Saturday 15 June 2024

اللہ کی رحمت کی وسعت

 

الرحمۃ وہ رقتِ قلب(یعنی دل کی نرمی ہے) جو مرحوم (یعنی جس پر رحم کیا جائے) پر "احسان" کی مقتضی(یعنی ضرورت محسوس کرتی) ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقتِ قلب کے معنیٰ میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنیٰ میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو۔ اسی معنیٰ میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے:

لما خلق الله الرحم، قال: أنا الخ قوگببب ےرحمن، وأنت الرحم، شقتت لك اسماً من اسمي، فو عزتي وجلالي لأصلن من وصلك، ولأقطعن من قطعك.

ترجمہ:

جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا: میں رحمان ہوں اور تو رحم ہے۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ (یعنی صلہ رحمی کرے گا) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلے گا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا۔

[جامع الأحادیث:14996، تفسير الراغب.الاصفهاني:1/51]

اس حدیث میں بھی معنیٰ سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنیٰ پائے جاتے ہیں۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے، احسان کو اپنے لیے خاص کرلیا ہے۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اس کا وہ معنیٰ جو لوگوں میں پایا جاتا ہے، وہ بھی اس معنیٰ سے ماخوذ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنیٰ میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے:

یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنیٰ بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے:

إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

[سورۃ البقرة: 182]

بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اور آنحضرت کے متعلق فرمایا:

لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ

[سورۃ التوبة:128]

لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے (اور) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق (اور) مہربان ہیں۔

بعض نے رحمٰن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمٰن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے، جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے۔ اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی۔ جیسا کہ آیت:- 

وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ

[سورۃ الأعراف:156]

ہماری جو رحمت ہے وہ (اہل و نااہل) سب چیزوں کو شامل ہے۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے۔

میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمتِ الٰہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے، لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے۔





اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

 مَنْ لَا يَرْحَمُ النَّاسَ لَا يَرْحَمْهُ اللَّهُ

ترجمہ:

*جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔*

[سنن ترمذی:2381]

*(لہٰذا) تم اہلِ زمین پر رحم کرو آسمان والا (اللہ) تم پر رحم کرے گا۔*

[سنن الترمذي: 1924، سنن أبي داود: 4941]


فقہ الحدیث:

(1)بچے کے ساتھ مہربانی اور اسے بوسہ دینا، اور اگلے لگانا(چاہئے).

[صحیح بخاری:5997(بیھقی:13582)]

(2)آدمی اور جانوروں کے ساتھ مہربانی کرنا۔

[صحیح بخاری:6013]

(3)اللہ کا فرمان کہ اے پیغمبر! آپ کہہ دیجئے: اللہ کے نام سے پکارو یا رحمان کے نام سے، جس نام سے بھی پکارو اچھے اچھے نام اسی کے ہیں۔(سورۃ الاسراء:)

[صحیح بخاری:7376]

(4)نبی کی بچوں اور اہل وعیال سے شفقت اور آپ کی تواضع

[صحیح مسلم:6028+6030]

(5)باپ کا اولاد کو(محبت میں)چومنا۔

[سنن ابوداؤد:5218]

(6)میت پر رونا(آنسو نکلنا گناہ نہیں).

[سنن طحاوی:6836]

(7)بغیر آواز نکالے اور بغیر بین کئے (میت پر) رونے کی اجازت کا بیان۔

[بیھقی:7152]

(8)امیر کا انصاف کرنا، اور رعایا کی خیرخواہی۔رحمت۔شفقت۔درگذر کرنا جب تک حد(شرعی سزا) کو نہ پہنچے۔

[بیھقی:16648]

(9)لشکر کے معاملات میں حکمران کی ذمہ داری

[بیھقی:17909-17910]

(10)رحم کا ثواب ونتیجہ

[مصنف ابن ابی شیبہ:25864-25865-25867- 25871-25875]

(11)مصافحہ و معانقہ(ہاتھ اور گلے ملنا)

[مشکوٰۃ المصابیح:4678]

(12)مخلوق پر شفقت ورحمت

[مشکوٰۃ المصابیح:4947+4970]


(13)کمزوروں، بچوں، بوڑھوں، بیواؤں اور مسکینوں پر رحم کرنا۔

[کنز العمال:5965-5966-5971-5972 -5986-5987-5990]

(14)توبہ کی شرائط

[کنز العمال:10284]

