*شرعی نقطہ نظر سے غصے کی اقسام اور ان کی حیثیت:*
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جذبات سے نوازا ہے، جن میں غصہ بھی شامل ہے۔ شرعی احکامات کی روشنی میں غصے کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے: *"جائز غصہ"* اور *"ناجائز غصہ"*۔ ذیل میں ان کی وضاحت اور دلائل پیش ہیں:
---
⬅️ *۱۔ جائز غصہ:*
یہ وہ غصہ ہے جو *"حق کی خاطر"* یا *"منکرات کے خلاف"* اٹھایا جائے۔ اس کی کچھ مثالیں اور دلائل درج ہیں:
- دینی غیرت اور منکرات کے خلاف ردعمل:
جب کوئی شخص شرعی حدود کو پامال ہوتے دیکھے تو اس پر غصہ آنا جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
*"جو منکر دیکھے، اسے ہاتھ سے بدلے، اگر نہ سکے تو زبان سے، اور اگر وہ بھی نہ سکے تو دل سے (نفرت کرے)"*
[صحیح مسلم:49،سنن الترمذي:2172،.سنن ابوداؤد:1140، سنن النسائي:5008، سنن ابن ماجة:4013]
مثال کے طور پر، کسی کو نماز چھوڑتے یا شراب پیتے دیکھ کر غصہ آنا۔
- *ظلم کے خلاف احتجاج*:
قرآن میں متقین کی صفت یہ بیان ہوئی کہ وہ "غصہ کو پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہوتے ہیں" [سورۃ آل عمران:134]. یہاں *"غصہ پی جانا"* ظلم کو برداشت کرنے کے باوجود انتقام نہ لینا ہے، لیکن غصہ کا حق ہونا ضروری ہے۔
- *ذاتی عزت یا دین کی حفاظت*:
علماء کے مطابق، "اللہ کے لیے غصہ اچھا ہے، جیسے: مجاہد کو کفار پر، یا والدین کو نافرمان اولاد پر غصہ آئے"۔
---
⬅️ *۲۔ ناجائز غصہ:*
یہ وہ غصہ ہے جو *"ذاتی مفاد، تکبر، یا بے جا ردعمل"* کی بنیاد پر ہو۔ اس کی وجوہات اور دلائل:
- *ذاتی انا یا تکبر*:
امام غزالیؒ فرماتے ہیں: *"غصہ ہر برائی کی چابی ہے"*، خاص طور پر جب یہ تکبر یا خودپسندی سے جنم لے [احیاء العلوم]. مثال کے طور پر، کسی کی معمولی غلطی پر اپنی برتری جتانے کے لیے غصہ کرنا۔
- *بے قابو ردعمل*:
قرآن میں غصے کو ضبط کرنے کی تلقین کی گئی ہے: *"جب غصہ ہو تو معاف کردیں"* [سورۃ الشورى:37]. نبی کریم ﷺ نے فرمایا: *"طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے"* [صحیح بخاری:6114].
- *نقصان دہ رویے*:
غصے میں گالی گلوچ، لڑائی، یا طلاق جیسے الفاظ کہنا ناجائز ہے۔ حدیث میں آیا ہے: *"غصے کی حالت میں خاموش ہوجاؤ"*
[الأدب المفرد:245، مسند احمد:2136]
---
⬅️ *جائز اور ناجائز غصے میں فرق کی کلیدی نکات:*
جائز غصہ» وہ ہے جو (1)اللہ کی رضا کے لیے، (2)منکرات-اعلانیہ کی جانے والے گناہوں کے خلاف (3)ضبط اور اعتدال کے ساتھ ہو۔
ناجائز غصہ» وہ ہے جو (1)ذاتی مفاد یا انا کے لیے (2) بے جا تنقید یا تکبر (3) بے قابو اور نقصان دہ غصہ ہو۔
---
⬅️ *غصے کو کنٹرول کرنے کے شرعی طریقے:*
۱. *اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھیں*: یہ غصہ کو فوری ٹھنڈا کرتا ہے [صحیح مسلم].
