Tuesday 30 April 2024

طلاق حلال کیوں؟ اور مبغوض کس کیلئے ہے؟



طلاق کی حقیقت:
میاں بیوی دونوں کے درمیان جو حقوق وفرائض شریعت میں بتلائے گئے ہیں ان میں سے کوئی یا دونوں ان کو ادا نہیں کر پاتے ہوں، یا ادا کرنے میں کوتاہی کرتے ہوں، یا ان میں سے کوئی کسی کی حق تلفی کرتا ہو، جس کی وجہ سے دونوں میں کوئی عارضی اختلاف رونما ہوجاتا ہو، تو اس کے لیے شریعت نے حکم دیا کہ دونوں صلح مصالحت کے ذریعہ اپنا اختلاف اور آپسی کشیدگی ختم کرلیں۔
اس کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ دونوں خود یا ان کے سرپرست یا جن کی بات دونوں مانتے ہیں وہ دو آدمیوں کے سامنے اپنے اس معاملے کو رکھیں، جس کی بنا پر اختلاف پیدا ہوا ہے اور یہ دونوں آدمی جو فیصلہ کردیں خواہ وہ کسی کے خلاف ہو جائے یا موافق اس کو دونوں مان لیں، جن دو حضرات کو فیصلے کے لیے انتخاب کیا جائے ان میں سے ایک بیوی کا نمائندہ ہو اور دوسرا مرد کی طرف سے ہو اور دونوں فیصلہ کرنے کے اہل ہوں اور دونوں میں صلح کرنے کی نیت سے بیٹھے ہوں۔
اگر اس کوشش کے بعد بھی دونوں میں صلح و صفائی نہ ہوسکے اور دونوں کا اختلاف اور کشیدگی ایسی مستقل نفرت وعداوت کی صورت اختیار کرلے کہ اب نباہ ممکن نہ ہو یا کسی فریق کی بے توجہی حق تلفی ایذاء رسانی، دوسرے فریق کی برداشت سے باہر ہوجائے اور گمان غالب ہو کہ اگر اس رشتہ کو نہ کاٹا گیا تو پھر دوسرے معاشرتی مصائب یا برائیاں پیدا ہوجائیں گی تو پھر اس صورت میں عورت کو خلع وتفریق کے ذریعہ مرد کی قوامیت سے نکل جانے اور مرد کو طلاق کے ذریعہ عورت کی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجانے کا حق دیا گیا ہے۔
شریعت نے مرد کو طلاق کی اجازت اور اختیار ضرور دیا ہے مگر یہ بھی ظاہر کردیا ہے کہ یہ ایک ناپسندیدہ چیز ہے اس لیے اس اختیار کو آخری چارہ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہیے۔ حوالہ
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِنْ أَهْلِهَا إِنْ يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
ترجمہ:
اور اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان پھوٹ پڑنے کا خوف(اندیشہ) ہو تو (ان کے درمیان فیصلہ کرانے کے لیے) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرما دے گا۔ بیشک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے۔
[سورۃ النساء:35]




پیغمبر کی طرح سادگی میں رہنے کو پسند کرنے والی محترم بیویاں:

بعض نبی کی بیویاں نبی سے پورے دن رات تک علیحدہ(ناراض) رہتیں۔۔۔زیادہ چیزوں کا مطالبہ کرتیں۔۔۔تو نبی نے انہیں طلاق دے دی، اور ایک مہینہ تک۔۔۔بالاخانہ میں۔۔۔تنہائی اختیار کرلی۔۔۔پھر آپ نے انہیں فرمایا کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیوی زندگی اور اسکی زینت چاہتی ہو تو آؤ، میں تمہیں کچھ تحفہ دے کر خوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں﴿سورۃ الاحزاب:28﴾۔۔۔تو بالآخر سب نے بغیرمشورہ توبہ کی۔
[صحیح بخاری:2468]

القرآن:
اگر تم (اے نبی کی بیویو!) اللہ کے حضور توبہ کرلو (تو یہی مناسب ہے) کیونکہ مائل ہوچکے ہیں تمہارے دل۔۔۔
[سورۃ التحریم:4]
اگر وہ تمہیں طلاق دے دیں تو ان کے پروردگار کو اس بات میں دیر نہیں لگے گی کہ وہ ان کو (تمہارے) بدلے میں ایسی بیویاں عطا فرما دے جو تم سب سے بہتر ہوں، مسلمان، ایمان والی، طاعت شعار، توبہ کرنے والی، عبادت گزار اور روزہ دار ہوں، چاہے پہلے ان کے شوہر رہے ہوں، یا کنواری ہوں۔
[سورۃ التحریم:5]

نوٹ:
رشتہ جوڑ والا تلاش کرنا چاہئے، اگر رشتہ کرلیا تو شکر یعنی راضی رہنا چاہئے۔ اگر بیویاں شاہانہ زندگی کا مطالبہ کریں تو جوڑ میں نکاح کیلئے علیحدگی کا اختیار دینا سنت ہے۔




خلع لینا کب اور کیوں جائز ہے؟
القرآن:
۔۔۔چنانچہ اگر تمہیں اس بات کا خوف(اندیشہ) ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں گے تو ان دونوں کے لیے اس میں کوئی گناہ نہیں ہے کہ عورت مالی معاوضہ دے کر علیحدگی حاصل کرلے۔۔۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 229]

یہ جملہ ایسی صورت حال کی طرف اشارہ کر رہا ہے جہاں ایک جوڑے کو اپنی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ وہ اللہ کی مقرر کردہ حدود وہدایات(یعنی باہمی حقوق کی ادائیگی) کو برقرار نہیں رکھ سکتے، اور ایسی صورت میں عورت کا فدیہ (یعنی مہر واپس) دینے کے ذریعے علیحدگی کا مطالبہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

اسلامی قانون میں، مہر ایک لازمی ادائیگی ہے جو دولہا کی طرف سے شادی کے وقت دلہن کو دی جاتی ہے۔ تاہم، ان حالات میں جہاں عورت طلاق کا آغاز کرتی ہے، اسے مہر واپس کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

یہ جملہ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا (تو ان دونوں کے لیے اس میں کوئی گناہ نہیں) اس بات پر زور دے رہا ہے کہ ایسے معاملات میں جہاں جوڑے اپنے مسائل کو حل کرنے اور ایک ہم آہنگ شادی کو برقرار رکھنے سے قاصر ہیں، تو ایسی صورت میں علیحدگی یا طلاق کا مطالبہ کرنا گناہ کا کام نہیں۔ اس کے بجائے، اسے مزید تنازعات اور نقصان سے بچنے اور دونوں فریقوں کو پرامن اور باوقار طریقے سے آگے بڑھنے کی اجازت دینے کے طریقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

نوٹ:
اس جملے کو اسلامی تعلیمات اور شادی، طلاق، اور صنفی کردار سے متعلق رہنما اصولوں کے تناظر میں سمجھا جانا چاہیے۔ یہ طلاق کو فروغ دینے یا اس کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ رہنمائی فراہم کر رہا ہے کہ کس طرح مشکل حالات کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔









آدابِ طلاق
القرآن:
تم پر اس میں بھی کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم عورتوں کو ایسے وقت طلاق دو جبکہ ابھی تم نے ان کو چھوا بھی نہ ہو۔۔۔
[سورۃ البقرۃ، آیت#236]
یہ جملہ فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَا (تو ان دونوں کے لیے اس میں کوئی گناہ نہیں) اس بات پر زور دے رہا ہے کہ ایسے معاملات میں جہاں جوڑے اپنے مسائل کو حل کرنے اور ایک ہم آہنگ شادی کو برقرار رکھنے سے قاصر ہیں، تو ایسی صورت میں علیحدگی یا طلاق کا مطالبہ کرنا گناہ کا کام نہیں۔ اس کے بجائے، اسے مزید تنازعات اور نقصان سے بچنے اور دونوں فریقوں کو پرامن اور باوقار طریقے سے آگے بڑھنے کی اجازت دینے کے طریقے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔


تفسیر:
مسنون طلاق:
حضرت عبداللہ(بن مسعود) ؓ فرماتے ہیں:
مَنْ أَرَادَ السُّنَّةَ فَلْيُطَلِّقْهَا طَاهِرًا مِنْ غَيْرِ جِمَاعٍ وَيُشْهِدُ.
ترجمہ:
جو شخص سنت (یعنی شرعی طریقہ) کے مطابق طلاق دینا چاہتا ہے تو وہ عورت کو اس وقت (ایک)طلاق دے (1)جب وہ طہر (یعنی ماہواری سے پاکی) کی حالت میں ہو، (2)اور اس شخص نے اس عورت کے ساتھ صحبت نہ کی ہو۔ (3)اور (اس شخص کو یہ بھی چاہیے کہ وہ طلاق دینے پر کسی کو) گواہ بنالے۔
[سنن دار قطنی»حدیث نمبر: 3828(3829)]



نوٹ:
اسلامی قانون شادی اور طلاق سمیت زندگی کے تمام پہلوؤں میں انصاف، ہمدردی اور احترام کو ترجیح دیتا ہے۔
نوٹ:
اس جملے کو اسلامی تعلیمات اور شادی، طلاق، اور صنفی کردار سے متعلق رہنما اصولوں کے تناظر میں سمجھا جانا چاہیے۔ یہ طلاق کو فروغ دینے یا اس کی حوصلہ افزائی نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ رہنمائی فراہم کر رہا ہے کہ کس طرح مشکل حالات کو اسلامی اصولوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔




طلاق ناپسندیدہ اور حلال ہے»

محارب کہتے ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَا أَحَلَّ اللَّهُ شَيْئًا أَبْغَضَ إِلَيْهِ مِنَ الطَّلَاقِ.
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ کوئی چیز نہیں۔
[ابوداؤد:2177 بيهقى:14772 حاکم:2794]

حکم الحدیث:
ضعیف۔منقطع
[الألباني» ضعيف أبي داود:2178، ضعيف ابن ماجه:394، ضعيف الجامع:4986، ضعيف الترغيب:1238]
ضعیف
[ابن عثيمين» شرح مسلم:5/25-5/107، الشرح الممتع:13/8، فتاوى نور على الدرب:2/608]

یہ فرمان ازدواجی رشتوں کو محفوظ رکھنے کی اہمیت اور طلاق سے رجوع کرنے کی سنجیدگی کو اجاگر کرتا ہے۔ جبکہ اسلام میں طلاق کی اجازت ہے، لیکن اسے ایک آخری حربہ سمجھا جاتا ہے اور اسے مصالحت کے تمام راستے تلاش کرنے کے بعد ہی تلاش کیا جانا چاہیے۔

یہ فرمان جوڑوں کو اپنے اختلافات کو حل کرنے اور اپنے رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے، کیونکہ طلاق کو ایک آخری آپشن سمجھا جاتا ہے اور اس کی سختی سے حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ دُعا ہے کہ ہم مضبوط، محبت بھرے، اور ہمدرد تعلقات استوار کرنے کی کوشش کریں، اور زندگی کے چیلنجوں سے نمٹنے میں رہنمائی اور حکمت تلاش کریں!


