع-أبو بكر الطرطوشي (م520ھ): ص79]
قوله: ثلاث مسائل: التعلم هنا معناه: التلقي عن العلماء والحفظ والفهم والإدراك، هذا هو التعلم، ليس المراد مجرد قراءة أو مطالعة حرة كما يسمونها هذا ليس تعلما إنما التعلم هو: التلقي عن أهل العلم مع حفظ ذلك وفهمه وإدراكه تمامًا، هذا هو التعلم الصحيح، أما مجرد القراءة والمطالعة فإنها لا تكفي في التعلم وإن كانت مطلوبة، وفيها فائدة لكنها لا تكفي، ولا يكفي الاقتصار عليها. ولا يجوز التتلمذ على الكتب كما هو الواقع في هذا الوقت، لأن التتلمذ على الكتب خطير جدا يحصل منه مفاسد وتعالم أضر من الجهل، لأن الجاهل يعرف أنه جاهل ويقف عند حده، لكن المتعالم يرى أنه عالم فيحل ما حرم الله، ويحرم ما أحل الله، ويتكلم ويقول على الله بلا علم فالمسألة خطيرة جدا۔ فالعلم لا يؤخذ من الكتب مباشرة إنما الكتب وسائل، أما حقيقة العلم فإنها تؤخذ عن العلماء جيلًا بعد جيل والكتب إنما هي وسائل لطلب العلم۔
ترجمہ:
شیخ محمد بن عبد الوھاب کا قول ہے:
تین مسائل (یعنی اللہ کی معرفت، رسول اللہ ﷺ کی معرفت اور دین اسلام کی معرفت):
یہاں تعلم(علم حاصل کرنے)سے مراد علمائے کرام سے علم حاصل کرنا، اسے حفظ کرنا، اس کا فہم و ادراک حاصل کرنا ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ محض پڑھائی یا جس طرح نام دیا جاتا ہے "آزادانہ مطالعہ" کیا جائے، یہ تعلیم نہیں بلکہ تعلیم تو یہ ہے کہ علماء کرام سے (علم) حاصل کیا جائے اس کے حفظ، فہم اور مکمل ادراک کے ساتھ۔ یہ ہے صحیح معنوں میں علم حاصل کرنا، جبکہ صرف خود کتاب پڑھنا اور مطالعہ کرنا اگرچہ مطلوب تو ہے مگر تعلم(علم حاصل کرنے) کے لئے کافی نہیں، اس میں فائدہ بھی ہے مگر یہ کفایت نہیں کرتا اور اس پر اختصار کرنا کافی نہیں۔ کتابوں کا تلمذ اور شاگردی اختیار کرنا جائز نہیں جیسا کہ لوگوں کی موجودہ حالت ہے، کیونکہ کتابوں کا تلمذ(شاگردی) اختیار کرنا بہت خطرناک ہے جس سے بہت مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور یہ علم حاصل کرنا تو جہل سے زیادہ نقصان دہ ہے، کیونکہ جاھل جانتا ہے کہ وہ جاھل ہے لہذا وہ اپنی حد پر رک جاتا ہے، لیکن المتعلم (علم کا دعویدار) سمجھتا ہے کہ وہ عالم ہے لہذا وہ اللہ کے حلال کردہ کو حرام اور حرام کردہ کو حلال قرار دیتا ہے اور اللہ کے بارے میں بغیر علم کے بولتا ہے اور کلام کرتا ہے، لہذا یہ مسئلہ بہت خطرناک ہے۔ لہذا علم کتابوں سے براہ راست حاصل نہیں کیا جاتا بلکہ کتابیں تو وسیلہ ہیں، جبکہ حقیقی معنوں میں علم تو علماء کرام سے حاصل ہوتا ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہوتا رہتا ہے، اور کتابیں تو علم حاصل کرنے کے وسائل میں سے ہیں۔
[شرح ثلاثة الأصول لصالح الفوزان: ص41-42 الناشر: مؤسسة الرسالة]
کیا علماء کے بغیر کتاب کا وجود کارآمد(فائدیمند) ہے؟
حضرت ابوامامہؓ نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: علم کے رخصت ہوجانے سے پہلے اسے حاصل کرلو۔ لوگوں نے دریافت کیا اے اللہ کے نبی علم کیسے رخصت ہوگا جبکہ ہمارے درمیان اللہ کی کتاب موجود ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں نبی اکرم ﷺ ناراض ہوئے اور آپ نے ارشاد فرمایا: تمہاری مائیں تمہیں روئیں۔ کیا تورات اور انجیل بنی اسرائیل میں موجود نہیں تھیں۔ یہ دونوں ان کے کیا کام آسکیں؟بےشک علم کا رخصت ہونا یہ ہے کہ اس کے رکھنے والے (عالم) رخصت ہوجائیں گے، بےشک علم کا رخصت ہونا یہ ہے کہ اس کے رکھنے والے (عالم) رخصت ہوجائیں گے۔
