Saturday 25 April 2015

نمازِ وتر کی مشہور دعاۓ قنوت كا ثبوت


ہماری قنوت کہاں ہے؟



علامہ ابن منظور متوفی (۷۱۱) لکھتے ہیں:
‌قنت: القُنوتُ: الإِمساكُ عَنِ الْكَلَامِ، وَقِيلَ: الدعاءُ فِي الصَّلَاةِ. والقُنُوتُ: الخُشُوعُ والإِقرارُ بالعُبودية، والقيامُ بِالطَّاعَةِ الَّتِي لَيْسَ مَعَهَا مَعْصِيَةٌ؛ وَقِيلَ: القيامُ، وَزَعَمَ ثعلبٌ أَنه الأَصل؛ وَقِيلَ: إِطالةُ الْقِيَامِ. وَفِي التَّنْزِيلِ الْعَزِيزِ: وَقُومُوا لِلَّهِ قانِتِينَ۔
ترجمہ:
          القنوت کے معنیٰ ہیں: بات چیت سے رک جانا اور کہا گیا ہے کہ اس کے معنیٰ نماز میں دعا کرنے کے ہیں، نیز القنوت کے معنیٰ خشوع اختیار کرنا عبودیت کا اقرار کرنا اور ایسی فرمانبرداری کرنا جس میں نافرمانی نہ ہو اور کہا گیا کہ اس کے معنیٰ کھڑے ہونے کے ہیں۔ ثعلب کہتے ہیں کہ قنوت کے اصلی معنیٰ کھڑا ہونے کے ہیں اور کہا گیا کہ دیر تک کھڑا ہونے کو قنوت کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں ہے: اللہ کے لیے دیر تک کھڑے رہو۔(سورۃ البقرۃ:238)
[لسان العرب: جلد 2/ صفحہ 73]

