(1) عظیم سورۃ
حضرت ابوسعید بن معلیؓ نے کہ میں نماز میں مشغول تھا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھے بلایا اس لئے میں کوئی جواب نہیں دے سکا، پھر میں نے (آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر) عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ اس پر آنحضرت نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ نے تمہیں حکم نہیں فرمایا ہے کہ اللہ کے رسول جب تمہیں پکاریں تو ان کی پکار پر فوراً اللہ کے رسول کے لئے لبیک کہا کرو۔“ پھر آپ نے فرمایا مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کی سب سے بڑی سورت میں تمہیں کیوں نہ سکھا دوں۔ پھر آپ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور جب ہم مسجد سے باہر نکلنے لگے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے ابھی فرمایا تھا کہ مسجد کے باہر نکلنے سے پہلے آپ مجھے قرآن کی سب سے بڑی سورت بتائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں وہ سورت ”الحمدللہ رب العالمین“ ہے یہی وہ سات آیا ت ہیں جو (ہر نماز میں) باربار پڑھی جاتی ہیں اور یہی وہ ”قرآن عظیم“ ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔
[صحیح بخاری:4474+4647+4703+5006]
(2) اس سوره سے شفاء بھی ملتی ہے:
حجرت عبدالملک بن عمیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
«فِي فَاتِحَةِ الْكِتَابِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ»
سورہ الفاتحہ میں ہر بیماری کی شفاء ہے۔
[سنن الدارمي:3413 بسند صحیح، شعب الإيمان للبيهقي:2154]
حضرت ابو سعید خدریؓ نے بیان کیا کہ ہم ایک فوجی سفر میں تھے (رات میں) ہم نے ایک قبیلہ کے نزدیک پڑاؤ کیا۔ پھر ایک لونڈی آئی اور کہا کہ قبیلہ کے سردار کو بچھو نے کاٹ لیا ہے اور ہمارے قبیلے کے مرد موجود نہیں ہیں، کیا تم میں کوئی بچھو کا جھاڑ پھونک کرنے والا ہے؟ ایک صحابی (خود ابوسعید) اس کے ساتھ کھڑے ہو گئے، ہم کو معلوم تھا کہ وہ جھاڑ پھونک نہیں جانتے لیکن انہوں نے قبیلہ کے سردار کو جھاڑا تو اسے صحت ہو گئی۔ اس نے اس کے شکر انے میں تیس بکریاں دینے کا حکم دیا اور ہمیں دودھ پلایا۔ جب وہ جھاڑ پھونک کر کے واپس آئے تو ہم نے ان سے پوچھا کیا تم واقعی کوئی منتر جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں میں نے تو صرف سورۃ الفاتحہ پڑھ کراس پر دم کر دیا تھا۔ ہم نے کہا کہ اچھا جب تک ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق نہ پوچھ لیں ان بکریوں کے بارے میں اپنی طرف سے کچھ نہ کہو۔ چنانچہ ہم نے مدینہ پہنچ کر آنحضور ﷺ سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ انہوں نے کیسے جانا کہ سورۃ الفاتحہ منتر بھی ہے۔
[صحیح بخاری:5007+5736]
(3) اس کے مثل کوئی نہیں:
رسول الله ﷺ نے فرمایا
«مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ مِثْلَ أُمِّ القُرْآنِ، وَهِيَ السَّبْعُ المَثَانِي، وَهِيَ مَقْسُومَةٌ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ»
