Friday, 27 December 2024

خلیفہ اول، صحابی رسول حضرت ابوبکر صدیق، عتیق، یارِ غار، ارحم امت۔

نام،کنیت اور نسب

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام ﴿عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب﴾ ہے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسب سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔

[المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، 1:1]


آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہونے کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاتی ہیں:

عربی زبان میں ’’البکر‘‘ جوان اونٹ کو کہتے ہیں۔ جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘ کہتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لئے آپ بھی ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔

عربی زبان میں ابو کا معنی ہے ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنی ’’اولیت‘‘ کے ہیں۔ پس ابوبکر کے معنی ’’اولیت والا‘‘ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا۔

[مراة المناجيح، مفتی احمد يار خان نعيمی، 8: 347]

سیرت حلبیہ میں ہے کہ ﴿کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ﴾ ’’آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لئے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘۔













مشہور القاب

آپ رضی اللہ عنہ کے دو لقب زیادہ مشہور ہیں:

(1)عتیق

(2)صدیق

عتیق پہلا لقب ہے، اسلام میں سب سے پہلے آپ کو اسی لقب سے ہی ملقب کیا گیا۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام ’’عبداللہ‘‘ تھا، نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: اَنْتَ عَتِيْقٌ مِنَ النَّار ’’تم جہنم سے آزاد ہو‘‘۔ تب سے آپ رضی اللہ عنہ کا نام عتیق ہوگیا۔

[صحيح ابن حبان، کتاب اخباره عن مناقب الصحابة، ج9، ص6]


حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں ایک دن اپنے گھر میں تھی، رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام علیہم الرضوان صحن میں تشریف فرما تھے۔ اچانک میرے والد گرامی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے تو حضور نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی طرف دیکھ کر اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا:

مَنْ اَرَادَ اَنْ يَنْظُرَ الی عَتيقٍ مِنَ النَّارِ فَلْيَنْظُرْ اِلیٰ اَبی بَکْر.

ترجمہ:

’’جو دوزخ سے آزاد شخص کو دیکھنا چاہے، وہ ابوبکر کو دیکھ لے‘‘۔

[المعجم الاوسط-للطبراني:9384، المستدرک علی الصحيحين-للحاكم:4404، المعجم الكبير-للطبراني:10]


آپ رضی اللہ عنہ کے لقب ’’صدیق‘‘ کے حوالے سے حضرت سیدہ حبشیہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

يَا اَبَابَکْرٍ اِنَّ اللّٰهَ قَدْ سَمَّاکَ الصِّدِّيْق

ترجمہ:

’’اے ابوبکر! بے شک اللہ رب العزت نے تمہارا نام ’’صدیق‘‘ رکھا‘‘۔

[الاصابة فی تمييز الصحابة، حرف النون، 8: 332]

[جامع الأحاديث-للسيوطي:25499-43533، الديلمى:8271 کنز العمال:32615، 35664]

أخرجه أبو يعلى في معجمه ١/ ٤٢ - ٤٥ (١٠)، والضياء المقدسي في فضائل بيت المقدس ص ٨٠ - ٨٣ (٥٢). وتقدم طرفه مع تخريجه في تفسير قوله تعالى: {من المسجد الحرام} في هذه الآية. 

[موسوعة التفسير المأثور:42392، تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃ الاسراء:1]




ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کرائی گئی تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوسری صبح لوگوں کے سامنے اس مکمل واقعہ کو بیان فرمایا، مشرکین دوڑتے ہوئے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے:

هَلْ لَکَ اِلٰی صَاحِبِکَ يَزْعُمُ اَسْرٰی بِهِ اللَّيْلَةَ اِلَی بَيْتِ الْمَقْدَس؟

ترجمہ:

’’کیا آپ اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں جو آپ کے دوست نے کہی ہے کہ انہوں نے راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کی سیر کی؟‘‘

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واقعی یہ بیان فرمایا ہے؟

انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

لَئِنْ کَانَ قَالَ ذٰلِکَ لَقَدْ صَدَق.

ترجمہ:

’’اگر آپ نے یہ ارشاد فرمایا ہے تو یقینا سچ فرمایا ہے‘‘۔

انہوں نے کہا: ’’کیا آپ اس حیران کن بات کی بھی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ آج رات بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس بھی آگئے؟‘‘

آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

نَعَمْ! اِنِّیْ لَاُصَدِّقُهُ فِيْمَا هُوَ اَبْعَدُ مِنْ ذٰلِکَ اُصَدِّقُهُ بِخَبْرِ السَّمَاءِ فِیْ غَدْوَةٍ اَوْ رَوْحَة.

ترجمہ:

’’جی ہاں! میں تو آپ ﷺ کی آسمانی خبروں کی بھی صبح و شام تصدیق کرتا ہوں اور یقینا وہ تو اس بات سے بھی زیادہ حیران کن اور تعجب والی بات ہے‘‘۔

[المستدرک علی الصحيحين-للحاكم:4407 .4515 الصحيحة:306، تفسير للبغوي:1286،.تفسير الثعلبي:1693]


پس اس واقعہ کے بعد آپ رضی اللہ عنہ صدیق مشہور ہوگئے۔




قبول اسلام

حضرت سیدنا ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسلام آسمانی وحی کی مانند تھا، وہ اس طرح کہ آپ ملک شام تجارت کے لئے گئے ہوئے تھے، وہاں آپ نے ایک خواب دیکھا، جو ’’بحیرا‘‘ نامی راہب کو سنایا۔ اس نے آپ سے پوچھا:


’’تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ فرمایا: ’’مکہ سے‘‘۔ اس نے پھر پوچھا: ’’کون سے قبیلے سے تعلق رکھتے ہو؟‘‘ فرمایا: ’’قریش سے‘‘۔ پوچھا: ’’کیا کرتے ہو؟‘‘ فرمایا: تاجر ہوں۔ وہ راہب کہنے لگا: اگر اللہ تعالیٰ نے تمہارے خواب کو سچافرمادیا تو وہ تمہاری قوم میں ہی ایک نبی مبعوث فرمائے گا، اس کی حیات میں تم اس کے وزیر ہوگے اور وصال کے بعد اس کے جانشین۔


حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس واقعے کو پوشیدہ رکھا، کسی کو نہ بتایا اور جب سرکار صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کا اعلان فرمایا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہی واقعہ بطور دلیل آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا۔ یہ سنتے ہی آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گلے لگالیا اور پیشانی چومتے ہوئے کہا: ’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے سچے رسول ہیں‘‘۔

[الرياض النضرة، ابوجعفر طبری، 1: 83]



والدین کریمین

آپ رضی اللہ عنہ کے والد محترم کا نام عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر قرشی تیمی ہے۔ کنیت ابوقحافہ ہے۔ آپ فتح مکہ کے روز اسلام لائے اور آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیعت کی۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بھی زندہ رہے اور ان کے وارث ہوئے۔ آپ نے خلافت فاروقی میں وفات پائی۔

[تهذيب الاسماء واللغات، امام نووی، 1: 296]


آپ رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ کا نام سلمی بنت صخر بن عامر بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ ہے۔ کنیت ’’ام الخیر‘‘ ہے۔ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد کے چچا کی بیٹی ہیں۔ ابتدائے اسلام میں ہی آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرکے مشرف بہ اسلام ہوگئیں تھیں۔ مدینہ منورہ میں جمادی الثانی 13 ہجری میں وفات پائی۔

[الاصابة فی تمييز الصحابة، 8: 386]



ازواج اور اولاد

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ازواج (بیویوں) کی تعداد چار ہے۔ آپ نے دو نکاح مکہ مکرمہ میں کئے اور دو مدینہ منورہ میں۔ان ازواج سے آپ کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہوئیں۔ جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا پہلا نکاح قریش کے مشہور شخص عبدالعزی کی بیٹی ام قتیلہ سے ہوا۔ اس سے آپ رضی اللہ عنہ کے ایک بڑے بیٹے حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی حضرت سیدہ اسماء رضی اللہ عنہ پیدا ہوئیں۔

آپ رضی اللہ عنہ کا دوسرا نکاح ام رومان (زینب) بنت عامر بن عویمر سے ہوا۔ ان سے ایک بیٹے حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئیں۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تیسرا نکاح حبیبہ بنت خارجہ بن زید سے کیا۔ ان سے آپ رضی اللہ عنہ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئیں۔

آپ رضی اللہ عنہ نے چوتھا نکاح سیدہ اسماء بنت عمیس سے کیا۔ یہ حضرت سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں، جنگ موتہ کے دوران شام میں حضرت سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کرلیا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ان سے آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے آپ سے نکاح کرلیا۔ اس طرح آپ کے بیٹے محمد بن ابی بکر کی پرورش حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔

[الرياض النضرة،امام ابو جعفر طبری»1: 266]


حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھرانے کو ایک ایسا شرف حاصل ہے جو اس گھرانے کے علاوہ کسی اور مسلمان گھرانے کو حاصل نہیں ہوا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خود بھی صحابی، ان کے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ بھی صحابی، آپ کے تینوں بیٹے (حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ) بھی صحابی، آپ رضی اللہ عنہ کے پوتے بھی صحابی، آپکی بیٹیاں (حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ، حضرت سیدہ اسماء رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہ بنت ابی بکر) بھی صحابیات اور آپ کے نواسے بھی صحابی ہوئے۔


حضرت سیدنا موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم صرف چار ایسے افراد کو جانتے ہیں جو خود بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور شرف صحابیت پایا اور ان کے بیٹوں نے بھی اسلام قبول کرکے شرف صحابیت حاصل کیا۔ ان چاروں کے نام یہ ہیں:


ابوقحافہ عثمان بن عمر رضی اللہ عنہ

ابوبکر عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ

عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ

محمد بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ

[المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، الرقم: 11]




اہل بیت سے رشتہ داری

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ سے لے کر اپنی وفات تک کبھی بھی اہل بیت کی خدمت میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ آپ رضی اللہ عنہ کی اہل بیت سے یہ خصوصی محبت آپ رضی اللہ عنہ کی اولاد میں بھی منتقل ہوتی رہی اور آپ رضی اللہ عنہ نے اہل بیت سے ایک مضبوط رشتہ داری قائم فرمائی۔ جس کی تفصیل یہ ہے:

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی لاڈلی شہزادی حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کا نکاح 8 بعثت نبوی، شوال المکرم میں اپنے محبوب آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا۔

آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ یہ دونوں والدہ کی طرف سے بہنیں تھیں۔ ان کی والدہ محترمہ کا نام ’’ہند بنت عوف‘‘ ہے اور انہیں ’’خولہ بنت عوف‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ یوں اس مبارک رشتے سے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہم زلف ہوئے۔

[الطبقات الکبریٰ، ابن سعد، 8: 104]


حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے (یعنی حضرت اسماء بنت ابی بکر کے بیٹے) حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھتیجے بھی ہیں، کیونکہ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی اور حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی دادی (یعنی حضرت سیدنا زبیر بن عوام کی والدہ) حضرت سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہ ہیں۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر، حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کے داماد بھی ہیں۔ حضرت سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت سیدہ ام الحسن رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کی زوجہ ہیں۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ایک بیٹے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں جن کی والدہ حضرت سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ ہیں۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد ان سے امیرالمومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے نکاح فرمایا۔ چنانچہ اس لحاظ سے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے سوتیلے بیٹے ہوئے اور حضرت سیدنا امام حسن و حسین رضی اللہ عنہ آپ کے علاتی بھائی (یعنی باپ شریک بھائی) ہوئے۔

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترم حضرت سیدہ شہر بانو رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زوجہ دونوں آپس میں سگی بہنیں تھیں۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حضرت سیدنا حریث بن جابر جعفی رضی اللہ عنہ نے شاہ ایران یزد جرد بن شہر یار کی دو بیٹیاں آپ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان میں سے بڑی بیٹی حضرت سیدہ شہر بانو رضی اللہ عنہ کانکاح اپنے بیٹے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ سے فرمادیا اور چھوٹی بیٹی کانکاح حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمادیا۔

[لباب الانساب والالقاب والاعقاب، ظهيرالدين ابوالحسن علی بن زيدالبيهقی(565)، 1:22]


حضرت سیدنا امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ کا اسم گرامی حضرت سیدہ ام فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہے۔ جبکہ آپ رضی اللہ عنہ کے والد گرامی کا اسم مبارک حضرت سیدنا امام محمد باقر بن علی زین العابدین بن حسین بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہے۔ یوں آپ رضی اللہ عنہ والدہ کی طرف سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور والد کی طرف سے حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے جاملتے ہیں۔

[شرح العقائد:328]

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پوتی حضرت سیدہ حفصہ بنت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ، حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی زوجہ ہیں۔ یوں حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ اس حوالے سے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے داماد محترم ہوئے۔

[الطبقات الکبری لابن سعد، 8: 342]




حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اوصاف حمیدہ

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ وہ اپنے گرد پھیلی ہوئی گمراہیوں، غلط رسوم و رواج، اخلاقی و معاشرتی برائیوں سے پاک صاف ہونے کے ساتھ ساتھ اوصاف حمیدہ سے بھی متصف تھے۔ آپ کے اعلیٰ محاسن و کمالات اور خوبیوں کی بنا پر مکہ مکرمہ اور اس کے قرب و جوار میں آپ رضی اللہ عنہ کو محبت و عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ حضرت سیدنا سلیمان بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اچھی خصلتیں تین سوساٹھ ہیں اور اللہ جب کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کی ذات میں ایک خصلت پیدا فرمادیتا ہے اور اسی کے سبب اسے جنت میں بھی داخل فرمادیتا ہے۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا میرے اندر بھی ان میں سے کوئی خصلت موجود ہے؟ ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! تمہارے اندر تو یہ ساری خصلتیں موجود ہیں۔


عاجزی و انکساری

حضرت سیدہ انیسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے کے تین سال پہلے اور خلیفہ بننے کے ایک سال بعد بھی ہمارے پڑوس میں رہے۔ محلے کی بچیاں آپ رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی بکریاں لے کر آتیں، آپ ان کی دلجوئی کے لئے دودھ دوھ دیا کرتے تھے۔ جب آپ رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا تو محلے کی ایک بچی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی: اب تو آپ خلیفہ بن گئے ہیں، آپ ہمیں دودھ دوھ کر نہیں دیں گے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: کیوں نہیں! اب بھی میں تمہیں دودھ دوھ کر دیا کروں گا اور مجھے اللہ کے کرم سے یقین ہے کہ تمہارے ساتھ میرے رویے میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ چنانچہ خلیفہ بننے کے بعد بھی آپ رضی اللہ عنہ ان بچیوں کو دودھ دوھ کردیا کرتے تھے۔

[تهذيب الاسماء واللغات، امام نووی، 2: 480]


حضرت سیدنا یحییٰ بن سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ملک شام کی طرف چند لشکر بھیجے۔ ان میں حضرت سیدنا یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا لشکر بھی تھا۔ انہیں ملک شام کے چوتھائی حصے کا امیر مقرر کیا گیا تھا۔ ان کی روانگی کے وقت حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں چھوڑنے کے لئے ان کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے اور یہ گھوڑے پر سوار تھے۔ حضرت سیدنا یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

’’اے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ! یا تو آپ رضی اللہ عنہ سوار ہوجائیں یا میں اپنے گھوڑے سے اتر جاتا ہوں‘‘۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا:

مَااَنْتَ بِنَازِلٍ وَلَا اَنَا بِرَاکِبٍ اِنِّی اَحْتَسِبُ خُطَيَ هَذِهِ فِی سَبِيلِ اللّٰهِ.

ترجمہ:

’’نہ تو تم اپنے گھوڑے سے اترو گے اور نہ ہی میں سوار ہوں گا بلکہ میں تو اپنے ان قدموں کو راہ خدا میں شمار کرتا ہوں۔‘‘

[موطا امام مالک، کتاب الجهاد، الرقم: 1004]


حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ رات کے وقت مدینہ منورہ کے کسی محلے میں رہنے والی ایک نابینا بوڑھی عورت کے گھریلو کام کاج کردیا کرتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ اس کے لئے پانی بھر لاتے اور اس کے تمام کام سرانجام دیتے۔ حسب معمول ایک مرتبہ بڑھیا کے گھر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سارے کام ان سے پہلے ہی کوئی کرگیا تھا۔ بہر حال دوسرے دن تھوڑا جلدی آئے تو بھی وہی صورت حال تھی کہ سب کام پہلے ہی ہوچکے تھے۔ جب دو تین دن ایسا ہوا تو آپ کو بہت تشویش ہوئی کہ ایسا کون ہے جو مجھ سے نیکیوں میں سبقت لے جاتا ہے؟ ایک روز آپ دن میں ہی آکر کہیں چھپ گئے، جب رات ہوئی تو دیکھا کہ خلیفہ وقت امیرالمومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور اس نابینا بڑھیا کے سارے کام کردیئے۔ آپ رضی اللہ عنہ بڑے حیران ہوئے کہ خلیفہ وقت ہونے کے باوجود آپ اس بوڑھی خاتون کے تمام امور خوش دلی سے انجام دے رہے ہیں۔ ارشاد فرمایا: حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ سے نیکیوں میں سبقت لے جاتے ہیں۔

[کنزالعمال، کتاب الفضائل، الرقم: 35602]



اہل بیت پر شفقت

حضرت سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نماز عصر پڑھ کر باہر نکلے اور حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے جو اس وقت بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے نہایت ہی شفقت سے انہیں اٹھاکر اپنی گردن پر بٹھالیا اور فرمایا: مجھے میرے والد کی قسم! تو میرے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مشابہ ہے، اپنے والد حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے مشابہ نہیں۔ یہ سن کر حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مسکرانے لگ گئے۔

[صحيح البخاری، کتاب المناقب، الرقم: 3542]


حضرت سیدنا عبدالرحمن اصبہائی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا حسن بن علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ جب چھوٹے سے تھے تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، آپ اس وقت آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منبر پر رونق افروز تھے۔ حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے چونکہ ہمیشہ منبر پر اپنے نانا جان صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کو بیٹھے دیکھا تھا اس لئے ایک نئے شخص کو دیکھ کر اپنی ننھی سوچ کے مطابق کہنے لگے: آپ میرے بابا جان کی جگہ سے نیچے اترو۔ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ گوارا نہ فرمایا کہ شہزادہ اہل بیت کی دل شکنی ہو، لہذا آپ رضی اللہ عنہ فوراً نیچے تشریف لے آئے اور فرمایا: اے حسن رضی اللہ عنہ! تو نے سچ کہا یہ تیرے بابا جان ہی کی جگہ ہے۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو فرط محبت سے اٹھاکر اپنی گود میں بٹھالیا۔ اس موقع پر انہیں آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیتے ہوئے وہ انمول ایام یاد آگئے، ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور آپ رضی اللہ عنہ زاروقطار رو پڑے۔

[کنزالعمال، کتاب الخلافة مع الامارة، الرقم: 14081]



غیرتِ ایمانی

عام حالات میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہایت ہی نرم مزاج تھے ایسے معلوم ہوتا تھا کہ سختی، خفگی اور غصے سے تو آشنا ہی نہیں ہیں۔ دھیمے انداز میں آہستہ آہستہ بات کرتے مگر اسلام کے معاملے میں انتہائی غیرت مند اور بہت سخت تھے۔ مدینہ منورہ کے یہودیوں اور منافقوں کی طنزیہ باتوں پر تو آپ رضی اللہ عنہ شدید غصے میں آتے ہی تھے مگر اگر کبھی اپنے قریبی رشتہ داروں کی طرف سے بھی انہیں آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بے ادبی کا ہلکا سا بھی شائبہ ہوتا تو اس پر سخت ردعمل کا اظہار فرماتے۔


حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابوقحافہ نے (قبول اسلام سے پہلے) ایک بار آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہہ دیئے تو حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں اتنے زور سے دھکا دیا کہ وہ دور جاگرے۔ بعد میں آپ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارا ماجرا سنایا تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: اے ابوبکر! کیا واقعی تم نے ایسا کیا؟ عرض کیا: جی ہاں! فرمایا: آئندہ ایسا نہ کرنا۔ عرض کیا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! اگر اس وقت میرے پاس تلوار ہوتی تو میں ان کا سرقلم کردیتا۔ اس وقت سورۃ المجادلہ کی آیت نمبر22 آپ کے حق میں نازل ہوئی:

’آپ اُن لوگوں کو جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اُس کے رسول ( صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دشمنی رکھتا ہے خواہ وہ اُن کے باپ (اور دادا) ہوں یا بیٹے (اور پوتے) ہوں یا اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتہ دار ہوں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس (اللہ) نے ایمان ثبت فرما دیا ہے اور انہیں اپنی روح (یعنی فیضِ خاص) سے تقویت بخشی ہے، اور انہیں (ایسی) جنتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں، وہ اُن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، اللہ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے ہیں، یہی اﷲ (والوں) کی جماعت ہے، یاد رکھو! بے شک اﷲ (والوں) کی جماعت ہی مراد پانے والی ہے۔‘‘

فسير روح المعانی، تفسير سورة المجادله]


غزوہ بدر میں آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے سیدنا عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرنے سے پہلے مشرکین کے ساتھ اسلام کے خلاف جنگیں لڑتے تھے۔ جب وہ اسلام لے آئے تو ایک روز حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: ابا جان! میدان بدر میں ایک موقع پر آپ میری تلوار کی زد میں آئے لیکن میں نے آپ کو باپ سمجھ کر چھوڑ دیا۔ یہ سن کر حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے غیرت ایمانی سے بھرپور جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:


لٰکِنَّکَ لَو اَهْدَفْتَ لِیْ لَمْ اَنْصَرِفْ عَنْکَ.