حضرت زیاد بن لبید انصاریؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا : نبی ﷺ نے کسی واقعے کا ذکر کیا اور فرمایا : یہ علم چلے جانے کے وقت ہوگا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول ! علم کیسے اٹھ جائے گا جب کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں، اپنے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں اور ہمارے بیٹے اپنے بیٹوں کو پڑھائیں گے ؟ قیامت تک (اسی طرح سلسلہ جاری رہے گا۔) نبی ﷺ نے فرمایا : زیاد ! تیری ماں تجھے روئے، میں تو تجھے مدینے میں سب سے زیادہ سمجھدار آدمی خیال کرتا تھا۔ کیا یہ یہودی اور عیسائی تورات اور انجیل نہیں پڑھتے؟ لیکن وہ ان میں موجود کسی حکم پر عمل نہیں کرتے۔
[سنن ابن ماجہ:4048 کتاب الفتن، بَابُ ذَهَابِ الْقُرْآنِ وَالْعِلْمِ] یعنی بے عملی اور بدعملی کا سبب علماء سے دوری ہے۔ (2) عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ثُمَّ قَالَ: «هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ العِلْمُ مِنَ النَّاسِ حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ» فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الأَنْصَارِيُّ: كَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا القُرْآنَ فَوَاللَّهِ لَنَقْرَأَنَّهُ وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا، فَقَالَ: «ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ، إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ المَدِينَةِ هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالإِنْجِيلُ عِنْدَ اليَهُودِ وَالنَّصَارَى فَمَاذَا تُغْنِي عَنْهُمْ؟»
ترجمہ:
حضرت ابودرداءُ سے بھی روایت ہے کہ ہم ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھے کہ آپ ﷺ نے آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا پھر فرمایا: یہ ایسا وقت ہے کہ لوگوں سے علم کھینچا جارہا ہے۔ یہاں تک کہ اس میں سے کوئی (معمولی)چیز ان کے قابو میں نہیں رہے گی۔ زیاد بن لبید انصاریؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم سے کیسے علم سلب کیا جائے گا جب کہ ہم نے قرآن پڑھا ہے اور اللہ کی قسم ہم اسے خود بھی پڑھیں گے اور اپنی اولاد اور عورتوں کو بھی پڑھائیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہاری ماں تم پر روئے اے زیاد ! میں تو تمہیں مدینہ کے فقہاء میں شمار کرتا تھا۔ کیا تورات اور انجیل یہود و نصاری کے پاس نہیں ہے۔ لیکن انہیں کیا فائدہ پہنچا؟ [صحيح الترمذي:2653، سنن الدارمی:296، حاکم:338]
(3) الراوي :وحشي بن حرب
أن رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قال يُوشكُ العلمُ أن يُختَلَسَ من الناسِ حتى لا يقدروا منه على شيءٍ فقال زيادُ بنُ لبيدٍ وكيفَيُختلسُمنا العلمُ وقد قرأنا القرآنَ وأقرأناه أبناءَنا فقال ثكلتك أمُّك يا ابنَ لبيدٍ هذه التوراةُ والإنجيلُ بأيدِي اليهودِ والنصارَى ما يرفعون بها رأسًا
كل صاحب حديث ليس له إمام في الفقه فهو ضال ولولا أن الله أنقذنا بمالك والليث لضللنا.