الله نے ام القرآن (سورۃ الفاتحہ) کی طرح کوئی سورة نہ تورات میں اتاری اور نہ انجیل میں اتاری اور وہ سبع المثانی ہے، جو میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم ہے، اور میرے بندے کیلئے وہی ہے جو وہ مانگے۔
[ترمذی:3125، نسائی:914، احمد:21094، دارمی:3415، السنن الكبرىٰ للنسائي:988، صحيح ابن خزيمة:500، صحيح ابن حبان:775، المستدرك على الصحيحين للحاكم:2048، ]
(4) ایک نور ہے جو صرف خاتم الانبیاء ﷺ کو دیا گیا:
حضرت ابن عباس رضي الله عنهما سے روایت ہے کہ فرمایا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جبريل علیہ السلام نبي صلى الله عليه وسلم کے پاس بیٹهے تهے ، کہ اچانک آسمان کی طرف سے آواز سنی تو اپنا سر اٹهایا اور فرمایا کہ یہ آواز آسمان اس دروازه کے کهلنے کی وجہ سے ہے جو کبهی نہیں کهلا ، آج کهولا گیا ہے ، تو اس دروازه سے ایک فرشتہ نازل ہوا ، توجبريل علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ فرشتہ جو زمین کی طرف نازل ہوا پہلے کبهی نازل نہیں ہوا مگر آج ہی نازل ہوا ہے ، فرشتہ نے سلام کیا اور فرمایا کہ خوشخبری ہو آپ کو دو نوروں کی جو آپ کو عطا کیے گئے آپ سے پہلے کسی نبی کو ایسے دو نور نہیں عطا کیئے گئے ، ســورة الفــاتحـــه اور ســورة البقرة کی آخری آیات ، آپ ان دونوں میں سے جس حرف کو پڑهیں گے ( یا ان دونوں کو پڑہیں گے ) وه آپ کو عطا کیا جائے گا . ( یعنی ســورة الفــاتحـــه کا نور اور ســورة البقرة کی آخری آیات کا نور)
[صحیح مسلم:806، السنن الكبرىٰ للنسائي:7960، مصنف ابن أبي شيبة:31701، مسند أبي يعلى:2488، مستخرج أبي عوانة:3902، المعجم الكبير للطبراني:12255، المستدرك على الصحيحين للحاكم:2052]
(5) عرش کے نیچے ایک خزانے سے نازل ہوئی ہے:
حضرت معقل بن يسارؓ سے روایت ہے فرمایا کہ نبي ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ : فاتحة الكتاب مجهے عرش کے نیچے ( ایک خزانے سے ) دی گئ ہے ، اور مفصل ( سورتیں یعنی سورة الحجرات سے آخرقرآن تک ، اصح قول کے مطابق ) اس سے زائد ہیں۔
[المستدرك على الصحيحين » كتاب فضائل القرآن]
(6) سوائے موت کے ہرچیز سے حفاظت کرتی ہے:
وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " «إِذَا وَضَعْتَ جَنْبَكَ عَلَى الْفِرَاشِ، وَقَرَأْتَ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَقُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ، فَقَدْ أَمِنْتَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا الْمَوْتَ» ".
حضرت أنسؓ سے روایت ہے کہ فرمایا کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تو اپنا پہلو بستر پر رکهے ، اور تو فاتحة الكتاب اور قل هو الله أحد پڑهہ لے ، تو سوائے موت کے ہرچیز سے محفوظ ہوجائے گا۔
رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَفِيهِ غَسَّانُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَوَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيحِ.