تفصیلی تشریح:
جیسا کہ معلوم ہوچکا ہے نکاح اور شادی کا مقصد یہ ہے کہ مردوعورت یہ رشتہ قائم کرکے اور باہم وابستہ ہوکر عفت و پاکبازی کے ساتھ مسرت و شادمانی کی زندگی گزار سکیں اور جس طرح وہ خود کسی کی اولاد ہیں اسی طرح ان سے بھی اولاد کا سلسلہ چلے اور وہ اولاد ان کے لیے دل اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان اور آخرت میں حصول جنت کا وسیلہ بنے اور ان مقاصد کے لیے ضروری ہے کہ دونوں میں محبت اور خوشگواری کا تعلق رہے رسول اللہ ﷺ نے شوہروں اور بیویوں کو باہم برتاؤ کے بارے میں جو ہدایات دی ہیں ان کا محور اور مرکزی نقطہ یہی ہے اس کے باوجود کبھی ایسے حالات ہوجاتے ہیں کہ شوہر اور بیوی کے درمیان سخت تلخی اور ناگواری پیدا ہوجاتی ہے اور ساتھ رہنا بجائے راحت و مسرت کے مصیبت بن جاتا ہے ایسے وقت کے لئے بھی رسول اللہ ﷺ کی طرف تعلیم و ترغیب یہی ہے کہہ ۃروصو دونوں ناگواریوں کو جھیلیں نباہنے اور تعلقات کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں لیکن آخری چارہ کار کے طور پر طلاق کی بھی اجازت دی گئی ہے اگر کسی حالت میں بھی طلاق اور علیحدگی کی اجازت نہ ہو تو پھر یہ تعلق اور رشتہ دونوں کے لیے عذاب بن سکتا ہے پھر طلاق کے سلسلے میں تفصیلی ہدایات بھی دی گئی ہیں۔
اس سلسلے میں سب سے پہلی اصولی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ طلاق اور اس کے ذریعے شوہر و بیوی کے تعلقات کا ٹوٹنا اللہ تعالیٰ کو بےحد ناپسند ہے لہذا جہاں تک ممکن ہو اس سے بچنا چاہیے، نہ مرد خود یہ اقدام کرے نہ عورت اس کا مطالبہ کرے، بس انتہائی مجبوری کی صورت ہی میں ایسا کیا جائے جس طرح کسی عضو(جیسے انگلی/ہاتھ) میں بڑا فساد پیدا ہوجانے کی صورت میں آپریشن گوارا کیا جاتا ہے۔
پھر اس طلاق اور علیحدگی کا طریقہ بھی بتلایا گیا ہے کہ شوہر طہر(پاکی) کی حالت میں یعنی جن دنوں میں عورت کی ناپاکی کی خالص حالت نہ ہو صرف ایک رجعی طلاق دے تاکہ زمانہ عدت میں رجعت یعنی رجوع کر لینے کی گنجائش رہے پھر اگر شوہر کو رجوع کرنے کا فیصلہ نہ کر سکے تو عدت کی مدت گزر جانے دے اس سے رجعت کی گنجائش تو نہ رہے گی لیکن دونوں کی رضامندی سے دوبارہ نکاح کا رشتہ قائم ہو سکے گا۔
بیک وقت تین طلاق دینے کو تو ناجائز اور سخت گناہ قرار دیا گیا ہے جیسا کہ آگے درج ہونے والی بعض احادیث سے معلوم ہوگا لیکن متفرق اوقات میں تین طلاقیں دینے کو بھی سخت ناپسند کیا گیا ہے اور اس کی یہ سزا اس دنیا ہی میں مقرر کی گئی ہے کہ اگر وہ شوہر اپنی اس مطلقہ بیوی سے پھر نکاح کرنا چاہے تو نہیں کر سکے گا جب تک کہ وہ کسی دوسرے مرد کے نکاح میں آکر اس کی زیر صحبت نہ رہی ہو پھر یا تو اس کے انتقال کرجانے سے بیوہ ہو گئی ہو یا اس نے بھی طلاق دے دی ہو۔
الغرض صرف اسی صورت میں عدت گزر جانے کے بعد ان دونوں کا دوبارہ نکاح ہو سکے گا یہ سخت پابندی دراصل شوہر کو تین طلاق دینے ہی کی سزا ہے۔
[معارف الحدیث»حدیث نمبر:1725]

اکٹھی تین(3) طلاق دینا گناہ ضرور ہے لیکن تینوں واقع ہو جاتی ہیں۔ دیکھئے:






















بلاضرورت خلع لینے (طلاق کا مطالبہ کرنے) کا انجام:

(1)منافق عورتوں کی علامت:


حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الْمُخْتَلِعَاتُ وَالْمُنْتَزِعَاتُ , هُنَّ الْمُنَافِقَاتُ۔
ترجمہ:
خلع کرنے والیاں اور طلاق کا مطالبہ کرنے والیاں منافق ہیں۔
[ترمذی:1186، نسائی:3461، بیھقی:14962(14868)، صحیح الجامع:1938، الصحیحہ:632]
تفسير الدر المنثور-امام السيوطي»سورة البقرة:229




(2)عورت اپنے خاوند سے بلاوجہ طلاق کا سوال نہ کرے:
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
لَا تَسْأَلُ الْمَرْأَةُ زَوْجَهَا الطَّلَاقَ فِي غَيْرِ كُنْهِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَتَجِدَ رِيحَ الْجَنَّةِ وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا.
ترجمہ:
’’عورت اپنے شوہر سے طلاق نہ مانگے سوائے سخت حالات کے، تو اسے جنت کی خوشبو ملے گی اور اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت سے ملے گی۔‘‘
[سنن(امام)ابن ماجہ:2054، جامع الاحادیث-السیوطی:16419]

تشریح:
 فِي غَيْرِ كُنْهِهِ۔(سوائے سخت حالات کے) اس کا مطلب یہ ہے کہ طلاق صرف ان انتہائی حالات میں طلب کی جانی چاہیے جہاں شادی ناقابلّ برداشت یا نقصان دہ ہو گئی ہو۔

فقرہ "فَتَجِدَ رِيحَ الْجَنَّةِ" (تو اسے جنت کی خوشبو ملے گی) یہ ایک استعاراتی اظہار ہے جو بتاتا ہے کہ جو عورت اپنی شادی میں صبر و تحمل سے کام لے گی اسے جنت کی نعمتوں اور خوشیوں سے نوازا جائے گا۔

حدیث کا آخری حصہ، "وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا" (اور اس کی خوشبو چالیس سالوں کی دوری سے ملے گی) یہ ایک استعاراتی اظہار ہے جو بتاتا ہے کہ جنت کی نعمتوں اور خوشیوں کو بہت دور سے بھی محسوس کیا جا سکتا ہے، اور جو عورت اپنی ازدواجی زندگی میں صبر و تحمل سے کام لے گی اسے سکون اور خوشی کے احساس سے نوازا جائے گا جو اس کے لیے محسوس کیی جا سکتی ہے۔ آنے والے کئی سالوں سے.

مجموعی طور پر، یہ حدیث خواتین کو اپنی شادیوں کو ترجیح دینے اور صرف انتہائی حالات میں طلاق لینے کی ترغیب دے رہی ہے، اور ان لوگوں کے لیے امید اور حوصلہ افزائی کا پیغام دے رہی ہے جو اپنے رشتوں میں صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں۔




(3)حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
أَيُّمَا امْرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاَقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ.
ترجمہ:
جو عورت اپنے شوہر سے کسی سخت تکلیف کے بغیر طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔
[تفسير الطبري:4843،سورة البقرہ:آیۃ229]

تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی عورت کو کسی مرد کے ساتھ رہنے میں کوئی واقعی زیادہ تکلیف ہو اور وہ طلاق طلب کرے تو اس کے لیے یہ وعید نہیں ہے ہاں اگر بغیر کسی بڑی تکلیف اور مجبوری کی طلاق چاہے گی تو یہ اس کے لئے سخت محرومی اور گناہ کی بات ہوگی۔
[معارف الحدیث»حدیث نمبر: 1727]

اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کو تنبیہ کر رہے ہیں کہ اگر وہ بغیر کسی شرعی جواز کے طلاق مانگیں، مثلاً بدسلوکی، شوہر کا بیوی کو لٹکائے رکھنے یا چھوڑدینے وغیرہ کے، تو وہ عورتیں جنت کی نعمتوں اور خوشیوں سے محروم رہیں گی۔