۲. *وضو کریں یا پانی پیئیں*: نبی ﷺ نے غصہ کی حالت میں وضو کرنے کا حکم دیا۔ [سنن ابو داؤد].
۳. *پوزیشن تبدیل کریں*: کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹھے ہوں تو لیٹ جائیں [صحیح الجامع].
۴. *معافی کی عادت*: اللہ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے دوسروں کو معاف کرنا [سورۃ آل عمران:134].
---
📊 *نتیجہ:*
غصہ ایک فطری جذبہ ہے، لیکن اس کا جائز استعمال صرف *"حق کی حمایت"* یا *"شر کے خلاف"* ہونا چاہیے۔ ذاتی غصہ شیطان کا ہتھکنڈا ہے، جس سے بچنے کے لیے ضبط اور دعاؤں پر توجہ ضروری ہے۔
یہ تینوں الفاظ (غیظ، غضب، بغض) انسانی جذبات کی مختلف کیفیات کو بیان کرتے ہیں۔ ان کے درمیان بنیادی فرق *(1)شدت، (2)سبب، اور (3)نتائج"* کے اعتبار سے ہے۔ ذیل میں ہر لفظ کی تعریف، شرعی حیثیت، اور دلائل پیش کیے جاتے ہیں:
---
*قرآن و حدیث میں ذکر:*
- اللہ تعالیٰ کا فرمان:
- *حدیث:* رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
---
*قرآن و حدیث میں ذکر:*
- اللہ تعالیٰ کا فرمان:
- *حدیث:* نبی ﷺ نے فرمایا:
---
*قرآن و حدیث میں ذکر:*
- اللہ تعالیٰ کا فرمان:
- *حدیث:* رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
- *جائز:* اللہ کی خاطر کفار یا فاسقوں سے نفرت (جیسے سورہ الممتحنہ: 4 میں ارشاد: **"لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ"**)۔
- *ناجائز:* کسی مسلمان سے ذاتی عناد یا حسد کی بنیاد پر نفرت (صحیح مسلم: 2564 میں اسے "منہی عنہ" قرار دیا گیا ہے)۔
---
---
⬅️ *علماء کی تشریحات:*
1. *امام ابن القیم رحمہ اللہ:*
2. *شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ:*
---
### *نتیجہ:*
- "غیظ" اور "غضب" عارضی جذبات ہیں جنہیں کنٹرول کرنا ضروری ہے۔
- *بغض:* ایک مستقل کیفیت ہے جو جائز اور ناجائز دونوں ہو سکتی ہے۔
- شرعی نقطہ نگاہ سے ہر صورت میں *"نیت اور مقصد"* کو جانچنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی رضا کے لیے جذبات کو استعمال کرنے کی توفیق دے۔
ایک گہرا حکیمانہ قول!
*غصہ آنا برا نہیں، غصہ کرنا یا اسے پالنا برا۔*
یہ قول غصے کے فطری جذبات ہونے اور اس پر قائم رہنے کے نقصاندہ عمل کے درمیان فرق کرتا ہے۔ غصہ محسوس کرنا ایک عام انسانی فطری ردعمل ہے، لیکن بات یہ ہے کہ ہم اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ کب ہم چنتے ہیں:
- غصہ کی غلطی کا اعتراف کرنے کو۔
- بنیادی مسئلہ حل کرنے کو۔
- جو ہوا اسے جانے دینے اور آگے بڑھنے کو۔
ہم غصے کو تباہ کن رویے میں بدلنے سے روک سکتے ہیں۔
لیکن جب ہم:
- اپنے غصے کو بچا کر رکھیں بلکہ پالیں پوسیں۔
- غصہ کو ہمیں استعمال کرنے دیں۔
- غصہ پر بے ڈھرک-بےتحاشا عمل کریں۔
لہٰذا ہم اپنے غصے کو صحت مند اور تعمیری انداز میں پہچانیں اور اس پر قابو پ
انا سیکھیں!
