Saturday 7 September 2019

پیغامِ کربلا

سیدنا حسینؒ سے یہ سچی محبت وعظمت نہیں کہ سارے سال خوش وخرم پھریں، کبھی ان کا خیال بھی نہ آئے، اور عشرۂ محرم میں واقعہ شہادت سن کر رولیں، یا ماتم برپا کرلیں، یا تعزیہ داری کا کھیل تماشا بنائیں، سارے سال گرمی کی شدت کے زمانہ میں کسی کی پیاس وبھوک کا خیال نہ آئے اور پہلی محرم کو اگرچہ سردی پڑ رہی ہو، کسی کو ٹھنڈے پانی کی ضرورت نہ ہو، شہدائے کربلا کے نام کی سبیل کا ڈھونگ بنایا جائے۔
سیدنا حسینؒ سے یہ سچی محبت وہمدردی ہے کہ جس مقصدِ عظیم کیلئے انہوں نے یہ قربانی دی اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے اپنی اپنی ہمت کے مطابق ایثار وقربانی پیش کریں، ان کے ایمان، اعمال، اخلاق، ارشادات وخطبات کی پیروی کو دنیا وآخرت کی سعادت سمجھیں۔



اُسوۂ حسینؒ» مقصدِ سفر کربلا» حفاظتِ دینِ نبوی:

کربلا میں سیدنا حسینؓ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

أَيُّهَا الناس، ان رسول الله ص قَالَ: [مَنْ رَأَى سُلْطَانًا جَائِرًا مُسْتَحِلا لِحَرَمِ اللَّهِ، نَاكِثًا لِعَهْدِ اللَّهِ، مُخَالِفًا لِسُنَّةِ رَسُولِ الله، يَعْمَلُ فِي عِبَادِ اللَّهِ بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ، فَلَمْ يُغَيِّرْ عَلَيْهِ بِفِعْلٍ وَلا قَوْلٍ، كَانَ حَقًّا عَلَى اللَّهِ أَنْ يُدْخِلَهُ مُدْخَلَهُ] أَلا وَإِنَّ هَؤُلاءِ قَدْ لَزِمُوا طَاعَةَ الشَّيْطَانِ، وَتَرَكُوا طَاعَةَ الرَّحْمَنِ، وَأَظْهَرُوا الْفَسَادَ، وَعَطَّلُوا الْحُدُودَ، وَاسْتَأْثَرُوا بِالْفَيْءِ، وَأَحَلُّوا حَرَامَ اللَّهِ، وَحَرَّمُوا حَلالَهُ، وَأَنَا أَحَقُّ من غير، قَدْ أَتَتْنِي كُتُبُكُمْ، وَقَدِمَتْ عَلِيَّ رُسُلُكُمْ بِبَيْعَتِكُمْ، أَنَّكُمْ لا تُسْلِمُونِي وَلا تَخْذَلُونِي، فَإِنْ تَمَمْتُمْ عَلَى بَيْعَتِكُمْ تُصِيبُوا رُشْدَكُمْ، فَأَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ على، وابن فاطمه بنت رسول الله ص، نَفْسِي مَعَ أَنْفُسِكُمْ، وَأَهْلِي مَعَ أَهْلِيكُمْ، فَلَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ، وَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَنَقَضْتُمْ عَهْدَكُمْ، وَخَلَعْتُمْ بَيْعَتِي مِنْ أَعْنَاقِكُمْ، فَلَعَمْرِي مَا هِيَ لَكُمْ بِنُكْرٍ، لَقَدْ فَعَلْتُمُوهَا بِأَبِي وَأَخِي وَابْنِ عَمِّي مُسْلِمٍ، وَالْمَغْرُورُ مَنِ اغْتَرَّ بِكُمْ، فَحَظَّكُمْ أَخْطَأْتُمْ، وَنَصِيبَكُمْ ضَيَّعْتُمْ، وَمَنْ نَكَثَ فَإِنَّمَا يَنْكُثُ عَلَى نَفْسِهِ، وَسَيُغْنِي اللَّهُ عَنْكُمْ، وَالسَّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ.
ترجمہ:

اے لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: [جو شخص کسی ایسے ظالم بادشاہ کو دیکھے جو اللہ کے حرام کو حلال سمجھے اور اللہ کے عہد کو توڑدے، سنت رسول اللہ ﷺ کی مخالفت کرے، اللہ کے بندوں کے ساتھ گناہ اور دشمنی کا معاملہ کرے، اور یہ شخص اس بادشاہ کے ایسے اعمال دیکھنے کے باوجود کسی قول یا فعل سے اس کی مخالفت نہ کرے، تو اللہ تعالی کے ذمہ ہے کہ اس کو بھی اس ظالم بادشاہ کے ساتھ ساتھ اس کے ٹھکانے (یعنی دوزخ)میں پہنچادے۔]

اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس(یزید)نے اور اس کے حکام نے شیطان کی اطاعت کو اختیار کر رکھا ہے، اور رحمان کی اطاعت کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور زمین میں فساد پھیلادیا، الله کی حدود کو معطل کردیا، اسلامی بیت المال کو اپنی ملکیت سمجھ لیا، اللہ کے حرام کو حلال کر ڈالا اور حرام کو حلال ٹھہرا دیا، اور میں دوسروں سے زیادہ حقدار ہوں، اور میرے پاس تمہارے خطوط اور وفود تمہاری بیعت کا پیغام لیکر پہنچے ہیں، کہ تم میرا ساتھ نہ چھوڑو گے، اور میری جان کو اپنی جان کے برابر سمجھو گے، اب اگر تم اپنی بات پر قائم ہو تو ہدایت پاؤ گے، میں رسول اللہ کی لختِ جگر فاطمہ کا بیٹا ہوں، میری جان آپ لوگوں کی جانوں کے ساتھ اور میرے اہل و عیال آپ لوگوں کے اہل وعیال کے ساتھ، تم لوگوں کو میرا اعتبار کرنا چاہیے۔

اور اگر تم ایسا نہیں کرتے بلکہ میری بیعت کو توڑتے ہو اور میرے عہد سے پھر جاتے ہو تو وہ تم لوگوں سے کچھ بعید نہیں، کیونکہ یہی کام تم میرے باپ علی اور بھائی حسن اور چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کے ساتھ کرچکے ہو۔

اور وہ آدمی بڑا فریب میں ہے جو تمہارے عہد و پیمان سے دھوکہ کھائے، سو تم نے خود اپنا آخرت کا حصہ ضائع کر دیا، اور اپنے حق میں ظلم کیا، اور جو شخص بیعت کرکے توڑتا ہے، وہ اپنا نقصان کرتا ہے اور قریب ہے کہ اللہ تعالی مجھے تم سے مستغنی فرما دیں۔
اور سلامتی ہو تم سب پر اور رحمتیں اللہ کی اور برکتیں بھی۔


[أنساب الأشراف للبَلَاذُري: جلد 3/صفحہ171 ،
تاريخ الطبري:5/403،
الكامل في التاريخ (امام)ابن اثیر: جلد3/صفحہ159،
[مرآة الزمان في تواريخ الأعيان: جلد8/صفحہ118]



نوٹ:

(1)شریعت کی حفاظت کرنا۔

(2)نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا۔

(3)افضل جہاد، ظالم بادشاہ/حکمران کے خلاف (ہتھیار کے بجائے) حق/عدل کی بات کہنا ہے۔
[حوالہ» ابوداؤد:4344، ترمذی:2174، ابن ماجہ:4011] ﴿نسائی:4109(4214)، احمد:18828+18830، شعب الإيمان:7582، طبراني:8081﴾

اگرچہ وہ تمہارے حقوق نہ دیں، تم ان کے حقوق ادا کرتے رہو اور اپنے حق اللہ سے مانگو۔
[صحیح بخاری»حدیث نمبر:3603]
حاکم کی بات سن اور اطاعت کر اگرچہ (1)تیری پیٹھ پر مارا جائے یا (2)تیرا مال غصب کرلیا جائے، پھر بھی ان کی بات سن اور اطاعت کر۔
[صحیح مسلم:1847(4785)، السنن الكبرى-للبيهقي:16617، المعجم الاوسط-للطبراني:2893، المستدرك للحاكم:8533]
اس کی بات سنو اور (نیکی میں) اطاعت کرو کیونکہ ان پر ان کا بوجھ ہے اور تمہارے اوپر تمہارا بوجھ ہے۔
[جامع ترمذی:2199، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ:3176]



(4)ظالم حکمران وہ ہے جو شریعت کے مطابق فیصلہ نہ کرے۔
[حوالہ سورۃ المائدۃ:45]
یعنی حدود(شرعی سزاؤں) کو معطل کرے، اللہ کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرے۔ گناہ اور دشمنی میں تعاون کرے۔












اُسوۂ حسینؒ» مقصدِ سفرِ کربلا»
حفاظتِ دینِ نبوی:


سیدنا حسینؒ کا وہ خط جو اہلِ بصرہ کو لکھا تھا، میں یہ فرمایا:
وَأَنَا أَدْعُوكُمْ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ، فَإِنَّ السُّنَّةَ قَدْ أُمِيتَتْ، وَإِنَّ الْبِدْعَةَ قَدْ أُحْيِيَتْ
ترجمہ:
*میں تمہیں دعوت دیتا ہوں کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ ﷺ (کی حفاظت اور پھیلانے) کی طرف، کیونکہ سنت مِٹ رہی ہے، اور بدعات زندہ کی جارہی ہیں۔*
[تاريخ الطبري-تاريخ الرسول والملوك: ج5 ص357]
[البداية والنهاية-امام ابن كثير» ج11 ص492 ت التركي]
[مرآة الزمان في تواريخ الأعيان: جلد8/صفحہ31]
[الكامل في التاريخ(امام)ابن الاثیر» جلد4، صفحہ9]




اُسوۂ حسینؒ»
مقصدِ سفر وقربانی»
احکامِ شریعت کی پابندی اور خدائی فیصلہ پر رضامندی:

فرزوق شاعر کے جواب میں جو کلمات کوفہ کے راستے میں آپ نے ارشاد فرمائے، اس کے چند جملے یہ ہیں کہ:
إِنْ نَزَلَ الْقَضَاءُ بِمَا نُحِبُّ فَنَحْمَدُ اللَّهَ عَلَى نَعْمَائِهِ وَهُوَ الْمُسْتَعَانُ عَلَى أَدَاءِ الشُّكْرِ، وَإِنْ حَالَ الْقَضَاءُ دُونَ الرَّجَاءِ فَلَمْ يَعْتَدِ مَنْ كَانَ الْحَقُّ نِيَّتَهُ، وَالتَّقْوَى سَرِيرَتَهُ. 
ترجمہ:
*اگر تقدیرِ الٰہی ہماری مراد کے موافق ہوئی تو ہم اللہ کا شکر کریں گے، اور ہم شکر ادا کرنے میں بھی اسی کی اعانت(مدد)طلب کریں گے کہ ادائے شکر کی توفیق دی، اور اگر تقدیرِ الٰہی مراد میں حائل ہوگئی تو اس شخص کا کچھ تصور نہیں جس کی نیت حق کی حمایت ہو اور جس کے دل میں خدا کا خوف ہو۔*
[تاريخ الطبري-تاريخ الرسول والملوك: ج5 ص386]
[الكامل في التاريخ(امام)ابن الاثیر» جلد3، صفحہ150، ت التدميري]
[البداية والنهاية-امام ابن كثير» ج11 ص510 ت التركي]





اُسوۂ حسینؒ»
انتہائی مصیبت میں بھی قابلِ رشک نعمتوں کا شکر کرنا۔
اہلِ بیت کے سامنے آپ کے آخری ارشادات کے یہ جملے پھر پڑھیے:
وَأَحْمَدُهُ عَلَى السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ عَلَى أَنْ أَكْرَمَتْنَا بِالنُّبُوَّةِ وَجَعَلْتَ لَنَا أَسْمَاعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً وَعَلَّمْتَنَا الْقُرْآنَ وَفَقَّهْتَنَا فِي الدِّينِ فَاجْعَلْنَا لَكَ مِنَ الشَّاكِرِينَ
ترجمہ:
*میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں راحت میں بھی اور مصیبت میں بھی، اے اللہ! میں آپ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ نے ہمیں شرافتِ نبوت سے نوازا اور ہمیں کان آنکھ اور دل دیئے جس سے ہم آپ کی آیات سمجھیں، اور ہمیں آپ نے قرآن سکھایا اور دین کی سمجھ عطا فرمائی، ہمیں آپ شکرگذاری بندوں میں داخل فرما لیجئے۔*
[تاريخ الطبري-تاريخ الرسول والملوك: ج5 ص418]
[الكامل في التاريخ(امام)ابن الاثیر» جلد3، صفحہ166، ت التدميري]







م












اُسوۂ حسینؒ»
سیدنا حسینؓ کی سیدہؓ زینب کو نصیحت:

قَالَ: يَا أُخَيَّةُ لَا يُذْهِبَنَّ حِلْمَكِ الشَّيْطَانُ.
ترجمہ:
فرمایا: اے میری بہن! شیطان کہیں تمہارا حلم(حوصلہ) ختم نہ کردے ۔

[أنساب الأشراف للبَلَاذُري:3/186،
المنتظم فی التاریخ الملوک والامم(امام)ابن الجوزی:5/338،
الکامل فی التاریخ (امام)ابن الاثیر:3/168،
البداية والنهاية(امام)ابن کثیر:8/192، صفة مقتله]