جملہ فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ "بغیر سخت تکلیف کے جو اسے مجبور کرے" اس صورت حال کو کہتے ہیں جہاں شوہر اپنی طرف سے کسی غلطی یا غلط کام کی وجہ سے بیوی کو طلاق دینے کا پابند نہ ہو۔ دوسرے لفظوں میں، اگر شوہر اپنی ازدواجی ذمہ داریوں کو پورا کر رہا ہے اور بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کر رہا ہے، اور بیوی پھر بھی بغیر کسی معقول وجہ کے طلاق مانگتی ہے، تو وہ اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہو گی۔

فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الْجَنَّةِ (اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے) یہ ایک استعاراتی اظہار ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو عورت بغیر کسی شرعی جواز کے طلاق مانگتی ہے وہ جنت کی نعمتوں اور خوشیوں سے محروم ہو جائے گی۔

مجموعی طور پر یہ حدیث ازدواجی رشتوں کے تحفظ کی اہمیت اور بغیر کسی معقول وجہ کے طلاق لینے کے نتائج پر زور دے رہی ہے۔ یہ خواتین کو صبر، تحمل اور انتہائی حالات میں طلاق لینے کی ترغیب دے رہا ہے۔

حدیث ازدواجی رشتوں میں صبر، سمجھ بوجھ اور بات چیت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس میں جوڑوں کو اپنے اختلافات کو حل کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے اور پہلے ریزورٹ کے طور پر طلاق لینے سے گریز کیا گیا ہے۔






















القرآن:
اے نبی ! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دینے لگو تو انہیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو۔۔۔
[سورۃ الطلاق، آیت#1]

یہ قرآنی آیت بیوی کو طلاق دیتے وقت اسلامی ہدایات پر عمل کرنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ یہاں ایک تفصیلی وضاحت ہے:
سیاق و سباق:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ سے خطاب کر رہے تھے اور طلاق کے طریقہ کار کے بارے میں رہنمائی فرما رہے تھے۔
اہمیت:
- یہ آیت طلاق کی کارروائی میں خواتین کے حقوق کے احترام اور اسلامی ہدایات پر عمل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
- یہ اس حساس وقت میں مردوں کو اپنی بیویوں کی جذباتی اور جسمانی تندرستی کا خیال رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔
- یہ طلاق کی کارروائی میں انصاف اور ہمدردی کے اصول کو بھی واضح کرتا ہے، کیونکہ مردوں کو حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو غیر ضروری تکلیف پہنچانے سے گریز کریں۔

خلاصہ یہ کہ یہ آیت طلاق کے طریقہ کار کے بارے میں رہنمائی فراہم کرتی ہے، خواتین کے حقوق کا احترام کرنے، اسلامی ہدایات پر عمل کرنے، اور اس مشکل وقت میں ہمدردی اور انصاف کا مظاہرہ کرنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔











حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ام المؤمنین حفصہ ؓ کو طلاق دی پھر آپ نے ان سے رجعت کرلی۔
[سنن ابوداؤد:2283، سنن النسائی:3590، سنن ابن ماجہ:2016، سنن الدارمی:2310]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ یہ حدیث ایک واقعہ بیان کرتی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دے دی اور پھر انہیں اپنی بیوی کے طور پر واپس لے کر طلاق کو منسوخ کر دیا۔ یہاں ایک تفصیلی وضاحت ہے:

سیاق و سباق:
حفصہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں سے تھیں اور اسلام کے دوسرے خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں۔ وہ اپنے تقویٰ، علم اور مضبوط کردار کی وجہ سے مشہور تھیں۔

واقعہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو اس وجہ سے طلاق دے دی جو حدیث میں نہیں ہے۔ طلاق ممکنہ طور پر ایک عارضی علیحدگی تھی، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عدت (تین ماہواری) کے دوران اسے منسوخ کرنے کا حق حاصل تھا۔

طلاق کو منسوخ کرنا:
طلاق کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ رضی اللہ عنہا کو اپنی بیوی کے طور پر واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ اس نے طلاق کو منسوخ کر دیا، جسے اسلامی قانون میں "رجع" یا "مفاہمت" کہا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ عدت کے دوران، تین حیض سے پہلے کیا گیا تھا۔






بیوی کی ناشکری کی وجہ سے حضرت ابراھیم کے کہنے پر حضرت اسماعیل کا بیوی کو طلاق»

اسماعیل (علیہ السلام) کی شادی کے بعد ابراہیم (علیہ السلام) یہاں اپنے چھوڑے ہوئے خاندان کو دیکھنے آئے۔ اسماعیل (علیہ السلام) گھر پر نہیں تھے۔ اس لیے آپ نے ان کی بیوی سے اسماعیل (علیہ السلام) کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ روزی کی تلاش میں کہیں گئے ہیں۔ پھر آپ نے ان سے ان کی معاش وغیرہ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حالت اچھی نہیں ہے، بڑی تنگی سے گزر اوقات ہوتی ہے۔ اس طرح انہوں نے شکایت کی۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ جب تمہارا شوہر آئے تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ بھی کہنا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل ڈالیں۔ پھر جب اسماعیل (علیہ السلام) واپس تشریف لائے تو جیسے انہوں نے کچھ انسیت سی محسوس کی اور دریافت فرمایا، کیا کوئی صاحب یہاں آئے تھے؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں ایک بزرگ اس اس شکل کے یہاں آئے تھے اور آپ کے بارے میں پوچھ رہے تھے، میں نے انہیں بتایا (کہ آپ باہر گئے ہوئے ہیں) پھر انہوں نے پوچھا کہ تمہاری گزر اوقات کا کیا حال ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ہماری گزر اوقات بڑی تنگی سے ہوتی ہے۔ اسماعیل (علیہ السلام) نے دریافت کیا کہ انہوں نے تمہیں کچھ نصیحت بھی کی تھی؟ ان کی بیوی نے بتایا کہ ہاں مجھ سے انہوں نے کہا تھا کہ آپ کو سلام کہہ دوں اور وہ یہ بھی کہہ گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔ اسماعیل (علیہ السلام) نے فرمایا کہ وہ بزرگ میرے والد تھے اور مجھے یہ حکم دے گئے ہیں کہ میں تمہیں جدا کر دوں، اب تم اپنے گھر جاسکتی ہو۔ چناچہ اسماعیل (علیہ السلام) نے انہیں طلاق دے دی۔۔۔
[صحیح بخاری:3364]



طلاق دینا کب حلال ہے؟

لقیط نے کہا:
اے اللہ کے رسول! میری ایک بیوی ہے جو زبان دراز ہے(میں کیا کروں)؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
تب تو تم اسے طلاق دے دو۔
میں نے کہا:
اے اللہ کے رسول! ایک مدت تک میرا اس کا ساتھ رہا، اس سے میری اولاد بھی ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
تو اسے تم نصیحت کرو، اگر اس میں بھلائی ہے تو تمہاری اطاعت کرے گی۔۔۔
[صحیح مسلم:788، سنن ابوداؤد:142، سنن نسائی:87،114، سنن ابن ماجہ:407،448]

تشریح:
یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لقیط نامی ایک شخص کے درمیان ہونے والی گفتگو کی روایت ہے، جو اپنی بیوی کی باتونی طبیعت کے بارے میں رہنمائی کا طالب ہے۔ اس حدیث کی تفصیل یہ ہے:

سیاق و سباق:
نبی کا ایک صحابی لقیط ان کے پاس کسی ذاتی معاملے میں مشورہ لینے آتا ہے۔

لقیط کی شکایت:
لقیط نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتاتا ہے کہ اس کی بیوی بہت باتونی ہے (عربی میں زبان دراز)، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ضرورت سے زیادہ یا غیر ضروری بولتی ہے۔

ابتدائی جواب:
نبی نے اپنی حکمت میں ابتدا میں لقیت کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے، یہ تجویز کرتے ہوئے کہ یہ مسئلہ کا بہترین حل ہو سکتا ہے۔

لقیط کی تشویش:
لقیط نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کا ذکر کیا کہ وہ اور اس کی بیوی کافی عرصے سے ایک ساتھ ہیں اور ان کے ساتھ بچے بھی ہیں۔ وہ ان کے دیرینہ تعلقات اور ان کے بچوں پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کی وجہ سے اسے طلاق دینے میں ہچکچا رہا ہے۔

نبی کی نظر ثانی شدہ نصیحت:
نبی، لقیط کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے، اپنی نصیحت پر نظر ثانی کرتے ہیں۔ اس نے مشورہ دیا کہ لقیت کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کے بجائے اسے مشورہ دینے اور مشورہ دینے کی کوشش کرنی چاہیے (عربی میں ناصحہ)۔ نبی کا مطلب ہے کہ اگر لقیط کی بیوی میں اچھائی ہے تو وہ اس کے مشورے کا مثبت جواب دے گی اور اپنا رویہ بدلے گی۔

اہمیت:
یہ حدیث ازدواجی تعلقات میں صبر، سمجھ بوجھ اور بات چیت کی اہمیت کو واضح کرتی ہے۔ یہ طلاق جیسے سخت اقدامات کا سہارا لینے کے بجائے ہمدردی اور ہمدردی کے ساتھ مسائل سے رجوع کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیتا ہے۔ نبی کی نظر ثانی شدہ نصیحت لقیط کو مزید تعمیری انداز اختیار کرنے کی ترغیب دیتی ہے، اپنی بیوی کو چھوڑنے کی بجائے نرم رہنمائی کے ذریعے اس کے رویے کی اصلاح کرنا۔

ریکارڈنگ: یہ حدیث صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ سمیت متعدد صحیح احادیث کے مجموعوں میں درج ہے جس میں الفاظ میں معمولی فرق ہے لیکن ایک ہی معنی بیان کرتے ہیں۔





