Friday, 28 October 2022

فضائل اور تفاسیر آیة الکرسی

1-جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آية الكرسي پڑهے گا، وه جنت میں داخل هوگا۔

امام نسائیؒ(م303ھ) نے یہ حدیث  حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے  نقل  فرمائی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«مَنْ قَرَأَ آيَةَ ‌الْكُرْسِيِّ ‌فِي ‌دُبُرِ ‌كُلِّ ‌صَلَاةٍ ‌مَكْتُوبَةٍ لَمْ يَمْنَعْهُ مِنْ دُخُولِ الْجَنَّةِ إِلَّا أَنْ يَمُوتَ»۔

ترجمہ:

جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھا کرے تو اس کو جنت میں داخل ہونے کے لیے بجز موت کے کوئی مانع(رکاوٹ) نہیں ہے۔

(یعنی موت کے بعد فورا وہ جنت کے آثار اور راحت و آرام کا مشاہدہ کرنے لگے گا)

[عمل اليوم والليلة للنسائي:100، السنن الكبرى - النسائي:9848، عمل اليوم والليلة لابن السني:124، فضائل القرآن للمستغفري:748، المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي - مخطوط:18، الخامس عشر من المشيخة البغدادية لأبي طاهر السلفي:18]

[تفسير الثعلبي:2/ 229، تفسير الزمخشري:1/ 302، تفسير الرازي:7/ 5, تفسير البيضاوي:1/ 154، تفسير النسفي:1/ 210، تفسير ابن كثير - ت السلامة:1/ 667، تفسير النيسابوري:2/ 12، تفسير الثعالبي:1/ 502]





١.. قرآن مجید کی تمام آیات میں سب سے اعظم ( بڑی ) آیت آية الكرسی ہے:


امام احمد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں محمد بن جعفر نے عثمان بن عتب سے حدیث بیان کی کہ عتاب کہتے ہیں کہ میں نے ابوالسلیل کویہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی لوگوں کو حدیث بیان کیا کرتے تھے ، حتی کہ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی تووہ گھر کی چھت پر چڑھ جاتے اور یہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن مجید میں کونسی آیت سب سے زيادہ عظمت کی حامل ہے ؟ تو ایک شخص کہنے لگا ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ” وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینہ پر رکھا توچھاتی پرمیں نےاس کی ٹھنڈک محسوس کی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے اے ابوالمنذر! تجهے علم کی مبارک ہو

[مسند أحمد:21278]

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ مسجد میں تشریف فرما تھے تو میں بھی بیٹھ گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! کیا تو نے نماز پڑھی ہے؟ میں نے نہیں میں جواب دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: اٹھ کر نماز پڑھو۔ میں نے اٹھ کرنماز ادا کی اور پھر بیٹھ گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اے ابوذر! انسانوں اورجنوں کے شر سے پناہ طلب کرو وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ کیا انسانوں میں بھی شیاطین ہوتے ہیں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: جی ہاں

میں نے نماز کا کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے یہ اچھا موضوع ہے جوچاہے زیادہ کرلے اورجو چاہے کم کرلے ، وہ کہتے ہیں میں نے کہا: روزے کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے: فرض ہے اس کا اجر دیا جاۓ گا اور اللہ تعالی کے ہاں اور زیادہ اجر ملے گا ، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ؟ تو وہ کہنے لگے: اس کا اجر دوگنے سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ میں نے کہا: کونسا صدقہ بہتر ہے؟

تو فرمایا: قلیل اشیاء کے مالک کا صدقہ کرنا اوریا پھر فقیرکو چھپا کر دینا ، میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! سب سے پہلا نبی کون تھا؟ فرمانے لگے: آدم علیہ السلام ، میں نے کہا کہ: اے اللہ کے رسول! کیا وہ نبی تھے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: وہ نبی مکلم تھے اللہ تعالی کے ساتھ بات چيت کی تھی ، میں نے کہا: اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! رسولوں کی تعداد کیا ہے؟ فرمانے لگے: تین سو دس سے کچھ زیادہ ایک جم غفیر تھا اور ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ: تین سو پندرہ ، میں نے کہا: اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ جو نازل کیا گيا ہے اس میں سب سے عظیم کیا ہے؟ فرمایا: آیۃ الکرسی ” اللہ لآلہ الا ھو الحی القیوم

(ورواه النسائي)

آیت الکرسی کی تلاوت شیطان اور جنات کے شرور سے حفاظت کرتی ہے

آیت الكرسی کا پڑهنا جان ، مال ، گهر وغیره کی حفاظت کا ضامن ہے


2-سوتے وقت آیت الكرسِي پڑهنے والا صبح تک شیطان سے محفوظ رہے گا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقرر فرمایا. پھر ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے (کھجوریں) سمیٹنے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول الله صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا ۔ پھر انہوں نے یہ پورا قصہ بیان کیا (مفصل حدیث اس سے پہلے کتاب الوكالة میں گزر چکی ہے) (جو صدقہ فطر چرانے آیا تھا) اس نے کہا کہ جب تم رات کو اپنے بستر پر سونے کے لئے جاؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو ، پھر صبح تک اللہ تعالی کی طرف سے تمہاری حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ مقرر ہوجائے گا اور شیطان تمہارے قریب بھی نہ آسکے گا . (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات آپ سے بیان کی تو) رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اس نے تمہیں یہ سچ بات بتائی ہے اگر چہ وہ بڑا جھوٹا ہے ، وہ شیطان تھا۔

[صحيح البخاري:3275+5010]


تفصیلی واقعہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ (رات میں) ایک شخص اچانک میرے پاس آیا اور غلہ میں سے لپ بھربھر کر اٹھانے لگا میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ قسم اللہ کی! میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلوں گا۔ اس پر اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں بہت محتاج ہوں۔ میرے بال بچے ہیں اور میں سخت ضرورت مند ہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا (اس کے اظہار معذرت پر) میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، اے ابوہریرہ! گذشتہ رات تمہارے قیدی نے کیا کیا تھا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا، اس لیے مجھے اس پر رحم آ گیا۔ اور میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے۔ اور وہ پھر آئے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمانے کی وجہ سے مجھ کو یقین تھا کہ وہ پھر ضرور آئے گا۔ اس لیے میں اس کی تاک میں لگا رہا۔ اور جب وہ دوسری رات آ کے پھر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اسے پھر پکڑا اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کروں گا، لیکن اب بھی اس کی وہی التجا تھی کہ مجھے چھوڑ دے، میں محتاج ہوں۔ بال بچوں کا بوجھ میرے سر پر ہے۔ اب میں کبھی نہ آؤں گا۔ مجھے رحم آ گیا اور میں نے اسے پھر چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریرہ! تمہارے قیدی نے کیا کیا؟ میں نے کہا یا رسول اللہ! اس نے پھر اسی سخت ضرورت اور بال بچوں کا رونا رویا۔ جس پر مجھے رحم آ گیا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ بھی یہی فرمایا کہ وہ تم سے جھوٹ بول کر گیا ہے اور وہ پھر آئے گا۔ تیسری مرتبہ میں پھر اس کے انتظار میں تھا کہ اس نے پھر تیسری رات آ کر غلہ اٹھانا شروع کیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا، اور کہا کہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچانا اب ضروری ہو گیا ہے۔ یہ تیسرا موقع ہے۔ ہر مرتبہ تم یقین دلاتے رہے کہ پھر نہیں آؤ گے۔ لیکن تم باز نہیں آئے۔ اس نے کہا کہ اس مرتبہ مجھے چھوڑ دے تو میں تمہیں ایسے چند کلمات سکھا دوں گا جس سے اللہ تعالیٰ تمہیں فائدہ پہنچائے گا۔ میں نے پوچھا وہ کلمات کیا ہیں؟ اس نے کہا، جب تم اپنے بستر پر لیٹنے لگو تو آیت الکرسی «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» پوری پڑھ لیا کرو۔ ایک نگراں فرشتہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے برابر تمہاری حفاظت کرتا رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے پاس کبھی نہیں آ سکے گا۔ اس مرتبہ بھی پھر میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، گذشتہ رات تمہارے قیدی نے تم سے کیا معاملہ کیا؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس نے مجھے چند کلمات سکھائے اور یقین دلایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے فائدہ پہنچائے گا۔ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے دریافت کیا کہ وہ کلمات کیا ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ اس نے بتایا تھا کہ جب بستر پر لیٹو تو آیت الکرسی پڑھ لو، شروع «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» سے آخر تک۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر (اس کے پڑھنے سے) ایک نگراں فرشتہ مقرر رہے گا۔ اور صبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکے گا۔ صحابہ خیر کو سب سے آگے بڑھ کر لینے والے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ان کی یہ بات سن کر) فرمایا کہ اگرچہ وہ جھوٹا تھا۔ لیکن تم سے یہ بات سچ کہہ گیا ہے۔ اے ابوہریرہ! تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ تین راتوں سے تمہارا معاملہ کس سے تھا؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شیطان تھا۔

[صحيح البخاري:2311]






٣.. آیت الکرسی میں اللہ تعالی کا اسم اعظم ہے


امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : اسماء بنت یزید بن السکن رضی الله عنها کہتی ہیں کہ میں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ان دوآیتوں ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ” اور” الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ” میں اللہ تعالی کا اسم اعظم ہے .

اور اسی طرح ابوداود رحمہ اللہ نے مسدد اور ترمذی رحمہ اللہ نے علی بن خشرم اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے ابوبکر بن ابی شیبہ اور ان تینوں نے عیسی بن یونس عن عبیداللہ بن ابی زياد سے بھی اسی طرح روایت کی ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ حديث حسن صحیح ہے ۔


اور حضرت ابوامامہ رضی الله عنہ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالی کا اسم اعظم جس کے ساتھ دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے وہ تین سورتوں میں ہے : سورۃ البقرۃ اور آل عمران اور طٰہٰ ۔

اور ھشام ابن عمار خطیب دمشق کا کہنا ہے کہ سورۃ البقرۃ میں ”الم الله لا إله إلا هو الحي القيوم” اورآل عمران میں ”الم الله لا إله إلا هو الحي القيوم ” اور طٰہٰ میں ”وعنت الوجوہ للحی القیوم” ہے ۔


حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر میں میں نے ایک وقت یہ چاہا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو دکھوں آپ کیا کر رہے ہیں ، پہنچا تو دیکھا کہ آپ سجدہ میں پڑے ہو ئے بار بار یاحی یاقیوم یاحی یاقیوم کہ رہے ہیں۔

(معارف القرآن: جلد اول ، فضائل آیت الکرسی)



٦.. آیت الکرسی کی ایک زبان ہے اور دو ہونٹ ہیں یہ عرش کے پاس الله تعالی کی پاکی بیان کرتی هے۔

(رواه أحمد )


٧.. صبح سے شام اور شام سے صبح تک حفاظت …

حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : فرمایا رسول الله صلى الله عليه وسلم نے : جو شخص صبح کو آية الكرسي اور سورت غافر(حم ، المؤمن) شروع سے (إليه المصير) تک پڑهے گا تو شام تک محفوظ رهے گا ، اورجو شام کو پڑهے گا تو صبح تک محفوظ رهے گا

[أخرجه الدرامي والترمذي]





امام ابن کثیرؒ(م774ھ) سورۃ البقرۃ کی آیۃ الکرسی کی تفسیر کرتے ہو‏ۓ کہتے ہیں:


یہ آیۃ الکرسی ہے جس کی فضیلت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح حدیث میں ہے کہ کتاب اللہ میں یہ آیت سب سے افضل آیت ہے ۔


حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےان سے سوال کیا کہ کتاب اللہ میں سب سے عظیم آیت کونسی ہے ؟ تو وہ کہنے لگے کہ اللہ اور اس کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم کوہی زیادہ علم ہے ، یہ سوال کئ باردھرایا اور پھر فرمانےلگے کہ وہ آیت الکرسی ہے ۔


فرمانے لگے: اے ابوالمنذر! علم مبارک ہو اس ذات کی قسم جس کےھاتھ میں میری جان ہے! اس آیت کی زبان اور ہونٹ ہوں گے، عرش کے پاۓ کے ہاں اللہ تعالی کی پاکی بیان کررہی ہوگی ۔

[مسند أبي داود الطيالسي:552، فضائل القرآن لابن الضريس:186، مستخرج أبي عوانة - ط الجامعة الإسلامية:4378، المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم:1836]

اور غالبا مسلم نے والذی نفسی سے آگے والے الفاظ نہیں ہیں ۔

[صحيح مسلم:810]

حضرت عبداللہ بن ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد کے پاس کھجوریں رکھنے کی جگہ تھی ، عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں میرے والد اس کاخیال رکھتے تھے تو ایک دن انہوں نے اس میں کھجوریں کم دیکھیں ، وہ بیان کرتے ہيں کہ انہوں نے اس رات پہرہ دیا تورات ایک نوجوان کی شکل میں آیا میں نے اسے سلام کیا اوراس نے جواب دیا والد کہتے ہیں میں نے اسے کہا تم جن ہویا کہ انسان؟ اس نے جواب دیا کہ میں جن ہوں وہ کہتے ہیں میں نے اسے کہا اپنا ھاتھ دو اس نے اپنا ھاتھ دیا تووہ کتے کے ھاتھ کی طرح اور بالوں کی طرح تھا میں نے کہا کہ جن اسی طرح پیدا کیے گۓ ہیں ؟


وہ کہنے لگا کہ جنوں میں تو مجھ سے بھی سخت قسم کے جن ہیں ، میں نے کہا کہ تجھے یہ(چوری) کرنے پر کس نے ابھارا ؟ اس نے جواب دیا کہ ہمیں یہ اطلاع ملی کہ آپ صدقہ وخیرات پسند کرتے ہیں توہم یہ پسند کیا کہ ہم تیرا غلہ حاصل کریں ۔


حضرت عبداللہ بن ابی کہتے ہیں کہ اسے میرے والد نے کہا وہ کون سی چيز ہے جو ہمیں تم سے محفوظ رکھے ؟ اس نےجواب میں کہا یہ آیت الکرسی ہے ، پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گۓ اور سارا قصہ بیان کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ اس خبیث نے سچ کہا ہے ۔


امام احمد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں محمد بن جعفر نے عثمان بن عتب سے حدیث بیان کی کہ عتاب کہتے ہیں کہ میں نے ابوالسلیل کویہ کہتے ہوۓ سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی لوگوں کوحدیث بیان کیا کرتے تھے ، حتی کہ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئ تووہ گھر کی چھت پر چڑھ جاتے اوریہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ :


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن مجید میں کونسی آیت سب سے زيادہ عظمت کی حامل ہے ؟ تو ایک شخص کہنے لگا " اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم " وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ھاتھ میرے سینہ پررکھا توچھاتی پرمیں نےاس کی ٹھنڈک محسوس کی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے اے ابوالمنذر علم کی مبارک ہو ۔


حضرت ابوذر رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا توآپ مسجدمیں تشریف فرما تھے تومیں بھی بیٹھ گيا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر کیا تو نے نماز پڑھی ہے ؟ میں نے نہیں میں جواب دیا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اٹھ کرنماز پڑھو ۔


میں نے اٹھ کرنماز ادا کی اور پھر بیٹھ گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اے ابوذر! انسانوں اورجنوں کے شر سے پناہ طلب کرو وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ کیا انسانوں میں بھی شیمطان ہوتے ہیں ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے جی ہاں ۔


میں نے کہا نماز کا کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے یہ اچھا موضوع ہے جوچاہے زیادہ کرلے اورجوچاہے کم کرلے ، وہ کہتے ہیں میں نے کہا روزے کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے فرض ہے اس کا اجر دیا جاۓ گا اور اللہ تعالی کے ہاں اورزیادہ اجرملےگا ، میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ ؟ تو وہ کہنے لگے اس کا اجرڈبل سے بھی زیادہ ہوتا ہے میں نے کہا کونسا صدقہ بہتر ہے ؟


تو فرمایا: قلیل اشیاء کے مالک کا صدقہ کرنا اوریا پھر فقیرکوچھپا کر دینا ، میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلا نبی کون تھا ؟ فرمانے لگے آدم علیہ السلام ، میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا وہ نبی تھے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نبی مکلم تھے اللہ تعالی کے ساتھ بات چيت کی تھی ؟ میں نے کہا اے اللہ تعالی کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کی تعداد کیا ہے ؟ فرمانے لگے تین سودس سے کچھ زیادہ ایک جم غفیر تھا اور ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ تین سوپندرہ ، میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ جو نازل کیا گيا ہے اس میں سب سے عظیم کیا ہے ؟ فرمایا آیۃ الکرسی " اللہ لاالہ الا ھو الحی القیوم " سنن نسائ ۔


امام بخاری رحمہ اللہ الباری نے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ :


نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے رمضان کےفطرانہ کی حفاظت کرنے کوکہا رات کوایک شخص آیا اورغلہ لےجانے لگا تومیں نے اسے پکڑ کرکہا کہ میں یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جاؤں گا ، وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو اس لیے کہ میں محتاج ہوں میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور شدید قسم کی ضرورت بھی ہے ، تومیں نے اسے چھوڑ دیا جب صبح ہوئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ رات والے قیدی نے کیا کیا ؟


وہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس نے شدید قسم کے فقروفاقہ اوراہل عیال اور شدید قسم کی ضرورت کی شکایت کی تومیں نے اس پرترس اور رحم کرتے ہوۓ چھوڑ‍ دیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے اس نے جھوٹ بولا ہے اور وہ دوبارہ بھی آۓ گا تومجھے علم ہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق وہ دوبارہ بھی لازمی آۓ گا ، تومیں نے دھیان رکھا وہ آیا اور غلہ اکٹھا کرنے لگا تومیں نے اسے پکڑ کرکہا کہ میں یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جاؤں گا ، وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو اس لیے کہ میں محتاج ہوں  میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور شدید قسم کی ضرورت بھی ہے میں دوبارہ نہیں آتا ، تومیں نے اسے چھوڑ دیا جب صبح ہوئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ رات والے قیدی نے کیا کیا ؟


میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس نے شدید قسم کے فقروفاقہ اوراہل عیال اور شدید قسم کی ضرورت کی شکایت کی تومیں نے اس پرترس اور رحم کرتے ہوۓ چھوڑ‍ دیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے اس نے جھوٹ بولا ہے اور وہ دوبارہ بھی آۓ گا ، تومین نے تیسری مرتبہ بھی اس کا دھیان رکھا وہ آیا اور غلہ اکٹھا کرنے لگا تومیں نے اسے پکڑ کرکہا کہ میں یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک لے جاؤں گا یہ تیسری اورآخری بار ہے توکہتا تھا کہ نہیں آ‎ونگا اورپھر آجاتا ہے ۔


وہ کہنے لگامجھے چھوڑ دو میں تمھیں کچھ کلمات سکھاتا ہوں جس سے اللہ تعالی تجھے فائدہ دے گا ، میں نے کہا وہ کون سے کلمات ہیں ؟ وہ کہنے لگا کہ جب تم اپنے بستر پر آؤ تو آیۃ الکرسی پڑھو ' اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم " یہ مکمل پڑھنے پر اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے لیے ایک محافظ مقرر کردیا جاۓ گا اورصبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکےگا تو میں نے اسے چھوڑ دیا ،جب صبح ہوئ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ رات والے قیدی نے کیا کیا ؟


میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! اس نے مجھے کچھ کلمات سکھاۓ جن کے بارہ میں اس کا خیال یہ تھا کہ اللہ تعالی ان کلمات سے مجھے فائدہ دے گا تو میں نے اسے چھوڑ دیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے وہ کلمات کون سے ہیں ؟ میں نے کہا کہ اس نے مجھے یہ کہا کہ جب تم اپنے بستر پر آؤ تو آیۃ الکرسی پڑھو ' اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم " اوراس نے مجھے یہ کہا کہ یہ مکمل پڑھنے پر اللہ تعالی کی طرف سے تمہارے لیے ایک محافظ مقرر کردیا جاۓ گا اورصبح تک شیطان تمہارے قریب بھی نہیں آ سکےگا اور صحابہ کرام تو خیروبھلائ کے کاموں میں بہت ہی زيادہ حریص تھے ، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے :


تیرے ساتھ بات تو اس سچی کی ہے لیکن وہ خود جھوٹا ہے ،اے ابوھریرہ رضي اللہ تعلی عنہ تمہیں یہ علم ہے کہ تم تین راتوں سے کس کے ساتھ بات چیت کررہے تھے ؟ میں نے کہا کہ نہیں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے کہ وہ شیطان تھا ۔


اور ایک روایت میں ہے کہ :


میں نے جنوں کے ایک فقیر شخص کوپکڑلیا اور اسے چھوڑدیا پھروہ دوسری اور تیسری باربھی آيا تومیں نے اسے کہا کیا تونے میرے ساتھ یہ وعدہ نہیں کیا تھا کہ آئندہ نہیں آؤگے ؟ آج میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کرہی جا‎ؤں گا وہ کہنے لگا ایسا نہ کرنا اگرآپ مجھے چھوڑدوگے تومیں تمہیں کچھ ایسے کلمات سکھاؤں گا آّپ جب وہ کلمات پڑھیں گے تو کوئ بھی چھوٹا یا بڑا اور مذکرومؤنث جن تمہارے قریب بھی نہیں پھٹکےگا۔


وہ اسے کہنے لگے کیا واقعی تم یہ کام کرو گے ؟اس نے جواب دیا ہاں میں کرونگا ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا وہ کون سے کملمات ہیں ؟ وہ کہنے لگا : اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم ، آیۃ الکرسی مکمل پڑھی تو اسے چھوڑ دیا تو وہ چلاگیا اورواپس نہ لوٹا ، توابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ قصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ذکر کیا تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کہنا تھا :کیا تجھےعلم نہیں کہ یہ ( آیت الکرسی )اسی طرح ہے ۔


اورامام نسائی رحمہ اللہ تعالی نے احمد بن محمد بن عبداللہ عن شعیب بن حرب عن اسماعیل بن مسلم عن المتوکل عن ابی ھریرہ رضی اللہ تعالی کے طریق سے اسی طرح کی روایت بیان کی ہے ، اور ایسا ہی واقعہ ابی بن کعب رضي اللہ تعالی عنہ سے اوپر بیان کیا چکا ہے ، لھذا یہ تین واقعات ہیں ۔


ابوعبید نے کتاب الغریب میں کہا ہے کہ :


حدثنا ابومعاویۃ عن ابی عاصم القفی عن الشعبی عن عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما قال :


کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ انسانوں میں سے ایک شخص نکلاتووہ ایک جن سے ملا اور وہ اسے کہنا لگا کیا تومیرے ساتھ کشتی کا مقابلہ کرے گا ؟ اگر تونے مجھے پچھاڑ دیا تومیں تجھے ایک ایسی آیت سکھا‎ؤں گا جب تو یہ آيت گھرمیں داخل ہوکر پڑھے گا توشیطان گھرمیں داخل نہیں ہوسکے گا ، ان دونوں نے مقابلہ کیا توانسان نے اسے پچھاڑ دیا ، وہ انسان اسے کہنے لگا میں تجھے بہت ہی کمزوراوردبلاپتلا دیکھ رہا ہوں تیرے بازو کتے کی طرح ہیں ، کیا سب جن اسی طرح ہیں یا کہ ان میں توہی ایسا ہے ؟ تواس نے کہا کہ ان میں سے ہی کمزوراور دبلا پتلا ہوں ۔


اس نے دوبارہ مقابلہ کیا توانسان نے دوبارہ اسے پچھاڑ دیا تو وہ جن کہنے لگا : تو آيۃ الکرسی پڑھا کر اس لیے کہ جوبھی گھرمیں داخل ہوتے وقت آیۃ الکرسی پڑھتا ہے اس گھرسے شیطان نکل بھاگتاہے اور نکلتے وقت اس کی آواز گدھے کے گوزمارنے کی سی آوازکی طرح ہوتی ہے ۔


حضرت ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ سے کہا گیا کہ کیا وہ عمررضی اللہ عنہ تھے ؟ تو وہ کہنے لگے عمررضی اللہ تعالی عنہ کے علاوہ اور کون ہوسکتا ہے ، ابو عبید کہتے ہیں کہ الضئیل کا معنی کمزروجسم والا اور الخیخ گوزمارنے کو کہتے ہيں ( یعنی ہوا کا خارج ہونا ) ۔


ابوھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :


سورۃ البقرۃ میں ایسی آیت ہے جو کہ قرآن کی سردار ہے وہ جس گھرمیں بھی پڑھی جاۓ اس سے شیطان نکل بھاگتا ہے وہ آیۃ الکرسی ہے ۔


اوراسی طرح ایک دوسری سند زائدۃ عن جبیربن حکیم سے بھی روایت کرنے کے بعد کہاہے کہ یہ صحیح الاسناد ہے لیکن بخاری اور مسلم نے اسے روایت نہیں کیا اور امام ترمذی نے بھی زائدہ والی حدیث روایت کی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ ہرچيزکا ایک کوہان ہوتی ہے اور قرآن کی کوہان سورۃ البقرۃ ہے جس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کی سردار ہے یعنی آیۃ الکرسی ہے ، اسے روایت کرنے کے بعد کہتےہیں کہ یہ حديث غریب ہے ہم اسے صرف حکیم بن جبیر سے ہی جانتےہیں اور اس میں شعبـۃ نے کلام کی اور اسے ضعیف قرار دیا ہے ، میں کہتا ہوں کہ اسی امام احمد اور  یحی بن معین اور کئ ایک آئمہ حدیث نے بھی اسے ضعیف قراردیا ہے ابن مھدی نے اسے ترک کیا اور سعدی نے کذب قرار دیا ہے ۔


حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت عمربن خطاب رضي اللہ تعالی لوگوں کی جانب گۓ جوکہ قطاروں میں کھڑے تھے ، حضرت عمر بن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کون بتاۓ گا کہ قرآن کریم میں سب سے بڑی آیت کون سی ہے ؟ حضرت ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے کہ جاننے والے پرآپ کی نظرپڑی ہے میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوۓ سنا : قرآن مجید میں سب سے عظيم آيت آيۃ الکرسی ہے " اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم " ۔


اس آيت کے اسم اعظم پرمشتمل ہونے کے متعلق امام احمد رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : اسماء بنت یزید بن السکن کہتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوۓ سنا کہ ان دوآیتوں " اللہ لاالہ الا ھو الحی القیوم " اور" الم اللہ لا الہ الاھوالحی القیوم " میں اللہ تعالی کا اسم اعظم ہے۔


اور اسی طرح ابوداود رحمہ اللہ نےمسدد اور ترمذی رحمہ اللہ نے علی بن خشرم اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے ابوبکربن ابی شیبہ اوریہ تینوں عیسی بن یونس عن عبیداللہ بن ابی زياد نے بھی اسی طرح روایت کی ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ حديث حسن صحیح ہے ۔


اور حضرت ابوامامہ مرفوعا بیان کرتےہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی کا اسم اعظم جس کے ساتھ دعا کی جاۓ توقبول ہوتی ہے وہ تین سورتوں میں ہے : سورۃ البقرۃ اور آل عمران اور طہ ۔


ھشام جو کہ ابن عمار خطیب دمشق ہیں کا کہنا ہے کہ سورۃ البقرۃ میں " اللہ لاالہ الا ھوالحی القیوم " اورآل عمران میں " الم اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم " اور طہ میں " وعنت الوجوہ للحی القیوم " ہے ۔


اور حضرت ابوامامۃ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرضی نماز کے بعد آيۃ الکرسی پڑھنے کی فضیلت میں بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے ہر فرض نمازکے بعد آیۃ الکرسی پڑھی اسے جنت میں داخل ہونے سے صرف موت ہی روک سکتی ہے ۔


امام نسائی رحمہ اللہ نے الیوم واللیۃ میں بھی حسن بن بشر سے اسی طرح کی روایت کی ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح ابن حبان میں محمد بن حمیر الحمصی سے روایت نقل کی ہے جو کہ بخاری کے رجال میں سے ہے اور اس کی سند بخاری کی شرط ہے ۔


اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ١ۚ۬ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖ١ؕ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْهِمْ وَ مَا خَلْفَهُمْ١ۚ وَ لَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ١ۚ وَسِعَ كُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا یَئُوْدُهٗ حِفْظُهُمَا١ۚ وَ هُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ اِلٰهَ : نہیں معبود اِلَّا ھُوَ : سوائے اس کے اَلْحَيُّ : زندہ الْقَيُّوْمُ : تھامنے والا لَا تَاْخُذُهٗ : نہ اسے آتی ہے سِنَةٌ : اونگھ وَّلَا : اور نہ نَوْمٌ : نیند لَهٗ : اسی کا ہے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں مَنْ ذَا : کون جو الَّذِيْ : وہ جو يَشْفَعُ : سفارش کرے عِنْدَهٗٓ : اس کے پاس اِلَّا : مگر (بغیر) بِاِذْنِهٖ : اس کی اجازت سے يَعْلَمُ : وہ جانتا ہے مَا : جو بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ : ان کے سامنے وَمَا : اور جو خَلْفَھُمْ : ان کے پیچھے وَلَا : اور نہیں يُحِيْطُوْنَ : وہ احاطہ کرتے ہیں بِشَيْءٍ : کس چیز کا مِّنْ : سے عِلْمِهٖٓ : اس کا علم اِلَّا : مگر بِمَا شَآءَ : جتنا وہ چاہے وَسِعَ : سما لیا كُرْسِيُّهُ : اس کی کرسی السَّمٰوٰتِ : آسمان (جمع) وَ : اور الْاَرْضَ : زمین وَلَا : اور نہیں يَئُوْدُهٗ : تھکاتی اس کو حِفْظُهُمَا : ان کی حفاظت وَھُوَ : اور وہ الْعَلِيُّ : بلند مرتبہ الْعَظِيْمُ : عظمت والا
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو سدا زندہ ہے جو پوری کائنات سنبھالے ہوئے ہے جس کو نہ کبھی اونگھ لگتی ہے، نہ نیند۔ آسمانوں میں جو کچھ ہے (وہ بھی) اور زمین میں جو کچھ ہے (وہ بھی) سب اسی کا ہے۔ کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے ؟ وہ سارے بندوں کے تمام آگے پیچھے کے حالات کو خوب جانتا ہے، اور وہ لوگ اس کے علم کی کوئی بات اپنے علم کے دائرے میں نہیں لاسکتے، سوائے اس بات کے جسے وہ خود چاہے، اس کی کرسی نے سارے آسمانوں اور زمین کو گھیرا ہوا ہے، اور ان دونوں کی نگہبانی سے اسے ذرا بھی بوجھ نہیں ہوتا، اور وہ بڑا عالی مقام، صاحب عظمت ہے۔




تفسیر ابن عباس:

اب اللہ تعالیٰ اپنی تعریف و توصیف بیان فرماتے ہیں کہ وہ ایسا ہے جس کو کبھی موت نہیں کہ سارے جہان کا سنبھالنے والا ہے جس کی کوئی ابتداء نہیں اور نہ اس کو اونگھ آسکتی ہے اور نہ ہی نیند، جو کہ عالم کی تدبیر اور احکام میں سے اسے بےتوجہ کر دے، تمام فرشتے اور سب مخلوقات اسی کی ملکیت میں ہیں تمام آسمانوں اور زمین والوں میں سے قیامت کے دن اسی کی اجازت سے کوئی سفارش کرسکتا ہے، امور آخرت میں سے جو چیزیں فرشتوں کے سامنے ہیں اور امور دنیا میں سے سب کو وہ جانتا ہے ان چیزوں کے علاوہ جن کی اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو اطلاع دی ہے، فرشتے دنیا وآخرت کے کاموں میں سے کسی چیز کو نہیں جانتے، اس کی کرسی تمام آسمانوں اور زمینوں سے زیادہ وسیع ہے، بغیر فرشتوں کے اللہ تعالیٰ کو عرش وکرسی (اور تمام آسمان و زمین) کی حفاظت کوئی مشکل نہیں اور وہ ہر چیز سے زیادہ عالی شان اور صاحب عظمت ہے۔






فہم القرآن ربط کلام : صاحب ایمان مخیر حضرات کو ان کے نیک اعمال اور صدقات کا بدلہ عطا کرنے والا اور ظالموں کو ٹھیک ٹھیک سزا دینے والا اللہ تعالیٰ ہے جس کی ذات اور صفات میں کوئی شریک نہیں۔ لہٰذا وہی دنیا و آخرت میں تمہارا مالک ‘ خالق اور نگران ہے۔ آخرت میں کوئی اس کے سامنے دم نہیں مار سکے گا۔ البتہ دنیا میں اس نے بطور آزمائش تمہیں کچھ اختیار دے رکھے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ کسی پر ہدایت مسلط نہیں کرتا۔ اس آیت مبارکہ کو آیت الکرسی کہا گیا ہے۔ کچھ اہل علم نے کرسی کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کا اقتدار لیا ہے لیکن صحابہ اور تابعین کی اکثریت نے اس سے مراد کرسی لی ہے۔ اس آیت کی عظمت و فضیلت کے بارے میں رسول کریم ﷺ نے ابی بن کعب ؓ سے یوں ارشاد فرمایا : ” اے ابو منذر ! تجھے علم ہے کہ کتاب اللہ کی عظیم آیت کونسی ہے ؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے پھر دریافت فرمایا ابو منذر ! تو جانتا ہے کہ قرآن کی عظیم آیت کونسی ہے ؟ ابی بن کعب کہتے ہیں میں نے جواباً عرض کیا کہ (أَللّٰہُ لَاإِلٰہَ إِلَّا ھُوَ الْحَيُّ الْقَیُّوْمُ ) (یعنی آیت الکرسی) آپ نے میرے سینے پر تھپکی دیتے ہوئے فرمایا اے ابو منذر ! اللہ تجھے تیرا علم مبارک کرے۔ “ [ رواہ مسلم : کتاب صلوۃ المسافرین وقصرھا ] اس عظیم آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے معبودِ حق ہونے کی چودہ صفات بیان فرمائی ہیں جو انسان، جنات، ملائکہ اور کائنات کی کسی چیز میں نہیں پائی جاتیں۔ گویا کہ وہ اپنی ذات اور صفات کے اعتبار سے بےمثال، لازوال اور لا شریک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے اسم مبارک ” اللہ “ کے بارے میں امام رازی نقل کرتے ہیں کہ یہ ” اَلَھْتُ اِلَی فُلاَنٍ “ سے مشتق ہے۔ اس کے معنی ہیں ” سَکَنْتُ اِلٰی فُلاَنٍ “ یعنی وہ ہستی جس کے نام سے سکون حاصل کیا جائے اور وہ معبود برحق ہے۔ زمین و آسمان اور پوری کائنات میں اس کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں وہی اِلٰہ واحد ہے۔ اہل علم نے لفظ اِلٰہ کے جتنے مصادر بیان کیے ہیں ہر ایک کا معنیٰ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور الوہیت کا کامل تصور رکھتا ہے۔ جس کے معانی ہیں اونچی شان والا، کائنات کی نظروں سے پوشیدہ، سب کی ضرورتیں پوری کرنے والا اور جس کی ذات سے پناہ طلب کی جائے۔ جس سے سب سے زیادہ محبت کی جائے اس کی عبادت کرنی چاہیے۔ اکیلا ہی عبادت کے لائق، ہمیشہ زندہ رہنے والا اور ہر چیز کو حیات بخشنے والا، ہر دم اور ہر لحاظ سے قائم رہنے والا اور جب تک چاہے کائنات کی ہر چیز کو قائم رکھنے والا۔ ایسی ذات جسے نہ اونگلاہٹ آئے اور نہ ہی اس کی ذات کے بارے میں نیند کا تصور کیا جاسکے۔ زمین و آسمان میں ذرّہ ذرّہ اسی کی ملکیت ہے۔ اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر کوئی بات اور سفارش کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا وہ سب کچھ جانتا ہے جو ہوچکا ‘ جو موجود ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے۔ اس کے علم سے کوئی کچھ بھی حاصل نہیں کرسکتا سوائے اس کے جسے وہ خود کچھ عطا کرنا چاہے۔ اس کا اقتدار اور اختیار زمین اور آسمانوں پر ہمیشہ سے قائم ہے اور ہمیشہ قائم رہیگا۔ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے ان کی حفاظت سے اسے نہ تھکاوٹ ہوتی ہے اور نہ اکتاہٹ۔ وہ اپنے مقام و مرتبہ اور ذات وصفات کے لحاظ سے بلند وبالا اور رفعت و عظمت والا ہے۔ حضرت ابو امامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی اسے جنت میں داخل ہونے سے صرف موت ہی مانع ہے۔[ صحیح الجامع الصغیر للألبانی : 6464] حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے صدقۂ فطر کی حفاظت پر مقرر کیا۔ ایک شخص آیا اور غلہ چوری کرنے لگا میں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا : میں تجھے رسول اکرم ﷺ کے پاس لے جاؤں گا ؟ وہ کہنے لگا میں محتاج، عیالدار اور سخت تکلیف میں ہوں چناچہ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا : ابوہریرہ ! آج رات تمہارے قیدی نے کیا کہا ؟ میں نے عرض کی یارسول اللہ ! اس نے محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا۔ مجھے رحم آیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا دھیان رکھنا وہ جھوٹا ہے وہ پھر تمہارے پاس آئے گا۔ چناچہ اگلی رات وہ پھر آیا اور غلہ اٹھانے لگا۔ میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا آج تو ضرور میں تمہیں آپ ﷺ کے پاس لے جاؤں گا۔ وہ کہنے لگا مجھے چھوڑ دو میں محتاج اور عیالدار ہوں آئندہ نہیں آؤں گا۔ مجھے پھر رحم آگیا اور اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو آپ نے مجھے پوچھا ابوہریرہ تمہارے قیدی نے کیا کیا ؟ میں نے کہا یارسول اللہ ! اس نے سخت محتاجی اور عیالداری کا شکوہ کیا مجھے رحم آگیا تو میں نے اسے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا خیال رکھناوہ جھوٹا ہے وہ پھر آئے گا۔ چناچہ تیسری بار میں تاک میں رہا وہ آیا اور غلہ سمیٹنے لگا میں نے اسے پکڑ لیا۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دو میں تمہیں چند کلمے سکھاتا ہوں جو تمہیں فائدہ دیں گے۔ میں نے کہا وہ کیا ہیں ؟ کہنے لگا جب تو سونے لگے تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کر۔ اللہ کی طرف سے ایک فرشتہ تیرا نگہبان ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے پاس نہیں آئے گا۔ چناچہ میں نے اسے چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا تیرے قیدی نے آج رات کیا کیا ؟ میں نے آپ ﷺ کو ساری بات بتلادی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس نے یہ بات سچی کہی حالانکہ وہ کذاب ہے۔ پھر آپ ﷺ نے مجھ سے کہا ابوہریرہ ؓ جانتے ہو تین راتیں کون تمہارے پاس آتارہا ہے ؟ میں نے عرض کی نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : وہ شیطان تھا۔ [ رواہ البخاری : کتاب الوکالۃ، باب إذا وکل رجلا فترک الوکیل شیئا الخ ] مسائل 9۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کے پہلے اور بعد کے حالات جانتا ہے۔ 10۔ اس کی مرضی کے بغیر اس کے علم سے کوئی کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے : 1۔ ہر چیز تباہ ہوجائے گی صرف اللہ کی ذات کو دوام حاصل ہے۔ (الرحمن : 27) 2۔ اللہ کے علاوہ ہر شے ہلاک ہوجائے گی۔ (القصص : 88) 3۔ اللہ ہی ازلی اور ابدی ذات ہے۔ (الحدید : 3) قیامت کے دن سفارش کے اصول : 1۔ اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر سفارش نہیں ہوسکے گی۔ (البقرۃ : 255) 2۔ سفارش بھی اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ (النبا : 38) 3۔ اللہ تعالیٰ اپنی پسند کی بات ہی قبول فرمائیں گے۔ (طٰہٰ : 109) 4۔ اللہ کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کا حقدار نہ ہوگا۔ (یونس : 3) 5۔ سفارش کا اختیار اسی کو ہوگا جسے رحمن اجازت دے گا۔ (مریم : 87) 6۔ اگر رحمننقصان پہنچانا چاہے تو کسی کی سفارش کچھ کام نہ آئے گی۔ (یٰس : 23) 7۔ سفارشیوں کی سفارش ان کے کسی کام نہ آئے گی۔ (المدثر : 48) 8۔ وہی سفارش کرسکے گا جس کی سفارش پر رب راضی ہوگا۔ (الانبیاء : 28)




اللہ (وہ ہے کہ) کوئی معبود اس کے سوا نہیں،978 ۔ وہ زندہ ہے سب کا سنبھالنے والا ہے،979 ۔ اسے نہ اونگھ آسکتی ہے نہ نیند،980 ۔ اسی کی ملک ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے،981 ۔ کون ایسا ہے جو اس کے سامنے بغیر اس کی اجازت کے سفارش کرسکے،982 ۔ وہ جانتا ہے جو کچھ مخلوقات کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اس سب کو،983 ۔ اور وہ اس کے معلومات کے میں سے کسی چیز کو بھی گھیر نہیں سکتے،984 ۔ سوا اس کے کہ جتنا وہ خود چاہے،985 ۔ اس کی کرسی نے سما رکھا ہے،986 ۔ آسمانوں اور زمین کو اور اس پر ان کی نگرانی ذرہ بھی گراں نہیں،987 ۔ اور وہ عالی شان ہے عظیم الشان ہے،988 ۔
978 ۔ (نہ بڑا چھوٹا، نہ اصلی نہ ظلی، نہ خدا نہ خدا زادہ) خدا کے نفس وجود کے قائل تو جاہلی مذاہب بھی ہوئے ہیں، البتہ وہ اس معبود اعظم (ہندوؤں کی اصطلاح میں ایشور) کے علاوہ تحتانی معبودوں اور دیوتاؤں کے بھی قائل رہے ہیں۔ یہ تعلیم اسلام ہی کی ہے کہ اس ایک خدا کے سوا کسی اور خدا کا سرے سے وجود ہی نہیں، یہ نہیں کہ وہ تو معبود اعظم ہے باقی چھوٹے چھوٹے معبود اور بھی موجود ہیں۔ عیسائی بھی چونکہ شرک میں مبتلا ہوچکے تھے اس لیے ان کے مقابلہ میں بھی توحید کامل کے اثبات اور پھر غیر اللہ کی الوہیت کی نفی کی اس قدر ضرورت تھی یہ آیت ایۃ الکرسی کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی برکتوں اور فضیلتوں سے شاید ہی کوئی مسلمان ناواقف ہو، احادیث میں اس کے فضائل بہ کثرت وارد ہوئے ہیں، اس کی معنویت اور جامعیت ہے بھی اتنی نمایاں اور اس درجہ کی، اپنے تو خیر اپنے ہی ہیں، بیگانے جیسے سیل مترجم قرآن مجید اور میور اور دہیری جیسے معاندین نے بھی بےساختہ اس کی دادوی ہے۔ 979 ۔ (آیت) ” الحی “ وہ مستقلا زندہ ہے وہ ازلی اور ابدی ہے صفت حیات اس کی جزوذات ہے۔ موت یا عدم حیات اس پر نہ پہلے کبھی طاری ہوئی اور نہ آئندہ کبھی طاری ہوسکتی ہیں، تو کیا کوئی قوم ایسی بھی ہوئی ہے جس نے اپنے معبود کی اس کھلی ہوئی اور موٹی میں بھی شبہ کیا ہو، ، ایک نہیں متعدد قوموں نے شک و اشتباہ کیا۔ معنی انکار تک اس صفت کا کیا ہے ! بحر روم کے ساحل پر متعدد قومیں اس عقیدہ کی گزری ہیں کہ ہر سال فلاں تاریخ پر ان کا خدا وفات پا جاتا ہے۔ اور دوسرے دن از نووجود میں آجاتا ہے ! چناچہ ہر سال اس تاریخ کو خدایا بعل کا پتلا بنا کر جلایا جاتا تھا اور دوسری صبح اس کے جنم کی خوشی میں رنگ رلیاں شروع ہوجاتی تھیں۔ ہندوؤں کے ہاں اور تاروں کا مرنا اور پھر جنم لینا اسی عقیدہ کی مثالیں ہیں، اور خود مسیحیوں کا عقیدہ بجز اس کے اور کیا ہے کہ خدا پہلے تو انسانی شکل اختیار کرکے دنیا میں آتا ہے اور پھر صلیب پر جاکر قبول کرلیتا ہے ! مسلمان کے گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے شروع ہی سے ایک ازلی ابدی باقی و غیر فانی خدا کے عقیدہ سے چونکہ مانوس ہوجاتے ہیں۔ بڑے ہو کر ان کے خیال ہی میں یہ بات نہیں آتی کہ خدا کبھی اور کسی حال میں کسی معنی میں اور کسی لحاظ سے حادث وفنا پذیر بھی ہوسکتا ہے۔ لیکن آخر آج بھی کروڑوں کی تعداد میں پڑھے لکھے لوگ خدا کی اسی فنا پذیری کو تسلیم کررہے ہیں یا نہیں ؟ القیوم۔ “ مسیحیوں نے جس طرح حضرت حق کی صفت حیات کے باب میں سخت ٹھوکر کھائی ہے اسی طرح صفت قیومیت سے متعلق بھی عجیب گمراہی میں پڑگئے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ جس طرح بیٹا بغیر باپ کی شرکت وآمیزش کے خدا نہیں اسی طرح باپ پر بھی بغیر بیٹے کو شریک کیے خدا کا اطلاق نہیں ہوسکتا۔ گویا جس طرح نعوذ باللہ مسیح ابن اللہ خدا کے محتاج ہیں اسی طرح خدا بھی اپنی خدائی کے اثبات کے لیے مسیح کا محتاج ہے۔ صفت قیومیت کا اثبات کرکے قرآن نے اسی مسیحی عقیدہ پر ضرب لگائی ہے۔ قیوم وہ ہے جو نہ صرف اپنی ذات سے قائم ہے بلکہ دوسروں کے بھی قیام کا سبب و باعث ہے اور سب کو سنبھالے ہوئے ہے، اس کے سب محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں۔ القیوم القائم الحافظ لکل شی والمعطی لہ مابہ قوامہ (راغب) بہ القائم بنفسہ مطلقا لا بغیرہ وھو مع ذلک یقوم بہ کل موجود حتی لایتصور وجود شیء ولا دوام وجود الابہ (تاج) ائمہ تفسیر نے بھی اسی معنی میں لیا ہے ” القیم لغیرہ فجمیع الموجودات مفتقرۃ الیہ وھو غنی عنھا ولا قوام لھا بدون امرہ (ابن کثیر) 980 ۔ (جیسا کہ مشرک قوموں نے سمجھ لیا ہے) جاہلی مذہبوں کے دیوتا نیند سے جھوم بھی جاتے ہیں اور سونے بھی لگتے ہیں اور اسی غفلت کی حالت میں ان سے طرح طرح کی فروگزاشتیں ہوجاتی ہیں۔ مسیحیوں اور یہود کا بھی عقیدہ یہ ہے یہ حق تعالیٰ نے جب چھ روز میں آسمانوں اور زمین کو بنا ڈالا تو ساتویں دن اسے سستانے اور آرام لینے کی ضرورت پڑگئی، اسلام کا خدادائم، بیدار، ہمہ خبردار، غفلت، سستی اور تھکن سب سے ماوراء خدا ہے۔ 981 ۔ لہ کو مقدم کردینے سے معنی میں زور اور تاکید آگئی اور مفہوم حصر کا پیدا ہوگیا، یعنی ساری کائنات کی ملکیت اور مالکیت صرف اسی کی ہے۔ کوئی اس صفت میں اس کا شریک نہیں، اور اس کی ملک سے مخلوق کا کوئی گوشہ کوئی شعبہ خارج نہیں، مشرک قوموں نے اپنے دیوتاؤں کو کائنات کا مالک مانا بھی ہے، تو اندھے، لولے، لنگڑے ناقص قسم کا۔ اسلام نے آکر اس پر ذور دیا کہ صحیح رشتہ وتعلق خالق کا مخلوق کے ساتھ ملکیت کامل ہی کا ہے۔ لہ “ میں ل متفقہ طور پر ملک کے معنی میں ہے۔ والام للملک (بحر۔ نہر) 982 ۔ (آیت) ” من ذا الذی “ کون ایسا ہے ؟ استفہام انکاری ہے، یعنی کوئی ایسا نہیں (آیت) ” یشفع عندہ “ شفاعت پر حاشیہ ابھی اوپر گزر چکا۔ مسیح کی شفاعت کبری مسیحیوں کا ایک عقیدۂ خصوصی ہے۔ مسیح کے لیے ان کے ہاں بالا استقلال شفاعت ہی ثابت نہیں، بلکہ تخلیق کائنات بھی خدا نے (نعوذ باللہ) اپنے اسی فرزند کے وسطہ سے کیا ہے۔ قرآن مجید مسیحیوں سے مخاطبہ کے وقت ان کے مخصوص مرکزی عقائد کفارہ وشفاعت وغیرہ پر برابر ضرب لگاتا جاتا ہے۔ (آیت) ” باذنہ “ یہ تصریح بھی بہت ضروری تھی، مسیحیوں نے جہاں نجات کا دارومدار شفاعت پر رکھا ہے وہاں کے برعکس بعض مشرک قوموں نے خدا کو قانون مکافات (ہندی میں کرم) کے ضابطوں سے ایسا جکڑا ہوا سمجھ لیا ہے کہ اس کے لیے معافی کی اور اس کے ہاں شفاعت کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی ہے۔ اسلام نے توسط وعتدال کی شاہراہ اختیار کرکے بتایا کہ نجات کا مدار ہرگز کسی کی شفاعت پر نہیں، البتہ خدا نے اس کی گنجائش رکھی ہے اور اپنی اجازت کے بعد مقبول بندوں کو دوسروں کی شفاعت کا (جو درحقیقت دعا ہی کی ایک صورت ہے) موقع دے گا اور ان کی دعائیں قبول کرے گا اور مقبولین کے سب سے بڑے رئیس وسردار ہمارے رسول کریم ﷺ ہیں۔ 983 ۔ یعنی حاضر و غائب محسوس ومعقول مدرک وغیر مدرک سب کا علم اسے پورا پورا حاصل ہے، ماکان قبلھم وما کان بعدھم (کشاف) نام یہاں آگے اور پیچھے صرف دو ہی سمتوں کا لیا گیا ہے لیکن مراد جمیع جہاد ہیں اور یہ کنایہ عربی زبان میں عام ہے۔ ھذا کنایۃ عن احاطۃ علمہ تعالیٰ بسائر المخلوقات من جمیع الجھات۔ (آیت) ” ایدیھم “ اور (آیت “ خلفھم “ میں ضمیر جمع غائب یا تو من ذا کے مدلول کی جانب ہے جس میں انبیاء وملائ کہ سب آگئے اور یا (آیت) ” فی السموت والارض “ کی جانب ہے اور ضمیر مذکر اس لیے کہ مراد زمین و آسمان کے اہل عقل سے ہے) والضمیر لما فی السموات والارض لان فیھم العقلاء اولمادل علیہ من ذامن الملائکۃ والانبیآء (کشاف) صفات باری میں حیات کا قیومیت کا، مالکیت کا اثبات اوپر ہوچکا ہے۔ اب یہاں اس حقیقت کا ہورہا ہے کہ حق تعالیٰ کی صفت علم بھی کامل ہے، سعی وسفارش کا ایک موقع دنیا میں یہ بھی ہوتا ہے کہ جس حاکم یا مالک کے سامنے مقدمہ درپیش ہو اس کا علم محیط وکامل نہیں اس لیے ضرورت ہے کہ خارجی ذرائع سے اس کے معلومات میں اضافہ کیا جائے اور اس کے علم کو کامل کردیا جائے۔ یہاں یہ بتلا کر کہ اللہ کا علم خود ہر خفی وجلی پر حاوی ہے۔ گویا یہ بتادیا کہ اس کے علم پر کسی کے اضافہ کرنے اس کے آگے کسی کی خوبیاں بتلانے اسے کسی نامعلوم شے پر آگاہ کرنے کے کوئی معنی ہی نہیں۔ اور اس طرح مسیحی عقیدہ شفاعت پر ایک اور ضرب لگی۔ 984 ۔ کون نہیں گھیر سکتے ؟ وہی مخلوقات جن میں پیر، پیغمبر، فرشتہ سب شامل ہیں (آیت) ” من علمہ “ میں علم سے مرادمعلومات الہی سے ہے۔ اے من معلوماتہ (کشاف) العلم ھنا المعلوم (بحر) بڑے سے بڑے صاحب علم ومعرفت کے بھی بس میں یہ نہیں کہ معلومات الہی میں سے کسی ایک ہی چیز کنہ و حقیقت سے پوری طرح واقف ہوجائے، محدود لامحدود کے علم کا مقابلہ ہی کیا۔ 985 ۔ (اپنی حکمت ومصلحت کے موافق) یہاں اسی حقیقت کا بیان ہے کہ بندہ بڑے سے بڑا بھی عالم و عارف ہو، بہرحال اس کا علم محدود ہوتا ہے اور عین مشیت الہی کے ماتحت ومطابق۔ 986 (تو وہ خود بڑی سے بڑی چیز میں کیسے سما سکتا ہے) اس کی کرسی علم وقدرت تو خود سارے کائنات پر محیط ہے اس کو اپنے اندر لیے ہوئے ہے تو آسمان پر، عرش پر، کسی وسیع سے وسیع چیز کے بھی اندر کیسے سماسکتا ہے ؟ وہ سب کو گھیرے ہوئے ہے، اسے کون گھیرسکتا ہے۔ اس صفت کے اثبات سے ان مشرکوں کے بھی عقیدہ کی تردید ہوگئی جو خدائے تعالیٰ کے مجسم ہونے اور کسی مکان میں اس کے محدودومقید ہونے قائل ہیں۔ کرسی سے مراد علم الہی لی گئی ہے۔ ابن عباس ؓ صحابی سے یہی معنی منقول ہیں، اور متعدد اہل تفسیر نے اس کی پیروی کی ہے۔ کرسیہ ای العلم (ابن جریر۔ عن ابن عباس ؓ قیل مجاز عن العلم (روح) الکرسی ھو العلم (کبیر) اے علمہ ومنہ الکراسۃ لتضمنھا العلم (مدارک) اے وسع علمہ وسمی العلم کرسیا تسمیۃ بمکان الذی بہ کرسی العالم (کشاف) کرسی کے عام متعارف معنی وہی ہیں جو اردو ہی میں چلے ہوئے ہیں۔ لیکن حق تعالیٰ کے سلسلہ میں کہیں وہ معنی تھوڑے ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ کیا نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ بھی کوئی جسم رکھتا ہے جو وہ اس عام معنی کرسی نشین ہوگا۔ ولا کرسی فی الحقیقۃ ولا قاعد (بیضاوی) کرسی کے اصلی معنی علم ہی کے ہیں اور کراسۃ جو علمی صحیفوں کے آتا ہے وہ اسی اصل سے ماخوذ ہے اور اہل لغت نے کرسی کے جہاں ایک معنی سریر کے کیے ہیں، وہاں دوسرے معنی علم کے کیے ہیں۔ الکرسی السریر والعلم (قاموس) اصل الکرسی العلم ومنہ قیل للصحیفۃ یکون فیھا علم مکتوب کراسۃ (ابن جریر) کرسی کے دوسری معنی قدرت و حکومت کے بھی ہیں۔ چناچہ یہاں بھی بہتیرے اہل لغت واہل تفسیر اسی طرف گئے ہیں۔ الکرسی السریر (قاموس) وقیل کرسیۃ ملکہ (راغب) المراد من الکرسی السلطان والقدرۃ والملک (کبیر) قیل کرسیہ ملکہ و سلطانہ والعرب تسمی الملک القدیم کرسیا (معالم) قال قوم کرسیہ قدرتہ التی یمسک السموت والارض (کشاف) ای وسع ملکہ تسمیۃ بمکانہ الذی ھو کرسی الملک (کشاف) غرض یہ کہ اس کی کرسی علم ہو یا کرسی حکومت وہ جمیع کائنات کو احاطہ کیے ہوئے ہے۔ بڑی چھوٹی، لطیف کثیف، جلی خفی، ہر چیز اس پر عیاں ورشن ہے۔ 987 ۔ (کہ اس سے تھک کر اسے کسی شریک یا مددگار کی ضرورت پڑے) مشرک قوموں نے یہ فرض کرلیا ہے کہ اتنے وسیع اور لق ودق سلسلہ موجودات کی نگرانی تنہا خدا کہاں تک کرسکتا ہے۔ اس لیے نعوذ باللہ وہ کبھی غافل بھی ہوجاتا ہے اور یہ کاروبار سنبھالنے کے لیے اسے ضرورت شریکوں اور مددگاروں کی بھی پڑگئی ہے۔ خود یہود اور مسیحیوں کا عقیدہ خدا کے سستانے اور آرام لینے کے باب میں بھی اسی تخیل کی طرف مشیر ہے۔ (آیت) ” حفظھما “ میں تثنیہ کے صیغہ سے مراد ہے ایک طرف سلسلہ سموت اور دوسری طرف زمین اور اسی لیے قرآن مجید نے ہر ایسے موقع پر صیغہ بجائے جمع کے تثنیہ کا استعمال کیا ہے۔ 988 ۔ یعنی ایک طرف ہر نقص سے ماورا اور ہر عیب سے بالاتر۔ دوسری طرف تمام صفات کمال کا جامع۔ علی اور عظیم دو دو صفتوں کا لانا معنی سے خالی اور بےکار نہیں۔ علوکا حاصل ہے تمام صفات نقص کی نفی، سارے عوارض حدوث سے برتری۔ لا یحد المتعالی عن الاشباہ والا نداد والا مثال والا ضداد وعن امارات النقص ودلالات الحدوث (روح) العلی الرفیع فوق خلقہ المتعالی عن الاشباہ والانداد (بحر) اور عظمت کا حاصل ہے تمام صفات کمال کا اثبات اور ایسی ذات کا ایجاب نہ جس کے مرتبہ کی انتہاہو اور نہ جس کی کنہ دریافت ہوسکے۔ اے ذوالعظمۃ وکل شیء بالاضافۃ الیہ حقیرا (روح) العظیم الذی لا منتھی لعظمتہ ولا یتصور کنہ ذاتہ (روح) العظیم ذوالعظمۃ الذی کل سیء دونہ فلاشیء اعظم منہ (بحر) گویا جان دو صفات کے اندر عظمت و کمال کے سلبی وایجابی پہلوسارے کے سارے آگئے۔ اور ہر اس ضلالت کی تردی ہوگئی جو شرک فی الصفات سے پیدا ہوسکتی ہے۔