ترجمہ:
ہر وہ حدیث والا(عالم) جس کا فقہ میں کوئی امام نہ ہو تو وہ گمراہ ہے، اور اگر اللہ نہ بچاتا ہمیں مالکؒ اور لیثؒ (جیسے امام) کے ذریعے تو ہم یقینا گمراہ ہوجاتے۔
[الجامع في السنن والآداب والمغازي والتاريخ (ابن أبي زيد القيرواني م386ھ) : ص119]
الجامع لمسائل المدونة (ابن يونس الصقلي م451ھ) :24/65،
ترتيب المدارك وتقريب المسالك (القاضي عياض م544ھ): 1/ 91+171
طبقات علماء الحديث (ابن عبد الهادي م744ھ) : 1/314
تبع تابعی حضرت عبدالرحمن بن مہدیؒ (م198ھ) نے فرمایا:
حدیث سے بہتر ہے مدینہ والوں کی سنت پہلے لوگوں کی سنت میں سے۔
[مسند الموطأ للجوهري (م381ھ) : حدیث نمبر56]
يريد أنه أقوى من نقل الآحاد۔
ترجمہ:
مراد یہ ہے کہ وہ(پہلے لوگوں کا اجتماعی طریقہ) زیادہ قوت والا ہے نقل کردہ اکیلی(حدیث وخبر)کے۔
[الذب عن مذهب الإمام مالك (ابن أبي زيد القيرواني م386ھ) : 1 /274]
مثلاً:
’’۔۔۔اور نہیں کفر وانکار کرتے ان(آیات)کا مگر نافرمان ہی‘‘
اس آیت سے جاہل یہ حکم لگائے گا کہ مؤمن اگر نافرمانی کرے تو وہ کافر ہے، حالانکہ اسے گناہگار مؤمن کہیں گے کافر نہیں، کیونکہ وہ گناہ کو گناہ ’’مانتا‘‘ ہے، اور اس سے توبہ وتقویٰ کا ارادہ وتوفیق ممکن ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
جسے اچھی لگے اپنی اچھائی اور بری لگے اپنی برائی تو وہ مؤمن ہے۔
[ترمذیؒ:2165]
اور اللہ نے بھی کافرانہ حرکات کرنے والے، ادھورے ایمان لانے والے، گناہ گار کو نصیحت کرتے ایمان والا ہی پکارا ہے ۔۔۔ کہ ...
مؤمنو! نہ ہونا ان جیسے جنہوں نے کفر کیا...
[سورة-آل عمران:156]
مؤمنو! ایمان لاؤ(پورا سچا)...
[النساء:136]
مؤمنو! داخل ہوجاؤ اسلام میں پورے۔۔۔
[سورة البقرة:208]
مؤمنو! توبہ کرو الله کی طرف سچی توبہ...
[التحریم:8]
یا
اس حدیث سے کہ ’’مومن نجس نہیں ہوتا‘‘ جاہل یہ مسئلہ سمجھے سمجھائے کہ مومن پر غسل فرض ہی نہیں ہوتا، تو کیا احکام ضائع نہ ہوں گے؟
قرآن پاک کو سمجھنا آسان یا مشکل؟
ہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ آج کل بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جب واضح طور پر قرآن کریم میں آ گیا:
" ولقد یسّرنا القرآن للذّکر۔۔۔۔" .
ترجمہ :
اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لیے آسان بنا دیا ہے۔۔۔۔
[سورۃ القمر : ١٧]
جب قرآن کریم آسان ہے، تو اس کی تشریح کے لیے لمبے چوڑے علوم وفنون کو پڑھنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس آیت کے معنیٰ کو یہاں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، وہ یہ کہ قرآن کریم کی آیات میں عام طور سے دو طرح کے مضمون ہوتے ہیں :
١- عام وعظ ونصیحت کی باتیں، سبق آموز واقعات، خوفِ الٰہی، فکرِ آخرت اور جنت وجہنم کا تذکرہ وغیرہ۔
٢- وہ آیات جن میں شریعت کے احکام وقوانین، عقائد وعبادات کے مسائل وغیرہ ذکر ہوتے ہیں۔
پہلی قسم کی آیات کے معنیٰ ومفہوم کو معمولی عربی پڑھا ہوا شخص بھی ادنی غوروتدبر سے سمجھ سکتا ہے، سو اس اعتبار سے قرآن کریم بلا شبہ آسان ہے۔
البتہ دوسری قسم کی آیات کو کماحقہ(یعنی جیساکہ اس کا حق ہے) سمجھنے کے لیے اسلامی علوم میں پوری مہارت اور بصیرت ضروری ہوتی ہے، لہذا احکام ومسائل کے مضمون والی آیات ان علوم میں پختگی حاصل کرلینے کے بعد آسان ہوں گی۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام باوجود اہل زبان ہونے کے قرآن کریم کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں طویل مدتیں صرف کرتے تھے۔ جیسا کہ صحابہ کرام کے اس حوالے سے واقعات مشہور ہیں، موطّا امام مالک کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہ نے صرف سورۃ البقرہ سیکھنے میں پورے آٹھ سال صرف کیے۔