بداخلاق عورت کا حکم»
حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
ثَلَاثةٌ يَدْعُونَ اللهَ فلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ: رَجُلٌ كَانَتْ تَحْتَهُ امْرَأَةٌ سَيِّئَةَ الْخُلُقِ فَلَمْ يُطَلِّقْهَا , وَرَجُلٌ كَانَ لَهُ عَلَى رَجُلٍ مَالٌ فَلَمْ يُشْهِدْ عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ آتَى سَفِيهًا مَالَهُ، وَقَدْ قَالَ اللهُ - عزَّ وجل -: {وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ}.
ترجمہ:
تین اشخاص اللہ تعالیٰ سے دعائیں تو مانگتے رہتے ہیں لیکن ان کی دعائیں قبول نہیں کی جاتی، (1)وہ شخص جس کے نکاح میں بداخلاق عورت ہو اور وہ اسے طلاق نہ دیتا ہو، (2)وہ شخص جس کا کسی دوسرے آدمی پر مال ہو لیکن وہ اس پر گواہ نہ بنائے، اور (3)وہ آدمی جو کسی ناسمجھ کو اس کا مال دیدے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ناسمجھوں کو اپنا مال مت دو۔﴾ (سورۃ النساء:5)
[حاکم:3181، الصحیحہ:1805، ابن ابی شیبہ:17144، کنزالعمال:43838]
تفسير الثعلبي:1013، موسوعة التفسير الماثور:16155




تشریح:
یہ حدیث ایک ہم آہنگ اور صالح خاندانی زندگی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ ایک شخص جس نے کسی ایسی عورت سے شادی کی ہے جو بداخلاق یا بدکار ہے، اور ان سے علیحدگی کے لیے قدم نہیں اٹھاتا، اسے اپنی ذمہ داریوں سے غفلت اور اپنی اور اپنے خاندان کی بھلائی کو نظر انداز کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً ایسا شخص اس قابل نہیں کہ نقصان پر اسکی دعا قبول کی جائے۔

یہ تعلیم مسلمانوں کو پرامن اور منصفانہ خاندانی زندگی کو ترجیح دینے اور اپنے تعلقات اور اعمال کی ذمہ داری لینے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ ایک یاد دہانی کے طور پر بھی کام کرتا ہے کہ ہماری ذاتی زندگی اور تعلقات ہماری روحانی زندگیوں اور اللہ کے ساتھ ہمارے تعلق پر اثر ڈال سکتے ہیں۔

(2) یہ حدیث دوسروں کے ساتھ ہمارے معاملات میں عدل و انصاف کی اہمیت کو بھی واضح کرتی ہے۔ اگر کسی نے مال یا جائیداد روک رکھی ہے جو کسی اور کی حق کے ساتھ ہے تو نتیجتاً ایسا شخص بھی اس قابل نہیں کہ نقصان پر اسکی دعا قبول کی جائے۔

(3) یہ حدیث اپنے مال اور وسائل کے انتظام میں ذمہ دار اور عقلمند ہونے کی اہمیت پر بھی زور دیتی ہے۔ بے وقوف یا فضول خرچی والے کو مال دینا دینے والے اور لینے والے دونوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور یہ اللہ کی ہدایت کے خلاف ہے۔ نتیجتاً ایسا شخص بھی اس قابل نہیں کہ نقصان پر اسکی دعا قبول کی جائے۔




مشکوک کردار والی کو طلاق دینا۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«لَا تُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلَّا مِنْ رِيبَةٍ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الذَّوَّاقِينَ وَالذَّوَّاقَاتِ» 
ترجمہ:
عورتوں کو طلاق نہیں دینی چاہیے سوائے یہ کہ ان کی چال چلن مشتبہ ہو، کیونکہ اللہ تعالی ان مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو ذائقہ چکھنے کے شوقین اور خوگر ہوں۔
[تفسیر الثعلبی:3165،سورہ الطلاق:1]
مسند البزار:3064، معجم الاوسط-الطبرانی:7848، جامع الاحادیث-السیوطی:16632

یہ حدیث نکاح اور طلاق میں ذمہ دارانہ اور سوچ سمجھ کر برتاؤ کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ اس میں بغیر کسی معقول وجہ کے اپنی بیوی کو طلاق دینے سے خبردار کیا گیا ہے، اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اللہ کو حد سے زیادہ اور غیر معقول کام ناپسند ہیں۔

جملہ "لَا تُطَلِّقُوا النِّسَاءَ إِلَّا مِنْ رِيبَةٍ" (خواتین کو طلاق نہ دیں سوائے معقول وجہ کے) ان جوڑوں کے لیے ایک واضح رہنما اصول طے کرتا ہے جو اپنی ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، یہ ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کہ وہ طلاق کا سہارا لینے سے پہلے مفاہمت اور حل کے لیے تمام راستے تلاش کریں۔

اصطلاح "رِيبَةٍ" (مشتبہ) سے مراد طلاق کی ایک درست وجہ یا شرعی قانونی سبب ہے۔ اس میں دیگر سنگین مسائل کے علاوہ بدزبانی یا غیروں کو ہاتھ لگانے سے نہ روکنا، کھلی بےحیائی، حقوق سے بے پرواہی برتنے وغیرہ کی مثالیں شامل ہوسکتی ہیں جو شادی کے تسلسل کو ناممکن بناتی ہیں۔

اللہ کی طرف سے اس طرح کے رویے کی ناپسندیدگی اس بات کی یاد دہانی ہے کہ شادی ایک مقدس بندھن ہے جس کی قدر اور حفاظت کی جانی چاہیے۔ تنازعات کو حل کرنے اور تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے تمام کوششوں کے بعد طلاق کو ایک آخری حربہ سمجھا جانا چاہئے۔

خلاصہ یہ کہ یہ حدیث شادی اور طلاق کے بارے میں سوچ سمجھ کر اور ذمہ دارانہ طرز عمل کو فروغ دیتی ہے، جوڑوں کو صلح کی طرف کام کرنے اور غیر ضروری طلاق سے بچنے کی ترغیب دیتی ہے۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ شادی کے تقدس کی قدر کرتا ہے اور ضرورت سے زیادہ اور غیر معقول رویے کو ناپسند کرتا ہے۔

تشریح:
حدیث کے آخری جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مرد اللہ کی محبت اور پسندیدگی سے محروم ہیں جو بیوی کو اس لیے طلاق دیں کہ اس کی جگہ دوسری بیوی لاکر نیا ذائقہ چکھیں اسی طرح وہ عورتیں بھی محروم ہیں جو اس غرض سے شوہروں سے طلاق لیں کہ کسی دوسرے مرد کی بیوی بن کر نیا مزہ چکھے۔
[معارف الحدیث»حدیث نمبر: 1728]






دو بیویوں میں سے ایک طرف زیادہ میلان:

أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ أَنَّهُ تَزَوَّجَ ابْنَةَ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ، فَكَانَتْ تَحْتَهُ، فَتَزَوَّجَ عَلَيْهَا امْرَأَةً شَابَّةً فَآثَرَ الشَّابَّةَ عَلَيْهَا، فَنَاشَدَتْهُ الطَّلاقَ فَطَلَّقَهَا وَاحِدَةً، ثُمَّ أَمْهَلَهَا حَتَّى إِذَا كَادَتْ تَحِلُّ ارْتَجَعَهَا، ثُمَّ عَادَ، فَآثَرَ الشَّابَّةَ، فَنَاشَدَتْهُ الطَّلاقَ، فَطَلَّقَهَا وَاحِدَةً، ثُمَّ أَمْهَلَهَا حَتَّى كَادَتْ أَنْ تَحِلَّ ارْتَجَعَهَا، ثُمَّ عَادَ فَآثَرَ الشَّابَّةَ، فَنَاشَدَتْهُ الطَّلاقَ، فَقَالَ: «مَا شِئْتِ إِنَّمَا بَقِيَتْ وَاحِدَةٌ، فَإِنْ شِئْتِ اسْتَقْرَرْتِ عَلَى مَا تَرَيْنَ مِنَ الأَثَرَةِ وَإِنْ شِئْتِ طَلَّقْتُكِ» ، قَالَتْ: بَلْ أَسْتَقِرُّ عَلَى الأَثَرَةِ، فَأَمْسَكَهَا عَلَى ذَلِكَ، وَلَمْ يَرَ رَافِعٌ أَنَّ عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ إِثْمًا حِينَ رَضِيَتْ أَنْ تَسْتَقِرَّ عَلَى الأَثَرَةِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لا بَأْسَ بِذَلِكَ إِذَا رَضِيَتْ بِهِ الْمَرْأَةُ، وَلَهَا أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ إِذَا بَدَا لَهَا، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ، وَالْعَامَّةِ مِنْ فُقَهَائِنَا۔
ترجمہ:
زہری نے بیان کیا کہ رافع بن خدیج ؓ نے محمد بن سلمہ ؓ کی بیٹی سے نکاح کیا۔ چنانچہ وہ ان کے ہاں رہیں۔ ان کی موجودگی میں رافع نے ایک جوان عورت سے نکاح کرلیا۔ اور اس کی طرف ان کا میلان زیادہ ہوا۔ پہلی بیوی نے ان سے طلاق کا مطالبہ کردیا تو انھوں نے اسے ایک طلاق دے دی۔ اور انھیں روکے رکھا۔ جب عدت گزرنے لگی تو اس سے رجوع کرلیا پھر جوان عورت کی طرف زیادہ مائل ہوگئے۔ تو بیوی نے دوبارہ طلاق کا مطالبہ کردیا۔ انھوں نے پھر ایک طلاق دے دی۔ اور اسے اپنے پاس روکے رکھا۔ جب عدت تمام ہونے لگی تو اس سے رجوع کرلیا اور لوٹا لیا۔ پھر جوان عورت کی طرف مائل ہوگئے۔ تو اس نے پھر طلاق کا مطالبہ کردیا۔ رافع کہنے لگے تم کیا چاہتے ہو؟ اب صرف ایک طلاق باقی رہ گئی ہے۔ اگر چاہتی ہو تو اسی طرح رہو اور اگر تم پسند کرتی ہو تو میں تمہیں طلاق دے دیتا ہوں۔ زوجہ اول نے کہا میں تمہارے اس کی طرف شدید میلان کے باوجود تمہارے برقرار رہنا منظور کرتی ہوں۔ تو رافع ؓ نے انھیں روک لیا۔ اور رافع ؓ نے اس بارے میں کوئی گناہ تصور نہیں کیا جبکہ وہ (دوسری) بیوی کی ترجیح پر راضی ہوگئیں۔