روح القرآن:

(اللہ ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے سب کا قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے جو سفارش کرے اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر ؟ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے، اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جو وہ چاہے، حاوی ہے اس کا اقتدار آسمانوں پر اور زمین پر، اور نہیں تھکاتی ہے اسے ان دونوں کی حفاظت، اور وہ بلند ہے اور عظیم ہے) (255) سب سے پہلی بات جو اس آیت کریمہ میں فرمائی گئی ہے وہ اللہ کا تعارف اور اس کی اصل حیثیت کی وضاحت ہے۔ مشرکین عرب اپنی ساری گمراہیوں کے باوجود اللہ کو تسلیم کرتے تھے اور اہل کتاب تو اللہ اور اس کے رسولوں پر بھی ایمان رکھتے تھے اس لیے اللہ کا اقرار اور اس کا ایمان دنیا کی ایک مسلمہ بات تھی۔ البتہ گمراہی کی ابتدا اس بات سے ہوتی تھی کہ کیا اللہ کے سوا کوئی اور اِلٰہ ہے یا نہیں ؟ یہود نے اللہ کو اِلٰہ قرار دینے کے باوجود شرک کی مختلف صورتیں پیدا کر رکھی تھیں اور نصاریٰ نے تو اس قدر غلو سے کام لیا کہ انھوں نے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو اللہ بنا ڈالا۔ یہ اگرچہ تمام نصاریٰ کا عقیدہ نہ تھا البتہ ان میں ایک قابل ذکر تعداد لوگوں کی ایسی موجود تھی جن کے بارے میں قرآن کریم نے کہا لقد کفرالذین قالوا ان اللہ ھوالمسیح ابن مریم (تحقیق ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا مسیح ابن مریم اللہ ہے) لیکن مشرکین عرب اللہ کو ایک ماننے کے ساتھ ساتھ اس کی الوہیت میں نہ جانے کس کس کو شریک بناتے تھے۔ قرآن کریم نے مختلف جگہوں میں الوہیت کے مفہوم کی وضاحت کی ہے۔ اور سورة الفاتحہ کی پہلی آیت کی وضاحت کے سلسلے میں ہم اس پر معروضات پیش کرچکے ہیں۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ الٰہ ‘ معبود کو بھی کہتے ہیں اور حاکم حقیقی کو بھی۔ اور وہ ذات بھی اِلٰہ ہے جس کی محبت عبودیت کا عنوان بن جائے۔ اور وہ بھی اِلٰہ ہے جسے حضور و غیاب میں پکارا جائے اور استمداد کی جائے۔ لیکن قرآن کریم نے ان تمام حوالوں سے صرف اللہ ہی کو الٰہ قرار دیا کہ ” وہی تمہارا معبود ہے ‘ وہی تمہارا حاکم حقیقی ہے ‘ وہی ہے جس کی محبت سے دل آباد رہنا چاہیے ‘ وہی ہے جس کا خوف اور جس کی ناراضگی کا اندیشہ زندگی میں سب سے موثر عامل ہونا چاہیے ‘ وہی ہے جس کے سامنے دست سوال پھیلنا چاہیے اور وہی ہے جس سے تنہائیوں میں عجز و نیاز کی مناجات ہونی چاہیے۔ مولانا حالی نے بڑی خوبصورتی سے بعض احادیث کا ترجمہ کرتے ہوئے اس کی وضاحت کی ہے۔ ؎ کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق زباں اور دل کی شہادت کے لائق اسی کے ہیں فرمان اطاعت کے لائق اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق لگائو تو لو اپنی اس سے لگائو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو اسی پر ہمیشہ بھروسہ کرو تم اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم اسی کی طلب میں مرو جب مرو تم مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی بنائے نزاع یہ بنیادی حقیقت ہے کہ دنیا میں تمام عظمتوں کا حقیقی مالک کون ہے ؟ کون ہے جس کے سامنے سر بھی جھکنے چاہئیں اور اسی کی غیر مشروط اطاعت بھی ہونی چاہیے ؟ اسی کو غیر مشروط طور پر آئین اور قانون دینے کا حق ہے ؟ وہی ہے جس کی عظمت تمام عظمتوں کا آستانہ ہے۔ اسی پر دنیا ہمیشہ آپس میں اختلاف کرتی رہی۔ جو لوگ یہ تمام حقوق اللہ کے لیے سمجھتے ہیں ان کے لیے کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ کسی بادشاہ ‘ کسی آمر مطلق کے سامنے سر جھکادیں۔ وہ کسی پارلیمنٹ کے بارے میں بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس کا دیا ہوا آئین و قانون اس صورت میں بھی واجب الاطاعت ہے جبکہ وہ اللہ کے آئین کے توڑ پر تیار کیا گیا ہو۔ اللہ ہی کی الوہیت کا یہ لازمی نقطہ ہے کہ حکم صرف اسی کو زیب دیتا ہے۔ اسی کی بات حرف آخر ہوتی ہے ‘ وہی ہے جس کی کسی بات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا میں ہر اس حاکم کی حکومت قابل تسلیم ہوگی اور اس پارلیمنٹ کے فیصلے احترام کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے جس میں اللہ کے احکام کی اطاعت کو اولین حیثیت دی گئی ہو ‘ جن کی تمام ترقانون سازی صرف اس دائرے میں ہو جہاں اللہ کی شریعت خاموش ہو اور جن کی سوچ کے تمام دھارے اسلامی شریعت کی سوچ سے ہم آہنگ ہوں۔ جب کوئی شخص ‘ کوئی پارلیمنٹ اللہ کی عظمت کو نظر انداز کر کے اپنی عظمت منوانے لگتی ہے یا اس کے آئین کو بائی پاس کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہیں سے اللہ کے ماننے والوں کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ایسی ہر کوشش کو ناکام بنادیں یا کم از کم اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیں۔ کیونکہ ؎ سروری زیبا فقط اس ذات ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری اَلْحَیُّ الْـقَـیُّـوْمُ اس کے بعد اس آیت کریمہ میں اللہ کی چند بنیادی صفات کو ذکر فرمایا گیا ہے جن میں اللہ کا تعارف بھی ہے اور اس بات کی دلیل بھی کہ اللہ کے سوا کوئی اور اِلٰہ نہیں ہوسکتا۔ سب سے پہلی صفت جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ وہ ہے جو اَلْحَیُّ ہے یعنی وہ ازل سے ابد تک زندہ ہے۔ جسے کبھی موت نہیں آسکتی۔ کیونکہ موت کا خالق بھی وہی ہے۔ موت آنا مخلوق کی صفت ہے۔ اللہ مخلوق نہیں خالق ہے۔ اور دوسری صفت بیان فرمائی کہ وہ قیوم ہے قیوم اس ذات کو کہتے ہیں جو خود اپنے بل پر قائم ہو اور دوسروں کے قیام و بقا کا واسطہ و ذریعہ ہو اسے اپنے قیام کے لیے کسی کی احتیاج نہ ہو اور دوسری کائنات کی ہر شے اپنی زندگی اور بقا کے لیے اس کی محتاج ہو۔ جسے وہ وجود دے وہ وجود پائے ‘ جسے وہ ختم کر دے وہ ختم ہوجائے۔ جس کے وجود پانے کے بعد اگر اس کے زندہ رہنے کے امکانات وہ مہیا نہ کرے تو وہ موت کی شکار ہوجائے۔ دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ سے آپ وجود میں آسکتی ہو اور پھر وجود میں آنے کے بعد اللہ کے دیے ہوئے امکانات کو نظر انداز کر کے باقی اور قائم رہ سکتی ہو۔ یہ دو بنیادی صفات اللہ کی الوہیت کے لیے دلیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور ایک طرح کا چیلنج بھی ہیں کہ دنیا بھر کے مشرکوں نے جن قوتوں کو اللہ کی الوہیت میں شریک کر رکھا ہے وہ بتائیں کہ ان میں کون ہے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور کون ایسا ہے جس کی زندگی اپنے بل پر قائم ہے۔ اور ایسا کون ہے کہ پوری کائنات اس کی وجہ سے وجود میں آئی ہو اور اس کی وجہ سے قائم اور باقی ہو۔ دنیا بھر کے مشرکین اس چیلنج کا سامنا نہیں کرسکتے۔ اور جب یہ اعتراف موجود ہے کہ واقعی ایسی کوئی اور ذات نہیں تو پھر کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اللہ کی الوہیت میں دوسروں کو شریک کیا جاتا ہے۔ سِنَۃٌ … نَـوْمٌ ان دو مثبت صفات کے بعد کچھ ایسی سلبی صفات یا نقائص بیان کیے جارہے ہیں جن سے اللہ پاک اور منزہ ہے۔ جو متذکرہ بالا صفات کے بالکل برعکس ہیں۔ ان میں سے دو چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک کو سنـۃ کہا گیا ہے اور دوسری کو نومکا نام دیا گیا ہے۔ سنـۃ اونگھ کو کہتے ہیں اور نوم کے معنی نیند کے ہیں۔ نیند کا آغاز اونگھ سے ہوتا ہے اور اس کی انتہا نومکہلاتی ہے۔ یہ دونوں غفلت کی دو صورتیں ہیں۔ ان دونوں کے ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفلت کے تمام اثرات سے منزہ ہے۔ وہ چونکہ اپنی ذات میں حی اور قیوم ہے تو جو ذات حی اور قیوم ہو اور جس کی وجہ سے تمام دنیا زندہ اور قائم ہو اسے اونگھ یا نیند کیسے آسکتی ہے۔ وہ کسی طرح کی غفلت کا کیسے شکار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس کے اونگھ جانے کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا کی زندگی جس سے وابستہ ہے وہ سرچشمہ خاموش ہوگیا۔ اور اس کے سو جانے کا معنی یہ ہوگا کہ دنیا اپنی حفاظت سے محروم ہوگئی۔ دنیا میں حشرات الارض سے لے کر بڑے سے بڑے سیارے تک اور معمولی مخلوق سے لے کر حضرت جبریل امین تک اپنی زندگی اور بقا کی بھیک اللہ سے مانگنے پر مجبور ہیں۔ اور ان کی زندگی اس وقت تک باقی ہے جب تک اللہ کی حفاظت میسر ہے۔ تو اگر اسے اونگھ آجائے یا وہ سو جائے تو اندازہ لگایئے کہ کائنات کی ایک ایک مخلوق کی زندگی کی حفاظت کون کرے گا ؟ ہوائی جہاز کا اڑانے والا پائلٹ اور ٹرین یا گاڑی چلانے والا ڈرائیور اگر اونگھ جائے تو سینکڑوں انسانوں کی جان خطرے میں آجاتی ہے۔ کیونکہ جہاز اور گاڑی کے مسافر اس ڈرائیور کی حفاظت میں ہیں تو یہ کائنات کی گاڑی صرف اللہ کی حفاظت میں محفوظ اور اللہ کے حکم سے رواں دواں ہے۔ اسی گاڑی کی حفاظت کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ یہ صرف ایک ہی کے قبضے میں اور ایک ہی کی دسترس میں ہے۔ اسے اگر اونگھ آجائے یا نیند آجائے تو اس کائنات کی تباہی اور بربادی میں کوئی تاخیر نہیں ہوسکتی۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کائنات نہ جانے کب سے اپنے سفر پر رواں ہے۔ اس کا ایک ایک کرہ اپنے محور میں محو گردش ہے۔ ہر کرہ کی حرکت ‘ اس کی رفتار ‘ اس کی منزلیں ‘ اس کا راستہ اربوں سال گزرنے پر بھی کسی تغیر کا شکار نہیں ہوا ‘ آسمان کی وسعتوں میں بیشمار سیارے ثوابت اور ستارے ہر طرح کے خلل سے محفوظ ہیں۔ ان کی حفاظت اور ان کا ہر خلل سے محفوظ رہنا یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کا الٰہ ایک ہے ‘ وہ حی وقیوم ہے اور اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند آتی ہے۔ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ (اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے) وہ ذات کبریا اور خالق ارض و سما ‘ جس کا حکم ساری کائنات پر جاری وساری ہے اور جس کی حفاظت اور نگرانی کی وجہ سے تمام کائنات زندگی کے مزے لوٹ رہی ہے اور بےدریغ اپنے معمولات انجام دے رہی ہے ‘ اسی کو یہ بات زیب دیتی ہے اور اس صورت حال کا منطقی تقاضا بھی ہے کہ کائنات کی ایک ایک مخلوق اسی کی مملوک ہو۔ وہی سب کا مالک ‘ سب کا آقا ‘ سب کا حکمران ‘ سب کا ملجا و ماویٰ ‘ سب کا محبوب ‘ سب کا مطلوب اور مرجع و منزل ٹھہرے اور اس عظیم و جلیل ذات کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ ہو۔ اس کا فیصلہ قطعی و آخری اور اس کا حکم اٹل اور حرف آخر ہو۔ ان حقائق کو تسلیم کرنے سے بالبداہت دو اور دو چار کی طرح ایک اور حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جس ذات عظیم کی شان اور مرتبہ یہ ہے کس طرح ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے اس کا فیصلہ تبدیل کرانے کی جسارت کرے۔ اور لوگ اپنی حماقت سے اس بات کی امید رکھیں کہ جنھیں ہم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے وہ اگر چاہیں گے تو اللہ سے اپنی بات منوا کر ہمارے حق میں فیصلہ کروا دیں گے۔ اس لیے فرمایا شفاعت کی وضاحت مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ (کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے) کیونکہ کائنات کی ایک ایک مخلوق اس کی مملوک و محکوم ہے۔ اور اس کے ہر حکم کو ماننے کی پابند ہے۔ وہ سب کا مطاع مطلق ہے۔ ایسی صورت میں کسی کی کیا مجال ہوسکتی ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور میں کسی کی سفارش کے لیے زبان کھولنے کی جرأت کرے۔ اس سے منطقی انداز میں یہ بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ کی مرضی کے مقابلے میں کسی کی مرضی نہیں چل سکتی۔ اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ بلکہ اگر وہ حوصلہ نہ دے تو کسی کی یہ مجال بھی نہیں کہ اس کا سامنا کرسکے۔ لیکن یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے اس اصول سے استثناء کرتے ہوئے الا باذنہ فرمایا۔ یعنی اس کی عظمت اور کبریائی کو دیکھتے ہوئے تو کسی کے لیے شفاعت کی کوئی گنجائش نہیں ‘ لیکن اگر وہ خود چاہے تو کسی کو اس کی اجازت دے سکتا ہے۔ شفاعت کے جس تصور نے قوموں کو تباہ کیا ہے وہ یہی من مرضی کا تصور ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے اور آج بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو نظام زندگی عطا فرمایا ہے اگر کوئی شخص یا کوئی قوم اس کی مخالفت میں زندگی گزارتی ہے ‘ اسے ماننے سے انکار کرتی ہے یا مانتی ہے لیکن عمل کے لیے تیار نہیں اور اپنی خواہشات کے اتباع میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر پر مصر ہے۔ جب انھیں ان کی اس معصیت اور نافرمانی پر توجہ دلائی جاتی ہے تو ان کے نزدیک شفاعت کا غلط تصور ایک سہارا بن جاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کے مقابلے میں جن شریکوں کو پوجتے ‘ ان کے نام کی دہائی دیتے ‘ ان کے لیے چڑھاوے چڑھاتے اور ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ مظاہرِ قدرت ہوں یا مظاہرِ فطرت ‘ اجرامِ فلکی ہوں یا اجسامِ ارضی ‘ پتھر کے تراشیدہ ہوئے بت ہوں یا نام نہاد احبارو رہبان ‘ ان کے بھروسے پر وہ ہر برائی کر گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس خطرناک تصور نے انھیں حسن عمل سے بالکل محروم کردیا ہے۔ آج کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ایسی ہی شفاعت کے غلط تصور پر اعتماد کر کے زندگی گزار رہی ہے۔ جو آدمی کسی کا دامن گرفتہ ہے وہ اسی کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے۔ بعض لوگوں نے تو خود آنحضرت ﷺ کو ایسا ہی شفیع سمجھ رکھا ہے کہ وہ اللہ کے بڑے سے بڑے نافرمان کو بھی اصرار کر کے چھڑا لیں گے۔ ایسے نادان یہ سمجھتے ہیں کہ جس ایمان و عمل کی دعوت کے لیے آنحضرت ﷺ نے ساری زندگی کھپائی اور زندگی کا ہر دکھ اٹھایا اور جس طرز زندگی اور ضابطہ حیات کو اپنانے پر ہمیشہ زور دیا اور اسی پر آخرت کی نجات کا دارومدار رکھا ‘ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ وہ اس شخص کی شفاعت فرمائیں گے جس نے آنحضرت ﷺ کی زندگی بھر کی کاوشوں کو درخورِ اعتنا سمجھنے کی زحمت نہیں کی۔ وہ اللہ کے ایک ایک حکم کو توڑتا رہا ‘ جس کے لیے حضور ﷺ نے لا متناہی قربانیاں دی تھیں اور آپ ﷺ کی ایک ایک سنت کو پامال کرتا رہا اور پھر آپ ﷺ ہی سے امید رکھتا ہے کہ آپ میری شفاعت فرمائیں گے۔ آپ ﷺ نے ایک موقعہ پر اپنے اعزہ و اقرباء کو سمجھاتے ہوئے اپنی پھوپھی محترمہ اور اپنی لخت جگر کو خطاب کر کے فرمایا تھا کہ ” تم ایمان و عمل کا سرمایہ لے کر ساتھ جانا اور اگر تم نے نافرمانی کی زندگی گزاری تو میں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکوں گا۔ “ لیکن اس غلط تصور کے مقابل قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے صحیح تصور بھی عطا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض مقرب بندوں کو شفاعت کی عزت بخشیں گے ‘ جن میں انبیائِ کرام بھی ہوں گے اور اولیاء کرام بھی اور صالحین عظام بھی۔ لیکن یہ صرف اس شخص کی سفارش کریں گے جس کے لیے اللہ تعالیٰ اجازت عطا فرمائے گا۔ کیونکہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ مشرکین عرب جیسے پہلے عرض کیا جا چکا کہ وہ فرشتوں سے شفاعت کی امید رکھتے تھے اور انھیں اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے ‘ پروردگار نے اس حوالے سے فرمایا : وَقَالُوا اتَّخَذَالرَّحْمٰنُ وَلَداً سُبْحٰنَـہٗ ط بَلْ عِبَادٌ مُّـکْرَمُوْنَ ۔ لا لاَ یَسْبِقُوْنَـہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ (مشرکین کہتے ہیں کہ خدا کی اولاد ہے اللہ ان چیزوں سے پاک اور برتر ہے فرشتے خدا کی اولاد نہیں بلکہ اس کے باعزت بندے ہیں وہ اس کے آگے بات کرنے میں سبقت نہیں کرتے وہ بس اس کے حکم ہی کی تعمیل کرتے ہیں) مزید اس کی وضاحت فرماتے ہوئے قرآن کریم کہتا ہے یَوْمَئِذٍلاَّ تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَـہُ الرَّحْمٰنُ وَرِضٰی لَـہٗ قَـوْلاً (اور اس دن کسی کو کسی کی شفاعت کچھ نفع نہیں پہنچائے گی مگر جس کے لیے خدائے رحمان اجازت دے اور اس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے) اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو شفاعت کی اجازت تو دے گا لیکن وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے وہی بات زبان سے نکالیں گے جو بالکل حق ہوگی۔ اور اسی کے لیے شفاعت فرمائیں گے جس کے لیے اللہ اجازت عطا فرمائیں گے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شفاعت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آدمی ایمان و عمل سے بےنیاز ہو کر چند بزرگ شخصیتوں پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل چیز تو اللہ کی رضا ہے جو ایمان و عمل سے نصیب ہوگی جس آدمی نے اپنے اعمال صالحہ اور اپنی دعائوں سے اپنے رب کو راضی کرلیا اس کے اعمال میں بخشش کے لیے اگر کوئی کمی ہوگی تو پروردگار اپنے کسی برگزیدہ بندے کو اجازت عطا فرمائے گا کہ میرے اس بندے کے لیے سفارش کرو۔ اس سے مقصود اپنے برگزیدہ بندوں کی عزت افزائی ہوگی اور اپنے گناہ گار بندے کی بخشش کا سامان ہوگا۔ شفاعت کے اس تصور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شفاعت بھی صرف اللہ کی مرضی اور اس کے حکم سے میسر آئے گی۔ اس لیے ایک مومن کو اپنی بخشش کے لیے اللہ کی رضا کا سامان کرنا چاہیے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پر عمل اور آپ ﷺ پر کثرت سے درود پڑھنا چاہیے تاکہ آپ ﷺ اللہ کی اجازت سے اپنے گناہ گار امتیوں کی سفارش فرمائیں۔ شفاعتِ کبریٰ شفاعت کے حوالے سے سب سے بڑا مقام شفاعتِ کبریٰ ہے۔ محشر میں جب تمام لوگ حساب کتاب کے انتظار میں کھڑے ہوں گے اور ہر شخص اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبا ہوا ہوگا ‘ انتہائی ہولناک وقت ‘ سراسیمگی اور بےچینی کی کیفیت اپنے عروج پر ہوگی اور ایک نفسا نفسی کا عالم ہوگا ‘ لوگ اپنے انجام کو جاننے کے لیے بےقرار ہوں گے ‘ لیکن حساب کتاب شروع ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ہوں گے ‘ لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک اولوالعزم رسولوں کے پاس جائیں گے کہ آپ اللہ سے دعا کریں تاکہ حساب کتاب شروع ہو اور ہم اس ناقابلِ برداشت انتظار کی اذیت سے نکل سکیں۔ لیکن کوئی بڑے سے بڑا رسول بھی اس کے لیے تیار نہ ہوگا۔ سب اللہ کے جلال سے پناہ مانگتے ہوں گے ‘ آخر میں لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچیں گے۔ حضور فرماتے ہیں کہ میں لوگوں کی درخواست مان کر سر سجدے میں رکھ دوں گا اور اللہ کو ان صفات اور کلمات سے پکاروں گا جو اس وقت مجھے عطا کیے جائیں گے۔ میں نہیں جانتا کب تک میں سجدہ ریز رہوں گا ‘ پھر اللہ کی طرف سے آواز آئے گی اے محمد ﷺ اپنا سر سجدے سے اٹھا لو جو مانگو گے دیا جائے گا۔ تب رسول اللہ ﷺ تمام امتوں کا حساب کتاب کرنے کے لیے اللہ سے درخواست کریں گے۔ اس طرح سے لوگوں کا حساب شروع ہوگا اور آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے لوگ انتظار کی اذیت سے نجات پائیں گے۔ غور فرمایئے آنحضرت ﷺ تمام لوگوں کے لیے پہلے پروردگار سے شفاعت کی اجازت مانگیں گے۔ اجازت ملے گی تو پھر آپ ﷺ شفاعت فرمائیں گے۔ ایک امتی کو ہمیشہ آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے بہرہ ور ہونے کے لیے دعائیں مانگنی چاہئیں لیکن اعمال حسنہ سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ مشرکین نے جس طرح شفاعت کا ایک تصور بنا رکھا تھا اس کے ابطال کے لیے ایک ایسی دلیل دی جا رہی ہے جو نہایت سادہ ہے لیکن براہ راست عقل کو اپیل کرتی اور دل میں جا اترتی ہے۔ وہ آیت کا اگلا جملہ ہے۔ شفاعت کا غلط تصور اور اس کی تردید یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَاخَلْفَہُمْ وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ (وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر جو وہ چاہے) اسے سمجھنے کے لیے نہایت سادہ انداز میں لوگوں کے ذہنوں میں شفاعت اور سفارش کا جو تصور ہے وہ سمجھ لیجئے۔ کوئی آدمی یا کوئی ملازم کسی خلاف قانون حرکت پہ پکڑا جاتا ہے یا اس کے خلاف کسی رپورٹ پر اس کی گرفت ہوتی ہے تو وہ سفارشی تلاش کرتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ سفارشی ایسا ہونا چاہیے کہ جس افسر کے پاس میرا کیس ہے اس پر وہ اثر رکھتا ہو۔ اولاً تو سفارشی کی حیثیت اس افسر سے بڑی ہو تاکہ وہ اس کی سفارش کو رد نہ کرسکے اور یا پھر اس سے ایسی دوستی ہو کہ وہ اسے ناراض نہ کرسکتا ہو اور یا پھر سفارشی کی ایسی حیثیت ہو کہ افسر کو بھی اس سے کام پڑ سکتے ہوں تو وہ اس کی بات مان لینے پر اس لیے مجبور ہوگا کہ آج میں نے اگر اس کا کام نہ کیا تو کل کو یہ میرا کام بھی نہیں کرے گا۔ اور آخری بات یہ کہ سفارشی اس افسر کے پاس جا کر یہ یقین دلائے کہ جس شخص کو سزا دی جا رہی ہے اسے آپ نہیں جانتے اور میں اسے پوری طرح جانتا ہوں۔ آپ کے علم میں جو باتیں لائی گئی ہیں وہ غلط ہیں اور میں آپ کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرتا ہوں کیونکہ آپ کے پاس براہ راست جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ جہاں تک پہلی باتوں کا تعلق ہے وہ تو بالبداہت غلط ہیں۔ کوئی شخص بھی اللہ کی ذات سے بڑھ کر نہیں۔ کسی کی اس سے ایسی دوستی نہیں کہ وہ اس کی ناراضگی سے ڈر جائے ‘ اسے کسی سے کوئی کام نہیں پڑتا تمام مخلوق اس کی محتاج ہے وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اور جہاں تک آخری بات کا تعلق ہے اس کے بارے میں اس جملے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ سفارش کرنے والا اللہ کے علم میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر آدمی کے مالہ وما علیہ سے واقف ہے۔ جو کچھ سامنے ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو پیچھے ہے وہ اس سے بھی باخبر ہے۔ یعنی اس کے لیے زمانے کی کوئی تقسیم نہیں۔ اس کی نگاہوں کے سامنے ظاہر و باطن کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لیے کوئی سفارش کرنے والا اسے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ اس کیس کو پوری طرح نہیں جانتے میں جانتا ہوں اس لیے میں اس کی وضاحت کرنے آیا ہوں۔ ہر شخص کا علم ناقص اور محدود ہے۔ وہ ظاہر کو جانتا ہے باطن سے بیخبر ہے۔ وہ جس کی سفارش کر رہا ہے وہ اگر کوئی بات اس سے چھپالے یا اسے غلط بتائے تو اس کے پاس صحیح جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ‘ لیکن اللہ کا علم کامل ‘ حدود سے ماورا ‘ ہر طرح کی غلطی اور نقص سے پاک۔ تو پھر کس بنیاد پر آخر اس سے سفارش کی جائے۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کو اس کی اجازت دیں گے۔ اور ہمارے رسول پاک ﷺ کی شفاعت ہمارے لیے بہت بڑے حوصلے کا سامان ہے۔ اور وہ شفاعت برحق ہے۔ لیکن وہ سراسر اللہ کی دین ‘ اس کا عطیہ ‘ اس کی عزت افزائی اور اس کا کرم ہے۔ اس لیے ہمیں آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے بہرہ مند ہونے کے لیے بھی اسی سے دعائیں کرنی ہے ‘ اسی پر ہمیشہ بھروسہ رکھنا ہے ‘ کسی دوسرے بھروسے پر ایمان و عمل سے غفلت سے کی کوئی گنجائش نہیں۔ مزید ارشاد فرمایا : وَسِعَ کُرْسِیُّـہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَلَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُہُمَا ج ( اس کا اقتدار آسمانوں اور زمین سب پر حاوی ہے۔ اور ان کی حفاظت اس پر ذرا بھی گراں نہیں) کرسی کا مفہوم ” الکرسی “ اس کی تفسیر میں متعدد اقوال نقل کیے جاتے ہیں۔ علامہ ابن جریر نے حضرت ابن عباس ( رض) کا یہ قول ترجیح کے لائق سمجھا ہے کہ ” کرسی “ سے مراد اس کا علم ہے۔ اور ابن جریر نے یہ بھی فرمایا کہ اسی سے کراسۃ ماخوذ ہے جس کے معنی اس دفتر کے ہیں جس میں علم منضبط کیا جاتا ہے اور عربی میں علماء کو ” کر اسی “ بھی کہا جاتا ہے۔ لغت میں ” کرس “ کسی چیز کی جمی جمائی تہہ کو کہتے ہیں۔ اسی سے کرسی کا لفظ بنا۔ اس لیے کرسی بیٹھنے کی جگہ یا تخت وغیرہ کے لیے استعمال ہونے لگا۔ اور جب یہ بیٹھنے کی جگہ صاحب اقتدار کے لیے خاص ہو تو وہ اس کے اقتدار کا مرکز ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اہل علم نے کرسی کا لفظ اقتدار کی تعبیر کے لیے اختیار کیا ہے۔ اس جملے میں بھی یہی معنی ہوگا کہ اللہ کی کرسی سے مرد اس کا اقتدار ہے۔ البتہ یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ یہاں تو یقینا کرسی کا معنی اس کا اقتدار ہی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اللہ کی جلیل القدر مخلوقات میں سے کرسی بھی اس کی مخلوق ہے۔ جس کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : یا اباذر ما السموات السبع مع الکرسی الا کحلقۃ ملقاۃ فی ارض فلاۃ (کرسی کی وسعت و فراخی کے سامنے سات آسمان یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے ایک صحرا میں ایک مندری پڑی ہے) جس پروردگارِ عالم نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں اس کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ وہ اتنی بڑی کرسی کو پیدا کر دے۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ پروردگار اس کرسی پر فروکش نہیں ہوتا کیونکہ کوئی مقام بھی اللہ کی ذات کو اپنے اندر سما نہیں سکتا۔ مزید یہ بات بھی کہ اللہ تعالیٰ چونکہ جسم سے پاک ہے اس لیے اسے کسی کرسی ‘ کسی تخت یا کسی مکان کی احتیاج نہیں۔ رہی یہ بات کہ یہ کرسی کیوں بنائی گئی تو اللہ کی صفات کی طرح اس کی بعض مخلوقات کی حقیقت کو بھی ہم نہیں جانتے۔ ہم تو آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ سر کے بال کہاں سے آتے ہیں ؟ ناخن کیسے لمبے ہوتے ہیں ؟ بیلیں کیسے پھیلتی ہیں ؟ مختلف توجیہات کی جاتی ہیں لیکن حقیقت ہم سے کوسوں دور ہے۔ فرشتے غیر مرئی مخلوق ہیں ‘ ہم اللہ کے نبیوں کے بتانے کی وجہ سے ان پر یقین رکھتے ہیں لیکن وہ کیسے ہیں ؟ ہم ان کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟ اسی طرح کرسی بھی ان مخلوقات میں سے ہے جس کا علم ہمیں رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا ہے لیکن اس کی حقیقت سے ہم بیخبر ہیں اور اس کی حقیقت جاننے کے در پے ہونا بجائے خود ایک گمراہی ہے جس سے روکا گیا ہے۔ اقتدارِ الٰہی کی ہمہ گیری مشرکینِ عرب کا یہ گمان تھا کہ کائنات کی وسعتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ جس طرح ایک بادشاہ اپنے ملک کے دور دراز گوشوں کا انتظام خود نہیں کرسکتا ‘ اس کے لیے وہ مختلف عہدیدار مقرر کرتا ہے تاکہ ان دور دراز گوشوں کا انتظام درست رکھا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ تنہا اتنی بڑی کائنات کا انتظام چلا سکے۔ وہ یقینا اس کا انتظام چلانے میں ایسی قوتوں کا محتاج ہے جنھیں وہ اپنا شریک بنا سکے تاکہ اس کائنات کے نظام چلانے میں وہ اس کے ممد و معاون ہوں۔ ان لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کا اقتدار آسمانوں اور زمین پر حاوی ہے۔ اور وہ زمین و آسمان کے نظام کو چلانے میں اور اس کی نگرانی میں کوئی گرانی اور تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا۔ وہ یہود کی طرح یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں کائنات پیدا کی اور ساتویں دن اس نے آرام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما مسنا من لغوب (ہمیں تھکاوٹ نہیں ہوتی) اور یہاں فرمایا کہ ہمیں اس کائنات کی نگرانی گراں نہیں گزرتی۔ ہمارے لیے اس کا انتظام و انصرام چلانا بوجھ ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمیں کسی معاون کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کیونکہ ہمارا علم غیر محدود ‘ ہماری قدرت بےانتہا اور ہماری قوت تصرف تصور و خیال سے بالا ہے۔ وَھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ( وہ بلند ہے اور عظیم ہے) اس کی قدرتوں کی وسعتوں اور اس کے علم کی لا محدودیت کو اپنے محدو دعلم اور عقل کے پیمانوں سے نہ ناپو۔ وہ تمہاری قوت احساس سے بھی بلند ہے اور تمہارے تصور ادراک سے بھی عظیم ہے۔ جب تک اس کی عظمتوں کا صحیح تصور اپنے اندر پیدا نہیں کرو گے اس وقت تک شرک کے کانٹے پھوٹتے رہیں گے۔ جب تک اس کی ذات کو ظن و قیاس اور تشبیہ و تمثیل کی خیال آرائیوں سے بلند نہیں سمجھو گے اس وقت تک کوئی نہ کوئی شیطان تمہیں وسوسوں کی گمراہی میں مبتلا کرتا رہے گا۔




اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں وہ زندہ ہے ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اس پر نہ اونگھ طاری ہوتی ہے نہ نیند جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کی ملک ہے ایسا کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کی جناب میں کسی کی سفارش کرسکے ، جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے بعد ہونے والا ہے وہ سب کو جانتا ہے اور وہ سب اس کی معلومات میں سے کسی شئی کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر ہاں جس قدر وہ خود چاہے اس کا تخت حکومت سب آسمانوں اور زمین پر چھاپا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ پر آسمان و زمین کی حفاظت کچھ گراں نہیں گزرتی اور وہی سب سے برتر اور بزرگ تر ہے1
1۔ اللہ تعالیٰ ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی دوسرا عبادت اور بندگی کے قابل نہیں وہ زندہ ہے جس کو کبھی موت نہیں آئے گی وہ خود قائم رہنے والا اور دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے ۔ اس پر نہ اونگھ طاری ہوسکتی ہے اور نہ اس کو نیند دبا سکتی ہے ۔ جو موجودات آسمانوں میں سے اور جو مخلوقات زمین میں ہے سب اسی کی ملک ہے اور اسی کی مملوک ہے ایسا کون ہے جو اسکی بارگاہ میں اسکی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے وہ اس کو بھی جانتا ہے اور جو ان کے بعد ہونے والا ہے اس کو بھی جانتا ہے اور وہ تمام مخلوقات و موجودات اس کی معلومات میں سے کسی شے کو بھی اپنے احاطہ علمی میں نہیں لاسکتے۔ مگر ہاں جس قدر وہ کسی کو علم دینا چاہے اور اس کی کرسی نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے اور اس کی کرسی سب کو محیط اور سب پرچھائی ہوئی ہے اور آسمانوں اور زمین دونوں کی حفاظت اس اس کو کچھ شاق اور گراں نہیں گزرتی اور وہ سب سے بلندوبالاتر اور عظیم الشان ہے۔ ( تیسیر) حضرت حق جل مجدہٗ کی حیات کا یہ مطلب ہے کہ وہ حیات ازلی اور ابدی کے ساتھ متصف ہے اور اس پر کبھی موت نہیں آئے گی۔ قیوم ہمیشہ قائم رہنے والا اور ہر شے کی تدبیر کرنے والا اور تمام عالم کو سنبھالنے والا ، خود قائم رہنے والا اور دوسروں کو قائم رکھنے والا ، سنۃ اونگھ جس سے مزاج کو فتور پیش آجائے یہ وہ حالت ہے جو سونے سے ذرا پہلے پیش آتی ہے۔ ابتدائی حالت کو سنۃ کہتے ہیں اس سے زیادہ کو نعاس اور اس سے زیادہ کو نوم کہا جاتا ہے بعض لوگوں نے سنۃ کا تعلق دماغ سے اور نعاس کا تعلق آنکھوں سے او نوم کا تعلق دل سے بتایا ہے بعض نے نعاس اور سنۃ کو ایک ہی چیز کہا ہے ۔ بہر حال دماغی اعصاب کو جو استر خاء نیند کی حالت میں ہوتا ہے وہ سنۃ اور نعاس کی حالت میں نہیں ہوتا ۔ کرسی کے معنی مشہور ہیں جو لکڑی یا اور کسی چیز کے مختلف اجزاء کو جوڑا کر بنائی جاتی ہے اور بیٹھنے کے کام آتی ہے لیکن یہاں یا تو محض اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کی وسعت کو ظاہر کرنا ہے یا اس کے علم کی وسعت مراد ہے یا اس کی سلطنت کی وسعت اور پھیلائو کا اظہار مراد ہے یا اس کی وسعت قدرت مراد ہے اور عام علماء سلف کا قول یہ ہے کہ وہ ایک جسم ہے ، تمام آسمانوں اور زمین سے بڑا عرش الٰہی سے چھوٹا جیسا کہ دار قطنی اور خطیب نے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ کرسی اتنی بڑی ہے کہ اس کا اندازہ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں کرسکتا اور ابن جریر اور ابو الشیخ اور ابن مردویہ اور بیہقی نے حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے مرفوعا ً نقل کیا ہے کہ نبی کریم ﷺ سے کرسی کو دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ساتویں آسمان و زمین کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہیں جیسے ایک بہت بڑے میدان اور صحرائے عظیم میں ایک چھلا اور حلقہ پڑا ہوا ہو اور عرش کی وسعت کا یہ حال ہے کہ عرش کی کوئی حد ہی نہیں عرش کے مقابلے میں کرسی کی یہی حالت ہے کہ جیسے ایک بڑے جنگل میں کوئی چھوٹا سا چھلا یا حلقہ پڑا ہوا ہو ( واللہ اعلم) ادو کے معنی اصل تو کسی چیز کا بوجھ پڑنے سے ٹیڑھے ہوجانے کے ہیں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر زمین و آسمان کی حفاظت کچھ ثقیل نہیں بلند وبالا تر کا مطلب یہ کہ ہر قسم کے عیب و نقص سے بالا تر ہے اور عظیم الشان کا مطلب یہ ہے کہ وہ جملہ صفات کمالیہ سے متصف ہے یا یہ کہ اس کی ذات سب کی عقل و فہم سے بالا تر ہے اور وہ سب سے بزرگ اور عظمت میں بڑھا ہے سب اس کے آگے حقیر ہیں ۔ یعلم ما بین ایدیھم وماخلفھم کے کئی معنی ہوسکتے ہیں یعنی امور دنیا کو بھی جانتا ہے اور امور آخرت کو بھی جانتا ہے اور تمام مخلوقات کے حائر و غائب حالات کو جانتا ہے ۔ غرض جو کچھ مخلوق کے آگے آئے گا اور جو ان کے پیچھے گزر چکا وہ سب سے واقف اور با خبر ہے۔ ہم نے ترجمہ اور تیسر میں ایک معنی اختیار کر لئے ہیں ورنہ اس جملہ کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ الا بما شاء کا مطلب یہ ہے کہ حضرت حق کو معلومات کا کوئی احاطہ تو کر ہی نہیں سکتا مگر ہاں جس قدر وہ کسی کو علم دنیا چاہیں اس قدردے دیتے ہیں ۔ یہی حالت شفاعت اور سفارش کی ہے کہ ان کی جناب میں کسی کی مجال نہیں کہ لب کشائی کرسکے مگر ہاں جس کو وہ اجازت دے دیں اور جس شخص کے حق میں سفارش کی اجازت دے دیں تو بیشک وہ اس کی سفارش کرسکتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں حضرت حق کی توحید اور اس کی صفات کی عظمت کا اظہار کیا گیا ہے وہ ہمیشہ سے موجود ہے۔ وہی تمام مخلوقات کا موجد ہے۔ ہر قسم کے نقصان اور تغیر و تبدل سے پاک اور بری ہے سب چیزوں کا مالک اور تمام کائنات اس کی مملوک ہے۔ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور ہر چیز پر اس کو کامل قدرت و عظمت حال ہے نہ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو کسی کی سفارش کا حق حاصل ہے اور نہ کوئی کام اس پر گراں اور دشوار ہے اور نہ اس کو کوئی کام مغلوب کرسکتا ہے ، نہ وہ کسی کام سے تھکتا ہے اس کے مقابلہ میں سب حقیر اور سب اس کے بندے ہیں اس کا علم سب کو محیط ہے اور اس کی معلومات پر کسی کو احاطہ میسر نہیں قرآن کی اس آیت کا نام آیت الکری ہے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابی بن کعب سے دریافت کیا ۔ اے کعب ! کتاب اللہ میں کون سی آیت افضل ہے انہوں نے پہلے تو تامل کیا ۔ حضور ﷺ نے پھر دریافت کیا تو انہوں نے عرض کیا ۔ آیت الکری آپ نے فرمایا ۔ اے ابو منذر تجھ کو علم مبارک ہو ۔ اس آیت کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہیں ، یہ عرش کے قریب اللہ تعالیٰ کی تقدیس کرتی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ عالم مثال میں اللہ تعالیٰ نے اس کو شکل و صورت عنایت کی ہے اور یہ آیت خدائی پاکی بیان کرنے میں مشغول ہے۔ حضرت انس ؓ کی ایک روایت میں آیت الکری کو ربع قرآن فرمایا ہے یعنی اس کے پڑھنے کا ایسا ثواب ہوتا ہے جیسے کسی نے چوتھائی قرآن پڑھا یا یہ مطلب کہ تمام قرآنی مضامین کے ایک چوتھائی مضامین کو صرف یہ ایک آیت شامل ہے۔ نسائی کی ایک روایت میں ہے جس شخص نے آیت الکری کو پڑھا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک فرشتے کو مقرر کرتا ہے جو اس وقت سے لے کر دوسرے دن تک اس کی نیکیاں لکھتا اور اس کے گناہ مٹاتا رہتا ہے۔ حضرت علی ؓ سے ایک روایت میں ہے کہ میں نے ممبر پر نبی کریم ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جو شخص ہر نماز مفروضہ کے بعد آیت الکرسی پڑھتا ہے تو اس شخص کو جنت میں داخل ہونے سے سوائے موت کے اور کوئی چیز روکنے والی نہیں ۔ یعنی موت آجائے تو چلاجائے ۔ صرف موت بیچ میں مانع ہے ورنہ یہ شخص جنتی تو ہوچکا اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ آیت الکرسی پر کوئی شخص مواظبت اور دوام اختیار نہیں کرتا۔ مگر صدیق یا عابد یعنی ہر نماز مفروضہ کے بعد آیت الکرسی پڑھنا یا عام طور سے آیت الکرسی کی قرأت کا اہتمام کرنا یہ صدیق اور عابد کا کام ہے ہر شخص اس کو اختیار نہیں کرسکتا اور جو شخص اپنی خواب گاہ میں سوتے وقت آیۃ الکرسی پڑھ لیا کرتا ہے تو وہ خود بھی مامون رہتا ہے اور اس کا پڑوسی اور پڑوسی کا پڑوسی اور آس پاس کے اور چند گھر بھی مامون رہتے ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی ایک اور روایت میں ہے فرمایا نبی کریم ﷺ نے کوئی گھر ایسا نہیں ہے کہ اس میں آیت الکرسی پڑھی جائے ، مگر یہ کہ تیس دن تک اس گھر سے شیاطین الگ رہتے ہیں اور چالیس رات تک اس گھر میں کوئی جادوگر دنی یا جادوگر داخل نہیں ہوسکتا یعنی وہ گھرجادو کے اثر سے محفوظ رہتا ہے۔ اے علی ! تم خود بھی آیت الکرسی کو سیکھ لو اور اپنے اہل و عیال کو بھی سکھائو اور اپنے پڑوسیوں کو بھی سکھائو۔ اللہ تعالیٰ نے اس سے بڑی کوئی آیت نازل نہیں فرمائی ۔ ابو دائود اور ترمذی نے حضرت اسماء بن یزید بن السکین سے روایت کی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ان دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے ایک اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم اور دوسری الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم علماء سند سے اس بارے میں بکثرت اقوال منقول ہیں کہ الحی القیوم کے ساتھ جو دعا مانگی جائے وہ قبول ہوتی ہے کیونکہ یہ اسم اعظم ہے۔ اسم اعظم کی مزید تفصیل میں نے اپنی کتاب مشکل کشا میں بیان کی ہے احادیث میں کئی واقعات ایسے آئے ہیں کہ جنات صحابہ کی کھجوریں اور غلے چرا لیتے تھے جب انہوں نے ان جنات کو پکڑ لیا تو انہوں نے کہا تم ہم کو چھوڑ دو ہم تم کو ایسی چیز بتائیں گے جس کی وجہ سے تم اور تمہارا مال جنات سے بالکل محفو ظ رہے گا ۔ اس پر ان جنات نے صحابہ کرام ؓ کو آیت الکرسی بتائی۔ جب حضور ﷺ سے اس واقعہ کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا نے اس نے سچ کہا اگرچہ وہ جھوٹاے ایک روایت میں ہے اس خبیث نے سچ کہا ۔ احادیث میں یہ واقعات کئی طرح منقول ہیں ۔ ایک واقعہ ابی بن کعب ؓ کا ہے کہ ان کی کھجوریں گم ہوجاتی تھیں ایک رات کو وہ جاگتے رہے تو انہوں نے ایک شخص کو پکڑ لیا جس کے ہاتھ کتے کے ہاتھوں جیسے تھے اور ان پر بال تھے بالآخر اس نے آیت الکری بتا کر اپنا پیچھا چڑایا۔ دوسرا واقعہ ابو ایوب (علیہ السلام) کا ہے ان کا غلہ ایک جن چرا لیا کرتا تھا انہوں نے دو دفعہ تو اس کا چھوڑ دیا مگر تیسری مرتبہ چھوڑنے سے انکارکر دیا تو اس نے ان سے کہا اگر آپ مجھے چھوڑیں تو میں ایک ایس چیز تم کو بتائوں جس کی وجہ سے کوئی جن اور شیطان تمہارے غلہ کو ہاتھ نہ لگا سکے ۔ پھر اس نے آیت الکرسی بتائی۔ ایک واقعہ ابوہریرہ ؓ کا ہے جس کو بخاری نے فضائل القرآن میں نقل کیا ہے۔ وہ بھی اسی قسم کا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان کو صدقہ فطر کا نگہبان مقرر کیا ۔ ان کا کھانا ایک شیطان اس میں سے لے جاتا تھا تیسری بار ان سے بھی اس شیطان نے یہ کہا کہ اگر آپ سونے وقت آیۃ الکرسی پڑھا لیا کریں تو تمہاری ایک فرشتہ حفاظت کرے گا اور صبح تک کوئی شیطان تمہارے پاس نہ آسکے گا۔ حضور ﷺ نے اس واقعہ کو سن کر فرمایا۔ وہ ہے تو جھوٹا مگر یہ بات اس نے سچ کہی ۔ ابن مردویہ نے حضور ﷺ کے یہ الفاظ نقل کئے۔ اما علمت ان ذلک کذالک یعنی ابوہریرہ ؓ کیا تو نہیں جانتا کہ یہ بات اسی طرح سے ہے ، یعنی آیت الکرسی ایسی ہی چیز ہے۔ ایک چوتھا قصہ ابن مسعود سے منقول ہے اس میں ایک شخص کا ایک جن سے کشتی لڑنے اور جن کو پچھاڑ دینے کا واقعہ ہے اس نے بھی دو تین مرتبہ بچھڑنے کے بعد یہ کہا کہ تم آیت الکرسی پڑھا کرو تمہارے پاس کوئی جن نہ آسکے گا ۔ بہر حال آیت الکرسی کی احادیث میں بڑی فضلیت آئی ہے۔ توحید الٰہی اور انبیاء کی رسالت جن میں نبی آخر الزمان ﷺ کی رسالت بھی شامل ہے۔ متصلا بیان کرنے کے بعد دین کے متعلق جبر واکراہ کی نفی فرماتے ہیں، چناچہ ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)




اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، زندہ ہے سب کا تھامنے والا نہیں پکڑسکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کے پاس مگر اس کی اجازت سے۔ جانتا ہے جو کچھ خلقت کے روبرو ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ سب احاطہ نہیں کرسکتے کسی چیز کا اس کی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے گنجائش ہے اس کی کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کو اور گراں نہیں اس کو تھامنا ان کا اور وہی ہے سب سے برتر عظمت والا
خلاصہ تفسیر
اللہ (ایسا ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہے (جس کو کبھی موت نہیں آسکتی) سنبھالنے والا ہے (تمام عالم کا) نہ اس کو اونگھ دبا سکتی ہے اور نہ نیند (دبا سکتی ہے) اسی کے مملوک ہیں سب جو کچھ (بھی) آسمانوں میں (موجودات) ہیں اور جو کچھ زمین میں ہیں ایسا کون شخص ہے جو اس کے پاس (کسی کی) سفارش کرسکے بدون اس کی اجازت کے وہ جانتا ہے ان (تمام موجودات) کے تمام حاضر و غائب حالات کو اور وہ موجودات اس کی معلومات میں سے کسی چیز کو اپنے احاطہ علمی میں نہیں لاسکتے مگر جس قدر (علم دینا وہی) چاہے اس کی کرسی (اتنی بڑی ہے کہ اس) نے سب آسمانوں اور زمین کو اپنے اندر لے رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان دونوں (آسمان و زمین) کی حفاظت کچھ گراں نہیں گذرتی اور وہ عالی شان عظیم الشان ہے۔

