Tuesday 14 May 2024

غصہ کے جائز اور ناجائز پہلو

 

ایک گہرا حکیمانہ قول!

*"غصہ آنا برا نہیں، غصہ کرنا یا اسے پالنا برا۔"*

یہ قول غصے کے فطری جذبات ہونے اور اس پر قائم رہنے کے نقصاندہ عمل کے درمیان فرق کرتا ہے۔ غصہ محسوس کرنا ایک عام انسانی فطری ردعمل ہے، لیکن بات یہ ہے کہ ہم اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ کب ہم چنتے ہیں:

- غصہ کی غلطی کا اعتراف کرنے کو۔

- بنیادی مسئلہ حل کرنے کو۔

- جو ہوا اسے جانے دینے اور آگے بڑھنے کو۔

ہم غصے کو تباہ کن رویے میں بدلنے سے روک سکتے ہیں۔

لیکن جب ہم:

- اپنے غصے کو بچا کر رکھیں بلکہ پالیں پوسیں۔

- غصہ کو ہمیں استعمال کرنے دیں۔

- غصہ پر بے ڈھرک-بےتحاشا عمل کریں۔

لہٰذا ہم اپنے غصے کو صحت مند اور تعمیری انداز میں پہچانیں اور اس پر قابو پ

انا سیکھیں!




اصلاحی اور فسادی غصہ میں فرق:

جائز غصہ وہ ہے:

- جو جائز شکایت یا ناانصافی کا قدرتی ردعمل ہو۔

- جو مسئلہ کے سبب اور حل کی طرف راہنمائی کرے، نہ کہ معصوم لوگوں کی طرف۔

- قابو میں ہو اور تعمیری(درست) کام سر انجام دے۔

- جس کا مقصد مسئلہ کا پتہ لگانا اور حل کرنا ہو۔

- جو وقتی ہو اور مسئلہ حل ہونے کے بعد کم ہوجائے۔



ناجائز غصہ یہ ہے:

- حد سے زیادہ، غیر معقول، یا بے قابو ہونا۔

- بے گناہ لوگوں یا غیر متعلقہ اہداف کی طرف غصہ کرنا۔

- اپنے آپ کو یا دوسروں کو جسمانی، جذباتی یا زبانی طور پر نقصان پہنچانا۔

- مقصد جذبات کو بھڑکانا ہو، مسئلہ کو حل نہ کرنا۔

- عادت یا مستقل حالت بن جانا۔


نوٹ:

یاد رکھیں، غصہ کی جائز صورت مثبت تبدیلی کا محرک ہو سکتی ہے، جبکہ غصہ کی ناجائز صورت نقصان اور تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ فرق کو پہچاننا اور اپنے غصے کو سمجھداری سے سنبھالنا بہت ضروری ہے!


جائز غصہ»

اعلانیہ گناہ پھیلانے اور نہ روکنے پر۔


القرآن:

اور جب موسیٰ "غضب" میں بھرے ہوئے اپنی قوم کے پاس واپس آئے تو انہوں نے کہا : تم نے میرے بعد میری کتنی بری نمائندگی کی۔ کیا تم نے اتنی جلد بازی سے کام لیا کہ اپنے رب کے حکم کا بھی انتظار نہیں؟ اور (یہ کہہ کر) انہوں نے تختیاں پھینک دیں۔  اور اپنے بھائی (ہارون ؑ) کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف کھینچنے لگے۔ وہ بولے : اے میری ماں کے بیٹے ! یقین جانیے کہ ان لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا۔ اور قریب تھا کہ مجھے قتل ہی کردیتے۔ اب آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیجیے، اور مجھے ان ظالم لوگوں میں شمار نہ کیجیے۔

[سورۃ نمبر 7 الأعراف،آیت نمبر 150]





غلط بات پر غصہ آنا»

ایک شخص نے رسول الله ﷺ سے کہا کہ یا رسول الله! میں فجر کی نماز میں تاخیر کر کے اس لیے شریک ہوتا ہوں کہ فلاں صاحب نے فجر کی نماز(امامت) بہت لمبی کردیتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ اس قدر"غصہ"ہوئے کہ میں نے نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ غضب ناک آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔ پھر آپ نے فرمایا:

لوگو! تم میں بعض لوگ(نماز سے لوگوں کو)دور کرنے کا باعث ہیں۔ پس جو شخص امام ہو اسے ہلکی نماز پڑھنی چاہیے اس لیے کہ اس کے پیچھے کمزور، بوڑھے اور ضرورت والے سب ہی ہوتے ہیں۔

[صحیح بخاری» حدیث#704]

شاھدی»سورۃ الاعراف،آیۃ54






ناجائز بات(دین میں نقصان)پر غصہ ہونا»

حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ(ایک دن)  رسول الله ﷺ ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث واختلاف کر رہے تھے، آپ غصہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ کے گالوں پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا میں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں؟ بیشک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوگئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث واختلاف کیا، میں تمہیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث واختلاف نہ کرو۔

