Sunday, 21 February 2021

خوفِ مصطفیٰﷺ - امت کی غربت یا مالداری

رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کو بحرین (کا گورنر بناکر) جزیہ لانے کے لیے بھیجا، رسول اللہ ﷺ نے بحرین والوں سے صلح کرلی تھی اور ان پر علاء بن الحضرمی کو امیر مقرر کیا تھا۔ جب ابوعبیدہؓ بحرین سے جزیہ کا مال لے کر آئے تو انصار نے ان کے آنے کے متعلق سنا اور صبح کی نماز رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھی اور جب رسول اللہ ﷺ انھیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: میرا خیال ہے کہ ابوعبیدہ کے آنے کے متعلق تم نے سن لیا ہے اور یہ بھی کہ وہ کچھ لے کر آئے ہیں؟ انصار نے عرض کیا : جی ہاں، یا رسول اللہ ﷺ ! آپ ﷺ نے فرمایا کہ پھر تمہیں خوشخبری ہو تم اس کی امید رکھو جو تمہیں خوش کر دے گی، اللہ کی قسم ! فقر و محتاجی وہ چیز نہیں ہے جس سے میں تمہارے متعلق ڈرتا ہوں بلکہ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر بھی اسی طرح کشادہ کردی جائے گی، جس طرح ان لوگوں پر کردی گئی تھی جو تم سے پہلے تھے اور تم بھی اس کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی اسی طرح کوشش کرو گے جس طرح وہ کرتے تھے اور تمہیں بھی اسی طرح غافل(نافرمان) کر دے گی جس طرح ان کو غافل(کافر) کیا تھا۔

[صحيح البخاري : كِتَابُ الرِّقَاقِ ، ‌‌بَابُ مَا يُحْذَرُ مِنْ زَهَرَةِ الدُّنْيَا وَالتَّنَافُسِ فِيهَا ، حدیث نمبر#6425]

https://www.madarisweb.com/ur/articles/4593

((‌مَا ‌أَخْشَى ‌عَلَيْكُمُ الْفَقْرَ، وَلَكِنْ أَخْشَى عَلَيْكُمُ التَّكَاثُرَ، وَمَا أَخْشَى عَلَيْكُمُ الْخَطَأَ، وَلَكِنْ أَخْشَى عَلَيْكُمُ الْعَمْدَ ))’’جھے تمھارے بارے میں فقر کا ڈر نہیں ہے بلکہ مجھے تو ڈر ہے تم پر (دنیا کی) کثرت کا،اور مجھے تمھارے بارے میں یہ ڈر نہیں ہے کہ تم غلطی کرو گے بلکہ مجھے خطرہ ہے کہ تم جان بوجھ کر گناہ کرو گے۔‘‘[مسند احمد:8074، مسند البزار:9374، معجم ابن الأعرابي:2212، صحيح ابن حبان:3222، المستدرک الحاكم:3970]


















دنیا سے مراد کیا ہے؟

القرآن: 

لوگوں کے لیے ان چیزوں کی "محبت" خوشنما بنادی گئی ہے جو ان کی نفسانی خواہش کے مطابق ہوتی ہے ،۔ یعنی (1)عورتیں، (2)بچے، (3)سونے چاندی کے لگے ہوئے ڈھیر، (4)نشان لگائے ہوئے گھوڑے، (5)چوپائے اور (6)کھیتیاں۔ یہ سب دنیوی زندگی کا سامان ہے (لیکن) ابدی انجام کا حسن تو صرف اللہ کے پاس ہے۔

[سورۃ آل عمران:14]


محبت کی حدود ودرجات:

(اے پیغمبر ! مسلمانوں سے) کہہ دو کہ : اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، اور تمہارا خاندان، اور وہ مال و دولت جو تم نے کمایا ہے اور وہ کاروبار جس کے مندا ہونے کا تمہیں اندیشہ ہے، اور وہ رہائشی مکان جو تمہیں پسند ہیں، تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کے راستے میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں۔ تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا (سزا کا) فیصلہ صادر فرما دے۔ اور اللہ (ایسے) نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

[سورۃ التوبۃ:24]