معارف و مسائل
آیۃ الکرسی کے خاص فضائل
یہ آیت قرآن کریم کی عظیم ترین آیت ہے، احادیث میں اس کے بڑے فضائل و برکات مذکور ہیں مسند احمد کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس کو سب آیات سے افضل فرمایا ہے اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابی بن کعب سے دریافت کیا کہ قرآن میں کونسی آیت سب سے زیادہ عظیم ہے ابی بن کعب نے عرض کیا آیت الکرسی آنحضرت ﷺ نے ان کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا اے ابوالمنذر تمہیں علم مبارک ہو،
حضرت ابوذر نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا یارسول اللہ ﷺ قرآن میں عظیم تر آیت کونسی ہے ؟ فرمایا آیت الکرسی (ابن کثیر عن احمد فی المسند)
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سورة بقرہ میں ایک آیت ہے جو سیدہ آیات القرآن ہے وہ جس گھر میں پڑھی جائے شیطان اس سے نکل جاتا ہے۔
نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ہر نماز فرض کے بعد آیت الکرسی پڑھا کرے تو اس کو جنت میں داخل ہونے کے لئے بجز موت کے کوئی مانع نہیں ہے یعنی موت کے بعد فورا وہ جنت کے آثار اور راحت و آرام کا مشاہدہ کرنے لگے گا۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی توحید ذات وصفات کا بیان ایک عجیب و غریب انداز میں بیان کیا گیا ہے جس میں اللہ جل شانہ کا موجود ہونا، زندہ ہونا، سمیع وبصیر ہونا، متکلم ہونا، واجب الوجود ہونا، دائم و باقی ہونا، سب کائنات کا مالک ہونا، صاحب عظمت و جلال ہونا کہ اس کے آگے کوئی بغیر اس کی اجازت کے بول نہیں سکتا، ایسی قدرت کاملہ کا مالک ہونا کہ سارے عالم اور اس کی کائنات کو پیدا کرنے باقی رکھنے اور ان کا نظام محکم قائم رکھنے سے اس کو نہ کوئی تھکان پیش آتا ہے نہ سستی ایسے علم محیط کا مالک ہونا جس سے کوئی کھلی یا چھپی چیز کا کوئی ذرہ یا قطرہ باہر نہ رہے یہ اجمالی مفہوم ہے اس آیت کا اب تفصیل کے ساتھ اس کے الفاظ کے معنی سنئے۔
اس آیت میں دس جملے ہیں پہلے جملہ ہے اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ اس میں لفظ اللّٰهُ اسم ذات ہے جس کے معنی ہیں وہ ذات جو تمام کمالات کی جامع اور تمام نقائص سے پاک ہے لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ میں اسی ذات کا بیان ہے کہ قابل عبادت اس ذات کے سوا کوئی چیز نہیں۔
دوسرا جملہ ہے ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ لفظ حَيُّ کے معنی عربی زبان میں ہیں زندہ اسمائے الہیہ میں سے یہ لفظ لاکر یہ بتلانا ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا ہے وہ موت سے بالاتر ہے لفظ قیوم، قیام سے نکلا ہے، قیام کے معنے کھڑا ہونا قائم کھڑا ہونے والے کو کہتے ہیں قیوم اور قیام مبالغہ کے صیغے کہلاتے ہیں انکے معنی ہیں وہ جو خود قائم رہ کر دوسروں کو قائم رکھتا اور سنبھالتا ہے قیوم حق تعالیٰ کی خاص صفت ہے جس میں کوئی مخلوق شریک نہیں ہوسکتی کیونکہ جو چیزیں خود اپنے وجود وبقاء میں کسی دوسرے کی محتاج ہوں وہ کسی دوسری چیز کو کیا سنبھال سکتی ہیں ؟ اس لئے کسی انسان کو قیوم کہنا جائز نہیں، جو لوگ عبد القیوم کے نام کو بگاڑ کر صرف قیوم بولتے ہیں گنہگار ہوتے ہیں۔
اللہ جل شانہ کے اسماء صفات میں حیّ وقیّوم کا مجموعہ بہت سے حضرات کے نزدیک اسم اعظم ہے حضرت علی مرتضیٰ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر میں میں نے ایک وقت یہ چاہا کہ حضور ﷺ کو دیکھوں آپ کیا کررہے ہیں، پہنچا تو دیکھا کہ آپ سجدہ میں پڑے ہوئے بار بار یاحیُّ یاقیُّوم یاحی یاقیُّوم کہہ رہے ہیں۔
تیسرا جملہلَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ہے لفظ سنۃٌ سین کے زیر کے ساتھ اونگھ کو کہتے ہیں جو نیند کے ابتدائی آثار ہوتے ہیں اور نومٌ مکمل نیند کو، اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اونگھ اور نیند سب سے بری وبالا ہے پچھلے جملے میں لفظ قیوم نے جب انسان کو یہ بتلایا کہ اللہ تعالیٰ سارے آسمانوں، زمینوں اور ان میں سمانے والی تمام کائنات کو تھامے اور سنبھالے ہوئے ہیں اور ساری کائنات اسی کے سہارے قائم ہے تو ایک انسان کا خیال اپنی جبلت و فطرت کے مطابق اس طرف جانا ممکن ہے کہ جو ذات پاک اتنا بڑا کام کررہی ہے اس کو کسی وقت تھکان بھی ہونا چاہئے کچھ وقت آرام اور نیند کے لئے بھی ہونا چاہئے اس دوسرے جملے میں محدود علم و بصیرت اور محدود قدرت رکھنے والے انسان کو اس پر متنبہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے اوپر یا دوسری مخلوقات پر قیاس نہ کرے اپنا جیسا نہ سمجھے وہ مثل و مثال سے بالاتر ہے اس کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ سارے کام نہ کچھ مشکل ہیں نہ اس کے لئے تکان کا سبب ہیں اور اس کی ذات پاک تمام تاثرات اور تکان وتعب اور اونگھ اور نیند سے بالاتر ہے۔
چوتھا جملہ ہے لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ اس کے شروع میں لفظ لہ کا لام تملیک کے معنی کے لئے آیا ہے جس کے معنے یہ ہوئے کہ تمام چیزیں جو آسمانوں یا زمین میں ہیں سب اللہ تعالیٰ کی مملوک ہیں وہ مختار ہے جس طرح چاہے ان میں تصرف فرمادے۔
پانچواں جملہ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ یعنی ایسا کون ہے جو اس کے آگے کسی کی سفارش کرسکے بدون اس کی اجازت کے اس میں چند مسائل بیان فرمادیئے ہیں۔
اول یہ کہ جب اللہ تعالیٰ تمام کائنات کا مالک ہے کوئی اس سے بڑا اور اس کے اوپر حاکم نہیں تو کوئی اس سے کسی کام کے بارے میں باز پرس کرنے کا بھی حق دار نہیں وہ جو حکم جاری فرمائیں اس میں کسی کو چون وچرا کی مجال نہیں ہاں یہ ہوسکتا تھا کہ کوئی شخص کسی کی سفارش و شفاعت کرے سو اس کو بھی واضح فرمادیا کہ بارگاہ عزت و جلال میں کسی کو مجال دم زدن نہیں، ہاں کچھ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے ہیں جن کو خاص طور پر کلام اور شفاعت کی اجازت دے دیجائیگی غرض بلا اجازت کوئی کسی کی سفارش و شفاعت بھی نہ کرسکے گا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ محشر میں سب سے پہلے میں ساری امتوں کی شفاعت کروں گا اسی کا نام مقام محمود ہے جو حضور ﷺ کی خصوصیات میں سے ہے۔
چھٹا جملہ ہے، يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ یعنی اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے آگے پیچھے کے تمام حالات و واقعات سے واقف و باخبر ہے آگے اور پیچھے کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ ان کے پیدا ہونے سے پہلے اور پیدا ہونے کے بعد کے تمام حالات و واقعات حق تعالیٰ کے علم میں ہیں اور یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ آگے سے مراد وہ حالات ہیں جو انسان کے لئے کھلے ہوئے ہیں اور پیچھے سے مراد اس سے مخفی واقعات و حالات ہوں تو معنی یہ ہوں گے کہ انسان کا علم تو بعض چیزوں پر ہے اور بعض پر نہیں کچھ چیزیں اس کے سامنے کھلی ہوئی ہیں کچھ چھپی ہوئی مگر اللہ جل شانہ کے سامنے یہ سب چیزیں برابر ہیں اس کا علم ان سب چیزوں کو یکساں محیط ہے اور ان دونوں مفہوموں میں کوئی تعارض نہیں آیت کی وسعت میں یہ دونوں داخل ہیں۔
ساتواں جملہ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ہے یعنی انسان اور تمام مخلوقات اللہ کے علم کے کسی حصہ کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر اللہ تعالیٰ ہی خود جس کو جتنا حصہ علم عطا کرنا چاہیں صرف اتنا ہی اس کو علم ہوسکتا ہے اس میں بتلا دیا گیا کہ تمام کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم محیط صرف اللہ جل شانہ کی خصوصی صفت ہے انسان یا کوئی مخلوق اس میں شریک نہیں ہوسکتی۔
آٹھواں جملہ ہے وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ یعنی اس کی کرسی اتنی بڑی ہے جس کی وسعت کے اندر ساتوں آسمان اور زمین سمائے ہوئے ہیں اللہ جل شانہ نشست وبرخاست اور حیز ومکان سے بالاتر ہیں اس قسم کی آیات کو اپنے معاملات پر قیاس نہ کیا جائے اس کی کیفیت و حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے البتہ مستند روایات حدیث سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی بہت عظیم الشان جسم ہیں جو تمام آسمان اور زمین سے بدرجہا بڑے ہیں، ابن کثیر نے بروایت حضرت ابوذر غفاری نقل کیا ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ کرسی کیا اور کیسی ہے ؟ آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کی مثال کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں کوئی حلقہ انگشتری جیسا ڈال دیا جائے۔
اور بعض دوسری روایات میں ہے کہ عرش کے سامنے کرسی کی مثال بھی ایسی ہی ہے جسے ایک بڑے میدان میں انگشتری کا حلقہ۔
نواں جملہ ہے وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا یعنی اللہ تعالیٰ کو ان دونوں عظیم مخلوقات آسمان و زمین کی حفاظت کچھ گراں نہیں معلوم ہوتی کیونکہ اس قادر مطلق کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ سب چیزیں نہایت آسان ہیں۔
دسواں آخری جملہ ہے، وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ یعنی وہ عالی شان اور عظیم الشان ہے۔ پچھلے نو جملوں میں حق تعالیٰ کی ذات وصفات کے کمالات بیان ہوئے ہیں ان کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد ہر عقل رکھنے والا انسان یہی کہنے پر مجبور ہے کہ ہر عزت و عظمت اور بلندی و برتری کی مالک وسزا وار وہی ذات پاک ہے ان دس جملوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور اس کی توحید کا مضمون پوری وضاحت اور تفصیل کے ساتھ آگیا۔



اللہ اس کے سوا کوئی معبود500 نہیں زندہ ہے سب کا تھامنے والا نہیں پکڑ سکتی اس کو اونگھ اور نہ نیند اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے501 ایسا کون ہے جو سفارش کرے اسکے پاس مگر اجازت سے جانتا ہے جو کچھ خلقت کے رو برو ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے502 اور وہ سب احاطہ نہیں کرسکتے کسی چیز کا اسکی معلومات میں سے مگر جتنا کہ وہی چاہے گنجائش ہے اس کی کرسی میں تمام آسمانوں اور زمین کو اور گراں نہیں اس کو تھامنا ان کا اور وہی ہے سب سے برتر عظمت والا
500 یہاں دعوی توحید کا دوبارہ اعادہ کیا گیا ہے اور جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے یہاں اعادہ دعویٰ سے مقصد شفاعت قہری کی نفی ہے جیسا کہ یہود ونصاریٰ کا خیال تھا کہ ہمارے آباء و اجداد جو اللہ کے پیارے اور برگزیدہ پیغمبر تھے وہ ہمیں خدا کو ان کی سفارش ماننی پڑے گی تو مطلب یہ ہوا کہ جس طرح اللہ کے سوا کوئی کارساز اور اور فریاد رس نہیں۔ جس کو پکارا جائے یا جس کی تعظیم اور رضا جوئی کے لیے نذریں نیازیں دی جائیں اسی طرح اس کے سامنے کوئی شفیع غالب بھی نہیں کہ دنیا وآخرت میں مصیبت کے وقت اس کی پناہ ڈھونڈی جائے اور اسے سفارشی بنایا جائے۔ لہذا کسی کو شفیع غالب سمجھ کر نہ پکارا جائے۔ اس جگہ دعویٰ توحید کا اعادہ ماقبل کی دلیل بھی ہے۔ یعنی کافروں کے اصل ظالم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ شرک کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کا کوئی شریک نہیں۔ دعوی توحید پر یہاں چھ عقلی دلیلیں بیان فرمائی ہیں۔ پہلی دلیل اَلْـحَيُّ وہ زندہ ہے ایسا زندہ کہ زندگی اس کی صفت ذاتی ہے وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہیگاجس پر کبھی عدم نہیں آیا اور نہ ہی کبھی اس پر موت آئیگی جیسا کہ سورة فرقان میں ہے۔ وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لَايَمُوْتُ ۔ دوسری دلیل اَلْقَیُّوْمُ ۔ وہ خود بھی قائم ودائم ہے۔ اور ہر چیز کو بھی اس نے سہارا دے رکھا اور قائم کر رکھا ہے وہ سب کا رازق اور نگہبان ہے۔ القائم الحافظ لکل شیئ والمعطی لہ ما بہ قوامہ۔ (روح ص 8 ج 3) تیسری دلیل لا تاخذہ سنۃ ولا نوم۔ وہ ہر وقت خبردار اور بیدار رہتا ہے اور اپنی مخلوق سے کبھی غافل نہیں ہوتا اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ نوم انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں محدثین کرام (رح) کا مسلک یہ ہے کہ وہ ناقض وضو نہیں۔ جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے رات اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ کے گھر میں بسر کی۔ آنحضرت ﷺ نماز عشا ادا کر کے حضرت میمونہ کے گھر تشریف لائے اور چار رکعت نماز ادا فرمائی اور پھر سو گئے۔ رات کے آخری حصہ میں آپ بیدار ہوئے اور وضو فرما کر نماز تہجد۔ وتر اور فجر کی سنتیں ادا کین۔ اس کے بعد پھر سو گئے۔ یہاں تک کہ مؤذن نے آپ کو اطلاع دی اور آپ نے جا کر نماز فجر ادا کی۔ لیکن وضو نہیں فرمایا۔ اس موقع پر روایت کے الفاظ حسب ذیل ہیں۔ فصلی فی تلک اللیلۃ ثلث عشرۃ رکعۃ ثم نام رسول اللہ ﷺ حتی نفخ وکان اذا نام نفخ ثم اتاہ المؤذن فخرج فصلی ولم یتوضا اور بعض روایتوں میں ہے ثم نام حتی سمعت غطیطہ (صحیح مسلم ص 260 ج 1) اس یط رح حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی ایک روایت میں ہے قالت عائشۃ فقلت یا رسول اللہ اتنام قبل ان توتر فقال یا عائشۃ ان عینی تنامان ولا نیام قلبی (جامع ترمذی وغیرہ) حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میری صرف آنکھیں سوتی ہیں دل جاگتا رہتا ہے۔ لیکن حضرت شیخ (رح) نے فرمایا کہ حضرت ابن عباس کا یہ واقعہ کوئی راویوں نے بیان کیا ہے اور اس ایک ہی واقعہ کی تفصیلات بیان کرنے میں راویوں کے درمیان شدید اختلاف ہے۔ حضرت شیخ نے اس واقعہ کے اکثر طرق نقل کر کے ان کے باہمی اختلافات کی نشاندہی فرما دی ہے۔ ملاحظہ ہو آپ کی نصنیف تحریرات حدیث از ص 64 تا ص 66 مثلاً ایک روایت میں ہے کہ نماز عشا کے بعدحضور ﷺ نے حضرت میمونہ کے گھر چار رکعت نماز ادا کی اور پھر آپ سو گئے۔ یہاں تک کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی ایک روایت میں سونے اور خراٹوں کا ذکر نماز تہجد اور صبح کی سنتوں کے درمیان کیا گیا ہے اور ایک دوسری روایت میں یہ دونوں چیزیں صبح کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان مذکور ہیں۔ اسی طرح بعض روایتوں میں آتا ہے کہ اس رات آپ تہجد کی نماز میں ہر دو رکعت کے بعد سوئے اور پھر اٹھ کر وضو فرمایا۔ لیکن دوسری روایتوں میں ہر دو رکعتوں کے بعد نین اور وضو کا ذکر ندارد ہے۔ ایک اختلاف یہ بھی ہے کہ بعض روایتوں میں فجر کی سنتوں کے بعد مطلق نیند اور خراٹوں کا ذکر ہے۔ بعض میں اضطجاع (یعنی پہلو کے بل لیٹنا) اور بعض میں احتباء (یعنی گھٹنوں کو کھڑے کر کے دونوں ہاتھوں کا دائرہ بنا کر ان کے سہارے بیٹھنا) کا ذکر ہے۔ یہ واقعہ چوں کہ ایک ہی دفعہ پیش آیا ہے اس لیے اس کی تفصیلات میں اس قدر متضاد اختلافات کا وجود ناممکن ہے۔ لیکن مختلف طرق میں غور وفکر سے تطبیق و ترجیح کی حسب ذیل صورت نظر آتی ہے۔ اصل روایت میں نیند اور خراٹوں کا ذکر صرف ان چار رکعتوں کے بعد ہے۔ جو نماز عشاء کے بعد آپ ﷺ نے حضرت میمونہ ؓ کے گھر ادا کی تھیں۔ لیکن بعض راویوں نے تہجد کے بعد یا فجر کی سنتوں کے بعد بھی اس کا ذکر کردیا۔ اسی طرح اصل واقعہ میں یہ ہے کہ فجر کی سنتوں کے بعد حضور ﷺ نے احتباء فرمایا اور اسی حالت میں آپ کو خفیف سی نیند آگئی اور سانس نکلنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ جس کر اوی نے نفخ سے تعبیر کیا ہے۔ اور نفخ ہی کو بعض راویوں نے غطیط یا خطیط (خراٹے) سے تعبیر کر ڈالا ہے۔ جیسا کہ حافظ بدر الدین عینی فرماتے ہیں۔ نفخ بالخاء المعجمۃ ای من خیشومہ وھو المجمر عنہ بعض راویوں نے روایت بالمعنی کر کے ثم اضطجع فنام سے ادا کردیا۔ باقی رہی حضرت عائشہ صدیقہ ؓ والی روایت تو اس کے الفاظ تو بظاہر قاعدہ کلیہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بحالت خواب نیند سے صرف آپ ﷺ کی آنکھیں بند ہوجاتی تھیں۔ لیکن آپ کا دل ہمیشہ بیدار رہتا تھا۔ لیکن درحقیقت یہ قاعدہ کلیہ نہیں تھا۔ بلکہ بعض اوقات ایسا ہوتا تھا کہ آپ ﷺ کی آنکھیں اور قلب مبارک دونوں چیزیں نیند سے متاثر ہوجاتی تھیں اور بعض اوقات ایسا ہوتا کہ صرف آنکھیں نیند سے بند ہوجاتیں لیکن دل بیدار رہتا۔ چنانچلہ لیلۃ التجریس میں جس طرف پہلے اشارہ گزر چکا ہے۔ جب نیند کی وجہ سے آپ کی اور آپ کے ہم سفر صحابہ کی نماز فجر فوت ہوگئی۔ تو آپ نے از سر نو وضو کر کے نماز ادا فرمائی۔ اس واقعہ کی توجیہہ کرتے ہوئے بعض محدثین نے فرمایا ہے کہ اس موقع پر آپ کی آنکھوں کے ساتھ دل پر بھی نیند طاری ہوگئی تھی۔ اس لیے آپ وقت پر بیدارنہ ہس کے اور اسی لیے آپ نے وضو کی تجدید فرمائی جیسا کہ اوجز المسالک شرح موطا امام مالک ص 418 ج 1 میں ہے۔ انہ کان فی وقت ینام وفی وقت لاینام وفی وقت لا ینام فصادف الوادی نومہ۔ 501 یہ چوتھی دلیل ہے زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے سب کو اسی نے پیدا کی اور سب کچھ اسی کے قبضہ اور اختیار و تصرف میں ہے۔ پھر کون ہے جو اس پر جبر کرسکے اور اس سے اپنی بات منوا سکے۔ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۔ یہ پانچویں دلیل ہے۔ استفہام انکاری ہے۔ مطلب یہ کہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے دم نہیں مار سکتا اور نہ ہی اس کی مرضی کے خلاف کسی مجرم کو سفارش کر کے سزا سے بچا سکتا ہے جیسا کہ عام مشرکوں کا خیال تھا کہ جن بزرگوں کو ہم پکارتے ہیں وہ ہمیں بخشوا لیں گے۔ اور خدا سے ہمارے تمام کام بھی کرا دیں گے۔ وفی ذلک تاییس الکفار حیث زعموا ان الھتھم شفعاء لھم عند اللہ تعالیٰ (روح ص 9 ج 3) حضرت شیخ (رح) نے فرمایا کہ شفاعت کا مسئلہ قرآن مجید میں مختلف عنوانات سے بیان کیا گیا ہے۔ کہیں فرمایا مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ (بقرہ رکوع 34) کہیں فرمایا لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَهُ قَوْلاً (طہ رکوع 6) کہیں ارشاد ہے اِلَّا لِمَنِ ارْتَضیٰ (انبیاء رکوع 2) کہیں فرمایا اِلَّا مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ (زخرف رکوع 7) کہیں ارشاد ہے۔ لَايَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَاباً (نبا رکوع 2) ان کے علاوہ اور بہت سی آیتوں میں مسئلہ شفاعت مذکور ہے۔ ان تمام آیتون کا مشترک مفہوم یہ ہے کہ ان میں شفاعت قہری کی نفی کی گئی ہے۔ جس کے مشرکین معتقد تھے اور اس کے سوا شفاعت کی ایک اور قسم کا اثبات کیا گیا ہے۔ یعنی شفاعت بالاذن۔ پھر اس جائز شفاعت کی دو قسمیں ہیں ایک شفاعت فی الدنیا اور دوم شفاعت فی الاخرت۔ شفاعت فی الدنیا یعنی دنیا میں شفاعت مومن اور کافر دونوں کے لیے جائز ہے۔ مومن کے لیے دنیا میں شفاعت یہ ہے کہ اس کے گناہوں کی بخشش اور حق پر اس کی استقامت کے لیے دعا کرے۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کو امر ہوا۔ وَصَلِّ عَلَیْھِْ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّھُمْ وَاسْتَغْفِرْلَھُمُ اللّٰه (توبہ ع 12) اور کافر کے لیے شفاعت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے راہ راست پر آجانے کی دعا کرے۔ لیکن یہ صرف اسی وقت تک جائز ہے جب تک اس کے دل پر مہرجباریت نہ لگ جائے اور جب یہ معلوم ہوجائے کہ اس کے دل پر مہر جباریت لگ چکی ہے۔ اس وقت اس کے حق میں دنیا میں شفاعت نہ کی جائے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بارے میں وارد ہے۔ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهُ اَنَّهُ عَدُوٌّ لِلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْه۔ باقی رہی آخرت میں شفاعت تو وہ قبل العلم مومنوں اور کافروں دونوں کے لیے جائز ہے۔ لیکن بعد العلم صرف مومنوں کے لیے جائز ہے اور کافروں کے لیے جائز نہیں۔ اور علم سے مراد یہ ہے کہ یہ معلوم ہوجائے کہ مشفوع لہ مومن ہے یا کافر۔ چناچہ حدیث میں آیا ہے۔ آنحضور ﷺ قیامت کے دن قبل العلم کافروں کے لیے شفاعت فرمائیں گے۔ قیامت کے دن کچھ لوگوں کو فرشتے جہنم کی طرف لے جائیں گے۔ تو آنحضرت ﷺ اصحابی اصحابی پکار کر ان کی شفاعت فرمائیں گے۔ اس پر اللہ کی طرف سے آپ کو جواب ملے گا کہ آپ کو معلوم نہیں۔ آپ کے بعد ان لوگوں نے کیا کچھ کیا ہے۔ اس پر آپ خاموش ہوجائیں گے اور پھر ان کی شفاعت نہیں کرینگے۔ ان آیتوں کے الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دنیا اور آخرت میں پہلے شفاعت کرنے والوں کو باقاعدہ اذن دیا جائے گا کہ فلاں فلاں کے لیے شفاعت کرو تو قبول ہوگی۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے (صرف آنحضرت ﷺ کے لیے آخرت میں شفاعت کبری کا اذن ملنا ثابت ہے) اس لیے من اذن لہ اور لمن اذن لہ وغیرہ سے اذن کا متبادر مفہوم یعنی اجازت مراد نہیں ہے۔ بلکہ دوسری آیتوں کی روشنی میں اس آیت میں مشفوع لہ سے مراد مومن ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد ہے۔ اِلَّا مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ ۔ جس نے حق کی شہادت دی یعنی مومن۔ اس کی تائید ایک دوسری آیت سے ہوتی ہے اِلَّا لِمَنِ ارْتَضیٰجس کو خدا پسند کرے اور وہ صرف مومن ہی ہوسکتا ہے جن آیتوں میں بلا اجازت کلام کی نفی ہے۔ وہاں آخرت کی شفاعت مراد ہے۔ اور مشفوع لہ صرف ایمان والے ہیں اور جن آیتوں میں کلام کی نفی کی گئی ہے ان میں دنیا کی شفاعت سے متعلق ہیں اور بعض آخرت سے اور بعض دونوں کی محتمل ہیں مسئلہ شفاعت کی پوری تحقیق سورة یونس کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ یہ چھٹی دلیل ہے اور یہ محاورہ ہے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان مقصود ہے۔ یعنی وہ زمین و آسمان کی تمام مخلوقات کے تمام ظاہر و باطن اور گذشتہ وآئندہ حالات وواقعات کو خوب جانتا ہے۔ دلیل علی احاطة علمہ بجمیع الکائنات ماضیھا حاضرھا ومستقبلھا (ابن کثیر ص 309 ج 1 ۔ حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْمیں ضمیر غائب مَنْ ذَ الَّذِیْ کی طرف راجع ہے۔ یعنی وہ لوگ جن کو مشرکین اپنے شفعاء غالب سمجھتے تھے۔ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اور اس کی مخلوق میں سے کوئی جن وبشر، کوئی پیغمبر یا کوئی فرشتہ اللہ کے معلومات میں سے کسی ایک چیز کی حقیقت اور کنہ کو بھی نہیں جانتا۔ ہاں جو تھوڑا بہت علم اللہ نے ان کو دیدیا ہے۔ اس سے آگے ان کے علم کی حدود نہیں بڑھ سکتیں۔ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔ کرسی سے یا تو اس کا حقیقی معنی مراد ہے۔ لیکن اس کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا یا اس سے مراد علم ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس سے منقول ہے یا یہ قدرت اور سلطنت سے کنایہ ہے۔ (معالم ص 227 ج 1) المراد من الکرسی السلطان والقدرة والملک (کبیر ص 470 ج 2) مطلب یہ ہے کہ اس کی قدرت اور حکومت پوری کائنات پر حاوی ہے۔ سب اس کے محکوم ومملوک ہیں اور کوئی اس کا شریک اور ہمسر نہیں۔ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا۔ زمین و آسمان کی حفاظت اور نگہبانی سے وہ تھکتا اور اکتاتا نہیں۔ یہ ساتویں دلیل ہے۔ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ ۔ وہ ہر چیز سے بلند تر اور بزرگ تر، ہر چیز اس کے سامنے ہیچ اور حقیر ہے۔ یہ آیت کریمہ آیة الکرسی کے نام سے مشہور ہے اور قرآن مجید کی تمام آیتوں سے افضل ہے اس لیے کہ اس میں اللہ کی توحید اور اس کی صفات کا کامل اور جامع بیان ہے۔ آیت الکرسی کی ابتدا میں بھی حصر ہے۔ یعنی ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ میں اور آخر میں بھی یعنی ھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُمیں۔ کیونکہ دونوں جگہوں میں خبریں معرفہ ہیں اس لیے آیت کے باقی تمام حصے بھی حصر پر ہی محمول ہوں گے۔ کیونکہ یہ قانون ہے کہ کلام کے کسی ایک حصہ میں جب حصر ہو تو اس کے باقی حصے بھی حصر پر ہی محمول ہوتے ہیں۔


تفسیر البغویؒ:

ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں : کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے ابو المنذر کتاب میں بڑی آیت کون سی ہے ؟ (ابو منذر کہتے ہیں) کہ میں نے کہا (آیت)” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ فرمایا ، آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا پھر فرمایا تجھ کو علم مبارک ہو اے ابو المنذر ۔ پھر فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے کہ اس آیت کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہیں، پایہ عرش کے قریب فرشتہ اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتا ہے ، حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے رمضان کی زکوۃ کی حفاظت پر مامور فرمایا ، کوئی آکر چلو بھر بھر کر غلہ اٹھانے لگا تو میں نے اس کو پکڑ لیا اور اس کو کہا کہ میں تجھے ضرور بالضرور آپ ﷺ کی خدمت میں لے جاؤں گا ، وہ کہنے لگا میں محتاج ہوں ، عیال دار ہوں ، اور بڑا ضرورت مند ہوں ، ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا ، جب صبح ہوئی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اے ابوہریرہ ! رات والے تیرے قیدی کا کیا بنا ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اس نے اپنی سخت محتاجی اور عیال داری کا دکھ ظاہر کیا مجھے اس پر رحم آگیا تو میں نے اس کو چھوڑ دیا ، آپ ﷺ نے فرمایا ، آگاہ رہو ، بیشک اس نے تمہارے ساتھ جھوٹ بولا ہے آئندہ پھر وہ لوٹ کر آئے گا ، پس میں جان گیا کہ وہ لوٹ کر آئے گا آپ ﷺ کے ارشاد فرمانے کی وجہ سے، پس پھر میں اس کی تاک میں رہا بالاخر وہ آیا اور پھر غلہ سے اپنے چلو بھرنے لگا میں نے فورا اس کو پکڑ لیا اور اس کو کہا کہ اب کی بار تو میں تجھے آپ ﷺ کے پاس ضرور لے کر جاؤں گا ، اس نے کہا مجھے چھوڑ دو میں محتاج ہوں اور عیال دار ہوں ، اب میں لوٹ کر نہیں آؤں گا ، پس مجھے اس پر ترس آگیا ، میں نے اس کو چھوڑ دیا ، پس صبح آپ ﷺ نے مجھ سے پوچھا اے ابوہریرہ ؓ رات والے قیدی کے ساتھ کیا بنا، میں نے کہا اے اللہ کے رسول ﷺ اس نے سخت محتاجگی کی شکایت کی اور عیال داری کی مجھے اس پر ترس آیا ، میں نے اس کو چھوڑ دیا ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ، سنو ! بیشک اس نے تمہارے ساتھ جھوٹ بولا ہے ، پھر وہ لوٹ کر آئے گا ، (ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں) کہ میں تیسرے بار اس کی تاک میں بیٹھ گیا ، پس وہ آیا تو اس نے غلہ سے چلو بھرنا شروع کیے ، میں نے اس کو پکڑ لیا ، پس میں نے اس کو کہا پس میں تجھے ضرور بالضرور آپ ﷺ کے پاس لے جاؤں گا کیونکہ یہ تین مرتبہ میں سے آخری بار ہے تو نے ہر دفعہ یہی کہا کہ میں اب دوبارہ نہیں آؤں گا ، پھر آتا رہا ۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دیجئے میں (اس کے بدلے) تم کو چند الفاظ ایسے بتلاؤں گا جس سے اللہ تجھ کو نفع دے گا ، میں نے کہا وہ کون سے الفاظ ہیں، اس نے کہا کہ جب تم رات اپنے بستر پر جاؤ تو آیت الکرسی (آیت)” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ آخر تک پڑھ لیا کرو اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کیلے ایک نگران مقرر کرے گا پھر صبح تک کوئی شیطان تمہارے پاس نہیں آئے گا ، پس میں نے اس کو چھوڑ دیا، جب صبح کی تو آپ ﷺ نے پوچھا رات تیرے قیدی کا کیا بنا ؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اس نے مجھے کہا کہ میں تمہیں ایسے کلمات سکھلاؤں گا جو تمہیں نفع دیں گے تو میں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا ، آپ ﷺ نے پوچھا وہ کون سے الفاظ ہیں ؟ میں نے کہا کہ اس نے یہ الفاظ کہے ہیں کہ جب تورات اپنے بستر پر آئے تو آیت الکرسی اول تا آخر پڑھ لے (آیت)” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ اور اس نے کہا کہ اس وجہ سے تمہاری حفاظت کے لیے ایک نگران مقرر کردیا جائے گا صبح تک تمہارے پاس کوئی شیطان نہیں آئے گا اور وہ لوگوں پر حرص کر رہا تھا نیکی کی وجہ سے ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا سنو ! بیشک اس نے تمہارے ساتھ سچ بولا ہے لیکن ہے وہ جھوٹا ، اے ابوہریرہ ؓ تو جانتا ہے تین دن تک تیرے ساتھ کون مخاطب تھا ؟ ابوہریرہ ؓ نے عرض کیا نہیں ، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شیطان ہے ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے صبح کے وقت آیت الکرسی اور ” حم تنزیل الکتاب من اللہ العزیز الحمید “۔ کی پہلی دو آیت تلاوت کی تو اس دن شام تک اس کی حفاظت کی جائے گی اور جس نے یہ آیات شام کے وقت پڑھیں تو اس رات اس کی حفاظت کی جائے گی ، یہاں تک کہ وہ صبح کرلے ، اللہ تعالیٰ کا فرمان ” اللہ “ یہ مرفوع ہے مبتداء ہونے کی وجہ سے اور اس کی خبر (آیت)” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ ہے حی سے مراد ابدلآباد تک ہمیشہ باقی رہنے والا اور یہ صفت اس کے لیے ہے جس کے لیے حیات ہو اور یہ صفت اللہ تعالیٰ کے لیے ہے (القیوم) عمرو بن مسعود ؓ کی قرات میں ” القیام “ ہے اور علقمہ کی قرات میں ” القیم “ ہے ان تمام لغات کا معنی ایک ہی ہے ۔ مجاہد (رح) فرماتے ہیں کہ قیوم کہتے ہیں ہر چیز کے نگران کو اور کلبی (رح) کہتے ہیں کہ قیوم ہر نفس کے اعمال کا نگران کو کہتے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ قیوم امور کے منتظم کو بھی کہتے ہیں ، ابوعبیدہ ؓ نے کہا کہ قیوم کا معنی ہے غیر فانی ہمیشہ باقی رہنے والا (آیت)” لا تاخذہ سنۃ ولا نوم “ السنۃ “ نعاس کو کہتے ہیں جو نیند سے پہلے آتی ہو اور اس کو ہلکی نیند سے تعبیر کیا جاتا ہے اور وسنان بھی اسی سے ہے وہ حالت جو نیند اور بیداری کے درمیان میں ہو اور کہا جاتا ہے ” وسن یسن وسنا وسنۃ “۔ باب سمع ہے ” والنوم “ اس حالت کو کہتے ہیں جس میں انسان کا جسم بھاری پڑجائے اور اعضا کی قوت ڈھیلی ہوجائے ، مفضل الضبی کہتے ہیں کہ ’‘’ السنۃ “ کا تعلق سر سے ہے اور نوم کا تعلق دل سے ہے، بس ” سنۃ نوم “ کا اول درجہ ہے جسے اونگھ کہتے ہیں ، بعض نے کہا کہ ” سنۃ کا تعلق سر سے ہے اور نعاس (اونگھ) کا تعلق آنکھ سے ہے اور نیند کا تعلق قلب سے ہے وہ بیہوشی جو دل پر واقع ہوتی اور وہ اشیاء کی معرفت کو جاننے میں رکاوٹ بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اپنے آپ سے اس ” نوم “ کی بھی نفی فرما دی کیونکہ نیند کا آنا آفت ہے اور اللہ رب العزت آفات سے پاک ہے اور نیند کا آنا تغیر ہے اور اللہ تعالیٰ ان تغیرات سے بھی پاک ہے ، ہمیں احمد بن ابراہیم شریحی نے خبر دی (وہ کہتے ہیں) کہ ہمیں ابو اسحاق احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبی نے خبر دی (وہ کہتے ہیں) ہمیں عبداللہ بن حامد نے خبر دی (وہ کہتے ہیں) ابو موسیٰ ؓ سے روایت بیان کرتے ہیں ، فرماتے ہیں آپ ﷺ نے ہمارے پاس کھڑے ہو کر پانچ باتیں ارشاد فرمائیں ، فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نہ سوتا ہے اور نہ ہی سونا اس کے مناسب ہے وہ میزان کو نیچے بھی کرتا ہے اور اوپر بھی اٹھاتا ہے اس کے سامنے رات کے اعمال پہنچانے جاتے ہیں دن کے اعمال سے پہلے اور دن کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں رات کے اعمال کے پیش کیے جانے رات کے اعمال کے پیش کیے جانے سے ، اس کا حجاب نور ہے اگر وہ نور ظاہر ہوجائے تو اس کے نور کے جمال سے حد نگاہ تک تمام مخلوق جل کر خاکستر ہوجائے ، مسعودی نے عمرو بن مرۃ سے روایت کیا ، فرمایا کہ اس کا حجاب آگ ہے ، (لہ ما فی السموت والارض) یعنی اس کی ملکیت ہے اور جو کچھ اس میں پیدا کیا (آیت)” من ذا الذی یشفع عندہ الا باذن “۔ یعنی اس کے حکم سے ۔ مابین ایدیھم وما خلفھم “۔ کی مختلف تفاسیر : (یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم) امام مجاہدرحمۃ اللہ علیہ ، عطاء (رح) سدی (رح) نے کہا ہے کہ (آیت)” ما بین ایدیھم “ سے مراد دنیاوی امور ہیں اور ” وما خلفھم “ سے مراد اخروی امور ہیں ۔ کلبی (رح) نے کہا کہ (آیت)” ما بین ایدیھم “ سے مراد ا آخرت ہے کیونکہ یہ انہوں نے آگے بھیجی ہے اور (آیت)” وما خلفھم “ سے مراد دنیا ہے کیونکہ یہ انہوں نے پیچھے چھوڑی ہے ۔ ابن جریج (رح) فرماتے ہیں (آیت)” ما بین ایدیھم “ سے مراد جوان کے سامنے سے گزر گیا اور ” وما خلفھم “۔ سے مراد جو بعد میں آنے والا ہے ، مقاتل (رح) فرماتے ہیں کہ (آیت)” ما بین ایدیھم “ سے مراد فرشتوں کی تخلیق سے پہلے اور ” وما خلفھم “۔ سے مراد فرشتوں کی تخلیق کے بعد جو کچھ پیدا کیا گیا وہ ہے ۔ بعض نے کہا کہ (آیت)” ما بین ایدیھم “ سے مراد وہ اعمال جو آگے بھیج چکے ہیں خواہ وہ انیک اعمال ہوں یا شر اور (آیت)” وما خلفھم “ سے مراد وہ اعمال جو ابھی کر رہے ہو (آیت)” ولا یحیطون بشیء من علمہ “۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے علم سے (الا بما شائ) کہ وہ اس علم پر مطلع ہوجائے ۔ (آیت)” لایحیطون بشی “ سے مراد علم غیب کی باتوں پر کوئی مطلع نہیں ہوسکتا مگر جسے اللہ چاہے رسولوں میں سے کسی کو اس کی خبر دے دے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (آیت)” فلایظھر علی غیبہ احد الا من ارتضی من رسول “۔ (آیت)” (وسع کرسیہ السموت والارض) زمین و آسمان کو محیط ہے اور بھرا ہوا ہے ۔ کرسی کی مختلف تفاسیر : کرسی کی تفسیر میں مفسرین کی مختلف رائے ہیں ، حسن (رح) فرماتے ہیں کہ کرسی عرش ہے ۔ ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ کرسی عرش کے سامنے قائم ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان (آیت)” (وسع کرسیہ السموت والارض) کا مطلب یہ ہے کہ کرسی کی وسعت زمین و آسمان کی وسعت کے برابر ہے ۔ اور بعض روایات میں ہے کہ آسمان و زمین کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے جنگل میں ایک چھلا پڑا ہوا ہو اور کرسی سے عرش اتنا بڑا ہے جیسے چھلے سے جنگل کی بڑائی ، حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے کہ کرسی کے اندر ساتوں آسمان وزمینیں ایسی ہیں جیسے کسی ڈھال میں سات دراہم ڈال دیئے جائیں ۔ حضرت علی ؓ اور مقاتل (رح) کا قول ہے کہ کرسی کے ہر پایہ کی لمبائی ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کے برابر ہے اور کرسی عرش کے سامنے ہے اور کرسی کو چار فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں اور ہر فرشتے کے چار منہ ہیں اور ان فرشتوں کے قدم ساتوں زمینوں کے نیچے پتھر پر ہیں، اور یہ مسافت پانچ سو برس کے راستے کے برابر ہے ، ایک فرشتے کی صورت سید البشر حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرح ہے جو آدمیوں کے لیے رزق اور بارش کی دعا کرتا رہتا ہے ، ایک سال سے لے کر دوسرے سال تک رزق مانگتا رہتا ہے بعض روایت میں آتا ہے کہ عرش کو اٹھانے والے فرشتے اور کرسی کے اٹھانے والے فرشتوں کے درمیان ستر حجابات اندھیرے کے اور ستر حجاب روشنی کے اور ہر حجاب کی موٹائی پانچ سو برس کے برابر ہے اگر یہ حجابات نہ ہوں تو کرسی کے اٹھانے والے فرشتے عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کے نور سے جل جائیں ۔ سعید بن جبیر (رح) سے روایت ہے وہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ کرسی سے مراد عمل ہے اور یہی قول مجاہد (رح) کا ہے اور بعض نے کہا کہ صحیفہ علمی کو کر استہ کہتے ہیں اور بعض نے کہا کہ ” کرسیہ “ سے مراد حکومت اور بادشاہت ہے اور عرب کے ہاں پرانی حکومت (موروثی) کو کرسی کہتے ہیں ، (ولایؤدہ) یعنی نہ اس پر بھاری ہے اور نہ ہی اس پر مشکل ہے اسی وجہ سے کہا جاتا ہے ” ادنی الشی ای اثقلنی “ (حفظھما) یعنی آسمان و زمین کی حفاظت میں (وھو العلی) وہ بلند ہے اپنی مخلوق پر اور تمام اشیاء سے اور جن کو اللہ کے سوا پکارا جاتا ہے سب سے بلند ہے اور بعض نے کہا کہ العلی کہا جاتا ہے حکومت اور سلطنت میں بلند ہونے کو (العظیم) بمعنی بڑا یعنی وہ ذات جس سے کوئی بڑا نہ ہو ۔ خاصیت آیت 255۔ (آیت)” اللّہُ لاَ إِلَـہَ إِلاَّ ہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّومُ لاَ تَأْخُذُہُ سِنَۃٌ وَلاَ نَوْمٌ لَّہُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ مَن ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہُ إِلاَّ بِإِذْنِہِ یَعْلَمُ مَا بَیْْنَ أَیْْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلاَ یُحِیْطُونَ بِشَیْْء ٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلاَّ بِمَا شَاء وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَلاَ یَؤُودُہُ حِفْظُہُمَا وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ (255) (1) جو شخص ہر نماز کے بعد اس آیت کو پڑھے وہ شیطان کے مکروفریب اور وسوسہ سے اور جنات کی سرکشی سے محفوظ گا۔ کبھی تنگدست نہ ہوگا اس کو ایسی جگہ سے رزق ملے گا جہاں سے اس کے خواب و خیال میں نہ ہوگا۔ (2) جو شخص صبح شام گھر میں داخل ہوتے وقت اس آیت کو پڑھے تو وہ چوری ‘ تنگدستی ‘ آگ میں جلنے اور دوسری شرارتوں اور سختیوں سے محفوظ رہے گا ، ہمیشہ تندرست رہے گا ، رات کو گھبراہٹ و پریشانی سے اور دل کے درد سے محفوظ رہے گا۔ (3) جو شخص اس آیت کو ٹھیکری پر لکھ کر غلہ میں رکھے تو وہ غلہ چوری ہونے سے اور دیمک وکیڑا وغیرہ لگنے سے محفوظ رہے اور اس میں برکت بھی ہوگی ۔ (4) جو شخص گھر یا دکان کی دہلیز میں اوپر اس آیت کو لکھ دے تو اس گھر دکان یا باغ ہے تو اس میں بہت رزق ہوگا ، کبھی تنگی نہ آئے گی اور کبھی چوری بھی نہ ہوگی ۔ (5) جو شخص ہر نماز کے بعد کثرت سے یہ آیت پڑھے تو وہ مرنے سے پہلے جنت میں اپنا ٹھکانہ دیکھ لے گا ۔ (6) جو شخص سفر میں ہو یا کسی خوفناک جگہ میں ہو تو وہ اپنی چھری سے اپنے اوپر ایک دائرہ کھینچ کر اس پر آیت الکرسی ‘ سورة اخلاص ‘ معوذتین ‘ فاتحہ اور (آیت)” قل لن یصیبنا الا ما کتب اللہ لنا ھو مولنا وعلی اللہ فلیتوکل المؤمنون “۔ (7) رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے جو شخص آیت الکرسی کو زعفران سے اپنے داہنے ہاتھ کی ہتھیلی پر سات بار لکھ کر ہر بار اسے چاٹ لے تو اس کا حافظہ اتنا بڑھ جائے گا کہ کبھی کوئی بات بھولے گی نہیں اور فرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعا کریں گے ۔




مفردات القرآن:

الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ إله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] الٰہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی ؓ نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ قَيُّومُ وقوله : اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ [ البقرة/ 255] أي : القائم الحافظ لكلّ شيء، والمعطی له ما به قِوَامُهُور آیت : اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ [ البقرة/ 255] خدا وہ معبود برحق ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا ۔ میں قیوم ( اسمائے حسٰنی سے ہے یعنی ذات الہٰی ہر چیز کی نگران اور محافظ ہے اور ہر چیز کو اس کی ضرورت زندگی بہم پہنچاتی ہے أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ وسن الوَسَنُ والسِّنَةُ : الغفلة والغفوة . قال تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] ورجلٌ وَسْنَانُ ، وتَوَسَّنَهَا : غشيها نائمة، وقیل : وَسِنَ وأَسِنَ : إذا غشي عليه من ريح البئر، وأرى أنّ وَسِنَ يقال لتصوّر النّوم منه لا لتصوّر الغشیان . ( و س ن ) الوسن والسنۃ کے معنی غفلت یا اونگھ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ۔ رجل وسان اونکھنے والا مرد ۔ توسن المرءۃ سوئی ہوئی عورت سی مجامعت کرنا ۔ وسن واسن کے معنی کنویں کی بد بو سے بہوش ہونے کے ہیں ۔ مصنف کی رائے یہ ہے کہ یہ معنی نیند کی مناسبت سے لیا گیا ہے نہ کہ غشیان یعنی ڈ ھانپنے کے معنی سے ۔ نوم النّوم : فسّر علی أوجه كلّها صحیح بنظرات مختلفة، قيل : هو استرخاء أعصاب الدّماغ برطوبات البخار الصاعد إليه، وقیل : هو أن يتوفّى اللہ النّفس من غير موت . قال تعالی: اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر/ 42] . وقیل : النّوم موت خفیف، والموت نوم ثقیل، ورجل نؤوم ونُوَمَة : كثير النّوم، والمَنَام : النّوم . قال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم/ 23] ، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ/ 9] ، لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] والنُّوَمَة أيضا : خامل الذّكر، واستنام فلان إلى كذا : اطمأنّ إليه، والمنامة : الثّوب الذي ينام فيه، ونامت السّوق : کسدت، ونام الثّوب : أخلق، أو خلق معا، واستعمال النّوم فيهما علی التّشبيه . ( ن و م ) النوم ۔ اس کی تفسیر گئی ہے اور مختلف اعتبارات سے تمام وجوہ صحیح ہوسکتی ہیں ۔ بعض نے کہا نے کہ بخارات کی رطوبت سی اعصاب دماغ کے ڈھیلا ہونے کا نام نوم ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا بغیر موت کے روح کو قبض کرلینے کا نام نوم ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر/ 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی ( روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ) اور بعض نوم کو موت خفیف اور موت کو نوم ثقیل کہتے ہیں رجل نوم ونومۃ بہت زیادہ سونے والا اور منام بمعنی نوم آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم/ 23] اور اسی کے نشانات ( اور تصرفات ) میں سے ہے تمہارا رات میں ۔۔۔ سونا ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ/ 9] تمہارے لئے موجب آرام بنایا ۔ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة/ 255] اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ۔ نیز النومۃ کے معنی خامل لذکر یعني گم نام بھی آتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے ۔ استنام فلان الی ٰکذا ۔ کسی چیز سے اطمینان حاصل کرنا ۔ منامۃ ۔ لباس خواب ۔ نامت السوق کساد بازاری ہونا ۔ نام الثوب ( لازم ومتعدی ) کپڑے کا پرانا ہونا یا کرنا ۔ ان دونون معنی میں نام کا لفظ تشبیہ کے طور مجازا استعمال ہوتا ہے ۔ سما سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] ، ( س م و ) سماء ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق/ 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ أرض الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . ( ا رض ) الارض ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ ذو ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] والثاني في لفظ ذو : لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب ) یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة/ 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے شَّفَاعَةُ : الانضمام إلى آخر ناصرا له وسائلا عنه، وأكثر ما يستعمل في انضمام من هو أعلی حرمة ومرتبة إلى من هو أدنی. ومنه : الشَّفَاعَةُ في القیامة . قال تعالی: لا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87] ومنه قوله عليه السلام : «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» الشفاعۃ کے معنی دوسرے کے ساتھ اس کی مدد یا شفارش کرتے ہوئے مل جانے کے ہیں ۔ عام طور پر کسی بڑے با عزت آدمی کا اپنے سے کم تر کے ساتھ اسکی مدد کے لئے شامل ہوجانے پر بولا جاتا ہے ۔ اور قیامت کے روز شفاعت بھی اسی قبیل سے ہوگی ۔ قرآن میں ہے َلا يَمْلِكُونَ الشَّفاعَةَ إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمنِ عَهْداً [ مریم/ 87]( تو لوگ) کسی کی شفارش کا اختیار رکھیں گے مگر جس نے خدا سے اقرار لیا ہو ۔ اور اسی کا فرمان ہے «القرآن شَافِعٌ مُشَفَّعٌ» کہ قرآن شافع اور مشفع ہوگا یعنی قرآن کی سفارش قبول کی جائے گی عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ وأَذِنَ : استمع، نحو قوله : وَأَذِنَتْ لِرَبِّها وَحُقَّتْ [ الانشقاق/ 2] ، ويستعمل ذلک في العلم الذي يتوصل إليه بالسماع، نحو قوله : فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ البقرة/ 279] . ( اذ ن) الاذن اور اذن ( الیہ ) کے معنی تو جہ سے سننا کے ہیں جیسے فرمایا ۔ { وَأَذِنَتْ لِرَبِّهَا وَحُقَّتْ } ( سورة الِانْشقاق 2 - 5) اور وہ اپنے پروردگار کا فرمان سننے کی اور اسے واجب بھی ہے اور اذن کا لفظ اس علم پر بھی بولا جاتا ہے جو سماع سے حاصل ہو ۔ جیسے فرمایا :۔ { فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة البقرة 279) تو خبردار ہوجاؤ کہ ندا اور رسول سے تمہاری چنگ ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا «بَيْن»يدي و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام/ 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات/ 1] ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت/ 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه/ 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : / یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف/ 17] پھر ان کے آگے ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم/ 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس/ 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة/ 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ خلف ( پیچھے ) خَلْفُ : ضدّ القُدَّام، قال تعالی: يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] ، وقال تعالی: لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] ( خ ل) خلف ( پیچھے ) یہ قدام کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَما خَلْفَهُمْ [ البقرة/ 255] جو کچھ ان کے روبرو ہو راہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے ۔ لَهُ مُعَقِّباتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ [ الرعد/ 11] اس کے آگے پیچھے خدا کے جو کیدار ہیں ۔ حيط الحائط : الجدار الذي يَحُوط بالمکان، والإحاطة تقال علی وجهين : أحدهما : في الأجسام نحو : أَحَطْتُ بمکان کذا، أو تستعمل في الحفظ نحو : إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] ، والثاني : في العلم نحو قوله : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] ( ح و ط ) الحائط ۔ دیوار جو کسی چیز کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہو اور احاطۃ ( افعال ) کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) اجسام کے متعلق جیسے ۔ احطت بمکان کذا یہ کبھی بمعنی حفاظت کے آتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطٌ [ فصلت/ 54] سن رکھو کہ وہ ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ یعنی وہ ہر جانب سے ان کی حفاظت کرتا ہے ۔ (2) دوم احاطہ بالعلم ہے جیسے فرمایا :۔ أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ كرس الكُرْسِيُّ في تعارف العامّة : اسم لما يقعد عليه . قال تعالی: وَأَلْقَيْنا عَلى كُرْسِيِّهِ جَسَداً ثُمَّ أَنابَ [ ص/ 34] وهو في الأصل منسوب إلى الْكِرْسِ ، أي : المتلبّد أي : المجتمع . ومنه : الْكُرَّاسَةُ لِلْمُتَكَرِّسِ من الأوراق، وكَرَسْتُ البناءَ فَتَكَرَّسَ ، قال العجاج : يا صاح هل تعرف رسما مکرسا قال : نعم أعرفه، وأبلسا والکرْسُ : أصل الشیء، يقال : هو قدیم الْكِرْسِ. وكلّ مجتمع من الشیء كِرْسٌ ، والْكَرُّوسُ : المترکّب بعض أجزاء رأسه إلى بعضه لکبره، وقوله عزّ وجل : وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ [ البقرة/ 255] فقد روي عن ابن عباس أنّ الكُرْسِيَّ العلم «3» ، وقیل : كُرْسِيُّهُ ملكه، وقال بعضهم : هو اسم الفلک المحیط بالأفلاک، قال : ويشهد لذلک ما روي «ما السّموات السّبع في الکرسيّ إلّا کحلقة ملقاة بأرض فلاة» ک ر س ) الکرسی ۔ عوام کے عرف میں اس شے کو کہتے ہیں جس پر بیٹھاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَلْقَيْنا عَلى كُرْسِيِّهِ جَسَداً ثُمَّ أَنابَ [ ص/ 34] اور ان کے تحت پر ایک دھڑڈال دیا پھر انہوں نے ( خدا کی طرف ) رجوع کیا ۔ یہ اصل میں کرسی کی طرف منسوب ہے اور کرس کے معنی ہیں اوپر تلے جم جانے والا اور جمع ہوجانے والا اسی سے کراسۃ ( مجموعہ اوراق ) ہے کر ست البناء فتکرس ۔ میں نے عمارت کی بنیاد رکھی چناچہ وہ بنیاد پڑگئی عجاج نے کہا ہے ( الرجز) (308) یاصاح ھل تعرف رسما مکرسا قانعم اعرفہ واباسا اے میرے دوست کیا تم نشان منزل کو پہنچانتی ہوجہاں کہ اونٹوں کا بول وبراز جماہوا ہے ۔ اس نے کہاں ہاں پہچانتا ہوں اور غم زدہ ہوکر خاموش ہوگیا ۔ الکرسی کسی چیز کی اصل اور بنیاد کو کہتے ہیں ۔ محاورہ ہے ؛ھوقدیم الکرسی اس کی بنیاد پر انی ہے ، اور ہر چیز کے ڈھیر کو کرس کہاجاتا ہے اور کروس کے معنی بڑے سر والا کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ [ البقرة/ 255] اس کی ، ، کرسی ، ، آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے ۔ کی تفسیر میں ابن عباس مروی ہے ۔ کہ کرسی سے علم باری تعالیٰ مراد ہے ۔ اور بعض نے کہا ہے ۔ کہ کرسی کے معنی حکومت واقتدا کے ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ فلک محیط یعنی فلک الافلاک کا دوسرا نام کرسی ہے ۔ اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے ۔ کہ سات آسمان کی مثال کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے بیابان میں ایک انگوٹھی پڑی ہو ۔ ايد ( قوة) قال اللہ عزّ وجل : أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة/ 110] فعّلت من الأيد، أي : القوة الشدیدة . وقال تعالی: وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران/ 13] أي : يكثر تأييده، ويقال : إِدْتُهُ أَئِيدُهُ أَيْداً نحو : بعته أبيعه بيعا، وأيّدته علی التکثير . قال عزّ وجلّ : وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] ، ويقال : له أيد، ومنه قيل للأمر العظیم مؤيد . وإِيَاد الشیء : ما يقيه، وقرئ : (أَأْيَدْتُكَ ) وهو أفعلت من ذلك . قال الزجاج رحمه اللہ : يجوز أن يكون فاعلت، نحو : عاونت، وقوله عزّ وجل : وَلا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما[ البقرة/ 255] أي : لا يثقله، وأصله من الأود، آد يؤود أودا وإيادا : إذا أثقله، نحو : قال يقول قولا، وفي الحکاية عن نفسک : أدت مثل : قلت، فتحقیق آده : عوّجه من ثقله في ممرِّه . ( ای د ) الاید ( اسم ) سخت قوت اس سے اید ( تفعیل ) ہے جس کے معنی تقویت دنیا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة/ 110] ہم نے تمہیں روح قدس سے تقویت دی وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران/ 13] یعنی جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے ادتہ ( ض) ائیدہ ایدا جیسے بعتہ ابیعہ بیعا ( تقویت دینا) اور اس سے ایدتہ ( تفعیل) تکثیر کے لئے آتا ہے قرآن میں ہے وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات/ 47] اور ہم نے آسمان کو بڑی قوت سے بنایا اور اید میں ایک لغت آد بھی ہے اور ۔ اسی سے امر عظیم کو مؤید کہا جاتا ہے اور جو چیز دوسری کو سہارا دے اور بچائے اسے ایاد الشئی کہا جاتا ہے ایک قرات میں ایدتک ہے جو افعلت ( افعال ) سے ہے اور ایاد الشئ کے محاورہ سے ماخوذ ہے زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ یہ فاعلت ( صفاعلہ ) مثل عادنت سے بھی ہوسکتا ہے ۔ حفظ الحِفْظ يقال تارة لهيئة النفس التي بها يثبت ما يؤدي إليه الفهم، وتارة لضبط الشیء في النفس، ويضادّه النسیان، وتارة لاستعمال تلک القوة، فيقال : حَفِظْتُ كذا حِفْظاً ، ثم يستعمل في كلّ تفقّد وتعهّد ورعاية، قال اللہ تعالی: وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] ( حظ ) الحفظ کا لفظ کبھی تو نفس کی اس ہیئت ( یعنی قوت حافظہ ) پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ جو چیز سمجھ میں آئے وہ محفوظ رہتی ہے اور کبھی دل میں یاد ررکھنے کو حفظ کہا جاتا ہے ۔ اس کی ضد نسیان ہے ، اور کبھی قوت حافظہ کے استعمال پر یہ لفظ بولا جاتا ہے مثلا کہا جاتا ہے ۔ حفظت کذا حفظا یعنی میں نے فلاں بات یاد کرلی ۔ پھر ہر قسم کی جستجو نگہداشت اور نگرانی پر یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَإِنَّا لَهُ لَحافِظُونَ [يوسف/ 12] اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔ علي العُلْوُ : ضدّ السُّفْل، والعَليُّ : هو الرّفيع القدر من : عَلِيَ ، وإذا وصف اللہ تعالیٰ به في قوله : أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] ، إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] ، فمعناه : يعلو أن يحيط به وصف الواصفین بل علم العارفین . وعلی ذلك يقال : تَعَالَى، نحو : تَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ النمل/ 63] ( ع ل و ) العلو العلی کے معنی بلند اور بر تر کے ہیں یہ علی ( مکسر اللام سے مشتق ہے جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی صفت واقع ہو جیسے : ۔ أَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ [ الحج/ 62] إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلِيًّا كَبِيراً [ النساء/ 34] تو اس کے معنی ہوتے ہیں وہ ذات اس سے بلند وبالا تر ہے کوئی شخص اس کا وصف بیان کرسکے بلکہ عارفین کا علم بھی وہاں تک نہیں پہچ سکتا ۔ عظیم وعَظُمَ الشیء أصله : كبر عظمه، ثم استعیر لكلّ كبير، فأجري مجراه محسوسا کان أو معقولا، عينا کان أو معنی. قال : عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] ، قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] ، ( ع ظ م ) العظم عظم الشئی کے اصل معنی کسی چیز کی ہڈی کے بڑا ہونے کے ہیں مجازا ہر چیز کے بڑا ہونے پر بولا جاتا ہے خواہ اس کا تعلق حس سے یو یا عقل سے اور عام اس سے کہ وہ مادی چیز ہو یا مون ی قرآن میں ہے : ۔ عَذابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ [ الزمر/ 13] بڑے سخت دن کا عذاب ) تھا ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ [ ص/ 67] کہہ دو کہ وہ ایک سخت حادثہ ہے ۔