وَقَالَ أَبو عُبَيْدٍ: أَصلُ القُنوت فِي أَشياء: فَمِنْهَا الْقِيَامُ، وَبِهَذَا جاءَت الأَحاديثُ فِي قُنوت الصَّلَاةِ، لِأَنه إِنما يَدْعُو قَائِمًا، وأَبْيَنُ مِنْ ذَلِكَ حديثُ
جَابِرٍ، قَالَ: سُئل النَّبِيُّ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَيُّ الصَّلَاةِ أَفْضلُ؟ قَالَ: طُولُ القُنوتِ
          ابوعبیدہ نے کہا کہ قنوت کے اصلی معنیٰ کئی ہیں:
          (۱) کھڑا ہونا، اس سلسلے میں حدیثیں وارد ہوئی ہیں؛ کیونکہ اس میں کھڑے ہوکر دعا کی جاتی ہے، اس سے زیادہ واضح حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیاگیا کہ کون سی نماز افضل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس میں قیام لمبا ہو۔
           نمازی کو قانت کہا جاتا ہے، حدیث میں ہے، مجاہد کی مثال نمازی اور روزے دار کی طرح ہے، حدیث میں ہے کہ ایک گھڑی غور وفکر کرنا رات بھر کھڑے ہوکر عبادت کرنے سے افضل ہے۔ قنوت کا لفظ حدیثوں میں متعدد معانی کے لیے آیا ہے۔ مثلاً فرمانبرداری، خشوع، نماز، دعا، قیام، لمباقیام خاموشی اختیار کرنا؛ چنانچہ حسب موقع ان معانی کا استعمال حدیثوں میں کیا گیا ہے۔
ابن سیدہ نے کہا: قنوت کے اصلی معنیٰ اطاعت کے ہیں، اللہ کا ارشاد ہے: فرمانبردار مرد فرمانبردار عورتیں(سورۃ الاحزاب:35)، پھر نماز میں کھڑے ہونے کو قنوت کہا گیا اور اسی میں سے وتر کا قنوت ‌قنت ‌الله ‌يقنته کہا جاتا ہے کہ اس نے اللہ کی اطاعت کی اللہ کا ارشاد ہے: سب کے سب اس کے فرمانبردار ہیں(سورۃ البقرۃ:116+الروم:26)۔ القانت کے معنی ہیں؛ اللہ کا ذکر کرنے والا اللہ پاک کا ارشاد ہے: بھلا وہ جو بندگی میں لگا ہوا ہے رات کی گھڑیوں میں سجدہ کرتے ہوئے(سورۃ الزمر:9)۔ اور کہا گیا کہ القانت کے معنیٰ عابد کے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وہ عبادت گذار عورتوں میں تھیں(سور التحریم:12)، لغت میں مشہور یہ ہے کہ قنوت کے معنیٰ دعا کے ہیں۔
          قانت کے حقیقی معنیٰ اللہ کے حکم کو کرنے والا، دعا کرنے والا۔ جب کھڑا ہوتو اس کے ساتھ اس کو خاص کردیا جاتا ہے اور اس کو قانت کہا جاتا ہے؛ کیونکہ وہ اللہ کا ذکر کھڑے ہوکر کرتا ہے، قنوت کی حقیقت عبادت اور کھڑے ہوکر اللہ سے دعا مانگنے کی ہے۔ تمام عبادتوں پر بھی اس کا اطلاق ہوسکتا ہے؛ کیونکہ عبادتیں اگرچہ سب کی سب قیام کی حالت میں نہیں ہوتیں؛ لیکن کم از کم نیت کے ساتھ بالارادہ ان کو کیا جاتا ہے، اس پر قنوت کا اطلاق کیا جاتا ہے۔
[لسان العرب: جلد 2/ صفحہ 73]
          علامہ شامی نے لکھا ہے کہ دعاء القنوت یہ اضافتِ بیانیہ ہے۔ یعنی قنوت کے معنی بھی دعا کے ہیں اور کلام عرب میں اس طرح بولا جاتا ہے۔
          قنوت کا وتر میں اور فرض نمازوں میں پڑھنے کا تذکرہ احادیث سے ثابت ہے۔
          برصغیر میں فرض نمازوں میں پڑھے جانے والے قنوت کو قنوتِ نازلہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ حنفیہ جس قنوت کو پڑھتے ہیں وہ سند کے ساتھ مندرجہ ذیل کتابوں میں ہے:
          (۱)      مصنف عبدالرزاق متوفی ۲۱۱ھ
          (۲)      مصنف ابن ابی شیبہ متوفی ۲۳۵ھ
          (۳)     المراسیل لابی داؤد سجستانی متوفی ۲۷۵ھ
          (۴)     مختصر قیام اللیل محمد بن نصر المروزی ۲۹۴ھ
          (۵)      شرح معانی الآثار امام طحاوی ۳۲۱ھ
          (۶)      الدعاء للطبرانی ۳۶۰ھ
          (۷)     الدعوات الکبیر للبیہقی ۴۵۸ھ
          (۸)     السنن الکبریٰ للبیہقی ۴۵۸ھ
          (۹)      کنزالعمال المتقی الہندی ۹۷۵ھ

          مندرجہ ذیل صحابہٴ کرام سے حنفیہ کا قنوت مروی ہے:
          ۱-       حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ
[مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني:480]
          ۲-       حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
[المصنف-ابن أبي شيبة:31689(29708)]
          ۳-       حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ
[المصنف - عبد الرزاق:5110(4970)]
          ۴-       حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ
[المصنف - عبد الرزاق:5118(4978)]
          ۵-       حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ
[المصنف - ابن أبي شيبة:7214(7032)]
          ۶-       حضرت خالد بن ابی عمران رضی اللہ عنہ
[السنن الكبرى - البيهقي:3142]
          ۷-       حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ
[الدعوات الكبير-البيهقي:432]



         رکوع سے قبل قنوت پڑھنے کی روایات مندرجہ ذیل کتابوں میں ہے:
         الآثار لأبي يوسف(م182ھ) » حدیث نمبر:345+346
         الآثار لمحمد بن الحسن(م189ھ) » حدیث نمبر: 211+212
         المصنف - عبد الرزاق(م211ھ) » حدیث نمبر:5114(4974)
 المصنف-ابن أبي شيبة » حدیث نمبر:7012(6835)، 7079(6900)، 7082(6903)، 7083(6904)،
7088(6909)، 7089(6910)، 7090(6911)، 7091(6912)، 7092(6913)، 7124(6942)
         مسند احمد » حدیث نمبر: 12705 
         سنن الدارمی » حدیث نمبر: 1637(1620)، 1640(1623)
         صحیح البخاری » حدیث نمبر: 1002، 3170، 4096
         صحیح مسلم » باب استحباب القنوت فی جمیع الصلاة رقم: 677(6770)
         سنن ابن ماجہ » حدیث نمبر: 1182
         سنن ابی داؤد » حدیث نمبر: 1427
         سنن الترمذي » حدیث نمبر: 464
         سنن نسائی » حدیث نمبر: 1071+1699
         مسند البزار » حدیث نمبر: 6480
         مسند أبي يعلى » حدیث نمبر: 4026
         مسند السراج » حدیث نمبر: 1316
         مستخرج أبي عوانة » حدیث نمبر: 2218(2168)
         تهذيب الآثار مسند ابن عباس-الطبري » حدیث نمبر: 666
         شرح معاني الآثار-الطحاوي » حدیث نمبر: 1453
         شرح مشکل الآثار-الطحاوي » حدیث نمبر: 4500، 4501، 4503
         المجالسة وجواهر العلم-الدينوري » حدیث نمبر: 952
         المسند للشاشي » حدیث نمبر: 1432
         المعجم الكبير للطبراني » حدیث نمبر: 9432
         المعجم الأوسط للطبراني » حدیث نمبر: 7885
         سنن الدارقطني » حدیث نمبر: 1659+1660+1662
         المسند المستخرج على صحيح مسلم لأبي نعيم » حدیث نمبر: 1520
       






          قنوت کے مختلف الفاظ احادیث میں مروی ہیں، سب سے قنوت کی سنت ادا ہوجائے گی۔

      (1)حضرت عمر بن خطاب سے
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ فِي الْقُنُوتِ فِي الْوِتْرِ: «اللهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ، وَالْمُؤْمِنَاتِ، وَالْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَأَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ، وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِهِمْ، وَانْصُرْهُمْ عَلَى عَدُوِّكَ وَعَدُوِّهِمْ، اللهُمَّ الْعَنْ كَفَرَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ الَّذِينَ يُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَيُقَاتِلُونَ أَوْلِيَاءَكَ، اللهُمَّ خَالِفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَهُمْ، وَأَنْزِلْ بِهِمْ بَأْسَكَ الَّذِي لَا يُرَدُّ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، اللهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثنِي عَلَيْكَ وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكَ مَنْ يَفْجُرُكَ وَيَكْفُرُكَ، بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، اللهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنُخَافُ عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ يَلْحَقُ» وَكَانَ عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ، وَهُوَ رَاوِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَقُولُ: «بَلَغَنِي أَنَّهُمَا سُورَتَانِ مِنَ الْقُرْآنِ فِي مُصْحَفِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَّهُ يُوتِرُ بِهِمَا كُلَّ لَيْلَةٍ»
ترجمہ:
 حضرت عمرؓ بن خطاب کہتے تھے وتر کی قنوت(دعا) میں :
اے اللہ! ہم سب مومن و مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔ ان کے دلوں میں الفت ڈال دے اور ان کی اصلاح کر دے اور ان کی دشمنوں کے خلاف مدد فرما۔
اے اللہ! اہل کتاب کے ان کافروں پر لعنت کر جو تیرے راستے سے روکتے ہیں اور جو تیرے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں اور تیرے دوستوں سے لڑائی کرتے ہیں۔ اے اللہ! ان میں آپس میں اختلاف ڈال دے اور ان کے قدم ڈگمگا دے اور ان پر ایسا عذاب نازل فرما جو تو مجرم قوم سے نہیں پھیرتا۔
اللہ کے نام کے ساتھ جو بےحد مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اے اللہ! ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ ہی سے بخشش چاہتے ہیں اور تیری ہی ثنا کرتے ہیں اور تیرے ساتھ کفر نہیں کرتے اور جو تیری نافرمانی کرتا ہے اس سے علیحدہ ہوتے ہیں اور اسے چھوڑتے ہیں۔
اللہ کے نام کے ساتھ جو بےحد مہربان، نہایت رحم والا ہے۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیرے لیے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف ہی دوڑتے اور کوشش کرتے ہیں اور تیرے سخت عذاب سے ڈرتے ہیں اور تیری رحمت کے امیدوار ہیں۔ بیشک تیرا عذاب کافروں کو ملنے والا ہے۔   
[الإقناع لابن المنذر:1/ 333، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2735]
[مسائل الإمام أحمد رواية أبي داود السجستاني:480]
[مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر-محمد بن نصر المروزي: صفحہ 321]