[الترمذی» حدیث#2133]





حضرت ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ  رسول اللہ  ﷺ  سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ  ﷺ  کو برا معلوم ہوا اور جب  (اس قسم کے سوالات کی)  آپ  ﷺ  پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آگیا۔۔۔

[صحیح بخاری»کتاب:-علم کا بیان»باب:-استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے»حدیث نمبر: 92]




احکامِ دین کیلئے غصہ ہونا»

حضرت عبدالله بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ رسول الله ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ نے مسجد میں قبلہ کی جانب منہ کا تھوک دیکھا۔ پھر آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے صاف کیا اور غصہ ہوئے پھر فرمایا:

جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے، الله تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے۔

[بخاری:6111]

القرآن»

۔۔۔اور(اے نبی!)سختی کر ان پر۔۔۔

[سورۃ التوبة،آیت73]





کسی کی ناسمجھی پر غصہ ہونا کیسا ہے؟

درج ذیل صورتوں میں غصہ کرنا جائز ہے:

1. ایمان اور مذہب کا دفاع کرنا (جب کوئی اللہ، رسول یا اسلام کی توہین کرے)

2. اپنے آپ کو یا دوسروں کو نقصان یا ناانصافی سے بچانا۔

3۔ظلم و استبداد کے خلاف کھڑا ہونا۔

4. دوسروں کے حقوق کا دفاع کرنا۔

تاہم، ان حالات میں بھی، دوسروں یا خود کو نقصان پہنچائے بغیر، تعمیری اور کنٹرول شدہ انداز میں غصے کا انتظام کرنا ضروری ہے۔

یاد رکھیں، غصہ مثبت تبدیلی کے لیے ایک طاقتور محرک ہو سکتا ہے، لیکن اسے سمجھداری کے ساتھ استعمال کرنا اور اس عمل میں دوسروں یا خود کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا بہت ضروری ہے۔







غصہ سے بچنے کی فضیلت:

اللہ کے آخری پیغمبر ﴿محمد﴾ نے فرمایا:

ایک شاندار فرمانِ نبوی:

*پہلوان وہ نہیں ہے جو کسی کو پچھاڑ دے اصل پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔*

[مسند احمد»حدیث نمبر721]

قرآنی شاھدی» سورۃ الشوریٰ:آیۃ37


یہ کہاوت خود پر قابو پانے اور اندرونی طاقت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، یہ بتاتی ہے کہ حقیقی پہلوان وہ نہیں ہے جو دوسروں پر غالب آجائے، بلکہ وہ جو اپنے(نفس کے)جذبات پر قابو پاتا ہے۔


خلاصہ، یہ فرمان۔۔۔

- خود آگاہی

- جذباتی ضابطہ

- اندرونی طاقت

- روحانی نظم و ضبط

کی قدر وقیمت پر زور دیتا ہے۔


ہم اپنی کمزوریوں اور حدود کو فتح کرتے ہوئے، اور اپنے آپ پر فتح حاصل کرتے ہوئے، حقیقی پہلوان بننے کی کوشش کریں!


غصہ کا گھونٹ پی لینے کی فضیلت:

*"اللہ پاک کے قریب غصہ کے اس گھونٹ سے زیادہ اجر وثواب کسی گھونٹ پر نہیں، جو غصہ کا گھونٹہ بندہ ہے، اللہ کے رضا کے لیے پیا ہو"۔*

یہ خوبصورت اور متاثر کن فرمانِ پیغمبر غصے پر قابو پانے میں ضبطِ نفس اور صبر کی قدر پر زور دیتا ہے۔ غصے کا اظہار نہ کرنے اور معاف کرنے اور بات کو جانے دینے سے، ہم:

- اللہ کی رضا اور رضامندی حاصل کریں۔

- روحانی طاقت اور پختگی کا مظاہرہ کریں۔

- دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور رحم کا مظاہرہ کریں۔

- اللہ کی طرف سے بے پناہ انعامات اور برکتیں کمائیں۔

لہٰذا، ہم اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کریں اور اپنے تمام کاموں میں اللہ کی رضا حاصل کریں!



خلافِ طبیعت بات پر یا ذاتی غرض کیلئے کسی پر غصہ نہ ہونا۔

حضرت عمر نے پوچھا:

مجھے کون سی بات الله کے غضب سے دور کرسکتی ہے؟

رسول الله ﷺ نے فرمایا:

غصہ نہ کیا کر۔

[مسند(امام)احمد» حدیث#6635]



*"فیصلہ کرنے والا شخص دو آدمیوں کے درمیان اس وقت فیصلہ نہ کرے جب وہ غصہ کی حالت میں ہو۔"*

[صحیح بخاری:6739]

یہ دانشمندانہ اور بصیرت افروز فرمانِ پیغمبر ہے جو فیصلہ سازی میں جذباتی سکون اور معروضیت(غیرمتعصب واقعیت) کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم غصے میں ہوتے ہیں تو ہماری عقل(فیصلوں) پر بادل چھا جاتے ہیں، اور ہم غیرمنصفانہ یا جانبدارانہ فیصلے کر سکتے ہیں۔ جب تک کہ ہم پرسکون اور مرتب نہ ہوں انتظار کرکے، ہم یہ کر سکتے ہیں:

- زیادہ واضح طور پر سوچنا۔

- زیادہ معروضی طور پر سننا۔

- زیادہ باخبر فیصلے کرنا۔

- تنازعات کو زیادہ مؤثر طریقے سے حل کرنا۔

دعا ہے کہ ہم ایک قدم پیچھے ہٹنے، پرسکون ہونے، اور قریب ہونے کو یاد رکھیں واضح اور بہتر فیصلوں سے۔




غصہ کا علاج

حکیمانہ فرمانِ نبوی:

*"جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہئے کہ وہ خاموش ہوجائے۔"*

[جامع الصغیر:768]

یہ فرمان ہمیں غصے یا پریشان ہونے پر خاموش رہنے کا مشورہ دیتی ہے، بجائے اس کے کہ ہم جذباتی طور پر یا تکلیف سے بات کریں۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ پرسکون ہونے، سوچنے اور سوچ سمجھ کر جواب دینے کے لیے ایک لمحہ خاموش رہیں، بجائے اس کے کہ سختی سے یا افسوس کا اظہار کریں۔

غصے کے دوران خاموشی ہماری مدد کرتی ہے:

- تکلیف دہ الفاظ سے پرہیز کرنے میں۔

- تنازعات(جھگڑوں) کو روکنے میں۔

- اپنے جذبات پر غور کرنے میں۔

- تعمیری جواب دینے میں۔

لہٰذا ہمیں غصے کے لمحات میں دانشمندانہ خاموشی کی مشق کرنی چاہئے۔





حکیمانہ فرمانِ نبوی:

*"جب غصہ آئے تو کہو: میں مانگتا ہوں اللہ کی شیطان مردود سے"۔*

 [سنن ترمذی:3452]

یہ پیغمبر کا قول اور اللہ سے ایک دعا ہے۔ جب ہم غصے جیسے منفی جذبات سے مغلوب ہوتے ہیں تو حفاظت اور رہنمائی کی تلاش کرتے ہیں۔ اس جملے کو پڑھ کر ہمیں:

- شیطان کے وسوسوں (غلط خیالات) سے اپنی کمزوری کو تسلیم کریں۔

- اللہ کی پناہ اور ہدایت طلب کریں۔

- اپنے جذبات پر قابو پانے کے لیے مدد طلب کریں۔

- اللہ کی پناہ میں امن اور خاموشی تلاش کریں۔

ہمیں غصے اور مایوسی کے وقت اللہ کی پناہ مانگنا یاد رکھنا چاہئے۔





ایک گہرا اور بصیرت انگیز فرمانِ نبوی:

*"غصہ شیطان کے اثر سے ہے، شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ وضو کرے۔"*

[سنن ابوداؤد:4786]

یہ فرمانّ پیغمبر تجویز کرتا ہے کہ:

- کسی سے غصہ دلانے والا دراصل شیطان ہوتا ہے۔

- شیطان کی طاقت کو پانی(وضو) سے کم کیا جا سکتا ہے۔

- وضو کرنے سے دماغ اور جسم کو پرسکون اور پاک کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

لہٰذا جب غصہ آئے تو ہم روحانی صفائی اور سکون حاصل کرنے کی طرف توجہ دیں۔




ایک دانشمندانہ اور عملی مشورہ!

*"جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے، اگر وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، اگر غصہ اتر جائے تو اچھا اور اچھا، ورنہ لیٹ جائے۔"*

[سنن ابوداؤد:4782]

یہ فرمانِ۔ نبوی نصیحت کرتا ہے کہ جب ہم غصہ محسوس کریں تو ہمیں چاہیے کہ:

- بیٹھ کر یا لیٹ کر"پرسکون"ہوں۔

- صورتحال سے وقفہ لیں۔

- اپنے آپ کو سوچنے اور ٹھنڈا ہونے کے لیے وقت دیں۔

- جذباتی یا جارحانہ طور پر زبانی یا عملی رد عمل ظاہر کرنے سے گریز کریں۔

لہٰذا جب غصہ آجائے تو ہم ایک قدم پیچھے ہٹنا، سانس لینا، اور پرسکون ہونا یاد رکھیں!







اے اللہ! نبی محمد(ﷺ)کے رب! بخشدے میرے گناہ، اور دور کردے میرے دل کے غصہ کو، اور بچا مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں(امتحانات) سے جب تک تو مجھے ژندہ رکھے۔

[مسند احمد:26576]

تفسیر الطبری:6652، تفسیر الثعلبی:712»سورۃ آل عمران:8













No comments:

Post a Comment