Friday, 30 August 2019

بیعت کا معنی، حکم، طریقہ، فوائد کے شرائط اور اقسام

عقیدہ:
بیعت کرنا سنت ہے، فرض یا واجب نہیں۔
تشریح:
البیع کے معنی بیجنے اور شراء کے معنی خریدنے کے ہیں لیکن یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔۔۔۔ بایع السلطان ( بادشاہ کی بیعت کرنا ) اس قلیل مال کے عوض جو بادشاہ عطا کرتا ہے اس کی اطاعت کا اقرار کرنا ۔ اس اقرارِ بیعۃ یا مبایعۃ کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بايَعْتُمْ بِهِ [سورۃ التوبة:111] تو جو سودا تم نے اس سے کیا ہے اس سے خوش رہو۔ میں بیعتِ رضوان کی طرف اشارہ ہے جس کا ذکر کہ آیت : لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ [ الفتح:18] اے پیغمبر جب مومن تم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے تو اللہ ان سے راضی ہوا ۔ اور آیت کریمہ : إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ ... [ التوبة:111] اللہ نے خرید لی مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر کہ انکے لئے جنت ہے میں پایا جاتا ہے۔
[تفسیر مفردات القرآن، امام راغب اصفہانیؒ]

اللہ عزوجل نے فرمایا:
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ [الفتح : 10]
بےشک جنہوں نے بیعت کی ہے آپ ﷺ سے، انہوں نے تو درحقیقت اللہ سے بیعت کی ہے۔

بیعت سنت ہے، لازم نہیں۔
البيعة سنة وليست بواجبه
[القول الجمیل: ص12، فتح البیان فی مقاصد القرآن:13/97]

کسی بزرگ کے ہاتھ پر یہ معاہدہ کرنا کہ میں آئندہ معصیت نہ کروں گا اور تصفیہ قلب کے لیے آپ کی ہدایات پر عمل کروں گا، اس کا نام بیعت ہے۔
 اعلم أن البیعة المتوارثة بین الصوفیة علی وجوہ: أحدہا بیعة التوبة من المعاصي الخ [القول الجمیل: ص12]

یعنی بیعت ایک معاہدہ کرنے کا نام ہے، کسی عالم باعمل، متقی پرہیزگار، مصلح کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر ہرقسم کے گناہ کے کاموں سے توبہ کرے اور صحیح عقائد اوراچھے اعمال پر گامزن رہنے کا وعدہ کرے۔ اخلاقِ رذیلہ کو دور کرنے اور اخلاقِ حسنہ پیدا کرنے کا عہد کرے۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اس طرح کا صحابہٴ کرام سے اور بہت سی صحابیات سے عہد لیا تھا۔ اس لیے یہ مسنون طریقہ ہے۔ اس کا فائدہ ظاہر ہے کہ اس کے ذریعہ آدمی اپنے اندر سے تکبر، ریاکاری، حرص و لالچ، حب جاہ، حب مال کو نکال کر اپنے اندر تواضع، اخلاص، خشیتِ الٰہی، اتحاد و اتفاق، محبت و ہمدردی، صلہ رحمی پیدا کرے اور اعلیٰ درجے کے اچھے اخلاق، انسانیت وشرافت سیکھ کر مثالی دین دار، دیانت دار شریف انسان بنے۔ پیر طریقت کی صحبت میں رہ کر یہ اوصاف بہت جلد پیدا ہوجاتے ہیں۔

کسی ’’متبع سنت‘‘ پیرو مرشد سے بیعت ہونا لازم و واجب نہیں لیکن اصلاح نفس و تزکیہ باطن لازم ہے، اور تزکیہ عامةً کسی متبعِ سنت(شیخِ کامل، مرشد، پیر و بزرگ) سے اصلاحی تعلق قائم کئے(صحبت اٹھائے) بغیر دشوار ہوتا ہے، اس لئے اصلاح و تزکیہ کی غرض سے کسی پیر و مرشد سے بیعت ہوجانا بہتر ہے۔