(2)حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے تلامذہ کو مندرجہ ذیل قنوت سکھلاتے تھے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: عَلَّمَنَا ابْنُ ‌مَسْعُودٍ أَنْ نَقُولَ فِي الْقُنُوتِ يَعْنِي فِي ‌الْوِتْرِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا ‌نَسْتَعِينُكَ، ‌وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ، وَلَا نَكْفُرُكُ، وَنَخْلَعُ، وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي، وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحَقٌ»
ترجمہ:
حضرت ابوعبدالرحمن فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ہمیں دعائے قنوت یعنی وتر میں کے لیے یہ کلمات سکھائے (ترجمہ) اے اللہ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، تیری خیر کی تعریف کرتے ہیں، تیری ناشکری نہیں کرتے، جو تیری نافرمانی کرے اسے چھوڑتے ہں اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لیے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔
[المصنف - ابن أبي شيبة:31689(29708)]
[مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر-محمد بن نصر المروزي : صفحہ 321]
[الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2736]

عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ‌مَسْعُودٍ، «‌كَانَ ‌إِذَا ‌فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ كَبَّرَ ثُمَّ ‌قَنَتَ، فَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقُنُوتِ، كَبَّرَ ثُمَّ رَكَعَ»
ترجمہ:
          حضرت ابن مسعودؓ جب قرأت سے فارغ ہوتے تو تکبیر کہتے اور پھر دعاء قنوت پڑھتے، پھر جب فارغ ہوتے قنوت سے تو تکبیر کہتے پھر رکوع کرتے۔
[المصنف - ابن أبي شيبة:7131(6948)]
[مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر-محمد بن نصر المروزي: صفحہ 319]
[الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2729]
لہٰذا
قنوت سے قبل تکبیر کہی جائے گی اور پھر قنوت پڑھا جائے گا۔


(3)حضرت ابی بن کعب سے
عبد الرزاق، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ مَيْمُونِ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ ‌كَعْبٍ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنَّا ‌نَسْتَعِينُكَ، ‌وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ فَلَا نَكْفُرُكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِياكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وإلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَخْشَى عَذَابَكَ، وَنَرْجُو رَحْمَتَكَ، إِن عَذَابَكَ بِالْكَافِرِينَ مُلْحِقٌ۔
ترجمہ:
حضرت میمون بن مہران کہتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعبؓ کی قنوت میں یہ کلمات تھے (ترجمہ) اے اللہ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، تیری خیر کی تعریف کرتے ہیں، تیری ناشکری نہیں کرتے، جو تیری نافرمانی کرے اسے چھوڑتے ہیں اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لیے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ» کتاب: جمعہ کا بیان» باب: دعائے قنوت کے کلمات» حدیث نمبر: 7103]
[المصنف - عبد الرزاق - ط التأصيل الثانية : حدیث نمبر 5110]
[مختصر قيام الليل وقيام رمضان وكتاب الوتر-محمد بن نصر المروزي : صفحہ 321]
[الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2736]




