Saturday, 6 September 2025

محمد رسول اللہ ﷺ کی مصیبت (رحلت-وصال) کو یاد کرنا




حضرت سابطؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت (صدمہ) پہنچے (یعنی کوئی قریبی عزیز فوت ہوجائے) تو میرے دکھ (وفات) کو یاد کرلے، بےشک (میری رحلت) اس کیلئے سب سے بڑا غم ودکھ ہے۔

حوالہ

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَابِطٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أُصِيبَ أَحَدُكُمْ بِمُصِيبَةٍ، فَلْيَذْكُرْ مُصِيبَتَهُ بِي، فَإِنَّهَا أَعْظَمُ الْمَصَائِبِ عِنْدَهُ»


امام ابن الحاج(م737ھ) تشریح فرماتے ہیں:
وَهَذَا أَمْرٌ مِنْهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - لِأُمَّتِهِ وَتَسْلِيَةٌ لَهُمْ، أَمَّا الْأَمْرُ فَقَوْلُهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ -: فَلْيَذْكُرْ مُصِيبَتَهُ بِي، وَأَمَّا التَّسْلِيَةُ فَقَوْلُهُ: - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - فَإِنَّهَا مِنْ أَعْظَمِ الْمَصَائِبِ، فَإِذَا تَذَكَّرَ الْمُؤْمِنُ مَا أُصِيبَ بِهِ مِنْ فَقْدِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - هَانَتْ عَلَيْهِ جَمِيعُ الْمَصَائِبِ وَاضْمَحَلَّتْ، وَلَمْ يَبْقَ لَهَا خَطَرٌ وَلَا بَالٌ.
ترجمہ:
اور یہ (بات) آپ ﷺ کی اپنی امت کے لیے ایک حکم اور ان کے لیے تسلی ہے۔ رہا حکم تو وہ آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ: "اسے چاہیے کہ وہ میری مصیبت (یعنی میرے وصال کے غم) کو یاد کرے۔" اور رہی تسلی تو وہ آپ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ: "بے شک وہ (یعنی میری جدائی) سب سے بڑی مصیبتوں میں سے ہے۔" پس جب ایک مومن یہ یاد کرے کہ اسے نبی ﷺ کے فراق میں کیا مصیبت پہنچی ہے تو اس پر دیگر تمام مصیبتیں آسان ہو جاتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں، اور ان (دیگر مصیبتوں) کا کوئی وزن اور غم نہیں رہتی۔

علامہ مناوی لکھتے ہیں:
یعنی اس امت کے درمیان سے میری جدائی اور وحی کے منقطع ہو جانے (کے صدمے) کو یاد کرے۔ "کیونکہ یہ (میری جدائی) بہت بڑی مصیبتوں میں سے ہے"، بلکہ وہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے (رسول اللہ ﷺ کو) دفن کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے مٹی (نہیں جھاڑی) یہاں تک کہ ہم نے اپنے دلوں میں (غم و اداس کے باعث) تبدیلی محسوس کی (یعنی دل بدل گئے)۔[ترمذي:3618]
[التیسیر بشرح الجامع الصغیر -للمناوی:1/74]


دوسری کتاب میں لکھتے ہیں:

اور یہ مصیبت اس لیے سب سے بڑی تھی کیونکہ اس سے وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، شر کے manifestations عربوں کے ارتداد اور منافقوں کے گروہ بندی کے ذریعے ظاہر ہوئے، اور آپ کی وفات خیر میں کمی کا پہلا سبب تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) دفن کرنے کے بعد اپنے ہاتھوں سے مٹی (نہیں جھاڑی) یہاں تک کہ ہم نے اپنے دلوں میں (غم و اداس کے باعث) تبدیلی محسوس کی (یعنی دل بدل گئے)۔
اور اس سلسلے میں سب سے عمدہ کلام تو وہ ہے جو کسی نے اپنے بھائی کی تعزیت (اس کے بیٹے کے انتقال پر) کرتے ہوئے لکھا اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا: ہر تکلیف پر صبر کر اور ثابت قدم رہ۔. . اور جان لے کہ انسان ہمیشہ رہنے والا نہیں اور جب تو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور ان کی مصیبت کو یاد کرے۔ . . تو اپنی مصیبت (یعنی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فراق) کو یاد کر
[فیض القدیر للمناوی: 452]





القرآن:
اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فرد بشر کے لیے طے نہیں کیا۔ (18) چنانچہ اگر تمہارا انتقال ہوگیا تو کیا یہ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں؟
[سورۃ الأنبياء:34]
تفسیر:
(18)سورة طور:30 میں مذکور ہے کہ کفار مکہ آنحضرت ﷺ کے بارے میں کہتے تھے کہ ہم ان کی موت کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے انتقال کے موقع پر وہ خوشی منائیں گے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی کہ اول تو موت ہر شخص کو آنی ہے، اور کیا خود یہ خوشی منانے والے موت سے بچ جائیں گے۔



سیلاب کا بیان


(1)سیلاب کا بیان

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے کہا کہ عمرو بن دینار بیان کیا کرتے تھے کہ ہم سے سعید بن مسیب نے اپنے والد سے بیان کیا، انہوں نے سعید کے دادا حزن سے بیان کیا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک مرتبہ سیلاب آیا کہ (مکہ کی) دونوں پہاڑیوں کے درمیان پانی ہی پانی ہو گیا۔ سفیان نے بیان کیا کہ بیان کرتے تھے کہ اس حدیث کا ایک بہت بڑا قصہ ہے۔

[صحيح البخاري: كتاب مناقب الأنصار،حدیث: 3833]

حافظ ابن حجر نے کہا، موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ کعبہ میں سیلاب اس پہاڑ کی طرف سے آیا کرتا تھا جو بلند جانب میں واقع ہے ان کو ڈر ہوا کہ کہیں پانی کعبہ کے اندر نہ گھس جائے اس لیے انہوں نے عمارت کو خوب مضبوط کرنا چاہا اور پہلے جس نے کعبہ اونچا کیا اور اس میں سے کچھ گرایا وہ ولید بن مغیرہ تھا۔

پھر کعبہ کے بننے کا وہ قصہ نقل کیا کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے ہوا اور امام شافعی نے کتاب ''الأم '' میں عبد اللہ بن زبیر ؓ سے نقل کیا کہ جب وہ کعبہ بنا رہے تھے تو حضرت کعب نے ان سے کہا: خوب مضبوط بناؤ کیونکہ ہم(اہل کتاب) کتابوں میں یہ پاتے ہیں کہ آخر زمانے میں سیلاب بہت آئیں گے۔

تو قصے سے مراد یہی ہے کہ وہ اس سیلاب کو دیکھ کر جس کے برابر کبھی نہیں آیا تھا یہ سمجھ گئے کہ آخر زمانے کے سیلابوں میں یہ پہلا سیلاب ہے۔

[فتح الباري:189/7]



Friday, 5 September 2025

قیلولہ کی اہمیت وفضیلت

"قیلولہ "کے معنی ہیں: دوپہر کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد لیٹنا، خواہ نیند آئے یا نہ آئے. ( عمدۃ القاری للعینی)


"قیلولہ" نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا معمول رہا ہے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: "دن کے سونے کے ذریعے رات کی عبادت پر قوت حاصل کرو. (شعب الایمان للبیہقی) نیز دوپہر کو سونا عقل کی زیادتی اور کھانے کے ہضم کا باعث بھی ہے. قیلولہ کی کم ازکم یا زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق تلاش کے باوجود کوئی روایت نہیں ملی.


حضرت انس سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

قِيلُوا فَإِنَّ الشيطان لا يقيل.

ترجمہ:

قیلولہ کیا کرو؛ اس لئے کہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔

[المعجم الأوسط-للطبراني:28، سلسلة الأحاديث الصحيحة:1647]





شجرکاری کی اہمیت اور فضائل


حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کا پودا ہو جسے وہ لگا رہا ہو، تو اگر قیامت برپا ہونے سے پہلے پہلے وہ اس پودے ک ولگا سکے تو ضرور لگادے۔

حوالہ

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالْكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنْ قَامَتِ السَّاعَةُ وَفِي يَدِ أَحَدِكُمْ فَسِيلَةً، فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَقُومَ حَتَّى يَغْرِسَهَا فليغرسها»

[مسند احمد:12902، مسند الطيالسي:2068، مسند عبد بن حميد:1216، الأدب المفرد-البخاري:479 ، مسند البزار:7408، معجم ابن الأعرابي:180]