Tuesday, 11 November 2025

سود کے معنیٰ، اقسام، احکام


ربا یعنی سود کے لغوی معنی:
زیادتی اوراضافہ کے ہیں۔
حوالہ
الرِّبَا الْفَضْلُ وَالزِّيَادَةُ
[المصباح المنير ۳۴۵/۳]




ربا کی اصطلاحی تعریف:
مال کا تبادلہ مال کے ذریعہ کرنے میں جو زیادتی بلا معاوضہ حاصل ہو وہ سود ہے۔
حوالہ
فَضْلُ مَالٍ بِلَا عِوَضٍ فِي مُعَاوَضَةِ مَالٍ بِمَالٍ
[كنز الدقائق علي البحر» باب الربا، ۲۶۰/۱۶]






سود اور نصوصِ شرعیہ:
سود سے متعلق نصوص شرعیہ میں سخت سے سخت وعیدات آئی ہیں،اسی لیےحضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ سود اور شبہ سود سے بچو۔ حوالہ
[ابن ماجه» بَاب التَّغْلِيظِ فِي الرِّبَا ۲۲۶۷]

صحابہ کرام مقروض (قرض لینے والے) کا ہدیہ قبول کرنے اوراس کی سواری سے کچھ دیر کے لیے فائدہ اٹھانے سے بھی پرہیز کرتے تھے چنانچہ حضرت انسؓ سے مروی ہے:
جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو قرض دے اور مقروض اسے کوئی طشت بھیجے یا اپنی سواری پر سوار کرے تواسے قبول نہ کرے اور سوارنہ ہو الّا یہ کہ قرض لینے سے پہلے بھی ان میں یہ لین دین رہا ہو۔
حوالہ
عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِى يَحْيَى قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ فَقُلْتُ : يَا أَبَا حَمْزَةَ الرَّجُلُ مِنَّا يُقْرِضُ أَخَاهُ الْمَالَ فَيُهْدِى إِلَيْهِ فَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم : إِذَا أُقْرِضَ أَحَدُكُمْ قَرْضًا فَأَهْدَىَ إِلَيْهِ طَبَقًا فَلاَ يَقْبَلْهُ أَوْ حَمَلَهُ عَلَى دَابَّةٍ فَلاَ يَرْكَبْهَا إِلاَّ أَنْ يَكُونَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ قَبْلَ ذَلِكَ
[السنن الكبري للبيهقي » باب كُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَةٍ فَهُوَ رِبًا، ۱۱۲۵۳]
بہر حال سود کے سلسلہ میں آپ ﷺ کا جو اصولی ارشاد منقول ہے وہ یہ ہے کہ سونا سونے کے بدلہ، چاندی چاندی کے، گیہوں گیہوں کے، اور جو جو کے، کھجور کھجور کے اور نمک نمک کے بدلے برابر اور نقد بیچا جائے، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ کا مطالبہ کیا وہ سود کا مرتکب ہوا۔
حوالہ
[صحیح مسلم » بَاب الصَّرْفِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْوَرِقِ نَقْدًا، ۲۹۶۹]












سود كا تحقق كہاں ہوتا ہے؟
فقہائے امت نے ان چھ چیزوں کے ذریعہ ایک ایسی علت دریافت کی کہ جہاں جہاں وہ علت پائی جائے گی وہاں وہاں سود ہوگا چنانچہ امام ابو حنیفہؓ نے دو علتیں بتائی ہیں ۔(۱) جنس ۔(۲)قدر۔ حوالہ
فَالْعِلَّةُ الْكَيْلُ مَعَ الْجِنْسِ أَوْ الْوَزْنُ مَعَ الْجِنْسِ
[الهداية» بَابُ الرِّبَا ۲۹۰/۱۵]

جنس سے مراد: دو ایسی چیزیں جن کی اصل الگ الگ ہو جیسے گائے کا گوشت اوربکرے کا گوشت، ان دونوں کی جنس الگ الگ سمجھی جائے گی، اسی طرح دو ایسی چیزیں جن کا مقصود الگ الگ ہو چاہے ان کی اصل ایک ہو یا الگ، تب بھی مختلف جنس شمار ہوگی جیسے گیہوں کا دانہ اور گیہوں کا آٹا، زیتون کا پھل اور اس کا تیل،ان کے استعمال کے مقاصد مختلف ہیں؛ اسی طرح دوایسی چیزیں جن کی صفت الگ الگ ہو؛ خواہ ان کی اصل ایک ہو، جیسے گیہوں کی روٹی اور گیہوں، ان دونوں کی صفت محتلف ہے۔ حوالہ
وَالْحَاصِلُ أَنَّ الِاخْتِلَافَ بِاخْتِلَافِ الْأَصْلِ أَوْ الْمَقْصُودِ أَوْ بِتَبَدُّلِ الصِّفَةِ فَلْيُحْفَظْ(الدر المختار ۳۰۹/۵) وَاعْلَمْ أَنَّ الْمُجَانَسَةَ تَكُونُ بِاعْتِبَارِ مَا فِي الضِّمْنِ فَتَمْنَعُ النَّسِيئَةَ كَمَا فِي الْمُجَانَسَةِ الْعَيْنِيَّةِ ، وَذَلِكَ كَالزَّيْتِ مَعَ الزَّيْتُونِ وَالشَّيْرَجِ مَعَ السِّمْسِمِ ، وَتَنْتَفِي بِاعْتِبَارِ مَا أُضِيفَتْ إلَيْهِ فَيَخْتَلِفُ الْجِنْسُ مَعَ اتِّحَادِ الْأَصْلِ حَتَّى يَجُوزَ التَّفَاضُلُ بَيْنَهُمَا كَدُهْنِ الْبَنَفْسَجِ مَعَ دُهْنِ الْوَرْدِ أَصْلُهُمَا وَاحِدٌ وَهُوَ الزَّيْتُ أَوْ الشَّيْرَجُ فَصَارَا جِنْسَيْنِ بِاخْتِلَافِ مَا أُضِيفَا إلَيْهِ مِنْ الْوَرْدِ وَالْبَنَفْسَجِ نَظَرًا إلَى اخْتِلَافِ الْمَقْصُودِ وَالْفَرْضِ وَلَمْ يُبَلْ بِاتِّحَادِ الْأَصْلِ وَعَلَى هَذَا دُهْنُ الزَّهْرِ فِي دِيَارِنَا وَدُهْنُ الْبَانِ ؛ أَصْلُهُمَا اللَّوْزُ يُطَبَّقُ
[فتح القدير » بَابُ الرِّبَا ۳۴۷/۱۵]

قدر سے مراد: ہر وہ چیز جو کیل (پیمانہ) کے ذریعہ ناپی جاتی ہو یا وزن کے ذریعہ تولی جاتی ہو۔
حوالہ
أَنَّ عِلَّةَ رِبَا الْفَضْلِ هِيَ الْقَدْرُ مَعَ الْجِنْسِ ، وَهُوَ الْكَيْلُ ، أَوْ الْوَزْنُ الْمُتَّفِقُ عِنْدَ اتِّحَادِ الْجِنْسِ
[بدائع الصنائع » فصل في شَرَائِط الصِّحَّةِ في البيوع۲۸۰/۱۱]

لہذا جن دو چیزوں میں جنس اور قدر ایک ہی ہوگا وہ خرید و فروخت میں برابر اورنقد بیچی جائے گی کوئی ایک کم یا زیادہ اورایک نقد ایک ادھار ہوتو وہاں سود متحقق ہوگا اس لیے ایسی چیزوں میں مقدار میں برابری اوردونوں کا نقد ہونا ضروری ہے۔
اگر کسی طرف زیادہ اورکسی طرف کمی ہوجائے تو اسے ربو تفاضل اورایک نقد دوسرا ادھار ہو تو ربو نسیٔہ کہتے ہیں جیسے سونے کے بدلے سونا اورگیہوں کے بدلہ گیہوں فروخت کرنا ان میں تفاضل اور نسیٔہ دونوں حرام ہیں۔
حوالہ
( أَمَّا ) رِبَا الْفَضْلِ فَهُوَ : زِيَادَةُ عَيْنِ مَالٍ شُرِطَتْ فِي عَقْدِ الْبَيْعِ عَلَى الْمِعْيَارِ الشَّرْعِيِّ وَهُوَ الْكَيْلُ ، أَوْ الْوَزْنُ فِي الْجِنْسِ عِنْدَنَا… ( وَأَمَّا ) رِبَا النَّسَاءِ فَهُوَ فَضْلُ الْحُلُولِ عَلَى الْأَجَلِ ، وَفَضْلُ الْعَيْنِ عَلَى الدَّيْنِ فِي الْمَكِيلَيْنِ ، أَوْ الْمَوْزُونَيْنِ عِنْدَ اخْتِلَافِ الْجِنْسِ ، أَوْ فِي غَيْرِ الْمَكِيلَيْنِ ، أَوْ الْمَوْزُونَيْنِ عِنْدَ اتِّحَادِ الْجِنْسِ عِنْدَنَا.
[بدائع الصنائع » فصل في شَرَائِط الصِّحَّةِ في البيوع ۲۶۹/۱۱]






سود سے متعلق احكام:
(۱)اگر دو چیزوں کی جنس اور قدر الگ الگ ہو تو کمی زیادتی اور نقد وادھار دونوں صورتیں جائز ہیں جیسے سونا ،چاندی یا اس کے قائم مقام روپیے پیسے کے بدلے تیل خریدنا کیونکہ یہاں جنس بھی الگ ہے اور قدر بھی، اس لیے رِبوٰ تفاضل اور رِبوٰ نسیٔہ دونوں درست ہیں۔
حوالہ
(قَوْلُهُ وَإِذَا عُدِمَ الْوَصْفَانِ الْجِنْسُ وَالْمَعْنَى الْمَضْمُومُ إلَيْهِ) وَهُوَ الْقَدْرُ (حَلَّ التَّفَاضُلُ وَالنَّسَاءُ) كَبَيْعِ الْحِنْطَةِ بِالدَّرَاهِمِ أَوْ الثَّوْبِ الْهَرَوِيِّ بِمَرْوِيَّيْنِ إلَى أَجَلٍ وَالْجَوْزِ بِالْبِيضِ إلَى أَجَلٍ ( لِعَدَمِ الْعِلَّةِ الْمُحَرِّمَةِ )
[فتح القدير» بَابُ الرِّبَا ۳۰۳/۱۵]

(۲)اگر دو علتوں میں سے کوئی ایک پائی جائے یعنی جنس ایک ہو مگر قدر الگ الگ یا قدر ایک ہو اور جنس مختلف، تو کمی زیادتی جائز ہے مگر ادھار کی گنجائش نہیں دونوں نقد ہونا چاہیے جیسے سونا اور چاندی یا جّو اور گیہوں۔
حوالہ
عن أبي بَكْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ وَالْفِضَّةَ بِالْفِضَّةِ إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ وَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ وَالْفِضَّةَ بِالذَّهَبِ كَيْفَ شِئْتُمْ
[صحیح بخاري»بَاب بَيْعِ الذَّهَبِ بِالذَّهَبِ ۲۰۲۹]

عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ ، قَالَ : الْعَبْدُ خَيْرٌ مِنَ الْعَبْدَيْنِ ، وَالْبَعِيرُ خَيْرٌ مِنَ الْبَعِيرَيْنِ ، وَالثَّوْبُ خَيْرٌ مِنَ الثَّوْبَيْنِ ، لاَ بَأْسَ بِهِ يَدًا بِيَدٍ إنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسَاءِ ، إلاَّ مَا كِيلَ وَوُزِنَ.
[مصنف ابن ابي شيبة » فِي العبدِ بِالعبدينِ والبعِيرِ بِالبعِيرينِ، ۱۱۲/۶]
عَنْ عُبَادَةَ وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنِ النَّبِىِّ صلى الله عليه وسلم مَا وُزِنَ مِثْلٌ بِمِثْلٍ إِذَا كَانَ نَوْعًا وَاحِدًا وَمَا كِيلَ فَمِثْلُ ذَلِكَ فَإِذَا اخْتَلَفَ النَّوْعَانِ فَلاَ بَأْسَ بِهِ۔
[دار قطني» البيوع، ۲۸۹۱]