تفسیر المدارک

اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ ہُوَ (اللہ تعالیٰ کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ مگر وہی) نحو : لفظ اللہ مبتداء اور جملہ اسمیہ لا الہ الا ہو اس کی خبر ہے۔ لا نفی جنس الٰہ اس کا اسم اِلّا ادات حصر ھُوَبدل از محل لَا۔ اَلْحَیُّ (زندہ) یعنی ایسی باقی رہنے والی ذات جس پر فنا کا کوئی راستہ نہ ہو۔ اَلْقَیُّوْمُ (مخلوق کو تھامنے والا) یعنی ایسی ہمیشگی والی ذات جو مخلوق کی تدبیر کرنے والی ہو۔ اور اس کی نگہبانی کرنے والی ہو۔ نیند و اونگھ کا فرق : لَا تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ (اس کو اونگھ اور نیند نہیں آتی) سنۃ اونگھ اعصاب دماغی کی وہ سستی جو نیند سے پہلے آئے۔ النوم نیند دماغ کے اعصاب میں استرخائی کیفیت کو کہتے ہیں۔ مفضل۔ : کہتے ہیں۔ کہ السنۃ سرکا بوجھل ہونا۔ النعاس آنکھ کا بوجھ النوم دل کے بوجھ کو کہتے ہیں۔ نحو : لا تاخذہ سنۃ ولا نوم یہ القیوم کی تاکید ہے کیونکہ جس کو نیند و اونگھ آجائے وہ قیوم نہیں بن سکتا۔ سب کو تھامنے والا : حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کی طرف وحی کی گئی۔ ان کو کہہ دو کہ میں آسمان و زمین کو اپنی قدرت سے تھامنے والا ہوں۔ اگر مجھے اونگھ یا نیند آجائے تو یہ دونوں فنا ہوجائیں (ابویعلی) لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ (زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اسی کا ہے) یعنی ملک و ملک کے لحاظ سے یعنی بادشاہ بھی وہی اور مالک بھی وہی۔ کبریائی باری تعالیٰ عزوجل : مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلاَّ بِاِذْنِہٖ (اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے کون سفارش کرسکتا ہے ؟ ) یعنی کسی کی ہمت و جرأت نہیں۔ کہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے ہاں شفاعت کرے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کبریائی اور عظمت کا بیان ہے اور کوئی شخص قیامت کے دن کلام کرنے کا اختیار نہ رکھتا ہوگا۔ مگر جب وہ خود اس کو کلام کی اجازت دے۔ اس میں کفار کے اس زعم کی تردید ہے۔ کہ بت ان کے لئے شفاعت کریں گے۔ یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ (وہی ان کے سامنے اور پیچھے کی چیزوں کو جانتا ہے) یعنی جو ان سے پہلے تھا۔ اور جو آئندہ ہوگا۔ نحو : ھم ضمیر عقلاء کا لحاظ کر کے لائی گئی۔ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ(اور اہل علم اللہ تعالیٰ کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے) یعنی اس کی معلومات میں سے۔ دعا کا یہ کلمہ اللہم اغفر علمک فینا۔ میں علم بمعنی معلوم ہے۔ اِلاَّ بِمَا شَآئَ (مگر وہ جو چاہے) یعنی مگر جو وہ سکھائے۔ کرسی کے متعلق اقوال : وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (اسکی کرسی آسمان اور زمین کو اپنے اندر سمانے والی ہے) یعنی اس کا علم اور اسی سے الکراسۃ کاپی کو کہتے ہیں۔ کیونکہ اس میں علم ہوتا ہے۔ اسی الکراسی کا معنی میں علماء اور علم کو کرسی کہا جاتا ہے۔ اسکے مرتبہ و عظمت کا لحاظ کر کے جو جہاں کی کرسی ہے اور یہ اسی طرح ہے جیسا کہ سورة غافر کی آیت ربنا وسعت کل شیٔ رحمۃ وعلما۔ دوسرا قول : ملک کو کرسی کہا۔ اس کے اس مرتبہ کا لحاظ کر کے جو کہ بادشاہت کی کرسی ہے۔ تیسرا قول : اس کا عرش۔ حسن (رح) کا یہی قول ہے۔ چوتھا قول : عرش کے علاوہ تخت ہے حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی کے مقابلہ میں ایک چھلے کی مانند ہیں۔ جو وسیع بیابان میں پڑا ہو۔ اور عرش کی فضیلت کرسی پر ایسی ہے جیسا کہ وسیع بیابان کو اس چھلے پر۔ ( ابن مردویہ) پانچواں قول : اس کی قدرت ‘ اس کی دلیل یہ ارشاد ہے ولا یؤدہٗ حفظہما۔ وَلَا یَئُوْدُہٗ (اس کو تھکاتی نہیں) یعنی اس کو بوجھل نہیں کرتی اور نہ اس پر گراں کرتی ہے۔ حِفْظُہُمَا (ان دونوں کی حفاظت) یعنی زمین و آسمان کی حفاظت۔ بلند اور عزت و جلال والا : وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ (وہ بلند وبالا عظمت والا ہے) یعنی اپنی ملک و سلطنت میں بلند اور عزت و جلال میں بڑائی والا ہے۔ دوسرا قول : العلی۔ ان صفات سے اعلیٰ جو اس کے لائق نہیں۔ العظیم۔ ایسی صفات سے موصوف جو اس کے لائق ہیں۔ یہ دونوں صفات کمال توحید کو جامع ہیں۔ نکتہ : آیت الکرسی میں جملوں کو بغیر حرف عطف کے لایا گیا۔ کیونکہ وہ جملے بطور بیان آئے ہیں۔ پس پہلا جملہ اس بات کو بیان کر رہا ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ تدبیر خلق کرنے والے ہیں اور وہ مخلوق کے نگہبان ہیں۔ اس میں غفلت برتنے والے نہیں۔ دوسرے : میں فرمایا۔ یہ تمام اس لئے کرتے ہیں کہ وہ مخلوق کے خود مالک ہیں۔ تیسرے : اس لئے کہ اس کی شان کبریائی والی ہے۔ اور چوتھے : اس لئے کہ وہ خلق کے حالات کا احاطہ کرنے والے ہیں۔ پانچویں : اس لئے کہ اس کا علم وسیع ہے اور اس کا علم تمام معلومات سے متعلق ہے۔ یا اس کے جلال اور عظیم قدرت کی وجہ سے۔ فضیلت آیت الکرسی : یہ آیت فضیلت والی ہے یہاں تک کہ اس کی فضیلت میں بہت سی روایات ہیں۔ ایک روایت ان میں سے وہ ہے جس کو حضرت علی ؓ نے بیان کیا۔ کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔ جس نے آیت الکرسی پڑھی۔ ہر فرض نماز کے بعد۔ اسکو دخول جنت سے صرف موت ہی رکاوٹ ہے اور اس پر ہمیشگی صدیق یا عابد ہی کرتا ہے۔ جس نے اسکو بستر پر لیٹتے ہوئے پڑھا۔ اللہ تعالیٰ اسکے نفس اور اسکے پڑوس اور پڑوس کے پڑوس اور اس کے اردگرد گھروں کو امان میں رکھتے ہیں۔ (بیہقی) دوسری روایت : نبی ( علیہ السلام) نے فرمایا۔ سیدالبشر آدم ( یعنی سب سے پہلے انسان آدم) اور عرب کے سردار محمد (ﷺ) ہیں اور یہ بات میں فخر سے نہیں کہتا۔ (اس روایت میں نکارت ہے کیونکہ صحیح مرفوع روایت انا سید ولد آدم ولا فخر کے الفاظ مروی ہیں) فارسیوں کے سردار سلمان ؓ اور رومیوں کے سردار صہیب ؓ اور حبشیوں کے سردار بلال ؓ اور پہاڑوں کا سردار طور اور دنوں کا سردار جمعہ اور کلاموں کا سردار قرآن۔ قرآن کی سردار سورة بقرہ اور بقرہ کی آیات کی سردار آیت الکرسی۔ (دیلمی فی مسند الفردوس) نمبر 3۔ فرمایا۔ جس گھر میں آیت الکرسی پڑھی جائے۔ اس کو شیاطین تیس دنوں تک چھوڑ جاتے ہیں۔ اور اس گھر میں جادوگر اور جادوگرنی چالیس راتوں تک داخل نہیں ہوسکتی۔ (بقول ابن حجر اس کی اصل نہیں ملی) نمبر 4۔ فرمایا جس نے سوتے وقت آیت الکرسی پڑھی۔ اس پر ایک فرشتہ مقرر کردیا جاتا ہے جو اس کی حفاظت کرتا ہے یہاں تک کہ صبح طلوع ہو۔ (در منثور) نمبر 5۔ اور فرمایا۔ جس نے یہ دو آیات شام کے وقت پڑھیں تو صبح تک اس کی حفاظت کی جاتی ہے اور اگر صبح بھی پڑھ لیں۔ تو شام تک اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ نمبر 1۔ آیت الکرسی نمبر 2۔ حٰمٓ مومن کی آیات الیہ المصیر تک۔ (ترمذی) وجہ فضیلت : کیونکہ یہ دونوں آیات اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی تعظیم اور بزرگی اور عظیم صفات پر مشتمل ہیں۔ اور رب العزت کے تذکرہ سے اور کونسا تذکرہ بڑھ کر ہوسکتا ہے جو اس کا ذکر ہوگا وہ تمام ذکروں سے افضل ہے اس سے بخوبی یہ معلوم ہوگیا کہ تمام علوم میں سب سے اعلیٰ علم توحید ہے۔ نکتہ : سب سے زیادہ عظمت والی آیت، آیت الکرسی۔ سب سے زیادہ خوف والی آیت۔ من یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ۔ اور سب سے زیادہ امید والی آیت قل یا عبادی الذین اسرفوا۔ کذاعن ابن مسعود ؓ

تفسیر ابن کثیر:

عظیم تر آیت تعارف اللہ بزبان اللہ یہ آیت آیت الکرسی ہے، جو بڑی عظمت والی آیت ہے۔ حضرت ابی بن کعب سے رسول اللہ ﷺ دریافت فرماتے ہیں کہ کتاب اللہ میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے ؟ آپ جواب دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول ہی کو اس کا سب سے زیادہ علم ہے۔ آپ پھر یہی سوال کرتے ہیں، بار بار کے سوال پر جواب دیتے ہیں کہ آیت الکرسی، حضور ﷺ فرماتے ہیں ابو المنذر اللہ تعالیٰ تجھے تیرا علم مبارک کرے، اس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس کی زبان ہوگی اور ہونٹ ہوں گے اور یہ بادشاہ حقیقی کی تقدیس بیان کرے گی اور عرش کے پایہ سے لگی ہوئی ہوگی (مسند احمد) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے لیکن یہ پچھلا قسمیہ جملہ اس میں نہیں، حضرت ابی بن کعب فرماتے ہیں میرے ہاں ایک کھجور کی بوری تھی۔ میں نے دیکھا کہ اس میں سے کھجوریں روز بروز گھٹ رہی ہیں، ایک رات میں جاگتا رہا اس کی نگہبانی کرتا رہا، میں نے دیکھا ایک جانور مثل جوان لڑکے کے آیا، میں نے اسے سلام کیا اس نے میرے سلام کا جواب دیا، میں نے کہا تو انسان ہے یا جن ؟ اس نے کہا میں جن ہوں، میں نے کہا ذرا اپنا ہاتھ تو دے، اس نے ہاتھ بڑھا دیا، میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو کتے جیسا ہاتھ تھا اور اس پر کتے جیسے ہی بال تھے، میں نے کہا کیا جنوں کی پیدائش ایسی ہی ہے ؟ اس نے کہا تمام جنات میں سب سے زیادہ قوت طاقت والا میں ہی ہوں، میں نے کہا بھلا تو میری چیز چرانے پر کیسے دلیر ہوگیا ؟ اس نے کہا مجھے معلوم ہے کہ تو صدقہ کو پسند کرتا ہے، ہم نے کہا پھر ہم کیوں محروم رہیں ؟ میں نے کہا تمہارے شر سے بچانے والی کون سی چیز ہے ؟ اس نے کہا آیت الکرسی۔ صبح کو جب میں سرکار محمدی ﷺ میں حاضر ہوا تو میں نے رات کا سارا واقعہ بیان کیا، آپ ﷺ نے فرمایا خبیث نے یہ بات تو بالکل سچ کہی (ابو یعلی) ایک بار مہاجرین کے پاس آپ ﷺ گئے تو ایک شخص نے کہا حضور ﷺ قرآن کی آیت کون سی بڑی ہے، آپ نے یہی آیت الکرسی پڑھ کر سنائی (طبرانی) آپ ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ میں سے ایک سے پوچھا تم نے نکاح کرلیا ؟ اس نے کہا حضرت میرے پاس مال نہیں، اس لئے نکاح نہیں کیا، آپ ﷺ نے فرمایا قل ھو اللہ یاد نہیں ؟ اس نے کہا وہ تو یاد ہے، فرمایا چوتھائی قرآن تو یہ ہوگیا، کیا قل یا ایھا الکافرون یاد نہیں، کہا ہاں وہ بھی یاد ہے، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا، پھر پوچھا کیا اذا زلزلت بھی یاد ہے ؟ کہا ہاں، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا، کیا اذا جاء نصر اللہ بھی یاد ہے ؟ کہا ہاں، فرمایا چوتھائی یہ، کہا آیت الکرسی یاد ہے ؟ کہا ہاں، فرمایا چوتھائی قرآن یہ ہوا (مسند احمد) حضرت ابوذر فرماتے ہیں میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے، میں آ کر بیٹھ گیا، آپ ﷺ نے پوچھا کیا تم نے نماز پڑھ لی ؟ میں نے کہا نہیں، فرمایا اٹھو نماز ادا کرلو۔ میں نے نماز پڑھی پھر آ کر بیٹھا تو آپ ﷺ نے فرمایا ابوذر شیطان انسانوں اور جنوں سے پناہ مانگ، میں نے کہا حضور کیا انسانی شیطان بھی ہوتے ہیں ؟ فرمایا ہاں، میں نے کہا حضور ﷺ کی نماز کی نسبت کیا ارشاد ہے ؟ فرمایا وہ سراسر خیر ہے جو چاہے کم حصہ لے جو چاہے زیادہ، میں نے کہا حضور روزہ ؟ فرمایا کفایت کرنے والا فرض ہے اور اللہ کے نزدیک زیادتی ہی، میں نے کہا صدقہ ؟ فرمایا بہت زیادہ اور بڑھ چڑھ کر بدلہ دلوانے والا، میں نے کہا سب سے افضل صدقہ کون سا ہے ؟ فرمایا کم مال والے کا ہمت کرنا یا پوشیدگی سے محتاج کی احتیاج پوری کرنا، میں نے سوال کیا سب سے پہلے نبی کون ہیں ؟ فرمایا حضرت آدم، میں نے کہا وہ نبی تھے ؟ فرمایا نبی اور اللہ سے ہمکلام ہونے والے، میں نے پوچھا رسولوں کی تعداد کیا ہے ؟ فرمایا تین سو اور کچھ اوپر دس بہت بڑی جماعت، ایک روایت میں تین سو پندرہ کا لفظ ہے، میں نے پوچھا حضور ﷺ آپ پر سب سے زیادہ بزرگی والی آیت کون سی اتری ؟ فرمایا آیت الکرسی اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم الخ، (مسند احمد) حضرت ابو ایوب انصاری فرماتے ہیں کہ میرے خزانہ میں سے جنات چرا کرلے جایا کرتے تھے، میں نے آنحضرت ﷺ سے شکایت کی، آپ ﷺ نے فرمایا جب تو اسے دیکھے تو کہنا بسم اللہ اجیبی رسول اللہ جب وہ آیا میں نے یہی کہا، پھر اسے چھوڑ دیا۔ میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا وہ پھر بھی آئے گا، میں نے اسے اسی طرح دو تین بار پکڑا اور اقرار لے لے کر چھوڑا دیا، میں نے حضور ﷺ سے ذکر کیا اور آپ ﷺ نے ہر دفعہ یہی فرمایا کہ وہ پھر بھی آئے گا، آخر مرتبہ میں نے کہا اب میں تجھے نہ چھوڑوں گا، اس نے کہا چھوڑ دے میں تجھے ایک ایسی چیز بتاؤں گا کہ کوئی جن اور شیطان تیرے پاس ہی نہ آسکے، میں نے کہا اچھا بتاؤ، کہا وہ آیت الکرسی ہے۔ میں نے آکر حضور ﷺ سے ذکر کیا آپ ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا، گو وہ جھوٹا ہے (مسند احمد) صحیح بخاری شریف میں کتاب فضائل القرآن اور کتاب الوکالہ اور صفۃ ابلیس کے بیان میں بھی یہ حدیث حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے اس میں ہے کہ زکوٰۃ رمضان کے مال پر میں پہرہ دے رہا تھا جو یہ شیطان آیا اور سمیٹ سمیٹ کر اپنی چادر میں جمع کرنے لگا، تیسری مرتبہ اس نے بتایا کہ اگر تو رات بستر پر جا کر اس آیت کو پڑھ لے گا تو اللہ کی طرف سے تجھ پر حافظ مقرر ہوگا اور صبح تک شیطان تیرے قریب بھی نہ آسکے گا (بخاری) دوسری روایت میں ہے کہ یہ کھجوریں تھیں اور مٹھی بھر وہ لے گیا تھا اور آپ نے فرمایا تھا کہ اگر اسے پکڑنا چاہے تو جب وہ دروازے کھولے کہنا سبحان من سخرک محمد شیطان نے عذر یہ بتایا تھا کہ ایک فقیر جن کے بال بچوں کیلئے میں یہ لے جا رہا تھا (ابن مردویہ) پس یہ واقعہ تین صحابہ کا ہوا، حضرت ابی بن کعب کا، حضرت ابو ایوب انصاری کا اور حضرت ابوہریرہ کا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک انسان کی ایک جن سے ملاقات ہوئی جن نے کہا مجھ سے کشتی کرے گا ؟ اگر مجھے گرا دے گا تو میں تجھے ایک ایسی آیت سکھاؤں گا کہ جب تو اپنے گھر جائے اور اسے پڑھ لے تو شیطان اس میں نہ آسکے، کشتی ہوئی اور اس آدمی نے جن کو گرا دیا، اس شخص نے جن سے کہا تو تو نحیف اور ڈرپوک ہے اور تیرے ہاتھ مثل کتے کے ہیں، کیا جنات ایسے ہی ہوتے ہیں یا صرف تو ہی ایسا ہے ؟ کہا میں تو ان سب میں سے قوی ہوں، پھر دوبارہ کشتی ہوئی اور دوسری مرتبہ بھی اس شخص نے گرا دیا تو جن نے کہا جو آیت میں نے سکھانے کیلئے کہا تھا وہ آیت الکرسی ہے، جو شخص اپنے گھر میں جاتے ہوئے اسے پڑھ لے تو شیطان اس گھر سے گدھے کی طرح چیختا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ جس شخص سے کشتی ہوئی تھی وہ شخص عمر تھے (کتاب الغریب) رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں سورة بقرہ میں ایک آیت ہے جو قرآن کریم کی تمام آیتوں کی سردار ہے جس گھر میں وہ پڑھی جائے وہاں سے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ وہ آیت آیت الکرسی ہے (مستدرک حاکم) ترمذی میں ہے ہر چیز کی کوہان اور بلندی ہے اور قرآن کی بلندی سورة بقرہ ہے اور اس میں بھی آیت الکرسی تمام آیتوں کی سردار ہے۔ حضرت عمر کے اس سوال پر کہ سارے قرآن میں سب سے زیادہ بزرگ آیت کون سی ہے ؟ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا مجھے خوب معلوم ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ وہ آیت آیت الکرسی ہے (ابن مردویہ) حضور ﷺ فرماتے ہیں ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے۔ ایک تو آیت الکرسی، دوسری آیت الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم (مسند احمد) اور حدیث میں ہے کہ وہ اسم اعظم جس نام کی برکت سے جو دعا اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے وہ قبول فرماتا ہے۔ وہ تین سورتوں میں ہے، سورة بقرہ، سورة آل عمران اور سورة طہ (ابن مردویہ) ہشام بن عمار خطیب دمشق فرماتے ہیں سورة بقرہ کی آیت آیت الکرسی ہے اور آل عمران کی پہلی ہی آیت اور طہ کی آیت و عنت الوجوہ للحی القیوم ہے اور حدیث میں ہے جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لے اسے جنت میں جانے سے کوئی چیز نہیں روکے گی سوائے موت کے (ابن مردویہ) اس حدیث کو امام نسائی نے بھی اپنی کتاب عمل الیوم واللیلہ میں وارد کیا ہے اور ابن حبان نے بھی اسے اپنی صحیح میں وارد کیا ہے اس حدیث کی سند شرط بخاری پر ہے لیکن ابو الفرج بن جوزی اسے موضوع کہتے ہیں واللہ اعلم، تفسیر ابن مردویہ میں بھی یہ حدیث ہے لیکن اس کی اسناد بھی ضعیف ہے۔ ابن مردویہ میں کی ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ بن عمران کی طرف وحی کی کہ ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھ لیا کرو، جو شخص یہ کرے گا میں اسے شکرگزار دل اور ذکر کرنے والی زبان دوں گا۔ اور اسے نبیوں کا ثواب اور صدیقوں کا عمل دوں گا۔ جس عمل کی پابندی صرف انبیاء اور صدیقین سے ہی ہوتی ہے یا اس بندے سے جس کا دل میں نے ایمان کیلئے آزما لیا ہو یا اسے اپنی راہ میں شہید کرنا طے کرلیا ہو، لیکن یہ حدیث بہت منکر ہے۔ ترمذی کی حدیث میں ہے جو شخص سورة حم المومنین کو الیہ المصیر تک اور آیت الکرسی کو صبح کے وقت پڑھ لے گا وہ شام تک اللہ کی حفاظت میں رہے گا اور شام کو پڑھنے والے کی صبح تک حفاظت ہوگی لیکن یہ حدیث بھی غریب ہے۔ اس آیت کی فضیلت میں اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں لیکن ایک تو اس لئے کہ ان کی سندیں ضعیف ہیں اور دوسرے اس لئے بھی کہ ہمیں اختصار مدنظر ہے، ہم نے انہیں وارد نہیں کیا۔ اس مبارک آیت میں دس مستقل جملے، پہلے جملے میں اللہ تعالیٰ کی واحدانیت کا بیان ہے کہ کل مخلوق کا وہی ایک اللہ ہے۔ دوسرے جملے میں ہے کہ وہ خود زندہ ہے جس پر کبھی موت نہیں آئے گی، دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے۔ قیوم کی دوسری نشانی قرأت قیام بھی ہے پس تمام موجودات اس کی محتاج ہے اور وہ سب سے بےنیاز ہے، کوئی بھی بغیر اس کی اجازت کے کسی چیز کا سنبھالنے والا نہیں، جیسے اور جگہ ہے (وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ تَــقُوْمَ السَّمَاۗءُ وَالْاَرْضُ بِاَمْرِهٖ) 30۔ الروم :25) یعنی اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ آسمان و زمین اسی کے حکم سے قائم ہیں، پھر فرمایا نہ تو اس پر کوئی نقصان آئے نہ کبھی وہ اپنی مخلوق سے غافل اور بیخبر ہو، بلکہ ہر شخص کے اعمال پر وہ حاضر، ہر شخص کے احوال پر وہ ناظر، دل کے ہر خطرے سے وہ واقف، مخلوق کا کوئی ذرہ بھی اس کی حفاظت اور علم سے کبھی باہر نہیں، یہی پوری " قیومیت " ہے۔ اونگھ، غفلت، نیند اور بیخبر ی سے اس کی ذات مکمل پاک ہے۔ صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ کھڑے ہو کر صحابہ کرام کو چار باتیں بتائیں، فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ سوتا نہیں، نہ نیند اس کی ذات کے لائق ہے، وہ ترازو کا حافظ ہے جس کیلئے چاہے جھکا دے، جس کیلئے چاہے نہ جھکائے، دن کے اعمال رات سے پہلے اور رات کے اعمال دن سے پہلے اس کی طرف لے جائے جاتے ہیں، اس کے سامنے نور یا آگ کے پردے ہیں اگر وہ ہٹ جائیں تو اس کے چہرے کی تجلیاں ان تمام چیزوں کو جلا دیں جن تک اس کی نگاہ پہنچے، عبدالرزاق میں حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ موسیٰ نے فرشتوں سے پوچھا کہ کیا اللہ تعالیٰ سوتا بھی ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف وحی بھیجی کہ حضرت موسیٰ کو تین راتوں تک بیدار رکھیں، انہوں نے یہی کیا، تین راتوں تک سونے نہ دیا، اس کے بعد دو بوتلیں ان کے ہاتھوں میں دے دیں گئیں اور کہہ دیا کہ انہیں تھامے رہو خبردار یہ گرنے اور ٹوٹنے نہ پائیں، آپ نے انہیں تھام لیا لیکن جاگا ہوا تھا، نیند کا غلبہ ہوا، اونگھ آنے لگی، آنکھ بند ہوجاتی لیکن پھر ہوشیار ہوجاتے مگر کب تک ؟ آخر ایک مرتبہ ایسا جھکولا آیا کہ بوتلیں ٹوٹ گئیں، گویا انہیں بتایا گیا کہ جب ایک اونگھنے اور سونے والا دو بوتلوں کو نہیں سنبھال سکتا تو اللہ تعالیٰ اگر اونگھے یا سوئے تو زمین و آسمان کی حفاظت کس طرح ہو سکے ؟ لیکن یہ بنی اسرائیل کی بات ہے اور کچھ دل کو لگتی بھی نہیں اس لئے کہ یہ ناممکن ہے کہ موسیٰ جیسے جلیل القدر عارف باللہ اللہ جل شانہ کی اس صفت سے ناواقف ہوں اور انہیں اس میں تردد ہو کہ اللہ ذوالجلال والا کرام جاگتا ہی رہتا ہے یا سو بھی جاتا ہے اور اس سے بھی بہت زیادہ غرابت والی وہ حدیث ہے جو ابن حریر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس واقعہ کو منبر پر بیان فرمایا۔ یہ حدیث بہت ہی غریب ہے اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اس کا فرمان پیغمبر ہونا ثابت نہیں بلکہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے یہ سوال کیا تھا اور پھر آپ کو بوتلیں پکڑوائی گئیں اور وہ بوجہ نیند کے نہ سنبھال سکے، اور حضور ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی، آسمان و زمین کی تمام چیزیں اس کی غلامی میں اور اس کی ماتحتی میں اور اس کی سلطنت میں ہیں جیسے فرمایا کل ممن فی السموات والارض الخ، یعنی زمین و آسمان کی کل چیزیں رحمن کی غلامی میں حاضر ہونے والی ہیں، ان سب کو رب العالمین نے ایک ایک کرکے گن رکھا ہے۔ ساری مخلوق تنہا تنہا اس کے پاس حاضر ہوگی، کوئی نہیں جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش یا شفاعت کرسکے، جیسے ارشاد ہے و کم من ملک فی السموات الخ، یعنی آسمانوں میں بہت سے فرشتے ہیں لیکن ان کی شفاعت بھی کچھ فائدہ نہیں دے سکتی، ہاں یہ اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کی منشای اور مرضی سے ہو، اور جگہ ہے ولایشفعون الا لمن ارتضی کسی کی وہ شفاعت نہیں کرتے مگر اس کی جس سے اللہ خوش ہو، پس یہاں بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت اس کا جلال اور اس کی کبریائی بیان ہو رہی ہے، کہ بغیر اس کی اجازت اور رضامندی کے کسی کی جرات نہیں کہ اس کے سامنے کسی کی سفارش میں زبان کھولے، حدیث شفاعت میں بھی ہے کہ میں اللہ کے عرش کے نیچے جاؤں گا اور سجدے میں گر پڑوں گا اللہ تعالیٰ مجھے سجدے میں ہی چھوڑ دے گا جب تک چاہے، پھر کہا جائے گا کہ اپنا سر اٹھائو، کہو، سنا جائے گا، شفاعت کرو، منظور کی جائے گی، آپ فرماتے ہیں پھر میرے لئے حد مقرر کردی جائے گی اور میں انہیں جنت میں لے جاؤں گا وہ اللہ تمام گزشتہ موجودہ اور آئندہ کا عالم ہے اس کا علم تمام مخلوق کا احاطہ کئے ہوئے ہے جیسے اور جگہ فرشتوں کا قول ہے کہ مانتنزل الا بامر ربک الخ، ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر اتر نہیں سکتے ہمارے آگے پیچھے اور سامنے سب کی چیزیں اسی کی ملکیت ہیں اور تیرا رب بھول چوک سے پاک ہے۔ کرسی سے مراد حضرت عبداللہ بن عباس سے علم منقول ہے، دوسرے بزرگوں سے دونوں پاؤں رکھنے کی جگہ منقول ہے، ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مروی ہے، حضرت ابوہریرہ سے بھی مرفوعاً یہی مروی ہے لیکن رفع ثابت نہیں، ابو مالک فرماتے ہیں کرسی عرش کے نیچے ہے، سدی کہتے ہیں آسمان و زمین کرسی کے جوف میں اور کرسی عرش کے سامنے، ابن عباس فرماتے ہیں ساتوں زمینیں اور ساتوں آسمان اگر پھیلا دئیے جائیں اور سب کو ملا کر بسیط کردیا جائے تو بھی کرسی کے مقابلہ میں ایسے ہوں گے جیسے ایک حلقہ کسی چٹیل میدان میں، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہوں گے جیسے ایک حلقہ کسی چٹییل میدان میں، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ ساتوں آسمان کرسی میں ایسے ہی ہیں جیسے سات درہم ڈھال میں اور حدیث میں کرسی عرش کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک لوہے کا حلقہ چٹیل میدان میں، ابو ذرغفاری نے ایک مرتبہ کرسی کے بارے میں سوال کیا تو حضور ﷺ نے قسم کھا کر یہی فرمایا اور فرمایا کہ پھر عرش کی فضیلت کرسی پر بھی ایسی ہی ہے، ایک عورت نے آن کر حضور ﷺ سے درخواست کی کہ میرے لئے دعا کیجئے کہ اللہ مجھے جنت میں لے جائے، آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی کرسی نے آسمان و زمین کو گھیر رکھا ہے مگر جس طرح نیا پالان چرچراتا ہے وہ کرسی عظمت پروردگار سے چرچرا رہی ہے، گو یہ حدیث بہت سی سندوں سے بہت سی کتابوں میں مروی ہے لیکن کسی سند میں کوئی راوی غیر مشہور ہے کسی میں ارسال ہے، کوئی موقوف ہے، کسی میں بہت کچھ غریب زبادتی ہے، کسی میں حذف ہے اور ان سب سے زیادہ غریب حضرت جسیر والی حدیث ہے جو ابو داؤد میں مروی ہے۔ اور وہ روایات بھی ہیں جن میں قیامت کے روز کرسی کا فیصلوں کیلئے رکھا جانا مروی ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ اس آیت میں یہ ذکر نہیں واللہ اعلم، مسلمانوں کے ہئیت دان متکلمین کہتے ہیں کہ کرسی آٹھواں آسمان ہے جسے فلک ثوابت کہتے ہیں اور جس پر نواں آسمان ہے اور جسے فلک اثیر کہتے ہیں اور اطلس بھی، لیکن دوسرے لوگوں نے اس کی تردید کی ہے، حسن بصری فرماتے ہیں کرسی ہی عرش ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ کرسی اور ہے اور عرش اور ہے، جو اس سے بڑا ہے جیسا کہ آثار احادیث میں وارد ہوا ہے، علامہ ابن جریر تو اس بارے میں حضرت عمر والی روایت پر اعتماد کئے ہوئے ہیں لیکن میرے نزدیک اس کی صحت میں کلام ہے واللہ اعلم، پھر فرمایا کہ اللہ پر ان کی حفاظت بوجھل اور گراں نہیں بلکہ سہل اور آسان ہے۔ وہ ساری مخلوق کے اعمال پر خبردار تمام چیزوں پر نگہبان کوئی چیز اس سے پوشیدہ اور انجان نہیں بلکہ سہل اور آسان ہے، تمام مخلوق اس کے سانے حقیر متواضح ذلیل پست محتاج اور فقیر، وہ غنی وہ حمید وہ جو کچھ چاہے کر گزرنے والا، کوئی اس پر حاکم نہیں بازپرس کرنے والا، ہر چیز پر وہ غالب، ہر چیز کا حافظ اور مالک، وہ علو، بلندی اور رفعت والا وہ عظمت بڑائی اور کبریائی والا، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، نہ اس کے سوا کوئی خبرگیری کرنے والا نہ پالنے پوسنے والا وہ کبریائی والا اور فخر والا ہے، اسی لئے فرمایا وھو العلی العظیم بلندی اور عظمت والا وہی ہے۔ یہ آیتیں اور ان جیسی اور آیتیں اور صحیح حدیثیں جتنی کچھ ذات و صات باری میں وارد ہوئی ہیں ان سب پر ایمان لانا بغیر کیفیت معلوم کئے اور بغیر تشبیہ دئیے جن الفاظ میں وہ وارد ہوئی ہیں ضروری ہے اور یہی طریقہ ہمارے سلف صالحین رضوان اللہ علیھم اجمعین کا تھا۔

تفسیر القرطبی:

آیت نمبر : 255۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ یہ آیۃ الکرسی ہے، یہ قرآن کی آیات کی سردار ہے اور سب سے بڑی آیت ہے، جیسا کہ سورة الفاتحہ میں اس کا بیان گزر چکا ہے، یہ رات کے وقت نازل ہوئی اور حضور نبی مکرم ﷺ نے حضرت زید ؓ کو بلایا اور یہ آیت لکھوا دی۔ حضرت محمد بن حنیفہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا : جب آیۃ الکرسی نازل ہوئی دنیا میں تمام بت گر گئے اور اسی طرح دنیا میں تمام بادشاہ گر پڑے اور ان کے سروں سے تاج گر گئے اور شیاطین بھاگ پڑے، وہ آپس میں ایک دوسرے کو مارنے لگے اور ابلیس کے پاس تمام جمع ہوگئے اور اسے اس کے بارے مطلع کیا، تو اس نے انہیں کہا کہ وہ اس کے بارے تفتیش کریں، چناچہ وہ مدینہ طیبہ کی طرف آئے تو انہیں یہ خبر موصول ہوئی کہ آیت الکرسی نازل ہوئی ہے۔ ائمہ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت بیان کی ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے عرض کی : اللہ ورسولہ اعلم، تو آپ ﷺ نے فرمایا ” اے ابا المنذر ! کیا تو جانتا ہے تیرے پاس کتاب اللہ میں سے کون سی آیت سب سے بڑی ہے ؟ تو میں نے عرض کی : (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو، الحی القیوم “۔ تو آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا : ” اے ابا المنذر ! تجھے علم مبارک ہو (1) (صحیح مسلم، فضائل القرآن، جلد 1، صفحہ 271، وزارت سنن ابی داؤد، باب ماجاء فی آیۃ الکرسی، حدیث نمبر 1248، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) حکیم ترمذی ابو عبداللہ نے یہ اضافہ ذکر کیا ہے۔ ” قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، اس آیت کی ایک زبان ہے اور دو ہونٹ ہیں ساق عرش کے پاس شہنشاہ مطلق کی پاکی بیان کرتی ہے۔ (2) (نوادر الاصول جلد 1، صفحہ 337، 338) ابو عبداللہ نے کہا ہے : یہ آیت اللہ تعالیٰ جل ذکرہ نے اسے نازل فرمایا اور اس کا ثواب اس کے پڑھنے والے کے لئے دنیا اور آخرت میں رکھا ہے، پس دنیا میں تو یہ ہے کہ یہ اپنے پڑھنے والے کی آفات ومصائب سے حفاظت کرتی ہے نوف البکالی سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا : آیت الکرسی تو رات میں ولیۃ اللہ کے نام سے پکاری جاتی ہے اور اس کے پڑھنے والوں کو ملکوت السموات والارض میں عزیز پکارا جاتا ہے۔ فرمایا : حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ جب اپنے گھر میں داخل ہوتے تو وہ اپنے گھر کے چاروں کونوں میں آیۃ الکرسی پڑھتے تھے، اس کا معنی یہ ہے کہ آپ اس کے ذریعے چاروں اطراف سے اپنی حفاظت کا انتظام کرتے تھے اور یہ کہ شیطان آپ کے گھر کے کونوں سے آپ سے دور ہوجائے۔ (3) (نوادر الاصول جلد 1، صفحہ 338) حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے ایک جن سے کشتی کی اور حضرت عمر ؓ نے اسے پچھاڑ دیا تو جن نے آپ کو کہا : مجھ سے ذرا ہٹو یہاں تک کہ میں آپ کو وہ بتاتا ہوں جس کے ساتھ تم ہم سے محفوظ رہ سکتے ہو، تو آپ نے اسے چھوڑ دیا اور اس سے پوچھا تو اس نے کہا : بلاشبہ تم ہم سے آیۃ الکرسی کے ساتھ محفوظ رہ سکتے ہو۔ (4) (نوادر الاصول جلد 1، صفحہ، 338) میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ صحیح ہے اور حدیث میں ہے : جس نے ہر نماز کے پیچھے آیۃ الکرسی پڑھی تو اس کی روح قبض کرنے کی ذمہ داری رب ذوالجلال لے لیتا ہے اور وہ اس آدمی کی طرح ہے جس نے انبیاء (علیہم السلام) کی معیت میں جنگ لڑی یہاں تک کہ اسے شہید کردیا گیا۔ اور حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے کہا : میں نے تمہارے نبی ﷺ کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی تو اس کے لئے موت کے سوا کوئی شے جنت میں داخل ہونے کے مانع نہیں ہے اور اس پر صدیق اور عابد ہی مواظبت اختیار کرتا ہے اور جس نے اسے اس وقت پڑھا جب وہ اپنے بستر پر گیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اس کے پڑوسیوں کو اور اس کے پڑوسیوں کے پڑوسیوں کو اور اس کے اردگرد کے گھروں کو محفوظ فرمایا دیا (1) (مشکوۃ المصابیح، کتاب الذکر بعد الصلوۃ جلد 1، صفحہ 89) اور بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے بیان کیا : رسول اللہ ﷺ نے رمضان المبارک کی زکوۃ (صدقہ فطر) کی حفاظت میرے سپرد کی، آگے پورا قصہ ذکر کیا اور اس میں ہے : تو میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ خیال یہ ہے کہ وہ مجھے ایسے کلمات سکھا دے گا جس کے سبب اللہ تعالیٰ مجھے نفع پہنچائے گا، سو میں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا، آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ کیا ہیں “ ؟ میں نے عرض کی : اس نے مجھے کہا ہے : جب تو اپنے بستر میں جائے تو اول سے آخر تک آیۃ الکرسی پڑھا کر (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “۔ اور اس نے مجھے کہا ہے : تجھ پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلسل محافظ رہے گا اور صبح ہونے تک کوئی شیطان تیرے قریب نہیں آئے گا اور وہ (صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) خیر کی چیز لینے کے بہت زیادہ حریص تھے تو حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : بلاشبہ اس نے تجھ سے سچ کہا ہے حالانکہ وہ بہت جھوٹا ہے، اے ابوہریرہ ! کیا تو اسے جانتا ہے جس سے تو تینوں راتیں باتیں کرتا رہا ہے ؟ “ عرض کی نہیں : آپ ﷺ نے فرمایا : ” وہ شیطان ہے (2) مسند داری ابو محمد میں سے شعبی نے کہا ہے : حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا ہے : حضور نبی مکرم ﷺ کے اصحاب میں سے ایک آدمی کا ایک جن سے آمنا سامنا ہوگیا تو وہ آپس میں کشتی کرنے لگے تو اس صحابی نے اسے بچھاڑ دیا۔ تو اس آدمی نے اسے کہا : بلاشبہ میں تجھے کمزور بلند غبار کی مانند دیکھ رہا ہوں گویا تیرے دونوں ہاتھ کتے کے ہاتھوں کی طرح ہیں، کیا تم اسی طرح ہوتے ہو، اے جنوں کے گروہ، ! یا تو ان میں سے اس طرح ہے ؟ اس نے کہا : نہیں قسم بخدا ! بلاشبہ میں ان میں سے مضبوط پسلیوں والا ہوں، البتہ تو دوبارہ میرے ساتھ کشتی کر، اگر تو نے مجھے پچھاڑ لیا تو میں تجھے ایسی شے سکھا دوں گا جو تیرے لئے نفع بخش ہوگی۔ صحابی نے فرمایا : ہاں ٹھیک ہے۔ پھر انہوں نے اسے پچھاڑ دیا، تو اس نے کہا کیا تم آیت الکرسی پڑھتے ہو : (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو، الحی القیوم ؟ انہوں نے کہا : ہاں، تو اس نے کہا کیونکہ تم جب بھی اسے اپنے گھر میں پڑھو گے تو شیطان گدھے کی مثل ہوا خارج کرتے ہوئے اس سے نکل جائے گا اور پھر صبح ہونے تک اس میں داخل نہ ہوگا، اسے ابو نعیم نے ابو عاصم ثقفی سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کیا ہے۔ اور ابو عبیدہ نے اسے حضرت عمر ؓ کی غریب حدیث میں ذکر کیا ہے۔ ابو معاویہ نے اس کے بارے ہمیں ابو عاصم ثقفی سے، انہوں شعبی سے اور انہوں نے شعبی سے روایت کیا ہے، اور ابو عبیدہ نے اسے حضرت عمر ؓ کی غریب حدیث میں ذکر کیا ہے، ابو معاویہ نے اس کے بارے میں ہمیں ابو عاصم ثقفی سے، انہوں نے شعبی سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ ؓ سے بیان کیا ہے۔ فرمایا کہ حضرت عبداللہ ﷺ کو کہا گیا : کیا وہ عمر ؓ تھے ؟ تو انہوں نے فرمایا : امکان یہی ہے کہ وہ عمر کے سوا کوئی نہیں ہو سکتا۔ ابو محمد دارمی نے کہا ہے۔ الفئیل کا معنی ہے : باریک (کمزور) الشخیت کا معنی ہے : انتہائی لاغر کمزور، الضلیع کا معنی ہے : پیٹ سے خارج ہونے والی ہوا، اور یہ لفظ حاء کے ساتھ الحبج بھی ہے۔ اور ترمذی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” جس نے حم۔ المومن۔ الیہ المصیر “۔ تک اور آیۃ الکرسی صبح کے وقت پڑھیں تو شام ہونے تک وہ ان دونوں کے سبب محفوظ رہے گا اور جس نے ان دونوں کو شام کے وقت پڑھا تو وہ پڑھا تو وہ صبح ہونے تک ان کے محفوظ رہے گا (1) “ فرمایا : یہ حدیث غریب ہے۔ اور ابو عبداللہ الترمذی الحکیم نے کہا ہے : روایت کیا گیا ہے کہ مومنین کے لئے محافظت کی خاطر ہر نماز کے بعد انہیں پڑھنا مستحب ہے۔ حضرت انس ؓ سے مرفوع حدیث مروی ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف وحی فرمائی جس نے ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھنے پر دوام اختیار کیا میں اسے اس سے زیادہ عطا کروں گا جو میں شکر کرنے والوں کو عطا کرتا ہوں اور انبیاء (علیہم السلام) کا اجر اور صدیقین کے اعمال کا اجر اور میں اس پر اپنا دست رحمت پھیلا دیتا ہوں اور اس کے لئے کوئی شے رکاوٹ نہیں ہے کہ میں اسے جنت میں داخل کروں مگر یہ کہ ملک الموت اسے لے آئے “۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! جس نے اس کے بارے سنا وہ اس پر دوام اختیار نہیں کرے گا ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” میں یہ اپنے بندوں میں سے کسی کو عطا نہیں کروں گا سوائے نبی کے یا صدیق کے یا ایسے آدمی کے جس سے میں محبت کرتا ہوں یا ایسے آدمی کے جس کے بارے میں ارادہ کروں کہ وہ میرے راستے میں قتل ہوجائے۔ “ حضرت ابی بن کعب ؓ سے روایت ہے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : ” اے موسیٰ جس کسی نے ہر نماز کے بعد آیہ الکرسی پڑھی تو میں اسے انبیاء (علیہم السلام) (کے اعمال) کا ثواب عطا کروں گا، ابو عبداللہ نے کہا ہے : میرے نزدیک اس کا معنی ہے : میں اسے انبیاء (علیہم السلام) کے عمل کا ثواب عطا فرماؤں گا اور جہاں تک نبوت کے ثواب کا تعلق ہے تو وہ سوائے انبیاء (علیہم السلام) کے اور کسی کے لئے نہیں ہے (2) نوارد الاصول، جلد 1، صفحہ 338) یہ آیت توحید اور اعلی صفات کو متضمن ہے۔ اس میں پچاس کلمے ہیں اور ہر کلمے میں پچاس برکتیں ہیں۔ اور یہ تہائی قرآن کریم کے برابر ہے حدیث طبیہ میں اسی طرح وارد ہے۔ ابن عطیہ نے اسے ذکر کیا ہے۔ اور لفظ اللہ مبتدا ہے اور لا الہ “ مبتدا ثانی ہے ار اس کی خبر محذوف ہے اور وہ معبود یا موجود ہے۔ اور ” الا ھو، لا الہ “ کے محل سے بدل ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو “۔ مبتدا اور خبر ہے اور یہ مرفوع ہے اور اس معنی پر محمول ہے یعنی ما الہ الا ھو۔ (سوائے اس کے کوئی الہ نہیں ہے) اور غیر قرآن میں لا الہ الا ایاہ پڑھنا بھی جائز ہے۔ اور استثناء کی بناء پر ضمیر منصوب ہے۔ حضرت ابو ذر ؓ نے اپنی طویل حدیث میں کہا ہے : میں نے رسول اللہ ﷺ نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سے کون سی سب سے بڑی آیت آپ پر نازل فرمائی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : (آیت) ” اللہ لا الہ الا ھو، الحی القیوم “۔ (3) اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : قرآن کریم میں اشرف اور بلند رتبہ آیت آیۃ الکرسی ہے۔ بعض علماء نے کہا ہے : کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کے اسم گرامی کا تکرار مضمرا اور ظاہرا اٹھارہ بار کیا جاتا ہے۔ (اس لئے یہ دوسری آیات سے بلند رتبہ اور اعلی ہے) (آیت) ” الحی القیوم “۔ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اگر چاہے تو اسے ھو سے بدل بنا لے اور اگر چاہے تو یہ خبر کے بعد خبر بھی ہو سکتی ہے اور اگر چاہے تو اس سے پہلے مبتدا مضمر بھی ہو سکتا ہے اور غیر قرآن میں اسے مدح کی بنا پر منصوب پڑھنا بھی جائز ہے۔ اور ” الحی “ اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنی میں سے ایک اسم ہے جس کے ساتھ اسے پکارا جاتا ہے اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے اور یہ قول بھی ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) جب مردے کو زندہ کرنے کا ارادہ فرماتے تھے تو وہ انہیں اسماء کے ساتھ مانگتے تھے۔ یا حی یا قیوم۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت آصف بن برخیا نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس تخت بلقیس لانے کا ارادہ فرمایا تو اسی قول کے ساتھ دعا مانگی :۔ یا حی یا قیوم۔ اور یہ قول بھی ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کے اسم اعظم کے بارے میں پوچھا تو آپ نے انہیں فرمایا : ایاھیا ایاھیا یعنی۔ یا حی یا قیوم۔ اور کہا جاتا ہے : یہی سمندر میں سفر کرنے والوں کی دعا ہے کہ جب انہیں غرق ہونے کا خوف لگتا ہے تو انہی اسماء کے ساتھ دعا مانگتے ہیں (پکارتے ہیں) علامہ طبری نے ایک قوم سے بیان کیا ہے کہ کہا جائے گا : ” حی قیوم “ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا وصف خود بیان کیا ہے اور پھر اس میں کوئی غور وفکر کیے بغیر اسے اس کے سپرد کردیا جائے گا۔ اور یہ قول بھی ہے : اللہ تعالیٰ نے امور کے محل میں تصرف کرنے اور اشیاء کی مقاد پر مقرر کرنے کی وجہ سے اپنا نام حی رکھا ہے اور حضرت قتادہ ؓ نے کہا ہے : حی وہ ہوتا ہے جسے موت نہیں آتی۔ اور سدی نے کہا ہے : الحی سے مراد باقی رہنے والا ہے لبید کا قول ہے : فاما تربینی الیوم اصبحت سالما فلست باحیا من کلاب وجعفر : پس اگر تو آج مجھے دیکھ رہا ہے کہ میں نے صحیح سالم صبح کی ہے تو میں کلاب وجعفر میں سے باقی رہنے والا نہیں ہوں۔ اور کبھی کہ جاتا ہے : بلاشبہ یہی اسم اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ہے ” القیوم “ یہ قام سے ہے : یعنی مخلوق کو تدبیر کے ساتھ قائم رکھنے والا۔ یہ قتادہ سے مروی ہے۔ اور حسن نے کہا ہے : اس کا معنی ہے : ہر نفس کو اس کے ساتھ قائم رکھنے والا جو اس نے کمایا ہے تاکہ وہ اسے اس کے عمل کے مطابق جزا دے، اس حیثیت سے کہ وہ اس کے بارے میں جاننے والا ہے اور ان میں سے کوئی شے اس پر مخفی نہیں ہے اور حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : اس کا معنی ہے وہ ذات جو نہ بدلتی ہے نہ ختم ہوتی ہے۔ (یعنی نہ اس کی حالت میں کوئی تغیر و تبدل ہوتا ہے اور نہ وہ زوال پذیر ہے) امیہ بن ابی الصلت نے کہا ہے : لم تخلق السماء والنجوم والشمس معھا قمر یقوم : آسمان اور ستارے، سورج اور اس کے ساتھ قائم ہونے والا چاند نہیں پیدا کئے گئے۔ قدرہ مھین قیوم والعشر والجنۃ والنعیم : جسے نگہبان قیوم نے مقرر کیا ہے اور حشر اور جنت اور تمام نعمتیں (نہیں پیدا کی گئیں) الا لامر شانہ عظیم مگر ایسے امر کے لئے جس کی شان انتہائی عظیم ہے۔ علامہ بیہقی نے بیان کیا ہے : میں نے اسماعیل الضریر کی ” عیون التفسیر “ میں ” القیوم “ کی تفسیر میں دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا ہے اور کہا جاتا ہے : وہ وہ ہے جو سوتا نہیں ہے، گویا کہ انہوں نے یہ مفہوم آیۃ الکرسی میں اس کے بعد والے ارشاد گرامی سے لیا ہے : (آیت) ” لاتاخذہ سنۃ ولا نوم “۔ اور کلبی نے کہا ہے : ” القیوم “ وہ ہے جس کی بتداء نہ ہو۔ اسے ابو الانباری نے بیان کیا ہے۔ قیوم کی اصل قیووم ہے، واؤ اور یاء ایک کلمے میں جمع ہیں ان میں سے پہلا حرف ساکن ہے پس واؤ کو یاء سے بدلنے کے بعد پہلی یا کو دوسری میں ادغام کردیا۔ قیوم فعول کے وزن پر نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ واؤ سے ہے تو یہ قو وم ہوجائے گا۔ حضرت ابن مسعود ؓ حضرت علقمہ، حضرت اعمش اور حضرت نخعی رحمۃ اللہ علہیم نے الحی القیام الف کے ساتھ پڑھا ہے اور یہی حضرت عمر ؓ سے مروی ہے۔ اور اہل لغت کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عربوں کے نزدیک القیوم زیادہ اعرف ہے اور بنا کے اعتبار سے زیادہ صحیح اور علت کے اعتبار سے زیادہ ثابت ہے۔ اور القیام القوام سے القیام کی طرف منقول ہے۔ الفعال کو الفیعال کی طرف پھیرا گیا ہے، جیسا کہ الصواع کو الصواع کو الصیاغ کہا گیا ہے، شاعر نے کہا ہے : ان ذا العرش للذی یرزق الناس وحی علیھم قیوم۔ بلاشبہ صاحب عرش وہ ہے جو لوگوں کو رزق عطا فرماتا ہے اور وہ ان پر حی وقیوم ہے۔ پھر رب العالمین نے اس کی نفی کی ہے کہ اسے اونگھ آئے یا نیند (یعنی نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند) ” السنۃ “ کا معنی تمام کے قول کے مطابق اونگھ ہے اور اونگھ وہ ہوتی ہے جو آنکھ میں ہوتی ہے اور جب وہ دل میں ہوجائے تو پھر نوم (نیند) ہوجاتی ہے، عدی بن رقاع نے ایک عورت کا فتور نظر کے ساتھ وصف بیان کرتے ہوئے کہا ہے : وسنان اقصدہ النعاس فرنقت فی عینہ سنۃ ولیس بنائم : وسنان کا اونگھ نے ارادہ کر رکھا ہے پس اس کی آنکھوں میں اونگھ داخل ہوچکی ہے اور وہاں نیند نہیں ہے۔ اور مفضل نے ان دونوں کے درمیان فرق کیا ہے اور کہا ہے کہ السنۃ یہ سر کی جانب سے ہوتی ہے اور نعاس آنکھ میں ہوتی ہے اور نوم (نیند) دل میں ہوتی ہے۔ اور ابن زید نے کہا ہے : وسنان وہ ہے جو نیند سے بیدار ہوتا ہے حالانکہ وہ عقل وسمجھ نہیں رکھتا یہاں تک کہ وہ بسا اوقات اپنے گھر والوں پر تلوار ننگی کرلیتا ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ جو کچھ ابن زید نے کہا ہے یہ محل نظر ہے۔ کلام عرب سے اسے نہیں سمجھا جاسکتا (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 341 دارالکتب العلمیہ) اور سدی نے کہا ہے : السنۃ سے مراد اس نیند کی ہوا ہے جو چہرے پر لگتی ہے اور انسان اونگھنے لگتا ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : بالجملہ اس سے مراد وہ فتور اور ڈھیلا پن ہے جو انسان کو لاحق ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ اس کی عقل مفقود نہیں ہوتی اور اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کوئی بھی خلل واقع نہیں ہوتا اور کسی حال میں بھی اسے کوئی اکتاہٹ اور سستی لاحق نہیں ہوتی۔ سنۃ میں اصل وسنۃ سے اس میں واو کو حذف کردیا گیا ہے جیسا کہ یسن سے حذف کی گئی ہے اور النوم سے مراد وہ ثقل اور بوجھ ہے جس کے ساتھ انسان کے حق میں ذہن زائل ہوجاتا ہے (یعنی عقل کام نہیں کرتی) اس میں واؤ عطف کے لئے ہے اور لا تاکید کے لئے ہے۔ میں کہتا ہوں : لوگ اس باب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ذکر کرتے ہیں، انہوں نے بیان کیا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو بطور حکایت موسیٰ (علیہ السلام) سے منبر پر بیان کرتے ہوئے سنا ہے : کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دل میں خیال آیا کیا اللہ تعالیٰ جل ثناؤ وہ بھی سوتا ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نین ان کی طرف ایک فرشتہ بھیجا اور اس نے آپ کو تین بار بیدار کیا پھر اس نے آپ کو دو بوتلیں دے دیں، ہر ہاتھ میں ایک بوتل تھی اور آپ کو حکم دیا کہ ان دونوں کی حفاظت کریں، فرمایا : پھر آپ سونے لگے اور قریب تھا کہ آپ کے دونوں ہاتھ آپس میں مل جاتے پھر آپ بیدار ہوجاتے اور آپ انہیں ایک دوسرے سے دور ہٹا لیتے بالآخر آپ گہری نیند سو گئے اور آپ کے دونوں ہاتھ آپس میں ٹکرائے اور دونوں بوتلیں ٹوٹ گئیں، فرمایا۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے یہ مثال بیان فرمائی کہ اگر وہ سوتا رہتا تو پھر یہ آسمان اور زمین (اپنی اپنی جگہ) مضبوطی سے ٹھہرے نہ رہتے (1) (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، کتاب الایمان جلد 1 صفحہ 257، حدیث نمبر 273، دارالفکر) یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اسے کئی ایک نے ضعیف کہا ہے اور ان میں سے امام بیہقی (رح) بھی ہیں۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” لہ مافی السموت وما فی الارض “۔ (یعنی زمین و آسمان کی ہر شے) اس کی ملکیت ہے۔ اور وہ تمام کا ملک اور رب ہے۔ عبارت میں ماذکر کیا گیا ہے اگرچہ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو عقل رکھتے ہیں تو یہ اس حیثیت سے ہے کہ اس میں مراد مجموعی طور پر موجود چیزیں ہیں۔ (چاہے وہ ذوی العقول یا غیر ذوی العقول ہوں) علامہ طبری نے کہا ہے : یہ آیت نازل ہوئی جب کفار نے کہا۔ (آیت) ” مانعبدھم الا لیقربوناالی اللہ زلفی “۔ (زمر : 3) ترجمہ : ہم بتوں کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لئے تاکہ وہ ہمیں اللہ تعالیٰ کے بہت زیادہ نزدیک کردیں۔ ) قولہ تعالیٰ (آیت) ” من ذالذی یشفع عندہ الاباذنہ “۔ اس میں من مبتدا ہونے کے سبب مرفوع ہے اور ذا اس کی خبر ہے، اور ” الذی “ ذا کی صفت ہے اور اگر چاہے تو بدل بنا لے اور یہ جائز نہیں ہے کہ ذا زائدہ ہو جیسا کہ ما کے ساتھ زائد کیا گیا ہے۔ کیونکہ مامبہم ہوتا ہے اور ذا کی اس کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے اس کے ساتھ اسے زائد کردیا گیا ہے۔ اور اس آیت میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اللہ تعالیٰ شفاعت کے بارے میں جسے چاہے گا اذن عطا فرمائے گا اور وہ انبیاء علیہم السلام، علماء مجاہدین، ملائکہ اور ان کے علاوہ وہ لوگ ہیں جنہیں رب العالمین یہ اعزاز واکرام اور شرف عطا فرمائے گا۔ پھر وہ شفاعت نہیں کریں گے مگر انہیں کے لئے جن کے لئے وہ راضی ہوگا۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا : (آیت) ” ولا یشفعون الا لمن ارتضی “۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : جو ظاہر ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ علماء اور صالحین ان کے بارے میں شفاعت کریں گے جو ابھی جہنم تک نہیں پہنچے اور وہ دونوں منزلوں کے درمیان ہوں گے یا وہاں پہنچ چکے ہوں گے لیکن ان کے اعمال صالحہ بھی ہوں گے۔ اور بخاری باب بقیۃ من ابواب الرؤیۃ میں ہے : بیشک مومنین کہیں گے : اے ہمارے رب ! بلاشبہ ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور یہ شفاعت ان کے بارے میں ہے جن کا معاملہ بالکل قریب کا ہوتا ہے۔ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 341 دارالکتب العلمیہ، (صحیح بخاری، کتاب التوحید، : حدیث نمبر : 6886 ضیاء القرآن پبلی کیشنز) جیسا کہ جنت کے دروازے کے ساتھ چمٹنے والا بچہ شفاعت کرے گا۔ بلاشبہ یہ ان کے قرابتداروں اور انکے جاننے پہچاننے والوں کے بارے میں ہے اور انبیاء (علیہم السلام) ان کے بارے میں شفاعت کریں گے جو ان کے گنہگار امتی اپنے گناہوں کے سبب جہنم میں داخل ہوچکے ہوں گے بغیر کسی قرابت اور معرفت کے صرف نفس ایمان کے سبب (وہ شفاعت کریں گے) پھر خطاؤں اور گناہوں میں مستغرق ان لوگوں کے بارے میں ارحم الراحمین کی شفاعت باقی رہ جائے گی جن کے بارے میں انبیاء (علیہم السلام) کی شفاعت نے کوئی عمل نہ کیا اور حضور نبی رحمت ﷺ کی شفاعت باقی رہ جائے گی جن کے بارے میں انبیاء (علیہم السلام) کی شفاعت نے کوئی عمل نہ کیا اور حضور نبی رحمت ﷺ کی شفاعت حساب کی تعجیل کے بارے میں ہوگی اور یہ آپ ﷺ کے لئے ہی خاص ہے۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : امام مسلم (رح) نے اپنی صحیح میں شفاعت کی کیفیت بڑے شافی بیان کے ساتھ بیان کردی ہے شاید آپ ﷺ نے اسے نہیں پڑھا کہ شفاعت کرنے والے جہنم میں داخل ہوں گے اور وہاں سے ایسے لوگوں کو نکالیں گے جنہوں نے عذاب واجب جان لیا ہوگا، پس اس بنا پر یہ کہنا بعید نہیں ہے کہ مومنین کے لئے دو شفاعتیں ہوں گی : ایک شفاعت ان کے بارے میں جو ابھی جہنم تک نہیں پہنچے اور دوسرے شفاعت ان کے بارے میں جو اس تک پہنچ چکے ہوں گے۔ اور اس میں داخل ہوچکے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے پناہ عطا فرمائے۔ آمین۔ سو آپ نے حضرت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث سے ذکر کیا ہے : ” پھر جہنم پر ایک پل پچھایا جائے گا اور شفاعت کھل جائے گی اور وہ کہنے لگیں گے : اللہم سلم سلم “۔ اے اللہ ! سلامتی کے ساتھ گزار دے۔ سلامتی کے ساتھ گزار دے۔ عرض کی گئی : یا رسول اللہ ﷺ وہ پل کیسا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس میں پاؤں رکھنے کی جگہ پر پھسلن ہوگی (پاؤں قرار نہ پا سکیں گے) اس کے ساتھ لوہے کے ٹیڑھے کنڈے ہوں گے اور اس میں سخت جگہ پر ایسے خار دار پودے ہوں گے جن کو سعدان کہا جاتا ہے۔ پس مومنین اس سے آنکھ جھپکنے کی طرح، بعض بجلی کی طرح، بعض ہوا کی طرح بعض پرندوں کی طرح اور بعض گھوڑوں اور اونٹوں کی تیز رفتاری کی طرح گزر جائیں گے اور وہ نجات پاجائے گا جو سلامت رہا، جسے فقط خراشیں آئیں اور جسے آتش جہنم میں گرنے سے بچا لیا گیا، یہاں تک کہ جب مومنین آگ سے خلاصی پاجائیں گے، پس قسم ہے اس ذات کی جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ! تم میں سے کوئی بھی ان مومینن سے زیادہ طاقتور نہیں جو قیامت کے دن اپنے ان بھائیوں کا حق لینے کے لئے جو جہنم میں ہوں گے اللہ کی بارگاہ میں قسم کے ساتھ عرض کریں گے۔ وہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! وہ ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے، نمازیں پڑھتے تھے اور حج کرتے تھے، تو ان کو کہا جائے گا : تم انہیں نکال لو جنہیں تم پہنچانتے ہو، پس ان کی صورتیں آگ پر حرام کردی جائیں گی، اور وہ بہت زیادہ مخلقوق کو نکال کرلے آئیں گے حالانکہ آگ نے نصف پنڈلی تک اور گھٹنوں تک انہیں پکڑا ہوا ہوگا، پھر وہ عرض کریں گے : اے ہمارے رب جن کے بارے تو نے ہمیں حکم دیا تھا ان میں سے کوئی باقی نہیں رہا، تو رب العالمین ارشاد فرمائے گا : تم واپس جاؤ اور جس کے دل میں ایک دینار کے برابر بھی خیر اور نیکی پاؤ تو اسے نکال لاؤ، پھر وہ کثیر مخلوق کو نکال لائیں گے، اور پھر عرض کریں گے : اے ہمارے رب ! ہم نے ان میں سے کوئی ایک بھی جہنم میں نہیں چھوڑا جن کے بارے تو نے ہمیں حکم ارشاد فرمایا تھا، پھر رب کریم فرمائے گا تم واپس لوٹ جاؤ اور جس کے دل میں تم نصف دینار کے برابر بھی خیر اور نیکی پاؤ تو اسے بھی نکال لاؤ چناچہ وہ خلق کثیر کو نکال کرلے آئیں گے۔ پھر عرض کریں گے : اے ہمارے رب ! ہم نے اس میں ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں چھوڑا جن کے بارے تو نے ہمیں حکم ارشاد فرمایا، پھر رب العالمین ارشاد فرمائے گا تم واپس چلے جاؤ اور جس کے دل میں تم رائی کے دانے برابر بھی خیر اور نیکی پاؤ تو اسے نکال لاؤ چناچہ وہ کثیر مخلوق کو نکال لائیں گے، پھر عرض کریں گے : اے ہمارے رب ! ہم نے اس میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں چھوڑی “۔ حضرت ابو سعید ؓ فرماتے تھے : اگر تم اس حدیث کے بارے میں میری تصدیق نہ کرو تو پھر چاہو تو یہ پڑھ لو : (آیت) ” ان اللہ لا یظلم مثقال ذرۃ وان تک حسنۃ یضعفھا ویؤت من لدنہ اجرا عظیما “۔ ترجمہ : بیشک اللہ تعالیٰ ظلم نہیں کرتا ذرہ برابر بھی (بلکہ) اگر ہو معمولی سی نیکی تو دوگنا کردیتا ہے اسے اور دیتا ہے اپنے پاس سے اجر عظیم) پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ملائکہ شفاعت کرچکے، انبیاء (علیہم السلام) شفاعت کرچکے اور مومن بھی شفاعت کرچکے اور رب ارحم الراحمین کے سوا کوئی باقی نہیں رہا۔ پس اللہ تعالیٰ جہنم سے ایک قبضہ (مشت) بھرے گا اور اس سے اس قوم کو نکال کرلے آئے گا جنہوں نے کبھی بھی خیر اور نیکی کا عمل نہیں کیا حالانکہ وہ کوئلہ بن چکے ہوں گے (1) (صحیح مسلم، کتاب الایمان جلد 1، صفحہ 102، وزارت تعلیم، ایضا صحیح بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر 6886، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور آگے حدیث ذکر کی۔ اور حضرت انس ؓ کی حدیث سے ذکر ہے کہ حضور نبی مکرم ﷺ نے فرمایا : سو میں عرض کروں گا۔ اے میرے پروردگا ! مجھے اس کے بارے اجازت عطا فرما جس نے کہا ” الا الہ الا اللہ “ تو رب کریم فرمائے گا : وہ تیرے لئے نہیں ہے یا فرمایا : وہ تیری طرف نہیں ہے۔ مجھے اپنی عزت، کبریائی اور عظمت و جلال کی قسم ہے میں ضرور بہ ضرور اسے نکالوں گا جس نے کہا ” لا الہ الا اللہ “۔ (2) (صحیح مسلم، کتاب الایمان جلد 1، صفحہ 110، وزارت تعلیم، ایضا صحیح بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر 6956، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) اور حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے آپ ﷺ سے ذکر کیا گیا ہے : ” یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان قضا (فیصلہ فرمانے) سے فارغ ہوگا اور ارادہ فرمائے گا کہ وہ اہل جہنم میں سے جنہیں چاہے اپنی رحمت کے ساتھ نکال لے تو وہ ملائکہ کو حکم ارشاد فرمائے گا کہ وہ جن ہم سے انہیں نکال لائیں جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی شے کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے ان میں سے جن کے بارے اللہ تعالیٰ نے رحمت فرمانے کا ارادہ کیا ہے اور وہ کہتے ہیں ” لا الہ الا اللہ “۔ پس وہ فرشتے انہیں جہنم میں پہچان لیں گے اور وہ انہیں سجدوں کے نشانات سے پہچانیں گے، آگ ابن آدم کو کھا جائے گی سوائے سجدوں کے اثر کے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے آپ پر سجدوں کے اثر (نشان) کو کھانا حرام قرار دیا ہے (1) (ایضا صحیح بخاری، کتاب التوحید، حدیث نمبر 6885، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) الحدیث بطولہ۔ میں (مفسر) کہتا ہوں : یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ مومنین وغیرہم کی شفاعت بلاشبہ ان کے لئے ہے جو جہنم میں داخل ہوچکے ہوں گے اور اس میں پہنچ چکے ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے محفوظ رکھے، آمین۔ اور ابن عطیہ کا قول : ” ان میں سے جو نہیں پہنچے چکے “ یہ احتمال رکھتا ہے کہ وہ دوسری احادیث سے لیا گیا ہو۔ واللہ اعلم۔ ابن ماجہ نے اپنی سنن میں حضرت انس ؓ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” قیامت کے دن لوگوں کی کئی صفیں بنائی جائیں گی “۔ اور ابن نمیر نے کہا ہے : اہل جنت کی پس اہل نار میں سے ایک آدمی ایک آدمی کے پاس سے گزرے گا تو وہ کہے گا : اے فلاں ! کیا تجھے وہ دن یاد نہیں ہے جب تو نے پانی طلب کیا تو میں نے تجھے خوب جی بھر کر پانی پلایا تھا ؟ فرمایا تو وہ اس کی شفاعت کر دے گا اور ایک اور آدمی کے پاس سے گزرے گا اور کہے گا کیا تجھے وہ دن یاد نہیں ہے جب میں نے تجھے طہور (جس سے پاکی حاصل کی جائے) دیا تھا ؟ چناچہ وہ اس کی شفاعت کر دے گا۔ ابن نمیر نے کہا : وہ کہے گا اے فلاں ! کیا تجھے وہ دن یاد نہیں جس دن تو نے مجھے فلاں فلاں کام کے لئے بھیجا تھا اور میں تیرے لئے چلا گیا تھا ؟ پس وہ اس کی شفاعت کرے گا (2) (سنن ابن ماجہ، کتاب الادب ‘ جلد ! کتاب الادب، جلد 1 صفحہ 170، وزارت تعلیم) رہیں ہمارے نبی مکرم محمد مصطفیٰ ﷺ کی شفاعتیں تو ان کے بارے میں اختلاف ہے۔ ایک قول ہے کہ وہ تین ہیں ایک قول ہے کہ وہ دو ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ پانچ ہیں۔ اس کا بیان سبحان میں آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ ۔ اور ہم نے ان پر کتاب ” التذکرہ “ میں بحث کی ہے۔ والحمد للہ۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم “۔ دونوں ضمیریں ہر اس ذی عقل کی طرف لوٹ رہی ہیں جنہیں یہ قول متضمن ہے : (آیت) ” لہ ما فی السموت وما فی الارض “۔ اور مجاہد نے کہا ہے : (آیت) ” مابین ایدیھم “۔ سے مراد دنیا اور (آیت) ” وما خلفھم “ سے مراد آخرت ہے۔ ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ سب فی نفسہ صحیح ہے، اس میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ مابین الید سے مراد ہر وہ شے ہے جو انسان کے سامنے ہے اور ماخلفہ سے مراد ہر وہ شے ہے جو اس کے بعد آئے گی۔ اور حضرت مجاہد کے قول کی طرح ہی سدی وغیرہ نے بھی کہا ہے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” ولایحیطون بشیء من علمہ الا بما شآء “۔ یہاں علم بمعنی معلوم ہے یعنی وہ اس کی معلومات میں سے کسی شے کا احاطہ نہیں کرسکتے اور یہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے اس قول کی طرح ہے جو انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس وقت کہا جب چڑیا نے سمندر میں چونچ ماری، میرا اور تمہارا علم اللہ تعالیٰ کے علم سے کم نہیں ہے مگر اتنا ہی جتنی یہ چڑیا اس سمندر سے کم ہے، پس یہ اور جو اس کے مشابہ ہے وہ معلومات کی طرف راجع ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا علم تو وہ ہے جو اس کی ذاتی صفت ہے وہ منقسم نہیں ہوتا، اور آیت کا معنی ہے : کسی کے لئے کوئی معلوم نہیں مگر وہی جو اللہ تعالیٰ چاہے کہ وہ اسے جان لے۔ قولہ تعالیٰ (آیت) ” وسع کرسیہ السموت والارض “۔ ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں حضرت علی ؓ سے ذکر کیا ہے، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” کرسی ایک موتی ہے اور قلم بھی ایک موتی ہے اور قلم کی لمبائی سات سو برس کی ہے اور کرسی کی طوالت اتنی ہے جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ “ حماد بن سلمہ نے عاصم بن بہدلہ سے اور یہی عاصم بن ابی النجود ہیں، اور انہوں نے زربن حبیش کے واسطہ سے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا : ہر دو آسمانوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے اور ساتویں آسمان اور کرسی کے درمیان پانچ سو برس کا فاصلہ ہے اور کرسی اور عرش کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے اور عرش پانی کے اوپر ہے اور اللہ تعالیٰ (اپنی شان قدرت کے مطابق) عرش کے اوپر ہے اور وہ اسے جانتا ہے جس میں اور جس پر تم ہو، کہا جاتا ہے : کرسی اور کرسی اور جمع الکراسی ہے۔ اور حضرت ابن عباس ؓ نے کہا ہے : کرسیہ کا معنی علمہ (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 342 دارالکتب العلمیہ) (اس کا علم) ہے۔ اور علامہ طبری نے اسے ترجیح دی ہے اور کہا ہے : اسی سے وہ کر اسیہ (کاپی) بھی ہے جو علم کو جمع کرتی ہے۔ (اور محفوظ رکھتی ہے) اور اسی وجہ سے علماء کو الکراسی کہا گیا ہے کیونکہ ان پر اعتماد کیا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے : یحف بھم بیض الوجوہ وعصبۃ کر اسی بالاحداث حین تنوب : اچھی شہرت رکھنے والے اور علماء کا گروہ انہیں ان امور کے ساتھ گھیر لیتا ہے (2) جامع البیان للطبری، جلد 3 صفحہ 16) جب وہ پیش آتے ہیں۔ اور کہا گیا ہے : کر اسیہ سے مراد اللہ کی وہ قدرت ہے جس کے ساتھ وہ آسمانوں اور زمین کو ٹھہرائے ہوئے ہے۔ جس طرح آپ کہتے ہیں : اجعل لھذا الحائط کرسیا، اس دیوار کی کرسی بنا دو یعنی وہ جس پر اس کا اعتماد اور سہارا ہو، اور یہ حضرت ابن عباس ؓ کے قول کے قریب ہے جو انہوں نے (آیت) ” وسع کرسیہ “ میں کیا ہے، علامہ بیہقی (رح) نے کہا ہے : اور ہم نے حضرت ابن مسعود اور حضرت سعید بن جبیر ؓ سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد (آیت) ” وسع کرسیہ “ میں یہ روایت کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ وغیرہ سے تمام روایات اس پر دلالت کرتی ہیں کہ اس سے مراد وہی کرسی ہے جو عرش کے ساتھ مشہور ہے اور اسرائیل نے سدی سے اور انہوں نے ابو مالک سے اس قول (آیت) ”’ وسع کرسیہ السموت والارض “۔ کے تحت روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا : بیشک وہ چٹان جس پر ساتویں زمین ہے اور اس کی اطراف پر مخلوق کی انتہا ہے، اس پر چار فرشتے ہیں، ان میں سے ہر ایک کے چار چہرے ہیں : ایک انسان کا چہرہ، ایک شیر کا چہرہ، ایک بیل کا چہرہ اور ایک گدھ کا چہرہ، پس وہ اس پر کھڑے ہیں حالانکہ وہ زمینوں اور آسمانوں کو گھیرے ہوئے ہیں اور ان کے سر کرسی کے نیچے ہیں اور کرسی عرش کے نیچے ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی کرسی کو عرش کے اوپر رکھے ہوئے ہے۔ علامہ بیہقی نے کہا ہے اس میں اشارہ دو کرسیوں کی طرف ہے ان میں سے ایک عرش کے نیچے ہے اور دوسری عرش پر رکھی ہوئی ہے۔ اور اسباط عن السدی عن ابی مالک اور عن ابی صالح عن صالح عن ابن عباس ؓ اور عن مرۃ المھد انی عن ابن عباس ؓ اور عن مرۃ الھمدنی عن ابن مسعود ؓ عن ناس من اصحاب رسول اللہ ﷺ کی روایت میں ارشاد باری تعالیٰ (آیت) ”’ وسع کرسیہ السموت والارض “۔ کے تحت موجود ہے کہ آسمان و زمین کرسی کے درمیان میں ہیں اور کرسی عرشی کے سامنے ہے۔ اور ملحدین اس کو بادشاہ کی عظمت اور جلالت سلطان پر محمول کرتے ہیں اور وہ عرش وکرسی کے وجود کا انکار کرتے ہیں اور یہ کوئی شے نہیں ہے۔ اور اہل حق ان دونوں کو جائز قرار دیتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت میں بڑی وسعت ہے اور اس کے ساتھ ایمان لانا واجب ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہا ہے : کرسی قدم رکھنے کی جگہ ہے اور اس کی کجاوے کے چرچرانے کی طرح چرچراہٹ ہے۔ علامہ بہیقی (رح) نے کہا : ہم نے اس میں حضرت ابن عباس ؓ سے یہ بھی روایت کیا ہے اور ہم نے ذکر کیا ہے کہ اس کا معنی جو معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ عرش سے (نیچے) رکھی ہوئی ہے (جیسے) تحت سے قدم رکھنے کی جگہ اور اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے مکان کا اثبات نہیں ہے، اور حضرت ابن بریدہ نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے، انہوں نے فرمایا : جب حضرت جعفر ؓ حبشہ سے آئے تو رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا : ” کیا تم نے کوئی انتہائی تعجب خیز شے دیکھی ہے ؟ـانہوں نے کہا : میں نے ایک عورت کو دیکھا ہے اس کے سر پر کھانے کا ایک ٹوکرا ہے، پس ایک شہسوار گزرا اور اس نے وہ ٹوکرا گرا دیا۔ پس وہ عورت بیٹھ گئی اور اپنا کھانا (طعام) جمع کرنے لگی، پھر وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی اور اسے کہا : تیرے لئے اس دن ہلاکت اور بربادی ہو جس دن بادشاہ اپنی کرسی رکھے گا اور وہ مظلوم کے لئے ظالم کو پکڑے گا تو رسول اللہ ﷺ نے اس کے قول کی تصدیق کرتے ہوئے کہا : ” لا قد ست امۃ “ (امت پاک کردی گئی) یا فرمایا : کیف تقدس امۃ (امت کیسے پاکی بیان کرتی ہے) اس کا کمزور اس کے طاقتور سے اپنا حق نہیں لے سکے گا (1) (مجمع الزوائد، کتاب الخلافۃ، صفحہ 375، حدیث نمبر 9054) ابن عطیہ نے کہا ہے : حضرت ابو موسیٰ ؓ کے قول میں ہے۔ ” کرسی قدم رکھنے کی جگہ ہے “ وہ مراد یہ لیتے ہیں (کہ کرسی) عرش رحمن سے اس طرح ہے جیسے بادشاہوں کے تختوں سے قدم رکھنے کی جگہ ہوتی ہے اور یہ عرش کے سامنے بہت بڑی مخلوق ہے اور اس کی نسبت عرش کی طرف ایسے ہی ہے جیسے کرسی کی نسبت بادشاہ کے تحت کی طرف ہے۔ اور حسن بن ابی الحسن نے کہا ہے کہ کرسی سے مراد نفس عرش ہے، اور یہ قول پسندیدہ نہیں ہے اور جس کا تقاضا احادیث کرتی ہیں وہ یہ ہے کہ کرسی عرش کے سامنے پیدا کی گئی ہے اور عرش اس سے بڑا ہے (2) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 342 دارالکتب العلمیہ) اور ابو ادریس خولانی (رح) نے حضرت ابو ذر ؓ سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ سب سے عظیم آیت کون سی ہے جو آپ پر نازل کی گئی ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا آیۃ الکرسی۔۔۔ (3) (شعب الایمان، جلد 2، صفحہ 457) پھر فرمایا : اے ابو ذر ( رض) سات آسمانوں کو کرسی کے ساتھ ایسی ہی نسبت ہے جیسے وسیع زمین پر پھینکی ہوئی آنگوٹھی کے حلقہ کو اس کے ساتھ ہوتی ہے اور عرش کو کرسی پر ایسی ہی فضیلت حاصل ہے جیسے وسیع زمین کو انگوٹھی کے حلقہ پر ہوتی ہے۔ “ اسے آجری، ابو حاتم بستی نے اپنی صحیح مسند میں اور بیہقی (رح) نے روایت کیا ہے اور بیان کیا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔ اور حضرت مجاہد (رح) نے کہا ہے : ساتوں آسمان اور زمین کرسی کے مقابلے میں وسیع زمین میں پھینکی ہوئی انگوٹھی کے حلقہ کی طرح ہیں۔ اور یہ آیت اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کے عظیم ہونے کے بارے میں آگاہ کرتی ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کی عظمت کا پتہ چلتا ہے کیونکہ اس امر عظیم کی حفاظت اسے نہیں تھکاتی۔ اور (آیت) ” یؤدہ “ کا معنی ہے وہ اسے بھاری اور بوجھل بنا رہا ہے کہا جاتا ہے : آدنی الشیء بمعنی اثقلنی۔ اس نے مجھے تھکا دیا اور میں نے اس سے مشقت برداشت کی۔ اسی کے ساتھ حضرت ابن عباس ؓ حضرت حسن ؓ اور حضرت قتادہ ؓ وغیرہم نے اس لفظ کی تفسیر بیان کی ہے۔ زجاج نے کہا ہے : یہ جائز ہے کہ اس میں ہا ضمیر اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اور یہ بھی جائز ہے کہ یہ کرسی کے لئے ہو، اور جب کرسی کے لئے ہوگی تو پھر یہ اللہ تعالیٰ کے امر میں سے ہے (یعنی کرسی) ۔۔۔۔ اور العلی اس سے مراد قدرومنزلت کی بلندی ہے نہ کہ مکان کی بلندی، کیونکہ اللہ تعالیٰ جگہ اور مکان سے منزہ اور پاک ہے۔ اور علامہ طبری نے ایک قوم سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی مخلوق سے بلند ہے کیونکہ اس کا مکان اپنی مخلوق کی جگہوں سے بلند ہے، ابن عطیہ نے کہا ہے : یہ جسم ماننے والے جہلاء کا قول ہے اور اصل یہی ہے کہ اسے بیان نہ کیا جائے (1) (المحرر الوجیز، جلد 1، صفحہ 342 دارالکتب العلمیہ) اور عبدالرحمن بن قرط سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شب معراج آسمانوں کی بلندیوں میں تسبیح سنی : سبحان اللہ العلی الاعلی سبحانہ وتعالیٰ اور العلی والعالی ان کا معنی ہے اشیاء پر بہت سخت غلبہ رکھنے والا، عرب کہتے ہیں : علا فلان فلانا، یعنی فلاں فلاں پر غالب آگیا، شاعر نے کہا ہے : فلما علونا واستوینا علیہم ترکنا ھم صرعی لنسر و کا سر : پس جب ہم غالب آئے اور ہم نے انہیں خوب ہلکا کیا تو ہم نے انکے مردوں کو گدھوں اور عقابوں کے لئے چھوڑ دیا اور اسی سے قول باری تعالیٰ ہے : (آیت) ” ان فرعون علا فی الارض “۔ (آیت) ” العظیم “۔ یہ صفت ہے : اس کا معنی ہے قدرومنزلت اور شرف کے اعتبار سے عظیم۔ یہ اجسام کی عظمت کے معنی میں نہیں ہے۔ علامہ طبری نے ایک قوم سے بیان کیا ہے کہ العظیم بمعنی المعظم ہے (جس کو عظمت دی جائے) جیسے کہا جاتا ہے : عتیق بمعنی معتق ہے اور اعشی کا شعرہ ہے : فکان الخمر العتیق من الاس فنط ممزوجۃ بماء زلال : (2) (جامع البیان للطبری، جلد 3، صفحہ 19۔ 18، داراحیاء التراث العربیۃ) گویا کہ وہ شراب جو اسفنط (شراب کی ایک قسم) سے آزاد ہے درآنحالیکہ وہ میٹھے پانی سے ملی ہوئی ہو۔ اور ایک قوم سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے اس کا انکار کیا ہے اور کہا ہے : اگر یہ بمعنی معظم ہو تو پھر لازم آتا ہے کہ وہ مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے اور اسے فنا کرنے کے بعد عظیم نہ ہو کیونکہ اس وقت اسے عظیم بنانے والی کوئی شے نہیں۔ (1) (جامع البیان للطبری، جلد 3، صفحہ 19۔ داراحیاء التراث العربیۃ)

تفسیر الدر المنثور:

(1) احمد، مسلم، ابو داؤد، ابن الضریس، حاکم اور الہروی ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان سے پوچھا کہ اللہ کی کتاب میں کون سی آیت سب سے اعظم ہے (یعنی سب سے بڑی عظمت والی ہے) میں نے عرض کیا وہ آیۃ الکرسی (یعنی) لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو “ ہے۔ آپ نے فرمایا اے ابو المنذر (یہ ان کی کنیت ہے) تمہیں علم مبارک ہو۔ ( پھر فرمایا) قسم ہے اس ذات کی جو کے قبضہ میں میری جان ہے بلاشہ اس آیۃ الکرسی کی ایک زبان اور دو ہونٹ ہیں، عرش کے پایہ کے پاس وہ اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتی ہوگی۔ آیت الکرسی کی فضیلت (2) امام نسائی، ابو یعلی، ابن حبان ابو الشیخ نے العظمہ میں طبرانی، حاکم ابو نعیم اور بیہقی نے دلائل میں ابی بن کعب ؓ سے روایت کیا کہ ان کے پاس کھجوروں کے کھلیان تھے میں اس کی دیکھ بھال کرتا تھا (لیکن) میں نے اس کو دن بدن کم پایا، ایک رات میں نے اس کی دیکھ بھال کی، اچانک میں نے ایک بالغ لڑکے کی طرح ایک جانور کو پایا میں نے اس کو سلام کیا، اس نے بھی سلام کا جواب دیا میں نے کہا تو کون ہے ؟ جن ہے یا انسان ہے ؟ اس نے کہا میں جن ہوں میں نے کہا اپنا ہاتھ مجھے پکڑا (جب) میں نے اس کا ہاتھ پکڑا تو اس کا ہاتھ کتے جیسا تھا اور اس کے بال بھی کتے جیسے بال تھے۔ میں کہا کیا اسی طرح جنات کو پیدا کیا گیا ہے ؟ اس نے کہا کچھ جن ایسے بھی ہیں جو مجھ سے زیادہ سخت ہیں۔ میں نے (اس سے) کہا تجھے ایسا کرنے پر کس نے آمادہ کیا ؟ اس نے کہا مجھے یہ پات پہنچی کہ تو صدقہ کو پسند کرنے والا آدمی ہے تو ہم نے اس بات کو پسند کیا کہ تیرے کھانے میں سے ہم بھی حصہ لے لیں۔ ابی ؓ نے پوچھا کون سی چیز ہے جو ہمیں تمہارے شر سے بچا سکتی ہے ؟ اس جن نے کہا آیۃ الکرسی جو سورة بقرہ میں ہے، جو شخص اس کو شام کو پڑھے گا تو صبح تک ہم سے پناہ میں رہے گا اور جو شخص اس کو صبح میں پڑھے گا تو شام تک ہم سے پناہ میں رہے گا۔ جب صبح ہوئی تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور ان کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا خبیث نے سچ کہا۔ (3) بخاری نے اپنی تاریخ میں طبرانی۔ ابو نعیم نے المعرفۃ میں ثقہ رجال کی سند سے ابن الاسقع البکری ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ مہاجرین کے صفہ (یعنی ان کے ٹھہرنے کی جگہ) میں تشریف لائے۔ ایک آدمی نے ان سے پوچھا قرآن میں کون سی آیت اعظم ہے ؟ آپ نے فرمایا لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم لا تاخذہ سنۃ ولا نوم “ یہاں تک کہ آیت کو ختم فرمایا۔ (4) احمد نے ابن الضریس اور الہروی نے اپنے فضائل میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے اپنے اصحاب میں سے ایک آدمی سے پوچھا کیا تو نے شادی کرلی ؟ اس نے کہا نہیں ؟ اور میرے پاس کچھ نہیں ہے کہ جس کے بدلہ میں شادی کروں۔ آپ نے فرمایا کیا تیرے پاس لفظ آیت ” قل ھو اللہ احد “ نہیں ہے ؟ اس نے کہا کیوں نہیں، فرمایا یہ چوتھائی قرآن ہے پھر پوچھا لفظ آیت ” قل یایھا الکفرون “ نہیں ہے (یعنی تجھے یہ سورت یاد نہیں ہے ؟ ) اس نے کہا ہاں کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا یہ چوتھائی قرآن ہے پھر آپ نے فرمایا کیا تیرے پاس لفظ آیت ” اذا زلزلت الارض “ نہیں ہے ؟ اس نے کہا ہاں کیوں نہیں آپ نے فرمایا یہ بھی چوتھائی قرآن ہے (پھر آپ نے فرمایا) کیا تیرے پاس لفظ آیت ” اذا جاء نصر اللہ “ نہیں ہے ؟ اس نے کہا کیوں نہیں، آپ نے فرمایا یہ بھی چوتھائی قرآن ہے پھر فرمایا کیا تیرے پاس آیۃ الکرسی نہیں ہے ؟ عرض کیا کیوں نہیں۔ آپ نے فرمایا پھر تو شادی کرلے۔ (5) بیہقی نے شعب الایمان میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی تو دوسری نماز تک اس کی حفاظت کی جائے گی اور نہیں محاظت کرتے اس پر مگر نبی یا صدیق یا شہید۔ (6) خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ قرآن کی کون سی آیت اعظم ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ آخر تک ہے۔ (7) طبرانی نے حسن سند کے ساتھ حسن بن علی ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی تو اگلی نماز تک وہ اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ کھانے میں برکت کی دعاء (8) ابو الحسن محمد بن احمد بن شمعون الواعظ نے اپنی امالی میں اور ابن النجار نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے نبی اکرم ﷺ کے پاس شکایت کی کہ مجھ سے برکت اٹھا لی گئی ہے۔ آپ نے فرمایا آیۃ الکرسی کو تو کیوں نہیں پڑھتا ؟ جس کھانے اور سالن پر یہ پڑھی جائے اللہ تعالیٰ اس کھانے اور سالن میں برکت کو بڑھا دیتے ہیں۔ (9) دارمی نے ایفع بن عبداللہ کلاعی ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عرض کی یا رسول اللہ ! اللہ کی کتاب میں کون سی آیت سب سے زیادہ عظمت والی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا آیۃ الکرسی لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ پھر اس نے عرض کیا اللہ کی کتاب میں کون سی آیت ایسی ہے جس کو آپ پسند فرماتے ہیں کہ وہ آپ کو بھی مل جائے اور آپ کی امت کو بھی مل جائے ؟ آپ نے فرمایا سورة البقرۃ کی آخری آیت کیونکہ وہ اللہ کے عرش کے نیچے رحمت کے خزانہ میں سے ہے اور وہ دنیا وآخرت میں کسی خیر کو نہیں چھوڑتی ہے مگر یہ کہ وہ اس کو شامل ہوتی ہے۔ (10) ابن النجار نے تاریخ بغداد میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے گا اللہ تعالیٰ اس کو شکر کرنے والا دل، صدیقین والے اعمال، نبیوں والا ثواب عطا فرمائیں گے اور اس پر اپنا ہاتھ رحمت کے ساتھ پھیلائیں گے اور جنت میں داخل ہوجائے۔ اور اس کے لئے جنت سے کوئی چیز مانع نہیں ہوگی مگر یہ کہ وہ وصال کرے (11) بیہقی نے شعب الایمان میں محمد بن ضوء بن صلصال بن ولہمس (رح) سے اور وہ اپنے باپ دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی تو اس کے اور جنت میں داخل ہونے میں سوائے موت کے کوئی چیز درمیان میں حائل نہیں ہوگی اگر اس کو موت آگئی تو جنت میں داخل ہوگا۔ (12) سعید بن منصور، ابن المنذر ابن الضریس طبرانی، الہروی نے فضائل میں بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ اللہ کی کتاب میں سے سب سے عظمت والی آیت لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ ہے۔ (13) ابو عبید ابن الضریس اور محمد بن نصر نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا اللہ تعالیٰ نے آسمان زمین اور جنت اور دوزخ میں آیت الکرسی سے زیادہ عظمت والی کوئی چیز نہیں بنائی جو سورة بقرہ میں ہے۔ اور وہ ہے ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ (14) سعید بن منصور ابن الضریس اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ آیۃ الکرسی سے بڑھ کر کوئی چیز زیادہ عظمت والی نہیں نہ آسمان میں، نہ زمین میں، نہ میدان اور نہ پہاڑ میں۔ (15) ابو عبیدہ نے اپنے فضائل میں، دارمی، طبرانی، ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں اور بیہقی نے حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ آدمی انسانوں میں سے باہر نکلا اس کی ملاقات ایک مرد جن سے ہوئی جن نے کہا تو مجھ سے کشتی کرے گا۔ اگر تو مجھے پچھاڑ دے گا، تو میں تجھ کو ایک آیت سکھاؤں گا جب تو اس کو گھر میں داخل ہوتے وقت پڑھے گا، تو شیطان اس میں داخل نہ ہوگا، اس سے مقابلہ ہوا تو انسان نے اس کو پچھاڑ دیا تو جن نے کہا تو آیۃ الکرسی پڑھا کر۔ کیونکہ جو آدمی گھر میں داخل ہوتے وقت اس کو پڑھتا ہے تو شیطان وہاں سے گدھے کی طرح پاد مارتے ہوئے نکل جاتا ہے، ابن مسعود ؓ سے پوچھا گیا کیا وہ عمر ؓ تھے۔ (جس سے شیطان بھاگ گیا تھا) انہوں نے فرمایا ہاں ! وہ عمر ہی ہوسکتے ہیں، اور الخحیج سے مراد گو زیاد ہے۔ (16) المحاصلی نے اپنے فوائد میں حضرت ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے ایسی چیز سکھائے جس کے ذریعے مجھے اللہ تعالیٰ نفع دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا آیۃ الکرسی پڑھ۔ کیونکہ وہ تیری (اور) تیری اولاد کی حفاظت کرے گی۔ اور تیرے گھر کی بھی حفاظت کرے گی یہاں تک کہ تیرے گھر کے اردگرد پڑوسی گھروں کی بھی حفاظت کرے گی۔ (17) ابن مردویہ، شیرازی نے الالقاب میں اور الہروی نے اپنے فضائل میں ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ عمر بن خطاب ؓ ایک دن لوگوں کے پاس تشریف لائے اور فرمایا تم میں سے کون مجھ کو قرآن میں سب سے عظمت والی آیت کے بارے میں بتائے گا۔ اور اس سے زیادہ عدل والی اور اس سے زیادہ خوف دلانے والی، اور اس سے زیادہ امید دلانے والی۔ قوم خاموش ہوگئی۔ (پھر) ابن مسعود ؓ نے فرمایا میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن میں سب سے عظمت والی آیت لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ ہے اور سب سے عدل پر مبنی آیت قرآن میں لفظ آیت ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان “ ہے (النحل آیت 90) اور سب سے زیادہ خوف والی آیت قرآن میں لفظ آیت ” فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ۔ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ۔ “ ہے۔ اور سب سے زیادہ امید والی آیت قرآن میں لفظ آیت ” قل یعبادی الذین اسرفوا علی انفسہم لا تقنطوا من رحمۃ اللہ “ ہے۔ (18) ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب سورة البقرہ کی آخری آیت یا آیۃ الکرسی پڑھتے تھے تو ہنستے تھے۔ اور فرماتے تھے کہ یہ دونوں چیزیں (یعنی سورة البقرہ کا آخر اور آیۃ الکرسی) عرش کے نیچے رحمن کے خزانہ میں سے ہیں۔ اور جب یہ آیت لفظ آیت ” ومن یعمل سوءا او یجز بہ “ (النساء) پڑھتے تھے تو لفظ آیت ” انا للہ وانا الیہ رجعون “ پڑھتے تھے اور (اللہ تعالیٰ کے سامنے) جھک جاتے تھے۔ سورۃ البقرۂ کی فضیلت (19) ابن الضریس، محمد بن نصر اور الہروی نے اپنے فضائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے سورة البقرہ سے زیادہ عظمت والی چیز پیدا نہیں فرمائی۔ نہ آسمان، نہ زمین، نہ میدان، نہ پہاڑ، اور سب سے زیادہ عظمت والی آیت اس میں آیۃ الکرسی ہے۔ (20) ابن ابی شیبہ ابو یعلی، ابن المنذر اور ابن عساکر نے عبد الرحمن بن عوف ؓ سے روایت کیا کہ جب وہ اپنے گھر میں داخل ہوتے تو اس کے کونوں میں آیۃ الکرسی پڑھتے۔ (21) ابن النجار نے المصاحف میں اور بیہقی نے شعب میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ سے روایت کیا کہ قرآن کی آیتوں کی سردار آیت لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ ہے۔ (22) امام بیہقی نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص ہر نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھے گا تو اس کو جنت میں داخل ہونے کے لئے موت کے سوا کوئی چیز رکاوٹ نہ ہوگی اور جو شخص اس کو لیٹنے کے وقت پڑھے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے گھر کو اس کے پڑوسی کے گھر کو اور اس کے اردگرد کے گھروں کی حفاظت کرے گا۔ (23) ابو عبیدہ، ابن ابی شیبہ، دارمی، محمد بن نصر، ابن الضریس نے حضرت علی ؓ سے روایت کیا کہ میں نے کسی آدمی کو نہیں دیکھا جو اسلام میں پیدا ہوا یا اسلام میں بالغ ہوا وہ اس حال میں ہمیشہ رات گذارتا ہے کہ اس آیت لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ کو پڑھ لیتا ہے اگر تم جانتے یہ کتنی برکت والی آیت ہے تمہارے نبی کو یہ عرش کے نیچے والے خزانے سے دی گئی تمہارے نبی سے پہلے کسی کو یہ چیز نہیں دی گئی میں نے کوئی بھی رات نہیں گذاری یہاں تک کہ اس کو تین مرتبہ پڑھ لیتا ہوں اور عشاء کے بعد دو رکعتوں میں اس کو پڑھ لیتا ہوں اور اپنے وتر میں بھی اور جب اپنے بستر پر لیٹنے لگتا ہوں تب بھی پڑھ لیتا ہوں۔ سب سے زیادہ عظمت والی آیت (24) ابو عبیدہ نے عبد اللہ بن رباح ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول ﷺ نے ابی بن کعب ؓ سے فرمایا اے ابو منذر (یہ ان کی کنیت ہے) قرآن میں کون سی آیت سب سے زیادہ عظمت والی ہے انہوں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا اے ابو منذر ! کون سی آیت اللہ کی کتاب میں سب سے زیادہ عظمت والی ہے ؟ عرض کیا اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ پھر عرض کیا اے ابو منذر کون سی آیت اللہ کتاب میں اعظم ہے ؟ تو عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ پھر انہوں نے کہا لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ ہے۔ آپ ﷺ نے اس کے سر پر ہاتھ مار کر فرمایا اے ابو منذر ! تیرا علم تجھے مبارک ہو۔ (25) ابن راوہویہ نے اپنی مسند میں عوف بن مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ (ایک مرتبہ) ابوذر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کون سی آیت اللہ تعالیٰ نے آپ پر سب سے زیادہ عظمت والی نازل فرمائی آپ ﷺ نے فرمایا لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ حتی کہ آخر تک پڑھی جائے۔ (26) ابن ابی دنیا نے مکاید الشیطان میں، محمد بن نصر، الطبرانی، حاکم، ابو نعیم اور بیہقی دونوں نے دلائل میں معاذ بن جبل ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے صدقہ کی کھجوریں میرے سپرد کیں میں نے ان کو ایک کمرہ میں رکھ لیا پھر میں ان میں ہر دن کمی دیکھتا تھا میں نے اس بات کی رسول اللہ ﷺ کو شکایت کی آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا یہ شیطان کا کام ہے تو اس کی گھات لگا (یعنی اس کی نگرانی کر) میں نے رات کو گھات لگائی۔ جب رات کا ایک حصہ گزر گیا۔ (وہ شیطان) ہاتھی کی صورت میں مجھ پر ظاہر ہوا۔ جب دروازہ کی طرف پہنچا تو دروازہ کی دراڑ سے دوسری طرف داخل ہوگیا۔ پھر کھجور کے قریب ہوا اور ایک ایک لقمہ کر کے کھانے لگا میں نے اپنے کپڑوں کو کس لیا اور میں نے پڑھالفظ آیت ” اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ ورسولہ “ اے اللہ کے دشمن، صدقہ کے کھجوروں کی طرف تو بڑھا ہے میں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا دوسرے لوگ تجھ سے زیادہ حق دار ہیں۔ میں تجھ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس ضرور لے جاؤں گا۔ اور وہ تجھ کو رسوا کریں گے۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ پھر نہیں آؤں گا۔ (میں نے اس کو چھوڑ دیا) میں صبح کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے پوچھا تیرے قیدی نے کیا کیا ؟ میں نے کہا اس نے مجھ سے وعدہ کیا پھر نہیں آؤں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ دوبارہ آئے گا اس کی نگرانی کرنا۔ میں دوسری رات پھر نگرانی کی، اس نے اسی طرح کیا اور میں نے اسی طرح کیا۔ اس نے پھر وعدہ کیا کہ اب نہیں آؤں گا۔ میں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ پھر صبح کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کو سارا واقعہ سنایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ پھر آئے گا اس کی نگرانی کرنا۔ میں نے تیسری رات پھر نگرانی کی، اس نے اسی طرح کیا میں نے بھی اسی طرح کیا، میں نے کہا اے اللہ کے دشمن ! تو نے مجھ سے دو مرتبہ وعدہ کیا، اور یہ تیسری مرتبہ ہے۔ کہنے لگا میں عیال دار ہوں میں نصیین (ایک جگہ کا نام) سے تیرے پاس آتا ہوں۔ اگر مجھے کوئی چیز مل جاتی تو تیرے پاس نہ آتا اور ہم تمہارے اس شہر میں رہتے تھے۔ یہاں تک کہ تمہارے ساتھ (رسول اللہ ﷺ مبعوث ہوئے جب ان پر یہ دو آیتیں نازل ہوئی تو ہم کو اس (شہر) سے بھگا کر نصیین میں ڈال دیا اور یہ کہ دونوں آیتیں کسی گھر میں نہیں پڑھی جاتیں مگر یہ کہ اس میں شیطان نہیں داخل ہوتا۔ تین مرتبہ اس نے کہا اگر تو میرا راستہ چھوڑ دے۔ تو میں وہ دونوں آیتیں تجھ کو سکھا دوں گا۔ میں نے کہا ہاں (مجھے سکھاؤ) اس نے کہا وہ آیۃ الکرسی ہے۔ اور سورة بقرہ کا آخر ہے۔ لفظ آیت ” امن الرسول “ سے آخر تک۔ میں نے اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ پھر میں صبح کو رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو بتایا جو کچھ اس نے کہا تھا آپ ﷺ نے فرمایا خبیث نے سچ کہا اگرچہ وہ بہت جھوٹ بولنے والا ہے معاذ ؓ فرماتے ہیں اس کے بعد میں ان دونوں کو پڑھتا تھا تو کوئی نقصان کو نہیں دیکھتا تھا۔ نفع و نقصان صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے (27) طبرانی السنہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو “ سے مراد یہ ہے کہ اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں اور اس ذات کے علاوہ ہر معبود مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے جو نہ نقصان پہنچا سکتی ہے، نہ نفع دے سکتی ہے، نہ رزق کے مالک ہیں نہ زندگی کے نہ قیامت کے دن اور نہ اٹھائے جانے کے مالک ہیں لفظ آیت ” الحی “ وہ زندہ ہے جس کو موت نہیں آتی لفظ آیت ” القیوم “ ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے جو فنا نہیں ہوتی لفظ آیت ” لا تاخذہ سنۃ “ اس کو اونگھ بھی نہیں آتی لفظ آیت ” من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ “ یعنی اس کی اجازت کے بغیر کون سا فرشتہ ہے جو سفارش کرے جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے لفظ آیت ” ولا یشفعون الا لمن ارتضی “ (الانبیاء آیت 28) (یعنی وہ فرشتے نہیں سفارش کرتے مگر اس شخص کی جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں) اور لفظ آیت ” یعلم ما بین ایدیہم “ سے آسمان اور زمین کی درمیانی مخلوق مراد ہے لفظ آیت ” وما خلفہم “ سے مراد جو کچھ آسمانوں میں ہے لفظ آیت ” ولا یحیطون بشیء من علمہ الا بما شاء “ سے وہ چیزیں مراد ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ ان کو اپنے علم پر مطلع فرما دیتے ہیں لفظ آیت ” وسع کرسیہ السموت والارض “ سے مراد ہے کہ اس کی کرسی سب سے بڑی ہے سات آسمانوں سے اور سات زمینوں سے لفظ آیت ” ولا یؤدہ حفظھما “ سے مراد ہے کہ اس ذات سے کوئی چیز فوت نہیں ہوتی جو آسمانوں میں ہے زمین میں ہے لفظ آیت ” وھو العلی العظیم “ اس سے مراد وہ ذات ہے جو سب سے اعظم سب سے زیادہ عزت والا سب سے زیادہ بزرگی والا ہے اور سب سے زیادہ اکرام والا ہے۔ (28) ابو الشیخ نے العظمہ میں ابو رحزہ یزید بن عبید الساعی (رح) سے روایت کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس لوٹے تو بنو فزارہ کا وفد آپ کے پاس واپس آیا۔ اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! اپنے رب سے دعا فرمائیے کہ ہم کو بارش عطا فرمائے۔ اور ہمارے لئے اپنے رب سے سفارش کیجئے۔ اور آپ کا رب آپ کی سفارش قبول فرمائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افسوس ہے تیرے لئے میں اپنے رب کی طرف سفارش کروں گا۔ پس کون ہے جو ہمارے رب کی طرف سفارش کرے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہ عظیم ذات ہے اس کی کرسی آسمان اور زمین سے زیادہ وسیع ہے یہ زمین و آسمان اس کی عظمت اور جلال کی وجہ سے اس طرح چڑچڑا رہے ہیں جیسے نیا کجاوہ چڑ چڑاتا ہے۔ (29) ابن ابی الدنیا نے مکائد الشیطان میں، محمد بن نصر، الطبرانی، ابو نعیم نے دلائل میں ابو اسید الساعدی ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے اپنے باغ کی کھجوریں کاٹ کر ان کو ایک کمرے میں رکھ دیا ایک شیطان ان کے کمرے میں آیا ان کھجوروں کو چوری کرنے لگا اور ان کو بگاڑنے لگا۔ میں نے نبی اکرم ﷺ کو اس بات کی شکایت کی ؟ آپ نے فرمایا اے ابو اسید اس کو آنے دے غور سے سن جب تو اس کے آنے کا سنے تو کہہ بسم اللہ تجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جاؤں گا۔ شیطان نے کہا اے ابو اسید ! مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس نہ لے جا۔ اور میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے پختہ وعدہ دیتا ہوں کہ میں تیرے گھر کی طرف نہیں آؤں گا اور نہ تیری کھجوریں چوریں کروں گا۔ اور میں تجھ کو ایسی آیت بتاتا ہوں (اگر) تو اس کو اپنے گھر میں پڑھے گا۔ تو تیرے گھر والوں میں شیطان نہیں آئے گا۔ اور اگر تو اپنے برتنوں پر پڑھے گا تو شیطان ان کا پردہ نہیں اٹھائے گا۔ اس شیطان نے اسید سے ایسا وعدہ کیا کہ وہ اس سے راضی ہوگئے پھر کہنے لگا جو آیت میں تجھے بتانا چاہتا ہوں وہ آیۃ الکرسی ہے۔ اسید نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو سارا قصہ سنایا آپ ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا اگرچہ وہ بہت جھوٹ بولنے والا ہے۔ (30) نسائی، الرویانی نے اپنی سند میں، ابن حبان، دارقطنی، الطبرانی اور ابن مردویہ نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھی۔ موت کے سوا اس کو جنت میں داخل ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں۔ (31) ابن ابی الدنیا نے دعا میں، الطبرانی، ابن مردویہ، اور الہروی نے اپنے فضائل میں اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو امامہ ؓ سے مرفوع روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم جب اس کے ذریعے دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے وہ تین سورتوں میں ہے۔ سورة بقرہ، آل عمران، اور طہٰ ، پھر ابو امامہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے اس کو ڈھونڈ ھا تو سورة بقرہ کی آیۃ الکرسی میں لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ کو پایا۔ اور آل عمران میں لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ کو پایا اور سورة طہ میں لفظ آیت ” وعنت الوجوہ للحی القیوم “ کو پایا۔ کالی بلی سے حفاظت (32) حاکم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ ابو ایوب ؓ کے پاس ایک کمرہ میں تشریف لائے۔ اور اس کا (یعنی ابو ایوب) ایک کھانا الماری میں ایک ٹوکری میں رکھا ہوا تھا۔ روشندان میں سے بلی کی طرح کا ایک جانور آتا تھا۔ اور ٹوکری میں سے کھانا لے جاتا تھا۔ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا یہ شیطان ہے جب وہ آئے تو اس سے کہہ دو کہ میں تجھ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جاؤں گا۔ اور نہ چھوڑوں گا شیطان نے کہا اے ابو ایوب ! مجھ کو اس مرتبہ چھوڑ دے۔ اللہ کی قسم پھر نہیں آؤں گا، ایوب ؓ نے اس کو چھوڑ دیا۔ پھر شیطان نے کہا میں تجھ کو ایسے کلمات نہ سکھاؤں کہ جب تو ان کو کہے گا تو تیرے گھر کے قریب اس رات اور اس دن اور اس سے اگلے دن تک شیطان نہیں آئے گا ؟ انہوں نے فرمایا۔ ہاں ! ضرور بتاؤ۔ کہنے لگا آیۃ الکرسی پڑھا کر۔ ابو ایوب ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور ان کو بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا اگرچہ وہ بہت جھوٹا ہے۔ (33) ابن ابی شیبہ، احمد، المروزی نے (اور اس کو حسن کہا) ابن ابی الدنیا نے مکائد الشیطان میں ابو الشیخ نے العظمہ میں، الطبرانی، الحاکم، ابو نعیم نے دلائل میں ابو ایوب ؓ سے روایت کیا کہ ان کی ایک کوٹھڑی تھی ایک شیطان یعنی (جن) آتا تھا اور مال لے جاتا تھا۔ میں نے نبی اکرم ﷺ سے اس کی شکایت کی، آپ نے فرمایا جب تو اس کو دیکھے تو یوں کہہ، لفظ آیت بسم اللہ حبیبی رسول اللہ وہ جن آیا تو انہوں نے اس کو یہ الفاظ کہے اس کو یہ کہہ کر پکڑ لیا، وہ جن کہنے لگا، میں پھر کبھی نہیں آؤں گا میں نے اس کو چھوڑ دیا اور صبح کو رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا تیرے قیدی کا کیا ہوا ؟ عرض کیا میں نے اس کو پکڑا ہر دفعہ وہ یہی کہتا تھا میں پھر نہیں آؤں گا پھر (ایک مرتبہ) میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا آپ نے فرمایا تیرے قیدی کا کیا ہوا میں نے عرض کیا میں نے اس کو پکڑا اور وہ کہتا تھا میں (دوبارہ) نہیں آؤں گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا وہ پھر آئے گا میں نے اس کو (پھر) پکڑا اس نے کہا مجھے چھوڑ دے میں تجھ کو ایسی چیز بتاتا ہوں۔ (اگر) تو اس کو کہے گا تو تیرے قریب کوئی چیز نہیں آئے گی وہ آیۃ الکرسی ہے۔ میں نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا سارا واقعہ بیان کیا آپ ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا لیکن وہ ہے بہت جھوٹا۔ (34) احمد ابن الضریس، حاکم (اور اس نے اس کو صحیح کہا) اور بیہقی نے شعب الایمان میں ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ پر کون سی بڑی عظمت والی آیت نازل ہوئی۔ آپ نے فرمایا آیۃ الکرسی لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ (35) ابن السنی نے ابو قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جس شخص نے آیۃ الکرسی اور سورة بقرہ کا آخر (یعنی آخری آیتیں) سخت مصیبت کے وقت پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرمائیں گے۔ (36) ابن مردویہ نے ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مرفوعا روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ بن عمران کی طرف وحی بھیجی کہ ہر فرض نماز کے بعد آیۃ الکرسی پڑھو۔ جو شخص اس کو ہر فرض نماز کے بعد پڑھے گا میں اس کے لئے شاکرین والا دل، ذاکرین والی زبان، اور نبیوں والا ثواب اور صدیقین والے اعمال بنا دوں گا۔ اور اس پر پابندی نہیں کرتا، مگر نبی یا صدیق یا وہ بندہ جس کا دل ایمان سے مزین ہو یا اللہ کے راستہ میں اس کی شہادت کا ارادہ کیا گیا ہو۔ ابن کثیر نے کہا کہ یہ حدیث بہت منکر ہے۔ (37) احمد، طبرانی نے ابو امامہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! کون سی آیت آپ پر سب سے زیادہ عظمت والی نازل ہوئی آپ ﷺ نے فرمایا ” لفظ آیت اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ یعنی آیۃ الکرسی۔ (38) ابن السنی نے عمل الیوم واللیلۃ میں علی بن الحسن ؓ سے اور وہ اپنے والد اور اپنی والدہ فاطمہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ جب (ان کی والدہ فاطمہ ؓ کو) بچہ کی پیدائش قریب ہوئی تو آپ نے (ازواج مطہرات) حضرت ام سلمہ اور زینب بنت حجش ؓ کو حکم فرمایا کہ فاطمہ ؓ کے پاس جاؤ اور اس کے پاس آیۃ الکرسی اور لفظ آیت ” ان ربکم اللہ “ (الاعراف آیت 54) آخر آیت تک پڑھو اور معوذتین پڑھ کر دم کرو۔ (39) دیلمی نے حضرت علی ابن ابی طالب ؓ سے روایت کیا میں نے کسی آدمی کو نہیں دیکھا جس نے اسلام میں اپنی عقل (یعنی سمجھ بوجھ) کو پایا اور وہ رات کو یہ آیت لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ نہ پڑھتا ہو۔ اگر تم جان لو جو کچھ اس میں خیرو برکت ہے تو تم اس کو کسی حال میں نہ چھوڑو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے آیۃ الکرسی عرش کے نیچے خزانہ میں سے دی گئی۔ مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی۔ حضرت علی نے فرمایا جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کو سنا کبھی کوئی رات ایسی نہیں گزری جس میں یہ آیۃ الکرسی نہ پڑھی ہو۔ (40) طبرانی نے ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت کیا میری کوٹھڑی میں کھجوریں رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ اس میں کمی ہو رہی ہے۔ میں نے یہ بات رسول اللہ ﷺ کو بتائی۔ آپ نے فرمایا تو کل ایک بلی کو اس میں پائے گا۔ تو اس سے کہنالفظ آیت ” احبیبی رسول اللہ ﷺ “ میں تجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جاؤں گا۔ وہ ایک بڑھیا کی شکل میں پلٹ گئی اور کہنے لگی۔ مجھے چھوڑ دے تو میں تجھ کو اللہ کا واسطہ دیتی ہوں۔ اور میں پھر کبھی نہیں آؤں گی۔ میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ (جب) میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا تو آپ نے پوچھا اس آدمی کا کیا ہوا ؟ میں نے آپ کو پورا واقعہ بتادیا۔ آپ نے فرمایا وہ جھوٹی ہے پھر آئے گی۔ جب وہ دوبارہ آئے اس سے یہی کہنا لفظ آیت ” احبیبی رسول اللہ ﷺ “ میں تجھ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جاؤں گا وہ پلٹ کر کہنے لگی۔ اے ابو ایوب میں تجھ کو اللہ کا واسطہ دیتی ہوں اس مرتبہ تو مجھے چھوڑ دے میں پھر نہیں آؤں گی۔ میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ پھر میں نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا آپ نے پھر اسی طرح مجھ سے فرمایا۔ میرے ساتھ یہ معاملہ تین مرتبہ ہوا۔ اس نے مجھ سے تیسری مرتبہ یہ کہا اے ابو ایوب ! میں تجھ کو ایسی چیز سکھاؤں گی جو شیطان اس کو سنے گا اس گھر میں نہ ہوگا۔ میں نے کہا وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا وہ آیۃ الکرسی ہے جو شیطان اس کو سنتا ہے بھاگ جاتا ہے۔ میں نے یہ بات نبی اکرم ﷺ کو بتائی تو آپ ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا اگرچہ وہ بہت جھوٹی ہے۔ (42) طبرانی نے ابو ایوب ؓ سے روایت کیا کہ میرے گھر میں کوئی چیز مجھے تکلیف دیتی تھی۔ میں نے اس کی نبی اکرم ﷺ سے شکایت کی، ہمارے گھر میں ایک روشندان تھا آپ نے فرمایا اس کی گھات لگاؤ۔ جب تو کسی چیز کر دیکھے تو یہ کہنا لفظ آیت احبیبی یدعوک رسول اللہ ﷺ (تجھے رسول اللہ ﷺ بلاتے ہیں) (چنانچہ) میں نے گھات لگائی اچانک کوئی چیز روشن دان میں سے لٹکی میں اس کی طرف کو دا اور میں نے کہا لفظ آیت ” اخساء یدعوک رسول اللہ ﷺ “ تیرا برا ہو تجھے رسول اللہ ﷺ بلاتے ہیں) میں نے اس کو پکڑا تو اس نے مجھ سے آہ وزاری کی اور اس نے مجھ سے کہا میں (اب) نہیں لوٹوں گا۔ میں نے اس کو چھوڑ دیا جب صبح کو میں رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا تو آپ نے پوچھا تیرے قیدی کا کیا ہوا ؟ میں نے واقعہ بتادیا آپ ﷺ نے فرمایا وہ پھر آئے گا۔ تین مرتبہ میں نے ایسا ہی کیا۔ ہر مرتبہ میں نے اس کو پکڑا اور نبی اکرم ﷺ کو سارا واقعہ بتادیا۔ جب تیسری مرتبہ یہ واقعہ ہوا تو میں نے اس کو پکڑا اور اس سے کہا اب میں تجھے نہ چھوڑوں گا۔ یہاں تک کہ میں تجھ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جاؤں گا۔ اس نے مجھ سے قسم کھائی اور مجھ سے عاجزی کی۔ اور کہا میں تجھ کو ایسی چیز سکھاؤں گا۔ جب تو اپنی رات میں اس کو پڑھے گا نہ کوئی جن نہ کوئی چور تیرے قریب آئے گا۔ تو یہ آیۃ الکرسی پڑھا کر، میں نے اس کو چھوڑ دیا اور نبی اکرم ﷺ کے پاس آیا آپ نے پوچھا تیرے قیدی کا کیا ہوا ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ ! اس نے مجھ سے قسم کھائی اور مجھ سے عاجزی کی، یہاں تک کہ میں نے اس پر رحم کیا۔ اور اس نے مجھ کو ایسی چیز سکھائی کہ اگر میں اس کو پڑھوں گا تو میرے قریب نہ کوئی جن اور نہ کوئی چور آئے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس نے سچ کہا اگرچہ وہ بہت جھوٹا ہے۔ (43) بخاری، ابن الضریس، نسائی، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے دلائل میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا کہ مجھ کو رسول اللہ ﷺ نے فطرانہ کے مال کی حفاظت پر مقرر فرمایا۔ ایک آنے والا آیا اور مال میں سے لپ بھرنے لگا۔ میں نے اس کو پکڑا اور میں نے کہا کہ میں تجھ کو ضرور رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جاؤں گا۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دے میں محتاج ہوں اور عیال دار ہوں۔ اور مجھے شدید حاجت ہے۔ میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ میں صبح کو رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا تو آپ نے مجھ سے فرمایا اے ابوہریرہ ! گزشتہ رات تیرے قیدی کا کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس نے اپنی شدید حاجت اور عیال کا ذکر کیا۔ میں نے اس پر رحم کھایا اور اس کا راستہ چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا اس نے تیرے ساتھ جھوٹ بولا اور وہ پھر آئے گا۔ مجھے یقین ہوگیا کہ وہ ضرور آئے گا تو میں اس کی تاک میں بیٹھ گیا۔ پھر وہ آیا اور کھانے میں سے لپ بھرنے لگا۔ میں نے اس کو پکڑا اور کہا کہ میں تجھ کو ضرور رسول اللہ ﷺ کے پاس لے جاؤں گا۔ اس نے کہا مجھے چھوڑ دے میں محتاج اور عیال دار ہوں پھر کبھی نہیں آؤں گا میں نے اس پر رحم کرتے ہوئے اس کو چھوڑ دیا میں صبح کو حاضر ہوا۔ تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا تیرے قیدی کا کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ اس نے اپنی حاجت اور عیال دار ہونے کی شکایت کی تو میں نے اس پر رحم کرتے ہوئے اس کو چھوڑ دیا آپ نے فرمایا اس نے تجھ سے جھوٹ بولا وہ پھر آئے گا میں نے تیسری رات پھر گھات لگائی وہ آیا اور کھانے میں لپ بھرنے لگا میں نے اس کو پکڑا اور کہا میں تجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس ضرور لے جاؤں گا اور تیسری مرتبہ تو کہتا ہے میں پھر نہیں آؤں گا اور پھر آجاتا ہے اس نے کہا مجھے چھوڑ دے میں تجھ کو ایسے کلمات سکھاؤں گا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تجھ کو نفع دیں گے میں کہا وہ کیا ہیں ؟ اس نے کہا تو اپنے بستر پر آئے تو آیۃ الکرسی لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ (آیت کے ختم تک) پڑھ لے بیشک برابر تیرے اوپر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حفاظت کرنے والا رہے گا اور صبح تک تیرے قریب کوئی شیطان نہیں آئے گا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اس نے تجھ سے سچ کہا اگرچہ وہ بہت جھوٹا ہے۔ (44) بیہقی نے دلائل میں حضرت بریدہ ؓ سے روایت کیا کہ میرے پاس خوراک تھی اس میں نقصان ہو رہا تھا میں رات میں چھپ کر بیٹھ گیا اچانک ایک جنی عورت دیکھی میں اس پر لپکا اور میں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا کہ تجھ کو نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ تجھ کو نبی اکرم ﷺ کے پاس لے جاؤں گا کہنے لگی میں ایک عورت ہوں اور کثیر العیال ہوں (یعنی اولاد بہت ہے) پھر نہیں آؤں گی (مجھے چھوڑ دے) پھر وہ دوسری اور تیسری مرتبہ آئی میں نے اس کو پکڑ لیا تو کہنے لگی مجھے چھوڑ دے میں تجھ کو ایک ایسی چیز سکھاؤں گی جب تو اس کو پڑھے گا تو ہم میں سے کوئی تیرے سامان کے پاس نہیں آئے گا جب تو اپنے بستر پر آئے تو اپنے اوپر اور اپنے مال پر آیۃ الکرسی پڑھ لے میں نے نبی اکرم ﷺ کو یہ بات بتائی تو آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا اگرچہ وہ بہت جھوٹی ہے۔ (45) سعید بن منصور حاکم اور بیہقی نے شعب میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سورة بقرۃ میں ایک آیت ہے جو قرآن کی ساری آیتوں کی سردار ہے جس گھر میں یہ آیت پڑھی جاتی ہے تو شیطان اس گھر سے بھاگ جاتا ہے اور وہ (آیت) آیۃ الکرسی ہے۔ (46) امام دارمی اور ترمذی میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے ( حم، المؤمن) لفظ آیت ” الیہ المصیر “ تک اور آیۃ الکرسی صبح کو پڑھی تو وہ ان آیات کی وجہ سے شام تک حفاظت میں رہے گا اور جس شخص نے دونوں کو شام کے وقت پڑھا تو صبح تک حفاظت میں رہے گا۔ (47) امام بخاری نے اپنی تاریخ میں اور ابن الضریس نے انس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا مجھے آیۃ الکرسی عرش کے نیچے سے عطا کی گئی۔ (48) ابن ابی الدنیا مکائد الشیطان میں اور دینوری نے المجالسۃ میں حسن ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا میرے پاس جبرئیل (علیہ السلام) تشریف لائے اور فرمایا کہ ایک جن تیرے ساتھ مکروفریب کرے گا جب آپ اپنے بستر پر آئیں تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کریں۔ (49) ابن ابی الدنیا نے مکائد الشیطان میں ابو شیخ نے العظمۃ میں ابن اسحاق (رح) سے روایت کیا کہ زید بن ثابت ؓ ایک رات کو اپنے باغ میں گئے اس میں ایک آواز کو سنا اور کہا یہ کون ہے ؟ اس نے کہا میں جنات میں سے ایک آدمی ہوں ہم کو قحط سالی پہنچ گئی۔ تو میں نے ارادہ کیا کہ انسانوں کے پھلوں میں سے کچھ لے لوں ہمارے لیے اس کو حلال کر دیجئے۔ انہوں نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے۔ پھر زید بن ثابت ؓ سے پوچھا کیا تو ہم کو بتاسکتا ہے کہ کون سی چیز ہمیں تم سے بچا سکتی ہے ؟ اس نے کہا آیۃ الکرسی۔ (50) امام ابو عبید نے سلمہ بن قیس ؓ سے روایت کیا جو ایلیا کے پہلے امیر تھے۔ کہ اللہ تعالیٰ نے لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ سے زیادہ عظمت والی آیت تورات میں، انجیل میں، اور زبور میں نہیں اتاری۔ (51) امام ابن الضریس نے حسن ؓ سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی کا بھائی مرگیا تو اس نے اس کو نیند میں دیکھا اور اس سے پوچھا کون سا عمل بہتر ہے ؟ اس نے کہا قرآن، پھر اس نے پوچھا قرآن کی کون سی آیت ؟ اس نے کہا آیۃ الکرسی لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ پھر اس نے پوچھا تم ہمارے لیے کس چیز کی امید رکھتے ہو۔ اس نے کہا ہاں تم عمل کرتے ہو اور تم جانتے نہیں ہو اور ہم جانتے ہیں۔ اور ہم عمل نہیں کرتے۔ بستر پر آیت الکرسی (52) قتادہ (رح) سے روایت کیا جس شخص نے بستر پر آنے کے وقت آیۃ الکرسی پڑھی۔ تو دو فرشتے صبح تک اس کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ (53) ابن ابی حاتم، ابو شیک نے العظمہ میں، ابن مردویہ اور الضیاء نے المختارہ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نبی اسرائیل نے کہا اے موسیٰ ! کیا تیرا رب نیند کرتا ہے ؟ انہوں نے فرمایا اللہ سے ڈرو (پھر) ان کے رب نے ان کو آواز دی۔ اے موسیٰ ! تجھ سے انہوں نے سوال کیا کیا تیرا رب نیند کرتا ہے ؟ دو شیشے اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر رات میں کھڑے ہوجاؤ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا ہی کیا جب ایک تہائی رات گزر گئی تو اونگھ آنے لگی اور اپنے گھٹنوں کے بل گرنے لگے پھر آپ اٹھے اور ان شیشوں کو مضبوطی سے پکڑا۔ یہاں تک کہ جب آخری رات ہوئی تو ایسی اونگھ آئی کہ دونوں شیشے گرپڑے اور ٹوٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ ! اگر میں نیند کرتا تو آسمان اور زمین گرجاتے اور ہلاک ہوجاتے جیسے تیرے ہاتھ میں شیشے ہلاک ہوگئے۔ اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ پر آیۃ الکرسی کو نازل فرمایا۔ (54) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے ربیع (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الحی “ سے مراد وہ ذات ہے جو ہمیشہ زندہ ہے جس کو موت نہیں آئے گی۔ (اور) لفظ آیت ” القیوم “ سے مراد ہر چیز کی نگرانی کرنا ہے۔ جو ان کو کھلاتا ہے، ان کو رزق دیتا ہے، اور ان کی حفاظت کرتا ہے۔ (55) آدم بن ابی ایاس، ابن جریر، بیہقی نے الاسماء والصفات میں مجاہد (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” القیوم “ سے مراد ہر چیز پر نگرانی کرنے والا۔ (56) ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” القیوم “ سے مراد وہ ذات ہے جس کو زوال نہیں۔ (57) ابن الانباری نے المصاحف میں قتادہ (رح) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” الحی “ سے مراد وہ ذات ہے جس کو موت نہیں آئے گی۔ اور لفظ آیت ” القیوم “ سے مراد قائم رہنے والی ایسی ذات جس کا کوئی بدل نہیں۔ (58) آدم بن ابی ایاس، ابن جریر، ابن ابی حاتم ابو الشیخ نے العظمہ میں اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے لفظ آیت ” لا تأخذہ سنۃ ولا نوم “ میں سنۃ سے مراد اونگھ ہے اور النوم سے مراد نیند ہے۔ (59) ابن الانباری نے کتاب الوقف والا بتداء میں اور الطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نافع بن ازرق (رح) نے ان سے پوچھا کہ مجھے لفظ آیت ” لا تأخذہ سنۃ “ کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے فرمایا کہ الوسنان سے مراد وہ شخص ہے جو نیند کرنے والا ہوا بھی مکمل سویا نہ ہو انہوں نے کہا کیا عرب کے لوگ اس معنی سے واقف ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے زہیر بن ابی سلمی کا قول نہیں سنا وہ فرماتے ہیں۔ لفظ آیت ولا سنۃ طوال الدھر تأخذہ ولا ینام وما فی امرہ فند (ترجمہ) اسے اونگھ نہیں آئی لمبے زمانہ میں اور نہ وہ نیند کرتا ہے اور نہ اس کا کام ختم ہوتا ہے۔ (60) عبد بن حمید، ابن جریر اور ابو الشیخ نے ضحاک (رح) سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ لفظ آیت ” السنۃ “ سے مراد اونگھ ہے اور النوم سے مراد لفظ آیت ” استثقال “ یعنی گہری نیند ہے۔ (61) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابن المنذر نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” السنۃ “ سے مراد ہے نیند کی ہو اجو چہرہ پر پڑتی ہے جس سے انسان اونگھنے لگتا ہے۔ (62) ابن ابی حاتم نے عطیہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” لا تاخذہ سنۃ ولا نوم “ سے مراد ہے جو کام میں سستی نہیں کرتا یعنی وہ کمزور نہیں پڑتا۔ (63) سعید بن جریر (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” من ذا الذی یشفع عندہ “ سے مراد ہے کون بات کرسکتا ہے اس کے پاس مگر اس کی اجازت سے۔ (64) ابن جریر نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یعلم ما بین ایدیہم “ سے مراد وہ جانتا ہے جو دنیا سے گذر چکا اور لفظ آیت ” وما خلفہم “ سے مراد ہے وہ آخرت کو بھی جانتا ہے۔ (65) ابن ابی حاتم نے العوفی کے طریق سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” یعلم ما بین ایدیہم “ سے مراد ہے کہ ان کے اعمال میں سے جو وہ کرچکے (اس کو جانتا ہے) لفظ آیت ” وما خلفہم “ اور جو کچھ وہ اپنے اعمال میں سے ضائع کرچکے (ان کو بھی جانتا ہے ) ۔ (66) ابن جریر نے سدی (رح) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا یحیطون بشیء من علمہ “ سے مراد ہے کہ وہ لوگ اس کے علم میں سے کچھ بھی نہیں جانتے لفظ آیت ” الا بما شاء “ مگر جو ان کو خود بتایا۔ (67) عبد بن حمید، ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” وسع کرسیہ السموت والارض “ سے مراد ہے کہ اس کی کرسی اس کا علم ہے۔ کیا تو نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کو نہیں سنا لفظ آیت ” ولا یؤدہ حفظھما “۔ (68) الخطیب نے اپنی تاریخ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم ﷺ سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” وسع کرسیہ السموت والارض “ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا اس کی کرسی اس کے قدم کی جگہ ہے اور عرش وہ ہے کہ اس کی قدرت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ (69) الفریابی، عبد بن حمید، ابن المنذر ابن ابی حاتم، الطبرانی ابو الشیخ، الحاکم (اور اس کو صحیح فرمایا) الخطیب اور بیہقی نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ کرسی اس کے قدموں کی جگہ ہے اور عرش وہ ہے کہ اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔ (70) ابن جریر ابن المنذر ابو الشیخ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت کیا کہ کرسی پاؤں رکھنے کی جگہ ہے اور وہ اس طرح چر چڑاتی ہوتی ہے جیسے کجاوے کی چڑ چڑاہٹ میں نے کہا یہ بات بطور استعارہ کے ہے اللہ تعالیٰ کی ذات اس تشبیہ سے بلند ہے اور اس کی وضاحت کرتی ہے وہ روایت جو ابن جریر نے ضحاک سے اس آیت کے بارے میں روایت کیا کہ کرسی وہ چیز ہے جو عرش کے نیچے رکھی ہوئی ہے کہ بادشاہ اس پر اپنے قدموں کو رکھتے ہیں۔ (71) ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں پھیلا دی جائیں پھر وہ ایک دوسرے سے جڑ جائیں تو کرسی کی وسعت کے سامنے وہ ایک کڑے کی مانند ہوں گی جو جنگل میں ہو۔ (72) ابن جریر، ابو الشیخ اور بیہقی نے الاسماء والصفات میں ابن مردویہ اور بیہقی نے ابوذر ؓ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ سے کرسی کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا اے ابو ذر ! ساتوں آسمان اور ساتوں زمین کرسی کے سامنے ایسی ہیں جیسے جنگل میں گرا ہوا ایک (انگوٹھی کا) حلقہ اور عرش کی فضیلت کرسی پر ایسی ہے جیسے کسی جنگل کی فضیلت اس حلقہ پر (فضیلت سے رماد ہے بڑا ہونا یعنی عرش اتنا بڑا ہے کہ اس کے سامنے کرسی ایک حلقہ کے برابر ہے ) ۔ (73) عبد بن حمید، ابن ابی غاصم نے السنۃ میں، البزار، ابو یعلی، ابن جریر، ابو الشیخ، الطبرانی، ابن مردویہ الضیا المقدسی نے المختارہ میں حضرت عمر سے روایت کیا ہے کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آکر کہنے لگی اللہ تعالیٰ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کی کرسی آسمانوں و زمین کو گھیرے ہوئے ہے اور اس کے لئے ایک آواز ہوتی ہے جیسے کسی نئے کجاوے کی چر چڑاہٹ ہوتی ہے جب وہ اس پر سوار ہوتا ہے اور وہ بوجھ کی وجہ سے چڑ چڑاتا ہے اس سے چار انگلی کے برابر جگہ خالی نہیں ہے۔ (74) ابو الشیخ نے العظمہ میں ابو نعیم نے الحلیہ میں النسائی ضعیف سند کے ساتھ حضرت علی ؓ سے مرفوعا روایت کیا ہے کہ کرسی موتی ہے اور قلم موتی ہے اور قلم کی لمبائی سات سو سال کے برابر ہے اور کرسی کی لمبائی اتنی ہے کہ جاننے والے بھی اس کو نہیں جانتے۔ (75) عبد بن حمید ابن ابی حاتم ابو الشیخ نے ابو مالک ؓ سے روایت کیا ہے کہ کرسی عرش کے نیچے ہے۔ (76) ابو الشیخ نے وھب بن منبہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ کرسی عرش کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور پانی سارے کا سارا کرسی کے پیٹ میں ہے۔ (77) ابو الشیخ نے عکرمہ (رح) سے روایت کیا ہے سورج کرسی کے نور کے سترویں جزو میں سے ایک جز ہے۔ (78) سعید بن منصور، عبد بن حمید، ابو الشیخ اور بیہقی نے مجاہد (رح) سے روایت کیا ہے آسمان و زمین کرسی کے سامنے ایسے ہیں جیسے ایک کڑا جنگل کی زمین میں ہو اور اس کی کرسی عرش کے سامنے ایسے ہے جیسے ایک کڑا جنگل کی زمین میں۔ (79) ابن جریر، ابن ابی حاتم نے سعدی (رح) سے روایت کیا کہ بلا شبہ آسمان و زمین کرسی کے پیٹ میں ہیں اور کرسی عرش کے سامنے ہے۔ کرسی کی وسعت (80) ابن المنذر اور ابو الشیخ نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ ! مقام محمود کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا یہ وہ دن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی کرسی پر نزول فرمائے گا (اپنی شان کے لائق) کرسی اس طرح چڑ چڑائے گی جیسے نیا کجاوہ تنگ ہونے کی وجہ سے چڑ چڑاھتا ہے اور وہ کرسی آسمان اور زمین جیسی وسیع ہے۔ (81) ابن جریر نے ضحاک (رح) سے روایت کی ہے کہ حسن ؓ فرماتے تھے کہ کرسی وہی عرش ہے۔ (82) بیہقی نے الاسماء والصفات میں سدی کے طریق سے، ابو مالک سے، ابو صالح ابن عباس، مرۃ الہمدانی نے حضرت ابن مسعود اور نبی اکرم ﷺ کے دوسرے صحابہ ؓ سے روایت کیا کہ وہ لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم “ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ لفظ آیت ” القیوم “ سے مراد نگرانی کرنے والا اور لفظ آیت ” البینۃ “ سے مراد نیند کی ہوا جو چہرہ پر پڑتی ہے جس سے انسان اونگھنے لگتا ہے اور لفظ آیت ” ما بین ایدیہم وما خلفہم “ سے مراد ہے کہ وہ اس کے علم میں سے کچھ بھی نہیں جانتے مگر وہ جو اس نے ان کو خود سکھایا اور لفظ آیت ” وسع کرسیہ السموت والارض “ سے مراد ہے کہ سارے آسمان اور زمین اس کے پیٹ میں ہیں اور کرسی عرش کے سامنے ہے اور وہ اس کے قدموں کی جگہ ہے اور لفظ آیت ” ولا یؤدہ “ سے مراد ہے کہ وہ اس پر بھاری نہیں ہے۔ (83) عبد بن حمید، ابو الشیخ نے العظمہ میں اور بیہقی نے ابو مالک (رح) سے لفظ آیت ” وسع کرسیہ السموت والارض “ کے بارے میں روایت کیا کہ وہ ایک چٹان ہے جو ساتوں زمین کے نیچے ہے جہاں مخلوق کی انتہاء ہے اس کے کناروں پر چار فرشتے ہیں ان میں سے ہر ایک کے چارے چہرے ہیں ایک چہرہ انسان کا ہے، دوسرا شیر کا چہرہ ہے، تیسرا بیل کا چہر ہے، اور چوتھا گدھ کا چہرہ ہے، وہ فرشتے اس چٹان پر کھڑے ہوئے ہیں اور زمین و آسمانوں کو گھیرے میں لیے ہوئے ان کے سر کرسی کے نیچے ہیں اور کرسی عرش کے نیچے ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی کرسی کو عرش پر رکھے ہوئے ہیں۔ بیہقی (رح) نے فرمایا کہ دو کرسیوں کی طرف اشارہ ہے ان میں سے ایک عرش کے نیچے ہے اور دوسری عرش پر رکھی ہوئی ہے۔ (84) ابن جریر، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” ولا یؤدہ حفظھما “ سے مراد ہے کہ اس کی حفاظت اللہ تعالیٰ پر بھاری نہیں ہے۔ (75) الطستی نے اپنے مسائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ نافع بن ازرق نے ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ” ولا یؤدہ حفظہما “ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا اس سے مراد ہے کہ اس پر بھاری نہیں ہوتی ہے۔ (آسمان و زمین کی حفاظت) پھر انہوں نے عرض کیا عرب اس معنی سے واقف ہیں ؟ فرمایا ہاں کیا تو نے شاعر کا یہ قول نہیں سنا۔ یعطی المئین ولا یؤودہ حملھا محض الضرائب ماجد الاخلاق (ترجمہ) وہ دو سو دیتا ہے اور اس کا اٹھانا اس پر بوجھل نہیں ہے اس کے محصولات خالص ہیں اور وہ اچھے اخلاق والا ہے۔ (86) ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” ولا یؤدہ حفظھما “ سے مراد ہے کہ (زمین و آسمان کی حفاظت) اس پر بوجھل نہیں ہے۔ (87) ابن جریر نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ” العظیم “ سے مراد وہ ذات ہے جو اپنی عظمت میں کامل ہے۔ (88) الطبرانی نے السنۃ میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” اللہ لا الہ الا ھو “ سے ارادہ کیا ہے اس ذات کا جس کے ساتھ کوئی شریک نہیں۔ اس کے علاوہ ہر معبود اس کی مخلوق میں سے ایک مخلوق ہے نہ نقصان پہنچا سکتی ہے نہ نفع دے سکتی ہے نہ مالک ہوتی ہے رزق کی نہ زندگی کی اور نہ قیامت کے دن اٹھائے جانے کی لفظ آیت ” الحی “ سے ارادہ کیا ہے اس ذات کا جس کو موت نہیں آتی (اور) لفظ آیت ” القیوم “ سے وہ ذات مراد ہے جو آزمائی نہیں جاتی لفظ آیت ” لا تأخذہ سنۃ “ سے اس کو اونگھ بھی نہیں آتی، لفظ آیت ” ولا نوم لہ ما فی السموت وما فی الارض من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ “ اس سے ارادہ فرشتوں کا جیسے ان کا قول لفظ آیت ” ولا یشفعون الا لمن ارتضی “ ہے۔ (اور) لفظ آیت ” یعلم ما بین ایدیہم “ سے ارادہ کرتے ہیں آسمان سے زمین تک۔ لفظ آیت ” وما خلفہم “ سے ارادہ کرتے ہیں اس چیز کا جو آسمانوں میں ہے، لفظ آیت ” ولا یحیطون بشیء من علمہ الا بما شاء “ سے ارادہ کرتے ہیں ان چیزوں میں سے جن کے بارے میں (اللہ تعالیٰ نے) اپنے علم پر مطلع فرمایا ہے۔ لفظ آیت ” وسع کرسیہ السموت والارض “ سے ارادہ کرتے ہیں اس چیز کا جو ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمین سے بڑی ہے۔ لفظ آیت ” ولا یؤدہ حفظھما “ سے ارادہ کرتے ہیں کہ کوئی چیز آسمانوں اور زمین میں اس سے فوت نہیں ہوتی۔ لفظ آیت ” وھو العلی العظیم “ سے ارادہ کرتے ہیں کہ اس سے اونچا کوئی نہیں اس سے زیادہ کوئی عزت والا نہیں، اس سے زیادہ کوئی بزرگی والا نہیں اور اس سے زیادہ کوئی اکرام والا نہیں۔ (89) ابو الشیخ نے العظمہ میں ابو وجزہ (رح) اور یزید بن عبید السلمی (رح) سے روایت کیا کہ جب نبی اکرم ﷺ تبوک سے لوٹے تو بنو فزارہ کا وفد آیا اور کہنے لگا، یا رسول اللہ اپنے رب سے دعا کیجئے کہ ہم کو بارش عطا فرمائیں، اور ہمارے لئے اپنے رب سے سفارش کیجئے اور آپ کا رب آپ کی سفارش قبول فرمائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ افسو ہے تیرے لئے میں سفارش کروں گا اپنے رب کے پاس۔ پس کون ہے جو ہمارے رب کی طرف سفارش کرے۔ نہیں ہے کوئی معبود مگر اللہ تعالیٰ عظیم ذات ہے۔ اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے زیادہ وسیع ہے اور وہ چڑ چڑاھتی ہے اس کی عظمت اور جلال سے جیسے نیا پالان چڑچڑاتا ہے۔

تفسیر المظھری:

اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ (یعنی عبادت کا مستحق اللہ ہی ہے اس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، اسی کا دانا بینا شنوا اور صاحب قدرت و ارادہ ہونا درست ہے اور تمام مناسب صفات اس کے لیے لازم ہیں وہ خود ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور اس کی تمام صفات بھی ازلی ابدی ہیں کیونکہ عدم فعلیت اور امکان سے وہ پاک ہے پس حیات ہی اس کی تمام صفات کمالیہ کا سرچشمہ ہے۔ الْقَيُّوْمُ (مخلوق کو تھامنے والا) عمر وبن مسعود ؓ کی قرأت میں اَلْقِیَّام اور علقمہ کی قرأت میں اَلْقَیّمُ ہے۔ بغوی (رح) نے لکھا ہے ان تمام الفاظ کا معنی ایک ہی ہے۔ قیوم کا معنی ہے نگران۔ (ابن مجاہد) یا ہر نفس کے اعمال کا نگران۔ (کلبی) قیوم کا ترجمہ منتظم بھی کیا گیا ہے۔ ابو عبیدہ ؓ نے کہا قیوم کا معنی ہے غیر فانی۔ بیضاوی نے لکھا ہے کہ قیوم وہ ہے جو ہمیشہ مخلوق کی حفاظت اور تدبیر کرنے والا ہو سیوطی (رح) نے ترجمہ کیا ہے ہمیشہ باقی رہنے والا۔ میں کہتا ہوں ان تمام اقوال کا مشترک معنی یہ ہے کہ اللہ لا زوال ہے بذات خود موجود ہے دوسری چیزوں کی نگرانی کرنے اور ہستی کو قائم رکھنے والا ہے اس کے بغیر کسی چیز کی بقاء اور ہستی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اللہ کے قیوم ہونے کا تقاضا ہے کہ جس طرح ہر چیز اپنی ہستی کے لیے خدا کی محتاج ہے اسی طرح بقاء ہستی میں بھی اس سے بےنیاز نہیں ہے جس طرح سایہ اصل شئ کا محتاج ہوتا ہے اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ کائنات اللہ کی محتاج ہے شان اعلیٰ اللہ کی ہی ہے۔ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ( اس کو نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند) اونگھ کا ذکر نیند سے پہلے کیا باوجود یکہ زوربیان کا تقاضا تھا کہ نیند کا ذکر اونگھ سے پہلے کیا جاتا ( کیونکہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کو نیند نہیں آتی نیند تو نیند اونگھ بھی نہیں آتی۔ ) مذکورہ طرز بیان کی وجہ یہ ہے کہ وجود خارجی کے لحاظ سے اونگھ نیند سے پہلے ہوتی ہے۔ اونگھ اعصاب دماغی کی وہ سستی ہوتی ہے جو نیند کا پیش خیمہ ہوتی ہے اور نیند اس استرخائی کیفیت کو کہتے ہیں جو مرطوب بخارات کے چڑھنے سے دماغی اعصاب میں پیدا ہوجاتی ہے اور اعضاء کے اسی ڈھیلے پن کی وجہ سے ظاہری حواس ( بیرونی) احساس سے بیکار ہوجاتے ہیں۔ آیت مذکورہ میں صفت سلبیہ کا اظہار ہے جس سے تشبیہ ( مخلوق سے مشابہت) کی نفی ہو رہی ہے گویا اللہ کے حی وقیوم ہونے کی یہ تائید ہے نیند موت کی بہن ہے جس کو نیند یا اونگھ آتی ہے اس کا (بیرونی) نظام زندگی درست نہیں رہتا۔ وہ اشیاء کی حفاظت اور نگہداشت سے (نیند کے اوقات میں) قاصر ہوجاتا ہے اسی لیے القیوم اور لا تاخذہ کے درمیان حرف عاطف نہیں لایا گیا ( کیونکہ حرف عطف مغایرت پر دلالت کرتا ہے اور یہاں فقدانِ نُعاس و نوم اللہ کی قیومیت کی دلیل ہے) حضرت ابو موسیٰ اشعری کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے ہمارے مجمع میں کھڑے ہو کر پانچ باتیں فرمائیں۔ فرمایا : کوئی شک نہیں کہ اللہ نہیں سوتا اور نہ سونا اس کے لیے زیبا ہے۔ وہ میزان کو نیچا اونچا کرتا ہے، اس کے سامنے رات کے اعمال دن کے اعمال سے پہلے لائے جاتے ہیں اور دن کے اعمال کی پیشی رات کے اعمال (آنے) سے پہلے ہوجاتی ہے۔ اس کا حجاب نور ہے اگر پردۂ نور الٹ جائے تو اس کے انوار جمال حد نگاہ تک مخلوق کو سوختہ کردیں۔ (مسلم) لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ (آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے۔ ) یہ جملہ اللہ کی قیومیت کی تائید اور توحید الوہیت کی دلیل ہے مراد یہ ہے کہ زمین و آسمان کی حقیقت کا جن اجزاء سے قوام ہوا ہے یا وہ اشیاء جو آسمان و زمین کے قوامی اجزاء تو نہیں ہیں مگر ان کے اندر موجود ہیں سب کی سب اللہ ہی کی ہیں اگر لہ السموات والارض و ما فیہن کہا جاتا تو مفہوم مذکور اس جملہ سے پورے طور پر ادا نہیں ہوتا۔ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ (اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے کون سفارش کرسکتا ہے) یہ عظمت خداوندی کا اظہار ہے اور اس امر کا بیان ہے کہ کوئی بھی اللہ تعالیٰ کے برابر اور ہمسر نہیں کہ خود سفارش کرے اللہ کے عذاب کو دور کرسکے مقابلہ کرکے عذاب کو روک دینے کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ (وہی ان کے سامنے کی اور پیچھے کی چیزوں کو جانتا ہے یعنی ان سے پہلے کی اور بعد کو آنے والی چیزوں کو یا ان چیزوں کو جانتا ہے جن کو انسان جانتے ہیں اور ان چیزوں کو بھی جن کو انسان نہیں جانتے یا ان چیزوں کو جانتا ہے جن کو لوگ لیتییا ترک کرتے ہیں یا کسی چیز کو انداز کردینا بتاتا ہے کہ انداز کرنے والے نے اس چیز کو پس پشت پھینک دیا۔ ھُمْ کی ضمیر ما فی السموات والارض کی طرف راجع ہے ما فی السمٰوات والارض عاقل اور بےعقل دونوں کو شامل ہے لیکن اہل عقل کو بےعقل مخلوق پر ترجیح دے کر ایسی ضمیر ذکر کردی جو اہل عقل کے لیے مخصوص ہے اور بےعقل مخلوق اہل عقل کے ذیل میں آگئی یا ھُمْ کی ضمیر ذا کی طرف راجع ہے (جومَنْ ذَالَّذی میں مذکور ہے) اور ذَا سے مراد ہیں انبیاء اور ملائکہ۔ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ ( اور اہل علم اللہ کے علم کے کسی حصہ کا احاطہ نہیں کرسکتے یعنی اللہ کی معلومات کے کسی حصہ کو پورے طور پر نہیں جان سکتے۔ اللہ کو ہر چیز معلوم ہے پھر من عِلْمِہٖ کی قید لگانے سے اس بات پر تنبیہ کرنی مقصود ہے کہ کوئی علمی احاطہ نہیں کرسکتا۔ احاطہ علمی کی نفی سے مراد ہے ایسے علم کامل کی نفی جو تمام اشیاء کی حقیقت کو محیط ہو۔ علم محیط صرف باری تعالیٰ کی خصوصیت ہے کسی مخصوص چیز کی حقیقت کا کامل علم بطور ندرت ممکن ہے کہ کسی کو ہوجائے لیکن تمام اشیاء کی حقیقت کوئی نہیں جانتا۔ یا علم سے مراد وہ علم غیب ہے جو اللہ کے لیے مخصوص ہے یعنی اللہ کے علم غیب کے کسی حصہ کو کوئی احاطہ کے ساتھ نہیں جانتا۔ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ (ہاں جس چیز کا علم اللہ دینا چاہے) تو اس کو مخلوق کا علم محیط ہوتا ہے اور ایسا کم ہے اللہ نے خود ارشاد فرمایا ہے : وما اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلاً وَ لَا یُحِیْطُوْنَ میں واؤ حالیہ ہے اور یعلم کی ضمیر فاعلی ذوالحال ہے ‘ یا واؤ عاطفہ ہے۔ دونوں جملوں کا مجموعہ بتارہا ہے کہ محیط کل اور ہمہ گیر علم ذاتی اللہ کی خصوصیت ہے اور یہ اللہ کی وحدانیت کا ثبوت ہے اس لیے دونوں جملوں کے درمیان حرف عطف کو ذکر کیا۔ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (اس کی کرسی آسمانوں اور زمینوں کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے۔ بیضاوی (رح) نے لکھا ہے یہ محض تمثیل 1 ؂ ہے اللہ کی عظمت کی تصویر کشی مقصود ہے ورنہ واقع میں نہ اللہ کی کرسی ہے اور نہ وہ کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ سعید بن جبیر ؓ کی روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : کرسی سے مراد علم ہے مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔ صحیفہ علمی 2 ؂ کو کُرَّاسۃ اسی وجہ سے کہتے ہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ کرسی سے مراد حکومت اور اقتدار ہے موروثی حکومت کو عرب کرس کہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اگر کرسی کا معنی علم یا اقتدار قرار دیا جائے تو آیت : لہ ما فی السموات وما فی الارض یعلم مابین ایدیھم و ما خلفھم کے بعد جملہ مذکورہ کا ذکر بےسود ہوگا ( کیونکہ آیت مذکورہ کا ابتدائی حصہ اللہ کے اقتدار پر اور آخری حصہ اللہ کے کمال علمی پر دلالت کر رہا ہے) محدثین کا مشہور قول یہ ہے کہ کرسی ایک جسم ہے ( جس میں لمبائی، چوڑائی اور موٹائی ہے) بغوی (رح) کا بیان ہے کہ کرسی ( کے مصداق) میں علماء کا اختلاف ہے حسن کا قول ہے کہ کرسی ہی عرش ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کا قول ہے کہ کرسی عرش کے سامنے قائم ہے اور آیت : وسع ..... کا مطلب یہ ہے کہ کرسی کی وسعت زمین اور آسمان کی وسعت کے برابر ہے۔ ابن مردویہ (رح) نے حضرت ابوذر ؓ کی روایت سے رسول اللہ : ﷺ کا فرمان نقل کیا ہے کہ ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہیں جیسے کسی بیابان میں کوئی چَھلّا پڑا ہو اور کرسی سے عرش کی بڑائی ( بھی) ایسی ہے جیسے چھلّے سے بیابان کی بڑائی۔ حضرت ابن عباس ؓ کا قول مروی ہے کہ کرسی کے اندر ساتوں آسمان ایسے ہیں جیسے کسی ڈھال میں سات درہم ڈال دیئے جائیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور مقاتل کا قول ہے کہ کرسی کے ہر پایہ کا طول ساتوں آسمانوں اور ساتوں زمینوں کے برابر ہے۔ کرسی عرش کے سامنے ہے کرسی کو چار فرشتے اٹھائے ہوئے ہیں ہر فرشتے کے چار منہ ہیں ان فرشتوں کے قدم ساتویں نچلی زمین کے نچلے پتھر پر ہیں یہ مسافت پانچ سو برس کی راہ کے برابر ہے ایک فرشتہ کی شکل ابو البشر یعنی حضرت آدم کی طرح ہے جو سال بھر تک آدمیوں کے لیے رزق کی دعا کرتا رہتا ہے دوسرے فرشتہ کی صورت چوپایوں کے سردار یعنی بیل کی طرح ہے چو پایوں کے لیے سال بھر رزق مانگتا رہتا ہے۔ لیکن جب سے گو سالہ کی پوجا کی گئی اس وقت سے اس کے چہرہ پر کچھ خراشیں ہوگئی ہیں تیسرے فرشتہ کی صورت درندوں کے سردار شیر کی طرح ہے جو سال بھر درندوں کے لیے رزق کا طالب رہتا ہے چوتھے فرشتہ کی صورت پرندوں کے سردار یعنی گدھ کی طرح ہے جو پرندوں کے لیے سال بھر رزق کا سوال کرتا رہتا ہے۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ حاملین عرش اور حاملین کرسی کے درمیان ستّر حجاب تاریکی کے اور ستّرحجاب نور کے ہیں اور ہر حجاب کی موٹائی پانچ سو برس کی راہ کے برابر ہے اگر یہ حجابات نہ ہوں تو کرسی کے اٹھانے والے عرش کے اٹھانے والوں کے نور سے سوختہ ہوجائیں۔ (یعنی جل جائیں ‘ 12) اصل میں کرسی صرف اتنی ہی جگہ کو کہتے ہیں جس پر بیٹھا جاتا ہے نشست گاہ سے فاضل جگہ کو کرسی نہیں کہا جاتا گویا لفظ کرسی کرس سے بنا ہے کرس کا معنی ہے کسی چیز کے اجزاء کو باہم جوڑ دینا۔ کرسی عرش اور بیت کی نسبت خدا کی طرف کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں ایک خاص قسم کے جلوہ الٰہی کے لیے مخصوص ہیں۔ آیت : فَسَوَّاھُن سبع سموات کی تفسیر کے ذیل میں ہم نے لکھا ہے کہ عرش کی شکل کا کروی ہونا اور اس کا آسمانوں کو محیط ہونا حدیث سے مستنبط ہے لیکن اس جگہ حضرت ابوذر کی روایت مذکورہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ کرسی آسمانوں کو محیط ہے اور عرش کرسی کو گھیرے ہوئے ہے اور بعض آسمان بعض کا احاطہ کیے ہوئے ہیں اس قول کا تقاضا ہے کہ ہر آسمان بھی کردی ہو اسی لیے بعض لوگ قائل ہیں کہ آٹھواں آسمان کرسی ہے اور نواں آسمان عرش۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جو آسمانوں کی تعداد سات بتائی ہے اور عرش و کرسی کا شمار آسمانوں میں نہیں کیا اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ دوسرے آسمانوں سے عرش و کرسی کی ماہیت جدا ہے اور خاص تجلیات کے لحاظ سے ان کو دوسرے آسمانوں سے امتیازحاصل ہے۔ وا اللہ اعلم۔ (1) [ ہیئت قدیم کے یونانی اور مصری علماء کہتے تھے جیسا کہ سبع شداد اور شرح چغمنی وغیرہ کتب میں مذکور ہے کہ مجموعۂ عالم کی شکل کروی ہے گویا یہ کائنات ایک پیاز کی گانٹھ ہے جس کے تیرہ پرت ہیں اور ہر چھلکا اپنے اندرونی چھلکوں کو محیط ہے سب کو محیط فلک الافلاک اطلس ہے اس کے اندر فلک ثوابت ہے اس کے نیچے فلک زحل پھر فلک مشتری پھر فلک مریخ پھر فلک شمس پھر فلک زہرہ پھر فلک عطارد پھر فلک قمر گویا فلک قمر فلک دنیا ہے اور ہماری جانب سب سے اوّل یہی ہے اور آخری انتہائی نواں آسمان فلک الافلاک ہے فلک قمر کے نیچے کرۂ نار ہے اور کرۂ نار کے نیچے کرۂ ہوا اور ہوا کے نیچے پانی اور پانی کے نیچے زمین اور یہی زمین مرکز عالم ہے۔ علماء ہیئت قدیم افلاک کو تہ بر تہ محیط مانتے تھے قرآن مجید اور احادیث مقدسہ میں عرش کرسی اور سبع سموات کے الفاظ آئے ہیں سبع سموات کے ساتھ طباقاً کا لفظ بھی مذکور ہے کچھ علماء اسلام نے یونانی ہیئت و فلسفہ کی صداقت تسلیم کرنے میں اتنا غلو کیا کہ قرآن کی عبارت کو بھی اس کے مطابق بنانے کی مکروہ کوشش کی کچھ احادیث کے اشارات یا صراحتوں کو اپنے مطلب کی تائید میں لے آئے فضلو و اضلوا عرش کو نواں اور کرسی کو آٹھواں آسمان بنا دیا۔ طباقاً کا ترجمہ تہ بر تہ کردیا۔ عرش و کرسی کو الگ ذکر کرنے کی وجہ ماہیات کے امتیاز اور خصوصی تجلیات کی بارش کو قرار دیا لیکن فلسفہ قدیم تو آسمانوں کو ازلی ابدی قدیم بالغیر کہتا ہے عمر میں خدا کے برابر قرار دیتا ہے ان کا پھٹنا اور پھر جوڑا جانا محال سمجھتا ہے بلکہ مادۂ عناصر کو بھی لا زوال کہتا ہے اور زمانہ کو بھی حادث نہیں مانتا، فلسفہ کا وہ کونسا عقیدہ اور فکر یہ ہے جو قرآنی صراحت یا حدیث کی عبارت سے جوڑ کھا سکتا ہے پھر صرف ترتیب عالم کے سلسلہ میں قرآنی صراحت اور وحی غیر منطوق کی عبارت کو ہیئت قدیم کے مطابق بنانے کی کوشش مہلک نہیں تو اور کیا ہے کیا یہ تفسیر بالرائے نہیں اگر فلسفہ اور ہیئت کو قرآن کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی تو پھر بھی یہ کاوش قابل برداشت ہوتی سود مند نہ ہوتی مگر تباہ کن بھی نہیں ہوتی مگر قرآن کو توڑنا مروڑنا اور بےمزہ تاویلیں کرکے فلسفہ سے جوڑنا تو قرآن کو بازیچہ حکماء بنا دے گا کسی فلسفہ کو اٹل صداقت کا حامل نہیں قرار دیا جاسکتا ایک فلسفہ دوسرے کی تکذیب کرتا ہے جدید قدیم کو داستان پارینہ قرار دیتا ہے موجودہ سائنس افلاک کو محیط مانتی ہی نہیں سات آسمان نہیں دس کروڑ آسمان کہتی ہے تیس کروڑ زمینیں قرار دیتی ہے۔ وہ کہتی ہے چالیس کروڑ گیندیں خلاء میں فطری ضابطۂ جذب کے زیر اثر معلق ہیں کوئی اونچی کوئی نیچی دکھائی دیتی ہے واقع میں نہ کوئی اوپر ہے نہ نیچے کوئی منتہی ہی نہیں پھر تحت اور فوق کا حقیقتاً تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہر کرہ کا دوسرے کرہ سے فاصلہ لاکھوں کروڑوں میل بلکہ بعض کا فاصلہ تو ناقابل احاطہ ہے اس کا حساب کرنے سے علم حساب عاجز ہے کوئی کرہ اتنا چھوٹا ہے کہ ہمارے ایک دن رات میں اس کی دوری حرکت پوری ہوجاتی ہے کوئی اتنا بڑا ہے کہ اس کی دوری حرکت ہماری پچیس یا پچاس ہزار سال میں پوری ہوتی ہے۔ یہ ساری فضا مادۂ سیال یا چمکدار برقیات سے بھری ہوئی ہے ہر کرہ اپنے محور پر گھوم رہا ہے زمین بھی گھوم رہی ہے بڑے بڑے یہی سات سیارے ہیں چاند سوج، مریخ، زحل، مشتری، عطارد، زہرہ باقی سیاروں کی کامل شناخت آلات اور مراصد پر موقوف ہے۔ چالیس کروڑ کروّں میں بھی کائنات کا حصر نہیں۔ یہ آخری گنتی نہیں جتنا معلوم ہوا ہے وہ بہت قلیل حصہ ہے خدا جانے نامعلوم کتنا باقی ہے کیا سائنس کے یہ مسلمات غلط ہیں ممکن ہے کچھ وہم کی کارپردازی ہو کچھ حقیقت ثابتہ ہو جس زمانہ میں جس فلسفہ نے جو کچھ کہا صحیح سمجھ کر ہی کہا۔ فلسفہ کا یونہی ردو بدل ہوتا رہے گا اور ہوتا رہا ہے لیکن حقیقت قرآنیہ اپنی جگہ ثابت ہے ناقابل تغیر ہے فلسفہ قدیم یا تحقیقات جدیدہ سے موافق بنانے کے لیے آیات و احادیث میں تاویل بارد کرنا مذہبی افلاس کا ثبوت اور عقلی دہشت زدگی کی علامت ہے۔ قرآن مجید میں سبع سموات کلمۂ حصر نہیں کہ زیادتی کا انکار کیا جائے نہ مزید کی کوئی خاص شمار بتائی ہے کہ تعداد کو محدود کردیا جائے۔ طباقاً کا ترجمہ تہ بر تہ محض احتمالی ہے احتمال سے تعیین نہیں ہوتی۔ طبقاً عن طبق کا ترجمہ تہ بر تہ نہیں درجہ بدرجہ ہے طباقاً کا ترجمہ بھی درجہ بدرجہ ہوسکتا ہے اور یہ ترتیب درجات بھی اضافی اور عرفی ہے حقیقی فوق و تحت کو تسلیم کرنا ضروری نہیں غیر محاذی اشیاء میں زیر و زبر اور بالا و پست کا تصور بلکہ وقوع ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ احاطہ کا قول غلط ہو اور تاثیر جذب کے زیر اثر تمام کردی اجسام جدا جدا معلق ہوں حدیث معراج میں ایک آسمان کا دوسرے آسمان سے فاصلہ پانچ سو برس کی راہ کے برابر بتایا گیا ہے اگر یہ طباقاً کے لفظ کے منافی نہیں تو پھر تمام قرات کو جدا جدا اور درجہ بدرجہ قرار دینا کیونکر طباقاً کے مفہوم کے خلاف قرار دیا جاسکتا ہے۔ حضرت ابوذر اور حضرت ابن عباس ؓ کی روایت سے بھی احاطہ کرسی صراحتاً ثابت ہوتا ہے نہ استنباطاً کیونکہ اس میں عظمت کرسی کی تصویر کشی کی گئی ہے دوسرے آسمانوں کو کرسی کے مقابلہ میں اتنا چھوٹا دکھایا گیا ہے جیسے سپر کے اندر سات چھلیّ یا صحراء میں ایک چھلاّ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کرسی سموات کو محیط ہے لیکن یہ احاطہ محتاج تاویل ہے جسمانی احاطہ ہے یا اقتدار اور حکم کا احاطہ یا عظمت و بزرگی کا احاطہ کوئی تعیین از خود نہیں کی جاسکتی اللہ ہر چیز کو محیط ہے کیا یہ احاطہ جسمانی ہے یا قدرت حکمت اور علم کا احاطہ ہے یا حکم اور اقتدار کا احاطہ ہے اہل ایمان کے قلوب کا رحمن کی چٹکی میں ہونا کیا قلوب کے جسمانی احاطہ پر دلالت کرتا ہے پھر وسعت کرسی کو جسمانی جوسے تعبیر کرنا اور فلک ہشتم کو ہر طرف سے سماوات کو محیط ماننا فلسفہ قدیم سے شکست خوردگی کی علامت نہیں تو اور کیا ہے پس صحیح مسلک اس فقیر کی نظر میں یہ ہے کہ احادیث مقدسہ اور قرآن مجید کی صراحتوں میں کوئی ایسی تاویل اور تعیین اور خواہ مخواہ ایسا استنباط نہ کیا جائے جس کا مقصود ہی فلسفہ سے تطبیق ہو ہاں اگر کوئی فلسفہ قرآنی صراحت کی تائید کر رہا ہو تو اس کو شہادت میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ وا اللہ اعلم ] وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ یہ لفظ اَوَدٌ سے ماخوذ ہے اَوَدٌ کا معنی ہے کجی۔ حِفْظُهُمَا (یعنی آسمان و زمین یا کرسی اور کرسی کے اندر سمائی ہوئی چیزوں کی حفاظت کا اللہ پر بار نہیں پڑتا ان کی نگہداشت اللہ کو تھکا نہیں دیتی۔ یہ اور اس سے پہلے کا جملہ اللہ کی علمی وسعت اور اس کی عمومی واقفیت کی ہمہ گیری کا بیان ہے یا مرتبۂ خداوندی کی عظمت و جلال اور اس کی قیومیت محیطہ کا اظہار ہے مذکورہ بالا دونوں جملے ایک ہی جملہ کا حکم رکھتے ہیں اور چونکہ گذشتہ کلام میں سے ہر جملہ سابق جملہ کی تاکید اور توضیح ہے ( گویا ایک ہی کلام کے متعدد اجزاء ہیں) اس لیے کسی جملہ کا دوسرے پر عطف نہیں کیا۔ وَھُوَ الْعَلِيُّ ( اللہ ہر مثل اور نظیر سے برتر وبالا ہے کوئی کسی طور پر اس کی طرح نہیں نہ ذات کے لحاظ سے نہ اوصاف کے لحاظ سے تعریف کرنے والے اس کی تعریف کرتے ہیں اور بیان کرنے والے اس کے اوصاف بیان کرتے ہیں لیکن وہ ہر تعریف اور بیان سے برتر ہے اس کی شان وہی ہے جو اسی کے لیے زیبا ہے۔ الْعَظِيْمُ وہ اتنی عظمت والا ہے کہ تمام کائنات اس کے مقابلہ میں بےمقدار ہے۔ آیت الکرسی میں خصوصیت کے ساتھ اللہ کی ذات وصفات کے مباحث بیان کئے گئے ہیں یہ آیت بتارہی ہے کہ اللہ ہی کا وجود اصلی اور حقیقی ہے ‘ اس کی ہر صفت کامل ہے ‘ اس کی حیات اور حیات کی تابع دوسری صفات مثلاً علم قدرت، ارادہ، سننا، دیکھنا اور کلام کرنا سب ہی اوصاف کمال ہیں۔ وہ ساری کائنات کو ہستی اور قوام ہستی عطا کرنے والا ہے ہر چیز کا قیام اسی کی ذات سے ہے لیکن یہ قیام ایسا نہیں جیسا عرض کا جو ہر کے ساتھ ہوتا ہے بعض اکابر کا قول ہے کہ عالم ایک مجموعہ اعراض ہے جو ذات واحد میں جمع ہیں اس قول سے دھوکہ ہوسکتا ہے کہ ذات خداوندی سے عالم کا قیام اس طرح ہے جس طرح جو ہر کے ساتھ عرض کا قیام ہوتا ہے مگر یہ مطلب غلط ہے قیام عالم باللہ کی کیفیت ناقابل تصور ہے خیال کی پہنائیاں اس کو نہیں سما سکتیں۔ قیام کے مفہوم کی قریب الفہم تعبیر کے لیے ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ہماری رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہے مگر یہ قرب مکانی نہیں نہ حلولی ہے اللہ احتیاج مکانی اور حلول سے پاک ہے ہر تغیر اور ضعف سے منزہ ہے مالک الملک و الملکوت ہے اس کی گرفت بہت سخت ہے اس کا انتقام ناقابل برداشت ہے اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس سے سفارش بھی نہیں کرسکتا۔ اس کا علم ہمہ گیر ہے ہر ظاہر اور پوشیدہ چیز کی حقیقت کو ہر طرح محیط ہے اس کی معلومات کا علم کسی کو نہیں ہاں اگر وہی کچھ بتادے تو ہوسکتا ہے۔ اس کی حکومت اور قدرت سے کوئی چیز خارج نہیں وہ بعض مخلوق پر جلوہ انداز ضرور ہوتا ہے لیکن یہ پر تو افگنی اس کی ذاتی برتری میں رخنہ انداز نہیں ہوتی کوئی امر دشوار اس کے لیے تعب آفریں (تھکا دینے والا ‘ 12) نہیں ہوتا کسی شئ میں مشغولیت اس کو دوسری چیز سے غافل نہیں بنا سکتی وہ تمام نا مناسب اوصاف سے پاک اور کل حمد کرنے والوں کی ستائش سے برتر ہے وہ رسول مکرم ﷺ جس کے دست مبارک میں قیامت کے دن حمد کا جھنڈا ہوگا خود ذات الٰہی کی حمد کا حق ادا کرنے سے قاصر تھا اسی لیے اس نے ( اپنی دعا میں) کہا تھا تو ویسا ہی ہے جیسی تو نے اپنی ثنا کی ہے اللہ کی عظمت کے سامنے ہر چیز حقیر ہے اس کی بزرگی پورے طور پر کوئی عالم نہیں جانتا نہ کسی عابد کی عبادت اللہ کی عظمت کا حق ادا کرسکتی ہے رسول اللہ نے خود اپنی عبادت کے قصور کا اقرار کیا ہے فرمایا ہے ہم نے تیری عبادت تقاضائے عبادت کے برابر نہیں کی اسی لیے جب حضور ﷺ سے دریافت کیا گیا یا رسول اللہ قرآن میں سب سے بڑھ کر عظمت والی آیت کونسی ہے ؟ فرمایا : آیت الکرسی : اَﷲُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ ۔۔ عرض کیا گیا سب سے زیادہ عظمت والی سورت کونسی ہے۔ فرمایا : قُلْ ھُوَ اللہ اَحَدٌ۔ ( دارمی، بروایت اسقع بن عبد کلابی) حارث بن اسامہ ؓ نے بروایت حسن مرسلاً بیان کیا کہ سب سے بڑھ کر عظمت والی آیت آیۃ الکرسی ہے۔ حضرت ابی بن کعب کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ابو المنذر ؓ اللہ تعالیٰ کی کتاب کی سب سے زیادہ عظمت والی آیت کونسی ہے ؟ میں نے عرض کیا : اَﷲُ لَآ اِلٰہَ ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ حضور ﷺ نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا تجھ کو علم مبارک ہو پھر فرمایا : قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس آیت کی ایک زبان اور دو لب ہیں پایۂ عرش کے پاس فرشتہ اللہ کی پاکی بیان کرتا ہے۔ (مسلم) میں کہتا ہوں شاید اس آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے اس آیت کی تلاوت کرکے اللہ کی تقدیس کرتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ عالم مثال میں ہر چیز کی ایک صورت ہے یہاں تک کہ قرآن کی آیات قرآن کی اور رمضان کی بھی ( عالم مثال میں) شکلیں معین ہیں۔ ابن مردویہ نے بروایت حضرت ابن مسعود ؓ اور ابن راہویہ نے اپنی مسند میں بروایت حضرت عوف بن مالک ؓ اور امام احمد (رح) و امام مالک (رح) نے بروایت حضرت ابوذر غفاری ؓ ایسی ہی حدیث نقل کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی مرفوع روایت ہے کہ آیت الکرسی آیات قرآنی کی سردار ہے (ترمذی و حاکم) حضرت انس کی روایت ہے کہ آیت الکرسی (ثواب میں) چوتھائی قرآن (کے برابر) ہے۔ (احمد) حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص آیت الکرسی اور : حٓمٓ تنزیل الْکِتَابِ مِنَ اللہ الْعَزِیْزِ العَلِیْمِ کی دو آیتیں صبح کو پڑھے گا وہ دن بھر شام تک محفوظ رہے گا اور جو شام کو پڑھے گا اور رات بھر ( اللہ کی) امان میں صبح تک رہے گا۔ (رواہ الترمذی والدارمی) ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے۔ حضرت ابوہریرہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ نے مجھے رمضان کی زکوٰۃ کے مال کی حفاظت پر مامور فرمایا : (رات کو) کوئی آکر لپ بھر بھر کر غلہ اٹھا کرلینے لگا میں نے اس کو پکڑ لیا اور اس سے کہا میں تجھے رسول اللہ کی خدمت میں لے جاؤ . ں گا وہ بولا میں محتاج ہوں عیالدار ہوں، بڑا ضرورت مند ہوں میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا حضور ﷺ نے فرمایا : ابوہریرہ ؓ رات والے تمہارے قیدی کا کیا ہوا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس نے اپنی سخت محتاجی اور عیالداری کا دکھ ظاہر کیا تھا مجھے اس پر رحم آگیا میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ فرمایا : آگاہ ہوجاؤ اس نے تم سے جھوٹ بولا آئندہ وہ پھر لوٹ کر آئے گا یہ سن کر مجھے اس کے دوبارہ آنے کا یقین ہوگیا۔ چناچہ میں اس کی تاک میں رہا وہ آیا اور پھر لپ میں غلہ بھرنے لگا فوراً میں نے اس کو پکڑ لیا اور کہا اب تو میں رسول اللہ کی خدمت میں تجھے ضرور لے کر جاؤں گا اس نے پہلے کی طرح پھر وہی بات کہی کہ مجھے چھوڑ دو ۔ الخ ( صبح کو) رسول اللہ نے بھی وہی بات فرمائی جو پہلے فرمائی تھی آخرتیسری بار (جب وہ پھر چوری کرنے آیاتو) میں نے کہا یہ آخری باری ہے تو دوبارہ نہ آنے کا وعدہ کرتا رہا اور پھر واپس آتا رہا ( اب تو میں تجھے ضرور ہی لے جاؤں گا) اس نے کہا تم مجھے چھوڑ دو میں تم کو چند الفاظ ایسے سکھاتا ہوں جن سے اللہ تم کو فائدہ عطا فرمائے گا۔ جب تم اپنے بستر پر ( رات کو لیٹنے کے لیے) جاؤ تو آیت الکرسی اَﷲُ لَآ اِلٰہَ اِلّا ھُوَ الْحَیُّ القیوم ...... پڑھ لیا کرو۔ تمہاری نگہداشت کے لیے اللہ کی طرف سے ایک نگران مقرر رہے گا پھر صبح تک کوئی شیطان تمہارے پاس آنے نہ پائے گا۔ میں نے اس کو چھوڑ دیا۔ صبح کو خدمت گرامی میں پہنچا تو حضور ﷺ نے فرمایا : تمہارا رات والا قیدی کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا : حضور ﷺ اس نے کہا کہ میں تم کو چند الفاظ ایسے بتاتا ہوں کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تم کو فائدہ عطا فرمائے گا۔ ارشاد فرمایا : سنو وہ ہے تو جھوٹا مگر اس نے یہ بات تم سے سچ کہی۔ کیا تم واقف ہو کہ تین راتوں سے تم کس سے گفتگو کرتے رہے ؟ میں نے عرض کیا : نہیں فرمایا : وہ شیطان ہے (بخاری) نسائی، ابن حبان اور دارقطنی (رح) نے بروایت حضرت ابو امامہ اور شعب الایمان میں بیہقی (رح) نے بروایت حضرت صلصال ؓ دیہمی وحضرت علی ؓ بن ابی طالب مرفوعاً بیان کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے گا اس کو ( حجاب) موت کے علاوہ جنت کے داخلہ سے اور کوئی چیز روکنے والی نہ ہوگی۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ جو شخص بستر خواب پکڑتے وقت آیت الکرسی پڑھے گا اللہ اس کے گھرکو اس کے ہمسایہ کے گھر کو اور گردا گرد کے دوسرے گھر والوں کو اپنی امان میں رکھے گا۔ بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت انس ؓ کی مرفوع روایت لکھی ہے کہ جو شخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے گا اللہ اگلی نماز تک اس کا محافظ رہے گا اور اس کی پابندی صرف نبی کرتا ہے یا صدیق یا شہید۔ (1) [ دنیوری نے مجالس میں حسن کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جبرائیل ( علیہ السلام) نے مجھ سے آکر کہا کہ جنی شیطان تمہارے ساتھ فریب کرنے ( کی گھات) میں لگا رہتا ہے لہٰذا جب بستر پر پہنچا کرو تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو۔ فردوس میں حضرت ابو قتادہ ؓ کی روایت سے منقول ہے کہ بےچینی کے وقت جو شخض آیت الکرسی پڑھتا ہے اللہ اس کی مدد کرتا ہے حضرت ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ حضرت عمر ؓ ایک روز برآمد ہوئے اور فرمایا : کہ تم میں سے کوئی مجھے بتاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں سب سے زیادہ عظمت والی، سب سے بڑھ کر عدل آگیں اور خوفناک ترین اور سب سے بڑھ کر امید آفریں کونسی آیت ہے۔ حضرت ابن مسعود ؓ نے فرمایا : میں نے خود آنحضور ﷺ سے سنا ہے کہ قرآن میں سب سے زیادہ عظمت والی آیت : اَﷲُ لاَ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْم ہے اور سب سے بڑھ کر عدل آگیں آیت : اِنَّ اللہ یَاْمُرُ بالْعَدْلِ وَالْاِحْسَان الخ ہے اور خوفناک ترین آیت : فَمَنْ یََّعْمَلُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہُ وَ مَنْ یَّعْمَل مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرَّا یَّرَہُ ہے اور سب سے زیادہ امید آفریں آیت : قُلْ یٰا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ اِلٰی اَخرِہٖ ہے۔ مؤلف (رح) ۔ ]



