Wednesday, 5 October 2022

آخری پیغمبر محمد ﷺ کا تعارف اور ان کے ممتاز اوصاف

آخری پیغمبر ﷺ کو جانئے» ذاتی اور صفاتی ناموں سے تعارف:

حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي مَعْنٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏

لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ أَنَا مُحَمَّدٌ وَأَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي وَأَنَا الْعَاقِبُ.

ترجمہ:

ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے معن نے کہا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے محمد بن جیبر بن مطعم نے اور ان سے ان کے والد  (جبیر بن مطعم ؓ)  نے بیان کیا کہ  رسول اللہ  ﷺ  نے فرمایا:

میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد، احمد اور ماحی ہوں  (یعنی مٹانے والا ہوں)  کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ کفر کو مٹائے گا، اور میں حاشر ہوں کہ تمام انسانوں کا  (قیامت کے دن)  میرے بعد حشر ہوگا، اور میں عاقب ہوں یعنی خاتم النبین ہوں کہ میرے بعد کوئی نیا پیغمبر دنیا میں نہیں آئے گا۔

[صحیح بخاری »

کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان،

باب: باب: رسول اللہ ﷺ کے ناموں کا بیان۔

حدیث نمبر: 3532]




تشریح :

یہ تمام نام سابقہ کتابوں میں موجود تھے اور پچھلی امتوں کے اہلِ علم کے پاس محفوظ تھے۔


(1) آپ ﷺ مُحَمَّدٌ(یعنی بہت تعریف کے قابل) ہیں، کیونکہ انسانوں اور پیغمبروں میں آپ ﷺ کی تعریف سب سے زیادہ کی گئی ہے۔


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن صحابہ کرام سے) فرمایا کہ تمہیں اس پر تعجب نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو قریش مکہ کی گالیوں اور لعنتوں سے کس طرح محفوظ رکھا ہے ؟ وہ مُذَمَّم(یعنی مذمت کیا گیا) کو گالیاں دیتے ہیں اور مُذَمَّم پر لعنت کرتے ہیں جب کہ میں "مُحَمَّدٌ"(یعنی بہت تعریف کیا گیا) ہوں۔
[صحيح البخاري:3533، سنن النسائى:3468]
تشریح :
"مُذَمَّم" معنی کے اعتبار سے "مُحَمَّدٌ" کی ضد ہے یعنی وہ شخص جس کی مذمت وبرائی کی گئی ہویہ لفظ قریش مکہ کے بغض وعناد کا مظہر تھا ، وہ بدبخت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو " محمد " کہنے کے بجائے مذمم کہا کرتے تھے اور یہی نام لے لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بد زبانی کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر لعن وطعن کیا کرتے تھے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تسلی دینے کے لئے فرمایا کرتے تھے کہ قریش مکہ جو بدزبانی کرتے ہیں اور سب وشتم کے تیر پھینکتے ہیں ، ان سے آزردہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں ہے ، وہ بدبخت تو مذمم کو اپنا نشانہ بناتے ہیں اور مذمم پر لعن طعن کرتے ، اور میں مذمم نہیں ہوں بلکہ محمد ہوں ، یہ تو اللہ کا فضل ہے کہ اس نے میرے نام کو جو میری ذات کا مظہر ہے ، ان حاسدوں کی گالیوں اور لعن طعن کا نشانہ بننے سے بچا رکھا ہے۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔



(2)آپ ﷺ اَحْمَدٌ(یعنی سب سے زیادہ تعریف کرنے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ نے الله کی سب سے زیادہ اور بہترین تعریف بیان کی ہے اور قیامت کے دن مقامِ محمود پر ایسی تعریف بیان کرنے کی توفیق عطا کی جائے گی جو کسی اور کو نہیں عطا کی گئی۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔

(3)آپ ﷺ اَلْمَاحِيْ(یعنی مٹانے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کے ذریعہ الله نے کفر کے غلبہ کو مکہ سے مٹایا۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔

(4)آپ ﷺ اَلْحَاشِرُ(یعنی اٹھانے/اکٹھا کرنے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ قیامت کے دن سب سے پہلے اٹھیں گے اور پھر آپ ﷺ کے سامنے(ارد گرد) قبروں سے لوگوں کو اٹھائے/اکٹھا کئے جائیں گے۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔

(5)آپ ﷺ اَلْعَاقِبُ(یعنی اخیر میں آنے والے) ہیں، کیونکہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی(پیغمبر)نہیں۔


صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
یعنی رحمتیں ہوں الله کی ان پر اور سلامتیاں۔





اللہ کے پیغمبر کے بھیجے جانے ﷺ کے مقاصد

محبت رسول اللہ ﷺ کی علامات

توہین رسالت کا موثر حل سنتوں کو زندہ کرنا
میں تو بس ایک بشر(آدمی)ہوں۔۔۔[سورۃ الکھف:110،فصلت:6]
http://raahedaleel.blogspot.com/2017/01/1109.html
حدیث : مجھے حد سے نہ بڑھاو جیسے ...





عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يُسَمِّي لَنَا نَفْسَه أَسْمَاءً. فَقَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّي، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ.

ترجمہ:

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے لیے اپنے کئی اسماءِ گرامی بیان فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

میں محمد ہوں اور میں اَحمد ہوں اور مقفی (یعنی بعد میں آنے والا) اور حاشر (یعنی جس کی پیروی میں روزِ حشر سب لوگ جمع کیے جائیں گے) اور نبی التوبہ (یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف ہمہ وقت رجوع کرنے والا) اور نبی الرحمہ (یعنی رحمتیں بانٹنے والا نبی) ہوں۔‘‘

[صحیح مسلم:2355، مسند احمد:395+404+407، مصنف ابن أبي شيبة:31692+31693، المستدرک للحاکم:4185]


وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ
اور (اے نبیؐ) ہم نے تمکو بھیجا ہے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔
[سورة الانبياء:107]


القرآن:
اور (اے پیغمبر) اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو۔۔۔
[سورۃ الأنفال، آیت نمبر 33]
رسول اللہ ﷺ سے کہا گیا: کیا آپ (قریش کے) مشرکین پر لعنت نہیں کریں گے۔ آپ نے فرمایا: میں لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا، بلکہ مجھے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔
[صحیح مسلم:2599()]
اور پرہیزگاروں کیلئے ہدایت (بن کر)۔
[مسند احمد:22218ـ22307]
میں تو بس ایک رحمت ہوں جو رہنمائی کرتا ہے۔
[الصحيحة:490، حاکم:100]
میں نے اپنی امت کے کسی فرد کو غصے کی حالت میں اگر برا بھلا کہا یا اسے لعن طعن کی تو میں بھی تو آدم کی اولاد میں سے ہوں، مجھے بھی غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، لیکن اللہ نے مجھے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا ہے تو  (اے اللہ)  میرے برا بھلا کہنے اور لعن طعن کو ان لوگوں کے لیے قیامت کے روز رحمت بنا دے  اللہ کی قسم یا تو آپ اپنی اس حرکت سے باز آجائیں ورنہ میں عمر بن الخطاب  (امیر المؤمنین)  کو لکھ بھیجوں گا۔
[سنن ابوداؤد:4659، مسند احمد:23706]

حضرت ابن عباس نے فرمایا: جو ایمان لائے گا اس پر دنیا اور آخرت میں رحم کیا جائے گا، اور جو ایمان نہیں لائے گا کہ وہ اس عذاب سے بچ جائے گا جو موجودہ دنیا میں قوموں پر ہوتا تھا۔ یعنی دھنسنے، چہرے بگڑنے اور پتھروں کی بارش سے، یہی اس دنیا میں رحمت ہے۔
[المعجم الكبير للطبراني:12358، دلائل النبوة للبيهقي:5/486]


عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ رضي الله عنهما عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ لِي أَسْمَاءً: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللهُ بِيَ الْکُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمَيَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَه أَحَدٌ، وَقَدْ سَمَّاهُ اللهُ رَءُوْفًا رَحِيْمًا.