[مجمع الزوائد:17030]
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
بِ : سے اسْمِ : نام اللّٰهِ : اللہ ال : جو رَحْمٰنِ : بہت مہربان الرَّحِيمِ : جو رحم کرنے والا
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے (1)
(1) عربی کے قاعدے سے " رحمن " کے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت بہت وسیع (Extensive) ہو، یعنی اس رحمت کا فائدہ سب کو پہنچتا ہو اور " رحیم " کے معنی ہیں وہ ذات جس کی رحمت بہت زیادہ (Intensive) ہو، یعنی جس پر ہو مکمل طور پر ہو، اللہ تعالیٰ کی رحمت دنیا میں سب کو پہنچتی ہے، جس سے مومن کافر سب فیضیاب ہو کر رزق پاتے ہیں اور دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور آخرت میں اگرچہ کافروں پر رحمت نہیں ہوگی ؛ لیکن جس کسی پر (یعنی مومنوں پر) ہوگی، مکمل ہوگی کہ نعمتوں کے ساتھ کسی تکلیف کا کوئی شائبہ نہیں ہوگا۔ رحمن اور رحیم کے معنی میں جو یہ فرق ہے اس کو ظاہر کرنے کے لئے رحمن کا ترجمہ سب پر مہربان اور رحیم کا ترجمہ بہت مہربان کیا گیا ہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰہِ : اللہ کے لیے رَبِّ : رب الْعَالَمِينَ : تمام جہان
تمام تعریفیں اللہ کی ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے (2)
(2) اگر آپ کسی عمارت کی تعریف کریں تو در حقیقت وہ اس کے بنانے والے کی تعریف ہوتی ہے، لہذا اس کائنات میں جس کسی چیز کی تعریف کی جائے وہ بالآخر اللہ تعالیٰ ہی کی تعریف ہے ؛ کیونکہ وہ چیز اسی کی بنائی ہوئی ہے، تمام جہانوں کا پروردگار کہہ کر اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے، انسانوں کا جہان ہو یا جانوروں کا، سب کی تخلیق اور پرورش اللہ تعالیٰ ہی کا کام ہے اور ان جہانوں میں جو کوئی چیز قابل تعریف ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور شان ربوبیت کی وجہ سے ہے۔
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ
الرَّحْمٰنِ : جو بہت مہربان الرَّحِيم : رحم کرنے والا
جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
جو روز جزاء کا مالک ہے (3)
(3) روز جزاء کا مطلب ہے وہ دن جب تمام بندوں کو ان کے دنیا میں کیے ہوئے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا، یوں تو روز جزاء سے پہلے بھی کائنات کی ہر چیز کا اصلی مالک اللہ تعالیٰ ہے ؛ لیکن یہاں خاص طور پر روز جزاء کے مالک ہونے کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ہی انسانوں کو بہت سی چیزوں کا مالک بنایا ہوا ہے، یہ ملکیت اگرچہ ناقص اور عارضی ہے تاہم ظاہری صورت کے لحاظ سے ملکیت ہی ہے، لیکن قیامت کے دن جب جزاء وسزا کا مرحلہ آئے گا تو یہ ناقص اور عارضی ملکیتیں بھی ختم ہوجائیں گی، اس وقت ظاہری ملکیت بھی اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی نہ ہوگی۔
اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ
اِيَّاكَ : صرف تیری نَعْبُدُ : ہم عبادت کرتے ہیں وَ : اور اِيَّاكَ : صرف تجھ سے نَسْتَعِيْنُ : ہم مدد چاہتے ہیں
(اے اللہ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں (4)
(4) یہاں سے بندوں کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے کا طریقہ سکھایا جارہا ہے اور اسی کے ساتھ یہ واضح کردیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کسی قسم کی عبادت کے لائق نہیں، نیز ہر کام میں حقیقی مدد اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنی چاہیے ؛ کیونکہ صحیح معنی میں کار ساز اس کے سوا کوئی نہیں، دنیا کے بہت سے کاموں میں بعض اوقات کسی انسان سے جو مدد مانگی جاتی ہے، وہ اسے کارساز سمجھ کر نہیں ؛ بلکہ ایک ظاہری سبب سمجھ کر مانگی جاتی ہے۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ
اِهْدِنَا : ہمیں ہدایت دے الصِّرَاطَ : راستہ الْمُسْتَقِيمَ : سیدھا
ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت عطا فرما
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ١ۙ۬ۦ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠ ۧ
صِرَاطَ : راستہ الَّذِينَ : ان لوگوں کا أَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيْهِمْ : ان پر غَيْرِ : نہ الْمَغْضُوبِ : غضب کیا گیا عَلَيْهِمْ : ان پر وَلَا : اور نہ الضَّالِّينَ : جو گمراہ ہوئے
ان لوگوں کے راستے کی جن پر تو نے انعام کیا نہ کہ ان لوگوں کے راستے کی جن پر غضب نازل ہوا ہے اور نہ ان کے راستے کی جو بھٹکے ہوئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment