Sunday, 28 December 2025

تکبر کے معنیٰ وحقیقت، خرابیاں وانجام اور علاج


تکبر کی حقیقت قرآن کی روشنی میں:

الکبر والتکبیر والاستکبار کے معنیٰ قریب قریب ایک ہی ہیں، پس کبر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے۔

الاستکبار ( اسعاےل ) اس کا استعمال دو طرح پر ہوتا ہے ۔

(1)ایک یہ کہ انسان بڑا بننے کا قصد کرے۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو جس پر تکبر کرنا انسان کو سزاوار(لائق-حق) ہے تو محمود ہے۔

(2)دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں، یہ مذموم ہے۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے؛ فرمایا:

أَبى وَاسْتَكْبَرَ

[البقرة:34]

مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔


[المفردات في غريب القرآن-للراغب:]




کبیر اور صغیر اسمائے اضافیہ سے ہیں۔ جن کے معانی ایک دوسرے کے لحاظ سے متعین ہوتے ہیں۔ چناچہ ایک ہی چیز دوسری کے مقابلہ میں صغیر ہوتی ہے لیکن وہ شئے ایک اور کے مقابلہ میں کبیر کہلاتی ہے ۔ اور قلیل وکثٰیر کی طرح کبھی تو ان کا استعمال کمیت متصلہ یعنی اجسام میں ہوتا ہے ۔ اور کبھی کمیۃ منفصلہ یعنی عدد ہیں ۔ اور بعض اوقات کثیر اور کبیر دو مختلف جہتوں کے لحاظ سے ایک ہی چیز پر بولے جاتے ہیں۔

چناچہ فرمایا:

قُلْ فِيهِما إِثْمٌ كَبِيرٌ

[البقرة:219]

کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں۔

کہ اس میں ایک قرآت کثیر بھی ہے۔ یہ اصل وضع کے لحاظ سے تو اعیان میں ہی استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن استعارہ کے طور پر معانی پر بھی بولے جاتے ہیں چناچہ فرمایا:

لا يُغادِرُ صَغِيرَةً وَلا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصاها

[الكهف:49]

کہ نہ چھوٹی بات کو چھوڑتی ہے ۔ اور نہ بڑی کو (کوئی بات بھی نہیں) مگر اسے گن رکھا ہے:

وَلا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرَ

[سبأ:3]

اور نہ کوئی چیز اس سے چھوٹی ہے یا بڑی۔

اور آیت کریمہ:

يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ

[التوبة:3]

اور حج اکبر کے دن۔۔۔میں حج کو اکبر کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ عمرۃ حج اصغر ہے۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے:

أَنَّ الْعُمْرَةَ هِي الحج الأصغر

عمرہ حج اصغر ہے۔

[صحيح ابن حبان:6559،طبراني:8336 دارقطني:2723 حاكم:1447 بيهقي:7255]


لہذا کبھی بڑائی بلحاظ زمانہ بھی مراد ہوتی ہے۔

[المفردات في غريب القرآن-للراغب:]





تکبر کی حقیقت قرآن کی روشنی میں:

تکبر یہ نہیں ہے کہ(حلال کمائی سے)اچھے کپڑے، نئے جوتے کے تسمے، اچھے کھانے، خوبصورت کوڑے، خوبصورت سواری رکھے، پسند کرے

کیونکہ بےشک اللہ جمیل ہے اور جمال(خوبصورتی)کو پسند کرتا ہے

[صحيح مسلم:90]

اور اپنی نعمت کا اثر بندہ میں دیکھنا چاہتا ہے۔

[المعجم الاوسط:4668]

بلکہ تکبر تو یہ ہے کہ(1)حق کو جھٹلائے (2)اور (حق والے)مومن لوگوں کو(اپنی آنکھیں-چہرے موڑکر)حقیر سمجھے۔

[ترمذی:1999،ابوداؤد:4092]

کسی کو اپنے سے بہتر نہ سمجھے اور حق چھوڑ کر دوسری طرف چلا جائے۔

[تفسیر ابن ابی حاتم:12501]

جو شخص(اس حال میں مرے کہ)اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو تو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا.....اور میں تمہیں ایسے(تواضع کے)کام بتاتا ہوں جو تکبر نہیں ہیں: بکری باندھنا، گدھے پر سوار ہونا، غریب مؤمنوں کے ساتھ بیٹھنا۔

[مسند عبد بن حمید:1151،مسند الشامیین:745]


[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج4/ص122]






تفصیلی دلائل:


(1) قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الرَّجُلَ مِنَّا لَيَكُونُ نَقِيَّ الثَّوْبِ جَدِيدَ الشِّرَاكِ، فَيُعْجِبُهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: «لَيْسَ ذَلِكَ بالكبر، ولكن الكبر أَنْ تُسَفِّهَ بِالْحَقِّ وَتَغْمَصَ النَّاسَ» .

ترجمہ:

راوی نے بیان کیا:مجلس میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے کوئی شخص جب اپنا کپڑا صاف ستھرا پہنتا ہے اور اپنے جوتے کا تسمہ نیا ہوتا ہے تو اسے یہ بات اچھی لگتی ہے (کیا یہ تکبر ہے؟)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ تکبر نہیں ہے۔ بلکہ تکبر یہ ہے کہ تو حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔"

[تفسير يحيى بن سلام:2/677، سورة لقمان:18]







(2) حَدَّثَنَا هَاشِمٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ، حَدَّثَنَا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا، يُحَدِّثُ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يَمُوتُ حِينَ يَمُوتُ وَفِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ، تَحِلُّ لَهُ الْجَنَّةُ أَنْ يَرِيحَ رِيحَهَا وَلَا يَرَاهَا ". فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُقَالُ لَهُ أَبُو رَيْحَانَةَ: يَا رَسُولَ اللهِ، وَاللهِ إِنِّي لَأُحِبُّ الْجَمَالَ وَأَشْتَهِيهِ، حَتَّى إِنِّي لَأُحِبُّهُ فِي عَلَاقَةِ سَوْطِي، وَفِي شِرَاكِ نَعْلِي. قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ ذَاكَ الكبر، إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، ولكن الكبر مَنْ سَفِهَ الْحَقَّ، وَغَمَصَ النَّاسَ بِعَيْنَيْهِ "