(4)حضرت علی بن ابی طالبؓ سے
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زُرَيْرٍ، قَالَ: قَالَ لِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ: مَا حَمَلَكَ عَلَى حُبِّ أَبِي تُرَابٍ إِلَّا أَنَّكَ أَعْرَابِيُّ جَافٍ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَقَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ قَبْلَ أَنْ يَجْتَمِعَ أَبَوَيْكَ، لَقَدْ عَلَّمَنِي سُورَتَيْنِ عَلَّمَهُمَا إِيَّاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا عَلِمْتَهُمَا أَنْتَ وَلَا أَبُوكَ: " اللَّهُمَّ إِنَّا ‌نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ وَلَا نَكْفَرُكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرَكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ وَنَخْشِي عَذَابَكَ الْجِدَّ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحَقٌ، اللَّهُمَّ عَذِّبْ كَفَرَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكِ وَيَجْحَدُونَ آيَاتِكَ، وَيُكَذِّبُونَ رُسُلَكَ، وَيَتَعَدَّوْنَ حُدُودَكَ، وَيَدْعُونَ مَعَكَ إِلَهًا آخَرَ، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ عَمَّا يَقُولُ ‌الظَّالِمُونَ ‌عُلُوًّا ‌كَبِيرًا۔
ترجمہ:
عبداللہ بن زریر سے روایت ہے کہ، انہوں نے کہا: عبدالملک بن مروان نے مجھ سے کہا: آپ کو ابو تراب (حضرت علیؓ) سے محبت کس چیز نے کی، سوائے اس کے کہ آپ خشک اعرابی ہیں؟ تو میں نے کہا: اللہ کی قسم میں نے آپ کے والدین کی ملاقات سے پہلے قرآن پڑھا، اس نے مجھے دو سورتیں سکھائیں کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سکھائیں جو نہ تو نے اور نہ ہی تیرے والد نے انہیں سکھایا:
 اے اللہ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، تیری خیر کی تعریف کرتے ہں م، تیری ناشکری نہیں کرتے، جو تیری نافرمانی کرے اسے چھوڑتے ہیں اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لیے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔
اے اللہ! کافروں کو اہل کتاب ہوں یا مشرکین ، ان پر عذاب نازل کیجئے جنہوں نے آپ کے راستہ سے روکا ، آپ کی آیتوں کا انکار کیا، رسولوں کو جھٹلایا، تیرے حدود کو پامال کیا، تیرے ساتھ دوسرے معبود کی عبادت کی، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، بابرکت بلند بالا ہیں، ان چیزوں سے جو یہ ظالم کہتے ہیں۔
[الدعاء - الطبراني: 750][الفتوحات الربانية على الأذكار النواوية:2/ 302، روضة المحدثين:‌‌5292]

عبد الرزاق، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، *، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ الْكَاهِلِيِّ، أَنَّ عَلِيًّا كَانَ يَقْنُتُ بِهَاتَيْنِ السُّورَتَيْنِ فِي الْفَجْرِ غَيْرَ أَنَّهُ يُقَدِّمُ الْآخِرَةَ، وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وإلَيْكَ نَسْعَى وَنحْفِد، نرْجُو رَحْمَتك، وَنخشى عَذَابَك، إِن عَذابَكَ بِالكَافِرِينَ مُلحِقٌ، اللهُمَّ إِنّا نَسْتَعِينُكَ، وَنَسْتَهْدِيكَ، وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ كُلَّهُ، وَنَشْكُرُكَ وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنُؤْمِنُ بِكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ۔
ترجمہ:
حضرت عبد الملک بن سوید کاہلی کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے فجر کی نماز میں دعائے قنوت پڑھتے ہوئے یہ دو اجزاء کہے (ترجمہ) اے اللہ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، تیری خیر کی تعریف کرتے ہں م، تیری ناشکری نہیں کرتے، جو تیری نافرمانی کرے اسے چھوڑتے ہیں اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لیے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔
[مصنف ابن ابی شیبہ» کتاب: جمعہ کا بیان » باب: دعائے قنوت کے کلمات » حدیث نمبر: 7102]
[المصنف - عبد الرزاق - ط التأصيل الثانية : حدیث نمبر 5118]
[الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2736]

          حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ قنوت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ قتال کے زمانہ میں پڑھی تھی۔

عبد الرزاق، عن جعفر، عن عطاء بن السائب، عن عبد الله بن حبيب، أن عليا كان يقنت في صلاة الغداة قبل الركوع، وفي ‌الوتر قبل الركوع۔
ترجمہ:
امام عبد الرزاق، جعفر کی سند سے، وہ عطاء بن السائب کی روایت سے، وہ عبداللہ بن حبیب سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صبح کی نماز میں رکوع سے پہلے اور وتر میں رکوع سے پہلے قنوت پڑھا کرتے تھے۔
[المصنف - عبد الرزاق - ط التأصيل الثانية: حدیث نمبر 5114]

عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ أَنَّ ‌عَلِيًّا ‌كَبَّرَ ‌حِينَ ‌قَنَتَ فِي الْفَجْرِ وَكَبَّرَ حِينَ رَكَعَ۔
ترجمہ:
          ابوعبدالرحمن سلمی کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی اور پھر صبح کی نماز میں قنوت پڑھی، پھر تکبیر کہی اوررکوع کیا۔
[المدونة-مالك بن أنس(م179ھ) : 1 / 192]
[مصنف عبدالرزاق:5100(4960)]
[المصنف - ابن أبي شيبة:7216(7034)]
[الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف-ابن المنذر:2728]
لہٰذا
قنوت سے قبل تکبیر کہی جائے گی اور پھر قنوت پڑھا جائے گا۔


(5)حضرت عثمانؓ بن عفان سے
حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: صَلَّيْتُ الْغَدَاةَ ذَاتَ يَوْمٍ، وَصَلَّى خَلْفِي عُثْمَانُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: فَقَنَتُّ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ، قَالَ: فَلَمَّا قَضَيْتُ صَلَاتِي، قَالَ لِي: مَا قُلْتَ فِي قُنُوتِكَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: ذَكَرْتُ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ: «اللَّهُمَّ إِنَّا ‌نَسْتَعِينُكَ ‌وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ الْخَيْرَ كُلَّهُ، وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ نَرْجُو رَحْمَتَكَ، وَنَخْشَى عَذَابَكَ، إِنَّ عَذَابَكَ الْجِدَّ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ»، فَقَالَ عُثْمَانُ: «كَذَا كَانَ يَصْنَعُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ»
ترجمہ:
حضرت ھشیم فرماتے ہیں کہ حضرت حصین نے فرمایا : میں نے ایک دن صبح کی نماز پڑھائی، اور عثمان بن زیاد نے میرے پیچھے نماز پڑھی آپ فرماتے ہیں، میں نے صبح کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھی : فرماتے ہیں کہ جب میری نماز مکمل ہوئی تو عثمان بن زیاد نے مجھ سے کہا : آپ نے قنوت میں کون سی دعا پڑھی ؟ تو میں نے کہا : میں نے یہ کلمات ذکر کیے : اے اللہ ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور ہم تجھ سے معافی مانگتے ہیں۔ اور ہم تیری بہت اچھی تعریف کرتے ہیں اور ہم تیری ناشکری نہیں کرتے۔ اور ہم الگ ہوتے اور چھوڑتے ہیں اس شخص کو جو تر ی نافرمانی کرے ۔ اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔ اور تیرے ہی لیے نماز پڑھتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں۔ اور ہم تیری طرف ہی دوڑتے ہیں اور تیری خدمت میں حاضر ہوتے ہیں۔ اور ہم تیری رحمت کے امیدوار ہیں اور ہم تیرے سخت عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بیشک تیرا عذاب کافروں کو ملنے والا ہے۔ حضرت حصین فرماتے ہیں ! کہ عثمان بن زیاد نے مجھے کہا : حضرت عمرؓ بن خطاب اور حضرت عثمان بن عفانؓ دونوں ایسے ہی کیا کرتے تھے۔ 
[المصنف - ابن أبي شيبة - ت الشثري:7214][المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت:7032]