 قول محمد (رح) یہ ہے کہ:
اس میں کوئی حرج نہیں کہ جب عورت اس کو پسند کرے مگر جب وہ پسند کرکے اس سے پھر جائے تو اسے اس کا اختیار حاصل ہے۔ امام ابوحنیفہ (رح) اور ہمارے عام فقہاء کا یہی قول(فتویٰ)ہے۔
[موطا امام محمد»حدیث نمبر: 585]





مرد اسلام لائے اور اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں:
حضرت (فیروز) دیلمی ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا، اور میرے نکاح میں دو بہنیں تھیں جن سے میں نے زمانہ جاہلیت میں شادی کی تھی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: جب تم گھر واپس جاؤ تو ان میں سے ایک کو طلاق دے دو۔
[سنن ابن ماجہ:1950، سنن ابی داود:2243، سنن الترمذی:1129]

القرآن:
.....اور یہ بات بھی حرام ہے کہ تم دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرلو۔۔۔۔
[سورۃ النساء:23]


تشریح:
یہ حدیث (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یا روایت) ہے جسے رسول کے صحابی حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ:

"میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کو بتایا کہ میری دو بہنیں ہیں، جن سے میں نے زمانہ جاہلیت (اسلام سے پہلے) نکاح کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''جب تم گھر جاؤ، ان میں سے ایک کو طلاق دو۔''

یہ حدیث اسلامی تعلیمات کے خلاف زمانہ جاہلیت کے رواج کے مطابق نکاح میں دو بہنوں کو ساتھ رکھنے کے مخصوص معاملے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی پر روشنی ڈالتی ہے۔

اس مخصوص صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے دیں کیونکہ دو بہنوں کا نکاح میں جمع رکھنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔ یہ حدیث ذاتی اور خاندانی زندگی میں اسلامی اصولوں اور رہنمائی پر عمل کرنے کی اہمیت کی یاد دہانی کا کام کرتی ہے۔



تفصیل:
حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ یہ حدیث ایک ایسی صورت حال کو بیان کرتی ہے جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی ذاتی معاملے میں رہنمائی کے لیے تشریف لائے۔

حضرت فیروز دیلمی رحمۃ اللہ علیہ کی دو بہنیں نکاح میں تھیں جن سے انہوں نے زمانہ جاہلیت میں شادی کی تھی۔ یہ رواج، جسے sorral polygamy کہا جاتا ہے (دو یا دو سے زیادہ بہنوں کا بطور بیوی رکھنا)، اسلام سے پہلے عربوں میں عام تھا۔

اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ اپنے ازدواجی حالات کے بارے میں رہنمائی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے کا حکم دیا، کیونکہ اسلام صرف زیادہ سے زیادہ چار بیویوں تک تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے، اور صرف اس صورت میں جب شوہر ان سب کے ساتھ عدل و انصاف کے ساتھ پیش آئے۔

اس مخصوص صورت میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے دیں، کیونکہ اب اسلام میں دو بہنوں کا نکاح میں جمع رکھنا جائز نہیں رہا۔ یہ ہدایت ذاتی اور خاندانی زندگی میں اسلامی اصولوں اور رہنمائی پر عمل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، چاہے اس کا مطلب مشکل تبدیلیاں ہی کیوں نہ ہوں۔

حدیث میں درج ذیل نکات پر زور دیا گیا ہے:

1. اسلام نے شادی اور خاندانی زندگی کے لیے جہالت کے بجائے سلامتی کے ضابطے اور رہنما اصول متعارف کرائے ہیں۔
2. مسلمانوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اسلامی اصولوں اور رہنمائی پر عمل کریں، چاہے اس کا مطلب ان کے پہلے سے موجود ازدواجی حالات میں تبدیلی لانا ہو۔
3. نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو پیچیدہ ذاتی اور خاندانی مسائل کے حل میں رہنمائی اور مدد فراہم کی۔
4. ضرورت پڑنے پر اسلام میں طلاق جائز ہے، خاص کر جب یہ پیچیدہ ازدواجی حالات کو حل کرنے کی بات ہو۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث شادی اور خاندانی زندگی میں اسلامی رہنما اصولوں پر عمل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، اور پیچیدہ ذاتی مسائل کا سامنا کرنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر اسلامی حکام سے رہنمائی حاصل کرنا ہے۔









والدین سے حسنِ سلوک:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس سے محبت کرتا تھا اور عمر ؓ کو وہ ناپسند تھی، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم اسے طلاق دے دو، لیکن میں نے انکار کیا، تو عمر نبی اکرم ﷺ کے پاس گئے اور آپ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم اسے طلاق دے دو۔
[سنن ابوداؤد:5138، سنن الترمذی:1189، سنن ابن ماجہ:2088]

تشریح:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کردہ یہ حدیث اس صورت حال کو بیان کرتی ہے کہ ان کی ایک بیوی تھی جس سے وہ محبت کرتے تھے لیکن ان کے والد عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ناپسند کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ وہ اسے طلاق دے دے لیکن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے انکار کر دیا۔

اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاملہ بیان کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو طلاق دینے کا حکم دیا۔

اس حدیث میں (پرہیزگار)والد پر اعتماد اور انکی اطاعت کی اہمیت اور معاشرے کے بزرگوں کی نصیحت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بیوی کے بارے میں ناپسندیدگی کی تائید کی۔




اس حدیث کے اہم نکات یہ ہیں:

1. اسلام میں (نیک)والدین اور بزرگوں پر اعتماد اور انکی اطاعت ضروری ہے۔
2۔معاشرے میں بزرگوں کی نصیحت پر غور کیا جائے اور ان کا احترام کیا جائے۔
3. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کی ناپسندیدگی کی تائید کی، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے بھی اس میں کوئی ناپسندیدہ چیز جان لی تھی۔
4. ضرورت پڑنے پر اسلام میں طلاق جائز ہے، خاص کر جب یہ پیچیدہ ازدواجی حالات کو حل کرنے کی بات ہو۔

خلاصہ یہ کہ یہ حدیث والدین اور بزرگوں کی فرمانبرداری کی اہمیت پر زور دیتی ہے اور پیچیدہ ذاتی مسائل کا سامنا کرنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر اسلامی حکام سے رہنمائی حاصل کرنے پر زور دیتی ہے۔







تفصیل:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ یہ حدیث ذاتی معاملات میں اسلامی علماء اور رہنماؤں سے رہنمائی حاصل کرنے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے، اگرچہ اس میں ذاتی لگاؤ اور جذبات بھی شامل ہوں۔ یہاں ایک تفصیلی وضاحت ہے:
سیاق و سباق:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور اسلام کے دوسرے خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے۔ ان کی ایک بیوی تھی جس سے وہ دل کی گہرائیوں سے محبت کرتے تھے، لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے مخفی قابلِ اعتراض کردار کی وجہ سے اسے ناپسند کیا۔

محبت کے بجائے کردار کو ترجیح:
جیساکہ قرآن مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:
اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔ یقینا ایک مومن باندی کسی بھی مشرک عورت سے بہتر ہے، خواہ وہ مشرک عورت تمہیں پسند آرہی ہو۔۔۔۔
[سورۃ البقرة، آیت نمبر 221]


ابتدائی اختلاف:
عمر رضی اللہ عنہ نے (اپنے بیٹے) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں لیکن انہوں نے اس سے اپنی محبت کا حوالہ دیتے ہوئے انکار کر دیا۔

رہنمائی کی تلاش:
عمر رضی اللہ عنہ نے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رابطہ کیا اور آپ سے اس معاملے میں رہنمائی طلب کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشویش کی بات سنی اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں۔

اطاعت:
اپنی ذاتی وابستگی کے باوجود، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کی تعمیل کی اور اسلامی رہنمائی اور اختیار سے وابستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔

اہمیت:
- یہ حدیث ذاتی معاملات میں اسلامی علماء اور رہنماؤں سے رہنمائی حاصل کرنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے، اگرچہ اس میں جذباتی وابستگی بھی شامل ہو۔
- یہ حدیث عاجزی اور اسلامی اتھارٹی کی اطاعت کی قدر کو اجاگر کرتی ہے، اگرچہ یہ ذاتی خواہشات کے خلاف ہو۔
- یہ حدیث زیادہ بہتری کو ترجیح دینے اور ازدواجی تعلقات میں ممکنہ نقصان یا بدعنوانی سے بچنے کے اصول کو بھی واضح کرتی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مشکل ذاتی حالات میں بھی اسلامی اقدار اور اصولوں سے اپنی وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ یہ حدیث مسلمانوں کے لیے ایک یاد دہانی کا کام کرتی ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگیوں میں اسلامی اسکالرز اور رہنماؤں سے رہنمائی حاصل کریں، اسلامی رہنمائی کی حکمت اور شفقت پر بھروسہ کریں۔