ترجمہ:

’’حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے کئی اَسماء ہیں: میں محمد ہوں، میں اَحمد ہوں، میں ماحی ہوں کیوں کہ میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں، لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہو گا، اور میں عاقب ہوں، اور عاقب اسے کہتے ہیں کہ جس کے بعد کوئی اور نبی نہ ہو، اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسمِ گرامی رؤف و رحیم رکھا ہے۔‘‘

[صحیح مسلم:2354، صحیح ابن حبان:6313، المعجم الکبير للطبراني:1525]




عَنْ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَن يُرِدِ اللهُ بِه خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّيْنِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ يُعْطِي.

ترجمہ:

’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے، اور بے شک میں ہی قاسم (یعنی تقسیم کرنے والا) ہوں جبکہ (مجھے) اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔‘‘۔

[صحیح البخاري:71+2948+6882، صحیح مسلم:1037، سنن الترمذي:2645، سنن ابن ماجه:220+221، السنن الکبری للنسائي:5839، موطأ مالک:1599، مسند احمد:793، سنن الدارمي:224]




عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّمَا أَنَا مُبَلِّغٌ، وَاللهُ يَهْدِي، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ يُعْطِي.

ترجمہ:

حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک میں ہی مبلغ (اللہ تعالیٰ کے اَحکام بندوں تک پہنچانے والا ہوں اور اللہ تعالیٰ ہدایت عطا فرماتا ہے اور بے شک میں ہی قاسم یعنی تقسیم کرنے والا ہوں اور (مجھے) اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے۔

[التاريخ الکبير، للبخاري:44، المعجم الکبير للطبراني:914+915، مسند الشاميين للطبراني:1022، مسند الفردوس،للديلمي:100]




عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: وُلِدَ لِرَجُلٍ مِنَّا غُـلَامٌ. فَسَمَّاهُ مُحَمَّدًا فَقَالَ لَه قَوْمُه: لَا نَدَعُکَ تُسَمِّي بِاسْمِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَانْطَلَقَ بِابْنِه حَامِلَه عَلٰی ظَهْرِه فَأَتٰی بِهِ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، وُلِدَ لِي غُـلَامٌ. فَسَمَّيْتُه مُحَمَّدًا. فَقَالَ لِي قَوْمِي: لَا نَدَعُکَ تُسَمِّي بِاسْمِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم: تَسَمَّوْا بِاسْمِي وَلَا تَکْتَنُوْا بِکُنْيَتِي. فَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ.

وفي رواية لهما:

فَإِنَّمَا بُعِثْتُ قَاسِمًا أَقْسِمُ بَيْنَکُمْ.


ترجمہ:

’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ ہم میں سے ایک شخص کے ہاں لڑکا پیدا ہوا، اس نے اس کا نام محمد رکھا، اس شخص سے اس کی قوم نے کہا: تم نے اپنے بیٹے کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر رکھا ہے ہم تمہیں یہ نام نہیں رکھنے دیں گے۔ وہ شخص اپنے بچے کو اپنی پشت پر اٹھا کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا میں نے اس کا نام محمد رکھا۔ میری قوم نے کہا: ہم تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام نہیں رکھنے دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

میرا نام رکھو اور میری کنیت (ابو القاسم) نہ رکھو، میں ہی ’’قاسم‘‘ (تقسیم کرنے والا) ہوں اور میں ہی تم میں تقسیم کرتا ہوں۔‘‘

اور بخاری و مسلم کی ہی ایک روایت میں فرمایا:

’’میں ہی ’’قاسم‘‘ (تقسیم کرنے والا) بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میں ہی تمہارے درمیان تقسیم کرتا ہوں۔‘‘

[صحیح البخاري:2946+2947، صحیح مسلم:2133، سنن أبو داود:4965، مسند احمد:14288، مسند ابویعلیٰ:1915، المستدرک للحاکم:7735]


No comments:

Post a Comment