القرآن:
تمہیں جو کوئی اچھائی پہنچتی ہے تو وہ محض اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو کوئی برائی پہنچتی ہے، تو وہ تمہارے اپنے سبب سے ہوتی ہے، اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں لوگوں کے پاس رسول بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ (اس بات کی) گواہی دینے کے لیے کافی ہے۔
[سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 79]
یہ آیت توحید (اللہ کے خدائی میں ایک-تنہا ہونے) کے تصور اور اس خیال کو اجاگر کر رہی ہے کہ اللہ ہی تمام خیر و برکت کا سرچشمہ ہے۔ یہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہمارے راستے میں آنے والی کوئی بھی خیر یا برکت اللہ کی رحمت اور فضل کا نتیجہ ہیں، جب کہ کوئی برائی یا مشکلات ہمارے اپنے اعمال اور انتخاب کا نتیجہ ہیں۔
خلاصہ یہ کہ یہ آیت ہمیں سکھا رہی ہے:
- ہم اللہ کی نعمتوں اور فضل کو پہچانیں اور اس کا اعتراف کریں۔
- ہم اپنے اعمال اور فیصلوں کی ذمہ داری لیں۔
- اپنی زندگی کی ہر بھلائی کے لئے ہم عاجز اور شکر گزار بنیں۔
- اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور ان کی معافی مانگیں۔
یہ آیت اللہ کے ساتھ ہمارے تعلق کی یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے اور ہمیں شکر گزاری، عاجزی اور جوابدہی کی زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے۔
تفسیر:
ان آیتوں میں دو حقیقتیں بیان فرمائی گئی ہیں، ایک یہ کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے حکم سے ہوتا ہے، کسی کو کوئی فائدہ پہنچے تو وہ بھی اللہ کے حکم سے پہنچتا ہے، اور نقصان پہنچے تو وہ بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے، دوسری حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچانے کا حکم اللہ تعالیٰ کب اور کس بناء پر دیتے ہیں، اس کے بارے میں (آیت : 79) نے یہ بتایا ہے کہ جہاں تک کسی کو فائدہ پہنچنے کا تعلق ہے اس کا حقیقی سبب صرف اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے، کیونکہ کسی بھی مخلوق کا اللہ تعالیٰ پر کوئی اجارہ نہیں آتا کہ وہ اسے ضرور فائدہ پہنچائے، اور اگر اس فائدہ کا کوئی ظاہری سبب اس شخص کا کوئی عمل نظر آتا بھی ہو تو اس عمل کی توفیق اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہی فضل ہے، اور اس شخص کا کوئی ذاتی استحقاق نہیں ہے، دوسری طرف اگر انسان کو کوئی نقصان پہنچے تو اگرچہ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے حکم ہی سے ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ یہ حکم اسی وقت فرماتے ہیں جب اس شخص نے اپنے اختیاری عمل سے کوئی غلطی کی ہو، اب منافقین کا معاملہ یہ تھا کہ جب انہیں کوئی فائدہ پہنچتا تو اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ؛ لیکن کوئی نقصان ہوجاتا تو اسے آنحضرت ﷺ کے ذمے لگا دیتے تھے، اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ جو نقصان کی ذمہ داری آنحضرت ﷺ پر عائد کررہے ہیں اگر اس سے مراد یہ ہے کہ یہ نقصان آنحضرت کے حکم سے ہوا ہے، تو یہ بات بالکل غلط ہے ؛ کیونکہ اس کائنات میں تمام کام اللہ ہی کے حکم سے ہوتے ہیں کسی اور حکم سے نہیں اور اگر ان کا مطلب یہ ہے کہ (معاذاللہ) آنحضرت ﷺ کی کوئی غلطی اس کا سبب بنی ہے تو یہ بات بھی غلط ہے، ہر انسان کو خود اس کے اپنے کسی عمل کی وجہ سے نقصان پہنچتا ہے، آنحضرت ﷺ کو تو رسول بناکر بھیجا گیا ہے لہذا نہ تو کائنات میں واقع ہونے والے کسی تکوینی واقعے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے اور نہ آپ فرائض رسالت میں کسی کوتاہی کے مرتکب ہوسکتے ہیں، جس کا خمیازہ آپ کی امت کو بھگتنا پڑے۔
مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے، اس کے بعد عرف میں ہر (اچانک پہنچنے والے) حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے۔
چنانچہ قرآن پاک میں ہے:
أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها
[سورۃ آل عمران:165]
(بھلا یہ) کیا بات ہے کہ (جب) احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انھیں پہنچ چکی تھی۔
فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ
[سورۃ النساء:62]
تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے۔
وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ
[سورۃ آل عمران:166]
اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی۔
وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ
[سورۃ الشوری:30]
اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے۔
چنانچہ قرآن میں ہے:
إِنْ تُصِبْكَ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِنْ تُصِبْكَ مُصِيبَةٌ
[سورۃ التوبة:50]
اے پیغمبر! اگر تم کو آسائش حاصل ہوتی ہے تو ان کی بری لگتی ہے اور اگر مصیبت پہنچتی ہے۔۔۔
[سورۃ النساء:73]
اور اگر تمہیں پہنچے کوئی فضل اللہ سے۔۔۔
فَيُصِيبُ بِهِ مَنْ يَشاءُ وَيَصْرِفُهُ عَنْ مَنْ يَشاءُ
[سورۃ النور:43]
تو جس پر چاہتا ہے اس(بارش) کو پہنچا دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے پھیر دیتا ہے۔
فَإِذا أَصابَ بِهِ مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ
[سورۃ الروم:48]
پھر جب وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اس(بارش کو)پہنچا دیتا ہے۔
بعض نے کہا ہے کہ جب اصاب کا لفظ خیر کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے تو یہ صوب بمعنی بارش سے مشتق ہوتا ہے، اور جب برے معنیٰ میں آتا ہے تو یہ معنیٰ (اصاب السمھم) کے محاورہ سے ماخوذ ہوتے ہیں مگر ان دونوں معانی کی اصل ایک ہی ہے۔
[مفردات القرآن-امام راغب الاصفھانی:]
مصیبت کی دو اقسام»
(1)بداعمالیوں کا نتیجے۔
[حوالہ سورۃ الشورى:30]
(2)مومن کیلئے گناہوں سے بخشش یا اعلیٰ درجات، یا بےحساب اجر کا سبب بننے والی اللہ کی طرف سے آزمائشیں۔
[حوالہ سورۃ البقرۃ:155-156]
امام غزالی انسان کو پیش آنے والی آزمائشوں کی کئی مثالیں(2) بیان کرتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ:
’’انسان پورے عزم اور ہمت کے ساتھ جنت جیسے خوبصورت شہر کی طرف چلتا ہےکیونکہ اسے اس شہر کے حسن وجمال اور خوبصورتی اور جاذبیت کے بارے میں پہلے سے بتا دیا گیا ہے، لیکن رستے میں وہ ایک ایسے آرام دہ اور پر لطف مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں پانی ہے ، اس کے گرد درخت ہیں جن پر پرندے چہچہا رہے ہیں اور وہاں کا سایہ اسے آرام اور سکون کی دعوت دیتا ہے ۔ چنانچہ وہ اپنے مطلوبہ شہر کو بھول جاتا ہے اور اس جگہ رکنےکا فیصلہ کر لیتا ہے اور فوراً ایک جھونپڑی بنا کر وہاں رہنا شروع کردیتا ہے“۔
[احیا ءعلوم الدین 3/214-219]
یہ مثال مختصر اور دلچسپ انداز میں اس زندگی میں انسان کے سفر کو بیان کرتی ہے۔
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ وہ ہر سال ایک دو مرتبہ کسی آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں، (104) پھر بھی نہ وہ توبہ کرتے ہیں، اور نہ کوئی سبق حاصل کرتے ہیں؟
[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 126]
تفسیر:
(104) منافقین پر ہر سال کوئی نہ کوئی مصیبت پڑتی رہتی تھی۔ کبھی ان کی خواہش اور منصوبوں کے خلاف مسلمانوں کو فتح نصیب ہوجاتی، کبھی ان میں سے کسی کا راز کھل جاتا، کبھی کوئی بیماری آجاتی، کبھی فقر و فاقہ میں مبتلا ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ مصیبتیں ان کو متنبہ کرنے کے لیے کافی ہونی چاہیے تھیں، لیکن یہ لوگ کوئی سبق نہیں لیتے۔
(1)مصیبت، اعمال کا نتیجہ»
اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔
[القرآن»سورۃ نمبر 42 الشورى،آیت نمبر 30]
تشریح:
یہ آیت کہہ رہی ہے کہ ہم پر جو مصیبتیں آتی ہیں وہ ہمارے اپنے اعمال اور فیصلوں کا نتیجہ ہیں۔ تاہم، اللہ رحم کرنے والا ہے اور بہت کچھ معاف کرتا رہتا ہے لہٰذا وہ ہمارے اکثر غلطیوں وکوتاہیوں کے نتائج فوراً نہیں دکھاتا کہ اپنی نعمتیں رزق صحت امن چھین لے، بلکہ وہ انتظار میں رہتا ہے کہ بندہ معافی وکفارہ ادا کرکے سچی توبہ کرلے اور محبوب بن جائے۔
خلاصہ یہ کہ یہ آیت ہمیں اپنے اعمال کی ذمہ داری قبول کرنے اور یہ تسلیم کرنے کی تعلیم دے رہی ہے کہ ہمارے انتخاب کے نتائج ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ یہ آیت ایک ہی وقت میں یہ امید و حوصلہ دیتی ہے اور ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ رحم اور معاف کرنے والوں کیلئے رحم اور معاف کرنے والا بھی ہے۔
القرآن:
لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا۔ (20) تاکہ انہوں نے جو کام کیے ہیں اللہ ان میں سے کچھ کا مزہ انہیں چکھائے، شاید وہ باز آجائیں۔
[سورۃ نمبر 30 الروم، آیت نمبر 41]
تفسیر:
(20)آیت کریمہ یہ سبق دے رہی ہے کہ عام مصیبتوں کے وقت چاہے ظاہری اسباب کے ماتحت وجود میں آئی ہوں، اپنے گناہوں پر استغفار اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔
اور دیکھو ہم تمہیں آزمائیں گے ضرور، (کبھی) خوف سے اور (کبھی) بھوک سے (کبھی) مال و جان اور پھلوں میں کمی کر کے اور جو لوگ (ایسے حالات میں) صبر سے کام لیں ان کو خوشخبری سنا دو۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ“ ہم سب اللہ ہی کے ہیں اور ہم کو اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
[سورۃ نمبر 2 البقرة، آیت نمبر 155-156]
تفسیر:
اس فقرے میں پہلے تو اس حقیقت کا اظہار ہے کہ چونکہ ہم سب اللہ کی ملکیت میں ہیں اس لئے اسے ہمارے بارے میں ہر فیصلہ کرنے کا اختیار ہے اور چونکہ ہم اس کے ہیں اور کوئی بھی اپنی چیز کا برا نہیں چاہتا، اس لئے ہمارے بارے میں اس کا ہر فیصلہ خود ہماری مصلحت میں ہوگا، چاہے فی الحال ہمیں وہ مصلحت سمجھ میں نہ آرہی ہو، دوسری طرف اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ایک دن ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کے پاس اسی جگہ جانا ہے جہاں ہمارا کوئی عزیز یا دوست گیا ہے، لہذا یہ جدائی عارضی ہے ہمیشہ کے لئے نہیں ہے اور جب ہم اس کے پاس لوٹ کرجائیں گے تو ہمیں اس صدمے یا تکلیف پر انشاء اللہ ثواب بھی ملنا ہے، جب یہ اعتقاد دل میں ہو تو اسی کا نام صبر ہے، خواہ اس کے ساتھ ساتھ بےاختیار آنسو بھی نکل رہے ہوں۔
تشریح:
یہ آیت اس بات کی وضاحت کر رہی ہے:
1. اللہ مومنوں کو مختلف مصیبتوں سے آزمائے گا، بشمول:
- خوف (مستقبل سے)
- بھوک (موجود حالت سے)
- مال کے نقصان(چوری،ڈوبنے،آگ لگنے سے)
- جانوں کے ضیاع (بیماری،موت وغیرہ)
- پھلوں کا نقصان (ہر چیز کے نتیجہ سے)
2. یہ امتحان (صابر) مومن کو دوسروں سے ممتاز کرنے کا ذریعہ ہیں۔
3. صبر کرنے والے وہ ہیں جو مصیبت کے وقت کہتے ہیں:
- "بے شک ہم اللہ کے ہیں" (انا للہ)، یعنی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ہم سب تیرے "بندے" ہیں اور سب کچھ تیرا ہی ہے جو آپ نے واپس لیا۔
- "اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں" (و انا الیہ راجعون)، یعنی ہم اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہوئے کہ ہمیں بھی بےاختیار آپ کے پاس لوٹنا (اور سب کے ساتھ ملنا) ہے۔
یہ آیت ایک یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے کہ زندگی کے چیلنجز ہمارے سفر کا ایک حصہ ہیں، اور ان پر ہمارا ردعمل ہمارے کردار اور ایمان کا تعین کرتا ہے۔ صبر کرنے والے وہ ہیں جو ثابت قدم رہتے ہیں، اللہ کی تدبیر planning پر بھروسہ کرتے ہیں، اور زندگی کے تمام پہلوؤں پر اس کی حاکمیت وملکیت کو تسلیم کرتے ہیں۔
آزمائشوں کا مقصد» محبت وسچائی کا امتحان:
- "اور ہم آپ کو ضرور آزمائیں گے" »
اللہ اس بات پر زور دے رہا ہے کہ آزمائش مومن کی زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے۔
- "خوف کی چیز سے" »
اس میں کوئی بھی انجان خوف، نقصان کا خوف، یا کسی کے اعمال کے نتائج کا خوف شامل ہے۔
- "اور بھوک سے" »
بھوک اور پیاس جسمانی ضروریات ہیں جو تکلیف اور آزمائش کا ذریعہ بن سکتی ہیں۔
- "اور مال کے نقصان سے" »
مال اور مادی چیزوں کو چھین لیا جا سکتا ہے، ان سے لگاؤ کا امتحان۔
- "اور جان سے" »
اپنے پیاروں یا اپنی جان کا کھو جانا ایمان کا آخری امتحان ہے۔
- "اور پھل سے" »
پھل کسی کی محنت اور کوششوں کے صلہ کی علامت ہیں۔ ان کا نقصان ثابت قدمی کا امتحان ہو سکتا ہے۔
امتحان کا مقصد:
- "مگر صابرین کو خوشخبری سنا دو" »
آزمائش کا مقصد صبر اور ثابت قدم رہنے والوں کی شناخت اور اجر دینا ہے۔
- "جو، جب ان پر کوئی آفت آتی ہے"»
اس سے مراد وہ لمحہ ہے جب مومن پر کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے۔
- "تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے ہیں" »
صبر کرنے والے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور سب کچھ اسی کا ہے۔
- "اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں"»
وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی آخری واپسی اللہ کی طرف ہے، اور یہ کہ یہ زندگی عارضی ہے۔
صبر کا صلہ:
- "صبر کرنے والوں کو بشارت دو"»
صبر کرنے والوں کو آخرت میں خوشخبری اور اجر ملے گا۔
- "وہ لوگ جن پر جب کوئی آفت آتی ہے تو..."»