’’لیکن اگر تو میرا ہدف بنتا تو میں تجھ سے اعراض نہ کرتا‘‘۔


یعنی اے بیٹے! اس دن تم نے تو مجھے اس لئے چھوڑ دیا کہ میں تمہارا باپ ہوں لیکن اگر تم میری تلوار کی زد میں آجاتے تو میں کبھی نہ دیکھتا کہ تم میرے بیٹے ہو بلکہ اس وقت تمہیں دشمن رسول سمجھ کر تمہاری گردن اڑادیتا۔

[نوادرالاصول،حکیم ترمذی، الرقم:710، 1:496]


حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ہر معاملہ آقا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی خاطر ہوتا تھا اور آپ رضی اللہ عنہ اس معاملے میں اپنے والدین اور اولاد وغیرہ کا بھی لحاظ نہ فرماتے تھے۔ ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ کو اپنی بیٹی حضر ت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی بلند آواز سنائی دی۔ آپ رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہوئے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو تھپڑ مارنے کے لئے ہاتھ اٹھاکر آگے بڑھے:


اَلاَ اَرَاکِ تَرْفَعِيْنَ صَوْتَکِ عَلَی رَسُولِ اللّٰهِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم.


’’یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں کہ تم رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اپنی آواز بلند کررہی ہو‘‘۔


یہ حالت دیکھ کر رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کو تھپڑ مارنے سے روکا۔ آپ رضی اللہ عنہ اسی طرح غصے کی حالت میں واپس تشریف لے گئے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراً سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:


کَيْفَ رَاَيْتِنِی اَنْقَذْتُکِ مِنَ الرَّجُلِ.


’’دیکھا! میں نے تمہیں ان سے کس طرح بچایا‘‘۔


چند دنوں کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کاشانہ نبوی میں حاضر ہوئے تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلماور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کو باہم راضی اور خوش دیکھا تو بارگاہ رسالت میں یوں عرض گزار ہوئے:

اَدْخِلَانِی فِی سِلْمِکُمَا کَمَا اَدْخَلْتُمَانِی فِی حَرْبِکُمَا.

ترجمہ:

’’یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! جس طرح آپ نے مجھے اپنی ناراضگی میں شریک کیا تھا، اسی طرح مجھے اپنی صلح (خوشی) میں بھی شریک فرمالیجئے۔‘‘


آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

قَدْ فَعَلْنَا قَدْ فَعَلْنَا.

ترجمہ:

’’ہم نے آپ کو شریک کرلیا، شریک کرلیا‘‘

[سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب ماجاء فی المزاح، الرقم: 4999]



بطورِ امیرالمومنین ذریعہ معاش

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیعت خلافت کے دوسرے روز کچھ چادریں لے کر بازار جارہے تھے، حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ آپ رضی اللہ عنہ کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟ فرمایا: بغرض تجارت بازار جارہا ہوں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اب آپ رضی اللہ عنہ یہ کام چھوڑ دیجئے، اب آپ لوگوں کے خلیفہ (امیر) ہوگئے ہیں۔ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میں یہ کام چھوڑ دوں تو پھر میرے اہل و عیال کہاں سے کھائیں گے؟ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: آپ رضی اللہ عنہ واپس چلئے، اب آپ رضی اللہ عنہ کے یہ اخراجات حضرت سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ طے کریں گے۔ پھر یہ دونوں حضرات حضرت سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور ان سے حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل و عیال کے واسطے ایک اوسط درجے کے مہاجر کی خوراک کا اندازہ کرکے روزانہ کی خوراک اور موسم گرما و سرما کا لباس مقرر کیجئے لیکن اس طرح کہ جب پھٹ جائے تو واپس لے کر اس کے عوض نیا دے دیا جائے۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے آدھی بکری کا گوشت، لباس اور روٹی مقرر کردی۔

[تاريخ الخلفاء، امام سيوطی، ص59]


امام عالی مقام سیدنا امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: دیکھو! یہ اونٹنی جس کا ہم دودھ پیتے ہیں اور یہ بڑا پیالہ جس میں کھاتے پیتے ہیں اور یہ چادر جو میں اوڑھے ہوئے ہوں یہ سب بیت المال سے لیا گیا ہے۔ ہم ان سے اسی وقت تک نفع اٹھاسکتے ہیں جب تک میں مسلمانوں کے امور خلافت انجام دیتا رہوں گا۔ جس وقت میں وفات پاجائوں تو یہ تمام سامان حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دے دینا۔ چنانچہ جب آپ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوگیا تو ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے یہ تمام چیزیں حسب وصیت واپس کردیں۔ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے چیزیں واپس پاکر فرمایا:

’’اے ابوبکر! اللہ آپ پر رحم فرمائے کہ آپ نے تو اپنے بعد میں آنے والوں کو تھکادیا ہے‘‘۔

[تاريخ الخلفاء، امام سيوطی، ص60]


حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ اور بارگاہِ رسالت مآب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خصوصی اہمیت و فضیلت حاصل تھی۔ قرآن مجید کی تقریباً 32 آیات آپ کے متعلق ہیں جن سے آپ کی شان کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ مجھ پر جس کسی کا احسان تھا میں نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے مگر ابوبکر کے مجھ پر وہ احسانات ہیں جن کا بدلہ اللہ تعالیٰ روز قیامت انہیں عطا فرمائے گا۔




مناقبِ حضرت ابوبکر»
(1)خلیلِ رسول اللہ ﷺ »

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ مَا لِأَحَدٍ عِنْدَنَا يَدٌ إِلَّا وَقَدْ كَافَيْنَاهُ مَا خَلَا أَبَا بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا يَدًا يُكَافِيهِ اللَّهُ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ،‏‏‏‏ وَمَا نَفَعَنِي مَالُ أَحَدٍ قَطُّ مَا نَفَعَنِي مَالُ أَبِي بَكْرٍ،‏‏‏‏ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا أَلَا وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ .
قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ.

ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی کا ہمارے اوپر کوئی ایسا احسان نہیں جسے میں نے چکا نہ دیا ہو سوائے ابوبکر کے، کیونکہ ان کا ہمارے اوپر اتنا بڑا احسان ہے کہ جس کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن انہیں اللہ ہی دے گا، کسی کے مال سے کبھی بھی مجھے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا مجھے ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے، اگر میں کسی کو خلیل (گہرا دوست) بنانے والا ہوتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا، سن لو تمہارا یہ ساتھی (یعنی خود) اللہ کا خلیل ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
[سنن الترمذي:3661]
حکم الحدیث: 
[صحيح ابن ماجة-الألباني:94]
[تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورۃ التوبہ:40]


شواہد:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ عَاصِبًا رَأْسَهُ فِي خِرْقَةٍ فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّهُ لَيْسَ أَحَدٌ أَمَنَّ عَلَيَّ فِي نَفْسِهِ وَمَالِهِ مِنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةَ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ النَّاسِ خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا وَلَكِنْ خُلَّةُ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ سُدُّوا عَنِّي كُلَّ خَوْخَةٍ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ غَيْرَ خَوْخَةِ أَبِي بَكْرٍ
ترجمہ:
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ اپنے مرض الوفات میں اپنے سر مبارک پر پٹی باندھے ہوئے نکلے، منبر پر رونق افروز ہوئے، اللہ کی حمدوثناء بیان کی اور فرمایا کہ اپنی جان اور اپنے مال کے اعتبار سے ابوبکر بن ابی قحافہ ؓ سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والا کوئی نہیں ہے، اگر میں انسانوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلام کی خلقت سب سے افضل ہے، اس مسجد میں کھلنے والی ہر کھڑکی کو بند کردو، سوائے ابوبکر ؓ کی کھڑکی کے۔
[مسند احمد:(2306)]


حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا (کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے) بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے یعنی آخرت۔ یہ سن کر ابوبکر ؓ رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر اللہ نے اپنے کسی بندے کو دنیا اور آخرت میں سے کسی کو اختیار کرنے کو کہا اور اس بندے نے آخرت پسند کرلی تو اس میں ان بزرگ کے رونے کی کیا وجہ ہے۔ لیکن یہ بات تھی کہ بندے سے مراد رسول اللہ ﷺ ہی تھے اور ابوبکر ؓ ہم سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا۔ ابوبکر آپ روئیے مت۔ اپنی صحبت اور اپنی دولت کے ذریعہ تمام لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والے آپ ہی ہیں اور اگر میں کسی کو خلیل(جانی دوست) بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ لیکن (جانی دوستی تو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ہوسکتی) اس کے بدلہ میں اسلام کی برادری اور دوستی کافی ہے۔ مسجد میں ابوبکر ؓ کی طرف کے دروازے کے سوا تمام دروازے بند کر دئیے جائیں۔
[صحیح بخاری:466، صحیح مسلم:(6179)،۔سنن الترمذی:3655، موطا امام محمد:(944)]


حضرت جندب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے آپ ﷺ کے وصال سے پانچ دن پہلے سنا آپ ﷺ فرما رہے تھے کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس چیز سے بری ہوں کہ تم میں سے کسی کو اپنا دوست بناؤں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنایا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خلیل بنایا تھا، اور اگر میں اپنی امت سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر ؓ کو بناتا۔ آگاہ ہوجاؤ! کہ تم سے پہلے لوگوں نے اپنے نبیوں اور نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا میں تمہیں اس سے روکتا ہوں۔
[صحیح مسلم:(1188) المعجم الاوسط للطبرانی:4357، المعجم الکبیر للطبرانی:1686]


حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نبی ﷺ سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں ﴿اپنی امت میں﴾ (اللہ کے سوا) کسی کو خلیل بناتا تو ﴿ابوقحافہ کے بیٹے﴾ ابوبکر ؓ کو بناتا لیکن حضرت ابوبکر ؓ تو میرے بھائی اور میرے صحابی (ساتھی) ہیں اور تمہارے صاحب کو تو اللہ عزوجل نے خلیل بنا لیا ہے۔
[صحیح مسلم:(6172)-﴿6173-6176﴾ المعجم الاوسط للطبرانی:773+1393+6265+8347]


حضرت ابومعلی کی حدیث۔

عَنِ ابْنِ أَبِي الْمُعَلَّى عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ يَوْمًا فَقَالَ إِنَّ رَجُلًا خَيَّرَهُ رَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَيْنَ أَنْ يَعِيشَ فِي الدُّنْيَا مَا شَاءَ أَنْ يَعِيشَ فِيهَا يَأْكُلُ مِنْ الدُّنْيَا مَا شَاءَ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا وَبَيْنَ لِقَاءِ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَاخْتَارَ لِقَاءَ رَبِّهِ قَالَ فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ هَذَا الشَّيْخِ أَنْ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا صَالِحًا خَيَّرَهُ رَبُّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ لِقَاءِ رَبِّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَاخْتَارَ لِقَاءَ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَعْلَمَهُمْ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَلْ نَفْدِيكَ بِأَمْوَالِنَا وَأَبْنَائِنَا أَوْ بِآبَائِنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا مِنْ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنُّ عَلَيْنَا فِي صُحْبَتِهِ وَذَاتِ يَدِهِ مِنْ ابْنِ أَبِي قُحَافَةَ وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ وَلَكِنْ وُدٌّ وَإِخَاءُ إِيمَانٍ وَلَكِنْ وُدٌّ وَإِخَاءُ إِيمَانٍ مَرَّتَيْنِ وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
ترجمہ:
حضڑت ابومعلی سے مروی ہے کہ ایک دن نبی نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص کو اللہ نے اس بات میں اختیار دیدیا ہے کہ جب تک چاہے دنیا میں رہے اور جو چاہے کھائے یا اپنے رب کی ملاقات کے لئے آجائے اس نے اپنے رب سے ملنے کو ترجیح دی یہ سن کر حضرت صدیق اکبر رونے لگے صحابہ کرام کہنے لگے ان بڑے میاں کو تو دیکھو نبی ﷺ نے ایک نیک آدمی کا ذکر کیا جسے اللہ نے دنیا اور اپنی ملاقات کے درمیان اختیار دیا اور اس نے اپنے رب سے ملاقات کو ترجیح دی لیکن نبی ﷺ کے ارشاد کی حقیقت کو ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے حضرت ابوبکر تھے حضرت ابوبکر کہنے لگے کہ ہم اپنے مال دولت بیٹوں اور آباء اجداد کو آپ کے بدلے میں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں نبی ﷺ نے فرمایا لوگوں میں اپنی رفاقت اور اپنی مملوکہ چیزوں میں مجھ پر ابن ابی قحاف سے زیادہ کسی کے احسانات نہیں ہیں اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابن ابی قحافہ کو بناتا لیکن یہاں ایمانی اخوت مودت ہی کافی ہے یہ جملہ دو مرتبہ ارشاد فرمایا اور تمہارا پیغمبر خود اللہ کا خلیل ہے۔
[مسند احمد:(15359)(17181)]

حضرت ابو واقد اللیثی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر میں ﴿اپنی امت میں﴾ (اللہ کے سوا) کسی کو خلیل بناتا تو ﴿ابوقحافہ کے بیٹے﴾ ابوبکر ؓ کو بناتا لیکن تمہارے صاحب کو تو اللہ عزوجل نے خلیل بنا لیا ہے۔
[المعجم الکبیر للطبرانی:3297]




حضرت زید بن ابی روفی ؓ سے روایت ہے کہ: میں مسجد میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ ﷺ نے فرمایا: فلاں شخص کہاں ہے؟ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے چہروں کو دیکھ دیکھ کر حاضری لینی شروع کردی اور جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین موجود نہیں تھے ان کے پاس آدمی بھیج کر انھیں اپنے پاس منگواتے رہے حتی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین آپ کے پاس جمع ہوگئے جب صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین آپ ﷺ کے پاس جمع ہو گے آپ ﷺ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا: میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں اسے یاد رکھو اور اپنے بعد آنے والے لوگوں کو بھی سناتے رہو چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی مخلوقات میں سے ایک مخلوق کو چنا ہے پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:- ﴿اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرشتوں اور انسانوں میں سے رسولوں کو منتخب فرمایا ہے۔ (سورۃ الحج:75)﴾ اللہ نے ایک مخلوق کو منتخب کیا ہے جسے جنت میں داخل کرے گا میں تم میں سے ان لوگوں کو منتخب کرتا ہوں جنہیں میں منتخب کرنا پسند کروں گا۔ میں تمہارے درمیان مواخات قائم کروں گا جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرشتوں کے درمیان مواخات قائم کی ہے۔ اے ابوبکر ؓ کھڑے ہوجاؤ اور میرے سامنے زانوؤں پر بیٹھ جاؤ میرے ہاں تمہارا ایک مقام ہے اللہ تبارک وتعالیٰ تمہیں اس کا بدلہ عطا فرمائے اگر میں کسی کو اپنا خلیل (دوست) بناتا میں تمہیں اپنا خلیل بناتا تو تمہارا میرا ساتھ ایسا ہی تعلق ہے جیسا کہ میرے بدن سے میری قمیص کا تعلق ہے۔ پھر سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ ایک طرف ہٹ گئے پھر فرمایا: اے عمر ؓ میرے قریب ہوجاؤ سیدنا حضرت عمر بن خطاب ؓ آپ ﷺ کے قریب ہوگئے آپ ﷺ نے فرمایا اے ابو حفص! تم ہمارے ساتھ سخت جھگڑا کرتے تھے میں نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا کی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ سے یا ابوجہل بن ہشام سے اسلام کو عزت عطا فرمائے تاہم یہ بھلائی تمہارے حصہ میں آئی تم مشرکین میں سے سب سے زیادہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو محبوب تھے تم میرے ساتھ جنت میں اس امت کے تین کے تیسرے ہو پھر عمر ؓ الگ ہوگئے اور آپ نے سیدنا حضرت عمر بن خطاب ؓ اور سیدنا حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے درمیان مواخات قائم کی، پھر سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کو بلایا اور فرمایا: اے ابو عمرو میرے قریب ہوجاؤ میرے قریب ہوجاؤ، وہ برابر قریب ہوتے رہے حتی کہ اپنے گھٹنے نبی کریم ﷺ کے گھٹنوں سے ملا لیے پھر نبی کریم ﷺ نے آسمان کی طرف دیکھ کر تین بار فرمایا۔ " سبحان اللہ العظیم " پھر آپ نے سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کی طرف دیکھا ان کی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے آپ نے اپنے ہاتھوں سے بٹن بند کردیئے پھر فرمایا: اپنی چادر کے پلو اپنے سینے پر ڈال لو فرمایا اہل آسمان میں تمہاری ایک شان ہے تم بھی ان لوگوں میں سے ہو جو میرے حوض پر میرے پاس وارد ہوں گے جبکہ تمہاری رگوں سے خون رس رہا ہوگا، میں تم سے پوچھوں گا: یہ تمہارے ساتھ کس نے کیا ہے؟ تم کہو گے فلاں اور فلاں نے یہ جبرائیل امین کا کلام ہوگا جبکہ پکارنے والا آسمان سے پکار رہا ہوں گا اور کہتا ہوگا خبردار! عثمان ؓ کو ہر شخص کا امیر مقرر کردیا گیا ہے، پھر سیدنا حضرت عثمان ذوالنورین ؓ الگ ہوگئے پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ کو بلایا: حکم ہوا اے اللہ کے امین میرے قریب ہوجاؤ تو اللہ کا امین ہے، آسمانوں میں تمہارا نام امین ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال پر برحق مسلط کیا ہے میں نے تمہارے لیے اک دعوت کا وعدہ کیا تھا جسے میں نے مؤخر کردیا ہے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ آپ اسے مؤخر کردیں۔ فرمایا: اے عبدالرحمن ؓ تم نے بار امانت اٹھایا ہے اے عبدالرحمن تمہاری ایک شان ہے اللہ تعالیٰ تمہارے مال کو زیادہ کرے۔ آپ نے ہاتھوں سے یوں اور یوں اشارہ کیا۔ ہمیں آپ کے اشارے کی کیفیت حسین بن محمد نے یوں بتائی کہ گویا وہ دونوں ہاتھ بھر رہے ہوں پھر عبدالرحمن ؓ ایک طرف ہٹ گئے آپ ﷺ نے حضرت عبدالرحمن اور حضرت عثمان ؓ کے درمیان مواخات قائم کی پھر حضرت طلحہ ؓ اور حضرت زبیر ؓ کو بلایا اور ان سے فرمایا: میرے قریب ہوجاؤ وہ دونوں آپ کے قریب ہوگئے، آپ ﷺ نے فرمایا: تم دونوں میرے حواری ہو جیسے عیسیٰ بن مریم کے حواری تھے پھر ان دونوں کے درمیان مواخات قائم کی پھر حضرت عمار بن یاسر ؓ اور حضرت سعدی ؓ کو بلایا اور ارشاد فرمایا: اے عمار! تجھے باغی ٹولا قتل کرے گا پھر آپ نے حضرت عمار ؓ اور حضرت سعد ؓ کے درمیان مواخات قائم کی۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت عویمر بن زید ابو درداء ؓ اور سلمان فارسی ؓ کو بلایا ارشاد فرمایا: اے سلمان! تم ہم اہل بیت میں سے ہو، اللہ تعالیٰ نے تمہیں اول وآخر کا علم عطا فرمایا ہے کتاب اول اور کتاب آخر کا علم عطا کیا ہے پھر فرمایا: کیا میں اچھی بات میں تمہاری رہنمائی نہ کروں؟ عرض کیا جی ہاں! یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ نے فرمایا: اگر تم ان کے عیب نکالو گے وہ تمہارے عیب نکالیں گے، اگر تم انھیں چھوڑ دو گے وہ تمہیں چھوڑیں گے اگر تم ان سے بھاگو گے وہ تمہیں پکڑ لیں گے انھیں اپنی عزت ان کے ذمہ میں قیامت کے دن کے لیے دے دو جان لو بدلہ تمہارے سامنے ہے پھر حضرت عمار ؓ اور حضرت سلمان ؓ کے درمیان مواخات قائم کردی پھر آپ ﷺ نے اپنی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے چہروں پر نظر دوڑائی اور ارشاد فرمایا: خوش ہوجاؤ اور اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو تم پہلے لوگ ہو جو میرے حوض پر میرے پاس آؤ گے، تم عالیشان بالاخانوں میں ہوگے پھر آپ نے عبداللہ بن عمر ؓ کی طرف دیکھا اور فرمایا: تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے ضلالت سے نکال کر ہدایت کی راہ دکھائی اور جسے چاہا ضلالت پر رکھا سیدنا حضرت علی المرتضی ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ میری روح نکل چکی میری کمر ٹوٹ گئی جب میں نے آپ ﷺ کو اپنی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے درمیان مؤاخات قائم کرتے دیکھا اور مجھے الگ چھوڑے رکھا اگر میرے ساتھ یہ برتاؤ کسی ناراضگی کی وجہ سے ہے تو سزا اور عزت افزائی کا اختیار بلاشبہ آپ کو ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں نے تمہیں اپنے لیے مؤخر کیا ہے تمہارا میرے ساتھ تعلق ایسا ہی ہے جیسا کہ ہارون (علیہ السلام) کا موسیٰ (علیہ السلام) سے تھا البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا، تم میرے بھائی اور میرے وارث ہو سیدنا حضرت علی المرتضی ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ سے وارثت میں کیا پاؤں گا؟ فرمایا: وہی چیز جو مجھ سے پہلے انبیاء وارثت میں چھوڑتے رہے ہیں عرض کیا: انبیاء وراثت میں کیا چھوڑتے رہے ہیں؟ فرمایا: اللہ کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت۔ تم فاطمہ ؓ کے ساتھ جنت میں میرے محل میں میرے ساتھ ہو گے تم میرے بھائی اور میرے رفیق ہو۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:-﴿وہ آپس میں بھائی بھائی ہوں گے اور مسہریوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے(سورۃ الحجر:47)﴾ یہ وہ لوگ ہوں گے جو محض اللہ کی رضا کے لیے آپس میں محبت کرتے ہوں گے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔
[المعجم الکبیر للطبرانی:5146، تفسیر الدر المنثور-امام السیوطی»سورہ الحج:75]

شیخ جلال الدین سیوطی (م911ھ) کہتے ہیں ائمہ حدیث کی ایک بڑی جماعت نے یہ حدیث روایت کی ہے مثلا بغوی، طبرانی نے مجمع الصغیر والکبیر میں باوردی نے معرفہ میں اور ابن عدی نے اس حدیث کے متعلق میرے دل میں کچھ تردد تھا لیکن میں نے ابو احمد حاکم الکنی میں امام بخاری سے بھی روایت کرتے دیکھا اور اس کی سندیوں ہے حسان بن حبان،، ابراہیم بن بشیر ابو عمر ویحیی بن معن ابراہیم قرشی، سعد بن شرجیل زید بن ابی اوفی۔ پھر کہا: یہ سند مجہول ہے اس کا کوئی متابع نہیں پھر سند میں مذکورروایت کا ایک دوسرے سے سماع بھی ثابت نہیں۔
[کنزالعمال:25555]













یقینی صحابی رسول ﷺ »

القرآن:

اگر تم ان کی (یعنی پیغمبر محمد ﷺ کی) مدد نہیں کرو گے تو (ان کا کچھ نقصان نہیں، کیونکہ) اللہ ان کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب ان کو کافر لوگوں نے ایسے وقت (مکہ سے) نکالا تھا جب وہ دو آدمیوں میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ(پیغمبر محمد) اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ : غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھی ہے۔ (37) چنانچہ اللہ نے ان پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی، اور ان کی ایسے لشکروں سے مدد کی جو تمہیں نظر نہیں آئے، اور کافر لوگوں کا بول نیچا کر دکھایا، اور بول تو اللہ ہی کا بالا ہے، اور اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔

[سورۃ نمبر 9 التوبة،آیت نمبر 40]

تفسیر:

(37)یہ ہجرت کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ آنحضرت ﷺ صرف اپنے ایک رفیق حضرت صدیق اکبر ؓ کے ساتھ مکہ مکرمہ سے نکلے تھے، اور تین دن تک غار ثور میں روپوش رہے تھے۔ مکہ مکرمہ کے کافر سرداروں نے آپ کی تلاش کے لیے چاروں طرف لوگ دوڑائے ہوئے تھے، اور آپ کو گرفتار کرنے کے لیے سو اونٹوں کا انعام مقرر کیا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ آپ کو تلاش کرنے والے کھوجی غار ثور کے منہ تک پہنچ گئے اور ان کے پاؤں حضرت صدیق اکبر کو نظر آنے لگے جس کی وجہ سے ان پر گھبراہٹ کے آثار ظاہر ہوئے۔ لیکن حضور سرور دو عالم ﷺ نے اس موقع پر ان سے فرمایا تھا کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے غار کے دہانے پر مکڑی سے جالا تنوا دیا۔ اور وہ لوگ اسے دیکھ کر واپس چلے گئے۔ اس واقعے کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد کافی ہے، لیکن خوش نصیبی ان لوگوں کی ہے جو آپ کی نصرت کی سعادت حاصل کریں۔

م

مناقبِ حضرت ابوبکر»

(2)صاحبِ رسول ﷺ اور یارِ غار»


حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر ؓ سے فرمایا:

أَنْتَ صَاحِبِي عَلَى الْحَوْضِ،‏‏‏‏ وَصَاحِبِي فِي الْغَارِ

ترجمہ:

تم حوض کوثر پر میرے رفیق ہو گے جیسا کہ غار میں میرے رفیق تھے ۔   

 امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن، صحیح، غریب ہے۔

[سنن الترمذي:3670، شرح السنۃ للبغوی:3872، تفسير للبغوي:1071»سورة التوبة:40]


تخریج:



شواھد:

(1)حضرت ابن عباس، حضرت ابوھریرہ اور حضرت ابوسعید خدری سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ابوبکر کو بھیجا تاکہ وہ آپ کی طرف سے (سورۃ) براۃ کے احکام پہنچائیں ۔ پھر آپ نے علی کو بھیجا اپنی اونٹنی عضباء پر سوار فرمایا وہ چلے اور ابوبکر کو (راستے میں) مل گئے اور ان سے براۃ کا حکم واپس لے لیا ۔ ابوبکر نبی کریم ﷺ کے پاس لوٹ آئے تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے لئے کوئی حکم نازل ہوگیا ہے۔ جب وہ آپ کے پاس آئے تو عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرے لئے کیا بات ہوئی ؟ آپ نے فرمایا:

خَيْرٌ، أَنْتَ صَاحِبِي فِي الْغَارِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُبَلِّغُ غَيْرِي، أَوْ رَجُلٌ مِنِّي، يَعْنِي عَلِيًّا"۔

ترجمہ:

خیر کی بات ہے! تو میرا بھائی اور غار میں میرا ساتھی ہے، اور تو میرے ساتھ حوض پر ہوگا۔ مگر وہ سورۃ برات کے احکام میرے یا میرے اہل بیت کے کسی فرد کے سوا اور کوئی نہیں پہنچا سکتا تھا۔ (اس لئے حضرت علی کو بھیجا)۔

[صحیح ابن حبان: 3262 (6644)، المعجم الكبير للطبراني:12127، تفسير للبغوي:1029، تفسير الطيري:16375]



حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَارِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِأَقْدَامِ الْقَوْمِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْ أَنَّ بَعْضَهُمْ طَأْطَأَ بَصَرَهُ رَآنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اسْكُتْ يَا أَبَا بَكْرٍ اثْنَانِ اللَّهُ ثَالِثُهُمَا.

ترجمہ:

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے ثابت نے، ان سے انس ؓ نے اور ان سے ابوبکر ؓ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ غار میں تھا۔ میں نے جو سر اٹھایا تو قوم کے چند لوگوں کے قدم (باہر) نظر آئے میں نے کہا، اے اللہ کے نبی! اگر ان میں سے کسی نے بھی نیچے جھک کر دیکھ لیا تو وہ ہمیں ضرور دیکھ لے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوبکر! خاموش رہو، ہم ایسے دو ہیں جن کا تیسرا اللہ ہے۔

[صحیح بخاری:3922، صحیح مسلم:2381، سنن الترمذی:3096]




(2)عتیق اللہ-اللہ کا آزاد کردہ-جہنم سے

ام المؤمنین عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا:

أَنْتَ عَتِيقُ اللَّهِ مِنَ النَّارِ فَيَوْمَئِذٍ سُمِّيَ عَتِيقًا.

ترجمہ:

تم جہنم سے اللہ کے آزاد کردہ ہو تو اسی دن سے ان کا نام عتیق رکھ دیا گیا۔   

[سنن الترمذي:3679، المستدرک الحاکم:3557]


حکم الحدیث:

[الصحیحة:1574، صحیح الجامع:1482، المشکاة:6022]


تخریج:

عن عائشة قالت: إني لجالسة ذات يوم ورسول الله صلى الله عليه وسلم وأصحابه بفناء البيت والستر بيني وبينهم إذ أقبل أبي فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأصحابه: " من أراد - وفي لفظ: من سره – أن ينظر إلى عتيق من النار فلينظر إلى أبي بكر، وإن اسمه الذي سماه به أهله حيث ولد " عبد الله بن عثمان" فغلب عليه اسم "العتيق". "ع وأبو نعيم في المعرفة؛ وفيه صالح بن موسى الطلحي ضعيف".

ترجمہ:

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں ایک دن بیٹھی ہوئی تھی رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام ؓ آپ کے ساتھ گھر کے صحن میں بیٹھے ہوئے میرے اور ان کے درمیان پردہ حائل تھا اس وقت میرے والد تشریف لائے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو چاہے یا جس کو اس بات سے خوشی ہو کہ ایسے شخص کو دیکھے جو جہنم سے آزاد ہے وہ ابوبکر ؓ کو دیکھے ان کا نام ولادت کے وقت ان کے گھر والوں نے عبداللہ بن عثمان رکھا تھا لیکن ان پر عتیق نام غالب آگیا۔

[کنزالعمال:35654]


شواھد:

عن ابن عباس قال: قال أبي: تدرون لم سمي أبو بكر الصديق "عتيقا" قلت لعتق وجهه أو لعتق نسبه، قال: ليس كما تظن، كانت أمه في الجاهلية إذا ولد لها الولد لم يعش، فلما ولد أبو بكر جاءت به إلى الكعبة وقالت: يا إلهي العتيق يا لا إله إلا أنت! هبه لي من الموت، قال: فخرج كف من ذهب لا معصم لها وإذا بقائل يقول:

فزت بحمل الولد العتيق ... يعرف في التوراة بالصديق

قد وهبه الله من الموت وجعله وزير خير أهل الأرض، فلن يفترقا حيين ولن يفترقا ميتين ولن يفترقا غدا عند الله تعالى.

"أبو علي الحسن بن أحمد البناء في مشيخته وابن النجار، وسنده جيد".

ترجمہ:

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ میرے والد نے کہا تم جانتے ہوئے ابوبکر ؓ کو عتیق کیوں کہا جاتا ہے ان کی ذاتی شرافت کی بناء پر فرمایا نہیں بلکہ جاہلیت کے زمانہ میں جب ان کے ہاں بچہ پیدا ہوتا وہ زندہ نہیں بچتا، اس لیے جب ابوبکر ؓ پیدا ہوا تو ان کو کعبہ کے پاس لے کر آئی اور دعا کی:

یا الھی التعیق لاالہ الا انت ھیہ لی من الموت

کہا: اس وقت سونے کی ایک ہتھیلی ظاہر جس پر کنگن نہیں تھے، اس وقت ایک قائل کہہ رہا تھا:

تو ولد عتیق کے حمل سے کامیاب ہے جو توراة میں صدیق کے نام سے معروف ہے اللہ تعالیٰ اس کو (بچن میں) موت سے بچایا، اور ان کو زمین کے شب سے بہتر شخص کا وزیر بنایا، دونوں نہ زندگی میں جدا ہوں گے، نہ موت کے بعد نہ کل قیامت کو اللہ کے سامنے جدا ہوں گے۔

(ابوعلی حسن بن احمدالبناء فی مشیختہ وابن نجار وسندہ جید)

[کنزالعمال:35646(35655)]




شواھد:

عن عبد الله بن الزبير قال: كان اسم أبي بكر عبد الله بن عثمان، فلما قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أنت عتيق الله من النار" سمي "عتيقا".

"أبو نعيم، قال ابن كثير: إسناده جيد".

ترجمہ:

حضرت عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ ابوبکر ؓ کا نام عبداللہ بن عثمان تھا جب رسول اللہ ﷺ نے ان کو بشارت دی کہ تم عتیق اللہ (اللہ کے آزاد کردہ) ہو جہنم سے، پس ان کا نام عتیق ہوگیا۔

(ابونعیم ابن کثیر نے کہا اس کی سندجید سے)

[صحیح ابن حبان:3199، کنزالعمال:35656]

 




اسحاق بن طلحہ سے روایت ہے کہ میں ام المومنین عائشہ ؓ کے پاس گیا ان کے پاس عائشہ بنت طلحہ بھی تھیں وہ اپنی ماں ام کلثوم بنت ابی بکر ؓ سے کہہ رہی تھی اس میں تجھ سے بہتر ہوں اور میرے باپ تیرے باپ سے بہتر ہیں ماں اس کو ڈاٹنے لگی تو عائشہ ؓ نے کہا کیا میں تم دونوں کے درمیان فیصلہ کروں؟ انھوں نے کہا ہاں ابوبکر ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: انت عتیق اللہ من النار یعنی تم اللہ کی طرف سے آگ سے آزاد ہو، اسی دن سے ان کا نام عتیق ہوگیا۔ اور طلحہ ؓ داخل ہوئے تو آپ نے فرمایا تم اے طلحہ ان لوگوں میں سے ہو جنہوں نے شہادت کا مرتبہ حاصل کیا۔

[کنزالعمال: 35660(35669) ابن مندہ، ابن عساکر]

[المستدرک الحاکم:5611، موسوعۃ التفسیر المأثور:61985]

القرآن:

انہی ایمان والوں میں وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا۔ پھر ان میں سے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنا نذرانہ پورا کردیا، اور کچھ وہ ہیں جو ابھی انتظار میں ہیں۔ اور انہوں نے (اپنے ارادوں میں) ذرا سی بھی تبدیلی نہیں کی۔

[سورۃ نمبر 33 الأحزاب،آیت نمبر 23]


مم



م

جنتی خوبیوں والے

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَصْبَحَ مِنْکُمْ الْيَوْمَ صَائِمًا قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا قَالَ فَمَنْ تَبِعَ مِنْکُمْ الْيَوْمَ جَنَازَةً قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا قَالَ فَمَنْ أَطْعَمَ مِنْکُمْ الْيَوْمَ مِسْکِينًا قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا قَالَ فَمَنْ عَادَ مِنْکُمْ الْيَوْمَ مَرِيضًا قَالَ أَبُو بَکْرٍ أَنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا اجْتَمَعْنَ فِي امْرِئٍ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ۔
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آج تم میں سے کسی نے روزہ کی حالت میں صبح کی (یعنی روزہ رکھا؟ ) حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا میں نے روزہ رکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: آج کے دن تم میں سے کون کسی جنازے کے ساتھ گیا ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا کہ میں گیا ہوں، آپ نے فرمایا: آج تم میں سے کسی نے کسی مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا میں نے، آپ نے فرمایا: آج تم میں سے کسی نے کسی بیمار کی تیمار داری کی ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے عرض کیا میں نے، آپ نے فرمایا: جس میں یہ ساری چیزیں جمع ہوگئیں وہ جنت میں داخل ہوگیا۔
[صحیح مسلم:1028(6182)، شرح السنة للبغوي:1647، السنن الکبریٰ للبيهقي:7830، شعب الايمان للبيهقي:9199]






امامت کے حقدار

لَمَّا اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ قِيلَ لَهُ فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ إِذَا قَرَأَ غَلَبَهُ الْبُكَاءُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مُرُوهُ فَيُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏فَعَاوَدَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مُرُوهُ فَيُصَلِّي، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ، ‏‏‏‏‏‏تَابَعَهُ الزُّبَيْدِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏ وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏ وَإِسْحَاقُ بْنُ يَحْيَى الْكَلْبِيُّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِالزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ عُقَيْلٌ ، ‏‏‏‏‏‏ وَمَعْمَرٌ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الزُّهْرِيِّ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَمْزَةَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ترجمہ:
 جب رسول اللہ  ﷺ  کی بیماری شدت اختیار کرگئی اور آپ  ﷺ  سے نماز کے لیے کہا گیا تو آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حضرت عائشہ ؓ نے عرض کیا کہ ابوبکر بہت نرم وکچے دل والے آدمی ہیں، جب وہ قرآن مجید پڑھتے ہیں تو بہت رونے لگتے ہیں۔ لیکن آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ ان ہی سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ دوبارہ انہوں نے پھر وہی عذر دہرایا۔ آپ صلی  اللہ علیہ وسلم  نے پھر فرمایا کہ ان سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ تم سب(عورتیں) تو یوسف کے ساتھیوں کی طرح ہو۔
[صحیح بخاری:682، صحیح مسلم:418-420، صحیح ابن حبان:862+3209، صحیح ابن خزیمہ:899]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: (حضرت ابوبکر نے فرمایا) خدا کی قسم! مجھے کسی چیز نے ایسا کرنے پر آمادہ نہیں کیا، سوائے اس کراہیت نے کہ میں رسول اللہ  کی جگہ لینے والا پہلا آدمی ہوں۔
فسیر الثعلبي:1515»سورة ص:46]

القرآن:
ہم نے انہیں ایک خاص وصف کے لیے چن لیا تھا، جو (آخرت کے) حقیقی گھر کی یاد تھی۔
[سورۃ نمبر 38 ص، آیت نمبر 46]

شواھد:
عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» . فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ.  فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ» . قَالَ: قَامَ أَبُو بَكْرٍ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ « 
ترجمہ:
حضرت ابوبردہ بن ابی موسیٰ اپنے والد(حضرت ابوموسیٰ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ بیمار ہو گئے، تو آپ نے فرمایا: ”ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔" حضرت عائشہ نے کہا: ابوبکر ایک شریف آدمی ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، پس تم سب(عورتیں) یوسف کے ساتھیوں(کی طرح) ہو۔ انہوں نے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زندہ ہوئے، اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کرے۔
[المعجم الأوسط للطبران:5005]
عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى , عَنْ أَبِيهِ قَالَ: مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَدَّ مَرَضُهُ فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ وَمَتَى يَقُمْ مَقَامِكَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يُصَلِّي بِالنَّاسِ فَقَالَ: «مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ» قَالَ: فَأَتَاهُ الرَّسُولُ فَقَالَ لَهُ فَصَلَّى بِالنَّاسِ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:
حضرت ابوبردہ بن ابی موسیٰ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ بیمار ہو گئے اور آپ کی بیماری شدید ہوگئی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔" حضرت عائشہ نے کہا: اے اللہ کے رسول، ابوبکر ایک انتہائی نرمدل آدمی ہیں، جب وہ آپ کی جگہ لے لیں گے تو لوگوں کی امامت نہیں کر سکیں گے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔"، انہوں نے کہا: چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان سے فرمایا، چنانچہ جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے، انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔

[الشريعة للآجري:1298]


رسول اللہ ﷺ کے مرض الوفات کی نمازوں کا بیان

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی، اس وقت آپ عائشہ ؓ کے گھر میں تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: علی ؓ کو بلاؤ عائشہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم ابوبکر ؓ کو بلا دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں بلاؤ حفصہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا عمر ؓ کو بلا دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: بلا دو ، ام الفضل نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم عباس کو بلا دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں جب سب لوگ جمع ہوگئے تو رسول اللہ ﷺ نے اپنا سر اٹھا کر ان لوگوں کی طرف دیکھا، اور خاموش رہے، عمر ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے پاس سے اٹھ جاؤ (١)، پھر بلال ؓ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔  عائشہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! ابوبکر ؓ نرم دل آدمی ہیں، پڑھنے میں ان کی زبان رک جاتی ہے، اور جب آپ کو نہ دیکھیں گے تو رونے لگیں گے، اور لوگ بھی رونا شروع کردیں گے، لہٰذا اگر آپ عمر ؓ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں (تو بہتر ہو) ، لیکن ابوبکر ؓ نکلے، اور انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں پر ٹیک دے کر تشریف لائے اور آپ ﷺ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے، جب لوگوں نے آپ کو آتے دیکھا تو ابوبکر ؓ کو سبحان الله کہا، وہ پیچھے ہٹنے لگے تو نبی اکرم ﷺ نے ان کو اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، چنانچہ رسول اللہ ﷺ تشریف آئے، اور ابوبکر ؓ کے دائیں جانب بیٹھ گئے، اور ابوبکر ؓ کھڑے رہے، ابوبکر ؓ نبی اکرم ﷺ کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر ؓ کی اقتداء کر رہے تھے، عبداللہ بن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قراءت وہاں سے شروع کی جہاں تک ابوبکر ؓ پہنچے تھے (٢)۔ وکیع نے کہا: یہی سنت ہے، راوی نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کا اسی مرض میں انتقال ہوگیا۔
[سنن ابن ماجہ:1235]

حکم الحدیث:
تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ٥٣٥٨، ومصباح الزجاجة: ٤٣٤)، وقد أخرجہ: مسند احمد (١/٢٣١، ٢٣٢، ٣٤٣، ٣٥٥، ٣٥٦، ٣٥٧) (حسن) (سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے علی کے ذکر کے ساتھ یہ ضعیف ہے، لیکن دوسری حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے.)

وضاحت:
(1)کیوں کہ بیماری کی وجہ سے آپ کو ہمارے بیٹھنے سے تکلیف ہوگی۔
(2)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم ﷺ نے علی ؓ کو اپنی مرضی سے بلایا تھا، لیکن بیویوں کے اصرار سے اور لوگوں کو بھی بلا لیا تاکہ ان کا دل ناراض نہ ہو، اور چونکہ بہت سے لوگ جمع ہوگئے اس لئے آپ دل کی بات نہ کہنے پائے، اور سکوت فرمایا، اور ابوبکر ؓ کی فضیلت اور صحابہ پر ثابت ہوئی کہ آپ نے نماز کی امامت کے لئے ان کو منتخب فرمایا، اور امامت صغری قرینہ ہے امامت کبری کا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جماعت میں شریک ہونا کیسا ضروری ہے کہ نبی اکرم ﷺ بیماری اور کمزوری کے باوجود حجرہ سے باہر مسجد تشریف لائے۔









حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاتَ وَأَبُو بَكْرٍ بِالسُّنْحِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِسْمَاعِيلُ:‏‏‏‏ يَعْنِي بِالْعَالِيَةِ،‏‏‏‏ فَقَامَ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ وَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا كَانَ يَقَعُ فِي نَفْسِي إِلَّا ذَاكَ وَلَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ فَلَيَقْطَعَنَّ أَيْدِيَ رِجَالٍ وَأَرْجُلَهُمْ فَجَاءَ أَبُو بَكْرٍفَكَشَفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَبَّلَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي طِبْتَ حَيًّا وَمَيِّتًا،‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يُذِيقُكَ اللَّهُ الْمَوْتَتَيْنِ أَبَدًا ثُمَّ خَرَجَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّهَا الْحَالِفُ عَلَى رِسْلِكَ،‏‏‏‏ فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ جَلَسَ عُمَرُ.  

حدیث نمبر: 3668  

فَحَمِدَ اللَّهَ أَبُو بَكْرٍ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ أَلَا مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ،‏‏‏‏ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُمْ مَيِّتُونَ سورة الزمر آية 30، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ سورة آل عمران آية 144، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَنَشَجَ النَّاسُ يَبْكُونَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَاجْتَمَعَتْ الْأَنْصَارُ إِلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ فَذَهَبَ إِلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ،‏‏‏‏ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ،‏‏‏‏ وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبَ عُمَرُ يَتَكَلَّمُ فَأَسْكَتَهُ أَبُو بَكْرٍ وَكَانَ عُمَرُ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ بِذَلِكَ إِلَّا أَنِّي قَدْ هَيَّأْتُ كَلَامًا قَدْ أَعْجَبَنِي خَشِيتُ أَنْ لَا يَبْلُغَهُ أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَتَكَلَّمَ أَبْلَغَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ فِي كَلَامِهِ نَحْنُ الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ حُبَابُ بْنُ الْمُنْذِرِ لَا وَاللَّهِ لَا نَفْعَلُ مِنَّا أَمِيرٌ وَمِنْكُمْ أَمِيرٌ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ لَا وَلَكِنَّا الْأُمَرَاءُ وَأَنْتُمُ الْوُزَرَاءُ هُمْ أَوْسَطُ الْعَرَبِ دَارًا وَأَعْرَبُهُمْ أَحْسَابًا،‏‏‏‏ فَبَايِعُوا عُمَرَ أَوْ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ بَلْ نُبَايِعُكَ أَنْتَ فَأَنْتَ سَيِّدُنَا وَخَيْرُنَا،‏‏‏‏ وَأَحَبُّنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ فَأَخَذَ عُمَرُ بِيَدِهِ فَبَايَعَهُ وَبَايَعَهُ النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَائِلٌ قَتَلْتُمْ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ عُمَرُ قَتَلَهُ اللَّهُ.  

  

حدیث نمبر: 3669  

مجھ سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی جب وفات ہوئی تو ابوبکر ؓ اس وقت مقام سنح میں تھے۔ اسماعیل نے کہا یعنی عوالی کے ایک گاؤں میں۔ آپ کی خبر سن کر عمر ؓ اٹھ کر یہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ کی وفات نہیں ہوئی۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ عمر ؓ کہا کرتے تھے اللہ کی قسم اس وقت میرے دل میں یہی خیال آتا تھا اور میں کہتا تھا کہ اللہ آپ کو ضرور اس بیماری سے اچھا کر کے اٹھائے گا اور آپ ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے (جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں) اتنے میں ابوبکر ؓ تشریف لے آئے اور اندر جا کر آپ کی نعش مبارک کے اوپر سے کپڑا اٹھایا اور بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور وفات کے بعد بھی اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر دو مرتبہ موت ہرگز طاری نہیں کرے گا۔ اس کے بعد آپ باہر آئے اور عمر ؓ سے کہنے لگے، اے قسم کھانے والے! ذرا تامل کر۔ پھر جب ابوبکر ؓ نے گفتگو شروع کی تو عمر ؓ خاموش بیٹھ گئے۔

[صحیح بخاری:3667]


پھر ابوبکر ؓ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد ( ﷺ ) کو پوجتا تھا (یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں مریں گے) تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد ﷺ کی وفات ہوچکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔ (پھر ابوبکر ؓ نے یہ آیت پڑھی) ﴿اے پیغمبر! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے۔﴾(سورۃ الزمر:30) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿محمد ﷺ صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پاجائیں یا انہیں شہید کردیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔﴾(سورۃ آل عمران:145) راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ ؓ کے پاس جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہوگا (دونوں مل کر حکومت کریں گے) پھر ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح ؓ ان کی مجلس میں پہنچے۔ عمر ؓ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن ابوبکر ؓ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ عمر ؓ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کرلی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ ابوبکر ؓ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی۔ پھر ابوبکر ؓ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم (قریش) امراء ہیں اور تم (جماعت انصار) وزارء ہو۔ اس پر حباب بن منذر ؓ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزارء ہو (وجہ یہ ہے کہ) قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کا ملک (یعنی مکہ) عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر ؓ کی بیعت کرلو یا ابوعبیدہ بن جراح کی۔ عمر ؓ نے کہا: نہیں ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ عمر ؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ ؓ کو تم لوگوں نے مار ڈالا۔ عمر ؓ نے کہا: انہیں اللہ نے مار ڈالا۔     

[صحیح بخاری:3668]


اور عبداللہ بن سالم نے زبیدی سے نقل کیا کہ عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، انہیں قاسم نے خبر دی اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی نظر (وفات سے پہلے) اٹھی اور آپ نے فرمایا: اے اللہ! مجھے رفیق اعلیٰ میں (داخل کر) آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ ابوبکر اور عمر ؓ دونوں ہی کے خطبوں سے نفع پہنچا۔ عمر ؓ نے لوگوں کو دھمکایا کیونکہ ان میں بعض منافقین بھی تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرح (غلط افواہیں پھیلانے سے) ان کو باز رکھا۔

[صحیح بخاری:3669]

اور بعد میں ابوبکر ؓ نے جو حق اور ہدایت کی بات تھی وہ لوگوں کو سمجھا دی اور ان کو بتلا دیا جو ان پر لازم تھا (یعنی اسلام پر قائم رہنا) اور وہ یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے:- 

﴿اور محمد ﷺ ایک رسول ہی تو ہیں۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں، بھلا اگر ان کا انتقال ہوجائے یا انہیں قتل کردیا جائے تو کیا تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے ؟ اور جو کوئی الٹے پاؤں پھرے گا وہ اللہ کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور جو شکر گزار بندے ہیں اللہ ان کو ثواب دے گا۔

(سورۃ آل عمران:144)

[صحیح بخاری:3670]


م


منقبتِ خلفاء بزبانِ رسول اللہ ﷺ:

وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «إِنَّ اللَّهَ اخْتَارَ أَصْحَابِي عَلَى الْعَالَمِينَ سِوَى النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، وَاخْتَارَ لِي مِنْ أَصْحَابِي أَرْبَعَةً " أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَعَلِيًّا - رَحِمَهُمُ اللَّهُ - " فَجَعَلَهُمْ أَصْحَابِي ". وَقَالَ: " فِي أَصْحَابِي كُلِّهِمْ خَيْرٌ، وَاخْتَارَ أُمَّتِي عَلَى الْأُمَمِ، وَاخْتَارَ مِنْ أُمَّتِي أَرْبَعَةَ قُرُونٍ: الْقَرْنَ الْأَوَّلَ، وَالثَّانِيَ، وَالثَّالِثَ، وَالرَّابِعَ».
رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ، وَفِي بَعْضِهِمْ خِلَافٌ.

ترجمہ :
حضرت جابر بن عبداللہؓ نے رسول الله ﷺ کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ بیشک میرے صحابہ کو الله تعالیٰ  نے سارے جہاں والوں میں سے پسند فرمایا ہے سواۓ انبیاء اور رسولوں کے، اور پسند کیا میرے لئے میرے صحابہ میں سے چار کو ،  (جو) ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضوان الله علیھم (ہیں)،  بس بنادیا ان کو میرے ساتھی۔
[مجمع الزوائد:(ج10 ص16)16380]

المحدث : عبد الحق الإشبيلي | المصدر : الأحكام الصغرى: 905
خلاصة حكم المحدث : [أشار في المقدمة أنه صحيح الإسناد]
المحدث : القرطبي المفسر | المصدر : تفسير القرطبي16/306+ 19/348 | 
خلاصة حكم المحدث : صحيح









حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ فَرَضَ عَلَيْكُمْ حُبَّ أَبِي بَكْرٍ ، وَعُمَرَ ، وَعُثْمَانَ ، وَعَلِيٍّ ، كَمَا فَرَضَ عَلَيْكُمُ الصَّلاةَ وَالصِّيَامَ ، وَالْحَجَّ ، وَالزَّكَاةَ ، فَمَنْ أَبْغَضَ وَاحِدًا مِنْهُمْ ، فَلا صَلاةَ لَهُ ، وَلا حَجَّ وَلا زَكَاةَ ، وَيُحْشَرُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ قَبْرِهِ إِلَى النَّارِ " .

ترجمہ :
حضرت عبداللہ  بن عمرؓ نے رسول الله ﷺ کا ارشاد نقل فرمایا ہے کہ : بیشک الله نے فرض کی ہے تم پر محبت ابوبکر، عمر، عثمان اور علی  (رضی الله عنھم) کی، جیسا کہ فرض کی تم پر نماز، روزے، حج اور زکات. پھر جس نے بغض رکھا کسی ایک سے، تو نہ اس کی نماز ہے، نہ حج اور نہ زکات. اور وہ اٹھایا جاۓگا قیامت کے دن اپنی قبر سے آگ (جہنم) کی طرف۔
[الجامع لعلوم الإمام أحمد:4/348، الفردوس بمأثور الخطاب:645، تاريخ دمشق لابن عساكر:7927 (39/128)، المقصد الارشد:478، جامع الأحاديث:39320]



عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ " ، وَقَال : " أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ " .
ترجمہ :
حضرت حذیفہ بن حسیلؓ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : پیروی کرنا میرے بعد ابوبکرؓ و عمرؓ کی، اور فرمایا : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے جس کی اقتداء کروگے راہ یاب ہوجاؤ گے۔

المصدر : موافقة الخبر الخبر الصفحة أو الرقم: 1/145 خلاصة حكم المحدث :غريب
المصدر : الأمالي المطلقة الصفحة أو الرقم: 60 خلاصة حكم المحدث : له شاهد

[شرح السنة للبربهاري: ص56، الشريعة للآجري:1166، الإبانة الكبرى لابن بطة:702، آداب الصحبة لأبي عبد الرحمن السلمي:192، تفسير الثعلبي:1183، جامع بيان العلم وفضله:1760، جامع الأصول:6369]
[منهاج السنة النبوية:7/142،فصل البرهان الثالث عشر " إِنَّمَا أَنْتَ مُنْذِرٌ وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ " والجواب عليه]

الشواهد
١) عن عبد الله بن عباس، الإبانة الكبرى لابن بطة » الإِبَانَةُ الْكُبْرَى لابْنِ بَطَّةَ » بَابُ التَّحْذِيرِ مِنِ اسْتِمَاعِ كَلامِ قَوْمٍ يُرِيدُونَ ... رقم الحديث: 323
٢) عن عبد الله بن عمر، مسند عبد بن حميد » أَحَادِيثُ ابْنِ عُمَرَ، رقم الحديث:791
٣) عن عبد الرحمن بن صخر (ابو ہریرہ)، مسند الشهاب » الْجُزْءُ الثَّالِثُ مِنْ كِتَابِ مُسْنَدِ الشِّهَابِ ... » الْبَابُ الثَّانِي، رقم الحديث: 1251
٤) عن جابر بن عبد الله، جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر » بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ مِنْ أَقَاوِيلِ السَّلَفِ ...رقم الحديث: 1061 
٥) عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية لابن حجر ...  » كِتَابُ الْمَنَاقِبِ  » بَابُ فَضْلِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ عَلَى الْإِجْمَالِ ... رقم الحديث: 4299

[کشف الخفاء:۱/۱۴۷، مشکوٰة: ص554؛ جلد پنجم: حدیث نمبر 624 (42363) - صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب کا بیان : صحابہ کی اقتداء ہدایت کا ذریعہ ہے]




رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ‌أَرْحَمُ ‌أُمَّتِي بِأُمَّتِي أَبُو بَكْرٍ، وَأَشَدُّهُمْ فِي دِينِ اللَّهُ عُمَرُ، وَأَصْدَقُهُمْ حَيَاءً عُثْمَانُ، وَأَقْضَاهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ.
ترجمہ:
میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر ہیں، اللہ کے دین میں سب سے زیادہ سخت اور مضبوط عمر ہیں، حیاء میں سب سے زیادہ حیاء والے عثمان ہیں، سب سے بہتر قاضی علی بن ابی طالب ہیں۔
[سنن ابن ماجه:154، الشريعة للآجري:1557، مشيخة ابن شاذان الصغرى:49]

صحابہؓ  میں مراتب:
اہل سنت والجماعت کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکرؓؓ اور آپؓ کے بعد حضرت عمرؓ تمام امت میں افضل ہیں  ، حضرت عمرؓ  کے بعد حضرت عثمانؓ و علیؓ کا درجہ ہے ، اکثر علماء نے حضرت عثمانؓ  کو افضل قرار دیا ہے اور علماء کوفہ نے حضرت علیؓ کو ۔
( مقدمہ ابن الصلاح ، ص : ۱۲۸)
امام ابو حنیفہؒ کا رجحان بھی اسی طرف بتایا جاتا ہے ؛ اسی لئے آپ نے اہل سنت والجماعت کی علامات میں حضرات شیخینؓ کی فضیلت اور حضرت عثمانؓ وعلیؓ کی محبت کو شمار کیا ہے ۔
( خلاصۃ الفتاوی : ۴/۳۸۱)

گگ


سیرت صدیق اکبرؓ احادیث کی روشنی میں»
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزاج سنتِ رسول اللہ ﷺ کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔ ان کا ہر عمل اتباع واطاعتِ رسول کا مظہر تھا‘حدیث پاک میں ہے:''حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے پوچھا:تم میں سے آج کس کا روزہ ہے ؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میرا‘ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے جنازے میں شرکت کی؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میں نے‘ پھر فرمایا: تم میں سے آج کس نے مسکین کو کھانا کھلایا؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میں نے‘ پھر فرمایا:تم میں سے آج کس نے مریض کی عیادت کی؟حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: میں نے‘ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص میں یہ ساری خصلتیں جمع ہوجائیں ‘وہ یقینا جنت میں داخل ہوگا۔
[مسلم:1028]
زبانِ رسالت مآب ﷺ سے جنت کی بشارت ملنے کے باوجود حضرت ابوبکر صدیقؓ پر ہمیشہ خشیَتِ الٰہی کا اس قدر غلبہ رہتاکہ نماز پڑھتے پڑھتے رونے لگتے ‘ آپ کے اندازِ تلاوت پر بھی خشیتِ الٰہی اس قدر غالب رہتی کہ آپ کی تلاوت کو سن کر کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا‘ یہاں تک کہ قریشِ مکہ نے آپ کی عَلانیہ تلاوت پر بھی پابندی لگا دی تھی اور خداخوفی کا عالم یہ تھا کہ حرام لقمہ کھانا تو دور کی بات ‘اگراس کے بارے شک بھی پیدا ہوجاتا تو فوراً قے کرلیتے تاکہ حرام غذا کا کوئی بھی حصہ آپ کا جزوِ بدن نہ بن سکے؛ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: حضرت ابوبکر صدیق ؓکا ایک غلام تھا جو ان کے لیے خَراج نکالتا تھا اور وہ اس کے خراج سے کھاتے تھے‘ ایک دن وہ کوئی چیز لے کر آیا‘ حضرت ابوبکر ؓنے اس سے کھایا‘ تو غلام نے پوچھا: آپ جانتے ہیں یہ کیا چیز تھی(جو آپ نے کھائی ہے)‘ حضرت ابوبکرؓ نے پوچھا: وہ کیا چیز تھی؟اس نے بتایا: میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص کوکہانت سے کچھ بتایا تھا‘ حالانکہ مجھے کہانت اچھی طرح نہیں آتی تھی مگر میں نے اس کو دھوکا دیا تھا‘ (آج) وہ مجھ سے ملا تو اس نے مجھے اس کا معاوضہ دیا‘ سو آپ نے اسی (معاوضہ) سے کھایا ہے‘ پھر حضرت ابوبکرؓ نے اپنا ہاتھ (اپنے حلق میں داخل کیا )اور جو کچھ پیٹ میں تھا‘قے کر کے نکال دیا۔
[صحیح البخاری:3842]
آپ کو دنیا اور دنیا کی نعمتوں سے رغبت نہیں تھی‘ آپ کے وصال کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس تھیں‘ وہ بیان کرتی ہیں: ''حضرت ابوبکرؓنے مجھ سے پوچھا:آپﷺ کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا؟ میں نے بتایا: تین کپڑوں میں‘ انہوں نے کہا: جو دو کپڑے میں نے پہنے ہوئے ہوں‘ مجھے انہی دو کپڑوں میں کفنادینا اور ایک نیا کپڑا خرید لینا ‘کیونکہ مردے کی نسبت زندہ کو نئے کپڑے کی زیادہ ضرورت ہے‘ (یہ کپڑے تو پیوندِ خاک ہوجائیں گے) ۔
[صحیح ابن حبان:3036]
حضرت ابوبکر صدیقؓ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نعمتِ مال سے نوازا تھا‘ مگر آپ اس مال کو جمع کرنے کی بجائے راہِ خدا میں خرچ کرتے رہے۔حدیث میں ہے:حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں:نبی ﷺ نے فرمایا:''ہم پر جس کا بھی کوئی احسان ہے اُس کا صلہ ہم نے عطا کردیا ‘سوائے ابوبکر کے‘کیونکہ اُن کے ہم پراتنے احسانات ہیں کہ اُن کا صلہ اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے دن عطا فرمائے گااور مجھے (یعنی دینِ اسلام کو )کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا ‘جتنا کہ ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے ۔ اگر مجھے کسی کو دوست بنانا ہوتا تو ابوبکر کو دوست بناتا‘سنو! تمہارے صاحب خلیل اللہ ہیں۔
[سنن ترمذی:3661]
علامہ اقبال نے آپ کی اسی ادا کو اشعار کی صورت میں بیان کیا ہے:
مَنْ شَبے صِدِّیق را دیدم بخواب
گل زِخاکِ راہِ اُو چیدم بخواب
آں اَمَنُّ النَّاس بر مولائے ما
آں کلیمے اوّلِ سینائے ما
ہمت اُو کِشتِ ملّت را چو ابر
ثانیِ اسلام وغار وبدر وقبر 
گفتمش اے خاصّۂ خاصانِ عشق 
عشقِ تو سِرِّے مَطلعِ دیوانِ عشق
پختہ از دستت اساسِ کارِ ما
چارہ فرمائے آزارِ ما
ترجمہ:'' ایک رات میں نے خواب میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکو دیکھا ‘آپ کی خاکِ راہ سے میں نے عالمِ خواب میں چند پھول چُنے ۔حضرت ابوبکر صدیقؓ جو ہمارے آقا ومولا سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے اور ہمارے ''کوہِ سینا‘‘ کے پہلے کلیم اور ہمراز ہیں‘(''سینائے ما‘‘ سے مرادغارِ ثورلیا جاسکتا ہے‘ کیونکہ اس موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ہمراز وکلیم صرف جنابِ صدیق اکبرؓ تھے )۔اُن کی عزیمت کشتِ ملّت کے لیے ابرِ رحمت کی طرح ہے ‘وہ اسلام قبول کرنے میں اورغارِ ثور ‘غزوۂ بدر اور روضۂ انور میں آپ ﷺکے ثانی ہیں ۔الغرض وہ نبوت کے تئیس سالہ دور میں اور بعد از وصال آپ کے رفیق ہیں ۔میں نے اُن سے عرض کی: اے عشقِ نبوت کے سرخیلوں کے تاجدار!کتابِ عشق کا عنوان اور اُس کا سربستہ راز آپ ہی تو ہیں ۔آپ ہی کے دستِ مبارک سے تاجدارِ نبوت ﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد ''خلافت علیٰ منہاجِ النُّبوّۃ‘‘ کی بنیادپڑی ‘آج امت ایک بار پھر مصیبت میں مبتلا ہے ‘ اس مشکل میں آپ ہماری چارہ گری فرمائیے ‘‘۔ 
حضرت عمر بن خطابؓ بیان کرتے ہیں: ''رسول اللہ ﷺ نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا‘ اس دن اتفاق سے میرے پاس مال تھا‘ میں نے دل میں خیال کیا: اگر میں کسی دن حضرت ابوبکرؓ سے(نیکیوں میں) سبقت لے سکتا ہوں تو آج اس کا بہترین موقع ہے ‘پس میں اپنا آدھا مال لے کر آیا تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا ہے‘ حضرت عمرؓ نے عرض کی: میں نے ان کے لیے اتنا ہی مال باقی رکھا ہے اور حضرت ابوبکرؓ کے پاس جتنا مال تھا‘ وہ سب لے کر آگئے‘ آپ نے پوچھا: اے ابوبکر! تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا ہے‘ حضرت ابوبکر نے کہا: میں نے ان کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو باقی رکھا ہے؟حضرت عمرؓ نے کہا: تب میں نے دل میں کہا: میں حضرت ابوبکرؓ پر کبھی بھی سبقت نہیں لے سکتا۔
[ترمذی:3675]
علامہ اقبال نے کہا ہے:
پروانے کو چراغ ہے‘ بلبل کو پھول بس
صدیق کے لیے ہے‘ خدا کا رسول بس
حضرت ابوبکر صدیقؓ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی مدافعت میں سینہ سپر رہے :''حضرت عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں:'' میں نے حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے سوال کیا: مشرکین نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سب سے بڑا ظلم کون سا کیا تھا؟ انہوں نے بتایا: نبی ﷺ نماز پڑھ رہے تھے‘ عقبہ بن ابی مُعَیط نے آکر اپنی چادر آپ کے گلے میں ڈال کر آپ کا گلا گھونٹنا شروع کردیا‘ پس بہت شدت سے گلا گھونٹا‘ پھر حضرت ابوبکرؓ آئے اور اس کو دھکا دے کر آپ ﷺ سے دور کیا‘ پھر یہ آیت پڑھی‘ترجمہ: ''کیا تم ایک شخص کو اس لیے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتے ہیں: میرا رب اللہ ہے‘ حالانکہ یقینا وہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح نشانیاں لے کر آئے ہیں‘ (سورۃ المومن:28)‘
[صحیح البخاری: 3678]
حضرت عمر ؓکے سامنے حضرت ابوبکرؓ کا ذکر کیا گیا تو وہ رونے لگے اور کہا: میری تمنا ہے کہ میرے تمام (نیک) اعمال حضرت ابوبکرؓ کے اُس ایک دن ایک رات کے عمل برابر ہوجاتے ‘ رات کے عمل سے مراد وہ رات ہے جب آپ رسول اللہﷺ کے ساتھ غار میں گئے ‘جب وہ دونوں غار تک پہنچ گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: اللہ کی قسم! آپ غار میں نہ داخل ہوں حتیٰ کہ میں آپ سے پہلے داخل ہوجائوں تاکہ اگر اس میں کوئی ضررناک چیز ہو تواس کا ضررآپ کے بجائے مجھے پہنچے۔ پس حضرت ابوبکرؓ غار میں داخل ہوئے‘ پھر اس کو صاف کیا‘ پھر انہوں نے دیکھا کہ اس کی ایک جانب سوراخ ہے تو انہوں نے اپنے تہبند کو پھاڑ کر اس کے سوراخ کو بند کیااور اس میں دوسوراخ پھر بھی باقی رہ گئے‘ انہوں نے ان سوراخوں پر اپنے دونوں پیر رکھ دیے‘ پھر رسول اللہ ﷺ سے عرض کی: اب آپ تشریف لے آئیں ‘ سو رسول اللہ ﷺ غار میں داخل ہوگئے اور آپ نے اپنا سر ان کی گود میں رکھ دیا‘ پھر اس سوراخ سے (ایک سانپ نے)حضرت ابوبکرؓ کے پیرمیں ڈس دیا۔حضرت ابوبکرؓ (شدید کرب کے باوجود)ہلے بھی نہیں کہ کہیں رسول اللہﷺ کے آرام میں خلل واقع نہ ہو‘ شدتِ تکلیف سے ان کا آنسو رسول اللہ کے چہرۂ انور پر گرا تو آپ ﷺنے پوچھا: ابوبکر! کیا ہوا‘ انہوں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پرقربان ہوں‘ مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنا لعابِ مبارک( اُن کے پائوں میں )لگایا توان کی تکلیف جاتی رہی ‘ پھر(ایک وقت آیا کہ ) درد لوٹ آیااور وہی زہر ان کی موت کا سبب بن گیا(اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کو سِرّی شہادت نصیب ہوئی) اور رہی ان کی دن کی نیکی تو جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی اور بعض عرب مرتد ہوگئے اور انہوں نے کہا: ہم زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے‘ تو حضرت ابوبکرؓ نے کہا: اگر یہ ایک رسی دینے سے بھی منع کریں تو میں ان کے خلاف جہاد کروں گا‘(حضرت عمر ؓبیان کرتے ہیں:)میں نے کہا: اے رسول اللہ ﷺ کے خلیفہ! لوگوں کے ساتھ نرمی کریں‘ تو انہوں نے مجھ سے کہا: عمر!تم جاہلیت میں سخت تھے اور اسلام میں کمزور ہوگئے ہو‘ بے شک وحی منقطع ہوچکی ہے اور دین مکمل ہوچکا ہے‘ کیا میرے زندہ ہوتے ہوئے دین میں کمی کی جائے گی۔
[مشکوٰۃ:6034]
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: حضرت عمر ؓنے کہا: ابوبکرؓ ہمارے سردار ہیں اور ہم سب سے افضل ہیں اور رسول اللہ کے نزدیک ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
[ترمذی:3656]
حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بلند درجے والوں کو نچلے درجے والے ایسے دیکھتے ہیں جیسے تم آسمان کے کنارے میں طلوع ہونے والے ستاروں کو دیکھتے ہو اور ابوبکرؓ و عمرؓانہی میں سے ہیں اور بہت اونچے درجے پر فائز ہیں۔
[ترمذی:3658]
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق فرمایا: یہ دونوں اولین اور آخرین میں سے جنت کے ادھیڑ عمر لوگوں کے سردار ہیں ماسوا نبیوں اور رسولوں کے۔
[ترمذی:3665-66]


(۱)''حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: ایک دن نبی ﷺ گھر سے باہر نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ میں سے ایک آپ کی دائیں طرف تھے اور دوسرے بائیں طرف تھے اور آپ ان دونوں کے ہاتھ پکڑے ہوئے تھے‘ آپ نے فرمایا: ہم قیامت کے دن اسی طرح اٹھائے جائیں گے‘‘ ۔
[ترمذی:3669]
(۲)''حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا: تم میرے حوض پر بھی صاحب ہو اور غار میں بھی صاحب ہو‘‘۔
[ترمذی: 3670]
(۳)''حضرت عبداللہ بن حنطب بیان کرتے ہیں: نبی ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو دیکھ کر فرمایا: یہ میری آنکھیں اور کان ہیں‘‘۔
[ترمذی:3671]
(۴)''حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں‘اس قوم میں ابوبکر کے سوا کسی اور کے لیے امام بننا سزاوار نہیں ‘‘۔
[ترمذی:3673]
(۵)'' حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے پاس ابھی ابھی جبریل آئے‘ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری امت داخل ہوگی‘ پھر حضرت ابوبکرؓ نے کہا: یارسول اللہ ! میری خواہش ہے کہ میں بھی آپ کے ساتھ ہوں؛ حتیٰ کہ میں بھی اس دروازے کو دیکھوں‘ تب آپ ﷺ نے فرمایا: ابوبکر!سنو! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگے‘‘۔
[سنن ابودائود:4652]
(۶)''حضرت سہل بن سعد ساعدی بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ سے مشورہ کیا‘ صحابہ نے عرض کی : حضرت ابوبکرؓ کی رائے صحیح ہے ‘رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو ابوبکر کا خطا پر ہونا پسند نہیں ہے‘‘۔
[مجمع الزوائد‘ ج:9ص:46]
اسلام میں حضرت ابوبکر صدیق کے کئی امتیازات واختصاصات ہیں‘ جن میں ان کا کوئی شریک نہیں ہے‘ ان میں ایک سفرِ ہجرت اور غارِ ثور کے تین دن اور تین راتیں ہیں۔قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق کو رسول اللہ ﷺ کی ذات کے ساتھ جوڑ کر ''اِثْنَیْن‘‘ (دو) سے تعبیر فرمایااور سورۂ توبہ میں غارِ ثور کے منظر کو اِن کلماتِ طیبات میں بیان فرمایا :''دو میں سے دوسرا جب کہ وہ دونوں غار میں تھے ‘ جب وہ اپنے صاحب سے فرمارہے تھے :غم نہ کرو ‘بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے ‘پس اللہ نے اُن پر قلبی طمانیت نازل فرمائی‘‘۔اس آیت میں قرآنِ مجید کا کمالِ اعجاز ہے کہ رسول کریمؐ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓکا ذکر ایک ساتھ فرمایا اور یہ ذکرِ مبارک اللہ تعالیٰ کو اس قدر پسند ہے کہ آیت کے ایک حصے میں دونوں کا مختلف انداز میں چھ چھ بار ذکر فرمایا‘اس کی تفصیل یہ ہے: تین مقامات میں دونوں کا ذکر ایک ہی کلمے میں ہے اور وہ ہیں:(۱)'اِثْنَیْن‘‘(۲)ضمیرِ تثنیہ'ھُمَا‘(وہ دونوں)‘ (۳) 'مَعَنَا‘ (ہمارے ساتھ)میں ضمیر جمع متکلم۔ تین مقامات میں رسول اللہ ﷺ کا ذکر جدا ہے: (۱)'ثَانِیْ‘‘(۲) 'یَقُولُ‘ صیغہ واحد غائب‘ (۳) 'لِصَاحِبِہٖ‘ میں 'ہ‘ضمیرِ متصل‘ اس کا مرجع رسول اللہ ﷺ ۔اسی طرح حضرت ابوبکر ؓ کا ذکر بھی تین مقامات پر جدا ہے : (۱) 'لِصَاحِبِہٖ‘میں 'صاحب‘ سے مراد صدیقِ اکبر ہیں‘ (۲) 'لَا تَحْزَنْ میں واحد مذکر مخاطَب کی ضمیرِ مستتر 'اَنْتَ‘‘ (۳)'فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ‘میں ' ہ ‘ ضمیر متصل‘ اس کا مرجع ابوبکر صدیق ہیں۔ اس کے علاوہ پوری آیت میں چار جگہ نبی کریم ﷺ کا ذکرِ مبارک مزید بھی ہے: (۱) 'اِلَّا تَنْصُرُوْہٗ ‘اور 'فَقَدْ نَصَرَہٗ‘ اور 'اِذْاَخْرَجَہٗٗ اور 'وَاَیَّدَہٗ‘میں چار بار ' ہٗ ‘ ضمیرِ متصل کا مرجع ذاتِ رسالت مآب ﷺ ہے‘گویا مجموعی طور پر رسول کریم ؐکا ذکر دس مرتبہ آیا ہے۔ سفرِ ہجرت میں حضرت ابوبکر صدیق ؓکی رسول کریم ﷺ کے ساتھ رفاقت اور غارِ ثور میں بلاشرکتِ غیرے معیّتِ مصطفی ﷺ ایسا مُسَلَّمہ شرف ہے کہ اِس کے مصداق میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیُّع کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ۔ مشہور قول ہے :''مَنْ اَحَبَّ شَیْئاً اَکْثَرَ ذِکْرَہٗ ‘‘یعنی جو جس سے محبت کرتا ہے ‘وہ اُس کا کثرت سے ذکر کرتا ہے ‘پس اللہ تعالیٰ کا اس ایک آیت میں رسول اللہ ﷺ اور آپ کے رفیقِ غار حضرت ابوبکر صدیقؓ کابالترتیب دس باراور چھ بارمدح کے طورپر ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ دونوں ہستیاں اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں ۔معیّت ورفاقت توآج تک روضۂ انور میں بھی جاری وساری ہے ‘حشر میں بھی ہوگی اور یقینا جنت میں بھی ہوگی۔ امام فخر الدین رازی نے لکھا ہے '' اللہ تعالیٰ نے النساء:69میں انعام یافتہ طبقات کا ذکر فرمایا اور اُس میں مقامِ نبوت کے بعد مقامِ صدیقیت کو بلافصل بیان کر کے بتادیا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک نبوت کے بعد یہ اعلیٰ ترین منصب ہے‘اسی طرح آپ ﷺ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓکی خلافت بھی بلا فصل ہے ‘‘۔
قرآنِ مجید میں ایک سے زائد مرتبہ عظمتِ رسالت مآب ﷺ کے لیے باری تعالیٰ نے یہ انداز اختیار فرمایا کہ جب مخالفین نے عِناد کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ پر کوئی الزام لگایا یا آپ پر عِیَاذاً بِاللّٰہ!کوئی طعن کیا تواللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی صفائی بیان فرمائی‘ بعینہٖ یہی شِعار ہمیں سیرتِ ابوبکرِ صدیقؓ کے بارے میں بھی نظر آتا ہے ۔ سعید بن مسیَّب کی روایت میں ہے کہ آپ نے اپنے غلام نِسطاس کے عوض حضرت بلال کو خرید کر آزاد کردیا‘ اُس کے پاس کافی مال تھا ‘وہ بھی اُمَیَّہ کو دے دیا ۔ حضرت ابوبکرؓ نے اس سے کہا: تم مسلمان ہوجائوتو یہ سب مال تمہارا ہوجائے گا‘ اس نے انکار کردیا جس وجہ سے حضرت ابوبکرؓ اس سے ناراض ہوگئے اور جب اُمَیَّہ نے کہا: میں بلال کونِسطاس کے عوض بیچتا ہوں تو حضرت ابوبکرؓ نے اس کو غنیمت جانا اور نِسطاس کے عوض حضرت بلال کو خرید لیا۔ اس موقع پر مشرکین نے طعن کیااورکہا: ابوبکرؓ نے جو بلال کو اتنی بھاری قیمت پر خریدا ہے‘لگتا ہے کہ بلال نے اُن پر کوئی احسان کیا ہوگا‘ جس کا انہوں نے بدلہ چکایا ہے ‘ اُس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں: ''اورعنقریب وہ انتہائی پارسا شخص (نارِ جہنم ) سے محفوظ رہے گا‘جواپنا مال اس لیے دیتا ہے کہ پاک ہوجائے اور اُس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ چکایا جارہا ہو‘وہ صرف اپنے خداوند بزرگ وبرتر کے لیے ایسا کرتا ہے اور عنقریب اللہ اس سے ضرور راضی ہوگا‘‘(اللیل:17-21)‘
[السیرۃ النبویہ ‘ ج:1ص: 354-55]
حضرت ابوبکر صدیق ؓنے مختلف مواقع پرحضرت بلالؓ بن رباح کے علاوہ مندرجہ ذیل چھ مظلوم غلاموں کو اُن کے آقائوں کے ظلم وستم سے بچانے کے لیے خرید کر آزاد کیا :(۱) عامر بن فہیرہ ‘یہ بئر معونہ کے موقع پر شہید ہوئے ‘ (۲) اُمِّ عُمَیس‘(۳) زُنَیرہ‘اِن کی بینائی چلی گئی تھی ‘اللہ تعالیٰ نے کفار کے طعن کے بعد لوٹادی‘(۵۔۴)نہدیہ اور اُن کی بیٹی ‘ (۶) بنو مؤمل کی باندی ۔
نفسِ نبوت میں تمام انبیاء ورسل کرام برابر ہیں‘ مگر اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر درجات میں بلندی عطا فرمائی ہے اور اس کا بیان اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں فرمایا ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ نے بھی دیگر انبیائے کرام علیہم السلام پر اپنی فضیلت کی وجوہ کو صراحت کے ساتھ بیان فرمایاہے ؛اگرچہ ہر نبی کا رُتبہ اپنی جگہ بلند ہے ‘اسی طرح تمام اہلِ بیت اطہار اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اعلیٰ مراتب کے حامل ہیں ‘ہماری عقیدت ومحبت کا مرجع اور محور ہیں اورہم اُن میں سے کسی کی بھی تنقیص کا تصور نہیں کرسکتے ‘ لیکن ان کے درمیان باہم ایک دوسرے پر فضیلت کی گنجائش موجود ہے اور قرآن وسنت میں مختلف انداز میں اس کا بیان بھی ہے ‘لیکن اس باہم تفاضُل کا بیان نفسُ الامر اور حقیقتِ واقعی کے طور پرہونا چاہیے ‘ اِس سے تعریض ‘ توریہ ‘اشارہ وکنایہ اور ایہام کے طور پر کسی دوسرے صحابی کی تنقیص مراد لینا باطل ہے ۔حضرت ابوبکرصدیق ہمیشہ ایثاراورجاں نثاری کا استعارہ اور حوالہ رہے اور تاقیامت رہیں گے۔
حضرت ابوبکر صدیق ؓکی ذات پر سید المرسلین ﷺ کے غیر معمولی اعتماد کا ثبوت یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نا صرف انہیں‘ بلکہ اُن کے پورے گھرانے کوہجرت کی تیاری اور سفرِ ہجرت کے موقع پر امین بنایا ‘ اس میں اُن کی بیوی ‘صاحب زادی ‘ فرزند اور غلام‘ الغرض سب شامل تھے ۔یہ حضرتِ ابوبکر صدیق ؓکی استقامت ہی تھی کہ خاتم النبیینﷺ کے وصالِ مبارک کے بعد انتہائی نازک دور میں امورِ خلافت کو سنبھالا اور اُسے منہاجِ نبوت پر اُستوار کیا ۔آپ ہی نے یہ شِعار قائم کیا کہ حالات کیسے ہی پُرخطر کیوں نہ ہوں ‘ اطاعت واتّباعِ مصطفی ﷺ سے انحراف نہیں کیا جائے گااور ''مقامِ اُبْنیٰ‘‘کی طرف'' جیشِ اُسامہ ‘‘کی روانگی اس کی روشن مثال ہے ۔ آپ نے یہ شِعاربھی قائم کیا کہ حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں‘ اصولوں پر کوئی مفاہمت نہیں ہوسکتی ‘منکرینِ زکوٰۃ اور منکرینِ ختمِ نبوت کی سرکوبی اس کی واضح مثال ہے۔آپ نے اپنے اوّلین خطبۂ خلافت میں اپنا منشور بیان کرتے ہوئے یہ اصول وضع کیا کہ ہر تنقید سے بالاتر اور معصوم عن الخطا صرف ذاتِ رسالت مآب ﷺ ہے ‘آپ کے بعد ہر صاحبِ اقتدار واختیار کو قرآن وسنت کے معیار پر پرکھا جائے گااوراِسی پیمانے پر اُس سے اتفاق یا اختلاف کیا جاسکے گا‘کوئی بڑے سے بڑا صاحبِ منصب اپنی ذات میں قطعی حجت نہیں ۔ 
''ثانی اثنین ‘‘کا مظہر صرف سفرِ ہجرت پر ہی موقوف نہیں ہے ‘ بلکہ رسول اللہ ﷺ کی تئیس سالہ نبوی زندگی میں قدم قدم پر یہ منظر ہمیں نظر آئے گا ۔آپ ایمان لانے اوردعوت وتبلیغِ دین میں بھی ''ثانی اثنین ‘‘ ہیں‘اسلام کے ابتدائی دور میں آپ ہی کی دعوت وترغیب سے اسلام کے تابندہ ستارے حضرت عثمان بن عفان‘ عثمان بن مظعون ‘طلحہ بن عبیداللہ‘ زبیر بن عوام ‘عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم مشرّف بہ اسلام ہوئے ‘اِن میں سے پانچ حضرات عَشرۂ مبشّرہ میں سے ہیں‘ جنہیں رسول اللہ ﷺ نے دنیا ہی میں جنت کی بشارت دیدی تھی۔اسی طرح رسول اللہ ﷺ جب مرضِ وفات میں مبتلا ہوئے ‘تو آپ ﷺ نے حضرت ابوبکرصدیق کو مصلّیٰ امامت پر اپنا جانشین بنایااور آپ نے رسول کریم ﷺ کی حیاتِ ظاہری میں سترہ نمازوں کی امامت فرمائی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سمیت تمام صحابہ نے بیعت کی ‘جب حضرت ابوبکرؓنے فرمایا: لوگو!میں نے تمہاری بیعت کو لوٹادیا ہے‘ مبادا تم میں سے کوئی اس بات کو ناپسند کرے‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: '' اللہ کی قسم!ہم آپ کی بیعت کو واپس نہیں لیں گے اور نہ کبھی اس کا مطالبہ کریں گے ‘آپ کو رسول کریم ﷺ نے نماز میں ہمارا امام بنایا ‘تو کون ہے‘ جو آپ کو (خلافت میں) پیچھے رکھے‘‘۔
[فضائل الصحابہ لامام احمد بن حنبل:101]




حضرت ابوبکر صدیق ؓکے حسنِ نیت کی شہادت رسول اللہ ﷺ نے دی۔حدیثِ پاک میں ہے:
(1)''حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: نبی ﷺنے فرمایا: جس نے ازراہِ تکبر اپنا تہبند (ٹخنوں سے نیچے)لٹکایا ‘ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُس کی طرف نظر کرم نہیں فرمائے گا‘ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! میرے تہبند کی ایک جانب لٹک جاتی ہے‘اِلَّا یہ کہ میں اس کی حفاظت کروں‘ تو نبی ﷺ نے فرمایا:(ابوبکر!)تم اُن میں سے نہیں ہو(جو تہبند کو ازراہِ تکبر لٹکاتے ہیں)۔
[صحیح البخاری:5784]
حضرت ابوبکرؓ کا پیٹ کچھ باہر کو تھا‘ اس کے سبب اُن کا تہبند بے اختیار ایک جانب لٹک جاتا تھااور ظاہر ہے کہ آدمی کام کاج کرتے ہوئے ہر وقت تہبند کو پکڑ کر نہیں رہ سکتا۔ پس ثابت ہوا کہ ممانعت کی علّت تکبر ہے‘ اگر بے اختیار لٹک جائے تو وہ اس وعید کا مصداق نہیں ہے یا جہاں شلوار کا ٹخنوں سے نیچے لٹکنا تکبر کی علامت نہیں ہے تو اس پر ملامت روا نہیں ہے جیسے آج کل ائمۂ حرمین کے جبے ٹخنوں سے نیچے تک ہوتے ہیں اور یہ وہاں کا رواج ہے۔ جنت کی تمنا مومن کی آرزوئوں کی معراج ہے‘ زبانِ رسالت مآب ﷺ کی یہ شہادت آج بھی قائم ہے کہ جنت کا ہر دروازہ صدیقِ اکبرؓکیلئے کشادہ رہے گا:
(الف) :''حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے ہر چیز کا جوڑا (مثلاًکپڑے‘ گھوڑے وغیرہ) اللہ کی راہ میں خرچ کیے‘ اس کو جنت کے (مختلف)دروازوں سے بلایا جائیگا‘ (کہاجائے گا:) اے بندۂ خدا! ادھر آ یہ بہتر ہے ‘سو جو نمازی ہوگا‘ اسے بَابُ الصَّلٰوٰۃ سے‘ جو مجاہد ہوگا‘ اسے بَابُ الْجِہَادسے‘ جو صدقہ دینے والا ہوگا‘ اسے بَابُ الصَّدَقَہ سے اور جو روزے دار ہوگا ‘ اسے بَابُ الصِّیَام اور بَابُ الرِّیَان سے بلایا جائیگا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کی:(یارسول اللہؐ!)جس شخص کو ان دروازوں میں سے کسی ایک سے بھی بلالیا جائے گا‘اس کی تو کوئی حاجت باقی نہیں رہے گی( یعنی اصل مقصود تو جنت میں داخل ہونا ہے‘ اگر ایک دروازے سے بھی بلا لیا گیا توکامیاب ہے)‘پھر انہوں نے پوچھا: یارسول اللہؐ! کوئی ایسا بھی (خوش نصیب )ہے ‘ جسے ہر دروازے سے بلایا جائے گا‘آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اور(ابوبکرؓ!) مجھے یقین ہے کہ تم انہی میں سے ہو‘۔
[صحیح البخاری:3666]
(ب): ''حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جنت میں ایک ایسا شخص داخل ہوگا‘ جسے جنت کے ہر گھر والے اور ہر بالا خانے والے کہیں گے: مرحبا‘ مرحبا‘ ہمارے پاس آئیں‘ ہمارے پاس آئیں‘ حضرت ابوبکر ؓنے عرض کی: یارسول اللہؐ! وہ شخص بہت کامیاب اور سرخرُو ہوگا‘ آپ ﷺ نے فرمایا: کیوں نہیں ! اورابوبکر! وہ تم ہی ہوگے‘۔
[صحیح ابن حبان: 6867]

امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کی نظر میں: حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ہی اس کے اہل تھے کہ عالمِ برزخ میں رسول اللہ ﷺ کی قُربت سے فیض یاب ہوں‘ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: میں لوگوں کے درمیان کھڑا ہوا تھا‘ لوگ حضرت عمر بن الخطابؓ کے لیے دعا کر رہے تھے اور حضرت عمر کا جنازہ تخت پر رکھا ہوا تھا‘ اس وقت ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھے پر رکھی ہوئی تھی اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اللہ آپ پر رحم کرے‘ میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کا مقام آپ کے دو صاحبوں(رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر) کے ساتھ کردے گا‘ کیونکہ میں نے کئی بار رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ''میں اور ابوبکر اور عمر تھے‘ میں نے اور ابوبکر وعمر نے یہ کام کیا‘ میں اور ابوبکر اور عمر گئے، پس بے شک میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اللہ آپ کو آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا‘ میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو یہ کہنے والے حضرت علی بن ابی طالب تھے۔
[صحیح البخاری:3677]

جس منبعِ علم سے رَحْمَۃٌ لِلْعَالَمِیْن سیراب ہوئے‘ اسی کابچا ہواتبرک حضرت ابوبکر صدیق ؓکو عطا ہوا‘ حدیث پاک میں ہے:''حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے ایک بڑا پیالہ دیا گیا ہے‘ جو دودھ سے بھرا ہوا تھا‘ میں نے اس سے اتنا سیر ہوکر پیاکہ مجھے لگادودھ میرے گوشت اور جلد میں سرایت کر رہا ہے ‘ میں نے اس پیالے میں کچھ دودھ بچایا اور وہ ابوبکرؓ کو دیا‘ صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! یہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا حتیٰ کہ جب آپ اس سے سیر ہوگئے تو آپ نے اپنا بچا ہوا علم ابوبکر ؓکو دیا‘ آپ ﷺ نے فرمایا: تم نے اس کی صحیح تعبیر کی ہے۔
[صحیح ابن حبان:6854]

افضل البشر بعدالانبیاء کون ہے؟ ملاحظہ کیجیے:
''رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسان بن ثابتؓ سے فرمایا: تم نے ابوبکر کی شان میں کچھ اشعار کہے ہیں‘ انہوں نے عرض کی: جی ہاں‘ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے بھی سنائو‘تو میں نے یہ اشعار پڑھے:ترجمہ:''بلند غار میں دو میں سے دوسرا‘جب وہ پہاڑ پر چڑھے تو دشمن نے (ان کی تلاش میں)چکر کاٹااور وہ رسول اللہ ﷺ کے محبوب تھے اور انہیں پتا تھا کہ مخلوق میں (انبیاء کے علاوہ )کوئی اُن کا ہمسر نہیں‘‘ تو رسول اللہﷺ یہ اشعار سن کر مسکرائے۔
[اَلْمُسْتَدْرَکْ عَلَی الصَّحِیْحَیْنِ لِلْحَاکِم:4413]
حضرت انس بن مالک ؓبیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کا تریسٹھ برس کی عمر میں وصال ہوا اور حضراتِ ابوبکر وعمرؓ کی عمریں بھی تریسٹھ سال تھیں۔
[صحیح مسلم: 2348]
سورۃ اللیل کی آخری پانچ آیاتِ مبارکہ کی تفسیر اس حدیث میں ملاحظہ کیجیے:'' حضرت عبداللہ بن عمر ؓبیان کرتے ہیں:اس دوران نبی ﷺ تشریف فرما تھے اور آپ کے پاس ابوبکرِ صدیقؓ عَبا پہنے ہوئے تھے اور وہ عبااُن کے سینے پر کانٹوں سے جوڑ کر ڈلی ہوئی تھی‘ دریں اثنا جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اور سلام عرض کیا اور کہا: یارسول اللہؐ! کیا بات ہے کہ ابوبکر اپنے سینے پر کانٹوں سے جڑی ہوئی عبا ڈالے ہوئے ہیں‘ آپ ﷺ نے فرمایا: جبریل! انہوں نے فتح مکہ سے پہلے اپنا مال مجھ پر خرچ کیا ہے ‘ جبریلِ امین نے کہا: اللہ کی جانب سے انہیں سلام پہنچائیے اور کہیے: آپ کا رب آپ سے پوچھتا ہے: ابوبکر! کیا تم اپنے اس فقر پر مجھ سے راضی ہو یا ناراض‘ تو ابوبکر روئے اور کہا: کیا میں اپنے رب پر ناراض ہوں گا‘(پھر دو بار فرمایا) میں اپنے رب سے راضی ہوں۔
[حِلْیَۃُ الْاَوْلِیَائ‘ج:7ص:105]
یہ روایت ضعیف ہے ‘ لیکن فضائل میں ضعیف روایات معتبر ہیں‘ البتہ جن روایات پر عقیدے ‘ فرائض‘ واجبات اور سُنَنْ کا مدار ہے‘اُن کے لیے صحت لازمی ہے۔ 
سورۂ طٰہٰ آیت:55کی رو سے حضور سید المرسلین ﷺ اور حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کی تخلیق جس مٹی سے ہوئی‘وہ ایک ہی ہے:''عبداللہ بن سوّار بیان کرتے ہیں:میرے باپ نے ایک دن مجھے یہ واقعہ بیان کیا: نبی ﷺ کا گزر ایک مکان پر ہوا جہاں ایک قبر کھودی جارہی تھی‘ آپ ﷺ نے پوچھا: یہ کس کی قبر ہے‘ لوگوں نے بتایا: فلاں حبشی کی قبر ہے‘ آپ ﷺ نے فرمایا: واہ سبحان اللہ! زمین سے آسمان تک اس مٹی کے آثار ہیں جس سے اسے پیدا کیا گیا تھا‘ تو میرے والد نے کہا: سوّار! میں تو سمجھتا ہوں ابوبکر وعمرؓ کی اس سے بڑھ کر کوئی فضیلت ہوہی نہیں سکتی کہ اُن دونوں کی تخلیق اُس مٹی سے ہوئی جس سے رسول اللہ ﷺ کو پیدا کیا گیا تھا۔
[فَضَائِلُ الصَّحَابَہْ لِامَام اَحْمَدْ بِنْ حَنْبَل:528]
''اسی زمین سے ہم نے تمہیں پیدا کیاہے اور اسی میں تم کولوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ تم کو باہر نکالیں گے۔
[سورۃ طٰہٰ:55]
قرآنِ کریم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی صحابۂ کرام کے مدارج ومراتب میں اصولِ ترجیح کو بیان فرمایا ہے‘ ارشاد ہوا:
''(اے مسلمانو!) تم میں سے کوئی بھی ان کے برابر نہیں ہوسکتا‘ جنہوں نے فتح (مکہ) سے پہلے (اللہ کی راہ میں )مال خرچ کیا اور(کافروں سے) قتال کیا‘ ان کا درجہ اُن سے بہت بڑا ہے جنہوں نے فتحِ مکہ کے بعد (اللہ کی راہ میں )مال خرچ کیا اورجہاد کیا‘ (ہاں!)اللہ نے ان سب سے اچھے انجام کا وعدہ فرمایا ہے اور اللہ تمہارے کاموں کی خوب خبر رکھنے والا ہے۔
(سورۃ الحدید:10)
حضرت ابوبکر صدیق ؓکی تصدیق قرآن کریم میں (سورۂ آل عمران:181) سے ہوئی‘ امام ابن جریر طبری روایت کرتے ہیں:''حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیقؓ بَیْتُ الْمِدْرَاس گئے‘ آپ نے دیکھا وہاں بہت سے یہودی فِنْحَاص کے گرد جمع تھے‘ یہ شخص یہودیوں کا بہت بڑا عالم تھا‘ حضرت ابوبکرنے فِنْحَاص سے کہا: اے فِنْحَاص ! تم پر افسوس ہے‘ تم اللہ سے ڈرو اور اسلام قبول کرلو‘ تم کو معلوم ہے کہ سیدنا محمدؐ اللہ کے رسول ہیں‘ وہ اللہ کے پاس سے وہ دین برحق لے کر آئے ہیں جس کو تم تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہو‘فِنْحَاص نے کہا: ابوبکر! بخدا!ہمیں اللہ کی کوئی حاجت نہیں ہے‘ بلکہ اللہ ہمارا محتاج (فقیر) ہے‘ ہمیں اس سے فریاد کی ضرورت نہیں ہے‘ بلکہ وہ ہم سے فریاد کرتا ہے اور ہم اس سے مستغنی (بے پروا) ہیں‘اگر اللہ ہم سے مستغنی ہوتا توہم سے قرض طلب نہ کرتا جیساکہ تمہارے پیغمبر کہتے ہیں‘ وہ ہم کو ربا(سود) سے منع کرتا ہے اور خود ہم کو سود(اللہ کی راہ میں خرچ کرنے پر زیادہ اجر) دیتا ہے‘ اگر اللہ غنی ہوتا تو ہم کو سود نہ دیتا۔ حضرت ابوبکرؓ یہ سن کر غضبناک ہوئے اورفِنْحَاص کے منہ پر زور سے ایک تھپڑ مارا اور فرمایا: بخدا! اگر ہمارے اور تمہارے درمیان معاہدہ نہ ہوتا تو میں تمہاری گردن ماردیتا‘فِنْحَاص رسول اللہ ﷺ کے پاس گیا اور حضرت ابوبکرؓ کی شکایت کی‘ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر ؓسے پوچھا: تم نے اس کو تھپڑ کیوں مارا تھا‘ حضرت ابوبکرؓ نے بتایا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی کی اور کہا: اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں‘ اس وجہ سے میں نے غضبناک ہوکر اس کو تھپڑا مارا۔ فِنْحَاص نے اس کا انکار کیا اور کہا: میں نے یہ نہیں کہا تھا‘ تب اللہ تعالیٰ نے فِنْحَاص کے رد اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: ''بے شک اللہ نے ان لوگوں کا قول سن لیا جنہوں نے کہا تھا کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔
[تفسیر طبری: 8300]




حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خصوصیات:
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بے شمار خصوصیات اور امتیازات سے نوازا، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جمہورِ امت نے آپ کو ''اَفْضَلُ الْبَشَر بَعْدَ الْاَنْبِیَاء‘‘ قرار دیا۔ امامِ اہلسنت امام احمد رضا قادری نے لکھا: ''اس سے مراد افضلیت مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہ نہیں ہے بلکہ مطلق افضلیت ہے، سو اگر کسی خاص شعبے میں یا بعض شعبوں میں دیگر صحابۂ کرام کو کوئی امتیازی فضیلت حاصل ہو تو یہ صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی افضلیتِ مطلقہ کے منافی نہیں ہے‘‘۔ آپؓ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسلام میں آپ ''اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن‘‘ میں سے ہیں۔ غارِ ثور اور سفرِ ہجرت کے امین و رفیق، تمام غزوات میں آپﷺ کے ہم رقاب اور آج روضۂ رسولﷺ میں جوارِ مصطفیﷺ میں آرام فرما ہیں اور اس طرح کہ جہاں قدمینِ مصطفیﷺ ہیں، اس کے متصل قبرِ صدیق اکبرؓ کا سرہانہ ہے اور قیامت میں بھی آپﷺ کے ساتھ اٹھیں گے اور ساتھ ہی جنت میں داخل ہوں گے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
پائے رسول پاک پہ ہو سر رکھا ہوا
ایسے میں آ اَجَل، تو کہاں جا کے مر گئی
یہ خواب تو ہر مومن کا ہے لیکن اس کی تعبیر صدیق اکبرؓ نے پا لی ۔
سن 6 ہجری کو رسول اللہﷺ تقریباً چودہ سو اصحاب کے ساتھ عمرے کے لیے تشریف لائے، آپﷺ نے صحابۂ کرام کو بتایا تھا: ''میں نے خواب دیکھا ہے کہ ہم بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں‘‘، حدیبیہ کے مقام پر مشرکینِ مکہ نے آپﷺ کو روک دیا اور کہا: ''ہم عمرے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘، اس دوران قریشِ مکہ کے ساتھ سفارت کاری ہوئی اور بالآخر ایک معاہدے پر اتفاق ہوا، اس کی شرائط یہ تھیں: (1) دس سال تک جنگ بندی رہے گی اور لوگ ایک دوسرے سے محفوظ رہیں گے۔ (2) اس سال مسلمان عمرہ ادا کیے بغیر واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال عمرہ ادا کریں گے اور تین دن مکہ مکرمہ میں رہیں گے‘ صرف وہی ہتھیار ساتھ رکھیں گے جو عام حالات میں سفر میں رکھے جاتے ہیں۔ (3) جو شخص مکۂ مکرمہ سے اسلام قبول کرنے کے لیے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر رسول اللہﷺ کے پاس آئے گا تو اُسے لوٹا دیا جائے گا (4) جو مدینۂ منورہ سے پلٹ کر قریش کے پاس آئے گا تو اُسے نہیں لوٹایا جائے گا، (5) قبائلِ عرب کو آپشن دیا جائے گا کہ وہ مسلمانوں اور قریشِ مکہ میں سے جس کے چاہیں حلیف بن جائیں۔
بظاہر اس معاہدے کی شرائط مسلمانوں کی کمزور پوزیشن کو ظاہر کر رہی تھیں، اس سے مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوا، حضرت عمرؓ بن خطاب جن کے روئیں روئیں اور انگ انگ میں دینی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ''یا رسول اللہﷺ! کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘، آپﷺ نے جواب دیا: ''یقینا سچا نبی ہوں‘‘، انہوں نے کہا: ''کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟‘‘، آپﷺ نے فرمایا: ''یقینا ایسا ہی ہے‘‘، انہوں نے کہا: ''کیا ہمارے شہداء جنت میں اور اُن کے مقتولین جہنم میں نہیں ہوں گے؟‘‘، آپﷺ نے فرمایا: ''ایسا ہی ہوگا‘‘، انہوں نے کہا: ''تو پھر ہم کمزور پوزیشن میں آکر کیوں معاہدہ کر رہے ہیں؟‘‘، آپﷺ نے جواب دیا: ''میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ مجھے ضائع نہیں فرمائے گا، وہ میرا مددگار ہے‘‘، انہوں نے پھر کہا: ''کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں کہا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے؟‘‘، آپﷺ نے فرمایا: ''یقینا کہا تھا، لیکن میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسی سال کریں گے‘‘۔ حضرت عمرؓ کو پھر بھی قرار نہ آیا اور وہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے جو رسول اللہﷺ سے سوال و جواب کے وقت وہاں موجود نہیں تھے، اُن سے وہی سوالات اُسی ترتیب سے کیے اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے لفظ بہ لفظ وہی جوابات دیے جو آپﷺ نے دیے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی سوچ تاجدارِ نبوتﷺ کی فکر کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور ذرّہ بھر فرق نہیں تھا۔
[سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد،ج: 5، ص: 52]
اسی طرح جب رسول اللہﷺ غارِ حرا سے پہلی امانتِ وحی لے کر گھر لوٹے تو بشری تقاضے کے تحت آپ پر ایک گھبراہٹ کی سی کیفیت لاحق تھی اور شدید گرمی کے موسم میں آپ پر کپکپی طاری تھی۔ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا: ''بخدا! اللہ آپ کو بے آبرو نہیں کرے گا، کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کے کام آتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبت اٹھانے والوں کے مددگار ہوتے ہیں‘‘۔
[صحیح البخاری: 3]
پس جس کا کردار اتنا پاکیزہ اور بلند ہو، یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُسے دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دے۔
پھر ایک موقع آیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کفارِ مکہ کی اذیتوں سے تنگ آ کرمکۂ مکرمہ سے ہجرت کے ارادے سے روانہ ہوئے، پس جب آپؓ ''بَرْکَ الْغِمَاد‘‘ کے مقام پر پہنچے تو راستے میں وہاں کے رئیس ''اِبْنُ الدَّغِنَہ‘‘ سے ملاقات ہوئی، اس نے پوچھا: ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا: قوم مجھے وطن سے نکال رہی ہے، تو میں نے سوچا کہ اللہ کی زمین میں سیاحت کروں اور اپنے رب عزوجل کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا ''ابوبکر! رک جائو، آپ جیسے شخص کو نہ خود وطن سے نکلنا چاہیے اور نہ جبراً نکالا جانا چاہیے، کیونکہ آپ ناداروں کے کام آتے ہیں، صلۂ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصیبتیں اٹھانے والوں کے مددگار ہوتے ہیں، پس میں آپ کو پناہ دیتا ہوں، لوٹ جائیے اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجیے‘‘.
[سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد، ج: 2، ص: 410]
ذرا غور فرمائیے ! خُلُقِ مصطفیﷺ کے بارے میں جو کلمات اُمُّ المؤمنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے کہے، بعینہٖ وہی کلمات خُلُقِ صدیقی کے حوالے سے ایک نظریاتی دشمن اور رئیسِ مکہ ابن الدَّغِنَہ نے کہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قُرْبت و صحبتِ مصطفیﷺ کی برکت سے جنابِ صدیقِ اکبرؓ کا کردار خُلُقِ مصطفیﷺ کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، اس طرح سو فیصد عکسِ کردارِ مصطفی اورکہاں ملے گا۔
عام دستور یہ ہے کہ جس پر کوئی طعن کیا جائے یا الزام لگایا جائے تو وہ خود اپنی صفائی پیش کرتا ہے، لیکن مقامِ مصطفیﷺ کے انداز نرالے ہیں کہ طعن مصطفی پر کیا جاتا ہے اور صفائی ربِ مصطفی بیان فرماتا ہے، سو جب کچھ عرصے کے لیے وحی موقوف ہوگئی اور کفارِ مکہ نے طعن کیا: ''محمد کے رب نے ان کو چھوڑ دیا ہے اور وہ اُن سے ناراض ہوگیا ہے‘‘، بجائے اس کے کہ آپﷺ جواب دیتے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''(اے حبیبِ مکرم!) آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا نہیں ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوا ہے اور بے شک ہر بعد والی ساعت آپ کے لیے پہلی ساعت سے بہتر ہے‘‘ (سورۃ الضحیٰ: 4)۔
اسی طرح جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خرید کر آزاد کیا تو کفارِ مکہ نے طعن کیا: ''ہو نہ ہو، ابوبکر نے بلال کے کسی احسان کا بدلہ چکایا ہے‘‘، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''اور اس آگ سے وہ سب سے زیادہ متقی شخص محفوظ رہے گا جو (اللہ کی راہ میں) اپنا مال دیتا ہے تاکہ اس کا قلب (مال کی محبت کے غلبے سے) پاک ہو جائے اور اُن پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے، جس کا وہ بدلہ چکا رہے ہوں، وہ تو صرف اپنے بزرگ وبرتر پروردگار کی رضا کے لیے (اپنا مال خرچ کرتے ہیں) اور وہ عنقریب اُن سے راضی ہوجائے گا‘‘ (سورۃ اللیل:17 تا 21)۔
جماعتِ صحابہ میں حضرت صدیقِ اکبرؓ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی چار پشتوں کو شرفِ صحابیت سے سرفراز فرمایا: ''حضرت موسیٰ بن عقبہؓ بیان کرتے ہیں: ہم صرف چار ایسے افراد کو جانتے ہیں جو خود بھی مشرف بہ اسلام ہوکر شرف صحابیت سے مشرّف ہوئے اوران کے بیٹوں نے بھی اسلام قبول کر کے شرفِ صحابیت پایا: (والدِ صدیقِ اکبر) ابوقحافہ عثمان بن عامر، حضرت ابوبکرصدیق، (بیٹے) عبداللہ و عبدالرحمن بن ابی بکر، (پوتے) ابوعتیق محمد بن عبدالرحمن (پڑپوتے) رضی اللہ عنہم‘‘
[اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر لِلطَّبْرَانِیْ:11]
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:''اگر ہم ان پر یہ فرض کر دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھرو ں سے نکل جائو تو اُن میں بہت کم ہوں گے جو اس پر عمل کرتے‘‘ (النسآء: 66)۔ عامر بن عبداللہ بن زبیر بیان کرتے ہیں: جب یہ آیۂ مبارکہ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکرؓ نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے حکم فرمائیں کہ میں اپنے آپ کو قتل کر دوں تو میں ضرور ایسا کروں گا، آپﷺ نے فرمایا: ابوبکر! تم نے سچ کہا‘‘۔
[تفسیر ابن ابی حاتم: 5566]
حضرت عبداللہ بن قُرَطؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمﷺ نے فرمایا: ''اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا دن ''یوم النّحر‘‘ ہے پھر دوسرا دن‘‘، راوی بیان کرتے ہیں: پانچ یا چھ اونٹنیاں رسول اللہﷺ کے قریب آئیں اور وہ آپ کے قریب ہونے لگیں تاکہ آپﷺ اُن میں سے جس کے گلے پر چاہیں چھری پھیر دیں‘‘ 
[ابوداود: 1765]
امیر خسرو نے اس روایت کو نہایت حسین انداز میں منظوم کیا ہے:
ہمہ آہوانِ صحرا، سرِ خود نہادہ بر کف
بہ امید آنکہ روزے، بشکار خواہی آمد
ترجمہ: صحرا کے سارے ہرن اپنا سر اپنی ہتھیلی پر رکھ کر تیار بیٹھے ہیں کہ شاید کسی دن آپﷺ ان کے شکار کے لیے تشریف لائیں اور وہ آپ کا شکار بننے کی سعادت حاصل کریں۔
حضرت صدیق اکبرؓ کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رسول اللہﷺ کی حیاتِ ظاہری میں آپؓ نے امامت فرمائی‘ حدیث پاک میں ہے، آپﷺ نے فرمایا: ''جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں، کسی اور کے لیے سزاوار نہیں کہ وہ امامت کرے‘‘ (سنن ترمذی: 3670)۔ اسی طرح خلیفۂ اول بلافصل ہونے، مانعینِ زکوٰۃ اور منکرینِ ختم نبوت کے خلاف عَلَمِ جہاد بلند کرنے اور جمعِ قرآن کا اعزاز حاصل کرنے میں بھی آپؓ افضل الصحابہ ہیں۔

م







احادیثِ ابوبکر:






نصائحِ ابوبکر:





حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ  کا تعارف:
انبیاء کرام علیہم السلام  کے بعد انسانوں میں سب سے افضل شخصیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  ہیں، جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اپنا خلیل بنانا چاہتے تھے، جن کو قرآن کریم میں اللہ نے سچائی کی تائید کرنے والا اور حق و سچ کا پیکر و پرتو قرار دیا، جنہوںنے زمانۂ جاہلیت میں بھی شراب و جوا اور ہمہ جہتی منکرات سے اجتناب کیا ، جن کے بارے میں خلیفۂ عادل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ: میں ان کے مقام و مرتبہ تک کبھی نہیں پہنچ سکتا، وہ جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں کی امامت تفویض کی، جنہیں جنت کے سبھی دروازے سے داخل ہونے کی دعوت دیںگے، وہ جس نے اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم  پر اس قدر احسان کیے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ارشاد فرمانا پڑا کہ: ان کے احسانات کا بدلہ خود اللہ تعالیٰ چکائیں گے، وہ جو صرف عشرہ مبشرہ میں ہی شامل نہیں، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: تم میرے حوضِ کوثر پر بھی رفیق ہوگے جیسے سفرِ ہجرت میں میرے ساتھ تھے، وحی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی گھبراہٹ کو زائل کرنے کے لیے اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  نے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صفات بیان کی تھیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچنے دے گا، کیونکہ آپ ناداروں کی مدد کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، حق بات پر لوگوں کا ساتھ دیتے ہیں، صلہ رحمی کو اختیار کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔‘‘ بعینہٖ انہی صفات سے ابن دغنہ نے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کو متصف کرکے فرمایا کہ: ’’مکہ والوں کی اذیت سے ہجرت نہ کریں، میں آپ کو امان دیتاہوں۔‘‘

نام و لقب 
خلیفہ بلافصل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین، حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، آپؓ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عمر بن عمر القرشی التیمی تھا اور آپ کی کنیت ابوبکر تھی۔ آپؓ ابوقحافہ کے گھر میں عام الفیل کے دوسال چھ ماہ بعد ۵۷۳ء کو پیدا ہوئے۔ آپؓ کے لقب صدیق اور عتیق قرار پائے۔ آپؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرلمحہ اور ہر گھڑی تائید و نصرت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ نبوت اور سفرِ معراج پر سب سے پہلے تصدیق وگواہی آپؓ نے دی، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق و سچ کی تائید کرنے کا لقب (صدیق) عنایت کیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خوبصور ت چہرے والے اور کشادہ پیشانی کے حامل تھے۔ ایک روایت کے مطابق آپ ؓ کی والدہ کی اولاد زندہ نہ رہتی تھی تو انہوں نے اللہ سے دعا مانگی کہ اس بچہ کو زندگی دراز ملے، ان وجوہات کی وجہ سے لقب عتیق پڑگیا۔ آپ وہؓ واحد صحابی ہیں مہاجرین میں سے جن کے والدین نے اسلام قبول کیا اور جن کی چار نسلوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہی نہیں کی، بلکہ سبھی حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔


قبولِ اسلام 
یہ وہ موقع ہے کہ جب اسلام کی صدائے حق کو قبول کرکے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ساتھ دینا اپنے آپ کو مشکلات میںڈالنے کے مترادف تھا، کیونکہ اعلانِ نبوت کے بعدمشرکینِ مکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بھرپور مخالف ہوچکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی صدائے حق وصداقت اس حد تک ناقابلِ برداشت ہوچکی تھی کہ مشرکینِ مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہوچکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے اعلانِ نبوت کے بعد تجارتی سفر سے واپسی پرجونہی سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کو خبر ملی کہ آپ کے قریبی ساتھی و دوست محمدبن عبداللہ نے اعلانِ نبوت کیاہے تو آپؓ فوراً نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھاکہ کیا آپ نے اعلانِ نبوت کیا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی جانب سے اثبات میں جواب ملتے ہی آپؓ بغیر کوئی دلیل مانگے مشرف باسلام ہوگئے۔ ایسے موقع پر اسلام کی قبولیت جبکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سگے چچا و مکہ کے سردار آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دشمن ہوچکے تھے، آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  ،بچوں میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  اور غلاموں میں حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ  کے علاوہ کسی بھی جوان و بڑی عمر کے آزاد فرد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی دعوت کو قبول نہیں کیا تھا ، گویاآپؓنے اسلام قبول کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر آنے والی ہرآزمائش کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا۔

پیغمبرِ اسلام پر فدائیت
اسی زمانے کامشہورواقعہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  خانہ کعبہ میں تشریف لاکرکفار کو دینِ متین کی دعوت دینے لگے توکفارنے جواباًگردن مبارک میںکپڑاڈال کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  پر تشددکرناشروع کردیا، اسی دوران آپؓکو معلوم ہواتوآپؓ آئے اور کفار سے مخاطب ہوکر گویاہوئے کہ کیا تم ایسے فرد پرظلم وستم ڈھارہے ہو جوتمہیں اللہ کے علاوہ باقی معبودوں کی عبادت کرنے سے منع کرتاہے اور صرف ایک اللہ کی عبادت کی طرف بلاتاہے؟! یہ کہنا تھا کہ کفارِمکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو چھوڑ کر آپؓ پر حملہ آور ہوگئے۔ کفارنے آپؓ کواتنا مارا کہ آپؓبے ہوش ہوگئے۔ آپؓ کو اس حالت میں گھر لایاگیا۔ گھر پہنچ کر جب آپؓ کو ہوش آیا تو سب سے پہلا سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کی خیریت دریافت کرنے سے متعلق تھا۔ والدہ دودھ کا پیالہ لے کر سرہانے کھڑی تھیں کہ آپؓ دودھ نوش فرمائیں، مگر آپؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے متعلق بارہا استفسار کیا تو والدہ نے امِ جمیل کو طلب کیا، باوجود ام جمیل کی جانب سے مطلع کرنے کے کہ آپ بخیر و عافیت ہیں، آپؓ کی تسلی نہ ہوئی تو اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہاں پہنچ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی جانب سے حوصلہ ملنے پر آپ جیسی اولوالعزم شخصیت نے اپنے دکھ دردو تکلیف کو بھلا کر  اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم  سے اپنی بھرپور وابستگی کا اظہارکرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے درخواست کی کہ دعاکریں میری والدہ اسلام قبول کرلے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس مطالبہ پر ہاتھ اُٹھا کر اپنے رب کے حضور دعامانگی جس کے نتیجہ میں آپ کی والدہ محترمہ مشرف باسلام ہوئیں۔

شانِ صدیق  ؓ بزبانِ قرآن
قرآن میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ   کا تذکرہ سورۂ آل عمران،سورۃ اللیل،سورۃ التوبہ، سورۃ الزمراور سورۃ الفتح میں ہوا ہے، جن میں آپؓ کے مناقب بیان ہوئے ہیں کہ سفرِ ہجرت کے موقع پر آپؓ  دشمنوں کے غارِثور کے دہانے پر پہنچنے کی وجہ سے حزین و غمگین ہوئے اور کہنے لگے کہ: اگر دشمن نے ہمارے قدموں کو دیکھ لیا تو پہچان لیں گے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ان دوکے بارے میں کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے؟! امتیازی بات یہ ہے کہ مفسرین نے لکھا ہے کہ ’’لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا‘‘ کا ارشاد ہوا، مطلب یہ کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کو اپنا خوف اور اپنی فکر نہیں تھی، بلکہ پریشان تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے متعلق تھے کہ کہیں دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو نقصان نہ پہنچا دے۔ اسی طرح کفار کی جانب سے اللہ تعالیٰ کا تمسخر اُڑایا گیا تو اس معاملہ کا تصفیہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آیت کریمہ نازل کرکے کیا۔ آپؓ کی جانب سے راہِ خدا میں صدقہ و خیرات کی گواہی سورۃ اللیل میں دی گئی۔ سورۃ الزمر میں آپؓ کے پیکرِ صداقت ہونے کو بیان کیا گیا۔ سورۃ الفتح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی معیت و صحبت کا تذکرہ ہوا۔

مقامِ صدیق  ؓ بزبانِ نبی ﷺ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  پر سب سے پہلے مردوں میں سے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ  ایمان لائے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  نے قبولِ اسلام سے تادمِ زیست خود کو اوراپنے اہل خانہ کو اسلام کی خدمت کے لیے وقف کردیا، جس کا نتیجہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاںعظمتِ صدیقی کے تذکرے ملتے ہیں، وہیں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی احادیث میں آپ کے فضائل و مناقب بیان ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ایک مرتبہ اُحد پہاڑ پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ، سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ  اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ  کے ہمراہ موجود تھے، پہاڑ لرزنے لگا تو آپ رضی اللہ عنہ  نے فرمایا: ’’تھم جا! تجھ پر نبی و صدیق اور دوشہید موجود ہیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کے مقامِ امتیازی کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ: ’’صدیقؓ سے محبت مومن کرے گا جبکہ نفرت منافق رکھے گا۔‘‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بھی فرمایا کہ: ’’میں نے دنیامیں تمام محسنوں کے احسانات کا بدلہ اُتار دیا، جبکہ صدیقِ اکبرؓ کے احسانات کا بدلہ اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں گے۔‘‘ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ: ’’ابوبکرصدیقؓ اور عمر فاروقؓ جنت کے تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار ہوںگے ماسوائے انبیاء کے۔‘‘ احادیث میں یہ بھی واردہوا ہے کہ: ’’آپؓ کی موجودگی میں کسی بھی شخص کے لیے روا نہیں کہ وہ مصلائے امامت پر کھڑا ہو۔‘‘ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے مرض الوفات میں ۱۷ نمازوں کی امامت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  نے کی اوریہی وجہ ہے کہ رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم  کی لختِ جگر سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا  کی نمازِ جنازہ حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ نے خودپڑھانے کی بجائے مصلائے امامت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ  کے سپرد کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایک بار ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  نے استفسار کیا کہ آسمان کے ستاروں کے بقدر کسی کی نیکیاں ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: ہاں! سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کی ۔ ام المومنینؓ خاموش ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پوچھا کہ آپ کے سوال کا کیا مطلب تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ میرا یہ خیال تھا کہ اس قدر نیکیاں میرے والد ماجدحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  کی ہوں گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’غمگین کیوں ہوتی ہو؟ اتنی نیکیاںآپ کے والد ماجد کی تو صرف سفرِ ہجرت کی تین راتوں کی ہیں ۔‘‘