اصلاحی اور فسادی غصہ میں فرق:
جائز غصہ وہ ہے:
- جو جائز شکایت یا ناانصافی کا قدرتی ردعمل ہو۔
- جو مسئلہ کے سبب اور حل کی طرف راہنمائی کرے، نہ کہ معصوم لوگوں کی طرف۔
- قابو میں ہو اور تعمیری(درست) کام سر انجام دے۔
- جس کا مقصد مسئلہ کا پتہ لگانا اور حل کرنا ہو۔
- جو وقتی ہو اور مسئلہ حل ہونے کے بعد کم ہوجائے۔
ناجائز غصہ یہ ہے:
- حد سے زیادہ، غیر معقول، یا بے قابو ہونا۔
- بے گناہ لوگوں یا غیر متعلقہ اہداف کی طرف غصہ کرنا۔
- اپنے آپ کو یا دوسروں کو جسمانی، جذباتی یا زبانی طور پر نقصان پہنچانا۔
- مقصد جذبات کو بھڑکانا ہو، مسئلہ کو حل نہ کرنا۔
- عادت یا مستقل حالت بن جانا۔
نوٹ:
یاد رکھیں، غصہ کی جائز صورت مثبت تبدیلی کا محرک ہو سکتی ہے، جبکہ غصہ کی ناجائز صورت نقصان اور تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ فرق کو پہچاننا اور اپنے غصے کو سمجھداری سے سنبھالنا بہت ضروری ہے!
جائز غصہ»
اعلانیہ گناہ پھیلانے اور نہ روکنے پر غصہ:
القرآن:
اور جب موسیٰ "غضب" میں بھرے ہوئے اپنی قوم کے پاس واپس آئے تو انہوں نے کہا : تم نے میرے بعد میری کتنی بری نمائندگی کی۔ کیا تم نے اتنی جلد بازی سے کام لیا کہ اپنے رب کے حکم کا بھی انتظار نہیں؟ اور (یہ کہہ کر) انہوں نے تختیاں پھینک دیں۔ اور اپنے بھائی (ہارون ؑ) کا سر پکڑ کر ان کو اپنی طرف کھینچنے لگے۔ وہ بولے : اے میری ماں کے بیٹے ! یقین جانیے کہ ان لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا۔ اور قریب تھا کہ مجھے قتل ہی کردیتے۔ اب آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیجیے، اور مجھے ان ظالم لوگوں میں شمار نہ کیجیے۔
[سورۃ الأعراف:150﴿طٰہٰ:86﴾]
القرآن:
۔۔۔اور (اے نبی!) سختی کر ان(کفار اور منافقین) پر۔۔۔
[سورۃ التوبة،آیت73]
۔۔۔تاکہ(اللہ)غصہ میں لائے ان(رسول کے ساتھیوں کی ترقی) سے کفار کو۔۔۔۔
[سورۃ الفتح:29]
۔۔۔لکھا جاتا ہے ان کیلئے اس کے ذریعہ نیک عمل۔۔۔
[سورۃ التوبہ:120]
غلط بات پر غصہ آنا»
ایک شخص نے رسول الله ﷺ سے کہا کہ یا رسول الله! میں فجر کی نماز میں تاخیر کر کے اس لیے شریک ہوتا ہوں کہ فلاں صاحب نے فجر کی نماز(امامت) بہت لمبی کردیتے ہیں۔ اس پر آپ ﷺ اس قدر"غصہ"ہوئے کہ میں نے نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ غضب ناک آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔ پھر آپ نے فرمایا:
لوگو! تم میں بعض لوگ(نماز سے لوگوں کو)دور کرنے کا باعث ہیں۔ پس جو شخص امام ہو اسے ہلکی نماز پڑھنی چاہیے اس لیے کہ اس کے پیچھے کمزور، بوڑھے اور ضرورت والے سب ہی ہوتے ہیں۔
[صحیح بخاری» حدیث#704]
شاھدی»سورۃ الاعراف،آیۃ54
ناجائز بات(دین میں نقصان)کے سبب اپنے ماننے والوں پر بھی غصہ ہونا»
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ(ایک دن) رسول الله ﷺ ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث واختلاف کر رہے تھے، آپ غصہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ کے گالوں پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ نے فرمایا: کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا میں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں؟ بیشک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہوگئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث واختلاف کیا، میں تمہیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث واختلاف نہ کرو۔
[سنن الترمذي:2133، مسند البزار:10063]
عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى نُخَامَةً فِي قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَحَكَّتْهَا، وَجَعَلَتْ مَكَانَهَا خَلُوقًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَحْسَنَ هَذَا.
ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے مسجد کی دیوار قبلہ پر بلغم دیکھا، تو آپ ﷺ سخت غصہ ہوئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا، اتنے میں قبیلہ انصار کی ایک عورت آئی اور اس نے اسے کھرچ دیا، اور اس کی جگہ خوشبو لگا دی، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ کتنا اچھا کام ہے۔
[سنن ابن ماجہ:762، سنن النسائی:728]
اجازت کا ادب» جب تین آدمیوں سے زیادہ ہوں تو چپکے سے بات کرنے اور سرگوشی میں کوئی مضائقہ نہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا قِسْمَةً، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، قُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ وَهُوَ فِي مَلَإٍ فَسَارَرْتُهُ، فَغَضِبَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، ثُمَّ قَالَ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَى مُوسَى أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ.
ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ محمد بن میمون نے، ان سے اعمش نے، ان سے شقیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ کچھ مال تقسیم فرمایا اس پر انصار کے ایک شخص نے کہا کہ یہ ایسی تقسیم ہے جس سے اللہ کی خوشنودی مقصود نہ تھی میں نے کہا کہ ہاں! اللہ کی قسم میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں جاؤں گا۔ چناچہ میں گیا، نبی کریم ﷺ اس وقت مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے میں نے نبی کریم ﷺ کے کان میں چپکے سے یہ بات کہی تو آپ غصہ ہوگئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا پھر آپ نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) پر اللہ کی رحمت ہو انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیف پہنچائی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا (پس میں بھی صبر کروں گا)۔
[صحیح بخاری:6291، مسند احمد:4148-3608]
حضرت ابوعبیدہ بن عامر بن جراح (رض) کے مناقب
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمُطَّلِبِ بْنُ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُغْضَبًا وَأَنَا عِنْدَهُ، فَقَالَ: مَا أَغْضَبَكَ ؟ ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَنَا وَلِقُرَيْشٍ إِذَا تَلَاقَوْا بَيْنَهُمْ تَلَاقَوْا بِوُجُوهٍ مُبْشَرَةٍ، وَإِذَا لَقُونَا لَقُونَا بِغَيْرِ ذَلِكَ، قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّ وَجْهُهُ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الْإِيمَانُ حَتَّى يُحِبَّكُمْ لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ آذَى عَمِّي فَقَدْ آذَانِي، فَإِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِيهِ . قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ترجمہ:
عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب نے بیان کیا کہ عباس بن عبدالمطلب رسول اللہ ﷺ کے پاس غصہ کی حالت میں آئے، میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا، آپ نے پوچھا: تم غصہ کیوں ہو؟ وہ بولے: اللہ کے رسول! قریش کو ہم سے کیا (دشمنی) ہے کہ جب وہ آپس میں ملتے ہیں تو خوش روئی سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو اور طرح سے ملتے ہیں، (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ غصہ میں آ گئے، یہاں تک کہ آپ کا چہرہ سرخ ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کسی شخص کے دل میں ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی خاطر تم سے محبت نہ کرے ، پھر آپ نے فرمایا: اے لوگو! جس نے میرے چچا کو اذیت پہنچائی تو اس نے مجھے اذیت پہنچائی کیونکہ آدمی کا چچا اس کے باپ کے مثل ہوتا ہے۔