ترجمہ:

ہاشم نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے عبدالحمید سے، انہوں نے شہر بن حوشب سے، انہوں نے کہا: میں نے ایک شخص سے سنا، وہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جو شخص مرتا ہے اور اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوتا ہے، اس کے لیے جنت حلال نہیں کہ وہ اس کی خوشبو بھی پائے اور نہ ہی اسے دیکھ سکے۔"

تو قریش کے ایک شخص جن کا نام ابوریحانہ تھا، بولے: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! مجھے خوبصورتی پسند ہے اور میں اس کا خواہش مند ہوں، یہاں تک کہ میں اپنے کوڑے کے پٹے اور اپنے جوتے کے تسمے میں بھی خوبصورتی پسند کرتا ہوں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ تکبر نہیں ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ لیکن تکبر یہ ہے کہ آدمی حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو اپنی آنکھوں سے حقیر سمجھے۔"

[مسند احمد:17369]


قال: وحدثنا أبو مسلم الكشي، حدثنا عبد الله بن رجاء، أخبرنا عبد الحميد، عن شهر قال: سمعت رجلاً يحدث عن عقبة بن عامر الجهني أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:

((ما من رجل يموت وفي قلبه مثقال حبة من خردل من كبر تحل له الجنة يريح بريحها ولا يراها. فقال رجل يقال له: أبو ريحانة: يا رسول الله: إني لأحب الجمال حتى أني لأحبه في علاقة سوطي، وفي شراك نعلي؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس ذلك كبراً: إن الله جميل يحب الجمال، ولكن الكبر من سفه الحق وغمص الناس)) .

(علاقة سوطي) : يعني: السر الذي فيه، وقوله: (يحب الجمال) أي: النظافة. وقوله: (من سفه الحق) أي: من أنكر الحق.

قال بعض علماء السلف: التواضع قبول الحق. وغمص الناس أي: احتقرهم ولم يبال بهم. وقوله: (أن يريح ريحها) - بفتح الياء و (ضمها) أي: أن يجد ريحها.

ترجمہ:

راوی نے کہا: اور ہمیں ابو مسلم الکشی نے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ بن رجاء سے، انہوں نے عبدالحمید سے خبر دی، انہوں نے شہر سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے ایک شخص سے سنا، وہ عقبہ بن عامر جہنی سے روایت کر رہے تھے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:

"کوئی ایسا شخص نہیں جو مرے اور اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو، پھر اس کے لیے جنت حلال ہو کہ وہ اس کی خوشبو پائے اور اسے دیکھے (یعنی وہ جنت میں نہیں جائے گا)۔"

تو ایک شخص جسے ابوریحانہ کہا جاتا تھا، بولا: "یا رسول اللہ! میں خوبصورتی کو اس قدر پسند کرتا ہوں کہ یہاں تک کہ میں اسے اپنے کوڑے کے پٹے اور اپنے جوتے کے تسمے میں بھی پسند کرتا ہوں (کیا یہ تکبر ہے؟)"۔

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ تکبر نہیں ہے۔ بے شک اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ لیکن تکبر یہ ہے کہ آدمی حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔"

· (علاقة سوطي): اس سے مراد وہ رسی/پٹا ہے جو کوڑے میں ہوتا ہے۔

· اور اللہ کے قول (يُحِبُّ الْجَمَالَ) کی تفسیر: اس سے مراد صفائی ستھرائی ہے۔

· اور (مَنْ سَفِهَ الْحَقَّ) کی تفسیر: یعنی جس نے حق کا انکار کیا۔

· بعض علماء سلف نے کہا: تواضع یہ ہے کہ حق قبول کیا جائے۔

· اور (وَغَمَصَ النَّاسَ) کی تفسیر: یعنی انہیں حقیر سمجھا اور ان کی پروا نہ کی۔

· اور قول (أن يريح ريحها): یاء کے فتحہ یا ضمہ کے ساتھ، اس کا مطلب ہے کہ وہ اس کی خوشبو پائے۔

[الترغيب والترهيب للاصفهاني:2356]






(3) أَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِشَيْءٍ أَمَرَ بِهِ نُوحٌ ابْنَهُ: إِنَّ نُوحًا قَالَ لَابْنِهِ: يَا بُنَيَّ، آمُرُكَ بِأَمْرَيْنِ وَأَنْهَاكَ عَنْ أَمْرَيْنِ آمُرُكَ يَا بُنَيَّ أَنْ تَقُولَ: لَا إِلهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، فَإِنَّ السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ لَوْ جُعِلَتَا فِي كِفَّةٍ وَزَنَتْهُمَا، وَلَوْ جُعِلَتَا فِي حَلْقَةٍ قَصَمَتْهَا وَآمُرُكَ أَنْ تَقُولَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، فَإِنَّهَا صَلَاةُ الْخَلْقِ وَتَسْبِيحُ الْخَلْقِ وَبِهَا يُرْزَقُ الْخَلْقُ وَأَنْهَاكَ يَا بُنَيَّ أَنْ تُشْرِكَ بِاللَّهِ، فَإِنَّهُ مَنْ أَشْرَكَ بِاللَّهِ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ، وَأَنْهَاكَ يَا بُنَيَّ عَنِ الكبر، فَإِنَّ أَحَدًا لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ وَفِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ "، فَقَالَ مُعَاذٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الكبر أَنْ يَكُونَ لِأَحَدِنَا الدَّابَّةَ يَرْكَبُهَا أَوِ النُّعْلَانِ يَلْبَسُهُمَا أَوِ الثِّيَابُ يَلْبَسُهَا أَوِ الطَّعَامُ يَجْمَعُ عَلَيْهِ أَصْحَابَهُ؟ قَالَ: " لَا، ولكن الْكِبْرَ أَنْ تُسَفِّهَ الْحَقَّ وَتَغْمِصَ الْمُؤْمِنَ، وَسَأُنَبِّئُكَ بِخِلَالٍ مَنْ كُنَّ فِيهِ فَلَيْسَ بِمُتَكَ‍بِّرٍ: اعْتقَالُ الشَّاةِ، وَرُكُوبُ الْحِمَارِ، وَمُجَالَسَةُ فُقَرَاءِ الْمُؤْمِنِينَ، وَلْيَأْكُلْ أَحَدُكُمْ مَعَ عِيَالِهِ، وَلُبْسُ الصُّوفِ " 