وإني أقسم عليك يا أخية لا تشقي علي جيبا ولا تخمشي وجها.﴿وَلَا تَدْعِي عَلَيَّ بِالْوَيْلِ وَالثَّبُورِ إِنْ أَنَا هَلَكْتُ.﴾
ترجمہ:
اور میں تمہیں قسم دیتا ہوں اے میری بہن! کہ(میری شہادت پر) تم کپڑے نہ پھاڑنا، چہرہ نہ پیٹنا۔﴿اور مت پکارنا ویل اور ہلاکت کو اگر میں ہلاک ہوجاؤں۔﴾
[المنتظم فی التاریخ الملوک والامم(امام)ابن الجوزی:5/338،
الكامل في التاريخ (امام)ابن الاثیر:3/168]






اتَّقِي اللَّهَ (واصبري) وَتَعَزَّيْ بِعَزَاءِ اللَّهِ وَاعْلَمِي أَنَّ أَهْلَ الْأَرْضِ يَمُوتُونَ وَأَهْلَ السَّمَاءِ لَا يَبْقَوْنَ، وَأَنَّ كُلَّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَ اللَّهِ  الَّذِي خَلَقَ الْخَلْقَ بقدرته، ويميتهم بقهره وعزته، ويعيدهم فيعبدونه وحده، وَهُوَ فَرْدٌ وَحْدَهُ
ترجمہ:
اے میری بہن! الله سے ڈرنا (اور صبر کرنا) اور الله کی راحت(بدلہ)کے ساتھ راحت پانا، اور یاد رکھنا کہ زمین میں بسنے والی ہر مخلوق کو مرنا ہے اور آسمان والوں کو بھی بقا نہیں، اور بےشک ہر شیء ہلاک ہونے والی ہے سوائے الله کی ذات کے، جس نے اپنی قدرت سے مخلوقات بنائی، اور وہ انہیں موت دے گا اپنے قہر وغلبہ سے، اور وہ انہیں دوبارہ زندہ کرے گا، تو وہ اسی اکیلے کی(ہمیشہ)عبادت کریں گے، اور وہی تنہا باقی رہے گا۔
[الكامل في التاريخ (امام)ابن الاثیر:3/167،
البداية والنهاية(امام)ابن کثیر:8/192، صفة مقتله]



وَاعْلَمِي أَنَّ أَبِي خَيْرٌ مِنِّي، وَأُمِّي خَيْرٌ مِنِّي، وَأَخِي خَيْرٌ مِنِّي، ولي ولهم ولكل مسلم برسول اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ، ثم حرج عليها أن لا تَفْعَلَ شَيْئًا مِنْ هَذَا بَعْدَ مَهْلِكِهِ۔
ترجمہ:
اور یاد رکھنا کہ میرا باپ مجھ سے بہتر ہے اور میری ماں بھی مجھ سے بہتر ہے اور میرا بھائی بھی مجھ سے بہتر ہے، اور میرے لئے اور ان کیلئے اور سارے مسلمانوں کیلئے اسوۃ (زندگی گذارنے کا نمونہ) رسول الله ﷺ ہیں۔
پھر فرمایا:
ان کے فوتگی کے بعد ان باتوں میں سے کوئی کام نہ کرنا۔
[الكامل في التاريخ (امام)ابن الاثیر:3/167]
[البداية والنهاية(امام)ابن کثیر:8/192، صفة مقتله]






اُسوۂ حسینؒ»
جنگ میں بھی نماز کی وقت پر پابندی:

وَدَخَلَ عَلَيْهِمْ وَقْتُ الظُّهْرِ فَقَالَ الْحُسَيْنُ: مُرُوهُمْ فَلْيَكُفُّوا عَنِ الْقِتَالِ حَتَّى نُصَلِّيَ۔
ترجمہ:
اور جب ظہر(نماز)کا وقت آیا تو سیدنا حسینؓ نے فرمایا: جنگ ملتوی کرلو یہاں تک کہ ہم نماز پڑھ لیں۔
[البداية والنهاية(امام)ابن کثیر:8/198، صفة مقتله]






اُسوۂ حسینؒ»
سیدنا حسینؓ بن علیؓ کا عقیدہ توحید اور دعائے کرب:

جب صبح کے وقت دشمنوں کا سامنا ہوا تو سیدنا حسینؓ ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی:
اللَّهُمَّ أَنْتَ ثِقَتِي فِي كُلِّ كَرْبٍ وَرَجَائِي فِي كُلِّ شِدَّةٍ، وَأَنْتَ لِي فِي كُلِّ أَمْرٍ نَزَلَ بِي ثِقَةٌ وَعُدَّةٌ، كَمْ مِنْ هَمٍّ يَضْعُفُ فِيهِ الْفُؤَادُ وَتَقِلُّ فِيهِ الْحِيلَةُ وَيَخْذُلُ فِيهِ الصَّدِيقُ وَيَشْمَتُ بِهِ الْعَدُوُّ أَنْزَلْتُهُ بِكَ وَشَكَوْتُهُ إِلَيْكَ رَغْبَةً إِلَيْكَ عَمَّنْ سِوَاكَ فَفَرَّجْتَهُ وَكَشَفْتَهُ وَكَفَيْتَنِيهِ، فَأَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ نِعْمَةٍ، وَصَاحِبُ كُلِّ حَسَنَةٍ، وَمُنْتَهَى كُلِّ رَغْبَةٍ.
ترجمہ:
اے اللہ! آپ ہی میری ہر مشکل میں مضبوط قلعہ ہیں، ہر پریشانی میں میری امید ہیں، اور آپ ہی آنے والی ہر مصیبت میں راحت رساں ہیں، کتنے ہی غم ایسے ہیں جو دلوں کو کمزور کر دیتے ہیں، ان سے چھٹکارے کی راہیں کم ہوجاتی ہیں دوست بھی اس موقع پر ناکام ہوجاتے ہیں، دشمن خوش ہوجاتے ہیں، میں نے آپ سے مانگا اور آپ ہی کی طرف رجوع کیا، آپ کے علاوہ کسی طرف رغبت نہیں ہے، آپ نے میری ان پریشانیوں کو دور کردیا، آپ ہی میری ہر نعمت کے والی ہیں، ہر بھلائی میں میرے مددگار وساتھی ہیں، ہر عنایت کی آپ ہی انتہاء ہیں۔
[تاريخ الطبري:5/423،
الكامل في التاريخ (امام)ابن الاثیر:3/169،
البداية والنهاية(امام)ابن کثیر:8/193، صفة مقتله]










اُسوۂ حسینؒ»
سیدنا حسینؓ نے میدانِ کربلا میں اپنے مخالفین سے مخاطب ہوکر فرمایا:
إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ لِي وَلِأَخِي: «أَنْتُمَا سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ (وَقُرَّةُ عَيْنِ أَهْلِ السُّنَّةِ) »
ترجمہ:
بےشک رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے اور میرے بھائی (سیدنا حسنؓ) سے فرمایا:
تم دونوں اہلِ جنت کے نوجوانوں کے سردار ہو اور اہلِ سنت کے آنکهوں کی ٹهنڈک ہو۔

[الكامل في التاريخ(امام)ابن الاثیر» جلد3، صفحہ170، ت التدميري]


















*واقعہ کربلا پر مستند روایات پر مبنی محقق ومستند مفتیانِ کرام کے"تحقیقی"بیانات»*
(1)مفتی محمد زبیر
دوسرا حصہ

(2)مفتی محمد سعید خان
قدیم بیان
جدید بیان

(3)مفتی طارق مسعود


(4)مفتی عبد الواحد قریشی

2021

(5)مفتی سعید احمد جلالپوری مرحوم

(6)مفتی عقیل الرحمٰن صاحب قاسمی

(7)مفتی محمد اسماعیل صاحب قاسمی




*اصلاحی بیانات:*
(8)مفتی ڈاکٹر زبیر اشرف عثمانی

(9)مفتی اعظم امریکا مفتی منیر احمد اخون

2022

(10)شیخ محمد مکی الحجازی

(11)مولانا طارق جمیل


(12) پیر ذوالفقار نقشبندی 

(13) ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم
آخری درس
قدیم درس


شہادتِ حسین اور نبوی پیشگوئی:
(1)عَنْ عَائِشَةَ أَوْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لِإِحْدَاهُمَا: لَقَدْ دَخَلَ عَلَيَّ الْبَيْتَ مَلَكٌ لَمْ يَدْخُلْ عَلَيَّ قَبْلَهَا فَقَالَ لِي: إِنَّ ابْنَكَ هَذَا: حُسَيْنٌ مَقْتُولٌ، وَإِنْ شِئْتَ أَرَيْتُكَ مِنْ تُرْبَةِ الْأَرْضِ الَّتِي يُقْتَلُ بِهَا. قَالَ: فَأَخْرَجَ تُرْبَةً حَمْرَاءَ.
ترجمہ:
ام المومنین حضرت عائشہؓ یا ام سلمہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی  ‌ﷺ ‌نے ان دونوں میں سے کسی ایک سے فرمایا: میرے پاس گھر میں ایک فرشتہ آیا ہے جو اس سے پہلے میرے پاس نہیں آیا اور مجھ سے کہا: تمہارا بیٹا حسین قتل کیا جائے گا، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو اس زمین کی مٹی دکھا سکتا ہوں جس میں اسے قتل کیا جائے گا۔ پھر اس نے سرخ مٹی نکال کر دکھائی۔
[مسند أحمد:26524، الصحيحة:822]