[سنن الترمذي:3758، الصحيحة:806-المشکاة:6147]
استاد کا شاگردوں کی ناگوار بات پر خفا ہو سکتا ہے:
حضرت ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ ﷺ کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ ﷺ پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آگیا۔۔۔
[صحیح بخاری» کتاب:-علم کا بیان» باب:-استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرتے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے» حدیث نمبر: 92]
القرآن:
۔۔۔اور (اے نبی!) سختی کر ان پر۔۔۔
[سورۃ التوبة،آیت73]
احکامِ دین کیلئے اپنے ماننے والوں پر بھی غصہ ہونا»
حضرت عبدالله بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ رسول الله ﷺ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ نے مسجد میں قبلہ کی جانب منہ کا تھوک دیکھا۔ پھر آپ نے اسے اپنے ہاتھ سے صاف کیا اور غصہ ہوئے پھر فرمایا:
جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے، الله تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص نماز میں اپنے سامنے نہ تھوکے۔
[بخاری:6111]
القرآن:
۔۔۔اور (اے نبی!) سختی کر ان پر۔۔۔
[سورۃ التوبة،آیت73]
احکامِ الٰہی کیلئے اپنے ماننے والوں پر بھی غصہ اور شدت کا جواز»
حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور گھر میں ایک پردہ لٹکا ہوا تھا جس پر تصویریں تھیں۔ تو آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ پھر آپ نے پردہ پکڑا اور اسے پھاڑ دیا۔
اور ام المؤمنین نے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
قیامت کے دن ان لوگوں پر سب سے سخت عذاب ہوگا، جو یہ صورتیں بناتے ہیں۔
[بخاری:6109]
کفار کی مشابہت کے سبب اپنے ماننے والوں پر غصہ اور سختی کرنا»
حضرت عبدالله بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے وہ زعفرانی رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے تھے، یہ دیکھ کر نبی اکرم ﷺ غصہ ہوئے اور فرمایا: جاؤ اور اسے اپنے جسم سے اتار دو ۔ وہ بولے: کہاں؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: آگ میں۔
[سنن(امام)النسائي» حديث#5317]
القرآن:
۔۔۔اور (اے نبی!) سختی کر ان پر۔۔۔
[سورۃ التحریم:9]
بےعلمی کے باوجود اعلانیہ برائی/غلطی پر غصہ»
حضرت عبدالله بن عمرو ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے، وہ زعفرانی رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے تھے، یہ دیکھ کر نبی اکرم ﷺ غصہ ہوئے اور فرمایا:
جاؤ اور اسے اپنے جسم سے اتار دو۔ وہ بولے: کہاں؟ الله کے رسول ﷺ! آپ نے فرمایا: آگ میں۔
[النسائي#5317]
۔۔۔یہ کفار کا لباس ہے، لہٰذا اسے مت پہنو۔
[احمد#6972]
القرآن»
مومنو! کفار جیسے مت ہونا۔۔۔
[سورۃ آل عمران:156]
نبوی خطبہ کی صفات:
كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺَ إِذَا خَطَبَ احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ، وَعَلَا صَوْتُهُ، وَاشْتَدَّ غَضَبُهُ، حَتَّى كَأَنَّهُ مُنْذِرُ جَيْشٍ يَقُولُ: «صَبَّحَكُمْ وَمَسَّاكُمْ».