(۳)ایسی دو چیزیں جو ایک جنس کی ہوں اور اموال ربویہ میں سے ہو نيز ان میں ایک عمدہ اور اچھی ہو اور دوسری خراب اور غیر عمدہ ہو تب بھی ان کے تبادلہ میں برابری کرنا ضروری ہے ،کمی زیادتی کے ساتھ خرید وفروخت سود میں شامل ہوکر حرام ہوگا۔
حوالہ
عن أَبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيّ يَقُولُ جَاءَ بِلَالٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ فَقَالَ مِنْ أَيْنَ لَكَ هَذَا فَقَالَ كَانَ عِنْدِي تَمْرٌ رَدِيءٌ فَبِعْتُهُ بِهَذَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوَّهْ عَيْنُ الرِّبَا عَيْنُ الرِّبَا فَلَا تَقْرَبَنَّهُ وَلَكِنْ بِعْ تَمْرَكَ بِمَا شِئْتَ ثُمَّ اشْتَرِ بِهِ مَا بَدَا لَكَ۔
[مسند احمد » مسند ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، ۱۱۶۱۳]

(۴)رہن رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا سود ہے اس لیے ناجائز ہوگا۔
حوالہ
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ –صلى الله عليه وسلم :« الظَّهْرُ يُرْكَبُ بِنَفَقَتِهِ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا وَيُشْرَبُ لَبَنُ النَّاقَةِ إِذَا كَانَتْ مَرْهُونَةً وَعَلَى الَّذِى يَشْرَبُ وَيَرْكَبُ النَّفَقَةُ.
[السنن الكبري للبيهقي» باب مَا جَاءَ فِى زِيَادَاتِ الرَّهْنِ، ۱۱۵۳۶]
وَكَذَا لَيْسَ لِلْمُرْتَهِنِ أَنْ يَنْتَفِعَ بِالْمَرْهُونِ ، حَتَّى لَوْ كَانَ الرَّاهِنُ عَبْدًا لَيْسَ لَهُ أَنْ يَسْتَخْدِمَهُ ، وَإِنْ كَانَ دَابَّةً لَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْكَبَهَا ، وَإِنْ كَانَ ثَوْبًا لَيْسَ لَهُ أَنْ يَلْبَسَهُ ، وَإِنْ كَانَ دَارًا لَيْسَ لَهُ أَنْ يَسْكُنَهَا ، وَإِنْ كَانَ مُصْحَفًا لَيْسَ لَهُ أَنْ يَقْرَأَ فِيهِ ؛ ؛ لِأَنَّ عَقْدَ الرَّهْنِ يُفِيدُ مِلْكَ الْحَبْسِ لَا مِلْكَ الِانْتِفَاعِ
[بدائع الصنائع» فصل في حكم الرهن ۳۸۴/۱۳]

(۵)ایسے تمام معاملات جس میں نفع متعین کردیا گیا اورنقصان کا خطرہ قبول نہ کیا گیا ہو تو یہ سودی معاملہ ہوگا اور ہرگز جائز نہ ہوگا۔
حوالہ
عَنْ إبْرَاهِيمَ : أَنَّهُ قَالَ فِي الْمُضَارِبِ : الرِّبْحُ عَلَى مَا اصْطَلَحُوا عَلَيْهِ وَالْوَضِيعَةُ عَلَى الْمَالِ ، فَإِنَ اقْتَسَمُوا الرِّبْحَ كَانَتِ الْوَضِيعَةُ عَلَى الْمَالِ ، وَإِنْ لَمْ يَقْتَسِمُوا رُدَّ الرِّبْحُ عَلَى رَأْسِ الْمَالِ.
[مصنف ابن ابي شيبة» الرّجل يدفع إلى الرّجلِ المال مضاربةً: ۴۶/۷]
مذکورہ آثار کی وجہ سے صاحب مال کونفع کے ساتھ نقصان میں بھی شریک رہنا ضروری قرار دیا گیا اور اگرصرف وہ نفع میں شریک ہو، نقصان میں نہ ہوتو؛ گویا ایسا ہی ہوگا جیسے سود میں ہوا کرتا ہے کہ صاحب مال (قرض دینے والا) پیسہ كے ذريعہ پیسہ لینا چاہتا ہے۔
وَالْوَضِيعَةُ عَلَى قَدْرِ الْمَالَيْنِ مُتَسَاوِيًا وَمُتَفَاضِلًا ؛ لِأَنَّ الْوَضِيعَةَ اسْمٌ لِجُزْءٍ هَالِكٍ مِنْ الْمَالِ فَيَتَقَدَّرُ بِقَدْرِ الْمَالِ
[بدائع الصنائع» فَصْلٌ في بَيَان شَرَائِطِ جَوَازِ أَنْوَاعِ الشركة: ۹۳/۱۳]




کاروباری سود کیا ہے؟

ایسی دو چیزیں جو ایک جنس کی ہوں اور اموال ربویہ میں سے ہو نيز ان میں ایک عمدہ اور اچھی ہو اور دوسری خراب اور غیر عمدہ ہو تب بھی ان کے تبادلہ میں برابری کرنا ضروری ہے ،کمی زیادتی کے ساتھ خرید وفروخت سود میں شامل ہوکر حرام ہوگا۔
حوالہ

سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ بِلاَلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَمْرٍ بَرْنِيٍّ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : «مِنْ أَيْنَ هَذَا؟»، قَالَ بِلاَلٌ: كَانَ عِنْدَنَا تَمْرٌ رَدِيٌّ، فَبِعْتُ مِنْهُ صاعين بِصَاعٍ، لِنُطْعِمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: «أَوَّهْ أَوَّهْ، عين الربا عَيْنُ الربا، لاَ تَفْعَلْ، وَلَكِنْ إِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَشْتَرِيَ فَبِعِ التَّمْرَ بِبَيْعٍ آخَرَ، ثُمَّ اشْتَرِهِ»
ترجمہ:
حضرت ابو سعید خدری ؓ نے بیان کیا کہ  حضرت بلال ؓ نبی کریم  ﷺ  کی خدمت میں برنی کھجور  (کھجور کی ایک عمدہ قسم)  لے کر آئے۔ نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا: یہ کہاں سے لائے ہو؟ انہوں نے کہا: ہمارے پاس خراب کھجور تھی، اس کے دو صاع اس کے ایک صاع کے بدلے میں دے کر ہم اسے لائے ہیں۔ تاکہ ہم یہ آپ کو کھلائیں آپ ﷺ نے فرمایا: توبہ توبہ! یہ تو سود ہے بالکل سود۔ ایسا نہ کیا کر البتہ (اچھی کھجور) خریدنے کا ارادہ ہو تو (خراب)  کھجور بیچ کر (اس کی قیمت سے)  عمدہ خریدا کر۔
[صحیح بخاری:2312]


حضرت ابوسعید الخدری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ، وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ، وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ، مِثْلًا بِمِثْلٍ، يَدًا بِيَدٍ، فَمَنْ زَادَ، أَوِ استزاد، فقد أربى، الْآخِذُ وَالْمُعْطِي فِيهِ سَوَاءٌ»

ترجمہ:
سونا سونے کے بدلہ، چاندی چاندی کے، گیہوں گیہوں کے، اور جَو جَو کے، کھجور کھجور کے اور نمک نمک کے بدلے برابر اور نقد بیچا جائے، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ کا مطالبہ کیا وہ سود کا مرتکب ہوا۔
[صحیح مسلم:1584(4064)، صحیح ابن حبان:5015]

القرآن:
...حالانکہ حلال کیا اللہ نے تجارت(کاروبار) کو اور حرام کیا سود کو...
[سورۃ البقرۃ:275]

بےاحترامی کا سود:




No comments:

Post a Comment