ترجمہ:

ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے موسیٰ بن عبیدہ سے، انہوں نے زید بن اسلم سے، انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: "کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس کا حکم نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو دیا تھا؟ نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا: اے بیٹا! میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے منع کرتا ہوں۔ اے بیٹا! میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تو 'لا الہ الا اللہ وحده لا شریک لہ' کہے، کیونکہ اگر آسمان اور زمین ایک پلڑے میں رکھے جائیں تو یہ کلمہ ان سے بھاری ہوگا، اور اگر یہ دونوں ایک چھلا ہوں تو یہ کلمہ انہیں توڑ دے گا۔ اور میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ تو 'سبحان اللہ وبحمدہ' کہے، کیونکہ یہی مخلوق کی نماز اور تسبیح ہے اور اسی کے ذریعے مخلوق کو رزق دیا جاتا ہے۔ اور اے بیٹا! میں تمہیں اللہ کے ساتھ شرک کرنے سے منع کرتا ہوں، کیونکہ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے گا اللہ اس پر جنت حرام کر دے گا۔ اور اے بیٹا! میں تمہیں تکبر سے منع کرتا ہوں، کیونکہ کوئی شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو۔"

تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا تکبر یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کے پاس سواری کے لیے جانور ہو، یا جوتیاں ہوں جنہیں وہ پہنتا ہو، یا کپڑے ہوں جنہیں وہ پہنتا ہو، یا کھانا ہو جس پر وہ اپنے ساتھیوں کو جمع کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں۔ بلکہ تکبر یہ ہے کہ تو حق کو جھٹلائے اور مؤمن کو حقیر سمجھے۔ اور میں تمہیں ایسے کام بتاتا ہوں کہ اگر کوئی ان میں ہو تو وہ متکبر نہیں ہے: بکری باندھ کر (دودھ دوہنا)، گدھے پر سوار ہونا، غریب مؤمنوں کے ساتھ بیٹھنا، اور تم میں سے کوئی اپنے گھر والوں کے ساتھ کھانا کھائے، اور اون کے کپڑے پہنے۔"

[المنتخب من مسند عبد بن حميد:1151]



(4) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالاَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبَانَ بْنِ تَغْلِبَ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ يَدْخُلُ الجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ، وَلاَ يَدْخُلُ النَّارَ، يَعْنِي، مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ، قَالَ: فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: إِنَّهُ يُعْجِبُنِي أَنْ يَكُونَ ثَوْبِي حَسَنًا وَنَعْلِي حَسَنَةً، قَالَ: إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الجَمَالَ، ولكن الكبر مَنْ بَطَرَ الحَقَّ وَغَمَصَ النَّاسَ وَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ العِلْمِ فِي تَفْسِيرِ هَذَا الحَدِيثِ: لاَ يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ، إِنَّمَا مَعْنَاهُ لاَ يُخَلَّدُ فِي النَّارِ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ وَقَدْ فَسَّرَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ التَّابِعِينَ هَذِهِ الآيَةَ: {رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ} 

فَقَالَ: مَنْ تُخَلِّدُ فِي النَّارِ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ.

هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ. 

ترجمہ:

محمد بن المثنیٰ اور عبداللہ بن عبدالرحمن نے ہمیں حدیث بیان کی، ان دونوں نے یحییٰ بن حماد سے، انہوں نے شعبہ سے، انہوں نے ابان بن تغلب سے، انہوں نے فضیل بن عمرو سے، انہوں نے ابراہیم سے، انہوں نے علقمہ سے، انہوں نے عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا:

"جس کے دل میں ذرہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، اور جس کے دل میں ذرہ کے برابر بھی ایمان ہوگا وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔"

راوی کہتے ہیں:

ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) مجھے اپنا کپڑا اچھا ہونا اور اپنا جوتا اچھا ہونا پسند ہے (کیا یہ تکبر ہے؟)۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"بے شک اللہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ لیکن تکبر یہ ہے کہ آدمی حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔"

اور بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا ہے کہ "جس کے دل میں ذرہ کے برابر ایمان ہو وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا" کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔

ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ جہنم سے بالآخر ضرور نکلے گا ، کئی تابعین نے اس آیت «ربنا إنک من تدخل النار فقد أخزيته» (سورۃ آل عمران:١٩٢) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہا ہے: اے میرے رب! تو نے جس کو جہنم میں ہمیشہ کے لیے ڈال دیا اس کو ذلیل و رسوا کردیا۔   

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔

[سنن الترمذي:1999]


حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا حَرَمِيُّ بْنُ حَفْصٍ الْقَسْمَلِيُّ، ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّمَّارُ الْبَصْرِيُّ، ثنا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبِرَكِيُّ، قَالَا: ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقَسْمَلِيُّ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ» ، قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ لَيُعْجِبُنِي أَنْ يَكُونَ ثَوْبِي غَسِيلًا، وَرَأْسِي دَهِينًا، وَشِرَاكُ نَعْلِي جَدِيدًا، وَذَكَرَ أَشْيَاءَ حَتَّى ذَكَرَ عِلَاقَةَ السَّوْطِ، أَفَمِنَ الكبر ذَاكَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: «لَا، ذَاكَ الْجَمَالُ، إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، ولكن الْكِبْرَ مَنْ سَفَّهَ الْحَقَّ وَازْدَرَى النَّاسَ».