(15)میت پر غمگین ہونا رحمت ہے۔

[کنز العمال:42505]

(16)بےرحم پر رحم نہیں کیا جاتا۔

[کنز العمال:44199]

(17)اولاد پر رشفقت ومہربانی۔

[کنز العمال:45961]





اللہ نے فرمایا:

۔۔۔(کوئی اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکے گا، کوئی مدد بھی نہیں کر سکے گا)سوائے اس کے جس پر وہ رحم فرمادے۔۔۔

[سورۃ ھود:43-119، الدخان:42]


۔۔۔اور اللہ "خاص" کرلیتا ہے اپنی رحمت سے جسے چاہتا ہے۔۔۔

[سورۃ البقرۃ:105، آل عمران:74]


یہی لوگ ہیں کہ جن پر(خصوصی)عنایتیں اور رحمت ہے ان کے رب سے۔۔۔۔

[سورۃ البقرۃ:157]


تفسیر القرآن(امام)ابن کثیر:

۔۔۔اور باہم نصیحت کی رحم کرنے کی۔

[سورۃ البلد:17]

















Monday 10 June 2024

اللہ کیلئے "تواضع" کی حقیقت وفضیلت

تواضع یہ نہیں کہ۔۔۔

(1)باطل-ناحق-حرام (شرط/صلح) کو تسلیم کیا جائے۔

[حوالہ»سورۃ الکافرون]

(2)کسی گناہ پر کبھی غصہ نہ کیا جائے۔

[حوالہ»بخاری:704،ترمذی:1973+2133]

(3)یا کسی ایسی مصیبت میں خود پڑا جائے کہ جسے جھیلنے کی طاقت نہ ہو۔

[حوالہ»ترمذی:2254، ابن ماجہ:4016]

(4)یا لوگوں کے آگے سر جھکائے بیٹھنے کا دکھلاوا کیا جائے۔

بلکہ

تواضع تو یہ ہے کہ۔۔۔

(1)اللہ کے حکم اور حکمت کے آگے سر تسلیم خم کیا جائے۔

[طبرانی:12939،الصحیحہ:538]

(2)دبائے جانے والے، کمزور، جن کی کوئی پرواہ نہیں کرتا، آزمائش والے، فضیلت والے مومن،عالم،حافظ کو خود سے افضل سمجھ کر اللہ کیلئے ان کا ساتھ دیا جائے، دعائیں لی جائیں۔

[طحاوی:7075، الصحیحہ:2877]

(3)اور اپنے کسی کمال وخوبی کے سبب کسی پر فخر نہ کرے، غرور وگھمنڈ نہ کرے، نہ اترائے، نہ شیخی بگھاڑے، محض رب کا انعام واحسان سمجھ کر اللہ کا شکر کیا جائے۔

[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃ النحل:23]




پیغمبرانہ تواضع

القرآن:

اور میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میرا نفس بالکل پاک صاف ہے، واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے، ہاں میرا رب رحم فرمادے تو بات اور ہے (کہ اس صورت میں نفس کا کوئی داؤ نہیں چلتا) بیشک میرا رب بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

[سورۃ نمبر 12 يوسف، آیت نمبر 53]

تفسیر:

حضرت یوسف ؑ کی تواضع اور عبدیت کا کمال دیکھئے کہ اس موقع پر جب ان کی بےگناہی خود ان عورتوں کے اعتراف سے ثابت ہوگئی، تب بھی اس پر اپنی بڑائی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے یہ فرما رہے ہیں کہ میں اس انتہائی خطرناک جال سے جو بچا ہوں اس میں میرا کوئی کمال نہیں نفس تو میرے پاس بھی ہے جو انسان کو برائی کی تلقین کرتا رہتا ہے، لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا رحم و کرم ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے اس کے فریب سے بچا لیتا ہے، البتہ دوسرے دلائل سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ رحم و کرم اسی پر ہوتا ہے جو گناہ سے بچنے کے لئے اپنی سی کوشش کر گزرے، جیسے حضرت یوسف ؑ نے دروازے تک بھاگ کر کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اس سے پناہ مانگے۔







القرآن:

(اے پیغمبر) درگزر کا رویہ اپناؤ، اور (لوگوں کو) نیکی کا حکم دو ، اور جاہلوں کی طرف دھیان نہ دو۔

[سورۃ نمبر 7 الأعراف، آیت نمبر 199]