اللہ ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے سب کا قائم رکھنے والا ہے۔ نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے جو سفارش کرے اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر ؟ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے۔ اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جو وہ چاہے۔ حاوی ہے اس کا اقتدار آسمانوں پر اور زمین پر۔ اور نہیں تھکاتی ہے اسے ان دونوں کی حفاظت۔ اور وہ بلند ہے اور عظیم ہے
اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّاھُوَ ج اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ 5 ج لاَ تَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ ط لَـہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖط یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ ج وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ وَسِعَ کُرْسِیُّـہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج وَلَا یَــُٔوْدُہٗ حِفْظُہُمَاج وَھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ۔ (اللہ ہی معبود ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے سب کا قائم رکھنے والا ہے، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، اسی کی ملکیت ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، کون ہے جو سفارش کرے اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر ؟ وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے، اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جو وہ چاہے، حاوی ہے اس کا اقتدار آسمانوں پر اور زمین پر، اور نہیں تھکاتی ہے اسے ان دونوں کی حفاظت، اور وہ بلند ہے اور عظیم ہے) (255) سب سے پہلی بات جو اس آیت کریمہ میں فرمائی گئی ہے وہ اللہ کا تعارف اور اس کی اصل حیثیت کی وضاحت ہے۔ مشرکین عرب اپنی ساری گمراہیوں کے باوجود اللہ کو تسلیم کرتے تھے اور اہل کتاب تو اللہ اور اس کے رسولوں پر بھی ایمان رکھتے تھے اس لیے اللہ کا اقرار اور اس کا ایمان دنیا کی ایک مسلمہ بات تھی۔ البتہ گمراہی کی ابتدا اس بات سے ہوتی تھی کہ کیا اللہ کے سوا کوئی اور اِلٰہ ہے یا نہیں ؟ یہود نے اللہ کو اِلٰہ قرار دینے کے باوجود شرک کی مختلف صورتیں پیدا کر رکھی تھیں اور نصاریٰ نے تو اس قدر غلو سے کام لیا کہ انھوں نے عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام) کو اللہ بنا ڈالا۔ یہ اگرچہ تمام نصاریٰ کا عقیدہ نہ تھا البتہ ان میں ایک قابل ذکر تعداد لوگوں کی ایسی موجود تھی جن کے بارے میں قرآن کریم نے کہا لقد کفرالذین قالوا ان اللہ ھوالمسیح ابن مریم (تحقیق ان لوگوں نے کفر کیا جنھوں نے کہا مسیح ابن مریم اللہ ہے) لیکن مشرکین عرب اللہ کو ایک ماننے کے ساتھ ساتھ اس کی الوہیت میں نہ جانے کس کس کو شریک بناتے تھے۔ قرآن کریم نے مختلف جگہوں میں الوہیت کے مفہوم کی وضاحت کی ہے۔ اور سورة الفاتحہ کی پہلی آیت کی وضاحت کے سلسلے میں ہم اس پر معروضات پیش کرچکے ہیں۔ اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ الٰہ ‘ معبود کو بھی کہتے ہیں اور حاکم حقیقی کو بھی۔ اور وہ ذات بھی اِلٰہ ہے جس کی محبت عبودیت کا عنوان بن جائے۔ اور وہ بھی اِلٰہ ہے جسے حضور و غیاب میں پکارا جائے اور استمداد کی جائے۔ لیکن قرآن کریم نے ان تمام حوالوں سے صرف اللہ ہی کو الٰہ قرار دیا کہ ” وہی تمہارا معبود ہے ‘ وہی تمہارا حاکم حقیقی ہے ‘ وہی ہے جس کی محبت سے دل آباد رہنا چاہیے ‘ وہی ہے جس کا خوف اور جس کی ناراضگی کا اندیشہ زندگی میں سب سے موثر عامل ہونا چاہیے ‘ وہی ہے جس کے سامنے دست سوال پھیلنا چاہیے اور وہی ہے جس سے تنہائیوں میں عجز و نیاز کی مناجات ہونی چاہیے۔ مولانا حالی نے بڑی خوبصورتی سے بعض احادیث کا ترجمہ کرتے ہوئے اس کی وضاحت کی ہے۔ ؎ کہ ہے ذات واحد عبادت کے لائق زباں اور دل کی شہادت کے لائق اسی کے ہیں فرمان اطاعت کے لائق اسی کی ہے سرکار خدمت کے لائق لگائو تو لو اپنی اس سے لگائو جھکائو تو سر اس کے آگے جھکائو اسی پر ہمیشہ بھروسہ کرو تم اسی کے سدا عشق کا دم بھرو تم اسی کے غضب سے ڈرو گر ڈرو تم اسی کی طلب میں مرو جب مرو تم مبرا ہے شرکت سے اس کی خدائی نہیں اس کے آگے کسی کو بڑائی بنائے نزاع یہ بنیادی حقیقت ہے کہ دنیا میں تمام عظمتوں کا حقیقی مالک کون ہے ؟ کون ہے جس کے سامنے سر بھی جھکنے چاہئیں اور اسی کی غیر مشروط اطاعت بھی ہونی چاہیے ؟ اسی کو غیر مشروط طور پر آئین اور قانون دینے کا حق ہے ؟ وہی ہے جس کی عظمت تمام عظمتوں کا آستانہ ہے۔ اسی پر دنیا ہمیشہ آپس میں اختلاف کرتی رہی۔ جو لوگ یہ تمام حقوق اللہ کے لیے سمجھتے ہیں ان کے لیے کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ کسی بادشاہ ‘ کسی آمر مطلق کے سامنے سر جھکادیں۔ وہ کسی پارلیمنٹ کے بارے میں بھی یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ اس کا دیا ہوا آئین و قانون اس صورت میں بھی واجب الاطاعت ہے جبکہ وہ اللہ کے آئین کے توڑ پر تیار کیا گیا ہو۔ اللہ ہی کی الوہیت کا یہ لازمی نقطہ ہے کہ حکم صرف اسی کو زیب دیتا ہے۔ اسی کی بات حرف آخر ہوتی ہے ‘ وہی ہے جس کی کسی بات کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ دنیا میں ہر اس حاکم کی حکومت قابل تسلیم ہوگی اور اس پارلیمنٹ کے فیصلے احترام کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے جس میں اللہ کے احکام کی اطاعت کو اولین حیثیت دی گئی ہو ‘ جن کی تمام ترقانون سازی صرف اس دائرے میں ہو جہاں اللہ کی شریعت خاموش ہو اور جن کی سوچ کے تمام دھارے اسلامی شریعت کی سوچ سے ہم آہنگ ہوں۔ جب کوئی شخص ‘ کوئی پارلیمنٹ اللہ کی عظمت کو نظر انداز کر کے اپنی عظمت منوانے لگتی ہے یا اس کے آئین کو بائی پاس کرنے کی کوشش کرتی ہے تو یہیں سے اللہ کے ماننے والوں کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ ایسی ہر کوشش کو ناکام بنادیں یا کم از کم اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیں۔ کیونکہ ؎ سروری زیبا فقط اس ذات ہمتا کو ہے حکمراں ہے اک وہی باقی بتان آذری اَلْحَیُّ الْـقَـیُّـوْمُ اس کے بعد اس آیت کریمہ میں اللہ کی چند بنیادی صفات کو ذکر فرمایا گیا ہے جن میں اللہ کا تعارف بھی ہے اور اس بات کی دلیل بھی کہ اللہ کے سوا کوئی اور اِلٰہ نہیں ہوسکتا۔ سب سے پہلی صفت جو بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ وہ ہے جو اَلْحَیُّ ہے یعنی وہ ازل سے ابد تک زندہ ہے۔ جسے کبھی موت نہیں آسکتی۔ کیونکہ موت کا خالق بھی وہی ہے۔ موت آنا مخلوق کی صفت ہے۔ اللہ مخلوق نہیں خالق ہے۔ اور دوسری صفت بیان فرمائی کہ وہ قیوم ہے قیوم اس ذات کو کہتے ہیں جو خود اپنے بل پر قائم ہو اور دوسروں کے قیام و بقا کا واسطہ و ذریعہ ہو اسے اپنے قیام کے لیے کسی کی احتیاج نہ ہو اور دوسری کائنات کی ہر شے اپنی زندگی اور بقا کے لیے اس کی محتاج ہو۔ جسے وہ وجود دے وہ وجود پائے ‘ جسے وہ ختم کر دے وہ ختم ہوجائے۔ جس کے وجود پانے کے بعد اگر اس کے زندہ رہنے کے امکانات وہ مہیا نہ کرے تو وہ موت کی شکار ہوجائے۔ دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ سے آپ وجود میں آسکتی ہو اور پھر وجود میں آنے کے بعد اللہ کے دیے ہوئے امکانات کو نظر انداز کر کے باقی اور قائم رہ سکتی ہو۔ یہ دو بنیادی صفات اللہ کی الوہیت کے لیے دلیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور ایک طرح کا چیلنج بھی ہیں کہ دنیا بھر کے مشرکوں نے جن قوتوں کو اللہ کی الوہیت میں شریک کر رکھا ہے وہ بتائیں کہ ان میں کون ہے جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور کون ایسا ہے جس کی زندگی اپنے بل پر قائم ہے۔ اور ایسا کون ہے کہ پوری کائنات اس کی وجہ سے وجود میں آئی ہو اور اس کی وجہ سے قائم اور باقی ہو۔ دنیا بھر کے مشرکین اس چیلنج کا سامنا نہیں کرسکتے۔ اور جب یہ اعتراف موجود ہے کہ واقعی ایسی کوئی اور ذات نہیں تو پھر کس قدر تعجب کی بات ہے کہ اللہ کی الوہیت میں دوسروں کو شریک کیا جاتا ہے۔ سِنَۃٌ … نَـوْمٌ ان دو مثبت صفات کے بعد کچھ ایسی سلبی صفات یا نقائص بیان کیے جارہے ہیں جن سے اللہ پاک اور منزہ ہے۔ جو متذکرہ بالا صفات کے بالکل برعکس ہیں۔ ان میں سے دو چیزوں کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک کو سنـۃ کہا گیا ہے اور دوسری کو نومکا نام دیا گیا ہے۔ سنـۃ اونگھ کو کہتے ہیں اور نوم کے معنی نیند کے ہیں۔ نیند کا آغاز اونگھ سے ہوتا ہے اور اس کی انتہا نومکہلاتی ہے۔ یہ دونوں غفلت کی دو صورتیں ہیں۔ ان دونوں کے ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غفلت کے تمام اثرات سے منزہ ہے۔ وہ چونکہ اپنی ذات میں حی اور قیوم ہے تو جو ذات حی اور قیوم ہو اور جس کی وجہ سے تمام دنیا زندہ اور قائم ہو اسے اونگھ یا نیند کیسے آسکتی ہے۔ وہ کسی طرح کی غفلت کا کیسے شکار ہوسکتا ہے۔ کیونکہ اس کے اونگھ جانے کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا کی زندگی جس سے وابستہ ہے وہ سرچشمہ خاموش ہوگیا۔ اور اس کے سو جانے کا معنی یہ ہوگا کہ دنیا اپنی حفاظت سے محروم ہوگئی۔ دنیا میں حشرات الارض سے لے کر بڑے سے بڑے سیارے تک اور معمولی مخلوق سے لے کر حضرت جبریل امین تک اپنی زندگی اور بقا کی بھیک اللہ سے مانگنے پر مجبور ہیں۔ اور ان کی زندگی اس وقت تک باقی ہے جب تک اللہ کی حفاظت میسر ہے۔ تو اگر اسے اونگھ آجائے یا وہ سو جائے تو اندازہ لگایئے کہ کائنات کی ایک ایک مخلوق کی زندگی کی حفاظت کون کرے گا ؟ ہوائی جہاز کا اڑانے والا پائلٹ اور ٹرین یا گاڑی چلانے والا ڈرائیور اگر اونگھ جائے تو سینکڑوں انسانوں کی جان خطرے میں آجاتی ہے۔ کیونکہ جہاز اور گاڑی کے مسافر اس ڈرائیور کی حفاظت میں ہیں تو یہ کائنات کی گاڑی صرف اللہ کی حفاظت میں محفوظ اور اللہ کے حکم سے رواں دواں ہے۔ اسی گاڑی کی حفاظت کسی اور کے بس کی بات نہیں۔ یہ صرف ایک ہی کے قبضے میں اور ایک ہی کی دسترس میں ہے۔ اسے اگر اونگھ آجائے یا نیند آجائے تو اس کائنات کی تباہی اور بربادی میں کوئی تاخیر نہیں ہوسکتی۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ یہ کائنات نہ جانے کب سے اپنے سفر پر رواں ہے۔ اس کا ایک ایک کرہ اپنے محور میں محو گردش ہے۔ ہر کرہ کی حرکت ‘ اس کی رفتار ‘ اس کی منزلیں ‘ اس کا راستہ اربوں سال گزرنے پر بھی کسی تغیر کا شکار نہیں ہوا ‘ آسمان کی وسعتوں میں بیشمار سیارے ثوابت اور ستارے ہر طرح کے خلل سے محفوظ ہیں۔ ان کی حفاظت اور ان کا ہر خلل سے محفوظ رہنا یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ اس کائنات کا الٰہ ایک ہے ‘ وہ حی وقیوم ہے اور اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند آتی ہے۔ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ (اسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے) وہ ذات کبریا اور خالق ارض و سما ‘ جس کا حکم ساری کائنات پر جاری وساری ہے اور جس کی حفاظت اور نگرانی کی وجہ سے تمام کائنات زندگی کے مزے لوٹ رہی ہے اور بےدریغ اپنے معمولات انجام دے رہی ہے ‘ اسی کو یہ بات زیب دیتی ہے اور اس صورت حال کا منطقی تقاضا بھی ہے کہ کائنات کی ایک ایک مخلوق اسی کی مملوک ہو۔ وہی سب کا مالک ‘ سب کا آقا ‘ سب کا حکمران ‘ سب کا ملجا و ماویٰ ‘ سب کا محبوب ‘ سب کا مطلوب اور مرجع و منزل ٹھہرے اور اس عظیم و جلیل ذات کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہ ہو۔ اس کا فیصلہ قطعی و آخری اور اس کا حکم اٹل اور حرف آخر ہو۔ ان حقائق کو تسلیم کرنے سے بالبداہت دو اور دو چار کی طرح ایک اور حقیقت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جس ذات عظیم کی شان اور مرتبہ یہ ہے کس طرح ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے اس کا فیصلہ تبدیل کرانے کی جسارت کرے۔ اور لوگ اپنی حماقت سے اس بات کی امید رکھیں کہ جنھیں ہم نے اللہ کا شریک بنا رکھا ہے وہ اگر چاہیں گے تو اللہ سے اپنی بات منوا کر ہمارے حق میں فیصلہ کروا دیں گے۔ اس لیے فرمایا شفاعت کی وضاحت مَنْ ذَاالَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا بِاِذْنِہٖ (کون ہے جو اس کے حضور اس کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش کرسکے) کیونکہ کائنات کی ایک ایک مخلوق اس کی مملوک و محکوم ہے۔ اور اس کے ہر حکم کو ماننے کی پابند ہے۔ وہ سب کا مطاع مطلق ہے۔ ایسی صورت میں کسی کی کیا مجال ہوسکتی ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور میں کسی کی سفارش کے لیے زبان کھولنے کی جرأت کرے۔ اس سے منطقی انداز میں یہ بات تو بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ اللہ کی مرضی کے مقابلے میں کسی کی مرضی نہیں چل سکتی۔ اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ بلکہ اگر وہ حوصلہ نہ دے تو کسی کی یہ مجال بھی نہیں کہ اس کا سامنا کرسکے۔ لیکن یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے اس اصول سے استثناء کرتے ہوئے الا باذنہ فرمایا۔ یعنی اس کی عظمت اور کبریائی کو دیکھتے ہوئے تو کسی کے لیے شفاعت کی کوئی گنجائش نہیں ‘ لیکن اگر وہ خود چاہے تو کسی کو اس کی اجازت دے سکتا ہے۔ شفاعت کے جس تصور نے قوموں کو تباہ کیا ہے وہ یہی من مرضی کا تصور ہے۔ وہ یہ سمجھتے تھے اور آج بھی کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو نظام زندگی عطا فرمایا ہے اگر کوئی شخص یا کوئی قوم اس کی مخالفت میں زندگی گزارتی ہے ‘ اسے ماننے سے انکار کرتی ہے یا مانتی ہے لیکن عمل کے لیے تیار نہیں اور اپنی خواہشات کے اتباع میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیر پر مصر ہے۔ جب انھیں ان کی اس معصیت اور نافرمانی پر توجہ دلائی جاتی ہے تو ان کے نزدیک شفاعت کا غلط تصور ایک سہارا بن جاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کے مقابلے میں جن شریکوں کو پوجتے ‘ ان کے نام کی دہائی دیتے ‘ ان کے لیے چڑھاوے چڑھاتے اور ان کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے وہ مظاہرِ قدرت ہوں یا مظاہرِ فطرت ‘ اجرامِ فلکی ہوں یا اجسامِ ارضی ‘ پتھر کے تراشیدہ ہوئے بت ہوں یا نام نہاد احبارو رہبان ‘ ان کے بھروسے پر وہ ہر برائی کر گزرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ اس خطرناک تصور نے انھیں حسن عمل سے بالکل محروم کردیا ہے۔ آج کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ایسی ہی شفاعت کے غلط تصور پر اعتماد کر کے زندگی گزار رہی ہے۔ جو آدمی کسی کا دامن گرفتہ ہے وہ اسی کو اپنا نجات دہندہ سمجھتا ہے۔ بعض لوگوں نے تو خود آنحضرت ﷺ کو ایسا ہی شفیع سمجھ رکھا ہے کہ وہ اللہ کے بڑے سے بڑے نافرمان کو بھی اصرار کر کے چھڑا لیں گے۔ ایسے نادان یہ سمجھتے ہیں کہ جس ایمان و عمل کی دعوت کے لیے آنحضرت ﷺ نے ساری زندگی کھپائی اور زندگی کا ہر دکھ اٹھایا اور جس طرز زندگی اور ضابطہ حیات کو اپنانے پر ہمیشہ زور دیا اور اسی پر آخرت کی نجات کا دارومدار رکھا ‘ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ وہ اس شخص کی شفاعت فرمائیں گے جس نے آنحضرت ﷺ کی زندگی بھر کی کاوشوں کو درخورِ اعتنا سمجھنے کی زحمت نہیں کی۔ وہ اللہ کے ایک ایک حکم کو توڑتا رہا ‘ جس کے لیے حضور ﷺ نے لا متناہی قربانیاں دی تھیں اور آپ ﷺ کی ایک ایک سنت کو پامال کرتا رہا اور پھر آپ ﷺ ہی سے امید رکھتا ہے کہ آپ میری شفاعت فرمائیں گے۔ آپ ﷺ نے ایک موقعہ پر اپنے اعزہ و اقرباء کو سمجھاتے ہوئے اپنی پھوپھی محترمہ اور اپنی لخت جگر کو خطاب کر کے فرمایا تھا کہ ” تم ایمان و عمل کا سرمایہ لے کر ساتھ جانا اور اگر تم نے نافرمانی کی زندگی گزاری تو میں تمہارے لیے کچھ نہیں کرسکوں گا۔ “ لیکن اس غلط تصور کے مقابل قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے صحیح تصور بھی عطا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بعض مقرب بندوں کو شفاعت کی عزت بخشیں گے ‘ جن میں انبیائِ کرام بھی ہوں گے اور اولیاء کرام بھی اور صالحین عظام بھی۔ لیکن یہ صرف اس شخص کی سفارش کریں گے جس کے لیے اللہ تعالیٰ اجازت عطا فرمائے گا۔ کیونکہ اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے سامنے زبان کھولنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ مشرکین عرب جیسے پہلے عرض کیا جا چکا کہ وہ فرشتوں سے شفاعت کی امید رکھتے تھے اور انھیں اللہ کی بیٹیاں کہتے تھے ‘ پروردگار نے اس حوالے سے فرمایا : وَقَالُوا اتَّخَذَالرَّحْمٰنُ وَلَداً سُبْحٰنَـہٗ ط بَلْ عِبَادٌ مُّـکْرَمُوْنَ ۔ لا لاَ یَسْبِقُوْنَـہٗ بِالْقَوْلِ وَہُمْ بِاَمْرِہٖ یَعْمَلُوْنَ (مشرکین کہتے ہیں کہ خدا کی اولاد ہے اللہ ان چیزوں سے پاک اور برتر ہے فرشتے خدا کی اولاد نہیں بلکہ اس کے باعزت بندے ہیں وہ اس کے آگے بات کرنے میں سبقت نہیں کرتے وہ بس اس کے حکم ہی کی تعمیل کرتے ہیں) مزید اس کی وضاحت فرماتے ہوئے قرآن کریم کہتا ہے یَوْمَئِذٍلاَّ تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَـہُ الرَّحْمٰنُ وَرِضٰی لَـہٗ قَـوْلاً (اور اس دن کسی کو کسی کی شفاعت کچھ نفع نہیں پہنچائے گی مگر جس کے لیے خدائے رحمان اجازت دے اور اس کے لیے کوئی بات کہنے کو پسند کرے) اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو شفاعت کی اجازت تو دے گا لیکن وہ اللہ سے ڈرتے ہوئے وہی بات زبان سے نکالیں گے جو بالکل حق ہوگی۔ اور اسی کے لیے شفاعت فرمائیں گے جس کے لیے اللہ اجازت عطا فرمائیں گے۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شفاعت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آدمی ایمان و عمل سے بےنیاز ہو کر چند بزرگ شخصیتوں پر بھروسہ کر کے بیٹھ جائے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل چیز تو اللہ کی رضا ہے جو ایمان و عمل سے نصیب ہوگی جس آدمی نے اپنے اعمال صالحہ اور اپنی دعائوں سے اپنے رب کو راضی کرلیا اس کے اعمال میں بخشش کے لیے اگر کوئی کمی ہوگی تو پروردگار اپنے کسی برگزیدہ بندے کو اجازت عطا فرمائے گا کہ میرے اس بندے کے لیے سفارش کرو۔ اس سے مقصود اپنے برگزیدہ بندوں کی عزت افزائی ہوگی اور اپنے گناہ گار بندے کی بخشش کا سامان ہوگا۔ شفاعت کے اس تصور سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شفاعت بھی صرف اللہ کی مرضی اور اس کے حکم سے میسر آئے گی۔ اس لیے ایک مومن کو اپنی بخشش کے لیے اللہ کی رضا کا سامان کرنا چاہیے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پر عمل اور آپ ﷺ پر کثرت سے درود پڑھنا چاہیے تاکہ آپ ﷺ اللہ کی اجازت سے اپنے گناہ گار امتیوں کی سفارش فرمائیں۔ شفاعتِ کبریٰ شفاعت کے حوالے سے سب سے بڑا مقام شفاعتِ کبریٰ ہے۔ محشر میں جب تمام لوگ حساب کتاب کے انتظار میں کھڑے ہوں گے اور ہر شخص اپنے اعمال کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبا ہوا ہوگا ‘ انتہائی ہولناک وقت ‘ سراسیمگی اور بےچینی کی کیفیت اپنے عروج پر ہوگی اور ایک نفسا نفسی کا عالم ہوگا ‘ لوگ اپنے انجام کو جاننے کے لیے بےقرار ہوں گے ‘ لیکن حساب کتاب شروع ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے ہوں گے ‘ لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) سے لے کر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک اولوالعزم رسولوں کے پاس جائیں گے کہ آپ اللہ سے دعا کریں تاکہ حساب کتاب شروع ہو اور ہم اس ناقابلِ برداشت انتظار کی اذیت سے نکل سکیں۔ لیکن کوئی بڑے سے بڑا رسول بھی اس کے لیے تیار نہ ہوگا۔ سب اللہ کے جلال سے پناہ مانگتے ہوں گے ‘ آخر میں لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچیں گے۔ حضور فرماتے ہیں کہ میں لوگوں کی درخواست مان کر سر سجدے میں رکھ دوں گا اور اللہ کو ان صفات اور کلمات سے پکاروں گا جو اس وقت مجھے عطا کیے جائیں گے۔ میں نہیں جانتا کب تک میں سجدہ ریز رہوں گا ‘ پھر اللہ کی طرف سے آواز آئے گی اے محمد ﷺ اپنا سر سجدے سے اٹھا لو جو مانگو گے دیا جائے گا۔ تب رسول اللہ ﷺ تمام امتوں کا حساب کتاب کرنے کے لیے اللہ سے درخواست کریں گے۔ اس طرح سے لوگوں کا حساب شروع ہوگا اور آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے لوگ انتظار کی اذیت سے نجات پائیں گے۔ غور فرمایئے آنحضرت ﷺ تمام لوگوں کے لیے پہلے پروردگار سے شفاعت کی اجازت مانگیں گے۔ اجازت ملے گی تو پھر آپ ﷺ شفاعت فرمائیں گے۔ ایک امتی کو ہمیشہ آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے بہرہ ور ہونے کے لیے دعائیں مانگنی چاہئیں لیکن اعمال حسنہ سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ مشرکین نے جس طرح شفاعت کا ایک تصور بنا رکھا تھا اس کے ابطال کے لیے ایک ایسی دلیل دی جا رہی ہے جو نہایت سادہ ہے لیکن براہ راست عقل کو اپیل کرتی اور دل میں جا اترتی ہے۔ وہ آیت کا اگلا جملہ ہے۔ شفاعت کا غلط تصور اور اس کی تردید یَعْلَمُ مَابَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَاخَلْفَہُمْ وَلاَ یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ (وہ جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر جو وہ چاہے) اسے سمجھنے کے لیے نہایت سادہ انداز میں لوگوں کے ذہنوں میں شفاعت اور سفارش کا جو تصور ہے وہ سمجھ لیجئے۔ کوئی آدمی یا کوئی ملازم کسی خلاف قانون حرکت پہ پکڑا جاتا ہے یا اس کے خلاف کسی رپورٹ پر اس کی گرفت ہوتی ہے تو وہ سفارشی تلاش کرتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ سفارشی ایسا ہونا چاہیے کہ جس افسر کے پاس میرا کیس ہے اس پر وہ اثر رکھتا ہو۔ اولاً تو سفارشی کی حیثیت اس افسر سے بڑی ہو تاکہ وہ اس کی سفارش کو رد نہ کرسکے اور یا پھر اس سے ایسی دوستی ہو کہ وہ اسے ناراض نہ کرسکتا ہو اور یا پھر سفارشی کی ایسی حیثیت ہو کہ افسر کو بھی اس سے کام پڑ سکتے ہوں تو وہ اس کی بات مان لینے پر اس لیے مجبور ہوگا کہ آج میں نے اگر اس کا کام نہ کیا تو کل کو یہ میرا کام بھی نہیں کرے گا۔ اور آخری بات یہ کہ سفارشی اس افسر کے پاس جا کر یہ یقین دلائے کہ جس شخص کو سزا دی جا رہی ہے اسے آپ نہیں جانتے اور میں اسے پوری طرح جانتا ہوں۔ آپ کے علم میں جو باتیں لائی گئی ہیں وہ غلط ہیں اور میں آپ کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرتا ہوں کیونکہ آپ کے پاس براہ راست جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ جہاں تک پہلی باتوں کا تعلق ہے وہ تو بالبداہت غلط ہیں۔ کوئی شخص بھی اللہ کی ذات سے بڑھ کر نہیں۔ کسی کی اس سے ایسی دوستی نہیں کہ وہ اس کی ناراضگی سے ڈر جائے ‘ اسے کسی سے کوئی کام نہیں پڑتا تمام مخلوق اس کی محتاج ہے وہ کسی کا محتاج نہیں۔ اور جہاں تک آخری بات کا تعلق ہے اس کے بارے میں اس جملے میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ سفارش کرنے والا اللہ کے علم میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر آدمی کے مالہ وما علیہ سے واقف ہے۔ جو کچھ سامنے ہے وہ اسے بھی جانتا ہے اور جو پیچھے ہے وہ اس سے بھی باخبر ہے۔ یعنی اس کے لیے زمانے کی کوئی تقسیم نہیں۔ اس کی نگاہوں کے سامنے ظاہر و باطن کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس لیے کوئی سفارش کرنے والا اسے یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ اس کیس کو پوری طرح نہیں جانتے میں جانتا ہوں اس لیے میں اس کی وضاحت کرنے آیا ہوں۔ ہر شخص کا علم ناقص اور محدود ہے۔ وہ ظاہر کو جانتا ہے باطن سے بیخبر ہے۔ وہ جس کی سفارش کر رہا ہے وہ اگر کوئی بات اس سے چھپالے یا اسے غلط بتائے تو اس کے پاس صحیح جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ‘ لیکن اللہ کا علم کامل ‘ حدود سے ماورا ‘ ہر طرح کی غلطی اور نقص سے پاک۔ تو پھر کس بنیاد پر آخر اس سے سفارش کی جائے۔ میں عرض کرچکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کو اس کی اجازت دیں گے۔ اور ہمارے رسول پاک ﷺ کی شفاعت ہمارے لیے بہت بڑے حوصلے کا سامان ہے۔ اور وہ شفاعت برحق ہے۔ لیکن وہ سراسر اللہ کی دین ‘ اس کا عطیہ ‘ اس کی عزت افزائی اور اس کا کرم ہے۔ اس لیے ہمیں آنحضرت ﷺ کی شفاعت سے بہرہ مند ہونے کے لیے بھی اسی سے دعائیں کرنی ہے ‘ اسی پر ہمیشہ بھروسہ رکھنا ہے ‘ کسی دوسرے بھروسے پر ایمان و عمل سے غفلت سے کی کوئی گنجائش نہیں۔ مزید ارشاد فرمایا : وَسِعَ کُرْسِیُّـہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ج وَلَا یَئُوْدُہٗ حِفْظُہُمَا ج ( اس کا اقتدار آسمانوں اور زمین سب پر حاوی ہے۔ اور ان کی حفاظت اس پر ذرا بھی گراں نہیں) کرسی کا مفہوم ” الکرسی “ اس کی تفسیر میں متعدد اقوال نقل کیے جاتے ہیں۔ علامہ ابن جریر نے حضرت ابن عباس ( رض) کا یہ قول ترجیح کے لائق سمجھا ہے کہ ” کرسی “ سے مراد اس کا علم ہے۔ اور ابن جریر نے یہ بھی فرمایا کہ اسی سے کراسۃ ماخوذ ہے جس کے معنی اس دفتر کے ہیں جس میں علم منضبط کیا جاتا ہے اور عربی میں علماء کو ” کر اسی “ بھی کہا جاتا ہے۔ لغت میں ” کرس “ کسی چیز کی جمی جمائی تہہ کو کہتے ہیں۔ اسی سے کرسی کا لفظ بنا۔ اس لیے کرسی بیٹھنے کی جگہ یا تخت وغیرہ کے لیے استعمال ہونے لگا۔ اور جب یہ بیٹھنے کی جگہ صاحب اقتدار کے لیے خاص ہو تو وہ اس کے اقتدار کا مرکز ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اہل علم نے کرسی کا لفظ اقتدار کی تعبیر کے لیے اختیار کیا ہے۔ اس جملے میں بھی یہی معنی ہوگا کہ اللہ کی کرسی سے مرد اس کا اقتدار ہے۔ البتہ یہ بات بھی یاد رہنی چاہیے کہ یہاں تو یقینا کرسی کا معنی اس کا اقتدار ہی معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اللہ کی جلیل القدر مخلوقات میں سے کرسی بھی اس کی مخلوق ہے۔ جس کے بارے میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے : یا اباذر ما السموات السبع مع الکرسی الا کحلقۃ ملقاۃ فی ارض فلاۃ (کرسی کی وسعت و فراخی کے سامنے سات آسمان یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے ایک صحرا میں ایک مندری پڑی ہے) جس پروردگارِ عالم نے زمین و آسمان پیدا کیے ہیں اس کے لیے کوئی مشکل نہیں کہ وہ اتنی بڑی کرسی کو پیدا کر دے۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ پروردگار اس کرسی پر فروکش نہیں ہوتا کیونکہ کوئی مقام بھی اللہ کی ذات کو اپنے اندر سما نہیں سکتا۔ مزید یہ بات بھی کہ اللہ تعالیٰ چونکہ جسم سے پاک ہے اس لیے اسے کسی کرسی ‘ کسی تخت یا کسی مکان کی احتیاج نہیں۔ رہی یہ بات کہ یہ کرسی کیوں بنائی گئی تو اللہ کی صفات کی طرح اس کی بعض مخلوقات کی حقیقت کو بھی ہم نہیں جانتے۔ ہم تو آج تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ سر کے بال کہاں سے آتے ہیں ؟ ناخن کیسے لمبے ہوتے ہیں ؟ بیلیں کیسے پھیلتی ہیں ؟ مختلف توجیہات کی جاتی ہیں لیکن حقیقت ہم سے کوسوں دور ہے۔ فرشتے غیر مرئی مخلوق ہیں ‘ ہم اللہ کے نبیوں کے بتانے کی وجہ سے ان پر یقین رکھتے ہیں لیکن وہ کیسے ہیں ؟ ہم ان کے بارے میں کیا جانتے ہیں ؟ اسی طرح کرسی بھی ان مخلوقات میں سے ہے جس کا علم ہمیں رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا ہے لیکن اس کی حقیقت سے ہم بیخبر ہیں اور اس کی حقیقت جاننے کے در پے ہونا بجائے خود ایک گمراہی ہے جس سے روکا گیا ہے۔ اقتدارِ الٰہی کی ہمہ گیری مشرکینِ عرب کا یہ گمان تھا کہ کائنات کی وسعتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ جس طرح ایک بادشاہ اپنے ملک کے دور دراز گوشوں کا انتظام خود نہیں کرسکتا ‘ اس کے لیے وہ مختلف عہدیدار مقرر کرتا ہے تاکہ ان دور دراز گوشوں کا انتظام درست رکھا جاسکے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ تنہا اتنی بڑی کائنات کا انتظام چلا سکے۔ وہ یقینا اس کا انتظام چلانے میں ایسی قوتوں کا محتاج ہے جنھیں وہ اپنا شریک بنا سکے تاکہ اس کائنات کے نظام چلانے میں وہ اس کے ممد و معاون ہوں۔ ان لوگوں کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ اللہ کا اقتدار آسمانوں اور زمین پر حاوی ہے۔ اور وہ زمین و آسمان کے نظام کو چلانے میں اور اس کی نگرانی میں کوئی گرانی اور تھکاوٹ محسوس نہیں کرتا۔ وہ یہود کی طرح یہ نہیں کہتا کہ اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں کائنات پیدا کی اور ساتویں دن اس نے آرام کیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما مسنا من لغوب (ہمیں تھکاوٹ نہیں ہوتی) اور یہاں فرمایا کہ ہمیں اس کائنات کی نگرانی گراں نہیں گزرتی۔ ہمارے لیے اس کا انتظام و انصرام چلانا بوجھ ثابت نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمیں کسی معاون کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کیونکہ ہمارا علم غیر محدود ‘ ہماری قدرت بےانتہا اور ہماری قوت تصرف تصور و خیال سے بالا ہے۔ وَھُوَالْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ( وہ بلند ہے اور عظیم ہے) اس کی قدرتوں کی وسعتوں اور اس کے علم کی لا محدودیت کو اپنے محدو دعلم اور عقل کے پیمانوں سے نہ ناپو۔ وہ تمہاری قوت احساس سے بھی بلند ہے اور تمہارے تصور ادراک سے بھی عظیم ہے۔ جب تک اس کی عظمتوں کا صحیح تصور اپنے اندر پیدا نہیں کرو گے اس وقت تک شرک کے کانٹے پھوٹتے رہیں گے۔ جب تک اس کی ذات کو ظن و قیاس اور تشبیہ و تمثیل کی خیال آرائیوں سے بلند نہیں سمجھو گے اس وقت تک کوئی نہ کوئی شیطان تمہیں وسوسوں کی گمراہی میں مبتلا کرتا رہے گا۔