بیعت کے فوائد حاصل کرنے کی 4 شرائط:
اعتقاد، اطلاع ، اتباع اور انقیاد۔

بیعت کی پانچ قسمیں ہیں:
(۱) بیعتِ اسلام۔ (۲) بیعتِ جہاد۔ (۳) بیعتِ خلافت۔ (۴) بیعتِ سلوک۔ (۵) بیعت ِمعاہدہ۔

[القول الجمیل: ص9]

عورتوں سے بیعت:
يَـٰٓأَيُّہَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا جَآءَكَ ٱلۡمُؤۡمِنَـٰتُ يُبَايِعۡنَكَ عَلَىٰٓ أَن لَّا يُشۡرِكۡنَ بِٱللَّهِ شَيۡـًٔ۬ا وَلَا يَسۡرِقۡنَ وَلَا يَزۡنِينَ وَلَا يَقۡتُلۡنَ أَوۡلَـٰدَهُنَّ وَلَا يَأۡتِينَ بِبُهۡتَـٰنٍ۬ يَفۡتَرِينَهُ ۥ بَيۡنَ أَيۡدِيہِنَّ وَأَرۡجُلِهِنَّ وَلَا يَعۡصِينَكَ فِى مَعۡرُوفٍ۬‌ۙ فَبَايِعۡهُنَّ۔۔۔
اے نبی جب آئیں تیرے پاس مسلمان عورتیں بیعت کرنے کو اس بات پر کہ شریک نہ ٹھہرائیں اللہ کا کسی کو اور چوری نہ کریں اور بدکاری نہ کریں اور اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں، اور طوفان(الزام) نہ لائیں باندھ کر اپنے ہاتھوں اور پاؤں میں، اور تیری نافرمانی نہ کریں کسی بھلے کام میں تو اُنکو بیعت کر لے۔۔۔
[سورۃ الممتحنۃ:12]

بیعتِ سلوک وطریقت:
پھر رسول اللہ ﷺ فرماتے:
«قَدْ بَايَعْتُكِ» كَلاَمًا، وَلاَ وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِي المُبَايَعَةِ، مَا يُبَايِعُهُنَّ إِلَّا بِقَوْلِهِ
میں نے تم کو بیعت کرلیا اور اللہ کی قسم ! بیعت کرتے وقت آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کو مس Touch نہیں کیا ، آپ ﷺ ان کو صرف اپنے کلام سے بیعت کرتے تھے۔
[بخاری:4891: کتاب تفسیر القرآن : سورة الممتحنۃ]
https://www.youtube.com/watch?v=8YNEUuaEPz0

رسول اللہ ﷺ کے پاس انصاری خواتین دینِ اسلام پر بیعت کیلئے حاضر ہوئیں اور درخواست کی کہ آپ ﷺ اپنا دستِ مبارک آگے فرمائیں تاکہ ہم بھی (مردوں کی طرح) بیعت کرلیں، اس پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنِّي لَا أُصَافِحُ النِّسَاءَ ۔۔۔ میں عورتوں سے ہاتھ نہیں ملاتا۔
[نسائی:4181 ابن ماجہ:2874]


وَقَدْ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ الْمَنْصُورِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَافِحُ النِّسَاءَ وَعَلَى يَدِهِ ثوب
نبی ﷺ عورتوں سے مصافحہ کرتے اور (وہ اس حالت میں کہ) ان کے ہاتھ پر کپڑا ہوتا تھا۔
[التمهيد لما في الموطأ:12/243]

وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا بَايَعَ لَا يُصَافِحُ النِّسَاءَ إِلَّا وَعَلَى يَدِهِ ثَوْبٌ .
نبی ﷺ عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے مگر (صرف اس طریقے سے  کہ) ان کے ہاتھ پر کپڑا ہوتا تھا۔
[التمهيد لما في الموطأ:12/244، شرح الزرقاني على موطأ:4/633]

وَقَدْ جَاءَ فِي أَخْبَارٍ أُخْرَى أَنَّهُنَّ كُنَّ يَأْخُذْنَ بِيَدِهِ عِنْدَ الْمُبَايَعَةِ مِنْ فَوْقِ ثَوْبٍ.
[فتح الباري:8/637 إرشاد الساري:10/268]


عن أم عطية قالت بايعنا رسول الله ﷺ فقرأ علينا أن لا تشركن بالله شيئًا ونهانا عن النياحة فقبضت منا امرأة يدها.
[صحيح البخاري:4829+4829، السنن الكبرى للبيهقي:7104+7105]
يدل على معالجة البيعة باليد.
[الكوكب الدري على جامع الترمذي:2/418]





حضرت عوف بن مالک اشجعیؒ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر ہم نو یا آٹھ یا سات افراد نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، آپ نے (تین مرتبہ) فرمایا کہ تم اللہ کے رسول ﷺ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کرتے؟ ہم نے اپنے ہاتھ پھیلا کر عرض کیا کہ یارسول اللہ! کس امر پر بیعت کریں؟ فرمایا: اس بات پر کہ اللہ کی عبادت کروگے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، پانچوں نمازیں پڑھو گے، (احکام کو) سنو گے اور ان کی اطاعت کروگے(اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کریں گے)".
[مسلم:1043، (ابوداوؐد:1642) ابن ماجہ:2867 نسائی:460]

نوٹ:
یہ بیعتِ اسلام نہ تھی، وہ پہ؛ے سے ہی مسلمان ہوچکے تھے۔



انصاری عورتوں سے رسول اللہ ﷺ نے بیعت لی کہ وہ نوحہ نہ کریں گی۔
[نسائی:1852]

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے ۔۔۔ نبی ﷺ نے فرمایا: تم مجھ سے اس شرط پر بیعت کرو کہ(۱)چستی اور سستی ہر حال میں بات سننے اور ماننے، (۲)تنگی اور آسانی ہر حال میں خرچ کرنے، (۳)نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے، (۴) اور حق بات کہنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہ کرنے، (۵)اور میری مدد اور حفاظت کرنے جس طرح اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔
[مسند احمد:14456, صحیح ابن حبان:6273]




شیخ کے ضروری اوصاف یہ ہیں:
(۱) کتاب وسنت کا ضروری علم رکھتا ہو خواہ اساتذہ کرام سے پڑھ کر یا علمائے کرام کی صحبت میں رہ کر، یعنی: صحیح وضروری علم دین اور عقائد حقہ کا حامل ہو۔ (۲) عدالت اور تقوی میں پختہ ہو، بدعات اور کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو اور صغیرہ گناہوں پر اصرار نہ کرتا ہو۔ (۳) دنیا سے بے رغبت ہو اور آخرت سے رغبت رکھتا ہو، یعنی: حب جاہ، حب مال، ریا، تکبر، حسد، بغض، کینہ وغیرہ اخلاق رذیلہ کی اصلاح کراچکا ہو۔ اورفرائض اور واجبات کے علاوہ طاعات موٴکدہ اور اذکار منقولہ کا اہتمام رکھتا ہو۔ (۴) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہو، ان چاروں کا حاصل یہ ہے کہ ظاہر وباطن ہر اعتبار سے متبع شریعت وسنت ہو۔ (۵) کسی متبع شریعت سنت اور صاحب نسبت شیخ کامل سے اصلاحی تعلق قائم کرکے ان سے سلوک واحسان کی منزلیں طے کی ہوں اور اس شیخ کامل نے اس کے حالات سے مطمئن ہوکر اس پر اعتماد کیا ہو اور اسے خلافت سے نوازا ہو۔ (۶) اور خلافت کے بعد وہ دینی تنزلی وانحطاط کا شکار نہ ہو؛ بلکہ نفس کی نگرانی کے ساتھ محنت ومجاہدات کے ذریعے مزید ترقیات میں کوشاں رہتا ہو۔ پس جس شخص میں یہ امور پائے جائیں، اسے شیخ طریقت بنانا اور اس سے بیعت ہوکر سلوک واحسان کی منزلیں طے کرنا درست ہے.
[فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل ۴: ۳۵۲-۳۵۹، سوال: ۱۴۹۰-۱۴۹۵، القول الجمیل: ص13]




No comments:

Post a Comment