نکات:
(1)حضرت حسینؓ کی فضیلت(شہید کے درجہ پر قائز ہونا)۔
[فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل:1357، مجمع الزوائد:15113]
(2)فتنوں کا بیان:- حضرت حسین کی قتل کی جگہ
[المطالب العالية محققا:18/ 250]
(3)نبی کے نبوت کے سچائی کے دلائل:-معجزات اور پیشگوئیاں۔
[دلائل النبوة - السقار: صفحہ21]
(4)نواسہ مصطفیٰ ﷺ کو یہ امت قتل کرے گی۔
[صحيح ابن حبان:4855]
(5)اللہ کے فیصلون پر راضی رہنا۔
(6)اللہ کے کہنے پر پیغمبر ابراہیم کا اپنے بیٹے اسماعیل کو قربان کرنے کا نمونہ
(7)ہر سال ماتم ونوحہ کے بجائے صبر کرنا سنت ہے۔



(2)عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ مَلَكَ الْمَطَرِ اسْتَأْذَنَ رَبَّهُ  أَنْ يَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنَ لَهُ، فَقَالَ لِأُمِّ سَلَمَةَ: " امْلِكِي عَلَيْنَا الْبَابَ، لَا يَدْخُلْ عَلَيْنَا أَحَدٌ "، قَالَ: وَجَاءَ الْحُسَيْنُ لِيَدْخُلَ فَمَنَعَتْهُ، فَوَثَبَ فَدَخَلَ فَجَعَلَ يَقْعُدُ عَلَى ظَهَرِ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَى مَنْكِبِهِ، وَعَلَى عَاتِقِهِ، قَالَ: فَقَالَ الْمَلَكُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتُحِبُّهُ؟ قَالَ: " نَعَمْ "، قَالَ: أَمَا إِنَّ أُمَّتَكَ سَتَقْتُلُهُ، وَإِنْ شِئْتَ أَرَيْتُكَ الْمَكَانَ الَّذِي يُقْتَلُ فِيهِ، فَضَرَبَ بِيَدِهِ فَجَاءَ بِطِينَةٍ حَمْرَاءَ، فَأَخَذَتْهَا أُمُّ سَلَمَةَ فَصَرَّتْهَا فِي خِمَارِهَا قَالَ: قَالَ ثَابِتٌ: " بَلَغَنَا أَنَّهَا كَرْبَلَاءُ
ترجمہ:
حضرت انسؓ بن مالک سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بارش کے ذمے دار فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی، اللہ تعالیٰ نے اسے اجازت دے دی، نبی ﷺ نے اس موقع پر حضرت ام سلمہؓ سے فرمایا کہ دروازے کا خیال رکھو کہ ہمارے پاس کوئی اندر نہ آنے پائے، تھوڑی دیر میں حضرت حسینؓ آئے اور گھر میں داخل ہونا چاہا، حضرت ام سلمہؓ نے انہیں روکا تو وہ کود کر اندر داخل ہوگئے اور جا کر نبی ﷺ کی پشت پر، مونڈھوں اور کندھوں پر بیٹھنے لگے، اس فرشتے نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ کیا آپ کو اس سے محبت ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ہاں! تو فرشتے نے کہا کہ یاد رکھئے! آپ کی امت اسے قتل کر دے گی، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو وہ جگہ بھی دکھا سکتا ہوں جہاں یہ شہید ہوں گے، یہ کہہ کر فرشتے نے اپنا ہاتھ مارا تو اس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی مٹی آگئی، حضرت ام سلمہؓ نے وہ مٹی لے کر اپنے دوپٹے میں باندھ لی۔
[مسند أحمد:13539+13794، مسند أبي يعلى:3402، صحيح ابن حبان:4855، المعجم الكبير للطبراني:2813، دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني:492 الصحيحة: 822، صحيح الكتب التسعة وزوائده:6667]