[الاتقان فی علوم القرآن-امام سیوطی : ج ٢ ص: ١٧۶]
یہاں یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ صحابہ کرام کے لیے جب ان کی عربی دانی فہمِ قرآن کے لیے کافی نہیں تھی، بلکہ باقاعدہ ان کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے قرآن کریم کی مراد و مفہوم کو سیکھنے کی ضرورت ہوتی تھی، تو آج چودہ سو سال بعد غیر اہل زبان کے لیے صرف عربی جاننا یا صرف اردو ترجمہ پڑھ کر قرآن کریم کے تمام مضامین کو سمجھنا کیسے ممکن ہوگا ؟
اور یہ بات بھی ہر ذی شعور سمجھتا ہےکہ صرف انگریزی زبان جاننے والا میڈیکل کی کتابیں پڑھ کر ڈاکٹر وانجینئر نہیں بن سکتا، بلکہ اس کے لیے باقاعدہ ڈاکٹری اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے، تو قرآن کریم کے معانی ومطالب سمجھنے کے لیے صرف عربی سمجھنے کو کیوں کافی سمجھ لیا جاتا ہے؟ جبکہ بعض ستم ظریف تو صرف ترجمہ قرآن کو پڑھ کر ہی اپنے آپ کو قرآن کا عالم سمجھنے لگتے ہیں اور قرآن کریم کی من مانی تشریح کرتے ہیں، جو سلف صالحین کی تفسیر کے برخلاف ہوتی ہے۔
خوب سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نہایت خطرناک طرز عمل ہے، جو دین کے معاملے میں بہت گمراہ کن اور ہلاکت کی طرف لے جانے والا ہے، اسی طرزعمل پر احادیث میں سخت وعید آئی ہے کہ "جس نے قرآن کے معاملے میں بغیرعلم کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے "۔
"اور جس نے قرآن کے معاملے میں محض اپنی رائے سے گفتگو کی اور کوئی بات صحیح بھی کہہ دی، تب بھی اس نے غلطی کی ۔"
[سنن أبي داود:3652،سنن الترمذي:2950، السنن الكبرى - النسائي:8030]
لہذا جو لوگ علوم عربیہ سے ناواقف ہوں، ان کے لیےبہتر یہ ہے کہ وہ مستند علماء کرام( جو تفسیرِقرآن کی صلاحیت رکھتے ہوں) سے روزانہ سبقاً سبقاً قرآن کریم پڑھیں یا ہفتہ میں ایک دن ان میں سے کسی ایک کے درس قرآن میں جاکر، ان کے درس کو سن کر قرآن کو سمجھنے کی کوشش کریں اور اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو اردو کی معتبر ومستند تفسیر کو کسی معتبر عالم کی رہنمائی میں مطالعہ کریں، اس طور پر کہ جہاں جو بات سمجھ نہ آئے، خود سے فیصلہ کرنے کے بجائے ان سے رجوع کرلیا کریں، تاکہ قرآنی ہدایت کا نور اس کے آداب کی رعایت کرتے ہوئے حاصل ہو جائے۔
حضرت عبداللہ بن عمر، جندب بن عبداللہ البجلی، عبداللہ بن عمرو بن العاص اور دیگر صحابہ کرام سے روایت ہے کہ:
تعلمنا الإيمان ثم تعلمنا القرآن فازددنا به إيماناً، ويأتي أقوامٌ يتعلمون القرآن، ثم يتعلمون الإيمان، يشربونه شرب الماء۔
ترجمہ:
ہم نے ایمان سیکھا، پھر قرآن سیکھا، تو اس سے ہم نے ایمان کو مضبوط کیا، اور لوگ قرآن سیکھنے آئیں گے، پھر ایمان سیکھیں گے، پانی کی طرح اسے پیئیں گے۔
[شرح صحيح البخاري للحويني:٧/١٢، شرح صحيح مسلم - حسن أبو الأشبال:٤١/٢٢]
علماء کا کام وذمہ داری تعلیم دینا ہے۔
بےعمل عالم بھی دوسروں کیلئے چراغ(راهنما) ہے:
سیدنا جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَزْدِيِّسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فَإِن الْمعلم إِذا قَالَ للصَّبِيّ قل بِسم الله الرَّحْمَن الرَّحِيم فَقَالَ كتب الله برأة للصَّبِيّ وبرأة للمعلم وبرأة لِأَبَوَيْهِ من النَّار
ترجمہ:
بےشک معلم(تعلیم دینے والا قرآن کی ابتداء کرواتے) جب کہتا ہے بچے سے کہ کہو: ﴿شروع الله کے نام سے جو سب پر مہربان ہمیشہ رحم والا ہے۔﴾ پھر وہ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس بچے کیلئے اور تعلیم دینے والے اور اس کے والدین کیلئے جہنم سے آزادی لکھ دیتے ہیں۔
حوالہ
[المشيخة البغدادية-امام أبي طاهر السلفي(م576ھ) » جلد#43 صفحہ#7]
[مسند الفردوس-امام الديلمي(م509ھ) » حدیث#6597،
زھرۃ الفردوس-امام ابن حجر عسقلانی(م852ھ) » حدیث#2470]
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ حضرت معاذ نبی ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور فرمایا: اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے قرآن پڑھا دیجیے۔ پس رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عبداللہ! اس کو قرآن پڑھا دو۔ پس جو مجھے یاد تھا میں نے ان کو پڑھا دیا، پھر میں اور وہ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے، تو حضرت معاذ نے آپ ﷺ کے سامنے قرآن پڑھا۔ اور حضرت معاذ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں قرآن سکھانے والے معلمین میں سے ایک معلم تھے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ»کتاب:-فضائل قرآن، باب:-جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں قرآن کی تلاوت کی، حدیث نمبر: 30684]
عن سعد قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا هذه الكلمات تعليم المكتب الغلمان الكتابة: اللهم إني أعوذ بك من البخل، وأعوذ بك من الجبن، وأعوذ بك أن أرد إلى أرذل العمر، وأعوذ بك من فتنة الدنيا وعذاب القبر".
ترجمہ:
حضرت سعد ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہم کو یہ کلمات اس طرح سکھاتے تھے جس طرح مکتب میں معلم بچوں کو سکھاتا ہے:
اللھم انی اعوذبک من البخل، واعوذبک من الجبن، واعوذبک ان اراد الی ارذل العمر۔ واعوذبک من فتنۃ الدنیا و عذاب القبر۔
اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے، تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ بری عمر تک پہنچا دیا جاؤں اور میں تری پناہ مانگتا ہوں دنیا کے فتنے سے اور قبر کے عذاب سے۔
[کنزالعمال»
کتاب: ذکر دعا و استغفار کا بیان
باب: حضرت ادریس (علیہ السلام) کی دعا۔
حدیث نمبر: 5095]
امام عبد اللہ ابن مبارک(م181ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جو شخص بھی علماء کی بے قدری کرے گا وہ اُخروی زندگی (کی بھلائی) سے محروم رہے گا، جو شخص بھی حکمرانوں کی بے قدری کرے گا وہ دنیاوی زندگی (کی بھلائی) سے محروم رہے گا، اور جو شخص بھی اپنے بھائی کی بے قدری کرے گا وہ اچھے اخلاق و کردار سے محروم رہے گا-
[الجليس الصالح الكافي-المعافى بن زكريا(م390ھ): صفحہ#229، آداب الصحبة لأبي عبد الرحمن السلمي (م412ھ)، : حدیث#52، النصيحة للراعي والرعية للتبريزي(م636ھ): صفحہ#97]
تین شخص ایسے ہیں کہ جن کے حق کو منافق کے سوا کوئی شخص حقیر وذلیل نہیں سمجھ سکتا: ایک وہ شخص جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوگیا، اورعادل بادشاہ اور خیر کی تعلیم دینے والا(عالم)۔
[جامع بيان العلم:1/542، رقم الحدیث:898، (مصنف ابن أبي شيبة:32562)]
حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "ثلاثٌ لا يَستَخِفُّ بهم إلا منافقٌ: ذو الشيبة في الإسلام، وذو العلمِ، وإمامٌ مُقسِط".
تین لوگ ایسے ہیں جن کے حقوق کو سوائے منافق کے جس کا نفاق واضح ہے اور کوئی ہلکا نہیں سمجھتا: انصاف کرنے والا امام، خیر کی تعلیم دینے والا اور جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوگیا۔
[مصنف ابن أبي شيبة : كِتَابُ الْسير، باب مَا جَاءَ فِي الْإِمَامِ الْعَادِلِ ... 32562(6/421)]
No comments:
Post a Comment