روشن خدمات 
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کے قبولِ اسلام کے بعدکے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو غیرت و حمیت اور شجاعت جیسے عالی اوصاف سے آپؓ کا دامن بھرا ہوا نظر آتا ہے۔ آپؓ نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور آپؓ کی دعوت پر حضرت عثمانؓ، حضرت ابوعبیدہ ؓ،حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ جیسے جلیل القدر صحابہؓ حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔آپؓ نے قبولِ اسلام کے بعد جان و مال سب کچھ اسلام پر قربان کردیا۔ دشمنانِ اسلام کے چنگل میں پھنسے مظلوم مسلمان مؤذنِ رسول ؐ بلال بن ابی رباح رضی اللہ عنہ ، زنیرہؓ، عامر بن فہیرہؓ، ام عبیسؓ وغیرہ مسلم غلاموں کو مشرکین کی قید سے نجات دلانے کے لیے فدیہ ادا کیا۔ آپؓ نے اپنے سارے گھرانے کو خدمتِ اسلام اور پیغمبرِ اسلام کے لیے وقف کردیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے عقد میں اپنی لختِ جگراُم المئومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  دی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۂ نور کی ۱۸آیات میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  کی لختِ جگر کی فضیلت کو بیان کیا۔ سفرِ ہجرت میں آپؓ نے دل جمعی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت کی۔ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اشاعتِ اسلام کی خاطر مسلمانوں سے صدقہ دینے کی التجا کی تو آپؓ نے سب سے زیادہ مال پیش کیا۔

 ہجرتِ مدینہ میں ایثارِ صدیقی
جب کفارِ مکہ کی جانب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھیوں کو ظلم وستم کا مسلسل نشانہ بنایا جانے لگاتواللہ تعالیٰ کی جانب سے مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ہوا۔ اس عالَم میں بہت سے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم مدینہ کو ہجرت کرچکے تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  سے  استفسار کیا کہ میں بھی مدینہ روانہ ہوجائوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے منع کردیا، تو آپؓ نے جاننے کی کوشش کی کہ کیا مجھے آپ کی معیت کا شرف حاصل ہوگا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اثبات میں جواب دیا۔ جب خالقِ ارض و سماء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ہجرت کا حکم دیا تو ایک جانب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہجرت کا ارادہ باندھا تو دوسری جانب کفارِ مکہ دارالندوۃ میں جمع ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو (نعوذ باللہ) شہید کرنے کا منصوبہ بنانے لگے، اسی بنا پر مشرکین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے گھر کامحاصرہ کرلیا۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مکہ کے لوگوں کی سب امانتیں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  کے حوالہ کیں اور کفار کامحاصرہ توڑ کر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کے گھر پہنچے اور اپنے ہمراہ سفرِ ہجرت پر چلنے کو کہا۔ باوجود تمام حالات کا علم ہونے کے آپ توپہلے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلنے کے لیے بے تاب تھے۔ ایسے موقع پر جب کسی کام کے کرنے پر موت سامنے نظر آرہی ہو تو وہ کام کر گزرنا محض فطری شجاعت و بہادری اور تائیدِ ایزدی کے بغیر ممکن نہیں ہوتا۔ اس پرخطر موقع پر آپؓ نے ناصرف اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ سفرِ ہجرت کیا، بلکہ اپنے پورے خاندان کوبھی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت پر مامور کرکے آپؓ نے بھرپور جرأت کا مظاہرہ کیا۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ سفر پرامن گزر گیا ہو، بلکہ کفارِمکہ نے برابر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا تعاقب جاری رکھا۔ سفر کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب غارِثور میں قیام فرمایا تو دشمن تعاقب کرتے ہوئے غار کے دہانے تک پہنچ گیا۔ اس وقت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  نے اپنی جان کی پرواہ نہیں کی، بلکہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو نقصان پہنچنے کے ڈرسے اپنی پریشانی کا اظہار کیا، جس پر بذریعہ وحی آپ ؓکو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے تسلّی دی اور فرمایا: ’’لَاتَحْزَنْ إِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا‘‘ یعنی ’’تو میرے بارے میں غم نہ کر، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ ہجرت کے اس پر خطرسفر میں بے باکی کے ساتھ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ سفر کرنااس بے مثال فطری شجاعت کاعملی مظاہرہ ہے جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کی ذات میں اللہ پاک نے ودیعت کررکھی تھی۔ غارِثور کی چڑھائی چڑھتے وقت آپؓ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو اپنے کندھوں پر اُٹھایا، غار کی صفائی کے دوران خطرناک سانپ نے آپؓ کی ایڑی پر ڈسا تو آپؓ کو یہ بھی شرف ملا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنا لعابِ دہن ان کی ایڑی پر لگایا۔سفرِ ہجرت میں دشمن کے حملہ کے خوف سے دورانِ سفرآپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی چہار جانب سے حفاظت کا فریضہ انجام دیتے رہے۔


نبی ﷺ کی وفات اور استقامتِ صدیقی
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم  کے وصال کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس قدر رنجیدہ ہوئے کہ اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھے، یہاں تک کہ سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ  جیسے مضبوط قوت و جسم کے مالک اور بہادر بھی اس اعلان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ ہاتھ میں بے نیام تلوار لے کر یہ کہنے لگے کہ جس شخص کو میں نے یہ کہتے ہوئے سن لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  وفات پاگئے ہیں تو میں اس کا سر قلم کر دوں گا۔ اس موقع پر بھی سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ  نے اپنی فطری بصیرت اور اصابتِ رائے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کر کے خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا: ’’لوگو! سنو! جو لوگ تم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عبادت کیا کرتے تھے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  وفات پاگئے ہیں اورجولوگ اللہ پاک کی عبادت کرتے تھے تو یاد رکھو! اللہ زندہ ہے اور اللہ کی ذات کو کبھی موت نہیں آئے گی۔‘‘ اس کے بعد قرآن پاک کی آیات تلاوت فرما کر اپنی بات کو مزید مؤثر کردیا۔ یہ خطبہ اور اس میں تلاوت کی گئی آیات سنتے ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اتنا حوصلہ ملا کہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم فرمانے لگے: ’’یوں معلوم ہوتاہے کہ قرآن پاک کی یہ آیت ابھی نازل ہورہی ہے۔‘‘ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی وفات کے اتنے جان لیواحادثے کے بعد بھی اتنے بلند حوصلے اور عزائم کا اعادہ کوئی حلیم طبع اور صابر انسان ہی کر سکتاہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے بعد اُمت کی قیادت سنبھالنے کا حق دار ہے۔

سخاوت و عجزِصدیقی
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  نے اپنا تن من دھن اسلام پر قربان کردیا، یہاں تک غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے جب مسلمانوں سے چندہ طلب کیا تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  نے گھر کا سارا سامان پیش کردیا، یہاں تک کہ اپنا ذاتی لباس بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں پیش کیا، جبکہ خود ٹاٹ کا لباس زیب تن کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس تشریف لائے۔ اسی موقع پرملکِ مقرب جبرئیل امین علیہ السلام  آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس حاضر ہوئے تو انہوں نے بھی ٹاٹ کا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ کو سیدنا صدیق اکبر صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ تمام فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ لباس پہننے کا حکم دیا ہے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کا یہ طرزِ عمل بعد از خلافت بھی جاری و ساری رہا ہے کہ وہ اپنے ذاتی اخراجاتِ روزگانہ کی خاطر سامانِ تجارت لے کر بازار جانے لگے تو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے پوچھا کہ: آپ کہاں جارہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: سامان بیچنے کے لیے، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ اگر آپؓ تجارت کریںگے تو امورِ خلافت کون نبھائے گا؟ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  نے پوچھا کہ: کیا میں اہلِ خانہ کے نان و نفقہ کا انتظا م نہ کروں؟ اس پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ: آپ مسلمانوں کے بیت المال سے وظیفہ حاصل کرلیں۔ اس پر آپؓ نے رضامندی اس شرط پر ظاہرکی کہ خلیفہ ہونے  کے باوجود ایک عام فرد کے برابر وظیفہ مقرر ہوگا۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: مجھے معلوم ہواکہ مدینہ میں ایک نابینا بڑھیا مقیم ہے اور اس کی نگہداشت کی ضرورت ہے تو وہ اس بڑھیا کے ہاں حاضر ہوئے تو بڑھیا نے کہا کہ کوئی بندہ روزانہ آتاہے اور میرے گھر کے سارے اُمور سرانجام دے کر لوٹ جاتا ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ: متعدد بار جستجو کے بعد میں نے ایک نقاب پوش کو طلوعِ آفتاب سے پیشتر دیکھا کہ منہ پر کپڑا اوڑھے اس بڑھیا کے گھر پہنچتا ہے اور وہاں سے جب وہ واپس نکلتا ہے تو میں نے اس کو آدبوچا اور چہرہ سے کپڑا اُتارا تو کیا دیکھتا ہوں وہ کوئی اور نہیں، بلکہ وقت کے خلیفہ امیرالمومنین سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ  تھے۔ خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد آپؓ نے خطبہ میں ارشاد فرمادیا تھا کہ: ’’تم میں سے کمزور میرے لیے طاقتور ہے اور طاقتور کمزور ہے کہ اگر کوئی ظلماً کسی کا حق غصب کرے گا تو میں ضروربالضرور وہ حاصل کرکے مظلوم کی نصرت کروںگا۔ اورجب تک میں قرآن و سنت کے مطابق حکومت کروں تم پر میری اطاعت لازم ہے، اگر میں شریعت سے انحراف برتوں تو تم پر واجب نہیں کہ میری اطاعت کرو۔‘‘

تعمیلِ حکمِ نبوی
آپؓ کی حیات میں رومیوں نے جب دھوکہ دہی سے مسلمانوں کے خلاف صف آرائی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بھاری بھر کم لشکر لے کر وہاں پہنچے، رومی پسپا ہوگئے، مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی واپسی کے بعد قبائلِ عرب کو ساتھ ملاکر رومی پھر صف آرا ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ عنہ  کی قیادت میں لشکر بھیجا جس میںحضرت زیدبن حارثہؓ اور حضرت جعفرطیارؓ سمیت متعدد جلیل القدرصحابہؓ جامِ شہادت نوش کرگئے۔ اس جنگ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں کا ایک عظیم لشکر تشکیل دیا، جس میں سیدنا صدیق اکبرؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ جیسے جلیل القدر اور عظیم المرتبت صحابہؓ بھی موجود تھے، اس لشکر کی قیادت حضرت زیدؓ کے نوخیز بیٹے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ  کو عنایت کی۔ ’’جیشِ اسامہؓ    ‘‘ کی روانگی سے پیشتر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  دنیا سے پردہ فرماگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے جنازہ و تدفین اور سقیفہ بن ساعدہ میں مسئلہ خلافت میں صحابہ کرامؓ کی مصروفیت کے بعد جب اتفاقِ رائے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ  خلیفہ منتخب ہوئے تو آپؓ نے فوراً لشکر اسامہؓ   کو روانگی کا حکم دیا، بڑے بڑے عظیم المرتبت صحابہ کرامؓ کی جانب سے یہ مشورہ دیا جاتا رہا کہ آپ ابھی اس لشکر کو روانہ نہ کریں، کیوں کہ مدینہ کے اطراف سے بغاوت اور یورش کا خطرہ ہے، مگر آپؓ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے کیے گئے فیصلہ سے کسی طرح رجوع نہیں کیا جاسکتا۔ ’’جیشِ اسامہؓ  ‘‘ جب کامرانی و کامیابی اور مالِ غنیمت کے ہمراہ واپس آیا تو پورے عرب پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ گئی۔

فتنۂ ارتداد و منکرینِ زکوٰۃ کی سرکوبی
 وفاتِ نبوی کے بعد جب آپؓ کوخلیفہ منتخب کر لیا گیا تو بہت سے خطرناک فتنوں نے مسلمانوں کو گھیر لیا۔ کہیں فتنۂ ارتداد پیداہوگیا تو کہیں منکرینِ زکوٰۃ نے اسلام کے بنیادی فریضے زکوٰۃکی ادائیگی سے انکار کر دیا۔ اسی طرح جھوٹے مدعیانِ نبوت (مسیلمہ، طلیحہ اسدی اور سجاح) کی قوت بھی مضبوط ہونے لگی۔ اس پر بھی معاملہ ختم نہیں ہوا، بلکہ مرتدین، منکرینِ زکوٰۃاور مدعیانِ نبوت جیسے داخلی فتنوں کی یکساں سر کوبی کے لیے آپؓ نے گیارہ لشکر تشکیل دئیے۔ اس موقع پر صحابہؓ نے نرمی کی درخواست کی تو آپؓ نے یہ سن کر ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ: ’’أَیَنْقُصُ الدِّیْنُ وَأَنَاحيٌّ؟‘‘ یعنی دین میں کمی آجائے اور میں زندہ رہوں، پھر فرمایا کہ: اگر میرے ساتھ کوئی تعاون کرناچاہے توخوب اور اگر آپ ؓسب میراساتھ چھوڑدیں تو بھی میں تنِ تنہا اسلام کے ان دشمنوں کامقابلہ کروں گا۔سنو! مجھے یہ بات منظور ہے کہ اس مقابلہ میں دشمن مجھے مار ڈالیں اور میرے لاشے کو پرندے نوچ نوچ کر کھا جائیں، لیکن یہ بات منظور نہیں کہ اسلام کو ذرہ برابر بھی نقصان پہنچے۔ اس پامردی و استقامتِ فیصلہ کا نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام فوجی لشکر بشمول’’جیشِ اسامہؓ   ‘‘ منکرینِ زکوٰۃ و مدعیانِ نبوت اور دشمنانِ اسلام کی ناصرف سرکوبی کرنے میں کامیاب ہوئے، بلکہ بڑی تعداد میں غنائم اور اسلحہ جمع کرنے میں بھی کامیاب ہوئے اور اسی کا ثمرہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کے عہد میں ہی فتح فارس و روم کی طرح پڑگئی جس کی بشارت نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم  نے غزوۂ خندق کے موقع پر سنائی تھی۔

حفاظتِ قرآن کا اہتمام
نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم  کے جوارِ رحمتِ باری میں منتقل ہوجانے کے بعد جو فتنے ظہور پذیر ہوئے، ان کی بیخ کنی کی خاطر آپؓ نے جو لشکر روانہ کیے، اس کے نتیجہ میں فتنوں کا خاتمہ تو ہوہی گیا، تاہم مسلمانوں کو اس میں ہوشربا نقصان پہنچا، جس میں خاص طورپر صحابہ کرامؓ کی بڑی تعداد جو قرآن کے حافظ تھے‘ شہادت کے منصب پر فائز ہوئے تو آپؓ کو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ  نے مشورہ دیا کہ قرآن کریم کو فی الفور جمع کرنے کی ضرورت ہے، مبادا ایسا نہ ہوکہ قرآن کریم سے مسلمان محروم ہوجائیں، تو آپؓ نے فرمایا: جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نہیں کیا، وہ میں کیسے کروں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ: اس میں مسلمانوں کے لیے خیر و بھلائی ہے۔ بالآخر خلیفۂ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا شرح صدر ہوگیا اور امیر المئومنینؓ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ  کو حکم دیا کہ صحابہ کرامؓ سے دو گواہوں کی موجودگی میں قرآن کریم کے جزء کو مکمل کرنے کا اہتمام کریں ۔خلیفہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  اور حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ  کی اَنتھک محنت سے قرآن کریم کو یکجا جمع کرلیا گیا۔ یہ ایسا احسانِ عظیم ہے کہ دشمنانِ اسلام سرتوڑ کوشش و جستجو کرنے کے باوجود چودہ سوسال بعد بھی قرآن کریم سے ملتِ اسلامیہ کے اعتماد کو گزند پہنچانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔

وفات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دنیا سے پردہ فرماجانے کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  دو برس چندماہ منصبِ خلافت پر فائز رہنے کے بعد بیمار ہوئے اور پیر کے روز ۲۲ جمادی الاخریٰ ۱۳ ہجری میں انتقال کرگئے اور اُمورِ خلافت چلانے کی خاطر جو راہنما اصول انہوں نے اختیار کررکھے تھے، انہیں کی روشنی میں کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشاورت کے بعد آپؓ اپنے بعد خلافت کے لیے اپنا جانشین مرادِ پیغمبراور خسرِ رسولؐ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کو نامزد کرگئے تھے۔

سیرتِ صدیقی پر عمل کی ضرورت
سیدناصدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی اور اپنے دورِ خلافت میں پر خطر حالات کے باوجود تنہا جس بے باکی، شجاعت وبہادری اور پختہ عزم کا مظاہرہ کیا‘ تاریخ میںاس کی مثال ڈھونڈنے پر بھی نہیں ملتی۔ یقینایہ جانشینِ رسولؐ کی فطری شجاعت تھی، جس کے نتیجے میںدینِ مصطفوی ؐکو وہ عروج ملا جس کا اعلان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی زبانِ مبارک سے کر گئے تھے۔ آج جبکہ اُمتِ مسلمہ ہمہ جہتی سازشوں کاشکار ہو کر کفارکے سامنے مغلوبیت کی حالت میں ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اُمتِ مسلمہ کے حکمران،علماء اور عوام ان سخت حالات کا مقابلہ سیرتِ صدیقیؓ کی روشنی میں اسی ایمانی بصیرت و شجاعت کے ساتھ کریں، جیسے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  نے اپنی مکمل زندگی میں بالعموم اور جیشِ اسامہؓ کی روانگی، منکرینِ زکوٰۃ و مدعیانِ نبوت کی سرکوبی جیسے اہم امور کو بالخصوص حرزِ جان بنایا اور تمام نام نہاد اسلام دشمن طاقتوں کو مغلوب کر کے محمدی پرچم کو سر بلند کردیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیںسیرتِ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں پر عزم ہوکر اسلام کی سر بلندی کے لیے جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)








حضرت سیدنا عروہ بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنا امام باقر ابوجعفر محمد بن علی بن حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے استفسار کیا:’’مَا قَوْلُكَ فِيْ حُلْيَةِ السُّيُوْف ؟ یعنی تلوار کو آراستہ کرنے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں ؟‘‘ فرمایا : ’’لَا بَأْسَ قَدْ حُلِىَ أَبُوْ بَكْر الصِّدِّيْقْ سَيْفَه یعنی اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ خود حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے بھی اپنی تلوار کو آراستہ کیا۔‘‘میں نے کہا: ’’آپ نے انہیں صدیق کہا ؟‘‘ یہ سننا تھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ جلال فرماتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے اور قبلے کی طرف منہ کر کے ارشاد فرمایا :’’ ہاں ! وہ صدیق ہیں ، ہاں ! وہ صدیق ہیں ،ہاں ! وہ صدیق ہیں ۔ اور جو انہیں صدیق نہ کہے تو اللہ1اس کے قول کی تصدیق نہیں فرماتانہ دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں ۔
[فضائل الصحابۃ» ومن فضائل عمر بن الخطاب من حديث أبي بكر بن مالك، الرقم: ۶۵۵، ج۱، ص۴۱۹]
[کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ » جلد 2 صفحہ 360 شیعہ مذہب کی کتاب]


شیعوں کا محدث و مفسر محمد بن مرتضی المعروف محسن کاشانی لکھتا ہے:
حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے وِصال مبارک کے بعد حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ نے مسجد میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنایا ۔
[تفسیر الصافی» الجزء السادس صفحہ نمبر 467 تفسیر سورہ محمد]



























 

No comments:

Post a Comment