تفصیل#2
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت کردہ حدیث ایک ذاتی صورت حال کو بیان کرتی ہے جہاں انہیں اپنی بیوی سے محبت اور اپنے والد کی ناپسندیدگی کے درمیان تنازعہ کا سامنا کرنا پڑا۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی تھی جس سے وہ بہت پیار کرتے تھے لیکن ان کے والد عمر رضی اللہ عنہ نے اسے ناپسند کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قابل احترام صحابی اور علم دوست تھے۔ اسے عبداللہ کی بیوی کے بارے میں تشویش تھی جس کی وجہ سے اس نے اپنے بیٹے کو اسے طلاق دینے کا مشورہ دیا۔

ابتدا میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کے مشورے پر عمل کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ اپنی بیوی سے گہرا لگاؤ رکھتے تھے۔ تاہم، عمر رضی اللہ عنہ اپنی ناپسندیدگی پر قائم رہے، اور بالآخر، وہ یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کی تشویش سنی اور پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو اپنی بیوی کو طلاق دینے کا حکم دیا۔ یہ ہدایت اسلامی اصولوں کے مطابق تھی، جو خاندانی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے اور اس میں شامل تمام افراد کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیتی ہے۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ شروع میں تذبذب کا شکار تھے لیکن آخرکار انہوں نے اسلامی اقدار سے وابستگی اور اپنے والد کی حکمت کے احترام کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل کیا۔

یہ حدیث کئی ضروری پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہے:

1. خاندانی ہم آہنگی کی اہمیت اور اس میں شامل تمام افراد کی بھلائی۔

2۔معاشرے میں اہل علم اور بزرگوں سے رہنمائی حاصل کرنے کی اہمیت۔

3. اسلام میں طلاق کی اجازت جب ضروری ہو، خاص کر جب پیچیدہ ازدواجی حالات کو حل کرنا۔

4. والدین کی فرمانبرداری کی قدر اور ان کی حکمت اور فکر کا احترام۔

5. ذاتی اور خاندانی معاملات میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بطور رہنما اور اختیار۔

خلاصہ یہ کہ یہ حدیث خاندانی ہم آہنگی کو ترجیح دینے، رہنمائی حاصل کرنے اور معاشرے میں بزرگوں کی حکمت کا احترام کرنے کی اہمیت کے بارے میں قیمتی بصیرت فراہم کرتی ہے، جب کہ ضرورت پڑنے پر اسلام میں طلاق کی اجازت کو بھی اجاگر کرتی ہے۔
















زانیہ سے نکاح:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے جو مجھے سبھی لوگوں سے زیادہ محبوب ہے مگر خرابی یہ ہے کہ وہ کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے طلاق دے دو ، اس نے کہا: میں اس کے بغیر رہ نہ پاؤں گا۔ تو آپ نے کہا: پھر تو تم اس سے فائدہ اٹھاؤ۔
[سنن نسائی:3233(3494)]
پھر تو تم اس سے تھامے رکھو۔
[سنن نسائی:3495]

تشریح:
کیونکہ عشق میں کسی خودکشی یا زنا وغیرہ جیسے گناہ میں پڑنے سے بچا جاسکے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ یہ حدیث ہے جس کا مطلب ہے:

"ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا، 'میری ایک بیوی ہے جو مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ مجھے برائی سے نہیں روکتی۔' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے طلاق دے دو۔ آدمی نے کہا، 'میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔' آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، 'پھر اس کی صحبت سے لطف اندوز ہو جاؤ'
[سنن نسائی: 3233 (3494)]
'لیکن اسے مضبوطی سے پکڑو'
[سنن نسائی: 3495]۔

یہ حدیث اخلاقی اقدار اور ذمہ داریوں کے ساتھ ذاتی تعلقات کو متوازن کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ یہاں ایک تفصیلی وضاحت ہے:

سیاق و سباق:
ایک شخص نے اپنے ازدواجی مسئلہ کے بارے میں رہنمائی کے لیے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے رابطہ کیا۔

مسئلہ:
آدمی اپنی بیوی سے بے حد محبت کرتا تھا، لیکن اس نے بیوی کو گناہ پر مبنی رویے میں ملوث ہونے سے باز نہیں رکھا۔

نبی کی ہدایت:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں مرد کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے کیونکہ اس کا اثر اسے گمراہ کر رہا تھا۔

مرد کی تشویش:
آدمی نے اپنی بیوی کے بغیر رہنے سے معذوری کا اظہار کیا، جو اس کے مضبوط جذباتی لگاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمدردانہ انداز:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت اور سمجھداری کا مظاہرہ کیا، اخلاقی ذمہ داری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مرد کو اپنی شادی کو برقرار رکھنے کی اجازت دی۔ اس نے مرد کو "اس کی صحبت سے لطف اندوز ہونے" اور "اسے مضبوطی سے تھامے رکھنے" کی ہدایت کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنی بیوی کی مثبت خوبیوں کی تعریف کرنی چاہیے اور یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ وہ اسے گمراہ نہ کرے۔

اہمیت:

- یہ حدیث اخلاقی اقدار اور ذمہ داریوں کے ساتھ ذاتی تعلقات کو متوازن کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔
- یہ اپنے ساتھیوں کے جذباتی وابستگیوں اور انفرادی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی رہنمائی کے لیے پیغمبر کے ہمدردانہ انداز کو ظاہر کرتی ہے۔
- یہ حدیث ذاتی تعلقات میں خود کی عکاسی اور اخلاقی جوابدہی کی ضرورت پر بھی زور دیتی ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ محبت اور لگاؤ کسی کی اقدار اور اصولوں سے سمجھوتہ نہ کریں۔

وضاحت:
اس کے دو مفہوم ہیں، ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ بیوی فسق و فجور(گناہ وسرکشی) میں مبتلا ہوجاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل (رح) کا کہنا ہے : یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ کے نبی اکرم ﷺ کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔
قال الشيخ الألباني:
صحيح الاسناد   
[سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 3229]







شوہر کی ناشکری سے بچنے کیلئے خلع لینا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا: میں ثابت بن قیس کے اخلاق اور دین میں کسی کمی و کوتاہی کا الزام نہیں لگاتی، لیکن میں اسلام میں رہتے ہوئے کفر و ناشکری کو ناپسند کرتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کیا تم اسے اس کا باغ واپس کر دو گی؟ (وہ باغ انہوں نے انہیں مہر میں دیا تھا) انہوں نے کہا: جی ہاں، رسول اللہ ﷺ نے ثابت بن قیس سے فرمایا: اپنا باغ لے لو اور انہیں ایک طلاق دے دو۔ 
 [سنن نسائی:3493]
(صحیح البخاری5273، سنن ابی داود:2229، سنن الترمذی:1185)


وضاحت:
ہوسکتا ہے بیوی انہیں ناپسند کرنے کی وجہ سے ان کی خدمت کرنے میں کوئی کمی و کوتاہی، نافرمانی و ناشکری اور گناہ گار ہونے سے بچنے کیلئے علیحدگی چاہتی ہو۔   
 قال الشيخ الألباني:
صحيح   
[سنن النسائي الألباني: حديث نمبر 3463]

تشریح:
یہ ایک حدیث ہے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یا روایت) جسے نبی کے ایک صحابی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔

حدیث میں ہے کہ ثابت بن قیس کی بیوی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: میں ثابت بن قیس پر ان کے کردار یا دین میں کسی قسم کی کمی کا الزام نہیں لگاتی، لیکن میں اس کی ناشکری کرنے کو ناپسند کرتی ہوں۔ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "کیا تم اس کا باغ (جو اس نے اسے دلہن کے طور پر دیا تھا) واپس کرو گی؟" اس نے جواب دیا: جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کو حکم دیا کہ وہ اپنا باغ واپس لے کر اسے طلاق دے دیں۔

یہ حدیث شادی میں مطابقت اور ہم آہنگی کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، خاص طور پر جب بات مذہبی عقائد اور اقدار کی ہو۔ ایک حدیث کے مطابق نبی نے جہنم میں عورتوں کی کثرت دیکھنے کا یہ سبب فرمایا کہ وہ عورتیں شوہروں کی ناشکری کرتے کہہ دیتی ہیں کہ مجھے تو تم سے کوئی بھی بھلائی نہیں ملی۔  لہٰذا جب بیوی نے خود میں یہ استطاعت نہیں دیکھی کہ میں شوہر کی ناشکری سے نہیں بچ سکوں گی تو وہ خلع لینے پر آمادہ ہو گئی، اور یہ خلع کا سبب نبی کی نظر میں ناجائز نہیں تھا، تبھی آپ نے اس کے اس فیصلہ کی تکمیل فرمانے کیلئے شوہر کا حقِ مہر واپس دلوایا۔ دلہن کا تحفہ(حق مہر) واپس کرنے اور شوہر سے طلاق دلوانے کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ آپ نے اس کے فیصلے کی حمایت کی اور شادی پر اس کی مذہبی بھلائی کو ترجیح دی۔

یہ بات قابل غور ہے کہ یہ حدیث اکثر شادی میں مذہبی مطابقت کی اہمیت اور جوڑوں کے مشترکہ اقدار اور عقائد کے اشتراک کی ضرورت پر زور دینے کے لیے نقل کی جاتی ہے۔



تفصیل:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کردہ یہ حدیث ایک ایسی صورت حال کو بیان کرتی ہے جب ثابت بن قیس کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہنمائی اور حل طلب کرنے آئی۔

بیوی نے وضاحت کی کہ اسے ثابت بن قیس کے کردار یا مذہبی طریقوں سے کوئی شکایت نہیں تھی، لیکن وہ شوہر کی ناشکری کو برداشت نہیں کر سکتی۔ اس کے حسن سلوک اور مذہبی وابستگی کے باوجود، شوہر کی ناشکری کرنا اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پریشانی کو سمجھا اور اس سے پوچھا کہ کیا وہ دلہن کا تحفہ (حق مہر) واپس کرنے کو تیار ہے جو ثابت بن قیس نے اسے دیا تھا۔ وہ ایسا کرنے پر راضی ہوگئی۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کو حکم دیا کہ وہ اپنا باغ واپس لے لیں اور اپنی بیوی کو طلاق دے دیں۔ یہ فیصلہ بیوی کی مذہبی بہبود کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔

یہ حدیث کئی اہم نکات پر روشنی ڈالتی ہے:

1. شادی میں مذہبی مطابقت ضروری ہے۔
2. ایک مسلمان عورت کو طلاق حاصل کرنے کا حق ہے، اگر وہ اپنے شوہر کی ناشکری کا یقین رکھتی ہو۔
3. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی پر بیوی کی مذہبی بھلائی کے حصول کی خوشی کو ترجیح دی۔
4. دلہن کے تحفے (باغ) کی واپسی شادی کے معاہدے کی تحلیل کی علامت ہے۔

خلاصہ یہ کہ یہ حدیث شادی میں مشترکہ مذہبی اقدار اور عقائد کی اہمیت اور ایک مسلمان عورت کی مذہبی فلاح و بہبود اور خوشی کو ترجیح دینے کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔








خلع کا جائز مطالبہ
حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل صدقہ وہ ہے جو کچھ نہ کچھ مالداری چھوڑ دے (سارا مال خرچ نہ کرے) اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اور تم صدقہ کرنے میں ان لوگوں سے ابتداء کیا کرو جو تمہاری ذمہ داری میں ہوں۔ کسی نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے ذمہ داری والے افراد کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا: تمہاری بیوی کہتی ہے کہ مجھے کھانا کھلاؤ ورنہ مجھے طلاق دے دو، خادم کہتا ہے کہ مجھے کھانا کھلاؤ ورنہ کسی اور کے ہاتھ فروخت کردو اولاد کہتی ہے کہ آپ مجھے کس کے سہارے چھوڑے جاتے ہیں؟
[مسند احمد:10785(10366)، 7429، سنن دارقطني:3725]

تشریح:

یہ حدیث صدقہ وخیرات میں "سارا" مال خرچ نہ کرنے اور مالی مدد کے معاملے میں اپنے خاندان کے افراد اور زیرِ کفالت افراد کی "ضروریات" کو ترجیح دینے کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ یہ اس بات پر زور دیتی ہے کہ صدقہ کی بہترین شکل یہ ہے کہ جو کچھ آپ کے پاس ہے اس سے آپ کے تمام وسائل کو ضائع کیے بغیر، ان لوگوں کی مدد کرنا جو آپ کی دیکھ بھال اور ذمہ داری کے تحت ہیں۔

حدیث میں اس نکتے کو واضح کرنے کے لیے واضح مثالیں بھی استعمال کی گئی ہیں، جن میں خاندان کے افراد اور ان کے زیر کفالت افراد کی آوازوں کی عکاسی کی گئی ہے جو اپنی فلاح و بہبود کے لیے گھر کے سربراہ پر انحصار کرتے ہیں۔ بیوی (ضروری)کھانا مانگتی ہے اور نہ دینے پر طلاق کی دھمکی دیتی ہے، نوکر (ضروری)کھانا مانگتا ہے اور نہ دینے پر کسی اور کو بیچنے کی دھمکی دیتا ہے، اور بچے اپنے مستقبل کی فکر کرتے ہیں کہ ان کے لیے کیا بچے گا۔

نوٹ:
شوہر جب(جیسا اور جتنا) کھانا خود کھائے بیوی کو بھی ویسا کھلانا اس کا حق ہے۔ اور ضرورت پوری نہ ہونے کے سبب اس کیلئے طلاق ہے حصول کا مطالبہ جائز ہے۔


خلاصہ یہ کہ یہ حدیث مسلمانوں کو اپنے خاندان کی ضروریات کو ترجیح دینے اور اپنے وسائل سے ذمہ دارانہ اور پائیدار طریقے سے دینے کی ترغیب دیتی ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ وہ اپنے زیر کفالت افراد کا خیال رکھیں۔












دین میں فتنہ کا سبب بننے سے بچنے بچانے کیلئے:

مسور بن مخرمہ ؓ کہتے ہیں کہ علی بن ابی طالب ؓ نے ابوجہل کی بیٹی کو پیغام دیا جب کہ ان کے عقد میں نبی اکرم ﷺ کی صاحب زادی فاطمہ ؓ موجود تھیں، فاطمہ ؓ نے یہ خبر سنی تو نبی اکرم ﷺ کے پاس آ کر کہا: آپ کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ آپ ﷺ کو اپنی بیٹیوں کے لیے غصہ نہیں آتا، اب علی ؓ ابوجہل کی بیٹی سے نکاح کرنے والے ہیں۔ 
مسور کہتے ہیں:
یہ خبر سن کر نبی اکرم ﷺ (منبر پر) کھڑے ہوئے، جس وقت آپ نے خطبہ پڑھا میں نے آپ ﷺ کو فرماتے سنا:
اما بعد، میں نے اپنی بیٹی زینب کا نکاح ابوالعاص بن ربیع سے کیا، انہوں نے جو بات کہی تھی اس کو سچ کر دکھایا۔ میری بیٹی فاطمہ میرے جسم کا ایک ٹکڑا ہے، اور مجھے ناپسند ہے کہ تم لوگ اسے فتنے میں ڈالو، قسم اللہ کی، اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی دونوں ایک شخص کے نکاح میں کبھی اکٹھی نہ ہوں گی۔
[سنن ابن ماجہ: 1999، صحیح بخاری:3729]
تشریح:
یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک بیان ہے، جس میں وہ دو افراد کے درمیان ممکنہ شادی کے بارے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں۔
جیسے:
1. لفظ "ناپسند" (ناپسند) کا استعمال کرتے ہوئے، مجوزہ شادی پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرنا۔
2. عورت کو فتنہ(دین کی آزمائش) میں شامل کرنے کے خلاف تنبیہ، جس کا مطلب مصیبت، فتنہ یا فساد ہوسکتا ہے۔
3. دونوں افراد اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی کہہ کر ان دونوں کے غیر مساوی پن اور عدم مطابقت پر زور دینا (ممکنہ طور پر ایسے خاندان کی عورت کی طرف اشارہ کرنا جس کا دین مختلف ہو)۔
4. اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ یہ دونوں افراد کبھی بھی نکاح میں جمع نہیں ہوں گے، اس طرح کے اتحاد کے ناممکن ہونے پر زور دینا۔







ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں نے اپنی بیٹی کا نکاح علی بن ابی طالب سے کرانے کی اجازت مجھ سے مانگی ہے تو میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، میں اجازت نہیں دیتا، ہاں اگر علی ان کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتے ہیں تو میری بیٹی کو طلاق دے دیں، کیونکہ فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جو اسے برا لگتا ہے وہ مجھے بھی برا لگتا ہے اور جس چیز سے اسے تکلیف ہوتی ہے مجھے بھی ہوتی ہے۔
[سنن ابوداؤد:2071، سنن الترمذی:3867، (صحیح البخاری:5230، صحیح مسلم:2449(6308)، سنن الکبریٰ للنسائی :8371]

تشریح:
یہ حدیث خواتین کے مذہبی تحفظ کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔

یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب ایک بیان ہے، جس میں وہ ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں کی طرف سے ان کی بیٹی کی شادی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے کرنے کی درخواست کا جواب دے رہے ہیں۔

اس حدیث میں:

1. علی بن ابی طالب اور ہشام بن مغیرہ کی بیٹی کے درمیان نکاح کی اجازت سے انکار کرنا، تین بار اپنی ناپسندیدگی کا اعادہ کرنا۔
2. اپنی منظوری سے پہلے علی بن ابی طالب پر اپنی ہی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دینے کی شرط لگانا۔
3. اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ذکر کر کے فاطمہ کو اپنے جسم کا حصہ قرار دینا اور ان کو پہنچنے والی تکلیف یا مشکل کو اپنی تکلیف وپریشانی قرار دینا۔

یہ بیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے خاندان کے افراد، خاص طور پر اپنی بیٹی کے لیے محبت اور فکرمندی، اور انہیں ممکنہ دینی نقصان یا مشکل سے بچانے کی خواہش کو اجاگر کرتا ہے۔ یہ پیچیدہ خاندانی رشتوں کی درستگی اور اپنے زیر نگہداشت افراد کی فلاح و بہبود کو ترجیح دینے میں اس کی دانشمندی اور ہمدردی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔







 مجھے ڈر ہے کہ وہ دین کے معاملہ میں کسی آزمائش سے دو چار نہ ہوجائے ، پھر آپ  ﷺ  نے بنی عبد شمس میں سے اپنے ایک داماد(ابوالعاص بن ربیع) کا ذکر فرمایا، اور اس رشتہ دامادی کی خوب تعریف کی، اور فرمایا:  جو بات بھی اس نے مجھ سے کی سچ کر دکھائی، اور جو بھی وعدہ کیا پورا کیا، میں کسی حلال کو حرام اور حرام کو حلال قطعاً نہیں کر رہا ہوں، لیکن اللہ کی قسم! اللہ کے رسول کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ہرگز ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔
[سنن ابوداؤد:2069، صحیح البخاری:3110، 3729، 5230، صحیح مسلم:2449(6308)، سنن ابن ماجہ:1999، سنن الکبری للنسائی:8372]
تشریح:

اس بیان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاص طور پر نکاح اور طلاق کے قوانین کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ آپ نے شادی اور طلاق کے حوالے سے حلال اور حرام کے قوانین کو تبدیل نہیں کیا ہے، جو کہ اسلامی عائلی قانون کے بنیادی پہلو ہیں۔