(3)عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ نُجَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَارَ مَعَ عَلِيٍّ، وَكَانَ صَاحِبَ مِطْهَرَتِهِ، فَلَمَّا حَاذَى نِينَوَى وَهُوَ مُنْطَلِقٌ إِلَى صِفِّينَ، فَنَادَى عَلِيٌّ: اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللهِ، اصْبِرْ أَبَا عَبْدِ اللهِ، ‌بِشَطِّ ‌الْفُرَاتِ قُلْتُ: وَمَاذَا قَالَ؟، دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَعَيْنَاهُ تَفِيضَانِ، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللهِ، أَغْضَبَكَ أَحَدٌ، مَا شَأْنُ عَيْنَيْكَ تَفِيضَانِ؟ قَالَ: " بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِي جِبْرِيلُ قَبْلُ، فَحَدَّثَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ ‌بِشَطِّ ‌الْفُرَاتِ " قَالَ: فَقَالَ: " هَلْ لَكَ إِلَى أَنْ أُشِمَّكَ مِنْ تُرْبَتِهِ؟ " قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ. فَمَدَّ يَدَهُ، فَقَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ فَأَعْطَانِيهَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ أَنْ فَاضَتَا»۔
ترجمہ:
عبداللہ بن نجی اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ وہ علی‌ؓ  کے ساتھ جا رہے تھے،وہ ان کے وضو کا برتن (لوٹا) اٹھایا کرتے تھے۔ جب وہ (نینویٰ) کے قریب پہنچے جبکہ علی‌ؓ  صفین کی طرف جا رہے تھے۔ تو علی‌ؓ نے آواز دی:ابو عبداللہ! رکو، ابو عبداللہ! فرات کے کنارے رکو، میں نے کہا: کیا ہوا؟ علی‌ؓ  نے کہا: ایک دن میں نبی ﷺ کے پاس گیا،آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے، میں نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیا آپ کو کسی نے غصہ دلایا ہے؟ آپ کی آنکھوں آنسو کیوں جاری ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ جبریل ابھی ابھی میرے پاس سے اٹھ کر گئے ہیں، انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ حسین فرات کے کنارے قتل کیا جائے گا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم پسند کرو گے کہ میں اس کی مٹی کی خوشبو سنگھاؤں؟ علی‌ؓ  کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ہاں، آپ ﷺ نے ہاتھ آگے بڑھایا، آپ نے مٹی کی ایک مٹھی مجھے دی، مجھے بھی اپنی آنکھوں پر قابو نہ رہا اور آنسو نکل آئے۔
[مسند أحمد:648،  الصحيحة:1171]

نکات:
(1)حضرت حسینؓ کی فضیلت(شہید کے درجہ پر قائز ہونا)۔
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:4818، مشكاة المصابيح:6180]
(2)فتنوں کا بیان:- حضرت حسین کا مقتل
[البداية والنهاية ت التركي:9/ 238، إمتاع الأسماع:12/ 237، المقفى الكبير:3/322]
(3)اپنی بیٹی (حضرت فاطمہؓ) کے بیٹے ابی عبداللہ الحسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے قتل کے بارے میں ان کے بیان کرنے کے بارے میں کیا بیان کیا گیا ہے۔ اور جو نشانیاں اس وقت ظاہر ہوئیں جو آپؓ کے دادا (محمد ﷺ) کی نبوت کی درستی پر دلالت کرتی ہیں۔
[دلائل النبوة للبيهقي: 6/ 469]




(4)عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ، أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَأَيْتُ حُلْمًا مُنْكَرًا اللَّيْلَةَ، قَالَ: «مَا هُوَ؟» قَالَتْ: إِنَّهُ شَدِيدٌ، قَالَ: «مَا هُوَ؟» قَالَتْ: رَأَيْتُ كَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِكَ قُطِعَتْ وَوُضِعَتْ فِي حِجْرِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَأَيْتِ خَيْرًا، تَلِدُ فَاطِمَةُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ غُلَامًا، فَيَكُونُ فِي حِجْرِكِ» فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَيْنَ فَكَانَ فِي حِجْرِي كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَخَلْتُ يَوْمًا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُهُ فِي حِجْرِهِ، ثُمَّ حَانَتْ مِنِّي الْتِفَاتَةٌ، فَإِذَا عَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُهْرِيقَانِ مِنَ الدُّمُوعِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي مَا لَكَ؟ قَالَ: «أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، فَأَخْبَرَنِي أَنَّ ‌أُمَّتِي ‌سَتَقْتُلُ ‌ابْنِي هَذَا» فَقُلْتُ: هَذَا؟ فَقَالَ: «نَعَمْ، وَأَتَانِي بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاءَ»۔
ترجمہ:
ام الفضل بنت حارثؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا، اللہ کے رسول! میں نے رات ایک عجیب سا خواب دیکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: وہ بہت شدید ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: ”وہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: میں نے دیکھا کہ گویا گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جو آپ کے جسم اطہر سے کاٹ کر میری گود میں رکھ دیا گیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم نے خیر دیکھی ہے، ان شاء اللہ فاطمہ بچے کو جنم دیں گی اور وہ تمہاری گود میں ہو گا۔ “ فاطمہؓ نے حسینؓ کو جنم دیا اور وہ میری گود میں تھا جیسے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا۔ (تو انہوں نے ان کو دودھ پلایا، جو قثم بن عباس کا دودھ تھا) ایک روز میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے حسینؓ کو آپ کی گود میں رکھ دیا۔ پھر میں کسی اور طرف متوجہ ہو گئی، اچانک دیکھا تو رسول اللہ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، وہ بیان کرتی ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے نبی! میرے والدین آپ پر قربان ہوں! آپ کو کیا ہوا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جبریل ؑ میرے پاس تشریف لائے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ میری امت عنقریب میرے اس بیٹے کو شہید کر دے گی۔ میں نے کہا: اس (بچے) کو؟ انہوں نے کہا: ہاں! اور انہوں نے مجھے اس (جگہ) کی سرخ مٹی لا کر دی۔ “
[المستدرك على الصحيحين للحاكم:4818، دلائل النبوة للبيهقي:6/ 469، الصحيحة:‌‌821]
(مسند أحمد:26878، سنن ابن ماجه:3923، المعجم الكبير للطبراني:2541)




حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الْمَنَامِ بِنِصْفِ النَّهَارِ أَشْعَثَ أَغْبَرَ مَعَهُ قَارُورَةٌ فِيهَا دَمٌ يَلْتَقِطُهُ أَوْ يَتَتَبَّعُ فِيهَا شَيْئًا قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ مَا هَذَا؟ قَالَ: دَمُ الْحُسَيْنِ وَأَصْحَابِهِ لَمْ أَزَلْ أَتَتَبَّعُهُ مُنْذُ الْيَوْمَ " قَالَ عَمَّارٌ: " فَحَفِظْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ فَوَجَدْنَاهُ قُتِلَ ذَلِكَ الْيَوْمَ "۔
ترجمہ:
حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ نصف النہار کے وقت خواب میں نبی ﷺ کی زیارت کا شرف حاصل کیا، اس وقت آپ ﷺ کے بال بکھرے ہوئے اور جسم پر گرد و غبار تھا، آپ ﷺ کے پاس ایک بوتل تھی جس میں وہ کچھ تلاش کر رہے تھے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ﷺ یہ کیا ہے؟ فرمایا: یہ حسین اور اس کے ساتھیوں کا خون ہے، میں صبح سے اس کی تلاش میں لگا ہوا ہوں۔ راوی حدیث عمار کہتے ہیں کہ: ہم نے وہ تاریخ اپنے ذہن میں محفوظ کرلی بعد میں پتہ چلا کہ حضرت امام حسینؓ اسی تاریخ اور اسی دن شہید ہوئے تھے (جس دن حضرت ابن عباسؓ نے خواب دیکھا تھا )
[احمد (2165)،  إسناده قوي على شرط مسلم.
وأخرجه الطبراني (2822) و (12837) ، والحاكم 4/397-398 من طرق عن حماد بن سلمة، بهذا الإسناد. وصححه الحاكم على شرط مسلم ووافقه الذهبي، وسيأتي برقم (2553) .]



اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب نبی ﷺ کو معلوم تھا کہ میرا نواسہ شہید کردیا جائے گا تو اللہ سے دعا کیوں نہیں کی کہ اے اللہ! میرے نواسے کو بچالے، حضرت علی و حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو بھی بیٹے کی شہادت کی خبر پہلے سے ہی معلوم ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں رد نہیں ہونگی پھر ان لوگوں نے نبی سے دعا کرنے کے لئے کیوں نہیں کہا جس کا جواب یہی ہے کہ دین کو بچانے کے لئے صبر و استقامت کی ضرورت ہوتی ہے اور دین کو پھیلانے کے لئے کرامت کی ضرورت ہوتی ہے اور نانا کے دین کو بچانے کے لئے نواسے نے اپنا گھرانہ قربان کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ معلوم تھا کہ آگے چل کر میرے دین کو جھٹلانے کی کوشش کی جائے گی ، قرآن مجید کی بے حرمتی کی جائے گی دین اسلام کے اصول ضابطوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی اس وقت میرے نواسے سے کہا جائے گا کہ تم بھی بیعت کرو اور اگر میرا نواسہ بیعت کرلے گا تو دین اسلام کی شبیہ بگڑ جائے گی پھر آنے والی نسلیں کہیں گی جب نبی کی شریعت کو بدلا جارہا تھا تو خود نبی کے نواسے نے مخالفت نہیں کی،، گویا ظالموں کے لئے وہ سند بن جائے گی اور پھر دین اسلام کی تصویر بگڑتی چلی جائے گی اس لیے نبی نے آنکھوں سے آنسو بہایا لیکن دعا کے لئے ہاتھ نہیں اٹھایا اور آج ہم ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ ظلم و بر بریت، جاہلیت و دہشتگردی کے خلاف سب سے پہلے اور سب سے بڑی جنگ نانا محمد الرسول اللہ اور نواسہ امام حسین نے لڑی ہے –
[مشکوٰۃ/ خصائص کبریٰ/ صواعق محرقہ]






No comments:

Post a Comment