صبر کرنے والوں کی پہچان آفات پر ان کے ردعمل سے ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ آیت وضاحت کرتی ہے کہ آزمائش زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے، اور یہ کہ آزمائش کا مقصد صبر اور ثابت قدم رہنے والوں کو پہچاننا اور ان کا بدلہ دینا ہے۔ صبر کرنے والے اللہ کی حاکمیت وملکیت کو تسلیم کرتے ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی زندگی عارضی ہے اور انکی آخری واپسی اسی کی طرف ہے۔ انہیں آخرت میں بشارتیں اور انعامات ملیں گے۔
القرآن:
کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو زمین میں نازل ہوتی یا تمہاری جانوں کو لاحق ہوتی ہو، مگر وہ ایک کتاب میں اس وقت سے درج ہے جب ہم نے ان جانوں کو پیدا بھی نہیں کیا تھا، (17) یقین جانو یہ بات اللہ کے لیے بہت آسان ہے۔
[سورۃ نمبر 57 الحديد، آیت نمبر 22]
تفسیر:
(17) کتاب سے مراد یہاں لوح محفوظ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قیامت تک ہونے والے تمام واقعات پہلے سے لکھے ہوئے ہیں۔
مختصر تشریح:
یہ آیت اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ:
1. دنیا میں جو کچھ بھی ہوتا ہے، بشمول تباہی اور حادثات کے، اس کے واقع ہونے سے پہلے ہی کتاب (لوحِ محفوظ) میں درج ہیں۔
2. یہ کتاب (تمام مخلوق کی پیدائش سے پہلے) اللہ کے پاس ہے اور اس میں ہر چیز کی تقدیر موجود ہے۔
3. آیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ اللہ کے لیے ایسا کرنا مشکل نہیں ہے۔ یہ اس کے لیے بغیر مشقت کے اور آسان ہے۔
اس آیت کو اکثر اسلام میں قدر (تقدیر) کے تصور کی یاد دہانی کے طور پر تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ نے پہلے ہی اسے مقرر کر رکھا ہے۔ یہ فہم مومنین کو مشکل کے وقت سکون اور تسلی دے سکتی ہے، کیونکہ وہ اللہ کی حکمت اور منصوبہ پر بھروسہ کرتے ہیں۔
تفصیلی تشریح:
یہ آیت (قرآن 57:22) اللہ کی طرف سے ایک گہرا پیغام ہے، جو تقدیر اور قسمت کی فطرت پر روشنی ڈالتی ہے۔ یہاں ایک تفصیلی تجزیہ ہے:
تقدیر کا کتاب
- "کوئی آفت نہیں آتی"»
اس سے مراد دنیا میں آنے والی کوئی بھی آفت، مصیبت یا تباہی ہے۔
- "زمین پر" »
اس میں قدرتی آفات، جنگیں، قحط اور دیگر عالمی واقعات شامل ہیں۔
- "یا آپ کے اندر" »
اس میں ذاتی جدوجہد، بیماریاں اور انفرادی مشکلات شامل ہیں۔
- "سوائے اس کے کہ یہ ایک کتاب میں ہے"»
جو کچھ ہوتا ہے وہ ایک کتاب یعنی لوحِ محفوظ میں درج ہوتا ہے، تقدیر کے رجسٹر میں۔
- "اس سے پہلے کہ ہم اسے وجود میں لائیں"»
یہ رجسٹر واقعات کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے لکھا جاچکا ہے، یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ہر چیز پہلے سے طے شدہ ہے۔
_اللہ کی تدبیر کی آسانی_
’’بے شک یہ اللہ کے لیے آسان ہے‘‘»
یہ آیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہر چیز کی تقدیر لکھنا اور اس پر عمل کرنا اللہ کے لیے آسان ہے۔
- (يسير) کا مطلب ہے "آسان" یا "بےمشقت"، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ کی قدرت اور علم اصلی،قطعی اور لامحدود ہے۔
_مضمرات اور تشریحات_
- اس آیت کو اکثر اسلام میں تقدیر کے تصور کی یاد دہانی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
- اس سے پتہ چلتا ہے کہ زندگی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہے، جسے اللہ نے مقرر کیا ہے۔
- مومنوں کو یہ جان کر سکون ملتا ہے کہ اللہ کا منصوبہ حکیمانہ، منصفانہ اور اٹل ہے، چاہے وہ واقعات کے پیچھے وجوہات کو نہ سمجھیں۔
- یہ سمجھ قبولیت، توکل، اور اللہ کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ یہ آیت بتاتی ہے کہ تمام واقعات، چھوٹے یا بڑے، پہلے سے طے شدہ ہیں اور ان کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے ایک کتاب میں درج ہیں۔ یہ اللہ کی لامحدود طاقت، علم اور حکمت کا ثبوت ہے، جو اس کے لیے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانا آسان بناتا ہے۔ یہ سمجھ مومنوں کے لیے اللہ کے منصوبے پر تسلی اور بھروسہ لا سکتی ہے۔
جیساکہ اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعہ یہ سکھلایا ہے کہ:
اور اگر تمہیں اللہ کوئی تکلیف پہنچا دے تو اس کے سوا کوئی نہیں ہے جو اسے دور کردے، اور اگر وہ تمہیں کوئی بھلائی پہنچانے کا ارادہ کرلے تو کوئی نہیں ہے جو اس کے فضل کا رخ پھیر دے۔ وہ اپنا فضل اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے پہنچا دیتا ہے، اور وہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے۔
[سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 107]
تشریح:
یہ آیت اس بات کی وضاحت کر رہی ہے کہ:
1. اگر اللہ کسی کو آزمانے یا مصیبت میں ڈالنے کا انتخاب کرے تو اللہ کے سوا کوئی اس مصیبت کو روک یا دور نہیں کر سکتا، لہٰذا اسی ایک کو غائبانہ مدد کیلئے پکارا جائے۔
2. اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کسی کو بھلائی یا نعمت عطا کرنا چاہتا ہے تو کوئی اس کے احسان کو روک یا رد نہیں کر سکتا۔
3. اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازتا ہے، جو اس کی حاکمیت اور فضل کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
4. آیت کا اختتام اللہ کی بخشش کرنے والے (الغفور) اور رحم کرنے والے (الرحیم) کی صفات پر زور دیتے ہوئے، اس کی شفقت اور مہربانی کو اجاگر کرتے ہوئے ہوتا ہے۔
خلاصہ:
یہ آیت اللہ کی قدرت، حاکمیت اور فضل کی یاد دہانی دلاتی ہے، مومنوں کو اس کے منصوبے پر بھروسہ کرنے، اسی سے امیدیں وابستہ رکھتے غائبانہ پکارنے اور اس کی مرضی کے تابع ہونے کی ترغیب دیتی ہے۔
عذاب کی صورتیں اور اسباب-1
القرآن:
اللہ نے ان(نافرمانوں)کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مُہر لگادی ہے(حق وہدایت کے سننے اور دیکھنے سے)،اور ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے اور ان کے لئے زبردست عذاب ہے۔
[سورۃ البقرۃ:7]الاعراف:100
الحدیث:
لوگ جمعہ کی نمازیں چھوڑنے سے باز آجائیں ورنہ الله تعالی انکے دلوں پر مہر لگادیں گے پھر وہ لوگ(کافروں کی طرح)غافل لوگوں میں سے ہوجائیں گے.
[مسلم865 احمد2132 دارمی1611]
عذاب کی صورتیں اور اسباب-2
القرآن:
۔۔۔تو کیا تم کتاب کے کچھ حصے پر تو ایمان رکھتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو؟ اب بتاؤ کہ جو شخص ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیوی زندگی میں اس کی رُسوائی ہو ؟ اور قیامت کے دن ایسے لوگوں کو سخت ترین عذاب کی طرف بھیج دیا جائے گا۔۔۔
[سورۃ البقرۃ:85]
یعنی
دنیا میں"ذلت"کا سبب سارے احکام نہ ماننا، دنیوی مفاد کیلئے آخرت کو بیچنا ہے۔
عذاب کی صورتیں اور اسباب-3
القرآن:
جب وہ (پیشوا) جن کے پیچھے یہ(نافرمان)لوگ چلتے رہے ہیں، اپنے پیروکاروں سے مکمل بےتعلقی کا اعلان کریں گے اور یہ سب لوگ عذاب کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ لیں گے، اور ان کے تمام باہمی رشتے کٹ کر رہ جائیں گے۔
[سورۃ البقرۃ:166]
یعنی
بےایمانوں کو رشتہ وتعلق کام نہ آنا عذاب ہے۔
مصیبتوں کے اسباب اور صورتیں-1
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
جس قوم میں فحاشی اعلانیہ ہونے لگے تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں
اور
جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط مصائب اور حکمرانوں کے ظلم وستم میں مبتلا کردی جاتی ہے۔
[ابن ماجہ:4019،بزار:6175،حاکم:8624]
تفسیر سورۃ الشوریٰ:30
مصیبتوں کے اسباب اور صورتیں-2
نبی ﷺ نے فرمایا:
جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکوہ نہیں دیتی تو بارش روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ برسے۔
اور
جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیروں(دشمنوں)کو ان پر مسلط فرمادیتا ہے جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں۔
[ابن ماجہ:4019،بزار:6175،حاکم:8624]
تفسیر سورۃ الشوریٰ:30
مصیبتوں کے اسباب اور صورتیں-3
نبی ﷺ نے فرمایا:
جب مسلمان حکمران کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ نظام میں(مرضی کے کچھ احکام)اختیار کرلیتے ہیں(اور باقی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو خانہ جنگی اور)باہمی اختلافات میں مبتلا فرما دیتے ہیں۔
[ابن ماجہ:4019،بزار:6175،حاکم:8624]
تفسیر سورۃ الشوریٰ:30
مصیبتوں کے اسباب اور صورتیں-4
نبی ﷺ نے فرمایا:
تم ضرور نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکا کرو اور بےوقوف(ظالم)کا ہاتھ ضرور پکڑو اور اسے حق بات کی طرف مائل کرو،ورنہ الله تعالیٰ تمہارے دلوں میں بھی ایک دوسرے کا فساد(اختلاف)ڈال دیں گے اور تم پر بھی اسی(بنی اسرائیل کی)طرح لعنت کریں گے جس طرح ان پر لعنت فرمائی۔
[ابوداؤد:4336+37، ابویعلی:5035، طبرانی:10267]
تفسیر سورۃ المائدۃ:78، الشوریٰ:30
مصیبتوں کے اسباب اور صورتیں-5
نبی ﷺ نے فرمایا:
جب الله تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ خیر(وبھلائی)کا ارادہ فرماتے ہیں تو ان(قوموں)کے معاملات عقلمندوں کے حوالہ کر دیتے ہیں اور مال ان کے سخیوں کو دیتے ہیں
اور
جب الله کسی قوم سے برائی ارادہ فرماتے ہیں تو ان کے معاملات؛بےوقوف(حکمرانوں)کے حوالہ کر دیتے ہیں اور مال ان کے بخیل(کنجوس)لوگوں کو دیتے ہیں۔
[کتاب العقوبات:31، کتاب الحلم:75(از)امام ابن ابی الدنیا]
مصیبتوں کے اسباب اور صورتیں-6
یہ امت ہمیشہ الله تعالیٰ کی حفاظت وتائید میں رہے گی جب تک کہ اس امت کے قرآن پڑھنے والے حکمرانوں کی طرف مائل نہ ہونے لگیں گے
اور
نیکوکار نافرمانوں کو پاک صاف نہ کہنے لگیں گے
اور
بھلائی کرنے والے تکلیف پہنچانے والوں کی چاپلوسی نہیں کریں گے۔
جب ایسا وہ کرنے لگیں گے تو الله تعالیٰ اپنی تائید اٹھالیں گے پھر ظالم ان پر مسلط کریں گے،وہ انہیں دردناک عذاب دیں گے،فقر وفاقہ کا شکار کریں گے اور ان کے دلوں کو رعب سے بھردیں گے۔
[العقوبات،لابن ابی الدنیا:4 الزھد،لابن المبارک:821 سنن الواردۃ فی الفتن،للدانی:331]
مصیبتوں کے اسباب اور صورتیں-7
حضرت انس بن مالک سے حدیث مروی ہے:
کلمہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ بندوں سے الله کے عذاب کو روکتا ہے جب تک کہ بندے اپنی دنیا(کے معاملہ)کو دین(کے حکم)پر ترجیح نہ دیں، اور جب وہ یہ کریں گے اور پھر کلمہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ بھی پڑھیں گے تو یہ کلمہ ان پر رد کردیا جاتا ہے،اور الله تعالیٰ فرماتے ییں: تم(سب)نے جھوٹ کہا۔
[العقوبات:6 ابویعلیٰ:4034 الزھد،لابن ابی عاصم:288]
مصیبتوں کے اسباب اور صورتیں-8
حضرت ثوبان سے حدیث مروی ہے: عنقریب تمام اطراف سے قومیں تم(مسلمانوں)پر ٹوٹ پڑیں ھیں جیسے کھانے والے کھانے کے برتن پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔۔۔تم اس زمانہ میں زیادہ تو ہوگے لیکن تم سیلاب کے جھاگ کی طرح(بےوقعت)ہوگے،دشمن کے دلوں سے تمہارا رعب(دبدبہ)جاتا رہےگا اور تمہارے دلوں میں"وھن" ڈال دیا جائے گا(یعنی)دنیا سے محبت اور قتال(شھادت)سے نفرت۔
[ابوداؤد:4297 احمد:22397 بغوی:4224]
مصیبتوں کے اسباب اور صورتیں-9
حضرت محمد بن عبد الملک بن مروان سے روایت ہے:
رسول الله ﷺ کے زمانہ میں زلزلہ آیا تو آپ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر فرمایا:
اے زمین! رک جا، ابھی(قیامت والا)تیرا وقت نہیں آیا۔
پھر اپنےصحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:
بےشک تمہارا رب تمہیں اپنی رضا حاصل کرنے کا حکم دیتا ہے تو تم اس کو(ناراض کرنے کے بجائے)راضی کرو۔
[العقوبات(امام)ابن ابی الدنیا:18 مصنف(امام)ابن ابی شیبۃ8334]
مصیبتوں کے اسباب اور صورتیں-10
حضرت ابن عمر سے حدیث مروی ہے:
جب لوگ(1)درہم ودینار(یعنی مال وپیسہ)کے معاملہ میں انتہائی بخل کریں گے اور(2) قرض کے معاملے کریں گے اور(3)جہاد(یعنی دینی جدوجہد)چھوڑدیں گے اور(4)تم(مسلمان کھیتی باڑی کیلئے)بیلوں کے دُمیں سنبھالوگے تو الله تعالیٰ ان پر آسمان سے ذلت ورسوائی نازل کریں گے یہاں تک کہ لوگ اپنے دین کی طرف لوٹ آئیں۔
[ابوداؤد:3462 احمد:4825 ابویعلیٰ:5659]
مصیبتوں کے اسباب اور صورتیں-11
جس قوم میں سود خوری"عام"ہوجاتی ہے تو الله تعالیٰ ان پر جنون مسلط کردیتے ہیں، اور جس قوم میں قتل وغارت"عام"ہوجاتی ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگیں تو الله تعالیٰ ان پر ان کے دشمن کو مسلط کردیتے ہیں، اور جس قوم میں قومِ لوط کا فعل عام ہوجاتا ہے تو ان پر زمین میں دھنسنے کا عذاب بھی"عام"ہوجاتا ہے۔
[العقوبات(ابن ابی الدنیا):35]
مصیبتوں کے اسباب اور صورتیں-12
جو قوم نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا ترک کرے تو ان کے اعمال کو بلندی نہیں ملتی۔
[العقوبات(ابن ابی الدنیا):35]
ان پر برے(حکمران)مسلط کئے جائیں گے۔
[احمد:23313]
نزولِ مصائب اور رفعِ مصائب
مصائب و آلام اور تکالیف و حوادث انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں ،اس فانی دنیا میں عمرِ عزیز کی چند ساعتیں عیش کی گھنی چھاؤں میں بڑے سکون سے گذرتی ہیں اور کچھ گھڑیاں رنج کی جھلساتی ہوئی دھوپ میں کٹ جاتی ہیں ، حیاتِ مستعار کے آنگن میں کبھی مسرتیں ڈیرے ڈال کر لمحات کو خوشگوار بنا دیتی ہیں تو کبھی غم و اندوہ کے جھکڑ خوشیوں کے آشیانے کو تنکا تنکا کر دیتے ہیں ،رنج و الم سے عبارت یہ زندگی کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی اپنے دامن میں زمانے کی تلخ وشیریں یادیں لیے ہوئے آخرموت کے ساحل پر لنگر انداز ہو جاتی ہے۔یہ سفرِ حیات اتنا کٹھن کیوں ہے؟ مصیبتیں کیوں انسان کو گھیر لیتی ہیں ؟خدا تو اپنے بندے سے ماؤں سے ہزاروں گنا بڑھ کر پیار کرتا ہے پھر انھیں آزمائش کی چکی میں کیوں پیستا ہے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے بنیادی طور پر یہ ذہن نشین کر لیں کہ اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں جا بجا اپنی صفت حکیم ذکر فرمائی ہے اور حکیم ایسی ذات کو کہا جاتا ہے جس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا لہٰذا آفات و بلیات کے نازل ہونے میں بھی اس کے حکیمانہ فیصلے اور دانشمندانہ امر کو دخل ہوتا ہے۔اب وہ کون سے اسباب و وجوہات اور کیامصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے بلائیں اترتی ہیں ؟تو قرآن وسنت کے علوم کی روشنی میں اہلِ علم نے پانچ وجوہات کا تعین کیا ہے۔
نزولِ مصائب کی پہلی وجہ مومن بندے کی آزمائش ہوتی ہے ،اللہ کی ذات علام الغیوب ہے لیکن اہلِ دنیا پر واضح کرنے کے لیے کہ میرا بندہ مصیبت آنے پر صبر کرتا ہے یا بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے،مختلف طریقوں سے آزماتا رہتا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے وَلَنَبْلُوَنَّکُم بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٖ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ ( البقرۃ: ۱۵۵ )’’ اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے دوچار کر کے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں میں نقصان کرکے ضرور آزمائیں گے‘‘۔ آفات کے نازل ہونے کادوسرا سبب مسلمان کے گناہوں کا کفارہ ہے ،اللہ تعالی مصیبت میں مبتلا فرماکر گناہوں کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور آخرت کی سزا سے بچا لیتے ہیں ، صحیحین میں حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مَا یُصِیْبُ المسلمُ من نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا ھَمٍّ وَلَا حُزْنٍ حتٰی الشوکۃِ یُشَاکُہَا إلاَّ کَفَّرَ اللّٰہُ بھا مِنْ خَطایاہُ ’’ مومن مرد کو جو بھی دکھ اور جو بھی بیماری اور جو بھی پریشانی اور جو بھی اذیت پہنچتی ہے یہاں تک کہ اس کو کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کے گناہوں کی صفائی کر دیتا ہے ‘‘ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓسے مروی ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ منقول ہیں حَطَّ عنہ من سَیِّآتِہٖ کما تُحَطُّ الشجرۃُ وَرَقَھا ’’ اللہ تعالی( اس مصیبت کی وجہ سے) اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جیسے خزاں رسیدہ درخت اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے‘‘۔حوادث و آلام پیش آنے کی تیسری علت نیک اور متقی لوگوں کے درجات کو بلند کرنا ہے،انبیاء، اولیاء اور سلفِ صالحین کی سوانح پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں بڑے کٹھن حالات اور دشوار گذار مراحل آئے،سننِ ترمذی میں حضرت سعدؓ بن ابی وقاص ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا أیُّ الناسِ أشَدُّ بَلَائً؟ سب سے سخت تکلیفیں کن لوگوں پر آئیں ؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا الانبیاء ثم الامثل فالامثل ’’ سب سے زیادہ مصیبتیں انبیاء پر آئیں ،پھر وہ جو ان کے طریقے کے زیادہ قریب ہیں اور پھر وہ جوان کے طریقے کے زیادہ قریب ہیں ‘‘۔ان جلیل القدر شخصیات کے اللہ تعالی کے مقرب و محبوب ہونے کے باوجود ان پر تکالیف اس لیے آئیں تاکہ اللہ تعالی انھیں اپنے ہاں مزید بلندی درجات سے نوازے ،مسندِ احمد میں محمد بن خالد اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّ العبدَ إذا سَبَقَتْ لَہ مِنَ اللّٰہِ منزلۃً لَمْ یَبْلُغْھَا بِعملہ ابتلاہُ اللّٰہُ فی جسدِہٖ أوْ فِی مالِہٖ أوْ فِی وَلدِہٖ ثم صَبَرَہٗ علی ذلک حتی یُبْلِغَہٗ المنزلۃَ التی سَبَقَتْ لہ مِنَ اللّٰہِ ’’ کسی مومن بندے کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ایسا بلند مقام طے ہو جاتا ہے جس تک وہ اپنے عمل سے نہیں پہنچ سکتا تو اللہ تعالی اس کو کسی جسمانی یامالی تکلیف میں یا اولاد کی طرف سے کسی صدمہ اور پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے ،پھر اس کو صبر کی توفیق دیتا ہے؛ یہاں تک کہ بندہ(ان مصائب اور تکالیف پر صبر کرنے کی وجہ سے ) اس بلند درجہ تک پہنچ جاتا ہے جو اس کے لیے پہلے سے طے ہو چکا تھا‘‘۔ناموافق حالات کے درپیش ہونے کی چوتھی وجہ غافل انسان کو متنبہ اور خبردار کرناہے،اللہ تعالی بندے سے غفلت کی چادر کو اتارنے اور اسے اپنی بندی اور اطاعت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اس پرمصائب اتارتے ہیں ،فرمانِ خداوندی ہے وَلَنُذِیقَنَّہُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَیٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ( احزاب :۴۲ ) ’’اور ہم ان (نافرمانوں ) کو بڑے عذاب سے پہلے چھوٹا عذاب چکھاتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں ‘‘
زندگی کی الجھنوں ،مشقتوں اور مصیبتوں کا آخری اور عمومی سبب انسان کی بد عملی ، فسق و فجور،خدا کی حکم عدولی اورشریعت کے احکام سے روگردانی ہے۔اللہ تعالی جب گناہوں کی وجہ سے اپنے بندے پرناراض ہوتاہے تو اس پر اپنی رحمت کے دروازے بند کر دیتا ہے اوراس کی زندگی سے راحت و سکون ختم کر دیتا ہے جس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مسرت و شادمانی کے تمام اسباب و وسائل کے ہوتے ہوئے بھی دل بے چین رہتا ہے۔ خلاقِ عالم نے اپنے مقدس کلام میں بارہا اس حقیقت کو آشکار کیا ہے؛چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے وَمَآ أَصَابَکُم مِّن مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ (شوری:۳۰ ) ’’ اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ ان اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمائے ہیں ‘‘ دوسری جگہ ارشاد ہے وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِی فَإِنَّ لَہُ مَعِیشَۃ ضَنکا وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَٰمَۃِ أَعْمَیٰ (طہ:۱۴۲ )’’ اور جس شخص نے میری یاد سے منہ موڑا تو بلاشبہ اس کی زندگی تنگ ہوجاتی ہے اور قیامت کے دن ہم اسے اندھاکر کے اٹھائیں گے ‘‘قرانِ کریم میں گذشتہ ہلاک شدہ اقوام و امم کا متعدد مقامات پر تذکرہ ہے اس کاسبب بھی ان کی سرکشی ،نافرمانی اور اور وقت کے نبی کی تعلیمات سے انحراف کو بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں مختلف گناہوں کو مختلف مصیبتوں کے نازل ہونے کا سبب بتایا ہے ، سنن ابنِ ماجہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اے مہاجرین !پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے اور میں اللہ سے پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم ان کا ارتکاب کرو (۱)جب کسی قوم میں اعلانیہ بے حیائی ہو گی تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں جنم لیں گی جو انھوں نے اور ان کے آباء و اجداد نے بھی نہیں سنی ہوں گی۔(۲)جو قوم زکوۃ ادا نہیں کرے گی وہ بارش سے محروم ہو جائے گی اور اگر جانور نہ ہوتے تو پانی کی ایک بوند نہ برستی (۳)جو قوم ناپ تول میں کمی کرے گی وہ قحط سالی ،رزق کی تنگی اور بادشاہوں کے ظلم میں گرفتار ہو جائے گی (۴)جب امراء اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف فیصلے کریں گے تو دشمن ان پر مسلط ہو جائے گا جو ان کی چیزیں ان سے چھین لے گا (۵) جب لوگ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھیں گے تو باہمی خانہ جنگی میں پڑ جائیں گے۔
مسائل کے حل اور مصائب کو رفع کرنے کے سلسلہ میں شریعت نے چار اعمال کرنے کی ترغیب دی ہے جو غم کو ہلکا کرنے اور دل کی تسلی میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں ۔سب سے پہلا کام یہ ہے کہ غم کی خبر سنتے ہی استرجاع یعنی ’’انا للہ وانا الیہ راجعون ‘‘ پڑھے جس کی حقیقت اللہ تعالی کے اس فیصلے کو برضاء و رغبت قبول کرنے کا اعلان ہے۔دوسرا کام اپنے آپ پر ضبط کرنا اور خدا تعالی کے بارے میں کسی بھی فاسد خیال یا زبان سے کسی نامناسب جملہ کے ادا کرنے سے بچنا ہے،اس کو صبر کہا جاتا ہے۔تیسرے نمبر پرمبتلاء بہ شخص کے کرنے کا کام یہ ہے کہ صلوۃ الحاجت ادا کرکے تمام آداب کی رعایت رکھتے ہوئے خوب عاجزی اور انکساری سے دعا مانگے۔آخری ہدایت یہ ہے کہ حسبِ استطاعت صدقہ ادا کرنے کا اہتمام کرے اور اگر فی الوقت دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو بعد کے لیے نذر مان لے۔اس سب کے بعد بھی اگر مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہ آئے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اس کا اجر آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیا ہے یا چھوٹی مصیبت دے کر بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے، ترمذی میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یَوَدُّ أھْلُ العافیۃِ یومَ القیامۃِ حینَ یُعْطیٰ أھْلُ البلائِ الثوابَ لو أنَّ جلودَھم کانت قُرِضَتْ فی الدنیا بالمقاریض ’’ جب اہلِ بلاء کو قیامت کے دن بدلہ دیا جائے گا تو تو اہل ِعافیت یہ خواہش کریں گے کہ کاش! دنیا میں ان کی کھالوں کو قینچیوں سے کاٹ دیا جاتا‘‘۔
———————————–
مصائب ومشکلات، اسباب وعلاج
انسانی زندگی سراسر مجموعہٴ اضداد ہے، خوشی ومسرت اور رنج وغم کا عجیب سنگم ہے، پل میں مصیبت، پل میں راحت؛ لیکن نہ یہاں کے فرحت وسرور کے لمحات کو دوام ہے اور نہ درد والم کے صدمات کو قرار، ساری زندگی ہی تغیر وتبدل سے عبارت ہے، یہ زندگی اپنی تمام ترمسرتوں اور غموں کے ساتھ پھول اور کانٹے، دھوپ وچھاوٴں کا حسین امتزاج معلوم ہوتی ہے؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ خوشی کے لمحات غیر محسوس طریقے پر گزرجاتے ہیں، ایک لمبی مدت بھی خوشحالی وفارغ البالی، ہر طرح کے آسائش وآرام اور ہر طرح کے سامانِ راحت کے ساتھ بالکل معمولی سی نظر آتی ہے، اس کے بالمقابل مصائب ومشکلات کا معمولی سا وقفہ بھی بحرِحیات میں تلاطم اور ہلچل بپاکر دیتا ہے، مبتلائے دردکے لیے پل پل بھی کوہِ گراں اور بارِ خاطر ثابت ہوتا ہے، اسے انسانی فطرت کہیے کہ وہ آسانی اور خوشی کی خوگر اور عادی ہواکرتی ہے، امتحان وآزمائش ،درد والم اور رنج وغم کی ہلکی سی پُھوار بھی اس کے لیے ساون کی برسات، طوفانِ بلاخیر اور معمولی سے گھڑی بھی سوہانِ روح بن جاتی ہے اور وہ سراپا تصویرِ الم بن جاتا ہے، شکوہ وشکایت سے اس کی زبان معمور ہوجاتی ہے، وہ اپنی پھوٹی قسمت کو کوسنے لگتا ہے۔
لیکن ایک مومن کامل کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ مصائب ومشکلات کی گھڑیوں میں صبر کے دامن کو ہاتھ سے جانے دے، اس کی قوتِ ایمانی، رب کائنات کے ساتھ اس کے لگاوٴ وتعلق کی مضبوط کیفیت اسے ان حالات کا پامردی واستقامت کے ساتھ مقابلہ کا سبق سکھاتی ہے، وہ ہر قسم کے منفی ومثبت احوال کو خدا کی مشیت گمان کرتا ہے، وہ اپنے وجود سمیت اس کو درپیش ہونے والے تمام احوال کو خدائے ذوالجلال اور اس کے مالک حقیقی کا تصرف گردانتا ہے، اس طرح اس کی زبان شکوہ وشکایت، ناشکری اور لعن وطعن کے کلمات سے خالی ہوتی ہے، اور وہ فانی وعارضی مصائب کا ہنسی خوشی مقابلہ کرتے ہوئے راہیِ عالم بقا ہوجاتا ہے۔یہ مصائب ومشکلات، زندگی کے یہ نشیب وفراز، حیاتِ انسانی کو درپیش یہ اونچ نیچ اور اتارچڑہاوٴ کی کیفیات، جو بظاہر ناکامی ونامرادی کی تصویر نظر آتے ہیں، اگر ان کے حقائق ومضمرات اور شرعی نقطہٴ نظر سے ان منفی احوال کا تجزیہ کیا جائے تو یہ مصائب مومن کے لیے خیر ہی خیر نظر آتے ہیں، ان ہی شرور وفتن کے بطن سے خیر وبھلائی کے پہلووجود میں آتے ہیں۔
ان مصائب ومشکلات اور غم ہائے زمانہ کے تعلق سے علماء نے اس کے خیر وشرہونے کا یہ معیار بتلایا ہے کہ اگر ان مصائب ومشکلات میں انسان کا رجوع ذاتِ خداوندی کی طرف روز افزوں ہے، اس کی عبادات واطاعات اور ذاتِ باری کے ساتھ اس کے لَواور لگاوٴ میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے تو یہ مصائب وپریشانیاں اس کے حق میں رحمتِ خداوندی کے عناوین ہیں، اگر وہ گنہ گار ہے تو یہ مصائب اس کے لیے کفارئہ سےئات ہیں اور نیکو کار ہے تو بلندیِ درجات کا باعث ہیں، اس کے مقابل مشکل کی ان گھڑیوں میں اگر وہ معاصی اور گناہوں میں ہی دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے تو اس کے حق میں عقاب وسزاہیں۔اسی دستورِ خداوندی اور قانونِ الٰہی کو آیتِ کریمہ میں یوں بیان کیا گیا ہے:”اور ہم ان کو قریب کا عذاب بھی اس بڑے عذاب سے پہلے چکھادیں گے، تاکہ یہ لوگ بازآویں“(السجدة: ۲۱)علامہ شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:”یعنی آخرت کے بڑے عذاب سے قبل دنیا میں ذراکم درجے کا عذاب بھیج دیں گے؛تاکہ جسے رجوع کی توفیق ہوڈر کر خدا کی طرف رجوع ہوجائے، کم درجہ کا عذاب یہ ہے کہ دنیا کے مصائب، بیماری، قحط، قتل، قید، مال واولاد وغیرہ کی تباہی، وغیرہ“۔
بہر حال انسان کو اس کی اس زندگی میں مختلف پریشانیوں اور مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے وہ ان مصائب کو کیسے انگیز کرے اور کس طرح ان مسائل سے چھٹکارے اور نجات کی راہ اپنائے اس کے لیے درج ذیلباتیں لکھی جاتی ہیں:
یہ دنیا دارالامتحان ہے
ان مصائب کو انگیز کرنے اور ان کو آسان تربنانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مومن کے لیے ہر وقت یہ تصور پیشِ نظر رہے کہ یہ دنیادار الامتحان ہے، یہ دارالقرار یا دارالبقا (دائمی گھر) نہیں ہے، یہ عمل کی جگہ ہے اور آخرت دارالجزاء ہے، وہاں بدلہ ملے گا، مزدور صبح سے شام تک، کسان بویائی سے لے کر کٹائی تک تمام تکالیف، سردی کی شدت، دھوپ کی حدت، اور عمل کی محنت اس لیے برداشت کرتا ہے کہ مزدور کو شام ڈھلنے پر اجرت کی امید اور کسان کو کٹائی کے وقت پھل کی توقع ہوتی ہے، مومن بھی دین پر عمل کی راہ میں مصائب کی بھٹیوں میں اپنے آپ کو اس لیے جلاتا ہے کہ اسے گناہوں کے میل سے پاک صاف ہوکر دخولِ جنت کی توقع ہوتی ہے، آخرت کے آرام وراحت اور وہاں کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کے مصائب؛ بلکہ یہاں کی اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی نعمت بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی، خدا کا دستور اس دنیا میں یہ ہے کہ جو بندہ جس قدر اللہ عزوجل کا مقرب ومحبوب ہوتا ہے، اسی قدر اسے اس دنیا کے احوال وپریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، حدیث میں مومن کے لیے دنیا کو ”قید خانہ“ قرار دیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ قید خانہ میں آدمی کو گھرکی طرح سہولیات وآرام نہیں مل سکتا۔
چنانچہ احادیث میں مصائب کو خدا سے تقرب ونزدیکی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔حضرت سعد سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمسے دریافت کیا گیا کہ مصائب وشدائد میں سب سے زیادہ کون ہوتے ہیں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ مصائب وشدائد میں انبیاء ہوتے ہیں،پھر اس کے بعد درجہ بہ درجہ دوسرے افضل لوگ، آدمی کی اس کی دینداری کے لحاظ سے آزمائش ہوتی ہے، اگر وہ دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ورنہ ہلکی، آدمی پر مصائب کاسلسلہ اس وقت تک رہتا ہے کہ وہ روئے زمین پر بغیر گناہ چلتا ہے (یعنی مصائب کی وجہ سے اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں)۔(مشکوٰة شریف ۱۳۶)ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ بڑا بدلہ بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ جس قوم کو چاہتے ہیں اسے آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں، جو شخص اس آزمائش پر اللہ سے راضی رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی رہتے ہیں اور جو ناراض رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہوتے ہیں۔ (ریاض الصالحین: ۳۳ ادارہٴ اشاعت)جو شخص مصائب میں دنیا کی عدمِ پائیداری، اس کے مقابل آخرت کی زندگی کے دوام وبقا اور مصائب میں خدا سے قرب ونزدیکی کے تصور کو ذہن میں رکھے گا، اس کی مشکلیں اس کے لیے کسی حد تک ضرور کم ہوجائیں گی۔
مصائب گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہیں
مصائب وآلام اور اس کے دردوکسک کو دور کرنے اور ان مصائب وپریشانیوں کے بادلوں سے لطفِ خداوندی اور عنایاتِ ایزدی کی بارش کے متلاشی کے لیے یہ بھی ایک آسان نسخہ ہے کہ وہ بیماریوں، پریشانیوں، تنگیوں وتنگ دستیوں میں اجرِ خداوندی، ثوابِ آخرت، گناہوں اور خطاوٴں سے پاکی کی بشارتوں کو بھی پیش نظر رکھے، اس طرح اس کے مصائب اس کے لیے ایمان ویقین کی تازگی، فکرِ آخرت میں اضافہ اور پائے ثبات واستقامت میں مضبوطی کا باعث ہوں گے۔ایک حدیث میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:”مردِ مومن کو جو بھی دکھ درد، جو بھی بیماری وپریشانی،جو بھی رنج وغم اور جو بھی اذیت وتکلیف پہونچتی ہے؛ یہاں تک کہ جو کانٹا بھی اس کو چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہوں کی صفائی کردیتا ہے“۔(ریاض الصالحین ۳۱،ادارہ اشاعت)ایک دوسری روایت میں ہے بندہٴ مومن کو جوبھی کانٹے وغیرہ کی تکلیف پہونچتی ہے، تو اللہ عزوجل اس اس طرح گناہوں کو جھاڑدیتے ہیں، جیسے سوکھا درخت اپنے پتوں کو جھاڑ دیتا ہے۔(حوالہ سابق)بعض مومن مرد اور بعض مومن عورتوں پر مصائب وحوادث کبھی ان کی جان ، کبھی ان کے مال اور کبھی ان کی اولاد پر اس طرح آتے ہیں کہ (اس کے نتیجے میں اس کے گناہ جھڑجاتے ہیں) اور وہ مرنے کے بعد اللہ عزوجل سے اس حال میں ملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔(مشکوٰة شریف ۱۳۶)
دنیا کے مصائب اور آزمائشیں آخرت کے عذاب وعقاب کے مقابلے میں کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں رکھتے، بسا اوقات اللہ عزوجل ان تکالیف وبلیات کے ذریعے بندہ کے ساتھ خیر خواہی کا ارادہ فرماتے ہیں، وہ اس طرح کہ اسے عذابِ آخرت سے بچانے کے لیے دنیا ہی میں اس کے گناہوں کی سزادے دیتے ہیں اور وہ آخرت کے ہولناک وخطرناک عذاب سے بچ جاتا ہے، اس کے بالمقابل جب اللہ عزوجل کسی بندے کے ساتھ برائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو دنیا میں اس کے گناہوں کی سزاکو روک لیتے ہیں، اور اسے روزِ قیامت پوری طرح وصول فرماتے ہیں(ریاض الصالحین ۳۳، ادارہ اشاعت)
کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک بندہٴ مومن اخروی اعتبار سے ایک مقام ومرتبہ کاحامل ہوتا ہے، وہ اپنی صحت مند، آرام دہ زندگی کے ساتھ اس مقام ومرتبہ کی جانب اس قدر سبک روی اور تیزگامی کے ساتھ بڑھتا ہوا نہیں ہوتا ہے، اللہ عزوجل اسے اس کے طے شدہ مقام تک پہونچانے کا سامان یوں فرماتے ہیں کہ اس پر مصائب وحوادث کا بوجھ ڈال کر، اسے اندیشہ ہائے زمانہ اور غم ہائے زمانہ میں مبتلاکرکے اسے اس کے طے شدہ مقام تک پہونچادیتے ہیں۔اسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا: جب بندہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک مرتبے کا حامل ہوتا ہے، جسے وہ اپنے عمل کے ذریعہ حاصل نہیں کرسکتا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی جان یا مال یا اس کی اولاد میں مصیبت مبتلا کرتے ہیں، پھر اسے ان مصائب پر صبر کی توفیق دیتے ہیں، پھر اسے من جانب اللہ طے شدہ مقام تک پہونچادیتے ہیں۔ (مشکوٰة شریف ۱۳۷)مصائب کے نعمتِ خداوندی ہونے پر یہ روایت بھی دلالت کرتی ہے:جس وقت روزِ قیامت دنیا میں مصائب برداشت کرنے والوں کو ثواب دیا جارہا ہوگا، اس روز اہلِ عافیت بھی یہ چاہیں گے کہ کاش! ان کے جسم کی کھال دنیا میں قینچیوں سے کاٹی جاتی۔(مشکوٰة شریف ۱۳۷) ایک روایت میں مصائب ومشکلات کے گناہوں کے ازالہ میں اثر انگیزی کو بیان کرتے ہوئے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی حدیثِ قدسی کی شکل میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں: میری عزت وجلال کی قسم! جس شخص کی میں مغفرت اور بخشش کاارادہ کرتا ہوں تو اس کے جسم کو بیماری میں ڈال کر اور اس کی روزی کو تنگ کرکے اس کی ہر غلطی اور گناہ کو مٹادیتا ہوں۔(مشکوٰة ۱۳۸)
مصائب میں دعاوٴں کا اہتمام
جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مصائب میں بندہ کا رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھ رہا ہے تو یہ مصائب اس کے حق میں رحمتِ خداوندی کے نزول کے عنوان ہیں؛ لیکن بندہ چونکہ کمزور وناتواں ہوتا ہے، وہ رحمتِ خداوندی کا ادراک نہیں کرسکتا، وہ اپنی آخرت کے بناوٴ وبگاڑکے پہلو سے واقف نہیں ہوتا، وہ دوسروں کے مانند اپنے کو بھی خوشحال وفارغ البال دیکھنا چاہتا ہے اور وہ حقیقت میں بھی مصائب کو انگیز کرنے کی سکت بھی اپنے اندر نہیں پاتا؛ اس لیے اللہ تعالیٰ سے عافیت کو طلب کرتا رہے، دعاوٴں کے اہتمام کے ذریعہ بارگاہِ خداوندی میں اس بات کی التجاکرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بیماری کی نعمت کو صحت کی نعمت اور بے روزگاری کی نعمت کو روزگاری کی نعمت سے بدل دے، دراصل اللہ تعالیٰ بندہ کو مبتلائے مصیبت کرکے اس کی عاجزی وبندگی کے مظاہرہ کو دیکھنا چاہتے ہیں، ظاہر ہے دعا سے بڑھ کر اپنی عاجزی وبے بسی کا اظہار بندہ اپنے دوسرے اعمال کے ذریعہ کہاں کرسکتا ہے؟ بلکہ دعا کو احادیث میں حاصلِ عبادات قرار دیا گیا ہے۔
مصائب میں مبتلا شخص ان دعاوٴں کا خوب اہتمام کرتا ہے:”اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ الٰی نَفْسِیْ طَرْفَةَ عینٍ وَاَصْلِحْ لِیْ شَانِی کُلَّہ لااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ“اے اللہ! میں تیری رحمت کی امید کرتا ہوں تو مجھے پل بھر بھی میرے سپرد نہ کر اور میرا سارا حال درست فرمادے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔”یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بَرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ“ اے زندہ اور اے قائم رکھنے والے! میں تیری رحمت کے واسطے سے فریاد کرتا ہوں۔”اَللہُ، اَللہُ رَبِّیْ، لَااُشْرِکُ بِہ شَیئًا۔“ اللہ! اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں بناتا۔ان دعاوٴں کو مصائب اور پریشانیوں کے دفاع میں خوب اثر ہے، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضراتِ صحابہ کو مصائب اور مشکلات کے وقت انھیں دعاوٴں کی تلقین فرمائی تھی۔(حیاة الصحابہ عزلی :۳/۵۳۱) دعاوٴں کے ذریعہ بندہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتا ہے، اس کے الطاف وعنایات، اور عطایاونوازشات کے دائرہ میں آجاتا ہے، اس طرح اس کے مصائب آسانیوں سے بدلنے شروع ہوجاتے ہیں۔
مصائب میں نیک لوگوں سے مشورہ کی اہمیت
آدمی خواہ جس قسم کی بھی پریشانی میں مبتلا ہو، خواہ بیماری یا تکلیف میں، یا افلاس وتنگدستی میں یا قرض وبیماری کی پریشانی میں، ان بیماریوں اور پریشانیوں میں آدمی اپنے آپ کو یکاوتنہا تصور کرتا ہے، وہ اپنی عقل وتدبیر اور بسااوقات ہر طرح کے ظاہری اسباب کے اختیار کرنے کے بعد بھی اسے پریشانیوں سے باہر نکلنے کی کوئی صورت یا راہ نظر نہیں آتی، دعاوٴں کے خوب اہتمام کے باوجود اس کے مصائب ختم ہونے کا نام نہیں لیتے، ان مصائب میں سکون وراحت کے متلاشی کے لیے ایک لازمی امر یہ بھی ہے کہ وہ اس بارے میں نیک لوگوں اور اللہ والوں سے مشورہ طلب کرے! ان کے بتائے ہوئے رہنمایانہ خطوط پر اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھائے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمباوجودے کہ آپ کو مشورہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی؛ لیکن دشوار گزار اور کٹھن مراحل میں صحابہ سے مشورہ طلب کرتے تھے، حضراتِ صحابہ، ائمہٴ اکرام اور بزرگانِ دین اور علماء وصلحاء کا بھی معمول رہا ہے کہ وہ مصائب میں اللہ والوں سے رجوع کرتے ہیں۔
مصائب میں تدبیر سے نہ چوکے
پریشان حال شخص اگر بیمارہے تو یوں ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرا بیٹھا نہ رہے، تقدیر کا بہانہ بناکر تدبیر سے نہ چوکے؛ بلکہ علاج ومعالجہ کرے، اگر بے روزگار ہے تو حصولِ رزق کے لیے سعی وکوشش کرے، اگر اولاد کی نافرمانی سے دوچار ہے تو ان کی اصلاح کی راہیں اختیار کرے، غرضیکہ مصائب کو دور کرنے کے لیے آدمی مذکورہ بالا امور کے ساتھ اپنی مقدور بھر اسباب وذرائع کی دنیا میں کوشش بھی کرے؛ البتہ تمام محنت ومجاہدے اور علاج ومعالجہ کے بعد اس کے نتیجے صحت یابی اور رزق کی کشائش وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کردے۔تدبیر یہ تقدیر سے فرار نہیں ہے؛ بلکہ بقول حضرت عمر کے تدبیر کرنا دراصل یہ اللہ کی تقدیر سے اسی کی تقدیر کی طرف بھاگنا ہے، جب حضرت عمر کو تدبیر کے اختیار کرنے پر تقدیر سے فرار کا طعنہ دیا گیا تو آپ نے فرمایاہم تقدیر سے فرار اختیار نہیں کررہے؛ بلکہ:”نفِرُّ مِن قَدْرِ اللہِ اِلٰی قَدْرِ اللہ“ہم اللہ کی تقدیر سے اس کی تقدیر ہی کی طرف بھاگ رہے ہیں۔(بخاری : باب ما یذکر فی الطاعون ، حدیث: ۵۳۹۷) توکل کی حقیقت بھی دراصل اسباب کو اختیار کرنے کے بعد نتیجہ کو ذاتِ خداوندی کے حوالہ کرناہے اورانھیں کو اللہ تعالیٰ نے محبوب قرار دیا ہے:”انَّ اللہَ یُحِبُّ اُلمُتَوَکِّلِیْن“ اللہ تعالیٰ توکل اختیار کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔
دراصل اس تحریر کی روشنی میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ انسان کو مصائب کیوں درپیش ہوتے ہیں، اور ان مصائب ومتاعب سے انسان اپنے آپ کو کیوں کرنکال سکتا ہے؟ اگر مصائب میں انسان مذکورہ بالا امور کو ملحوظ رکھے تو کچھ بعید نہیں کہ اس کے مصائب نعمتوں سے بدل جائیں یا ان مصائب میں ضرور کمی واقع ہو۔
$ $ $
———————————–
نبی اکرم ﷺ کی مکّی زندگی اور مصائب وآلام
اللہ سبحانہ وتعالی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ۴۰؍سال کی عمر میں نبوت ورسالت سے سرفراز فرمایا۔ نبوت سے نوازے جانے کے بعد، آپﷺ ۱۳؍سالوں تک مکّہ مکرمہ میں رہے۔ یہ زمانہ آپﷺ کی مکی زندگی کہلاتا ہے۔ آپﷺ نے مکی زندگی میں ، تین سالوں تک خفیہ طور پر، اپنے قریبی لوگوں کے سامنے اسلام پیش کیا۔ پھر آپﷺ نے دس سال تک،کھلم کھلا اشاعتِ اسلام کا کام کیا۔ اس کے بعدآپﷺ یثرب ہجرت کرگئے۔ اشاعتِ اسلام کی وجہہ سے کفارِ مکہ آپ ﷺ کے جانی دشمن ہوگئے۔جوں جوں لوگ آپﷺ کے دستِ حق پرست پر اسلام کی بیعت کرتے رہے اوراسلام کی شعائیں پھیلتی رہی، کفارومشرکین کے غیض وغضب میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ وہ مسلمان جو کچھ حیثیت رکھتے تھے یا ان کا کوئی حامی ومددگارتھا، ان پر کفار ومشرکین اپنے غصے اور ظلم وجور کا اظہار کرنے سے قاصروعاجز تھے؛ مگر جو مسلمان غریب ونادار تھے، ان کا کوئی حامی ومددگار نہ تھا اور نہ وہ خود کوئی خاندانی وقبائلی حیثیت رکھتے تھے، ان پر کفار ومشرکین نے ظلم وستم کا لامتناہی سلسلہ شروع کردیا۔ کفار نے ان کو طرح طرح سے پریشان کیااور ستایا؛ مگر ان کے ایمان میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا رہا۔ نبی اکرمﷺ کے دادا، پھر چچا ابوطالب قریش کی نظر میں بڑے شرف واعزاز کے مالک سے تھے اور آپﷺ کی خاندانی اور قبائلی وجاہت واہمیت بھی سب کے نزدیک مسلم تھی؛ اس لیے آپﷺ پر حملہ آور ہونا، ایک بڑی جنگ کو دعوت دینا تھا؛ اس لیے کچھ لوگ آپﷺ کو گزند پہونچانے سے گریز کرتے تھے؛ مگر اس کے باوجود بھی بہت سے حرماں نصیبوں نے نبی اکرمﷺ کو طرح طرح سے ستایا اور آپﷺ کومختلف مصائب وآلام سے دوچار ہونا پڑا۔ ذیل میں آپﷺ کو ’’مکی زندگی میں پیش آنے والے مصائب وآلام میں سے چند‘‘ پر، ہم نظر ڈالتے ہیں ۔
ساحر وکاہن
جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوّت و رسالت کا اعلان نہیں کیا تھا، اس وقت آپﷺ مکّہ میں ایک عقل مند ودانشور، امین وصادق اور اچھے انسان سے جانے جاتے تھے۔ جب آپﷺ نے اپنی نبوت کا اعلان کیا؛ تو لوگوں نے آپﷺ کوجادوگر اور کاہن وساحر جیسے معیوب لقب سے مشہور کرنے کی کوشش کی؛ تاکہ لوگ آپﷺ کے قریب نہ آئیں اور آپﷺ کی باتیں نہ سنیں ؛ مگر اللہ نے جن کے دلوں کو ایمان کی روشنی سے منور کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، ان حضرات کو اس کا کوئی اثر نہیں ہوا؛ بل کہ تکلیف ومشقت برداشت کرکے، آپﷺ کے پاس تشریف لاتے تھے اور جلوۂ انوار ربّانی سے اپنے قلوب کو منور کرکے جاتے تھے۔
کفار ومشرکین جب نبی اکرمﷺ کے کسی معجزہ کا مشاہدہ کرتے؛ تو اسے قبول کرنے کے بجائے یہ کہتے کہ یہ ایک جادو ہے جو ابھی ختم ہوجائے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’وَإِنْ یَرَوْا آیَۃً یُعْرِضُوا وَیَقُولُوا سِحْرٌ مُسْتَمِرٌّ‘‘۔ (سورہ قمر:۲) ’’اگر کوئی معجزہ دیکھتے ہیں ؛ تو ٹال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جادو ہے جو ابھی ختم ہوا جاتا ہے‘‘۔ یعنی یہ جادو کا اثر ہے جو دیر تک نہیں چلا کرتا، خود ہی گزر جائے گا اور ختم ہوجائے گا۔ (معارف القرآن:۸/۷۲۲)
ایک دوسری جگہ ارشاد خداوندی ہے:
’’وَعَجِبُوا أَنْ جَائَہُمْ مُنْذِرٌ مِنْہُمْ وَقَالَ الْکَافِرُونَ ہَذَا سَاحِرٌ کَذَّابٌ‘‘۔ (سورہ ص:۴)
ترجمہ:
’’اور ان کفار (قریش) نے اس بات پر تعجب کیا کہ ان کے پاس ان (ہی) میں سے (یعنی جو ان کی طرح بشر ہے) ایک (پیغمبر) ڈرانے والا آگیا (تعجب کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی جہالت سے بشریت کو نبوت کے منافی سمجھتے تھے) اور (اس انکار رسالت میں یہاں تک پہنچ گئے کہ آپ کے معجزات اور دعوی نبوت کے بارے میں ) کہنے لگے کہ (نعوذ باللہ) یہ شخص (خوارق عادت کے کے معاملہ میں ) ساحر اور (دعوی نبوت کے معاملے میں ) کذّاب ہے‘‘۔
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے بھائی انیس کی زیارتِ مکہ اور اللہ کے رسولﷺ سے ملاقات کی کہانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’میں نے اس (انیس) سے پوچھا:تم نے (مکہ میں ) کیا کیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں نے مکہ میں ایک ایسے شخص (محمدﷺ ) سے ملاقات کی جو تمہارے دین پر ہے۔ اسے (اس بات کا) یقین ہے کہ اللہ نے اسے (رسول بناکر) بھیجا ہے۔ میں نے پوچھا:ان کے بارے میں لوگوں کا کیا خیال ہے؟ انھوں نے فرمایاکہ لوگ کہتے ہیں کہ (وہ) شاعر، کاہن اور ساحر ہے؛ جب کہ انیس (خود) ایک شاعر تھے۔ انیس نے کہا میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے، مگر (اس کا) کلام کاہنوں کی بات (جیسا ) نہیں ہے۔ میں نے ان کے کلام کو شعر کے بحروں پر پرکھا،؛ تو وہ کسی کی زبان پر میرے بعد نہیں جڑے گا شعر کی طرح۔ خداکی قسم وہ سچا ہے اور لوگ جھوٹے ہیں ۔
(مسلم شریف، حدیث:۲۴۷۳)
مجنون ودیوانہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا قابل ولائق انسان، جس نے کبھی کسی غیرمناسب کام کا ارتکاب نہیں کیا، لوگوں کے ساتھ شبّ وشتم سے بات نہیں کی اور کسی بڑے اور چھوٹے کے احترام میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی؛مگراعلان نبوت کے بعد، کفارنے انھیں مجنون ودیوانہ کہنا شروع کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس نے اس عظیم معلمِ انسانیت، رہبر ِرشد وہدایت اور عقل ودانش کے مینار کو مجنون ودیوانہ کہا وہ خود مجنون ، پاگل، دیوانے،معاند ومتعصب اورسرکش وہٹ دھرم تھے۔
اللہ تعالی نے ان کی حقیقت کو واشگاف کرتے ہوئے فرمایا:
’’أَنَّی لَہُمُ الذِّکْرَی، وَقَدْ جَائَہُمْ رَسُولٌ مُبِینٌ، ثُمَّ تَوَلَّوْا عَنْہُ، وَقَالُوا مُعَلَّمٌ مَجْنُونٌ‘‘۔
(سورہ دخان:۱۴-۱۲)
ان کو (اس سے ) کب نصیحت ہوتی ہے (جس سے ان کے ایمان کی توقع کی جاوے)؛ حال آں کہ (اس سے قبل) ان کے پاس ظاہرشان کا پیغمبر آیا۔ پھر بھی یہ لوگ ان سے سرتابی کرتے رہے اور یہی کہتے رہے کہ کسی دوسرے بشر کا سکھایا ہوا ہے (اور) دیوانہ ہے۔
(معارف القرآن، ج:۷، ص:۷۵۹)
اللہ تعالی نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’وَقَالُوا یَا أَیُّہَا الَّذِی نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ إِنَّکَ لَمَجْنُونٌ‘‘۔ (سورہ حجر:۶) اور ان کفار (مکہ) نے(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) سے یوں کہا کہ اے وہ شخص جس پر (اس کے دعوے کے مطابق) قرآن نازل کیا گیا ہے، تم (نعوذ باللہ) مجنوں ہو (اور نبوت کا غلط دعوی کرتے ہو)۔
روایت میں ہے کہ ضمادرضی اللہ عنہ مکّہ مکرمہ آئے، ان کا تعلق (قبیلہ) ازدشنوء ہ سے تھا۔ وہ جنوں اور آسیب وغیرہ کا جھاڑ پھونک کرتے تھے۔ انھوں نے مکہ کے چند بیوقوفوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ محمدﷺ مجنون ہیں ۔ تو انھوں نے کہا کہ میں اس شخص کو دیکھوں ، شاید اللہ ان کو میرے ہاتھ سے شفا عطا فرمائے! وہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے ان سے ملاقات کی اور کہا: اے محمدﷺ ! میں جنون کو جھاڑتا ہوں اور اللہ تعالی میرے ہاتھ سے جس کو چاہتا ہے شفا دیتا ہے۔ تو کیا آپﷺ کی خواہش ہے (کہ آپ جھڑوائیں )؟ پھر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’سب تعریفیں اللہ کے لیے ہے۔ ہم اسی ذات کی تعریف میں رطب اللسان ہیں اور اسی سے مدد طلب کرتے ہیں ۔ جسے اللہ ہدایت دے، اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے اللہ گمراہ کردے، اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوائے کوئی معبودنہیں ، وہ یکتا ہے اور اس کا کوئی ساجھی نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ اب حمدوشہادتین کے بعد، جو چاہو کہو‘‘! وہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ آپﷺ اپنے ان کلمات کو پھر سے کہیں ! چناں چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو تین بار ان کے سامنے دہرایا۔ راوی کہتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا:میں نے کاہنوں کی باتیں ، جادوگروں کے اقوال اور شعرا کے اشعار سنے ہیں ؛ مگر میں نے آپﷺ کے ان کلمات کے مثل نہیں سنا۔ یہ کلمات تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں ۔ پھر ضماد نے کہا:اپنا ہاتھ لائے میں اسلام کی بیعت کرتا ہوں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ پھر انھوں نے بیعت کی۔ پھر اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:’’اور میں تمہاری قوم کی بھی بیعت لیتا ہوں ‘‘۔ انھوں نے کہا:(ہاں ) میری قوم کی طرف سے (بھی)۔
(مسلم شریف، حدیث: ۸۶۸)
بازار ذوالمجاز میں آپﷺ پر ابو لہب کی سنگ باری
طارق بن عبد اللہ المحاربی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے اللہ کے رسولﷺ کو بازار ’’ذی المجاز‘‘ میں دیکھا؛ جب کہ میں خرید وفروخت میں مشغول تھا۔ آپﷺ سرخ جبہ زیب تن کیے ہوے تھے اور بلند آواز سے یہ فرماتے جاتے تھے: ’’اے لوگو! لا الہ اللہ کہو، فلاح پاؤگے‘‘۔ ایک شخص آپ کے پیچھے پیچھے پتھر مارتا جاتا تھا، جس سے آپ کی پنڈلی اور ایڑی خون آلود ہوگئے۔ وہ شخص ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا: ’’اے لوگو!اس کی بات نہ سننا یہ جھوٹا ہے‘‘۔ محاربی فرماتے ہیں کہ میں سے پوچھا کہ یہ شخص (آپﷺ )کون ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ یہ لڑکا بنی عبد المطلب سے ہے۔ (پھر) میں پوچھا:وہ شخص کون ہے جو اس کا پیچھا کررہا ہے اور پتھر مار رہا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا یہ آپﷺ کا چچا عبد العزی یعنی ابو لہب ہے۔
(مصنف ابن أبی شیبہ، حدیث:۳۶۵۶۵)۔
بازار ذوالمجاز میں آپﷺ پر ابوجہل کا مٹی پھینکنا
بنو مالک بن کنانہ کے ایک شیخ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسولﷺ کو بازار ’’ذی المجاز‘‘ میں دیکھاکہ یہ فرماتے تھے: ’’اے لوگو! لا الہ اللہ کہو، فلاح پاؤگے‘‘۔ راوی فرماتے ہیں کہ ابوجہل آپﷺ پر مٹی پھینکتا تھا اور یہ کہتا تھا:اے لوگو! خیال رکھنا یہ شخص تم کوتمہارے دین کے حوالے سے دھوکہ نہ دیدے؛ کیوں کا اس کا ارادہ ہے کہ تم لات وعزی کو چھوڑ دو! جب کہ رسول اللہ ﷺ اس کی طرف ذرہ برابر بھی التفات نہیں فرماتے تھے۔
(مسند احمد، حدیث:۱۶۶۰۳)
اونٹ کی اوجھڑی آپﷺ کی پشت پر
ایک دفعہ نبی کریمﷺ کعبہ شریف کے پاس نماز ادا کررہے تھے۔ ابو جہل اور اس کے ساتھی (وہاں ) بیٹھے تھے۔ان میں سے بعض نے بعض سے کہا:تم میں سے کون ہے جو فلاں قبیلے کی اونٹنی کی اوجھڑی لائے اور جب محمدﷺ سجدے میں جائیں ؛ تو وہ اسے اس کی پشت پر رکھ دے؟ عقبہ بن ابی معیط جو نہایت ہی بدبخت، شقی القلب اور ملعون تھا، وہاں سے اٹھا اور وہ غلاظت لے کر آیا۔ پھر وہ آپﷺ کے سجدہ کرنے کا انتظار کرنے لگا۔ جب آپﷺ نے سجدہ کے لیے اپنے چہرہ مبارک کو زمین بوس کیا؛ تو اس نالائق نے اس اوجھڑی کو آپﷺ کے پیٹھ پر کندھوں کے درمیان رکھ دیا۔ آپﷺ اس کے بوجھ کی وجہ سے اٹھ نہیں پارہے تھے۔ سجدہ کی ہی حالت میں پریشان تھے۔ دوسری طرف ابو جہل اور اس کے بے غیرت ساتھی سب کے سب ہنسنے اور ٹھٹھا مارنے لگے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے؛ مگر اپنی کمزوری وضعف اور ان ظالموں کے خوف سے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنے سے عاجزتھے۔ پھر آپﷺ کی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئی اور اس کو آپﷺ کے پشت مبارک سے ہٹایا۔
(صحیح بخاری، حدیث:۲۴۰/ ۳۱۸۵/۳۸۵۴)
سودے بازی کی کوشش
کفار قریش نے محمدﷺ کوقتل کرنے کے لیے سودے بازی کی بھی کوشش کی۔ کفار نے چاہا کہ عمارہ بن ولید کو ابوطالب کے سپرد کردیں اور اس کے عوض، ابوطالب محمدﷺ کو ان کے حوالے کردیں ؛ تاکہ وہ آپﷺ کو قتل کردیں ؛ چناں چہ کفار قریش نے ابوطالب کی خدمت میں عرض کیا:
’’اے ابو طالب! یہ (عمارہ) قریش کا سب سے بانکا اور خوب صورت نوجوان ہے۔ آپ اسے لے لیں ۔ اس کی دیت اور نصرت کے آپ حق دار ہوں گے۔ آپ اسے اپنا لڑکا بنالیں ۔ یہ آپ کا ہوگا اور اپنے اس بھتیجے کو ہمارے حوالے کردیں ، جس نے آپ کے آباء و اجداد کے دین کی مخالفت کی ہے، آپ کی قوم کا شیرازہ منتشر کررکھا ہے اور ان کی عقلوں کو حماقت سے دوچار بتلاتا ہے۔ ہم اسے قتل کریں گے ۔ بس یہ ایک آدمی کے بدلے ایک آدمی کا حساب ہے‘‘۔ ابو طالب نے کہا: ’’خدا کی قسم! کتنا بُرا سودا ہے جو تم لوگ مجھ سے کررہے ہو! تم اپنا بیٹا مجھے دیتے ہو کہ میں اسے کھلاؤں پلاؤں ، پالوں پوسوں اور میرا بیٹا مجھ سے طلب کرتے ہو کہ اسے قتل کردو۔ خداکی قسم! یہ نہیں ہوسکتا‘‘۔
(الرحیق المختوم، ص:۱۴۰)
ابوجہل کا آپﷺ کے قتل کا ارادہ
ایک دن ابوجہل نے قریشیوں سے مخاطب ہوکر کہا کہ محمدﷺ ہمارے دین میں عیب نکالتا ہے۔ہمارے آباء واجداد اور معبودوں کی توہین کرتا ہے؛ ا س لیے میں اللہ سے عہد کرتا ہوں کہ کل ایک بھاری پتھر لے کر بیٹھوں گااور جب وہ سجدہ کرے گا تو اسی پتھر سے اس کا سر کچل دوں گا ۔۔۔۔ جب صبح ہوئی تو وہ ویسا ہی پتھر جیسا کہ اس نے بیان کیا تھا، لے کر انتظار میں بیٹھ گیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے جیسا کہ آیا کرتے تھے۔۔۔۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مشغول ہوگئے۔۔۔۔ جیسے ہی آپﷺ سجدے میں گئے، ابو جہل نے پتھر اٹھاکر، آپﷺ کی طرف بڑھا۔ جب وہ آپﷺ کے قریب ہوا؛ توشکست خوردہ حالت میں لوٹا، اس کا رنگ فق تھا اور وہ ایسا مرعوب تھا کہ اس کے دونوں ہاتھ، اس کے پتھر سے چپک گئے تھے کہ وہ بمشکل اپنے ہاتھ سے پتھر پھینک سکا۔
قریش کے کچھ لوگ اس کے پاس آئے اور پوچھنے لگے: ’’اے ابوجہل! تمھیں کیا ہوا؟‘‘ اس نے کہا: ’’میں نے گزشتہ رات جو بات کہی تھی، وہی کرنے کے لیے کھڑا ہوا تھا؛ جب میں ان کے قریب پہنچا؛ تو ایک اونٹ آڑے آگیا۔ خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی اونٹ کی کھوپڑی، گردن اور دانت اس اونٹ کی طرح نہیں دیکھا۔ وہ مجھے کھانا چاہ رہا تھا‘‘۔
(سیرت ابن ہشام۱/۲۹۸-۲۹۹)
گردن مبارک میں کپڑے کا پھندا
مکہ کے کفار ومشرکین آپﷺ کو آرام سے نماز بھی ادا نہیں کردینے دیتے تھے۔ آپﷺ نماز میں ہوتے توکبھی وہ آپﷺ کی پشت مبارک پر اونٹ کی ولادت کے وقت نکلنے والی غلاظت ڈالتے، تو کبھی آپﷺ کے مبارک گردن میں کپڑے کا پھندا لگاتے۔ بخاری شریف میں ایک روایت ہے:
حضرت عروہ بن زبیررحمہ اللہ نے (عبد اللہ) ابن عمرو بن عاص (رضی اللہ عنہ) سے پوچھا: مجھے اس سخت ترین تکلیف سے باخبر کیجیے جس سے مشرکین نے آپﷺ کو دوچار کیا۔ انھوں نے فرمایا:ایک بار نبیﷺ حطیم میں نماز ادا کررہے تھے، اچانک عقبہ بن ابی مُعَیط آیا اور آپﷺ کی گردن میں اپنا کپڑا ڈال دیا۔ پھر اس نے سخت طریقے سے آپ رضی اللہ عنہ کا گلا گھونٹا۔ پھر ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور انھوں نے عُقبہ کا مونڈھا پکڑا اور اس کو نبیﷺ سے ہٹایا اور فرمایا: ’’کیا تم مارڈالوگے ایک شخص کو اس وجہ سے کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے؟‘‘ (سورہ غافر:۲۸)
(صحیح بخاری، حدیث:۳۸۵۶)
سر اور ڈاڑھی کے بال کھینچنا
مشرکوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور ڈاڑھی کے بال پکڑکیاتنے زور سے کھینچے کہ آپﷺ کے اکثر بال اکھڑ گئے۔
(سیرت حلبیہ اردو، ج:اول نصف آخر:۲۷۶)
آپﷺ کی بیٹیوں کو طلاق
نبی اکرمﷺ کی دو صاحبزادیاں :حضرت امّ کلثوم اور رقیّہ رضی اللہ عنہما کا نکاح، دشمنِ اسلام، ابو لہب کے دو لڑکے:عتیبہ اور عتبہ سے ہو چکا تھا؛ لیکن یہ نکاح صرف نکاح ہی تھا۔ ابھی رخصتی باقی تھی۔’’سورۃ لہب‘‘ کے نزول کے بعد، آپﷺ کو بے عزت کرنے کی نیت سے، ابو لہب اور اس کی بیوی نے اپنے لڑکوں کو یہ حکم دیا کہ وہ آپﷺ کی صاحبزادیوں کو طلاق دیدے؛ چناں چہ انھوں نے ان کو طلاق دے دی۔
امام طبرانی قتادہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی شادی عتیبہ بن ابی لہب کے ساتھ ہوئی تھی۔ حضرت رقیّہ رضی اللہ عنہا کی شادی، اس کے بھائی عتبہ بن ابی لہب کے ساتھ ہوئی تھی۔ جب اللہ تعالی نے تبت یدا أبی لَہب (سورہ لہب) نازل فرمائی؛ تو ابو لہب نے اپنے دونوں بیٹوں :عتیبہ اور عتبہ کو کہا: ’’اگر تم نے محمدﷺ کی بیٹیوں کو طلاق نہ دی؛ تو تم دونوں کے سر کے لیے میرا سر حرام ہے‘‘۔ ان دونوں کی ماں :بنت حرب بن امیّہ نے کہا: ’’یہی ایندھن اٹھانے والی ہے کہ تم دونوں انھیں طلاق دے دو؛ کیوں کہ وہ دونوں صابی (اپنا دین بدلے ہوئے) ہیں ‘‘؛ چناں چہ ان دونوں نے انھیں طلاق دے دی۔
(تفسیردرّمنثور۸/۶۶۷)
طلاق کا عمل جیسا کہ آج کے کچھ شریف گھرانوں میں ، بڑی بے عزتی کی بات سمجھا جاتا ہے، اسی طرح اس وقت بھی عرب سماج کے شریف گھرانوں میں ، طلاق کو بے عزتی سمجھا جاتا تھا۔ پھر ایک ایسے باپ کے لیے جو شرافت کا اعلی نمونہ ہو اور اس کی دو لڑکیوں کو بیک وقت طلاق ہوجانا اور وہ بھی ایک ایسے وقت میں ؛ جب کہ وہ باپ ہر طرف سے مصائب وآلام جھیل رہا ہو؛ توکتنے تکلیف کا باعث ہوسکتا ہے،اسے بیان کرنا مشکل ہے۔
تین سالہ معاشرتی بائیکاٹ
کفار قریش نے مل جل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ: ’’اس نے ہماری اولاد اور ہماری عورتوں تک کو ہم سے برگشتہ کردیا ہے‘‘۔ پھر ان لوگوں نے آپﷺ کے خاندان والے سے کہا: ’’تم ہم سے دوگنا خون بہا لے لو اور اس کی اجازت دے دو کہ قریش کا کوئی شخص اس کوقتل کردے؛ تاکہ ہمیں سکون مل جائے اور تمھیں فائدہ پہنچ جائے‘‘۔ جب کفار قریش کی یہ تجویز منظور نہیں ہوئی؛ اس پر انھوں نے غصہ میں آکر یہ طے کیا کہ بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب، جو نبی اکرمﷺ کے مددگار تھے، کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے اور انھیں شعب ابوطالب نامی گھاٹی میں محصور اور مقید کردیا جائے۔
ایک روایت کے مطابق یہ بھی طے پایا کہ:’’نہ بنی ہاشم کی لڑکیوں کو بیاہ کر لاؤ اور نہ اپنی لڑکیوں کی ان کے یہاں شادی کرو، نہ ان کو کوئی چیز فروخت کرو اور نہ ان سے کوئی چیز خریدو اور نہ ان کی طرف سے کوئی صلح قبول کرو‘‘۔ چناں چہ جب بھی مکے میں باہر سے کوئی قافلہ آتا؛ تو یہ مجبور اور بے کس لوگ فوراً ان کے پاس پہنچتے؛ تاکہ ان سے کھانے پینے کا کچھ سامان خرید لیں ؛ مگر جب بھی ایسا ہوتا تو فورا وہاں ابولہب پہنچ جاتا اور کہتا کہ ’’دام اتنے بڑھادو کہ وہ تم سے کچھ نہ خرید سکیں ‘‘۔ پھر تاجر کی طرف سے ایسا ہی ہوتا؛ لہٰذا لوگ مایوس ہوکر، اپنے بچوں کے پاس واپس آجاتے، جو بھوک سے بیتاب تڑپتے اور بلکتے ہوتے تھے اور ان کو خالی ہاتھ دیکھ کر، وہ بچے سسک سسک کر رونے لگتے تھے۔
اس گھاٹی میں مسلمانوں نے بڑا سخت وقت گزارا۔ قریش کے بائیکاٹ کی وجہ سے ان کو کھانے پینے کی کوئی چیز نہیں ملتی تھی، لوگ بھوک سے بے حال ہوگئے؛ یہاں تک کہ گھاس پھونس اور درختوں کے پتے اور چمرے کھا کھا کر گزارہ کرنے لگے۔ یہ سلسلہ مستقل تین سالوں تک جاری رہا۔
(تلخیص از: سیرت حلبیہ اردو، ج:۱، نصف آخر، ص:۳۹۳-۳۹۴)
اہل طائف کا ظلم وستم
ابوطالب کی وفات کے بعد، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال، سن دس نبوی میں ، اپنے آزاد کردہ غلام: زید بن حارِثہ کی معیت میں ،ثقیف سے مدد کی التماس کے لیے طائف کا (پیدل) سفر کیا۔ امید تھی کہ اللہ کے جس پیغام کے ساتھ آپﷺ ان کے پاس آئے ہیں ، اہل طائف اسے قبول کریں گے۔ جب طائف پہنچے؛ تو ثقیف کے تین سراداران:عید یالیل، مسعود اور حبیب سے ملاقات کا ارادہ کیا۔ یہ تینوں آپس میں بھائی تھے۔ آپﷺ ان کے پاس بیٹھے اور اسلام کے لیے مدد کرنے اور آپﷺ کی قوم میں سے جو آپ ﷺ کی مخالفت کرے، اس کے خلاف خود کی مدد کرنے کے حوالے سے گفتگو کی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر، سرداران ثقیف نے نہایت ہی غیر سنجیدہ جوابات دیے۔ ایک نے کہا:’’وہ کعبہ کا غلاف پھاڑے گا، اگر اللہ نے تمھیں رسول بنایا ہو(اگر تم نبی ہو؛ تو اللہ مجھے غارت کرے‘‘!) دوسرے نے کہا: ’’کیا اللہ تعالیٰ کوتمہارے علاوہ کوئی اور نہیں ملا جسے وہ بھیجے؟‘‘ تیسرے نے کہا: ’’بخدا، میں تم سے کبھی بات نہیں کرسکتا۔ اگر تم سچ مچ اللہ کے نبی ہو جیسا کہ تم کہتے ہو؛ توتمہاری بات میرے لیے رد کرنا انتہائی خطرناک ہے اور اگرتم اللہ پر جھوٹ گھڑتے ہو؛ تو پھر مجھے تم سے بات نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ ثقیف سے ناامید ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے کھڑے ہوئے اور ان سے کہا:’’تم لوگوں نے جو کچھ کیا ، بہرحال اسے خفیہ ہی رکھنا‘‘۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے واپسی کا ارادہ کیا؛ تو ان سرداروں نے اپنے غلاموں اور اوباشوں کو شہہ دیدی۔ انھوں نے آپﷺ کو گالیاں دی، تالیاں بجائی اور شور مچائے؛ تاآں کہ لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی۔ آپﷺ کے راستے کے دونوں کنارے، لوگوں کی لائن لگ گئی۔ وہاں سے گزرتے وقت، جوں ہی اللہ کے رسولﷺ ایک قدم اٹھاتے کہ وہ آپﷺ کے قدموں پر پتھر مارتے؛ تا آں کہ آپﷺ کے گھٹنے چور ہوگئے، پنڈلیاں گھائل ہوگئیں اور جوتے خون آلود ہوگئے۔ جب آپﷺ کو پتھر لگتا؛ تو آپﷺ زمین پر بیٹھ جاتے۔ وہ اوباش اور حرمان نصیب آپﷺ کے بازو پکڑ کر اٹھاتے اور جب چلنا شروع کرتے؛ تو وہ پتھر مارتے اور ہنستے۔ زید بن حارِثہ آپﷺ کو خود ڈھال بن کر بچاتے تھے؛ تا آں کہ ان کا سر بھی زخمی ہوگیا۔
(عیون الأثر۱/۱۵۵-۱۵۶)
آپﷺ کسی طرح ابنائے ربیعہ کے باغ میں پہنچے۔ تھوڑی دیر بعد، وہاں سے رخصت ہوئے۔ پھر آگے کیا ہوا، بنی صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان میں ہی ملاحظہ فرمائے: ’’میں غم سے نڈھال اپنے رخ پر چل پڑا اور مجھے قرن ثعالب میں ہی پہنچ کر افاقہ ہوا۔ جب میں نے اپنا سر اٹھایا؛ تو اچانک دیکھا کہ بادل کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ فگن ہے۔ جب میں نے اس میں دیکھا؛ تو حضرت جبرئیل موجود تھے۔ انھوں نے مجھے پکار کر کہا: ’’آپ کی قوم نے آپ سے جو بات کہی، اسے اللہ نے سن لیا۔ اب اللہ نے آپ کے پاس پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے؛ تاکہ آپ ان کے بارے میں جو حکم چاہیں اس فرشتہ کو دیں ! پھر پہاڑ کے فرشتے نے مجھے آواز دی، سلام کیا پھر کہا:اے محمدﷺ ! ان کے حوالے سے آپ جو چاہیں ۔ اگر آپ چاہیں کہ میں ان کو دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں ؟ (تویہی ہوگا)۔ نبی کریمﷺ نے جواب دیا: ’’(نہیں ) بل کہ مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی پشتوں سے ایسی نسل پیدا کریں گے، جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اوراس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائے گی‘‘۔
(بخاری شریف، حدیث:۳۲۳۱)
دارالندوہ میں قتل کا منصوبہ اور ہجرت کا حکم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ میں ظلم وجور کی چکی میں اس طرح پستے دیکھ رہے تھے جو ناقابل برداشت تھا؛ لہٰذا ان کو مدینہ منورہ ہجرت کی اجازت دیدی، سوائے رفیق غار ابوبکر رضی اللہ عنہ کے۔ ابوطالب جیسے حامی ومددگاربھی وفات پاچکے تھے۔ اب قریش شدید غصے میں تھے کہ کب تک ہم اس شخص (محمدﷺ )کو برداشت کریں اور وہ ہمارے معبودوں اور آباء واجداد کی توہین کرتا رہے؛ چناں چہ ہمیں ان کو قید کردینا چاہیے، یا جلا وطن کردینا چاہیے یا پھر قتل کردینا چاہیے؛ تاکہ ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرلیں ۔ پھر قریش کے سرداران اپنے مشورہ گاہ:دار الندوہ میں خفیہ طور پر نبیﷺ کے خلاف فیصلہ لینے کو جمع ہوئے۔ کسی نے کہا کہ اسے لوہے کی زنجیر میں باندھ کر، دروازہ بند کردو۔ کسی نے کہا کہ انھیں جلا وطن کردو۔ مگر نجدی شیخ کے روپ میں ، دار الندوہ میں بیٹھا مردود ابلیس نے ان رایوں کے نقص کو اجاگر کیا اور کہا کہ یہ کوئی رائے نہیں ہے۔ پھر ابوجہل بن ہشام نے یہ رائے دی کہ ’’ہم ہر قبیلے سے ایک قوی جوان کو منتخب کریں ۔ ہم ان میں سے ہر ایک جوان کو ایک تیز تلوار دیں ۔ وہ سب کے سب بیک ضرب، ان کو قتل کردیں ۔ جب وہ اسے اس طرح قتل کریں گے؛ تو ان کا خون مختلف قبائل میں بنٹ جائے گا؛ پھر میں نہیں سمجھتا کہ بنوہاشم سارے قریش سے جنگ کریں گے۔ جب اس صورت حال کا بنو ہاشم مشاہدہ کریں گے؛ تو دیت لینے پر راضی ہوجائیں گے۔ پھر ہم ان کو دیت دیدیں گے‘‘۔ نجدی شیخ کی صورت میں بیٹھا ابلیس نے کہا کہ بات تو یہ ہے جو اس آدمی نے کہی اور اس رائے کے بعد کوئی رائے نہیں ہے؛ لہٰذا پوری قوم اس پر تیار ہوگئی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی مسلمان کو اس منصوبہ کا علم نہیں تھا۔ جبرئیل علیہ السلام آپ ﷺ کے پاس آئے اور کہا: آپﷺ اپنے جس بستر پر رات گزارتے تھے، اس پر رات نہ گزاریں ۔ جب رات تاریک ہوئی؛ تو سب کے سب (قتل کے ارادیسے) آپﷺ کا انتظار کررہے تھے کہ آپﷺ کب سوتے ہیں ؛ تاکہ وہ سب آپ پر ٹوٹ پڑیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا:میرے بستر پرلیٹ کر، میری اس حضرمی ہری چادرکو اوڑھ کر سوجاؤ۔ کوئی ناپسندیدہ عمل ان کی طرف سے تمھیں پیش نہیں آئے گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے تھے؛ تو اسی چادر میں سوتے۔ پھر آپﷺ اپنے ہاتھ میں ، لپ بھر مٹی لے کر ان کے سامنے سے نکلے۔ پھر آپﷺ وہ مٹی ان تمام کے سر پر ڈالتے ہوئے سورہ یس کی آیات ۱-۵ کی تلاوت کررہے تھے۔ پھر اللہ تعالی نے ان کی قوت بینائی لے لی وہ آپ کو دیکھ نہیں سکتے تھے۔ جب آپﷺ ان آیات کی تلاوت سے فارغ ہوئے؛ تو کوئی ایسا نہیں بچا تھا جس کے سر پر مٹی نہ پڑی ہو۔ پھر آپﷺ وہاں سے رخصت ہوئے، جہاں آپﷺ کو رخصت ہونا تھا۔
(سیرت ابن ہشام:۱/۴۸۲-۴۸۳)
خلاصہ یہ ہے کہ تیرہ سالہ مکی دور میں نبی اکرمﷺ کومختلف قسم کے ذہنی وجسمانی مصائب وآلام سے دوچار ہونا پڑا۔ کبھی آپﷺ کے قتل کا ارادہ کیا گیا، کبھی آپﷺ پر پتھر پھینکا گیا، کبھی مٹی پھینکی گئی، کبھی گرد وغبار پھینکا گیا، کبھی راستے میں کانٹے ڈالے گئے، کبھی ڈاڑھی اور سر کے بال نوچے گئے اور کبھی آپﷺ کے چہرہ مبارک پر تھوکنے کی بدبختانہ کوشش کی گئی ؛ مگر آپﷺ اسلام کی اشاعت کی خاطر، سب کچھ برداشت کرتے ہوئے دین کی دعوت میں ، ہمہ تن مشغول رہ کر، اپنی امت کو بہترین نمونہ فراہم کرگئے۔ ارشاد خداوندی ہے:
’’تم لوگوں کے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے جو اللہ سے اور روزِ آخرت سے ڈرتا ہواور کثرت سے ذکر الٰہی کرتا ہو(یعنی مومن کامل ہو اس کے لیے)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا ۔‘‘
(سورہ أحزاب:۲۱)
——————————————
قدرتی آفات اور ہماری ذمہ داریاں
اس وقت ہمارے ملک ہندوستان کے جنوبی علاقے کی کیرالا ریاست کے اکثر اضلاع سیلاب اور طوفان اور باڑھ سے مثاثر ہوچکے ہیں، اس قدر بھیانک اور ہلاکت خیز طوفان جس کے سامنے انسان کی طاقت بھی جواب دے جائے، یہ آفات وبلیات اور مصائب ومشکلات طوفان، آندھی، ہواکے جھکڑ اور پانی کا سیلاب ساری چیزیں خدا کی قدرت سے ہوا کرتے ہیں، ظاہری اسباب بنانے والے بھی ذات اللہ عزوجل کی ہے، ظاہری اسباب خواہ کچھ ہوں ؛ لیکن خدا کی قدرت اور اس کی لا محدود طاقت اس کے پیچھے کارفرما ہوا کرتی ہے، ہوا، آگ، پانی اورمٹی یہ قدرت کی وہ طاقتیں ہیں، جن کے سامنے انسانی عقل گنگ رہ جاتی ہے ۔
آفات کیوں آتے ہیں
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالی کی طرف سے ہی ہوتا ہے۔ اس لیے یہ سوال یہ آفات وبلیات، طوفان وسیلاب کون لایا ہے؟ بہ ظاہر غیر ضروری معلوم ہوتا ہے؛ لیکن اس کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ بعض دانشوروں کی طرف سے کھلے بندوں یہ کہا جا رہا ہے کہ اس طوفان اور سیلاب کو اللہ تعالی کی طرف سے تنبیہ یا سزا سمجھنے کی بجائے فطری قوانین اور نیچرل سورسز کی کارروائی سمجھا جائے کہ ایسا ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور نیچرل سورسز کے حوالے سے یہ معمول کی کارروائی ہے؛ مگر ہم مسلمان اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا عقیدہ ہے کہ کائنات میں کسی درخت کا ایک پتہ بھی اس کی مرضی کے بغیر حرکت نہیں کرتا؛ اس لیے ہم سب اس کو نیچرل سورسز کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن نہیں بیٹھ سکتے۔
قدرتی آفات کیوں آتے ہیں؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ، سیلاب، طوفان، او زلزلے ر دیگر آفتیں کیوں آتی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ان کے کچھ ظاہری اسباب بھی ہوں گے۔ ہمارے سائنس داں اور ماہرین ان اسباب کا ذکر کرتے ہیں اور ان کی نشاندہی بھی کرتے ہیں، ہمیں ان کی کسی بات سے انکار نہیں۔ اسباب کے درجے میں ہم ہر معقول بات کو تسلیم کرتے ہیں؛ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے گزشتہ اقوام پر آنے والی ان آفتوں، آندھیوں، طوفانوں،زلزلوں، وباں، اور سیلابوں کا ذکر ان اقوام پر اللہ تعالی کی ناراضگی کے اظہار کے طور پر کیا ہے اور ان قدرتی آفتوں کو ان قوموں کے لیے خدا کا عذاب قرار دیا ہے اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جناب سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے اپنی امت میں آنے والی قدرتی آفتوں کا پیش گوئی کے طور پر تذکرہ فرمایا ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے سزا یا تنبیہ کے طور پر ان کا ذکر کیا ہے۔ ان میں سے چند احادیث کا یہاں ذکر کرنا چاہوں گا۔
٭ ترمذی شریف میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم … نے فرمایا کہ تم نیکی کا حکم ضرور دیتے رہنا، لوگوں کو برائی سے ضرور منع کرتے رہنا، اور ظلم کرنے والے کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے ضرور روکنا ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کو ایک دوسرے پر مار دے گا اور تم پر اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح پہلی امتوں پر کی تھی۔
ترمذی شریف میں حضرت حذیفہ سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم … نے فرمایا کہ خدا کی قسم! تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ضرور سر انجام دیتے رہنا، ورنہ تم پر اللہ تعالی کی طرف سے عذاب نازل ہوگا، پھر تم دعائیں کرو گے تو تمہاری دعائیں بھی قبول نہیں ہوں گی۔
٭ ابو داد شریف میں حضرت صدیق اکبر سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم… نے فرمایا کہ جب لوگ معاشرہ میں منکرات یعنی نا فرمانی کے اعمال کو دیکھیں اوراصلاحکی کوشش نہ کریں اور جب کسی ظالم کو ظلم کرتا دیکھیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے ظلم سے نہ روکیں تو قریب ہے کہ سب پر خدا کا عذاب آجائے۔
ابن ماجہ شریف میں حضرت ابو مالک اشعری سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم… نے فرمایا کہ میری امت میں بعض لوگ شراب پی رہے ہوں گے اور اس کا نام انہوں نے کچھ اور رکھا ہوگا، مردوں کے سروں پر گانے کے آلات بج رہے ہوں گے، اور گانے والیاں گا رہی ہوں گی کہ اللہ تعالی انھیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے کچھ کو بندر اور خنزیرکی شکل میں مسخ کر دے گا۔
