Monday, 30 December 2024

شمسی اور قمری سال


نئے سال کی اسلامی دعا»
عبداللہ بن ہشام سے روایت ہے کہ صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نئے سال یا مہینے کی آمد پہ یہ دعا سکھاتے تھے:
اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ، وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ، وَالْإِسْلَامِ، وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ، وَجَوَازٍ مِنَ الشَّيْطَانِ
ترجمہ:
اے اللہ! داخل فرما ہم پر (اس مہینہ/سال کو) امن، ایمان، سلامتی، اسلام، رحمٰن کی رضا اور شیطان سے پناہ کے ساتھ۔
[المعجم الاوسط-امام الطبراني» حديث#6241][معجم الصحابة-البغوي:1539]






شمسی اور قمری، دونوں اسلامی سال ہیں»
القرآن:
اور اللہ وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا، اور چاند کو سراپا نور، اور اس کے (سفر) کے لیے منزلیں مقرر کردیں، تاکہ تم برسوں کی گنتی اور (مہینوں کا) حساب معلوم کرسکو۔ اللہ نے یہ سب کچھ بغیر کسی صحیح مقصد کے پیدا نہیں کردیا  وہ یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتا ہے جو سمجھ رکھتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 10 يونس، آیت نمبر 5]



عقل کو ہدایت کی ضرورت
القرآن:
بھلا بتاؤ اگر ہم کئی سال تک انہیں عیش کا سامان مہیا کرتے رہیں۔ پھر وہ (عذاب) ان کے اوپر آکھڑا ہو جس سے انہیں ڈرایا جارہا ہے۔ تو عیش کا جو سامان ان کو دیا جاتا رہا وہ انہیں (عذاب کے وقت) کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے؟
[سورۃ نمبر 26 الشعراء، آیت نمبر 207]
تفسیر:
عذاب کے جلدی نہ آنے پر کافروں کا ایک استدلال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں بڑے عیش دے رکھے ہیں اگر لوگ غلط راستے پر ہوتے تو یہ عیش ہمیں کیوں دیا جاتا ؟ ان آیات میں جواب دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مہلت سنبھلنے(لوٹنے) کے لیے دی ہوئی ہے، اگر کچھ لوگ سنبھل گئے تو خیر، ورنہ جب مہلت ختم ہونے پر، مثلا مرنے کے بعد عذاب آئے گا تو یہ عیش و عشرت جس کے مزے تم دنیا میں اڑا رہے ہو، کچھ بھی کام نہیں آئے گا، بلکہ اس وقت معلوم ہوگا کہ آخرت کی زندگی کے مقابلے میں اس کی ذرہ برابر کوئی وقعت نہیں ہے۔





عرصۂ حیات»
القرآن:
اللہ فرمائے گا : تم تھوڑی مدت سے زیادہ نہیں رہے۔ کیا خوب ہوتا اگر یہ بات تم نے (اس وقت) سمجھ لی ہوتی۔
[سورۃ المؤمنون:114]

القرآن:
وہ کہیں گے کہ : ہم ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے۔ (ہمیں پوری طرح یاد نہیں) اس لیے جنہوں نے (وقت کی) گنتی کی ہو، ان سے پوچھ لیجیے۔
[سورۃ نمبر 23 المؤمنون، آیت نمبر 113]
تفسیر:
آخرت کا عذاب اتنا سخت ہوگا کہ اس کے مقابلے میں دنیا کی ساری زندگی اور اس میں جو عیش و عشرت کیے تھے وہ ان دوزخیوں کو ایک دن یا اس سے بھی کم معلوم ہوں گے۔






غفلت کا انجام
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ابنِ آدم کی جو گھڑی بھی اللہ کے ذکر سے خالی گذر گئی وہ قیامت کے دن حسرت وافسوس کا سبب ہوگی۔
[جامع الصغیر للسیوطی:8045 حسن]

جنت والوں کو جنت میں جانے کے بعد دنیا کی کسی چیز کا افسوس نہیں ہوگا سواۓ اس گھڑی کے جو دنیا میں الله کے ذکر کے بغیر گزری ہوگی.
[طبرانی:182]
جو شخص سونے کیلئے بستر پر لیٹے اور پھر اللہ کا ذکر نہ کرے تو ذکر اللہ سے غفلت قیامت کے دن اس کیلئے باعثِ افسوس ہوگی۔
[ابوداؤد:5061]









القرآن:
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ وہ ہر سال ایک دو مرتبہ کسی آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں، (104) پھر بھی نہ وہ توبہ کرتے ہیں، اور نہ کوئی سبق حاصل کرتے ہیں؟
[سورۃ نمبر 9 التوبة، آیت نمبر 126]

تفسیر:
(104) منافقین پر ہر سال کوئی نہ کوئی مصیبت پڑتی رہتی تھی۔ کبھی ان کی خواہش اور منصوبوں کے خلاف مسلمانوں کو فتح نصیب ہوجاتی، کبھی ان میں سے کسی کا راز کھل جاتا، کبھی کوئی بیماری آجاتی، کبھی فقر و فاقہ میں مبتلا ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ مصیبتیں ان کو متنبہ کرنے کے لیے کافی ہونی چاہیے تھیں، لیکن یہ لوگ کوئی سبق نہیں لیتے۔










نیو ایئر نائٹ
االقرآن:
اور (رحمن کے بندے وہ ہیں) جو ناحق کاموں میں شامل نہیں ہوتے (26) اور جب کسی لغو چیز کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔
[سورۃ نمبر 25 الفرقان، آیت نمبر 72]

تفسیر:
(26)قرآن کریم میں اصل لفظ ”زور“ استعمال ہوا ہے جس کے معنی جھوٹ کے ہیں۔ اور ہر باطل اور ناحق کو بھی ”زور“ کہا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جہاں ناحق اور ناجائز کام ہو رہے ہوں، اللہ تعالیٰ کے نیک بندے ان میں شامل نہیں ہوتے۔ اور اس کا ایک یہ ترجمہ بھی ممکن ہے کہ وہ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔
(27)یعنی نہ تو اس لغو اور بےہودہ کام میں شریک ہوتے ہیں، اور نہ ان لوگوں کی تحقیر کرتے ہیں جو ان کاموں میں مبتلا ہیں، البتہ اس برے کام کو برا سمجھتے ہوئے وقار کے ساتھ وہاں سے گذر جاتے ہیں۔























No comments:

Post a Comment