Tuesday 30 April 2024

طلاق حلال کیوں؟ اور مبغوض کس کیلئے ہے؟



طلاق کی حقیقت:
میاں بیوی دونوں کے درمیان جو حقوق وفرائض شریعت میں بتلائے گئے ہیں ان میں سے کوئی یا دونوں ان کو ادا نہیں کر پاتے ہوں، یا ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہوں، یا ان میں سے کوئی کسی کی حق تلفی کرتا ہو، جس کی وجہ سے دونوں میں کوئی عارضی اختلاف رونما ہوجاتا ہو، تو اس کے لیے شریعت نے حکم دیا کہ دونوں صلح مصالحت کے ذریعہ اپنا اختلاف اور آپسی کشیدگی ختم کرلیں۔
اس کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ دونوں خود یا ان کے سرپرست یا جن کی بات دونوں مانتے ہیں وہ دو آدمیوں کے سامنے اپنے اس معاملے کو رکھیں، جس کی بنا پر اختلاف پیدا ہوا ہے اور یہ دونوں آدمی جو فیصلہ کردیں خواہ وہ کسی کے خلاف ہو جائے یا موافق اس کو دونوں مان لیں، جن دو حضرات کو فیصلے کے لیے انتخاب کیا جائے ان میں سے ایک بیوی کا نمائندہ ہو اور دوسرا مرد کی طرف سے ہو اور دونوں فیصلہ کرنے کے اہل ہوں اور دونوں میں صلح کرنے کی نیت سے بیٹھے ہوں۔
اگر اس کوشش کے بعد بھی دونوں میں صلح و صفائی نہ ہوسکے اور دونوں کا اختلاف اور کشیدگی ایسی مستقل نفرت وعداوت کی صورت اختیار کرلے کہ اب نباہ ممکن نہ ہو یا کسی فریق کی بے توجہی حق تلفی ایذاء رسانی، دوسرے فریق کی برداشت سے باہر ہوجائے اور گمان غالب ہو کہ اگر اس رشتہ کو نہ کاٹا گیا تو پھر دوسرے معاشرتی مصائب یا برائیاں پیدا ہوجائیں گی تو پھر اس صورت میں عورت کو خلع وتفریق کے ذریعہ مرد کی قوامیت سے نکل جانے اور مرد کو طلاق کے ذریعہ عورت کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجانے کا حق دیا گیا ہے۔
شریعت نے مرد کو طلاق کی اجازت اور اختیار ضرور دیا ہے مگر یہ بھی ظاہر کردیا ہے کہ یہ ایک ناپسندیدہ چیز ہے اس لیے اس اختیار کو آخری چارہ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ حوالہ
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
ترجمہ:
اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا خوف(اندیشہ) ہو تو (ان کے درمیان فیصلہ کرانے کے لیے) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرما دے گا۔ بیشک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے۔
[سورۃ النساء:35]




پیغمبر کی طرح سادگی میں رہنے کو پسند کرنے والی محترم بیویاں:

بعض نبی کی بیویاں نبی سے پورے دن رات تک علیحدہ(ناراض) رہتیں۔۔۔زیادہ چیزوں کا مطالبہ کرتیں۔۔۔تو نبی نے انہیں طلاق دے دی، اور ایک مہینہ تک۔۔۔بالاخانہ میں۔۔۔تنہائی اختیار کرلی۔۔۔پھر آپ نے انہیں فرمایا کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اسکی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ تحفہ دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں﴿سورۃ الاحزاب:28﴾۔۔۔تو بالآخر سب نے بغیرمشورہ توبہ کی۔
[صحیح بخاری:2468]

القرآن:
اگر تم (اے نبی کی بیویو!) اللہ کے حضور توبہ کرلو (تو یہی مناسب ہے) کیونکہ مائل ہوچکے ہیں تمہارے دل۔۔۔
[سورۃ التحریم:4]
اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں تو ان کے پروردگار کو اس بات میں دیر نہیں لگے گی کہ وہ ان کو (تمہارے) بدلے میں ایسی بیویاں عطا فرما دے جو تم سب سے بہتر ہوں، مسلمان، ایمان والی، طاعت شعار، توبہ کرنے والی، عبادت گزار اور روزہ دار ہوں، چاہے پہلے ان کے شوہر رہے ہوں، یا کنواری ہوں۔
[سورۃ التحریم:5]

نوٹ:
رشتہ جوڑ والا تلاش کرنا چاہئے، اگر رشتہ کرلیا تو شکر یعنی راضی رہنا چاہئے۔ اگر بیویاں شاہانہ زندگی کا مطالبہ کریں تو جوڑ میں نکاح کیلئے علیحدگی کا اختیار دینا سنت ہے۔




خلع لینا کب اور کیوں جائز ہے؟
القرآن:
۔۔۔چنانچہ اگر تمہیں اس بات کا خوف(اندیشہ) ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو ان دونوں کے لیے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ عورت مالی معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔۔۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 229]

یہ جملہ ایسی صورت حال کی طرف اشارہ کر رہا ہے جہاں ایک جوڑے کو اپنی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود وہدایات(یعنی باہمی حقوق کی ادائیگی) کو برقرار نہیں رکھ سکتے، اور ایسی صورت میں عورت کا فدیہ (یعنی مہر واپس) دینے کے ذریعے علیحدگی کا مطالبہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

اسلامی قانون میں، مہر ایک لازمی ادائیگی ہے جو دولہا کی طرف سے شادی کے وقت دلہن کو دی جاتی ہے۔ تاہم، ان حالات میں جہاں عورت طلاق کا آغاز کرتی ہے، اسے مہر واپس کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

یہ جملہ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا (تو ان دونوں کے لیے اس میں کوئی گناہ نہیں) اس بات پر زور دے رہا ہے کہ ایسے معاملات میں جہاں جوڑے اپنے مسائل کو حل کرنے اور ایک ہم آہنگ شادی کو برقرار رکھنے سے قاصر ہیں، تو ایسی صورت میں علیحدگی یا طلاق کا مطالبہ کرنا گناہ کا کام نہیں۔ اس کے بجائے، اسے مزید تنازعات اور نقصان سے بچنے اور دونوں فریقوں کو پرامن اور باوقار طریقے سے آگے بڑھنے کی اجازت دینے کے طریقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

نوٹ:
اس جملے کو اسلامی تعلیمات اور شادی، طلاق، اور صنفی کردار سے متعلق رہنما اصولوں کے تناظر میں سمجھا جانا چاہیے۔ یہ طلاق کو فروغ دینے یا اس کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ رہنمائی فراہم کر رہا ہے کہ کس طرح مشکل حالات کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