٭ ترمذی شریف میں حضرت علی اور حضرت ابوہریرہ سے راویت ہے کہ جناب نبی اکرم … نے فرمایا کہ جب غنیمت کے مال کو ہاتھوں ہاتھ لوٹا جانے لگے، امانت کو غنیمت کا مال سمجھ لیا جائے، زکوٰۃ کو تاوان سمجھا جانے لگے، تعلیم حاصل کرنے میں دین کے مقصد کو پسِ پشت ڈال دیا جائے، خاوند اپنی بیوی کا فرمانبردار ہو جائے، بیٹا اپنی ماں کا نافرمان ہو جائے، بیٹا اپنے دوست کو قریب کرے اور باپ کو خود سے دور رکھے، مسجدوں میں شور و غل ہونے لگے، قبیلہ کا سردار اس کا فاسق شخص ہو، قوم کا لیڈر اس کا رذیل ترین شخص ہو، کسی شخص کی عزت صرف اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جانے لگے، ناچنے والیاں اور گانے بجانے کے آلات عام ہو جائیں، شرابیں پی جانے لگیں، اور امت کے بعد والے لوگ پہلے لوگوں پر لعن طعن کرنے لگیں تو پھر خدا کے عذاب کا انتظار کرو جو سرخ آندھی، زلزلوں، زمین میں دھنسائے جانے، شکلوں کے مسخ ہونے، پتھر برسنے، اور ایسی دیگر نشانیوں کی صورت میں اس طرح لگاتار ظاہر ہوگا جیسے کسی ہار کی ڈوری ٹوٹ جائے اور موتی لگاتار گرنے لگے۔
اسی طرح آقائے نامدار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا کہ یہ قدرتی آفتیں پہلی امتوں کی طرح اس امت میں بھی آئیں گی اور اللہ تعالی کی ناراضگی کا اظہار ہوں گی؛ اس لیے سیلاب اور آندھی اور طوفان کے ظاہری اسباب پر ضرور نظر کی جائے اور ان کے حوالے سے بچا اور تحفظ کی ضرور کوشش کی جائے لیکن اس کے ساتھ بلکہ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ اس کے باطنی اسباب اور روحانی عوامل کی طرف بھی توجہ دی جائے اور ان کو دور کرنے کے لیے بھی محنت کی جائے۔ جب یہ بات کہی جاتی ہے تو اس پر ایک سوال اٹھایا جاتا ہے کہ سزا اور تنبیہ تو مجرموں کو ہوتی ہے، جو لوگ جرائم میں شریک نہیں ہیں ان کا کیا قصور ہے اور معصوم بچوں اور عورتوں کا کیا جرم ہے کہ وہ بھی بہت بڑی تعداد میں زلزلہ کی زد میں آجاتے ہیں۔ اس کے جواب میں گزارش ہے کہ یہ بات بھی جناب نبی اکرم … نے متعدد ارشادات میں واضح فرمائی ہے۔ جب حضور… نے آنے والی ان آفتوں کا ذکر کیا تو یہ سوال خود آپ … سے بھی کیا گیا تھا کہ کیا نیک لوگوں پر بھی یہ عذاب آئے گا؟ نبی اکرم … نے اس کا جواب اثبات میں دیا تھا۔
٭ بخاری شریف میں حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ جناب نبی اکرم … نے فرمایا کہ جب کسی قوم پر خدا کا عمومی عذاب آتا ہے تو نیک و بد سب اس کا شکار ہوتے ہیں؛ البتہ قیامت کے دن سب لوگ اپنی نیتوں کے مطابق اٹھائے جائیں گے۔
٭ مسلم شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ سے روایت ہے جناب نبی اکرم … نے فرمایا کہ مجھے خواب میں دکھایا گیا ہے کہ میری امت کا ایک شخص حرم مکہ میں پناہ لیے ہوگا اور میری امت کا ہی ایک لشکر اس کے تعاقب میں مکہ مکرمہ کی طرف یلغار کرے گا؛ لیکن ابھی وہ بیدا کے مقام پر ہوں گے کہ سب لوگ زمین میں دھنسا دیے جائیں گے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے دریافت کیا کہ ان میں بہت سے لوگ غیر متعلق بھی ہوں گے؟ اس پر آپ … نے فرمایا کہ ان میں مستبصر بھی ہوں گے یعنی وہ لوگ جو اپنی مرضی کے ساتھ شریک ہوں گے، کچھ مجبور بھی ہوں گے جو کسی مجبوری کی وجہ سے ساتھ ہوں گے، اور ابن السبیل یعنی راہ گیر بھی ہوں گے جن کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا؛ لیکن جب زمین پھٹے گی تو سب لوگ اس میں دھنس جائیں گے، البتہ قیامت کے دن سب لوگ اپنی اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے۔
٭ بخاری شریف میں ام المومنین حضرت زینب بنت جحش سے روایت ہے کہ ایک موقع پر جناب نبی اکرم… نے امت کے کسی حصے پر آنے والے عمومی عذاب کا ذکر فرمایا تو ام المومنین نے سوال کیا کہ کیا نیک لوگوں کی موجودگی میں ایسا ہوگا؟ آنحضرت … نے ارشاد فرمایا کہ ہاں جب خباثتوں کی کثرت ہو جائے گی تو ایسا ہی ہوگا۔
مسلم شریف میں ام المومنین حضرت ام سلمہ سے بھی اسی نوعیت کی روایت ہے کہ انہوں نے جناب نبی اکرم… سے دریافت کیا کہ جو شخص نافرمانوں کے ساتھ شریک نہیں ہوگا، کیا اس پر بھی عذاب آئے گا؟ آپ… نے فرمایا: ہاں! دنیا کے عذاب میں سب ایک ساتھ ہوں گے، پھر قیامت کے دن ہر شخص اپنی نیت پر اٹھایا جائے گا۔
چنانچہ یہ اللہ تعالی کا قانون اور ضابطہ ہے جس کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وضاحت فرمارہے ہیں۔ اس کے مطابق ہمیں جہاں یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالی کی طرف سے ہے، وہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہے، سزا ہے، تنبیہ ہے، اور عبرت ہے جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔
ہم تو مائل بہ کرم ہیں
وہ رب انسان کو اپنی معرفت و قرب اور اپنی عبادت و بندگی کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ندا دیتا رہتا ہے۔ جس طرح انسان کا کوئی محسن اسے تباہی سے بچانے کے لیے ہر وقت کو شاں رہتا ہے۔ اسی طرح بلاتشبیہ و بلامثال وہ رب جب اپنے بندوں کو نافرمانیوں و سرکشیوں کی صورت میں ہلاکت کے گڑھوں کی طرف بڑھتے اور عبادت و معرفت سے دور ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تو وہ انھیں کبھی پیار اور کبھی زجرو توبیخ کے ذریعے اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ کبھی وہ بندے پر رحمت نچھاور کرتا ہے اور کبھی غیظ و غضب نازل کرتا ہے۔ وہ پیار و محبت کے انداز میں بندے کو یوں احساس دلاتا ہے:
اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا۔ (الانفطار: ۶)
اللہ رب العزت جب انسانوں کی نافرمانیوں اور سرکشیوں پر نظر کرتا ہے۔ جب وہ لوگوں میں دنیا طلبی کو زیادہ اور خدا طلبی کو کم دیکھتا ہے۔ جب انسان زندگی کے ہر شعبے میں ظلم و بغاوت کو اختیار کرلیتا ہے۔ جب انسانیت ہی ظالم انسانوں کا اللہ کی بارگاہ میں شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔ جب انسان اللہ کے حرام کو خود ہی حلال کرنے لگتا ہے۔ جب اپنے ظلم کو عدل اور اپنے گناہ کو نیکی سمجھنے لگتا ہے۔ جب اپنی نافرمانی اور سرکشی کو اپنی دینداری و خوبی جاننے لگتا ہے۔ جب اپنی بدکرداری کو اپنی برتری تصور کرنے لگتا ہے۔ جب معاشرے کے کمزوروں کا خون چوسنا اور کمزور و ضعیف لوگوں کے مال کو ہڑپ کرنا اپنا فرض منصبی جاننے لگتا ہے۔ جب ایمان کی قدریں کمزور اور شر کی اقدار فروغ پانے لگتی ہیں۔ جب نیکی کے بجائے گناہ اور اطاعت کے بجائے معصیت اپنے سائے دراز کرنے لگتی ہے۔ اور جب عبادت و بندگی کو عار سمجھا جانے لگتا ہے تو اللہ کا غضب قدرتی آفات زلزلہ، سیلاب، وبائی امراض وغیرہ کی صورت میں زمین پر نازل ہوتا ہے۔
آج کل ہم آئے دن زلزلوں کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ بھی ہمارے نامہ اعمال اور گناہوں کے باعث غضب الٰہی ہے کہ زمین ہمارے گناہوں کی وجہ سے تھرتھراتی و کانپتی ہے اور اس میں بے پناہ ارتعاش ظاہر ہوتا ہے۔ یہ غضب جہنم کے غضب سے کم درجے کا ہوتا ہے۔ اس غضب کا مقصد بندے کے عمل کی اصلاح اور اسے اللہ کی بندگی کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔
امت مسلمہ عذاب اکبر سے محفوظ ہے
یہ بات ذہن نشین رہے کہ دنیوی زندگی میں ہم پر نازل ہونے والے یہ عذاب غضب کے معنی میں ہیں؛ اس لیے کہ باری تعالی نے امت مسلمہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت و بعثت کے صدقے عذابِ ہلاکت سے محفوظ کرلیا ہے۔ وہ عذاب جو پہلی اقوام و امم پر نافرمانی کے باعث آتے تھے کہ ان کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جاتا تھا۔ ان کے لیے اللہ کا عذاب دائمی موت کا پیغام لے کر آتا تھا۔ باری تعالی نے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ومآ ارسلنٰک اِلا رحمۃ لِلعٰلمِین کا تاج پہنایا اور سارے جہانوں کے لیے رحمت بناتے ہوئے آپ کو رحمۃ للعالین کے عظیم منصب پر فائز کیا۔ لہٰذا اب اس رحمت للعالمینی کی شان کے ساتھ بعثت کا تقاضا تھا کہ اب اللہ کا عذاب اس طرح انسانوں پر نہ آئے جس طرح سابقہ اقوام و ملل پر آتے رہے؛ اس لیے کہ رحمت اور عذاب دو متضاد چیزیں ہیں۔ وہ عذاب اکبر جو دوسری قوموں اور امتوں کو دنیوی زندگی میں اللہ کی نافرمانی پر تباہ کردیتا تھا اور ان کا وجود مٹادیتا تھا، باری تعالی نے اس عذاب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شانِ رحمت کے باعث اٹھالیا ہے۔ اب عذاب اصغر غیظ و غضب کی صورت میں ظاہر ہوتا رہے گا؛ تاکہ بندے رب کی بندگی کی طرف متوجہ ہوجائیں اور اس کے احکام کو اپنی زندگی کا عمل بنائیں۔
قرآن مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کی وجہ سے عذابِ الٰہی نہ اترنے کو اس طرح بیان فرمایا گیا:
اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ)اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان کو عذاب دے جب کہ (اے حبیبِ مکرم)! آپ بھی ان میں(موجود)ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان کو عذاب دینے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔
اس آیت کریمہ نے اس تصور کو واضح کردیا ہے کہ آپ … قیامت تک وانت فیہم کی شان کے تحت ہمارے اندر موجود ہیں اور وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعٰالمین کے تحت باری تعالی نے امت مسلمہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ سے دنیوی عذابِ اکبر کو اٹھادیا ہے۔
اس آیت کریمہ کے اگلے حصے نے اس بات کو بھی واضح کردیا ہے کہ جب تک یہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتے رہیں گے، باری تعالی ان کو عذاب میں گرفتار نہ کرے گا۔ اگر ان کے ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں انفرادی و اجتماعی توبہ اور استغفار کے لیے بلند ہوتے رہیں گے تو باری تعالی ان کو دنیا کے سارے عذابوں اور اپنے غضبوں سے بھی محفوظ کردے گا۔ لہٰذا ہمیں حکم دیا گیا کہ ا س آیت کریمہ کے اگلے حصے نے اس بات کو بھی واضح کردیا ہے کہ جب تک یہ اللہ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرتے رہیں گے، باری تعالی ان کو عذاب میں گرفتار نہ کرے گا۔ اگر ان کے ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں انفرادی و اجتماعی توبہ اور استغفار کے لیے بلند ہوتے رہیں گے تو باری تعالی ان کو دنیا کے سارے عذابوں اور اپنے غضبوں سے بھی محفوظ کردے گا۔ لہٰذا ہمیں حکم دیا گیا کہ
اور تم سب اللہ کے حضور توبہ کرو، اے مومنو!تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پاجاؤ۔ (النور: ۳۱)
اس آیت کریمہ نے واضح کردیا ہے کہ اللہ کے غضب، گرفت اور عذاب سے بچنے کا طریقہ توبہ و استغفار ہے۔ یہ توبہ و استغفار انفرادی زندگی میں بھی نظر آئے اور اجتماعی زندگی میں بھی نظر آئے۔ یعنی ہمارے انفرادی کردار پر بھی توبہ و استغفار غالب نظر آئے اور اجتماعی کردار بھی۔
قدرتی آفات آنے پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
اب آخری سوال کی طرف آئیے کہ اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس سلسلہ میں ہمارا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم توبہ و استغفار کریں، اپنے جرائم اور بداعمالیوں کو یادکریں، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت کریں، اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں۔
اس کے بعد ہماری دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کریں، ان کی بحالی کے لیے کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں کہ یہ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے اور اس کا اللہ تعالی کے ہاں بہت بڑا اجر ہے۔ تباہی کے خوفناک مناظرجو دکھائے جارہے ہیں، ہزاروں خاندان اور لاکھوں افراد ہماری مدد اور توجہ کے مستحق ہیں۔ کیرالا میں اگرچہ امدادی سرگرمیاں وسیع پیمانے پر جاری ہیں؛ لیکن اصل ضرورت سے بہت کم ہیں اور ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے؛ اس لیے ہر شخص کو دامے درمے سخنے اس حوالہ سے مدد دینے اور ہاتھ بٹانے کی ضرورت ہے ۔
——————————————-














No comments:
Post a Comment