ترجمہ:

ہم سے علی بن عبدالعزیز نے بیان کیا،انہوں نے کہا: ہم سے حرمی بن حفص القسملی نے بیان کیا (لفظ "ح" راوی یا سند کے بدلنے کی علامت ہے) اور ہم سے محمد بن محمد التمّار البصری نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے عیسیٰ بن ابراہیم البرکی نے بیان کیا، ان دونوں (حرمی اور عیسیٰ) نے کہا: ہم سے عبدالعزیز بن محمد القسملی نے بیان کیا، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے حبیب بن ابی ثابت سے، انہوں نے یحییٰ بن جعدہ سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص جہنم میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو، اور وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو۔" ایک شخص نے پوچھا: یا رسول اللہ! مجھے اپنا کپڑا دھلا ہوا، سر پر تیل لگا ہوا، اپنے جوتے کا تسمہ نیا ہونا پسند ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی چیزیں ذکر کیں یہاں تک کہ کوڑے کے پھندے (کی خوبصورتی) کا بھی ذکر کیا۔ کیا یہ (بھی) تکبر میں سے ہے، یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، یہ تو خوبصورتی (جمال) ہے۔ بلاشبہ اللہ عزوجل خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ لیکن تکبر تو حق کو ٹھکرانے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔"

[المعجم الكبير-للطبراني:10533]


حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ شَاكِرٍ، ثنا عَفَّانُ، وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ الْفَقِيهُ، أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَحْمُودٍ الْبُنَانِيُّ، قَالَا: ثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي يَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: §«لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ حَبَّةٌ مِنْ كِبْرٍ» فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَيُعْجِبُنِي أَنْ يَكُونَ ثَوْبِي جَدِيدًا، وَرَأْسِي دَهِينًا، وَشِرَاكُ نَعْلِي جَدِيدًا، قَالَ: وَذَكَرَ أَشْيَاءَ حَتَّى ذَكَرَ عِلَاقَةَ سَوْطِهِ، فَقَالَ: «ذَاكَ جَمَالٌ، وَاللَّهُ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، ولكن الكبر مَنْ بَطِرَ الْحَقَّ وَازْدَرَى النَّاسَ» . «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ، وَقَدِ احْتَجَّا جَمِيعًا بِرُوَاتِهِ وَلَهُ شَاهِدٌ آخَرُ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ» K69 - احتجا برواته.

ترجمہ:

ہم سے ابوالعباس محمد بن یعقوب نے بیان کیا،انہوں نے کہا: ہم سے جعفر بن محمد بن شاکر نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے عفّان نے بیان کیا، اور ہم سے ابوبکر بن اسحاق الفقیہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم کو محمد بن غالب اور محمد بن محمود البنانی نے بتایا، ان دونوں نے کہا: ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے اعمش سے، انہوں نے حبیب بن ثابت سے، انہوں نے ابو یحییٰ بن جعدہ سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو۔" تو ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے اپنا کپڑا نیا، سر پر تیل لگا ہوا اور اپنے جوتے کا تسمہ نیا ہونا پسند ہے۔ راوی کہتے ہیں: اس شخص نے کئی چیزیں ذکر کیں یہاں تک کہ اپنے کوڑے کے پھندے (کی خوبصورتی) کا بھی ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ تو خوبصورتی ہے، اور اللہ خوبصورت ہے، خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ لیکن تکبر تو حق کو جھٹلانے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔" (الحاکم کہتے ہیں:) یہ حدیث اسناد کے اعتبار سے صحیح ہے لیکن (بخاری اور مسلم نے) اسے اپنی صحیح میں روایت نہیں کیا، حالانکہ ان دونوں (امام بخاری و مسلم) نے اس کے تمام راویوں سے (دوسری احادیث میں) حجت (احتجاج) قائم کیا ہے۔ اور مسلم کی شرط پر اس کی ایک اور سند بھی موجود ہے۔

[المستدرك الحاكم:69]


وَأَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَلِيٍّ، أنا مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: نا رَجَاءُ بْنُ الْجَارُودِ، قَالَ يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: نا شُعْبَةُ، عَنْ فُضَيْلٍ الْفُقَيْمِيِّ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنَ الْإِيمَانِ، وَلَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ كِبْرٍ» قَالَ رَجُلٌ: إِنَّ الرَّجُلَ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ ثَوْبُهُ حَسَنًا، وَنَعْلُهُ حَسَنًا فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، ولكن الكبر مَنْ بَطَرَ الْحَقَّ وَغَمَطَ النَّاسَ» ، أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ

ترجمہ:

اور میں(اللکائی کہتے ہیں:) عبیداللہ بن احمد بن علی ہوں، انہوں نے کہا: ہم کو محمد بن مخلد نے بتایا، انہوں نے کہا: ہم سے رجاء بن الجارود نے بیان کیا، انہوں نے کہا: یحییٰ بن محمد نے ہم سے بیان کیا، انہوں نے کہا: ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے فضیل الفقیمی سے، انہوں نے ابراہیم النخعی سے، انہوں نے علقمہ بن قیس سے، انہوں نے عبداللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص جہنم میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ذرہ کے برابر بھی ایمان ہو، اور وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ذرہ کے برابر بھی تکبر ہو۔" ایک شخص نے کہا: انسان کو اپنا کپڑا اچھا اور جوتا اچھا پسند ہوتا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ خوبصورت ہے، خوبصورتی کو پسند فرماتا ہے۔ لیکن تکبر حق کو جھٹلانے اور لوگوں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔" اسے امام مسلم نے (اپنی صحیح میں) روایت کیا ہے۔

[شرح اصول اعتقاد اهل السنة والجماعة-لالكائي:1611]





(4) حَدَّثَنا مُحَمَّد بن عبد الله بن بزيع , حَدَّثَنا عبد الوهاب , عن هشام , عن مُحَمَّد , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ , أَنَّ رَجُلا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنِّي أحب الجمال وأعطيت منه ما لا أحب أن يفوقني أحد من الناس إما قال بشسع نعل وإما [بشراك نعل] أفمن الكبر ذاك قال لا ولكن الكبر من بطر الحق وغمص الناس.

وهذا الحديثُ لم نسمعه إلا من مُحَمَّد بن عبد الله بن بزيع , عن عبد الوهاب , عن هشام.

ترجمہ:

ہمیں محمد بن عبداللہ بن بزیع نے حدیث بیان کی،انہوں نے عبدالوہاب سے، انہوں نے ہشام سے، انہوں نے محمد (بن سیرین) سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: "میں خوبصورتی کو پسند کرتا ہوں اور مجھے اس میں اتنا دیا گیا ہے کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص مجھ پر فائق آئے، خواہ (یہ فضیلت) میرے جوتے کے تسمے میں ہو یا (کہا:) میرے جوتے کے پٹے میں۔ کیا یہ تکبر ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، لیکن تکبر یہ ہے کہ آدمی حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔"

اور (امام بزار کہتے ہیں:) "یہ حدیث ہم نے صرف محمد بن عبداللہ بن بزیع کے طریقے سے سنی ہے، انہوں نے عبدالوہاب سے، انہوں نے ہشام سے۔"

[مسند البزار:10070]


حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَكَانَ رَجُلًا جَمِيلًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَجُلٌ حُبِّبَ إِلَيَّ الْجَمَالُ، وَأُعْطِيتُ مِنْهُ مَا تَرَى، حَتَّى مَا أُحِبُّ أَنْ يَفُوقَنِي أَحَدٌ، إِمَّا قَالَ: بِشِرَاكِ نَعْلِي، وَإِمَّا قَالَ: بِشِسْعِ نَعْلِي، أَفَمِنَ الْكِبْرِ ذَلِكَ؟ قَالَ «لَا، وَلَكِنَّ الْكِبْرَ مَنْ بَطِرَ الْحَقَّ، وَغَمَطَ النَّاسَ»

ترجمہ:

ہمیں ابوموسیٰ محمد بن المثنیٰ نے حدیث بیان کی، انہوں نے عبدالوہاب سے، انہوں نے ہشام سے، انہوں نے محمد (بن سیرین) سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا - اور وہ شخص خوبصورت تھا - تو اس نے کہا: "یا رسول اللہ! میں وہ شخص ہوں جسے خوبصورتی محبوب کر دی گئی ہے، اور مجھے اس میں اتنا (حسن) عطا کیا گیا ہے جیسا آپ دیکھ رہے ہیں، یہاں تک کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی مجھ پر فائق آئے، خواہ (یہ فضیلت) میرے جوتے کے تسمے میں ہو یا (کہا:) میرے جوتے کے پٹے میں۔ کیا یہ تکبر ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، لیکن تکبر یہ ہے کہ آدمی حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔"

[سنن ابوداؤد:4092]


أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ، أَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ دَاسَةَ، ثَنَا أَبُو دَاوُدَ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى أَبُو مُوسَى، ثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، ثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ رَجُلًا جَمِيلًا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنِّي رَجُلٌ حُبِّبَ إِلَيَّ الْجَمَالُ، وَأُعْطِيتُ مِنْهُ مَا تَرَى حَتَّى إِنِّي مَا أُحِبُّ أَنْ يَفُوقَنِي أَحَدٌ إِمَّا قَالَ: " بِشِرَاكِ نَعْلِي وَإِمَّا، قَالَ: بِشِسْعِ نَعْلِي أَفَمَنِ الكبر ذَلِكَ؟ قَالَ: لَا ولكن الْكِبْرَ مَنْ بَطَرَ الْحَقَّ وَغَمَطَ النَّاسَ ".

ترجمہ:

ہمیں ابوعلی الروذباری نے خبر دی،انہوں نے ابوبکر بن داسہ سے، انہوں نے ابوداؤد (سجستانی) سے، انہوں نے محمد بن المثنیٰ ابوموسیٰ سے، انہوں نے عبدالوہاب سے، انہوں نے ہشام سے، انہوں نے محمد (بن سیرین) سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور وہ شخص خوبصورت تھا، تو اس نے کہا: "یا رسول اللہ! میں وہ شخص ہوں جسے خوبصورتی محبوب کر دی گئی ہے، اور مجھے اس میں اتنا (حسن) عطا کیا گیا ہے جیسا آپ دیکھ رہے ہیں، یہاں تک کہ میں نہیں چاہتا کہ کوئی مجھ پر فائق آئے، خواہ (یہ فضیلت) میرے جوتے کے تسمے میں ہو یا (کہا:) میرے جوتے کے پٹے میں۔ کیا یہ تکبر ہے؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، لیکن تکبر یہ ہے کہ آدمی حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔"

[شعب الإيمان-للبيهقي:5783]




(5) قوله: إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ.

عَنْ قَتَادَة فِي قَوْلِهِ: إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ قَالَ: هَذَا قضاء الله الّذِي قَضَى إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْتَكْبِرِينَ وذكر لنا، إِنَّ رَجُلاً أتى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ الله، انه ليعجبني الجمال، حتى أود إِنَّ علاقة سوطي، وقبالة نعلي حسن، فهل ترهب عَلَى الكبر؟ فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كيف تجد قلبك؟ قَالَ: أجده عارفًا للحق مطمئنًا إليه. قَالَ: فليس ذاك بالكبر، ولكن الكبر إِنَّ تبطر الحق وتغمص الناس، فلا ترى أحدًا أفضل منك وتغمص الحق، فتجاوزه إِلَى غيره.

ترجمہ:

اللہ کے قول (بے شک اللہ متکبروں کو پسند نہیں کرتا) کے بارے میں قتادہ رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو اس نے فرمایا ہے کہ وہ متکبروں کو پسند نہیں کرتا۔ اور ہم سے ذکر کیا گیا کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے نبی! مجھے خوبصورتی بہت پسند ہے، یہاں تک کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے کوڑے کا پٹا اور میرے جوتے کا تسمہ بھی خوبصورت ہو، کیا آپ مجھے تکبر کا خوف دلاتے ہیں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اپنے دل کو کیسا پاتے ہو؟" اس نے کہا: میں اسے حق کو پہچاننے والا اور اس پر مطمئن پاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پس تکبر وہاں نہیں ہے۔ بلکہ تکبر یہ ہے کہ تو لوگوں کو حقیر سمجھے اور حق کو جھٹلائے، پس تو کسی کو اپنے سے بہتر نہ سمجھے اور حق کو حقیر جانے، بلکہ اسے چھوڑ کر دوسری طرف چلا جائے۔"

[تفسير ابن أبي حاتم:12501]






وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ، أَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ الرَّمَادِيُّ، ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ قَتَادَةَ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي لَأُحِبُّ الْجَمَالَ حَتَّى إِنِّي لَأُحِبُّهُ فِي شِرَاكِ نَعْلِي أَوْ قَالَ: شِسْعِ نَعْلِي وَعَلَاقَةِ سَوْطِي فَهَلْ تَخْشَى عَلَيَّ الكبر؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَيْفَ تَجِدُ قَلْبَكَ؟ " قَالَ: عَارِفًا لِلْحَقِّ مُطْمَئِنًّا إِلَيْهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ الكبر هُنَالِكَ ولكن الْكِبْرَ أَنْ تَغْمِطَ النَّاسَ وَتَبْطَرَ الْحَقَّ ".