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ جب خطبہ دیتے تھے تو آپکی آنکھیں سرخ ہوجاتی اور آواز بلند ہوجاتی اور غصہ بڑھ جاتا تھا جیساکہ آپ لوگوں کو لشکر سے ڈرا رہے ہوں کہ دشمن کا لشکر تم پر صبح وشام حملہ کرنے والا ہے۔
[مسلم:867،ابن ماجہ:45]
کسی کی ناسمجھی پر غصہ ہونا کیسا ہے؟
درج ذیل صورتوں میں غصہ کرنا جائز ہے:
1. ایمان اور مذہب کا دفاع کرنا (جب کوئی اللہ، رسول یا اسلام کی توہین کرے)
2. اپنے آپ کو یا دوسروں کو نقصان یا ناانصافی سے بچانا۔
3۔ظلم و استبداد کے خلاف کھڑا ہونا۔
4. دوسروں کے حقوق کا دفاع کرنا۔
تاہم، ان حالات میں بھی، دوسروں یا خود کو نقصان پہنچائے بغیر، تعمیری اور کنٹرول شدہ انداز میں غصے کا انتظام کرنا ضروری ہے۔
یاد رکھیں، غصہ مثبت تبدیلی کے لیے ایک طاقتور محرک ہو سکتا ہے، لیکن اسے سمجھداری کے ساتھ استعمال کرنا اور اس عمل میں دوسروں یا خود کو نقصان پہنچانے سے گریز کرنا بہت ضروری ہے۔
[سنن الدارمی:246]
نوٹ:
علماء کے بغیر، کتابیں بےفائدہ ہیں-کام نہ آسکیں گی۔
غصہ سے بچنے کی فضیلت:
اللہ کے آخری پیغمبر ﴿محمد ﷺ﴾ نے فرمایا:
پہلوان وہ نہیں ہے جو کسی کو پچھاڑ دے اصل پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔
[صحیح بخاري:6114، صحيح مسلم:2609،مسند احمد:7218]
قرآنی شاھدی» سورۃ الشوریٰ:آیۃ37
یہ کہاوت خود پر قابو پانے اور اندرونی طاقت کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، یہ بتاتی ہے کہ حقیقی پہلوان وہ نہیں ہے جو دوسروں پر غالب آجائے، بلکہ وہ جو اپنے(نفس کے)جذبات پر قابو پاتا ہے۔
خلاصہ، یہ فرمان۔۔۔
- خود آگاہی
- جذباتی ضابطہ
- اندرونی طاقت
- روحانی نظم و ضبط
کی قدر وقیمت پر زور دیتا ہے۔
ہم اپنی کمزوریوں اور حدود کو فتح کرتے ہوئے، اور اپنے آپ پر فتح حاصل کرتے ہوئے، حقیقی پہلوان بننے کی کوشش کریں!
غصہ کا گھونٹ پی لینے کی فضیلت:
"اللہ پاک کے قریب غصہ کے اس گھونٹ سے زیادہ اجر وثواب کسی گھونٹ پر نہیں، جو غصہ کا گھونٹہ بندہ ہے، اللہ کے رضا کے لیے پیا ہو"۔
یہ خوبصورت اور متاثر کن فرمانِ پیغمبر غصے پر قابو پانے میں ضبطِ نفس اور صبر کی قدر پر زور دیتا ہے۔ غصے کا اظہار نہ کرنے اور معاف کرنے اور بات کو جانے دینے سے، ہم:
- اللہ کی رضا اور رضامندی حاصل کریں۔
- روحانی طاقت اور پختگی کا مظاہرہ کریں۔
- دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور رحم کا مظاہرہ کریں۔
- اللہ کی طرف سے بے پناہ انعامات اور برکتیں کمائیں۔
لہٰذا، ہم اپنے غصے پر قابو پانے کی کوشش کریں اور اپنے تمام کاموں میں اللہ کی رضا حاصل کریں!
غصہ ایمان کو اس طرح بگاڑدیتا ہے جیسے ایلوا شہد کو بگاڑدیتا ہے.
[جامع الاحادیث،امام سیوطی:6569]
حضرت عمر نے پوچھا:
مجھے کون سی بات الله کے غضب سے دور کرسکتی ہے؟
رسول الله ﷺ نے فرمایا:
غصہ نہ کیا کر۔
[مسند(امام)احمد» حدیث#6635]
"فیصلہ کرنے والا شخص دو آدمیوں کے درمیان اس وقت فیصلہ نہ کرے جب وہ غصہ کی حالت میں ہو۔"
[صحیح بخاری:6739]
یہ دانشمندانہ اور بصیرت افروز فرمانِ پیغمبر ہے جو فیصلہ سازی میں جذباتی سکون اور معروضیت(غیرمتعصب واقعیت) کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، خاص طور پر ایسے حالات میں جہاں تنازعات کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم غصے میں ہوتے ہیں تو ہماری عقل(فیصلوں) پر بادل چھا جاتے ہیں، اور ہم غیرمنصفانہ یا جانبدارانہ فیصلے کر سکتے ہیں۔ جب تک کہ ہم پرسکون اور مرتب نہ ہوں انتظار کرکے، ہم یہ کر سکتے ہیں:
- زیادہ واضح طور پر سوچنا۔
- زیادہ معروضی طور پر سننا۔
- زیادہ باخبر فیصلے کرنا۔
- تنازعات کو زیادہ مؤثر طریقے سے حل کرنا۔
دعا ہے کہ ہم ایک قدم پیچھے ہٹنے، پرسکون ہونے، اور قریب ہونے کو یاد رکھیں واضح اور بہتر فیصلوں سے۔
غصہ کا علاج
حکیمانہ فرمانِ نبوی:
إذا غَضِبَ أحدُكم فلْيسكتْ.
"جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہئے کہ وہ خاموش ہوجائے۔"
[جامع الصغیر:695، الصحيحة:1375]
﴿الأدب المفرد:245، مسند احمد:2136﴾
یہ فرمان ہمیں غصے یا پریشان ہونے پر خاموش رہنے کا مشورہ دیتی ہے، بجائے اس کے کہ ہم جذباتی طور پر یا تکلیف سے بات کریں۔ یہ ایک یاد دہانی ہے کہ پرسکون ہونے، سوچنے اور سوچ سمجھ کر جواب دینے کے لیے ایک لمحہ خاموش رہیں، بجائے اس کے کہ سختی سے یا افسوس کا اظہار کریں۔
غصے کے دوران خاموشی ہماری مدد کرتی ہے:
- تکلیف دہ الفاظ سے پرہیز کرنے میں۔
- تنازعات(جھگڑوں) کو روکنے میں۔
- اپنے جذبات پر غور کرنے میں۔
- تعمیری جواب دینے میں۔
لہٰذا ہمیں غصے کے لمحات میں دانشمندانہ خاموشی کی مشق کرنی چاہئے۔
"جب غصہ آئے تو کہو: میں مانگتا ہوں اللہ کی شیطان مردود سے"۔
[سنن ترمذی:3452]
یہ پیغمبر کا قول اور اللہ سے ایک دعا ہے۔ جب ہم غصے جیسے منفی جذبات سے مغلوب ہوتے ہیں تو حفاظت اور رہنمائی کی تلاش کرتے ہیں۔ اس جملے کو پڑھ کر ہمیں:
- شیطان کے وسوسوں (غلط خیالات) سے اپنی کمزوری کو تسلیم کریں۔
- اللہ کی پناہ اور ہدایت طلب کریں۔
- اپنے جذبات پر قابو پانے کے لیے مدد طلب کریں۔
- اللہ کی پناہ میں امن اور خاموشی تلاش کریں۔
ہمیں غصے اور مایوسی کے وقت اللہ کی پناہ مانگنا یاد رکھنا چاہئے۔
"غصہ شیطان کے اثر سے ہے، شیطان کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے، لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہیے کہ وضو کرے۔"
[سنن ابوداؤد:4786]
یہ فرمانّ پیغمبر تجویز کرتا ہے کہ:
- کسی سے غصہ دلانے والا دراصل شیطان ہوتا ہے۔
- شیطان کی طاقت کو پانی(وضو) سے کم کیا جا سکتا ہے۔
- وضو کرنے سے دماغ اور جسم کو پرسکون اور پاک کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
لہٰذا جب غصہ آئے تو ہم روحانی صفائی اور سکون حاصل کرنے کی طرف توجہ دیں۔
ایک دانشمندانہ اور عملی مشورہ!
"جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے، اگر وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے، اگر غصہ اتر جائے تو اچھا اور اچھا، ورنہ لیٹ جائے۔"
[سنن ابوداؤد:4782]
یہ فرمانِ۔ نبوی نصیحت کرتا ہے کہ جب ہم غصہ محسوس کریں تو ہمیں چاہیے کہ:
- بیٹھ کر یا لیٹ کر"پرسکون"ہوں۔
- صورتحال سے وقفہ لیں۔
- اپنے آپ کو سوچنے اور ٹھنڈا ہونے کے لیے وقت دیں۔
- جذباتی یا جارحانہ طور پر زبانی یا عملی رد عمل ظاہر کرنے سے گریز کریں۔
لہٰذا جب غصہ آجائے تو ہم ایک قدم پیچھے ہٹنا، سانس لینا، اور پرسکون ہونا یاد رکھیں!
اے الله! نبی محمد(ﷺ)کے پالنہار! بخش دے میرے گناہ، اور دور کر غصہ میرے دل کا، اور بچا مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے جب تکہ تو مجھے زندہ رکھے۔
[جامع الاحادیث:15323]
[مسند احمد:26576]
تفسیر الطبری:6652، تفسیر الثعلبی:712»سورۃ آل عمران:8
اے اللہ! نبی محمد(ﷺ)کے رب! بخشدے میرے گناہ، اور دور کردے میرے دل کے غصہ کو، اور بچا مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں(امتحانات) سے جب تک تو مجھے ژندہ رکھے۔
[مسند احمد:26576]
تفسیر الطبری:6652، تفسیر الثعلبی:712»سورۃ آل عمران:8
انبیاء و رسول بشر(مرد) تھے:
[دلائلِ قرآن: سورة آل عمران: 164 ابراھیم:11 بنی اسرائیل: 93-95 الکھف:110 الأنبیاء:7-8 فصلت:6]
الحدیث:
اللهُمَّ إنَّما محمَّدٌ بَشَرٌ، يغضَبُ كما يغضَبُ البشَرُ، وإنِّي قد اتَّخَذتُ عندك عهدًا لن تُخلِفَنِيه؛ فأيُّما مُؤمِنٍ آذيتُه، أو سبَبتُه، أو جَلَدتُه، فاجعَلْها له كفَّارةً، وقُربةً تُقَرِّبُه بها إليك يومَ القيامةِ.
ترجمہ:
…”اے اللہ! (میں)محمد بھی ایک بشر ہی ہیں، ان کو بھی غصہ آتا ہے جس طرح اور انسانوں کو غصہ آتا ہے. اور میں آپ کے یہاں سے ایک عہد لینا چاہتا ہوں، آپ اس کے خلاف نہ کیجئے! کیونکہ میں بھی ایک انسان ہی ہوں، پس جس موٴمن کو میں نے ایذا دی ہو، گالی دی ہو، لعنت کی ہو، اس کو مارا ہو، آپ اس کے لئے اس کو رحمت و پاکیزگی بنادیجئے کہ آپ اس کی وجہ سے اس کو قیامت کے دن اپنا قرب عطا فرمائیں۔”
[صحيح مسلم: كتاب البر، باب من لعنه النبي...حديث#2600]
حدیث:
اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا، لیکن اس نے آنے سے انکار کردیا اور مرد اس پر غصہ ہو کر سو گیا، تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔
[صحیح بخاری:3237، صحیح مسلم:3538(1436)]
تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃ النساء:34
شوہر کو راضی کرنے کا نبوی نسخہ»
جب تم غصے ہو جاؤ یا اس سے ناراضگی کا اظہار کرو (یا اس کا شوہر اس سے غصے ہو جائے) تو وہ(بیوی) کہے: یہ میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک آپ راضی نہیں ہوں گے...میں ایک لقمہ بھی نہیں چکھوں گی۔
[الصحيحة:287(272)، شعب الایمان:8474]
...میں سرمہ نہیں ڈالوں گی۔
الصحيحة:3380(1911)، المعجم الكبير للطبراني:15637، المعجم الأوسط للطبراني:1810]
اور اگر اس نے والدین میں سے کسی کو غصہ دلایا تو الله اس سے راضی نہ ہوگا جب تک کہ وہ اس سے راضی نہ ہوں۔ عرض کیا گیا: اگرچہ والدین نے اس پر ظلم کیا ہو؟ فرمایا: اگرچہ والدین نے اس پر ظلم کیا ہو۔
[الادب المفرد للبخاری:1/46، باب بر الوالدین حدیث#7]
No comments:
Post a Comment