خدا (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند جو کچھ آسمانوں اور زمین میں سے سب اسی کا ہے کون ہے کہ اسکی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کرسکے، جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کرسکتے، ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اسکی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے
اثبات توحید ذات و کمال صفات۔ قال تعالی، اللہ لاالہ۔۔۔ الی۔۔ العظیم۔ گزشتہ رکوع کی آیت وانک لمن المرسلین میں اثبات رسالت کا ذکر تھا اور اس آیت میں اثبات توحید کا بیان ہے نیز ولو شاء اللہ مااقتتلوا۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت کا ذکر تھا اور اس بیان کا تھا کہ قیامت کے دن کوئی سفارش اور کوئی دوستی کام نہ آئے گی جس سے اللہ کی کبریائی اور عظمت مفہوم ہوتی ہے کہ اس کے سامنے کسی کو مجال دم زدن نہیں اسلیے اس آیت میں اللہ کی توحید ذات اور کمال صفات بیان فرماتے ہیں ہیں نیز گزشتہ آیت والکافرون ھم الظالمون میں کافروں کو ظالم بتلایا تھا اب اس آیت میں ان کے ظلم کی وجہ بیان فرماتے ہیں کہ کافر اور مشرک اس لیے ظالم ہیں کہ اللہ کے ساتھ شریک گردانتے ہیں اور صحیح عقیدہ توحید کو بیان فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو تم کافروں کی طرح شرک کرکے ظالم نہ بنو بلکہ عقیدہ توحید کو حرز جان بناؤ چناچہ فرماتے ہیں اللہ وہ ذات ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں صرف وہی عبادت کا مستحق ہے استحقاق عبادت میں کوئی اس کا شریک اور سہیم نہیں اس لیے کہ صرف اللہ اپنی ذات سے خود بخود زندہ اور موجود ہے اس کی حیات اور بقاء ذاتی اور ابدی ہے اس کی حیات کی نہ کوئی ابتداء ہے اور نہ انتہاء اور اس کے سوا ہر چیز اپنی ذات سے مردہ اور معدوم ہے اور اس کی حیات مستعار کی ابتداء بھی ہے اور انتہاء بھی اس لیے کہ کوئی شے اپنی ذات سے قائم نہیں اللہ ہی ہر شے کا قائم رکھنے والا ہے ہر شے اپنی حیات اور بقا میں اور وجود میں اس کی محتاج ہے جیسے سایہ اپنی اصل کا محتاج ہوتا ہے ممکنات اپنے وجود اور بقاء میں اس سے کہیں زائد خدا کے محتاج ہیں ممکنات کی حیات اور وجود اسی واجب الوجود کی حیات کا ایک ادنی سا عکس اور پر تو ہے، کل ما فی الکون وھم اوخیال، او عکوس فی المرایا اوظلال۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام عالم کا قائم رکھنے والا اور اس کی تدبیر کرنے والا ہے اور ایک لمحہ بھی تدبیر سے غافل نہیں اس لیے کہ اس کو اونگھ اور نیند نہیں پکڑتی اس لیے کہ نیند ایک قسم کا تغیر ہے جو وجوب کے منافی ہے اور حیات کو ضعیف اور کمزور بناتا ہے پس جس کو اونگھ اور نیند آئے گی اور اس کی حیات بھی ناقص اور کمزور ہوگی اور دوسروں کی تدبیر بی نہیں کرسکے گا کیونکہ نیند موت کی بہن ہے لہذا نیند کی وجہ سے اس کی حیات بھی ناقص ٹھہرے گی اور اس کی شان قیومت میں بھی قصور اور نقصان لازم آئے گا اور چونہ وہی سب کے وجود اور حیات کا قائم رکھنے والا ہے اور اس لیے ثابت ہوا کہ آسمان اور زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ سب اسی کی ملک ہے اوپر سے لے کر نیچے تک اسی کی حکومت اور بادشاہی ہے اس لیے کہ اصل مالک وہ ہے جو وجود اور حیات کا مالک ہو اور اس کی عظمت اور جلال اور شان کبریائی کا یہ عام ہے کہ اس کی بارگاہ عالی میں کسی کی مجال نہیں کہ بغیر اس کی اجازت کے کوئی سفارش کرسکے چہ جائیکہ کوئی اس کے حکم کو ہٹا سکے یا ٹلاسکے یہ تو اس کی عظمت اور جلال کا حال ہوا اور اسکے علم کی یہ شان ہے کہ وہی مخلوقات کے تمام اگلے اور پچھلے احوال کو خوب جانتا ہے تمام عقلاء عالم مل کر بھی معلومات خداوندی میں سے کسی ایک معمولی چیز کی علم اور ادراک کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنی مقدار وہ تم کو علم دینا چاہتا ہے فقط اتنی مقدار تم اس چیز کو جان لیتے ہو اصل کنہ اور حقیقت کا علم اور اس کا علمی احاطہ وہ اللہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ ومااوتیتم من العلم الاقلیلا۔ آیت۔ اور تم کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ غرض یہ کہ اللہ کا علم ذاتی اور تام ہے اور مخلوق کے تمام احوال کو محیط ہے جو اس کی واحدانیت اور قیومیت اور کمال عظمت پر دال ہے اور بندوں کا علم نہایت قلیل اور ناتمام بلکہ برائے نام ہے بندہ بدون اس کی تعلیم کے ایک ذرہ کو بھی نہیں جان سکتا اور ایک ذرہ کے بھی تمام احوال اور کیفیات اور جہات اور حیثیات کا احاطہ نہیں کرسکتا اگر ایک حال کو جان لیتا ہے تو سو حال سے جاہل اور بیخبر رہتا ہے اور اس علم ناتمام کے ساتھ اس بارگاہ میں شفاعت کرنا جس کا علم ذاتی اور تام ہو اور تمام اشیاء کی حقیقت اور کنہ اور تمام احوال کو محیط ہو بغیر اس کی اجازت کے ممکن نہیں اس لیے کہ شفاعت وہاں ہوتی ہے جہاں شفاعت کرنے ولا بادشاہ کو ایسی چیز سے آگاہ کرے جس کی بادشاہ کو خبر نہ ہو یا اس کو عفو کی مصلحت کی خبر نہ ہو اور بارگاہ خداوندی میں یہ ناممکن ہے کہ اس کو کسی شی کا علم نہ ہو اور اس کی مالکیت تمام کائنات کو محیط ہے اس لیے کہ اس کو کرسی جو اس کے عرش سے کم ہے وہی تمام آسمانوں اور زمینوں کو گھیرے ہوئے اور اپنے اندر سمائے ہوئے ہے جس طرح چاہے زمین اور آسمان میں تصرف کرتا ہے کسی کی مجال کیا ہے کہ بغیر اس کی اجازت کے کوئی سفارش کا کلمہ زبان سے نکال سکے شافع اور مشفوع لہ سب اسی کی ملک ہیں اور اس کی قدرت اور قیومیت کا یہ حال ہے کہ آسمانوں اور زمینوں کی حفاظت اور نگہبانی اس پر ذرہ برابر شاق اور اگر اں نہیں اور کیسے اس پر گراں ہوسکتی ہے وہ بڑا عالی شان اور بلند مرتبہ ہے ذات اور صفات میں کوئی بھی کسی طرح اس کے برابر نہیں وہ اتنابلند مرتبہ ہے کہ اس کی شان کے مطابق کوئی حمد وثنا بھی نہیں کرسکتا بری عظمت والا ہے کہ ہر چیز اس کے سوا حقیر اور قبیح ہے وہ اپنے افعال میں کسی کا محتاج نہیں عظمت و جلال کی وجہ سے سب سے مستغنی اور بےنیاز ہے پس جس ذات پاک کی یہ صفات ہوں کیا اس کا انکار کرنا یاس کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ظلم عظیم نہ ہوگا کماقال تعالیٰ فی الا آیت الاولی۔ والکافرون ھم الظالمون۔ آیت۔ فوائد ولطائف۔ اس آیت کو آیت الکرسی کہتے ہیں کہ جس میں اللہ کی توحید ذاتی اور صفاتی کا ذکر ہے توریت اور انجیل اور کتب سابقہ کے دیکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ اللہ کی کمال ذات اور کمال صفات کے متعلق جیسا اس آیت میں ذکر ہے اس کا شمہ بھی کسی کتاب میں مذکور نہیں۔ اس آیت میں سب سے پہلے اللہ نے اپنی توحید ذاتی کو بیان فرمایا، اللہ لاالہ الاھو۔ بعد ازاں ان صفات کو بیان فرمایا۔ الحی) 1۔ کمالات وجود یہ میں سب سے پہلا حیات ہے، حی، لغت میں اس زندہ شے کو کہتے ہیں کہ جو واقف ہو اور سنتا اور دیکھتا اور قادر ہو پس صفت حیات تمام صفات کمال کا مبدء ہے۔ القیوم 2) ۔ یعنی کائنات کو قائم اور باقی رکھنے والا، حی، سے خدا کا واجب الوجود ہونابیان کیا اور قیوم سے خدا کا واہب الوجود ہونابیان کیا یعنی بذاتہ اور بنفسہ وہ واجب الوجود ہے اور دوسروں کو وجود اور حیات ہبہ اور عطا کرنے والا ہے ممکن میں جو وجود بھی ہے وہ اسی واجب الوجود کا ہبہ اور عطیہ ہے صفت حیات کو ذکر کرکے کمال وجود کو بیان فرمایا اور صفت قیومیت کو ذکر کرکے کمال ایجاد کو بیان فرمایا۔ لاتاخذہ سنۃ ولانوم 3) ۔ اس کو نہ اونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند۔ اس سے اللہ کا تغیرات اور حوادث اور خصائص ممکنات سے پاک اور بری ہونا بیان فرمایا یہ جملہ الحی القیوم کی تاکید ہے کیونکہ اونگھ اور نیند سے حیات میں نقصان آتا ہے اس لیے کہ نیند موت کی بہن ہے اور اللہ موت کے شائبہ سے بھی پاک اور منزہ ہے اور علاوہ ازیں جس کی حیات ناقص ہوگی اس کی قیومیت یعنی حفاظت اور نگرانی بھی ناقص اور کمزور ہوگی لہذا لاتاخذہ کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ایسا قیوم اور مدبر ہے کہ ایک لمحہ بھی تدبیر سے غافل نہیں ہوسکتا وہ اپنی قیومت میں سہو اور نسیان اور غفلت اور سستی سے پاک اور منزہ ہے۔ (لہ مافی السماوات ومافی الارض۔ 4) اس جملہ سے صفت مالکیت کو ثابت کرنا ہے کہ وہ آسمانوں اور زمینوں کا مالک ہے اس لیے کہ مالک حقیقی وہ ہے جو وجود عطا کرے پس جس نے آسمانوں اور زمینوں کو وجود عطا کیا اور جو ان کے وجود کا قائم رکھنے والا اور تھامنے والا ہے وہی ان کا مالک حقیقی ہے۔ من ذالذی یشفع عندہ الاباذنہ۔ 5) ۔ اس جملہ سے اس کی حاکمیت اور جلال اور کبریائی کو بیان کرنا مقصود ہے کہ اس کی بارگاہ میں کسی کی مجال نہیں کہ بغیر اس کی اجازت کے لب کشائی کرسکے۔ یعلم مابین ایدیھم وماخلفھم۔ 6) ۔ اس جملہ میں اس کے علم محیط کو بیان فرمایا کہ اس کا علم مخلوقات کے تمام احوال کو محیط ہے۔ ولایحیطون بشئی من علمہ الا بماشاء۔ 7) ۔ اس جملہ میں یہ بتلایا گیا کہ جس طرح مخلوقات کا وجود عطیہ خداوندی ہے اسی طرح مخلوقات کا علم بھی عطیہ خداوندی سے بندے فقط اتنی مقدار جان سکتے ہیں جتنا وہ چاہے بندوں کو علم اس کی مشیت کے تابع ہے بندہ کا علم نہایت ہی قلیل اور محدود ہے اور اس کا جہل بالفعل غیر محدود اور غیر متناہی ہے۔ وسع کرسیہ السماوات والارض۔ 8) ۔ اس جملہ میں یہ بتلایا گیا کہ اللہ کی حاکمیت اور مالکیت آسمانوں اور زمینوں سے بھی متجاوز ہے جہاں تک بندوں کا وہم و خیال بھی نہیں۔ فائدہ۔ 1) ۔ احادیث نبویہ اوراقوال صحابہ وتابعین سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کرسی ایک جسم ہے جو آسمانوں اور زمین سے برا ہے اور عرش سے چھوٹا ہے حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ ساتوں آسمان کرسی کے اندر ایسے ہیں جیسے کسی ڈھال میں سات درہم ڈال دیے جائیں کرسی کی اضافت اور نسبت اللہ کی طرف ایسی ہے جیسے عرش اللہ اور بیت اللہ کی نسبت ہے بظاہر یہ کوئی خاص قسم کی تجلی ہے اور جس طرح تجلیات کی انواع اوراقسام میں ہر شے کی تجلی علیحدہ ہے اسی طرح عجب نہیں کہ کرسی اور عرش کی تجلیات علیحدہ علیحدہ ہوں اور ایک دوسرے سے ممتاز ہوں جمہور سلف کے نزدیک آیت میں کرسی سے ظاہری اور متبادر معنی مراد ہیں اور بعض علماء ادھر گئے ہیں کہ کرسی اس کی عظمت اور سلطنت کی تصویر اور محض ایک مثال ہے ورنہ درحقیقت نہ کوئی کرسی ہے اور نہ وہاں کوئی بیٹھنے والا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ ہر جگہ لفظ سے حقیقی معنی ہی مراد لیے جائیں قرآن کریم میں صدہا جگہ مجازی اور کنائی معنی مراد لیے گئے ہیں۔ ولایؤدہ حفظہما۔ 9) ۔ اور اللہ تعالیٰ کو آسمان اور زمین کی حفاظت ذرہ برابر گراں نہیں اس جملہ سے یہ بتلانا ہے کہ اس کی صنف قدرت اور قیومیت ضعف اور نقصان سے پاک اور منزہ ہے۔ وھوالعلی العظیم۔ 10) ۔ اس جملہ میں اللہ کی صفت علو اور عظمت کو بیان فرمایا۔ 2) ۔ مستدرک حاکم میں ابوہریرہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، سورة بقرہ میں ایک آیت ہے جو تمام آیات قرآنیہ کی سردار ہے وہ آیت الکرسی ہے جس گھر میں وہ پڑھی جاتی ہے شیطان اس سے نکل جاتا ہے۔ صحیح مسلم وغیرہ میں ابی بن کعب سے مروی ہے کہ نبی کریم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ اے ابوالمنذر قرآن میں سے اعظم یعنی سب سے بڑی آیت کون سی ہے میں نے کہا اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم۔ آپ نے یہ سنتے ہی میرے سینہ پر ہاتھ اور مارا اور فرمایا اے ابولمنذر علم تمہیں مبارک ہو۔ اور اسی طرح حضرت عمر، اور حضرت علی، عبداللہ بن مسعود اور عبداللہ بن عباس اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہے کہ تمام آیتوں کی سردار اور سب سے بڑی آیت آیت الکرسی ہے (درمنثور ص 325 ج 1) ۔ اسی بناء پر کہا جاتا ہے کہ اسم اعظم اللہ لاالہ الاھوالحی القیوم ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) جب مردوں کو زندہ کرنے کا ارادہ فرماتے تو یاحی یاقیوم پڑھ کر دعا فرماتے اور آصف بن برخیا نے جب بلقیس کے عرش کو لانے کا ارادہ کیا تو یاحی یاقیوم پڑھ کر دعا مانگی۔ (تفسیر قرطبی ص 271 ج 3) ۔ 3) ۔ حضرت شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس سرہ اللہ فرماتے ہیں کہ آیت الکرسی سورة بقرہ کا قلب ہے اور الحی القیوم بمنزلہ روح اور جان کے ہے اور باقی آیات بمنزلہ اعضاء اور جوارح کے ہیں اور اس سورت کے تمام مطالب اسی آیت کے گرد گھومتے ہیں جس طرح اعضاء اور جوارح جان کے شؤن اور مظاہر ہوتے ہیں اسی طرح اس سورت کی تمام آیتیں الحی القیوم کے شؤن اور مظاہر ہیں سورة بقرہ کے کل چالیس رکوع ہیں کوئی ایسا نہیں کہ جس میں حیات اور قیومیت اور ہمیشہ کی زندگانی کا مضمون مذکور نہ ہو۔ گویا کہ یہ تمام سورت الحی القیوم کی شرح اور بسط اور حیات اور قیومیت ہی کی توضیح اور تلویح ہے ابتداء سورت میں ذالک الکتاب لاریب فیہ سے قرآن کریم کا آب حیات ہونابیان فرمایا اور یہ بتلایا کہ ایمان اور تقوی سے حیات ابدی حاصل ہوتی ہے اور کفر اور نفاق سے دائمی ہلاکت پھر تیسرے رکوع میں افراد انسانی کی فردا فردا حیات کا زکر فرمایا وکنتم امواتا فاحیاکم۔ آیت۔ اور زمین و آسمان کی پیدائش اور دنیا کی نعمتوں کی پیدائش کا ذکر فرمایا جو دنیوی حیات کا ذریعہ ہیں اور پھرا پنی عبادت کا حکم دیا جو انسان کی حیات اخروی اور قیام ابدی کا ذریعہ ہے بعد ازاں ابوالبشر کی حیات اور منصب خلافت اور ملائکہ پر ان کی فضیلت کو ذکر فرمایا واذ قال ربک للملائکۃ انی جاعل فی الارض خلیفہ۔ آیت۔ بعدازاں پانچویں رکوع سے ایک خاص خاندان کی حیات کا ذکر شروع کیا یعنی بنی اسرائیل کی حیات اور ان پر اپنے ظاہری اور باطنی انعامات کا بیان شروع کیا جو تقریبا اخیر پارے تک چلا گیا جس میں ان کو جہانوں پر فضیلت دینا اور من سلوی کا ان کے لیے نازل کرنا اور ان کی ہدایت کے لیے توریت کا عطا کرنا اور اس خاندان میں ہزاروں پیغمبروں کو ہدایت کے لیے مبعوچ کرنا بیان فرمایا چودھویں رکوع تک جب اس خاندان کی حیات کا قصہ تمام ہوا تو پندرھویں رکوع سے ایک دوسرے خاندان کی حیات کا ذکر شروع فرمایا یعنی حضرت اسماعیل کا ان کی اقامت اور تواطن کے لیے خانہ کعبہ کی تعمیر ہوئی یہ جگہ نبی آخرالزمان کی پیدائش کی جگہ اور یہ قبلہ آخری قبلہ ہے دور تک یہ سلسلہ کلام چلا گیا جب ان دونوں خاندانوں کی حیات اور قائمی سے فارغ ہوئے تو پھر اس کے بعد چند اقسام حیات کو ذکر فرمایا کہ جو بظاہر حیات کے خلاف معلوم ہوتے ہیں من جملہ ان کے شہادت فی سبیل اللہ اور مصائب پر صبر کرنا اور قصاص کو جاری کرنا اور وصیت کو بغیر تغیر وتبدل کے جاری کرنا اور روح کو زندہ رکھنے کے لیے روزہ رکھنا اور دین کی بقاء کے لیے جہاد کرنا اور شعائر اسلام کو زندہ اور قائم رکھنے کے لیے حج اور عمرہ کرنا اور مال اور آبرو کی حیات کو قائم رکھنے کے لیے شراب اور جوئے سے پرہیز کرنا اور حقوق نکاح اور زوجیت کے زندہ اور قائم رکھنے کے لیے ایلاء اور خلع اور طلاق اور عدت اور حالت حیض میں مباشرت اور اجرت رضاعت وغیرہ کی حدود کی پوری پوری رعایت رکھنا تاکہ خاندانی اور معاشرتی حیات قائم رہے اور اس کاشیرازہ منتشر نہ ہو۔ پھر جب ان اقسام حیات کے بیان سے فراغت ہوئی تو الم تر الی الذین خرجوا من دیارھم وھم الوف حذرالموت۔ آیت۔ سے چند عجیب و غریب قصے بیان فرمائے جن میں اللہ حی قیوم کی طرف سے بلااسباب ظاہری حیات غیبیہ کا عطا ہونا بیان فرمایا تاکہ خوب واضح ہوجائے کہ اس کے سوا کوئی حی اور قیوم نہیں جو بھی زندہ اور قائم ہے وہ اس کی دی ہوئی حیات سے قائم ہے اللہ نے دو قصے اس کلمہ حی وقیوم سے پہلے ذکر فرمائے اور تین قصے اسی مدعا کے اثبات کے لیے آیت الکرسی کے بعد ذکر فرمائے، پہلا قصہ حیات بنی اسرائیل کی اس جماعت کا ذکر فرمایا کہ جو وبا سے ڈر کر بھاگے اور پھر ایک نبی کی دعا سے زندہ ہوئے، دوسرا قصہ طالوت اور جالوت اور تابوت سکینہ کا نازل فرمائیا جس سے اس خاندان کی گم شدہ حیات پھر واپس آئی۔ اس کے بعد آیت الکرسی کو ذکر فرمایا جس میں اللہ کی حیات اور قیومت اور مالکیت اور عظمت اور ہیبت اور قدرت کاملہ اور علم محیط کا ذکر فرمایا اور یہ بتلا دیا کہ اسلام اور سیدھا راستہ یہ ہے کہ خدا کو وحدہ لاشریک مانا جائے حق واضح ہے جس کا جی چاہے قبول کرے کسی پر زبردستی نہیں۔ اس کے بعد پھر اپنی حیات اور قیومیت کے اثبات کے لیے تین قصے ذکر فرمائے جس سے حیات اخروی کانمونہ معلوم ہوا اور یہ واضح ہوجائے کہ وہ حی وقیوم مردوں کے زندہ کرنے پر قادر ہے تاکہ لوگ قیامت کے بارے میں شک نہ کریں پھر اس کے بعد صدقات اور خیرات کے احکام بیان فرمائے جو انسان کی دینی اور دنیوی زندگی کے قیام کا سبب ہیں اور سود سے ممانعت فرمائی کہ جو انسان کی دینی اور دنیوی حیات کی تباہی اور بربادی کا سبب ہے پھر اس سورت کو للہ مافی السماوات ومافی الارض۔ آیت۔ سے ایمانیات اور اعتقادیات اور دعا اور استغفار کے مضمون پر ختم فرمایا اس لیے کہ ایمان اور توبہ اور استغفار ہی سے مردہ دلوں کو حیات جاودانی حاصل ہوتی ہے خلاصہ کلام یہ کہ تمام سورت حق تعالیٰ کے اسم حی وقیوم کی شرح اور تفصیل ہے اور آیت الکرسی اس سورت کے لیے بمنزلہ دل کے ہے اور یہ اسم حی وقیوم بمنزلہ جان کے ہے باقی آیتیں بمنزلہ اعضاء اور جوارح کے ہیں۔ واللہ اعلم۔ (حق اور باطل نور اور ظلمت کا فرق واضح ہے) ۔


اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، مگر وہی ہے۔ وہ زندہ ہے ۔ قائم رکھنے والا ہے۔ نہیں پکڑتی اس کو اونگھ اور نہ نیند ، اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ کون ہے جو اس کے سامنے سفارش کرسکے بغیر اس کی اجازت کے ، جانتا ہے جو کچھ ان کے سامنے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے اور نہیں احاطہ کرتے کسی چیز کا اس کے علم میں سے مگر جتنا وہ چاہے وسیع ہے اس کی کرسی آسمانوں اور زمین سے اور نہیں تھکاتی اس کو حفاظت ان کی اور وہ بلند تر اور عظمت والا ہے
ربطہ آیات پہلے دو رکوع میں اللہ تعالیٰ نے نظام خلافت کا ذکر فرمایا ہے۔ بنی اسرائیل کا واقعہ بیان کرکے جہاد کا مسئلہ سمجھایا ہے اور پھر نظام اسلام کی نشاندہی کی ہے کہ امیر کیسا ہوناچاہئے۔ سپاہی اور لشکر کی صفات کیا ہوں جہاد ہی کے سلسلہ میں جان و مال کی قربانی کا خصوصی ذکر فرمایا ہے۔ پھر اس اعتراض کا جواب دیا ہے کہ جہاد کرنا نبیوں کا کام نہیں۔ فلسفہ جہاد بیان کیا ہے کہ اگر جہاد کا حکم نہ ہو ، تو فسادی لوگ زمین میں فساد برپا کریں گے۔ لہٰذا سوسائٹی کو درندہ صفت لوگوں سے محفوظ کرنے کے لیے جہاد ضروری ہے۔ اب اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان اور توحید کا مسئلہ بیان کیا ہے۔ اور اس کا ربطہ پہلی آیتوں کے ساتھ مختلف طریقوں سے ہے جہاد کے سلسلہ میں جان و مال کھپانے کا ذکر ہوچکا ہے۔ مگر ان دو چیزوں کی قربانی اسی وقت قبول ہوگی جب ایمان صحیح ہو اور انسان کا عقیدہ توحید پر ہو۔ اعمال کا دارومدار پر ہے۔ اگر عقیدہ درست نہیں ہوگا تو کوئی عمل قابل نہیں ۔ عقیدہ توحید کے بغیر پہاڑ جتنے اعمال بھی بےسود محض ہوں گے۔ ان کی حیثیت راکھ اور غبار سے زیادہ سے نہیں ہوگی۔ لہٰذا مسئلہ توحید کو مسئلہ جہاد کے ساتھ یہ ربط ہے۔ پیشتر ازیں بنی اسرائیل کے واقعہ کے ضمن میں نظام خلافت بھی سمجھادیا گیا ہے اور اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ اقتدار کا حقیقی مالک خلیفہ نہیں ہوتا جو اپنی من مانی کرتا پھرے ، بلکہ اقتدار کا مالک اللہ ہوتا ہے۔ خلیفہ تو اللہ کا بندہ ہوتا ہے جو نظام خلافت کو چلاتا ہے۔ اس سورة کے آخری حصہ میں بھی یہی بات سمجھائی گئی ہے کہ خلیفہ اقتدار کا مالک نہیں ہوتا بلکہ وہ تو امین ہوتا ہے اور دین اور شریعت کو جاری کرتا ہے اس کے ساتھ ایک جماعت ہوتی ہے جو نفاذِ شریعت میں اسکی مدد کرتی ہے اسے مجلس شوریٰ کو لیں یا کچھ اور۔ وہ بہرحال ” وامرھم شوریٰ بینھمـ“ کے تابع ہوتی ہے۔ تو گویا نظام خلافت کا صحیح طور پر قائم کرنا بھی عقیدہ توحید پر موقوف ہے لہٰذا اس لحاظ سے بھی آیت زیر درس کو سابقہ آیات کے ساتھ ربط ہے۔ آیت الکرسی کی فضیلت یہ آیت ایک لمبی آیت ہے اور آیت الکرسی کہلاتی ہے کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی کرسی کا ذکر ہے۔ وسع کرسیۃ السموت والارض حدیث شریف میں اس آیت پاک کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ حضرت ابی ابن کعب ؓ کی روایت میں آتا ہے کہ حضور ﷺ نے ان سے پوچھا کہ قرآن پاک میں سب سے بڑی آیت کون سی ہے۔ تو حضرت ابی ابن کعب ؓ نے نہایت ادب سے عرض کیا اللہ و رسولہ اعلم یعنی اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر حضور ﷺ نے پوچھا۔ اچھا یہ بتائو ، قرآن پاک میں بہتر آیت کون سی ہے۔ انہوں نے پھر عرض کیا۔ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ پھر نبی کریم نے حضرت ابی ؓ سے سینہ پر ہاتھ مار کر وہی سوال کیا۔ تو انہوں نے جواب دیا حضور ! اعظم ایۃ فی القراٰن اللہ لا الہ ھو الحی القیوم یعنی قرآن پاک کی سب سے بڑی آیت یہ آیت الکرسی ہے تاہم اس آیت کا یہ اعزاز الفاظ یا کلمات کے اعتبار سے نہیں بلکہ فضیلت کے اعتبار سے اسے سب سے بڑی آیت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے جو شخص فرض نماز کے بعد اخلاص کے ساتھ آیت الکرسی پڑھے گا۔ وہ اگلی نماز تک اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں ہوگا۔ حضور نبی کریم رئوف الرحیم ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا۔ جو کوئی فرض نماز کے بعد اخلاص کے ساتھ آیت الکرسی پڑھیگا۔ موت کے سوا اس کے دخول جنت میں کوئی چیز مانع نہیں ہوگی۔ یعنی جنت میں داخلے کے لیے صرف موت ہی درمیان میں رکاوٹ ہے جونہی اس کی موت واقع ہوگی ، وہ شخص جنت میں داخل ہوجائیگا گویا یہ آیت کریمہ تلاوت کرنے والا جنت کا مستحق ہوگیا۔ ایک اور حدیث میں اس آیت اور سورة مومن کی چند ابتدائی آیات کی مزید فضیلت آئی ہے۔ یہ چھوٹی چھوٹی آیتیں ہیں مگر فضیلت کے لحاظ سے ان کو کمال درجہ حاصل ہے۔ حم تنزیل الکتب من اللہ العزیز العلیم غافر الذنب و قابل التوب شدید العقاب ذی الطول لا الہ الا ھو الیہ المصیر حضور نے فرمایا جو شخص آیت الکرسی اور سورة مومن یا غافر کی یہ تین آیتیں رات کے وقت تلاوت کریگا۔ اللہ تعالیٰ کی جانب سے صبح تک اس کی حفاظت ہوتی رہیگی۔ اور جو کوئی صبح کے وقت یہ آیتیں تلاوت کریگا۔ وہ رات تک اللہ کی امان میں ہوگا۔ ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ حضور نبی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ سورة بقرہ میں ایک ایسی آیت ہے جو فضیلت کے لحاظ سے سب سے بڑی آیت ہے جس گھر میں یہ آیت پڑھی جاتی ہے۔ وہاں شیطان نہیں ٹھہر سکتا ۔ بلکہ وہاں سے بھا گ جاتا ہے۔ اس آیت کا اتنا عظیم اثر ہے ، صحیحین میں صدقہ الفطر کے اناج کی حفاظت والی حدیث آتی ہے کہ اس اناج کی حفاظت حضرت ابوہریرہ ؓ کے ذمہ تھی ، آپ رات کو پہرہ پر تھے کہ شیطان نے اس اناج میں سے کچھ لینا چاہا مگر صحابی رسول نے اسے پکڑ لیا ، مگر اس کی منت خوشاد کرنے پر چھوڑ دیا ۔ پھر دوسری رات آئی ، تو یہی واقعہ پیش آیا آپ نے شیطان کو دبوچ لیا ۔ اس نے وعدہ کیا کہ اس دفعہ چھوڑ دیا جائے پھر نہیں آئیگا آپ نے پھر اس کو چھوڑ دیا ، مگر وہ کم بخت تیسری رات پھر آ گیا ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے پھر اس کو پکڑ لیا اور فرمایا میں آ ج تجھے ہرگز نہیں چھوڑوں گا بلکہ حضور ﷺ کے پاس لے چلوں گا۔ شیطان نے پھر منت سماجت کی اور کہا کہ خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو کہنے لگا کہ اگر تم آیت الکرسی پڑھ لیا کرو تو شیطان تمہارے قریب نہیں آسکے گا ، تمہاری حفاظت ہوگی ۔ حضرت ابوہریرہ ؓ نے تیسری رات بھی شیطان کو چھوڑ دیا اور صبح کو سارا معاملہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کردیا ۔ آپ نے فرمایا اے ابوہریرہ ؓ شیطان ہے تو جھوٹا ، مگر بات اس نے ٹھیک کہی ہے۔ اگر کوئی شخص ایمان کے ساتھ اس آیت کی تلاوت کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسکا محافظ و نگہبان ہوگا۔ الغرض ! اس آیت پاک کو بہت بڑی فضلیت حال ہے ، لہٰذا ہر مسلمان کا سے ورد زبان بنا لینا چاہئے ، ہر نماز کے بعد اس کی تلاوت کی جائے ، صبح و شام کو اسے پڑھا جائے ، تو اللہ تعالیٰ ہر مصیبت سے مامون فرمائیگا اور آخرت میں جنت میں داخلے کی ضمانت ہوگی ، تا ہم مفسرین اور محدثین کرام فرماتے ہیں کہ ہر دعا اور ذکر کی قبولیت کے لیے بعض شرائط ہیں ، ہر دعا اور ہر ذکر محض پڑھ لینے سے درجہ قبولیت تک نہیں پہنچ جاتی ، قبولیت دعا کے لیے ضروری ہے کہ دعا گو فرائض سے خالی نہ ہو ، اللہ تعالیٰ نے اس پر نماز ، روزہ فرض کیا ہے ۔ تو ان کا تارک نہ ہو ، بلکہ انہیں پورا کرتا ہو اور پھر اس کا رزق بھی حلال ہو ، اس کا کھانا ، پینا اور پہننا حرام سے پاک ہو اور یہ بھی قبولیت کی شرط ہے کہ انسان حتیٰ الامکان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل کرتا ہو ، ترمذی شریف کی حدیث ۔۔۔۔ میں آتا ہے ۔ ان اللہ لا یقبل دعاء من قلب غافل ۔ اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں کرتا ، جب کوئی دعا کرے ، تو نہایت خشو ع و خضوع کے ساتھ دعا کرنی چاہئے ، خدا کی بارگاہ میں ایسی دعا قبول نہیں ، جو دل کی گہرائیوں سے نکلنے کی بجائے محض زبان کی حرکت تک محدود ہو۔ یہ آیت پاک پچاس الفاظ پر مشتمل ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے گیارہ دلائل موجود ہیں ۔ یہ آیت گویا مجموعہ دلائل ہے۔ اس آیت کی فضلیت ان معانی میں ہے کہ کسی چیز کا علم یا اس کا ذکر اس کے معلوم یا مذکور کے تابع ہوتا ہے ، یعنی جو درجہ اور فضلیت کسی مذکور معلوم کو حاصل ہوگا وہی اس کے علم یا ذکر کو حاصل ہوگا ، اب قرآن پاک میں تو تمام چیزوں کا ذکر ہے ، کہیں خود قرآن پاک کے متعلق آتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے اور یہ ہدایت ہے ، کہیں اللہ کے نبیوں کا ذکر ہے ۔ کہیں بڑے آدمیوں کا ذکر ہے ، کہیں فرعون و قارون کا واقعہ بیان ہوا ہے کہیں صالحین کا ذکر ہے ، کہیں احکام ہیں کہیں نواہی ہیں ۔ انسان کی تہذیب کا بیان ہے۔ اس کے نفس اور روح کی کیفیت کا ذکر ہے۔ اسی طرح قرآن میں خود خدا تعالیٰ کی ذات اور اسکی توحیدکا ذکر ہے ، کہیں اس کی صفات کمال اور کہیں صفات و جلال و جمال کا ذکر ہے ، تو یہ جو اللہ کا ذاتی ذکر ہے ، یہ تمام اذکار سے افضل ہے ، لہٰذا جن آیات اور جملوں میں ان چیزوں کا ذکر ہوگا ، وہ آیات باقی آیات سے افضل ہوگی ، اس لحاظ سے چونکہ آیت الکرسی میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اسکی صفات کا ذکر ہے ، لہٰذا یہ آیت پاک بھی باقی آیات سے افضل ہے۔ توحید باری تعالیٰ اس عظیم آیت میں ارشاد ہوتا ہے ۔ اللہ لا الہ الا ھو اللہ وہی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، نہ کوئی چھوٹا نہ بڑا ، نہ عارضی نہ مستقل ، نہ باپ نہ بیٹا کوئی بھی معبود نہیں ۔ معبود وہی اور صرف وہی ہے ، جو کوئی اللہ کے علاوہ کسی اور کو بھی معبود مانتا ہے ، تو اس کا عقیدہ قطعا ً باطل ہوے۔ وہ تو ایسی ذات ہے ۔ الحی جو زندہ ہے ، اس کی حیات ابدی اور سرمدی ہے ، اس کے علاوہ جتنی بھی زندگیاں ہیں ، سب جزوی اور عارضی ہیں ، کسی کو دائمی حیات حاصل نہیں ۔ زندگی کا سر چشمہ خدا کی ذات وحدہٗ لا شریک ہے ، یہ اس کی مشیت ہے جس کو جتنی زندگی چاہے دے دے اور جب چاہے واپس لے لے ۔ وہ القیوم بھی ہے ، یعنی خود قائم ہے اور کائنات کے باقی چیزوں کو قائم رکھنے والا ہے وہ عالم بالا سے لے کر ذرہ ذرہ تک کا محافظ اور نگران ہے۔ وہی پیدا کرنے والا ہے وہی جتنا عرصہ چاہے قائم رکھنے والا ہے اور پھر وہی فنا کرنے والا بھی ہے لوگوں نے کئی قسم کے باطل عقیدے بنا رکھے ہیں ۔ عیسائیوں نے باپ ، بیٹا اور روح القدس کا نظریہ قائم کیا ہوا ہے۔ تین خدا ہیں ، کیا ایک خدا کافی نہیں ہے۔ ہندوئوں کے عقیدے کے مطابق پیدا کرنے والا برہما ہے۔ تھامنیوالا وشنو ہے اور فنا کرنے والا شوا جی مہارج ہے۔ ان کے بھی تین خدا ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے باطل نظریات کی تردید فرمائی ۔ اور یہ بات واضح کردی کہ الحی القیوم وہی ہے ، پیدا بھی وہی کرتا ہے۔ پرورش بھی وہی کرتا ہے قائم بھی وہی رکھتا ہے اور پھر فنا بھی وہی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جتنے عقیدے ہیں سب باطل ہیں ۔ اور پھر اس مالک الملک کی ہر چیز پر نگرانی اور حفاظت بھی اس طور ہے کہ لا تاخذہ سنۃ ولا نوم نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ، اونگھ اور نیند تو غفلت کی علامت ہے اور اس کو آتی ہے جس کو تھکاوٹ ہوجائے اور آرام کی ضروررت ہو ، مگر اللہ کی ذات تو پاک ہے نہ وہ تھکتا ہے اور نہ اسے آرام کی ضرورت ہے۔ یہ تو ناتواں انسان ہے جو کچھ مشقت کرنے کے بعد تھک جاتا ہے اور پھر اسے آرام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اسکے لیے نیند جیسی نعمت تیار کی ہے۔ اللہ نے اس کو سباتا ً کہا ہے یعنی نیند انسان کے لیے آرام کا ذریعہ ہے ، تا کہ جب محنت کرنے کے بعد تھک ہار جائے تو کچھ دیر آرام کر کے پھر سے تازہ دم ہوجائے اور دوبارہ کام کاج اور عبادت میں مصروف ہوجائے۔ یہ تھکان ، کمزوری اور پھر آرام کی ضرورت اللہ تعالیٰ کی شان کے شایان نہیں ہے۔ وہ ان چیزوں سے پاک اور منزہ ہے ، بلکہ در حقیقت لہ ما فی السموات وما فی الارض زمین و آسمان کی ہر شے اسی کی پیدا کردہ ہے ۔ اسی کے قبضہ قدرت میں ہے ، اور اس کی مطیع ہے ، ہر چیز پر اس کا تصرف ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں وہ ذات ہے جو یصرف الامر کیف یشاء جس طرح چاہے تصرف کرتا ہے ، کسی چیز کا گھٹانا ، بڑھانا ، بلندی ، پستی ، زندہ کرنا اور مارنا سب اس کے اختیار میں ہے ، ہر چیز پر اسی کا حکم چلتا ہے۔ مسئلہ شفاعت فرمایا جب قادر مطلق وہذات ہے ۔ تو من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ کون ہے جو اس کے سامنے سفارش کرنے کا دم مار سکے بغیر اسکی اجازت کے ، مشرکوں کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کے معبود ان کی سفارش کریں گے ، اللہ تعالیٰ خواہ راضی ہو یا ناراض یہ ہماری سفارش کر کے خدا کو ضرور ہی منا لیں گے ۔ یہودیوں اور نصرانیوں کا بھی اسی قسم کا عقیدہ ہے ، حالانکہ جبری اور قہری سفارش کا تو وجود ہی نہیں ہے۔ اس سے پہلے آیت میں آ چکا ہے کہ اس دن نہ خریدو فروخت ہوگی ، نہ دوستی کام آئیگی ولا شفاعۃ اور نہ کوئی سفارش ہوگی ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کی اجازت کے ساتھ سفارش کر نیکی اجازت ہوگی ۔ اشرف المخلوقات میں سب سے افضل انسان حضور خاتم النبیین ﷺ ے فرمایا قیامت کے د رب الحکمین کے سامنے آئوں گا اور اللہ تعالیٰ کے حضور لمبا سجدہ کروں گا پھر حکم ہوگا یامحدم ارفع راسک ، اے محمد ! آپ اپنا سر اٹھائیں ۔ آپ بات کریں آپ کی بات سنی جائیگی ، آپ سفارش کریں ، آپ کی سفارش قبول کی جائے گی ۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضور ﷺ کا یہ سجدہ دس برس کے وقفہ کے برابر لمبا ہوگا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ شفاعت کی اجازت دیں گے ، بغیر اجازت کے کوئی سفارش نہیں ہوگی اور اجازت بھی اس شخص کے لیے دی جائیگی جس کا عقیدہ توحید پر ہوگا اور اللہ تعالیٰ کو پسند ہوا ۔ ولا یرضی لعبادہ الکفر اللہ تعالیٰ کفر والے عقیدہ ، شرک والے عقیدہ کو پسند نہیں کرتا ، وہ کفر کرنے کی توفیق تو دے دیتا ہے ۔ کافر کی رسی تو دراز کردیتا ہے مگر ان سے ناراض ہوتا ہے ، کیونکہ اس کے نزدیک والکفرون ھم الظلمون۔ کافر لوگ ہی اصل ظالم ہیں ، نیز یہ کہ ان الشرک الظلم عظیم شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ لہٰذا قیامت کے دن سفارش دو شرطوں سے مشروط ہوگی اور مستحق سفارش کیا شخص ہوگا ، من لا یشرک باللہ شیئا ً جو اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا نہ ہو اور پھر یہ کہ بغیر اجازت کے سفارش نہ ہوگی ۔ جب اجازت ہوگی تو انبیاء ملائکہ ، اولیاء ، شہدا اور مومن سفارش کریں گے صحیحین کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ باربار سجدہ ریز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ بار بار سفارش کی اجازت دیں گے ، یہ سفارش مختلف قسم کے لوگوں کے لیے ہوگی ۔ ایک دفعہ اجازت ہوگی کہ اس قسم کے لوگوں کے متعلق سفارش کریں ۔ آپ سفارش کر کے ان لوگوں کو دوزخ سے نکال لیں گے ، پھر سجدہ کریں گے پھر اجازت ہوگی ، اب ایسے لوگوں کی سفارش کریں ۔ آپ ان لوگوں کو بھی دوزخ سے نجات دلوائیں گے اور اس طرح آپ بار بار سجدہ کریں گے اور اللہ بار بار سفارش کی اجازت دیں گے ، دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور ﷺ کی شفاعت نصیب فرمائے۔ علم غیب خاصہ خداوندی ہے جس طرح اللہ تعالیٰ مختار مطلق اور قادر مطلق ہے اور جس طرح وہ الٰہ بر حق ہے اسی طرح وہ علیم کل بھی ہے ، چناچہ یہ اس کی صفت خاصہ ہے۔ یعلم ما بین ایدیھم وما خلفھم وہ ماضی کو بھی جانتا ہے اور مستقل سے بھی واقف ہے ۔ اس دنیا کے تمام امور کا بھی مکمل طور پر عالم ہے اور آخرت کے جہا ن یعنی برزخ اور قیامت کے حال کے ذرہ ذرہ سے بھی واقف ہے۔ یہ ماضی حال ، مستقبل وغیرہ انسانوں کی نسبت سے ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تو کوئی چیز غائب ہیں وما یعزب عن ربک من مثقال ذرۃ تیرے رب سے کوئی ذرہ برابر چیز بھی غائب نہیں ، وہ ہر شے کو جانتا ہے۔ ولا یحیطون بشی من علمہ الا بما شاء مخلوق میں سے خواہ انسان جن یا فرشتے یا کوئی اور مخلوق ہو کوئی بھی خدا تعالیٰ کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتا ، ہاں جس قدر اللہ تعالیٰ چاہے ، وہ کسی کو اتنا علم عطا کردیتا ہے ، خدا کا علم غیر محدود ہے اور غیر متناہی ہے ، اس کو کوئی حد نہیں مگر مخلوق کا علم محدود ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) کے متعلق بخاری شریف کی روایت موجود ہے کہ ایک چڑیا نے پانی میں چونچ ماری اور جتنا پانی لے سکتی تھی لے لیا ۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے فرمایا ، اے موسیٰ ! تیرا اور میرا علم خدا تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں اس چڑیا کی چونچ کی مانند ہے ، ہم نے تو اللہ تعالیٰ کے علم میں سے اتنا حصہ بھی حاصل نہیں کیا ، جتنا چڑیا اس چڑیا نے سمندر سے پانی لیا ہے ، تم کہتے ہو کہ میں بڑا عالم ہوں ۔ بھلا ہمارے علم اور اللہ تعالیٰ کے علم میں کیا نسبت ہے ، تا ہم یہ ایک مثال ہے وگرنہ اللہ کا علم اور مقدار رات تو اس سے بھی زیادہ وسیع ہیں ، حتیٰ کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ اب جو لوگ دوسروں کے متعلق گمان رکھتے ہیں کہ وہ بھی ہر چیز کو جانتے ہیں ان کو کیا کہا جائے ۔ بعض لوگ اولیاء اللہ اور بعض انبیاء کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ ہماری سب باتوں کو جانتے ہیں ۔ بھائی ! یہ شرکیہ عقیدہ ہے ، ہر چیز کا جاننے والا اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔ ہاں الا بما شاء جس قدر اللہ بتلا دے ، اتنا ہی جانتے ہیں ، یہ معبود بر حق ہی جانتا ہے کہ کسی کو کیا دکھ اور کیا تکلیف ہے۔ دوسرا کوئی نہیں جانتا اور نہ اس کو رفع کرنے پر قادر ہے ، وہ جب تک چاہتا ہے کسی کو مشکل میں ڈالے رکھتا ہے اور جب چاہتا ہے ۔ مصیبت اور پریشانی کو دور کردیتا ہے۔ آج کی دنیا میں بیچارے فلسطینی کن حالات سے گزر رہے ہیں ۔ فلپائنی مسلمان کس مشکل میں گرفتار ہیں ۔ افغانوں پر کیا بیت رہی ہے۔ ہندوستان کا مسلمان کس قدر بےبس ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو مسلمانوں کے حالات کو درست فرمائے ، کون ہے ، جو ان کو مشکلات سے نکالے۔ ان کی کشتی کو گرداب سے نکالنا تو درکنا اللہ کے سوا کون ہے جو ان کے حال سے بھی واقف ہو۔ تمام انسانی برادری میں سے انبیاء علہیم السلام سب سے زیادہ جاننے والے ہوتے ہیں ۔ مگر ان کا علم بھی محدود ہوتا ہے ، وہ عالم الغیب نہیں ہوتے عالم الغیب و الشہادت صرف ذات خداوندی ہے۔ اسی کا علم ہر چیز پر محیط ہے ، واللہ بکل شی محیط اس کے علاوہ کسی اور کا علم ہر شے پر محیط نہیں ہے۔ عرش اور کرسی وسع کرسیۃ السموات والازض اس کی کرسی آسمان و زمین سے وسیع ہے عرش اور کرسی کا ذکر قرآن پاک میں جگہ جگہ موجود ہے ، مگر اس کی کیفیت کو ہم نہیں جانتے ہمارے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ ان اشیاء کی موجودگی پر ایمان لے آئیں ۔ عرش اور کرسی کا حجم کیا ہے ، ان کی ساخت کیا ہے ، یہ چیزیں ہمارے احاطہ علم میں نہیں آسکتیں ۔ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ساتوں زمینیں اور آسمان کرسی کے مقابلے میں ایسے ہیں ۔ جیسے کسی بہت بڑے میدان میں کڑا سا ہو ۔ اسی طرح عرش کے مقابلے میں کرسی کی ایسی ہی نسبت ہے۔ عرض اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش کو عرش عظیم فرمایا ہے۔ بعض فرماتے ہیں کہ کرسی سے مراد علم اور قدرت ہے جوہر چیز پر وسیع ہے ۔ الرحمن علی العرش استوی اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے ، کس کیفیت کے ساتھ ، جیسا اسکی شان کے لائق ہے ، یہ بات ہمارے فہم و فراست میں نہیں آسکتی اور نہ ہم اپنے ذہن سے اس کا تصور کرسکتے ہیں ، بس ان چیزوں پر ایمان لانا ہی کافی ہے۔ ولا یودہ حفظھما ان چیزوں کی حفاظت اللہ تعالیٰ کو تھکا نہیں دیتی انسان نو مسلسل کچھ عرصہ کام کر کے تھک ہار کر بیٹھ جاتا ہے اور پھر آرام چاہتا ہے مگر اللہ تعالیٰ تمام کائنات کی مسلسل نگرانی کے باوجود تھکتا نہیں ۔ وہ ازل سے لے کر ابد اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے کام میں مصروف ہے ، نہ وہ تھکتا ہے ، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند آتی ہے اور نہ کوئی چیز اس کے احاطہ قدرت سے باہر ہوتی ہے۔ وھو العلی اور وہ باعتبار ذات بہت بلند ہے ، وہ ہمارے تصور ، ہم اور خیال سے بلند تر ہے ، اس کے علاوہ وہ العظیم بھی ہے یعنی اس کی صفات بہت عظمت والی ہیں۔ وہ کمال عظمت کا مالک ہے ، وہ ذات کے لحاظ سے بلند ہے تو صفات کے لحاظ سے عظیم ہے۔ ہر شخص کو چاہئے کہ اس بلند مرتبہ آیت کو ورد زبا ن بنا لے تا کہ حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق یہ آیت اس کے لیے بخشش و مغفرت کا ذریعہ بن جائے۔



خدا (وہ معبود برحق ہے کہ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں زندہ ہمیشہ رہنے والا اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند جو کچھ آسمانوں اور زمین میں سے سب اسی کا ہے کون ہے کہ اسکی اجازت کے بغیر اس سے (کسی کی) سفارش کرسکے، جو کچھ لوگوں کے روبرو ہو رہا ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے ہوچکا ہے اسے سب معلوم ہے اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز پر دسترس حاصل نہیں کرسکتے، ہاں جس قدر وہ چاہتا ہے (اسی قدر معلوم کرا دیتا ہے) اسکی بادشاہی (اور علم) آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے اور اسے ان کی حفاظت کچھ بھی دشوار نہیں وہ بڑا عالی رتبہ اور جلیل القدر ہے
آیت الکرسی کی فضیلت : آیت الکرسی کی بڑی فضیلت صحیح احادیث میں وارد ہوئی ہے اس کی برکتوں اور فضیلتوں سے شاید ہی کوئی مسلمان ناواقف ہو، اسکی جامعیت اور معنویت بھی اتنی نمایاں ہے کہ اپنے تو خیر اپنے ہیں بیگانے (جیسے سیل مترجم قرآن مجید) اور معاندین (جیسے میور اور ہیری) نے بھی بےساختہ اس کی داد دی ہے۔ یہ آیت قرآن کریم کی عظیم آیت ہے، مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کو تمام آیات سے افضل فرمایا ہے اُبیّ بن کعب ؓ اور ابوذر ؓ سے بھی اسی قسم کی روایت مروی ہے، حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سورة بقرہ میں ایک آیت ہے جو تمام آیتوں کی سردار ہے وہ جس گھر میں پڑھی جائے شیطان اس سے نکل جاتا ہے۔ نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ہر نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھا کرے تو اس کو جنت میں داخل ہونے کے لیے بجز موت کے کوئی مانع نہیں ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا بیان ایک عجیب و غریب انداز میں کیا گیا ہے۔ آیت الکرسی میں اللہ کا نام اسم ظاہر اور ضمیر کے طور پر سترہ مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ (1) اللہ۔ (2) ھو۔ (3) الحئ۔ (4) القیوم۔ (5) لاتاخذہ کی ضمیر۔ (6) لہ کی ضمیر۔ (7) عندہ کی ضمیر (8) باذنہ کی ضمیر۔ (9) یعلم کی ضمیر۔ (10) علمہٗ کی ضمیر۔ (11) شاء کی ضمیر۔ (12) کرسِیُّہٗ کی ضمیر۔ (13) یَئُودُہٗ کی ضمیر۔ (14) وھو (15) العَلِیّ ۔ (16) العظیم۔ (17) ضمیر مستتر جس پر مصدر حفظھما شامل ہے یہ مصدر مضاف الی المفعول ہے اور وہ ضمیر بارز ہے اس کے لیے فاعل ضروری ہے اور وہ اللہ ہے اور مصدر کے جدا ہونے کے وقت ظاہر ہوتا ہے، یقال، وَلا یَئُوْدُہٰ اَنْ یحفظھما ھو۔ یہ آیت، آیہ الکرسی کے نام سے مشہور ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مکمل معرفت بخشی گئی ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی، اسی بناء پر حدیث میں اس کو قرآن کی سب سے افضل آیت قرار دیا گیا ہے۔ اس آیت میں دس جملے ہیں : (1) پہلا جملہ : اَللہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ ، اس میں لفظ اللہ اسم ذات ہے، یعنی وہ ذات جو تمام کمالات کی جامع اور تمام نقائص سے پاک ہے، لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ اس ذات کا بیان ہے کہ لائق عبادت اس ذات کے سوا کوئی نہیں۔ (2) دوسرا جملہ : اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ، وہ مستقلا زندہ اور ازلی وابدی ہے صفت حیات اس کی جزء ذات ہے موت یا عدم نہ کبھی اس پر طاری ہوا اور نہ آئندہ کبھی طاری ہوگا، الحئ فی نفسہ الذی لا یموت ابدًا۔ (ابن کثیر) سوال : کیا دنیا میں کبھی کوئی ایسی قوم بھی گزری ہے کہ اس نے خدا کی صفت الحئ القیوم میں شبہ یا انکار کیا ہو ؟ جواب : ایک نہیں متعدد قومیں بحر روم کے ساحل پر اس عقیدہ کی گزری ہیں کہ ہر سال فلاں تاریخ پر ان کا خدا وفات پاتا ہے اور دوسرے دن ازسر نو وجود میں آتا ہے چناچہ ہر سال اسی تاریخ کو خدا کی میت کا پتلا بنا کر جلایا جاتا تھا اور وسرے دن اس کے جہنم کی خوشی میں رنگ رلیاں شروع ہوجاتی تھیں۔ ہندؤں کے یہاں اوتاروں کا مرنا اور پھر جنم لینا اسی عقیدہ کی مثالیں ہیں، اور خود مسیحیوں کا عقیدہ بجز اس کے اور کیا ہے کہ خدا پہلے تو انسانی شکل اختیار کرکے دنیا میں آتا ہے اور پھر صلیب پر جاکر موت قبول کرلیتا ہے۔ القیوم، مسیحیوں نے جس طرح اللہ کی صفت حیات کے بارے میں ٹھوکر کھائی ہے اسی طرح صفت قیومیت کے متعلق بھی عجیب گمراہی میں پڑگئے ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ جس طرح بیٹا بغیر باپ کی شرکت کے خدا نہیں ہوسکتا اسی طرح باپ پر بھی بغیر بیٹے کی شرکت کے خدا کا اطلاق نہیں ہوسکتا، یعنی جس طرح نعوذ باللہ، مسیح ابن اللہ خدا کے محتاج ہیں اسی طرح باپ بھی اپنی خدائی کے اثبات میں مسیح کا محتاج ہے، صفت، قیومیت کا اثبات کرکے قرآن نے اسی مسیحی عقیدہ پر ضرب لگائی ہے۔ قیوم : وہ ذات ہے جو صرف اپنی ذات سے قائم ہے بلکہ دوسروں کے قیام کا باعث ہے اور سب کو سنبھالے ہوئے ہے اس کے سب محتاج ہیں وہ کسی کا محتاج نہیں۔ (ماجدی) ۔ بعض روایتوں میں وارد ہوا ہے کہ جس کو اسم اعظم کہا جاتا ہے وہ یہی الحئ القیوم، ہے۔ (3) تیسرا جملہ : لَاتَاْخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ ہے، اس جملہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اونگھ اور نیند سے بری ہے سابقہ جملہ میں لفظ قیوم سے معلوم ہوا کہ اللہ جل شانہ تمام آسمانوں اور زمینوں اور ان میں سمانے والی کائنات کا سنبھالے ہوئے ہے، تو کسی شخص کا اپنی جبلت اور فطرت کے مطابق اس طرف جانا ممکن ہے کہ جو ذات پاک اتنا بڑا کام کر رہی ہے اس کو کسی وقت تھکان بھی ہونا چاہیے، کچھ وقت آرام اور نیند کے لیے بھی ہونا چاہیے، اس دوسرے جملہ میں انسان کو اسی خیال پر متنبہ کردیا کہ اللہ جل شانہ کو اپنے یا دوسری مخلوق پر قیاس نہ کرے وہ مثل و مثال سے بالاتر ہے، اس کی قدرت کاملہ کے لیے یہ سارے کام کچھ مشکل نہیں ہیں اور نہ اس کے لیے تھکان کا سبب ہیں اور اس کی ذات پاک تمام تاثرات اور تھکان و تعب اور اونگھ، نیند سے بالاتر ہے۔ جاہلی مذہب کے دیوتا نیند سے جھوم بھی جاتے ہیں اور سونے بھی لگتے ہیں اور اسی غفلت کی حالت میں ان سے طرح طرح کی فروگذاشتیں ہوجاتی ہیں، مسیحیوں اور یہود کا بھی عقیدہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے چھ روز میں آسمانوں اور زمین کو بنا ڈالا تو ساتویں روز اس کو سستانے اور آرام کی ضرورت پیش آگئی، اسلام کا خدادائم بیدار، ہمہ خبردار، غفلت و سستی اور تھکن سے ماوراء خدا ہے۔ (4) چوتھا جملہ : لَہٗ مَافِی السَّمٰوَاتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ہے، لَہٗ کالام تملیک کے لیے ہے نہ کہ انتفاع کے لیے یعنی آسمانوں اور زمینوں کی سب چیزیں اس کی مملوک ہیں۔ (5) پانچویں جملہ : مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہٗ اِلَّا بِاذْنِہٖ ، ہے یعنی ایسا کوئی نہیں کہ اس کی اذن و اجازت کے بغیر اس کے حضور شفاعت کے لیے لب کشائی کرسکے۔ مسیح کی شفاعت کبریٰ مسیحیوں کا ایک خصوصی عقیدہ ہے، قرآن مجید مسیحیوں کے مخصوص مرکزی عقائد کفارہ اور شفاعت وغیرہ پر ضرب کاری لگانا چاہتا ہے، مسیحیوں نے جہاں نجات کا دارومدار شفاعت پر رکھا ہے، وہیں اس کے برعکس بعض مشرک قوموں نے خدا کو قانون مکافات (کرم) یعنی عمل کے ضابطوں میں ایسا جکڑا ہوا سمجھ لیا ہے کہ اس کے لیے معافی اور اس کے یہاں شفاعت کی گنجائش ہی نہیں ہے، اسلام نے توسط اور اعتدال کی راہ اختیار کرکے بتایا کہ نجات کا مدار کسی شفاعت پر ہرگز نہیں، البتہ اللہ نے اس کی گنجائش رکھی ہے اور اپنی اجازت کے بعد مقبول بندوں کو شفاعت کا موقع دے گا اور قبول کرے گا اور سب سے بڑے شافع محشر رسول اللہ ﷺ ہیں، اسی آیت سے اہل سنت والجماعت نے شفاعت کا استباط کیا ہے۔ (6) چھٹا جملہ ہے : یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ یعنی حاضر و غائب، محسوس و معقول، مدرک وغیرہ مدرک، سب کا علم اسے پورا پورا حاصل ہے اس کا علم تمام چیزوں کو یکساں محیط ہے۔ (7) ساتواں جملہ ہے : ” وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖ اِلاَّ بِمَا شَآءَ “ یعنی انسان بلکہ تمام مخلوق اللہ کے علم کے کسی حصہ کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر اللہ جتنا علم ان کو عطا کرے اتنا ہی علم ہوسکتا ہے اس کو تمام کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم ہے یہ اللہ جل شانہ کی مخصوص صفت ہے اس میں کوئی مخلوق اس کی شریک نہیں۔ (8) آٹھواں جملہ : وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضَ ، لفظ کرسی بالعموم حکومت اور اقتدار کے لیے استعارہ کے طور پر بولا جاتا ہے اردو زبان میں بھی اکثر کرسی کا لفظ بول کر حاکمانہ اختیارات مراد لیتے ہیں، عرش و کرسی کی حقیقت و کیفیت کا ادراک انسانی عقل سے بالاتر ہے، البتہ مستند روایات سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ عرش اور کرسی بہت عظیم الشان جسم ہیں جو تمام زمین و آسمان سے بدرجہا بڑے ہیں، ابن کثیر نے ابوذر ؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے دریافت کیا کہ کرسی کیا اور کیسی ہے ؟ آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ساتوں آسمانوں اور زمینوں کی مثال کرسی کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے ایک بڑے میدان میں کوئی حلقہ انگشتری ڈال دیا جائے۔ (9) نواں جملہ : وَلَا یَئُوْدَہٗ حِفْظُھُمَا، یعنی اللہ تعالیٰ کو ان دونوں عظیم مخلوقات آسمان و زمین کی حفاظت کچھ گراں نہیں معلوم ہوتی کیونکہ اس قادر مطلق کی قدرت کاملہ کے سامنے یہ سب چیزیں نہایت آسان ہیں۔ (10) دسواں جملہ : وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ ، یعنی وہ عالی شان اور عظیم الشان ہے ان دس جملوں میں اللہ تعالیٰ کی صفات کمال اور اس کی توحید کا مضمون پوری وضاحت اور تفصیل کے ساتھ آگیا۔ (معارف القرآن، تفسیر ماجدی حذف واضافہ کے ساتھ) ۔










No comments:

Post a Comment