(6)حضرت خالد بن ابی عمران سے 
قَالَ ابْنُ وَهْبٍ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَبْدِ الْقَاهِرِ عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ قَالَ: «بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَدْعُو عَلَى مُضَرَ إذْ جَاءَهُ جِبْرِيلُ فَأَوْمَأَ إلَيْهِ أَنْ اُسْكُتْ فَسَكَتَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ إنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْكَ سَبَّابًا وَلَا لَعَّانًا وَإِنَّمَا بَعَثَكَ رَحْمَةً وَلَمْ يَبْعَثْكَ عَذَابًا {لَيْسَ لَكَ مِنْ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ} [آل عمران: 128] قَالَ: ‌ثُمَّ ‌عَلَّمَهُ هَذَا الْقُنُوتَ: اللَّهُمَّ إنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُؤْمِنُ بِكَ وَنَخْنَعُ لَكَ وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَكْفُرُكَ، اللَّهُمَّ إيَّاكَ نَعْبُدُ وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ نَرْجُو رَحْمَتَكَ وَنَخَافُ عَذَابَكَ الْجِدَّ إنَّ عَذَابَكَ الْجِدَّ بِالْكَافِرِينَ ‌مُلْحِقٌ
ترجمہ:
حضرت خالد بن ابی عمرانؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ مضر کے خلاف دعا کر رہے تھے تو جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے تو انہوں نے آپ ﷺ کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ پھر فرمایا: اے محمد! اللہ نے آپ کو برابھلا کہنے، لعنت کرنے کیلئے نہیں بھیجا، آپ تو بس بھیجا گیا ہے رحمت کیلئے نہ کہ عذاب کیلئے۔ {(اے پیغمبر!) آپ کو اس فیصلے کا کوئی اختیار نہیں کہ اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا ان کو عذاب دے کیونکہ یہ ظالم لوگ ہیں۔} (سورۃ آل عمران: 128) پھر یہ (دعائے) قنوت انہیں سکھائی:
اے ﷲ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں اور تجھ سے بخشش چاہتے ہیں، اور تجھ پر ایمان لاتے ہیں اور تجھ پر بھروسہ کرتے ہیں، ہم تیری اچھی تعریف کرتے ہیں، تیرا شکر ادا کرتے ہیں اور تیری ناشکری نہیں کرتے، اور جو تیری نافرمانی کرے اُس سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہیں۔ اے ﷲ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، اور تیرے لیے ہی نماز پڑھتے، تجھے ہی سجدہ کرتے ہیں۔ تیری ہی طرف دوڑتے اور حاضری دیتے ہیں، ہم تیری رحمت کے امید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ بے شک تیرا عذاب کافروں کو ہی پہنچنے والا ہے۔
[المدونة-امام مالك بن أنس(م172ھ) : جلد1 /صفحہ 192]
[السنن الكبرى - البيهقي:3142، الدعوات الكبير:433، الخلافيات - البيهقي - ت النحال:2565]
[الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار-الحازمي: صفحہ89]
[المهذب في اختصار السنن الكبير-الذهبي:2793]
[روضة المحدثين:‌‌5293]




(7)حضرت انسؓ بن مالک سے
أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ عَنِ الْكَلَامِ فِي الْقُنُوتِ، فَقَالَ: «اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَعِينُكَ وَنَسْتَغْفِرُكَ وَنُثْنِي عَلَيْكَ وَلَا نَكْفُرُكَ، وَنَخْلَعُ وَنَتْرُكُ مَنْ يَفْجُرُكَ، اللَّهُمَّ إِيَّاكَ نَعْبُدُ، وَلَكَ نُصَلِّي وَنَسْجُدُ، وَإِلَيْكَ نَسْعَى وَنَحْفِدُ، نَرْجُو رَحْمَتَكَ وَنَخْشَى عَذَابَكَ الْجِدَّ، إِنَّ عَذَابَكَ بِالْكُفَّارِ مُلْحِقٌ، اللَّهُمَّ عَذِّبِ الْكَفَرَةَ، وَأَلْقِ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ، وَخَالِفْ بَيْنَ كَلِمَتِهِمْ، وَأَنْزِلْ عَلَيْهِمْ رِجْزَكَ وَعَذَابَكَ، اللَّهُمَّ عَذِّبْ كَفَرَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ الَّذِينَ يَجْحَدُونَ رُسُلَكَ، وَيُكَذِّبُونَ أَنْبِيَاءَكَ، وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِكَ، وَيَجْعَلُونَ مَعَكَ إِلَهًا آخَرَ، لَا إِلَهَ غَيْرُكَ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ، وَالْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَأَصْلِحْهُمْ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِهِمْ، وَأَلِّفْ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ، وَاجْعَلْ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَالْحِكْمَةَ، وَثَبِّتْهُمْ عَلَى مِلَّةِ رَسُولِكَ، وَأَوْزِعْهُمْ أَنْ يَشْكُرُوا نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ، وَأَنْ يُوفُوا بِعَهْدِكَ الَّذِي عَاهَدْتَهُمْ عَلَيْهِ، وَانْصُرْهُمْ عَلَى عَدُوِّكَ وَعَدُوِّهِمْ، إِلَهَ الْحَقِّ»
ترجمہ:
حضرت انس بن مالکؓ سے دعائے قنوت کے یہ کلام مروی ہے: اے اللہ! ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے مغفرت مانگتے ہیں، تیری خیر کی تعریف کرتے ہں م، تیری ناشکری نہیں کرتے، جو تیری نافرمانی کرے اسے چھوڑتے ہیں اور اس سے دور ہوتے ہیں۔ اے اللہ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں، تیرے لیے نماز پڑھتے ہیں، تیرے آگے سجدہ کرتے ہیں۔ تیری طرف چلتے ہیں، تیری رحمت کی امید رکھتے ہیں، تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں اور بیشک تیرا عذاب کافروں تک پہنچنے والا ہے۔۔۔۔
[الدعوات الكبير-البيهقي:432][التدوين في أخبار قزوين-الرافعي:1 /174]
[مسند الحارث:180، الفردوس بمأثور الخطاب-الديلمي:2058]




حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے۔۔
          عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ ابْنَ ‌عَبَّاسٍ وَمُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ - ‌بِالْخَيْفِ - ‌يَقُولَانِ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقْنُتُ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ، وَفِي الْوِتْرِ بِاللَّيْلِ
ترجمہ:
          مجھ کو خبر دی حسن نے حضرت ابن عباسؓ اور محمد بن علی سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر اور رات کی وتر میں مندرجہ ذیل دعا پڑھا کرتے تھے۔
[مصنف عبدالرزاق:5097(4957)]
[فوائد أبي محمد الفاكهي:102]
[السنن الكبرى - البيهقي:3140]






          علامہ شامیؒ لکھتے ہیں:
          وَأَمَّا خُصُوصُ: «اللَّهُمَّ إنَّا ‌نَسْتَعِينُكَ» ‌فَسُنَّةٌ فَقَطْ، حَتَّى لَوْ أَتَى بِغَيْرِهِ جَازَ إجْمَاعًا
ترجمہ:
         اور خصوصی طور پر:  فقط «اللَّهُمَّ إنَّا ‌نَسْتَعِينُكَ» کو پڑھنا (نماز وتر میں) سنت(عادت) ہے، اس کے علاوہ کوئی بھی دعا کرے تو جائز ہوجائے گا۔
[حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي : 1/ 468]
[النهر الفائق شرح كنز الدقائق-ابن نجيم: 1 / 200]

          ہمارے ہاں برصغیر میں جو قنوت پڑھا جاتا ہے اس میں کچھ الفاظ زیادہ بھی ہیں، قنوت صبح کی نماز میں اور وتر دونوں میں پڑھا جاتا ہے۔


         
وصلی اللّٰہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین





2 comments:

  1. ہمارے یہاں اضافہ کے ساتھ جو دعا پڑھی جاتی ہے جب اس کا ثبوت ن6ہے تو اسے پڑھنا چاہیے یا اس کا اہتمام ترک کرکے ماثور کا التزام کرنا چاہیے والسوال فی الافضلیۃ لا الجواز

    ReplyDelete
    Replies
    1. اختلافی سنتوں میں سے کون سی افضل ہے اور کون سی جائز، اس بحث میں جانا ضروری نہیں بس یہ ماننا ضروری ہے کہ دو متعارض سنتوں میں سے کسی ایک سنت پر عمل کیا جائے تو کافی ہے، اور دوسری متعارض سنت کی مخالفت ناجائز ہے۔ اور یہاں فقط مشہور سنت کی مخالفت کرنے والوں کے وسوسوں کے عوام کو بچانے کیلئے دلائل پیش کئے گئے ہیں۔
      جس کا زمانہ/عرصہ نبی ﷺ سے جتنا زیادہ اور قریب رہا وہ اتنا ہی بہتر رہے گا
      فرمایا:
      بہترین لوگ میرے زمانہ کے لوگ پھر اس کے بعد والے پھر اس کے بعد والے۔۔۔
      [بخاری:2652]

      وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى

      Delete