لہٰذا، جو شخص قرآنی تعلیمات پہچانے والوں کو نہ سمجھ پائے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ نافرمانی کے سبب اس علم سے گمراہی میں مبتلا ہے۔ اور توبہ یعنی دل کی ندامت کے ساتھ، زبان سے معافی مانگتے ہوئے، فرمانبرداری کے عہد کرکے، اللہ کی طرف لوٹے بغیر ہدایت سے ہمیشہ محروم رکھا جاتا ہے۔


فقہی نکات:

(1) دنیا، آخرت کے مقابلے میں ادنیٰ چیز کو کہنے ہیں، بری چیز کو نہیں، اسي لئے حدیث میں جزیہ لینے اور قرآن مجید میں متاعِ دنیا کی محبت سے بلکل روکا نہیں گیا

(2) دنیا کی محبت اور کثرت، آخرت سے غفلت اور ہر نافرمانی کی جڑ ہے۔

(3) غفلت دل کا وہ گناہ ہے، جس میں اکثر لوگ اکثر لمحے مبتلا رہتے ہیں۔

(4) دنیا کا فتنہ اور مذموم محبت میں مبتلا ہونے کی علامت یہ ہے کہ دنیا کیلئے اللہ اور رسول ﷺ کی نافرمانی کی جائے اور (خصوصا) جہاد فی سبیل اللہ کو ترک کردیا جائے۔

(5) فقر پر صبر اور جہاد کرنا اللہ اور رسول ﷺ سے اشد محبت کی دلیل ہے۔

(6) لوگوں سے نہ مانگنا اور نہ امید رکھنا، دل کا غنی ہونا یعنی اصل مالداری ہے۔

(7) امت کی ترقی، صبر وجہاد فی سبیل اللہ سے (محبت میں) ہے۔



آ، تجھ کو بتاؤں میں، تقدیرِ اُمم کیا ہے؟

شاعرِ حقیقت شناس علامہ اقبال نے خوب کہا تھا :

آ ، تجھ کو بتاؤں میں تقدیر اُمم کیا ہے

شمشیر و سنان اول ، طاوٴس و رباب آخر

          یعنی جب کوئی قوم ترقی و عروج کا سفر طے کرتی ہے تو وہ تلواروں اور نیزوں سے مزین ہوتی ہے ، وہ مشکل حالات کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہے ، وہ عیش و عشرت کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے بجائے جد وجہد کے میدان میں آگے بڑھتی ہے ، اور جب قوموں کے زوال و انحطاط کا زمانہ آتا ہے تو وہ عیش و عشرت کے نقشے بنانے لگتی ہے اور رقص و سرود سے اپنے دل کو بہلانے کی عادی ہوجاتی ہے ، یہی وہ بات ہے کہ جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اندیشہ رکھتے تھے ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کا قول ہے کہ جب کسی قوم میں خیانت اور بد دیانتی پیدا ہوجاتی ہے تو وہ کم ہمت اور بزدل ہوجاتی ہے۔

”مَا ‌ظَهَرَ ‌الْغُلُولُ فِي قَوْمٍ قَطُّ إِلَّا أُلْقِيَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبُ“

[موطأ (امام) مالك (تحقيق) الأعظمي : حديث 1670]


          اس وقت عالمِ اسلام کی صورت حال یہی ہے کہ اپنی قوم کے ساتھ حکمرانوں کا معاملہ بدترین بد دیانتی کا ہے اور صیہونی و صلیبی طاقتوں کے سامنے شرمناک بزدلی اور کم حوصلگی کا ، عام مسلمانوں کی بھی صورت حال یہ ہے کہ وہ (دینی)علم و (دنیاوی)تحقیق ، محنت اور جدو جہد میں پیچھے ہیں اورعیش پرستی میں آگے، دوسری قومیں ہمیں دیکھتی ہیں اور خندہ زن ہوتی ہیں کہ یہ لٹی پٹی اور ذلیل و رسوا کی ہوئی قوم اپنی محرومی اور کم نصیبی کو بھول کر کس طرح دادِ عیش دے رہی ہے ، کاش! ہم اس طرزِ عمل میں تبدیلی لائیں ، اپنے اندر حالات کا مقابلہ کرنے اور جدو جہد کے ذریعہ آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کریں اور عیش و عشرت کے نقشوں کو تج کر، ایک باعزت اور آبرو مند امت کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر اپنے آپ کو لانے کی کوشش کریں ۔

No comments:

Post a Comment