آپ نکاح میں مختلف عقائد واخلاق والے دو افراد کے اتحاد کو ناممکن قرار دیتے ہیں۔ آپ نے اپنی بیٹی کا حوالہ دیا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کی نمائندگی کرتی ہے، اور اپنے دشمن کی بیٹی، جو کافروں اور اسلام کی مخالفت کرنے والوں کے خاندان کی نمائندگی کرتی ہے۔

یہ دونوں افراد ایک جگہ (یعنی نکاح میں) کبھی اکٹھے نہیں ہو سکتے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایمان اور کفر کے درمیان، اللہ سے وفاداری اور اس کے دشمنوں سے وفاداری کے درمیان بنیادی فرق کو اجاگر کر رہے ہیں۔ وہ اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ دونوں راستے ایک دوسرے سے الگ ہیں اور ایسی شادی میں کبھی بھی صلح نہیں ہو سکتی۔

خلاصہ یہ ہے کہ نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے قوانین کو برقرار رکھنے اور عقیدے اور خاندان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کر رہے ہیں، ساتھ ہی شادی میں بنیادی طور پر مخالف عقائد اور وفاداریوں کے حامل افراد کو متحد کرنے کے ناممکن ہونے پر بھی زور دے رہے ہیں۔








تو علی ؓ نے اس نکاح سے خاموشی اختیار کرلی۔
[سنن ابوداؤد:2070 (صحیح البخاری:3729)]

تشریح:
چنانچہ علی رضی اللہ عنہ خاموش رہے اور اپنی شادی کی تجویز واپس لے لی۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے اور رائے کا احترام کیا، اور اس معاملے کو آگے نہیں بڑھایا۔ خاموش رہ کر اور اپنی تجویز کو واپس لے کر، علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے لیے اپنی اطاعت اور وفاداری کا اظہار کیا۔

یہ دوسروں کی حدود اور فیصلوں کا احترام کرنے کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے، خاص طور پر جب بات خاندان اور رشتوں کے معاملات کی ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا تھا کہ وہ شادی کو منظور نہیں کرتے تھے، اور علی رضی اللہ عنہ نے ان کی خواہشات کا احترام کیا اور معاملے کو مزید نہیں بڑھایا۔


وضاحت:
ہشام بن مغیرہ کے بیٹوں سے مراد ابوالحکم عمرو بن ہشام جسے ابوجہل کہتے ہیں کے بھائی حارث بن ہشام اور سلمہ بن ہشام ہیں جو فتح مکہ کے سال اسلام لے آئے تھے اور اس میں ابوجہل کے بیٹے عکرمہ بھی داخل ہیں جو سچے مسلمان تھے۔

کفر پر ہونے کے باوجود دوسرے داماد نے حضرت زینب ؓ کو بھیجنے کا وعدہ کیا تھا جو پورا کیا۔

امام ابن قیم کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ہر طرح سے رسول اکرم ﷺ کو ایذاء پہنچانے کی حرمت ہے چاہے وہ کسی مباح(جائز) کام کرنے سے ہو، اگر اس کام سے رسول اکرم ﷺ کو ایذاء پہنچے تو ناجائز ہوگا، ارشاد باری ہے:
وما کان لکم أن تؤذوا رسول الله۔

حضرت علی ؓ نے یہ شادی نہیں کی، اور شادی کیوں کرتے آپ تو نبی اکرم ﷺ کے جاں نثار اور آپ کی مرضی کے تابع تھے، اس واقعہ کی وجہ سے علی ؓ پر کوئی طعن نہیں ہوسکتا جیسے خوارج کیا کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے لاعلمی میں یہ خیال کر کے کہ ہر مرد کو چار شادی کا حق ہے، یہ پیغام دیا تھا، جب ان کو یہ معلوم ہوا کہ یہ رسول اکرم ﷺ کی مرضی کے خلاف ہے تو فوراً اس سے رک گئے۔



باہمی تعلقات کے بگاڑ کی اصل وجہ»
اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد نے فرمایا:
مَا تَوَادَّ اثْنَانِ فَفُرِّقَ بَيْنَهُمَا، إِلَّا بِذَنْبٍ يُحْدِثُهُ أَحَدُهُمَا۔
ترجمہ:
دو آپس میں محبت کرنے والوں کے درمیان ناچاقی وجدائی ان میں سے کسی ایک سے صادر ہونے والے گناہ کی (نحوست کی) وجہ سے ہوتی ہے۔
[مسند احمد:5357(5103)، الادب المفرد:401، الصحیحہ:637]
قرآنی اشارات»
[سورۃ الکہف:78]

گناہ کہتے ہیں اللہ اور اس کے رسول نے کی نافرمانی کو۔ ہر بھی گناہ دل کو کالا زنگ آلود کرتا ہے
[حوالہ سورۃ المطففین:14]
لیکن جو گناہ دلوں میں نفرتوں کا جلد اور زیادہ اثر ڈالتے ہیں، وہ یہ ہیں:
(1)بدگمانی وبداعتمادی (2)فحش گوئی وبدزبانی۔
جیسے:-
تمسخر کرنا، طعنہ دینا، غیبت کرنا، احسان جتلانا، ناشکری(احسان فراموشی)کرنا، دنیاوی زینت کی کثرت ولالچ وغیرہ۔
[تفسیر»سورۃ الکہف:78 الحجرات:12]



طلاق کا سبب»گناہ
کئی گناہ ایسے ہیں جو رشتوں میں نفرت اور علیحدگی کا باعث بن سکتے ہیں، جن میں شامل ہیں:

1. غرور اور تکبر
2. معاف نہ کرنا اور رنجشیں رکھنا
3. کمیونیکیشن اور غلط فہمی کا فقدان
4. بے ایمانی اور دھوکہ
5. بے عزتی اور حقارت
6. غیر حل شدہ تنازعات اور دلائل
7. بے وفائی اور خیانت
8. جذباتی اور جسمانی زیادتی
9. غفلت اور ترک کرنا
10. سمجھوتہ کرنے اور مل کر کام کرنے کو تیار نہیں۔

یہ گناہ چوٹ، غصہ اور ناراضگی کا سبب بن سکتے ہیں، جو تعلقات میں خرابی اور یہاں تک کہ علیحدگی یا طلاق کا باعث بن سکتے ہیں۔ مزید نقصان کو روکنے اور شفا یابی اور مفاہمت کی سمت کام کرنے کے لیے ان مسائل کو جلد ہی پہچاننا اور ان کو حل کرنا ضروری ہے۔










طلاق کے جائز اور ناجائز پہلو:
طلاق کے جائز اور ناجائز پہلو یہ ہیں:

درست پہلو (جائز پہلو):

1. آخری حربے کے طور پر طلاق:
جب مصالحت کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں، اور جوڑے نے حل کی تمام راہیں ختم کر دیں۔
2. عدم مطابقت کی وجہ سے طلاق:
جب جوڑے ایک ساتھ ہم آہنگی سے نہیں رہ سکتے، اور ان کے اختلافات ناقابل مصالحت ہیں۔
3. زیادتی یا نقصان کی وجہ سے طلاق:
جب ایک شریک حیات دوسرے کو جسمانی یا جذباتی نقصان پہنچا رہا ہو۔
4. ترک کرنے کی وجہ سے طلاق:
جب ایک شریک حیات نے بغیر کسی معقول وجہ کے دوسرے کو چھوڑ دیا ہو۔
5. بانجھ پن کی وجہ سے طلاق:
جب کوئی جوڑا اولاد پیدا کرنے سے قاصر ہو، اور یہ ان کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔






غلط پہلو (ناجائز پہلو):

1. بغیر کسی جائز وجہ کے طلاق:
بغیر کسی جائز وجہ یا جواز کے اپنے شریک حیات کو طلاق دینا۔
2. معمولی وجوہات کی بنا پر طلاق:
معمولی مسائل یا اختلاف کی وجہ سے اپنے شریک حیات کو طلاق دینا۔
3. بدلہ لینے کے ایک ذریعہ کے طور پر طلاق:
سزا یا انتقامی کارروائی کے طور پر اپنے شریک حیات کو طلاق دینا۔
4. مصالحت کی کوشش کیے بغیر طلاق:
تنازعات کو حل کرنے یا مسائل کو حل کرنے کی کوئی کوشش کیے بغیر اپنے شریک حیات کو طلاق دینا۔
5. اسلامی ہدایات پر عمل کیے بغیر طلاق:
اسلامی اصولوں اور طلاق کے طریقہ کار پر عمل کیے بغیر اپنے شریک حیات کو طلاق دینا۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اسلام طلاق کا سہارا لینے سے پہلے مصالحت اور مشاورت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، اور طلاق کی صورت میں بھی میاں بیوی کے ساتھ حسن سلوک اور ہمدردی کے ساتھ پیش آنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔









طلاق کے مقاصد:

1. ایک دائمی ناخوش یا بدسلوک شادی سے آزادی
2. زہریلے یا نقصاندہ رشتے سے فرار
3. نئے سرے سے شروع کرنے اور زندگی کو دوبارہ بنانے کا موقع
4. جذباتی پریشانی اور ذہنی پریشانی سے نجات
5. زیادہ ہم آہنگ پارٹنر تلاش کرنے کا موقع
6. آزادی اور خود کفالت
7. ذاتی ترقی اور بہبود پر توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت
8. مالی بوجھ یا ذمہ داریوں سے رہائی
9. شریک والدین اور مشترکہ تحویل کا امکان
10. بندش اور ایک نئی شروعات۔

یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ طلاق کو آخری حربہ سمجھا جانا چاہیے، جب کہ صلح کرنے اور شادی کو بچانے کی تمام کوششیں ختم ہو چکی ہیں۔ مزید برآں، طلاق کا عمل مشکل اور جذباتی ہو سکتا ہے، اور اس دوران اپنے پیاروں، پیشہ ور افراد یا معاون ساتھیوں سے تعاون حاصل کرنا ضروری ہے۔





No comments:

Post a Comment