ترجمہ:

اور ہمیں ابوالحسین بن بشران نے خبر دی، انہوں نے اسماعیل بن محمد الصفار سے، انہوں نے احمد بن منصور الرمادی سے، انہوں نے عبدالرزاق سے، انہوں نے معمر سے، انہوں نے قتادہ سے روایت کی کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: "میں خوبصورتی کو اس قدر پسند کرتا ہوں کہ اپنے جوتے کے تسمے (یا کہا: اپنے جوتے کے پٹے) اور اپنے کوڑے کے پٹے میں بھی (خوبصورتی) پسند کرتا ہوں۔ کیا آپ مجھ پر تکبر کا خوف رکھتے ہیں؟"

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اپنے دل کو کیسا پاتے ہو؟"

اس نے کہا: "(میں اسے) حق کو پہچاننے والا اور اس پر مطمئن پاتا ہوں۔"

تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تکبر وہاں (تمہارے اس عمل میں) نہیں ہے۔ بلکہ تکبر تو یہ ہے کہ تم لوگوں کو حقیر سمجھو اور حق کو جھٹلاؤ۔"

[شعب الإيمان للبيهقي، حديث نمبر: 5784]








(6) حَدَّثَنَا أَبُو زُرْعَةَ قَالَ: نَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: نَا عِيسَى بْنُ مُوسَى الدِّمَشْقِيُّ، عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَسَانِيِّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ سَحَبَ ثِيَابَهُ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ» ، فَقَالَ أَبُو رَيْحَانَةَ: وَاللَّهِ، لَقَدْ أَمْرَضَنِي مَا حَدَّثْتَنَا بِهِ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّ الْجَمَالَ حَتَّى إِنِّي لَأَجْعَلُهُ فِي شِرَاكِ نَعْلِي، وَعَلَاقِ سَوْطِي، أَفَمِنَ الكبر ذَلِكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ، وَيُحِبُّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ، ولكن الْكِبْرُ مَنْ سَفِهَ الْحَقَّ، وَغَمَصَ النَّاسَ»

لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَسَانِيِّ إِلَّا عِيسَى بْنُ مُوسَى، تَفَرَّدَ بِهِ: سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ".

ترجمہ:

ہم سے ابوزرعہ نے بیان کیا،انہوں نے سلیمان بن عبدالرحمن سے، انہوں نے عیسیٰ بن موسیٰ دمشقی سے، انہوں نے عطاء خراسانی سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جو شخص اپنے کپڑے (تکبر کی وجہ سے) گھسیٹے گا، اللہ اس کی طرف نہیں دیکھے گا۔"

تو ابوریحانہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! آپ نے جو ہمیں حدیث سنائی ہے اس نے مجھے بیمار کر دیا ہے۔ اللہ کی قسم! مجھے خوبصورتی اتنی پسند ہے کہ میں اسے اپنے جوتے کے تسمے اور اپنے کوڑے کے پٹے میں بھی (پسند) کرتا ہوں، کیا یہ تکبر ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، اور یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے بندے پر اپنی نعمت کا اثر دیکھے۔ لیکن تکبر یہ ہے کہ آدمی حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔"

[المعجم الأوسط للطبراني:4668]




(7) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِرْقٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، ثنا بَقِيَّةُ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي حَكِيمِ، حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ أَبِي مَيْسَرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ثِقَةٌ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مُرَارَةَ الرَّهَاوِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: §«لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ كَبْرٍ , وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ مِثْقَالُ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ» فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَتَجَمَّلَ بِنَقَاءِ ثَوْبِي , وَبِطِيبِ طَعَامِي , وَبِحُسْنِ مَرْكَبِي أَفَمِنَ الكبر ذَاكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْبُؤْسِ وَالتَّبَاؤُسِ ثُمَّ قَالَ: " لَيْسَ ذَلِكَ فِي الْكِبْرِ ولكن الْكِبْرَ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْضُ النَّاسِ.

ترجمہ:

ہم سے ابراہیم بن محمد بن عرق نے بیان کیا،انہوں نے عمرو بن عثمان سے، انہوں نے بقیہ سے، انہوں نے ابن ابی حکیم سے، انہوں نے عطاء بن ابی میسرہ سے، انہوں نے کہا: مجھے ایک ثقہ شخص نے مالک بن مرارہ رہاوی سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر رکھنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا، اور رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان رکھنے والا جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔"

تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اپنا کپڑا صاف ستھرا ہونا، اپنا کھانا پاکیزہ ہونا، اپنی سواری اچھی ہونا پسند ہے، کیا یہ تکبر ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں مفلسی اور کس مپرسی سے۔" پھر فرمایا: "یہ تکبر میں نہیں آتا۔ لیکن تکبر یہ ہے کہ آدمی حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔"

[مسند الشاميين للطبراني:745]





تکبر کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔


ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"پس جہنم کے دروازوں میں داخل ہو جاؤ، اس میں ہمیشہ رہو گے، اور تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا کتنا برا ہے"

(سورۃ النحل: 29)


اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے، پھر جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل (اسے) ماننے سے انکاری ہیں اور وہ تکبر کرنے والے ہیں۔ بے شک اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں، یقیناً وہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا"

(سورۃ النحل: 22-23)


اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"میں اپنی آیات سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں، اور اگر وہ ہر نشانی دیکھیں بھی تو اس پر ایمان نہیں لائیں گے، اور اگر وہ راہِ راست دیکھیں تو اسے راہ نہیں بنائیں گے، اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھیں تو اسے اپنا راستہ بنا لیں گے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ ان سے غافل رہے"

(سورۃ الأعراف: 146)


اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"اور رہے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، (تو ان سے کہا جائے گا:) کیا میری آیات تمہیں سنائی نہیں جاتی تھیں پھر تم نے تکبر کیا اور تم مجرم قوم تھے"

(سورۃ الجاثية: 31)


اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور ان کے سامنے تکبر کیا، ان کے لیے آسمان کے دروازے کھولے نہیں جائیں گے اور وہ جنت میں داخل نہیں ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں سے نکل جائے، اور ہم مجرموں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔ ان کے لیے جہنم کا بستر ہوگا اور ان کے اوپر آگ کے غلاف ہوں گے، اور ہم ظالموں کو ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں"

(سورۃ الأعراف: 40-41)


اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"بے شک جو لوگ اللہ کی آیتوں میں بغیر کسی دلیل کے جھگڑتے ہیں جو ان کے پاس آئی ہے، ان کے سینوں میں صرف تکبر ہے، وہ اس (تکبر) کو پہنچنے والے نہیں ہیں، پس اللہ کی پناہ مانگ، بیشک وہی سننے والا دیکھنے والا ہے" 

(سورۃ غافر: 56)


حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، اور جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا (¬1)" (¬2)۔

(اس پر ایک شخص نے عرض کیا:) (¬3) (یا رسول اللہ! مجھے اونٹوں میں سے اتنا حصہ دیا گیا ہے جیسا آپ دیکھ رہے ہیں) (¬4) (اور مجھے یہ پسند ہے کہ میرا کپڑا اچھا ہو اور میرا جوتا اچھا ہو) (¬5) (کیا یہ تکبر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں") (¬6) ("یہ تکبر نہیں ہے") (¬7) ("بے شک اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے") (¬8) ("بلکہ تکبر تو ہے") (¬9) ("حق کو جھٹلانا (¬10) اور لوگوں کو حقیر سمجھنا (¬11)") (¬12)۔

──────────────

حاشیہ وحوالہ جات:

(¬1) ترمذی کہتے ہیں: بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا ہے کہ "جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا" کے معنی یہ ہیں کہ وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ اسی طرح ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول مروی ہے کہ "جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہوگا وہ جہنم سے نکل آئے گا"۔ اور متعدد تابعین نے اس آیت "اے ہمارے رب! بے شک جسے تو جہنم میں داخل کرے گا تو نے اسے رسوا کر دیا" (المائدہ: 72) کی تفسیر میں کہا ہے کہ "جسے تو جہنم میں ہمیشہ رکھے گا تو نے اسے رسوا کر دیا"۔ (ترمذی: 1999)

(¬2) (ترمذی: 1999)، (مسلم: 148 - 91)، (ابوداؤد: 4091)، (ابن ماجہ: 59)، (احمد: 3913)

(¬3) حوالہ: (ترمذی: 1999)

(¬4) حوالہ: (احمد: 3644)، (ابوداؤد: 4092)

(¬5) حوالہ: (ترمذی: 1999)، (مسلم: 147 - 91)

(¬6) حوالہ: (ابوداؤد: 4092)

(¬7) حوالہ: (احمد: 17246)، اور شیخ شعیب ارنؤوط نے کہا ہے: "یہ دوسری سندوں سے صحیح ہے"۔

(¬8) حوالہ: (مسلم: 147 - 91)، (ترمذی: 1999)

(¬9) حوالہ: (ترمذی: 1999)، (ابوداؤد: 4092)

(¬10) "بَطَرُ الْحَقِّ" کے معنی: حق کو جھٹلانا اور انکار کرنا، اکڑ اور غرور کی وجہ سے۔ (امام نووی - جلد 1 / صفحہ 194)

(¬11) "غَمْطُ النَّاسِ" کے معنی: لوگوں کو حقیر سمجھنا۔

(¬12) حوالہ جات: (مسلم: 147 - 91)، (ترمذی: 1999)، (ابوداؤد: 4092)، (احمد: 3644)


[الجامع الصحیح للسنن والمسانید: ج4/ص122]



















مجموعی ترتیب سے تمام اقوال (مختصر مفہوم کے ساتھ):


1. تکبر نہیں ہے: اچھے صاف ستھرے کپڑے اور نئے جوتے کا تسمہ پسند کرنا۔ تکبر ہے: حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔


2. تکبر نہیں ہے: کوڑے کے پٹے اور جوتے کے تسمے میں خوبصورتی پسند کرنا۔ اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر ہے: حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔


3. تکبر کی مذمت: دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو تو جنت حرام۔ تکبر نہیں ہے: سواری، کپڑے، جوتے، کھانے کا اچھا ہونا۔ تکبر ہے: حق کو جھٹلانا اور مؤمن کو حقیر سمجھنا۔ تواضع کی علامتیں: بکری کا دودھ دوہنا، گدھے پر سوار ہونا، غریبوں کے ساتھ بیٹھنا، اہل خانہ کے ساتھ کھانا، اون کے کپڑے پہننا۔


4. تکبر کی مذمت: دل میں ذرہ کے برابر تکبر ہو تو جنت حرام۔ تکبر نہیں ہے: کپڑے اور جوتے کا اچھا ہونا۔ اللہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر ہے: حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا/تحقیر کی نظر سے دیکھنا۔


   · (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کے مطابق) تکبر نہیں ہے: خوبصورتی کو اس قدر پسند کرنا کہ جوتے کے تسمے میں بھی کوئی اپنے سے آگے نہ بڑھے۔ تکبر ہے: حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔


5. تکبر کی پہچان کا معیار: دل کا حال۔ اگر دل حق کو پہچانتا ہے اور اس پر مطمئن ہے تو یہ تکبر نہیں ہے۔ تکبر ہے: لوگوں کو حقیر سمجھنا اور حق کو جھٹلانا، کسی کو اپنے سے بہتر نہ سمجھنا۔


6. تکبر نہیں ہے: جوتے کے تسمے اور کوڑے کے پٹے میں خوبصورتی پسند کرنا۔ اللہ خوبصورتی کو اور اپنی نعمت کا اثر بندے پر دیکھنا پسند کرتا ہے۔ تکبر ہے: حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔


7. تکبر کی مذمت: رائی کے دانے کے برابر تکبر ہو تو جنت حرام۔ تکبر نہیں ہے: صاف کپڑے، پاکیزہ کھانا، اچھی سواری پسند کرنا۔ تکبر ہے: حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔




تمام احادیث سے حاصل شدہ اسباق و نکات:

1. تکبر کی تعریف و نوعیت (What is Kibr?)


تکبر محض اچھے کپڑے پہننے یا دنیاوی زیبائش سے لطف اندوز ہونے کا نام نہیں۔ احادیث اس کی واضح اور عملی تعریف پیش کرتی ہیں:


· حق کو جھٹلانا اور لوگوں کو حقیر جاننا: حدیث ابن مسعود میں تکبر کی جامع تعریف "بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ" (حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر سمجھنا) کے طور پر آئی ہے۔

· اللہ کی صفات میں مداخلت: حدیث قدسی (العز إزاری...) میں واضح ہے کہ عزت، عظمت اور کبریائی اللہ تعالیٰ کی خاص صفات ہیں۔ ان میں کسی قسم کا ادعا یا مقابلہ درحقیقت اللہ کے حقوق میں تجاوز ہے۔

· استخفاف اور معاندت: شرح النووی میں "عائل مستکبر" (متکبر غریب) کے عمل کو اللہ کے حق میں تحقیر اور دشمنی سے تعبیر کیا گیا ہے۔


2. تکبر کے نتائج و عذاب (Consequences & Punishment)


تکبر کی وعید انتہائی شدید ہے اور آخرت میں اس کے خوفناک نتائج سامنے آئیں گے:


· جنت سے محرومی: دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر بھی جنت میں داخلے کی راہ روک دے گا (حدیث ابن عمر و ابن عمرو)۔

· رسول اللہ ﷺ سے دوری: متکبر لوگ قیامت کے دن رسول اللہ ﷺ سے سب سے دور ہوں گے (حدیث جابر)۔

· عذاب الیم اور ذلت: متکبروں کو قیامت پر چیونٹیوں کی مانند چھوٹا کرکے اٹھایا جائے گا، ذلت انہیں ڈھانپ لے گی، اور جہنم کے خاص قید خانے "بولس" میں سخت ترین آگ اور ناپاک مشروب کی سزا ملے گی (حدیث ابن عمرو)۔

· اللہ کی طرف سے اجتماعی بائیکاٹ: تین قسم کے لوگوں (جن میں عائل مستکبر بھی ہے) سے اللہ تعالیٰ کلام، پاکیزگی اور رحمت کی نظر تک کو روک لے گا (حدیث ابوہریرہ: شیخ زانی، ملک کذاب، عائل مستکبر)۔


3. تکبر کی سنگینی و حساسیت (Severity & Sensitivity)


· معمولی مقدار بھی خطرناک: تکبر کا معیار انتہائی حساس ہے۔ ایک رائی یا سرخ چیونٹی کے دانے کے برابر بھی تکبر مہلک ہے۔

· شر کے لیے کافی سبب: صرف کسی مسلمان بھائی کو دل میں حقیر سمجھ لینا ہی انسان کے شر کے لیے کافی ہے (حدیث واثلہ)۔

· سوال کے لائق ہی نہیں: کچھ گناہ (جیسے اللہ کی صفت میں مقابلہ، تقدیر پر شک، رحمت سے ناامیدی) ایسے سنگین ہیں کہ ان کا مرتکب "لا تسأل عنہ" (جن کے بارے میں سوال ہی نہ کرو) کے زمرے میں آتا ہے (حدیث فضالہ)۔


4. تکبر کی علامات و مظاہر (Symptoms & Manifestations)


احادیث سے تکبر کی چند عملی علامات بھی واضح ہوتی ہیں:


· لوگوں کی تحقیر (غمط الناس): یہ تکبر کی بنیادی شاخ ہے۔

· بے مقصد بکواس، فضول گوئی اور طعنہ زنی: "ثرثار"، "متشدق" اور "متفیہق" ہونا تکبر کی علامت ہے۔ متفیہق کی وضاحت خود نبی ﷺ نے "المتکبرون" (تکبر کرنے والے) سے کی۔

· طعنہ زنی اور نقالی: کسی کی بری نیت سے نقل اتارنا یا طعنہ دینا (جیسے قد کے بارے میں کنایہ) بھی لغو اور ممنوع عمل ہے جو سمندر کے پانی کو بگاڑنے والی غیبت کے برابر ہے (حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا)۔


5. علاج، احتیاط اور متبادل (Remedy, Precautions & Antidote)


· حسن اخلاق کی فضیلت: نبی ﷺ کے قرب اور محبت کا معیار حسن اخلاق ہے۔ جس کے اخلاق اچھے ہوں، وہی رسول اللہ ﷺ کے قریب ترین ہوں گے (حدیث جابر)۔

· جمال (حسن) کا اسلامی تصور: دنیاوی جمال اور حلال زیبائش کو پسند کرنا تکبر نہیں، بلکہ یہ اللہ کی صفت "جمیل" ہونے کا تقاضا ہے۔ "إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ" (حدیث ابن مسعود)۔

· عاجزی (تواضع): یہ تکبر کے برعکس اور مطلوب صفت ہے۔


✅ خلاصہ و نتیجہ


مجموعی طور پر یہ احادیث ایک مربوط پیغام دیتی ہیں: "تکبر ایک انتہائی خطرناک قلبی مرض ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی، جنت سے محرومی، قیامت پر ذلت اور جہنم میں سخت عذاب کا سبب بنتا ہے۔ اس کی بنیاد حق کا انکار اور بندوں کو حقیر جاننا ہے۔ اس سے بچنے کا راستہ حسن اخلاق، عاجزی اور اللہ کی پسندیدہ جمالیات کو اپنانا ہے۔"








No comments:

Post a Comment